خلقت اور قيامت کا مسئلہ
خلقت کا مقصد کيا ہے ؟
کچه مجہو لات ایسے ہيں جن کے وجود کے بارے ميں انسان کو اپنی پيدائش اور زندگی
کے ابتدائی دنوں سے اپنی خدادادعقل سے خواہ نخواہ معلوم ہوا ہے اور اپنے فطری تجسس
سے ان کا حل طلب کرتے ہوئے اپنے آپ سے پو چهتا ہے :کيا اس مشہود عالم ہستی کا پيدا
کرنے والا کوئی خدا ہے ؟اس کے خالق ہو نے کی صورت ميں ، اس خلقت سے اس کا مقصد
کيا ہے ؟کيا اس صورت ميں ہم پر کوئی فریضہ اورتکليف عائد ہو تی ہے ؟
ب دیہی ہے کہ مذکورہ سوالات ميں سے ہر ایک کا مثبت جواب ہو گا ۔سوال کے
مشخصات ،اس کے وجود کی کيفيت ،آثار اور اس کے تحقق کی ضرورت کے بارے ميں کچه
فرعی سوالات پيدا ہوں گے - جيسا کہ بيان ہوا -انسان کی خداداد فطرت،فکر مند ہے اور ان
کے قطعی اور منطقی حلّ کی خواہاں ہے ۔
ی ہ بهی واضح ہے کہ مورد سوال مسئلہ ،ابتدائی ترین اور اہم ترین مسائل ميں سے ایک
ہے جو انسانی فطرت کی توجہ کا سبب بنا ہے اور انسان کی فطرت اس کے قطعی اور منطقی
حل کی ضرورت کوزندگی کے ابتدائی مر حلہ ميں درک کرتی ہے ۔
سوال کی تحقيق اور اس کا تجزيہ
سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ ہم - چنانچہ مشاہدہ کرتے ہيں -اپنے اجتماعی اور
عقلی کاموں کو اپنے ان مقاصداور آرزوؤں کوحاصل کر نے کے لئے انجام دیتے ہيں ،جو طبيعی
طور پر مناسب ہوں اور ہمارے کام آئيں ۔ہم کهاتے ہيں ،تاکہ سير ہو جائيں ،پانی پيتے ہيں تاکہ
پياس بجهے ،لباس پہنتے ہيں تاکہ سردی ور گرمی سے اپنے بدن کو محفوظ رکه سکيں،گهر
بناتے ہيں تاکہ اس ميں رہائش حاصل کریں ،گفتگو کرتے ہيں تاکہ اپنے دل کی بات کو
سمجهادیں
ا نسان، بلکہ ہر ذی شعور،جو کام عقل وشعور سے انجام دیتا ہے ،کبهی غرض اور
مقصدکے بغير نہيں ہو تا ہے اور جس کام کا کوئی فائدہ نہ ہو ،اسے انجام نہيں دیتا ہے ہمارے
ارادی افعال ميں اسی مقصدکا مشاہدہ اورہر فا عل کی حالت کے بارے ميں اس کا قياس،
ہماری حالت کے لئے ایک اور علم ہے جو ہميں یہ پوچهنے پر مجبور کرتا ہے :“خالق کائنات
(جوایک علمی فاعل کا مصداق ہے )کا خلقت سے کيا مقصد ہے؟ ” ليکن کيا مشاہدہ کا یہی
اندازہ اور قياس اس سوال کے صحيح ہونے کی ضمانت دے سکتا ہے ؟اور کيا بعض موارد ميں
پائے گئے حکم اورخاصيت سے تمام موارد کو وسعت اور عموميت دی جا سکتی ہے ؟ان
سوالات کا جواب منفی ہے اور تنہا راہ حل مقصد کے معنی کا قطعی تجزیہ و تحقيق ہے ،کيونکہ
استحکام اورتحقيق کے لئے اور کوئی راستہ موجود نہيں ہے ۔
ت غذیہ کی مثال ميں بيان ہواکہ،سير ہونے کا مقصدہميں تغذیہ کے ذریعہ حاصل ہو تا ہے
،سيری کا تغذیہ سے ایک رابطہ ہے ،کيونکہ یہ اسی کام کا نتيجہ اور پيداوار ہے اور کهانا معدہ
ميں داخل ہونے کے ساته نظام ہاضمہ کو سر گرم کرتا ہے اوراسے نئی غذاداخل کرنے سے بے
نياز کرتا ہے اور اس کی چاہت کو پورا کرتا ہے ۔بہر حال “سيری”تغذیہ کی ایک قسم کا
اثراورمعلول ہے اور تغذیہ بهی ایک مخصوص کام اور حرکت ہے جو ہم سے شروع ہو کر اپنے اثر
یعنی “سيری” پر منتہیٰ ہو کر خود نا بود ہو تا ہے یہی تغذیہ ہمارے ساته (جو فاعل ہيں )ایک اور
رابطہ رکهتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کے اندر اپنی بقاء اور زندگی کو جاری رکهنے کے
لئے ذخيرہ کے طور پر کوئی مواد نہيں رکهتے ہيں ،بلکہ صرف اپنی بقاء کے تحفظ کے لئے بعض
سلاح،مسائل اور توانائيوں سے مسلح ہيں جن کے ذریعہ بقاء کے لئے مفيد غذائيں تدریجاً
حاصل کر کے انهيں اپنے وجود سے ملاکر اپنی زندگی کو جاری رکهتے ہيں ۔
ی ہی ہماری اندورونی توانائياں ،جو عقل وشعور کی اڻوٹ انگ ہيں ،نياز مندی کا احساس
کرکے اپنے فطری جوش و جذبہ سے ہميں اپنے بدن کے وسائل اور توانائيوں کو سر گرم کرنے پر
مجبو رکرتی ہيں تاکہ ہم اپنی خاص حرکتوں کو انجام دے کر ضروری غذا اور مواد تک پہنچ جائيں
اور اپنے وجود کی کميوں کو پورا کریں ۔پس “سيری”جس کا تغذیہ سے ایک رابطہ تها،ہمارے
ساته بهی ایک رابطہ رکهتی ہے ،کيو نکہ یہ ایک کمال ہے جو ہمارے وجود کی کمی اور ہماری
ضروریات کو پورا کر تا ہے اور ہماری اندرونی توانائيوں کے ساته جو ظہور کرتا ہے ،وہ ہميں اسے
حاصل کر نے اور اپنے آپ کو اس سے مکمل کر نے پر مجبور کر تا ہے ۔
ا گر ہم اپنی بے شمار ارادی اور اختياری سر گرميوں ،جيسے :کهانے، پينے ،اڻهنے
بيڻهنے،باتيں کرنے،سننے اورآنے جانے کی تحقيق کریں ،تو وہی خاصيتيں حاصل ہوںگی جو
تغذیہ کی مثال کی تحقيق سے حاصل ہو ئيں ۔حتی اگر ہم ظاہراًبالکل بے غرضی ميں انجام
دینے والے کاموں پر توجہ کریں ،تو واضح ہوگا کہ اگر اس کام ميں کوئی منافع نہ ہوتو ہم اسے
انجام نہيں دیں گے ،جيسے ،صرف انسان دوستی کی وجہ سے انجام دی جانے والی نيکياں
جن ميں اور کوئی مقصدنہيں ہوتا ہے اور مدد کے مانند کہ ایک بے نياز دو لت مند ،ایک محتاج
فقير کی مدد کر تا ہے اور ان مواقع پر ہم حقيقت ميں اپنے جذباتی آرزوؤں کو عملی جامہ
پہناتے ہيں اور فقير کی حالت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے اندرونی جذبات کو پورا کر کے اپنے
نفس کو مطمئن کرتے ہيں اور اسی طرح
ا س تحقيق سے عام ا ور کلی طور پر یہ نتيجہ حاصل کيا جاسکتا ہے کہ اختياری کاموں
ميں “فعل کا مقصد ”ایک مناسب اثر ہے جو فعل کے آخر (فاعل کی مخصوص حر کت)ميں قرار
پایا ہے اور یہ فعل کی سرحد ہے اور یہ کمال ہے جو فاعل کے نقص کو دور کرکے اسے مکمل
کرتا ہے ۔
ا لبتہ - جيسا کہ واضح ہوا -ہم موضوع کی ابتدا ء ميں غرض اور مقصدکو اختياری فاعلوں
-جو عقل وشعور سے مسلح ہوں -سے مخصوص اور ان کے اختياری کام جانتے ہيں ليکن اگر
تهوڑا اور سنجيدہ ہو جائيں تو ہم دیکهيں گے کہ جن تمام آثار اور خاصيتوں کو ہم نے ان کے
ذریعہ افعال اوراختياری فاعلوں یعنی “غرض” کے لئے ثابت کيا ،کسی کمی بيشی کے بغير
طبيعی عاملوں اور ان کے طبيعی کاموں ميں موجود ہيں کيونکہ ہر طبيعی عامل اور ہر مادی
مرکّب بهی ایک اختياری فاعل کے مانند کچه توانائيوں سے مسلح ہو تا ہے جو ضرورت پوری کر
نے اور اپنی طبيعت کے اقتضا کے لئے ان سے کام ليتا ہے اور اپنی مخصوص حرکت -جو اس کا
عمل ہے - کو انجام دے کر اپنی ضرورت کو پورا اور اپنی کمی کو دور کرتا ہے ،اور وہی چيز جو
اس کی فعاليت کا اثر ہے بهی اس کی فعاليت کے ساته بهی بلاواسطہ اور منظم رابطہ رکهتی
ہے اور خود اس کر ساته بهی ۔چنانچہ اختياری فعاليتوں کے بارے ميں بهی ایسا ہی تها اور عقل
وشعور کا نہ ہونا اس مقصد کے تحقق یا عدم تحقق اوراس کے فاعل سے رابطہ ميں کسی
قسم کی مداخلت نہيں کرتا ہے ۔
ا گر چہ ہم اس موضوع کو افعال اختيار ی کے بارے ميں ،جو زندہ اور باشعور فاعلوں کے
ارادہ سے انجام پاتے ہيں ، “غرض ”نام رکهتے ہيں اور دوسرے طبيعی افعال ميں “غرض”کے نام
سے پرہيز کر کے اسے “غایت ”کہتے ہيں اور لفظ “غرض”کے اطلاق کو مجازی اطلاق تصور
کرتے ہيں،ليکن ان دونوں ميں حقيقت امر ایک ہی ہے ،اور جوکام ایک طبيعی عامل طبيعت کے
تاریک خانہ ميں انجام دیتا ہے اسی کام کو ایک زندہ فاعل علم کے چراغ کی روشنی ميں انجام
دیتاہے ،بغير اس کے کہ مذکورہ رابطوں ميں کوئی تبدیلی آئے ۔
غرض اورآرزوکی عموميت
رکهتی ہے اور جہاںتک عليّت ،معلوليت اور دیگر کلّی قوانين حکم فرما ہيں ،ہر گزکوئی کام
مقصد اور غرض کے بغير انجام نہيں پاتا ہے اور کوئی عامل اپنی سر گرمی اور عمل ميں غایت
اور آرزو سے بے نياز نہيں ہے ۔
ہ ر نوع سے ایک فرد کو لے ليں ،جيسے ایک انسان ،ایک کيڑا ،سيب کا ایک درخت،گندم
کا ایک پودا ،لوہے کا ایک ڻکڑا ،آکسيجن کی ایک اکائی ہم دیکه ليں گے کہ یہ سب چيزیں
اپنے اندر سر گرم توانائيوں کی موجودگی کے ذریعہ اپنے اردگرد ماحول سے ہم آہنگ ہو کر اور
اپنے ماحول کے سر گرم اجزاء سے ہم آہنگی کرکے اپنے ارتقائی مقاصدکو اپنے فائدہ ميں
حاصل کر نے کے لئے خصوصی حرکات انجام دیتے ہيں ،جوں ہی یہ خصوصی حرکت تمام ہوتی
ہے، حرکت کا نتيجہ “غر ض وغایت ” کی صورت ميں حرکت کی جگہ ليتا ہے ،اور متحرّک کی
فطری آرزو پوری ہوتی ہے اور اس کا مطلوب کمال اس کے وجود سے ملحق ہوجاتا ہے ۔
ت مام انواع، جو دنيا کے گوشہ وکنار ميں بڑے بڑے خاندان کو تشکيل دے کر زندگی کر
رہے ہيں ،جيسے :انسان کی نوع،گهوڑے کی نوع ،سيب کے درخت کی نوع کی بهی یہی
وؤں کو حاصل کر ◌ حالت ہے اور ہميشہ اپنی نوع کی خصوصی سر گرمی سے اپنے مقاصداورآرز
نے کی کو شش کرتے رہتے ہيں اور انهيں حاصل کر کے اپنے تکوینی نواقص کو دور کرکے اپنی
بقا ء کے لئے مدد ليتے ہيں ۔
کائنات کے تمام اجزاء -جن کے درميان ناقابل انکار رابطہ موجود ہے - کے بارے ميں بهی
یہی حالت جاری ہے ۔
بنيادی طور پر تحقّق پانے والی حرکت ،ایک طرف سے دوسری طرف ہو تی ہے ایک
جہت سے دوسری جہت کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے ہميشہ واسطہ کی حالت ميں ہو تی ہے
اورایک چيزکو دوسری چيز سے اور ایک طرف کو دوسری طرف سے ملاتی ہے ،جس جہت اور
طرف کواس کی حرکت چاہتی ہے ،وہی غرض اور غایت ہے ،جو متحرک کی کمی اور اس کی
چاہت کو پورا کرتی ہے ،پهر اس حالت ميں منقطع ہوتی ہے یعنی ایک ایسی حالت ميں تبدیل
ہوتی ہے جو اس کی نسبت آرام وسکون شمار ہو تا ہے ،یہی آرام وسکون دوسری صورت ميں
دوسرے کی حرکت ہے جو خود بهی ایک دوسری غرض وغایت کی تلاش ميں ہے ۔
کبهی یہ تصور نہيں کيا جاسکتا ہے کہ کوئی حرکت محقق ہو جائے اور کسی طرف
متوجہ نہ ہو یا کسی طرف متوجہ ہو ليکن مذکورہ “طرف”حرکت سے کوئی رابطہ نہ رکهتی ہو
اورصرف اتفاق سے ظاہر ہوئی ہو یاکسی محرّک کی طاقت کوئی حر کت وجود ميں لائی ہو
ليکن اس حر کت سے عليّت کا رابطہ نہ ہو یا حرکت کے ساته رابطہ ہو نے کے باوجود قوئہ
محرکہ کا “حرکت کی غایت ”سے اتفاقی رابطہ ہو ۔
علل وعوامل کی سر گرمی کے نتيجہ ميں اس کائنات ميں مشاہدہ ہونے والاعجيب
وغریب نظم اور اس عالم ہستی ميں یکساں طور پر حکم فرما ناقابل تغير عمومی قوانين اتفاقی
حدوث کو ناقابل قبول بناتے ہيں ۔
ب قول ایک دانشور ایک ایڻم کے صرف دس جزء سے ایک خاص ترکيب ميں تشکيل پائی
ایک چيزکا اتفاقی طور سے پيدا ہو نے کا فرض ،دس عرب فرضوں ميں سے ایک فرض ہے ،ليکن
منہائے ایک،دس ارب فرضوں کے مقابلہ ميں صرف ایک فرض کی پيروی کرنا ایک بيوقوفانہ اور بے
بنياد تصور کے علاوہ کچه نہيں ہے ۔
ا نسان کے علمی افکار اور فطری شعور ہر گز اس کی اجازت نہيں دیتے کہ کائنات کی
بے ا نتہا فعاليتوں ميں فعل و فاعل اور غایت فعل کے رابطہ سے انکار کرکے تمام علمی فيصلوں
اور ناقابل انکار انسانی افکار کی بيخ کنی کی جائے ۔
کائنات کو خلق کرنے ميں خدا کامقصد
فلکی کے مجموعہ اور حيرت انگيز کہکشاں ،آپس ميں رکهنے والے حقيقی رابطہ کے ذریعہ ایک
عظيم اکائی تشکيل دیتے ہيں جو اپنی تمام ہوّیت،حقيقت اورحيثيت کے ساته (نہ صرف اپنی
مکانی نسبيت کے لحاظ سے ) تغير وتحول کی صورت ميں ایک کلی اور عمومی حرکت کو وجود
ميں لاتے ہوئے (علمی وفلسفی نظریہ کے مطابق ) ایک مقصد اور آرزو کی طرف گامزن ہيں
(مذکورہ قطعی نظریہ کے مطابق ) ان کے ایک مشترک
سر حد پر پہنچنے کے بعد، مذکو رہ مقصد اور غرض ،اس حرکت کا جانشين بن کر اس شور
وغوغل سے بهری کائنات کو ایک ثابت وآرام عالم ميں تبدیل کر تا ہے ۔
ہ ماری آئندہ دنيا ایک آنے وا لے کل کی دنيا ہے ،جو آج کی دنيا کے پيچهے ہے بيشک یہ
گزشتہ روز کے مقابلہ ميں ثبات وآرام کی حالت ميں ہو گی اور اس دنيا کے نواقص اور کمی
بيشی کو دور کر کے اسے مکمل کرکے ہر توا نائی کو سر گرم عمل کرے گی ۔
ل يکن کيا یہ ثبات اور کمال نسبی ہو گا اور یہ صفت صرف آج کی دنيا کی حالت کے موازنہ
ميں ہو گی ،یا ثبات وآرام نفسی پيدا کر کے کسی قسم کا تحوّل اور تبدیلی پيدا نہيں ہو گی ۔؟
ا ور کيا دوسرے تغير سے کائنات کی کلی حرکت -جو اپنے مقصد اور غرض تک پہنچنے
کے بعد اسی مقصد اور غرض ميں تبدیل ہو کر آرام پيدا کرتی ہے - آج کی جزئی حرکتوں کے
مقصد اور غرض کے مانند نسبی پائداری اور آرام کی حامل ہو گی ؟ اگر چہ دوسری جہات سے
حرکت ميں دوڑ دهوپ اورنشيب وفراز کی حالت ميں ہے یا یہ کہ آئندہ دنيا کا اپنا حقيقی کمال
وثبات ہو گا اور اس دنيا ميں ہر مظہر کی حقيقی پيدائش کا رول اداکر نے والا تغير وتحول کا
حساب بالکل بند ہو کر روز گار کا پر کاراپنے ابتدائی نقطہ پر پہنچ کر اپنی گردش کو خاتمہ بخش
کر ایک ثابت اور مکمل دائرہ کو اپنی جگہ پر چهوڑدے گا اورآج کے ادراک ميں تغير پيدا کر کے
،اسے چار بعدی بناکر دوسرے دن کے مظاہر گزشتہ اور آنے والے دن کے گرد نہيں ہوں گے ؟
جو کچه مذکورہ اجمالی بيان ميں واضح ہوتا ہے ،ایک ایسا سر بستہ نتيجہ اورمطلب ہے
جو مکمل طور پر پيچيدہ اور مشکل ہے ،اس روان اور ناقص دنيا کے پيچهے ایک ثابت اور مکمل
دنيا ہے ،ایک با آرام منزل مقصود ہے جس کی طرف کاروان خلقت انتہائی تلاش وکوشش سے
رواں دواں ہے او ر اس راہ کے تمام راہی ایک دن اپنی کوششوں کے نتيجہ کو فعليّت کی صورت
ميں وہاں پر حاصل کریں گے ۔
ا لبتہ انسان اس نتيجہ کو قبول کر نے کی راہ ميں ،مذکورہ سوال اور دسيوں اور سيکڑوں
دوسرے سوالات سے روبرو ہے جو مجہو لات کے ایک سلسلہ کی تاریکی کو ظاہر کر تے ہيں اور
حقيقت ميں کچه مباحث کو تشکيل دیتے ہيں ،جنهيں پيچيدہ ترین اور عميق ترین کلی اور
فلسفی بحث شمار کی جا سکتی ہے کيو نکہ حس کا سہارا نہ رکهنے والے کلی نظرئيے
ہمارے لئے قابل فہم نہيں ہيں ۔جہاں تک ہم اپنی آنکهيں کهول کر اس مادی دنيا کے مناظر کا
مشاہدہ کرتے ہيں اور جو کچه ہميں اس کے گوشہ وکنار سے دکهائی دیتاہے حرکت ،نقل و
انتقال اور زوال کی حالت ميں ہے اور ہم خود بهی اس کاروان اور اس راہ کے راہی ہيں اور ہم
ميں سے جو بهی اس دنيا سے آنکه بند کر کے چلا جاتا ہے ،پهر اس کی ہميں کوئی خبر نہيں
ہو تی (اور جو خبردار ہوا اس سے کوئی خبر لوٹ کے نہيں آتی )
ا س کے باوجودمنطقی مقدمات اور ناقا بل انکار اور یقينی استدلالوں پر مبنی دقيق
فلسفی بحثيں تاليف ہو ئی ہيں ،جو ان سوالات ميں سے اکثر کا جواب دیتی ہيں اور یہ نظریہ
(یہ رواں اور متحرک دنيا ایک پائيدار اور ثابت مقصد کی حامل ہے ) معاد کے موضوع کے مطابق
ہے جس کو اوليائے دین نے وحی سے حاصل کر کے خبر د ی ہے ۔
مقالہ کی ابتداء ميں جو بحث ہم نے کی ،اس سے واضح ہوا کہ “غرض”کا مو ضوع
فعل سے ایک رابطہ ہے جو حرکت فعلی کو سکون وآرام ميں تبدیل کرتا ہے اور فاعل کے ساته
ایک رابطہ ہے جو اس کے وجود ميں پائے جانے والے نقص کو کمال ميں تبدیل کر تا ہے ۔خالق
کائنات کے بارے ميں کی گئی استدلالی بحثوں کے مطابق ،اس کی مقدس ذات کمال محض
کے علاوہ کوئی چيز نہيں ہے اور اس ميں کسی قسم کے نقص ونياز مندی کو نہيں پایا
جاسکتا ہے ۔
مذکورہ دونظریوں کے پيش نظر خالق کائنات کے فعل کی نسبت مقصد واثبات کا فرض
کيا جاسکتا ہے جيسا کہ تفصيلی طور پر بيان ہوا،ليکن اس کی ذات مقدس کے بارے ميں منفی
جواب دینا چاہئے ،اور دوسرے الفاظ ميں یہ جو کہاجاتا ہے کہ اصل خلقت کا مقصوداورغرض کيا
ہے ؟ اور کيوں خدائے متعال نے اپنے علاوہ کسی مخلوق کو پيدا کيا ہے ؟اگر اس کا مقصود یہ
ہے کہ خدائے متعا ل کے فعل کا مقصد کيا ہے اور اس کی توجہ کس غایت اور انتہاکی طرف ہے
(فعل کی غرض ) اس کا جوا ب یہ ہے کہ اس نا پائيدار دنيا کا مقصد ایک مکمل ترین دنيا ہے ،اور
اگر مراد یہ ہے کہ خدائے متعال خلقت کے ذریعہ اپنی کسی کمی کو پورا کرتا ہے اور کونسا
کمال یا فائدہ اپنے لئے حاصل کرتا ہے تو یہ سوال غلط ہے اور اس کا جواب منفی ہے ۔
مقصد خلقت کے سوال کے بارے ميں جو جواب دینی زبان ميں دیا جاتا ہے :“کائنات کو
پيدا کر نے کا خداکا مقصد دوسروں کو نفع پہنچانا ہے نہ خود کو ”اس کا مطلب وہی معنی ہے
جو بيان ہوا ۔
ا خر ميں اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ،جس طرح بحث وتحقيق
ميں “مقصد”کا معنی بيان کيا گيا ،ا س کا نتيجہ یہ ہے کہ مقصد اس جگہ پر محقق ہو تا ہے
جہاں فعل اور فاعل یا صرف فعل ميں کو ئی نقص ہو جو مقصد سے دور ہو جائے ۔اس بناپر، اگر
کسی فعل ،یعنی کسی خالق کے بارے ميں فرض کيا جائے جس ميں کسی قسم کا قابل رفع
نقص نہ پایا جاتا ہو(فلسفی اصطلاح ميں مجرّد عقلی کے مانند)تو مذکورہ معنی ميں کوئی
مقصد نہيں ہو گا ۔
جی ہاں !فلا سفہ نے دقيق ترین تجزیہ وتحقيق سے ثابت کيا ہے کہ فعل کا مقصد
حقيقت ميں فعل کا کمال اور فاعل کا مقصد فاعل کا کمال ہے ۔منتہیٰ یہ کہ فعل کبهی تدریجی
ہے اور اس کا کمال آخر کار اس سے جا ملتا ہے اور کبهی اچانک مادّہ اور حرکت سے مجرّد ہے
اور اس صورت ميں فعل کا وجود بهی اورکمال ومقصد فعل بهی خود فعل ہے ۔
ا س طرح کبهی فاعل ناقص ہے اور فعل کے بعد اپنے کمال کو پاتا ہے اور کبهی فاعل
مکمل ہے اور اس صورت ميں وہ فاعل بهی ہے اورغایت وغرض بهی اور اس لحاظ سے خالق
کائنات کا کائنات کو خلق کرنے کا مقصد اپنی ذات کے علاوہ کچه نہيں ہے اور اس کے فعل کا
مقصد یہ ناقص دنيا ہو نا،(در حقيقت ) ایک مکمل تر دنيا ہے اور کامل تر دنيا کا مقصد،خود وہی
کامل تر دنيا ہو گا ۔
ا ور اسی طرح ہر فرض کئے جانے والے کامل تر خالق کے بارے ميں اس کی خلقت کا
مقصدخود وہی ہو گا ۔والسلام
خدا کو کيا ضرورت ہے کہ انسان کی آزمائش کرے ؟
نصب کرے،خود وہ شخص ایک دستہ والے لوڻے سے اعتراض نہيں کر سکتا ہے کہ تم کيوں ایک
دستہ رکهتے ہو ،چونکہ وہ لوڻوں کا صانع ہے اگر لوڻوں کو اس کی آنکهوں سے اوجهل بهی کيا
جائے پهر بهی وہ ان کے حالات سے واقف ہے اور ان کی بناوٹ،رنگ اور صورت کو بخوبی جانتا
ہے ۔
ی ا مثال کے طور پراگر ایک آرڻسٹ نے ایک منظر کی نقاشی کر کے اول سے آخر تک
اپنی پسند سے اس ميں رنگ بهر دئے ہوں ،تووہ منظر کی کيفيت سے واقف ہے اور وہ
خودنہيں کہہ سکتا ہے کہ ميں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ منظر اچها ہے یا برا ،کيونکہ جو اپنے ہاته
سے کسی چيز کو بنائے اس کے لئے لازم نہيں ہے اس کے بارے ميں تجسس اورتحقيق کرے ۔
ل يکن اصلی مطلب یہ کہ خدائے متعال نے تمام زمينی وآسمانی مادیات و معنویات کو
خلق کيا ہے اور اول سے آخرتک کا ئنات کے بارے ميں بخوبی جانتا ہے ،کيونکہ سب سے پہلے
وہ خود اس کا صانع ہے اور دوسرے یہ کہ اگر نہ جانتا ہو ،تو عاجز ہے اور اس صورت ميں خدا
عاجز نہيں ہو سکتا کيونکہ خدائے متعال عجز سے مبرّا ہے ۔لہذا اس کی کيا ضرورت ہے کہ
خدائے متعال بشر کو خود خلق کرکے اس کی خودحق ارادیت اور تقدیر اس کے ہاته ميں
سونپنے کے بعد خود اس کا امتحان لے لے ؟!
جواب: بشر کی آزما ئش اور خدائے متعال کے امتحان کے بارے ميں ذکر کرکے آخر ميں
خط کے ذیل ميں آپ نے اس عبارت پر خلاصہ کيا ہے :“اس کی کياضرورت ہے کہ خدائے متعال
بشر کو خودخلق کرکے اس کے اختيارات اور تقدیر اس کے ہاته ميں سونپنے کے بعد خود اس کا
امتحان لے لے ؟“
یہ جاننا چاہئے کی خدائے متعال اپنے قرآنی تعليمات ميں خلقت کے راز کے بارے ميں
دوطریقوں سے بحث کرتا ہے:
١۔اجتماعی منطق کے طریقہ سے لوگوں کے متوسط طبقہ سے ان ہی کی زبان ميں ان
سے گفتگو کرکے تعليم دیتا ہے ۔اس منطق کے مطابق خالق کائنات مطلق حکم فرما مطلقہ
سلطنت رکهنے والا اور بندوں کا مالک ہے کہ سب اس کے بندے ہيں ۔لوگوں کی دنيوی زندگی
جو ان کی اخروی اور ابدی زندگی کا مقدمہ ہے، اس کی مشيت ،ارادہ، احکام اور تکاليف کے
مطابق ہونی چاہئے اور آخرت ميں وہ اپنے اعمال کی جزا پائيں گے اور اس لحاظ سے ان کی
دنيوی زندگی ایک آزمائشی اورامتحانی زندگی ہو گی ان کا امتحان لينے والاخدا ہے اور قرآن
مجيد کی آیات اس نظریہ کے مطابق بحث کرتی ہيں چنانچہ فرماتا ہے:
( >کل نفس ذائقةالموت ونبلوکم بالشروالخير فتنة>(انبياء/ ٣۵
”ہرنفس موت کا مزہ چکهنے والاہے اور ہم تو اچهائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائيں گے
“
٢۔ خالص منطق عقلی کے طریقہ اور حقيقت بينی اور حقيقی عالم شناسی سے یہ
نظریہ خدااور خلقت عالم اور اس کے نيک وبد حوادث کے مانند ہے اور ان کی مثال اس آڻسٹ
کی جيسی ہے جو ایک خوبصورت اور بدصورت اور نيک وبد منظر کو ایک بورڈ پر تصویر کشی کرتا
ہے اورپهر اس مصوّر اور اس کے چہرے کی طرف کسی قسم کی توجہ نہيں کی جاتی اور
آمائش کا معنی پيش نہيں آتا ہے ۔صرف ایک بنيادی نکتہ کے بارے ميں غفلت نہيں کی جانی
چاہئے ،اور وہ یہ ہے کہ فرض کيا جانا چاہئے بورڈ پر جو انسانی تصویریں موجود ہيں وہ اپنے
اختيار سے کام کرتی ہيں ،یعنی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے ،اور ان کا کام خوبصورت وبد
صورت ہے اور ان کے آئندہ کے خوب وبد نقشے ان کے کام کے ساته بلا واسطہ رابطہ رکهتے
ہيں ۔(دقت کی جائے )
چه دنوں ميں آسمانوں اور زمين کی خلقت-
کے باوجود کيا آسمانوں کی خلقت چه دن ميں انجام پائی ہے ؟
جواب: خط ميں جو اعتراض ذکر ہوا ہے وہ ایک فلسفی اعتراض ہے کہ فلسفہ کی کتابوں
ميں اس کی وضاحت کی گئی ہے اور مناسب جواب دیا گيا ہے اور مذکورہ اعتراض صرف چه
دنوں ميں آسما ن کی خلقت سے مربوط نہيں ہے ۔بلکہ اس کے پيش نظر کہ عالم مشہود کے
تمام مظہر نظام حرکت کے تحت ہيں اورہر چيز کی پيدائش خاص حر کتوں سے ہوتی ہے اور
اس کی تخليق تدریجی ہو تی ہے اور شے کے وجود کا تدریجی ہونا موثر کے دفعتہ ہونے کے
منافی ہے ۔ اس عالم کے تمام اجزاء ميں یہ اشکال موجودہے اور یہ آسمانوں کے چه دن ميں
پيدا ہونے سے مخصوص نہيں ہے ،کيو نکہ خدائے متعال کا ارادہ ذات کی صفت نہيں ہے بلکہ
صفت فعل ہے جو ذات سے خارج ہے اور فعل کے مقام سے الگ ہوتا ہے اور جو ہم یہ کہتے ہيں
:“خدائے تعالیٰ نے فلاںچيز کا ارادہ کيا ”کا معنی یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس چيز کے وجود
کے علل واسباب مہيا کئے ہيں (عالم ،عالم اسباب اور حکومت قانون عليّت کے تحت ہے ) اس
بناء پر اموردفعی الوجود یں ، مطابقت ارادہ اور مرادارادئہ خدا ،دفعتہ ہے اور امور تدریجی ميں
تدریجی ہے اور کسی قسم کا مانع بهی نہيں ہے ،کيو نکہ یہ ایک ایسی صفت ہے جو فعل
سے قائم ہے نہ ذات سے تا کہ ذات ميں تغير لازم آئے ۔
ل يکن اصلی اعتراض،وہی حادث کا قدیم سے رابطہ،یعنی متغيّر کا ثابت سے رابطہ اور
دوسرے الفاظ ميں ،معلول زمانی کا خارج از زمان کی علّت سے رابطہ ہے ۔یہ فلسفہ اور کلام
کی کتابوں ميں بيان کياگيا ہے اور مزید تفصيلات اور وضاحت کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع
کيا جاسکتا ہے ۔
جس چيز کی طرف اس خط ميں مختصر طور پر اشارہ کيا جاسکتا ہے ،وہ یہ ہے کہ تدریج
وتغيّر کی صفت اور زمان کا معنی جيسے بڑاپن اور چهوڻا پن ،نسبی اور قياسی معنی ميں
سے ہے کہ اس دنيا کی موجودات توازن کے ساته پيدا ہوتا ہے اور اشيا ء کی خدائے متعال سے
نسبت ایک ثابت اور پائيدار نسبت ہے اوروہ ان صفتوں سے منزّہ ہے۔ قرآن مجيدنے اس مطلب کو
مندرجہ ذیل دوآیتوں ميں بيان فرمایا ہے:
( >انمّا امرہ اذا اراد شيئا ان یقول لہ کن>(یس/ ٨٢
”اس کاامر صر ف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے ميں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جاؤ“
( >ومااٴمرنا الّا واحدة کلمح بالبصر>(قمر/ ۵٠
”اور ہمارا حکم پلک جهپکنے کی طرح کی ایک بات ہے ۔“
پ ہلی آیہ شریفہ کے مطابق، جو کام خدائے متعال کسی چيز کے ارادہ کے وقت انجام
دیتا ہے اس کا پيداہو نا ،یعنی اس کا وجود خارجی ہے ۔اور دوسری آیت کے مطابق اشياء کا
وجود خارجی خدا کی نسبت ثابت وپائدار اور زمان سے خارج ہے ،یعنی اشياء ایک دوسرے کی
نسبت زمانی، متغيّر اور تدریجی ہيں اور خدا کی نسبت ثابت ،غير متغيّر اور غير تدریجی ہيں ۔
قيامت پر اعتقاد رکهنے کے اثرات
انسانی معاشر ہ کے کس حصہ کی اصلاح ہو تی ہے ؟کيو نکہ اس ميں شک وشبہ نہيں کيا
جاسکتا ہے کہ انسانی معاشرہ افراد کی سر گرمی سے زندہ ہے اور افراد کی سر گرمی بهی
احتياج کی حس اور زندگی کی ضرورتوں سے آگاہ ہو نے کے اثر ميں وجود ميں آتی ہے۔ انسان
اپنی بقاء اور اس بقاء کی ضروریات کے بارے ميں شدید دلچسپی رکهتا ہے۔ اس لئے اس آرزو کو
حاصل کر نے کے لئے ہر ممکن وسائل کو بروئے کار لاکر عزم وارادہ کے ساته اپنی انتهک سر
گرميوں کو جاری رکهتا ہے ۔ان اعمال ميں سے جو بهی عمل مقصد تک پہنچ جائے ،انسان کی
سر گرمی کو شدت بخش کر اس کت عزم وارادہ کو تقویت بخشتا ہے ۔
ی ہی وجہ ہے کہ انسانی معاشرہ جوں ہی اپنے عادی راستہ پر گامزن ہو تا ہے تو ایک
قسم کی تر قی حاصل کرکے ہردن اور ہر ساعت اپنی پيش رفت کی حر کت ميں تيزتر ہو تا ہے
اور اس ميں ایک عميق اورتازہ جوش وجذبہ ظاہر ہو تا ہے اور واضح ہے کہ موت کی یاد،موت کے
بعد آخرت کی زندگی کی فکرکو دماغ ميں پرورش دینا ،اگر انسان کے عزم وارادہ کو مفلوج نہ
کرتے ہوئے معاشرہ کے روز افزوں سر گرميوں کے پہيئے کو گهومنے سے نہ روکتا ،تو انسان
کی سير وسلوک کی اس زندگی ميں کسی قسم کا اثر نہ ہو تا اور اس کے قالب ميں ایک نئی
روح نہيں پهونکی جاسکتی ۔
جواب : اس ميں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہيں ہے کہ آسمانی ادیان
نے اپنی دعوت کے پروگرام کو کسی حدتک تکليف کی مسئو ليت اور اعمال کی پاداش (یعنی
روزجزا) پر رکها ہے اور خاص طور پر (ان ميں ) دین مقدس اسلام نے اپنی دعوت کی بنياد کو
تين اصولوں پر استوار کيا ہے ان ميں سے تيسرااصول معاد پر اعتقاد ہے۔ چنانچہ اگر کسی
شخص کو معاد پر شک ہو تو ،اس کی مثال اس شخص کی جيسی ہے جو توحيد یا نبوت کا
منکر ہو ،وہ دین کے حدودو ميں داخل نہيں ہوا ہے اور مسلمانوں کے زمرہ سے خارج ہے ۔یہاں
اسلامی معاد کے اعتقاد کو دی جانے والی اہميت -توحيد ونبوت کے اعتقاد کے مانند - واضح
ہو تی ہے ۔
ا س نکتہ کے پيش نظر کہ اسلام نے اپنی تعليم وتر بيت کی آرزو کو انسانی فطرت
(فطری انسان کو پيدا کر نے کے لئے ) کو احياء کر نا قرار دیا ہے ، اس حقيقت کو سمجه سکتے
ہيں کہ اسلام معاد کے اعتقاد کو فطری انسان کے حياتی ارکان ميں سے ایک رکن قرار دیتا ہے
کہ اس کے بغير حقيقی انسان کی شکل ایک بے روح جسم کے مانند ہے جس نے ہر انسانی
سعادت وفضيلت کی بنياد کو کهو دیا ہے ۔
ا س ميں بهی شک وشبہ کی گنجائش نہيں ہے کہ اسلام کے معارف اور قوانين خشک
وبے روح مواد نہيں ہيں ،جو لوگوں کی سر گرمی کی غرض سے یا خشک اورخالی تعبداورتقليد
کے مقصد سے مرتب ہوئے ہوں بلکہ یہ اعتقادی ،رو حی اور عملی مواد کا ایک مجموعہ ہے جو
اپنے اجزا ء ميں پائے جانے والے تشکلّ کے کمال اور رابطہ سے انسان کی زندگی کے پرو گرام
کے عنوان سے اور انسان کی خلقت کی ضروریات کے پيش نظر مر تب ہوا ہے ،چنانچہ قرآن
مجيد کی مندرجہ ذیل آیات اس مطلب کی بہترین گواہ ہيں:
( >یااٴیّها الّذین اٴمنو ااستجيبوا للّٰہ وللرّسول اذا دعاکم لما یحييکم >(انفال/ ٢۴
”اے ایمان والو!الله ورسول کی آوازپر لبيک کہو جب وہ تمہيں اس امر کی طرف دعوت دیں جس
ميں تمہاری زندگی ہے“
( >فاٴقم وجهک للدّین حنيفاً فطرت اللّٰہ الّتي فطرالنّاس عليها >(روم / ٣٠
”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکهيں اور باطل سے کنارکش رہيں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے
جس پر اس نے انسان کو پيد اکيا ہے“
ا س بناء پر ،دین اسلام تر قی یافتہ معاشروں کے ان ملکی قوانين سے کوئی فرق نہيں
رکهتا ،جو معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنےاور اس کے حياتی منافع کی حفاظت کے لئے وضع
کئے گئے ہيں ۔منتہٰی خدائی دین اور انسان کے وضع کئے گئے قوانين کے درميان پایا جانے والا
بنيادی فرق یہ ہے کہ ملکی قوانين ،انسان کی زندگی کے پروگرام کے قانونی ضوابط ہيں ،صرف
اس کی چند روز ہ مادی زندگی کو مد نظر رکهتے ہيں اور مشخص قانونی دفعات کو صرف
معاشرہ کی اکثریت کی جذباتی ضرورتوں کو قراردیتے ہيں ۔ليکن دین آسمانی ،انسانی زندگی
کو ایک ایسی ابدیاور لامتناہی زندگی تشخيص دیتا ہے جو موت سے ہرگز ختم نہيں ہوتی اور
ہميشہ کے لئے ایسے باقی اور پائدار رہتی ہے کہ اس کی دوسری دنيا کی بدبختی اور
خوشبختی اس دنيا کے اعمال کی برائيوں اور بهلائيوں کے تناسب سے ہوتی ہے ۔اس لئے دین
اسلام انسان کے لئے عاقلانہ زندگی کا پروگرام مرتب کرتا ہے نہ جذباتی زندگی کا ۔
ملکی قوانين کی نظر ميں ،معاشرہ ميں لوگوں کی اکثریت کی رائے کا نفاذ ضروری ہوتا
ہے اور یہ قوانين کے دفعات ميں سے ایک دفعہ ہوتی ہے ۔ليکن دین اسلام کی نظر ميں
معاشرہ ميں ایسے قوانين قابل اجرا ہيں جو حق اور عقل کی کسوڻی کے مطابق ہوں ،خواہ
اکثریت کی رائے کے مطابق ہوں یا نہ ۔
دین اسلام بيان کرتا ہے کہ فطری انسان (خرافات اورہوس رانيوں سے پاک ) اپنے فطری
شعور سے معاد کو ثابت کرتا ہے اور نتيجہ کے طور پر اپنے آپ کو ایک ابدی زندگی کا مالک
سمجهتا ہے کہ اسے صرف انسانيت کی خصوصی نعمت یعنی عقل سے زندگی بسر کرنا
چاہئے ،اس کو ایک مادّی شخص کی طرح اپنی بنياد اور معاد سے بے خبر نہيں رہنا چاہئے ،کہ
یہ منطق حيوانی منطق ميں مشترک ہے اور اس حالت ميں انسان مادی لذتوں پر تسلط جمانے
کے علاوہ کوئی آرزو نہيں رکهتا ۔قيامت پر ایمان اور معاد پر اعتقاد ایک حقيقت پسند انسان کی
فکری،اخلاقی،روحی اور اس کے اجتماعی اور انفرادی اعمال کے تمام ابعاد پر واضح اثر ڈالتا ہے۔
ل يکن اس کی فکر پر اثر ،اس طریقہ سے ہے کہ وہ اپنے آپ کو اورتمام چيزوں کو -
جيسے وہ ہيں - حقيقت پسندانہ نگاہ سے دیکهے ۔وہ اپنے آپ کو چند روز کے لئے محدود ایک
انسانی موجود مشاہدہ کرتا ہے جو اس ناپائدار دنيا کا ایک جزو ہے ۔وہ اور عا لم ہستی کے
دیگراجزا مجموعاًایک ایسے قافلہ کو تشکيل دیتے ہيں جو شب وروز ایک پائدار اورابدی دنيا کی
حرکت ميں ہے اور خلقت “علت فاعلی ” کے “رفع”اور خلقت کی غرض وغایت (قيامت)کے
“جذب”کے درميان ہميشہ مسافرت ميں ہو تا ہے ،ليکن اس کے روحی اخلاق ميں اس صورت
ميں اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنی واقع بينی اوراپنے اندورونی جذ باتی طرز تفکر کو بدل کر انهيں
مقصد کے مناسب اسلوب سے محدود کرے ۔
جو شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خود کو اس ناپائدار عالم ہستی کے تمام
اجزاء سے وابستہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو طوفان کی خطر ناک لہروں کے پنجوں ميں ایک تنکہ
کے مانند گرتے اڻهتے عام مقصد کی طرف بڑهتا ہوا پائے ،تو وہ اس خود پسندی ،غرور اور
جاہلانہ بغاوتوں کو اپنے دماغ ميں پنپنے نہيں دے گا ، وہ خود کو شہوت پرستی ،نفسانی
خواہشات اور ہوس رانی کاغلام نہيں بنائے گا ،اوروہ ایک چندروزہ انسانی زندگی کے لئے
ضروری چيزوں کے علاوہ بے مقصد تلاش اورکوششوں کا اسير وگرفتار بن کر خود کو ایک خود
کار اور بے ارادہ مشين ميں تبدیل نہيں کرے گا ۔اس کے نتيجہ ميں انسانی زندگی کے فردی اور
اجتماعی بلواؤں ميں کافی حدتک کمی واقع ہوتی ہے ،پهر وہ اپنی تلاش و کوششوں کو ایسے
کاموں ميں ضائع نہيں کرے گا جن کے لئے قربانی دے کر جان ومال سے ہاته دهونا پڑ تا ہے
،کيونکہ اگر نيک کام انجام دینے کی راہ ميں اس کی جان بهی قربان ہو جائے تو اس نے اس
غمناک دنيوی زندگی کو کهو دیا ہے ،ليکن وہ اس طرح اپنی ابدی زندگی اور جانثاری کے نيک
نتائج کو پاتا ہے اور ان سے خوشحال ہو گا ،اب اس سے ایک مادی اور معاد سے بے خبر شخص
کے مانند اپنی دنيوی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لئے فریب دینے والے اور گمراہ کر نے والے
خرافات کا سہارا لينے کی ضرورت نہيں ہے ۔اب وہ نہيں چاہتا ہے کہ اسے اس بات کی تلقين
کی جائے کہ معاشرے کے مقدسات ۔آزادی ،قانون اور وطن کے مانند - انسان کے لئے نيک
نامی اور پائندگی لاتے ہيں جن کے ذریعہ وہ ایک ابدی اور فخر ومباہات کی زندگی پاسکتا ہے،
جبکہ اگر حقيقتاً انسان مر نے کے بعد نابود ہوتا ہے ،تو مرنے کے بعد زندگی اور فخر،خرافات کے
علاوہ کوئی مفہوم نہيں رکهتے!!
ی ہاں پر،سوال کے آخر پر بيان کی گئی بات کا بے بنياد ہونا واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ
موت اور موت کے بعد والی دنيا کا تصور ،انسان سے نشاط کار اور زندگی کی سر گرمی کو
سلب نہيں کرتا ،کيونکہ نشاط کار اور انسان کی سر گرمی احتياج کی معلول حسّی ہے اور
معاد کے تصور سے احتياج کی حس نابود نہيں ہو تی ہے ۔اس مطلب کا گواہ یہ ہے کہ صدر
اسلام کے مسلمان دینی تعليمات کی بيشتر پيروی کرتے تهے اور ان کے دلوں ميں معاد کا
تصور دیگر توانائيوں سے زیادہ جلو گر تها،وہ لاجواب اور حيرت انگيز اجتماعی سر گرمی ميں
مشغول تهے ۔
معاد پر ایمان کے روحی فوائد ميں سے یہ ہے کہ انسان کی روح ہميشہ اس ایمان سے
زندہ ہے وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کبهی کسی مظلوميت یا محروميت سے دوچار ہو ا تو ایک دن
آنے والا ہے جب انتقا م ليا جائے گا اور اس کا حق اس سے واپس ملے گا اور وہ جو بهی نيک
کام انجام دے گا ایک دن اس کی بہترین صورت ميں تجليل وتعظيم کی جائے گی ۔
ل يکن انسان کے فردی اور اجتماعی اعمال ميں اس کا اثر اس طرح ہے کہ معاد کا معتقد
انسان جانتا ہے کہ اس کے اعمال ہميشہ تحت نظر اور کنڻرول ميں ہيں اورا س کے ظاہر وباطن
(مخفی وآشکار )اعمال خدائے داناو بينا کے سامنے واضح ہيں ایک دن آنے والا ہے جب پوری
دقت سے اس کا حساب وکتاب کيا جائے گا ۔اور یہ عقيدہ انسان ميں ایک ایسا کام انجام دیتا
ہے جو ہزاروں مخفی پو ليس کے اہل کار اور مامورین سے انجام نہيں پا سکتا ہے ،کيونکہ وہ
سب باہر سے کام کرتے ہيں اور یہ ایک داخلی چوکی دارہے جس سے کوئی رازچهپایا نہيں
جاسکتا ہے۔