ساتواں حصہ:
وہابی عقائد کا باطل ہو نا
کيا انبياء اوراولياء سے توسّل کرنا شرک کی ایک قسم ہے ؟
سوال:کيا عقلی استدلال اور قرآن مجيد کی آیا ت کے دلائل اوررسول خدا صلی الله عليہ
وآلہ وسلم کی واضح سيرت کے پيش نظرانبياء،ائمہ اور صالحين سے توسّل کرنا شرک اور کفر
کا سبب نہيں ہو گا؟اس لئے کہ:
سب سے پہلے :عقلی استدلال کے مطابق ،خلقت صرف خد اسے مخصوص ہے اور ہر
قسم کی تاثير اسی سے ہے اور قرآن مجيد بهی اسی معنی کی تصدیق کرتا ہے اورمکرّر
فرماتا ہے :
( > اللّٰہ خلق کل شي>(رعد/ ١۶
”--الله ہی ہر شے کا خالق ہے“
ا س بناء پر اسباب اورمسّببات کے درميان کسی قسم کے ایجاد کا رابطہ اور تاثير نہيں
ہے بلکہ مشيت الہٰی یہ ہے کہ مسّببات کو اسباب کے پيچهے اورآثار کو صاحبان آثار کے بعد
خلق کرتا ہے بدون اس کے کہ ان کے درميان ہو ،مثلاًلکڑی جلنے کو آگ کے پہنچنے کے بعد
ایجاد کرے بدون اس کے کہ ان کے درميان رابطہ موجود ہو اور اس بناپر انبياء اوراولياء کو ذاتی
قدرت کا مالک اوراثر کا آغاز جاننا اور ان سے توسّل کرنا اور حاجت طلب کرنا انهيں خدا کا شریک
قراردینا ہے ۔
دوسرے یہ کہ:خدائے متعال اپنے کلام ميں فرماتا ہے:
>وقال ربّکم ادعوني استجب لکم انّ الّذین یستکبرون عن عبادتی سيد خلون جهنم داخرین
( >(غافر/ ۶٠
”اورتمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعاکرو ميں قبول کروںگا اور یقيناجو لوگ ميری
عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلّت کے ساته جہنّم ميں داخل ہوں گے“
چنانچہ آیت کے سياق سے واضح ہے کہ خدائے متعال دعاکو عبادت شمارکرتا ہے
اورعبادت اوردعاسے نافرما نی کر نے والے کو واضح طورپر جہنّم کا وعدہ دیتا ہے اورغيرخداسے
دعامانگنا ، عبادت اورخداسے دعاکی نافرمانی قراردیتا ہے اور یہ واضح طور پر غير خدا کو خدا کا
شریک قراردیناہے ۔
ت يسرے یہ کہ: رسول خداصلی الله عليہ وآلہ وسلم غير مسلمانوں ،یعنی بت پرستوں اور
اہل کتا ب کو اپنی دعوت ميں عملاً کافر جانتے تهے اور ان سے جنگ کرتے تهے ،جبکہ بت
پرست خدائے متعال کو خالق ورزّاق اورعالم کا مدبرّجانتے تهے ،ان کے شرک کی تنہا علت یہ
تهی کہ گزشتہ انبياء کی وفات کے بعد ان کی ارواح سے حاجت طلب کرتے تهے اور انهيں
شفيع قراردیتے تهے اور ان کا پاس رکهتے تهے ۔رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم ،اہل کتاب
اوربت پرستوں کے درميان کسی قسم کا فرق کئے بغير ان سب سے جنگ کرتے تهے اور ان
سب کو کافراورمشرک جانتے تهے ۔
چوتهے یہ کہ:بہت سی آیات جيسے:
( >قل لا یعلم من في السموات والارض الغيب الاّ اللّہ)(نمل/ ۶۵
”کہ دیجئے کہ آسمان وزمين ميں غيب کا جاننے والاالله کے علاوہ کوئی نہيں ہے“
ا ور:
( > وعندہ مفاتح الغيب لا یعلمها الّاهو>(انعام/ ۵٩
”اور اس کے پاس غيب کے خزانے ہيں جنهيں اس کے علاوہ کوئی نہيں جانتا ہے“
کے سبب علم غيب خداکی خصوصيات ميں سے ہے اور اس کے علاوہ کوئی علم غيب
نہيں جانتا ۔انبياء ،اولياء وغيرہ،جو بهی ہو علم غيب نہيں رکهتے اوربدیہی ہے کہ دنيا اہل آخرت
کے لئے غيب ہے اورہر انسان حتی انبياء اور اولياء بهی مرنے کے بعد دنيا کے حالات سے بے
خبر ہوتے ہيں ،پس انبيا ء اوراولياء سے ان کے مرنے کے بعد حاجت طلب کرنا اورشفاعت مانگنا،
شرک ہو نے کے علاوہ بيہودہ بهی ہے اور اسی طرح یہ آیت:
( >یوم یجمعا اللّٰہ الرسل فيقول ،ماذااٴاجبتم قالوا لا علم لنا انّک انت علمّٰ الغيوب>(مائدہ / ١٠٩
”جس دن خد اتمام مرسلين کو جمع کرکے سوال کرے گا کہ تمهيں قوم کی طرف سے تبليغ کا
کيا جواب: ملا تو وہ کہيں گے کہ ہم کيا بتائيں توخود ہی غيب کا جاننے والاہے“
اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ قيامت کے دن انبياء ان کی امت کے بارے ميں کئے گئے سوال
کے جواب: ميں بتائيں گے مرنے کے بعد ہم ان کے حالات سے بے خبر ہيں ۔
خلاصہ یہ کہ ان وجوہات کی بناء پر ،اولياء اورانبياء سے ان کے مرنے کے بعددعامانگنا اور
ان سے حاجت طلب کرنا بلکہ مطلق خضوع اوران کی قبروں کی تعظيم کرنا حتٰی ان کی
ضریحوں اورقبروں کا بوسہ لينا شرک ہے!
جواب: :
بسمہ تعالٰی
ا ماپہلی حجت:اس قول کا لازمہ یہ ہے کہ عالم ہستی ميں تاثير ميں نہ کوئی مستقل
موثروجودرکهتا ہے اورنہ تاثيرميں غير مستقل واسطہ ہے بلکہ تاثير مطلق طورپر خداسے مربوط
ہے اوردوسرے الفاظ ميں ، موجودات ميں علّيت ومعلوليت کا انکار اورعلّيت کا خدائے متعال سے
مخصوص ہونے کی بات،اس کے علاوہ کہ انسان کی فطری عقل کے واضح طور پر خلاف ہے،
ناقابل رفع دورکاوڻيں بهی اس ميں موجود ہيں:
١۔اس بات کو قبول کرنے سے خالق کائنات کے اثبات کا راستہ مکمل طورپر مسدود ہوتا
ہے ،کيونکہ ہم خالق کائنات کے وجود کو عالم ہستی سے حاصل کی گئی معلومات کی بناپر
ثابت کرتے ہيں اور جب خارجی مخلوقات اور اسی طرح نظری وفکری معلومات ميں ،توقف
وجودی اورعلّيت و معلوليت موجود نہ ہو ،تو ہم کہاں سے سمجه سکتے ہيں کہ عالم کے
مظاہر،عالم سے باہر (خالق کائنات کے نام )کسی چيز سے توقف وجودی اور رابطہ ہستی
رکهتے ہيں اورکيایہ مضحکہ خيز نہيں ہے کہ ہم کہيں کہ مشيت الہٰی اس پر جاری ہے کہ آثار کو
صاحبان آثار کے بعد خلق کرے اورخدا کو ثابت کئے بغير ہم اس کی مشيت کے بارے ميں بات
کریں ؟
٢۔یہ کہ جب توقف وجودی اورہرچيز کا دوسری چيز سے رابطہ منقطع ہو جائے ،توہر دليل
اوراس کے نتيجہ کے درميان بهی رابطہ منقطع ہوتا ہے اور کوئی دليل اپنے نتيجہ کا لازمہ نہيں
ہوگی ،کيونکہ اس صورت ميں کسی دليل اوراس کے نتيجہ کے درميان کوئی رابطہ موجود نہيں
ہوگا اوریہ معنی نتيجہ کے علم سے جوڑ نہيں کهاتا ہے اور اس کالازمہ ہر چيز ميں شک ہے
،یعنی مغالطہ!
ل يکن ہم انسانی فطرت کے مطابق ،عليّت ومعلو ليّت کے قانون کو عام اور قابل استثناء
جانتے ہيں ۔ہر مظہر اورحادثہ جس کا سابق عدم ہے ،اس کا وجود اپنے آپ سے نہيں ہے ،بلکہ
اس کے اوپر ایک علت ہوتی ہے اور اس طرح ان کی علّت اور اس کی علّت کی علّت اور سب
علتيں (دور اور تسلسل کے باطل ہونے کی بنياد پر اور دوسری عقلی دليل کی وجہ سے“واجب
الوجود”نام کی ایک علّت پر ختم ہوجاتی ہے،کہ وہ خدائے متعال ہے ۔اور نتيجہ کے طورپر
عالم،عالم اسباب ہے اور تاثير ميں مستقل علت ،تمام مخلو قات کے لئے خدائے متعال ہے
اورخدائے متعال اورایک “امکانی معلول”کے درميان جو دوسری علتيں قرار پائی ہيں ،وہ واسطہ
ہيں اور ان کا فعل اور اثر بالکل خدا کا فعل واثر ہے ۔
وجود کے فيض کا معلول تک پہنچنے ميں کسی چيز کا واسطہ ہونا تاثير ميں شرکت اور
استقلال کے علاوہ ہے ۔واسطہ اور ذی واسطہ سے ایک فعل کے استثناء کی مثال انسان کے
مانند ہے کہ ہاته ميں ایک قلم ليا ہوا کوئی چيزلکهتا ہے ،اس فرض کے مطابق قلم لکهتا ہے،
ہاته لکهتا ہے ،انسان لکهتا ہے اورہر تين چيزیں صحيح ہيں جبکہ لکهنا ایک فعل سے زیادہ نہيں
ہے اور تين موضوع سے اس کی نسبت دی جاتی ہے ،ليکن تاثير ميں مستقل لکهنے
والا“انسان”ہے اورہاته اور قلم واسطہ ہيں نہ شریک اورآگ اور اس کے جلانے کی مثال ميں ،
خدائے متعال نے جلانے والی آگ کو خلق فرمایا نہ آگ کو الگ سے اور جلانے کو الگ سے،
یعنی جلانے کو آگ کی راہ سے خلق فرمایا ہے نہ مستقل طور پر اور الگ سے ۔
مذکورہ بيان کے پيش نظر ،عليّت اورمعلوليّت جو مخلوقات ميں امکانی ہيں ،خدائے متعال
کے استقلال خلقت اورپيدا کرنے ميں اس کی وحدانيت سے کسی قسم کا تضادنہيں رکهتيں
بلکہ اشياء کی وساطت اوران کی تائيد اور تاکيد کرنے والی ہيں ،اور قرآن مجيد بهی مخلوقات
کو نسبت دینے والے اور احتياجات ميں انجام دینے والے تمام افعال وآثار ميں ،عام قانون عليّت
ومعلوليّت کی تصدیق کرتا ہے ،اوراسی اثناء ميں تاثير ميں استقلال کو خدائے متعال کے لئے
محفوظ رکهتا ہے اوراس سلسلہ ميں قرآن مجيد کی آیتيں بہت ہيں ،جيسے:
( >ومارميت اذرميت ولکنّ اللّٰہ رمیٰ >(انفال ١٧
”آپ نے سنگریزے نہيں پهينکے ہيں بلکہ خدا نے پهينکے ہيں“
( >قتّلوهم یعذٰبهم اللّٰہ باٴیدیکم >(توبہ/ ١۴
”ان سے جنگ کرو الله انهيں تمهارے ہاتهوں سے سزادے گا“
( >انّمایرید اللّٰہ ليعذّبهم بها >(توبہ / ۵۵
”بس الله کا ارادہ یہی ہے کہ انهيں کے ذریعہ ان پر عذاب کرے“
اورایسی ہی دوسری آیتيں ۔
ل يکن دوسری حجّت :جو دعاکو عبادت بيان کرتی ہے ۔ہم نے پہلی حجّت کے جواب: ميں
واضح کردیا ہے کہ غير خدا سے دعاکرنا اور حاجت طلب کرنا ،دوصورتوں ميں قابل تصورہے :
طرف کی تاثيراور ذاتی قدرت کے ادعاسے حاجت طلب کرنا اوراس کے واسطہ سے
حاجت طلب کر نے اوردعاکرنے کا اس کے ذی الواسطہ سے شریک ہونے ميں کسی قسم کی
مداخلت نہيں ہے ،اس بناپر آیہ کریمہ:
( >ادعوني استجب لکم ان الّذین یستکبرون عن عبادتي سيد خلون جهنّم داخرین >(غافر/ ۶٠
” مجه سے دعاکرو ميں قبول کروں گا اوریقينا جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ
عنقریب ذلّت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے“
صرف اس دعاکی نہی کرتی ہے جوطرف مقا بل کے تاثير ميں استقلال کے اعتقاد سے
مربوط ہو ،نہ کلی طور پر حاجت طلب کر نے کی ،حتی واسطہ اور طریقہ جو صاحب واسطہ کا
فعل ا وراثر ہے اس سے حاجت طلب کرنا ،مستقل سے حاجت طلب کرنا منظور ہو تا ہے ،اس
کے علاوہ آیہ کریمہ ميں مطلق معنی لينا ایسے مواقع پيدا کرتا ہے کہ ان کا شرک نہ ہونا
بدیہی ہے ،اس کے مانند کہ مثلاًہم ہر روز نانوائی سے کہيں کہ جناب !ان پيسوں کے برابر روڻی
د ے دیجئے اور اسی طرح قصاب سے گوشت ،اپنے نو کر سے خدمت ،اپنے مخدوم سے نظر
عنایت اور اپنے دوست سے دوستی سے مربوط ایک کام کا مطالبہ کرتے ہيں ۔کيونکہ ان
مطالبات کا دعاہونا بدیہی ہے اور مطلق دعاکے شرک ہونے کی صورت ميں مشکل واضح ہے ۔اور
یہ کہ بعضوں نے کہا ہے :چونکہ یہ زندہ ہيں اور مطالبہ کو سنتے ہيں ،ليکن انبياء اور اولياء کے
دنيا سے رخصت ہونے کے بعدجو دعاان سے کی جاتی ہے وہ اس سے غافل ہيں ،یہ صرف ان
دعاؤں کے بيہودہ ہونے کی مشکل کو حل کرتا ہے نہ آیت ميں دعا کے مطلق ہونے کی صورت
ميں شرک ہونے کی مشکل کو دور کرتا ہے ۔اس بات کے باطل ہو نے کی دليل چوتهے سوال
کے جواب: ميں بيان کی جائے گی ۔
ا سی طرح آیہ کریمہ:
( >یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰہ وابتغوا اليہ الوسيلة وجاهدوا فيسبيلہ لعلکم تفلحون >(مائدہ / ٣۵
”ایمان والو!الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو اور اس کی راہ ميں جہاد کرو
کہ شاید اس طرح کامياب ہو جاؤ“
ميں خدائے متعال اپنی طرف وسيلہ تلاش کرنے کا حکم فرماتا ہے اور اسے کاميابی کے
سبب کے طور پر بيان فرماتا ہے ۔یہ پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی اس روایت کے
مانندہے جس ميں آنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم ایمان اور نماز کو اپنا وسيلہ قرار دیتے ہيں
اور واضح ہے کہ وسيلہ کا مقصود یا ایمان و عبادت کے توسط سے تقرّب ہے یاخود ایمان وعبادت
ہے ۔اوربدیہی طور پر ایمان ایک نفسانی صفت اور عبادت انسان کی حرکت ہے اورجو بهی ہو
غير خدائے متعال ہے کہ اس کی سببيّت تصدیق ہوئی ہے جبکہ گزشتہ حجّت کی بناپر یہ شرک
ہے اور شرک کا خدا کے تقرّب کا سبب بننا محال ہے ۔
ل يکن تيسری حجّت: جو کچه بت پرستوں کے مشرک ہونے کے بارے ميں کہا گيا ہے کہ
بت پرست شہادت دیتے تهے خدائے وحدہ لا شریک خالق اور رازق ہے اور اس کے علاوہ نہ
کوئی زندہ کرتا ہے ،نہ کوئی مارتا ہے نہ کوئی تدبير کرتا ہے ۔اور تمام آسمان اورزمين اور ان کے
اندر موجود ہ مخلوقات اس کے بندے اوراس کے کنڻرول اور قدرت کے تحت ہيں ،یہ ایک ایسا
دعویٰ ہے جو حقيقت کے ساته ميل نہيں کهاتا ،کيونکہ ادیان اور مذاہب کی کتا بوں کی نص کے
مطابق اورکروڑوں کی تعداد ميں چين ،هندوستان ،جاپان اور دوسرے ممالک ميں زندگی کرنے
والے بت پرستوں کی گواہی کے مطابق بت پرست کا دین اس بنياد پر ہے کہ وہ کہتے ہيں
خلقت اور تمام کائنات کی پيدائش،حتی جن خداؤں کی وہ پرستش کرتے ہيں ،خدائے متعال
کی طرف سے ہے ليکن اس کی مقدس اورلامتناہی ذات ہمارے لئے حس ،خيال اور عقلی طور
پر قابل درک نہيں ہے اورکسی بهی صورت ميں ہمارا ادراک اس کی ذات کا احاطہ نہيں کرسکتا
ہے تاکہ ہم اس کی طرف توجہ کرسکيں ،اس لحاظ سے کہ اس کی عبادت اور پرستش توجہ
کے ساته ہونی چاہئے ،ہمارے لئے ممکن نہيں ہے اور ہم ناچارہيں اس کے بعض مقرّب اور قدرت
مند بندوں کی پرستش کریں جو ملائکہ ،جن، اور عالم بشریت کے مقدس افراد پر مشتمل ہيں
تاکہ وہ ہميں خدا کے نزدیک تر کرکے اس کے پاس ہماری شفاعت کریں ۔
ب ت پرستوں کی نظر ميں ملائکہ ایک پاک ومقرّب مخلوق ہيں ،جن کو عالم کے امور کا
ایک حصہ ادارہ کرنے کے لئے سونپا گيا ہے اور مستقل اورمکمل اختيار کے مدبّر ہيں جيسے
،سمندروں ،صحرا ،جنگ ،صلح ،زیبائی زمين اورآسمان کے خداوند ۔ان ميں سے ہرایک خدا ایک
حصہ کا مکمل اورمستقل اختيار رکهنے والا مقرر ہوتا ہے اورتدبير کرتا ہے۔ یہ خداؤں کا خدا ،رب
الارباب اورالہٰ الالهٰہ ہے اور امور عالم کی تدبير سے کوئی چيز اس سے مربوط نہيں ہے ۔قرآن
مجيد ميں بهی چند آیات اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہيں ،جيسے آیہ شریفہ:
( >ولئن ساٴلتهم مَن خلق السموات والارض ليقولنّ اللّٰہ>(لقمان / ٢۵
”اور اگر ان سے سوال کریں کہ زمين وآسمان کا خالق کون ہے تو کہيں گے کہ الله“
( >ولئن ساٴلتهم مَن خلقهم ليقولنّ الله >(زخرف/ ٨٧
”اور اگرآپ ان سے سوال کریں گے کہ خود ان کا خالق کون ہے تو کہيں گے الله ،اوراسی طرح
کی دوسری آیتيں جن ميں بت پرستوں کے خدا کے خالق ہونے کا اعتراف ہے ۔“
ا ورجيسے:
( >لوکان فيهما آلهةً الااللّٰہ لفسدتا>(انبياء / ٢٢
”یادرکهو اگر زمين وآسمان ميں الله کے علاوہ اورخدابهی ہوتے توزمين وآسمان دونوں برباد ہو
جاتے۔“
ا ورآیہ:
( >وما کان معہ من الہ إذاً لذهب کل الہ بما خلق ولعلابعضهم علی بعض>(مومنون / ٩١
”اور نہ اس کے ساته کوئی دوسراخد اہے ورنہ ہرخدااپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہو جاتا اور ہر
ایک دوسرے پر برتری کی فکر کرتا“
ا س آیت کا استدلال یہ ہے کہ اگر متعدد خدا ہو تے ،تو تدبير ميں اختلاف نظرپيدا ہوتا اور
مختلف نظریات کو نافذ کرنے کے نتيجہ ميں عالم ميں اختلاف اور فساد پيدا ہو
جا تا ۔واضح ہے کہ اگر خداؤں کو تدبير ميں استقلال حاصل نہ ہو تا اورصرف خدا ئے واحد کے
ارادہ سے واسطہ اورنافذ کرنے والے ہوتے تو اختلاف نظروجودنہيں رکهتا تاکہ تدبير ميں اختلاف
پيش آئے۔
مذکورہ بيان سے واضح ہو گيا کہ بت پرست ،خواہ ستاروں اورستاروں کی روحانيت کی
پرستش کرتے ہيں یا وہ جو اصنام اوراصنام کے ارباب کی پرستش کرتے ہيں وہ ہر گز خدائے
متعال کی پرستش نہيں کرتے ہيں اورعبادت اورتقرّب کے سلسلہ ميں جو خاص مراسم
اورقربانی انجام دیتے ہيں ،وہ ان کے خداؤں سے مربوط ہيں اورخدائے متعال کے پاس صرف
شفاعت کی اميد رکهتے ہيں اور وہ بهی دنيوی زندگی کے امور کے بار ے ميں نہ آخرت ميں
شفاعت کے لئے ،کيونکہ وہ معاد کے منکر ہيں اور قرآن مجيد جو جواب: انهيں اس آیت:
( > مَن ذا الّذي یشفع عندہ الّا باذنہ>(بقرہ/ ٢۵۵
”کون ہے جو اس کی بارگاہ ميں اس کی اجازت کے بغير سفارش کرسکے“
ميں دیتا ہے ،وہ مطلق شفاعت سے مربوط ہے نہ قيامت کے دن کی شفاعت سے
جس کے وہ منکر ہيں ۔
جی ہاں !اعراب ،جاہليت کے دوران جہالت ميں غرق تهے،کبهی بت پرستی کے اصول
کے خلاف خدائے متعال کی بهی عبادت کرتے تهے ،من جملہ حج،جو حضرت ابراهيم عليہ
السلام کے زمانہ سے ان کے درميان رائج تها ،اس کے بعد جب عمروبن یحیٰ نے حجاز ميں بت
پرستی کو رواج بخشا تو سب لوگ بت پرست ہو ئے ۔پهر بهی حج کو بجا لاتے تهے ،اس عمل
کو انجام دینے کے ضمن ميں کعبہ کے اوپر واقع “ هبل” اور صفاومروہ پر موجود “اساف ”و“نائلہ”
جيسے اپنے خداؤں کی زیارت کرتے تهے اور انهيں کی قربانی پيش کرتے تهے اور ان کا یہ
جاہلانہ عمل عام بت پرستوں کے جاہلانہ عمل کے مانند تها کہ بت کو قبلہ ا ورمظہر قراردے کر
صاحب بت ،کہ مثلاًملک ہے ،کی پرستش کرنے کے بجائے اپنے ہاتهوں سے بنائے گئے بت کی
پرستش کرتے تهے ،چنانچہ خدائے متعال حضرت ابراهيم کے کلام کو نقل کرتا ہے:
( >اتعبدون ماتنحتون >(صافات/ ٩۵
”کيا تم لوگ اپنے ہاتهوں کے تراشيدہ بتوں کی پرستش کرتے ہو ؟“
خلاصہ،بت پرستی کے اصول کے مطابق ،اور اس تيسری حجت ميں جو کچه بيان ہوا ہے
اس کے بر عکس ،خدائے متعال نہ امور عالم کا مدبر ہے اور نہ ملائکہ سے نسبت دی جانے والا
معبود اورشفاعت ہے ،شفاعت دینوی امورزندگی سے مربوط ہے اورایک ایسی تدبير کا جزء ہے
کہ ملائکہ اس ميں مستقل اورخودمختارہيں نہ مذکورہ مثال کے مطابق واسطہ اوروسيلہ ،ملائکہ
اپنی تدبير ميں معمار کی حيثيت رکهتے ہيں کہ عمارت کا مالک ایک عمارت کی تعمير کو اس
کے حوالہ کرتاہے ،اس فرض ميں عمارت کا ابتدائی مواد مالک مکان کے ذمہ ہے ،جس چيزکی
معمار کو عمارت کی تعمير ميں ضرورت ہو ،جيسے ،چونا ،پتهر،اینٹ وغيرہ مالک مکان کو یہ
چيزیں فراہم کرنا ہوں گی اور ان کی ترتيب اوربناوٹ معمار کے ذمہ ہوتی ہے ۔ہماری بحث ميں
شفاعت،معمار کے مطالبات کی حيثيت رکهتی ہے اور اسی طرح تدبير کابهی جزو ہے، جو
خداؤں کے ذمہ ہے ۔
ل يکن، جو کچه اس تيسری حجت ميں اہل کتاب کے بارے ميں کہاگيا ہے کہ وہ انبياء
اورصالح بندوں کو مرنے کے بعد خدا کاشریک قراردیتے تهے اور ان سے حاجت طلب کرتے تهے
اور اس طرح مشرک ہوتے تهے ،یہ ایک اوربے دليل دعویٰ ہے حقيقت ميں اہل کتاب ،یعنی
یہود اورعيسائی وغيرہ عموماًرسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی دعوت کو مسترد کرنے
کی وجہ سے کافر تهے ،چنانچہ فرماتا ہے:
>انّ الّذین یکفرون باللّٰہ ورسولہ ویریدون ان یفرّقوا بين اللّٰہ ورسولہ ویقولون نؤمن ببعض
ونکفرببعض ویریدون ان یتّخذوا بين ذلک سبيلااولئک هم الکافرون حقاّ<
( (نساء / ١۵٠ ۔ ١۵١
”بيشک جو لوگ الله اوررسول کا انکار کرتے ہيں اورخدا اوررسول کے درميان تفرقہ پيدا کرنا چاہتے
ہيں اور یہ کہتے ہيں کہ ہم بعض پر ایمان لائيں گے اوربعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہيں کہ
ایمان وکفر کے درميان سے کوئی نيا راستہ نکال ليں ۔تودرحقيقت یہی لوگ کافر ہيں“
ا سی طرح اپنے علماء کے بارے ميں مطلق اطاعت کرتے تهے اورانهيں اپنا ارباب جانتے
تهے ،اورخدائے تعالیٰ اطاعت کو عبادت اورپرستش شمارکرتا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:
>اٴلم اٴعهد اليکم یابنی آدم ان لا تعبدوا الشياطن انّہ لکم عدوّ مبين وان اعبدوني >(یسين
( ۶٠ ۔ ۶١ /
”اولادآدم !کيا ہم نے تم سے اس بات کاعہد نہيں ليا تها کہ خبردارشيطان کی عبادت نہ کرنا کہ
وہ تمهارا کهلاہوادشمن ہے ۔اور ميری عبادت کرنا“
مزید فرماتا ہے:
>اٴفراٴ یت مَن اتَّخذالٰهہ هویٰہ واٴضلّہ اللّٰہ علی علم<
( (جاثيہ / ٢٣
”کيا آپ نے اس شخص کو بهی دیکها ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بناليا ہے اورخدانے
اسی حالت کودیکه کر اسے گمراہی ميں چهوڑدیا ہے“
چنانچہ واضح ہے کہ ان آیات ميں اطاعت کو عبادت شمار کيا گيا ہے ۔اوران دوطائفوں ميں
سے ہر ایک انحراف کی وجہ سے دین حق کی راہ سے ایک خاص کفرميں مبتلا ہوا تها ،چنانچہ
یہود کہتے تهے :“عزیرابن الله”اورعيسائی کہتے تهے :“المسيح ابن الله ”اورمسيح اورمریم کی
پرستش کرتے تهے ،چنانچہ فرماتا ہے:
>واذ قال اللّٰہ یعيسیٰ ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذوني وامي الهين من دون اللّٰہ >(مائدہ
(١١۶/
”اورجب الله نے کہا کہ اے عيسی بن مریم کيا تم نے لوگوں سے یہ کہدیا ہے کہ الله کو چهوڑ کر
مجهے اورميری ماں کو خدا مان لو؟“
ا ورخدائے متعال مندرجہ ذیل آیہ شریفہ ميں مجموعی طور پر ان جہتوں کی طرف اشارہ
فرماتا ہے:
>وقالت اليهود عزیر ابن اللّٰہ و قالت النصٰریٰ المسيح ابن اللّٰہ ذلک قو لهم بافواههم یضٰهئون قول
الّذین کفروا من قبل قتّٰلهم اللّہ اٴنّی یوفکون اتّخذوااحبارهم ورهبٰنهم ارباباً من دون اللّہ والمسيح
( ابن مریم ومااٴمروا الّا ليعبدوا الها واحداً لاالہ الّاهو>(توبہ ٣٠ ۔ ٣١
”اور یہودیوں کا کہناہے عزیر الله کے بيڻے ہيں اورنصاریٰ کہتے ہيں کہ مسيح الله کے بيڻے ہيں یہ
سب ان کی زبانی باتيں ہيں ۔ان باتوں ميں یہ بالکل ان کے مثل ہيں جو ان کے پہلے کفار کہا
کرتے تهے ،الله ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہيں ۔ان لوگوں نے اپنے عالموں
اور راہبوں اورمسيح بن مریم کوخداکو چهوڑ کر اپنا رب بنا ليا ہے حالانکہ انهيں صرف خدائے یکتا
کی عبادت کا حکم دیاگيا تها جس کے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے“
مجوسيوں کے بارے ميں اگرچہ قرآن مجيد ميں تفصيلی بيان نہيں ہے ليکن ہم باہرسے
جانتے ہيں وہ بت پرستوں کے مانند ،فرشتوں کی پرستش کرتے ہيں صرف فرق یہ ہے کہ
مجوس اصنام نہيں رکهتے تهے ،بت پرستوں کے بر عکس وہ ملائکہ کے لئے تصویربناتے تهے
اور“اصنام”کے نام پرانهيں ملائکہ کو دکهانے والا جانتے تهے ۔
مذکورہ بيان سے واضح ہوا کہ قرآن مجيد ميں انبياء اورصالحين سے حوائج کے بارے ميں
واسطہ اور رابطہ کی صورت ميں توسل ،نہ استقلال کی صورت ميں ،ہر گز شرک بيان نہيں ہوا
ہے اوریہ جو مشرکين اوراہل کتاب کہتے ہيں ،جيسا کہ تيسری حجت ميں کہا گيا ہے ،نہيں تهے
بلکہ واضح طور پر غير خدا کو اپنا معبود جانتے تهے نہ شفاعت کے لحاظ سے بلکہ عبادت کے
لحاظ سے اورخاص مراسم انجام دیتے تهے اور اس وقت بهی انجام دیتے ہيں ۔
ا صولی طور پر کوئی بهی اپنی انسانی فطرت سے واسطہ اوروسيلہ کو شرک نہيں
جانتا ہے اور وسيلہ و واسطہ ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو اپنی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے
اوربذات خودراستہ مقصد اورمنزل نہيں ہے ،جو کسی فقير کے حق ميں کسی مال دار کے پاس
شفاعت کرتا ہے مثلاًاس سے کچه پيسے لے کر فقير کو دیتا ہے ،کوئی عقلمند نہيں کہتا کہ وہ
پيسے مال داراورشفاعت کرنے والے کے ہيں بلکہ پيسے دینے والا مال دارہے اورشفيع واسطہ
اور رابطہ ہے ،شفيع ہميشہ نيازمند اورحاجت مند کا تتمہ ہوتا ہے نہ حاجت پوراکرنے والے کا
شریک ۔
ل يکن چوتهی حجّت :اس کاخلاصہ یہ ہے کہ “ علم غيب اور ہر قسم کا مشاہدہ غيبی
خدائے متعال سے مخصوص ہے اورغير خدا سے اس کی نسبت دینا شرک ہے ،اس بناء پر انبياء
واولياء مرنے کے بعد دنيا کے بارے ميں کوئی اطلاع نہيں رکهتے ہيں ،کيونکہ آخرت کی نسبت
دنيا غيب ہے ۔”یہ ایک ایسا مطلب ہے جو نص کے خلاف ہے ۔قرآن مجيد فرماتا ہے:
( >عالم الغيب فلا یُظهر علی غيبہ احداالّا مَن ارتضی من رسول>(جن / ٢۶ ۔ ٢٧
”وہ عالم الغيب ہے اوراپنے غيب پر کسی کو بهی مطلع نہيں کرتا ہے ۔مگر جس رسول کو پسند
کرلے“
خدائے متعال ،اس آیہ شریفہ ميں غيب پر تسلط کو اپنے علاوہ نفی کرتا ہے اوراسی
اثناء ميں رسول کو استثناء قراردیتا ہے اوراستثناء کو دنيا اورغير دنيا کے لئے مقيّد نہيں کرتا ہے
،پس ممکن ہے کہ رسول خدا اپنی زندگی ميں یا اپنی موت کے بعد خد اکی مرضی اورالہٰی
تعليم کے مطابق غيب سے مطلع ہوں ،اس کی تائيد اس سے ہوتی ہے کہ قرآن مجيد ميں
جہاں جہاں پر رسول کے علم غيب سے نفی ہوئی ہے ،اس کے ہمراہ وحی کو اس کے ساته
قرار دیا گيا ہے ،مانندآیہ:
( >قل ماکنت بدعاً من الرسول وما ادری مایفعل بی ولابکم ان اتّبع الّا مایوحی الیّ >(احقاف/ ٩
”آپ کہہ دیجئے کہ ميں کوئی نئے قسم کا رسول نہيں ہوں اورمجهے نہيں معلوم کہ
ميرے اورتمہارے ساته کيا برتاؤ کيا جائے گا ميں توصرف وحی الہٰی کا اتباع کرتا ہوں“
ا ورفرماتا ہے:
>ولو کنت اعلم الغيب لا ستکثرت من الخير وما مسّني السوء ان انا الّا نذیر و
( بشير>(اعراف/ ١٨٨
”اگرميں غيب سے باخبر ہوتا تو بہت زیادہ خير انجام دیتااور کوئی برائی مجه تک نہ آسکتی ۔
ميں توصرف صاحبان ایمان کے لئے بشارت دینے والااورعذاب الہٰی سے ڈرانے والاہوں“
ا ورسورئہ ابراهيم ميں ان امتوں کے انکار کے جواب: ميں ،جو اپنے پيغمبروں سے اعتراض
کرکے بتاتے تهے کہ تم بهی ہماری طرح بشرہو ،پيغمبروں کے قول سے فرماتا ہے:
>قالت لهم رسلهم ان نحن الّا بشر مثلکم ولکنّ اللّہ یمّن علیٰ من یشاء من عبادہ >(ابراهيم
(١١/
”ان رسولوں نے کہا کہ یقينا ہم تمہارے ہی جيسے بشر ہيں ليکن خدا جس بندہ پر چاہتا ہے
مخصوص احسان بهی کرتا ہے“
ا ن تمام آیتوں سے واضح تر حضرت مسيح عليہ السلام کی زبانی اپنی قوم سے خطاب
کو نقل فرماتا ہے:
( >وانبّئکم بما تاکلون وما تدّخرون فی بيو تکم ان في ذلک لایة لکم >(آ ل عمران / ۴٩
”اورتمهيں اس بات کی خبر دوں گا کہ تم کيا کهاتے ہو اور کياگهر ميں ذخيرہ کرتے ہو ،ان سب
ميں تمہارے لئے نشانياں ہيں“
ا س طرح آیت:
( >مبشراًبرسول یاٴتي من بعدي اسمہ احمد>(صف/ ۶
”اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کانام احمد ہے“
ا سی طرح بہت سی روایتيں رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار عليہم
السلام سے آخرالزمان کے حوادث کی خبر کے عنوان سے نقل ہوئی ہيں ۔
ا س بناء پر جو کچه بيان ہوا ،اس ميں جو قرآنی آیات علم غيب اورمعجزات کی قدرت
وغيرہ جيسے امور کو رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے نفی کرتی ہيں ،وہ سب
استقلال اورذاتی قدرت پر ناظر ہيں اور جو آیات اس کو ثابت کرتی ہيں وہ عنایت الہٰی اورخدائی
تعليم سے مربوط ہيں ۔رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم ميں علم غيب وحی کی راہ سے
ائمہ اطہار عليہم السلام ميں پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی وراثت اور تعليم کی راہ
سے ہو تا ہے ،چنانچہ روایتيں بهی اس معنٰی کی دلالت کرتی ہيں اورآیہ کریمہ:
( >یوم یجمع اللّٰہ الرسل فيقول ماذا اٴجبتم قالوالا علم لنا انک انت علاّم الغيوب >(مائدہ/ ١٠٩
”جس دن خداتمام مرسلين کو جمع کرکے سوال کرے گا کہ تمهيں قوم کی طرف سے تبليغ کا
کيا جواب: ملا تو وہ کہيں گے کہ ہم کيا بتائيں توخود ہی غيب کا جاننے والا ہے“
کا اس معنی سے استدلال ہوا ہے کہ قيامت کے دن تمام انبياء ان کی موت کے بعد ان
کی امتوں کے اعمال کے بارے ميں لا علمی کا اظہار کریں گے اورکہيں گے کہ ہم تو مرنے کے
بعد اپنی امت کے حالات سے آگاہی نہيں رکهتے ۔
ا گراس کا معنی یہ ہو گا کہ مرنے کے بعد امت کے اعمال ہمارے لئے غيب تهے اور ہم
غيب سے بے خبر ہيں ،تو امت کے اعمال کے بارے ميں یہ مشکل موت سے پہلے بهی پيش
آسکتی ہے ، کيونکہ ہر عمل کی حقيقت اس کی صورت کے تابع نہيں ہوتی ہے ،بلکہ خبر متواتر
کے مطابق بلکہ بدیہی طور پر فاعل کی نيت کے تابع ہے ۔کہ یہ انسان کے باطن سے مربوط
ایک امر ہے اورہرانسان کا باطن دوسرے انسان کے لئے غيب ہے ۔اس بناء پر ،چنانچہ مرنے کے
بعد اپنی امت کے اعمال سے بے خبر ہو تے ہيں ،قبل از مرگ بهی حقيقت اعمال ، جو غيب ہيں
،سے بے خبر ہوں گے ،اس صورت ميں دنيا ميں ان کے اعمال کا شاہد قراردینا ،چنانچہ آیہ:
>وکنت عليهم شہيدامادمت فيهم> (مائدہ/ ٧اا)
”ميںجب تک ان کے درميان تہاان کاگواہ اورنگراںرہا“
ا ورآیہ:
>ویتّخذ من کم شہداء>(آل عمران/ ۴٠ ا)
” اور تم ميں سے بعض کو شہداء قراردے“
ا ور آیہ:
( >وجای ء بالنبيين والشهداء>(زمر/ ۶٩
”اور انبياء اورشہداء کو لایا جائے گا“
ا ورآیہ:
( >ویقول الاشهاد هولا ء الّذین کذّبوا علی ربّهم <(ہود/ ١٨
”ان لوگوں نے خدا کے بارے ميں غلط بيانی سے کام ليا ہے“
کا اطلاق پر دلالت کرنا ،لغو اور بے معنی ہو گا ۔
ل ہذا،آیہ شریفہ کا لازمی معنی یہ ہوگا کہ انبياء کہتے ہيں ہم ایک ایسا علم نہيں رکهتے
ہيں ،جس کے ہم خود مالک ہوں ،جو علم ہمارے پاس ہے ،وہ ایسا علم ہے جو تيرے پاس ہے اور
تو نے ہی ہميں سکهایا ہے اور سادہ تر الفاظ ميں ،تو بہتر جانتا ہے کہ جو کچه ہمارے پاس ہے
وہی ہے جو تيرے پاس ہے اور تونے ہی ہميں دیاہے ۔
ا ورليکن یہ جو تيسری حجت کے ذیل ميں کہا گيا ہے کہ انبياء اورائمہ کی قبروں کے
سامنے خضوع اورتعظيم کرنا اور ان کی قبروں اورضریح کو چومنا شرک ہے ۔یہ ایک بے بنياد بات
ہے ،کيونکہ قبوراور ان کے آثارشعائر اورایسی نشانياں ہيں جو خدا کی یاد دلاتی ہيں اور ان کا
احترام خدائے متعال کا احترام ہے ۔ خدائے متعال رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے بارے
ميں فرماتا ہے:
( >فالّذین آمنوا بہ وعزّروہ ونصروہ واتّبعوا النّور الّذياٴُنزل معہ اؤلئک هم المفلحون>(اعراف/ ١۵٧
”پس جو لوگ اس پر ایمان لا ئے ،اس کا احترام کيا ،اس کی امداد کی اوراس نورکا اتباع کيا
جو اس کے ساته نازل ہوا ہے وہی در حقيقت فلاح یافتہ اور کامياب ہيں ۔“
خدائے تعالیٰ مطلق شعائر اوراپنی نشانيوں کے بارے ميں فرماتا ہے:
( >ومَن یعظّم شعائراللّٰہ فانّها من تقوی القلوب >(حج / ٣٢
”جوبهی الله کی نشانيوں کی تعظيم کرے گا یہ تعظيم اس کے دل کے تقویٰ کا نتيجہ ہو گی“
دوسری طرف سے اہم واجبات ميں سے ایک خدائے متعال کی محبت ہے اوربدیہی ہے
کہ شئے کی محبت شئے کے آثاروآیات کی محبت اوراس شئے سے اظہار محبت کا لازمہ ہوتی
ہے ۔
ن بی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اورائمہ هدی عليہم السلام خدائے متعال کے شعائر
اور نشانياں ہيں ،ان کی محبت کرنا ضروری ہے، جيسا کہ قرآن مجيد کی محبت کرنا ضروری ہے
اور چومنا اظہار محبت کی ضروریات ميں سے ایک ہے ۔ کيا یہ کہا جاسکتا ہے “حجر اسود”پر ہاته
ملنا اور اس کو چومنا شرک ہے اورخدائے متعال نے شرک کے مصادیق ميں سے ایک مصداق
کی وضاحت کرکے اسے قبول کيا ہے ؟
ا س بحث کے خاتمہ پر تعجب کرنا چاہئے کہ رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے
اظہار محبت کو واضح شرک جاننے والے حضرات ،مسئلہ توحيد ميں خدائے متعال کی صفات
ثبوتيہ کو سات مانتے ہيں ۔(حيات ،قدرت ،علم ،سمع،بصر،ارادہ اورکلام) و ان حضرات کے بقول یہ
سات صفتيںذات سے خارج اورذات خدائے متعال کے قدیم ہونے سے قدیم تر ہيں ،یعنی ان
صفات ميں سے ہرایک نہ ذات کا معلول ہے اورنہ ذات اس کا معلول ہے ،یعنی یہ ذاتاًواجب
الوجودہيں اورنتيجہ کے طورپرسات صفات ثبو تيہ ،ذاتاًسات واجب الوجودبن جاتے ہيں اورذات
اقدس الہٰی کے ساته آڻه واجب الوجودبن جاتے ہيں اور یہ لوگ ان کے مجموعہ کی “توحيد”کے
نام پر پرستش کرتے ہيں اور پهر بهی توحيد کا دعویٰ کرکے ،خدائے واحداوریکتا ،اس کی
نشانيوں اورشعائر کا احترام کرنے والوں کو مشرک کہتے ہيں!
|