گفتگو کا سلیقہ
 

پیشگفتار
تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں اس کا شکر ادا کرتے ہیں، اسی کی بارگاہ سے مدد اور تمام گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، نفس کی برائیوں اور اپنی بدکرداری سے پناہ مانگتے ہیں، کیونکہ خدا ہی ہے کہ اگر اس نے کسی کی ہدایت کی تو وہ گمراہ نہ ہوگا اور اگر گمراہ کردے تو پھر ہدایت نہیں پاسکتا۔
گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ آلہ و سلم خدا کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔
(اے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ)١
(اے انسانوں اس پروردگار سے ڈرو کہ جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کا جوڑ ابھی اسی کی جنس سے پیداکیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ہیں اور اس خدا سے بھی ڈرو جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابت داروں کی بے تعلقی سے بھی، اللہ تم سب
......... ............ ................. ...........
(١) سورۂ آل عمران، آیت ١٠٢
کے اعمال کا نگران ہے)١
(اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو بھی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا)٢
میرا اس بات پر عقیدہ ہے، کہ مسلمانوں میں وحدت اور آپسی قربت کے لئے ضروری ہے کہ ہماری گفتگو صحیح اور اس میں جذابیت پائی جائے، لیکن اگر آپسی گفتگو میں گذشتہ دو صفات نہ پائے جائیں اور گفتگو علمی اصول پر استوار نہ ہو، تو اس قسم کی گفتگو سے مسلمانوں میں وحدت کے بجائے، دوری میں اضافہ ہوگا۔مذاہب کے متعلق گفتگو میں کئی نکات پائے جاتے ہیں جنکی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔
گفتگوبحث و جدال سے خالی ہو کیونکہ اسلامی مذاہبمیں وحدت کی ایجادکا تنہا راستہ، یہی ہے کہ ہماری گفتگو میں نرمی پائی جائے تاکہ مسلمانوں کی مشکلات حل ہوں اور یہی ایک ایسا راستہ ہے کہ جو مسلمانوں کومتفرق ہونے سے بچاسکتا ہے درحقیقت اس کتاب میں پیروان مذاہب سے نامناسب طرز گفتگو کی اصلاح کی گئی ہے۔
مجھے وہابی علماء سے گفتگو کرنے میں ١٢ سال کا تجربہ حاصل ہے اور بالخصوص میرا وہابیت کے زمانہ کا تجربہ ( جب میں یمن میں تھا اور بزرگان وہابی علماء کے
......... ............ ................. ...........
(١) سورۂ نساء ، آیت ١
(٢) سورۂ احزاب، آیت ٧١۔ ٧٠
سامنے تحصیل علم کے لئے زانوئے ادب تہہ کیا کرتا تھا اور پھر سعودی عرب روانہ ہوکر وہاںایک متعصب وہابی بن گیا، جس کے نتیجہ میں، میںنے شیعوں کی تکفیر میں ایک کتاب بنام ''الصلة بین الاثنی عشریة و فرق الغلاة''١لکھا پھر جب وہابیت سے دستبردار ہوا تو حقائق و خصائص شیعہ اثناعشری کی وضاحت کے لئے ایک اور کتاب بنام ''رحلتی من الوہابیة الی الاثنی عشریة''٢تحریر کی، جس کے بعد میں یہ جانتاہوںکہ وہابی افراد سے کس طرح گفتگو کی جائے۔
وہابی افراد سے مناظرہ میں ضروری ہے کہ ہماری گفتگو میں مندرذیل خصوصیات پائی جائیں:
١۔ ضروری ہے کہ ہم وہابی شخص کواس بات کے لئے آمادہ کریں کہ ہماری گفتگو کا محورایک مذہبی موضوع نہیں، بلکہ ایک آیت یا حدیث یا اس آیت و حدیث کے نکات میں سے ایک نکتہ ہوگا اور اس کی وجہ ان کی فکری توانائی کا قوی نہ ہونا ہے ایک ہی مرحلہ میں وہ امامیہ مذہب کے حقائق کو درک نہیں کرسکتے، اسی لئے ضروری ہے کہ قدم بہ قدم ایک آیت و حدیث کے بعد دوسری آیات و احادیث کی طرف رجوع کیا جائے اور مد ّمقابل کو ابتداہی میںاس روش سے آگاہ و آشنا کیا جائے، تاکہ وہ اس روش کی اہمیت کو جانتے ہوئے ، اپنی گفتگو میں اس پر توجہ دے۔
......... ............ ................. ...........
(١) شیعہ غلاة سے وابستہ ہیں.
(٢) میرا وہابیت سے امامیہ کی طرف کوچ کرنا.
قارئین کے لئے بھی یہ بات واضح ہے کہ تمام یونیورسٹیوں میں ایک کلی مسئلہ پر گفتگو نہیں کی جاتی، بلکہ ہمیشہ گفتگو کا محور کلی موضوع کاایک حصہ ہوتا ہے اور انھیں قسم کی تحقیقات مثمر ثمر ہوتی ہیں. اسی لئے ہم اس کتا ب میں مختصر و مفید موضوعات پر اس روش کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کریں گے تاکہ وہابی شیعیت کے حقائق کو درک کرسکیں۔
٢۔ ضروری ہے کہ ایک وہابی شخص سے مناظرہ کے دوران حدیث ثقلین کو گفتگو کا محور قرار دیا جائے، لیکن اگرہم نے فضائل حضرت علی ـ کے متعلق گفتگو کی، تو وہ بھی دیگر صحابہ کے کچھ فضائل نقل کریں گے، جس کے نتیجہ میں بحث مشکلات سے دوچار ہوگی۔
اور اگر وہ حضرات دیگر اصحاب کے لئے بعض فضیلتوں کے قائل بھی ہوں، تو بھی انھیں کے نظریہ کے مطابق یہ فضائل ان اصحاب کی پیروی و اطاعت پر دلیل نہیں بن سکتے، جبکہ حدیث ثقلین ایک ایسی حدیث اور فضیلت ہے کہ جو واضح طور سے مولائے کائنات کی اطاعت پر دلالت کرتی ہے۔
اور اگر گفتگو کا محور قرآن ہو تو آیۂ ولایت کے بجائے آیۂ تطہیر کو انتخاب کیاجائے کیونکہ آیۂ تطہیر اور حدیث ثقلین میں عمیق ارتباط پایا جاتاہے اور جو اہل سنت آیۂ تطہیر اور واقعہ کساء کو نقل کرتے ہیں تو وہ حدیث ثقلین کو بھی انھیں سے مربوط جانتے ہیں اور کسی بھی مسلمان نے حدیث ثقلین کے حدیث کساء سے مرتبط ہونے کا انکار نہیں کیا ہے ، لہٰذا آیۂ تطہیر کے متعلق ہماری گفتگو، حدیث کساء و حدیث ثقلین تک راہنمائی کرتی ہے۔
وہابی افراد سے گفتگو کے لئے میرا، حدیث ثقلین کا انتخاب کرنااور اس انتخاب پر تاکید کی وجہ، خود پیغمبر اسلامۖ کا اس حدیث کواہمیت دینا ہے جیسا کہ خود رسول اکرم ۖ نے فرمایا کہ اگر امت ثقلین سے متمسک ہو جائے تو گمراہی سے بچ جائے گی اور آپ نے زندگی کے آخری لمحات تک ا س حدیث پر عمل کی تاکید کی جو کہ امت اسلامیہ کے لئے رسولۖ کی طرف سے ایک امانت ہے . تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ اسی حدیث ثقلین کی وجہ سے کتنے سنی اور وہابی افراد کی فکروں میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے ہدایت کو قبول کیا ہے، لہٰذا میرا عقیدہ ہے کہ گفتگو کا آغاز حدیث ثقلین سے ہو. اور اگر عنوان و موضوع کچھ اور ہو تو گفتگو کا ثمرہ ظاہر نہیں ہوگا.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اس گفتگو کا ہدف قابل اصلاح وہابیوں کی ہدایت ہے تاکہ وہ مذہب اہلبیت (ع) سے منسلک ہو کر اس کا اتباع کریں اور اس میں بھی کوئی تردید نہیں ،کہ ان میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان کے لئے حق ثابت ہو جائے تو وہ اس کی پیروی کریں گے۔
مناظرہ میں کسی بھی وقت نہ میں نے مدّمقابل کے بارے میں سوء ظن کیا، اور نہ ہی اسے حق کا دشمن سمجھا ہے، میری نظر میں فقط وہ ایک بیمار ہے کہ جسے ایک اچھے اور ماہر طبیب کی ضرورت ہے، گفتگو کے دوران ہمیشہ میں اپنے ماضی پر نظر رکھتاہوں، کہ میں بھی ایک وہابی تھا لیکن بحمد اللہ میںنے حق کو جانااور اس کی پیروری کی اور اس حسن ظن کے ساتھ میںنے اس کتاب کو لکھا ہے لہٰذا دوسروں تک اپنے پیغام کو پہنچانے میںاس روش (حسن ظن) کو مؤثر جانتا ہوں۔
ان بارہ سالوں میں وہابیوں سے مناظرہ کے دوران طرفین کے تند و تیز حرکات سے بخوبی واقف ہوں، گرچہ شیعہ و سنی وشیعہ میں بحد معمول قدیم الایام سے اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ اختلاف آج کے شیعہ اور وہابی اختلاف جیسا نہیں تھا۔
اس دشمنی و عناد کا بیج محمد بن عبد الوہاب نے بویا کہ جس کے نتیجہ میں آج تک امت مسلمہ مشکلات میں گرفتار ہے اور دشمنان اسلام اس فرقہ سے سوء استفادہ کر رہے ہیں (تاکہ مسلمانوں میں ہرج و مرج پیدا کریں) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ہرج و مرج کشیدگی اوراتحاد نہ ہونے سے دشمنان اسلام قوی ہوں گے، اسی لئے ضروری ہے کہ ہماری گفتگو علم و منطق سے آراستہ ہو ،تاکہ مباحث کی مشکلات کو ختم کرسکیں اور ہماری گفتگو مفید واقع ہو۔
ہم گفتگو میں کوشش کریں کہ بنی امیہ اور منافقین نے مسلمانوں کو اہلبیت (ع) سے دور رکھنے میں جو سازشیں رچی ہیں انھیں بیان کریں، تاکہ مسلمانوں کو ثقلین سے دوری کا احساس ہو . شیعہ ہونے کے بعد میری یہ پوری کوشش رہی کہ مختلف مذاہب کے علماء سے گفتگو کے لئے ایک مناسب اور صحیح روش کو مدنظر رکھوں اوراگر اس روش پر عمل نہ ہو تو میرے عقید ے کے مطابق گفتگو کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
جامعہ شناسی اور نفسیات کی رو سے، میںنے اپنی گفتگو میں تین اساسی چیزوں کو مد نظر رکھا ہے تینوں پر عمل اور اس کی ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
١۔ کلمات کے صحیح معنی بیان کئے جائیں چونکہ معمولاً مباحث میں طرفین ایک ہی کلمہ سے مختلف، بلکہ متضاد معانی کا ارادہ کرتے ہیں بطور مثال، عصمت یا تقیہ کی جو تفسیر وہابی علماء کرتے ہیں وہ امامیہ تفسیر سے بالکل الگ ہے۔
٢۔ ابتدائے کلام ہی سے وہابی شخص کو قبول کرنا ہوگا کہ وہ ایک اسلامی فرقہ سے مربوط فرد سے گفتگو کر رہا ہے، بالکل اہل سنت کی طرح کہ جو شیعیت کو اسلامی فرقہ جانتے ہیں۔
٣۔ لیکن اگر وہ شیعوں کو کفار کا خطاب دیں تو انھیں یہ جان لینا چاہیئے کہ انھوں نے تمام اہل سنت کی مخالفت کی او ران سے گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں. ( میں اپنے تمام معاملات کوخدا کے حوالے کرتا ہوں،کہ بے شک وہ تمام بندوںکے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے)۔١

عصام علی یحییٰ العماد
صنعاء ١٤١٢ ہجری
......... ............ ................. ...........
(١) سورۂ غافر ، آیت ٤٤