گفتگو کا سلیقہ
 

(پہلا مرحلہ)
مذہب تشیع کا غلو سے کوئی ربط نہیں
سب سے پہلے ایک غیر شیعی محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیعیت کے متعلق تحقیق سے پہلے اس مرحلہ پر کہ ''شیعہ غالی نہیں'' اپنی توجہ کو مرکوز کرے ، تاکہ شیعی حقائق اور امتیازات کی برعکس جلوہ نمائی سے محفوظ رکھ سکیں۔
اس اہم فصل میں ہم اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ اہل تشیع اور غالیوں کے درمیان مغایرت ہی نہیں، بلکہ ایک عمیق شگاف ہے، ایسا شگاف جو مذہب امامیہ کے بلند و بالا اسلامی حقائق اور غالیوں کے پست عناوین الٰہی اور مجوسی فکر کے درمیان پایا جاتا ہے. (و لا تلبسوا الحق بالباطل...)١
اس مرحلہ میں ان نتائج سے بھی آگاہ ہوں گے جو شیعی افکار کو غالی افکار سے مخلوط کرنے کے سبب وجود میں آئے اور یہی طرز عمل (یعنی غیر مربوط افکار کو شیعیت سے منسوب کرنا) شیعیت کے متعلق ان کی غلط فہمی میں بے حد مؤثر ہے . اور اس با اہمیت مرحلہ سے بطور کامل آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجوسی ، یہودی، اور مسیحی افکار کو شیعیت سے منسوب کرتے ہیں اوراس مذہب کے حقائق کو برعکس پیش کرتے ہیں۔
......... ............ ................. ...........
(١) سورۂ بقرہ، آیت ٤٢. حق کو باطل میں مخلوط نہ کرو.
اور میرا عقیدہ ہے کہ اہل تشیع کے حقائق کو سمجھنے سے پہلے ہم اس مرحلہ کو سمجھیں اوردرک کریں کہ شیعہ غالی نہیں، ہم نے اس مرحلہ کا نام تشیع کی نسبی شناخت رکھا ہے تاکہ امامیہ کی خصوصیات پر گفتگو کرنے سے پہلے، ہم تشیع اور غالیوں کے درمیان فرق کے قائل ہوں۔
اس حصہ میں ان امور کے متعلق تفصیلی گفتگو ہوگی جو غالیوں سے مربوط ہیں، لیکن انھیں شیعیت سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اوراس مرحلہ کا نام تشیع کی نسبی شناخت رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم مذہب امامیہ کے حقائق جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں انھیں مجوسی، یہودی، اور مسیحی کفر آمیز نظریوں سے دور رکھیں اور جب تک وہابی شیعوں کو غالی کا خطاب دینے سے باز نہیں آتے ، شیعہ کے متعلق ان کی تحقیق کی اصلاح ناممکن ہے. ہم نے اس فصل میں سب سے پہلے وہابیوں کی اس مشکل کو بیان کیا ہے اور میں نے اس مشکل کے وجود میں آنے کے اسباب پربھی ایک علمی تحقیق پیش کی ہے۔
قابل ذکر بات ہے کہ دور قدیم اور دورہ حاضر کے سنی علماء نے بحث کو خلط کرنے سے خود کودور رکھا، جس کے نتیجہ میں وہ مذہب امامیہ سے دفاع اور اس مشکل مباحث کو خلط کرنے میں گرفتار افراد سے ، ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔١
......... ............ ................. ...........
(١) وہابیت جس مشکل میں گرفتار ہیاس کے متعلق علماء اہل سنت کے اقوال ہم بیان کریں گے.
شیعہ شناسی کے مختلف مطالعاتی طریقے
اس مقام پر اپنی گفتگو کو ختم کرنے سے پہلے دوبارہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ہماری اس روش تحقیق کے جو تین مراحل ہیں ان میں ترتیب کا لحاظ ضروری ہے تاکہ شیعیت کے بارے میں وہابی تحقیق کی اصلاح ہوسکے اور اہل سنت و وہابیت کی تحقیق کا اختلاف آشکار ہو جائے۔
اگر شیعیت کے بارے میں وہابی اور سنی تحقیق کوایک دوسرے سے مقایسہ کریں تو سنی تحقیق کی کامیابی کا راز ، ان کا شیعہ اور غالی کے درمیان فرق جاننا ہے۔
یہ مرحلہ بے انتہا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مرحلہ میں ان غلط افکار کی اصلاح ہوگی، جنھیں وہابیوںنے مذہب تشیع سے منسوب کیاہے اور پھر خود وہابیوں کی اصلاح ہوگی، تاکہ وہ صحیح روش کے تحت مذہب تشیع کو پیش کریں، جس کے نتیجہ میں ان کے مطالعہ کا طور طریقہ ،علمی بنیاد پر استوار ہوگا اور چونکہ معاصر سنی علماء نے گذشتہ علماء کی پیروی کی اورانھیں خلط مباحث کے عواقب سے بطور کامل شناخت تھی اس لئے ان کے یہاںامامیہ کے حقائق کی تفسیر وہابی تفسیر سے جدا نظر آتی ہے. اور واضح طور پر انھوں نے شیعیت کے بارے میں وہابی تفسیر کو مستردکیا جانا ہے انھوں نے کچھ علمی معیار و قواعد قرار دیئے ہیں جن کا کسی بھی تفسیر اور تحقیق سے پہلے جانناایک وہابی شخص کے لئے لازم ہے۔
لہٰذا اس مرحلہ کا مطالعہ ضروری ہے تاک عام سنی وہابی نہ ہوجائیں اورخود وہابی اس مرحلہ میں جو شیعی حقائق میں بغیر دقت کے شیعہ مذہب کے خصوصیات سے واقف نہیں ہوسکتے۔
ہم قارئین او روہابیوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس حصہ کا دقیق او رتفصیلی مطالعہ کریں تاکہ انھیں مطلوب نتیجہ حاصل ہو، کیونکہ مذہب امامیہ کے حقائق کی تفسیر میں تمام غلطیوں کا سرچشمہ، اس مرحلہ کا صحیح طور پر نہ سمجھنا ہے۔
اس حصہ کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیعہ شناسی سے مربوط مطالعات میں تبدیلی پیدا کریں اور اس روش کا انتخاب کریں جسے معاصر اور گذشتہ سنی علماء نے اختیار کیا ہے۔
میںنے زمانہ وہابیت میں شیعیت کی تکفیر میں ایک کتاب بنام ''الصلة بین الاثنی عشریة و فرق الغلاة'' لکھی (جس میں تشیع و غالیوں کو یکساں قرار دیا) جو شیعیت اور غالیوں کے درمیان فرق نہ جاننے، اور شیعہ شناسی میں فقط وہابی کتب سے مدد لینے کا نتیجہ ہے اسی لئے تشیع کی شناخت کے لئے میںنے اس اہم مرحلہ کو سب سے پہلے قرار دیا ہے. میں نے وہابیت کے زمانہ میں تمام جاہل افسانوں، صوفی، مجوسی اور بت پرستوں کے خود ساختہ خرافات اور غالی افکار کو شیعیت سے نسبت دی اور انھیں مذکورہ کتاب میں تفصیلی طور سے درج کیا ہے۔١
......... ............ ................. ...........
(١)میں وہابیت کے زمانہ میںاس وہم کا شکار تھا کہ غالیوں میں جس قسم کا بھی غلواور شرک پایا جاتا ہے وہی شرک وغلو شیعیت میں بھی موجودہے لیکن بحمد اللہ شیعہ کتب (جس میں غلو شرک سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں) کا مطالعہ کرنے کے بعد ان دو فرقوں میں فرق واضح ہوا اور اس وہم کو میں نے کتاب (دیدگاہ شیعہ دربارۂ غلو و غالیان) میں ذکر کیا ہے۔
میں ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ شیعوں کی طرف ان امور کا نسبت دینا صحیح ہے، لیکن جس وقت میں نے اس مرحلہ پر توجہ کی تو اپنی غلطی کا احساس ہوا اورا س خطا کی اصلاح کے نتیجہ میں میرے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوئی کہ ان باتوں میں جو شیعوں میں نہیں پائی جاتیں، لیکن ان کی طرف منسوب ہیں اور ان باتوں میں جوان میں پائی جاتی ہیں جبکہ ان کی طرف ان کی نسبت نہیں دی جاتی ، فرق پیدا کرسکو، لہٰذا میں نے مذکورہ کتاب کو طبع ہونے سے کچھ دن پہلے ہی جلا ڈالا۔
اس دوران میں معتقد تھا کہ شیعہ کو مجوسی ، یہودی یاصوفی کہا جاسکتا ہے١ لیکن اب میرا نظریہ بدل چکا ہے اوران عناوین کے مصداق شیعہ نہیں، بلکہ غالی فرقے ہی ہیں، اس مرحلہ کو سمجھنے کے بعد، میںنے تحقیقات میں وہابی روش کوترک کر کے، معاصر اور گذشتہ سنی علماء کی روش کواختیار کیا، جس کے نتیجہ میں میرا یہ قدم شیعیت کے متعلق میرے نظریہ کو بدلنے میں مفید ثابت ہوا اور مجھے شیعیت اور غالیوں میں خلط مباحث سے چھٹکارا ملا۔
بلاشک و شبہہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میں جن فکری مشکلات میں گرفتار تھا اس کی وجہ اس زمانے کے فکری حالات و اسباب تھے. میںنے اپنی پڑھائی یمن کے دارالحکومت شہر صنعاء کے ایک وہابی مدرسہ میں کامل کی، جن کا کام ہی اہل تشیع
......... ............ ................. ...........
(١) مصنف نے اس مقام پر کلمۂ عنوصیہ سے استفادہ کیاہے. گنوسیسم ایک صوفی فلسفی مکتب ہے جس میں خدا کی شناخت ، باطنی اور روحانی معرفت پر استوار ہے. اور یہ مکتب پہلی و دوسری عیسوی میں مشہور ہوا گویااس کلمہ سے مصنف کی مراد صوفی فرقے ہیں۔
کے بارے میں کتابیں چھاپنااور انھیں نشر کرنا تھا اور ان تمام کتابوں کے مصنفین وہ افراد تھے کہ جو شیعہ اور غالی کوایک جانتے تھے ، جس کے نتیجہ میں شیعہ اور غالی افکار کو ایک دوسرے میں مخلوط کرتے اور شرک آمیز افکار کو شیعیت سے منسوب کرتے تھے۔
ان کتابوں کا مجھ پر کافی اثر ہوا اور اس مدرسہ میں صرف انھیں کتابوں کو چھاپنے کی اجازت تھی کہ جنھیں وہابی روش پر لکھا جاتا اور وہ کتابیں جو شیعیت کی شناخت میں سنی روش پر لکھی جائیں ان کے نشر کرنے کی اجازت نہ تھی۔
کچھ مدت بعد مجھے فرصت ملی اور میںنے شیعیت کے متعلق سنی کتب کا مطالعہ کیاجس پر بے حدتعجب ہوا، کیونکہ میںنے ان کی روش تحقیق میں وہابیوں کی بہ نسبت بنیادی فرق پایا۔
اہل تسنن آگاہ ہیں کہ شیعہ کو غالی کے مساوی قرار دینا ایک بہت بڑی غلطی ہے اسی لئے انھوں نے شیعیت کے بارے میں وہابی تحقیق کو تنقیدکا نشانہ بنایاہے اوروہ معتقد ہیں کہ وہابی کتب کے ذریعہ ذرہ برابر شیعیت کے حقائق کونہیں سمجھا جاسکتا۔
دور حاضر کے سنی مصنف استاد حامد حنفی١ اس بارے میں فرماتے ہیں:
ایک طولانی مدت سے أئمہ (ع) کے عقائدکا بطور خاص اور شیعہ عقائد کا بطور عام ،ان کتب کے ذریعہ مطالعہ کر رہا تھا ،کہ جنھیں اس مذہب پر تنقید کرنے والوں نے تحریر کیا ہے، لیکن ان تمام کتابوں کا مطالعہ کرنے کے باوجود کسی بھی قسم کا ثمرہ
......... ............ ................. ...........
(١)آپ دانشگاہ ''عین شمس'' میں عربی ادبیات گروپ کے رئیس ہیں.
حاصل نہ ہوا اوران کتب میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو مجھے اس مذہب سے آشنا کرائے١
اہل سنت معتقد ہیں کہ وہابی اپنی غلطی سے آگاہ نہیںہیں، جس کے نتیجہ میں وہ شیعہ اور غالی کے درمیان فرق نہیں جانتے، اس کے متعلق مصری سنی عالم دین انور جندی لکھتے ہیں:
کیا ہی اچھی اور مناسب ہے یہ بات کہ ایک محقق عاقلانہ طور پر شیعہ اور غالی میں (وہ کہ جن کے مقابل اہل تشیع نے سخت موقف اختیار کیا اور ان کی مکاریوں سے آگاہ کرتے رہے) فرق کا قائل ہو اور اس کی وضاحت کرے ٢
علی عبد الواحد وافی جو مصری دانشور ہیںنے بھی اس مشکل کی طرف یوں اشارہ کیا:
مصنفین کی ایک بڑی تعداد نے جعفری شیعہ کو دوسرے شیعہ فرقوں میں مخلوط کیاہے۔٣
اہل سنت کے معاصر امام محمد غزالی نے بھی وہابیوں کی مطالعاتی روش کی اصلاح میں کافی کوششیں کی ہے اور پوری توانائی کے ساتھ ان سنیوں کا مقابلہ کیا ،جنھوں نے وہابیت کی پیروی کی. اور وہ لوگ جو شیعہ اور غالی میں اختلاط کے شکار ہیں،ان کی اس مشکل کو حل کرنے میں کافی زحمتیں اٹھائیں۔
......... ............ ................. ...........
(١) فی سبیل الوحدة الاسلامیة، مرتضی الرضوی، ص ٤٥
(٢) الاسلام و حرکة التاریخ، ص٤٢١
(٣)بین الشیعہ واہل السنة، ص ١١
آپ اس موضوع کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
بعض جھوٹے افراد جو شیعہ اور غالی کو ایک جانتے ہیں، نے یہ شایع کیا کہ شیعہ حضرت علی ـ اور سنی حضرت محمد ۖ کے پیرو ہیں اور اہل تشیع علی کو پیغمبر اسلام ۖکی بہ نسبت نبوت کے لئے لائق اور شائستہ جانتے ہیں. اور پیغمبرۖ کا نبوت پر فائز ہونا ایک خطا ہے، جبکہ یہ مرتبہ علی کا تھا١ یہ سب باتیں شیعیت پر ناروا تہمتیں ہیں، جو صرف غالیوں پر ہی منطبق ہوتی ہیں۔
محمد غزالی نے ان سنی حضرات کی روش پر بھی تنقید کی ہے ،جنھوں نے وہابی روش کا اتباع کیا اور شیعہ اور غالی کے درمیان فرق کودرک نہیں کرسکے، اس کے متعلق فرماتے ہیں:
بعض سنی علماء نے جھوٹ اور حقیقت کو برعکس نمایاں کرنے کے لئے شیعوںکی طرف اس بات کی نسبت دی ہے کہ یہ قرآن کی آیات میں کمی واقع ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں٢
اور بعض اہل سنت متفکرین معتقد ہیں کہ وہابیوں نے شیعیت کے بارے میں تحقیق میں کافی تند اور سخت روش اختیار کی ہے، شیعہ اور غالی کو یکساں جانتے ہیں لہٰذا انھوں نے شیعہ شناسی میں خطا کی ہے۔
......... ............ ................. ...........
(١) رسالة التقریب ، شمارۂ ٣، سال اول شعبان ١٤١٤، ص ٢٥٠
(٢) لیس من الاسلام، ص ٤٨
مصری دانشور محمد فرماتے ہیں:
قدیم الایام سے سنی و شیعہ کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن وہابیوں نے اپنے افکار کے ذریعہ ان میں ایسا شگاف پیدا کیا جو اٹھارہویں صدی عیسوی کے بعد سنی و شیعی اختلافات میں بے حد موثر رہا. اور روز بروز ان کے اختلافات میں اضافہ ہوا. یہ سب وہابیت کے منفی فکر کے اثرات ہیں۔١
دوسرے سنی دانشور عبدالحلیم جندی فرماتے ہیں:
شیعوں کی طرف غالی افعال کی نسبت دی گئی اور اس طرز عمل نے دوسروں پر شیعیت کے متعلق منفی اثر چھوڑا اور ان باتوں کو شیعیت سے منسوب کیا گیا جن سے وہ خود بیزار ہیں مثلاً ان کا یہ کہنا کہ شیعیت کے یہاں امام ہی خدا ہیں جوکہ سراسر غلو اور کفر ہے اور شیعہ ان افکار سے بری ہیں۔٢
(ڈاکٹر طہ حسین فرماتے ہیں:)
شیعوں کے دشمنوں نے ، شیعوں سے ہر چیز کو منسوب کیاہے وہ صرف ان چیزوں پر اکتفا نہیں کرتے جو شیعوں کے بارے میں سنتے یا دیکھتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے ان میں من مانا اضافہ کراضافہ کر لیتے ہیں جنھیں شیعہ سے سنا، یا ان میں پایا ہے، یہاں تک کہ ان تمام افعال کی نسبت اصحاب اہلبیت (ع) کی طرف دی جاتی
......... ............ ................. ...........
(١) الفکر الاسلامی فی تطورہ، ص ١٤٠.
(٢) الامام جعفر الصادق، ص٢٣٥.
ہے. ان افراد کی مثال ان چوروں جیسی ہے جو پہاڑ پر کمین کئے ہوتے ہیں یہ لوگ شیعی گفتار و کردار پر دقیق نظر رکھتے ہیں اورنامربوط مسائل، کہ جو شیعیت میں نہیں پائے جاتے ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔١
ہم نے گذشتہ صفحات میںاشارہ کیا ہے کہ ڈاکٹر علی عبد الواحد وافی جو سنی دانشور ہیںنے اپنی کتاب ''بین الشیعہ و اہل السنہ'' میں وہابیوں کی خود ساختہ مشکلات پر گفتگو کی ہے اس کتاب میں وہابیوں نے جو شیعہ و سنی کے درمیان بے بنیاد پروپیگنڈے کئے ،اس کی رد میں فرماتے ہیں:
گرچہ ہمارے اور شیعوں کے درمیان بے حد اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ اختلاف سند و اجتہاد کے دائرہ سے خارج نہیں۔٢
''سنی محقق فہمی ہویدی'' بھی انھیں لوگوں میں سے ہیں کہ جنھوں نے درک کیا کہ وہابیوں کا شیعہ کی تکفیر میں اصرار، ان کا شیعہ اور غالی میں اختلاط کا نتیجہ ہے. آپ فرماتے ہیں:
شیعہ کو کافر کہنا وہابیت کے اصل ترین منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے۔٣
......... ............ ................. ...........
(١) علی و بنوہ، ص ٣٥ .
(٢) بین الشیعہ و اہل السنہ، البتہ ہم اس مطلب کی تائید نہیں کرتے اور اس نظریہ پر مفصل طور پر ہماری کتاب بازخوانی اندیشۂ تقریب میں نقد و رد کی گئی ہے. (مترجم فارسی)
(٣) ایران من الداخل، ص ٣٢٢.
تمام علماء معتقد ہیں کہ وہابیوں کی شیعہ شناسی مطالعاتی روش نے انھیں تشیع اور غالی کی مخلوط وادی تک لاکھڑا کیااورانھیں ایک عظیم گمراہی میں مبتلا کیا ہے. حتی بعض متفکرین معتقد ہیں کہ جس طرح وہابی شیعیت کو پیش کرتے ہیں اس میںاور اس کے حقائق کے درمیان بالکل تناقض پایا جاتا ہے اور شیعیت کی یہ تصویر کشی صرف اور صرف وہابیت پر صدق کرتی ہے، یہی مطلب ہم سالم بہنساوی کے نوشتوں میں پاتے ہیں . آپ نے کتاب '' السنة المفتریٰ علیہا'' میں پوری طرح شیعہ شناسی میں وہابیوں کی جو مطالعاتی روش ہے اس پر بحث کی اور اس روش کی اصلاح کو لازم جانا ہے اور وہابیوں کے اہل سنت کی مطالعاتی روش سے جدا ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے. اور وہابیوں میں رائج تمام بیہودہ و بے معنی باتوں کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے. وہ شیعیت پر اس تہمت کو ، کہ شیعہ دوسرے قرآن رکھتے ہیں، سختی سے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جو قرآن اہل سنت کے درمیان ہے وہی قرآن تمام شیعہ مساجد اور گھروں میں پایا جاتا ہے،١ اور بے شمار سنی مذہب سے وابستہ متفکرین یہ جانتے ہیں کہ شیعوں کے بارے میں وہابی تصورات تمام یہودی ، مسیحی اور مغربی اسلام شناسوں کی کتب سے ماخوذ ہیں. اور طبیعی ہے کہ ان منابع پر اعتماد کے نتیجہ میں کوئی بھی شیعہ اور غالی میں اختلاط، جیسے مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
......... ............ ................. ...........
(١) السنة المفتریٰ علیہا، ص ٦
جندی مصری دانشور کی بھی یہی فکر ہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں ہم نے ان کے قول پر روشنی ڈالی۔
حسن البناء (جو کہ مصر میں تحریک اسلامی کے رہبر ہیں) نے بھی بڑے ہی زور و شور کے ساتھ شیعہ شناسی میں وہابی روش کو بدلنے کی کوشش کی اور ان لوگوں سے مبارزہ کیا ،کہ جو شیعہ اور غالیوں میں مساوات کے قائل ہیں اوران کی خطا نے انھیں بے حد متحیر کیا، کیونکہ دنیا کے کتب خانے شیعہ دانشوروں کے علمی خزانوں سے لبریز ہیں۔١
سنی مذہب سے وابستہ عباس محمود عقاد بھی وہابیوں کے اس انحراف کی طرف متوجہ ہوئے یہاں تک کہ مصری معروف رائیٹر انیس منصور نے ان سے نقل کیا:
اگر اجل نے مجھے فرصت دی تو مذہب شیعہ کے لئے ایک منطقی تحقیق مرتب کروں گا، کیونکہ بے شمار بیہودہ باتوں کو شیعیت سے منسوب کرنے کی وجہ سے اکثر لوگ شیعیت کے واقعی چہرہ سے آگاہ نہیںہیں، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہ دی۔٢
سنی مورخ، محمد کرد علی نے بھی ان فرقوں کا منہ توڑ جواب دیا ،جو شیعہ اور غالی کے درمیان فرق نہیں جانتے، فرماتے ہیں:
......... ............ ................. ...........
(١) ا س عبارت کو حسن البناء کے شاگرد استاد عمر تلمسانی اپنی کتاب ''ذکریات لا مذکورات'' میں صفحہ ٢٥٠ پر نقل کیا ہے.
(٢) لعلک تضحک، ص٢٠١.
بعض مصنفین کا یہ عقیدہ رکھنا بالکل غلط ہے کہ مذہب تشیع عبد اللہ بن سبا کی بدعتوں میں سے ایک بدعت اور یہ ان کی کم علمی کا نتیجہ ہے. اگر کوئی شیعیت میں عبداللہ بن سبا کی موقعیت کو جانے اوران کا عبداللہ بن سبا اور اس کے گفتار و کردار سے بیزاری اورتمام شیعی دانشوروں نے جس طرح اس کی بدگوئی کی ہے اسے دیکھے تو پھر انھیں معلوم ہوگا کہ ان کا یہ عقیدہ کس قدر بے بنیاد ہے۔١
تحریک اخوان المسلمین کے رہبر عمر تلماسی، شیعہ اور غالی کو ایک جاننے والوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شیعہ فقہ نے اپنے بلند اور قدرت مند تفکر سے دنیائے اسلام کو مالا مال کیا ہے۔٢
دوسری طرف اہل سنت کے امام اور زمانہ کے فقیہ محمد ابو زھرہ وہابیوں کی اس روش سے سخت خوفزدہ ہیں اور وہابیوں نے جن شیعہ کلامی تعبیروں کی غلط تفسیر کی ہے انھیں آپ نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور تقیہ کے متعلق (کہ جس کے شیعی معنی کو وہابیوں نے درک نہیں کیا) ثابت کیا ہے کہ تقیہ کے شیعی معنی قرآن سے ماخوذ ہیں، فرماتے ہیں:
تقیہ یعنی انسان جان کے خوف سے یا ایسے بلند و بالا اہداف تک پہنچنے کے لئے جن سے دین خدا کی خدمت مقصود ہو اپنے بعض عقائد کو پوشیدہ رکھے اور یہ معنی
......... ............ ................. ...........
(١) خطط الشام، ج٦، ص٢٥١.
(٢) مجلہ العالم الاسلامی، شمارہ ٩١.
خود قرآن میں پائے جاتے ہیں۔١
خبردار صاحبان ایمان مومنین کو چھوڑ کر کفار کواپنا ولی اور سرپرست نہ بنائیں، کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیںہے اور خدا تمہیںاپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔٢
اور وہابیوں کے جواب میں، کہ جوامام کے متعلق شیعہ اور غالی عقائد کو ایک سمجھتے ہیں، آپ اس طرح لکھتے ہیں:
مذہب امامیہ، امام کے مقام کو پیغمبر اسلامۖ کے برابر نہیں جانتے۔٣
ازہر یونیورسٹی کے رئیس اور اہل سنت کے بزرگ پیشوا شیخ محمود شلتوت نے شیعہ شناسی میں قدمائے اہل سنت کی روش سے حمایت کا اظہار کیا ہے اور وہابی مطالعاتی روش سے وسیع پیمانہ پر مبارزہ کیا ہے کیونکہ وہابی مذہب امامیہ کی شناخت اور انھیں غالی کے برابر قرار دینے میں سخت خطا میں گرفتار ہیں۔
آپ نے کافی کوششیں کیں تاکہ وہابی، سنی روش کی طرف پلٹ آئیں اور جواختلافات کے بیج وہابیوں نے شیعہ و سنی کے درمیان بوئے تھے انھیں نابود کیا
......... ............ ................. ...........
(١) الامام الصادق، ص٢٢.
(٢) سورۂ آل عمران، آیت ٢٨.
(٣) الامام الصادق، ص ١٥١.
جاسکے، لہٰذا وہابیوں نے آپ کی سخت مخالفت کی اور آپ پر سنیوں کو غالیوں سے نزدیک کرنے کی تہمت لگائی، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ محمد شلتوت وہابیوں کو یہ سمجھاناچاہتے تھے کہ جن باتوں کو وہ شیعیت سے منسوب کرتے ہیں وہ سبائیان و خطا بیان و بیانیان کے افکار و عقائد ہیں، کہ جنہیں شیعہ کافر جانتے ہیں اور آپ کا عقیدہ ہے کہ وہابی چونکہ شیعہ کو غالیوں کا ایک فرقہ تصور کرتے ہیں،اسی لئے شیعیت سے انحرافی عقائد کو منسوب کرتے ہیں۔
محمد شلتوت مجبور تھے کہ اپنے ہم عصر بعض سنیوں سے مبارزہ کریں (کہ جن پر وہابی رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ قدمائے اہل سنت کی روش پر تنقید کرتے تھے) کیونکہ آپ کے نزدیک یہی لوگ سد راہ تھے کہ جن کی وجہ سے اہل تشیع و تسنن کو قریب کرنا امکان پذیر نہ تھا، وہ فرماتے ہیں کہ:
تقریب کے نام پر تنگ نظر افراد اور وہ لوگ جو نحس اہداف رکھتے ہیں (معمولاً ہرمعاشرہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں) جدال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے یہ وہی لوگ ہیں جن کی بقا دوسرے لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے پر ہے او ریہ ایسے بیمار دل افراد ہیں، جن میں کسی بھی طرف رجحان نہیں پایا جاتا، بلکہ اپنے ھوا و ھوس کی پیروی کرتے ہیں۔
یہ کچھ ایسے خود فروش مصنفین ہیں جو تفرقہ پسند لوگوں کی خدمت کرتے ہیں او رجب بھی مسلمانوں میں تفرقہ کے خاتمہ اور اتحاد کے لئے تحریک چلائی گئی، تو یہ لوگ مستقیم و غیر مستقیم طور پر سد راہ بن جاتے ہیں۔١
وہابی امامیہ اور غالیوں میں تفکیک نہ کرنے کی وجہ سے شیعوں کو رافضی کہتے ہیں در آنحالیکہ رافضی ایک عام عنوان ہے جو بے شمار فرقہ شناسی کتابوں میں غالی فرقوںپر منطبق ہوتا ہے اور سنیوں سے پہلے شیعہ انھیں کافر جانتے ہیں، لہٰذا انور جندی اس بارے میں کہتے ہیں:
''رافضی نہ سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ''۔٢
تشیع اور غالی کو ایک جاننے میں جو مشکلات وجود میں آتی ہیں ان کی طرف علمائے اہل سنت نے اپنی سینکڑوں کتابوں میں اشارہ کیا ہے اس کتاب میں اتنی گنجائش نہیں کہ ہم ان تمام اقوال کو جمع کرسکیں۔
ہم یہاں تک، یہ جان چکے ہیں کہ تشیع اور غالی کوایک تصور کرنا ایک ایسی سخت مشکل ہے، کہ جسے دشمنان اسلام نے مسلمانوں میں اتحاد ختم کرنے کے لئے پیش کیاہے اور محقق کے لئے اس مشکل کا سمجھنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی چھپی ہوئی مشکل ہے جس پر دشمنان اسلام نے مکاری کے ساتھ پردہ ڈال کر اسے مسلمانوں کے سامنے پیش کیاہے، اس زمانہ میں بعض سادہ لوح سنیوں نے وہابیوں کی مکاریوں کودرک نہیں کیا اور ان کی فریب کاریوں کا شکار ہو کر اس مشکل (خلط
......... ............ ................. ...........
(١) مجلہ رسالة الاسلام .
(٢) الاسلام و حرکة التاریخ، ص ٢٨.
مباحث) میں گرفتار ہوگئے . لیکن اہل سنت کے متفکرین کی کوششوں سے آج یہ خطرہ ایک خاص گروہ میں منحصر ہوکر زائل ہو چکا ہے۔
قارئین یہ جان لیں کہ وہابی شیعوں کوغلو آمیز افکار کا حامل تصور کرتے ہیں، لیکن انھیں نہیں معلوم کہ شیعہ غلو جیسی مشکل میں گرفتار نہیں، بلکہ یہ وہابی ہیں جو شیعیت کو نہ پہچاننے کی بیماری میں مبتلا ہیں وہ امامیہ میں غلو کے اسباب ڈھونڈتے ہیں لیکن انھیں چاہئے کہ وہ خلط جیسی بیماری میں مبتلاہونے کے اسباب پر توجہ دیں۔
سنی معاصر محققین اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ وہابیوں کی یہ مشکلات گذشتہ سنی کتب پر صحیح تحقیق نہ کرنے کا نتیجہ ہیں. لہٰذا انھوں نے ان انحرافات کے عوامل پر تحقیق کی اور واضح کیا ہے کہ یہ شیعہ نہیں کہ جو غلو جیسی مشکل میں گرفتار ہیں، بلکہ یہ ایک باطل خیال ہے جس میں وہابی تشیع اور غلو میں فرق نہ کرپانے کے سبب مبتلا ہوئے ہیں۔
ایک وسیع تحقیق انجام دینے کے بعد میںاس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ شیعہ شناسی کی مطالعاتی نہج تین روشوں ہی میں منحصر ہے: ١۔ وہابی گروہ کی روش. ٢۔ اہل سنت کے قدیم و جدید متفکرین کی روش. ٣۔ شیعہ دانشور وںکی روش۔
سب سے پہلے میں ہابی روش پر پابندتھا پھر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل سنت متفکرین کی روش سے آگاہ ہوا جس کے بعد شیعہ علماء کی روش کی طرف ہدایت حاصل ہوئی تب میںنے وہابی اور سنی روش میں غیر قابل انکار تضاد پایا. ان روشی اختلاف کے ہوتے ہوئے وہابی تمام نتائج کو صحیح نہیں کہا جاسکتا ہے. لیکن اگر وہابی روش میں تعارض اور تباین کو قبول کرلیں تو پھر منطق کے لحاظ سے دونوں روشیں باطل ہوں گی۔
جس کے نتیجہ میں شیعوں کے بارے میں نہ وہابی تحقیق قابل استفادہ ہوگی اور نہ ہی سنی تحقیق، جبکہ آئندہ مباحث میں یہ بات واضح ہوگی کہ وہابی تفسیر (کہ جس میں کوئی واقعیت ہے اور نہ حقیقت) سے زیادہ سنی تفسیر، امامیہ عقائد کی حقیقتوں کوواضح کرتی ہے ۔
جب ہم وہابی مطالعات کے نتائج دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ عقائد کی صحیح تفسیر بیان کرنے سے کس قدر عاجز ہیں جس تشیع کے بار ے میں وہابی گفتگو کرتے ہیں اسے اہل سنت متفکرین تشیع ہی نہیں جانتے، اور شیعیت کی جو عجیب و غریبتصویر وہابی پیش کرتے ہیں وہ بالکل اس تصویر سے جدا ہے کہ جسے شیعہ اور سنی علماء نے پیش کیا ہے. شیعیت کی نظر میں مباحث الوہیت و نبوت اورمذہب امامیہ کے دیگر حقائق کا ادراک وہابیوں کے لے میسر نہیں، کیونکہ وہ سخت انحراف فکری میں مبتلا ہیںاور وہ مذہب امامیہ اور غالیہ کو ایک جانتے ہیں، جبکہ اہل تشیع کا غالیوں سے دور دور تک کوئی ربط نہیں، لہٰذا واضح ہے کہ ایسے حالات میں ایک وہابی کے لئے حیران و سرگردان رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بعض سادہ لوح سنی حضرات کے لئے وہابی نظریات قابل قبول ہیں اور وہ سنی متفکرین کو تمسخرآمیز نگاہ سے دیکھتے ہیں (جبکہ سنی اور وہابی دونوں شیعیت کے متعلق خاص نظر رکھتے ہیں) کیونکہ یہ لوگ اہل سنت اور وہابیوں کے درمیان شدید اختلاف سے بے خبر ہیں، لہٰذا وہابیوں کی فریب کاریوں میں مبتلاہوتے ہیں جبکہ یہ تمام مشکلات شیعیت سے آشنا نہ ہونے کا نتیجہ ہیں. جس طرح ١٨ ویںصدی عیسوی میں وہابیت کے وجود میں آنے سے اس مشکل نے شیعوں اور سنیوں میں اختلاف پیدا کیا، اسی طرح دور حاضر میں سنی اور وہابی اختلافات میں یہ مشکل تاثیر گذار ہوئی. اور جب تک یہ مشکل حل نہ ہو اہل سنت اور وہابیت کے درمیان اختلاف سمجھنا ممکن نہیں۔
دور ماضی میں جن مسائل پر شیعوں اور وہابیوں میںاختلاف تھا دور حاضر میں وہی اختلاف سنی اور وہابی اختلاف میں تبدیل ہوچکا ہے اوراہل سنت نے اس بات کو پوری طرح واضح کردیا ہے کہ جن مسائل کی نسبت وہابی، شیعیت کی طرف دیتے ہیں وہ مذہب غلو اور غالیوں سے مربوط ہیں، جن کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں،ا گرچہ وہابیوں کے اس کردار سے شیعہ اور سنی اختلاف میں شدت پیدا ہوئی، لیکن خود سنی اور وہابی میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ شیعہ اور سنی مفکرین نے کئی مرتبہ اس مشکل کی طرف توجہ دلائی اور جب تک اس مشکل خلط کو حل نہ کیا جائے ان تین فرقوں میںآپسی تفاہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ڈاکٹر ناصر قفاری جوایک انتہا پسند مصنف ہے اور شیعوں کو کافر کہتا ہے، نے امامیہ کے متعلق وہابیوں اور سنیوں کے د رمیان ایک مناظرہ پیش کیاہے کہ جو قابل توجہ ہے:
مذہب امامیہ کے متعلق معاصر مصنفین کے نزاع نے مجھے اپنی طرف جذب کیا، مصنفین کا ایک گروہ (جن میں محب الدین خطیب، احسان الٰہی ظہیر ، ابراہیم جبہان شامل ہیں) شیعوں کو کافر کہتا ہے وہ معتقد ہے کہ غلو نے انھیں اسلامی حدود سے خارج کردیا ہے اور دوسرا گروہ (نشار، سلیمان دنیا، مصطفی شکعہ)، انھیں ایک میانہ رو اور ایک ایسا فرقہ تصور کرتا ہے، جن کا غالیوں سے کوئی تعلق نہیں، اور بھنساوی جیسے کچھ لوگ ہیں جو شک و تردید میں مبتلا ہیں اور انھوں نے سنیوں سے ان مطالب کے بارے میں سوالات کئے ہیں، جنھیں محب الدین خطیب و احسان الٰہی ظہیر نے لکھا ہے. البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی اس قسم کے گرداب میں پھنس جائے تو حقیقت اس کے لئے مشتبہ یا ختم ہوجائے گی۔١
اور اس نزاع کی جڑ تک پہنچنے کے لئے میری کوششوں نے مجھے مجبور کیا، کہ ڈاکٹریٹ میں میری تھیسس (Thesis) کا موضوع ''وہابیوں کی مشکل کے بارے میں شیعوں اور غالیوں کے خلط کرنے سے متعلق'' ہو، اس تھیسس (Thesis) میں، میں نے عرض کیا ہے کہ اس قسم کی مشکلات مطالعاتی روش میںاختلاف کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔
......... ............ ................. ...........
(١) اصول مذہب الشیعہ الامامیہ الاثنی عشریہ، ج١، ص١١۔ ١٠. کہ جسے میں نے ناصر قفاری کی رد میں لکھا ہے وہ جلد طبع سے آراستہ ہوگی۔
میرے نزدیک ایک طویل تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہابیوں کے مطالعہ و تحقیق کی روش کے ذریعہ شیعیت کی شناخت ممکن نہیں، اور خود وہابیوں اور اہل تسنن کے درمیان مذہب امامیہ کی شناخت میں گہرا اختلاف پایاجاتا ہے۔
مرحلۂ اول کے نتائج
مذہب تشیع کے بارے میں وہابی روش کے ذریعہ تحقیق کرنے کا مطلب تحقیق کے موضوع (شیعی حقائق) کی قربانی ہے اوران کی روش میں موضوع کے ساتھ اس طرح برتاؤ کیا جاتا ہے کہ گویا مکتب اہل بیت کے پیرو اپنے عقائد بیان کرنے میں کسی بھی قسم کی روش کے حامل نہیں، لہٰذا اہلسنت اور وہابیوں کے اس جدال سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ ہم مکتب تشیع کے عقائد کو سمجھنے کے لئے خود مذہب امامیہ کی تفاسیر اور بیانات کی طرف رجوع کریں، جس طرح سالم بھنساوی کے اس روش کواختیار کرنے کو قفاری نے نقل کیا ہے۔
بھنساوی نے جب مفہوم تشیع میں احسان الٰہی ظہیر اور مصطفی شکعہ کے درمیان اختلاف پایا تو کشف حقیقت کے لئے مذہب امامیہ کے علماء کی طرف رجوع کیا اوران سے گفتگو کے نتائج کو کتا ب ''السنة المفتریٰ علیہا'' میں درج کیا ہے لہٰذا وہ متوجہ ہوئے کہ شیعہ حقائق کے بارے میں سنی مطالعاتی روش، واقعیت سے زیادہ نزدیک ہے۔
اس طرح جن بزرگ سنی مفکر ڈاکٹر حامد حنفی داؤد نے امامیہ افکار کو بیان کرنے میں وہابیوں کی مطالعاتی روش کو چھوڑ کر امامیہ روش اختیار کرنے پر اصرار کیا ہے. آپ علامہ مرحوم مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:
وھابیوں کے انحراف کی دلیلیں
وہ لوگ جواس خیال میںہیں کہ دشمنان شیعہ کے نوشتوں کے سہارے امامیہ عقائد اور شیعی تمدن سے آگاہ ہوں تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں، گرچہ وہ کثرت علم ، اور پوری طرح تسلط رکھتے ہوں اور ان کی روش میں تعصب نہ پایاجاتا ہو، افکار و نظریات کو نقل،یا ان میں تحقیق کرنے میں امین ہوں۔
میں نے أئمہ اہل بیت (ع) کے عقائد (بطور خاص) اور شیعی عقائد (بطور عام) کے مطالعہ اور تحقیق میں سالہا سال اس مذہب کے ناقدین اور مورخین کے نوشتوں کا مطالعہ کیا ہے ،لیکن قطعی طور پر یہ کہہ سکتاہوں کہ میںنے ان نوشتوں میں کوئی بھی قیمتی مطلب نہیں پایا اور اس مذہب (کہ جس کے پیرو دنیا میں پراکندہ ہیں) کے دقیق مطالب کو سمجھنے میں میری تمام کوششیں اور میرا سارا اشتیاق بے ثمر ہی ثابت نہیں ہوا، بلکہ مجھے شیعی نظریات سے دوری حاصل ہوئی، کیونکہ شیعوں کے مخالفین کی تحریروں پر اعتماد نے میری تحقیق کو ناحق اور عقیم بنادیا، لہٰذا حقیقت جوئی کے اس شوق نے مجھے مجبور کیا کہ شیعہ شناسی میںاپنی مطالعاتی روش کو از سر نو پھر سے شروع کروں اور میںنے ارادہ کرلیا کہ ا س مذہب تک خود انھیں کے محققین اور دانشوروں کے نوشتوں کے ذریعہ ہی رسائی حاصل کروں، کیونکہ کسی بھی مذہب کے دانشور، دشمنوں سے زیادہ اور بہتر اپنے عقائد کو جانتے ہیں، چاہے یہ دشمن ماہر خطیب اور توانا مصنفین ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کے علاوہ علمی امانتداری (جو علمی تحقیق کا اہم رکن ہے اور میںنے اپنی تمام تحقیقات اور نوشتوں میں سب سے پہلے اس پر توجہ دی ہے) کا تقاضا ہے کہ انسان کسی بھی مطلب کو نقل کرنے میں پوری طرح دقت کرے اورایک محقق جو مطالب کے سمجھنے پر مسلط اور تیز بین ہو، بلاواسطہ شیعی منابع کی طرف رجوع کئے بغیر کس طرح ان مطالب کے متعلق مطمئن ہوسکتا ہے جنھیں شیعیت سے منسوب کیا جاتا ہے؟ اگر وہ بلاواسطہ منابع کی طرف رجوع نہ کرے، تو گویا اس نے اپنی تحقیق کو غیر علمی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔
انھیں تمام وجوہات نے مجھے مجبور کیا کہ میں شیعہ شناسی میں اپنے مطالعہ کو صرف اور صرف شیعہ کتب میں متمرکز کروں اور کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی کے بغیر شیعہ عقائد کوانھیں کے تقریروں اورتحریروں سے اخذ کروں تاکہ شیعوں کے بارے میں قضاوت کرنے میں دوسروں نے غلطی کی ہے میں اس سے محفوظ رہ سکوں۔
اگر کوئی محقق حقائق کوان کے غیرحقیقی منابع سے اخذ کرنا چاہے تو اس کا یہ کام ظلم اور پوری طرح غیر علمی ہوگا، بالکل اس روش کی طرح کہ جسے شیعوں کے متعلق ڈاکٹر احمد امین مصری نے اپنے نوشتوں میںاختیار کیا ہے، انھوں نے محصلین اور فارغ التحصیل طلبہ کے لئے مذہب شیعہ کے بعض مطالب کو واضح کرنے میںانتہا پسندی سے کام لیتے ہوئے شیعیت کو اسلام میں یہودیت کی شکل اور عبد اللہ بن سبا کا ساختہ و پرداختہ قرار دیا ہے. یہ وہ تہمتیں ہیں جن کا بطلان ثابت و مسلم اور شیعوں کا ان سے بیزار ہونا واضح ہے. شیعہ علماء نے ان باتوں کی رد میں کئی کتابیں لکھی ہیں ،جن میں سے محمد حسین آل کاشف الغطاء ایک ہیں، جنھوں نے کتاب ''اصل الشیعہ و اصولھا'' میںاس امر کے متعلق ایک جامع تحقیق پیش کی ہے۔١
اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ خلط جیسی مشکل بخوبی آشکار ہو جائے۔
وہابی اپنے نوشتوں میں لکھتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ حضرت علی ـ بادلوں کے درمیان تشریف رکھتے ہیں اور شیعہ آپ کے فرزندوں کی ان کے قیام میں مدد نہیں کرتے جب تک کہ خود امام آسمان سے فریاد نہ کریں، کہ اس فرزند کی مدد کرو. لیکن واضح ہے کہ اس قسم کے عقائد کے حامل شیعہ نہیں، بلکہ غالی ہی ہوسکتے ہیں۔
شیعہ علماء کے ذریعہ ان ہی کے علمی مرکز (شہر قم) میں مطالعہ اورتحقیق کے بعد متوجہ ہوا کہ خود شیعہ اس قسم کے عقائد و افکار سے بیزار ہیں . اور (امام مہدی) کے متعلق وہی سب کچھ شیعوں کے یہاں ثابت ہے جو سنیوں کے نزدیک ثابت ہے، کہ امام مہدی (جن کا قیام سنی وشیعہ دونوں کے نزدیک مسلّم الثبوت ہے) قیام کریں گے، آسمان سے ا یک فرشتہ ان کا نام لے گا اور لوگوں کوان کی مدد کے لئے دعوت دے گا.لہذا اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ شناسی کے مطالعات میں وہابی کتب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
......... ............ ................. ...........
(١) مقدمہ کتاب عقائد الامامیہ ٣٣۔ ٢٠.
ہم نے جواہل سنت متفکرین کے اقوال پیش کئے ہیںان سے شیعہ شناسی میں وہابیوں کی شکست اور سنی و وہابی میں عمیق شگاف کی دلیل واضح ہوتی ہے اور وہ دلیل صرف اور صرف ان کا تشیع سے آگاہ نہ ہونا اور ان کا غالیوں میں خلط کرنا ہے۔
ا س مشکل کی وضاحت اور سنی متفکرین کے کلام کو تفصیلی طور پر پیش کرنے کا مقصد مندرجہ ذیل چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے:
١۔ یہ مشکل شیعہ و سنی اور سنی و وہابیوں کے درمیان اختلاف میں شدت پیدا کرنے کے لئے بے حد مؤثر ہے۔
٢۔ شیعہ شناسی میں وہابی مطالعہ کے انحراف اور شکست میںاس مشکل کا اہم رول ہے۔
٣۔ اس مشکل کے حل ہونے سے ان تین فرقوں میں اختلاف کم اور تفاہم میں زیادتی ہوگی۔
٤۔ اس مشکل کے خاتمہ سے مذہب امامیہ کا واقعی چہرہ آشکار ہوگا۔
الٰہی دین و مذہب کا سب سے بڑا خارجی دشمن وہ کفر آمیزالحادی و مادی افکار ہیں جو دین کے مخالف شبہات کو پیش کرتے ہیں۔
میری سمجھ کے مطابق، ہر مذہب کا داخلی دشمن (کہ جواس کے وجود اور ہویت کونابود کرتا ہے) اس مذہب کے حقائق کو شک و تردید کی گھٹاؤں میں چھپا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں مذہب اوردینی حقائق کے غلط اور غیر واقعی معنی وجود میں آتے ہیں اور مذہب برعکس اور بد صورت شکل میں پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بشریت دین سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ، لہٰذا تشیع اور غلو میں خلط کا مطلب حقائق کو شک و تردید کی گھٹاؤں میں چھپانا ہے۔
٥۔ اس بات کی دلیل بیان کرنا مقصود ہے کہ وہابی کس لئے شیعہ اور غالی میں خلط کا شکار ہیں اور یہ واضح ہے کہ اس خلط کی دلیل شیعہ اور غالی کو ایک سمجھنا ہے جب کہ خود شیعہ علماء ان کفر آمیز فرقوں سے بیزار ہیں۔
اب تک جن باتوں کو پیش کیا گیا وہ تشیع کی شناخت کے پہلے مرحلہ سے مربوط ہیں، تشیع کی شناخت کے مراحل میں سے سب سے پہلے مرحلے میں جو اہم مسئلہدرپیش ہے، وہ وہابیوں کی خلط اورانحراف کے اسباب کی پیدائش کا مسئلہ ہے۔
ا س موضوع کے لئے دوبنیادی اسباب یہ ہیں:
١۔ وہابیوں کا آگاہ نہ ہونا۔
٢۔ ان کی مطالعاتی روش۔
پہلی صورت کے وجود میں آنے کی بھی تین دلیلیں ہیں:
١۔ ان کا غلو کے معنی سے مطلع نہ ہونا۔
٢۔ اور تشیع کے معنی کی شناخت نہ ہونا۔
٣۔ غلو اور غالیوں کے ساتھ امامیہ کے موقف سے آگاہ نہ ہونا۔
دوسری صورت کے لئے بھی دودلیلیں ہیں:
١۔ وہابیوں کا طرز تفکر ۔
٢۔ شیعوں کے مقابل موقف اختیار کرنے میں ان کا سنی روش کا ترک کرنا۔
قارئین محترم توجہ فرمائیں کہ ہم ایک بے جان و بے روح تحقیق پیش کرنا نہیںچاہتے، بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ قارئین ان خطروں سے آگاہ رہیں تاکہ ان میں گرفتار نہ ہوجائیں۔