اسلام اور آج کا انسان
 

گيارہواں حصّہ:

چنداعتراضات اور ان کے جواب

سلام عليکم ورحمة الله وبرکاتہ ا پ کا خط ملا اورکتاب “شيعہ دراسلام”اور“تفسيرالميزان ”کے مطالب کے بارے ميں کئے
گئے اعتراضات کا بهی مطالعہ کيا ۔ان کتا بوں کے مطالب کے بارے ميں عميق توجہ عنایت
فرمانے پر بہت بہت شکریہ۔جزاکم الله تعالی عن الحق والحقيقة خيرالجزاء۔
ذیل ميں اعتراضات کا خلاصہ اور ان کے جواب ملا حظہ فرمائيں:

اسلام ميں شبہ کے معنی
پ ہلا اعتراض: کتاب “شيعہ دراسلام ”کے چوتهے صفحہ پر کہا گيا ہے :“اسلام تسليم
کے معنی ميں ہے ”یہ معنی لغوی طور پر صحيح ہے ،ليکن اسلامی اصطلاح ميں یہ کلمہ ایک
ایسے دین کا نام ہے جسے رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم لائے ہيں “ماجاء محمد صلی
الله عليہ وآلہ وسلم ”ليکن آپ کی تفسيرکے مطابق:
سب سے پہلے :ہم آیہ کریمہ :<ومن یبتغ غير الاسلمٰ دینا فلن یقبل منہ > ١سے
رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی خاتميت کو ثابت نہيں کرسکتے۔
دوسرے یہ کہ :آپ کی تفسير،اسلام کے معنی کی تفسير ميں بيان کی گئی
اوراصطلاحی معنی کی تائيد کرنے والی بہت ساری روایتوں کے منافی ہے ،جيسا کہ اصول
کافی کی دوسری جلد ميں آیا ہے ۔
١۔اورجو اسلام کے علاوہ کوئی بهی دین تلاش کرے گا تووہ دین اس سے قبول نہيں کيا جائے
گا آل عمران/ ٨۵
ت يسرے یہ کہ :دنيا کی مختلف امتوں کے اجماع کے مطابق لفظ “اسلام”ایک ایسے دین
کانام ہے جسے حضرت محمد مصطفی صلی الله عليہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے لاتے ہيں ۔
جواب:کتاب“شيعہ دراسلام” کی عبارت یوں ہے:
”لغت ميں”اسلام تسليم کرنے اورگردن جهکانے کے معنی ميں ہے ۔قرآن مجيد جس دین
کی طرف دعوت کرتا ہے اس کا نام اس لئے اسلام رکها گيا ہے کہ اس کا کلی پروگرام انسان کا
خالق کائنات کے سامنے تسليم ہو نا ہے اور دنيا کے لوگ خدائے واحدکے علاوہ کسی کی
پرستش نہ کریں اور اس کے فرمان کے علاوہ کسی کی اطاعت نہ کریں ۔“
مجهے تعجب ہو رہا ہے کہ اس عبارت سے کہاں یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اسلام کا ایک
سے زیادہ معنی نہيں ہے اور وہ صرف لغوی معنی ہے ،اور قرآن مجيد اورحدیث ميں جہاں بهی
اسلام کا لفظ آیا ہے اسے صرف لغوی معنی ميں لينا چاہئے ؟اور کيا یہ عبارت وجہ تسميّہ کے
علاوہ کسی اورچيز پر مشتمل ہے ؟اور جناب عالی نے خود بهی عبارت کے ضمن ميں اعتراف
فرمایا ہے :“اسلام، خدائے متعال کے سامنے تسليم محض ہے ،ليکن یہ تب تک محقق اور
ظاہرنہيں ہو سکتا ہے جب تک نہ شہادتين اورکچه ضروری اعمال کو انجام دیا جائے ۔ ”یعنی یہ
دین اسم مصدرکے معنی ميں تسليم کا مصداق ہے ۔
ب ہر حال،لفظ“اسلام ”اس مقدس دین کا نام ہے اور لغت کے مطابق تسليم اور اطاعت
کے معنی ميں ہے اور کتاب وسنت کے بہت سارے مواقع پر ہردو معنی ميں استعمال ہوا ہے
،اس آ یہ کریمہ کے مانند:
> ومن احسن دینا ممن اسلم وجهہ لله وهومحسن واتبع ملتہ ابراهيم حنيف> ١
جواس پر دلالت کرتی ہے کہ ملت ابراهيم ،اسلام کے لغوی معنی کا مصداق ہے ۔ اسی
طرح یعقوب کے فرزندوں اوراس امت کے مومنين سے یہ جملہ نقل کرتا ہے <ونحن لہ
مسلمون > ٢ یہاں پر مسلمون کی تعبيرکی دليل لغوی معنی مراد ہے ۔
ل يکن جو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ :“اگراسلام اصطلاحی کے معنی ميں نہ ہو تو ہم خاتميت
کو اس آیت:<ومن یبتغ غيرالاسلام دینا فلن یقبل منہ> ٣سے ثابت نہيں کرسکتے ہيں ”یہ اس
وقت ممکن ہے جب خاتميت کے لئے اس آیت کے علاوہ کوئی اور دليل نہ ہواور اس کا قبلی
دشمن بهی مسلم ہو تو اسلام اس آیت ميں اصطلاح کے معنی ميں ہے اور دونوں مطلب ممنوع
ہيں ۔
ل يکن آپ نے جو یہ فرمایا :“روایتيں اصطلاحی معنی کی تائيد کرتی ہيں ” اصطلاحی
معنی کے وجود کا کوئی منکر نہيں ہے ،ليکن اصطلاحی معنی کا وجود لغوی معنی اور اس کا
مقصودہونے کی نفی نہيں کرتا ہے ،اور روایتيں کبهی اصطلاحی معنی اور اس کے وصف کو بيان
کرتی ہيں اور کبهی تسليم کے معنی ميں اسلام کے درجات اور مراتب بيان کرتی ہيں ۔
ل يکن آپ نے جویہ فرمایا ہے :“اسلام دنيا کی تمام مختلف امتوں کے اجماع کے مطابق،
ایک ایسے دین کا نام ہے جسے حضرت محمد صلی الله عليہ والہ وسلم لائے ہيں ”اس ميں
کوئی شک وشبہ نہيں ہے کہ اسلام واقعاًاس دین مقدس کا نام ہے اور قرآن مجيد کے
١۔اور اس سے اچهادین دارکون ہو سکتا ہے جو اپنارخ خدا کی طرف رکهے اورنيک کرداربهی ہو
اورملت ابراهيم کا اتباع کرےنساء/ ١٢۵
٣۔آل عمران/ ٨۵ ، ٢۔بقرہ / ١٣٣ و ١٣۶
بيان کے مطابق یہ نام گزاری پہلے حضرت ابراهيم عليہ السلام سے شروع ہوتی ہے ۔
>اذقال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لربّ العٰلمين > ١هو سمّٰکم المسلمين من قبل” ٢
قرآن مجيد اسلام سے آراستہ ہونے کو ابراهيم عليہ السلام اور اس کی امت کے بعد
والے انبياء سے نقل کرتا ہے ،جيسے :اسماعيل عليہ السلام ،اسحاق عليہ السلام ،یعقوب
عليہ السلام ،سليمان عليہ السلام ،یوسف عليہ السلام ،فرزندان یعقوب عليہ السلام ،فرعون
کے ساحر،ملکئہ سبائ اور حضرت عيسیٰ عليہ السلام کے حواری۔
خدا کے دین کا نام “اسلام”رکهاجانا،اس کے پيش نظرکہ مصداق تسليم تها،پہلے
توصيف کے عنوان سے تهانہ علم نہو کی اصطلاح ميں علم تها ،جيسے کہ اسمائے حسنیٰ
سب کے سب صفات ہيں ،ليکن انهيں اسماء الله کہتے ہيں اور بعد ميں استعمال کی کثرت کی
وجہ سے غلبہ کے طور پر علم ہوئے ہيں پهر بهی اس ميں “الاسلام ” کے “الف لام”کے لغوی
معنی کا اشارہ ختم نہيں ہواہے ۔

”شيخيہ” اور“کریم خانيہ”فرقے جسمانی معاد کے منکر ہيں:

دوسرااعتراض:
”شيخيہ”اور“ کریم خانيہ”کے دوفرقے دوسرے شيعوں سے اختلاف رکهنے کی وجوہات
کی بنا پر،اس عنوان سے کہ ان کے اختلافات بعض نظریاتی مسائل کی تو جيہ ميں
١۔“جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا کہ اپنے کو ميرے حوالے کردوتو انہوں نے کہا ميں رب
العالمين کے لئے سرپا تسليم ہوں”بقرہ/ ١٣١
٢۔“اس نے تمہارانام پہلے بهی مسلم رکهاہے ”حج/ ٧٨
ہيں نہ اصل مسائل کے اثبات ونفی ميں ،آپ نے ان کے اختلاف کو فرقہ قرارنہيں دیا ہے ،جبکہ
وہ معاد اورمعراج جسمانی کے منکر ہيں اور حضرت حجت عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے
بارے ميں بهی کچه باتيں کرتے ہيں
جواب:کسی دین یا مذہب سے خارج ہونے کامعيار،اس دین یا مذہب کی بعض ضروریات
سے انکار کرنا ہے ،اس معنی ميں کہ کوئی شخص کسی ایسے مسئلہ سے انکار کرے ،جس
کا اس دین یا مذہب ميں ہو نا ضروری اوربدیہی ہو اوران مسائل ميں بنيادی مسئلہ ہونا ضروری
ہے اوراس کی خصو صيات نظری ہيں ۔جو شخص کتاب وسنت کے ظواہر سے ایک غير جسمانی
معاد کے وجود کو سمجهے ،باوجود اس کے کہ مذکورہ ظواہر عادی افہام کے مطابق اس کے
جسمانی ہونے کی دلالت کرتے ہيں ،اس شخص کے لئے جسمانی معاد کا وجودضروری نہيں
ہے تاکہ اس کا انکار،ضروریات کا انکار ہو اور دوسروں کی نظر ميں اس کا ضروری ہونا اس سے
کوئی ربط نہيں رکهتا ہے اوراگر اس سلسلہ ميں کسی اجماع کو بهی فرض کيا جائے ،تو وہ
اجماع غير احکام فر عيہ ميں ہوگا ،اس لئے وہ اس کے لئے حجّت نہيں ہے ۔
کيا عرفان اور تصّوف موردتائيد ہے ؟

تيسرا اعتراض:

کتاب “شيعہ دراسلام”ميں جو آپ نے عرفان وتصوف کے بارے ميں بيان فرمایا ہے ،اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عرفان وتصوف کو صحيح جانتے ہيں ،جہاں پرآپ اس گروہ کی پيدائش
اورنشوونماکی تاریخ اور ان کی اپنی روش کی حفاظت ميں جد وجہد کا ذکر کرتے ہيں ،جبکہ
ائمہ اطہار عليہم السلام اور فقہا نے انهيں کافرڻهہرایا ہے اوران کے اقوال کو کسی صورت ميں
صحيح اور معتبرنہيں جانتے ہيں ۔
ا س کے علاوہ آپ اپنے بيان کو جاری رکهتے ہوئے فرماتے ہيں :“عارف وہ ہے جو خدا کو
محبت کی راہ سے پرستش کرے نہ ثواب کی اميد یا عذاب کے ڈرسے”اس کے بعد فرماتے ہيں
:“خدا کی پرستش کرنے والے تمام ادیان ميں کچه ایسے افراد پائے جاتے ہيں جو عرفان کا
مسلک رکهتے ہيں حتی بت پرستی ميں ،بت پرستی،یہودیت ،مسيحيت ،مجوسيت اوراسلام
ميں بهی عارف اورغير عارف ہيں ” ۔کيا اس بيان کا لازمہ یہ نہيں ہے کہ بت پرستی ميں ایسے
لوگ بهی ہيں جو خدا کی محبت کی وجہ سے پرستش کرتے ہيں کيا یہ بات صحيح ہے؟
جواب: ہم نے کتاب “شيعہ دراسلام ”کی ابتدا ميں عہد کيا تها کہ مذہب شيعہ کا تعارف
کرکے ان کی پيدائش اورنشوونما کی تاریخ اوران کے مختلف گروہوں ميں تقسيم ہونے اوران کے
افکار کو بيان کریں گے ۔یہاں پر ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق کسی طرفداری کے بغيرعرفان کی
پيدائش اوراس کے بقاء کی تاریخ کو خلاصہ کے طورپر بيان کيا ہے اور ان کے لئے کسی عظمت
کو ثابت نہيں کياہے ۔ہم نے اجمالی طورپر ان کی عقلی ا ورنقلی دليل (آپ کی فرمائش کے
برخلاف کوئی معقول ومنقول دليل ذکر نہيں کی ہے )کی طرف اشارہ کيا ہے ۔
ا لبتہ یہ کتاب ایک تعارفی کتاب تهی نہ فيصلہ دینے اورمذاہب کے حق وباطل کو تشخٰيص
دینے والی کتاب ،اس لئے مخالفين کے نظریہ پر بحث نہ کرتے ہوئے ہم نے فقہاکے حکم کفر کو
نقل نہيں کيا ہے (البتہ ان کی تاریخ پيدائش ميں اس کی طرف اشارہ کيا ہے)
ل يکن جس بات کی طرف اشارہ کياگيا ہے کہ بت پرستوں ميں بعض لوگ محبت کی راہ
سے خدا کی پرستش کرتے ہيں ،یہ برہمن اور ارباب ریاضت ہيںجو “خداؤں ”کی عبادت کرتے
ہيں نہ خدائے واحد کی ،اور ان کے عقيدہ کے مطابق منفی ریاضتوں کے نتيجہ ميں ،وہ پہلے
خود کو خداؤں ميں اورپهر خدائے متعال ميں فانی کردیتے ہيں ۔چونکہ اس مسئلہ کی وضاحت
بہت تفصيلی ہے ایک دوخطوط ميں اس کو بيان کرنے کی گنجائش نہيں ہے ،اس لئے بہتر ہے
اس سلسلہ ميں کتاب “سراکبر”جو “ویدا”کے ایک حصہ کا ترجمہ ہے ،خاص کر “اوپنشو”،کتاب
“فروغ خاور”کتاب “تحقيق ماللهند ”اورابوریحان کی کتاب“آثارالباقيہ”کی طرف رجوع کيا جائے ،تاکہ
معلوم ہوجائے کہ هندی بت پرست بوده اورصائبی کس قسم کا عرفان رکهتے ہيں ۔
ل يکن جو آپ نے فرمایا ہے :آپ کا کلام عرفان وتصوف کے صحيح ہونے اور ان کی توصيف
کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ميں عرفانی کو صحيح جانتا ہوں ليکن نہ اس عرفان کو جو اہل سنت
درویشوں کے سلسلہ ميں رائج اور عام ہے اورشریعت کے مقا بلہ ميں ایک ایسے طریقت کے
قائل ہيں جو سازوسنطور،غنارقص اور وجد کا حکم کرتا ہے اور “تکليف ساقط”ہونے کا دم بهرتے
ہيں ۔چنانچہ ہم نے اپنے کلام کے ضمن ميں کہا ہے کہ اسی روش نے شيعوں ميں بهی سرایت
کی ہے ۔جو عرفان کتاب وسنت سے حاصل ہوتا ہے ،وہ عبودیت کے اخلاص پر مبنی ایک روش
ہے اور اسلام کے شرع مقدس کے قوانين سے ذرّہ برابر جدانہيں ہے ۔چنانچہ ہم نے اسے “
تفسيرالميزان” ميں بهی بيان کيا ہے ۔

ملائکہ کے ارادہ کی کيفيت
چوتها اعتراض: آپ نے تفسيرالميزان کی ساتویں جلد کے صفحہ نمبر ٩پرلکهاہے :دوسرے
یہ کہ،یعنی خدائے متعال کے ملائکہ ،جس چيز کا انهيں خدائے متعال امرفرماتا ہے وہ معصيت
نہيں کرتے ہيں ،پس وہ ایک مستقل ارادہ والامستقل نفس نہيں رکهتے ہيں عدم معصيت اور
عدم نفس مستقل کے درميان کوئی رابطہ نہيں ہے ،چنانچہ انبياء عليہم السلام اور معصومين
عليہم السلام معصوم ہيں اورمستقل نفس اورارادہ بهی رکهتے ہيں ۔اگر مستقل ارادہ نہ رکهنے
کی مراد یہ ہے کہ وہ ارادہ نہيں کرتے ہيں مگر جس چيز کا خدا ارادہ فرمائے <وماتشاؤن الا ان
یشاء الله> ١ تو یہ معنی ملائکہ سے مخصوص نہيں ہے اورسب لوگ بلکہ خدائے متعال کے
علاوہ تمام مخلوقات کی یہی حالت ہے ۔
پ هر اس کے بعد والے صفحہ پر کہا ہے :“ملائکہ تدریجاًکمال حاصل کرتے ہيں اوراس طرح
اپنے وجودی عنایتوں سے بہرہ مند ہوتے ہيں ”جب یہ نفوس ہی نہيں رکهتے تو کس چيز ميں
کمال حاصل کرتے ہيں ؟
جواب :کلام کے ذیل ميں مستقل نفس کی وضاحت کی گئی ہے کہ استقلال سے مراد
ایک وہم ہے جسے شخص اپنے اندر مشاہدہ کرتا ہے اور اس استقلال کے متفی ہونے سے
ہواوہوس کی پيروی کلی طور پر متفی ہوتی ہے:
>لایسبقو نہ بالقول وهم باٴمرہ یعملون > ٢ اوراس کا مرجع نفس امّارہ ہے اور اعتراض
ميں بيان کئے گئے مطلب کے برعکس ،ملائکہ کے مانند انبياء وائمہ عليہم السلام ميں یہ نفس
نہيں پایا جاتا ہے ۔
ا ور اس کے ذیل ميں جو اعتراض کياگيا ہے :“جب ملائکہ نفس نہيں رکهتے ہيں تو ان کا
تدریجاًکمال حاصل کرنا معنی نہيں رکهتا ہے ”یہ ایک مغالطہ ہے اور اس جملہ کا مقصد
١۔نساء/ ٣٠
٢۔“جوکسی بات پر اس پر سبقت نہيں کرتے ہيں اوراس کے احکام پر برابر عمل کرتے رہتے ہيں
۔”انبياء/ ٢٧
کمال کی نفی ہے نہ کمال کا اثبات اور جملہ “من شانها” جملہ “هی فی معرض”پر عطف ہے
اور“من شانها ”کاضميرمادئہ جسمانی کے بارے ميں ہے نہ نفس کے بارے ميں ۔

حضرت الياس عليہ السلام کے بارے ميں ایک روایت
پ انچواں اعتراض :“تفسير الميزان ” کی سترہویں جلد کے صفحہ نمبر ١۶٧ پرالياس عليہ
السلام کے بارے ميں جوروایت نقل کی گئی ہے ،اسے آپ نے تضعيف کردیا ہے ۔
ا پ نے کافی کی روایت کو،جسے علامہ مجلسی نے بهی “حيات القلوب”ميں نقل کيا
ہے ،نقل نہيں کيا ہے ۔اس کامضمون حضرت الياس کی وہ گفتگوہے جو انہوں نے حضرت امام
باقر عليہ السلام کے ساته انجام دی ہے ۔ممکن ہے مذکورہ روایت اعلیٰ درجہ پر صحيح نہ ہو
ليکن ایک متين روایت ہے جو ظاہر قرآن مجيد سے تضاد نہيں رکهتی ہے اورضروری حقائق سے
بهی ڻکراؤنہيں رکهتی ہے ۔یہ روایت تفسيرميں آپ کی ذکر کی گئی دوسری روایتوں کے مانند
ہے جو الياس عليہ السلام کی حيات کوثابت کرتی ہے۔
جواب:فی الحال ميرے ذہن ميں نہيں ہے کہ ہم نے کيوں مذکورہ روایت کو نقل نہيں کيا
ہے ،شاید روایت کے طولانی ہونے کے سبب ہو یا غفلت ہوئی ہو اور اگر ہم نے اسے نقل بهی
کيا ہوتا اس کاکوئی خاص نتيجہ نہيں نکلتا چنانچہ اس کی تفصيل بعد والے سوال کے جواب
ميں بيان ہو گی ،اس کے علاوہ مثا ل کا احتمال بهی ہے ۔

فرعون اور مجرمين
چهڻااعتراض
ا پ نے “تفسير الميزان”کی سترهویں جلد کے صفحہ نمبر ١٩۴ پر لکها ہے :“بعض لوگوں
نے کہا ہے کہ فرعون کو “ذوالا وتاد”کہتے تهے اس لئے کہ وہ مجرموں کو ميخوں سے زمين ميں
ڻهوک کر عذاب کرتا تها“
ا س کے بعد آپ نے لکها ہے :“ان باتوں کی کوئی قابل اعتماددليل نہيں ہے “جبکہ مرحوم
فيض نے اپنی تفسير“صافی”ميں کتاب“علل”سے“اوتاد”کی تفسير ميں ایک حدیث نقل کی ہے۔
جواب:مذکورہ روایت مستدرکات ميں سے ہے، کسی صورت ميں تفسير ميں آنی چاہئے،
ليکن قابل غورنکتہ یہ ہے کہ اصول ميں ثابت ہو چکا ہے کہ روایات آحاد اگر چہ بہتر صورت ميں
صحيح بهی ہوں احکام کے علاوہ،موضوعات،حجت نہيں ہيں مگر یہ کی قطعی قرینہ کے ہمراہ
ہوں ،مثلاًوہ حدیث جو بلاواسطہ خود امام عليہ السلام سے سنی جائے ،اس لحاظ سے ایسی
حدیثوں سے قرآن مجيد کی تفسير نہيں کی جاسکتی ہے ۔اس کے علاوہ جبکہ قرآن مجيد کے
سلسلہ ميں کثير روایتيں موجود ہيں ،اس قسم کی روایتوں سے قرآن مجيد کی تفسير کرنا
بعيد ہے ۔
ا س بناء پر ،غير قطعی الصدور روایتوں کا تفسير ميں نقل کرنا قرآن مجيد کے سلسلہ
ميں صرف روایت بيان کرنا ہے نہ قرآن مجيد کی تفسير اور معنی حاصل کرنے کا مقصود ہے ۔

قرآن مجيد ميں اصطلاح“حسنہ” کے معنی
ساتواں اعتراض:کہ یہ آیہ شریفہ:<للذین احسنوا في هذہ الدنيا
حسنة> ١ ایک تعبير کے ساته سورہ نحل اورسورہ زمر ميں واقع ہوئی ہے جبکہ تفسير ميں
“حسنہ”کو سورئہ نحل ميں اخروی “حسنہ”اورسورہ زمر ميں دنيوی اوراخروی دونوں کہا ہے اس
کا سبب کيا ہے ؟
جواب:لفظی اتحاد کے باوجود ،آیہ شریفہ دوجگہوں پر سياق ميں اختلاف رکهتی ہے
۔سورہ نحل ميں خدائے متعال کی طرف سے ایک خطاب ہے اور اس کے پيچهے اجر اخروی کی
صفت ذکر ہوئی ہے اور سورہ زمر ميں رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے
خطاب ہے اور اس کے پيچهے اجر صابرین کی صفت اور قرآن مجيد کی زبانی صفت اخروی اور
دنيوی دونوں پر اطلاق ہوئی ہے ۔

ربّيکی تعبير ميں اختلاف کی وجہ
ا ڻهواں اعتراض :“الميزان ”کی سترهویں جلد کے صفحہ نمبر ٢٢٠ پر آیہ شریفہ <واذکر
عبدنا ایوب اذنادی ربہ > ٢کے ذیل ميں آپ نے لکها ہے “ایوب عليہ السلام کا خدا سے کلمئہ
ربّی”سے پکارنا یہ بيان کرتا ہے کہ اس کی ایک حاجت تهی جبکہ آیت ميں کلمہ “ربہ”ہے
نہ“ربیّ”۔
جواب :کلمہ (ربی)آیت کے مضمون سے اخذ کيا گيا ہے ۔
حضرت ايوب عليہ السلام کا قصّہ اوراختلافی روايتيں
ن واں اعتراض:“تفسيرالميزان”کی سترهویں جلد کے صفحہ نمبر ٢٢۴ پر حضرت
ایوب عليہ السلام کی داستان ميں اسرائيلی روایتيں نقل کرنے کا کيا فائدہ ہے ؟ترجمہ اورہمارے
بندہ ایوپ کوپارکروجب انهوں نے اپنے پروردگار کو پکارا…
١۔نحل/ ٣٠
٢۔ص/ ۴١
آپ نے روایتوں کو نقل کرنے کے بعد دوسری روایتوں سے ان کو تضعيف کردیا ہے،باوجود اس کے
کہ وہ سب کتا ب ایوب کے مطابق “عہد عتيق”ميں ہيں اور روایتوں کے ڻکراؤ کی صورت ميں ان
کی عامّہ کی موافقت توہين کا سبب ہے ،یہودیوں کی موافقت کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ہے ۔
جواب:چنانچہ ہم نے قبلاً بيان کيا کہ اس قسم کی احادیث کو نقل کرنے کا مقصد احترام
ہے نہ تفسير۔اوریہ جو آپ نے فرمایا ہے :“جب دومتضاد خبروں ميں سے ایک عامّہ کے موافق ہو
توتوہين ہے اس روایت کی بات ہی نہيں جو یہود کے موافق ہو ”یہ صحيح نہيں ہے ،کيونکہ متضاد
روایتوں ميں حکم کا موضوع ،وہ روایتيں ہيں جو شرعی احکام ميں بيان ہوئی ہيں نہ وہ روایتيں
جو احکام سے خارج ہوں وہ اصلاًحجت نہيں رکهتی ہيں اور عامّہ کی موافقت عامّہ کے فتویٰ
کے مطابق ہے روایت اوراسرائيليات کے مطابق جو بهی ہوں احکام سے خارج ہيں اور وہ فتویٰ
نہيں ہيں ۔
قل هو نباء عظيم کے بارے ميں ايک بحث
دسواں اعتراض:آپ نے تفسير “الميزان”کی سترهویں جلد کے صفحہ نمبر ٢٣٧ ميں لکها
ہے -:“کہاگيا ہے:” “قل هو نباء عظيم”کی ضمير قيامت سے مربوط ہے اوریہ بعيد ترین معنی کا
قول ہے جوکہاگيا ہے اس بعيد کی دليل کيا ہے؟جبکہ صرف دوآیتوں کے فاصلہ پر اس سے پہلے
پندرہ آیتيں قيامت کے دن اورلوگوں کے حساب کے بارے ميں واقع ہوئی ہيں اورآپ نے
خودسورہ“نباء”ميں “نباء عظيم ”کو قيامت کے دن سے تعبير کيا ہے ۔
جواب:ان ہی دو آیتوں :<قل انّما انا منذر > ١ نے گزشتہ پندرہ آیتوں کو نئے سياق ميں
تبدیل کيا ہے اوران آیات کے ضمن ميںفرماتاہے :<قل ما اسئلکم عليہ من اجر وماانامن
المتکلّفينان هو الاذکرللعٰلمينولتعلمنّ نباٴہ بعدحين> ٢ سے مراد قرآن مجيد ہے ،البتہ کوئی حرج
نہيں ہے کہ قرآن بهی قيامت کے مانند “نباء عظيم ”ہو ۔
والسلام عليکم
محمد حسين طباطبائی
۵ا/ا/ ٣٩٧ ا
( ١۔آپ کہہ دیجئے کہ ميں توصرف ڈرانے ولاہوں(ص/ ۶۵
٢۔اور پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ ميں اپنی تبليغ کاکوئی اجر نہں چاہتااورنہ ميںبناوٹ کرنے والاغلط
بيان ہوں یہ قرآن توعالمين کے لئے ایک نصيحت ہے اورکچه دنوں کے بعدتم سب اس کی
حقيقت معلوم ہوجائے گی ”ص ٨۶ ۔ ٨٨