آڻهواں حصہ:
وجوداورماہيت
”سوفسطائی” ياوجود علم کے منکر
سوال:فلسفہ کی دنيا ميںقدیم زمانہ سے آج تک ،ہميشہ ایسے افراد موجود تهے جو
تمام چيزوں کو خيالی اورتصوراتی فرض کرکے کسی بهی حقيقت کے معتقد نہيں تهے ،ان افراد
ميں سے بعض حتی اپنے شک پر بهی شک کرتے ہوئے مطلق طورپر علم کے وجود کے منکر
ہوئے ہيں ۔البتہ اس گروہ کو دنيائے فلسفہ ميں“ سوفسطائی” کہتے ہيں ان کے دعوی کو باطل
ثابت کرنے کے سلسلہ ميں آپ سے ایک مختصر فلسفی اورعلمی جواب کا تقاضا ہے۔
جواب:ہم ایسے افراد کے مقابلہ ميں قرار پائے ہيں جوسو فسطائيت کے گرویدہ ہوکر
کہتے ہيں :ہمارے اورہمارے نظریہ کے علاوہ جس چيز کا بهی فرض کيا جائے حقيقت نہيں ہے
بلکہ خيال کے سوا کچه نہيں ہے ۔اسی طرح کچه لوگ ایسے بهی ہيں جو اس سے بالاتر قدم
بڑها کر کہتے ہيں :ميرے اور ميرے نظریہ کے علاوہ سب چيزیں خيالی اورافسانوی ہيں ان ميں
سے بهی آگے بڑه کر کچه لوگ کہتے ہيں :ہم سب چيزوں ميں شک کرتے ہيں حتی اسی
اپنے شک ميں بهی شک کرتے ہيں!
ی ہ وہ لوگ ہيں جو وجود علم کے منکر ہيں اور “ سوفسطائی” کے نام سے معروف ہيں
۔علم فلسفہ کے مباحث ميں ان کا مذہب مسترد ہوا ہے اور “علم” کا وجود ثابت ہو چکا ہے اور یہ
اطہر من الشمس ہے کہ انسان اپنی خداداد فطرت سے حقيقت پسند اور خارجی اورمستقل
حقيقت کا معتقد ہے ۔
ہ م ،سوفسطائيوں کے مقابلہ ميں، کسی حقيقت کو ثابت کرنے والے ،حقيقت کے لئے
بہت سے مصادیق کے قائل ہيں کہ ان ميں سے ہر ایک مصداق دوسرے سے ممتاز ہے اور اپنے
خاص آثار کا سرچشمہ رکهتا ہے ۔خارجی اشيا ء ميں سے ہر ایک کی اپنے سے غير کی نسبت
ایک ممتازحقيقت ہوتی ہے اورآثار مرتب کرنے کا اس کا اپنا ایک خاص سر چشمہ ہوتا ہے ۔اسی
حالت ميں خارج ميں دکهائی دینے والی ہر ایک حقيقت دومفہوم کا مصداق ہوتی ہے جواس
سے علٰيحدہ ہوتے ہيں اوران دو مفاہيم ميں سے ہر ایک کے زائل ہونے سے فرض کی گئی
حقيقت معدوم ہو کر باطل ہو تی ہے۔
ماہيت و وجود :موجود ہ انسان ایک ایسی حقيقت ہے ،کہ اگر اس سے انسانيت سلب
کی جائے یاموجودیت کو اڻها ليا جائے تو اس کی حقيقت ختم ہو جائے گی ،ليکن اسی حالت
ميں یہ دوبنيادی مفاہيم ایک دوسرے سے متفاوت ہوتے ہيں ،کيونکہ “وجود” اور“عدم”ایک
دوسرے کے نقيص ہيں اور محال ہے “وجود”،“عدم”کے ساته جمع ہو جائے ۔اس کے برعکس
“ماہيت”وجود اورعدم ميں سے ہر ایک کے ساته قابل توصيف ہے ۔
ا سی طرح دونوں مفاہيم کے مصداق ذاتاًاصل (یعنی ان کے آثار کے مرتب ہونے کا
سرچشمہ ) نہيں ہيں ورنہ ہر خارجی حقيقت دوحقيقتيں ہو تيں ،پس ان دو مفاہيم ميں سے
ایک ذاتاًاصلی اورآثار کا سرچشمہ ہو گا اور دوسرا اتفاقی طورپر اصل اورحقيقت سے بہرہ مند ہو
گا اوردوسرے الفاظ ميں ،ان دو مفاہيم ميں سے ایک کے مطابق دوسرے کی عين حقيقت اس
کے ساته متحد ہونے کے ذریعہ ،حقيقت ہو تی ہے جب کہ اپنی ذات کی حد ميں اعتباری ہے ۔
ا ب یہ سوال پيد اہو تا ہے کہ کيا ماہيت اصل ہے یا وجود؟ اس کے پيش نظر کہ خارجی
حقيقتيں موجود ماہيتيں ہو تی ہيں ،جب اصل اورآثار کے سر چشمہ سے مرتب ہو جائيں
اورمفہوم (موجود)آثارکا مرتب ہونا ان سے جدا ہو جائے تو وجود وعدم کی نسبت ماہيت اپنی
ذات کی حد ميں مساوی ہوتی ہے ،اس صورت ميں کہناچاہئے کہ اصل وجو دہے نہ ماہيت۔
ا ن دواستدلالوں سے وجود کی اصليت اوراصليت کے بارے ميں بيان کئے گئے دوسرے
اقوال کا باطل ہو نا واضح ہو تا ہے ،مثلاًماہيت کی اصليت اور وجود کی اعتباریت کا قول، کيونکہ
عقل کے واضح حکم کے مطابق جس ماہيت کی حقيقت اورعدم حقيقت سے نسبت مساوی
ہو، اسے عين حقيقت اوراصل نہيں کہا جاسکتا ہے ۔
ا س کے مانند کہ کہا گيا ہے کہ واجب الوجودميں ممکن ماہيت اصل ہے اورجيسے کہاگيا
ہے کہ واجب الوجود ميں ممکن خلقت اصل ہے ،جبکہ ہم واجب اور ممکن کی خلقت سے ایک
معنی سمجهتے ہيں جو آثار کے مرتب ہو نے کا سرچشمہ ہے اور اس بناپر دولفظ وجوداورتخليق
آپس ميں مترادف ہيں اور اس قول کی حقيقت ایک نام سے زیادہ نہيں ہے ۔
وجودميں شک:ابتدائی طور پر جاننا چاہئے کہ علما ئے منطق نے ابتدائی اور سطحی
طور پر کلّی کو دوحصوں ميں تقسيم کيا ہے :“متواطی”اور“مشکک”۔متواطی: ایک ایسی ماہيت
ہے کہ اس کے افراد مذکورہ ماہيت کی صداقت کی حثيت سے مساوی ہيں انسان کے مفہوم
کے مانند کہ اس کے افراد انسان کے مفہوم کی صداقت کی حيثيت سے مساوی ہيں اور اگر
کوئی تفاوت پيش آئے تو وہ عوارض کی وجہ سے ہوتی ہے جو انسان کے مفہوم سے خارج ہو
تے ہيں ،مانند لمبائی ،چوڑائی ،وزن ،جوان اور بوڑها وغيرہ اورمشکّک: ایک ایسی ماہيت ہے کہ
اس کے افراد مذکورہ کلی کی صداقت کی حيثيت سے آپس ميں متفاوت ہوتے ہيں ، جيسے،
نور، کہ اس کے افراد شدّت اور ضعف کی حيثيت سے مختلف اور متفاوت ہيں اور اس شدّت اور
ضعف ميں اختلاف اور تفاوت ،نور کی نورانيت کی وجہ سے ہے ۔شدید نور اپنی نورانيت ميں
شدید ہے نہ نورانيت کے خارجی معنی ميں اور اسی طرح ضعيف نور بهی ۔
عام محسوسات ،اصل ميں ،مشکّک ہيں ہم قوئہ باصرہ سے نور کو درک کرتے ہيں اور
مصداق کی حيثيت ميں مختلف ہو تے ہيں اور اپنی حيثيت سے ان کا اختلاف نورانيت ہے جيسا
کہ اشارہ ہو ا۔اوراسی طرح ،لمبائی ،چوڑائی اور دور ونزدیک ميں رکهنے والے اختلاف اور
خودابعاد اورکميت ميں رکهنے والے اختلاف ،کے پيش نظر ہم ابعاد اور مسافتوں کو درک کرتے
ہيں ۔اور قوہ ئسامعہ ہم آوازوں کو سنتے ہيں اور انهيں شدید اورشدید تر اورضعيف اور ضعيف تر
پاتے ہيں اور یہ اختلافات خودآوازميں مسموع ہيں نہ ایک عارضی معنی ميں قوئہ شامّہ سے بو
کو سونگتے ہيں جبکہ ان ميں معطرومعطر تر اور بدبووبدبوتراوربالآخرشدید وضعيف ہے کہ یہ
اختلاف رایحہ کی ماہيت ميں ہے ۔قوئہ ذائقہ سے ہم مزہ چکهتے ہيں اور ان ميں شرین وشرین
تراور تلخ و تلخ تراورترش و ترش ترہيں اور ان کا اختلاف خود ان کے مزّہ ميں ہے نہ ماہيت سے
خارج کسی امر ميں قوئہ لامسہ سے ہم ملموس چيز وں کو پاتے ہيں اور ان کے درميان گرم
وگرم تراور سردوسردتراورسخت وسخت تراور نر م و نرم ترہيں اور اسی طرح تمام یہ اختلافات
صرف معنای ملموس ميں ہيں ۔
جی ہاں !سنجيدگی کے ساته غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان مشککہ ماہيات ميں
ایک اختلاف اورتضاد پایا جاتا ہے ،خود ماہيت ميں اس مفہوم کے معنی ميں کہ ماهو کے جواب
ميں واقع ہوتا ہے اختلاف نہيں پایا جاتا ہے بلکہ یہ اختلاف مصداق کی صداقت ميں ہو تا ہے۔
مثلاً“خواندگی ”کامفہوم ،شدید اور ضعيف ميں کسی تغير واختلاف کے بغير وہی “خواندگی
”کامفہوم ہے بلکہ “خواندگی”جود خارجی ميں خودشدید یا ضعيف ہے،یعنی وجود ميں تشکيک
ہے نہ ماہيت ميں مفہوم کی حيثيت سے ،ان لوگوں کا مقصود یہی ہے ،جو کہتے ہيں :تشکيک
غرض ميں ہے نہ عرض ميں ۔
ا س طرح تشکيک ثابت ہوتی ہے ،ليکن وجو دميں نہ ماہيت ميں ۔اوریہ جو بعض افراد نے
کہا ہے : تشکيک معقول نہيں ہے ،کيونکہ اس کا معنی نہيں ہے کہ ایک ہی شئے شدید بهی
ہو اورضعيف بهی بالجملہ صفات متقابلہ سے متصف ہو ،یہ شخص کے واحدعددی اور واحد
بالعموم ميں خلط ہے اور شخص ميں صفات متقابلہ سے توصيف ہونا محال ہے نہ واحد بالعموم
ميں ۔
ا س بحث سے واضح ہو تا ہے کہ مشکک ایک ایسی حقيقت ہے جو ذات کی حد ميں
قابل اختلاف ہے اوردوسرے الفاظ ميں خود مصادیق ميں تفاوت رکهتے ہوئے مابہ الاختلاف سے
مابہ الاتفاق کی طرف پلڻتی ہے ۔
ا س مقدمہ کے بيان کے بعد ہم کہتے ہيں :اس کے پيش نظر کہ وجود کا مفہوم،جيسا
کہ بيان ہوا ،ایک ایسا مفہوم اور واحد ہے جو وحدت کی بناپر تمام موجودات پر حمل ہوتا ہے۔وجود
کی حقيقت جو خارجی حقيقت کے آثار کا مرتب شدہ اس مفہوم ومرحلہ کا مصداق ہے ،منفرد
حقيقت اور ایک قسم ہے اور یہی منفرد حقيقت اپنے مصادیق ميں وجوب ،امکان ،عليّت،
معلوليت ،وحدت ،کثرت،قوت اورفعل وغيرہ کی حيثيت سے رکهنے والے اختلافات کے پيش نظر
محقق ہے ،ایک مشکک حقيقت ہے اورذاتی شدت وضعف کے لحاظ سے اس کے مختلف مراتب
ہيں ۔
ی ہاں پر واضح ہو تا ہے کہ ایک جماعت سے نسبت دیا گيا قول،یعنی “وجود” ایک
مشترک لفظ ہے اور ہر ماہيت کا وجود اسی ماہيت کے معنی ميں ہے ،کيونکہ “وجود”کا مفہوم
“عدم”کا نقيض ہے اور وجود عدم سے نسبت ماہيت ایک مساوی نسبت ہے عقل کے واضح
حکم سے ان دو اضدادميں سے کسی سے ایک واضح طورپر متصف ہونے سے انکار نہيں کيا
جاسکتا ہے اور اگر ماہيت کا وجود اس ماہيت کے معنی ميں ہو ،تو اس کا لازمہ یہ ہو تا ہے کہ
نقيضين ميں سے ایک کے دوسرے مفہوم کے نقيض سے ملنا جائز ہے ۔اوریہ معقول نہيں ہے
۔حقيقت ميں یہ قول مصداق سے مفہوم کے اشتباہ ميں سے ہے اور اتحاد ماہيت و وجود کے
مصداق اور اتحاد ماہيت اور وجود کے مفہوم کے درميان خلط ہے ۔اوراسی طرح واجب اورممکن
کے درميان وجود کے مشترک لفظی کا غلط ہو نا اور یہ کہ واجب ميں وجوب کامفہوم معنی کی
حيثيت سے ممکن ميں وجود کے مفہوم سے مختلف ہونا۔
ا ور یہ قول بهی اپنے عيوب کے پيش نظر مصداق کے مفہوم کی طرح اشتباہ ہے اور جو
اختلاف واجب اور ممکن کے درميان ہے وہ وجود کے مصداق (عينی حقيقت اورآثار کے مرتب ہو
نے کامرحلہ )ميں ہے نہ وجود کے مفہوم ميں ۔
ب عض نے جو یہ کہا ہے : خارجی وجود تمام الزامات کے حقائق متبا ینہ ہيں ،بهی اسی
طرح ہے اور اس قول کے عيب کاسبب کثير مصادیق سے کثير کے مانند واحد مفہوم کے نکلنے
کا لازمہ ہے جو محال ہے ۔
ماہيت کا وجود سے متصف ہونا :چنانچہ گزشتہ بحثوں سے یہ نتيجہ نکلتا ہے کہ ہميں
دکهائی دینے والی موجودات ميں سے ہر ایک ،ایک ایسی واحد حقيقت ہے جو دو مفاہيم ،
وجوداور ماہيت سے جدا ہو نے کا سرچشمہ ہيں اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ان دو مفاہيم بالذات
ميں سے ایک کا مصداق اصل اور حقيقت ہو اور دوسرا اس کے غرض ميں اصليت اور حقيقت
سے بہرہ مند ہو جائے ۔اور اس کے پيش نظر کہ آثار کا مرتب ہو نا اصليت کا معيار ہے ،وجود کے
عليٰحدہ ہونے پر منحصر ہے ،اصليت وجود سے متعلق ہے اور ماہيت اس کے عرض سے ،تحقق
واصليت سے بہرہ مند ہو تی ہے اور اپنی ذات کی حد ميں اعتباری ہے ۔
ا لبتہ اس بنا پر ماہيت کی اعتباریت کا معنی یہ نہيںہے کہ کوئی امر خيال اور وہم تها اور
مطلق سے گر کر اس کا موطن صرف خيال اور تصور ہو بلکہ ماہيت ایک خارجی موجود ہے ،جو
کچه ہے ،وہ یہ ہے کہ عين حقيقت اوربالذات اصليت نہيں ہے بلکہ عرض سے وجود کی اصليت
ہے اور حقيقت کے مطابق ماہيت، وجود کی سر حد ہے کہ جو اپنے وجود کو دوسروں کے وجود
سے جدا کرتی ہے ۔
ی ہيں پر ایک دوسرے قول کا باطل ہو نا واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ماہيت سے
خارجی وجود ميں خارجيت سے تحقق رکهتا ہے ورنہ ایک خيال کے علاوہ کچه نہيں ہے ۔
ب اطل ہو نے کا سبب یہ ہے کہ وجود ذہنی کی دليل کی وجہ سے ماہيت ذہنی ماہيت
خارجی کا وجود ذہنی ہے کہ اپنی ذات کی حيثيت سے عين ماہيت خارجی ،اورا حکام وآثار
واقعی کے لئے ایک عقلی موضوع ہے اور اگر ہم ایک وہم اور خيالی ہوگا تو اصلی ماہيت خيالی
ہو گی اور کلی طورپر حقيقت (حتی حقيقت بالعرض ) کو بهی کهودے گی ۔
ا س کے علاوہ ،“قضایای حقيقيہ” جو افراد“ محققتہ الوجود ”اور“ مقدرةالوجود” ميں شامل
ہيں ،خيالی مفاہيم ميں تبدیل ہو کر ،کلی طور پر علوم باطل ہوں گے ،مثلاًطبيب جو اپنی طبابت
ميں کہتا ہے : ہر انسان کا دل ہے یافلاسفر کہتا ہے : ہرانسان نفس اوربدن کا مرکب ہے ،اس
سے مراد صرف انسان کے افرا دہوںگے جنهيں کہنے والے نے خارج ميں مشاہد ہ کيا ہے اور
کہنے والے کے گزرنے کے ساته ختم ہو تا ہے اور اس صورت ميںعلم اپنی علميت سے گر جائے
گا ۔ان احکام کے علاوہ خود ماہيت بهی وجودذہنی اورخارجی سے صرف نظر کرتے ہوئے خود
ماہيت کے عوارض ذاتی ہوتے ہيں ،ان کی جنسيت ،فصليت ،ذاتيت اور عرضيت وغيرہ ختم ہوں
گی ۔
جی ہاں !غالباًیہ لوگ ذہنی وجود ميں خيالی تصویروں کے قائل ہيں ،اور جس صورت
علميّہ کو خارجی مصداق دکهائی دیتا ہے ،اسے ایک ایسی تصویر کے مانند جانتے ہيں جيسے
دیوار پر ایک گهوڑے کی تصویر کهينچی گئی ہے اوراسے دیکهنا انسان کو خارج ميں ایک گهوڑے
کی یاد دلائے!
ل يکن اس قول کا باطل ہو نا واضحات ميں سے ہے،جبکہ ہمارا ادراک ایک نقشہ اورتصویر
کے علاوہ کچه حاصل نہيں کرتا ہے اور صاحب تصویر کو خارج ميں درک کرنے ميں بالکل محروم
ہيں تو یہ کيسے تصور کيا جاسکتا ہے کہ تصویر کودرک کرنے سے صاحب تصویرکے خارجی
وجود کو حاصل کرسکيں ،جبکہ صاحب تصویر کے خارجی وجودسے کسی صورت ميں کوئی خبر
نہيں رکهتے ہيں ،اس لئے یہ خيالی قول،واضح طورپر مغالطہ ہے ۔
|