اسلام اور آج کا انسان
 

ختم نبوت کی عقلی دليل
سوال:ختم نبوت کے بارے ميں عقلی دليل کيا ہے ؟
جواب :کتاب “برہان از منطق ” ميں ثابت ہوا ہے کہ جزئی اور شخصی حکم کی عقلی
دليل نتيجہ بخش نہيں ہے ،لہذا نبوت عامہ کے مقابلہ ميں نبوت خاصّہ کو عقلی دليل سے ثابت
نہيں کيا جاسکتا ہے ۔وضاہت یہ ہے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ انسان کے ارتقاء کے لئے اور
اس کی ہدایت وراہنما ئی کے لئے ہے ،کمال کے مراتب اور آسمانی شریعتوں کا تعدّد تدریجی
ارتقاء کے لئے ہے ،جيسے انسان نے زمانہ کے گزرنے کے ساته اسے حاصل کيا ہے کہ ہر
شریعت گزشتہ شریعت کو کامل کر نے کا درجہ رکهتی ہے اور اس کو منسوخ کر نے والی ہو
تی ہے اور واضح ہے کہ انسان لامتنا ہی کمالات کا مالک نہيں ہے ،جن کمالات کی صلاحيت
رکهتا ہے ،جتنے بهی زیادہ ہوں ،بالآخر ایک مرحلہ پر ختم ہو تے ہيں ،نتيجہ کے طور پر جو نبوت
اس مرحلہ کی ضامن ہے، وہ خاتم نبوت ہے اور جونبوت شریعت کو لائی ہے وہ قيامت تک
مستحکم اور واجب العمل ہے ۔اس بيان سے یہ ثابت ہو تا ہے آسمانی شریعتوں ميں ایک ایسی
شریعت ہو گی جو شریعتوں کو خاتمہ بخشنے والی ہو گی ۔
روایتوں کے مطابق بهی اسلام کی مقدس شریعت ،ایک آسمانی اور بر حق شریعت کو
خاتم النبيين اور قرآن مجيد کو نا قابل تنسيخ کتاب کے طورپرتعا رف کرا گيا ہے:
( > ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبيين< (احزاب / ۴٠
> وانّہ لکتابٌ عزیزلا یاتيہ الباطل من بين یدیہ ولامن خلفہ تنزیل من حکيمٍ حميد <
( (فصلّت/ ۴١ ۔ ۴٢
”اور یہ ایک عالی مرتبہ کتا ب ہے ۔جس کے قریب سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل
آبهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدا ئے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔“
پ يغمبروں کی نسبت پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی خاتميت اور آسمانی
شریعتوں کی نسبت شریعت اسلام کی خا تميت ثابت ہو تی ہے ۔
گزشتہ بحث سے یہ مطلب بهی واضح ہو تا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم
کی خاتميت کا یہ معنی نہيں ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے نبوت کا باب بند ہوا ہے اس لئے
لوگوں کی عقليں مکمل ہو چکی ہے اور اب وحی اور آسمانی احکام کی ضرورت ہی نہيں ہے
اس صورت ميں اسلام کی وسيع شریعت اوراحکام کے لئے کوئی معنی باقی نہيں رہتا ۔

عدالت اور عصمت ميں فرق
سوال: عدالت اورانبياء کی عصمت -نہ ملائکہ کہ قوئہ غضبيہ اورقوئہ شہوانيت نہيں
رکهتے -کے درميان کيافرق ہے ؟
جواب :عدالت ایک طاقت اور ملکہ ہے جس سے انسان عملی طور پر گناہان کبيرہ اور
گناہان صغيرہ پر اصرار کر نے سے اجتناب کرتا ہے اور ممکن ہے اصرار کے بغير گناہان صغيرہ کا
مرتکب ہو جائے ۔اور“عصمت”ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ انسان کے لئے مطلق معصيّت
، خواہ گناہان کبيرہ ہو یا صغيرہ کا انجام دینا محال ہوتا ہے ۔اور قرآن مجيد کی آیات سے یہ
استفادہ کيا جاتا ہے کہ عصمت علم کی ایک قسم ہے ۔یہ معصيّت کے قبيح ہونے کا علم ہے
جس کے ہوتے ہوئے معصيّت ہر گز انجام نہيں پاتی ،ایک شخص کے مانند جيسے ایک مایع کے
بارے ميں قطعی علم ہو کہ وہ ایک مہلک زہر ہے وہ ہرگز اسے نہيں کهائے گا اور نتيجہ کے طور
پر معصيّت کا مرتکب ہو نا ایک عادل کے لئے ممکن ہے ليکن ایک معصوم کے لئے ممکن نہيں
ہے ۔

تکوين کا تغيير نا پذير ہونا
سوال: باوجود یکہ عصمت انبياء پر عقلی دليل کو مسلّمات بلکہ مذہب شيعہ کی ضرورت
ميںشمارکياگياہے،ليکن مذکورہ ادلّہ ميں “عيال کے ساته ایک غيرحاضری”مثلاًشامل نہيں ہوتی
اور فرض کریں شامل ہو جائے ،تو عدالت کافی ہے اور فرض کریں ادلّہ تمام ہو ،رسالت سے
نسبت بيان احکام ہے ،جو سہو ونسيان سے محفوظ ہے اور دوسرے گناہوں کی نسبت تمام
نہيں ہے اور بنيادی طورپر اس موضوع کے اثبات پر اصرار کرنے والاداعی کون ہے ؟اگر ایک شخص
عادل خطاونسيان سے محفوظ،پيغمبر ہو تواس کا فاسد کيا ہے ؟
جواب:نبوت عامہ کو ثبت کرنے والی عقلی دليل کے مطابق ،وحی آسمانی کے ذریعہ
بشر کی ہدایت خلقت تکوینی کا جزو ہے ،اورتکوین ميں خطا اور تخلف معقول نہيں ہے تاکہ
وحی کے مضامين کے نتائج جو مصدر وحی سے صاد ہوتے ہيں ،ہو بہو لوگوں تک پہنچ جائيں
،یعنی نبی وحی کے قبول کر نے ،اس کے ضبط و تحفّظ اوراسے لوگوں تک پہنچانے ميں کسی
قسم کی خطا وخيانت نہيں کرنی چاہئے ،اس کی بات محفوظ ہونی چاہئے اور اس کا فعل بهی
ہر قسم کے تخلف و معصيت سے پاک ہونا چاہئے ،کيو نکہ اس کا فعل تبليغ کے مصادیق ميں
سے ہوتا ہے ،یعنی نبوت سے قبل اور بعد اس کا قول وفعل معصيت ،اعم از گناہان کبيرہ وصغيرہ
،سے منزّہ اور پاک ہو نا چاہئے ،کيونکہ یہ سب مراحل بيان احکام سے مربوط ہيں اور احکام سے
باہر کوئی معصيت نہيں ہے ۔اس بحث کے بہت سے ابعاد ہيں ،مزید وضاحت کے لئے “الميزان”
کی تيسری جلد یاکتاب “اسلام ميں شيعہ”یارسالہ “وحی وشعورمرموز” کی طرف رجوع کریں ۔

تشہد ميں (ارفع درجتہ)کا مقصود

سوال: فلسفيوں کی تعریف کے مطابق انسان کامل وہ ہے جس کے لئے“کل ما یمکن لہ
بالامکان العالم”فعلی ہوچکاہو گا اورہر ایک کے اتفاق کے مطابق حضرت محمدصلی الله عليہ وآلہ
وسلم یا منحصر مصداق ہيں یا افراد انسان کامل ميں سے ہيں ،اس صورت ميں تشہد ميں
پڑهی جانی والی دعا“ارفع درجتہ” یا یہ کہ “بلنددرجہ پر پہنچا ہے ”کا سبب کيا ہے ؟
جواب: مذکورہ دعااوراسی طرح صلوات اس عطيہ کا سوال ہے جوخدائے متعال کی طرف
سے قطعی طور پر ملنے والا ہے اور حقيقت ميں خدائے تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنے
رسول اور حبيب پر کی گئی عنایت کے سلسلہ ميں راضی ہونے اور دلی خوشحالی کا اظہار
ہے ۔

گز شتہ سوالات کے مجدد جواب
ا لسلام عليکم ورحمة الله وبرکاتہ
ا پ کا دوسراخط ملا۔یاد آوری کے لئے بہت بہت شکریہ ۔ارسال کئے گئے جوابات کے
بارے ميں فرمایاہے کہ وہ نامکمل ہيں ،لگتا ہے جواب کے متن پر دقت سے غور نہيں کيا گيا ہے:
١۔آپ نے لکها ہے :“مجّردات کا ثبوت گمراہ جوانوں کے لئے چاہتے ہيں جو خدا کے منکر
ہيں اور ماورائے طبيعت کے قائل نہيں ہيں اور خط ميں جو دليل ذکر کی گئی ہے وہ وجود خدا
کی فرعی دليل ہے اور کارآمد نہيں ہے ۔“
ی ہ مسئلہ ،ایک فلسفی مسئلہ ہے اور مختلف طریقوں سے ثابت ہوا ہے اور جو کچه خط
ميں ذ کر کيا گيا تها یہ ہے کہ صورت علميہ کے تجرّدکو اس راہ سے کہ عمومی مادہ کی
خصوصتيں(تغير،زمان اور مکان )نہيں رکهتا ہے ثابت کریں اور اس کے بعد انسانی نفس کے
تجرّدکو اس راہ سے کہ بدون تغيّرانسان کے لئے مشہود ہے اور یہ کہ علميہ صورت اس سے
قائم ہے ،ثابت کریں اور اس کے بعدنفس مجرّدہ کی علّت فاعلی کے تجرّدکو اس راہ سے ثابت
کریں کہ علت کو وجود کی حالت ميں قوی طورپر معلول سے ہو نا چاہئے اور اضعف امر مادی
وجوداًمجرّد ہے ۔
مذکورہ برہان ایک مکمل برہان ہے اور واجب الوجود کو ثابت کر نے ميں کسی قسم کی
کمی نہيں رکهتا ہے ،چونکہ مقصد یہ ہے یہ مسئلہ ناواقف افراد کو سمجهایا جائے ،اس لئے
اس کا بيان کسی حدتک سادہ اور عام فہم ہو نا چاہئے ۔
٢۔آپ نے لکهاہے :“خط ميں ،ختم نبوت کے بارے ميں ذکر کيا گيا عقلی برہان اچها ہے
،ليکن مذکورہ ذکر کی گئی قرآنی آیات دلالت نہيں کرتی ہيں شریعت ناسخ “یاتيہ الحق من
خلفہ”ہے نہ“یاتيہ الباطل”۔
ب اطل کا مطلب ایک قرآنی حکم ہے کہ جو ناسخ شریعت کے ذریعہ منسوخ اور باطل ہو تا
ہے اور نتيجہ کے طورپر ایک باطل حکم قرآن مجيد ميں داخل ہوتا ہے نہ ناسخ شریعت جوبالفرض
حق ہوگی نہ باطل ۔
٣۔آپ نے لکهاہے :“تشریع”کامطلب ،معصيت و خطا کے بغيرحکم پہنچانا ہے اور یہ امر
مبلغ کی عدالت سے بهی انجام پاتا ہے ،اور عصمت کی ضرورت نہيں ہے اور جوکچه تکوینی ہے
اصل شریعت کو جعل کرنا اور تبليغ ہے نہ اس کے جزئيات اور رات کے وقت پيغمبر کی اپنے عيال
کے ساته یک مخفيانہ غيبت ہر گز جزء تکوینی اور احکام کی تبليغ نہيں ہے ۔
ت کوین کا مطلب مر حلہ ایجاد اور وجود خارجی ہے ۔اگر خارج ميں موجودانسان خدائے
متعا ل کے اردائہ تکوینی سے متعلق ہو ،توضروری طور پر اس کے وجودی آثار،اس کا وجودی
مقصد اور مقصد کی طرف اس کا راستہ سب کے سب تکوینی ہوںگے ،پهر یہ کہنا معقول نہيں
ہے کہ اصل خلقت تکوینی ہے اوراصل شریعت تکوینی ہے ،ليکن حکم پہنچنے کے مصادیق اور
اس کی تبليغ وضعی اورقراردادی اور غير تکوینی ہيں اس کے مانند کہ کہا جائے اصل تغذیہ
انسان کے لئے تکوینی طورپر مقدر ہوا ہے ،ليکن تغذیہ کے مصادیق اورغذا سب وہمی اور خيالی
ہيں ۔یایہ کہا جائے کہ مبلغ کا قول و فعل اور تبليغ اصل ہے ،ليکن اس کے مصادیق تبليغ نہيں
ہيں اور ممکن ہے مبلغ تمام ان احکام ميں خلاف ورزی کر کے گناہان کبيرہ وصغيرہ کا مر تکب ہو
جائے جن کے بارے ميں اسے تبليغ کرنی چاہئے ،کيو نکہ عدالت،معصيت انجام پانے کو محال
نہيں بناتی ۔
ا وریہ جو آپ نے خط ميں لکها ہے :“پيغمبر کی اپنے عيال کے ساته شبانہ غيبت تبليغ
نہيں ہے،مضر بهی نہيں ہے ۔ ”بہت عجيب ہے!کيا پيغمبر کی بيوی پيغمبر کی امت کا جزو نہيں
ہے اور اسے تبليغ کی ضرورت نہيں ہے یا پيغمبر کی بيوی اور دوسرے لوگوں ميں کوئی فرق ہے
؟یا یہ کہ اگر بڑی معصيت کا مخفيانہ ارتکاب ایک یا دوافراد سے انجام پائے تو تبليغ کی ضرورت
نہيں ہے اور اگر علنی انجام پائے تو تبليغ ہے ؟مختصریہ کہ نبی ميں عصمت کے بجائے عدالت
کا اعتبار لازم وملزوم ہے ۔قولاًاورفعلاًنبی سے کبيرہ وصغيرہ معصيت کا انجام پانا جائز ہو نے کی
صورت ميں تمام احکام ميں خلاف ورزی جائز ہو گی اور یہ مطلب تکوین کی بنياد سے اختلاف
رکهتا ہے ۔
۴۔آپ نے لکها ہے :تشہد ميں “ارفع درجتہ”کا لفظ واضح طور پر دعااور ارتقاء کے خلاف
ہے۔
خدائے متعال نے کمال امکان کا آخری درجہ رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کو
عطا کر کے ا سے ختم فرمایا ہے ،اس کے باوجود اس کی لامتنا ہی قدرت محدود نہيں ہوئی ہے
اور اگر وہ چاہے تو عطا کی ہوئی چيز کو واپس بهی لے سکتا ہے ۔
> قل فمن یملک من اللّہ شيئاً ان اراد ان یهلک المسيح ابن مریم وامّہ ومَن في الارض
( جميعا< (مائدہ / ١٧
”پيغمبر!آپ ان سے کہئے کہ پهر خدا کے مقابلہ ميں کون کسی امر کا صاحب اختيار ہو گا اگر
وہ مسيح ابن مر یم اور ان کی ماں اورسارے اہل زمين کو مار ڈالنا چاہے“
ا س بناء پر، ،دعا فيض کو جاری ر کهنے کے لئے ہے اور حتمی امر کے پهيلاؤکے لئے
دعاکرنا مناسب ہے اور دعا واضح طور پر عيب اور کوتاہی ميں ہے ليکن ہماری بحث ميں عيب
وہی ذاتی امکان فقر وحاجت ہے نہ بالفعل عيب ۔
۵۔ولایت کی شہادت “علی ولي الٰلّہ ”ميں لفظی اضافہ نہيں ہے اور اس کا یہ معنی ہے
کہ وہ ایک ایسا ولی ہے کہ خدا نے اسے ولی قراردیا ہے ۔

يونانی فلسفہ کے ترجمہ کا مقصد
سوال:کيا یونانی فلسفہ “الٰهيات”جو نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی بعثت کی
چند صدیاں گزرنے کے بعد یونانی کتا بوں کے عربی ميں ترجمہ کئے جانے کے نتيجہ ميں
مسلمانوں کے معاشرہ ميں داخل ہوا ،صرف اس لئے تها کہ مسلمان بيرونی ممالک کے علوم
سے آشنا ہو جائيں یایہ کہ لوگوں کو اہل بيت رسولٌکی طرف رجوع کرنے سے روکنے کا ایک
بہانہ تها ؟
جواب:دوسری اورتيسری صدی ہجری ميں نہ صرف یونانی الٰہيات کا عربی ميں تر جمہ
ہوا ہے بلکہ بہت سے علوم ،جيسے :منطق، علوم طبيعی ،علوم ریاضی اور طب وغيرہ بهی
یونانی ،سر یانی اور دوسری زبانوں سے عربی ميں ترجمہ ہوئے ہيں ،لہذا جبکہ پہلی صدی
ہجری ميں خلفائے وقت کے حکم سے قرآن مجيد کے لکهے جانے کے علاوہ ہر چيز،حتی حدیث
اورتفسير لکهنے پر بهی زبردست ممانعت تهی ،تاریخ شاہد ہے کہ،بہت سی کتابيں (اطلاع کے
مطابق تقریباًدوسو کتابيں )ا س وقت کی دنيا ميں مختلف علوم کے بارے ميں رائج تهيں ،تر
جمہ ہوئی ہيں ۔ظاہراً یہ کام ملت اسلاميہ کی بنيادوں کو مستحکم بنانے اور دینی مقاصد کو
عملی صورت دینے کی غرض سے انجام پایا ہے ،چنانچہ قرآن مجيد خلقت کے تمام
ابعاد،آسمانی اورزمينی مخلوقات اور انسان و حيوان کے بارے ميں تعقل وتفکرکرنے کی تاکيد
کرتا ہے اور اس کے مطابق مسلمانوں کو مختلف علوم کے بارے ميں معلومات حاصل کرنی
چاہئے ۔
ا سی دوران ،وقت کی حکومتيں ائمہ هدیٰ کو - جن سے وہ دوری اختيارکر چکے تهے -
ہر طریقے سے سر کوب کرنے اور لوگوں کو ان کے علوم سے استفادہ نہ کرنے اور ان کی طرف
رجوع کرنے سے روکنے کے لئے کوئی کسر باقی نہ رکهی ہے اس کے پيش نظر کہا جاسکتا
ہے کہ الٰہيات کا ترجمہ اہل بيت عليہم السلام کے گهر کو بند کر نے کے لئے انجام دیا گيا تها ۔
ل يکن کيا وقت کی حکومتوں کے الٰہيات کے ترجمہ اور ترویج سے نا جائز فائدہ اڻهانے کا
یہ مقصود،ہميں ان بحثوں سے بے نياز کر کے اس امر کا سبب بن سکتا ہے کہ ہم اس کام سے
پرہيز کریں ؟
خودالٰہيات ،محض عقلی بحثوں کا ایک مجمو عہ ہے جن کا نتيجہ صانع ،اس کا واجب
الوجود ،وحدانيت اور اس کے دیگر صفات کمال کو ثابت کرنا اور نبوت ومعادسے اس کے وجود
کی ضرورت کو ثابت کرنا ہے ۔اور یہ ایسے مسائل ہيں جو “اصول دین ” کے نام پر ابتدا ء ميں
عقل کی راہ سے ثابت ہونے چاہئيں جب تک کتاب وسنت کی تفصيلی دليل حاصل ہو جائے
،ورنہ کتاب وسنت کی حجت کا کتاب وسنت سے ہی استدلال کرنا گردشی اور باطل ہے ۔حتی
جو مسائل اصول دین کے بارے ميں ،جيسے وجود خدا ،وحدانيت اور اس کی ربوبيت کے
سلسلہ ميں کتاب وسنت ميں بيان ہوئے ہيں ،ان سب کاعقل سے استدلال کياگيا ہے ۔

يونانی فلسفہ سے اسلامی معارف کی بے نيازی
سوال: کيا یونانی فلسفہ (الٰہيات)جو کچه اپنے ہمراہ لایا ہے ،اسلام کے متن
اورمعصومين عليہم السلام کی فرمائشات ميں موجودہے یانہيں ؟چنانچہ اگر وہ مطالب
موجودہيں توفلسفہ کی کيا ضرورت ہے اور اگر موجود نہيں ہيں تو معلوم ہواکہ یونانی فلسفہ
معارف اسلامی کے مکمل ہونے کا سبب بناہے ؟!
جواب:دینی بيانات اور کتاب وسنت کے مشتملات ميں تمام ا عتقادی و عملی معارف
اجمالاًیا تفصيلاًموجود ہيں ،ليکن اس کے پيش نظر کہ دین کے مخاطب دنيا کے تمام لوگ
،مشمول عالم وجاہل ،ذہين اور کندذہن ،شہری اور دیہاتی اور مردو زن ہيں اس لئے دین ایک
ایسی زبان سے گفتگو کرتا ہے تاکہ ہر ذہن -ان کے درميان موجوداختلاف کے باوجود -اپنی
ظرفيت کے مطابق اس سے استفادہ کرسکے ۔اس صورت ميں کوئی شک وشبہ نہيں ہے کہ
اگر ہم چاہيں تو ان ہی معارف کے بارے ميں بلند سطح ميں بحث کر کے ،ان کے عالی افہام
سے مخصوص مطالب کو حاصل کر کے انهيں استخراج کر سکتے ہيں اور مطالب کو تر تيب دینے
اور مسائل کو منظم کر کے اصطلاحات کے ایک سلسلہ کو وضع کر نے کے علاوہ کوئی چارہ اور
گریز نہيں ہے ۔
ل ہذاکتاب وسنت کے متن ميں الٰہيات کے مسائل اور معارف کا موجودہو نا، ان مسائل کے
بارے ميں عالی سطح پر ایک خاص علم کو وضع کر نے سے بے نياز نہيں بن سکتا ہے ،کيونکہ
دوسرے علوم ميں بهی یہی حالت ہے ،مثلاًعلم کلام ایک ایسا علم ہے کہ اس کے مسائل
کتاب وسنت ميں موجود ہيں ،جبکہ مستقل طور پر اور الگ سے بهی منظم کئے گئے ہيں اور ان
مسائل کا کتاب وسنت ميں موجود ہونا انهيں الگ سے منظم کئے جانے سے بے نياز نہيں کرتا۔
ا وریہ کہ سوال ميں کہا گيا ہے :“اگر الٰہيات کے بعض مسائل کتاب وسنت کے متن ميں
موجود نہ ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفہ معارف اسلامی کو مکمل کرتا ہے !”یعنی
اسلام ناقص ہے اور اس کے نواقص کو فلسفہ دور کرتا ہے ،یہ ایک اشتباہ ہے ،اس دليل سے کہ
ہم اسلام کے حقيقی معارف ميں سے حتی ایک مسئلہ کو بهی منطق کی مدد کے بغير ثابت
نہيں کرسکتے ہيں ،جب کہ کتاب وسنت کے متن ميں منطقی مسائل ذکر نہيں ہوئے ہيں اور
اسی طرح دین کے فرعی مسائل (احکام) ميں سے حتی ایک مسئلہ کو بهی علم اصول سے
استفادہ کئے بغير استنباط نہيں کرسکتے ہيں ،جبکہ کتاب وسنت کے متن ميں اس وسيع علم
کا کہيں نام ونشان تک نہيں ہے ،معارف اسلامی کے سلسلہ ميں منطق اور فقہی مسائل کے
بارے ميں علم اصول کاطریقہ ہے اور طریقہ ،مکمل اورتکميل ميں فرق ہے ۔

عصر ملاصدرا ميں فلسفہ کا عروج
سوال:صدیوں بعد شيعوں کی پائدار کوششوں کے نتيجہ ميں فلسفہ(ملاصدراشيرازی
کے زمانہ ميں)عروج تک پہنچا ،کيا جوکچه مرحوم ملاصدرا نے اپنی کتاب “اسفار”ميں لکها ہے
،اسے آیات وروایات کے متون سے ثابت کيا جا سکتا ہے یایہ کہ آیات وروایات کو صرف اس پر
منطبق کيا جاسکتا ہے ؟
جواب :یہ جو ہم کہتے ہيں :فلسفہ اپنے عروج تک پہنچا ہے ،اس کا یہ معنی ہے کہ حا
ليہ فلسفی مباحث گزشتہ بحثوں کے مقابلہ ميں حقيقت کے معارف کے مناسب ایک عالی
سطح پرقرار پائے ہيں ،نہ یہ کہ فلسفی کتابوں کے مضامين جيسے “اسفار”“منظومہ__________” وغيرہ
حقيقی متن ،وحی منزل اور ہر خطا اور اشتباہ سے پاک ہوں ،ایسا نہيں ہے بلکہ مذکورہ کتابيں
چونکہ صحيح ہيں ممکن ہے ان ميں غلطی بهی ہو ۔بہر حال محقّق برہان ہے نہ صاحبان سخن
کی شخصيت۔

قرآن مجيد اور کلام معصومين (ع) سے حکماء اور فلاسفہ کے بيان کا رابطہ
سوال: اگرفلسفہ،(الٰہيات)کا آیات اورر وایات سے تعبير ميں اختلاف کے علاوہ کوئی فرق
نہيں ہے تو پروردگاراورائمہ اطہارعليہم السلام نے جو کچه تعبير کے طور پرفرمایا ہے وہ کامل و
اکمل ہے ،پهرحکماء اورفلا سفہ کی تعبيرات کی کياضرورت ہے؟
جواب:اگرہم یہ کہيں کہ فلسفہ اورآیات وروایات ميں تعبير ميں اختلاف کے علاوہ کوئی
فرق نہيں ہے ،تومطلب (جيسا کہ دوسرے سوال کے جواب ميں کہا گيا )یہ ہے کہ کتاب وسنت
ميں پائے جانے والے حقيقی معارف فنّی اور علمی اصطلاحات کی زبان ميں عقلی بحثوں کے
نتيجہ ميں حاصل ہوتے ہيں اور ان دومرحلوں کے درميان فرق وہی عمومی اور سادہ زبان اور فنّی
اور خصوصی زبان کا فرق ہے ،نہ یہ کہ دینی بيانات فصيح وبليغ ترہيں ۔

فلاسفہ کی مذمت ميں موجودہ روایتوں کی توجيہ
سوال: جو روایتيں اہل فلسفہ کی مذمت ميں خاص کر آخرالزمان کے دورہ کے بارے ميں
بيان ہوئی ہيں ،چنانچہ احادیث کی کتابوں،جيسے “بحارالانوار”،اور“حدیقة الشيعہ” ميں لکهاگيا
ہے ،کن لوگوں کے بارے ميں ہيں اور ان روایتوں کا مقصودکيا ہے؟
جواب:دو تين روایتيں جو بعض کتابوں ميں آخری الزمان ميں اہل فلسفہ کی مذ مت ميں نقل
ہوئی ہيں،صحيح ہو نے کی صورت ميں اہل فلسفہ کی مذمت ميں ہيں نہ خودفلسفہ کی مذمت
ميں ۔چنانچہ بعض روایتيں آخر الزمان کے فقہا کی مذمت ميں بهی نقل ہوئی ہيں وہ فقہا کی
مذمت ميں ہيں نہ فقہ اسلامی کی مذمت ميں ۔اسی طرح بعض روایتيں آخر الزمان کے اہل
اسلام اور اہل قرآن کی مذمت ميں نقل ہوئی ہيں:
”لایبقیٰ من الاسلام الا اسمہ ولا من القرآن الا اسمہ” ١
ی ہ روایت خود اسلام اور قرآن کی مذمت ميں نہيں ہے ۔
ا گر یہ روایتيں خبر واحدظنّی ہو تيں تو خود فلسفہ کے بارے ميں ہو تيں ،اور فلسفی
مسائل (جيسا کہ دوسرے سوال کے جواب ميں بيان ہوا)مضمون کے لحاظ سے وہی مسائل
ہيں جو کتاب وسنت ميں درج ہيں ،یہ مذمت بالکل کتاب وسنت کی مذمت کے مانند تهی ،اس
لئے ان مسا ئل کو جبری طور پرتسليم کئے بغير آزاد استدلال ميں شامل کياگيا ہے ۔اصولاً
کيسے ممکن ہے کہ ایک خبر ظنّی ایک قطعی و یقينی بر ہان کے مقا بلہ ميں آکر اسے باطل
کرے ؟!

تہذيب اخلاق کا شيوہ
منين عليہ السلام کے زمانہ ميں اجتماعی ردعمل کی بنا پر حضرت کے ◌ سوال:اميرلمو
شيعہ دوگرہوں ميں تقسيم ہوئے ہيں:
پ ہلاگروہ ،وہ لوگ ہيں جواجتماعی شور وغوغا اور کشمکشوں سے دور رہ کرصرف اپنی
اصلاح اور تہذیب نفس ميں لگ گئے (اویس قرنی اور کميل وغيرہ کے مانند)یہاں تک حضرت کے
رکاب ميں شہيد ہوئے یاکسی دوسرے کے ہاتهوں قتل ہوئے اور بالآخراس دنيا سے رخصت ہوئے
۔
دوسراگروہ،وہ لوگ تهے جو پہلے گروہ کے بر خلاف ،اجتماعی پکڑ دهکڑ اور کشمکشوں
ميں داخل ہوئے اور ہر جگہ سر گرم تهے،جيسے: مالک اشتر وغيرہ۔
٣۶ ،ترجمہ :اسلام کے نام کے بغيراور قرآن کے نام کے بغيرکچه باقی نہ بچے گ ا / ١۔بحارالانوار ٣٨۴
حاليہ صدیوں کے دوران بهی یہ دو گروہ موجود تهے ۔پہلے گروہ سے مرحوم حاج ملا
حسين علی ہمدانی اور اس کے خاص شاگرد وں اور دوسرے گروہ سے مرحوم آقاشيخ
محمدحسين کاشف الغطا اور سيد شرف الدین جبلی عاملی کے نام لئے جا سکتے ہيں ۔
ا ب سوال یہ ہے کہ کيا تہذیب اخلاق معاشرہ کے اندر ممکن ہے یااس کے لئے گوشہ
نشينی اور تنہائی اختيار کرنا ضروری ہے ؟ان دو روشوں ميں سے کس روش کی اسلام اور اس
کے پيشوا تائيد کرتے ہيں اور اسلام کے بلند مقاصد کی ترقی کے لئے موثرہے؟
جواب:جو کچه کتاب وسنت سے حاصل ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلام مکمل خداشناسی
اور مخلصانہ بندگی چاہتا ہے ،اس طرح کہ انسان خدائے متعال کے علاوہ کسی سے تعلق نہ
رکهتا ہو۔اس کمال اور ارتقاء سے جو کچه ممکن ہے وہ مطلوب ہے ،کم ہو یا زیاد:
( >اتّقوّااللّہ حق تقاتہ< (آل عمران / ١٠٢
” اس طرح ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے“
ا ور:
( >ففرّوا الی اللّٰہ اني لکم منہ نذیر مبين < (ذاریات/ ۵٠
”لہذااب خدا کی طرف دوڑ پڑو کہ ميں کهلا ہوا ڈرا نے والا ہوں ۔“
ا سلام ایک اجتماعی دین ہے جس نے رہبانيت اور گوشہ نشينی کو منسوخ کردیا ہے جو
لوگ تہذیب نفس ،ایمان کی تکميل اور خداشناسی ميں مشغول ہيں ،انهيں کمال کو اجتماع
کے متن ميں دوسروں کی مشارکت سے حاصل کرنا چاہئے ۔ائمہ هدی عليہم السلام کی تر
بيت یافتہ لوگ بهی صدر اسلام ميں اسی رویہ پر کار بند تهے ۔سلمانۺ ،جو ایمان کے دسویں
درجہ پر فائز تهے ،مدائن ميں حکومت کرتے تهے اور اویس قر نی ،جو کمال وتقویٰ کی ضرب
المثل بن چکے تهے ،نے جنگ صفين ميں شرکت کی اور اميرالمومنين کے رکاب ميں شہيد
ہوئے۔

خلقت عالم کی کيفيت
سوال:چونکہ خدائے متعال کا وجودلامحدود ہے اور عالم محدود کو خلق کر نے سے پہلے
ہر جگہ موجود تها ،پس کائنات کو کيسے پيدا کيا ؟کيا اپنے وجود کے اندر کہ نا ممکن ہے؟اور اگر
اپنے وجوداقدس سے باہر تها تو اس صورت ميں لازم ہوتا ہے کہ خود اس کائنات کے ساته نہ ہو
یا یہ کہ خود - نعوذ بالله - ععين مخلو قات ہے ، یہ وہی فاسد عقيدہ (وحدت وجود)ہے ،پس
خدائے متعال نے کائنات کو کيسے پيدا کيا تا کہ اس کے مقدس وجود کے ساته تضاد نہ ہو ؟
جواب :بنيادی طور پر سوال کو غلط صورت ميں پيش کياگيا ہے ۔مثلاً سوال کے مقدمہ
ميں کہا گيا ہے :“خدائے متعا ل کا وجود لامحدود ہے اور ہر جگہ پر تها ”،جبکہ سب سے
پہلے:خلق کر نے سے پہلے نہ“جگہ”کا کوئی معنی ہے اور نہ “ہر جگہ” کا دوسرے یہ کہ خدا کا
ہر جگہ پر ہو نا ،اس کے وجودکے لامحدودہو نے سے ماخوذ ہوا ہے ،یعنی خداکا وجودایک
لامتناہی جسم فرض کياگيا ہے جو مطلق مکان ميں پهيل گيا ہے اور دوسروں کے لئے کوئی
جگہ باقی نہيں رکهی ہے ،جبکہ خدائے متعال کا وجود مادّہ ،جسم اور حجم سے منّزہ و پاک
ہے ۔
ل ہذا ،اس کے لئے نہ کسی مکان کا فرض کيا جاسکتا ہے اور نہ زمان کا ۔اس کاوجود
داخل اور خارج سے بهی منّزہ ہے نہ کسی چيز ميں داخل ہو تا ہے اور نہ کسی چيز سے
خارج ،کيونکہ یہ سب چيزیں جسمانی عوارض سے مر بوط ہيں اس لحاظ سے مخلو قات نہ خدا
کے داخل اور نہ خارج ہيں اور نہ خدا عين مخلوقات ہے ،کيونکہ وہ پروردگار ہے اورمخلوقات اس
کی پيدا کی گئی ہيں اور پروردگارغير از مخلوق ہے اور خدا کے وجود کا لامحددودہونے کا معنی
یہ ہے کہ وہ کسی بهی قيد وشرط کے بغير اور ہر فرض وقدرت ميں موجودہے ۔خد ا کا مخلوق
کے ساته ہو نے کا معنی اس کے علم ،قدرت اور مشيت کا مخلوق پر احاطہ ہے ،نہ قرب
مکانی

نبوت پرامامت کی برتری کا معيار
سوال: مقام امامت کو رسالت اور نبوت پر کيا فضيلت حاصل ہے کہ الله تعالیٰ حضرت
ابرهيم عليہ السلام پر منت رکهتا ہے کہ امتحان کے ختم ہونے پر انهيں امام قرار دیا؟اور اگر مقام
امامت نبوت سے برتر ہے تو حضرت علی بن ابيطالب عليہ السلام ،مسلمانوں کے اتفاق نظر کے
مطابق کيسے مفضول اور حضرت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم فاضل ہيں؟مختصر یہ کہ
“امامت”کی “نبوت”پر برتری کو بيان فرمایئے؟
( جواب:خدائے متعال نے یہ جملہ :<اني جاعلک للناس امام> (بقرہ / ١٢۴
”ہم تم کو لوگوں کاامام اور قائد بنا رہے ہيں“
ا س وقت حضرت ابراهيم عليہ السلام کو فرمایا جبکہ وہ مسلّم نبی ، رسول اور اولوالعزم
نبيوں ميں سے صاحب شریعت ا ورصاحب کتاب تهے مزید قدرتی طور پر نبوّت ورسالت کے ہمراہ
ہدایت و دعوت کی ذمہ داری بهی رکهتے تهے اور خدائے متعال نے چند جگہوں پر اپنے کلام
( ميں امام کی توصيف ميں فرمایا:<ائمة یهدون باٴمرن>(انبياء / ٧٣
”پيشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہيں“
ا ور ہدایت کی صفت کو “امام”کا معرّف قرار دیاہے ۔
ی ہاں پر معلوم ہوتاہے کہ امام کی ہدایت،نبی کی ہدایت کے علاوہ ہے اور مسلّم طور پر
نبی کی ہدایت دعوت اور تبليغ ہے اور ہدایت کی اصطلاح راستہ دکهانے اور راہنمائی کر نے کا
معنی ہے ۔اس لئے ہدایت کو امام ميں مطلوب تک پہنچانے کے معنی ميں لينا چاہئے۔پس
امام،چونکہ معارف اور احکام کو بيان کرنے کی ذمہ داری رکهتا ہے اور اعمال کو ادارہ کرنے کی
مسئوليت بهی رکهتا ہے ،اور اشخاص کی باطنی نشو ونما ،اعمال کو خدا کی طرف ہدایت کرنا
اور انهيں مقاصد تک پہنچانا بهی امام کا کام ہے ۔چنانچہ لوگوں کے اعمال امام کے سامنے پيش
کرنے،ہر شخص کے موت کے وقت امام کے پہنچنے،قيامت کے دن لوگوں کو اپنے امام کے ساته
بلانے،نامہ اعمال کی تقسيم اور حساب کا امام کی طر ف رجوع سے متعلق روایتيں اس مطلب
کی دلالت کرتی ہيں ۔
شيعوں کے عقيدہ کے مطابق،زمين کسی بهی وقت امام سے خالی نہيں ہوتی ہے اور
اس لحاظ سے ،پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم نبی اور رسول ہو نے کے علاوہ اپنے زمانہ
ميں امام بهی تهے اور نبوت،رسالت اور امامت کے نتيجہ ميں حضرت علی عليہ السلام سے
افضل ہيں ،چنانچہ امت کا اجماع و اتفاق بهی اسی کی دلالت کرتا ہے ۔


خدائے متعال،خالق موجودات
سوال: بعض لوگ کہتے ہيں :تمام موجودات اورہستی نے خدائے متعال سے سرچشمہ
ليا ہے ،لہذا کلی طور پرسب مخلو قات خدا کی وحدت وجودکے زمينہ ميں ہيں ،ليکن ہم ہستی
کو مختلف صورتوں ميں پاتے ہيں ،مثلاً بعض کو درخت،پتهرآدم وغيرہ کی صورت ميں دیکهتے
ہيں، اس مسئلہ کے بارے ميں آپ کا جواب کيا ہے ؟
جواب: جو برہان واستدلال کا ئنات کے لئے خدا کو ثابت کرتے ہيں ،وہ کائنات کو خدا کا
“فعل”اور خدا کو کائنات کا “فاعل”کے طور پرتعارف کراتے ہيں اور بدیہی ہے کہ فعل فاعل کے
علاوہ ہوناچاہئے اور اگرفعل عين فاعل ہو تو،شئے “فاعل”اپنے وجود“فعل”سے پہلے موجود ہونی
چاہے ،لہذاکائنات خد اکے علاوہ ہے اور اس بناء پر یہ جو کہا گيا ہے :“کلی طور پر سب چيزیں
خدا کی و حدت وجود کے زمينہ ميں ہيں ”غلط ہے


کيا مخلوقات،وہم وخيال ہيں ؟
سوال: بعض لوگ کہتے ہيں کہ جو کچه ہم دیکهتے اور تصور کرتے ہيں جيسے : پتهر،
درخت اور انسان،یہ سب وہم وگمان ہيں بلکہ خود ہماراوجودبهی ایک خيال ہے ،مہر بانی کر کے
اس سوال کا جواب بيان فرمائيے ۔
جواب:جو یہ کہتا ہے : جو کچه ہم دیکهتے یا تصور کرتے ہيں وہ وہم وخيال ہيں اگر وہ اس
بات کو سجيدگی کے ساته کہتا ہے ،تو اس کے بقول ،خود اس کی یہ بات کہ“سب چيزیں خيال
ہيں”وہم وخيال ہے اور اس کی کوئی قدر ومنزلت نہيں ہے اور اس کا کوئی نتيجہ نہيں نکلتا ہے ۔
جو لوگ ایسی باتيں کرتے ہيں انهيں سوفسطائی کہا جاتا ہے یہ لوگ یا تو نفسياتی
بيمار ہيں یابد نيتی کی بنا پر مغالطہ کرتے ہيں ورنہ جس انسان کی فکر صحيح وسالم ہو اور
بدنيتی بهی نہ رکهتا ہو اور کائنات کی خلقت کے بارے ميں حقيقت پسند ہو تو وہ حقيقت کا
قائل ہو گا ۔یہی کائنات کو وہم وخيال جاننے والے لوگ اپنے لئے اچهی زندگی کو تر تيب دے کر
بهوک کے وقت روڻی کے پيچهے دوڑتے ہيں اور پياس کے وقت پانی کی تلاش کرتے ہيں اور اس
وقت یہ نہيں کہتے ہيں کہ روڻی اور پانی وہم وخيال ہے ۔
سوال:فرض کریں اگر یہ سب خيال نہ ہو ،تو خدا ان سب کے اندر داخل ہوا ہے!
ا پ کا جواب کيا ہو گا؟
جواب:جس طرح پہلے سوا ل کے جواب ميں بتایا گيا ہے یہ بات بهی استدلال کے خلاف
ہے اور کوئی منطقی دليل نہيں رکهتی ہے ۔


ذات باری تعالےٰ کاکنہ کيا ہے ؟
سوال: بعض لوگ کہتے ہيں :ہم اس نتيجہ پر پہنچے ہيں کہ ذات خدا کی کنہ اوراصلی
خودہم ہيں اور یہ عبارت :“خدانے ہميں عدم سے وجودميں لایا ہے ” کوئی مفہوم و دليل نہيں
رکهتی ،اصلاًپوراوجودصرف وہی ہے اور اس کی دوسری کوئی صورت نہيں ہے اگر چہ ہم اشياء
کو ظاہری طور پر متنوّع اور متغيّردیکهتے ہيں ؟آپ کاجواب کيا ہے ؟
جواب: یہ بات بهی ایک بے دليل بات اور فاقد برہان دعویٰ ہے ۔ایسے لوگوں کا فہم جو
بهی ہو انہی کے لئے حجت ہے دوسروں کے لئے نہيں اور دليل کے بغيردعویٰ کی کوئی قيمت
واہميت نہيں ہے ۔


ہوالاوّل والآخر کے بارے ميں صوفيوں کانظريہ
سوال:صوفی کہتے ہيں :سورہ حدیدميں “هو الاول والآخر ” کا مقصودحضرت علی عليہ السلام
ہيں ،چنانچہ مر حوم علامہ مجلسی نے بهی بحارالانور کی آڻهویں جلد ميں ایسا ہی نقل کياہے
اور یہی زمينہ اشتباہات کو وسيع تر کرتا ہے ۔اس بنا پر اگر ہم مذکورہ دعویٰ کو جهڻلا دیں تو ہم
نے علامہ مجلسی کی بات کو ردکيا ہے، کيونکہ خداکی طرف پلڻنے والے ضمائر قرآن مجيد ميں
بہت ہيں ،مثلاً:
( >فهو یهدین >(شعراء/ ٧٨
( >فهویشفين>(شعراء/ ٨٠
( >وهو الّذی فيالسّماء الٰہ وفي الارض الٰہ وهو الحکيم العليم>(زخرف/ ۶۴
( >هوالعليّ الکبير>(حج/ ۶٢
( >الحيّ الّذی لایموت>(فرقان/ ۵٨
ا ور اس طرح کے ضمائر قرآن مجيد ميں بسيار ہيں ،ہم کيسے سمجه ليں گے کہ ان
ضمائر کا مرجع علی عليہ السلام نہيں ہوں گے جبکہ ان آیات کا سياق، ان ضمائر کے مر جع کو
خدا بتاتا ہے ۔
جواب:جو کچه روایت ميں آیا ہے یہ ہے کہ علی عليہ السلام اول وآخر ہيں اور ایک
دوسری روایت ميں نقل ہوا ہے کہ علی عليہ السلام کے اول وآخرہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ
پہلے شخص ہيں جو رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اورآخری شخص ہيں
جو رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے اور یہ وہ وقت تها جب آپ آنحضرت صلی
الله عليہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر کوقبر شریف ميں رکه کر باہر آئے ۔
سورہ حدید کے اول کے بارے ميں ظاہر سياق یہ بتاتا ہے کہ “ اوّل”سے مراد وہ ہے جس
کا وجودعدم سے مسبوق نہ ہو اور “آخر”سے مراد یہ ہے کہ جس کا وجودعدم سے ملحق نہ ہو
اور وہ خدائے متعال ہے ،جيسا کہ فرماتا ہے:
( >وانّ إلی ربّک المنتهیٰ>(نجم/ ۴٢
”اور بيشک سب کی آخری منزل پروردگارکی بارگاہ ہے“


ممکنات کی نسبت عليّت واجب
ا ستاد اکبر،ميزان المفسرین ،علامہ طباطبائی دام بقائ
عرض خدمت ہے کہ“ الميزان” کی پندرهویں جلد کے صفحہ نمبر ١۴٩ اور ١۵٠ پر “فلسفی
بحث”کے عنوان سے ،بعض مسائل بيان ہوئے ہيں جن کی وجہ سے حقير کے ذہن ميں مندرجہ
ذیل سوال پيدا ہوا:
سوال:واجب تعالیٰ کے “جزء العلة”ہونے کا معنی کيسے تصور کيا جاسکتا ہے جبکہ قرآن
مجيد فرماتا ہے:
( >ليس کمثلہ شی ء>(شوریٰ/ ١١
”اس کاجيسا کوئی نہيں ہے“
جواب:السلام عليکم ورحمتہ الله وبرکاتہ
”الميزان ”کی پندرهویں جلد طبع تہران کے صفحہ ١۴٩ اور ١۵٠ پر کی گئی فلسفی بحث
کے بارے ميں آپ کاخط ملا۔اس ميں واجب تعا لی کی عليّت کے ممکنات کے بارے ميں دو
مختلف نظریہ بيان کئے گئے ہيں کہ پہلے نظریہ کے مطابق ،واجب تعا لی علت تامہ کا جزاور
دوسرے نظریہ کے اقتضا کے مطابق علت تامہ قرار پایاہے ۔
ی ہ دو صورتيں آپس ميں متقا بل اور متنافی نہيں ہيںجس طرح عام طورپرتصور کيا جاتا ہے
بلکہ دوسری صورت پہلی صورت سے د قيق تراور مکمل تر ہے ۔
ا نسان ابتدائی نظریہ ميں ایک ضروری ادراک سے ،ممکنہ موجودات ميں کثرت اور
مغایرت کو درک کرتا ہے اور اس کے بعد اس کثرت کے آحاد ميں وجودی وابستگی کو درک کرتا
ہے جو عمومی عليّت ومعلو ليت کے قانون کی بنياد ہے اور اس کی وجہ سے ہر ممکن الوجود
موجود علّت کی ضرورت ہے اور اس کی علّت بهی اگر ممکن الوجودہو تو دوسری علّت چاہتا ہے
یہاںتک کہ ایک ایسی علّت تک پہنچے جو ذاتاًواجب الوجود ہو اور علّت سے بے نياز ہو ،بلکہ
تمام ممکن علتيں بلا واسطہ (مثل صدر اول)یا بالواسطہ (مثل باقی ممکنات ) اس کی معلول
ہيں، اگر چہ علّت قریب اور مباشر کے معنی ميں یہ علّت تامہ اور علّت فاعلی کا جزء بهی ہے ۔
ی ہ ہے پہلے اورابتدائی نظریہ کے لحاظ سے اور دوسرے نظریہ کے مطابق ممکنات ميں
حکم فرمااوساط علّيت اور توقف وجودی کی بناپر ،ممکنات کا پورا مجموعہ واحد ہوتا ہے جس
کی علت تامہ واجب تعالیٰ ہے اور ممکنات ميں سے ہر ایک کا ایجاد ان سب کی ایجاد ہے،
جيسے ، تفسير ميں اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔
ا لبتہ واضح ہے کہ دوسرا نظریہ پہلے نظریہ کی بنياد پر مستحکم ہے، کيونکہ پہلے نظریہ
کے باطل ہو نے کی صورت ميں قانون علت ومعلول کا باطل ہو نا لازم ہو گا اور نتيجہ کے طور پر
اثبات صانع کا طریقہ بالکل بند ہو گا ۔واجب تعالیٰ کو علت کا جزء شمار کرنا آئيہ کریمہ : <
ليس کمثلہ شی >کے منافی نہيں ہے ،کيونکہ علّت کی صداقت اورغير واجب تعالیٰ کاسبب،
جب فيض کے واسطہ سے اور واجب تعالیٰ کا جعل ہو تو،امکانی علل کو واجب کے مثل -جبکہ
اس کی علّيت ذاتی واستقلال کی صورت ميں ہو - نہيں بناتا ہے ۔چنانچہ سائر صفات کمال
مانند ،حیّ ،عالم ،قادر ،سميع،بصير وغيرہ کی صداقت غير واجب کی شرکت کی مستلزم نہيں
ہے ، کيو نکہ ممکن ميں موجودہ صفت کمالی جعل اوراضافہ واجب پر منحصر ہے اورمستقل
نہيں ہے ،اس کے بر خلاف واجب تعالیٰ اپنی صفات کمال ميں ذاتی طور پر مستقل اور دوسرے
سے بے نياز ہے ۔
ا سی طرح آیہ کریمہ :<هل من خالق غير الله >(فاطر/ ٣)کے منافی نہيں ہے اورآیہ
کریمہ ميں خالق سے مراد خالقيت سے مستقل خالق ہے جو خالقيت کی توصيف ميں دوسروں
کا محتاج نہ ہو ،کيونکہ قرآن مجيد کی آیتيں خدا کے علاوہ دوسرے خالقوں کو ثابت کرتی ہيں:
( >فتبارک اللّہ احسن الخالقين>(مؤمنون/ ١۴
( >واذتخلق من الطين کهيئتہ الطير بإذني فتنفخ فيها فتکون طيراًبإذني> ( ٣مائدہ/ہ ١١
اور اس سياق کے بارے ميں موجود دوسری آیات۔
ا س کے علاوہ قرآن مجيد بہت سی آیات ميں عمومی عليّت کے قانون کی تصدیق فرماتا
ہے ،جيسے:
( >وبدا خلق الانسٰن من طين ٠ثم جعل نسلہ من سلا لة من ما ء مهين > (سجدہ / ٧۔ ٨
”اور انسان کی خلقت کا آغاز مڻی سے کيا ہے ۔اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذليل پانی
سے قراردیا ہے ۔“
ا ور:
( >الّذی خلقکم من نفس واحدةٍ وخلق منها زوجها وبثّ منهما رجالا کثيراً ونساء>(نساء/ ١
”جس نے تم سب کو ایک نفس سے پيدا کيا ہے اور اس کا جو ڑا بهی اس کی جنس
سے پيد اکيا ہے اور پهر دونوں سے بکثرت مردوعورت دنيا ميں پهيلا دئے ہيں“
ی ہ تصدیق مادی ہے اور مطلقاًممکنات سے عليّت کی نفی اور واجب تعالیٰ سے اس کا
حصر اشاعرہ سے منسوب ہے کہ اس کے ثبوت کا کوئی راستہ نہيں ہے ۔
ا پ کی خدمت ميں سلام واخلاص کے ساته اپنے عرائض کو خاتمہ بخشتا ہوں ۔


عدم زمانی سے مسبوق مادہ کی پيدائش
سوال: مادہ کی ازليّت ذاتی اور ذاتی طورپر سابقہ ہونے کو کس دليل سے نفی کيا
جاسکتا ہے؟
جواب: ذاتی ازليّت اور ذاتی خدمت کی اصطلاح ایسی جگہ پر استعمال ہوتی ہے جہاں
شئے کی ذات عين ہستی وجود ہو اور ایسی چيز محال ہے کہ عدم اسے قبول کرے اور نتيجہ
کے طور پر شئے اپنے صفات اور حالات ميں کسی قسم کی تغير قبول نہيں کرے گی ،اور
بدیہی ہے کہ مادّہ ایسا نہيں ہے ۔ليکن ظاہراًسوال ميں ذاتی ازليّت اور ذاتی خدمت وہی زمانہ
کے لحاظ سے قدیم ہے اور سوال یہ ہے کہ کيا مادہ (ایڻم )اپنی پيدائش ميں مسبوق بہ عدم
زمانی ہے یا نہيں ؟
ا س سوال کا جواب مثبت ہے ،کيونکہ علوم مادی کے نظریہ کے مطابق، ایڻم انرژی ميں
تبدیل ہو نے اور بر عکس کی قابليت رکهتا ہے اور ہر ایڻم انرجی کے دبے ہوئے ذرّات کا ایک
مجموعہ ہے جو ایڻم کو تشکيل دیتے ہيں اور اسے وجود ميں لاتے ہيں اور قہراًایڻم مسبوق بہ
عدم ہو تا ہے اور اس صورت ميں ،ایڻم اور انرژی کے درميان ایک مشترک مادّہ فرض کيا جانا
چاہئے جس کی خاصيت صرف صورت وفعليّت کو قبول کرنا ہو گی اور اس بناء پر ،یہ نہيں کہا
جاسکتا ہے کہ :فعليّت کو انجام دینے والا (صورت فاعل اور فعليّت) فرض مادّہ ہے بلکہ یہ ایک
ماورائے مادہ امر ہے اورمادہ اس فعليت کے سایہ ميں ،فعليّت اورتحقق پاتا ہے ،لہذاہستی کا
مشہود عالم ،ایک ایسے فاعل کا فعل ہے جوازلی اورثابت ورائے عالم ہے اور وہ خدائے متعال
ہے ۔


ظلم کا وجود کيوں ہے ؟
سوال: سلام عليکم ،آپ کا خط ملا ،اميد رکهتا ہوں آپ اس علمی جدوجہد ميں کامياب
رہيں گے۔
ا پ نے مرقوم فرمایا تها:
” جس دنيا ميں ہم زندگی بسر کر رہے ہيں ،اس ميںچاروں طرف ظلم پهيلا ہوا ہے۔
انسان اور حيوان سے جس قدر ممکن ہو سکتا ہے مظلوم کو زدوکوب کرتے ہيں یا بعض افراد
ظالم کے بغير بهی مظلوم ہيں ،جيسے ایک بچے کا بيمار ہو نا ۔ہم ایک حيوا ن کو دیکهتے ہيں
کہ کسی گناہ کے بغير اپنے سے قوی تر حيوان کا شکار ہوا ہے اور اس کے ذریعہ بدترین صورت
ميں جان دیتا ہے ”۔
جواب : بحث ميں داخل ہونے سے پہلے تمہيد کے طور پر جاننا چاہئے کہ خلقت کی
بنياد عليّت ومعلوليّت پر ہے اور مادّی دنيا ایک ناقابل استثناصول کی بنا پر ادارہ ہوتا ہے نہ کہ
جذبات اور احساسات پر،مثلاًآگ کی خاصيت جلانا ہے خواہ کسی پيغمبر کادامن ہو یا کسی
ظالم کا لباس ۔درندہ حيوانات اور شکاری پرندے گوشت خوا ہيں جو اگر گوشت نہ کهائيں تومر
جائيں گے اور یہ حق انہيں تخليق سے ہی بدن کی ساخت اور بناوٹ کے مطابق دیا گيا ہے اور
اس سلسلہ ميں کسی قسم کی ذمہ درای نہيں رکهتے ،چنانچہ انسان بهی حيوانوں کے
گوشت سے تغذیہ ہوتا ہے اور نفسياتی طور پر کسی قسم کی مسئو ليت کا احساس نہيں
کرتا ہے ۔
مذکورہ بيان کے مطابق ،ظلم (دوسروں کے حق پر تجاوز کرنے یا قوا نين کے نفاذميں
امتياز بر تنے کے معنی ميں )انسانی معاشرہ سے باہر وجود نہيں رکهتا ہے اور جن ناخوشگوار
حوادث کا مشاہدہ ہو تا ہے انہيں ظلم نہيں کہنا چاہئے بلکہ یہ ایسے “ شرور”ہيں جو اپنی
پيدائش کی علّت کی نسبت “خير” ہوتے ہيں اور عمل کے موقع کی نسبت سے شراورعلّت
،اپنے وجودی اقتضا کے مطابق اپنی کارکردگی کا حق رکهتے ہيں ۔ایک چه مہينے کے بچہ کی
بيماری ظلم نہيں ہے بلکہ شر اور ایک محروميت ہے جو اسباب کی پيدائش کے نتيجہ ميں بيمار
ی کی صورت ميں پيدا ہوئی ہے، بلّی جو کتّے کے پنجوں ميں پهنس کر نا گوشگوار حالت سے
دوچار ہوتی ہے ،وہ شر ہے نہ کہ ظلم اور یہی بلّی چوہے کے بارے ميں یہی عمل انجام دیتی
ہے اور اسے جائز جانتی ہے ۔
جی ہاں !انسان اپنی زندگی کی فعاليت کو اپنی نفسانی خواہشات کے سایہ ميں
جذبات کی بناء پر اختياری طور پر انجام دیتا ہے ، اسی وجہ سے وہ اپنی زندگی ميں بے
شماراور گونا گوں نياز مندیاں رکهتا ہے اور تنہا زندگی بسر نہيں کرسکتا ،اس لئے وہ اجتماعی
زندگی بسرکرنے پرمجبور ہے اور فطری طور پر اپنے اجتماع کو استحکام بخشنے کے لئے اس
نے کچه واجب الاطاعت قوانين کو قبول کيا ہے ،جن کی رو سے معاشر ہ کے ہر فرد کے منافع
کا ،اجتماعی توازن کے مطابق، تحفظ کيا گيا ہے اور اس کے واجب الاطاعت حقوق ثبت کئے
گئے ہيں ،کہ قوانين کے مطابق ان کا تحفظ ضروری اور ان قوانين کی خلاف ورزی ممنوع ہے ۔ان
ہی وضعی اور قراردادی حقوق کی پائمالی کو ظلم کہا جاتا ہے اور اسے جرم شمار کيا گيا ہے
۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص ناحق طور پر کسی کے ثابت حق پر جارحيت کرکے اسے
پائمال کرے۔
ا س بيان سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے اجتماعی ماحول سے باہر ظلم کا کوئی
مصداق نہيں ہے اور بہر حال ظالم کو ظلم کر نے کا حق نہيں ہونا چاہئے ۔اس بناء پر تکوینی
علّتوں کے نا خوشگوار اثرات ،جنهيں خلقت نے مجہز کر کے حق دیا ہے ،شرّ ہيں نہ ظلم۔ اور
اسی طرح جب انسان ایک اہم تر حق کے لئے کسی غير اہم حق کو پائمال کرتا ہے وہ بهی شر
ہے نہ ظلم اور اسی طرح ظلم کے مقابلہ ميں ظالم سے لئے جا نے والا قصاص ظالم کے لئے
شرّ ہے نہ ظلم ۔
( >فمن اعتدی عليکم فاعتدوا عليہ بمثل مااعتدیٰ عليکم>(بقرہ/ ١٩۴
”لہذا جو تم پر زیادتی کرے تم بهی ویساہی برتاؤ کرو جيسی زیادتی اس نے کی ہے“
ا سی طرح خدا سے نسبت دی جانے والی مصيبتيں اور ناخوشگوار حوادث بهی ایسے
ہی ہيں ،ان کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔
ا پ نے لکهاتها :ایک صاحب کہتا تها :جب ایک چهوڻے حيوان کو ایک قوی اور بڑاحيوا ن
کهاتا ہے ،تو بڑا حيوان ارتقاء پيدا کرتا ہے (یعنی کمزور حيوان کا گوشت بڑے حيوان کا جزو بن کر
اسے مکمل تر کرتا ہے )بلی کا گوشت کتّے کا جزوبننا کونسا ارتقاء ہے ؟
ی ہ بيان ،نظری ہے فلسفی اورصحيح اوریہ نظریہ “حرکت جوہری” کے فروعات ميں سے
ہے ،ليکن چونکہ یہ مسئلہ فنّی اور وسيع ہے ،اس کو ایک یا دو خطوط ميں بيان کرنا ممکن نہيں
ہے ۔
ا پ نے مرقوم فرمایا تها :“کہتے ہيں تمام چيزوں کا مالک خدا ہے سب اسی کی ملکيت
ہے ،وہ خود جانتا ہے ،ميں بهی جانتا ہوں کہ وہ خودجانتا ہے ،ليکن مسئلہ یہ ہے کہ قرآن مجيد
واضح طور پر فرماتا ہے کہ خدا ہر گز ظلم نہيں کرتا ہے“
ا س مطلب کا صحيح بيان یہ ہے کہ عالم خلقت ميں جو کچه ہے اور فرض کيا جانے والاہر
کمال، پروردگار عالم کی مطلق ملکيت ہے ،جزئی سے لے کرکلی تک اس کا تحفہ اوربخشش
ہے ،اس کے بغير کہ کسی بهی مخلوق کا استحقاق کی راہ سے خدا پر کوئی حق ہو جو
اسے عطيہ وبخشش کے لئے مجبور کرے اور نہ کسی ایسی علت کے بارے ميں فرض
کياجاسکتا ہے جس نے خدائے متعال پر اثرڈال کر اسے کسی کام کو انجام دینے یاترک کرنے پر
مجبور کيا ہو اور جس حق کا بهی فرض کيا جائے اس کو جعل کرنے والا اور مالک خدا ہے ،اسی
طرح خدا کی طرف سے کسی بهی مخلوق کو پہنچنے والی ہر مصيبت اور ناخوشگواری خدا کا
حق ہے اور وہ مخلوق اس سلسلہ ميں خدا پرکوئی حق نہيں رکهتی:
( >ویفعل اللّٰہ مایشاء>(ابراهيم/ ٢٧
”اور وہ جو بهی چاہتا ہے انجام دیتا ہے ۔“
ل ہذا اصولی طور پر وہ امر ظلم نہيں ہو گا نہ یہ کہ وہ ظلم ہے اورخداسے ظلم قابل
مذمت نہيں ہے ۔منتہی یہ کہ خدا کی نعمت و عطيہ ایک ایسی رحمت ہے جسے خدانازل
فرماتا ہے اور عذاب ومصيبت،رحمت نازل نہ کرنا ہے جو امرعدمی ہے ،جيسا کہ فرماتا ہے:
( >مایفتح اللّٰہ من رحمة فلا ممسک لها وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ>(فاطر/ ٢
”الله انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کهول دے ،اس کا کوئی روکنے والا نہيں ہے اور جس
کو روک دے اس کا کوئی بهيجنے والا نہيں ہے۔“
ب عض اوقات انسان کا ظلم اس کی اولاد ميں منعکس ہو کر ظاہر ہو تاہے ،ليکن اس صورت
ميں بچہ کی مصيبت وہی اس کے باپ کا ظلم ہے نہ باپ کے ظلم کی سزا ۔ليکن قيامت کے دن
گرفتار ہوئے حيوانات کی پاداش کے بارے ميں قرآن مجيد کے مطابق حيوانات کے لئے بهی روز
محشر ہے:
>ومامن دابّة فی الاٴرض ولاطٰيریطير بجناحيہ إلّا امم امثالکم ما فرّطنا فی الکتٰاب من شیٍ ثم الی
( ربّهم یحشرون>(انعام/ ٣٨
”اورزمين ميں کوئی بهی رینگنے والا یادونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہيں ہے جو
اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکهتا ہو۔ہم نے کتا ب ميں کسی شے کے بارے ميں
کوئی کمی نہيں کی ہے اس کے بعد سب اپنے پروردگارکی بارگاہ ميں پيش ہوں گے۔“
ل يکن ان کے روز قيامت کے بارے ميں تفصيلات بيان نہيں ہوئے ہيں۔بعض روایتوں ميں ہے
کہ خدائے متعال قيامت کے دن سينگ رکهنے والے حيوانوں سے بغير سينگ والے حيوانوں کا
قصاص لے گا ۔کلی طورپرکتاب وسنت سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ کائنات اور اس ميں جاری نظام
ميں کوئی بهی واقعہ مصلحت کے بغير نہيں ہے خواہ ہم جانيں یا نہ جانيں ۔آپ نے لکهاتها
:ميرے عرائض اور ناراحتی کا خلاصہ یہ ہے ۔
١۔دنيا ميں ظلم ہے اور اکثر قصاص بهی نہيں ہو تا۔
٢۔کہيں قيامت کے دن بهی ایساہی نہ ہو اور ان(حيوانات) کے لئے،جو مظلوم واقع ہوتے
ہيں ،قيامت کے دن کوئی جزا نہ ہو ۔ظلم کيوں ہوتا ہے ،جبکہ اول سے ہی ظلم ایک غلط کام
ہے؟
ل يکن آپ نے جو یہ فرمایا ہے : “اکثرظلم ميں قصاص نہيں ہوتا ہے ”حقيقت ميں اکثر جس
کو آپ نے ظلم کہا ہے ،وہ شر ہے نہ ظلم اور قصاص ظلم ميں ہو تا ہے نہ مطلق شر ميں ۔شرور
کے بارے ميں کوئی مصلحت اور حکمت ہے ۔نظام خلقت کے بارے ميں عموماًیاخصوصاً اور جن
مواقع ميں واقعاً ظلم ہو تا ہے اور کوئی حق پائمال ہو تا ہے اگر اس کا دنيا ميں قصاص ہوا تو بہتر
اور اگر دنيا ميں قصاص نہ ہوا توخد اکے واضح وعدوں کے مطابق آخرت ميں ضرور ہو گا :
( >ان اللّہ لا یخلف الميعاد>(رعد/ ٣١
”بيشک الله اپنے وعدہ کے خلاف نہيں کرتا ہے ۔“
ل يکن یہ کہ مظلوم حيوانات کے لئے قيا مت کے دن جزا ہے یا نہيں ؟خدائے متعال نے
آخرت کا <یوم الّدین>(حمد/ ۴) روز جزا نام رکهاہے اور حيوانات کے روز محشرکے بارے ميں واضح
طور پر ذکر فرمایا ہے اس کا ضروری پاداش ہو گا ،ليکن یہ کيسے انجام پائے گا ہمارے لئے بيان
نہيں فرمایا ہے ،اسی قدرفرمایا ہے:-
( >لاظلم اليوم> (غافر/ ١٧
”آج کسی طرح کاظلم نہ ہو سکے گا ۔“


انسان کی شخصيت اور قيامت کادن
سوال:سائنس کے مطابق اس ميں کوئی شک نہيں ہے کہ مرنے اوردفن ہو نے کے بعد
انسان کا بدن بعض عوامل کے تحت نائڻریٹ اور نائڻروجن ميں تبدیل ہو تا ہے ،اس ميں سے ایک
حصہ مڻی ميں جذب ہو تا ہے ،اور زراعت کے بعد یہی مواد کاشت کی گئی چيزوں ميں جذب
ہوتا ہے اورانسانوں کے ذریعہ انهيں استعمال کرنے کے بعد ،یہی مواد زندہ انسانوں کے نشو
ونما کا سبب بنتا ہے اور اس طرح ایک نئے انسان کے بدن کے خليوں کی بناوٹ کا سبب بنتا
ہے۔
قيامت کے دن انسان کے دوبارہ زندہ ہو نے کی صورت ميں ، پہلے انسان کے بدن کو
بنانے ميں اس کے مواد کو کيسے پورا کيا جائے گا ؟اگر اسے اپنے پہلے مواد سے مکمل کيا
جائے تو، دوسرے شخص کا بدن نقص سے دوچار ہوجائے گا ،اگر مکمل نہ ہو جائے تو پہلے
شخص کا بدن نا مکمل رہے گا!
جواب: سائنسی تحقيقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انسان کے بدن کے اجزاء اس
کی پوری عمر کے دوران تجزیہ وتغيرات کے نتيجہ ميں ہر چند سال کے بعد ایک بار سر تا پا
مکمل طور پر تبدیل ہو کر پہلے اجزاء کی جگہ ليتے ہيں وراس کے باوجود یہ شخص بالکل وہی
سابقہ انسان ہو تا ہے اور اس کے بدن کے اجزاء کا بدل جانا اس کی شخصيت کے بدلنے ميں
کوئی اثرنہيں ڈالتا ہے ۔
صاف ظاہر ہے کہ ہم ميں سے ہر شخص کم وبيش پچاس ،ساڻه سال عمر کرنے کے
بعد واضح طور پر مشاہدہ کرتا ہے کہ وہی انسا ن ہے جو کبهی بچہ تها ،کبهی جوان اور اب
بوڑها ہو چکا ہے ،اور جس حقيقت کا وہ لفظ ميں سے تعبير کرتا ہے ،ہم اسے “نفس” کہتے ہيں
،اس ميں کوئی تبدیلی پيدا نہيں ہوئی ہے اور اپنی جگہ پر پائداراورثابت ہے اور اسی طرح
جوشخص جن جرائم کو بچپن ميں انجام دیتا ہے ،ان کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اسے بوڑها
پے ميں سزادی جاتی ہے ۔
ا س نظریہ کے مطابق انسان کی شخصيت اس کے نفس سے ہے نہ بدن سے انسان
کے بدن کے مادّہ ميں سے کچه حصہ کے نابود ہو نے سے ، اسی نفس کے ساته تعلق کے فر
ض کی بناء پر انسان کی شخصيت تبدیل نہيں ہو تی اوراگر قيامت کے دن انسان کا نفس اس
کے بدن کے تغير یافتہ اور نا بود ہو ئے اجزاء ميں سے جن اجزاء سے بهی تعلق پيد اکرے ،یاان
ميں کسی بهی قسم کی کمی ہو اور دوسرے اجزاء سے مکمل ہو جائے ،تو انسان کا بدن وہی
دنيا کا بدن ہو گا اور شخص انسان وہی دنيوی انسان ہو گا ۔
محمد حسين طباطبائی