|
دسواں حصہ:
قرآنی علوم
حروف مقطعات کس لئے ہيں ؟
سوال:خدمت استاد ودانشورمحترم حجة الاسلام علامہ سيد محمد حسين طباطبائی!
قرآن مجيد ایک ایسی کتا ب ہے ،جسے خدائے متعال نے مختلف زمانوں اور معين اوقات
ميں اپنے پيغمبر حضرت محمد مصطفی صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر تدریجاًوحی فرمائی ہے ۔ابن
سيرین کے عقيدہ کے مطابق اس کی کل آیات کی تعداد “ ۶٢١۶ ”اور ابن مسعود کے
مطابق“ ۶٢١٨ ”آیات ہے۔اور اس پر ہر ایک کا اتفاق نظر ہے کہ قرآن مجيد کی سورتوں کی کل
تعداد ١١۴ ہے ۔قرآن مجيد کی ٢٨ سورتيں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہيں ۔مانند :الم،الر
،المص ،حم،طس طسم،کهيعص،یس ،ص،ق اور ن وغيرہ ۔
ا ب سوال یہ ہے کہ ان حروف کا معنی کيا ہے ؟اور تين مدنی سورتيں اور ٢۵ مکی
سورتيں کيوں ان حروف سے شروع ہوئی ہيں؟اور قرآن مجيد کی تمام سورتيں ان حروف سے
کيوں شروع نہيں ہوئی ہيں ؟
پ يغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اصحاب جو قرآن مجيد کوسن کراسے حفظ
١۔اس بحث کو حضرت آیت الله طباطبائی نے حلب کے استاد محترم عبدالرحمن الکيالی کے قرآن
مجيد کے حروف مقطعات کے بارے ميں کئے گئے ایک سوال کے جواب ميں بيان فرمایا ہے ۔
کرتے تهے،جواسے سن کرلکهتے تهے اورجو سن کر اس کے اوراق کی حفاظت کرتے تهے ،کيا
وہ ان حروف کے معنی کو سمجهتے تهے ،جبکہ قرآ ن مجيد عربوں کی زبان یعنی عربی ميں
نازل ہو اہے ۔؟
ا گر پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے ابتدائی اصحاب ان حروف کے معنی کو
سمجهتے تهے تو کيوں ان کی تفسير ميں انہوں نے اختلاف کرکے کسی قابل قبول مطلب پر
اتفاق نہيں کيا ہے ؟!چنانچہ اس سلسلہ ميں ان کے عقائد ميں اختلاف تفسير کی کتابوں ميں
درج ہے ۔
ب ہر حال ،ان حروف کا نازل ہونا فضول اور بے فائدہ نہيں تها ،ان کے ضرور کچه معنی ہوں
گے ،پس ان کے حقيقی معنی کيا ہيں ؟کيا یہ رمزی حروف ہيں یادر اصل کلمات تهے جو خلاصہ
ہوئے ہيں ؟ یا کلام کے آغاز ميں سننے والوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ہيں یا خاص
اصطلاحات ہيں ؟
ميں نے جس قدر روایتوں اور اصحاب کے اقوال پر سنجيدگی سے غور کيا آج تک ميرے
لئے اس موضوع کے بارے ميں قرآن مجيد کا مقصود واضح نہيں ہو ا ہے ،مفسرین کے بيانات
،مستشرقين کی تفسيروں اور عرفا کے اقوال نے بهی اس راز کو فاش کر نے ميں کوئی مدد
نہيں کی ۔
ل يکن چونکہ دانشوروں کے درميان اس موضوع پر حيرت انگيز حدتک اختلافات پائے جاتے
ہيں اس لئے ميں اس نتيجہ پر پہنچا ہوں کہ اس سلسلہ ميں آپ کے علمی عقيدہ کو معلوم
کروں ،شایداس ميں کوئی قابل قبول مطلب کو پاکر اپنے شک اورغلط فہمی کو دورکرسکوں ۔
ا س مشکل کو کشف کرکے اس معماّکو حل کرنے کے سبب راہنمائی کی فضيلت حاصل
کرنا اورحقائق کو پہچنواناآپ کا حق ہے ،نہ یہ کہ آپ یہ جواب دیں :“یہ حروف رموزات ميں سے
رمزی اسرار کے حروف ہيں اورخدا کے علاوہ کوئی ان کے معنی سے واقف نہيں ہے ”کيونکہ ہم
اس امر پر مکلّف ہيں کہ تمام آیات کے معنی کو سمجه ليں اورخدا نے بهی اسے عربی زبان
ميں بشر کی ہدایت کے لئے نازل کيا ہے ۔
ا خر ميں،اطمينان بخش جواب کا انتظار کرتے ہوئے اپنے بہترین درودوسلام آپ کی خد
مت ميں پيش کرتا ہوں اورخدائے متعال سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کو محفوظ رکهے تاکہ آپ
مسلمانوں کے لئے علم وشرف کے ذخيرہ ہوں۔(حلب ، ٢٨ /صفر ١٣٧٩ ه مطابق ماہ
ایلول ١٩۵٩ ،ڈاکڻر عبدالرحمن الکيالی
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
بخدمت استاد جناب ڈاکڻر عبد الرحمن الکيالی
ا پ کی خدمت ميں دردوسلام پيش کرنے کے ساته جواب ميں تاخير کے لئے معذرت
چاہتا ہوں ،کيونکہ جس وقت آپ کاخط قم پہنچا تها ،ميں موسم گرما گزار نے کے لئے دماوند کے
اطراف ميں چلاگيا تها ۔چونکہ قم اور دماوند کے درميان کافی فاصلہ ہے ،اس لئے دستی خطوط
دمجه تک پہنچے تهے ،لہذا تاخير سے آپ کے خط کی زیارت کرسکا ۔
ت فسيرميں ہماری روش اورطریقہ کار یہ ہے کہ قرآن مجيد کی آیات اور ان کے معانی کو
سمجهنے ميں ہم قرآن مجيد کے علاوہ کسی اور چيز سے استفاد ہ نہيں کرتے ہيں اور مشکل
آیات کا صرف قرآن مجيد کی دوسری آیتوں سے استفادہ کرتے ہيں ليکن اگر پيغمبر اکرم صلی
الله عليہ وآلہ وسلم سے کوئی متواترخبر ہم تک پہنچی ہو تو وہ روایت اور صداقت کی نشانياں
رکهنے والی روایتيں بهی ہمارے لئے حجت ہيں اور تفسير ميں ان سے بهی استناد کرتے ہيں
،کيونکہ خود قرآن مجيد کی نص کے مطابق پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے فرمودا
اور دستورات حجت اور واجب العمل ہيں ۔
خاندان نبوت واہل بيت اطہار عليہم السلام کی احادیث بهی واجب الاطاعت اورحجت ہيں
اور ہم ان سے بهی مدد ليتے ہيں ۔اس موضوع ميں ہماری سند حدیث ثقلين ہے جو تواتر کی
حد ميں ہم تک پہنچی ہے اور اس کے علاوہ اوربهی احادیث موجود ہيں ۔اس مطلب کو ہم نے
تفسير الميزان کی پہلی جلد کے مقدمہ ميں بيان کيا ہے اور تيسری جلد ميں محکم اور
متشابہ کی بحث پر مکمل طور پر روشنی ڈالی ہے ۔
ل يکن اصحاب یا تابعين یامفسرین سے جو مطالب ہم تک پہنچے ہيں انهيں ہم حجت نہيں
جانتے اوران سے استناد نہيں کرتے ہيں (مگر یہ کہ کوئی قول ادلہ کے موافق ہو) کيونکہ ان کے
اقوال اجتہاد کے علاوہ کچه نہيں ہيں اور وہ بهی خود ا ن کے لئے حجت ہونے کے علاوہ کوئی
فائدہ نہيں پہنچاتے ہيں ۔ہماری نظر ميں ان کا اجتہاد اورغير یقينی روایتيں مساوی ہيں اور دونوں
کی کوئی قدر وقيمت نہيں ہے ۔ہم نے تفسير ميں ،اس روش اور طریقہ کار کو پيغمبر اکرم صلی
الله عليہ وآلہ وسلم اور اہل بيت عليہم السلام سے نقل ہوئی بہت سی روایتوں سے استفادہ
کيا ہے ، جيسے :<ان القرآن یُصدّق بعضہ بعضا ١>“قرآن مجيد کی بعض آیات بعض دوسری آیات
کی تصدیق کرتی ہيں ، ”<ینطق بعضہ ببعض ٢>قرآن مجيد کی بعض آیات جب دوسری آیت کے
ساته قرارپاتی ہيں تو اس کے معنی کو آشکارکرتی ہيں اور <یشهد بعضہ علی بعض ٣>آیتوں کا
ایک حصہ دوسرے حصوں کے لئے گواہ ہوتا ہے ۔
٨٨/ ٢و ٣۔ بحار الانوار/ ٢٢ ، ١/ ١۔احتجاج/ ٣٨٩
ی ہ طریقہ کار ،ایک صحيح شيوہ اورپسندیدہ طریقہ ہے جو روایتوں کی برکت سے ہميں
ملا ہے ۔بيشک قرآ ن مجيد کی آیتيں کلام کا نظم اور اسلوب رکهتی ہيں اوردوسرے کلمات کے
مانند قابل فہم ہونے کا ایک ظہور رکهتی ہيں ،ليکن اس کے باوجود کہ ہم اپنی فہم ميں آیات
کے مقاصد اورمعنی سے استفادہ کرتے ہيں ،حروف مقطعات کو ہم نے کلام کے عام اسلوب
کے موافق نہيں پایا اور ان کے بارے ميں واضح معنی درک نہيں کرسکے اور الم ، الر،طہ ،یس
جيسے حروف ہمارے لئے مجہول ہيں ۔
ی ہاں پر ہم یہ نتيجہ اخذکرتے ہيں کہ حروف مقطعات دوسری آیتوں کے مانند نہيں ہيں کہ
ان کے معنی کو سمجها نے کے لئے یہ عربی ز بان کی عام روش ميں نازل ہوئے ہوں ۔
ا ور یہ کہنا بهی صحيح نہيں ہے کہ ان حروف کا وجود ،لغو اور بے فائدہ ہے ، کيونکہ خدا
کا کلام لغو سے منزّہ اور پاک ہے ،قرآ ن مجيد اس کی تو صيف ميں فرماتا ہے :<انّہ لقول
( فصلوماهوبالهزل>(طارق/ ١٣ ۔ ١۴
”بيشک یہ قول فيصل ہے ۔اور مزاق نہيں ہے“
ا س بيان سے واضح ہوا کہ قرآن مجيد کی بعض سورتوں کا حروف مقطعات سے شروع
ہونے ميں ضرورکوئی سبب ہے اور یہ حروف ایک خاص مقصد کے لئے ذکر ہوئے ہيں۔ليکن اصحاب
،تابعين اور مفسرین کی طرف سے جو اسباب ان کے بارے ميں بيان کئے گئے ہيں ،وہ حق و
حقيقت کے ایک متلاشی کو مطمئن نہيں کرتے اور اسی لئے ہم نے اپنی تفسير ميں اس بحث
کو سورئہ “حم عسق” تک تاخير ميں ڈال دیا ،تاکہ خدائے متعال تب تک اس راز سے پردہ اڻها کر
ہميں ایک اطمينان بخش صورت عطا کرے ،البتہ اگر موت نے فرصت دی تو ہم یہ توفيق حاصل
کریں گے ۔
ل يکن دوسری سورتوں ميں مذکورہ سورہ کو ترجيح دینے کا سبب یہ ہے کہ اس سورہ
ميں خدا کی وحی اور اس کے الہام کی کيفيت بيان ہوئی ہے اوریہ ہماری بحث سے متناسب
ہے ۔
ا ب تک اس مشکل کو حل کرنے ميں ہميں اس قدر توفيق حاصل ہوئی ہے کہ اس قسم
کی سورتوں ميں بيان کئے گئے مضامين ،معنی اور مقصد کے ساته ان حروف مقطعات کا ایک
مخصوص رابطہ ہے --؛ مثلاًہم حروف “الم”سے شروع ہونے والی سورتوں ميں ایک خاص رابطہ
پاتے ہيں ،اس کے باوجود کہ ان ميں سے بعض مکی ہوں اور بعض مدنی ہوں ۔اسی طرح
۔“الر”یا“ حم ”و“طس” کے حروف سے آغاز ہونے والی سورتوں ميں ایک ایسا رابطہ پایا جاتا ہے
جو ان کے علاوہ کہيں موجود نہيں ہے ۔پهر ہم سورہ اعراف -جو“لمص”سے شروع ہوئی ہے -
ميں وہی غرض اور معنوی مناسبت پاتے ہيں جو سورہ“الم” اور سورہ “ص” ميں موجود ہے ۔
ا س سے ہم اجمالی طورپر سمجهتے ہيں کہ حروف مقطعات کا قرآن مجيد کی سورتوں
کے معانی اور مقاصد کے ساته ایک قسم کا رابطہ ہے ،ليکن اس رابطہ کی کيفيت اور تفصيلات
ابهی اچهی طرح سے واضح نہيں ہوئی ہيں ،ليکن اميد ہے کہ خدائے متعال اس حقيقت کو
ہمارے لئے واضح فرما کر ہماری راہنمائی فرمائے گا۔
ا خرميں اپنی طرف سے آپ کی خدمت ميں بہترین دردوسلام بهيجتا ہوں اورخدائے متعال
سے آپ کے لئے آرام وآسائش اور کاميابی کی دعا کرتا ہوں ۔
٢١ ربيع الاول ١٣٨٩ ه محمد حسين طباطبائی
قرآن مجيد کی بے احترامی
سوال: قرآن مجيد کے بعض - اغلب ایران ميں منتشر ہونے والے - نسخوں ميں ناشرین
کی طرف سے (طلسم ) کے نام پر کچه (شکليں) کلام الله کے ساته ضميمہ کر کے چهاپ کر
بيچی جاتی ہيں ۔کياان “طلسمات”اور شکلوں کے بارے ميں کوئی صحيح سند موجود ہے یا
نہيں؟
جواب: ان “شکلوں”اور“طلسمات”کے بارے ميں کوئی صحيح سند نہيں ہے اوردینی نقطہ
نظر سے ان کے صحيح ہونے کی کوئی دليل موجود نہيں ہے ،خواہ یہ قرآن مجيد کے ساته
شائع کی جائيں یا الگ سے۔
سوال:ان“ شکلوں ”اور“طلسما ت ”کے بارے ميں عجيب وغریب چيزیں لکهتے ہيں اور ان
سب چيزوں کو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے نسبت
دیتے ہيں ،ان کے آثار اور فوائد کے بارے ميں کيا حکم ہے ؟
جواب:ان شکلوں ميں نظر ڈالنے کے سلسلہ ميں جن فوائد کو پيغمبر اکرم صلی الله
عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے نقل کيا گيا ہے ان کا ایک حصہ جعلی اور
باطل ہے ،جيسے “مہر نبوت ”پر نظر ڈالنا وغيرہاور اس کا دوسرا حصہ فاقد سند ہے ۔
سوال:پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار عليہم السلام کی تصویریں
بنا نا - جيسا کہ مشاہدہ کيا جارہا ہے -اور انهيں قرآن مجيد کے ساته ضميمہ کرنا اوراسی طرح
مذکورہ شکلوں اورطلمسات اور “محرم نامہ ” و“نوروز نامہ ” کو قرآن مجيد کے ساته ضميمہ کرنا
شرعی لحاظ سے کيسا ہے ؟
جواب: پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار عليہم السلام کی خيالی
تصویر بنانا اور انهيں قرآن مجيد کے ساته ضميمہ کرنا اور اسی طرح توہمات پر مشتمل روایات
کے ایک سلسلہ کو قرآن مجيد کے ساته ضميمہ کرنا ،جيسے ،اگر کوئی “ مہر نبوت ” نامی
شکل پر نگاہ کرے تو رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے ہزاروں حج کے ثواب اس کے نام
پر لکهے جائيں گے !یا اگر فلاں شکل پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کے تمام گناہ معاف کئے جائيں
گے اور امت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی شفاعت اس کے ہاته سونپی جائے گی !یہ
سب چيزیں قطعاًقرآن مجيد کی بے احترامی کا سبب اور حرام ہيں ۔
ا سی طرح شکلوں کے ایک سلسلہ جو طلسم وغيرہ کے نام پر قرآن مجيد کے ساته
ضميمہ کرنا مذکورہ بيان کے مطابق کسی قسم کی سند نہيں رکهتے اور بے احترامی کے
علاوہ کچه نہيں ہيں ۔
ب نيادی طور پر ایک مسلمان کو اس بدیہی نکتہ کو فر اموش نہيں کرنا چاہئے یا اس امر
سے غفلت نہيں کرنی چاہئے کہ یہ مقدس آسمانی کتاب جسے کلام الله کہا جاتا ہے ،اسلام
کے اصلی اور فرعی معارف کی تنہا پناہ گاہ ،نبوت کی زندہ سند اور دنيا کے ساڻه ١کروڑ
مسلمانوں کی آبرو کا سبب ہے ۔
اس نکتہ کے پيش نظر ایک مسلمان کا دینی ضمير ہرگز اس بات کی اجازت نہيں دیتا ہے
کہ وہ کسی اور کتاب کو -ہر چند کہ وہ کتاب حقيقی مطالب پرہی مشتمل کيوں نہ ہو - قرآن
مجيد کے ساته ضميمہ کرکے اسے اس کے برابرقرار دے کر معاشرہ ميں شائع کرے ، “محرم
ناموں ”،“نوروز ناموں ”اور “کسوف وخسوف کے احکام ” جنهيں آج کل کی دنيا ميں
١۔علامہ طباطبائی کایہ بيان تقریباً ۴٧ سال قبل کاہے ۔(مترجم )
مذاق کی نگاہ سے دیکها جاتا ہے اوران سب سے بدتر توہمات پر مشتمل شکلوں ،نقشوں اور
خيالی تصویروں کی بات ہی نہيں !ان چيزوں کو قرآن مجيد کے ساته ضميمہ کرنا، کلام الله کی
شان اور حقيقت سے کهيلنے کے مترادف ہے ۔
جو ناشرین محترم اوليائے دین کی تاریخ،مذہبی عقائد ،تجوید اور قرائت کی کتا بوں کو
قرآن مجيد کے ساته شائع کرنا چاہتے ہيں ،انهيں چاہئے کہ ان کتا بوں کو الگ سے شائع اورجلد
سازی کر کے قرآن مجيد کے ہمراہ قارئين کی خدمت ميں ارسال کریں ۔
محمد حسين طباطبائی
قم ۔جمادی الثانی ١٣٨۵ ه
|
|