اسلام اور آج کا انسان
 

دوسرا حصہ:

علمی ،فلسفی مسائل حدوث عالم پر برہان
سوال:امام عليہ السلام سے سوال کياگيا کہ آپ کے پاس حدوث عالم کے بارے ميں
کونسی دليل ہے ؟
ا مام فرماتے ہيں :انڈے پر توجہ کيجئے کہ دو مختلف رقيق چيزوں سے بنا ہے اور اس
سے نر ومادہ کی صورت ميں مختلف چوزے پيدا ہو تے ہيں اور حدوث عالم پریہی دليل ہے۔
سائل خاموش ہوتا ہے ۔امام کا یہ بيان حدوث عالم پر کونسی دليل رکهتا ہے؟ ١
جواب: انڈا دومختلف رقيق چيزوں کا مرکب ہے اور اس سے نرو مادہ اور مختلف چوزوں
کی پيدائش کائنات کے حادث ،یعنی مخلوق ہونے اوراس کے کسی مافوق علت کی طرف
مستند ہونے پردليل ہے کيو نکہ ان مختلف (چيزوں کی) صورتوں اورشکلوں ميں گونا گوں آثارکے
ظاہر ہو نے کو وہم وگمان اور جهوڻا فرض کر کے غلط نہيں بتایا جاسکتا ہے یاکہا جائے یہ سب
سفسطہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقيقتيں ہيں جوہرایک اپنے طور پر مختلف انفرادیتوں ،آثاراور
خصو صيتوں پر مشتمل ہيں اور ان کے درميان موجود جو انتہائی منظم رابطہ
١۔تفسيرابوالفتوح رازی ج / ٢/ص ٣٠١
اور حيرت انگيز نظام کے پيش نظر ان کی پيدائش کو اتفاقی حادثہ اور بدون سبب وعلّت فرض
نہيں کيا جاسکتا ہے ،بلکہ یہ ایسی حقيقتيں ہيں جو سبب کے موجودہونے کے لئے استناد
رکهتی ہيں اور ان ميں اختلاف کے حقيقی ہونے کے سبب انهيں کسی یکساں اور کسی قسم
کا اختلاف نہ رکهنے والے مادّہ کا معلول نہيں جاننا چاہئے ۔اور اگر مادہ ميں اختلاف ترکيب یا
اختلاف حرکت فرض کریں،تواب یہ سوال پيداہوتا ہے کہ یہ اختلاف ترکيب یا اختلاف حرکت کہاں
سے پيدا ہوئی ہيں ؟
ل ہذا ناچار ،ان شکل و صورتوں اورآثار کے ذاتی اختلاف کو مادہ اور مادی دنيا سے بلند تر
علّت وسبب سے نسبت دینی چاہئے اور نتيجہ کے طور پر انڈے کواور اس پر مرتب ہونے والے
تمام آثار اوراس کی مختلف ترکيبوں کو حادث اورکسی دوسری علّت کا نتيجہ جاننا چاہئے ۔اور
یہی خصوصيت جو ہم انڈے ميں پاتے ہيں کائنات کی دوسری تمام مخلو قات ميں پائی جاتی
ہے اورحتیٰ کہ،مادّہ جو وجودميںآنے کے لئے شکل و صورت کا محتاج ہے اورنتيجةً وسيع تر نظام
کے ساته حادث ہے اور علت کی محتاج ہے ۔
دوسرے انبياء عليہم السلام پر پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی فضيل ت
سوال:کيا قرآن مجيد ميں آیہ خاتم کے علاوہ کوئی دوسری آیت موجود ہے جس سے
رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی خاتميت اور دوسرے پيغمبروں پر آپ کی فضليت ثابت
ہوتی ہو ؟
جواب :جس طرح آیہ شریفہ:
( >ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبيين >(احزاب / ۴٠
خاتميت پر دلالت کرتی ہے ،اسی طرح کچه آیتيں دین اسلام کے عام اور ابدی ہونے
پردلالت کرتی ہيں ،جيسے:
( >واٴُوحی الیِّ هذاالقرآن لاٴنذرکم بہ ومن بَلغ> (انعام / ١٩
”اور ميری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ ميں تمہيں اور جس شخص
تک یہ پيغام پہنچے سب کو ڈراؤں“
ا ور آیہ شریفہ:-
( >وانہ لکتاب عزیزلاٴیاٴتيہ الباطل من بين یدیہ ولامن خلفہ>(فصلّت/ ۴١ ۔ ۴٢
”اوریہ ایک عالی مرتبہ کتا ب ہے ،جس کے قریب ،سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل
آنہيں سکتا ہے ۔“
کيونکہ کسی دین کی عمر اور دوام ،مذکورہ دین کو لانے والے کی خاتميت کے بغير قابل
تصور نہيں ہے ۔
اسی طرح جو آیتيں دوسری آسمانی کتا بوں کی نسبت قرآن مجيد کی افضيلت کی
دلالت پيش کرتی ہيں ،حسب ذیل ہيں:
( > ونزّلنا عليک الکتب تبياناًلکل شيء>(نحل/ ٨٩
” اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس ميں ہر شے کی وضاحت موجود ہے“
ا ورآیہ شریفہ:
( >واٴنزلنا اليک الکتاب بالحق مصدقاً لما بين یدیہ من الکتاب ومهيمناً عليہ>(مائدہ/ ۴٨
”اور اے پيغمبر !ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجيل کی
مصدق اورمحافظ ہے لہذا آپ ان کے درميان تنزیل خدا کے مطابق فيصلہ کریں“
ا ورآیہ شریفہ:
> شرع لکم من الدّین ماوصّی بہ نوحاًوالّذی اوحينا اليک وما وصّينا بہ ابراهيم وموسیٰ وعيسیٰ
( >(شوریٰ/ ١٣
”اس نے تمہارے لئے دین ميں وہ راستہ مقرر کيا ہے جس کی نصيحت نوح کو کی ہے اورجس
کی وحی پيغمبر !تمہاری طرف بهی کی ہے اور جس کی نصيحت ابراهيم ،موسی اور عيسی
کو بهی کی ہے“
مذکورہ آیتيں رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی افضليت پر بهی دلالت کرتی ہيں
،کيونکہ قرآن مجيد پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی دعوت کا حصہ ہو نے کے علاوہ
کوئی اور چيز نہيں ہے ،اور نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی قدر ومنزلت کا توازن آپٌ کی
دعوت کی قدر وقيمت ہے ۔


اہل توحيد کی شفاعت
سوال:علاّمہ مجلسی کی کتاب “توحيد”ميں ،مو حدین کے حالات کے ضمن ميں رسول
اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے :<وان اهل التوحيد ليشفعون
( فيشفعون >(زخرف/ ٨۶
بيان فرمایئے کہ اہل توحيدکن لوگوں کی شفاعت کرتے ہيں ،غير موحدین کی شفاعت کرنا تو
ممکن نہيں ہے اور خود موحدین کی شفاعت کرنا صحيح نہيں ہے،کيونکہ موحدین خود شفاعت
کرنے والے ہيں ،پس یہ کن کی شفاعت کرتے ہيں ؟
جواب روایت (وان اهل التوحيد ليشفعون فيشفعون) ١
کے مند رجہ ذیل دو معنی ميں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے:
ی ا اہل توحيد سے مقصودموحدّین ميں سے سب سے کامل اور سب سے بڑے علماء ہيں
،اس کی دلالت مندرجہ ذیل دوآیات کریمہ پيش کرتی ہيں:
( >ولا یملک الّذین یدعون من دونہ الشفاعة الّامن شهد بالحق وهم یعلمون>(زخرف/ ٨۶
”اور اس کے علاوہ جنهيں یہ لوگ پکارتے ہيں وہ سفارش کابهی اختيار نہيں رکهتے ہيں مگر وہ
جو سمجه بوجه کر حق کی گواہی دینے والے ہيں ۔“
ا ور آیہ شریفہ:
( >إلّا من اٴذن لہ الرّحمٰن وقال صوابا>(نباء / ٣٨
”علاوہ اس کے جسے رحمان اجازت دےدے اور ڻهيک ڻهيک بات کرے ۔“
ی ا اس کا معنی یہ ہے کہ، موحدین، مستضف لوگوں کی شفاعت کرین گے، موحدین،جن
کے حق ميں خدائے متعال فرماتا ہے:
>وآخرون مرجون لاٴمراللّہ امّا یعذّبهم و امّا یتوب عليهم <
( ١۔صدوق/ توحيد : ٢٩ /ح ٣١ (توبہ / ١٠۶
”اور کچه ایسے بهی ہيں جنهيں حکم خداکی اميد پر چهوڑ دیا گيا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے
گا یا ان کی توبہ کو قبول کر لے گا“
ا ور بظاہروکمزورطبقہ لوگوں کی اکثریت کو تشکيل دیتا ہے۔

اسلام ميں غلامی کی توجيہ
سوال:گزشتہ سوالات ميں اسلام ميں غلامی وبندگی کے جاری رہنے کے بارے ميں
سوال ہوا تها جس کا آپ نے مختصر اور اجمالی جوا ب دے دیا اور مکمل جواب کے لئے
تفسيرالميزان کی چهڻی جلد کی طرف رجوع کر نے کو فرمایا تها ،جبکہ تفسير الميزان ميں
حقير کے سوال کا کوئی جواب نہيں دیا گيا ہے ۔
ميں نے سوال کياہے کہ اگر اسلام کے اوائل ميں کچه مصلحتوں کی بناپر غلامی کو
جائز قرار دیا گيا ہے ،ليکن یہ جانتے ہو ئے کہ انسان کی فکر ترقی اور ارتقاء کی طرف بڑه رہی
ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب بشریت غلامی کو قبيح سمجه لے گی اور عقل کی روسے
بهی قابل قبول نہيں ہے کہ کچه لوگ کچه دوسرے لو گوں کو اپنا استعمار بنا کران کی ہر قسم
کی آزادی کوچهين ليں اور بعض عبادی مسا ئل یا دوسرے جوانب سے کيوں غلام کو پست اور
حقيرقرار دیا گيا ہے ؟اسی طرح اگر کفار کو اس لئے غلام بناتے تهے تاکہ اسلام کے ماحول ميں
تربيت حا صل کریں ،تو ان کی اولاد کيوں ان کے والدین کی تبعيت ميں غلام بن گئيں ،اگر چہ وہ
مسلمان بهی ہو تے ؟
ا گر آپ فرمائيں گے کہ اسلام نے ان کی آزادی کے لئے بہت سے راستے بتائے ہيں ،تو
ہم اس کے جواب ميں کہيں گے کہ یہ موضوع غلامی کے اصل جواز کے بارے ميں اعتراض کو
دور نہيں کرتا؟
جواب :آپ نے لکها ہے کہ اسلام ميں غلامی کے اعتراض کے جواب کے بارے ميں
الميزان کی چڻهی جلد کی طرف رجوع کرنے کو کہا تها جبکہ مذکورہ تفسير ميں اس اعتراض کا
جواب نہيں دیا گيا ہے ،مختصر یہ کہ انسان کو مکمل ہونے والی عقل کسی کو غلا م بنانے اور
اس کی مطلق آزادی کو سلب کرنے کو قبيح جانتی ہے اور عقل کی روسے بهی یہ قابل قبول
نہيں ہے ،اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کفار کو اس لئے غلام بناتاتها تاکہ اسلام کے ماحول ميں ان
کی تربيت کی جائے تو ہم یہ کہيں گے :ان کی اولاد کا کيا قصور اور گناہ ہے کہ اسلام قبول کر
نے کے بعد بهی غلامی کی حالت ميں باقی رہيں ؟اور اگر یہ کہا جائے کہ اسلام نے ان کی
آزادی کے لئے ایک طریقہ کار معين کيا ہے تو ہم کہيں گے :اعتراض اس کے غلام بننے کے
بعداس کی اصلی غلامی کے جاری رہنے ميں ہے
ل گتا ہے کہ تفسير ميں درج کی گئی بحث پر مکمل توجہ نہيں کی گئی ہے ،لہذا ناچار
ہم پهر سے اس کی وضاحت کرتے ہيں:
سب سے پہلے اصولاً جانناچاہئے کہ : اگر چہ انسا ن اختيار کی صفت کے مطابق
آزادخلق کيا گيا ہے ،ليکن اس کے لئے مطلق آزادی کا ہر گز تصور نہيں کيا جا سکتا ہے ۔جو
انسان فطری طور پر سماج ميں ، معاشرہ کے تحفظ کے قوانين وضوابط کی قہراًرعایت کرتے
ہوئے زندگی بسر کرتا ہو ،وہ مطلق العنان اور ہر خواہش کے سلسلہ ميں سر گرم عمل نہيں ہو
سکتا ہے ۔لہذا انسان کی آزادی بہر حال قوانين اور ضوابط کے دائرہ ميں محدود ہوتی ہے
دوسرے الفاظ ميں انسان فی الجملہ آزاد ہے نہ بالجملہ یعنی مکمل طور پر آزادنہيں ہے
۔معاشرہ کے عام اور متوسط افراد بعض مواقع اور قوانين کے مطابق ہر قسم کا کام انجام دینے
کی آزادی نہيں رکهتے ہيں اور کچه افراد کی آزادی بعض شرائط کے تحت سلب کی جاتی ہے ۔
دیوانہ ،بيوقوف اور بچوں کو ہر کام انجام دینے کی آزادی نہيں دی جا سکتی ہے ،جانی
دشمن اور لاابالی مجرم کو ہر قسم کی آزادی نہيں دی جا سکتی ہے ۔
دوسرے یہ:حقيقت ميں غلامی ،بندگی اور ان کے مانند مسائل پر جهگڑا نہيں ہے بلکہ
ان کے معنی ميں نزاع ہے ،خواہ ان کے ساته غلامی کا نام ہو یا نہ ہو ۔
غلامی کی حقيقت کا مطلب ارادہ وعمل کی آزادی کا سلب کرنا ہے اور واضح ہے کہ
جسے ارادہ و عمل ميں آزادی نہ ہو ،اس کا ارادہ و عمل کسی دوسرے کے اختيار ميں ہو گا
،اسی لئے غلاموں کو خرید و فروخت کيا جاتا تها ۔
گزشتہ اقوام ميں غلامی مندرجہ ذیل چار صورتوں ميں رائج تهی:
١۔خاندان کا سر پرست اپنے ماتحت لڑکی اور لڑکے کو بيچ سکتا تها ۔
٢۔مرد،کبهی اپنی بيوی کو بيچتا تها،اور کبهی کرایہ یا ادهار دیتا تها یا اسے کسی کو
بخش دیتا تها۔
٣۔ایک قبيلہ کا سردار ،اپنی قدرت کے بل بوتے اور استناد پر جسے بهی چاہتا اسے اپنا
غلام وبندہ بنا سکتا تها ،چنانچہ پادشاہوں کو “مالک الرقاب”(غلاموں کے مالک)کہا جاتا تها ۔
۴۔ دومتخاصم گروہوں ميں سے جنگ ميں فتح حاصل کر نے والا گروہ اگر اپنے جانی
دشمن کو زندہ پکڑتا تها ،وہ اسے اپنا غلام بنا سکتا تها اور اسے مار سکتا تها یا بيچ سکتا تها ۔
ا سلام نے غلام کی مذکورہ چار قسموں ميں سے پہلے تين قسموں کو منسوخ کر دیا
ہے اور اولاد کی نسبت والدین کے حقوق کو محدود کر کے اور اسی طرح شوہر کے حقوق کو
بيوی کی نسبت محدود کر کے یا عادل اسلامی حکومت کی طاقت سے اس قسم کی غلامی
کو جڑ سے اکهاڑ کر پهينک دیا ہے ،ليکن غلامی کی چوتهی قسم کی تصدیق کی ہے اور اس
کی تائيد نہ کر نا ممکن نہيں تها ،کيو نکہ اسلام ایک فطری دین ہے اور یہ عين فطرت کے حکم
کے مطابق ہے ۔کسی ایسے فردیا معاشرہ کو نہيں پایا جاسکتا ہے ،جو اس کی ہستی اور
وجودیا اس کے مقدسات کو نيست و نا بود کر نے والے دشمن کے مقا بلہ ميں خاموش تما
شائی بن کر بيڻهے اور اپنی ہستی کا دفاع نہ کرے جو اس کے دشمن کی نابودی پر منحصر
ہے یا دشمن پر فتح پانے کے بعدصرف اسی فتحيابی کے نام پر اکتفا کر کے اپنے دشمن کو
دوبارہ اس کے ارادہ وعمل پر آزاد رکهے اور اس کے ارادہ و عمل کو سلب نہ کر ے (جو وہی
غلامی ہے )،مگر یہ کہ عفو و بخشش کے لئے کچه تقاضے اور عوامل پيدا ہو ں ،جہاں تک
انسان ہے اور ہو گا اس کی خداداد فطرت یہی حکم کرے گی ۔
ل يکن جو آپ نے لکها ہے کہ عقل کے مطابق یہ قابل قبول نہيں ہے کہ ایک انسان کسی
دوسرے انسان کو استعمار کر کے اس کی ہر قسم کی آزادی کو سلب کرے ۔یہ بيان صرف
غلامی کی پہلی تين قسموں پر لاگو ہے اور مذکورہ وضاحت کے پيش نظر چوتهی قسم پر لا گو
نہيں ہو سکتا ہے ۔
ل يکن جو آپ نے لکها ہے کہ آج کی ترقی یافتہ فکر ،غلامی کو قبيح جانتی ہے ،اس بيان
کا معنی (اگر چہ جنا ب عالی نے ارادہ بهی نہ کيا ہوگا )یہ ہے کہ متمدن دنيا یعنی مغربی دنيا
سلب آزادی کو قبيح جانتی ہے ،چنانچہ تقریباًاسی سال پہلے بڑی کوششوں اور جدو جہد کے
بعد انہوں نے عام غلامی کو منسوخ کر نے کا اعلان کيا ہے اور اس طرح ان کے بقول : عالم
بشریت کو ایک ننگ سے نجات دے کر دنيا کے لوگوں ،حتی مسلمانوں پر -جن کا دین اس کی
اجازت دیتا تها -منت رکهی ہے ،ليکن دقّت اور صحيح طور پر توجہ کر نی چاہئے کہ ان انسان
دوست مترقی حکومتوں نے غلامی کو منسوخ کر نے کے اس قانون کو کس قدر نافذ کيا ہے ؟!
جی ہاں ! انہوں نے غلامی کی پہلی قسم (فرزند فروشی اور عورت فروشی ) کو
منسوخ کيا ہے ،جو افریقہ اور اس کے بعض اطراف ميں رائج تهی جبکہ اسلام نے بارہ سو سال
پہلے اسے منسوخ کيا تها ،ليکن کيا غلامی کی تيسری قسم کو بهی ان ترقی یافتہ حکومتوں
نے منسوخ کيا ہے ،جسے اسلام نے منسوخ کيا تها ؟اور کيا ایشيا اور افریقہ وغيرہ ميں رہنے
والے کروڑوں اقوام ا ور ملتيں جو صدیوں سے ان کے استعمار اور تسلط ميں ہيں ان کے غلام
(ارادہ وعمل کے احساس سے محروم )نہيں ہيں ؟صرف اس فرق کے ساته کہ غلامی کا نام
نہيں ليا جاتا ہے ،بلکہ جو برتاؤ گزشتہ زما نے ميں ایک فرد سے کيا جاتا تها وہ آج مجموعی طور
پر ایک سماج سے کيا جا تا ہے !جی ہاں ! حقيقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ حکومتيں ،دوسری
عالمی جنگ کے بعد اپنی بعض نو آبادیوں کو تدریجاً۔۔ان کے اپنے بقول :سياسی شعور پيدا
کرتے ہيں ۔۔آزادی دے رہے ہيں ۔ليکن کيا یہی آزادی اور استقلال بخشنا اس بات کی دليل نہيں
ہے کہ یہ متمدن انسان آزادی کو اپنی ملکيت جانتے ہيں ؟اور اعتقاد رکهتے ہيں کہ، جو قوميں
ان کے بقول وحشی اور پسماندہ ہيں ارادہ وعمل کی آزادی کا حق نہيں رکهتی ہيں ،یعنی جب
تک زندہ ہيں اپنے آقاؤں اورتہذیب کے قافلہ سالاروں کے غلام اور بندے ہيں ۔
ا س کے علاوہ کہ ہم بخوبی جانتے ہيں کہ اس استقلال وآزادی کا کيا معنی ہے اور یہ
نام اور شکل وصورت کے بدلنے کے علاوہ کچه نہيں ہے ،ان ترقی یافتہ انسانوں کی غلامی کو
سات سمندر کے پانی سے بهی دهویا نہيں جاسکتا ۔
ا سی طرح غلامی کی چوتهی قسم (جنگی قيدیوں اور جنگ ميں شکست کهانے والوں
کی آزادی کو سلب کر نے) کے بارے ميں ان لوگوں نے کيا رویّے اختيارکئے ہيں دوسری عالمی
جنگ کے بعد پيش آنے والے حالات پر تهوڑی سی تحقيق اور غور کر نے سے یہ عقدہ حل ہو تا
ہے ۔
حریف کے شکست کهانے اور بلاشرط ہتهيار ڈالنے کے بعد، اتحادی ،دشمن کے ملک
ميں داخل ہو ئے اور ان کی بهاری صنعتوں سے لے کر ہر کار آمد چيز کو لوٹ ليا اوردشمن کے
معروف افراد اور شخصيات ميں سے جسے چاہا پکڑ کر اسے قتل کر ڈالا اوردشمن کے ملک کو
جس طرح چاہا اپنے تسلط ميں قراردیا اور اب تک کہ اس جنگ کے خاتمہ کو بيس سال گزر
چکے ہيں ،ابهی تک ان کی مکمل آزادی کے بارے ميں کو ئی خبر تک نہيں ہے اور ابهی تک
مشرقی جر منی کی مشکل اپنی جگہ پر باقی ہے ،اور ابهی بهی (سننے کے مطابق )جرمنی
کے دانشوروں کی ایک بڑی تعدادسویت یو نين کے زندانوں ميں پڑی ہے ۔اتحادیوں نے یہ سب
محرو ميتيں اور سختياں صرف جنگ ميں شرکت کرنے والے اپنے طاقتور دشمنوں سے روا نہيں
رکهيں :بلکہ دشمن کے بچوں اوراس جنگ کے بعد پيدا ہونے والے اطفال جوتدریجاً اب تک
نشوونما پارہے ہيں کو بهی پنا غلام قراردیا ہے اور ابهی بهی یہی حالت جاری ہے اورہر گز یہ
نہيں کہہ رہے ہيں کہ بڑوں کا گناہ تها اور بچے اس سلسلہ ميں کوئی قصور نہيں رکهتے ہيں ۔
ا تحادیوں کا اس سلسلہ ميں صرف یہ استدلال ہے کہ،اس رویہ سے وہ اپنی ہستی اور
بقاء کی حفاظت کرتے ہيں اورصرف استثنائی شرائط کے پيش نظر دشمن کے بلا شرط ہتهيار
ڈالنے پر اس سے صرف نظر کرکے اسے اپنے حال پر چهوڑا جا سکتا ہے !اور ان کے فرزندوں کو
اپنے والدین سے اور ان کی آنے والی نسل کو ان کے اسلاف سے جدا فرض نہيں کيا جاسکتا
ہے ،مگر استثنائی شرائط کے پيش نظر۔
ی ہ ایک ایسا استدلال ہے جو ہميشہ عالم بشریت ميں رائج تها اور اس کے استناد سے
فاتح اپنے شکست خوردہ دشمن سے ارادہ وعمل کی آزادی کو سلب کرتا تها اور اب بهی ایسا
ہی کيا جاتا ہے اور قطعاًآئندہ بهی ایسا ہی ہو تا رہے گا ،کيو نکہ جانی دشمن کو آزاد نہيں رکها
جا سکتا ،دشمن کو حقير اوربے چارہ نہيں سمجها جاسکتا ہے ۔اب اگر اسلامی قوانين پر توجہ
مر کوز کر کے غور کروگے تو دیکه پاؤ گے کہ انہی انسانی قوانين اور فطری معاملوں کو اسلام
نے بهی جنگی قيدیوں کے بارے ميں استعمال کيا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ اس کام کو
سياسی زوروزبردستی اور انتہائی بے رحمی اور بز دلانہ صورت ميں انجام دیتے ہيں جبکہ
اسلام اسے انتہائی صاف گوئی ،صداقت،ہمدردی اور بہادری سے نافذ کرتا ہے ۔
ا گراسلام کافرحربی کو قيدی بنانے کے بعدغلام بناتا ہے ،اگر اسلام قيدی بنانے کے بعد
غلامی کو منسوخ کر نے کا سبب نہيں جا نتا ہے اور اگر غلاموں کے فرزندوں کو (یہی فرزند کہ
آج بيسویں صدی ميں بهی اپنے آبء واجداداور ان کے قومی رسو مات کا دم بهر تے ہيں )ان کے
والدین کے تابع جانتا ہے ،تو یہ انصاف کے خلاف نہيں ہے ۔اس کے باوجود کہ اسلام نے ان کی
آرام وآسائش اور جلدی آزاد کر نے کے لئے ہر ممکن وسائل مہيا کئے ہيں ۔

انسان کا آدم و ہوا سے پيدا ہو نا
سوال:مہم ترین سوالات ميں سے ایک مسئلہ یہ ہے جس کے بارے ميں تعليم یافتہ
طبقہ سخت اعتراض کرتا ہے اور یہ مسئلہ متدیّن طبقہ کے لئے سب سے بڑی مشکل بنا ہوا
ہے اور وہ اصل خلقت کا قضيہ ہے ۔
قرآن مجيد واضح طور پر انسان کے جد کو حضرت آدم اور ان کی خلقت کو مڻی سے
جانتا ہے ،جبکہ بعض انسان شناس دانشوروں نے ،برسوں کی تحقيق وتجر بہ کے بعداس
مسئلہ ميں مختلف نظریہ پيش کيا ہے جو کلی طور پرقرآن مجيد کے نظریہ سے متفاوت ہے
۔چونکہ ان دانشوروں نے انسانوں اور حيوانوں کے مختلف انواع پر مدتوں آزمائش اور تجربہ کے
بعد اپنا یہ نظریہ پيش کيا ہے ،بہر حال اميد ہے کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائيں گے ۔
جواب :موجودہ انسان کی نسل کے شجرئہ نسب کی ابتداء کے بارے ميں دوافرادآدم
اور ان کی بيوی کے بارے ميں قرآن مجيد ميں ذکر ہوا ہے اور قرآن مجيد کی آیتيں اس مطلب
کے بارے ميں صراحت کے نزدیک قوی ظہور رکهتی ہيں ،ایسے کہ قطعی برہان کے بغيرمذکورہ
ظہور سے انکار نہيں کيا جاسکتا ہے ہم نے اس کے بارے ميں تفسيرالميزان ميں سورئہ نساء
کی ابتداء ميں بحث کی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ مربوط علوم سے متعلق دانشوروں نے نوع انسان کی پيدائش کے سلسلہ
ميں جو اپنا نظریہ پيش کيا ہے کہ،جس سے انسان کی اصل بندر یامچهلی تک پہنچتی ہے ایک
علمی فرضيہ (علمی مسائل کی تو جيہ کے لئے فرض کيا جاتا ہے )کے علاوہ کچه نہيں انہوں
نے جن دلائل کو پيش کيا ہے وہ اس سے زیادہ استدلال نہيں کرتی ہيں کہ انسان اور اس کی
فرض کی گئی اصل دو طبيعی مخلو قات ہيں ،جو وجوداور وجود کے آثار کی جہت سے آپس
ميں کامل و ناقص نسبت رکهتے ہيں اور یہ ایک کے دوسرے سے استخراج یا ایک کے دوسرے
ميں تبدیل ہو نے کے علاوہ ہے ،جس کا دعویٰ تبدّل انواع کے مدعی کرتے ہيں ۔
خاص کر اس لحاظ سے کہ اسلام ميں دین کے بيانات فطری منطق کے مطابق ہيں اور
علوم مادی کے دانشوراپنے بيانات ميں غالباً “آلگوریزم” ریاضی منطق کی پيروی کرتے ہيں
،چنانچہ وہ کہتے ہيں :بجلی خاص شرائط ميں حرکت یا حرارت یامقناطيس ميں تبدیل ہوتی ہے
اور پانی جب ایک سودرجہ پر ابلتا ہے تو اپنی کميت کو کيفيت ميں تبدیل کرکے بخار بن جاتا ہے
مثلاًمساوات کے ایک طرف قرار پایا ہوامثبت عدد دوسری طرف منتقل ہو جانے پرمنفی عدد بن
جاتا ہے ۔جو آپ نے لکها ہے کہ یہ دانشورانسان کے لئے لاکهوں سال عمر فرض کرتے ہيں ،یہ
کسی بهی دین کے منافی نہيں ہے ۔اس کے علاوہ لاکهوں سال پرانے فُسيل اور زمين کے
آثار،پيدا ہو نا اس بات کی دليل نہيں بن سکتے ہيں کہ اس زمانہ کے انسان اورآج کے انسان
ایک ہی نسل سے تعلق رکهتے ہيں ،کيو نکہ ممکن ہے اسی زمين پر مختلف ادوارگزرچکے ہوں
اور ان ميں سے ہر دور ميں انسان کی ایک جدانسل وجود ميں آئی ہو گی اور ایک عمر گزار نے
کے بعدوہ نوع نيست و نابودہوئی ہو گی اور کچه مدت کے بعدانسان کی ایک اور نسل وجود
ميں آئی ہوگی ۔چنانچہ بعض روایتوں ميں آیا ہے کہ زمين پر انسان کی موجودہ نسل انسا نيت
کے ادوار کا آڻهواں دور ہے ۔

علم نفس اور معرفت نفس ميں فرق
سوال:علم نفس اور معرفت نفس ميں فرق بيان فرمائيے ؟
جواب : عام طور پرعلم نفس اس فن کو کہتے ہيں جس ميں نفس اور اس سے مر بو ط
مسائل اور اس کی خصوصيتوں کی بحث ہو تی ہے اور معرفت نفس،مشاہدہ کے ذریعہ نفس
کی حقيقت کی پہچان کر نے کو کہتے ہيں ۔علم نفس کے ذریعہ نفس کی پہچان “فکری پہچان
”ہے اور معرفت نفس کے ذریعہ “شہودی پہچان ”ہے

معرفت نفس کا مطلب
سوال:کيا معرفت نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس“روح”کومادّہ اور عينی صورت
سے “مجرّد ”مشاہدہ کرے یایہ کہ اس کے علاوہ کوئی اور مطلب ہے ؟بہرحال استدعا ہے کہ
شناخت نفس کے بارے ميں آیات و روایا ت ميں بيان ہو ئے مطلب کی وضاحت فرمائيے ؟
جواب: “ معرفت نفس”کا مطلب وہی پہلا معنی ہے ،یعنی مادّہ سے مجرد نفس کی
شہودی شناخت ۔اور جو یہ لکها گيا ہے کہ “مادّہ وصورت سے مجردنفس”غلط ہے کيونکہ انسان
کا نفس اس کی اپنی صورت ہے اور معرفت نفس کا مطلب وہی“رب ”ہے جو روایتوں ميں آیا ہے۔

عرفان نفس اور معرفت پر وردگارکا رابطہ
١۔مصباح ١لشریعہ/ ١٣ . سوال:معروف حدیث:“من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” ١
”جس نے اپنے نفس کو پہچان ليایقينا اس نے اپنے رب کو پہچان ليا۔ ”کے معنی ميں
(مرحو م سيدعبدالله شبّرکی کتاب مصابيح الانوار ميں )بارہ قول بيان ہوئے ہيں ،عرفان نفس
اورربّ کی شناسائی کے درميان کو ن سا رابطہ ہے ،رابطہ کا سبب بيان فرمائيے؟
جواب:اصل روایت اس طرح ہے :(من عرف نفسہ عرف ربہ) اس روایت کے بارے ميںجو
بارہ معنی بيان ہوئے ہيں ،جيسا کہ مجهے یاد ہے ،ان ميں سے کوئی بهی معنی روایت کا
دقيق معنی نہيں ہے ،صرف جس صورت کی “فقد”کی راہ سے توجيہ کی گئی ہے اسے روایت
کے ظاہری معنی قرار دیا جا سکتا ہے اور عرفان نفس اور رب کی شناسائی کا رابطہ اس راہ
ميں ہے کہ نفس مخلوق اور معلول حق تعالےٰ ہے اور حق تعالیٰ کے مقابلہ ميں کسی قسم
کی آزادی نہيں رکهتا ہے اور جو کچه اس کے پاس ہے خدا کی طرف سے ہے ،اور اس قسم
کی مخلوق کا مشاہدہ حق تعالےٰ کے مشاہدہ کے بغيرممکن نہيں ہے ۔

معرفت اور لقاء ا لله کا مطلب
سوال: “اصول کافی ”اور“بصائرالدرجات ”ميں ائمہ اطہار عليہم السلام اور ان کے نورانی
مقام کے بارے ميں بہت سی روایتيں نقل ہو ئی ہيں ،ان ميں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ
پر وردگار کی پہلی مخلوقات وہی ہيں ۔اسی طرح دوسری روایتوں اور زیارت جامعہ سے یوں
استفادہ ہو تا ہے کہ وہ حضرات عليہم السلام اسما ء الله ،وجہ الله، یدا لله،جنب الله ہيں ،ان
احادیث کے پيش نظرکيا ہم یہ کہہ سکتے ہيں کہ معرفت اور لقاء الله کا مطلب وہی معصومين
عليہم السلام کی معرفت ہے ؟ جيسا کہ فرمایا ہے :(معرفتی بالنورانية معرفة اللّہ ١ استدعا ہے
کہ
(٢۶/ ١۔(بحارالانوار ١
ان احادیث اور معرفت پروردگار کے بارے ميں واضح احادیث کو کيسے جمع کيا جاسکتا ہے؟
جواب :معصومين عليہم السلام کی نورایت کا مقام ان کا کمال ہے اور یہ بلند ترین ممکن
کمال ہے اور یہ جو بيان ہوا ہے کہ وہ حضرات عليہم السلام اسماء الله،وجہ الله ،یدالله جنب الله
ہيں یہ توحيد کی عميق ترین بحثوں ميں سے ایک بحث ہے اور اس کا تفصيلی بيان یہاں پر
ممکن نہيں ہے ۔جو کچه خلاصہ کے طور پر علمی اصطلاح ميں پيش کيا جا سکتا ہے ،وہ یہ ہے
کہ وہ حضرات عليہم السلام اسماء اور صفات خداوند ی کے مکمل مظہر ہيں، وہ صاحب ولایت
کليہّ اور فيض الہیٰ کے چشمے ہيں ،ان کی شناخت خدائے متعال کی شناخت ہے ۔

نفس کی معرفت خدا کی معرفت کی کنجی ہے
سوال:چنانچہ مرحوم مرزا جواد آقا ملکی کے “رسالئہ لقائيہّ ”ميں درج ہے کہ معرفت
نفس ميں فکر،معرفت خدا کی کليد ہے ۔اس کے پيش نظر کہ نفس مجردات ميں سے ہے کيا
فکر مجرّدات تک پہنچ سکتی ہے یا نہيں ؟اس کے امکان کی صورت ميں ،استدعا ہے کہ فکر
کی راہ کے بارے ميں اس رسالہ ميں جو کچه درج ہوا ہے ،اس سے واضح تربيان فرمائيے ؟
جواب :فکر مجرّدات تک پہنچ سکتی ہے جيسے مادیات ميں پہنچتی ہے ۔فلسفہ مجرّدات
کے بارے ميں بہت سے مسائل حل ہوئے ہيں ،ليکن یہاں پر فکر کا مطلب اس کے معروف معنی
کے علاوہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک خلوت اور شوروشر سے دور جگہ پر بيڻه کر آنکهيں بند کر کے
اپنی صورت پر توجہ کيا جائے ،اس شخص کے مانند جو شيشہ ميں اپنی صورت کو دیکهتا ہے
اور وہ اس کے ذہن ميں پيداہو نے والی ہر شکل وصورت سے ہٹ کرصرف اپنی صورت کو دیکهتا
ہے ۔

دومطالب کی وضاحت
سوال:“رسالہ لقائيہ ” ميں دو مطالب ذکر ہوئے ہيں پہلامطلب :“معرفت نفس”ميں فکر
کے بارے ميں فرماتا ہے:
”اشتغل المتفکر تارة لتجزیة نفسہ،واخریٰ لتجزیة العالم حتی یتحقق لہ ان ما یعلمہ من العالم
ليس الا نفسہ وعالمہ لا العالم الخارجی وان هذہ العوالم المعلومة لہ انمّا هو مر تبة من نفس“
ا س عبارت کے کيا معنی ہيں اور اس کا مقصود کيا ہے ؟

دوسرا مطلب: بعد ميں فرماتے ہيں :“ہر صورت و خيال کو جب اس کادل نفی کرے توپهر
عدم ميں فکر کرے ”نفی اور عدم ميں فکر کا مقصود کيا ہے ؟استدعا ہے کہ ان دونوں عبارتوں
کے مقصود کو واضح تر بيان فرمائيے ؟
جواب:عربی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قائم ہوئے برہان کے مطابق انسان ہميشہ اپنے آپ
کو تلقين کرے اور جان لے جو کچه اپنے اور اپنے بيرونی عالم کے بارے ميں درک کرتا ہے ،اسے
اپنے اندر درک کر کے پاتا ہے ،نہ یہ کہ بيرونی عالم نے خود پایا ہو۔خيالی صورتوں کی نفی کا
مطلب ،ان سے اجتناب کر کے صرف اپنی صورت پر اپنے دل کی نظر ڈالتا ہے اور عدم ميں فکر کا
مطلب اپنی صورت کی طرف فکر کرنا ہے کہ جس کا وجود مجازی ہے اور حقيقت ميں عدم ہے ۔

خود شناسی کے مقام پر فائز ہونا
سوال: کيا غير شيعہ اور غير مسلم ،اپنے مذہب سے مربوط عبادتوں اور ریاضتوں کے
نتيجہ ميں “خودشناسی” کے مقام تک پہنچ سکتے ہيں ؟ممکن ہو نے کی صورت ميں مسلّم
ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا ،اس نے خدا کو پہچانا اور نتيجہ کے طور پر دین مقدس اسلام
کے مقصد یعنی توحيد تک پہنچا ہے اور اس طرح اسلام کے علاوہ دوسرے راستہ سے مقصد
تک پہنچاہے ،کيا یہ فرض ممکن ہے یا نہيں ؟
جواب:بعض دانشوراس فرض کو ممکن جانتے ہيں ،ليکن کتاب وسنت کے اصلی مدارک و
اسناد کے ظواہر ،اس فرض کے بارے ميں موافق نہيں ہيں ،مگر یہ کہ مقدمات ميں جيسا
کمزورفرضی مجاہد فرض کریں ۔

خداکی یاد کا مقصود کيا ہے ؟
سوال: قرآن مجيد کی آیات ميں امر کئے گئے “خدا کی یادميں ہونے”کا مقصود کياہ ہے؟
کيا خداکی یاد ،اوليائے خدا کی یاد اور خدا کی نعمتوں کی یاد ہے یا نہيں ؟ “ذکرالله” کے مقصود
کو بيان فرمائيے؟
جواب: یاد کرنے کا معنی واضح ہے اور خدا کو یاد کر نے کا مقصودہر کام کے انجا م دینے
اور اسے ترک کر نے کی ابتداء ميں خداکی مرضی کے مطابق اسے یاد کر نا ہے ،اس سے بڑه
کر ہميشہ خدا کے حضورميں اپنے آپ کو دیکهناہے اور اس سے بلند تراپنے سامنے خدا کو اس
طرح دیکهنا ہے جو ذات اقدس خدا کو دیکهنے کا حق ہے
کسی چيز سے محروم شخص وہ چيز عطا نہيں کر سکتا

سوال -: جيسا کہ واضح ہے “کسی چيز سے محروم شخص وہ چيزدوسروں کو عطا
نہيں کر سکتا ہے ”اگر یہ قاعدہ کلی ہو اور قابل استثناء نہ ہو ،تو پر وردگار عالم نے کس طرح
اشياء کو جسم بخشا ہے جبکہ وہ خودجسم سے منزّہ ہے ؟
جواب : قاعدئہ “کسی چيز سے محروم شخص وہ چيزعطا نہيں کرسکتا ہے ”ایک
فلسفی قاعدہ اور ناقابل استثناء ہے اور اس قاعدہ کے مطابق ہر علت اسی معلول کی حامل
ہوتی ہے جس نے اسے ایجاد کيا ہے جيسا کہ “جعل ”کی بحث ميں طے ہوا۔علت جو اثر معلول
پر ڈالتی ہے وہ وجود ميں ہے اور علت کا معلول کی ماہيت کے سا ته کوئی ربط نہيں ہے۔اس
بناء پر ،علّت،جو کمال معلول کو بخشتی ہے ،وہ وجود کمال ہے ليکن ماہيت کے سلسلہ ميں نہ
علت اس کی خالق ہے اورنہ اس پرکوئی اثر کرتی ہے۔ جو کچه موجودات کوبخشتاہے وہ ان کے
وجودی کمالات ہيں ،ليکن جسم کا مفہوم اس کی ما ہيّت ہوتی ہے اور خدائے متعال نہ ماہيّت
رکهتا ہے اور نہ ہی ماہيت عطاکرتا ہے ۔

عالم ،تغيير وتحوّل کی حالت ميں
سوال: کيااسلام کی نظر ميں کائنات تغييروتحول کی حالت ميں ہے ؟
جواب:کائنات کے اجزاء ميں تغيير و تحوّل کا وجودمشہود،بدیہی اور ناقابل انکار ہے اور
قرآن مجيد کائنات کے تمام اجزاء ميں تغيير وتحوّل کو ثابت کرتا ہے:
( >ما خلقنا السّموات والارض وما بينهما إلّابالحق واٴجل مُسمّیٰ>(احقاف/ ٣
”ہم نے آسمان وزمين اور ان کے درميان کی تمام مخلوقات کو حق کے ساته اور ایک مقررمدت
کے ساته پيد کيا ہے“
ا س مضمون کی آیات بہت ہيں اور عام طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہيں کہ کائنات کی
ہرایک چيز بعض آثار کی حامل ہے اورکسی ایک مقصد کے تعاقب ميں ہے جو اس کا کمال ہے
اوراس کی ایک نہایت اور خاتمہ ہے جو اس تک پہنچنے سے اس کی ترکيب منحل ہو کر اپنے
اصلی اجزاء کی طرف تجزیہ ہو کر مرکب معدوم ہو تا ہے ۔

ثابت قوانين

سوال: کيا کائنات کے تحوّلات مشخص اصول کے مطابق اور ناقابل تغيير ہيں ؟یایہ کہ
خود قوانين کے حالات ميں شامل ہوتے ہيں ؟
جواب :قرآن مجيد کے نظریہ کے مطابق ،جو نظام کائنات ميں حکم فرماہے اور جن قوانين
کی خلقت کے اجزاء پيروی کرتے ہيں ،ایک خدائی روش اور سنت ہے اور خدائی سنّتيں ميں
یکساں اور نا قابل تغير ہيں اور ان ميں موجود قوانين نا قابل استثناہيں:
( >فلن تجد لسُنت اللّہ تبدیلا ولن تجد لسُنت اللّہ تحویلا> (فاطر/ ۴٣
”اور خداکا طریقہ کاربهی نہ بدلنے والاہے اور نہ اس ميں کسی قسم کا تغير ہو سکتا ہے ۔“
( > انّ ربّی علی صراط مستقيم >(ہود/ ۵۶
”ميرے پروردگار کاراستہ بالکل سيدها ہے ۔“

کائنات کا ارتقائی سفر
سوال: کيا،کائنات کی پيدائش کے آغاز سے ،کائنات کی حرکت ارتقائی تهی ؟چنانچہ
سائنس کہتا ہے : تقریباًدس ارب سا ل پہلے ہائيڈروجن کے نام پر کائنات کا پہلا ایڻم پيدا ہوا
،اس سے پہلے کائنات منتشرگيس کی حالت ميں تهی ،ليکن دن بدن پيچيدہ تر اور اکڻهاہوئی
،یہاں تک کہکشاں ،سياّرے ،نظام شمسی ،زمين کے چار مراحل ،زندگی زندگی کی ارتقاء اور
انسان وجود ميں آئے ؟
جواب: دوسرے سوال کے جواب ميں جو آیہ کریمہ بيان ہو ئی وہ اس سوال کے بارے
ميں بهی مطابقت رکهتی ہے ۔جب سے کائنات تهی اور جہاں تک رہے گی پوری کائنات ایک
خاص حرکت اوراپنے خاص نظم کے ساته اپنے مقصدکی طرف تکامل وترقی کا راستہ طے کرتی
رہی ہے اور کرتی رہے گی ۔
حقيقت ميں کائنات کی پيدائش کے لئے دس ارب سا ل کا فرض کرنا غفلت سے خالی
نہيں ہے ،کيونکہ زمان کا تعلق ایک کميّت اورامتدادکے مقولہ سے ہے جو حرکت کے ساته قائم
ہے اور اس لحاظ سے ہر حرکت اپنے لئے ایک مخصوص زمان رکهتی ہے اور ہم اہل زمين کی نظر
ميں زمان ایک ایسا امتداد ہے جو دن رات کی حرکت پر قائم ہے اور اس کے پيش نظرکہ یہ تمام
انسانوں کے لئے مشہود ہے اس لئے پيمائش کا ایک اندازہ مقرر کيا گيا ہے جس کے ذریعہ ہم
جزئی حرکتوں کی پيمائش کرتے ہيں اور حوادث کا اندازہ لگاتے ہيں ۔ہر زمانہ کے قبل اور بعد
ایسی حالتيں ہيں کہ اسی زمانہ کے اجزاء سے موازنہ کے نتيجہ ميں وجود ميں آتی ہيں اور
اس زمانہ سے باہر ہر گز وجودنہيں رکهتی ہيں،اس لئے کائنات کی عمر کے لئے اس زمانہ سے
اندازہ لينا جو زمين کی دوری اور انتقال حرکت کے نتيجہ ميں وجود ميں آتا ہے ،غفلت اور سہل
انگاری سے خالی نہيں ہو گا ۔

تکامل و ارتقاء کے مراحل اورجديد قوانين
سوال:کيا کائنات ميں تکامل کے ہر مرحلہ کے بعد نئے قوانين کا اضافہ ہوا ہے جس طرح
کيمسڻری کے قوانين کے نامياتی مادّہ کے پيدا ہو نے کے بعد وجود ميں آئے ہيں یا حيات سے
مربوط قوانين کے مانند جو حيات کے بعدپيدا ہو تے ہيں ؟
جواب:البتہ ہر نئے حادثہ اور مظہر کی پيدائش کے مطابق کائنات ميں کچه نئے قوانين
کے مصداق پيد اہو تے ہيں ليکن نہ اس صورت ميں کہ خدائے متعال کی جاری سنت ميں تغير
وتجزیہ پيد اہو جائے ،جيسا کہ فرماتا ہے:
( >ماننسخ من آیة او ننسها ناٴت بخير منها اٴو مثلها < (بقرہ / ١٠۶
”اوراے رسول ہم جب بهی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہيں یادلوں سے محو کر دیتے ہيں تو اس
سے بہتریا اس کی جيسی آیت ضرور لے آتے ہيں“
ا ور اسی طرح کائنات کی توسيع کے بارے ميں فرماتا ہے:
( > والسماء بنيناها باٴید و انا لموسعون< (ذرایات/ ۴٧
” اورآسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہيں “

کائنات ميں تکامل وارتقاء کا عامل
سوال: کيا ایڻم سے لے کر انسان تک پوری کائنات کا ارتقاء کے عامل تضاد ہے ؟
جواب:اشياء کی تخليق کے بارے ميں تو صيف کر نے والی قرآن مجيد کی آیتوں سے جو
کچه معلوم ہو تا ہے ،وہ یہ ہے کہ ایڻم سے لے کر انسان تک اشياء کے ارتقاء کے عامل، اشياء
کياپنی طبيعی اور ذاتی حرکات ہيں چنانچہ انسان کی خلقت کے بارے ميں فرماتا ہے:
>الّذی احسن کل شیء خلقہ وبداخلق الانسان من طينثم جعل نسلہ من سلالةٍ من ماءٍ
مهينثم سوّ یٰہ ونفخ فيہ من روحہ وجعل لکم السّمع والاٴبصار والاٴفئدة<
( (سجدہ / ٧۔ ٩
”اس نے ہرچيزکو حسن کے ساته بنایا اور انسا ن کی خلقت کا آغاز مڻی سے کيا ہے ۔اس کے
بعد اس کی نسل ایک ذليل پانی سے قرار دی ہے اس کے بعداسے برابر کر کے اس ميں اپنی
روح پهونک دی ہے اور تمہارے لئے کان ،آنکه اوردل بنادئے ہيں“
قرآن مجيد ميں اسی مو ضوع ،انسان اور کائنات کے دوسرے مظاہر کے بارے ميں بہت
سی دوسری آیتيں موجود ہيں ۔اور بعض آیتوں ميں اس حرکت کی انتہا کو خدا کی طرف پلڻنے
اور اس سے ملاقی ہو نے کی تعبير کی گئی ہے:
> یا اٴیّها الانسان انّک کادح الیٰ ربّک کدحاً فملاقيہ<
( (انشقاق / ۶
”اے انسان !تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کو شش کر رہا ہے ،تو ایک دن اس کا سامنا
کرے گا ۔“
>وللّٰہ ملک السّموات والارض والی اللّہ المصير<
( (نور/ ۴٢
”اور الله ہی کے لئے زمين وآسمان کی ملکيت ہے اوراسی کی طرف سب کی باز گشت ہے“
مجموعی طور پر اشياء کی پيدا ئش کا آغاز خدا سے ہے اور ارتقاء کے ساته ان کی باز
گشت خدا کی طرف ہے:
>اللّٰہ یبدوا الخلق ثم یعيدہ ثم اليہ ترجعون<
( (روم / ١١
”الله ہی تخليق کی ابتداء کرتا ہے اور پهر پلڻابهی دیتا ہے اور پهر تم سب اسی کی بار گاہ ميں
واپس لے جائے جاؤ گے ۔“

انسانی معاشرے اورتکامل و ارتقاء کا آہنگ

سوال: کيا انسانی معاشرے پيدائش سے آج تک ارتقاء کی طرف بڑه رہے ہيں؟
جواب:گزشتہ سوالوں کے جواب ميں مذکورہ آیتوں کا اقتضایہ ہے کہ انسان اپنی انسانی فطرت انسانی کے مطابق ہميشہ ارتقاء کی طرف چل رہا ہے اور یہ سلسلہ یوںہی چلتا رہے گا

انسانی معاشروے کے تکامل و ارتقاء کے اہم عوامل
سوال:انسانی معاشروں کے ارتقاء کے اہم عوامل کيا ہيں ؟
جواب: دین کے نظریہ کے مطابق ،انسان ابدی حيات رکهنے والا موجود ہے (جو موت
سے نابود نہيں ہو تا ) اور اس کی ابدی سعادت -جو اس کے ارتقائی وجود کی صورت ہے -
ایمان اور عمل صالح ميں ہے جو اس کی حقيقی نشوونما اور نفس کی ارتقائی حرکت ميں
شامل ہے:
( >انّ الانسان لفي خسرالّاالّذین آمنوا وعملواالصّلحات< (عصر/ ٢۔ ٣
”بيشک انسان خسارہ ميں ہے۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نيک اعمال کئے

ضدوسرے الفاظ ميں ،برحق اعتقادات کو قبول کرنا، قرب الہیٰ کا سبب بنتا ہے اور نيک
کام اعتقاد کو استحکام اور تحفّظ بخشتے ہيں:
( >اليہ یصعد الکلم الطيّب والعمل الصلح یرفعہ< (فاطر/ ١٠
”پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے“

علم وغيرہ ميں انسان کا تکامل و ارتقاء
سوال: کيا انسان کا ارتقاء صرف علم ميں تها یا تمام زمينوں ميں ؟
جواب :دین کے نظریہ کے مطابق انسان کامل کا کمال اس کے وجود ميں ہے اور تمام
زمينوں ميں اس کے وجود کی خصوصيتيں ہيں اور اسی کے ساته اس کے علم کے ہمراہ بهی
ہے ۔قرآن مجيد کی آیتوں ميں اس کے ارتقاء کے آخری مرحلہ کی توصيف مفصل طور پر آئی ہے
اور اس کی حالت کی توصيف ميں جامع ترین کلمہ آیہ کریمہ ہے:
( >لهم ما یشاء ون فيها ولدینا مزید< (ق/ ٣۵
”وہاں ان کے لئے جو کچه بهی چاہيں گے سب حاضر رہے گا اور ہمارے پاس مزید بهی ہے ۔“
ا ن بحثوں کے دوران جن آیا ت کریمہ کا ہم نے ذکر کيا ،مزکورہ مطالب کو ثابت کر نے ميں
کافی ہيں ،ليکن چونکہ حقير کی صحت ڻهيک نہيں تهی ،اس لئے آیات کو مفصل وضاحت سے
پر ہيز کيا گيا ۔آیات کی کيفيت کی دلالت واضح ہو نے کے لئے تفسير “الميزان” کی طرف رجوع
کيا جا سکتا ہے ۔

مجّردات کے وجود کو اثبات کے دلائل
سوال:امکان اشرف کے علاوہ مجّردات کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دوسری
عقلی دليل کيا ہے؟
جواب :اس سلسلہ ميںشيخ کی کتابوں کی طرف رجوع کر نا چاہئے ،جو امکان اشرف
کا قائل نہيں ہے ۔اس کے علاوہ مجّردکے وجود کو (ذات اور فعل ميں مجرد کے معنی
ميں)دوسرے مختلف طریقوں سے بهی ثابت کيا جاسکتا ہے ۔مثلاً ہم کہيں کہ ابتدائی طور پر
صادرکومجّرد ہونا چاہئے ، تاکہ اس ميں ارتقاکی قدرت بهی ہو،ليکن فعليت کی صورت ميں کمال
رکهتی ہو(اور اس ميں مزید فعليت اورکمال نہيں آسکتا)اوراگرفرض کيا جائے کہ اس ميں تکامل
کی قوت بهی موجود ہوتو یہ صادرمادی اورمادہ اورصورت کامرکب ہوگااور اس صورت ميں کسی
چيزکے اجزاء خود اس چيزپروجودی صورت ميں مقد م ہونے لگيںگے اور مادہ وصورت اس صادر
سے قبل موجودہوںگے،حالانکہ ہمارافرض یہ ہے کہ صادراب وجودميں آرہاہے۔
ا سی طرح ثابت شدہ صور علميہ کے تجرد سے نفس کاذاتی تجرداورنفس کے تجردکے
ذریعہ اس کی علت فاعلی کے تجردتام کوثابت کياجاسکتا ہے۔