اسلام اور آج کا انسان
 
چهڻا حصہ:

علم امام عليہ السلام


امام حسين عليہ السلام کا اپنی شہادت کے بارے ميں آگاہ ہونا
سوال :کيا حضرت سيد الشہداء عليہ السلام مکہ سے کوفہ کی طرف اپنے سفر ميں
آگاہ تهے کہ وہ شہيد ہو جائيں گے؟دوسرے الفاظ ميں ،کيا حضرت امام حسين عليہ السلام
شہادت کی غرض سے عراق کی طرف روانہ ہوئے تهے یاسو فيصدی ایک عادلانہ اسلامی
حکومت تشکيل دینے کی غرض سے؟
جواب: شيعہ اماميہ کے عقيدے کے مطابق حضرت سيد الشہداء ،واجب الاطاعت امام
اورپيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے تيسرے جانشين ،ولایت کليہّ کے مالک تهے
۔دلائل نقليہ اور عقلی استدلال کے مطابق خارجی حقایق،حوادث اور واقعات کے بارے ميں علم
امام کے مندرجہ ذیل دوقسم اور دوراہيں ہيں:
ا مام عليہ السلام عالم ہستی کے حقائق کے بارے ميں ہر قسم کے شرائط ميں اذن
الہٰی سے آگاہ ہيں ،خواہ یہ حقائق اورحوادث حسی ہوں یا غير حسی ،جيسے :آسمانی مخلو
قات ،گزرے ہو ئے حوادث اور مستقبل کے واقعا ت ،اس مطلب کی دليل روایات کے مطابق
متواترہے کہ شيعوں کی حدیث کی کتابوں جيسے کافی ،بصائر ،صدوقۺ کی کتابوں اور کتاب
بحار وغيرہ ميں درج ہيں ۔ان روایات کے مطابق، جن کی کوئی حد نہيں،امام عليہ السلام خدا
کی عنایت سے سب چيزوں کے بارے ميں آگاہ ہيں نہ اکتساب سے ۔اور جس چيز کو چاہيں
اسے خدا کے اذن سے تهوڑی سی توجہ کے نتيجہ ميں جانتے ہيں ۔
ا لبتہ قرآن مجيد ميں چند آیتيں ہيں ،جو علم غيب کو خدائے متعال سے مخصوص اور اس
کی مقدس ذات ميں منحصر قرار دیتی ہيں ،ليکن جو استثناء آیہ کریمہ:
( >عالم الغيب فلا یظهر علی غيبہ احداً الّا مَن ارتضی من رسول>(جن/ ٢۶ ۔ ٢٧
”وہ عالم الغيب ہے اور اپنے غيب پر کسی کو بهی مطلع نہيں کرتا ،مگر جس رسول کو پسند کر
لے ۔“
ميں موجود ہے ،اس سے معلوم ہو تا ہے کہ علم غيب کا خدائے متعال سے مخصوص
ہونا اس معنی ميں ہے کہ غيب کو آزادی کے ساته بذات خود ،خدا کے علاوہ کو ئی نہيں جانتا
ہے ۔ليکن ممکن ہے پسندیدہ پيغمبر خدائے متعال کی تعليم سے اسے جان ليں اورممکن ہے
دوسرے پسندیدہ اشخاص بهی پيغمبروں کی تعليم سے اسے جان ليں ۔چنانچہ بہت ساری ان
روایتوں ميں نقل ہوا ہے کہ پيغمبر نيز ہر امام اپنی زندگی کے آخری لمحات ميں علم امامت کو
اپنے بعد والے امام کے حوالہ کرتے تهے ۔
ا ور عقلی بعض استدلال موجود ہيں جن کے مطابق امام عليہ السلام اپنے نورانی مقام
کے توسط سے اپنے زمانہ کے کامل ترین انسان اور خد اکے اسماء وصفات کے مکمل مظہر اور
دنيا کی تمام چيزوں اورہر شخصی واقعہ کے بارے ميں واقف ہيں اور اپنے وجود عنصری کے
مطابق ہر جہت ميں توجّہ کریں ،توان کے لئے حقائق روشن ہو تے ہيں ۔(ہم ان استدلالوں کی
تفسير کو اپنی خاص جگہ پر چهوڑتے ہيں ،کيونکہ یہ پيچيدہ استدلالی مسائل کا ایک سلسلہ
ہے اور ان کی سطح اس مقالہ سے بلند تر ہے )
جس نقطہ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،وہ یہ ہے کہ اس قسم کا علم عطيہ
الٰہی ہے اور عقلی ونقلی دلائل کے موجب ،جو اسے ثابت کرتے ہيں ،ہر قسم کی خلاف ورزی
سے منزّہ اور نا قابل تغير ہے اور اس ميں ایک ذرّہ بهی خطا نہيں ہو تی اور اصطلاح ميں جو کچه
لوح محفوظ ميں لکها ہے اس کا علم ہے ،اور جو کچه خدائے متعال کی حتمی قضا ہے اس کی
آگاہی ہے ۔
ا ور اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ اس قسم کے علم سے کسی طرح کی تکليف اور
فریضہ تعلق نہيں رکهتا (اس جہت سے کہ اس قسم کے علم سے متعلّق ہے اور قطعی واقع
ہونے والا ہے ) اور اسی طرح انسان کا قصد اور تقاضا اس کے ساته رابطہ پيد انہيں کرتا کيونکہ
تکليف ہميشہ امکان کی راہ سے فعل سے متعلق ہے اور اس جہت سے کہ فعل اور اس کا
ترک دونوں مکلف کے اختيار ميں ہيں ،فعل یاترک مطلوب ہوتا ہے ،ليکن ضروری الوقوع اور حتمی
قضاء کی جہت سے اس کا حتمی ہو نا مورد تکليف قرار پانا کمال ہے ،مثلاًیہ صحيح ہے کہ خدا
اپنے بندہ سے فرمائے فلاں کام ،جس کا انجام دینا یا ترک کر نا تيرے لئے ممکن ہے اور تيرے
اختيار ميں ہے ،اسے انجام دیدو ليکن محال ہے کہ خدا یہ فرمائے کہ فلاں کام جو ميری مشيت
تکوینی اور حتمی قضا ہے ،بيشک تحقق پائے گا اور اس ميں کسی قسم کا پس وپيش نہيں ہو
گا ،اسے انجام دو یا نہ دو ،کيونکہ اس قسم کا امرونہی ،لغو اور بے معنی ہے ۔
ا سی طرح انسان ایک ایسے امر کے بارے ميں ارادہ کرکے اپنے لئے مقصد اور ہدف قرار
دے سکتا ہے اور اس کے تحقق کے لئے جستجو کر سکتا ہے جس ميں ہونے یا نہ ہو نے کا
امکان موجود ہو ،ليکن ہر گزایک ایسے امر کے بارے ميں ارادہ کر کے اسے اپنا مقصد قرار نہيں
دے سکتا ہے ،جو یقين (ناقابل تغيروخلاف ورزی )اور حتمی قضا کے طور پر ہونے والاہو ،کيونکہ
جو امر بہر حال ہونے والا ہو اس ميں انسان کا ارادہ وعدم ارادہ اور قصدوعدم قصدکسی قسم کا
اثر نہيں رکهتا ہے کيونکہ یہ ہونے والا ہوتا ہے (توجہ کی جائے!)
ا س بيان سے واضح ہوتا ہے:
١۔امام عليہ السلام کو عطيہ کے طور پر عطاکيا گيا یہ علم ان کے اعمال ميں کوئی اثر
نہيں رکهتا ہے اور ان کی خاص تکليف سے اس کا کوئی ربط نہيں ہو تا ہے ۔اوراصولی طورپر ہر
فرض کيا گيا امر جو قضائے حتمی اور حتمی الوقوع سے متعلق ہو ،وہ انسان کے امرونہی یا
قصدوارادہ سے متعلق نہيں ہو تا ہے ۔
جی ہاں !قضائے __________حتمی اور خدائے متعال کی قطعی مشيت سے متعلق اموررضابہ قضا
سے مربوط ہيں ،چنانچہ سيد الشہداء حضرت امام حسين عليہ السلام اپنی زندگی کے آخری
لمحات ميں ،خاک وخون ميں لت پت ہو کر فرماتے تهے:
”رضا بقضائک و تسليما لاٴمرک لا معبود سواک” ١
ا سی طرح مکہ سے خارج ہوتے ہوئے اپنے خطبہ ميں فرمایا:
”رضا اللّٰہ رضانا اهل البيت” ٢
ہ م اہل بيت کی رضایت الله تعالی کی رضایت ہے
٢۔انسان کے فعل کا قضائے الٰہی سے متعلق ہونے کے لحاظ سے حتمی ہونا اس کے
اختياری فعاليت کی نظر ميں اس کے صاحب اختيار ہونے سے منافی نہيں ہے ،کيونکہ
٢(مختصر فرق کے ساته) / ١۔ معالی السبطين : ٢١
( ٢۔(لہوف/ ٢۶
قضائے الٰہی فعل کی تمام کيفيتوں کے باوجود ا س سے تعلق پيدا کر چکی ہے نہ مطلق فعل
سے ،مثلاًخدائے متعال نے چاہا ہے کہ انسان فلاں اختياری فعل کو اپنے اختيار سے انجام دے
اور اس صورت ميں اس فعل اختياری کا خارج ميں واقع ہو نا ،اس جہت سے کہ خدا کی مرضی
سے متعلق ہے ،حتمی اور ناقابل اجتناب ہے اور اسی حالت ميں اختياری بهی ہے اور انسان
سے نسبت امکانی صفت رکهتا ہے ۔(قابل توجہ!)
٣۔ یہ کہ امام عليہ السلام کے ظاہری علل واسباب سے قابل تطبيق ظاہری اعمال کو
اس عطا شدہ علم کے فقدان کی دليل اور واقعات کے بارے ميں جہل کا گواہ قرار نہيں دینا
چاہئے ،جيسے کہ کہا جائے :اگر سيدالشہداء عليہ السلام حادثہ کے بارے ميں آگاہ تهے توآپ
نے کيوں حضرت مسلم کو کو فہ بهيجا ؟صيداوی کے توسط سے اہل کوفہ کو کيوں خط لکها ؟
کيوں خود مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے ؟آپ نے کيوں اپنے آ پ کو ہلاکت ميں ڈال دیا ؟
جبکہ خدا فرماتا ہے:
( > ولاتلقوا باٴیدیکم الی التهلکة>(بقرہ/ ١٩۵
”اپنے نفس کو ہلا کت ميں نہ ڈالو“
کيوں ؟کيوں ؟
ا ن تمام سوالات کا جواب ہمارے بيان کئے گئے مذکورہ نکتہ کے پيش نظر واضح ہے
اوراس کی تکرار کی ضرورت نہيں ہے ۔
قرآن مجيد کی نص کے مطابق پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور اسی طرح
(آپ کی پاک عترت سے)امام عليہ السلام دیگر افرادبشر کے مانند بشر ہيں اور اپنی زندگی کی
راہ ميں جو اعمال انجام دیتے ہيں وہ دوسرے لوگوں کی طرح اختياری اورعادی علم کی بنياد پر
ہو تے ہيں ۔امام عليہ السلام بهی دوسروں کی طرح کام کے خير وشر سے اور نفع ونقصان کو
عادی علم سے تشخيص دے کر ،جس کام کو انجام دینے کے لائق اورشائستہ جانتے ہيں ،اس
کا ارادہ کر کے اس پر عمل کرنے کی جستجو کرتے ہيں جہاں پر علل و عوامل اورخارجی حالا ت
موافق ہوں مقصد تک پہنچتے ہيں اور جہاں پر اسباب اورشرائط موافق نہ ہوں آگے نہيں بڑهتے
۔(یہ کہ امام عليہ السلام خدا کے اذن سے تمام حوادث کے جزئيات ،گزشتہ اورآئندہ ،کے بارے
ميں واقف ہيں ان کے اختياری اعمال پر کسی قسم کا اثرنہيں ڈالتے ،جيسا کہ بيان ہوا)
ا مام عليہ السلام بهی دوسرے تمام انسانوں کی طرح بندئہ خدا ہيں اوردینی تکاليف و
قوانين کے پابند ہيں اورخد اکی طرف سے رکهنے والی سرپرستی اور پيشوائی کے لحاظ سے
عام انسانی معياروں کے مطابق انهيں اعمال کو انجام دینا چاہئے اور کلمئہ حق اوردین کو احياء
کرنے کے لئے کوئی دقيقہ فرو گزاشت نہيں کرناچاہيے ۔
ا س ظمانہ کی اجمالی حالت کا ایک سرسری جائزہ لينے کے بعد حضرت سيدالشہداء
عليہ السلام کے مقصد کے بارے ميں فيصلہ کو سمجها جا سکتا ہے ۔
ت اریخ اسلام ميں خاندان رسالت اور ان کے شيعوں پر جو تاریک ترین ایام گزرے وہ معاویہ
کی بيس سالہ حکومت کا دور تها ۔
معاویہ نے خلافت اسلاميہ کو ہر نيرنگ سے اپنے قبضہ ميں لے ليا اور وسيع اسلامی
مملکت کا بے قيد وشرط فرماں روابن گيا ۔اس نے اپنی تمام حيرت انگيز توانائيوں کو اپنی
حکومت کو استحکام بخشنے اور اہل بيت اطہار عليہم السلام کو نابود کرنے ميں صرف کيا ،نہ
صرف یہ کہ انهيں نابود کرے بلکہ وہ چاہتا تها لوگوں کی زبانوں اوردلوں سے ان کے نام ونشان
تک کو محوکردے ۔
ا س نے لوگوں کی نظروں ميں محترم اورقابل اعتماد چند اصحاب پيغمبر صلی الله عليہ
وآلہ وسلم کو ہر قيمت پر اپنا حامی بنا کر ان کے ذریعہ صحابيوں کے حق ميں اور اہل بيت عليہم
السلام کی مخالفت ميں احادیث جعل کرائيں ۔اس کے حکم سے اسلامی مملکت کے تما م
شہروں کے منبروں سے اميرالمومنين حضرت علی عليہ السلام پر (ایک دینی فریضہ کے مانند)
لعنت بهيجی جاتی تهی ۔
وہ اپنے آلہ کار اورجاسوسوں ،جيسے زیادبن ابيہ ،سمرةا بن جندب ،بسربن ارطاةوغيرہ
کے ذریعہ محبان اہل بيت کا ہر جگہ سراغ لگا کر انهيں نابود کرتا تها اور اس راہ ميں زر، زور،
لالچ، ترغيب اور ڈرانے دهمکانے کی توانائيوں سے آخری حدتک استفادہ کرتا تها ۔
ا یسے ماحول ميں قدرتی طور پریہ نتيجہ نکلتا ہے کہ عام لوگ حضرت علی عليہ السلام
اور ان کی اولاد کازبان پر نام لينے سے نفرت کریں ،اور جو لوگ اہل بيت عليہم السلام کی
دوستی کا شائبہ تک دل ميں رکهتے ہوں اپنی جان ،مال اور آبرو پر آنچ آنے کے خوف سے اہل
بيت عليہم السلام سے اپنا رابطہ منقطع کریں ۔
حقيقت حال کو یہاں سے پایا جاسکتا ہے کہ سيدالشہداء حضرت امام حسين عليہ
السلام کی امامت کی مدت تقریباًدس سال جاری رہی اور یہ پوری مدت (آخری کے چند ماہ کے
علاوہ )معاویہ کی معاصر تهی ۔باوجود اس کے کہ حضرت امام حسين عليہ السلام وقت کے
امام اور تمام فقہ اسلامی ميں معارف واحکام دین بيان کرنے والے تهے ۔ليکن اس پوری مدت
ميں آپ سے ایک حدیث بهی نقل نہيں کی گئی ہے ۔ (اس کا مقصودوہ روایت ہے جسے لوگوں
نے حضرت سے نقل کی ہو ،نہ وہ روایت جو حضرت کے خاندان کے اندر حضرت سے بعد والے
ائمہ تک پہنچی ہو )اور یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں اہل بيت اطہار عليہم السلام کے
گهر کا دروازہ بالکل بند کيا گيا تها اور اس گهرانے سے لوگوں کی رفت وآمدنہ ہونے کی حدتک
پہنچی تهی ۔روز افزون گهڻن اور دباؤ کے بادل اسلامی ماحول پر ایسے چهائے تهے کہ حضرت
امام حسن عليہ السلام نے معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکهنے یا اس کے خلاف انقلاب کر نے
کی اجازت نہيں دی ،اور اس کا کم ترین فائدہ بهی نہيں تها ،کيونکہ :سب سے پہلے:معاویہ نے
آپ سے بيعت لے لی تهی ،بيعت کے باوجودکوئی آپ کاساته نہيں دیتا تها ۔
دوسرے یہ کہ:معاویہ نے اپنے آپ کو لوگوں ميں پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم
کے ایک بڑے صحابی ،کاتب وحی اور خلفائے راشدین ميں سے تين افراد کے مورداعتماد اور
دست راست کے عنوان سے پہچنوایا تها اور “خال المومنين ”جيسے مقدس لقب کو اپنے آپ
سے منسوب کر چکاتها ۔
ت يسرے یہ کہ:اپنے مخصوص نيرنگ سے آسانی کے ساته اپنے کسی کارندہ کے ہاتهوں
امام حسن عليہ السلام کو قتل کرا سکتا تها اور اس کے بعد آپ کی خونخواہی کا پر چم بلند کر
کے آپ کے قاتلوں سے انتقام لے کر آپ کے لئے مجلس عزا بهی منعقد کر سکتا تها اورآپ کا
عزادار بهی بن سکتا تها!
معاویہ نے امام حسن عليہ السلام کی زندگی کے حالات یہاں تک پہنچائے تهے کہ آپ
کسی صورت ميں ،حتی اپنے گهر کے اندر محفوظ نہيں تهے ،بالآخر(جب لوگوں سے یزید کے
لئے بيعت لينا چاہتا تها )حضرت کو آپ کی بيوی کے ہاتهوں زہر دلاکر شہيد کرایا ۔
وہی امام حسين عليہ السلام ،جس نے معاویہ کے مرنے کے بعد فوری طور پر یزید کے
خلاف انقلاب کيابرپا اورخود اور اپنے ساتهيوں ،حتی اپنے شير خوارفرزند کو بهی اس راہ ميں
قربان کيا ،معاویہ کے زمانہ ميں اپنی امامت کی پوری مدت کے دوران یہ قربانی پيش کرنے کی
قدرت نہيں رکهتے تهے ،کيونکہ معاویہ کے ظاہر اًحق بجا نب نيرنگوں کے مقابلہ ميں آپ کی
شہادت کسی قسم کا اثر نہيں رکهتی ۔
ی ہ تها ان ناخوشگوار حالات کا ایک خلاصہ جسے معاویہ نے اسلامی ماحول ميں پيدا
کرکے پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے گهر کا دروازہ بالکل بند کردیاتها اور اس طرح
اہل بيت اطہار عليہم السلام کو ہر قسم کے اثر ورسوخ سے محروم کرکے رکه دیا تها ۔
ا خری،کاری ضرب جو اس نے اسلام ومسلمين کے پيکر پر لگائی،وہ یہ تهی کہ اس نے
خلافت اسلاميہ کو ظالمانہ اور موروثی سلطنت ميں تبدیل کيا اور اپنے بيڻے یزید کو اپناجانشين
مقرر کيا ،جبکہ یزید کسی قسم کی د ینی شخصيت (حتی ظاہر ميںبهی )کا مالک نہيں تها
اورہميشہ علنی طور پر موسيقی ،شراب نوشی اور بندر کے ساته کهيلنے ميں وقت گزارتا تها
اوردینی قوانين کا کسی قسم کا احترام نہيں کرتا تها ،اور ان سب کے علاوہ دین پر اعتقاد نہيں
رکهتا تها ،چنانچہ جب اہل بيت عليہم السلام کے اسيروں اور کربلا کے شہيدوں کے سروں کو
دمشق ميں داخل کر رہے تهے ،یزید ان کے تماشا کے لئے باہر آیا تها ،ایک کوّے کی آواز اس
کے کان ميں پہنچی اور اس نے کہا:
ن عب الغراب قل اولاتقل فقد اقتضيت من الرسول دیونی ١
کوے نے آوازدی تم کہو یانہ کہویقييناًميں نے(آل )رسول سے اپنے قرضے پورے
١۔ تفسير روح المعانی ،آلوسی ،ص ۶۶ ،بہ نقل تاریخ ابن الوردی کتاب وافی الوفيات
کرلئے۔
ا وراسی طرح جب اہل بيت عليہم السلام کے اسيروں اور حضرت سيد الشہداء کے سر
اقدس کو اس کے سامنے لایاگيا تو اس نے کچه اشعار کہے اور ان اشعارميں سے ایک یہ تها:
ل عبت هاشم بالملک فلا خبرجاء ولاوحي نزل
ب نی ہاشم نے ملک حاصل کرنے کے لئے ایک کهيل کهيلاتهانہ کوئی فرشتہ ان کے پاس
آیاتهانہ وحی نازل ہوئی تهی۔
ی زید کی حکمرانی ،جو معاویہ کی سياست کو جاری رکهنے کی پاليسی پر مبنی
تهی، اسلام اور مسلمين کی تکليف کو واضح کرتی تهی اور اہل بيت رسول عليہم السلام کے
مسلمانوں اور شيعوں سے رابطہ کی حالت (جسے مکمل طور پر فراموش کرانا تها )کو عياں
کرتی تهی ۔
ا یسے شرائط ميں اہل بيت عليہم السلام کی نابودی قطعی بنانے اور حق و حقيقت کی
بنيادوں کو جڑسے اکهاڑپهينکنے کاتنہا وسيلہ اور موثرترین عامل یہ تها کہ سيد الشہداء حضرت
امام حسين عليہ السلام یزید کی بيعت کریں اور اسے خليفہ اورپيغمبراسلام کا واجب الاطاعت
جانشين مان ليں ۔
حضرت سيد الشہداء عليہ السلام حقيقی پيشوا اور قيادت کے مالک ہونے کے پيش نظر
ہر گز یزید کی بيعت نہيں کر سکتے تهے اور دین اسلام کو پائمال کر نے کے لئے ایسا موثر قدم
نہيں اڻها سکتے تهے ،لہذا امام عليہ السلام کے لئے بيعت سے انکار کے علاوہ کوئی اور چارہ
نہيں تها اور خدائے متعال بهی اس کے علاوہ کوئی چيز آپ سے نہيں چاہتا تها ۔
دوسری طرف سے بيعت کاا نکار تلخ اور ناخوشگوار نتائج رکهتا تها ،کيونکہ وقت کی
خطرناک اور مخالفت کو برداشت نہ کرنے والی حکومت اپنی پوری طاقت اور هستی سے بيعت
کا مطالبہ کرتی تهی (بيعت سرچاہتی تهی )اور اس کے علاوہ کسی بهی چيز پر تيار نہيں تهی
اس لحاظ سے ،بيعت سے انکار کرنے کی صورت ميں امام عليہ السلام کا قتل ہو نا قطعی اور
انکار بيعت کا اڻوٹ لازمہ تها ۔
حضرت امام حسين عليہ السلام نے اسلام ومسلمين کی مصلحت کے پيش نظر بيعت
سے انکار کرنے اور قتل ہونے کا قطعی فيصلہ کيا اور کسی خوف کے بغير موت کو زندگی پر
ترجيح دی اورمشيت الہٰی بهی آپ کا بيعت سے انکار اور شہيد ہوناتها۔(اور یہ ہے اس امر کا
معنی جو بعض روایتوں ميں نقل ہوا ہے کہ رسول خداصلی الله عليہ وآلہ وسلم نے خواب ميں آپ
سے فرمایا تها :“خدا تجهے قتل ہوتے دیکهنا چاہتا ہے ”اورحضرت نے بهی اس تحریک سے منع
کرنے والے بعض افراد کو فرمایاتها :“خدامجهے قتل ہوتے دیکهنا چاہتا ہے ”اور بہر صورت اس کا
مقصود،مشيت تشریعی ہے نہ مشيت تکوینی ،کيونکہ ہم نے اس سے پہلے بهی بيان کيا ہے
کہ خدا کی تکوینی مشيت ارادہ ا ورفعل ميں کوئی اثر نہيں کرتی )
جی ہاں !امام حسين عليہ السلام نے بيعت کا انکار اور (نتيجہ کے طور پر) اپنے قتل
ہونے کا فيصلہ کيا اور موت کو زندگی پر ترجيح دی اورحوادث کے رونما ہو نے سے حضرت کا
صحيح نظریہ ثابت ہو گيا ،کيونکہ اس دل خراش حالت ميں آپ کی شہادت نے اہل بيت عليہم
السلام کی مظلوميت اورحقانيت کو ثابت کردیا ۔آپ کی شہادت کے بعد بارہ سال تک تحریکوں
اور خونریزیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد وہی گهر،جس کے دروازہ کو حضرت کے زمانہ
ميں کوئی نہيں پہچانتا تها ،پانچویں امام کے زمانہ ميں رونما ہو ئے مختصرآرام کے نتيجہ ميں
اطراف واکناف سے شيعہ سيلاب کے مانند اسی حقانيت ونورانيت کے دروازہ کی طرف دوڑپڑے
اور اس حقانيت اور نورانيت کی چمک دمک کو دنياکے کونے کونے ميں پهيلانے کا سبب بنے۔
اس حقانيت کی مستحکم بنياد اہل بيت عليہم السلام کی مظلوميت ہے اوراس ميدان کے پيش
رو سيد الشہداء حضرت امام حسين عليہ السلام تهے ۔آج،امام حسين عليہ السلام کے زمانہ
ميں خاندان رسالت کی حالت اورلوگوں کی ان کی طرف توجہ کا،آپ کی شہادت کے بعد چودہ
صدیوں کے دوران رونما ہوئے حالات کا موازنہ ،جو روزبروزتازہ اورعميق ترہورہے ہيں ،کرنے پر
حضرت کا صحيح نظریہ اظہرمن الشمس ہو رہا ہے اوراس سلسلہ ميں حضرت نے بعض روایات
کے مطابق جو شعر انشا ء فرمایا ہے وہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے:-
وماان طبنا جبن ولکن منایا نا و دولت آخرینا
ب زدلی اورخوف ہماری طبيعت ميںشامل نہيںبلکہ ایساہے کہ ہميں اس دنياسے
جاناچاہيے تاکہ دوسروں کی حکومت پا برجا ہو۔
ا سی لئے معاویہ نے یزید کو تاکيد کی تهی کہ اگرحسين ابن علی عليہ السلام اس کی
بيعت کرنے سے اجتناب کریں توانهيں اپنے حال پر چهوڑنا اور کسی قسم کی مداخلت نہ کرنا
معاویہ یہ وصيت اخلاص اور محبت کی بناپر نہيں کررہا تها ،بلکہ وہ جانتا تها کہ حسين ابن علی
عليہ السلام بيعت کرنے والے نہيں ہيں اوراگروہ یزیدکے ہاتهوں قتل ہو جائيں تو اہل بيت عليہم
السلام پر مظلوميت کا نشان لگ جائے گا اوریہ اموی سلطنت کے لئے خطر ناک اوراہل بيت
عليہم السلام کے لئے تبليغ اور پيش رفت کا بہترین وسيلہ ہو گا ۔
سيد الشہداء حضرت امام حسين عليہ السلام ،بيعت سے انکار کر نے کے لئے اپنے
الہٰی فریضہ سے آگاہ تهے اوربنی اميہ کی بے حد اور نا قابل مزاحمت قدرت اوریزید کی ذہنيت
کے بارے ميں سب سے بہتر آگاہ تهے اور جانتے تهے کہ بيعت سے انکارکا اڻوٹ لازمہ ،ان کا
قتل ہونا ہے اور فریضہ الہٰی کی انجام دہی کا نتيجہ شہادت ہے ۔اس معنی کے بارے ميں
مختلف مقامات پر گوناگوں تعبيرات سے انکشاف فرماتے تهے ۔
مدینہ کے گورنر کی مجلس ميں جب آپ سے بيعت کا مطالبہ کياگيا توآپ نے
“فرمایا:“مجه جيسا”یزیدجيسے کی بيعت نہيں کرتا ۔“
مدینہ منورہ سے رات کی تاریکی ميں نکلتے وقت اپنے نانا رسول خداصلی الله عليہ وآلہ
وسلم سے نقل کيا کہ خواب ميں آپ سے فرمایا “خدا نے چاہا ہے (یعنی تکليف کے عنوان
سے) قتل ہو جاؤ گے“
مکہ سے عزیمت کے وقت کی گئی اپنی تقریر کے دوران کچه لوگوں کی طرف سے آپ
کو عراق کی طرف عزیمت سے منصرف ہونے کی تجویز کے جواب ميں بهی مکرّریہی مطلب
بيان فرمایا ۔
راستہ ميں ایک عرب شخصيت نے حضرت کو کوفہ جانے کے اپنے ارادہ سے منصرف
ہونے پر اصرارکيا اورکہا کہ منصرف نہ ہونے کی صورت ميں حتماًقتل کئے جاؤ گے ،آپ نے جواب
ميں فرمایا :“یہ حقيقت مجه سے پوشيدہ نہيں ہے ليکن یہ لوگ مجه کو چهوڑنے والے نہيں ہيں
اور جہاں بهی جاؤں اورجہاں پر رہوں مجهے مار ڈاليں گے “
(اگر چہ ان ميں سے بعض روایتيں قابل تردید یاسند کے لحاظ سے ضعيفف ہيں ليکن
وقت کے حالات اور قضایا کا تجزیہ وتحليل ان کی مکمل طورپر تائيد کرتے ہيں )
ا لبتہ ہم جو کہتے ہيں کہ “اپنے انقلاب سے امام عليہ السلام کا مقصد شہادت تها
اورخدائے متعال آپ کی شہادت چاہتا تها ”اس کا مطلب یہ نہيں کہ خدانے آپ سے چاہا تها کہ
یزید کی بيعت سے انکارکریں اور اس کے بعدہاته پر ہاته دهرے بيڻه کر یزید کے کارندوں کو اطلاع
دے کہ آکر انهيں قتل کر ڈاليں اوراس مضحکہ خيز طریقہ سے اپنافریضہ انجام دیں اور اسے
انقلاب کا نام رکهيں ،بلکہ امام کا فریضہ یہ تها کہ یزید کی منحوس خلافت کے خلا ف انقلاب
قائم کریں ،اس کی بيعت سے انکار کریں اور اپنے اس انکار کوہر ممکن راہ سے آخر تک
پہنچائيں جو شہادت پر منتہی ہو گی ۔
ی ہاں پر ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ اپنے قيام کے دوران بدلتے حالات کے مطابق امام کی
روش مختلف تهی ۔ابتدائی مرحلہ ميں جب مدینہ کے گور نر کے دباؤ ميں قرار پائے تو رات کو
مدینہ سے حرکت کی اورمکہ،حرم خدا اور جائے امن ،ميں پناہ لے لی اور مکہ ميں کئی مہينے
تک پناہ گزینی کی زندگی گزاری ،آپ مکہ ميں خلافت کے ماموروں اورجاسوسوں کے تحت
نظرتهے یہاں تک فيصلہ ليا گيا کہ موسم حج ميں ایک گروہ کے ذریعہ قتل کئے جائيں یا پکڑ کر
شام بهيج دئے جائيں اور دوسری طرف عراق سے حضرت کے نام خطوط کا ایک بڑا سلسلہ آنے
لگا اورسيکڑوں اورہزاروں خطوط ميں آپ سے حمایت کا وعدہ دے کر عراق آنے کی دعوت دی
گئی ۔جب اہل کوفہ کی طرف سے آخری خط بعنوان اتمام حجت (جيساکہ بعض مورخين نے
لکها ہے پہنچا ،توحضرت نے روانہ ہو نے اور خونين انقلاب کا فيصلہ ليا ۔اوّل اتمام حجت کے طورپر
اپنے نمائندہ حضرت مسلم ابن عقيل کو بهيجا۔ کچه مدت کے بعد حضرت مسلم کی طرف سے
انقلاب کے لئے حالات مناسب ہو نے کا خط ملا ۔
ا مام عليہ السلام نے مذکورہ دوعوامل ،یعنی شام کے جاسوسوں کے آپ کو قتل کرنے
یاپکڑ نے کے لئے مکہ ميں داخل ہونے کے پيش نظر ،خانہ خدا کے احترام کے تحفظ اور عراقيوں
کے انقلاب کے لئے آمادہ ہو نے کی وجہ سے کوفہ کی طرف عزیمت فرمائی ۔اس کے بعد جب
راستہ ميں مسلم اورہانی کے بے دردی سے قتل کئے جانے کی خبر ملی توحضرت نے اپنے
انقلاب اور جنگ کو دفاعی انقلاب ميں تبدیل فرمایا اور اپنے ساتهيوں کی چهان بين کرنے لگے
اورصرف ان افراد کو اپنے ساته رکها جو اپنے خون کے آخری قطرہ تک وفا کرنے اورپيچهے نہ
ہڻنے پر آمادہ تهے ۔ ١
محمدحسين طباطبائی
قم ۔ر بيع الاول ١٣٩١ ه
-------------------------------------
١۔مذکورہ بحث ،چندسال پيش استاد علامہ طباطبائی کے توسط سے ،ایک گروہ کے سوالات
کے جواب کے طورپرلکهی گئی ہے۔