اسلام اور آج کا انسان
 

تربيت کے بارے ميں اسلام کا نظريہ
ا سلام ،چونکہ ایک عالمی دین ہے اور ایک خاص جماعت اورایک معين زمان ومکان کو مد
نظرنہيں رکهتا ہے ،اس لئے اس نے اپنی تعليم وتر بيت ميں “فطری انسان” کو مد نظر رکها ہے
،یعنی اس نے اپنی نظر کو صرف انسانيت کی مخصوص بناوٹ پر متوجہ کيا ہے ،جس ميں ایک
عادی اور عمومی انسان کے شرائط جمع ہو کرانسان کا مصداق بنتا ہے ،اس ميں کوئی فرق
نہيں ہے کہ وہ عرب ہو یا عجم ،سياہ فام ہو یاسفيد فام ،فقير ہو یاامير،طاقتور ہو یا کمزور،عورت
ہو یا مرد،بوڑها ہو یا جوان اور دانا ہو یانادان ۔
”فطری انسان ”یعنی جو انسان خداداد فطرت کا مالک ہو اور اس کا شعوروارادہ پاک ہوو
توہمات اور خرافات سے آلودہ نہ ہواہو،اسے ہم “فطری انسان کہتے ہيں“
ا س ميں کسی قسم کا شک و شبہ نہيں کيا جاسکتا ہے کہ انسان کا دوسرے حيوانوں
سے صرف یہ امتياز ہے کہ انسان اپنی طاقت سے مسلح ہے اورزندگی کی راہ طے کرنے ميں
“عقل وشعور”سے کام ليتا ہے ،جبکہ دوسرے حيوانات اس خداداد نعمت سے محروم ہيں ۔
ہ ر جاندار کی سر گرمی -بجز انسان کے -یک ایسے شعور ارادہ پر منحصر ہے کہ جس
کا عامل صرف اس حيوان کے جذبات ہيں جو اپنے ظہور اور جوش سے اسے اس کے مقاصد کی
طرف راہنمائی کرتے ہيں اور اسے فيصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہيں اور اس ارادہ کے نتيجہ ميں وہ
اپنی زندگی کی سر گرميوں کو بروئے کار لا کر آب و غذااور زندگی کی دوسری ضروریات کے
پيچهے جاتا ہے ۔
ی ہ صرف انسان ہے ،جو مہر ومحبت ،کينہ وعداوت دوستی ودشمنی اور خوف واميد کے
شدید جوش وجذبہ اورجذب ودفع کے بارے ميں ہر قسم کے دوسرے جذبات کے علاوہ ایک
عدالتی نظام سے بهی مسلح ہے ،جو مختلف جذ بات اور طاقتوں اور حقيقی مصلحتوں کے
درميان دعوی کی تحقيق کرکے عمل کی تشخيص دے کر اس کے مطابق فيصلہ دیتا ہے ۔کبهی
جذبات کی شدید خواہش کے باوجود اس کے بر خلاف فيصلہ سناتا ہے اور کبهی قدرت اور
جذبات کی کراہت کے باوجود حق ميں فيصلہ سناتا ہے اور انسان کو سر گرمی پر مجبور کرتا ہے
اور کبهی ان جذبات اور طاقت کی مصلحتوں پر توا فق اور ان کی خواہش سے موافقت کا اعلان
کرتا ہے ۔

اسلام ميں تعليم وتربيت کی بنياد
ا سی اصول پر کہ ہر نوع کی مکمل تر بيت اس نوع کی امتيازات اور مشخصات کی پر
ورش سے انجام پانی چاہئے ،اسلام نے اپنی تعليم وتربيت کی بنياد کو جذبات و احساسات کے
بجائے “تعقل” کے اصول پر استوار کيا ہے ۔اسی لئے اسلام ميں دین کی دعوت، مقدس عقائد
کے ایک سلسلہ ،اعلی اخلاق اور عملی قوانين کی طرف ہے،فطری انسان اپنی،بے لاگ اور
توہمات وخرافات سے خالی اپنی خداداد عقل سے، اسی کی حقيقت اور صحيح ہونے کی تائيد
کرتا ہے ۔

فطری انسان کی قوّت فہم
فطری انسان اپنی خداداد قدرت سے سمجهتا ہے کہ یہ عظيم اور وسيع کائنات ایڻم
جيسے سب سے چهو ڻے ذرّات سے لے کر عظيم کہکشا نوں تک ،ایک حيرت انگيز نظام اور
اپنے دقيق ترین قوانين کے تحت خدائے واحد کی طرف پلڻتی ہے اور اس کائنات کی پيدائش اور
اس کی پيدائش کے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے آثار ،خاصيتيں اور ان کی بے شمارسر گرمياں
سب کی سب خدائے متعال کی مخلوق ہيں ۔
فطری انسان سمجهتا ہے کہ کائنات ، ان تمام پرا کندہ اور منتشر اجزاء کے باوجود ایک
عظيم اکائی کو تشکيل دیتی ہے ،جس ميں تمام اجزاء ایک دوسرے سے مرتبط ہيں اور تمام
چيزیں (قطعی طور پر)دوسری تمام چيزوں ميں دخل دیتی ہيں اور ان کے درميان مکمل ہم
بستگی ہماری فکر کے مطابق ہے ۔
عالم بشریت -جو کائنات کا ایک چهو ڻا جز اوراس بحربيکراں کا ایک معمو لی قطرہ ہے -
ایک ایسا مظہر ہے ،جس کی تخليق ميں پوری کائنات کا رول ہے اور حقيقت ميں پوری کائنات
انکی بناوٹ خالق کائنات کے ارادہ کی تخليق ہے ۔
چنانچہ انسان خالق کائنات کی مخلوق ہے اور خالق کائنات کی رہنمائی و تربيت کے
سایہ ميں زندگی بسر کرتا ہے ،یہ خالق کائنات ہی ہے ،جس نے بے انتہا عوامل کو بروئے کار لا
کر انسان کو اس صورت ميں پيدا کيا ہے ۔اور یہ وہی پر وردگار ہے جس نے انسان کو خاص
اندرونی او ربيرونی قوتوں اور وسائل سے مسلح کيا ہے اور یہ وہی ہے جو انسان کو گونا گوں
وسائل ،قوتوں ،جذبات، عقل اور آخر کار شعور وارادہ کے ذریعہ اس کی حقيقی سعادت کی
ضمانت دینے والے مقاصد کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔
حقيقت ميں انسان ایک با شعوراور با ارادہ مخلوق ہے ، جو نيک وبد اور نفع ونقصا ن ميں
تميز کر سکتا ہے ،نتيجہ کے طور پر یہ “فاعل مختار” ہے ، ليکن اس نکتہ سے غافل نہيں رہنا
چاہئے کہ کائنات کی خلقت خالق کائنات کا ارادہ ہے ،جس نے یہ سب نقش ونگارانسان کے
اندرا ور باہر کهينچ لئے ہيں اور اسے ایک صاحب اختيار مطہر کے طور پر خلق کرکے آزاد بنا دیا
ہے ۔
ب يشک ان ہی افکار کے پيش نظرمادی انسان عقل وشعور کے ذریعہ سمجهتا ہے کہ اس
کی سعادت و خوشبختی ،دوسرے الفاظ ميں اس کی زندگی کا حقيقی مقصد، وہی منزل ہے
،جسے اس کو پيدا کرنے والے خالق کائنات نے اس کے لئے تشخيص دی ہے اور اسے خلقت
کے وسائل کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور یہ مقصد بهی وہی چيز ہے جسے خدائے واحد اور
کائنات وانسان کے خالق نے اس کے لئے مصلحت سمجهی ہے ۔(غور کيا جائے)
ا ن تمہيدات کے بعد مادی انسان کو فيصلہ کرناہو گا کہ زندگی کی راہ ميں تنہا
خوشبختی اور سعادت اسی ميں ہے کہ وہ ہميشہ اپنی خلقت کی حالت کو مدنظررکهتے ہوئے
اپنے آ پ کو کائنا ت کے خالق حقيقی یعنی خدائے متعال کی حکو مت کے تحت جان لے اور
اس حالت سے ہر گز غفلت نہ کرے اور ہر حرکت وآرام اور ہر سرگرمی کے مقابلہ ميں خلقت
کی کتاب سے واجب العمل احکام کو پڑه کرانهيں وقت پر نافذ کرے۔
مختصریہ کہ اس کتاب کے بے شمار احکام یہ ہيں کہ انسان اپنی زندگی ميں خدائے
یکتا کے علاوہ کسی کے سامنے خضوع اور اپنے آپ کو حقير نہ بنائے اور انسانی جذبات و
خواہشات کے تقاضوں کو عقل کی تائيد کی شرط پر انجام دے ۔

ثابت اور متغيرّ قوانين
ا نسان کی نظر ميں احکام و قوانين کی صورت ميں مجسم ہونے والے تقاضے دو مختلف
حصوں ميں تقسيم ہوتے ہيں :
١۔انسان کے حياتی منافع کا تحفظ کرنے والے احکام و ضوابط(اس لحاظ سے کہ وہ
انسان ہے اورہر زمان ومکان ميں جن حالات کے ساته بهی اجتماعی صورت ميں زندگی بسر
کرتا ہے ۔) ہر عقائد وقوانين کے ایک حصہ کے مانند جو انسان کی عبودیت اور خضوع کو اس
کے پروردگار کی نسبت (جس ميں کسی قسم کا تغير یا زوال ممکن نہيں ہے )مجسم کرتا ہے
۔اور قوانين کے ان کليّات کے مانند جن کے بارے ميں انسان اپنی اجتماعی زندگی کے اصول،
جيسے کهانا،گهر ،ازدواج اوردفاع کے سلسلہ ميں ان کا نياز مند ہے۔
٢۔وہ احکام اور قوانين جو عارضی ،مقامی یا دوسری خصوصيت رکهتے ہوں اور زندگی کے
طورطریقوں ميں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتے ہيں البتہ یہ حصہ، تہذیب و تمدن کی تر قی
، معاشروں کی صورت ميں تغير و تبدیلی رونما ہونے اور نئی اور پرانی روشوں کے وجود ميں
آنے اور نابود ہونے کے پيش نظر قابل تغير ہے ۔
مثال کے طور پر ،انسان ایک زمانہ ميں پيدل اور گهو ڑے ،گدهے اور خچر پر سفر کرکے ہر
راستے کو طے کرکے ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ ميں جاتاتها اور سادہ راستوں کے علاوہ
اسے کسی قسم کی ضرورت نہيں ہوتی تهی ،جبکہ موجودہ زمانہ کے وسيلے ہزاروں باریک اور
پيچيدہ شہری ،بيابانی ،سمندری اور ہوائی قوانين کے متقاضی ہيں ۔
ا بتدائی انسان ،جو سادہ زندگی بسر کرتا تها اور اس کا سرو کار تقریباً ابتدائی چيزوں اور
سادہ قوانين سے تها ،جن سے وہ اپنی ضرورت ،جيسے خوراک ،لباس، گهر اور جنسی
خواہشات کو پورا کرتا تها ،اگر چہ وہ اپنا پورا وقت کم نتيجہ اور پر محنت کام ميں صرف کرتا تها
،ليکن آج تيز رفتار طریقہ پر اپنی زندگی کی راہ کو طے کرتا ہے اور کام کی عجيب کثرت اور
فشردگی کی وجہ سے وہ کام کو مختلف اور خصوصی شعبوں ميں تقسيم کر نے پر مجبور ہوا
ہے اور اس کے ہزاروں زاویے پيدا ہوئے ہيں جو روزانہ ہزاروں قوانين کے ساته رونما ہوتے ہيں ۔
ا سلام نے اپنے تر بيتی نظریہ کو فطری انسان سے منحصر کيا ہے اور اپنی دعوت سے
انسانی معاشرہ کو پاک فطری اعتقاد ،پاک فطری عمل اور پاک فطری مقصد رکهنے والے پاک
فطری معاشرہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، اور اعتقاد وعمل ميں اس کے بے داغ افکارنے
،فطری انسان کو اپنے واجب العمل پرو گرام کے تحت قرار دیا ہے ۔اور نتيجہ کے طور پر اپنے
قوانين کو ثابت اور متغير،دو حصوں ميں تقسيم کيا ہے ۔ پہلا حصہ جو انسان کی خلقت اور اس
کے خصوصی مشخصات کی بنياد پر مستحکم ہے اسے“دین وشریعت اسلامی ”کہا جاتا ہے اور
اس کی شعائيں انسان کو انسانی سعادت کی طرف راہنمائی کرتی ہيں:
>فاٴقم وجهک للدّین حنيفاً فطرت اللّٰہ الّتي فطر النّاس عليها لا تبدیل لخلق اللّٰہ ذلک الدّین
( القيّم < (روم / ٣٠
”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکهيں اور باطل سے کنارہ کش رہيں کہ یہ دین وہ فطرت الہٰی ہے
جس پر اس نے انسانوں کو پيدا کيا ہے اور خلقت الٰہی ميں کوئی تبدیلی نہيں ہو سکتی ہے
،یقينًایہی سيدها اور مستحکم دین ہے “
ا س کے ضمن ميں جاننا چاہئے کہ دوسرا حصہ ،جو قابل تغيرقوانين پر مشتمل ہے ،اس
ميں مختلف زمان ومکان کی مصلحتوں کے مطابق تبدیلی پيدا ہوتی ہے ،اور ولایت عامہ کے
آثارکے عنوان سے ،جو نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم اورآپٌ کے منصوب شدہ جانشينوں
کے نظریہ پر پابند ہيں ۔ دین کے ثابت اور ناقابل تغيرقوانين کے سائے ميں زمان ومکان کی
مصلحتوں اورتقاضوں کے مطابق قابل تغيرقوانين کو تشخيص دے کرانهيں نافذ کرتے ہيں ۔
ا لبتہ اس قسم کے قوانين دینی اصطلاح ميں آسمانی احکام اور شریعتيں شمار نہيں
ہوتے اور انهيں دین نہيں کہا جاتاہے:-
( > یا اٴیّها الّذین آمنوا اطيعوا اللّٰہ و اطيعوالرّسول واٴولي الاٴمر منکم >(نساء/ ۵٩
”ایمان والو ،الله کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمهيں ميں سے
ہيں“
یہ ہے اسلام کا ہر زمانہ کی حقيقی ضرورتوں کے بارے ميں ایک اجمالی جواب پهر بهی
اس مسئلہ کے بارے ميں بيشتر وضاحت اور مزید تحقيق اورتجسس کی ضرورت ہے ۔ ہم آئندہ
بحث ميں اس کی مزید وضاحت کرکے مسئلہ کو واضح تر کریں گے۔
اسلام ميں ثابت اور متغيّر قوانين
”اسلام ہر زمانہ کی واقعی ضرورت کو پورا کرتا ہے ” کے عنوان سے گزشتہ بحث ميں ہم
نے اجمالی طور پر جان ليا کہ اسلام اپنے قوانين کو دو مختلف حصوں ميں تقسيم کرتا ہے :ثابت
اور متغيّرقوانين ۔

ثابت قوانين
ث ابت قوانين ،وہ قواعد وضوابط ہيں ،جن کو وضع کرنے ميں مادی انسان کی حقيقت کو
مدنظررکها گيا ہے ،یعنی انسانی فطرت خواہ شہری ہو یا بيابانی ،سياہ فام ہو یا سفيد
فام،طاقتورہو یاکمزور،ہر علاقہ اور ہر زمانہ ميں اپنی زندگی کی بساط کو پهيلاتی ہے ۔چونکہ
انسانی فطرت انسانی بناوٹ سے بنی ہوئی ہے اور انسان کی اندرونی اور بيرونی قو توں
اورآلات سے مسلّح ہے ،اس لئے جب دو افراد یا اس سے زیادہ آپس ميں جمع ہو کر ایک
دوسرے کے ساته تعاون کرکے اجتماعی زندگی شروع کرتے ہيں ،تو خواہ نخواہ ضرورتوں کے
ایک سلسلہ سے دوچار ہوتے ہيں کہ جنهيں پوراکر نے کے لئے انهيں اقدام کرنا چاہئے ،چونکہ
ان کے وجود کی عمارت یکساںہے اور وہ انسانيت کی خصوصيت ميں بهی یکساں ہيں ،
بيشک ان کی ضرورتيں بهی مشترک اور یکساں فطرت رکهتی ہيں ،اس لئے انهيں یکساں
قوانين کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ا نسان کے استدلالی ادراک تمام افراد ميں (جيسا کہ ہم جانتے ہيں ) یکساں ہيں اور ان
کا عقلی فيصلہ - ان کے افکار ميں توہمات اور خرافات داخل نہ ہونے کی صورت ميں -یکساں
ہوتا ہے ،اور تمام افراد ميں ادراک کی طاقت کو تصدیق و اعتقاد سے مطمئن کر نا چاہئے ۔
ا سی طرح ،محبت وکينہ ،ترس واميد،روڻی اور پانی کی ضرورت ،جنسی خواہشات اور
لباس ومسکن جيسے گوناگوں جذبات تمام لوگوں ميں موجود ہيں ،جس صورت ميں ایک شخص
کے لئے ان ضرورتوں کو پورا کيا جاناچاہئے ،اسی صورت ميں دوسرے لوگوں کی ان ضرورتوں کو
بهی پوراکيا جانا چاہئے
ا نسان کی مشترک فطرت کے پيش نظریہ نہيں کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کی
بهوک کو دور کرنا جائز ہے اور دوسرے کی بهوک کو دور کرنا منع ہے ۔یا یہ کہ ایک شخص کو
اپنی عقل کے اضطراری فيصلہ کے سامنے تسليم ہونا چاہئے ليکن دوسرے فرد کو اپنے ضمير
کے فيصلہ پر توجہ نہيں کرنی چاہئے ؟ یایہ کہ انسانی فطرت کو اپنی خصوصيت اور مخصوص
آثار -کہ ہزاروں برسوں سے قو توں ، جذبات اورشعور کے لحاظ سے ایک مشابہ روش پر چلتے
ہيں - کو ایک زمانہ ميں اپنے ضروری ادراک وضمير پر اعتماد کرنا چاہئے اور دوسرے زمانہ ميں
انهيں باطل قراردینا چاہئے۔
ا نسان ایک دن اجتماعی زندگی بسر کرے اور دوسرے دن انفرادی زندگی اختيار کرے
،ایک وقت اپنے مقدسات کادفاع کرے اور دوسرے وقت اپنی پوری ہستی کو دشمن کے حوالے
کردے ،ایک زمانہ ميں اپنی زندگی کی سر گرميوں ميں لگ جائے اور دوسرے وقت ہاته پر ہاته
دهرے تماشائی بنا رہے اور اسی طرحاس سے ظاہر ہے کہ فطری انسان کو ہميشہ ایک قسم
کے ثابت اور یکساں قوانين اور قواعدو ضوابط کی ضرورت ہے ۔
ا سلام نے بهی اپنی مقدس دعوت ميں لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اس کے علاوہ
کچه نہيں کہاہے ۔اسلام کہتا ہے :انسان کی زندگی کو انسان کی خلقت کے عام ا ورخاص
سسڻم سے قابل تطبيق کچه قوانين اور قواعد وضوابط کے علاوہ کوئی اور چيز تحفظ نہيں
بخش سکتی ہے ۔
ا ور کہتا ہے: ہميں اپنی خداداد ادراک اور ضمير کے شعورکی طرف رجوع کرناچاہئے اور ہر
قسم کی ہوس رانی اور بے راہ روی سے دوری اختيارکرنی چاہئے اور جس چيز کو حق
تشخيص دے دیں اس کی پيروی کریں، ہميں چند حقائق کی پيروی کرنے کو تقليد کا نام نہيں
دینا چاہئے اور ہميں “ قومی غرور”اور اپنے اسلاف کے “قدیمی رسومات ”کی تقليد نہيں کرنی
چاہئے ہميں خداشناسی کو کہنہ پرستی کا نام دے کر کچه طاقتور ہوس رانوں کے پيرو بن کر
ان کے آلہ کار نہيں بننا چاہئے ، جس کے نتيجہ ميں ہر گوشہ وکنار ميں سيکڑوں پتهر کے خدا
بنا کران کی تعظيم کریں ۔بنيادی طور پر اسلام نے “اسلام ”کے لفظ کا اس لئے انتخاب کيا ہے
تاکہ اپنی دعوت ميں اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرے کہ وہ صرف خدائے یکتا اور خالق
کائنات کی پرستش اور دوسرے الفاظ ميں حق کی پيروی کی دعوت کرتے ہوئے اس کی طرف
راہنمائی کرتا ہے ۔اسلام نے اس نظریہ کی تفصيلی تشخيص کے مرحلہ ميں اعتقادات ،اخلاق
اور قوانين کا ایک سلسلہ عالم بشریت کے سا منے پيش کيا ہے اور انهيں واجب الاطاعت حق
کے طور پر معرفی کيا ہے اور اس کا نام نا قابل تغير دین آسمانی رکها ہے ۔
ا لبتہ ،ان تين مرحلوں ۔اعتقاد ،اخلاق اوراحکام۔ ميں سے ہر ایک کے اجزا دوسرے اجزا اور
دوسرے مرحلوں کے ساته مکمل طور پر رابطہ رکهتے ہيں اور کائنات کی خلقت کے ساته بهی
مکمل مطا بقت رکهتے ہيں ۔ اس مقالہ ميں ان کے بارے ميں تفصيلی بحث نہيں کی جاسکتی
ہے ،اس لئے ہم ان کی تفصيل کے پيش نظران کے بارے ميں اجمالی بحث پر اکتفا کرتے ہيں۔
اور ہمارا مقصد بهی اس سے زیادہ نہيں ہے کہ اسلام ميں موجود نا قابل تغير قوانين کے ایک
سلسلہ کو ثابت کریں ۔

متغيّر قوانين
جس طرح انسان کو ثابت اور مستقل احکام و قوانين کے ایک سلسلہ - جو ثابت اور
یکساں فطری ضرورتوں کے تقاضوں کے مطابق وضع ہوں - کی ضرورت ہے ،اسی طرح وہ قابل
تغير قوانين کے ایک سلسلہ کا بهی محتا ج ہے اور انسا نی معاشروں ميں سے کوئی معاشرہ
ہر گز اس قسم کے قوانين کے بغير استحکام اور بقاء کی حالت حاصل نہيں کر سکتا ہے، کيو
نکہ واضح ہے کہ اسی فطری انسان کی زندگی جو اپنی خصوصی بناوٹ کے پيش نظرثابت اور
یکساں ہے ،زمان ومکان کے تقاضوں کے مطابق مسلسل تغير و ارتقا سے بهی روبرو ہے اور
انقلابی عوامل اور زمان ومکان کے گوناگوں شرائط سے بهی مکمل طور پر دوچار ہے اور اپنی
صورت کو تدریجاًبدلتے ہوئے اسے نئے ماحول کے ساته مطابق بنا تا رہتا ہے ،ان حالات کا بدلنا
قوانين ميں تغير وتبدیل کا تقاضا کرتے ہيں ۔
ا سلام کے اس قسم کے قوانين و احکام ميں ،ایک اصول ہے ،اس بحث ميں ہم “حاکم
اختيارات ”کے طورپر وضاحت کریں گے ۔یہ اسلام ميں وہ اصول ہے ہر زمان و مکان ميں لوگوں کے
قابل تغير ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلام کے ثابت قوانين کو منسوخ اور باطل کئے بغير انسا
نی معاشرہ کی ضرورتوں کا بهی جواب دہ ہے ۔

مطالب کی وضاحت
ا سلامی معاشرہ کا ایک فرد دینی قوانين کی رو سے حاصل کئے گئے اختيارات کے
مطابق اپنی خصوصی زندگی کے محيط ميں (تقویٰ کے سائے ميں قانون کی رعایت کرتے
ہوئے) ہر قسم کا اقدام کر سکتا ہے ،جيسے، اپنے مال سے مصلحت کے پيش نظر اور اپنی مر
ضی کے مطابق اپنی زندگی کے حالات کو بہتر بناتے ہوئے بہترین خوراک ،لباس،گهر اور سرمایہ
سے استفادہ کر سکتا ہے ،یا ان ميں سے بعض چيزوں سے صرف نظر کرسکتا ہے ۔اور اسی
طرح اپنے بر حق حقوق کا ہر ظلم اور حملہ کے مقا بلہ ميں دفاع کر کے اپنی زندگی کے وجود
کا تحفظ کر سکتا ہے ،یا وقت کی مصلحت کے پيش نظر دفاع سے پر ہيز کرکے اپنے بعض
حقوق سے چشم پو شی کرسکتا ہے ۔اور اس کے علاوہ اپنے شخصی کسب وکار ميں سر
گرمی انجام دے سکتا ہے ،حتی رات دن کام کر سکتا ہے یا اپنی صواب دید کے مطابق کسی
دن ایک کام کو تعطيل کر کے کسی دوسرے اہم کام کو انجام دے سکتا ہے ۔
ا سی طرح ولی امر مسلمين -جو اسلامی نظریہ کے مطابق معيّن ہو چکا ہو گا -اپنی
حکمرانی کے علاقہ ميں رکهنے والی عمومی ولایت کے مطابق،حقيقت ميں اسلامی معاشرہ
کے افکار کا ہدایت کار اور عام لوگوں کے ارادہ و شعور کا مر کز ہو تا ہے ،جس تصرف کا حق ایک
فرد کواپنی زندگی کے محيط ميں ہو تا ہے ،ولی امر کوبهی اسی تصرف کا حق معاشرہ کی
عام زندگی ميں ہوتا ہے ۔
وہ تقویٰ کے سایہ ميں ،اور دین کے ثابت احکام کی رعایت کرتے ہوئے مثال کے طور پر
سڑکوں ،گزرگاہوں،مکانات ،بازار،کسب وکاراور لوگوں کے مختلف طبقات کے بارے ميں ضروری
قوانين وضع کر سکتا ہے ،وہ کسی دن دفاع کا حکم صادر کرکے فوج کو مسلح کرنے کے
سلسلہ ميں ہر قسم کے ضروری اقدامات کا فيصلہ کر کے بر وقت ان کو نافذ کر سکتا ہے ،یا
کبهی مسلمانوں کی مصلحت کے پيش نظر دفاع سے پرہيز کرکے مناسب معاہدے منعقد
کرسکتا ہے ۔
وہ دین سے مربوط ثقافتی ترقی یا لوگوں کی خوشحال زندگی کے بارے ميں فيصلہ کر
کے وسيع پيمانہ پر کارروائی کرسکتا ہے یا کسی وقت معلومات کے چند سلسلوں کو منسوخ
کرکے دوسری معلومات کو رائج کرسکتا ہے ۔
مختصر یہ کہ معاشرہ کی اجتماعی زندگی کی تر قی کے لئے ہر قسم کے مفيد قوانين
کو وضع کرنا ۔جو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت ميں ہوں ۔ولی امر مسلمين کے اختيارات
سے مر بوط ہيں اور ان کے وضع اور نفاذ کے بارے ميں اس کے لئے کسی قسم کی ممنو عيت
نہيں ہے ۔ البتہ اسلام ميں اس قسم کے قوانين کا نفاذ اگر چہ لازم ہے اور ان قوا نين کو نافذ
کرنے کا پابند “ولی امر مسلمين ”واجب الاطاعت ہے ، ليکن اس کے باوجود یہ قوانين شریعت
اور حکم خدا شمار نہيں ہو تے ۔اس قسم کے قوانين کا اعتبار قدرتی طور پر ایک ایسی
مصلحتوں کے تابع ہوتا ہے ،جواس کی متقاضی ہوتی ہيں اور اسے وجود ميں لاتی ہيں اور
مصلحت کے ختم ہونے کے ساته ہی یہ قانون ختم ہو تا ہے ،اس صورت ميں گزشتہ ولی امر یا
جدید ولی امر گزشتہ حکم کے ختم ہونے اور نئے حکم کے وجود ميں آنے کا لوگوں ميں اعلان
کرتے ہوئے گزشتہ حکم کو منسوخ کرتا ہے ۔
ل يکن احکام الٰہی،جو شریعت کے متن ہيں ہميشہ کے لئے ثابت اور پائيدار ہيں اور کسی
کو ،حتی ولی امر کو بهی یہ حق نہيں ہے کہ ان ميں وقت کی مصلحتوں کے پيش نظر تبدیلی
لاکر ،ان کے ایک حصہ کے ختم ہونے کے پيش نظر انهيں منسوخ کرے ۔
ايک غلطی کا ازالہ
ا سلام کے ثابت اور متغيّر احکام اور قوانين کے بارے ميں مذکورہ بيان سے ،اسلام پر ہو
نے والے اعتراضات کا بے بنيا د ہو نا واضح اور ثابت ہو جاتا ہے ۔
جو یہ کہتے ہيں : انسان کی اجتماعی زندگی کا دامن ایسا وسيع ہو چکا ہے کہ اس کا
چودہ سو سال پہلی زندگی سے کسی قسم کا موازنہ نہيں کيا جاسکتا ہے ،جو قواعد وضوابط
صرف آج کل کے نقل و حمل کے سسڻم کے لئے ضروری ہيں ،قطعاً،پيغمبر اسلام صلی الله
عليہ وآلہ وسلم کی زندگی ميں لازم تمام قوانين اور قواعدو ضوابط سے وسيع تر ہيں اسی طرح
آج کی انسانی زندگی کے تمام ابعاد ميں اتنے بے شمار قواعد وضوابط موجود ہيں ،جن کی
گزشتہ زمانہ ميں وضع اور نافذ کرنے کی ضرورت ہی نہيں تهی ، چونکہ اسلام کے قوانين ميں
اس قسم کے احکام کا نام و نشان تک موجود نہيں ہے ،اس لئے اسلام آج کل کی دنيا کے لئے
کار آمد نہيں ہے
ا لبتہ یہ حضرات اسلام کے مقدس دین کے بارے ميں کافی معلومات نہيں رکهتے ہيں اور
اس کے متغيّر قوانين سے بے خبر ہيں اور خيال کرتے ہيں کہ یہ آسمانی دین چند ثابت اور
یکساں احکام کے ذریعہ ہميشہ کے لئے متغيّراور پيشرفت دنيا کا نظم ونسق چلانا چاہتا ہے یا
خلقت کے اس غيرقابل مقابلہ سسڻم سے تلوار کے ذریعہ جنگ کر کے انسانی تمدن کی
جبری ترقی کو روکنا چاہتا ہے جہالت کی حد ہے ! کچه دوسرے لوگ اعتراض کرتے ہوئے
کہتے ہيں : انسان کی اجتماعی زندگی ميں جبری تبدیلی اور ارتقا،معاشرہ ميں موجود ہ ثابت
قوانين ميں تدریجی تغير وتبدل کے متقاضی ہيں ،اسی لئے اسلام کے ثابت قوانين کے صحيح
اور سنجيدہ ہونے کی صورت ميں یہ قوانين صرف پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے
زمانہ کے شرائط اور عوامل کے مطابق قابل نفاذ ہوں گے ،نہ ہميشہ۔
ا ن حضرات نے قانونی مباحث ميں بهی کافی توجہ نہيں کی ہے اور اس نکتہ سے غافل
رہے ہيں کہ دنيا ميں موجود ہ تمام شہری قوانين ميں کچه ایسے دفعات موجود ہيں جو اجمالی
طور پر قابل تغير نہيں ہيں ۔اس ميں شک وشبہ نہيں کيا جاسکتا ہے کہ عصر جدید کے قوانين
اور ضوابط قدیم زمانے کے قوانين کے ساته سو فيصدی اختلاف نہيں رکهتے اور آنے والے زمانوں
کے قوانين سے بهی کلی طور پر اختلاف نہيں رکهيں گے ،بلکہ ان ميں کچه مشترک ابعاد
موجود ہيں جو کبهی پرانے اور نابود نہيں ہو تے - جيسا کہ گزشتہ بحث کے بعض حصوں ميں
ان کی طرف اشارہ کيا گيا -اگر چہ اسلام ، قوانين الہٰی کے وضع کرنے ميں منبع وحی سے
سر چشمہ حاصل کرتا ہے ،اور اسی طرح متغير قوانين کے وضع اورنفاذ ميں ولی امر کے
اختيارات سے سر چشمہ حا صل کرتا ہے ۔جو شوریٰ کے ذریعہ وضع ہو کر ولایت کے ذریعہ نافذ
ہو تے ہيں -بہر حال اسلا م کا یہ طریقہ کار عقل کی بناء پر استوار ہے نہ اکثریت کے جذباتی
خواہشات پر ،ليکن اس کے باوجود بهی اشتراکی اجتماعی حکومتوں سے عدم شباہت نہيں
رکهتا،اسلام “آسمانی شریعت ” کے نام پر کچه ثابت احکام رکهتا ہے جن ميں تبدیلی لانا
اوليائے امور اور مسلمان کے بس ميں نہيں ہے ۔یہ احکام ہميشہ کے لئے تمام حالات اور شرائط
ميں واجب العمل ہيں ۔اس کے علاوہ اسلام ميں کچه قابل تغير احکام بهی ہيں جو انسان کی
اجتماعی زندگی کے تحول اور ارتقاء کے ساته مطابقت رکهتے ہيں اور معاشرہ کے تدریجی
سعادت کے ضامن ہيں ۔
ا جتماعی حکومتوں ميں بهی “آئين ” کے نام سے ایک قانون موجود ہے جس ميں
تبدیلی ایجاد کرنا حکومتوں ،پارليمنٹ کے اراکين اور سينٹ کے اختيارات ميں نہيں ہو تا ۔اس کے
علاوہ ان حکومتوں ميں کچه اور قوانين و ضوابط ہوتے ہيں جو پارليمنٹ یاکيبنٹ کے پاس کئے
ہوئے قوانين ہوتے ہيں ،یہ وہی قوانين ہيں جو ملک اور معاشرے ميں تغيرات اورتحولات کے نتيجہ
ميں وضع ہوتے ہيں اور قابل تغير ہيں ۔جس طرح ایک ملک کے “ آئين ”سے یہ توقع نہيں رکهنی
چاہئے کہ مثلا دارالخلافہ ميں گاڑی چلانے اور ڻریفک کے قوانين کی تفصيلات کو فوری طور پر
بيان کرے اورہرسال یا ہر مہينے ميں پيدا ہونے والی تبدیليوں کے تقاضوں کے مطابق ان ميں
تبدیلی لائے ،اسی طرح بنيادی احکام کے ضامن آسمانی شریعت سے بهی یہ توقع نہيں کی
جاسکتی ہے کہ وہ ولایت کے قابل تغير جزئيات کی حامل ہو (پہلے اعتراض کاجواب)اسی طرح
کسی ملک کے آئين سے بهی تو قع نہيں کی جاسکتی کہ وہ تمام متغيرّدفعات کا حاصل ہو کر
متغيرّ بن جائے ،حتیٰ ملک کی آزادی اور اس کے لئے صدارت کے عہدہ کی ضرورت جيسے
مسائل بهی متزلزل اور ناپائدارہوں ۔اسی طرح شریعت -جو آئين کے ناقابل تغير احکام کے مانند
ہے -سے بهی متغيرّہونے کی توقع نہيں رکهنی چاہئے (دوسرے اعتراض کا جواب )
ل ہذا پہلا اعتراض (اسلام کا قانون ناقص ہے اور اس ميں آج کے زمانہ کے مطابق قوانين
کا ایک سلسلہ موجود نہيں ہے ) بے بنيا دہے اور اسی طرح دوسرا اعتراض (اسلام کے احکام
ثابت اور جامد ہيں جبکہ قوانين قابل تغيرہونے چاہئے )بهی بے بنياد ہے ۔ جی ہاں ،اس باب ميں
دوسرے اعتراض سے متعلق ایک اور سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے :
ی ہ بات صحيح ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں ميں رائج قوانين ميں ایسے دفعات بهی پائے
جاتے ہيں جو اجمالی طور پر قابل تغير نہيں ہيں،ليکن کيا شریعت اسلام ميں وضع ہوئے تمام
قوانين اور ضوابط ،جن سے اسلامی فقہ تشکيل پاتی ہے ،ہميشہ کے لئے انسانی معاشرہ
کی سعادت کی ضمانت دے سکتے ہيں ؟
کيا آج کے تمدن کا قافلہ ،نماز ،روزہ حج اور زکوٰةغيرہ کے ذریعہ اپنی ترقی کی راہ پر
گامزن ہوسکتا ہے ؟کيا اسلام کے ،غلامی ،عورت ،ازدواج ،بيع ،سودجيسے مسائل کے بارے
ميں وضع کئے گئے احکام آج کی دنيا ميں اسی صورت ميں باقی رہ سکتے ہيں ؟
ا س قسم کے مسائل طولانی ہيں جن کے بارے ميں طویل بحث کی ضرورت ہے ،اس
لئے ان کے بارے ميں مناسب جگہ پر بحث وتحقيق کی جانی چاہئے۔

خاتميت کا مسئلہ
کيا انسان عصر جديد ميں وحی کا محتاج ہے؟
سوال :اگر کوئی شخص اس سوال کے جواب ميں کہے کہ ہر مخلوق کے لئے ارتقاء
ضروری ہے ،پهر حضرت محمد صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے کيوں یہ فرمایا :“ميں آخری پيغمبر
ہوں؟”یہ کہہ کر گو یا پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں :“خاتم انبياء ميں
ہوں”،آپ یہ کہنا نہيں چاہتے ہيں :جو کچه ميں نے کہا ہے وہ انسان کے لئے ابدی طور پر کافی
ہے ،بلکہ خاتميت یہ کہنا چاہتی ہے کہ انسان اب تک اس کا محتاج تها کہ اس کی زندگی کے
لئے ماورائے عقل وتربيت بشری راہنمائی کی جائے ،اب اس زمانہ (ساتویں صدی عيسوی )
ميں ،یونانی ،رومی اور اسلامی تمدن اور قرآن ،انجيل وتوریت کے آنے کے بعدانسان کی مذہبی
تربيت ضرورت کی حدتک انجام پائی ہے اور اس کے بعد انسان اس طرز تربيت کی بنياد پر وحی
اور نئی نبوت کے بغير اپنے پيروں پر کهڑا ہو کر اپنی زندگی کو جاری رکهتے ہوئے اسے پائے
تکميل تک پہنچا سکتا ہے ،اس لئے اب نبوت ختم ہوئی ہے !انسان راستہ کو خود طے کرسکتا
ہے ۔پيغمبر اسلام فرماتے ہيں : اس کے بعد تم لوگ تر بيت یافتہ ہو اور تم لوگوں کا شعور
مصلحت ،سعادت ،ارتقاء اور آرام وآسائش کو برقرار کرنے کی حد تک پہنچ گياہے ،تم ميںتوانائی
ہے اور سمجهتے ہو یعنی تمہارا شعوراور تفکر، ارتقاء کے ایک ایسے مر حلہ تک پہنچ گيا ہے کہ
اب تمہيں وحی کی دستگيری کی ضرورت نہيں ہے جو تمهيں قدم قدم پر راہنمائی کرے ،اس
کے بعد عقل وحی کی جانشين ہو گی!
کيا اس قسم کی تعبير ،“خاتميت”کے منافی ہے یا نہيں ؟
جواب : مذکورہ استدلال کا خلاصہ یہ ہے :انسان دوسری مخلوقات کے مانند ارتقاء کی
گزر گاہ پر قرار پایا ہے ،اس راہ سے انسانی معاشرہ زمانہ ا ور وقت کے گزر نے کے ساته ساته
اپنی خلقت ميں خاص حالات پيدا کر کے نئے شرائط ميں قرار پاتا ہے ،جس کے لئے مزید اور
تازہ تر بيت کی ضرورت ہو تی ہے اس بنا پر ا نسان اپنی زندگی کی روش کے مراحل ميں سے
ہر مر حلہ پر ،دوسرے الفاظ ميں اس مر حلہ سے مر بوط ضرورتوں کے مطابق تازہ اور مناسب
دینی احکام اور قوانين کا محتاج ہو تا ہے ،اس لئے وہ ہر گز دین یا زندگی کی ایک روش کو ابدی
اور ہميشہ کے لئے فرض نہيں کر سکتا ہے ۔من جملہ شریعت مقدس اسلام بهی ایک واقعی
دین اور بشر کا حقيقی راہنما ہے ، یہ ابدی دین نہيں ہو سکتا ہے ! اس لئے نبی اکرم صلی الله
عليہ وآلہ وسلم کا خاتم النّبيّين ہو نے کا مطلب ،کہ آپ فرماتے ہيں :“ميں خاتم النبيين ہوں ”یہ
ہے کہ عقل کی کمزوری کی وجہ سے اب تک انسا ن اپنی زندگی کے لئے تعقل او ربشریٰ
تربيت سے ماورٰ راہنمائی کا محتا ج تها ،ليکن اس زمانہ(ساتویں صدی ہجری) ميں یونانی ،
رومی اور اسلامی تمدن کے آنے اور آسمانی کتابوں جيسے توریت،انجيل اور قرآن مجيد کے
نزول کے بعد انسان کی مافوق بشری تر بيت ضرورت کی حد تک پوری ہو چکی ہے ،اب وہ وحی
کی راہنمائی کا محتاج نہيں ہے خود اپنے پيروں پر کهڑا ہونے کی طاقت رکهتا ہے ،اس لئے نبوت
اور وحی کا خاتمہ ہو اہے ،انسان کو اب اپنی عقل سے زندگی کو جاری رکهنا چاہئے اور وہ اس
کے بعد وحی ونبوت سے بے نياز ہے ۔یہ استد لال کا خلاصہ ہے ،ليکن قابل ذکر بات ہے کہ یہ
بيان مختلف جہات سے مخدوش ہے :-
پہلااعتراض : اس ميں کوئی شک وشبہ نہيں ہے کہ انسان (فرد ہو یا اجتماع ) ارتقاء
کی گزرگاہ پر قرار پایا ہے ،اسی طرح اس ميں بهی کوئی شک نہيں ہے کہ انسان ایک محدود
حقيقت ہے اور اس کا ارتقاء بهی کيفيت اورکميّت کے لحاظ سے محدود ہے نہ لا محدود اور اس
کا ارتقاء جس قدر وسيع تر فرض کيا جائے بالآخر ایک مر حلہ پر رک جائے گا اور نتيجہ کے طور پر
اس وقت عالم بشریت پر حکو مت کرنے والی روش اور قوانين ثابت اور غير متغيرّ ہوں گے ،لہذا
انسان کے ارتقاء کی گزرگاہ پر ہو نا بذات خود ایک ثابت او رابدی دین کے تحقق کی دليل ہے نہ
اس کی نفی ۔
دوسرا اعتراض : یونانی اور رومی تمدن -جو بت پرستی اور اس کے وضع کردہ قوانين
کی پيدا وار تهے - کو انسانی عقل کے ماوریٰ سمجهنا قرآن مجيد کے واضح نص کے خلاف ہے
کہ بہت سی آیتوں ميں ان کے رسم و رسوم کو گمراہی اور ہلاکت کی راہ شمار کيا گيا ہے اور
ان کے اعمال کو -اگر چہ نيک اعمال کی صورت ميں بهی ہوں -برباد،باطل اور مکمل طور پر بے
اثراور بے اعتبار شمار کرتا ہے اور جو راستہ گمراہ،بے اثراور بے اعتبار ہو ،ہر گز راہنمائی کرنے
والااور سعادت تک پہنچانے والا راستہ نہيں ہوگا (اس سلسلہ ميں آیات اس حد تک زیادہ ہيں کہ
ان کو نقل کر نے کی ضرورت نہيں ہے )
تيسرا اعتراض : اس بات کا اعلان کہ رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی بعثت
کے زمانہ،یعنی ساتویں صدی عيسوی کے بعد لوگوں کی عقليں چونکہ مکمل ہوئی ہيں اور
شریعت آسمانی کی اب ضرودرت نہيں ہے اور انسان وحی کی راہنمائی سے بے نياز ہے ،کيا یہ
نظریہ نئی آسمانی شریعت کے لانے اور لوگوں کواس کی طرف دعوت دینے کے ساته واضح
تضاد نہيں رکهتا ؟اور وہ بهی ایک ایسی شریعت کے بارے ميں جو قرآن مجيد کی نص کے
مطابق تمام گزشتہ شریعتوں کی جامع ہے ،چنانچہ فرماتا ہے :
>شرع لکم من الدّین ماوصّی بہ نوحاً والّذي اوحينا اليک وما وصّينا بہ ابراهيم و موسیٰ
( وعيسیٰ>(شوریٰ/ ١٣
” اس نے تمہارے لئے دین ميں وہ راستہ مقرر کيا ہے جس کی نصيحت نوح کو کی ہے اور جس
کی وحی پيغمبر !تمہاری طرف بهی کی ہے اور جس کی نصيحت ابراهيم ،موسی اورعيسیٰ
کو بهی کی ہے“
ا یک ایسا دین ، جيسے خداوندمتعال نے اپنے کلام ميں واضح طور پر اسلام کہا ہے اور
اس کی شریعت ابراهيم عليہ السلام کے طور پر تفسير کی ہے اور فرمایا : لوگوں سے اس کے
علاوہ کسی اور چيز کو قبول نہيں کرتا اور کسی کو اس کی مخالفت کرنے کا حق نہيں ہے:
( > إنّ الدّین عند اللّہ الاسلام )(آل عمران / ١٩
” دین،الله کے نزدیک صرف اسلام ہے“------
( > ومَن یبتغ غير الاسلام دیناً فلن یُقبلَ منہ< (آل عمران / ٨۵
” اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بهی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کيا جائے گا

( >ملّة ابيکم ابراهيم هو سمّيٰکم المسلمين >(حج/ ٧٨
” یہی تمہارے بابا ابراهيم کادین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بهی اور اس قرآن ميں بهی مسلم
اور اطاعت گزار رکها ہے“
>وما کان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضیٰ اللّہ ورسولہ اٴمراً ان یکون لهم الخيرة من اٴمرهم >(احزاب
(٣۶/
”اور کسی مومن مرد یامومنہ عورت کو اختيار نہيں ہے کہ جب خداورسول کسی امر کے بارے
ميں فيصلہ کریں تو وہ بهی اپنے امر کے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے“
ی ا ہم یہ کہيں کہ تمام آسمانی تکاليف خود رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی
شخصيت سے متعلق تهيں اور دوسرے لوگ وحی اورآسمانی احکام کے بارے ميں آزاد تهے
،اس صورت ميں قرآن مجيد کے یہ سب خطاب : ( یا اٴیها الناس) (یا اٴیهاالذین آمنوا) وغيرہ کا
معنی کيا ہے ؟وحی کے پيروکاروں کو یہ سب بشارتيں کيا معنی رکهتی ہيں ؟اور مخالفت کرنے
والوں کو یہ سب انتباہ کس لئے ؟ یا ہم یہ کہيں کہ پيغمبر اسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی
لائی ہوئی شریعت کی طرف آپٌ کی دعوت،دین اسلام کو پہنچانے کے بعد خودبخود تجویزی
صورت اختيار کر گئی ،اس طرح <ولکن رسول اللّہ وخاتم النبيين > (احزاب / ۴٠ ) کا لازمی
معنی یہ ہے کہ تم انسان اس تاریخ کے بعد ہدایت ،وحی اور آسمانی شریعت سے آزاد ہو اور
اب تم اپنی -کامل ہوئی -عقلوں کے مطابق اپنی زندگی کی راہ وروش کو تشخيص دے کر قدم
بڑهاؤاور ميں قوانين کے ان دفعات کو مرتب کرکے تمہارے لئے لایا ہوں،تمہيں تجویز کرتا ہوں کہ
انهيں اپنی عقل سے مواز نہ کرو ،اگر عقل نے ان کی تصدیق کی تو انهيں قبول کر نا اور ان پر
عمل کر نا ۔حقيقت ميں یہی جمہو ریت کے تمدن کا معنی ہے ،جس کے مطابق اس تمدن ميں
اجتماعی قوانين لوگوں کی اکثریت کی مر ضی کے مطابق ہوتے ہيں ،ليکن دیکهنا چاہئے کہ
رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے نماز،روزہ ،زکواة وحج و جہاد وغيرہ جيسے ان احکام
اور قوانين ميں سے کس قانون کو نزول کے بعد شوریٰ ميں قراردیا ہے اور اکثریت کی رائے اور
مرضی حا صل کرنے کے بعد اسے نافذ کيا ہے ؟یہ ایک ایسا مطلب ہے جس کا تاریخ اور سيرت
ميں ایک نمونہ تک پيدا نہيں کيا جاسکتا ہے ۔
جی ہاں ،بعض اوقات آنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم ایک اصلی حکم کو عملی جامہ
پہنانے کی کيفيت اور حکم الہیٰ کی اطاعت کے لئے اجتماعی کاموں کے بارے ميں صلاح
ومشورہ فرماتے تهے ،جيسا کہ “جنگ احد ”ميں شہر کے اندر دفاع کيا جائے یا شہر کے باہر
جيسے مسائل ميں صلاح ومشورہ فرمایا ۔البتہ اصلی حکم پر عمل کر نے اور حکم کے طریقہ
کار پر عمل کرنے ميں فرق ہے ۔
ی اہم یہ کہيں کہ اس آیہ کریمہ :<ولکن رسول الله وخاتم النبيين>(احزاب / ۴٠ )کامعنی
یہ ہے کہ اس کے پيش نظر کہ نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم رسول ہيں جو دین لائے وہ
سنجيدہ اور متين دین ہے ،ليکن چونکہ نبوت آپٌ کے ساته ختم ہو گئی ،اگر اس زمانہ کے بعد
دینی احکام ميں سے کوئی حکم وقت کی مصلحت کے مطابق نہ ہو بلکہ مخالف ہو تو اسے
عقل کی کسوڻی پرپرکهنے کے بعدبدل کر مصلحت کے مطابق اس کی جگہ پر ایک نيا حکم
جانشين کرنا چاہئے ۔
ا س بحث کا یہ نتيجہ نکلتا ہے کہ شریعت اسلام بهی زمانوں کے اختلاف اور تقاضوں ميں
تبدیلی کے پيش نظر دوسرے اجتماعی قوانين کی طرح متغيرّ ہے ۔صدراسلام کے خلفائ نے
بهی اسی ذوق کے پيش نظراسلامی احکام کے بعض حصوں -جو رسول اکرم صلی الله عليہ
وآلہ وسلم کے زمانہ ميں نافذ تهے -پر پابندی لگادی یا ان ميں تبدیلی لائی ۔اسی وجہ سے
نبی اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی سيرت بيان کرنے والی احادیث کو نقل کر نے اور ان کی
نسخہ برداری کو، قرآن مجيد کی حرمت کے تحفظ کے نام پر،پہلی صدی ہجری ميں شدیداً
ممنوع قرار دیاگيا اور صرف قرآن مجيد کی نسخہ برداری کی اجازت تهی ۔
یہ طریقہ کار،یعنی زمانوں کے بدلنے کے ساته دینی احکام اور قوانين کا بدلنا۔۔اگرچہ بعض
دانشوروں خاص کر اہل سنت والجماعت کے مصنفوں کے رجحان کا سبب بنا،ليکن یہ طریقہ
کارواضح طور پر قرآن مجيد کے منافی ہے اور اسلام کا مقدس دین اس قسم کی تبدیلی کو ہر
گز قبول نہيں کرتا ہے ۔قرآن مجيد اپنے بيانات ميں اس بات پر تاکيد فرماتا ہے اور انسان کی بے
داغ فطرت اور ضمير کا بهی یہی حکم ہے ،کہ حق کی اطاعت و پيروی کی جانی چاہئے اور حق
کی مخالفت گمراہی کے علاوہ کچه نہيں ہے ۔
( >فماذا بعد الحق الا الضلٰل>(یونس / ٣٢
” اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچه نہيں ہے“
قرآن مجيد حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور باطل کے لئے اس ميں کوئی جگہ نہيں
ہے اور نہيں ہو گی:
>وانہ لکتاب عزیزلایا تيہ الباطل من بين یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکيم حميد >
( (فصلت/ ۴١ ۔ ۴٢
”بيشک یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے ۔جس کے قریب ،سامنے یا پيچهے کسی طرف
سے باطل آبهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم وحميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔“
قرآن مجيد ناقابل بطلان اور منسوخ کتا ب ہے، اس کے بعض مطالب ميں تبدیلی پيدا
ہونابے معنیٰ ہے ۔
ب لکہ قرآن مجيد واضح الفاظ ميں شریعت کے حکم اور تشریع کو خدائے متعال کا
خصوصی امر جانتا ہے اور حکم جاری کرنے ميں کسی کو خدا کا شریک نہيں ڻهہراتا ،جيسا کہ
فرماتا ہے:
( >إن الحکم إلّا للّہ اٴمرَاٴلاّ تعبدوا اٴلاّ ایّاہ>(یوسف/ ۴٠
”حکم کرنے کاحق صرف خد ا کو ہے اور اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی
کی عبادت نہ کی جائے“
مزید فرماتا ہے:
( >وما اختلفتم فيہ من شيء فحکمہ الی اللّٰہ>(شوریٰ/ ١٠
”اور تم جس چيز ميں بهی اختلاف کرو گے اس کا فيصلہ الله کے ہاتهوں ميں ہے“
جب خدائے متعال کے علاوہ کسی کو حکم جاری کرنے کا حق نہيں ہے ،تو یہ کيسے
ممکن ہے کہ انسان اپنی عقل پر بهروسہ کرکے حکم جاری کرے اور آسمانی حکم سے بے نياز
ہو ؟
جی ہاں ،اسلام ميں کچه ایسے قوانين اور ضوابط ضروری ہيں جو قا بل تنسيخ و تغير
ہيں اور وہ ایسے قوانين ہيں جنهيں ولی امر (اسلامی حکومت ) مختلف حالات ميں وقت کی
مصلحتوں کے پيش نظرشرع کے سایہ ميں وضع کرتا ہے ۔
ا س کی وضاحت یوں ہے کہ ولی امر کی معاشرہ سے نسبت ایک چهوڻے گهرانے سے
اس کے مالک اور سر براہ کی نسبت کے مانند ہے ۔گهر کا مالک مصلحت کے پيش نظر اپنے
گهر ميں ہر قسم کا اقدام کرسکتا ہے اور گهر کے افراد کو ان کی مصلحتوں کے مطابق ان کے
نفع ميں ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور اگر ان کے گهریلو حقوق پر ظلم و ستم ہو جائے
تودفاع کر سکتا ہے ،یا اگر مصلحت نہ سمجهے تو خاموش بيڻه سکتا ہے !ليکن وہ جس قسم
کے بهی اقدام کرے یا کوئی قانون جاری کرے تو وہ دین کے مطابق ہو نا چاہئے ،وہ کسی
ایسے اقدام یاحکم کو انجام نہيں دے سکتاجو دین کے مخالف ہو ۔ولی امر بهی ،مصلحت کے
تقاضوں کے مطابق ،اسلامی سر حدوں کی حفاظت کے لئے دفاع اور جہاد کا حکم دے سکتا
ہے یا کسی حکومت کے ساته جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر سکتا ہے یاجنگ یا صلح کی ضرورتوں
کے مطابق نئے ڻيکس لگا سکتا ہے اور اسی طرح یہ قوانين دین اور وقت کی مصلحتوں کے
مطابق ہو نے چاہئے اور ضرورت پوری ہوتے ہی یہ قوانين خودبخود ختم ہو جاتے ہيں ۔
ن تيجہ کے طور پر،اسلام کے پاس دوقسم کے قوانين ہيں :ثابت اور غير متغيرّقوانين اور یہ
آسمان شریعت ہے ،جيسا کہ قرآن مجيد فرماتا ہے:
>ولقد آ تينا بنی اسرائيل الکتاب والحکم والنبوة ثم جعلنک علی شریعة من الامرفاٴتبعها و لا
تتّبع اهواء الّذین لا یعلمون انّهم لن یغنواعنک من اللّٰہ شياوانّ الظٰلمين بعضهم اولياء بعض واللّٰہ
( ولّي الّمتقين >(جاثيہ/ ١۶ ۔ ١٩
”اور یقينا ہم نے بنی اسرائيل کو کتاب ،حکومت اور نبوت عطا کی ہے پهر ہم نے آپ کو اپنے
حکم کے واضح راستہ پر لگا دیا لہذا آپ اسی کا اتباع کریں اور خبردارجاہلوں کی خواہشات کا
اتباع نہ کریں ۔یہ لوگ خدا کے مقا بلہ ميں ذرہ برابر کام آنے والے نہيں ہيں اور ظالمين آپس ميں
ایک دوسرے کے دوست ہيں تو الله صاحبان تقویٰ کا سر پرست ہے“
ا س قسم کے قوانين کو شریعت کہا جاتا ہے ۔اور قابل تغير قوانين ،جنهيں اقتضائے
مصلحت و زمان کے مطابق ولی امر وضع کرکے نافذ کرتا ہے ،ضرورت پوری ہونے پر خودبخود ختم
ہو جاتے ہيں ۔