گفتگو کا سلیقہ
 

''مشکل خلط کے منفی آثار''
یہاں پر ہم وہابی فکر پر خلط کے تسلط کے نتیجہ میں جو منفی آثار رونماہوئے ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
١۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق حقیقت الوہیت و نبوت کے بارے میں ان کی غلط تفسیر۔
٢۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق حقیقت شریعت اور دینی احکام کی تفسیر میں ان کا خطا کرنا۔
٣۔ مذہب تشیع کے اہداف کی حقیقت میںان کی غلط تفسیر۔
٤۔ بعض شیعی اصطلاحات کی صحیح تفسیر نہ کرنا ۔
٥۔ شیعہ منابع کی تفسیر میں ان کی خطا۔
٦۔ شیعہ عقیدہ میں حقیقت امامت کی تفسیر میںغلطی کرنا۔
٧۔ مذہب شیعہ کی پہچان کی تفسیر میں خطا کا ارتکاب کرنا ۔
٨۔ مذہب شیعہ کے وجود میں آنے کی صحیح تفصیل سے آگاہ نہ ہونا۔
ان آٹھ لغزشوں کے نتیجہ میںوہ ان سب سے بڑھ کر ایک اور خطا میں مبتلاہوئے اور وہ خطا مذہب شیعہ کی خصوصیات کے متعلق صحیح تفسیر کا نہ ہونا ہے جس کے نتیجہ میں مذہب شیعہ اور غالیوں کے خصوصیات کو آپس میں خلط کردیا ہے۔
ہم اس جگہ قارئین کی آسانی کے لئے دو تصاویر پیش کرتے ہیں تاکہ ان اشتباہات کا منفی اثر پوری طرح واضح ہو جائے۔


تصویر (٢)
وہابی تفکر میں انحراف کے اسباب
(١)
پہلا سبب
غلو کے معنی سے عدم واقفیت
(٢)
دوسرا سبب
تشیع کے معنی سے عدم واقفیت
(٣)
تیسرا سبب
غلو اور غالیوں سے متعلق
مذہب امامیہ کے موقف سے عدم آگاہی
(٤)
چوتھا سبب
وہابیوں کا طرز تفکر
(٥)
پانچواں سبب
شیعوں کے متعلق دیگر سنیوں
کی روش سے نکل جانا
تصویر نمبر (٢) میں ہم نے وہابی انحراف و خطا کی پیدائش اور اس کے وسیع ہونے کے ٥ اسباب تیر کی شکل میں بیان کئے ہیں کہ جنھوں نے وہابی فکر کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔
تصویر (٣)
مشکل خلط کے منفی آثار
وہابی عقل
(١)
شیعہ عقیدہ
کے مطابق حقیقت
الوہیت و نبوت کے
بارے میں ان کی غلط تفسیر۔
(٢)
شیعہ
عقیدہ کے
مطابق حقیقت
شریعت اور
دینی احکام کی
تفسیر میں ان
کا خطا کرنا۔
(٣)
مذہب
تشیع کے
اہداف کی
حقیقت میں
ان کی غلط تفسیر۔
(٤)
بعض
شیعی
اصطلاحات
کی صحیح تفسیر نہ کرنا ۔
(٥)
شیعہ
منابع کی
تفسیر میں
ان کی خطا۔
(٦)
شیعہ
عقیدہ میں
حقیقت امامت
کی تفسیر میں
غلطی کرنا۔
(٧)
مذہب
شیعہ کی
پہچان کی تفسیر
میں خطا کا ارتکاب
کرنا۔
(٨)
مذہب
شیعہ کے
وجود میں آنے
کی صحیح تفصیل
سے آگاہ نہ ہونا۔
ہم نے تصویر نمبر (٣) میں انھیں تیروں کا معکوس اثر بتلایا ہے تاکہ روشن کردیں کہ یہ ٨ اشتباہات انھیں ٥ اسباب کے حتمی نتیجے ہیں اور یہ فتنہ ایک وسیع دائرہ کو اپنی آگ میں لپیٹ لیتا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم وہابیوں میں خلط جیسی مشکل کے پیدا ہونے اور اس کے وسیع ہونے کے اسباب بیان کریں چند نکات کو ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

وھابیوں کے اشتباہات کا تاریخی پس منظر
١۔ وہابی فکری نظام میںتشیع اور غلو کو آپس میں مخلوط کرنا کسی مقدمہ کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا، بلکہ یہ فکر بے شمار عوامل کا نتیجہ ہے کہ جو گذر زمان کے ساتھ وجود میں آئی ہے اور علمی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تاریخی مشکلات (بعض اکتشافات کی طرح کہ جوایک لمحۂ فکریہ میں کشف ہوجاتے ہیں) ایک لمحہ میں پیدا نہیںہوتے۔
٢۔ تاریخی مشکلات کے وجود میں آنے کے اسباب کو سمجھنا بے حد مشکل ہے اور یہ مشکلات کسی بیماری کی طرح نہیں کہ جس کا سبب آشکار ہو، لہٰذا قارئین متوجہ ہوں گے کہ بعض اسباب اس مشکل کے وجود کا سبب نہیں ،بلکہ اس کی وسعت کا سبب ہیں۔
٣۔ تاریخ کے مطالعہ اور اس میں تحقیق ہی کے ذریعہ اس بڑی مشکل (خلط) کے عوامل کو جانا جاسکتا ہے اسی لئے ہم نے شیعیت کے بارے میں وہابی تمام نوشتوں کی طرف رجوع کیا اور سالہا سال تحقیق و مطالعہ کے بعد اس مسئلہ کی تاریخی حیثیت سے آگاہ ہوئے، جس کے بعدہم نے اس کے وجود میں آنے کے اسباب کو مشخص کیا. اس تحقیق کے نتیجہ میں ہمارے لئے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہابی فکری نظام کی اس مشکل کی جڑیں عثمانی دور سے متعلق ہیں، کہ جس دور میں وہابیت رونما ہوئی۔
عثمانی حکومت، قدرت حاصل کرنے کے لئے شیعہ صفوی حکومتوں سے شدت کے ساتھ جنگ میں مشغول تھی اس حکومت نے ایرانی شیعوں سے جنگ کے لئے انہیں کافر کہہ کر ان کا خون مباح قرار دیا، اس خبیث منصوبے نے ہندوستان میں بھی لوگوں کے درمیان رخنہ پیدا کیا اور شاہ عبدالعزیز دہلوی نے ان باتوں سے متاثر ہو کر ایک کتاب بنام ''تحفۂ اثنا عشریہ'' لکھی، جسے عثمانی حکومت نے اہلسنت کے درمیان نشر کیا جس کے ذریعہ شیعوں و سنیوں میں اختلاف پیدا ہوا.یہ کتاب وہابی اہداف کو عملی جامہ پہنانے میں مؤثر واقع ہوئی اور مشکل خلط کی پیدائش میں بھی اس نے خاصا اثر چھوڑا۔
اس کتاب کی تاثیر محب الدین خطیب پر (جنھوں نے وہابی فکر کوپیش کیا ہے اور شیعہ شناسی میں ان کی کتابیں وہابی منابع کی حیثیت رکھتی ہیں) ان کی کتاب ''الخطوط العریضة فی دین الامامیہ'' (جو تحفۂ اثنا عشریہ کا خلاصہ ہے'' میں نمایاںہے۔
شیعہ شناسی کے میدان میں تحفۂ اثنا عشریہ کی روش نے وہابی مطالعات پر ہمیشہ کے لئے ایک منفی اثر چھوڑا،جسے احسان الٰہی ظہیر کے نوشتوں میں آسانی کے ساتھ محسوس کیا جاسکتاہے، گرچہ مورخین اس کتاب کے تالیفی زمانہ کے حالات سے آگاہ ہیں. تمام ہندوستانی مورخین نے کہا ہے کہ یہ کتاب ١٢ ہجری (جب کہ شیعیت کی طرفداری میں لکھنؤ کی حکومت، اودھ کے بادشاہوں اور اسی حلقہ میں اہل سنت کے طرفدار بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگ چھڑی تھی) میں منتشر ہوئی اور اس میں کوئی شک نہیں ،کہ ان حالات میںاس طرح کے فرقہ وارانہ نوشتہ، حکومتوں کو اپنے منحوس مقاصد و اہداف تک پہنچنے میں کافی مدد کرتے ہیں، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کتب انھیں بادشاہوں کو ہدیہ کے طور پر پیش کی جاتی تھیں۔
محمود شکری آلوسی نے (جنھوں نے کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کا خلاصہ کیا ہے) اپنی کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے:
اس کتاب کو زمین پر خدا کے جانشین اور دین کے احیاء میں پیغمبر اکرمۖ کے نمائندہ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں. وہ کہ جو بطریقۂ احسن لوگوں کے حال کی رعایت کرتے ہیں اور دقیق منصوبہ بندی و عمیق بینش کے ساتھ امور کو منظم کرتے ہیں اور لوگوںکے امور اور ان کی حفاظت میں بہترین و مستحکم روش اختیار کرتے ہیں. اور حکومت کے صالح اور دانشور افراد پر خاص توجہ دے کر انھیں مورد لطف قرار دیتے ہیں .اور وہ امیر مومنان ہیں، جن کی اطاعت سب پر لازم ہے جو دریا و خشکی کے بادشاہ، سلطان ابن سلطان، جنگجو بادشاہ عبدالحمید خان ابن جنگجو، بادشاہ عبد المجیدخان ہیں، خدا یا! ان کی مدد فرما اور اپنے نام کی تجلیل کے لئے انھیں کامیابی عطافرما اوراپنے اور ان کے سیاہ دل دشمنوں کے فتنوں کونابود فرما اور اپنی شمشیر قہر و غلبہ کے ذریعہ ان میں تفرقہ ڈال دے ۔١
......... ............ ................. ...........
(١) مختصرالتحفۂ الاثنا عشریہ، ص٣۔ ٢.
وہ مزید اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہتاہے:
آستانۂ عالی قدر میںاس کتاب کی پیشکش کا مقصد یہ ہے کہ عالی جناب اس کتاب پر کیمیائی نظر ڈال کر اسے قبول فرمائیں گے گویا اسی وقت میری آرزو پوری اور میرا عمل قابل قبول واقع ہوگا۔
اس کتاب کو میں نے ٩ حصوں میں منظم و مرتب کیا ہے، جس کا پہلا حصہ شیعہ فرقوں اوران کے احوال سے مخصوص ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ کتاب ایک خاص قسم کے سیاسی حالات میں منتشر ہوئی جس نے وہابی مطالعات اور فکری نظام پر ایسا اثر چھوڑا کہ ابھی تک وہ اس روش پر باقی ہیں اور اس کتاب کے مطالب کا سہارا لیتے ہوئے اہل سنت کے بزرگ علماء کی مخالفت کرتے ہیں.ہاں یہ کتاب سیاست کا نتیجہ ہے اور ہر وہ چیز کہ جو سیاست کے ذریعہ وجود میں آئے سیاست ہی سے ختم ہوسکتی ہے۔
عثمانی حکومت کی سیاست کا تقاضا تھا کہ وہ شیعہ مذہب کو غلط انداز میں پیش کرے، خصوصاً جس وقت ایرانی شیعہ حکومت کے توسط سے بغداد کا تختہ پلٹ گیاتو عثمانی حکومت نے اپنی موقعیت کو خطرہ میں پایا اور انھیں بخوبی اس بات کا علم تھا کہ اہل سنت شیعوں سے جنگ نہیں کرسکتے، مگر یہ کہ شیعوں کو غالی کہہ کر اسلام کے زمرہ سے خارج کرکے انہیں کافر کہا جائے۔
انھیں حالات کے پیش نظر عثمانی سیاست کے نتیجہ میں تشیع اور غالی میں خلط جیسی مشکل وجود میں آئی اور وہابیوں کے ہاتھوں (کہ جو عثمانی دور کے نوشتوں کا مطالعہ کرتے تھے) اس مشکل میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا لیکن یہ تمام کتابیں نہ علمی تھیں اور نہ ہی تحلیلی، بلکہ صرف اور صرف ان میں تبلیغی پہلو پایاجاتا تھا. اور واضح ہے کہ غیر علمی تبلیغات کا مقصد علمی گفتگو کوترک کرتے ہوئے دشمن کے چہرہ کو بہر صورت برعکس اور غیر واقعی دکھلاناہوتا ہے۔
عثمانی حکومت کے خاتمہ پر اہل سنت کے بزرگ علماء نے شیعوں کے مقابلہ میں اپنی قدیم روش کو زندہ کرنے کی ضرورت کو پیش کیا، جبکہ یہ روش عثمانی دور میں ان کی کاوشوں کی وجہ سے ختم ہوچکی تھی۔
ازھر یونیورسٹی کے رئیس اور اہل سنت کے بزرگ عالم محمود شلتوت نے فتویٰ صادر کیا کہ شیعہ مذہب، اہل سنت کے چار مذاہب کی مانند ہے جسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔
جو کچھ ہم نے اس مقام پر بیان کیا ہے وہ وہابی نظر میں تشیع و غالی کے مساوی ہونے کا ایک مختصر تاریخی گوشہ ہے، لہٰذا محترم قارئین آئندہ مباحث میں اس بحث کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔
وہابیوں کی تشیع اور غلو میں خلط جیسی مشکل کے حل کے لئے ایک ایسی تحقیق کا منظم کرنا ضروری ہے جو بحث کے محور میں تفکیک پیدا کی جائے اورپھر ان تمام محوروں پر الگ الگ بحث کی جائے.اس بحث کے محور ہی غلو، امامیہ، امامیہ کا غلو سے ارتباط اور وہابیت جیسے موضوع ہیں. تیسرے محور میں دیکھنا ہوگا کہ آیا تشیع اور غلو میں مناسبت پائی جاتی ہے، یا ان کے درمیان ایک (نظریاتی) عمیق شگاف ہے۔ اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ شیعہ اور غالی ایک دوسرے کے متعلق کیا نظریات رکھتے ہیں؟ چوتھے محور میں یہ تحقیق کرنا ہوگی کہ وہابی کس قدر شیعیت سے آگاہ ہیں؟ آیا وہابی شیعیت کی حقیقت سے باخبر ہیں؟ دیگر مسلمانوں کے مقابل وہابیوں کا رویہ کیاہے؟ وہابیوں نے غلو کی کیا تعریف کی ہے؟ اور شیعوں میں غلو کی تعریف کیا ہے؟ اہلسنت اور وہابیوں کے درمیان شیعوں کے مقابلہ میں موقف میں فرق کس جگہ سے پیدا ہوا ہے؟ وہابی طرز فکر کس چیز پر استوار ہے؟ اور شیعوں کے مقابل اس طرز تفکر نے وہابیون کے لئے کیا اثر چھوڑا ہے؟
ان چار محور پر تفحص کے بعد مشکل خلط کا دقیق ادراک میسر ہوگا یہ وہی مشکل ہے کہ جس نے مسلمانوں میں تفاہم اور اختلاف ختم کرنے میں دشواریاں پیدا کی ہیں، لہٰذا اس مشکل کو ختم کرنے کے لئے فکر کرنا بے حد ضروری ہے۔

وھابی مصنفین کی تقسیم بندی
٥۔ تشیع کے متعلق وہابی نوشتوں پر مفصل تفحص اور ان مصنفین کے نوشتوں کی تحقیق کے بعد کہ جو تشیع و غلو میں خلط کا شکار ہیں اس نتیجہ پر پہنچے کہ مصنفین کے چھ گروہ ہیں:
(پہلا) ایسا گروہ جنہوں نے ظالم حکمرانوں (کہ جوایرانی شیعہ حکومت سے جنگ میں مشغول تھے) کی خشنودی کے لئے کتاب لکھی، لہٰذا ان کی کتابوںمیں تبلیغاتی اور امنیتی ڈھانچہ پایا جاتا ہے۔
گویا یہ کتا ب شیعیت کی رد میں بیرونی کسی اطلاعاتی ادارہ (جو استعماری طاقتوں کی خدمت میںہے) کی طرف سے منتشر ہوئی ہے اور سیاست کونمایاں کرتی ہے اور اس کا مذہب تشیع کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں. مصنفین کے اس گروہ (کہ جو حقیقت میں درباری کاتب اور مولف ہیں) نے فتنۂ خلط کو ابھار نے میں کافی حصہ لیا ۔
(دوسرا) ایک سادہ گروہ کہ جو پہلے گروہ کے فریب کا شکار ہوا یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سادگی کے ساتھ درباری مصنفین کے نوشتوں پر اعتماد کیا، جس کے نتیجہ میں انھیں یقین ہوگیا کہ امامیہ مسلمان نہیں، بلکہ غالی فرقہکی ایک شاخ ہیں۔
اور جب میں کتاب (ارتباط شیعہ اور غالیان) لکھ رہا تھا تو اسی گروہ میں شامل تھا۔
(تیسرا) یہ گروہ سادہ فکر تو نہیں تھا لیکن یہ لوگ دقت نظر بھی نہیں رکھتے تھے لہٰذا نادانستہ، خلط جیسے مرض میں مبتلا ہوگئے اور جو چیز یں غلو نہیں ہیں، انھیں غلو قرار دیا او رجو باتیں مذہب امامیہ میں نہیں تھیں، ان کو بغیر کسی برہان اور دلیل کے امامیہ سے منسوب کیا. یہ شیعہ کتب کا دقیق مطالعہ نہ کرنے کی بنا پر حقائق کو برعکس سمجھتے ہیں اور شرک و توحید میں خلط کرتے ہوئے شیعہ کو مشرک قرار دیتے ہیں۔
یہ لو گ شرک اکبر (جوانسان کواسلام سے خارج کرتاہے) اور شرک اصغر (جو بے شمار مسلمانوں میں پایا جاتا ہے لیکن انسان اسلام پر باقی رہتا ہے) اور کفر کے مراتب میں فرق نہیں جانتے، لہٰذا وہ کفر جو اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں ہے اسے اس کفر، کہ جوانسان کواسلام سے خارج کرتا ہے، مشتبہ کردیتے ہیں اور جو فرقے ان کے مخالف ہیں انھیں ارتداد و کفر سے متہم کر کے اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔
(چوتھا) ایسا گروہ جن کے مذہبی افکار حزبی افکار کی طرح ہیں کہ جو مخالف کی ہر بات کو محکوم کرتے ہیں اور دوسرے مذہب کے بارے میں بحث و تحقیق، حتی کسی طرح کی معمولی شناخت کے بغیر قضاوت کرتے ہیں اور تمام مخالفین پر خط بطلان کھینچتے ہیں . یہ لوگ ہر مخالف آواز کو غلو تصور کرتے ہوئے انھیں رد کردیتے ہیں۔
(پانچواں) ایسا گروہ کہ جنھیں وہابیوں پر شیعوں کے اعتراضات برداشت نہیں اور اشکالات کا جواب دینے کے بجائے آنکھیں بند کئے ہوئے وہابیت کا دفاع کرتے ہیں، لہٰذا مجبور ہیں کہ بے شمار شیعہ و سنی مسلّمات سے انکار کریں۔
در حقیقت ان کا وہابیت سے تعصب آمیز دفاع انھیں منطقی اور عقلانی حالت سے نکال کر عاطفی موقف میں لاکھڑا کرتا ہے. شیعوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے بجائے شیعیت کو متہم کرتے ہیں اور فرقہ شناسی کی کتابوں میں جن باتوں کی نسبت غالیوں کی طرف دی گئی ہے ان ہی باتوں کو شیعوں سے منسوب کرتے ہیں اس گروہ نے خلط جیسی بیماری کو بڑھانے میں کافی حصہ لیا ہے۔
جب وہابیوں نے شیعہ اور بعض سنیوں کی طرف سے قوی اور علمی اعتراضات کا سامنا کیا، تو چونکہ انھیں حل کرنے سے عاجز ہیں اور انھیں اپنی فکری کمزوری کا علم تھا، لہٰذا آنکھیں بند کر کے اپنی تمام طاقتوں کو وہابیت کے دفاع میں متمرکز کیا جن کا مقصد صرف اور صرف شیعہ حقائق کو برعکس دیکھانا تھا۔
ان کا ہدف اپنی دفاعی موقعیت کو مضبوط کرنا تھا لہٰذا انھوں نے اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی کام سے دریغ نہیں کیا. امامیہ کی تخریب کرنا ان کی دفاعی تدبیر ہے. انھیں مذہب تشیع کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا صرف اور صرف اس مذہب کی تحریف کر کے اپنی دفاعی دیواریں مضبوط کرنا چاہتے تھے۔
(چھٹا) شیعیت کی مخالفت میں مصنفین کا خطرناک ترین گروہ، وہ لوگ ہیں جنھوںنے خود کو وہابیوں کی صف میں قرار دیاہے جب کہ وہابی اور سنی دونوں ان سے بیزار ہیں. جب اہل سنت ان کی بدنیتی (یعنی قدرت، شہرت اور پیسہ حصول کی نیت ) سے آگاہ ہوئے توانھیں اپنی بزم سے دور کر دیا. پھر یہ لوگ وہابی گروہ سے جاملے تاکہ اپنے مقاصد تک پہنچ سکیں۔
عبد اللہ علی قصیمی کا اسی گروہ میں شمار ہوتا ہے اس نے سعودی کا سفر کیا لیکن علمائے ازھر نے کسی اختلاف کی بنا پر اسے اپنی بزم سے نکال باہر کردیا پھر اس نے ایک کتاب بنام ''انقلاب وہابیت'' لکھی جس سے وہابی مسرور اور اہل سنت جواب دینے پر مجبور ہوئے، اس کے بعد اس نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام ''اسلام اور بت پرستی کی لڑائی'' رکھا گیا اور اس کتا ب میں شیعوں کو بت پرست کا نام دیا گیا جس سے وہابی خوشحال ہوئے، لیکن ان کتابوں کے لکھنے کے بعد اس نے آشکار ا طور پر اپنے کفر کا اظہار کیااور الٰہی ادیان کا منکر ہوکر انبیاء کی توہین کی، لہٰذا وہابیوں نے بھی اسے نکال باہر کردیا، لیکن جو شیعیت کی برعکس تصویر اس نے پیش کی اس کا اثر آج تک باقی ہے۔
(٦) قرن اول اور اس سے کچھ پہلے رائج بعض کلمات میں جو ابہام تھا اس ابہام نے مشکل خلط کی اشاعت میں اپنا کافی اثر چھوڑا اس دوران لفظ تشیع کئی فرقوں کے لئے استعمال ہوتاتھا جن سے واقعی تشیع (امامیہ) بیزار تھے اس تاریک ماحول نے دشمنان امامیہ کے لئے زمینہ ہموار کیا تاکہ وہ شیعیت پر ثقافتی یلغار کریں اس طرح تشیع کو غالی کا نام دیتے ہوئے ان پر بے شمار جدید تہمتیں لگائی گئیں۔
اس مفہوم تشیع (کہ جو کئی فرقوں پر دلالت کرتاہے) اور مفہوم امامیہ (کہ جو صرف ایک فرقہ سے مخصوص ہے)، میں خلط کی وجہ سے غیر امامیہ کے غلط آراء و نظریات (جن پر عقیدہ رکھنا شیعہ و سنی کے نزدیک کفر ہے) امامیہ کی طرف منسوب کئے گئے۔
اور واضح ہے کہ اگر کلمات کے معانی اوران کے دائرہ مفہوم کو معین نہ کیا جائے، تو یہ کلمات سادہ لوح افراد اور سوء استفادہ کرنے والوں کا بازیچہ قرار پاتے ہیں۔
(٧) وہابیوں میں شیعہ اور غالی کو یکسان جاننے کی اشاعت کا ایک سبب، شیعہ نشین شہر کوفہ میں بعض غالیوں کا وجود ہے جو کہ پہلی ہجری میں وہاں زندگی بسر کر رہے تھے، تاریخ کے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ کافی کم تعداد میں تھے اور اس زمانے (حتی اس کے بعد) کے شیعہ معاشرے نے بھی ان کا بائیکاٹ کردیاتھا، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کی نسل ختم ہوگئی او راصولی طور پر جن مناطق میں لوگوں کے دلوں میں تشیع نے اپنے لئے جگہ بنائی، مذہب غلو کے پیرو، اس علاقہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے. انشاء اللہ آئندہ مباحث میں اس مسئلہ پر وضاحت دی جائے گی۔
(٨) اہل بیت (ع) پر عباسی اور اموی حکومتوں نے شکنجہ، ڈرانے دھمکانے، اور قتل جیسی سیاست روا رکھی، جب کہ اہل بیت (ع) مسلمانوں میں بلند و بالا مقام کے حامل تھے، لہٰذا اگر ظالم بادشاہوں کے ذریعہ اس زمانے کے مظلوم شیعوں پر بھی چند برابر ظلم روا رکھا جائے اور انھیں طرح طرح کی کفر آمیز باتوں سے متہم کیاجائے تاکہ ان پر ظلم کا جواز پیدا ہوسکے مخصوصاً اس وقت کہ جب مظلوم دفاع پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔