اسلام اور آج کا انسان
 

چوتهاحصہ:

کچه سوالات اورجوابات

مرداورعورت کے مساوی ہونے کی کيفيت اور عورتوں کی سياست ميں مداخلت:
سوال:کيا اسلام کے قانون ميں مرداورعورت مساوی ہيں ؟اور کيا عورت سياست اور
ملکی معاملات ميں مداخلت کرسکتی ہے اور مرد کے ساته مساوی ہو سکتی ہے؟
جواب:اسلام کے آغاز پر ،انسانی معاشرہ عورت کے بارے ميں درج ذیل دو عقيدوں ميں
سے ایک عقيدہ رکهتاتها :ایک گروہ عورتوں کے ساته پالتو جانوروں جيسا سلوک کرتاتها، اس
کی نظر ميں عورت معاشرہ کار کن نہيں تهی ليکن اس سے تسلّط اور معاشرہ کی نفع ميں
خدمت، جيسے استفادے کئے جاسکتے تهے ۔دوسرے گروہ سے تعلق رکهنے والے افرادمہذّب
ترتهے اورعورت کے ساته ایک ناقص رکن جيسا سلوک کرتے تهے ۔ان کے سامنے عورت ایک
بچہ یا اسير کے مانند معاشرہ کی طفيلی تهی اور اپنی حالت کے مطابق کچه حقوق رکهتی
تهی اور مردوں کے ذریعہ ادارہ ہو تی تهی ۔یہ دین اسلام تها جس نے عالم بشریت ميں پہلی
بار معاشرہ ميں عورت کی مکمل رکنيت کا اعلا ن کيا اور اس کے کام کو محترم
١۔ ١٣٨٣ ه( ١٩۶٢ ء)نيو یارک (امریکہ) ميں ایرانی مقيم دانشوروں ميں سے ہر ایک نے استاد
علامہ طباطبائی سے اسلام کے مختلف موضوعات پر گوناگوں سوالات کئے تهے کہ علامہ نے
تمام سوالات کے جوابات لکه کر ایک ساته انهيں روانہ کئے تهے ۔
ہم اس کتاب ميں ان سوالات اور ان کے جوابات کو قارئين کرام کی خدمت ميں پيش کرتے
ہيں تا کہ ان موضوعات سے دلچسپی رکهنے والے محققين ان سے استفادہ کریں (ادارہ)
جانا:“ميں تم ميں سے کسی بهی عمل کرنے والے کو ضائع نہيں کروں گا چاہے وہ مردہو یا
عورت،تم سب ایک خلقت رکهتے ہو ۔” ١
اجتماعی موضوعات ميں سے صرف تين موضوعات ميں عورت کو،اسلام نے مداخلت کی
اجازت نہيں دی ہے :حکومت،فيصلہ دینا اور جنگ ،قتل کے معنی، ميں نہ جنگ سے مربوط دیگر
حصوں کے معنی ميں - اس کا فلسفہ ۔جيسادینی محور سے معلوم ہو تا ہے - یہ ہے کہ عورت
ذات ایک جذباتی اور احساساتی مخلوق ہے، مرد کے بر خلاف کہ ایک استدلالی مخلوق ہے اور
یہ تين مو ضوع استدلال سے مربوط ہيں نہ جذبات سے اور بدیہی ہے کہ ایک جذباتی مخلوق کو
سو فيصدی استدلی امور ميں کسی قسم کا دخل نہيں دینا چاہئے اور فطری طور پر وہ اس
ميں نشو ونما نہيں پا سکتی ہے ۔
اس نظریہ کے لئے بہترین گواہ وہ مشترک کوشش ہے جس سے مغربی دنيا نے مرداور
عورت کی مشترک تعليم وتر بيت ميں استفادہ کيا ہے ،ليکن اس کے باوجود آج تک معاشرہ کے
ان تين شعبوں ميں سے کسی ایک شعبہ ميں بهی عورتوں کی کوئی قابل توجہ تعداد کو پيش
نہيں کر سکے ہيں عدليہ ،سياست یا جنگی سرداروں کے نا بغوں کی فہرست ميں (
مثلاً،نرسوں ،رقاص ،فلمی ستاروں،نقاشی اور موسيقی کے برخلاف)مردوں کے مقابلہ ميں
عورتوں کا تناسب بہت ناچيز ہے ،مساوی کی بات ہی نہيں ۔
( ١۔<انیّ لا اضيع عمل عامل منکم من ذکراو انثی بعضکم من بعض>(آل عمران / ١٩۵

مرداورعورت کی وراثت کی کيفيت
سوال:عورت کو مرد کی نسبت کيوں وراثت کم ملتی ہے ؟
جواب:اسلام ميں عورت،ميراث ميں سے مجموعی طورپر ایک حصہ اور مرددوحصے ليتا
ہے ( جيسا کہ روایت ميں ہے)اس کا سبب یہ ہے کہ عورت کی زندگی کا خرچہ مرد(شوہر) کے
ذمہ ہے اور اس حکم کا سر چشمہ بهی عورت کا جذباتی ہو اور مرد کا استدلالی ہونا ہے ۔
وضاحت:ہر زمانہ ميں زمين پر موجود سرمایہ ایک نسل سے متعلق ہو تا ہے جو اس زمانہ
ميں زندگی کرتی ہے اور بعد والی نسل پہلی نسل کی جا نشين بن کر اس سرمایہ کو ميراث
کے طورپر حاصل کرتی ہے اور چونکہ مجموعی طور پر عورتوں اورمردوں کی آبادی ہميشہ
٣حصہ عورت کا / ٣حصہ مرد کا اور ١ / متفاوت رہی ہے اور اسلام کی نظر ميں عمومی ثروت کا ۴
ہوتا ہے اوردوسری طرف سے مردکے عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے عورت
٣حصہ اپناحصہ رکهتی ہے اور نتيجہ / اپنے خرچ ميں مرد کے حصہ ميں شریک ہوتی ہے جبکہ ١
٣حصہ مرد کے اختيار / ٣ حصہ خرچ کے طور پر عورت کے اختيار ميں اور ١ / کے طورپر سرمایہ کا ٢
٣ حصہ جذبات کا اور / ميں قرار پاتا ہے ،نتيجہ کے طورپر خرچ کے لحاظ سے سرمایہ کا ٢
٣حصہ استدلال کا ہوگا اور یہ بذات خود ایک بہترین اور عادلانہ تقسيم ہے ،اس کے علاوہ یہ /١
ترتيب خاندان کی تشکيل ميں گہرے اور نفع بخش اثرات رکهتی ہے ،چنانچہ بندء ١١ کے جواب
ميں اشارہ کيا جائے گا ١
---------------------------------------

١۔ص ١۴٣ ۔ص ١۴۵ کی طرف رجوع کيا جائے۔

مرد اور طلاق کا حق
سوال:طلاق کا حق صرف مرد کو کيوں ہے ؟
جواب:دینی بيانات کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ مسئلہ بهی مرد کے استدلالی
اور عورت کے جذباتی ہونے سے مربوط ہے ۔اس کے علاوہ اسلام کی شرع ميں ایسے راستے
بهی موجود ہيں ،جن کے ذریعہ عورت ازدواج کے وقت مرد کے اختيارات کو کسی حد تک محدود
کرسکتی ہے یا اپنے لئے طلاق کے کچه اختيارات حاصل کرسکتی ہے

اقتصادی امور ميں عورت کی آزادی
سوال : کيا عورت اقتصادی اور مالی امور ميں آزاد ہو سکتی ہے ؟
جواب : اسلام ميں عورت اپنے بارے ميں اقتصادی اور مالی امور ميں مکمل او ہرقسم
کی آزادی رکهتی ہے ۔

مرداور تعدّدازدواج
سوال :مرد کيوں کئی بيویاں رکه سکتا ہے ؟
جواب :البتہ معلوم ہے کہ اسلام نے تعدّدازدواج کو واجب قرارنہيں دیا ہے بلکہ صرف
اجازت دی ہے کہ مرد ایک سے زیادہ چار عورتوں تک ازدواج کر سکتا ہے وہ بهی صرف اس شرط
پر کہ ان کے درميان مساوات اور عدالت سے پيش آسکے ۔اور اس کا حکم صرف ماحول کے
مطابق ہے ،یعنی یہ اس طرح ہونا چاہئے کہ عورتوں کی کمی اور مردوں کی فراوانی کی وجہ
سے معاشرہ کا نظم ونسق اس عمل (تعدّدازدواج ) سے درہم برہم ہو کر ہرج ومرج سے دوچار
نہ ہو جا ئے ۔ليکن مردوں کی طرف سے واضح ہے ،کيو نکہ عورت اور اولاد کی رہائش اور زندگی
کا خرچہ مرد کے ذمہ ہے اور عدالت کی بهی شرط ہے ،لہذا اس کے نتيجہ ميں ایسا اقدام کرنا
معدودمردوں کے لئے ممکن ہے نہ ہر ممکن کے لئے ۔دوسری طرف سے فطرت اور خارجی
حوادث ہميشہ قابل ازدواج عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ مہيا کر تے ہيں ۔
ا گرہم ایک معيّن سا ل کو ابتداء قرار د ے کر ،زن ومرد کی مسا وی پيدائش کا موازنہ
کریں تو سولهویں سال قابل ازدواج عورتوں کی تعدادسے سات گناہ زیادہ ہوگی اوربيسویں سال
عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت گيارہ اور پانچ( ١ا۔ ۵)ہوگی اور پچيسویں سال ، جو تقریباًعام
طور پر ازدواج کا سال ہو تا ہے یہ نسبت “ ١۶ ۔ ١٠ ”ہو گی اور اگر اس صورت ميں تعدد ازدواج والے
۵فرض کریں تو آڻه فيصد مرد ایک بيوی والے ہو ں گے اور بيس فيصد مرد چار بيویوں / مردوں کو ١
والے ہوں گے اور تيسویں سال بيس فيصد مرد تين بيویوں والے ہوں گے ۔
ا س کے علاوہ ،عورت کی عمر مرد سے زیادہ ہو تی ہے اور معاشرہ ميں ہميشہ بيوہ
عورتوں کی تعداد بيوہ سے مردوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ مردوں ميں جانی نقصان
قابل توجہ حد تک عورتوں سے زیادہ ہو تا ہے اور خاص کر اہم اورعام جنگيں اس مطلب کے
بہترین گواہ ہيں ۔ہم نے ،حاليہ چند برسوں کے دوران روزناموں اور مجلات ميں مکرر پڑها ہے کہ
جر منی کی عورتوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اسلام کے تعدّدازدواج کے قانون کو
جرمنی ميں رائج کریں اور اس طرح بے شوہر عورتوں کی ضرورت کو پورا کریں ، ليکن حکومت نے
کليسائی مخالفت کی وجہ سے اس درخواست کو منظور نہيں کيا ۔
دوسری طرف سے تعدّد ازدواج سے عورتوں کی مخالفت فطری جبلّت کے احساس پر
مستند نہيں ہے ،کيونکہ دوسری ،تيسری اور چوتهی بيوی رکهنے والے مرد زبردستی یہ کام
انجام نہيں دیتے اور جو عورتيں کسی مردکی دوسری ،تيسری یا چوتهی بيوی بن جاتی ہيں
،وہ آسمان سے نہيں اتری ہيں اور نہ زمين سے اگی ہيں بلکہ ان ہی عام عورتوں ميں سے ہيں
اور یہی رسم بہت سے اقوام اورملتوں ميں سيکڑوں اور ہزاروں سال سے رائج تهی۔ نہ کوئی
جبلّتی برائی رونما ہوئی اور نہ عورت ذات کی ميں کوئی کمی محسوس کی گئی ہے

دين اسلام کا بے عيب ہو نا
سوال: کياآپ ا سے قبول کرتے ہيں کہ دین اسلام زمانہ کے گزرنے کو درک نہيں کرسکا
ہے تاکہ دین زمان ومکان کے مطابق ہو تا ؟
جواب :یہ “اسلام زمانہ کے گزرنے کو درک نہيں کرسکا ہے تا کہ زمان ومکان کے مطابق
ایک دین ہوتا ”ایک ایسی بات ہے جو فلسفی تفکر کے بجائے شعری تفکّر کے مشابہ ہے ۔زمان
ومکان نے تغير نہيں کيا ہے تاکہ انسان کے اجتماعی قوانين ميں تبدیلی کا موجب بنيں ،دن
اوررات وہی دن اور رات ہيں اور زمين اور ہوا وغيرہ ہزاروں سال قبل کے مانند ہيں ،صرف انسان
کی طرز زندگی اپنی روزافزوں ترقی کے پيش نظر تبدیل ہوئی ہے اور دن بدن انسان کے توقعات
اور مطالبات بڑهتے یا تبدیل ہوتے رہتے ہيں انسان کی فعاّل توانائی اپنی حيرت انگيز افزائش کے
نتيجہ ميں اسے یہ جرئت بخشتی ہے کہ عيش وعشرت کے جن انواع واقسام کے بارے ميں
کل کے پادشاہ تصور نہيں کرتے تهے آج کے فقيران کی فکر ميں پڑ کر ان کا مطالبہ کریں ۔
معاشرہ ميں یہ فکری تبدیلی بالکل ایک فرد ميں فکری تبدیلی کے مانند ہے جو اسے
زندگی کے مختلف حالات کی وجہ سے پيش آتی ہے ۔ایک مفلس خالی ہاته والاشخص صرف
اپنے شکم کی فکر ميں ہو تا ہے اور ہر چيز کو فراموش کر ڈالتا ہے ،جوں ہی اس کی روزمرہ کی
روڻی مہيا ہو تی ہے ،لباس کی فکر ميں پڑتا ہے ،اس کے بعد اولاد ،اور سرمایہ کو وسعت دینے،
فخر ومباہات ،تکلفات اور گوناگوں عياشيوں کو بڑهاوادینے کی فکر ميں پڑتا ہے اور اسی طرح
ا ج کے اجتماعی قوانين معاشرہ کے اکثرلوگوں کے مطالبات کو اپنے لئے تحفظ قرار دیتے
ہيں ، اگر چہ معاشرہ کی حقيقی مصلحت کے مطابق بهی نہ ہوں ،ليکن اسلامی طرز تفکر اس
کے علاوہ ہے ،اسلام اپنی تشریعيات ميں طبيعی انسان کا (قرآن مجيدکی اصطلاح ميں
انسانی فطرت کو ) تحفّظ قراردیتا ہے ،یعنی انسان کی وجودی عمارت کو اسلحوں سے مسلح
صورت ميں مد نظر رکهتا ہے اور جن ضروریات کی یہ مسلح عمارت نشان دہی کرتی ہے ان کے
برابر مربوط قوانين وضع کرتی ہے ۔نتيجہ کے طور پر ،اسلام کا نظریہ اپنے وضع کئے گئے قوانين
سے معاشرہ کی حقيقی مصلحت کو پورا کرتا ہے ،خواہ اکثریت کی مرضی کے مطابق ہو یا نہ۔
اور یہی قوانين ہيں کہ اسلام نے انهيں شریعت کانام رکهاہے اور انهيں قابل تغير و تبدیلی نہيں
جانتا ہے ، کيونکہ ان کا محافظ انسان کی فطری خلقت ہے جو قابل تغير نہيں ہے ،اور جب تک
انسان ،انسان ہے اس کی فطری ضرورتيں ثابت اور پائيدار ہوں گی ۔اسلام اپنے ثابت قوانين
(شریعت) کے علاوہ قابل تغير ضوابط بهی رکهتا ہے اور وہ ایسے قوانين ہيں جو زندگی کی
تبدیليوں سے مربوط ہيں ،تہذیب وتمدن کی پيشرفت کے اثر ميں اور ان قابل تغير قوانين کی
شریعت کے قوانين سے نسبت، پارليمنٹ کے قابل تنسيخ قوانين کی ناقابل تغير آئين سے
نسبت کے مانند ہے ۔
ا سلام نے دینی حکومت کے حاکم کو اختيار دیا ہے کہ شریعت کے قوانين کے سایہ
ميں، ضرورت کے وقت زمان اور شوریٰ کی مصلحت کے تحت ضروری فيصلے لے کر انهيں نافذ
کرے اور یہ قوانين مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اعتبار رکهتے ہيں اور مصلحت کے رفع ہو نے
پر منسوخ ہو تے ہيں ۔اس کے برخلاف شریعت کے قوانين قابل تنسيخ نہيں ہو تے ۔
ا س بناء پر مذکورہ بيان کے مطابق اسلام دو قسم کے قوانين رکهتا ہے :پہلے ثابت اور
پائدارقوانين ہيں ،جن کاضا من انسان کی ثابت فطرت ہے اور انهيں شریعت کہا جاتا ہے ۔
ا وردوسرے وہ قوانين ہيں جو قابل تغير ہو تے ہيں اور وقت کی مصلحت ان کی ضامن ہے۔
یہ قوانين مصلحت کے بدلنے کے ساته قابل تغير ہو تے ہيں ،اس کے مانند کہ انسان ایک جگہ
سے دوسری جگہ منتقل ہو نے سے بے نياز نہيں ہے ،ليکن قدیم زمانے ميں مسافرت کے لئے
یاپيدل چلتے تهے یا گهوڑے اور گدهے پر سوار ہو کر سفر کرتے تهے ،ان کے لئے زیادہ قوانين
اورضوابط وضع کر نے کی ضرورت نہيں تهی ليکن آج وسائل ميں ترقی پيدا ہو نے کی وجہ سے
صحرائی ،سمندری ،زمين دوز اور ہوائی راستے نکلے ہيں اور بہت دقيق قوانين وضع کر نے کی
ضرورت پيدا ہوئی ہے ،یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ یہ کہنا :“اسلام نے زمانہ کے گزر نے کو درک
نہيں کيا ہے ”انتہائی بے بنيادبات ہے ۔
جن بات کو صاحب اعتراض کہہ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے ان احکام کی نشاندہی
کر کے ثابت کرے جو اس زمانہ کی حقيقی مصلحت کے موافق نہ ہوں یاحکم کی مصلحت کے
بارے ميں سوال کرے ۔یہ ایک وسيع بحث ہے ہم نے گنجائش کے مطابق اس کی وضاحت کی ،
اگر اس کے باوجود اس بحث کے بارے ميں مزید کوئی ابہام باقی ہو یا کوئی اعتراض ہوتو تذکر
دینا تا کہ بحث کو جاری رکهيں ۔

دين اسلام کا فطری ہو نا
سوال: کيا آپ خيال کرتے ہيں کہ اسلام کے بہت سے قوانين جو زمان ومکان کے مطابق
آج سے ١۴٠٠ سال پہلے وجود ميں آئے ہيں ،انهيں بدلنا چاہئے ؟
جواب : اس سوال کا جواب گزشتہ جواب ميں واضح ہو اہے ۔ شریعت اسلام کے قوانين
کی بنياد انسان کی مخصوص فطرت و خلقت ہے نہ اکثریت( نصف اور ایک) کی رائے اور
پسند۔خدائے متعال فرماتا ہے:
( >فاٴقّم وجهک للدّین حنيفافطرت اللّٰہ الّتي فطرالنّاس عليها لا تبدیل لخلق اللّٰہ>(روم / ٣٠
”آپ اپنے رخ کو دین (اسلام) کی طرف رکهيں اور باطل سے کنار کش رہيں کہ یہ دین وہ فطرت
الہٰی ہے جس پر اس نے انسان کو پيد اکيا ہے اور خلقت الہٰی ميں کو ئی تبدیلی نہيں ہو
سکتی ہے“
کيا حضرت زينب (س)ولايت عہدی کے مقام پرفائز تهيں ؟
سوال:کيا آپ یہ مانتے ہيں کہ حضرت زینب سلام الله عليہا ولی عہدی کا مقام رکهتی
تهيں ؟اور اگر رکهتی تهيں ،تو کيا ان کے ذمہ دوسرے کاموں کے علاوہ اس کام کی ذمہ داری
اس بات کی علامت نہيں ہے کہ اسلام ميں عورت صلاحيت رکهنے کی صورت ميں مرد کے قدم
بہ قدم بڑه سکتی ہے ؟
جواب:اس مسئلہ کے بارے ميں کوئی دليل موجود نہيں ہے اور بنيادی طور پر اسلام ميں
ولی عہدی کے نام پر کوئی عنوان موجود نہيں ہے ۔اگر ولی عہد کا مقصود جانشينی ہو تو
مستند مدارک کے مطابق تيسرے امام کے جا نشين چوتهے امام ہيں نہ آپ کی خواہر گرامی
حضرت زینب سلام الله عليہا ۔
جی ہاں !روایتوں سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ یزید اور بنی اميہ کی ظالمانہ او ر استبدادی
حکومت کے خلاف امام حسين عليہ السلام کی تحریک ميں حضرت سيدالشہداء کی وصيت
کے مطابق حضرت زینب سلام الله عليہا کے دوش مبارک پر بهاری ذمہ داریاں تهيں اور ان ذمہ
داریوں کو نبها نے ميں آپ نے علمی ا ور عملی لياقت اور غير معمولی دینی شخصيت کا مظاہرہ
کيا ۔اصولی طور پر جاننا چاہئے کہ اسلام کی نظر ميں ،معاشرہ ميں انسان کی قدر وقيمت علم
وتقویٰ (دین کے انفرادی اور اجتماعی خدمات) پر ہے ۔اور معاشر ہ ميںدوسرے امور جو امتياز اور
نفوذ کا وسيلہ ہو تے ہيں ،جيسے سرمایہ اورعظمت ،خاندان اورخاندانی شرافت ،حکومت
اورعدليہ کے عہدے اور فوجی عہدے کسی قسم کی قدر ومنزلت اور امتياز نہيں رکهتے ہيں،
جو ان کے لئے فخر ومباہات کا سبب بن کر ان کو دوسروں پر افضل قرار دیں ۔اسلام ميں طاقت
کا نفوذ جتلا نے کو کسی امتياز کا معيار قرار نہيں دیا جانا چاہئے ،اس بناء پر ایک مسلمان
خاتون اپنے دینی امتيازات ميں مرد کے قدم بہ قدم بڑه سکتی ہے اور اگر لياقت رکهتی ہو تو
تمام مردوں سے آگے بڑه سکتی ہے اور تين مسائل - حکومت ،عدليہ اور جنگ -کے علاوہ
تمام اجتماعی مشاغل ميں مردوں کے دوش بدوش شرکت کرسکتی ہے ۔خدائے تعا لٰی فرماتا
ہے:
” ”بيشک تم ميں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہيز گار رہے ١
اورفرماتا ہے:
“ ”کيا وہ لوگ جو جانتے ہيں ان کے برابر ہو جائيں گے جو نہيں جانتے ہيں؟ ٢

ازدواج اور خاندان کی تشکيل
سوال :ازدواج اور خاندان کی تشکيل کے بارے ميں اسلام کا کيا نظریہ ہے؟
جواب : ازدواج اور خاندان کی تشکيل اور اس کی بارے ميں قوانين کے کليات کو مدارک
کے ساته بيان کرنے کی تفصيل وضاحت ، اس مقالہ کی گنجائش سے باہر جو کچه یہاں پر اس
سلسلہ ميں اختصار اوراجمال کے ساته بيان کيا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام ازدواج اور
خاندان کی تشکيل کو انسانی معاشرہ کی پيدائش اور اس کی بقاء کا اصلی عامل جانتا
ہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ تخليق نے انسان کے افراد کے در ميان اجتماع بر قرار کرنے کے لئے
،انسان کو مردانہ اور زنانہ آلہ تناسل اور اس کے بعد جبلّی خواہشات سے مسلح کيا
( ١۔<انّ اکرمکم عنداللّہ اتقکم >(حجرات/ ١٣
( ٢۔<هل یستوی الّذین یعلمون والّذین لا یعلمون>(زمر/ ٩
ہے تا کہ یہ دونوں آپس ميں نزدیکی پيدا کر کے دونوں کے مادہ ميں موجود بچہ کو جنم دیں ۔اور
اپنے لخت جگر کے بارے ميں رکهنے والے جذبات اور ہمدردیوں کے پيش نظر حمل کے دوران اور
پيدائش کے بعد اس نو مولود بچہ کی پرورش کرتے ہيں اور ان کے رنج وغم اورجذبات سے بهرے
یہ احساسات اور ہمدردیاں روزبروزبڑهتی ہيں ۔اس نومولودکی تر بيت کر کے اسے بلوغ کے
مرحلہ تک پہنچاتے ہيں ۔ماں باپ کے ان جذبات اور ہمدردیوں کے ردعمل کے طور پر بچہ بهی
جذبات کا مظاہرہ کر کے اپنے ماں باپ سے رجحان دکهاتا ہے ۔اس طرح پہلے خاندانی اجتماع،
پهر قومی اجتماع اور اس کے بعد شہری اور ملکی اجتماعات اور معاشرہ وجود ميں آتے ہيں۔
بدیہی ہے کہ اس صورت ميں معاشرہ کی بقاء اور اس کو نابود ہو نے سے بچانے کے لئے جبلّی
خواہشات محدود ہو نی چاہئيں اور مرد کو اپنی قانونی بيوی اور عورت کو اپنے قانونی شوہر کے
حدود سے تجاوز نہيں کر نا چاہئے تا کہ نو مولود بچے کا باپ مشخص ہو (چونکہ عورت ماں ہونے
کا فطری ضامن ،رکهتی ہے اور وہ وضع حمل ہے )اگر یہ صورت نہ ہو تو ہرجوان اپنی مرضی سے
اپنی جنسی خواہشات سے غير قانونی طور پر استفادہ کر کے تشکيل خاندان کی محنت اور
تکليف سے پہلوتہی کریں گے اور اس طرح باپ اور فرزند اپنے نسبی روابط کے اطمينان کو
کهودیں گے،نتيجہ کے طور پر خاندانی ہمدردیاں کمزورپڑیں گی ۔آخرکارزنارائج ہو نے کے نتيجہ
ميں قہری طور پر حفظان صحت ،اجتماعی ،اخلاقی ،قطع نسل اور دوسری بے شمارخيانتوں
جيسی برائيوں - جو اس فحاشی کی پيداوار ہيں -سے خاندانی ہمدردیاں بالکل نابود ہو کر رہيں
گی۔ جيسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہيں کہ جن ملکوں ميں جنسی آزادی ہے ، وہاں پر خاندانی
ہمدردیاں روز بروزنابود ہوتی جارہی ہيں اور یہ حالت انسان کے مستقبل کے لئے ایک خطرہ کی
الارم ہے ۔
چندسال پہلے ہم نے روز ناموں اور مجلات ميں پڑهاہے کہ امریکہ ميں مرد اور عورتوں
کے ناجائز تعلقات کے نتيجہ ميں سالانہ تين لاکه بے باپ بچے متولد ہوئے ہيں،اس حالت کے
پيش نظرایک سوسال کے بعد معلوم نہيں انسا نی معاشرہ کہاں پہنچ جائے گا !اسی لئے
،اسلام نے زن ومرد کے جنسی تعلقات کو ازدواج کے علاوہ کسی اور راہ سے قطعی طور پر
ممنوع کيا ہے اور بچہ کے اخراجات کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی ہے اوراسے بچہ کی زندگی کا
ذمہ داراور مسئول جانا ہے ۔اسلام ميں قریبی رشتہ داروں کے درميان ازدواج ممنوع ہے :جيسے
ماں ،پهپهی ،خالہ ،بہن ،بيڻی اور بهائی اوربہن کی بيڻی مرد پر حرام ہے۔اسی طرح بہو ،
ساس، بيوی کی بيڻی (ماں کے ساته آميزش کرنے کی شرط پر)بيوی کی بہن (بہن کے عقد
ميں ہونے کی صورت ميں )مرد پر حرام ہيں ۔اسی طرح ہر شوہردارعورت اور رضاعی رشتہ دار
بهی نسبی رشتہ داروں کے مانند حرام ہوتے ہيں ۔عورت کے لئے بهی اسی نسبت سے مرد
حرام ہوتے ہيں ۔مذکورہ بيان کے مدارک قرآن مجيد کی وہ آیات ہيں جو سورہ نساء ميں ذکر
ہوئی ہيں اور اسی طرح وہ روایتيں بهی ہيں جو پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ
اطہار عليہم السلام سے نقل کی گئی ہيں اور احادیث کی کتابوں ميں درج ہيں ۔

اسلام اور مسئلہ طلاق
سوال: اسلام کی نظر ميں طلاق کيسی ہے ؟
جواب:طلاق،اسلام کی مجلس قانون ساز کے فخر ومباہات ميں سے ہے اور یہ ابدی
بدبختی کو خاتمہ بخشنے والی چيزہے کہ مياں بيوی کے درميان عدم توافق کے نتيجہ ميں
رونما ہوتی ہے ۔اس قانون کی اہميت کا یہ عالم ہے کہ غير اسلامی حکومتيں بهی تدریجاًیکے
بعد دیگرے اسے قبول کر رہی ہيں ۔اس کا ایک خلاصہ سوالات کے چوتهے حصہ کے جواب ميں
بيان کيا گيا ہے ۔ملاحظہ ہو ص۔ ١٧۵
طلاق ،ضروریات اسلام ميں سے ایک ہے اوراس کا مصدر بيان کرنے کی ضرورت نہيں
ہے۔ طلاق کے قوانين کی تفصيل اور ان کے مصادربيان کر نے کی یہاں پر گنجائش نہيں ہے۔
عورت اور ہمسر کے انتخاب کا حق
سوال: کيا اسلام ميں عورت،مرد کی طرح اپنے شریک حيات کو انتخاب کرنے کا حق
رکهتی ہے یا نہيں ؟
جواب: اسلام ميں عورت اپنے شریک حيات کاانتخاب کرنے ميں آزاد ہے ۔

فرزند کا مردسے متعلق ہو نا
سوال-:مياں بيوی کے درميان طلاق کی صورت ميں فرزند کس کا ہو تا ہے ؟
جواب:مطلّقہ عورت حق رکهتی ہے کہ وہ اپنے بچہ کو سات سال تک خودپرورش کرے
اور اس مدت کے دوران بچہ کی زندگی کا خرچ مرد کے ذمہ ہے ۔اس حکم کے مصدرکے بارے
ميں فقہ اسلام کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔
حضرت علی عليہ السلام کی ايک فرمائش
سوال: کيا اسے مانتے ہو کہ حضرت علی عليہ السلام نے فرمایا ہے : اپنے فرزندوں کو
مستقبل کے لئے تر بيت کرنا ؟اس صورت ميں کيا اس فرمائش کا یہ معنی نہيں ہے کہ قوانين
اسلام زمان ومکان کے مطابق بدلنے چاہئيں ؟
جواب: یہ ایک مرسل حدیث ہے ،کتاب نہج البلاغہ ميں حضرت سے منسوب کی گئی
ہے ،اس کا مقصود یہ ہے کہ بچوں کی تربيت کو آداب ورسوم کی بنياد پر انجام نہيں دینا چاہئے
،کيونکہ روزمرہ کے آداب ورسوم کا جمود انسان کو زندگی کی ترقی سے روکتا ہے ،جيسے
کوئی شخص گهوڑے گدهے یاپيدل سفر کرنے کا عادی ہو اوراسی پر اکتفا کرے وہ کبهی گاڑی
کو ایجاد کرنے اورسڑک کے اتار چڑهاؤ کو ہموار کرنے کی فکر ميں نہيں پڑے گا۔
ا س کا مقصود یہ نہيں ہے کہ اپنے فرزندوں کو شرعی قوانين (جونص کے مطابق قابل
تغيرنہيں ہيں ) کا پابند نہ کریں اور اگر حقيقت ميں یہی مقصود ہوتا توہم حدیث کو مسترد کر نے
کے لئے ناگزیرتهے ۔ کيونکہ ہمارے پاس پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور تمام ائمہ
اطہارعليہم السلام کا واضح اور قطعی حکم موجود ہے کہ جو بهی حدیث قرآن مجيد کے مخالف
ہو اسے مسترد کر کے قبول نہ کریں اور اس لحاظ سے ہر حدیث کا پہلے قرآن مجيد سے موازنہ
کر نا چاہئے اور اس کے بعد اسے قبول کرنا چاہئے ۔
شريعت کے احکام و قوانين ميں خدا کے علاوہ کوئی تبديلی نہيں لاسکتا ہے
سوال:قوانين اسلام ميں زمان ومکان کے مطابق تبدیلی لانے ميں کيوں ہميشہ کوتاہی
کی ہے؟
جواب: دینی امور کے اولياء خدائی قوانين (شریعت) ميں تبدیلی لانے کا کسی قسم کا
اختيار نہيں رکهتے ہيں اور ان کا فرض صرف دینی مسائل کے بارے ميں کتاب وسنت سے
استنباط کرنا ہے ،ایک وکيل کے مانند جو قانونی مسائل کو ملک کے آئين سے استنباط کرتا ہے
نہ یہ کہ آئين کے کسی دفعہ ميں تبدیلی لائے ۔
شرعی قوانين کے بارے ميں علمائے دین کی بات ہی نہيں ،خود پيغمبر اکرم صلی الله
عليہ وآلہ وسلم -جو شریعت کے لانے والے ہيں -اورآپکے جانشين ۔جو امام اور شریعت کے
محافظ اور معلم ہيں ۔بهی تبدیلی لانے کا اختيار نہيں رکهتے ۔اس قسم کے سوالات اور
اعتراضات کا سرچشمہ مغربی عمرانيات کے ماہروں کا طرز تفکر ہے ، جو یہ کہتے ہيں : صاحب
شریعت انبياء چند نوابغ اور اجتماعی مفکرین تهے ،جنہوں نے معاشرہ کے حق ميں انقلاب برپا
کرکے لو گوں کی سيدهے راستہ کی طرف دعوت کی ہے اور اقتضائے زمان کے مطابق اپنی
فکر سے کچه قوانين کو وضع کر کے لوگوں کو سکهایا ہے اور خود کو خدا کے رسول، اپنے
مقدس افکار کوآسمانی وحی اور خدا کا کلام اور شریعت وخدا کا دین اور اپنے بے لاگ افکار کے
سرچشمہ کو فرشتہ وحی ،جبرئيل بيان کيا ہے ۔
ب دیہی ہے کہ اس قسم کے نظریہ کے مطابق،ادیان آسمانی کے قوانين من جملہ
شریعت اسلام اقتضائے زمان کے مطابق مرتب ہونے چاہئيں اور ان چاليس سوالات ١کے دوران
پيداہونے والے اعتراضات بجا ہونے چاہئيں ۔
ل يکن یہ صاحبان نظر اپنے نظریہ ميں خطا کے مر تکب ہوئے ہيں ۔اوربجائے اس کے بغير
کہ پيغمبروں کے دعویٰ کی تحقيق کریں ،بے بنياد فرض پر فيصلہ سنادیا ہے ۔اگر چہ دوسری
آسمانی کتابوں کی سند اورگزشتہ پيغمبروں کی زندگی کی تاریخ ابہام اور تاریکی
سے مبرّا نہيں ہے ،ليکن قرآن مجيد کا متن،جو اسلام کی آسمانی کتاب ہے اور پيغمبر اسلام
صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زندگی کی تاریخ اورآنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم اورآپ کے
١۔ جدید طبع ميں سوالات کو مرتب کرنے کے بعد ان کی تعدادکم ہو کر ٣٣ رہ جاتی ہے ۔
جانشينوں کے موجودہ قطعی الصدور بيانات اس نظریہ کو جهڻلاکر مسترد کرتے ہيں ۔
ہ م اس وقت اسلام کی طرفداری یا اس کی حقانيت کا دفاع کرنا نہيں چاہتے ،ليکن جو
شخص اس دین کے مصادرکے بارے ميں تهوڑی سی آشنائی بهی رکهتا ہو ،قرآن مجيد اور
اوليائے دین خاص کر اس کتا ب کو لانے والے پيغمبر کے بيانات پر سر سر ی نگاہ ڈالے تو اسے
معلوم ہوگا کہ وہ اس نظریہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہيں ۔
قرآن مجيد واضح الفاظ ميں فرماتا ہے:
” پيغمبر خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم دین خدا ميں کسی قسم کا اختيار اور عمل کی آزادی
( نہيں رکهتے ہيں اور وہ صرف خداکا پيغام پہنچانے والے ہيں۔”(مائدہ / ٩٢،٩٩
واضح طور پر فرماتا ہے:
” دین خدا بشر ی فکر کی پيداوار نہيں ہے بلکہ یہ ایسے احکام وقوانين ہيں جنهيں پروردگار
( عالم نے اسے پيغمبروں کے توسط سے اپنے بندوں پر نازل فرمایا ہے” (حاقہ/ ۴٠ ۔ ۴٣
جو لوگ یہ کہتے تهے کہ قرآن مجيد پيغمبر کا کلام ہے اورآپاسے خداسے نسبت دیتے
ہيں ،ان کے جواب ميں قرآن مجيد واضح طور پر فرماتا ہے:
”بيشک قرآن خدا کا کلام ہے اور انسان کا کلام نہيںہے اور نہ اس کے مضامين انسانی فکر
“ کی پيداوار ہيں ۔ ١
مزید فرماتا ہے:
” پيغمبر اکرم( صلی الله عليہ وآلہ وسلم) کے بعد آسمانی وحی اورنبوت نے خاتمہ پایا ہے
( ١۔ (مدثر/ ٢۵
“ اور قرآ ن کے احکام قيامت تک معتبر اور ناقابل تنسيخ ہيں ١
گزشتہ مطالب کے پيش نظر جو شخص اسلام کے قوانين کے ایک حصہ کو روزمرہ
زندگی سے ناقابل تطبيق تشخيص قراردے ،اسے اسلام کی حقانيت کی بنياد -جو ابدی احکام
اور قوانين کوبيان کر تا ہے - پر اعتراض کرنا چاہئے اور ان ميں تبدیلی لانے کی چارہ جوئی کر
نی چاہئے ۔

اسلام اور ترقی يافتہ قوانين
سوال: کيا آپ یہ نہيں سمجهتے کہ تعليم یافتہ مسلمان نو جوانوں کے دین سے منہ
موڑ نے کی ذمہ داری ان پس ماندہ قوانين پر ہے جو موجودہ زمانہ ميں دنيا کی صنعت وعلم کے
مطابق نہيں ؟
جواب: بہتر تها اگر آپ ان بے بنيادد عاوی کے بجائے اسلام کے پس ماندہ قوانين کے
چند نمونے پيش کرتے تاکہ اس پر مدلّل بحث کی جاتی ۔اسلام ميں پس
ماندے قوانين نہيں ہيں ليکن قوانين سے پيچهے رہ جانے والے مسلمان بہت ہيں!
آسمانی ادیان،خاص کر دین اسلام انسان کی ایک ابدی ازلی زندگی اور انسانی زندگی کے
ماورائے طبيعت سے رابطہ کی بحث کرتے ہيں اور اس طرز کی بحث کا آج کے علم وصنعت
سے کيا رابطہ ہے ؟ آج کل کے علم کی بحث کا موضوع مادّہ اور مادّہ کی خصوصيات ہے اور آج
کی صنعت بهی مادہ کے بارے ميں سر گرم ہے ۔اس لحاظ سے ماوراء کے بارے ميں اسے
مسترد یا قبول کرنے کے سلسلہ ميں اظہار نظر کرنے کا کوئی حق نہيں رکهتے ۔
-----------------------------
( ١۔(احزاب / ۴٠
ہمارے تعليم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے دین سے منہ موڑ نے کا گناہ دینی قوانين پر نہيں ہے
اور اس مطلب کا گواہ کہ انسان نے نہ صرف دین سے رو گردانی کی ہے بلکہ واضح ہے کہ
ضمير اور انسانيت کے قوانين کو بهی پائمال کر رہا ہے ہمارے تعليم یافتہ نوجوانوں ميں
جهوٹ،خيانت ،چاپلوسی ،بے حيائی اور بے راہ روی کاس ہو ناہے کہ وہ ہر قسم کی پاکی
،سچائی اور حق کے دشمن ہيں ،نہ صرف دین کے ۔
دوسری طرف سے ،تعليم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد (اگر چہ دوسروں کی نسبت
کم ہے ) پسندیدہ اخلاق سے آراستہ اور معارف سے آشنا اور ان ہی (بقول آپ کے) پسماندہ
قوانين ! کے پابند اوران پر عمل کرتے ہيں اور چونکہ اسلام ہر گز علم وصنعت کے منا فی نہيں
ہے ،اس لئے یہ لوگ اپنی زندگی ميں رنج وناراحتی کا ہر گزاحساس نہيں کرتے ۔لہذا حقيقت
ميں ہمارے نوجوانوں کی دین سے روگردانی کی ذمہ داری ہمارے فریضہ ناشناس ثقافتی مسئو
لين کی ثقافتی تعليم وتر بيت کے طریقہ کار پر ہے نہ دینی قوانين پر اورنہ انسانی فضائل اور
اخلاقی قوانين پر ۔

فحاشی اورمنکرات کا قبيح ہونا
سوال: فحاشی -جس ميں مرد اور عورتيں برابر شریک ہيں - کے بارے ميں عورتوں کی
کيوں زیادہ ملامت کی جاتی ہے ؟ اور اگر آپ قبول کرتے ہيں کہ مرد، ایک بہتر اور طاقتورترمخلوق
ہے ،اس صورت ميں وہ اپنے اعمال کو بہتر کنڻرول کرسکتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کی
زیادہ سر زنش کی جانی چاہئے ؟
جواب:اسلام ميں ایسے کسی حکم کا وجود ہی نہيں ہے ۔
ايک ناشائستہ بات
سوال: کہا جاتا ہے حضرت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے تاکيد فرمائی ہے : اگر
کسی کو اپنامنہ بولا بيڻابنادوگے تواس کے ساته اپنے حقيقی بيڻے کا جيسا برتاؤ کرناچاہئے کيا
یہ بات صحيح ہے یا نہيں ؟صحيح ہونے کی صورت ميں پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم
اپنے منہ بولے بيڻے کی طلاق دی گئی بيوی سے شادی کرنے پر کيوں آمادہ ہوئے ؟
جواب:آنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہرگز ایسی کوئی تاکيد نہيں
کی گئی ہے ،بلکہ یہ ایک تہمت ہے جو اسلام کے دشمن خاص کر مغربی عيسائی آپپر لگاتے
ہيں ۔اپنے منہ بولے بيڻے کی طلاق دی گئی بيوی سے آنحضرت کی شادی اسی اصول پر تهی
کہ اس ناپسند رسم کو باطل کر کے اس کا اعلان فرمائيں ،کيو نکہ اس زمانہ ميں اکثر ممالک
ميں ایک خاندان کے کسی فرزند کو دوسرے خاندان سے ملحق کر کے اس کے ساته حقيقی
رشتہ کا برتاؤ کيا جاتا تها ۔اس سلسلہ ميں قرآن مجيد کے سورہ احزاب ميں کئی آیتيں موجود
ہيں ۔

ازدواج ميں عمر معيار نہيں ہے
سوال: حضرت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم ،بشر کی تربيت کے لئے ایک عظيم مقام
پر فائز تهے اورآپ کے اعمال دوسروں کے لئے نمونے ہونے چاہئيں آپ نے کيوں تقریباًبوڑهاپے
ميں ایک نو سالہ لڑکی (عائشہ )سے شادی کی؟
جواب:اگر جوان عورت کی ایک بوڑهے مرد سے شادی کر نے ميں کوئی عيب ہو تو ،یہی
ہو گا کہ ایک جوان عورت کے لئے ایک بوڑهے مردسے مباشرت کرنی لذت بخش نہيں ہوتی یا یہ
کہ عمر کے عدم تعادل اور تقارب کی وجہ سے عام طور پر شوہر عورت سے پہلے مرجاتا ہے اور
عورت جوانی ميں بيوہ ہوتی ہے ۔ليکن واضح ہے کہ ازدواج کے مقاصد صرف ان دو مقاصد تک
محدود نہيں ہيں اس لئے ہمارے پاس اس رویہ کے ممنوع ہونے کی کوئی دليل موجود نہيں ہے
ممکن ہے مذکورہ مقاصد سے بہت اہم دوسرے مقاصدبهی ہوں جو اس قسم کی شادی کے
لئے ترجيح کا سبب بنيں ۔
جيسا کہ ہم نے اخباروں ميں پڑها ہے کہ چند سال پہلے ،امریکہ کے صدرجمہوریہ
مسڻرآئزن ہاور نے امریکہ کے کثيرالاشاعت اخباروں ميں یہ ایک سوال پيش کياتها اور ملک کی
دوشيزگان سے پو چهاتها کہ تم کس سے شادی کرنا پسند کرتی ہو ؟امریکہ کی اکثر
دوشيزگان نے اپنے جواب ميں خود مسڻر آئزن ہاورکا نام ليا تها ،جبکہ نہ وہ جوان تها اور نہ
خوبصورت ۔پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی شادی کے بارے ميں ،جوشخص آنحضرت
کی زندگی کی تاریخ کے بارے ميں کم وبيش اطلاع رکهتا ہے ، بخوبی جانتا ہے کہ آپ ایک
شہوت پرست اور عيّاش مرد نہيں تهے اور آپ کے ہر کام استدلال کی بنياد پر ہوا کرتے تهے نہ
جذبات کی بنا پر ،آنحضرتسے اس قسم کاکام جواز کے بيان کے لئے انجام پایا ہے اور آپ کی
دعوت اسلام کی پيشرفت ميں اس کے نمایاں اثرات رونما ہوئے ہيں ۔

اسلام ميں متعہ کا مشروع وجائزہونا
سوال:“متعہ ” کے حکم کے بارے ميں آپ کا کيا نظریہ ہے ،جبکہ اہل سنت اس کے
مخالف ہيں اور اس عمل کا مقصود کياہے ؟ کياآپ نہيں سمجهتے کہ یہ امرانسانی قوانين کے
خلاف ہے اور عورت کو (اگرانسان کی حيثيت سے قبول کرتے ہو )ایک ایسی چيز بناتا ہے تاکہ
آسانی کے ساته اس کا ناجائز فائدہ اڻهایاجائے ؟
جواب: نکاح متعہ کی مشروعيت و شرعی جواز قرآن مجيد کے سورئہ نساء کی آیت
نمبر ٢۴ ميں ثابت ہو چکاہے اور شيعہ اس کے بارے ميں اہل سنّت کی مخالفت پر اعتنا نہيں
کرتے ، کيونکہ یہ عمل قرآن مجيد ميں ثابت ہے اور پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی پو
ری زندگی ميں ،خليفہ اول کی خلافت کے دوران اور خليفہ دوم کی خلافت ميں بهی ایک مدت
تک معمول کے مطابق رائج تها اور اس کے بعد خليفئہ دوم نے اس کو منع کيا اور واضح ہے کہ
قرآن مجيد کے حکم کو صرف قرآن مجيد ہی تنسيخ کر سکتا ہے اور اسلامی حکومت کو یہ حق
نہيں ہے کہ موزون (شریعت کے)قوانين کے بارے ميں اظہار نظر کرے ۔
ن کاح متعہ کا مقصود ،موقت ازدواج ہے اور اسلام کی نظر ميں اس کی مشروعيت
وشرعی جواز مذکورہ بيانات کے مطابق ناقابل انکار ہے ۔فلسفہ احکام کے نقطہ نظر کے مطابق
طلاق کی مشروعيت وشرعی جوازاس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ازدواج،موقت بهی انجام
دیا جاسکتا ہے ،اس صورت ميں کہ موقّت ازدواج آثار کے لحاظ سے اس طرح مرتب ہو جائے کہ
نقصانات اور مضر نتائج کا سبب نہ بنے ،تو اس کو ممنوع کر نے کی کوئی دليل نہيں ہے۔
ا ور یہ جو کہا گيا ہے کہ “یہ عمل عورت کو ایک ایسی چيزبنا دیتی ہے جس سے
مردآسانی کے ساته ناجائز فائدہ اڻهاتا ہے ” ایک زبردستی اور ظلم ہے ،کيو نکہ عورت اس عمل
کو اپنے اختيار سے قبول کرتی ہے نہ جبر واکراہ سے اور اس عمل ميں جو مقاصد مرد کے لئے
فرض کئے جا سکتے ہيں اور وہ مقاصد اگر مصاحبت ،لذت ،اولاد پيد اکرنا اور زندگی کے دوسرے
فوائد ہيں تو یہ دونوں طرف موجود ہيں ،اس لئے کوئی دليل نہيں ہے کہ دو ميں سے کسی ایک
کو دوسرے کا کهلو نا شمار کيا جائے ۔
ا س کے علاوہ اگر آپ عالم بشریت پر عام اور وسيع نظر ڈال کر سنجيدگی سے غور
کریں گے تو واضح طور پر مشاہدہ کریں گے کہ انسانی معاشرہ کی جنسی آميزش کو نکاح اور
دائمی ازدواج تک محدود کر کے ہر قسم کی دوسری آميزش کو غير قانونی شمار نہيں کيا
جاسکتا ہے اور ازدواج دائمی کا رواج ہر گز اس جنسی جبلّت کو پورا کر کے مناسب جو اب نہيں
دے سکتا ہے ۔
مہذب دنيا کے کسی بهی ملک ميں قانونی حکومتيں کسی بهی ذریعہ سے مو قت
آميزشوں کے پهيلاؤ پر کنڻرول نہيں کر سکی ہيں اور تمام بڑے اور مرکزی شہروں ميں آشکار یا
مخفيانہ صورت ميں یہ عمل انجام پاتا ہے ۔اس صورت ميں جو مذہب جنسی آميزش کو ازدواج تک
محدود کر کے مکمل طور پر زنا کو روکنا چاہے ،تو اس کے لئے ناگزیر ہے کہ موقت ازدواج کو زنا
کے مفاسد کو رفع کر نے کے خاص شرائط سے قانون ميں جگہ دے تاکہ اس عمومی جبلّت کا
خاطر خواہ طریقہ سے کنڻرول کر سکے ۔
حضرت اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمایا : “ اگر خليفہ دوم اس نکاح متعہ(موقعت
ازدواج) کو ممنوع نہ کرتے تو صرف وہ لوگ زنا ميںگرفتار ہو تے جو گمراہی سے ہلا کت تک پہنچ
گئے ہوں )اور یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ اس امر کو انسانی قوانين کے خلاف شمار کرنا کس قدر
حقيقت سے دوری ہے ۔
ا لبتہ انسانی قوانين کا مقصود قبل از اسلام قدیم قوانين ،جيسے قدیم رومی اور
حمورابی کے قوانين نہيں ہيں،کيو نکہ ان قوانين ميں عورت سے حيوانوں یا اسيروں جيسا
سلوک کيا جاتا تها ،بلکہ ان سے مراد مغربی قوانين ہيں اسی عالم غرب کو انسانی دنيا،
مغربی معاشرے کو انسانی معاشرہ اور غریبوں کو انسان جانتے ہيں اور ہر قسم کے اوامر سے
متاثر ہو کر (حقيقت ذہنی ،تلقين ،تقليد ،تبليغ،خطا)فی الحال یہی فکر کسی قيد وشرط کے
بغير ہمارے ذہنوں پر حکمراں ہے ۔ليکن دیکهنا چاہئے کہ ان فخر کر نے والے انسانوں نے ازدواج
کے ماحول سے باہر ،عمومی اور مخلوط معاشرتوں ميں اس (انسانی قوانين کے خلاف )کی
جگہ پر کيا رکها ہے اور مہذّب ممالک خاص کر سب سے مہذب ممالک ميں مردوں اوعورتوں
،لڑکوں اور کنواری لڑکيوں اور خود مردوں اور جوانوں کے درميان کيا گزر رہی ہے ؟اور دائمی ازدواج
کی راہ سے جو کمی واقع ہو رہی ہے اسے کس طریقہ سے پو را کرتے ہيں ؟اور اس سلسلہ
ميں شائع ہو نے والے حيرت انگيز اعداد وشمار کس بات کی غماّزی کرتے ہيں ؟

مسلمانوں کی کمزوری کا اسلام سے کوئی ربط نہيں ہے
سوال: غریبوں کا اعتقاد ہے کہ اسلام صرف سادہ لوگوں جيسے کسان ،صحرانشين اور
آج کل کی مشينی تمدن سے پيچهے رہ جانے والوں کادین ہے ،چنانچہ ہم دیکهتے ہيں کہ
مسلمان ممالک ميں سے ایک ملک بهی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست ميں نہيں ہے اور
اسلام نے صنعتی اور متمدن ممالک ميں اصلاً کسی قسم کی پيشرفت نہيں کی ہے ۔اس کا
سبب کيا ہے ؟کيا آپ سوچتے ہيں کہ اسلامی قوانين کو اس طرح تبدیل کيا جائے یاترجمہ کيا
جائے جو تعليم یافتہ افراد کے لئے قابل قبول ہوں اور علم کے موافق ہوں؟
جواب : اس ميں کوئی شک نہيں ہے کہ اسلامی ممالک ترقی یافتہ اور پيشرفتہ ممالک
کی فہرست ميں نہيں ہيں ۔ليکن دیکهنا چاہئے اسلامی ملک کا نام رکهنے والے ممالک ميں
سے کس ملک ميں اسلامی قوانين نافذہيں ؟اس کے علاوہ یہ کہ ان پر دین اسلام کا نام
لگایاگيا ہے اور اس نام کا انہيں کيا فائدہ مل رہا ہے ؟بجز اس کے ان ممالک ميں کچه لوگ بعض
اسلامی عبادتوں ،جيسے نماز،روزہ اورحج کو دیرینہ عادت کے طور پر بجا لاتے ہيں ،یہ لوگ
اسلام کے انفرادی ،اجتماعی، تغيراتی اور عدليہ کے کن قوانين پر عمل کرتے ہيں ؟اس صورت
ميں کيا یہ مذاق نہيں ہے کہ اسلامی ممالک کے تنزّل کا ذمہ دار اسلام کو ڻهہرایا جائے؟
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اگر اسلام ایک ترقی یافتہ دین ہو تا اور اس کے قوانين
معاشرے کی اصلاح اور ادارہ کر نے کی لياقت رکهتے ،تو اس نے معاشرے ميں اپنے لئے کوئی
جگہ بنالی ہو تی اور اس طرح متروک نہ ہو چکا ہو تا!
ل يکن یہ سوال پيدا ہو تا ہے کہ اگر معاشرہ ميں عدم ترقی اور تنزل کا سبب اسلامی
قوانين ہيں تو، مغربی ترقی یافتہ ڈیمو کریسی کی روش،جو نصف صدی سے ان ممالک ميں
رائج ہے ،نے اپنے لئے کيوں کوئی جگہ نہيں بنائی ہے اور اپنی پيشرفت ميں کسی قسم کا اثر
نہيں دکهایا ہے اور ظاہر نمائی کے علاوہ کوئی اثر نہيں رکهتی ؟اور مشرقی لوگ غریبوں کے
مانند اس ترقی یافتہ روش سے کيوں فائدہ نہيں اڻهاسکتے ہيں ؟اور کيوں یہی انسانی نظام
“ڈیمو کریسی ”جو برسوں سے انسانيت کے گہوارہ “مغرب” ميں اپنے لئے جگہ بنا سکا تها اور
معاشرہ کی رگوں ميں خون کی جگہ جاری تها ،کميو نزم کی آوازکو خاموش نہ کر ساکا ہے
،یہاں تک نصف صدی سے کم عرصہ ميں کميو نسٹ نظام نے کرئہ ارض کی تقریباًنصف آبادی پر
اپنا تسلط جمایا اور حتی یورپ اور امریکا کے مرکز ميںبهی نفوذ کيا اور ہر روز ایک نئے مورچہ کو
ان ہی تر قی یافتہ انسانوں (غریبوں) سے فتح کر تا جارہا ہے کيا اسی دستاویز کی بناپر یہ
نظریہ پيش کيا جا سکتا ہے کہ کيمو نزم کے ترقی یافتہ قوانين اور اس کا نظام یا ڈیمو کریسی
کے قوانين اور اس کا نظام ،بدبختو ں اور صحرا نشينوں کی روش ہے ؟
ا س کے علاوہ ،زوال اور پس ماند گی سے صرف مسلمان ممالک دوچار نہيں ہيں تاکہ
اسے اسلام کی گردن پر ڈال دیا جائے بلکہ ایشياء اور افریقہ کے تمام ممالک، من جملہ بر ہمن
اوربده مذہب سے لے کر مسحيت اور اسلام سے تعلق رہنے والے لوگ رہتے ہيں، اسی بد
قسمتی سے دوچار ہيں ۔یقينا ایشيا اور افریقہ کے قدرتی دولت سے مالامال ان دو بر اعظموں
کا گناہ یہ ہے کہ مغربی دنيا اور ان کے بے حد طمع ولالچ کے شکار ہوئے ہيں تا کہ یہ دو بے نياز
بر اعظم اپنے منابع سے مغربی صنعتوں اور ان کے بازار کے لئے خام مال کا ذخيرہ مہيا کر
سکيں اور غلاموں کی یہ دنيابدون چون وچرا مغرب کی محتاج رہے ۔ان حالات کے پيش نظر یہ
ممالک کبهی ترقی یافتہ ممالک (یعنی مغربی ممالک) کا جز نہيں بن سکتے ہيں اور ان ممالک
کے باشندے ،خواہ مسلمان ہوں یا غير مسلمان ،کبهی اپنے آقاؤں سے ملحق نہيں ہوں گے
جيسا کہ آج تک ہم نے دیکها ہے ،یہ لوگ “غربی” کبهی “استعمار”کبهی “استملاک ” کبهی
“اشتراک منافع”اور کبهی “اقتصادی امداد”کے نام پر ہم پر سوار ہوتے رہيں گے ۔
سوال کے ذیل ميں جو یہ کہا گيا ہے کہ کيا اسلام کو اس طرح تبدیل کيا جاسکتا ہے یا
توجيہ کی جاسکتی ہے تاکہ تعليم یافتہ لو گوں کے لئے قابل قبول ہو اور علم کے موافق ہو
؟چنانچہ بيان ہوا ،معارف اسلامی - جن کی ضمانت کتاب وسنت دیتی ہے - واضح طور پرہر گز
قابل تغير نہيں ہے چنانچہ اسلام دین حق ہے اس لئے اسے ضرورت ہی نہيں کہ تعليم یافتہ
طبقہ اسے قبول کرے ،بلکہ مذکو رہ طبقہ ہی حق اور حقيقت پسندی کا محتاج ہے ،
خدائے متعال فرماتا ہے:
“ ”دین ميں کسی قسم کا جبر واکراہ نہيں ہے اور سيدها راستہ واضح ہے ١
ہ م پهر یہی بات کہتے ہيں کہ “اسلام کی علم سے مخالفت ”کو ثابت کرنے کے لئے
چند نمو نے پيش کئے جاتے تاکہ “اسلام علم کا مخالف ہے ”کے صرف دعویٰ کی دليل بهی
پيش کی جاتی اور اسی خالی دعویٰ پر اکتفانہ کرتے ۔

قانون اور عدالت کے سامنے سب مساوی ہيں
سوال: کيا آپ یہ بات مانتے ہيں کہ حضرت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور حضرت علی
عليہ السلام نے فرمایا ہے : ایک انسان کی قدر ومنزلت اس کے اعمال اور کردارپر منحصر ہے نہ
اس پر کہ وہ کس کا فرزند ہے یا کس خاندان سے تعلق رکهتا ہے یاکس رنگ کا ہے ؟اس بنا ء پر
شيعہ حضرات کيوں حضرت علی عليہ السلام یا حضرت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی
اولاد کو نسل در نسل دوسروں سے بہتر و پاک تر جانتے ہيں ؟
جواب: اسلام کی نظر ميں قانون اور عدالت کے سا منے سب برابر ہيں اور اس جہت سے
شاہ وگدا ،امير وغریب ،طاقت وراورکمزور ،مرداورعورت،سياہ فام اورسفيدفام ،حتی پيغمبر وامام
- کہ معصوم ہيں - اور تمام لوگوں ميں کوئی فرق نہيں ہے اور کسی بهی استثناء اور امتياز
سے کسی پر دباؤ ڈال کر اس کی قانونی آزادی سلب نہيں کی جاسکتی ہے ۔سادات کے
احترام کی بنياد قرآن مجيد کی ایک آیہ شریفہ ہے جس کے موجب خدائے متعال اپنے پيغمبر
حکم فرماتا ہے کہ لوگوں سے تقاضا کریں کہ آپکے رشتہ داروں سے دوستی اور مودّت کا معاملہ
کریں ٢
( ١۔<لااکراہ فی الّدین قدتّبيّن الرّشد من الغی >(بقرہ / ٢۵۶
( ٢۔<قل لا اسئلکم عليہ اجرا الا المودّة فی القربی >(شوریٰ/ ٢٣
اس تقاضا کا راز پيغمبراکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد واضح ہوا اور لوگوں نے
آپ کی اولاد سے ایک ایسا برتاؤکيا کہ تاریخ ميں کسی رہبر اور پيشوا کی نسل کے ساته نہيں
کيا گيا ہے ۔آنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد صدیوں تک سلسلئہ سادات
کسی صورت ميں محفوظ نہيں تها ،وہ قتل کئے جاتے تهے ،ان کے تن سے جدا کئے گئے اوران
سروں کو ایک شہر سے دوسرے شہر ميں تحفہ کے طور پربهيجا جا تا تها ،انهيں زندہ زمين
ميں دفناتے تهے ،گروہ گروہ کی صورت ميں عمارتوں اوردیواروں ميں چنے جاتے تهے ،سالہا
سال تک زندان کی کالی کو ڻهہریوں ميں انهيں جسمانی اذیتيں پہنچائی جاتی تهيں ،اور انهيں
زہر دیا جاتا تها ۔ہجرت کے بعد صدیاں گزر کر شيعوں نے تهوڑی سی آزادی حاصل کی اور اولاد
رسول صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور ان کے دوستوں پر ہو نے والے مظالم کے مقابلہ ميں ردعمل
دکها کر سادات کا احترام کرنے کی کوشش کرتے ہيں ۔

اسلام ميں سور کے گوشت کے حرام ہونے کا فلسفہ
سوال :سور کا گوشت کهانا اسلام ميں کيوں حرام ہے ؟
جواب: سور کا گوشت صرف اسلام ميں ہی حرام نہيں ہے بلکہ جيسا کہ انجيل اور تورات
سے معلوم ہو تا ہے کہ سور کا گوشت اسلام سے پہلے آسمانی ادیان ميں بهی حرام تها ۔اس
کے گوشت کے حرام ہونے کے بارے ميں جو فلسفہ بيان کيا گيا ہے وہ حفظان صحت کے لئے
نقصانات اور اس کا نجاست خوار ہونا ہے ۔

اسلام ميں مست کرنےوالی چيزوں کے حرام ہونے کافلسفہ
سوال: اسلام ميں شراب کيوں حرام ہے؟
جواب: اسلام نے اپنی تعليم وتربيت کی بنياد استدلال پر رکهی ہے جو تمام حيوانات پر
انسان کا امتياز ہے اور واضح ہے کہ شراب اور دوسری مست کرنے والی چيزیں انسان کی
زندگی کے اس بنياد ی امتياز کو ضائع کر دیتی ہيں اور استثنا کے بغير دینی تعليم وتربيت کے
مقاصد کو نابود کر کے رکهتی ہيں ۔
مختلف قسم کے ظلم وتعدّی ،قانون کی خلاف ورزیوں اور بے راہ رویوں کا، شراب تنہا
عامل یا ان ميں شریک ہے اور اسی طرح حفظان صحت ،روح اور جسم کوپہنچنے والے نقصانات
اور موروثی برے اثرات جو روز مرہ دنيا ميں پيدا ہوتے ہيں ، شراب کے سبب سے ہيں ،ان سے
چشم پوشی نہيں کی جاسکتی ہے ١
مرد اور عورت کے درميان جائز اور ناجائز تعلقات
سوال: اسلام عشق اور زن و مرد کے درميان جنسی تعلقات کے بارے ميں کيا نظریہ رکهتا
ہے ؟
١۔ <یاایّها الّذین امنوا انّما الخمر والميسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوہ
لعلکم تفلحونانّما یرید الشيطان ان یو قع بينکم العداوةوالبغضاء فی الخمر والميسر ویصدکم عن
( ذکراللّہ وعن الصلوة فهل انتم منتهون>(مائدہ ٩٠ ۔ ٩١
ا یمان والو !شراب ،جوا ،بت ،پانسہ ،یہ سب گندے شيطانی اعمال ہيں لہذا ان سے پرہيز
کرو تاکہ کاميابی حاصل کر سکو ۔شيطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جو ے کے بارے
ميں تمہارے درميان بغض اور عداوت پيدا کرے اور تمهيں یاد خدا اور نماز سے روک دے توکيا تم
واقعاًرک جاؤ گے؟
جواب:ازدواج کے ماحول سے باہر ،(جيسا کہ بيان ہوا) عاشقانہ تعلقات، خواہ آميزش کے
لئے ہوں یا اس کے مقدمات کے طور پر ، اسلام ميں ممنوع اور حرام ہيں ۔اور بنيادی طور پر جاننا
چاہئے کہ اسلام ميں حرام کا فلسفہ طبقات کی آزادی کو سلب کر نے کا مسئلہ یا دوسروں کا
حق چهيننا اور ظلم کر نا نہيں ہے ۔البتہ اگر زن ومردکو اپنی مر ضی سے کسی کے حقوق ميں
رکاوٹ اور ظلم کئے بغير بهی آزادی کے ساته ہر کام انجام دینے کی اجازت ہو تو اس ميں اور زنا
کے اقسام ميں کوئی فرق نہيں ہے، ایسے اعمال ممنوع ہيں اور اس حساب سے لواط بهی زنا
کے مانند ہے ۔

اسلامی احکام کا نا قابل تغير ہو نا
سوال: کيا کلّی طور پر آپ اس بات کے معتقد ہيں کہ قوانين اسلام قابل تغير و تبدیل ہيں
یا نہيں ؟ اور کيا ان تغيرات کے بارے ميں آپ معتقدہيں کہ اس سلسلہ ميں دینی قائدین کو
پيش قدم ہو نا چاہئے یا تغيرات رونما ہو نے کی صورت ميں ان کے ساته ہم آہنگی کریں ؟
جواب: چنانچہ پہلے بيان ہو اکہ شریعت کے قوانين (خدا کے ثابت احکام) کسی صورت
ميں قابل تغير نہيں ہيں اور دین کے قائدین کو پيش قدم ہونے یا پيچهے ہڻنے یا کسی مورد ميں
موقت یا غير موقت سازش کرنے کے لئے کسی قسم کا اختيار نہيں دیا گيا ہے ۔خدائے متعال
پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے:
”اور اگر ہماری توفيق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکها ہو تا توآپ (بشری طور پر) کچه نہ
کچه ان کی طرف ضرورمائل ہو جاتے ۔اور پهر ہم زندگا نی دنيا اور موت دونوں مر حلوں پر دہرا مزہ
چکهاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مدد گاراورکمک کرنے والا بهی نہ پاتے ١ ۔“

دين کے احکام کا قرآن وسنّت کی بنياد پر قابل قبول ہونا
سوال:کياآپ ذاتی طورپراسلام کے تمام قوانين اوررسومات پرکسی قسم کے چون
وچراکے بغيراعتقاد رکهتے ہيں؟
جواب:مسلمانوں ميںپيداہوئے آداب ورسوم اگرکتاب وسنت سے کوئی ماخذنہ رکهتے
ہوں توان کی کوئی قدروقيمت نہيںہے۔ليکن شریعت کے قوانين جوکتاب وسنت ميںقطعی
مدرک رکهتے ہيں،انهيںقبول کرناواجب ہے اور ان کی مخالفت کرنا جائز نہيں ہے۔

مولا علی عليہ السلام کے کلام کی وضاحت
سوال : حضرت علی عليہ السلام نے فرمایا ہے :“اپنے ماں باپ کے لئے مسلمان نہ ہو جاؤ،
بلکہ اس لئے مسلمان ہو جاؤ کہ تم خود اس کا ایمان پيدا کر کے اسے قبول کرو گے جتنا ہو
سکے اپنی عقل سے قبول کرو ۔”اس صورت ميں کيا آپ نہيں سمجهتے کہ ہر مسلمان اس حق
کی آزادی رکهتا ہے کہ قوانين اسلام ميں سے جسے پسند کرے اسے قبول کرے اور باقی
قوانين کو اگر عقل سے قبول نہيں کر سکتا ہو تو انهيں چهوڑ دے ؟
جواب :حضرت علی عليہ السلام کا یہ کلام اسلام کے اعتقادی معارف کے بارے ميں ہے
١۔<ولولاان ثبتناک لقد کدتّ ترکن اليهم شيئاً قليلا اذاً لاٴذ قناک ضعف الحياة وضعف الممات ثم لا
( تجد لک علينا نصيرا>(اسراء / ٧۴ ۔ ٧۵
کہ ان پر عقل کی راہ سے ایمان لا نا چاہئے ،نہ عملی قوانين کے بارے ميں کہ ان پر عمل کر نا
ضروری ہے قوانين پر عمل کرنے ميں امتياز بر تنا بے معنیٰ ہے ۔
صرف قوانين اسلام ميں ہی امتياز بر تنا جائز نہيں ہے بلکہ دوسرے اجتماعی قوانين کی
بهی یہی حالت ہے ان ميں امتياز بر تنا ایک تشکيل یافتہ معاشرہ کو نابود کر نے کے علاوہ کو
ئی نتيجہ نہيں دیتا ۔مثلاً جس ملک ميں ڈیمو کریسی کانظام حکم فر ما ہو تو یہ اجازت نہيں دی
جاسکتی ہے کہ اعلیٰ طبقہ کے لو گوں کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ قوانين کے ان دفعات کو
قبول نہ کریں جو ان کی عقل کے ساته ساز گار نہ ہوں اور نتيجہ کے طور پر لو گوں کا ایک گروہ
ماليات سے مربوط قوانين کے دفعات پرعمل نہيں کرے گااورکچه لوگ تجارت سے مربوط قوانين
کو، کچه لوگ تعزیراتی قوانين کواورکچه لوگ انتظامات سے مربوط قوانين کوچهوڑ دیںگے تو
بدیہی ہے اس قسم کے حالات معاشرہ ميں ہرج ومرج پيدا کر کے اسے نابود کر نے کے علاوہ
کچه نہيں ہو گا ۔اس کے برعکس ، ہرفرد ڈیمو کریسی کا نظام کو قبول کر تا ہے اورمجلس قانون
ساز کے نمائندہ کو انتخاب کر کے قانون کے تمام دفعات کو قبول کر تا ہے اور قانون کے ہر دفعہ
کو ناقابل تردید جانتا ہے ۔
ا سی طرح اسلام ميں جس شخص نے عقل کی راہ سے اسلام کے اعتقادی معارف کو
قبول کيا، اس نے اس کے ضمن ميں نبوت کی حقانيت کی تصدیق کر کے ایمان لایا ہے کہ جو
قوانين پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم لائے ہيں اور ان کی خداسے نسبت دی ہے ،وہ
ایسے قوانين ہيں جن کو وضع کر نے والا حقيقت ميں خدائے متعال ہے اور خدائے متعال ہر گز
اپنے قوانين ميں غلطی اور خطا نہيں کرتا ہے اوراپنے بندوں کے منافع کے تحفظ اور ان کی
مصلحت کی رعایت کے علاوہ کوئی اور مقصد نہيں رکهتا ہے، البتہ جو شخص اس قسم کا
اجمالی ایمان پيد اکرتا ہے وہ اسلام کے تمام قوانين کے صحيح اور معتبر ہو نے کی
اجمالاًتصدیق کرتا ہے اور انهيں ناقابل تردید جانتا ہے اگر چہ ان سب قوانين کے بارے ميں اور ان
کی مصلحتوں کے بارے ميں تفصيلی علم پيدا نہ کرسکے ۔اس بنا پر بعض قوانين کو قبول کرنے
اوربعض کو مسترد کر نے کا سوال ہی پيدا نہيں ہو تا ہے ۔

دين اسلام ،خدائے متعال کا دين ہے
سوال: گزشتہ سوا ل کے پيش نظر ،کيا آپ نہيں سوچتے کہ یہ اس چيز کی علامت ہے
کہ ہرانسان آزادی رکهتا ہے تاکہ جس دین کو پسند کرے اسے قبول کرے اور ایک مسلمان کو
تمام ادیان کا احترام کرنا چاہئے ؟
جواب: دین کی حقيقت سے مرادیہ ہے: عبارت ہے کائنات اور انسان کی خلقت کے بارے
ميں اعتقادات اور عملی فرائض کا ایک سلسلہ، جوانسان کو ان اعتقادات سے تطبيق کرے۔اس
بناپر یہ انسان کے اختيار ميں ایک تکلفاتی امر نہيں ہے کہ انسان جس دین کو پسند کرے اسے
قبول کرے بلکہ یہ ایک حقيقت ہے جس کے تابع انسان اور اس کا اختيار ہے اور اسے اس کی
پيروی کر نی چاہئے ۔چنانچہ مثلاًیہ مسئلہ“ہم سورج کی روشنی سے استفادہ کرتے ہيں ”ایک
حقيقت و واقعيت ہے کہ آزاد انسان ہر گز اس کے مقابلہ ميں مختار نہيں ہے کہ ہر روز ایک نظریہ
پيش کرے بلکہ اس کے ثبوت کو قبول کرنے اوراپنی زندگی کے مسائل کو اس پر استوار کرنے
پر مجبور ہے ۔حقيقت ميں اگر کوئی دین یہ نظریہ پيش کرے :“ہر انسان یہ آزادی رکهتا ہے کہ
مختلف ادیان ميں سے کسی ایک کو اپنی پسند کے مطابق قبول کرے ”تو اس دین نے اس
نظریہ سے اپنے تکلفاتی اور غير واقعی ہونے کا اعتراف کيا ہے اور اپنے کو باطل ثابت کيا ہے ۔
خدائے متعال فرماتا ہے:
”خداکے پاس دین، اسلام ہے ” ١
مزیدفرماتا ہے:
”جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی اوردین کا انتخاب کرے اسے قبول نہيں کيا
“ جائے گا ٢
ا سلام نے ادیان ميں سے تين ادیان کو محترم جاناہے :نصرانيت ،یہودیت اور مجوسيّت
اوراس احترام کا معنی یہ ہے کہ(جيساکہ قرآن مجيد کی آیات سے واضح ہوا)ان تين ادیان کے
ماننے والے اپنے دین پر باقی رہ سکتے ہيں نہ یہ کہ وہ حق پر ہيں ۔
ہلال ،اسلام کی علامت نہيں ہے
سوال: ہلال کيوں اسلام کی علامت ہے ؟
جواب: اسلام “ہلال” کے نام پر کوئی علامت نہيں رکهتا ہے ۔ليکن “چاند اور ستارہ
”صليبی جنگوں کے بعد عيسائيوں کے صليب کے مقابلہ ميں ،اسلامی ملکوں ميں مسلمانوں
کی مشخص علامت کے طورپر رائج ہو اہے اوراس وقت بهی اکثر اسلامی ممالک کے پرچم پریہ
علامت موجود ہے ۔
( ١۔<انّ الّدین عند اللّہ الاسلام >(آل عمران / ١٩
( ٢۔<ومن یبتغ غيرالاسلام دینا فلن یقبل منہ>(آل عمران / ٨۵
چاند، آیات الہیٰ سے ایک آیت ہے
سوال:چاند پر سفرکے بارے ميں (یہ سفرانسان کے لئے جلدی ہی ممکن ہو گا)آپ کا
کيا نظریہ ہے ؟
جواب: اسلام کے مطابق چاند وغيرہ پر سفر کے بارے ميں کوئی نظریہ موجود نہيں ہے
صرف قرآن مجيد نے ان آسمانی کرّات کے بارے ميںبيان کياہے کہ یہ آیات الہٰی ہيں اوراپنے
حيرت انگيز نظم سے توحيد کے گواہ اوردلائل ہيں اور انسان کے لئے مسخر کئے گئے ہيں ۔

اسلام ميں عربی زبان کا مقام
سوال: عربی زبان کو کيوں اسلامی ایمان اور اعتقاد کے جز اورضرورت کے طور پر قرار دیا
گيا ہے اورکہا گياہے :“قرآن اورنماز و غيرہ عربی زبان ميں ہونا چاہئے؟“
جواب: چونکہ قرآن مجيد لغت کے لحاظ سے معجزہ ہے (چنانچہ معنی کے لحاظ سے
بهی معجزہ ہے ) اس لئے اس کا عربی لغت محفوظ رہنا چاہئے اور نماز کا عربی ميں ہونا اسی
جہت سے ہے کہ قرآن مجيد کے کچه حصہ کی (سورئہ حمداورایک سورہ )ہررکعت ميں قرائت
کی جانی چاہئے اور دوسری طرف سے آیات وروایات جو دین کے اصلی مصادر ہيں عربی لغت
ميں ہيں ،مسلمانوں کی عربی زبان کی نسبت عنایت اورتوجہ کا سبب یہی ہے ۔

دنيا ميں يہوديوں کی ذلت وپستی
سوال: بعض مسلمان معتقد تهے کہ یہودی کبهی اپنا ایک آزاد ملک نہيں رکه سکتے
ہيں ،البتہ اسرائيل جواس مختصرمدت ميں ایشيا کے ترقی یافتہ ممالک ميں سے ایک ملک کی
صورت ميں ابهرا ہے ،اس عقيدہ کے غلط ہونے کی علامت ہے ،کيا آپ یہ سمجهتے ہيں کہ بہت
ساری دوسری احادیث اور روایتيں بهی اسی غلط اعتقاد کے مانند ممکن ہے سياسی نفوذ کے
اثر ميں وجودآئی ميں ہوں کہ گزشتہ زمانے ميں دنيا کے اس علاقہ کے لوگوں کو جہل ونفاق اور
دشمنی کی حالت ميں رکهنا چاہتے تهے ؟
جواب :جی ہاں !ایک بندر گاہ اور ایک فوجی چهاونی پرمشتمل فلسطين کاایک
چهوڻاحصہ انگلستان ، فرانس اور امریکہ کے لئے ہے ۔اور اسرائيل کے نام پر ایک کڻه پتلی اورآلہ
کار حکو مت وہاں پر حکم رانی کر رہی ہے اور اس مختصر مدت کے دوران اس حکومت کی پشت
پناہی اور اسے مسلح کر نے ميں کوئی کسر باقی نہيں رکهی گئی ہے اور پوری توانائی کے
ساته اسلامی ممالک کو اس حکومت کے خلاف متحد ہونے نہيں دیاگيا ہے (چنانچہ ان تمام
حقائق کو گزشتہ چند سالوں کے واقعات نے واضح کر دیا ہے )
ی ہ غلط تصور (کہ یہودیوں کی حکومت ایک آزاد اور ترقی یافتہ ہے اور اسلام ميں نقل کی
گئی روایتوں کے باوجود ،کہ یہود کبهی ایک آزاد ملک کے مالک نہيں بن سکتے ،اس حکومت
نے نشو ونما پائی ہے ) سياسی نفوذ کا اثر ہے کہ گزشتہ زمانے ميں اور آج بهی دنيا کے اس
حصہ کے لوگوں کو جہل ،نفاق ،دشمنی اور دین مقدس اسلام کی نسبت بدظنی کے عالم
ميں رکهنا چاہتے ہيں ،کيو نکہ یہ فکر روایت سے مربوط نہيں ہے تا کہ ہم کہيں کہ یہ جعلی ہے
،بلکہ یہ قرآن مجيد سے متعلق ہے اور جو کچه قرآن مجيد ميں ہے وہ اس صورت ميں نہيں ہے
کہ بيان ہوا بلکہ اس صورت ميں ہے کہ اسے قرآن مجيد کی پيشين گوئيوں ميں سے ایک شمار
کيا جائے ۔
خدائے متعال یہودیوں کے مسلمانوں کے خلاف کئے گئے مظالم ،جرائم خيانتوں، مہم
جوئيوں اور عہد شکنيوں کو گننے کے بعد مسلمانوں کو اتحاد واتفاق ،دینی قوانين کے تحفّظ،
اجنبيوں سے دوستی نہ کرنے اور ان کی اطاعت نہ کرنے کی نصيحت کرتا ہے اور فرماتا ہے:
”ان (یہودیوں )پرذلّت کے نشان لگا دئے گئے ہيں یہ جہاں بهی رہيں مگر یہ کہ خدائی
عہد یالوگوں کے معاہدہ کی پناہ مل جائے ۔یہ غضب الٰہی ميں رہيں گے اور ان پر مسکنت کی
مار رہے گی ۔یہ اس لئے ہے کہ یہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تهے اور ناحق ،انبياء کو قتل کرتے
“ تهے ۔یہ اس لئے ہے کہ یہ نافرمان تهے اورزیادتياں کيا کرتے تهے ١
ا یک دوسری آیت ميں یہ سبب لوگوں اور خداسے مربوط بيان ہوا ہے ۔
فرماتا ہے:
”ایمان والو !یہودیوں اورعيسائيوں کو اپنادوست اورسر پرست نہ بناؤ کہ یہ خودآپس ميں
ایک دوسرے کے دوست ہيں اور تم ميں سے کوئی انهيں دوست بنائے گا توانهيں ميںشمار ہو
“ جائے گا ۔بيشک الله ظالم قوم کی ہدایت نہيں کرتا ہے ٢
ا ورمزید فرماتا ہے:
١۔<ضربت عليهم الذّلة این ماثقفوا الا بحبل من اللّٰہ وحبل من النّاس وباء وابغضب من اللّٰہ
وضربت عليهم الذلّة و المسکنة ذٰلک بانهم کانوا یکفرون باٴیات اللّہ ویقتلون الانبياء بغيرحق ذلک
( بماعصوا وکانوایعتدون >(آل عمران / ١١٢
٢۔<یاایّهاالّذین آمنوا لاتتّخذوااليهود والنصاری اوليا ء بعضهم اوليا ء بعض ومن یتولّهم منکم فانہ
( منهم ان اللّہ لا یهدی القوم الظالمين >(مائدہ / ۵١
”آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ہيں ،لہذا تم ان سے نہ ڈرو اورمجه سے
“ ڈرو ١
چنانچہ ملاحظہ ہوا کہ خدائے متعال اسلام کی پيش رفت اوریہودیوں کو کچلنے کا ان
مسلمانوں کوو عدہ دیتا ہے جو قوانين اسلام اور اتفاق کلمہ کا تحفظ کرتے ہيں ،نہ ان ممالک کو
جو اسلام کے نام کے علاوہ کچه نہيں رکهتے ہيں اوراسی طرح آیات اس پر دلالت کرتی ہيں کہ
اسلام اس حالت ميں قرار پایا ہے کہ ایک دن مسلمان اجنبيوں کے ساته دوستی کا منصوبہ
بنائيں گے اور ان کے آلہ کار بن جائيں گے ،اس صورت ميں خدا کامعاملہ ان کے ساته بر عکس
ہو گا اور وہ سلطہ وغلبہ کو ہاته سے دے دیں گے اور ان کی عزت وسيادت دوسروں کو نصيب ہو
گی ۔
ل يکن یہ کہ احادیث اور روایتوں ميں ممکن ہے جعلی اوربناوڻی روایتيں موجود ہوں اس
مسئلہ کو علمائے اسلام بخوبی جانتے ہيں اور اس کے ثبوت کے لئے اس قسم کے بے بنياد
مصادرکی ضرورت نہيں ہے بلکہ مسلّم ہے کہ صدراسلام ميں کچه منافقين اوریہودی مسلمانوں
کے لباس ميں آکر جهوڻی روایتيں جعل اورنقل کرتے تهے ۔اسجہت سے علمائے اسلام پرروایت
کو جس صورت ميں بهی ہو نقل نہيں کرتے بلکہ ماہرانہ جانچ پڑتال کے بعدموثق روایت کو
تشخيص دے کر قبول کرتے ہيں ان حالات کے پيش نظر(چنانچہ روایتوں ميں زیادہ ہے )رسول
اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں:
”ميرے بعد مجه سے بہت سی چيزیں نقل کی جائيں گی ،ان ميں سے جو قرآن
( ١۔<اليوم یئس الّذین کفروا من دینکم فلا تخشوهم واخشون>(مائدہ / ٣
مجيد سے مطابقت رکهتی ہوں ،انهيں قبول کرنا اورجو قرآن مجيد کے مخالف ہوں ،انهيں مسترد
“ کریں ١
١/ ١۔مجمع البيان فی تفسيرالقرآن ١٣