اسلام اور آج کا انسان
 
نواں حصہ :

اسلام کی ايک پہچان

مباہلہ کا عمومی ہونا
سوال:مسئلہ “مباہلہ ” کے بارے ميں آپ نے تفسير “ الميزان” ميں اشارہ کرتے ہوئے
فرمایا ہے کہ ہمارے زمانہ ميں بهی ہر مو من مسلمان یہ کام انجام دے سکتا ہے، یہ کيسے
ممکن ہے ؟کيا ہر مسلمان جو ظاہر ميں مومن ہو ایسا خطر ناک کام انجام دے سکتا ہے؟
جواب:آیہ مباہلہ کے بارے ميں ،کہ مباہلہ عمومی حق رکهتا ہے اور مباہلہ نبی اکرم صلی
الله عليہ وآلہ وسلم کے نجران کے نصاریٰ سے مخصوص نہيںہے ،واضح ہے اور جو روایتيں اس
سلسلہ ميں اہل بيت اطہار عليہم السلام سے نقل ہوئی ہيں ،وہ مباہلہ کے عمومی ہونے کی
وضاحت کرتی ہيں ۔حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے متعہ کی مشروعيت و شرعی جواز
کے بارے ميں “عبدالله بن عميرليثی ” کے ساته اپنے مناظرہ ميں عبدالله بن عمير کو مباہلہ کی
دعوت دیتے ہيں ۔اور اسی طرح ایک اور روایت ميں امام عليہ السلام بعض اہل سنت کے مذہبی
مناظرہ کرنے والے ایک شيعہ کواپنے مد مقابل سے مباہلہ کرنے کا حکم فرماتے ہيں، اس بناء
پر ،مباہلہ ایک عمومی آیت ہے جسے خدائے متعال نے حق کا محافظ قراردیاہے ۔

قرآن مجيد کا تحريف سے پاک ہونا
سوال: قرآن مجيد کی عدم تحریف کے بارے ميں جناب عالی کا نظریہ کيا ہے ؟
چونکہ ایک شيعہ عالم دین نے ماضی ميں تحریف قرآن کے بارے ميں ایک کتا ب بهی لکهی
ہے جونجف اشرف ميں منتشر بهی ہوئی ہے ۔مہربانی کرکے فرمائيے:
سب سے پہلے:ہم مخالفين کو کياجواب دیں گے ؟
دوسرے یہ کہ:مذکورہ کتاب ميں موجودہ روایتوں کو ہم کيسے جهڻلائيں گے ؟
جواب:تحریف قرآن کے بارے ميں بہت سی روایتيں سنّی اورشيعہ راویوں سے نقل ہوئی
ہيں اور بعض روایوں نے ان پر اعتماد بهی کيا ہے ليکن خودان روایتوں کی حجيّت ان کی عدم
حجيّت اور مسترد ہو نے کا لازمہ ہے ۔ کيونکہ ان روایتوں کی حجيتّ، امامت اور ان کے قول کی
حجيّت پر منتہی ہوتی ہے کہ یہ روایتيں ان سے منقول ہيں اورامامت ان کے قول کی حجيّت،
نبوت اورقول نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر منتہی ہو تی ہے کہ آنحضرت صلی الله عليہ
وآلہ وسلم کے نصوص سے امامت اور ائمہ اطہار عليہم السلام کے قول کی حجيتّ ثابت ہوتی
ہے اورنبوت ونبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے قول کی حجيتّ ،قرآن مجيد کی آیا ت کے
ظواہرپر منتہی ہوتی ہے ،جو نبوت اور نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے قول کی حجيّت
کی دليل ہے ۔اوربدیہی ہے کہ تحریف قرآن کے فرض کے پيش نظر،کم یا زیادہ یا تغير لفظ یا ایک
جملہ اور حتی پورے قرآن ميں ایک حرف کی کمی کے معنی ميں ،قرآن مجيد کا ظہور حجيّت
سے گر جاتا ہے اورنتيجہ کے طورپر نبوت اور قول نبی صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی حجيّت کی
بهی کوئی دليل نہيں ہوگی۔اور اس کا لازمہ قول امام کی حجيّت کا سقوط ہو گا اور اس کا لازمہ
تحریف کے بارے ميں روایتوں کی حجيّت کا سقوط ہوگا۔لہذاتحریف کے بارے ميںروایتوں کی
حجّيت لازمہ ان کی عدم حجيّت ہوگی ۔

نبی اکرم کے فعل اور قول ميں سہو کا نہ ہو نا
سوال: علمائے معاصر ميں سے ایک شخص نے “سہوالنبی”کے عنوان سے ایک مقالہ
لکه کر بالآخروہ کام انجام دیا ہے ،جسے مرحوم “صدوق” انجام دینا چاہتے تهے افسوس ہے کہ
اس کی تئاليفات ميں سے ایک کے آخر ميں اس کے اپنے دستخط سے یہ مقالہ منتشر بهی
ہوا ہے !اصولی طور پر اس موضوع کے بارے ميں آپ کا نظریہ کيا ہے؟ اس کے علاو ہ اس قسم
کے مسائل پيش کرنے کی کيا ضرورت ہے ؟
جواب:بدیہی ہے کہ نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کا فعل آپ کے قول کے مانند
تبليغ کے مصادیق ميں سے ہے اور سہو بهی خطا کے مصادیق ميں سے ہے ،لہذا نبی اکرم
صلی الله عليہ وآلہ وسلم کا اقوال یا افعال اور اعمال ميں سہو تبليغ ميں خطا ہے اور معارف
واحکام الہٰی کی تبليغ ميں خطا خدائی حجّت کے نا مکمل ہونے کا امکان پيد اکرتا ہے اور اس
کا لازمہ کتاب وسنّت کا حجيّت سے سقوط ہے ،کيونکہ اس فرض کی بناء پر نبی اکرم صلی الله
عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے جاری ہونے والے ہر بيان ميں سہو اوراس کے حقيقت کے
مطابق نہ ہو نے کا امکان موجود ہے ۔

قرآن مجيد اور تسبيح سے استخارہ کرنے کی سند
سوال: کيا قرآن مجيد اور تسبيح سے استخارہ کرنے کی کوئی سند ہے ؟کيا قرآن مجيد
فال دیکهنے کی کتا ب ہے ؟یاتسبيح کے دانے انسان کی تقدیر کو بدل سکتے ہيں ؟بعض
مومنين ہر کام کے لئے، صلاح ومشورہ سے پہلے کيوں استخارہ کا سہارا ليتے ہيں ؟کيا یہ امر
لوگوں کی مذہبی تعليم وتر بيت ميں خامی کا نتيجہ نہيں ہے ؟
جواب: قرآن مجيد اور تسبيح سے استخارہ کرنے کے بارے ميں ائمہ اطہار عليہم السلام
سے چند روایتيں نقل ہوئی ہيں اور ان روایتوں کو مسترد کرنے کا کوئی عقلی یا نقلی مانع
موجود نہيں ہے ۔ ان روایات سے قطع نظر استخارہ کا شيوہ یہ ہے کہ جب انسان ایک کام کے
بارے ميں اسے انجام دینے یا ترک کرنے کا فيصلہ کر نا چاہتا ہے ،تو اس کام کے اطراف ميں اس
کو انجام دینے اور ترک کرنے کی تر جيحات پر غور کرتا ہے اور کام کو انجام دینے یاترک کرنے کی
ترجيحات ميں سے ایک کو پسند کرکے اس پر عمل کرتا ہے ۔اگرغور وفکر کی راہ سے ترجيح نہ
دے سکا تو اس سلسلہ ميں دوسروں سے صلاح و مشورہ کر کے تر جيحات ميں سے جس
کے بارے ميں مشورہ ملا ہو اس پر عمل کرتا ہے ۔اوراگر صلاح ومشورہ کی راہ سے بهی ترجيح
نہ دے سکا اور کام کے دونوں طرف یعنی انجام اور ترک مساوی رہے اورحيرت ميں پڑگيا ،تو قرآن
مجيد کو اڻهاکر خدا کی طرف توجہ کر کے اسے کهول کر پہلی آیت کے مضمون کو اپنے لئے
ترجيح جان کر اس پر عمل کرے ،یعنی کلام الله کو سند قرار دے کر خد اپر توکل کرکے
دومساوی ترجيحات جو دونوں اس کے لئے جائز تهے ،ميں سے ایک کو تر جيح دیتا ہے ۔اور یہ
کام جو توکّل کے مصادیق ميں سے ہے ،نہ اس ميں کسی قسم کا شرک ہے اور نہ دینی
احکام ميں سے کسی کو ضررپہنچاتا ہے اور نہ کسی حلال کو حرام یاحرام کو حلال کرتا ہے ۔یہ
استخارہ قرآن مجيد سے ہو یا تسبيح سے ،خد اکی یاد کے وسائل ميں سے ایک ہے اورحقيقت
ميں خداپر توکّل ہے نہ قرآن یا تسبيح کو خدا کا شریک قرار دیاجاتا ہے ۔

مصحف حضرت فاطمہ زہراء سلام الله عليہا کے بارے ميں ایک بات
سوال: حضرت فاطمہ زہراسلام الله عليہاکے مصحف کے بارے ميں ،شيعوں سے منسوب
بعض افراد نے کچه مطالب لکه کر “کویت” ميں منتشر کيا ہے ،جو مسلمانوں کی نفرت کا سبب
بنے ہيں ،کيونکہ کتا ب کے مولف نے،مصحف فاطمہ سلام الله عليہا کو قرآن مجيد کے کئی گنا
بيان کيا ہے اور یوں اظہار کيا ہے کہ یہ مصحف قرآن مجيد کے درجہ کاہے !اس سلسلہ ميں آپ
کا نظریہ کيا ہے ؟
جواب:“مصحف فاطمہ ”’کے نام کی کتاب ،جسے حضرت فاطمہ زہراء سلام الله عليہا نے
املا ء فرمایا اور اميرالمو منين علی عليہ السلام نے اسے لکها ہے ،اہل بيت عليہم السلام کی
روایتوں ميں اس کا ذکر ہوا ہے ۔اس قسم کی کتاب کا وجود (اس کے وجود کا اعتقاد)نہ مذہب
شيعہ کی ضروریات ميں سے ہے اور نہ خودیہ کتا ب دینی منابع ومصادرکی حيثيت سے بيان
ہوئی ہے اورنہ ائمہ معصومين یاعلمائے اماميہ ميں سے کسی نے اصول دین یامذہب یادینی
احکام کے بارے ميں کوئی چيز اس سے نقل کرکے اسے دینی اسناد ميں سے ایک سند کے
طورپر کتاب وسنت کی سطح پر قرار دیاہے ۔مذکورہ کتاب ميں،جيسا کہ روایتوں سے معلوم ہوتا
ہے ۔ خلقت کے اسراراورمستقبل کے حوادث کے بارے ميںبحث ہے اورایسی کتاب کے وجود پر
اعتقاد رکهنا ،خواہ قرآن مجيد سے چهوڻی ہو یا بڑی ،کوئی نقصان نہيں پہنچاتا ہے ۔البتہ مصحف
فاطمہ سے ،نعوذبا الله،ایک دوسرے قرآن کا وجود ہر گز مقصود نہيں ہے اور کوئی شيعہ اس
قسم کا اعتقاد نہيں رکهتا ہے ۔

ائمہ اطہار کے بارے ميں غلو کرنا جائز نہيں ہے
سوال:شيعہ فقہ ميں ،ائمہ اطہار عليہ السلام کے حق ميں غلوکر نا جائز نہيں ہے اور
تمام فقہا کے مطابق غلو کر نے والے دین سے خارج ،کافر اور نجس ہيں،اس مضمون کا کيا
معنی ہے ؟اور ہم غلو کرنے والوں کو کيسے پہچان ليں ؟کيا آپ کی نظر ميں زمانہ کے گزر نے
کے ساته “غالی”کا مفہوم دوسرے عناوین کے تحت ظاہر نہيں ہو اہے ؟
جواب: اصطلاح ميں“ غالی” اس کو کہتے ہيں ،جو اہل بيت اطہار عليہم السلام ميں سے
کسی ایک کو ،مثلاً بندگی کی حد سے اوپر لے جاکر ربو بيت کی بعض خصوصيت جيسے
خلقت ،تد بير عالم اورتکوین ميں بلا واسطہ تصّرف کو ان سے نسبت دے اور زمانہ گزر نے کے
ساته یہ معنی کسی بهی صورت تحقق پيد ا کرے ،تو کو ئی فرق نہيں ہے اور یہ کفر کا سبب
ہے ۔جس چيز کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جو کفر کاسبب بنتا ہے وہ خدا کی
خصوصيات ميں بلاواسطہ اورآزادانہ طور پر اعتقاد رکهنا ہے ،جيسے اشياء کو بلا واسطہ پيدا کر
نا ،بندوں کو بلا واسطہ رزق دینا وغيرہ ۔اماّ ولایت تکوینی کے سبب سے تکو ینيات کے بعض
ممکنات کے لئے فيض کا واسطہ ہونا ،جيسے ميکائيل کا رزق پہنچانے ميں اور جبرئيل کا وحی
پہنچانے ميں اورملک الموت کا ارواح کو قبض کرنے ميں وغيرواسطہ قرار پانا غلو سے کوئی
تعلق نہيں رکهتا ہے ۔

”للّہ درّ فلان” اور“کان للّہ رضاً” کے معانی
سوال: نہج البلاغہ ميں بعض مواقع پر بعض خلفاء کے بارے ميں “للّہ درفلان” یا“للّہ بلاء
فلان”جيسے جملات درج ہيں ۔اور معاویہ کے نام ایک خط ميں خلفاء کے ساته بيعت کی کيفيت
کو “کان الله رضا ”کے طور پر بيان کيا گيا ہے اور بعض دوسرے مواقع پر ،من جملہ
خطبہ“شقشقيہ” ميں انہی افراد کی مخالفت ميں بعض مطالب بيان ہوئے ہيں ،جناب عالی کی
نظر ميں ظاہراًان دو متنا قض امور ميں جمع کی صورت کيا ہے ؟
جواب:جملہ “وکان للّٰہ رضا ”کا سياق “وللّٰہ درفلان ”اور“للّٰہ بلاء فلان ”والے جملوں سے
مختلف ہے ،اوراس کامعنی اس چيز کی دشمنی کالازمہ ہے جس کا ظاہراًپابند ہو تا ہے اورامت
کے اجماع کو خدا کی رضا مندی جانتا ہے اوراگر یہ جملہ خودحضرت کے بارے ميں ہو،تو اس کا
معنی یہ ہے کہ ميں نے اسلام کی مصلحت کے پيش نظر مجبور ہوکر بيعت کی ہے اوراس بيعت
سے خدائے متعال راضی تها، کيونکہ بيعت سے انکار کی صورت ميں اسلام کی بنياد نابود ہونے
والی تهی ۔
ل يکن،“للّہ درفلان ”اور“للّہ بلاء فلان ”کے جملے بعض خلفاء اور مختلف شہروں ميں
مامورین کے بعض حاکم اور کارندوں پر اطلاق رکهتے ہيں ۔اوردوسرے معنی کی بناء پر کوئی
مشکل نہيں ہے اورپہلے معنی کی بناء پر اس کے پيش نظرکہ شيعہ طریقہ سے حضرت
اميرالمومنين علی عليہ السلام اور تمام ائمہ اطہار عليہم السلام سے نقل ہوئی سيکڑوں
اورہزاروں روایتوں (جن ميں سے ایک خطبہ شقشقيہ ہے) کے مطابق خلافت بلافصل
اميرالمومنين حضرت علی عليہ السلام کا قطعی حق تها ،اس لئے حضرت عليہ السلام جو
خلافت کو اپناخاص حق جانتے تهے ،سے دوسروں کی روش کی تمجيد ميں اس قسم کے
جملوں کا بيان ہونا ،صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی بلند مصلحتوں کا لحاظ رکهنے کے لئے ہو گا ،یہ
وہی مصلحتيں تهيں جن کے پيش نظر امام عليہ السلام کو ٢۵ سال تک صبر کرنا پڑا۔

اتحاد اورمحبت کی دعوت
سوال:تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی عليہ السلام نے مسلمانوں کی مصلحتوں کے
تحفظ کے لئے خلفائے ثلاثہ کی بيعت کی ہے ،اس صورت ميں صدراسلام ميں مقام ومنزلت
پانے والے افراد پر سب اور لعن کرنے کا کيا حکم ہے ؟
کيا ہم حضرت علی عليہ السلام سے بهی دین دارتر بن کر ،علی عليہ السلام کی راہ
کے برخلاف اسلام کی مصلحتوں کو نظر انداز کر کے غيرعلمی اورغيرمذہبی اور فرقہ وارانہ
اختلافات کو ہوادیں ؟اس ميں کوئی شک نہيں ہے کہ ہم -عالی سطح پر - علمی بحث کے
حامی ہيں ،ليکن کينہ رکهنا اورمسلمان بهائيوں کے جذبات کو ڻهيس پہنچانے ميں کيا فائدہ ہے
اورمذہبی نقطہ نظرسے اس کی کيا صورت ہے؟
ہ م نے عملی طورپر مشاہدہ کيا ہے کہ قاہرہ ميں ( “دارالتقریب بين المذاہب الاسلا ميہ ”
کی تاسيس اور مرحوم آیت الله العظمی بروجردی اورآیت الله العظمی کاشف الغطاء اوردیگر
شيعہ علماء کی تائيد کے درخشاں نتائج نکلے جن ميں الازہراسلامی یونيورسڻی کے
چانسلر“شيخ محمودشلتوت”کامذہب شيعہ پر عمل کرنے کو جائز قرار دینے کا فتویٰ قابل ذکر
ہے کيا بہتر نہيں کہ ہم اسی راستہ پر آگے بڑهتے اورعلمی مباحث کو بلند سطح پر جاری
رکهيں ،سنّيوں ا ورشيعوں کے خودغرض اورشر پسند گروہوں کو سرگرميوں کی اجازت نہ دیں
تاکہ اسلام کے دشمن ان اختلاف سے ناجائزفائدہ نہ اڻهاسکيں ؟
جواب:اگراتحاد یااسلامی تقریب دینی معارف کی فراموشی اورمذہبی احکام کے متروک
ہونے کا سبب نہ بنے اور اس ميں دین کے لئے بهلائی ہو تو عقل ومنطق کے لحاظ سے اس
کی ترجيح ميں کسی قسم کا شک وشبہ نہيں ہے ۔
ا فسوس ہے کہ مسلمانوں نے صدر اسلام ميں قرآن مجيد کی تعليمات کی پيروی کرنے
کے نتيجہ ميں جو توانائی حاصل کی تهی اورجس کے سبب ایک صدی سے بهی کم عرصہ
ميں ایک بڑے علاقہ پر حکومت بر قرار کی تهی ،اختلاف کلمہ اوراجتماعی فکر کو چهوڑنے کے
نتيجہ ميں یہ حيرت انگيز توانائی مکمل طور پر منحل ہوکر مسلمانوں کا حقيقی سرمایہ
اورموجودیت نيست و نابود ہوئی ۔
ا لبتہ اسلام کے ان دو بڑے فرقوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے عوامل کے بارے
ميں جانناچاہئے کہ ان دوگرہوں کا اختلاف فروعات ميں ہے اوراصول دین ميں آپس ميں کسی
قسم کااختلاف نہيںرکهتے ہيں اورحتی دین کے ضروری فروعات،مانند:نماز،روزہ، حج،جہاد وغيرہ
ميں بهی یہ دونوں گروہ آپس ميں اتفاق نظر رکهتے ہيں اور ایک ہی قرآن اورکعبہ پر اعتقاد
رکهتے ہيں ۔
ا سی اصول پر صدراسلام کے شيعوں نے ہر گز اپنے آپ کو اکثریت سے جدا نہ کيا اور
اسلام کے عمومی امور کی پيش رفت کے لئے عام مسلمانوں کے ساته شر کت کرنے کی
کوشش اورکشادہ دلی کی نصيحت کرتے تهے ۔اس وقت بهی تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ
دین مقدس اسلام کے اصولوں پر اتفاق کو مدنظر رکهتے ہوئے ،اس طولانی مدت کے دوران
اجنبيوں اوراسلام دشمن عوامل کی طرف سے برداشت کئے جانے والے دباؤ اور تکاليف کے
پيش نظرہوش ميں آئيں اور باہمی اختلاف کو چهوڑ کر ایک صف ميں کهڑے ہو جائيں اور اس سے
قبل کہ دوسرے اس مسئلہ کو ایک تاریخی حقيقت کے عنوان سے کشف کرکے اپنی کتا بوں
ميں درج کریں ،خودمسلمان اس حقيقت کو عملی طور پر ثابت کریں ۔
خوش قسمتی سے دنيائے اسلام آہستہ آہستہ اس حقيقت سے آگاہ ہوتی جارہی ہے
۔تقریب مذاہب کی فکر کی اسی غرض سے شيعہ مراجع نے تائيد کی ہے اور “الازہر”کے بزرگوار
شيخ شلتوت نے بهی اس حقيقت کو بالکل واضح طور پر بيان کر کے،شيعہ ا ورسنی کے مکمل
دینی اتفاق کاتمام دنيا والوں کے لئے اعلان کيا ہے اور شيعوں کو اس بزر گوار شخصيت کا شکر
گزار رہنا چاہئے اوراس کے اس بے لوث کام کی قدر کرنی چاہئے ۔
جيسا کہ سوال ميں اشارہ ہواہے کہ یہ امرعقيدتی مسائل ميں علمی ا ورتاریخی بحث
سے منافات نہيں رکهتا ہے اور عالی سطح پر شيعہ وسنی علمی مباحثہ جاری رہناچاہئے تاکہ
لوگوں کے لئے تاریکياں روشن اورحقائق واضح ہو جائيں اور اس امر کا ،تعصب ،حملہ اورجهوٹ
پهيلانے سے کوئی ربط نہيں ہے ۔
ہ م خدائے متعال سے دعاکرتے ہيں کہ خودغرض اورشرپسند عناصر کی ہدایت اوراصلاح
فرمائے اورمسلمانوں کو یہ توفيق عطاکرے کہ وہ عملی طورپر اتحاد واتفاق سے اپنی کهوئی
ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کریں ۔انہ سميع مجيب ۔

مشرق وسطی ميں انبياء کی بعثت
سوال:انبياء عليہم السلام کی بعثت کاصرف سعودی عربيہ،مصر،شامات اورانہی علاقوں
تک محدود ہونا اوردنيا کے دوسرے علاقوں (یورپ۔آسڻریليا)وغيرہ سے مربوط نہ ہونے کا سبب کيا
ہے ؟
جواب:ہمارے پاس کوئی ایسی دليل موجود نہيں ہے جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ انبياء
صرف مشرق وسطی اور اس سے مربوط علاقوں ميں مبعوث ہوئے ہيں ۔بلکہ ظاہر آیہ <خلافيها
نذیر> ١ عدم انحصارپر دلالت کرتی ہے ۔حقيقت یہ ہے کہ تقریباًبيس سے زائد جن انبياء کا قرآن
مجيد ميں ذکر آیاہے وہ مشرق وسطی اوراس کے
علاقوں سے مربوط ہيں ۔
( ١۔ “کوئی قوم ایسی نہيںہے جس پرکوئی ڈرانے والانہيں گزراہو”(فاطر/ ٢۴

استعدادوں ميں فرق
سوال:قابليتوں کے اختلافات کا سرچشمہ اور خلقت کے وقت مخلوقات کی
استعدادآپس ميں متفاوت ہيں ،مثال کے طورپر ایک نبوت یاولایت کافيض پاتا ہے اوردوسرے
ایسے نہيں ہوتے ۔اسی طرح تمام مخلوقات ميں بهی یہ اختلافات پائے جاتے ہيں ،ان اختلافات
کی علت کيا ہے ؟
جواب:استعداد مطلق مادّہ کی ذاتی خصوصيت ہے اور یہ مختلف شرائط کے ساته
مختلف تعينات پيدا کرتا ہے ،مثلاًمادّہ،جسميّت اور عنصریت کے شرائط کے تحت نباتاتی استعداد
رکهتا ہے اور نباتات زمين اور ہوا کے شرائط کے تحت ميوہ کی قابليت اور ميوہ تغذیہ کی شرط
کے تحت نشوونما کی قابليت اور منی خاص حيوان کے رحم ميں قرار پانے کی شرط کے تحت،
خاص حيوانوں کی صورت کی قابليت پيدا کرتی ہے ۔مادّہ کی فاعلی علّت کو مادہ اورطبيعت کے
ماوریٰ ميں ثابت کرنا چاہئے ليکن کلی طورپر اس سوال کو اختلافات کی علت غائی کی نسبت
کے طورپر بيان کرتے ہيں ۔قابليتوں کے اختلاف ،جن کے اختلاف کا سر چشمہ فيض ہے ، کی
غرض کيا ہے؟کيافرق پڑتا اگرخدائے متعال فيض کو عمومی فرماتا اوردنياميں ، شر،فساداورکمی
کا وجودنہ ہوتا؟
ا س کا جواب یہ ہے کہ کائنات کی خلقت کا مقصد،مکمل ترین موجودات کی پيدائش ہے
جو “انسان کامل” ہے
( >خلق لکم مافي الارض جميع>(بقرہ/ ٢٨
”زمين کے تمام ذخيروں کو تم ہی لوگوں کے لئے پيدا کيا ہے“
( >وسخّر لکم ما في السماوات ومافي الارض جميع>(جاثيہ/ ١٣
”اوراسی نے تمہارے لئے زمين وآسمان کی تمام چيزوں کو مسخر کردیاہے“
ا نسان کا ارتقاء امتحان کی راہ ميں ہوتا ہے ،لہذا دنيا ميں مختلف استعدادوں کا ہونا
ضروری ہے ،ورنہ امتحان کا کوئی معنی نہيں ہوگا ۔
حضرت خضر اورحضرت موسیٰ عليہما السلام کے متعلق بعض شبہات
سوال: حضرت موسیٰ عليہ السلام اورجناب خضرعليہ السلام کے قضيہ ميں کشتی کو
توڑ نے ميں غير کے مال ميں تصرف اورغلام کے قتل ميں جرم سے پہلے قصاص معلوم ہوتا ہے
اور دیوار کے نيچے خزانہ سے کيا مراد ہے ؟حضرت خضر عليہ السلام کيسے حضرت موسیٰ
عليہ السلام کے معلم بن گئے ،جبکہ حضرت موسیٰ عليہ السلام کے پاس رسالت کا عہدہ تها
اوراپنے زمانہ ميں معرفة الله کا مقام رکهتے تهے اوراسی طرح روبيل نامی چروا کا حضرت یونس
عليہ السلام کو موعظہ کرنا اورهدهد کا حضرت سليمان عليہ السلام سے گفتگو کرنا کہ
<احطت بمالم تحط بہ> ١ اورچيونڻی کا یہ کہنا :<وهم لا یشعرون> ٢
جواب :کشتی کو توڑنے اور قتل جيسے ہزاروں حوادث قضاوقدر الہٰی کے مطابق روزانہ
دنيا ميں رونماہوتے ہيں اور ان ميںغيرکے مال ميں تصرف اور جرم سے پہلے سزا کا خدائے
متعال سے ہر گز کوئی تعلق نہيں ہے ،کيونکہ خدائے متعال مطلق مالک اورمشرّع
( ١۔“مجهے ایک ایسی بات معلوم ہوتی ہے جوآپ کوبهی معلوم نہيں ہے”(نمل/ ٢٢
( ٢۔“اورانهيں اس کا شعوربهی نہ ہو”(نمل/ ١٨
ہے نہ متشرّع اورمکلّف ،وہ جوبهی کام انجام دے عين عدل اوربالکل مصلحت ہے چنانچہ حضرت
خضر عليہ السلام کے کلام :<وما فعلتہ اٴمری > ١“ميں نے اپنی طرف سے کچه نہيں کيا
ہے ”سے معلوم ہو تا ہے ،کہ جو کام حضرت خضر عليہ السلام نے انجام دئے ہيں ان کا صرف
تکوینی پہلو تها نہ تشریعی پہلو یعنی خدا کے حکم سے ان تين کاموں ميں ،جو انہوں نے انجام
دئے ،صرف تکوینی سبب مقصود تها اور ان کی مصلحت حضرت موسیٰ عليہ السلام کو بتادی
جائے ،نہ تشریعی سبب جو حرام بن جاتا ہے ۔اور اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ،خدائے متعال
بعض امورکی مصلحتوں کی تعليم حضرت خضر عليہ السلام کے ذریعہ حضرت موسیٰ عليہ
السلام کودے دی اگرچہ موسیٰ عليہ السلام ان سے افضل بهی ہوں یاروبيل چرواہے کی زبان
سے حضرت یونس عليہ السلام تک کوئی موعظ پہنچادے ۔
ا سی طرح هدهد کی گفتگو جو اس کے لئے بلقيس اورملک سبا کے حالات کا مشاہدہ
کرنے کا ثبوت اورحضرت سليمان کے لئے اس کی نفی کی ہے ،کوئی حرج نہيں ہے ۔اسی طرح
چيونڻی کی گفتگو ميں دوسری چيونڻيوں کو حضرت سليمان عليہ السلام اور اس کی فوج کے
ذریعہ پائمال ہونے سے بچنے کی خبر دنيااور اس ميں غفلت کے ثابت ہونے کی وضاحت ميں
کوئی حرج نہيں ہے ۔
( ١۔(کہف / ٨٢

تشريعی اوراعتباری ولايت
سوال:پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم اورامام عليہ السلام کی تشریعی اور
اعتباری ولایت کا کيا مقصد ہے، جو آپ نے تفسر “الميزان” ميں آیہ شریفہ :انّما وليّکم اللّٰہ
١کے سلسلہ ميں فرمایا ہے ۔؟ <
جواب:اس کامقصد دینی قوانين (اسلامی حکومت) کے سایہ ميں لوگوں کی سر پرستی
اورامت کا نظم ونسق چلانا ہے ۔

انذار (ڈرانے)کے معنی
سوال:آیہ شریفہ :مامن دابّة في الارض الّاامم امثالکم<
اورآیہ شریفہ:<الا خلا فيها نذیر> ٢کے مطابق کيا حيوانات اورپرندے بهی مکلّف ہيں ؟اس انداز کا
مقصود کيا ہے ؟
جواب:انذارکا مقصد عذاب الہٰی سے ڈرانا ہے اورالہٰی دعوت اسی پر مشتمل ہوتی ہے
،ليکن دوسری آیت ،ميں موجودقرینہ <وان من قریة> ٣کے مطابق حيوانات اورپرندوں پر مشتمل
نہيں ہے ۔
سوال:آیہ شریفہ<انّ عبادي> ۴ کی روسے آدم پر شيطان کا وسوسہ کرنا ،آیہ شریفہ
<ان اللّٰہ اصطفیٰ آدم > ۵ سے ہم آہنگی نہيں رکهتا ہے !اس
٢۔فاطر/ ٢۴ ١۔انعام / ٣٨
۴۔اسراء/ ۶۵ ٣۔اسراء/ ۵٨
۵۔آل عمران / ٣٣
سلسلہ ميں آپ کا جواب کيا ہے ؟
جواب :آیہ شریفہ:
( >قلنا اهبطوا منها جميعا فإما یاتينّکم مني هدی> (بقرہ/ ٣٨
”اورہم نے یہ بهی کہا کہ یہاں سے اترپڑو پهر اگر ہماری طرف سے ہدایت آجائے“
کے مطابق دین کی تشریع،جنت سے نکلنے کے بعد تهی ۔اورآیہ شریفہ :<ان عبادی
ليس لک عليہم سلطٰن > ١ميں دین کی تشریع کے بعد دنيا ميں بندوں کے حال کی طرف
اشارہ ہے اور اسی طرح آدم کا اصطفیٰ ہونابهی آیہ شریفہ :<ثم اجتبٰہ ربہ فتاب عليہ
وهدیٰ> ٢کے مطابق دنيا ميں اور دین کی تشریع ہو نے کے بعد تها اور آدم عليہ السلام پر
شيطان کا وسوسہ بہشت ميں زمين پر بهيجنے اوردین کی تشریع سے پہلے تها اور اس ميں
معصيت کا کوئی ولائی پہلو موجود نہيں تها بلکہ ایک امر ارشادی کی مخالفت تهی ،لہذاا یات
کریمہ ميں کوئی منافات نہيں ہے ۔

حروف مقطعات کا مقصود
سوال: سوروں کی ابتدا ميں حرو ف مقطعات کے بارے ميں تفسر “ الميزان ”ميں کچه
نہيں پایا ،مہربانی کرکے فرمائيے کہ یہ موضوع تفسيرکی کس جلد ميں ہے اوراصولی طور پر
حروف مقطعات کا مقصد کيا ہے ؟
جواب: سوروں کی ابتداميں موجودہ حروف مقطعات کے بارے ميں سورئہ
١۔حجر/ ۴٢
٢۔طہ / ١٢٢
شوریٰ ميں بحث کی گئی ہے ،اطمينان واعتماد کے مطابق حروف مقطعات “رمز”ہيں ۔
قطبين پر نماز گزار اور روزہ دارکافريضہ
سوال: قطبين (قطب شمالی اور قطب جنوبی ) پر نماز اور روزہ کے اوقات کا کيسے
تعين کيا جائے گا ؟
جواب: فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ قطبين کے باشندے اپنی عبادت کے اوقات کے لئے علاقہ
کے وسط کی پيروی کریں ،چنانچہ اجتماعی امور اور اوقات کو معين کر نے ميں اسی رویہ کو
معمول جانتے ہيں ۔

شقّ القمر کے بارے ميں ايک شبہ کا ازالہ
سوال:کيا قرآن مجيد اور روایات کے مطابق معجزئہ “شق القمر) ”کا موضوع اور اس کا
ثابت ہونا ،کرئہ چاند کی وسعت کے پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے آستين مبارک
کی وسعت سے عدم مناسبت اور منطق کے قواعداور انسانی عقل وادرا ک کی رو سے ظرف
کے مظروف سے عدم مطابقت کے پيش نظر اس کا دوڻکڑے ہونا صحيح ہے؟ جواب:“شق
القمر”کی داستان ایک قابل اعتماد حقيقت ہے جو قرآن مجيد اور روایتوں کے ذریعہ ہم تک
پہنچی ہے ،البتہ جو روایتيں اس قصہ کو بيان کرتی ہيں ان ميں اختلاف ہے ۔اس لحاظ سے کہ
ان روایتوں ميں سے ہر ایک خبر واحد ہے اور تنہا ان پر اعتماد نہيں کيا جاسکتا ہے ،لہذا ان
روایتوں ميں سے ہر ایک ميںذکر شدہ خصو صيات پر بهروسہ کر کے موضوع پر بحث نہيں کی
جاسکتی ہے اور جو کچه کلی طور پر معلوم ہو تا ہے وہ یہی ہے کہ پيغمبر اسلام صلی الله عليہ
وآلہ وسلم کے اشارہ سے معجزہ کے طور پر چاند کے دوڻکڑے ہو گئے اور یہ وہی امر ہے جس
کی طرف قرآن مجيد بهی اشارہ فرماتا ہے:
قرآن مجيد سورئہ قمر کی ابتدا ميں فرماتا ہے:-
( >اقتربت الساعة وانشقّ القمر >(قمر/ ١
” قيامت قریب آگئی اور چاند کے دو ڻکڑے ہوگئے“
ی ہ ایک خارق عادت کام ہے جسے پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے (رسالت
کے بعض منکرین کی درخواست پر جو آپ کی نبوت کی گواہی کے لئے معجزہ چاہتے تهے )
انجام دیا ہے ۔بدیہی ہے کہ جب ہم نے معجزہ اورغير معمولی کام کے ممکن ہونے اور اس کے
پيغمبر سے انجام پانے کو قبول کيا ،تو ایک خاص معجزہ کے انکارکی، خاص کر قرآن مجيد (جو
خود ایک معجزہ ہے ) کی تائيد کے بعد ،کوئی گنجائش باقی نہيں رہتی ۔
ا صولاً عقل کے مطابق بهی غير معمولی کام کے بارے ميں ۔۔جز عدم امکان ۔۔کوئی دليل
نہيں ہے ۔اور ممکن ہے جن عوامل واسباب کو ہم جانتے ہيں ان کے ماورائ بهی کچه دوسرے
اسباب و علل موجود ہوں جو کسی خارق عادت حادثہ کو وجود ميں لائيں اور ہم ان اسباب کے
بارے ميں بے خبر ہوں ۔
ب عض معترضين نے کہا ہے : آیہ شریفہ ميں اشارہ کئے گئے چاند کے دو ڻکڑے ہونے کا
مسئلہ در حقيقت ان حوادث کے بارے ميں اشارہ ہے جو قيا مت کے دن طبيعی عالم کے تباہ
ہونے کے وقت رونما ہوں گے، نہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے ذریعہ چاند کے
دوڻکڑے ہونے کے بارے ميں ۔ليکن اس احتمال کو بعد والی آیت مسترد کرتی ہے ،کيونکہ خدائے
متعال مذکورہ آیت کے بعد فرماتا ہے:
( > وان یروا آیة یعرضوا ویقولوا سحر مستمر>(قمر/ ٢
”اور یہ کوئی بهی نشان دیکهتے ہيں تومنہ پهير تے ہيں اور کہتے ہيں یہ مسلسل جادو ہے“
واضح ہے کہ اگر آیہ شریفہ سے مراد وہی قيامت کے دن کی بربادی ہوتی تو مشرکين
کے اغتراض اور اس معجزہ کو سحر کی طرف نسبت دینا معنی نہيں رکهتا ۔
ب عض دوسرے معترضين نے کہا ہے :اس آیت کا ميں کرئہ چاند کا کرئہ آفتاب سے جدا
ہونے کی طرف اشارہ ہے ،کيونکہ آج سائنس اس کی تائيد کرتا ہے ۔حقيقت ميں یہ قرآن مجيد
کی کرامتوں ميں سے ایک ہے کہ اس واقعہ کے پيدا ہونے کے بارے ميں صدیوں قبل خبر دیتا
ہے ،ليکن لغت شناسی کے مطابق یہ نظریہ غلط اورخطا ہے ،کيو نکہ کسی جسم کا کسی
دوسرے جسم سے جدا ہونا تولد یا مطلق “انفصال” کو لغت ميں “ اشتقاق ”و “انفصال ”کہتے
ہيں نہ“ انشقاق” جس کا معنی دوڻکڑے یادوحصے ہونا ہے ۔
ب عض معترضين نے کہا ہے : اگر ایسا حادثہ رونما ہوا ہوتا تو غير اسلامی مورخين نے
اسے ضبط کر کے لکها ہو تا ۔ليکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ روایتی تاریخ ہميشہ وقت کے حکاّم
کی مرضی اور ان کے نفع ميں لکهی گئی ہے اورہر وہ قصہ اور حادثہ ،جو وقت کے حکاّم کے
خلاف ہوتا اسے احتمال اور فراموشی کے پردہ ميں رکها گيا ہے ،چنانچہ ہم دیکهتے ہيں قدیمی
تواریخ ميں حضرت ابراهيم عليہ السلام وحضرت موسیٰ عليہ السلام
اورحضرت عيسی عليہ السلام کے بارے ميں کوئی ذکر نہيں ملتا ،جبکہ دینی نقطہ نظر سے
ان حضرات عليہم السلام سے رونما ہوئے معجزات نا قابل انکار ہيں ۔یہ حضرت ابراهيم عليہ
السلام ہی تهے جو نمرود کی آگ ميں نہ جلے ،حضرت موسی عليہ السلام تهے جنہوں نے
عصا ،یدبيضا اور وہ سب معجزے دکهائے ،یہ حضرت عيسی عليہ السلام تهے جو مردوں کو زندہ
کرتے تهے اورجب اسلام کی دعوت پيدا ہوئی ،وہ بهی دنيا کی تمام طاقتوں کی مخالف تهی ۔
ا س کے علاوہ اس معجزہ کے رونما ہونے کی جگہ یعنی مکہ اور جہاں تاریخ لکهی جاتی
تهی یعنی یورپ کے درميان طلوع وغروب ميں گهنڻوں کا تفاوت ہے ۔جو یہ آسمانی حادثہ کم
وقت ميں مکہ ميں رونما ہوا اور مرئی تها ،دوردراز مغربی ممالک کے افق،جيسے ،روم آتن وغيرہ
ميں قابل رویت نہيں ہو گا ،چنانچہ ان علاقوں کے آسمانی حوادث مکہ کے علاقہ کے لئے قابل
رویت نہيں ہيں ۔

ايک بے بنياد بات
سوال:کيا ستارئہ زہرہ اتر کر حضرت علی ابن ابيطالب عليہ السلام کے گهر کی چهت پر
بيڻهنے کی کوئی دليل وسندہے ؟
جواب :ستارہ زہرہ کے اترنے اورحضرت علی عليہ السلام کے گهرکی چهت پر بيڻهنے
کے سلسلہ ميں چند روایتيں نقل ہوئی ہيں ،یہ روایتيں نہ متواتر ہيں اور نہ قطعی الصدور اس
لئے علمی لحاظ سے قابل اعتماد نہيں ہيں ۔

چور کا ہاته کاڻنے کا فلسفہ
سوال :چور کاہاته کيوں کاڻا جانا چاہئے ؟
جواب :چور کا ہاته کاڻنے کا مسئلہ ،جو اسلامی شریعت ميںحدود کا جز ہے ،حقيقت
کے پيش نظر دوبنيادی مسئلوں کے مطابق قابل تجزیہ ہے:
١۔یہ کہ چور نے جو ایک نامناسب کام انجام دیا ہے اسے اس کی سزاملنی چاہئے ۔
٢۔ یہ کہ یہ سزا اس کا ہاته کاڻنے سے انجام پانی چاہئے ۔
پ ہلا اور چورکی سزا کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی تشریع کے سلسلہ ميں
دین اسلام تنہا نہيں ہے بلکہ انسان کی زندگی ميں۔۔جہاں تک ہميں اطلاع ہے -گوناگوں
انسانی معاشروں ميں (ابتدائی انسانوں کے خاندانوں اور قبائلی وطوائفی حکومتوں سے لے کر
ڈکڻيڻرشپ اور جمہوری حکومتوں تک)چور کے لئے کچه سزاؤں کے قائل تهے اور ان پر عمل
بهی کرتے تهے اورآج بهی ایسا ہی کيا جارہا ہے ۔
ی ہ امر مسلّم ہے کہ عالم بشریت ميں یہ فيصلہ اس بنياد پر ليا جاتا ہے کہ حقيقت
پسندانہ نگاہ سے اہم ترین اورقيمتی ترین چيزجسے انسان درک کرتا ہے بيشک اس کی
زندگی ہے اس سے واجب اور لازم تر فریضہ کو درک نہيں کرتا ہے تاکہ اسی زندگی کی سعادت
کا تحفظ کرے ،یعنی اجتماعی ماحول ميں او راجتماعی طور پر تلاش وکوشش کر کے اپنی
زندگی کے وسائل یعنی مال وثروت کو فراہم کرکے ان سے استفادہ کرے اور حقيقت ميں
(معاشرہ شناسی کی دقيق نظر ميں )اپنی زندگی کی آدهی موجودیت -جس کے لئے محدود
قدر وقيمت کا قائل نہيں ہو سکتا ہے - کو دوسرے حصہ کے لئے سرمایہ حاصل کرنے کے لئے
صرف کرتا ہے ۔ اوریہ بهی مسلّم ہے کہ ہر چيز کا تحفظ اور اس کی رکهوالی اہميت کے لحاظ
سے خود اس چيز کی قدر وقيمت کے مساوی ہوتی ہے ۔اور جس مال کے فنا ہونے کے بارے
ميں کسی قسم کی اہميت نہ ہو تو اس کی کوئی قدر وقيمت نہيں ہوتی ہے ،اور یہاں پر فيصلہ
کر ناچا ہئے کہ انسان کے مال کا محفوظ رہنا کلی طور پر اس کی آدهی عمر کی قدر رکهتا ہے
۔کيو نکہ انسان کی جان کی قيمت اس کی پوری عمر کی قيمت کے برابر ہے۔اسی طرح
معاشرہ کے سرمایہ کے ارد گرد کهينچی گئی دیوار کو توڑ نا اور نابود کرنا اس معاشرہ کی نصف
زندگی کو نابو دکرنے کے برابر ہے ،چنانچہ ایک معاشرہ کی جانی امنيت کو ختم کرنا اس
معاشرے کے تمام افراد کو نابود کرنے کے برابر ہے:
>من قتل نفساً بغير نفس او فساد في الارض فکاٴنما قتل النّاس جميع۔> (مائدہ)
”جو شخص کسی نفس کو ،کسی نفس کے بدلے یاروئے زمين ميں فساد کی سزا کے علاوہ
قتل کر ڈالے گا ،اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا “
البتہ اس صورت ميں جو چور انسانی معاشرہ کی مالی امنيت کو سلب کرتا ہے اسے
سخت سزا کا سامنا کرنا چاہئے تاکہ اس کے نفاذ کا تصوراسے معاشرہ کی مالی ناموس کا
پردی چاک کرنے ميں رکاوٹ بنے ۔
ل يکن دوسرا مسئلہ ،چور کا ہاته کاڻنا،جس کا دین مقدس اسلام کے قانون نے حکم دیا
ہے ،اس کے قصاص کے بارے ميں تشریع کئے گئے احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ ،سزاؤں کے
بارے ميں ،مجرم کے مظلوم پر وارد کئے گئے صدمہ کو اسی صورت ميں مجرم پر وارد کيا جاتا
ہے تاکہ اسے اس کے عمل کے مطابق کيفر کردار تک پہنچایا جائے یادوسروں کے لئے عبرت کا
سبب بنے ۔البتہ جس جرم کا نتيجہ حقيقت ميں دوسروں کی نصف زندگی کو نابود کرنے ميں
تمام ہو جائے ،اس کی کم وبيش کسی رقم کے جرمانہ یا چند دن اورچند ماہ جيل بهيجے جانے
سے تلافی نہيں ہو سکتی ہے ۔اس مطلب کا بہترین گواہ یہ ہے کہ اس قسم کی سزائيں نافذ
کرنے کا -جو مدتوں سے اکثرممالک ميں رائج ہيں -ان جرائم کو روکنے کے سلسلہ ميں کوئی
نسخہ نہيں نکلا ہے ۔
ا سلام ميں اسی حقيقی محاسبہ کے مطابق ،چور کا ایک ہاته کاڻا جاتا ہے ،جو تقریباً
اس کی زندگی کی تلاش کا نصف کے برابر ہو تا ہے ۔اس بيان سے ہمارے بعض روشنفکروں کے
اس سلسلہ ميں کئے جانے والے اعتراضات کا بے بنياد ہونا واضح ہوگا (افسوس ہے کہ جس
طرح ہمارے معاشرہ ميں چوری نے ایک مسری والی بيماری کی طرح مالی امنيت کو مکمل طور
پر نابود کرکے رکه دیا ہے ،اسی طرح اس بلا نے ہماری فکری ماحول ميں بهی جڑ پکڑ لياہے
اورصحيح اور سالم فکریں بهی آلودہ ہو رہی ہيں۔
ی ہ حضرات کہتے ہيں :“ایک انسان کو اپنے خداداد ہاته سے اپنی زندگی کے آخری
لمحات تک اپنے حالات کی بہبودی کے لئے کو شش کرنی چاہئے تاکہ اپنی زندگی کی
مشکلات کو اپنے توانا ہاتهوں سے حل کرے ،اقتصادی دباؤ کے نتيجہ ميں انجام دئے گئے ایک
اشتباہ کے نتيجہ ميں اس کا ہاته کاٹ کر کيوں اسے عمر بهر کے لئے بيچارہ کردیاجائے؟“
ا س اعتراض کی حقيقت اصل جرم کو قبول کرنا اور رحم کی حس کے پيدا ہونے اور
انسان دوستی کی بنا پر چارہ جوئی کرناہے ۔دوسرے الفاظ ميں ،صحيح ہے کہ ایک چور اپنے
برے کام کی وجہ سے ایک جرم کا مرتکب ہوتا ہے ،ليکن اس کے پيش نظر کہ غالباًاقتصادی دباؤ
،ایک شریف انسان کو یہ جرم انجام دینے پر مجبور کرتا ہے ،ترحمّ اور انسان دوستی اس ميں
روکاوٹ بنتی ہے کہ اس کاہاته کاٹ کر اسے ہميشہ کے لئے بيچارہ بنا دیاجائے ۔
ا س منطق کا غلط ہونا صاف ظاہر ہے ،کيونکہ انفرادی حقوق کے حکم ميں جذبات کی
رعایت کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ،اسلام بهی (جيسا کہ قرآن مجيد کی آیا ت سے واضح
ہے )انفرادی حقوق جيسے قصاص کے اقسام ميں اور مالی حقوق ميں صاحبا ن حقوق سے
تحریک اورترغيب سے درخواست کرتا ہے کہ اپنے حقوق سے چشم پوشی کریں اور اپنے ہم
نوع بهائيوں کو مشکل اور تکليف ميں نہ ڈاليں ۔
ليکن اجتماعی حقوق کے سلسلہ ميں ایک مجرم کے بارے ميں انسان دوستی کے
جذبات سے کام لينااور اس کے جرم کی سزاسے چشم پو شی کرنا حقيقت ميں ایک
معاشرہ کے ساته بالکل بے رحمی سے ظلم کرنے کے مترادف ہے اور ایک چور کو آزاد چهوڑنا
اور ایک مجرم کی آبرو کا تحفظ کرنا لاکهوں بے گنا ہوں پر مصيبت ڈهانے اور ان کے احترام کے
پردہ کو چاک کرنے کے برابر ہے ۔
ترحمّ برپلنگ تيزدندان ستمکاری بود برگوسفندان
” تيز دانتوں والے خونخوارچيتے پر رحم کرنا بهيڑوں پر ظلم کرنا ہے ۔“
ب ہر حال،مسئلہ یہ ہے کہ ایک مجرم کی سزا کے لئے وضع ہونے والے حکم اور قانون کی
دفعہ ميں مجر م کے معاشرہ کی حالت کو مد نظر رکهنا چاہئے اور معاشرہ کے پيکر پر لگے
زخم کی مرہم پڻی باندهنی چاہئے نہ یہ کہ صرف انفرادی تربيت کا مسئلہ جيسے چوریا صاحب
مال کو مد نظر رکها جائے ۔
ی ہاں پر ایک دوسرے اعتراض کا جواب بهی واضح ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ :دال روڻی کے
لئے محتاج شخص جيسے فردکو،فقر وبدبختی ایک لوڻا چرانے پر مجبور کرتی ہے ،کا اس چور
سے واضح فرق ہے جو چوری اور جرم کو اپنا پيشہ بناکرایک معاشرہ کو مصيبت ميں ڈال کر ہر
روز ایک بے گناہ خاندان کو بدبختی اور مصيبت سے دوچار کرتا ہے ۔البتہ ان دو مواقع ميں واضح
اختلاف پایا جاتا ہے ،جبکہ اسلام نے دونوں مواقع کو ایک دوسرے کے معادل قرار دیا ہے اور ان
کے درميان سزا کی کيفيت ميں کسی قسم کی
فرق کا قائل نہيں ہوا ہے!
ا س اعتراض کا جواب گزشتہ بحث اور اس کے ساته ایک مختصر مقدمہ کی یاد دہانی
سے واضح ہو جاتا ہے ،اور وہ یہ ہے کہ اسلام ميں جرم اورخلاف ورزی کے طور پر پہچانے گئے
کام اور ان کے بارے ميں سزا اورحد واجب کی گئی ہے، جرم اورخلاف ورزی کو انجام دینے کے
صرف آخری مرتبہ پر ،حد جاری کی جاتی ہے ،مثلاً زنا کرنے والے پر “حد”کے عنوان سے سو
کوڑے لگائے جاتے ہيں اور اگر اس نے اس عمل کو کئی مرتبہ انجام دیا ہو اور اس پر کوئی حد
جاری نہ ہوئی ہو اور اس کے بعد ثابت ہو جائے تو ایک حد (سو کوڑے )سے زیادہ جاری نہيں کی
جاتی ہے ۔
ا س مقدمہ کے تذکر اورگزشتہ بيان کے پيش نظر معلوم ہو تا ہے کہ چوری کی حد آخری
چوری کے مقابلہ ميں ہے جواسلامی عدالت ميں ثابت ہوتی ہے اور اس سلسلہ ميں چهوڻی
اوربڑی چوری کے درميان کوئی فرق نہيں ہے اور چوری کو وجود ميں لانے کے عوامل اورشرائط
سے کوئی ربط نہيں ہے اور ایک کہنہ مشق چوراور ایک مرغی چور یا لوڻا چرانے والے کے عمل
ميں اس لحاظ سے کوئی فرق نہيں ہے کہ انہوں نے معاشرہ کے ارکان ميں سے ایک رکن کو
صدمہ پہنچایا ہے ۔ معترضين کہتے ہيں :ایک شخص کا ہاته کاڻنے کی وجہ سے معاشرہ کے
لئے باعث زحمت بنانا ملک کی پيداوار بڑهانے والے ایک عامل کو نقصان پہنچانا کس اصول اور
منطق کے مطابق صحيح ہے ۔؟
ا ن حضرات سے کہنا چاہئے کہ چور کا ہاته کاڻنا انگوڻهے کے بغير اس کی چار انگلياں
کاڻنا ہے ۔جس ملک اور معاشرہ ميں عام طور پر پورے اعضاء اور ناقص اعضاء والے گوناگون افراد
موجود ہوں اور ہزاروں قسم کی احتيا جات پيد ا ہوتی ہوں ،ایک ایسے فرد کے لئے کام کر نا
مشکل نہيں ہو گا جس کے ایک ہاته کی صرف چار انگلياں نہ ہوں اور وہ معاشرہ کے لئے ایسا
بوجه نہيں بن سکتا ہے کہ ملک کی پيداوار پر اثر ڈالنے اوراسے معطل اورسست کرنے کا سبب
بن جائے ،اسی لئے دوسری بار چوری کی حد دوسرا ہاته کاڻنا نہيں ہے بلکہ پہلی مرتبہ ہاته
کاڻنے کے بعد اگر پهر سے چوری کا مرتکب ہوجائے تو چورکا بایاں پاؤں کاڻا جاناچاہئے ۔
ا گر ہم فرض کریں کہ ایک یا چند افرادکے ہاته کاڻے جانے سے واقعاًمعاشرہ کی
مشکلات کے بوجه کو بڑهاوامل کر ملک کے اقتصاد کے پہيئے کو سست کرنے کا سبب بنتا
ہے، توکيااس غير محسوس اور ناقابل اہميت بوجه کا اضافہ ملک کی اقتصادی سلامتی کی
حفاظت کی نسبت آسان ترنہيں ہے کہ اقتصادی سلامتی کی بنياد کو نابود کر کے ایک زندہ
معاشرہ کو نيم جان بنادے ؟!
کتنی مضحکہ خيز منطق ہے کہ اگر سزا کے طور پر چور کا ہاته کاڻا جائے تو وہ معاشرہ
کے لئے بوجه بن سکتا ہے ليکن اس کے ساته نہ چهيڑا جائے اور اسے اپنے پيشہ کو جاری
رکهنے کے لئے آزاد چهوڑ دیا جائے یااسے زندان ميں ڈال کر اس کی زندگی کی ضروریات کو
پورا کيا جائے ،تو وہ معاشرہ کے لئے بوجه نہيں ہوگا!
کيا تين کروڑآبادی والے ہمارے ملک ميں موجودہ حالات کے پيش نظر چور اورجيب کترے
معاشرہ پر بوجه نہيں ہيں ؟باوجوداس کے کہ اتفاقاًاہم اور غير اہم چوری کا اقدام کرنے والے افراد
کی تعداد اندازہ سے باہر ہے ،اس برے کام کو پيشہ کے طورپر انجام دینے والے چوروں اورجيب
کتروں کی تعداد کئی ہزارسے گزر چکی ہے ۔
ا ن ميں سے جو آزاد ہيں اوربے باکی سے اپنے شغل کو انجام دیتے ہيں ،ان کی روز مرہ
زندگی کی ضروریات دوسروں کی کوششوں اورمحنتوں کے نتيجہ سے ادارہ اور پوری ہوتی ہيں ۔
اس کے علاوہ چوری کے نتيجہ ميں رونما ہونے والے روزمرہ قتل اور جانی نقصانات کے حوادث
کی خبروں کو ہم روز ناموں ميں پڑهتے ہيں ۔
ا ن ميں سے جو افراد حکومت کے دام ميں پهنس جاتے ہيں ،اس کے علاوہ کہ ان
مجرموں کے لئے لوگوں کی محنتوں سے حاصل کی گئی بڑی رقومات خرچ ہوتی ہيں ،اور یہ
لوگ حبس کے دوران بڑے آرام سے ملت کی محنتوں کے نتيجہ ميں حاصل کی گئی نعمتوں
سے استفادہ کرتے ہيں ،ضمناًجيل کاڻنے کی مدت کے دوران مختلف قسم کے چوروں سے
آشنا ہو کر چوری کی ڻریننگ بهی حاصل کرتے ہيں!
معترضين کہتے ہيں :اگر یہ سزا دوسروں کی عبرت کے لئے ہے تو امریکہ ميں ماہر
نفسيات کے دانشوروں نے ،مجرمانہ فلميں بناکر سنيماؤں ميں ان کی نمائش کی ،شاید اس
طرح لوگ عبرت حاصل کریں ،ليکن نہ یہ کہ لوگوں نے اس سے کوئی عبرت حاصل نہيں کی
بلکہ جرم کی ڻریننگ بهی حاصل کرکے اسی رات کو اسی شہر ميں اس فلم کے مشابہ جرائم
کے مرتکب ہوئے اور آج تک کهلے ميدانوں ميں اتنے مجرموں کو پهانسی پر لڻکانے سے کوئی
عبرت حاصل نہيں ہوئی ہے ۔
ا س ميں کوئی شک نہيں ہے کہ سنيماؤں ميں مجرمانہ اور عاشقانہ فلموں کی نما ئش
اور اسی طرح نشریات ومطبوعات ميں مجرمانہ اور عاشقانہ داستانيں شائع ہونا،جرائم اور فساد
کے تبليغاتی عوامل ہيں اور یہ چيزیں قضایا کو ایسے آراستہ کرتی ہيں کہ انسان ہميشہ حق
سے بے خبر رہ کر اپنی زندگی کی سعادت وخوش قسمتی کو عشق بازی اور بے راہ روی ميں
پاتا ہے ۔
ل يکن ایسی حالت ميں بهی ایک مفکر کا ذہن اور ایک با ضمير انسان کا ضمير ہرگز یہ
قبول نہيں کرتا ہے کہ صحيح طور پر انجام پانے والی تعليم وتربيت کا کوئی اثر نہيں ہوگا یا عام
سزاؤں کا نتيجہ عبرت بن کر کچه لوگوں کوراہ راست قبول کرنے پر مجبور نہ کرے ۔
ا لبتہ اجتماعی اسباب وعوامل بهی طبيعی اسباب وعوامل کے مانندہميشہ اپنے نتيجہ و
اثر کو اکثر صورت ميں ظاہر کرتے ہيں نہ دائمی صورت ميں ،اور جو ایک موثر قانونی سزا ميں
مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ جرائم کو کم کر کے استثناء کی حد تک لایا جائے نہ یہ کہ ان کی
ایسی بيخ کنی کرے کہ ہرگزواقع نہ ہوں۔