|
عرض ناشر
حقیقت میں عشق ایک ایساراستہ ہے جو عاشقان نور کواپنی طرف جذب کرکے انھیں حقیقت کی آغوش تک پہنچاتا ہے اور پروردگار عالم کی خوشنودی کا سبب بنتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ راستہ سختیوں اور حساس پیچ و خم سے مملو ہے. اس راستہ پر چلنے والے صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے صبر کا پیمانہ وسیع اور فکر میں استقامت ہو. اس سخت و خوفناک سفر کو طے کرنے کے لئے ایک ایسے مرکب کا ہونا ضروری ہے جو حقیقت کا سفر کرنے والوں اور عاشقان نور کو مشکلات اور طوفان میں گرفتار ہونے سے بچائے۔
بے شک حقیقت جوئی کے اس پر خطر سفر میں (بالخصوص جہاں مذہب حق کی بات درپیش ہو) جذبات و احساسات کے بجائے عقل و خرد سے کام لینا ضروری ہے . اورا س مقام پر گنجائش نہیں کہ ہم حق و حقیقت کے بارے میں کچھ کہہ سکیں چونکہ یہ کتاب خود حق و حقیقت کو پہچنوانے کے لئے ایک مفید نمونہ اور زندہ مثال ہے جس میں حقیقت جوئی کے پر پیچ و خم سفر کو پیش کیا گیا ہے۔ لہٰذا الگ سے اس موضوع پر بحث کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
کسی بھی کتاب کے علمی معیار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کی موضوع پر مہارت اور تجربہ کا اندازہ لگائیں، تو اس کتاب کی اہمیت دوچندان ہو جاتی ہے اور یہ دو خصوصیتیں (موضوع پر مہارت، تجربہ) اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر سید عصام میں بخوبی پائی جاتی ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت کے لئے ڈاکٹر عصام ایک ایسے دانشور ہیں جوسالہا سال دینی علوم سے وابستہ تھے اور آپ نے حقیقت کی تلاش میں کافی تجربات بھی حاصل کئے۔
یہ وہی متعصب وہابی ہیں کہ جنھوں نے خود کو وہابیت کی ظلمتوں سے نجات دلا کر اپنے عقیدہ و فکر کو اہل بیت ٪ کے نورانی کارواں سے منسلک کرلیا ،گرچہ پہلے بھی سیادت کی بنا پر اس نورانی کارواں سے منسلک تھے۔
انھوں نے حقیقت جوئی کے اس سفر میں بے شمار تجربات حاصل کئے جن کی طرف قارئین محترم مطالعہ کے دوران متوجہ ہوں گے، ڈاکٹر عصام کا یہ طویل تجربہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔
یمن کا سنی معاشرہ آپ کو شہر صنعا کی مسجد میں امام جماعت اور ایک مدرس کی حیثیت سے جانتا تھا یہ وہی طالب علم تھے کہ جنھوں نے قاضی احمد سلامہ محمد بن اسماعیل عمرانی اور ڈاکٹر الوہاب دیلمی جیسے یمن کے بزرگ وہابی علماء کے سامنے زانوے ادب تہہ کیا اور اس کے بعد فن حدیث میںریاض کی ابن سعود ریاض کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور آہستہ آہستہ سعودی عرب کے بزرگ مفتی ابن باز کے نزدیک حاضر ہونے کی اجازت حاصل کی جن سے متاثر ہوکر آپ نے شیعیت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور آپ کا شمار شیعیت کے سخت ترین دشمنوںمیں ہونے لگا۔
لیکن پروردگار عالم مومنین کا سرپرست ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف ہدایت کرتا ہے.١ اور خدا جس چیز کا ارادہ کرلے اسے انجام دیتا ہے.٢ خدا کی طرف سے ہدایت و توفیق کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ان کا کٹر وھابی دل نرم ہونے لگا اور وہ چشمۂ حقیقت سے سیراب ہوئے. سب سے پہلے ڈاکٹر عصام عماد اہل سنت کے ان ضعیف اقوال کی طرف متوجہ ہوئے جو علم رجال میں جرح و تعدیل کی بحث سے مربوط ہیں اور اسی مقام پر آپ نے سنی علماء کے فکری انحراف کو بہت ہی قریب سے محسوس کیا. یہی وہ پہلا قدم تھا جسے ڈاکٹر عصام نے حق و حقیقت کی تلاش میں اٹھایا۔
اس مقام پر مصنف کے متعلق مزید گفتگو کی گنجائش نہیں چونکہ خود مصنف نے اس کتاب میں اپنے متعلق واقعات کو بیان کیا ہے مصنف کی اس کتاب اور دوسری کتابوں اور مناظروں کا مقصد مذہب امامیہ کے اعتقادات کو صحیح اور مناسب طور پر سنی حضرات سامنے پیش کرنا ہے تاکہ وہ بھی مذہب اہل بیت سے منسلک ہو کر تمام مسلمانوں میں اتحاد اورگفتگو کی راہ پیدا کریں، انشاء اللہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک دن مسلمانوں کا یہ آپسی اختلاف ختم ہو جائے گا (الہٰی آمین)
اب سوال یہ ہے کہ اس کتاب کو لکھنے میں جس روش کو مصنف نے انتخاب کیا ہے وہ کس حد تک قارئین کے لئے مؤثر واقع ہوگی؛ ہم معتقد ہیں کہ ڈاکٹر عصام العماد اس روش میں موفق اور کامیاب رہیہیں لہٰذاا قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی نیک آراء سے ہم کو مستفیض فرمائیں۔
مؤسسہ معارف اسلامی کوثر
قم
......... ............ ................. ...........
(١) سورۂ بقرہ، آیت ٢٥٧
(٢) سورۂ حج، آیت ١٤
نوٹ: یہ عرض ناشر فارسی ترجمہ سے مربوط ہے۔
عرض مترجم(نسخۂ عربی)
بلاشک و شبہ ، امت اسلامی میں اتحاد ایک مطلوب امر ہے ابتدا ئے اسلام ہی سے، بلکہ دین اسلام کے اصلی متون، یعنی قرآن و احادیث میں بھی اتحاد کے لئے تاکید کی گئی ہے۔
لیکن زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کلمات کی طرح، کلمۂ وحدت کے مفہوم میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ،یہاں تک کہ دور حاضر اس کے جو مفہوم مراد لیا جارہا ہے وہ اس کے ماضی کے معنی سے بالکل الگ اور بے گانہ ہے۔
جیسا کہ علم، امامت، خلافت، حکمت، زہد، جیسے کلمات میں بھی اس قسم کی تحریفات واقع ہوئی ہیں اور دور حاضر میں کلمۂ وحدت کو مندرجہ ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے:
١۔ وحدت یعنی مخالفین کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کاعلمی مناظرہ نہ کیا جائے ۔
٢۔ وحدت یعنی تمام مذاہب حق پر ہیں۔
٣۔ وحدت یعنی اس بات پر عقیدہ ہو کہ روز قیامت نجات صرف اور صرف امامیہ مذہب سے مخصوص نہیں۔
٤۔ وحدت یعنی بعض شیعی عقائد اور مذہبی متون میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
٥۔ وحدت یعنی مسلمانوں کے اختلاف کو اجتہادی سمجھا جائے۔
٦۔ وحدت یعنی تمام صحابہ کی تائید کی جائے۔
وحدت کے متعلق اہل تسنن کا نظریہ یہ ہے:
حق کسی مخصوص گروہ میں منحصر نہیں بلکہ تمام اسلامی فرقوں میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔
اسی طرح روز قیامت، نجات بھی کسی خاص فرقہ سے مخصوص نہیں،اور مسلمانوں میں تمام فکری اختلافات دینی نصوص میں مطلوب اور مورد تائید اجتہاد کا نتیجہ ہیں لہٰذا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم دیگر فرقوں کے آراء و عقائد باطل سمجھیں اور انھیں حقیقت سے بے خبر جانیں بلکہ جہاں جہاں اختلاف ہو وہاں سکوت اختیار کیا جائے۔
شیعوں کو بھی حق دیا جائے، انھیں فتنہ پرور نہ کہا جائے، اور نہ ہی ان سے نفرت و بیزاری کو دل نکال دیا جائے، کیونکہ یہ عمل شائستہ نہیں، جبکہ ہمارے اور اہل تشیع کے درمیان اعتقادی اصول اور اکثر فقہی ارکان میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، صرف اختلا ف امامت کے مصداق میں ہے شیعہ امامت کا انکار نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس امامت اور خلافت کی (حقانیت) پر شرعی دلائل بھی موجود ہیں. اور اس زمانہ میں خلافت کے متعلق گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں، اور ہم سے کیا مطلب کہ انھوںنے ماضی میں کیا کارنامے انجام دیئے اور کن چیزوں کو ترک کیا۔
لیکن شیعوں کے نزدیک وحدت کے منصوص معانی یہ ہیں:
١۔ تمام مذاہب اور فرقوں کی پیروی کرنے والے آپس میں میل ملاپ کے ساتھ زندگی گزاریں۔
٢۔ ان کے اجتماعی روابط میں گشیدگی نہ ہو۔
٣۔ اعتقادات اور مذہبی سنتوں کی محافظت کے ساتھ تعصب کو ختم کیا جائے تاکہ اجتماعی زندگی میں فتنہ کے بجائے امنیت برقرار ہو۔
٤۔ کسی قسم کے لئے حساس پہلو کو اجاگر کرنے سے پرہیز کیا جائے ، جو شخص سماج کے دینی یا دنیاوی امور کے لئے نقصان دہ ہو۔
اور یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اس روش کے اختیار کرنے کا مقصد، کسی کو نقصان پہنچائے بغیر دین اسلام کی محافظت ہے. ہم اعتقادی اور مذہبی اختلافات کے ہوتے ہوئے کبھی اس بات کے لئے حاضر نہیں کہ مسلمانوں اور اسلامی معاشرے میں تعصب اور فتنہ ایجاد کریں اورمبنائی اختلاف اور فتنہ و فساد، یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں. فتنہ سے اجتماعی روابط خراب ہوتے ہیں اور وہ فکری اختلاف جن کی بنیاد پوری طرح سے علمی اصول پر استوار ہوتی، ان سے کبھی اجتماعی روابط خراب نہیں ہوتے۔
٢۔ سب سے پہلی مرتبہ ڈاکٹر عصام العماد سے انٹرٹت کے ذریعہ میرا تعارف ہوا اور وھابی عثمان الخمیس سے آپ کے بعض مناظروں کا مطالعہ بھی کیا جس کے نتیجہ میں، میں آپ کی روش کا شیفتہ و فریفتہ ہوگیا آپ کی گفتار میں ادب، لہجہ میں اطمینان، مناظرہ میں ایک خاص روش کی عکاسی کرتا ہے چند دن بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ خود ڈاکٹر عصام عماد کچھ عرصہ پہلے ایک متعصب اور کٹر وہابی تھے اور کئی سال آپ نے یمن و سعودی عرب میں بڑھ چڑھ کر شیعیت کی مخالفت کی، لیکن خدا کی عنایت او ر اس کے فضل سے آپ شیعہ ہوگئے اور ہمیشہ آپ نے کوشش کی کہ بنحو احسن وہابی علماء سے مناظرہ و گفتگو کریں. جب میں اس بات سے آگاہ ہوا کہ ڈاکٹر عصام العماد نے وہابی علماء سے طریقۂ گفتگو کے متعلق بنام'' المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین''کتاب لکھی ہے تو میں نے ان سے اپنے کسی دوست کے ذریعہ ملاقات کی اور یہ کتاب ''گفتگو کا سلیقہ'' ان ہی چند ملاقاتوں کا نتیجہ ہے۔
٣۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم وہابیوں سے روابط برقرار کرنے کا طریقہ جانیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ شیعیت سے آگاہ کریں،تاکہ ان کے لئے راستہ ہموار ہو اور وہ اہلبیت ٪ کے شیعہ بن جائیں. مصنف نے ہمیشہ وہابیوں کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ مذہب اہلبیت (ع) سے آشنا ہوں اور وہ معتقد ہیں کہ بعض وہابی جو کہ نہ متعصب ہیں اور نہ ہی دشمنوں کے بہکانے پر بہکے ہیں، اگر انھیں حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو ڈاکٹر عصام کی طرح وہ بھی حق کو قبول کریں گے۔
کلمۂ وحدت و تقریب سے مصنف کی مراد یہ ہے کہ اختلاف کو ختم کرتے ہوئے ہم سب آپسی سمجھوتے کی طرف قدم بڑھائیں، اس امید کے ساتھ کہ تمام عالم میں شیعیت کا پرچم لہرائے۔
حقیقت میں یہ کتاب ''رحلتی من الوہابیة الی الأثنیٰ عشریة'' کا خلاصہ ہے۔
٤۔ یہ کتاب ''المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین ''کا لفظی ترجمہ نہیں، بلکہ ڈاکٹر عصام سے گفتگو کے بعد میں نے ترجمہ کے ساتھ اس کتاب کی تصحیح کا کام بھی شروع کیا، جس کے نتیجہ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں وہ یہ ہیں:
١: تکراری مطالب کا حذف کرنا ٢: طولانی عبارتوں کا خلاصہ کرنا ٣: ایرانی ثقافت اور فارسی زبان سے ہماہنگی کو مدنظر رکھنا ٤: بلند و طولانی حاشیوں کو متن میں قرار دینا۔
٥۔ مصنف کے معنی و مراد کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کلمات کا انتخاب کرنا، بطور مثال، مصنف نے جہاں کلمۂ وحدت یا تقریب سے استفادہ کیا ہے ان سے مشورہ کے بعد میں کلمۂ تفاہم یا ہمزیستی مسالمت آمیز کو استعمال کیاہے. اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مصنف نے اس کتاب میں شیعیت کو'' المذہب الاثنیٰ عشری'' کے نام سے یاد کیا ہے او راس کلمہ کے استعمال پر تاکید بھی کی، اور معتقد ہیں، کہ وہابیوں کے لئے یہ کلمہ حساس نہیں، تشیع اور شیعیت، ایسے کلمات ہیں جن کا دائرہ معنی کے لحاظ سے بہت وسیع ہی ہے اور شیعہ، دوازدہ امامی کے علاوہ، دوسرے فرقوں کو بھی کہا جاتا ہے، جبکہ وہ تمام فرقے امامیہ کے نزدیک باطل ہیں۔
لیکن قارئین کی سہولت اور عبارت کی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، میں نے تشیع ،شیعہ، امامیہ، شیعہ امامیہ اور شیعہ ٔ دوازدہ امامی جیسے تمام کلمات سے استفادہ کیاہے، لیکن یہ بات واضح رہے کہ ان تمام کلمات سے مراد صرف اور صرف مذہب اثنیٰ عشری اور شیعۂ دوازدہ امامی ہی ہیں۔
والسلام علی من اتبع الہدی
مصطفی اسکندری
قم
|
|