|
۷۶۔صحابہ کو برا بھلا کہنے کے سلسلہ میں دوسرا مناظرہ
شیخ حسین بن عبد الصمد کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد میں نے اس حنفی عالم دین کو دیکھا جواب شیعہ ہو چکا تھا مگر وہ حد درجہ پریشان تھا کیونکہ یہ بات اس کے دل میں رسوخ کر گئی تھی کہ اصحاب پیغمبر کی اتنی قدر و منزلت ہونے کے باوجود شیعہ انھیں برا بھلا کہتے ہیں، میں نے اس سے کہا: ”اگر تم اس بات کا وعدہ کرو کہ انصاف سے فیصلہ کرو گے اور میری بات کو راز میں رکھو گے تو میں اصحاب کو بر ابھلا کہنے کا راز بتادوں گا جب اس نے بہت ہی سختی سے قسم کھائی اور وعدہ کیا کہ خدا کی قسم انصاف سے فیصلہ کروں گا اور جب تک زندہ رہوں گا اس وقت تک تمہاری بات تقیہ کے طور پر راز میں رکھوں گا“۔
تب میں نے کہا: ”جن لوگوں نے عثمان کو قتل کیا ہے ان کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟‘
اس نے کہا: ”ان صحابیوں نے یہ کام اپنے اجتہاد کی بنا پر انجام دیا ہے لہٰذا وہ گنہگار نہیں ہوں گے جیسا کہ ہمارے علماء نے اس بات کی وضاحت کی ہے“۔
حسین: ”عائشہ ،طلحہ ،زبیر اور ان کے پیرو کار وں کے بارے میں تمہار ا کیا نظریہ ہے جنھوں نے جنگ جمل برپا کی اور نتیجہ میں دونوں طرف سے سولہ ہزار افراد قتل ہو گئے“۔
اور اسی طرح معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے جنھوں نے جنگ صفین بھڑکائی، اور حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کی جس کے نتیجہ میں دونوں طرف سے ساٹھ ہزار افراد قتل ہوئے۔
(ہدایت یافتہ )حنفی عالم: ”یہ تمام جنگیں بھی عثمان کے قتل کی طرح اجتہاد کی بنیاد پر تھیں“۔
حسین: ”کیا اجتہاد مسلمانوں کے ایک گروہ سے صرف مخصوص ہے اور دوسرا گروہ اجتہاد کا حق نہیں رکھتا ؟“
(ہدایت یافتہ )حنفی عالم: ”نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہر گروہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے“۔
حسین: ”جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بزرگ صحابہ اور مومنوں کے خلیفہ کے قتل اور آنحضرت کے چچا زاد بھائی ،جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے سلسلہ میں اجتہاد جائز ہے، یعنی جب اجتہاد کی رو سے اس شخصیت سے جنگ کرنا جائز ہے جو علم و تقویٰ، فضل و زہد میں سب سے زیادہ نمایاں اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب سے زیادہ قریبی ہو جن کی شمشیر کے ذریعہ اسلام استوار ہو ا اور جن کی تعریف ہمیشہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کرتے ہوں، جنھیں آپ نے مسلمانوں کا رہبر قرار دیا ہو کیونکہ خدا وند متعال کا قول ہے:
”إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ “[1]
”تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور مومنین (جو حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں) ہیں“۔
یہ بات علماء کے نزدیک مسلم الثبوت ہے کہ یہاں مومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں،[2] اس کے علاوہ بھی بہت سی روایتوں میں اس طرح کی باتیں ملتی ہیں۔اب تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ ایسے باعظمت اشخاص کے خلاف اجتہاد ہو سکتا ہے ؟اور اگر ان کے خلاف اجتہاد ہو سکتا ہے تو پھر ایسا ہی اجتہاد کر کے کیا ۔۔۔کوئی مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ”بعض صحابہ“کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا؟ ہم صرف ان صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ انھوں نے اہل بیت رسول کے ساتھ برا سلوک کیا ہے انھیں ستا یا ہے اور ان کے اوپر ظلم کیا ہے لیکن جو لوگ اہل بیت رسول اکرم کو دوست رکھتے تھے ہم بھی انھیں دوست رکھتے ہیں جیسے سلمان ،مقداد،عمار،ابوذروغیرہ اور ہم ان لوگوں کی دوستی کے ذریعہ خدا کا قرب چاہتے ہیں۔اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق ہمارا یہی عقیدہ ہے اور سب و شتم کرنا ایک طرح کی لعنت وملامت ہے جسے خدا چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو نہ قبول کرے مگر یہ اصحاب کا خون بہانے کی طرح ہر گز نہیں ہو سکتا یہ معاویہ ہی تھا جس نے حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہنے کے لئے ستر ہزار منبر مخصوص کر رکھے تھے اور یہ روش ۸۰ سال تک جاری رہی لیکن اس کے باوجودبھی وہ حضرت علی علیہ السلام کی منزل میں کسی طرح کی کمی نہ کر سکا اسی طرح شیعہ بھی خاندان رسالت کے دشمنوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اسے از روئے اجتہا د جائز سمجھتے ہیں با لفرض اگر ان لوگوں نے اپنے اس اجتہاد میں غلطی کی ہوگی تو ان پر گناہ نہیں ہوگا۔ توضیح کے طور پر یہ کہیں کہ اصحاب پیغمبر کئی طرح کے تھے بعض قابل تعریف اور بعض منافق صفت تھے اور بعض اصحاب کی تعریف قرآن میں آجانے سے دوسرے بعض صحابہ کا فسق وفجورختم نہیں ہوتا، اصحاب کو برا بھلا کہنے کے سلسلے میں ہمارا اجتہاد ان لوگوں کے نیک اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو اصحاب کے لئے ہمارا یہ اعتقاد ہر گز نہیں ہے۔
حنفی عالم نے بڑے تعجب سے کہا: ”کیا بغیر کسی دلیل کے اجتہاد جائز ہے ؟“
حسین: ”ہمارے مجتہدین کی دلیلیں بڑی واضح ہیں“۔
حنفی عالم: ”ان میں سے کوئی ایک بتاوٴ“۔
حسین بن عبد الصمد نے بہت سی دلیلیں بیان کیں جن میں جناب فاطمہ زہرا سلام علیہا پر ہوئے مظالم کا بھی ذکر کیا اور سورہٴ احزاب کی ۵۷ ویں آیت بھی پڑھی جس میں آیا ہے:
” إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمْ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ“۔ [3]
”بلا شبہ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا وآخرت میں لعنت کرتا ہے“۔[4]
۷۷۔آیہٴ ”رضوان“ کے بارے میں ایک مناظرہ
مجھے یاد ہے کہ ایک شافعی عالم سے میری ملاقات ہوئی جو قرآن کی آیات و احادیث سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا تھا اس نے شیعوں پر اس طرح اعتراض کرنا شروع کردیا۔
شیعہ لوگ اصحاب پیغمبر پر لعن وطعن کرتے ہیں یہ کام قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کے مطابق خدا وند متعال ان سے خوش و راضی ہے جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کر چکے ہوں ان پر لعن و طعن کرنا صحیح نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں سورہ فتح کی ۱۸ ویں آیت میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:
”لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا
فِی قُلُوبِہِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْہِمْ وَاٴَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا“۔
”بالتحقیق خدا وند متعال ان مومنوں سے راضی ہوا جو اس درخت کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے خدا کو ان کے دل کی بات معلوم تھی لہٰذا اس نے ا ن پر سیکنہ نازل کیا اور انھیں فتح قریب سے نوازا“۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کے آٹھویں سال ماہ ذی الحجة میں چودہ ہزار مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے مکہ عمرہ کرنے کی خاطر روانہ ہوئے تھے ان لوگوں میں عثمان، ابو بکر ،عمر اور طلحہ وزبیر جیسے لوگ بھی شامل تھے لیکن جیسے ہی یہ لوگ ”عسفان نامی “ایک مقام پر پہنچے تو انھیں خبر ملی کہ مشرکوں نے مسلمانوں کو روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے لہٰذا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ حدیبیہ (جو مکہ سے بیس کلیو میٹر کے فاصلہ پر ہے اور وہاں آب و غذا اور درخت موجود ہیں)کے پاس کوئی حتمی بات طے نہ ہونے تک ٹھہرے رہیں۔
پھر آپ نے عثمان اور چند دوسرے لوگوں کو قریش کے پاس بات چیت کے لئے روانہ کر دیا اچھی خاصی دیر ہوجانے کے بعد بھی جب ان کے بارے میں کچھ اطلاع نہ ملی تو یہ خبر اڑ گئی کہ عثمان کوقتل کر دیا گیا ہے یہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر مسلمانوں سے تجدید بیعت کرائی اور اسی بیعت کو ”بیعت رضوان “کے نام سے جانا جاتا ہے۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے مسلمانوں سے عہد لیا کہ آخری وقت تک مشرکوں سے لڑیں گے مگر کچھ ہونے سے پہلے یہ لوگ واپس آگئے مکر اس بیعت کی خبر سے مشرک بڑے مرعوب ہوگئے اور انھوں نے سہیل بن عمر کو آنحضرت کی خدمت میں بھیجا اور آخر کار اس بات پر صلح ہو گئی کہ مسلمان اگلے سال مکہ آئیں لیکن اِس سال واپس چلے جائیں۔[5]
مولف:
پہلی بات تو یہ کہ یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔
دوسری بات یہ کہ یہ آیت بیعت میں شامل ہونے والے منافقوں جیسے عبد اللہ ابی اور اوس بن خولی وغیرہ کو شامل نہیں کرتی، کیونکہ آیت میں مومن کی شرط ہے اور یہ لوگ ہر گز مومن نہیں تھے۔
تیسری بات یہ کہ مذکورہ آیت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس وقت ان لوگوں سے راضی ہوا جب انھوں نے بیعت کی نہ کہ ہمیشہ ان سے راضی رہے گا۔
اسی دلیل کے لئے ہم قرآن مجید کے اسی سورہ میں پڑھتے ہیں:
”فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللهَ فَسَیُؤْتِیہِ اٴَجْرًا عَظِیمًا“۔
”جو بھی اپنا عہد توڑتا ہے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے اور جو اللہ سے کئے گئے عہد کو پورا کرتا ہے تو اللہ اسے عظیم اجر دے گا“۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نکث یعنی بیعت توڑنے کا امکان موجود تھا جیسا کہ بعد میں چند جگہوں پر یہ بات آشکار ہوئی۔اسی طرح یہ آیت ابدی رضایت پر دلالت نہیںکرتی بلکہ انھیں میں سے ممکن ہے کہ دو گروہ ہو جائیں جن میں ایک وفادار ثابت ہو اور دوسر عہد شکن۔اس کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ اس آیت سے خارج ہو گئے جنھوں نے وفا نہیں کی اور اسی کی وجہ سے ہماری لعن وطعن ان پر پڑتی ہے اور اس بات میں آیت کی رو سے کوئی اشکال بھی نہیں ہے۔
قبروں کے پاس بیٹھنے کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کمیٹی کے سر پرست نے ایک شیعہ عالم پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: ”تم لوگ کیوں قبر کے پاس بیٹھتے ہو جب کہ اس طرح کا کام حرام ہے“۔
شیعہ عالم: ”اگر قبروں کے پاس بیٹھنا حرام ہے تو مسجد الحرام میں حجر اسماعیل کے قریب جہاں بہت سے پیغمبروں اور جناب ہاجرہ کی قبریں موجود ہیں بیٹھنا بھی حرام ہوگا لیکن ابھی تک کسی مفتی نے اس کا فتویٰ نہیں دیا۔
بہت سی ایسی روایتیں اور احادیث ملتی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کے پاس بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کتاب بخاری جو تم لوگوں کے نزدیک قرآن کی طرح معتبر ہے اس میں علی علیہ السلام سے روایت موجود ہے:
”میں بقیع میں بیٹھا ہوا تھا کہ پیغمبر میرے پاس آئے اور بیٹھ گئے اور میں بھی ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا تو آنحضرت نے قبر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:
”ہر انسان کے لئے دو گھروں میں سے ایک گھر ہوتا ہے ایک گھر جنت ہے اور دوسرا دوزخ۔۔“[6]
اس آیت کی بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر کے پاس بیٹھے اور وہاں جو دوسرے لوگ موجود تھے ان کو آپ نے اس سے منع بھی نہیں کیا۔[7]
۷۸۔ ”عشرہ مبشرہ “کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
اہل سنت کے میں احمد اپنی کتاب مسند (ج۱ ، ص۱۹۳)میں اپنی سند کے ساتھ عبد الرحمن بن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”ابو بکر فی الجنة وعمر فی الجنة وعلی فی الجنة۔۔۔الخ“۔
”ابو بکر ،عمر ،علی ،عثمان ،طلحہ ،وزبیر،عبد الرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص،سعید بن زید ابو عبیدہ جراح“۔[8]
اہل سنت حضرات اس گڑھی ہوئی حدیث کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان دس آدمیوں کے نام ”عشرہ مبشرہ“کے عنوان سے تختیوں پر کندہ کر کے مقدس، مقامات جیسے مسجد نبوی وغیرہ میں نصب کرتے ہیں۔یہ اتنی مشہور بات ہے جس کے متعلق تقریبا ًسبھی کو علم ہے اسی سلسلہ میں ذیل کے مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں:
ایک شیعہ عالم دین کہتے ہیں: ”ایک روز میں کسی کام سے مدینہ میں نہی عن المنکر کے ادارہ میں گیا تو وہاں موجود اس کے سر پرست سے میری بات چیت ہونے لگی جو آخر کا عشرہ مبشرہ تک جا پہنچی“۔
میں نے کہا: ”میں تم سے ایک سوال کر نا چاہتا ہوں“۔
سر پرست: ”پوچھو“۔
میں: ”یہ کس طرح جائز ہے کہ ایک جنتی دوسرے جنتی سے جنگ کرے طلحہ اور زبیر عائشہ کے پر چم تلے بصرہ آکر حضرت علی علیہ السلام سے جنگ لڑیں جب کہ یہ لوگ جنتی تھے اور یہ جنگ جمل بہت سے لوگوں کے قتل کا سبب بنی اور قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”وَ مَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا“[9]
”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس کی جزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا“۔
اس آیت کے پیش نظر جو لوگ بھی جنگ جمل میں لوگوں کے قتل کا سبب بنے ہیں انھیں جہنمی ہونا چاہئے اور اب یہ چاہے علی علیہ السلام ہوں یا طلحہ وزبیر ہوں لہٰذا اس جنگ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ حدیث صحیح معلوم نہیں ہوتی۔
سر پرست: ”اس جنگ میں شرکت کرنے والے وہ افراد جن کا تم نے نام لیا ہے مجتہد تھے انھوں نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ کام انجا م دیا ہے لہٰذا وہ گنہگار نہیں ہوں گے“۔
شیعہ عالم: ”نص کے مقابلہ میں اجتہاد جائز نہیں ہے کیا تمام کے تمام مسلمانوں نے یہ نقل نہیں کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:
”یا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔[10]
”اے علی !تمہاری جنگ میری جنگ ہے اور تمہاری صلح میری صلح“۔
اور اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
”من اطاع علیاً فقد اطاعنی ومن عصا علیا ً فقد عصانی ۔“[11]
”جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی“۔
اور اسی طرح آپ نے فرمایا:
”علی مع الحق والحق مع علی ،یدور الحق معہ حیثما دار“۔[12]
”علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے حق ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وہ جیسے بھی چلیں“۔
اس بنا پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسمائے مذکورہ میں ایک طرف حق ہے اور وہ علی علیہ السلام کی ذات ہے اور حدیث ”عشرہ مبشرہ “محض جھوٹ ہے کیونکہ باطل کے طرفداروں کو جنت نصیب نہیں ہو سکتی۔
دوسری بات یہ کہ عبد الرحمن بن عوف خود اس حدیث کا راوی ہے جو خود ان دس جنتی افراد میںشامل ہے اور یہ وہی عبد الرحمن ہے جس نے عمر کی وفات کے بعد شوریٰ تشکیل ہونے کے دن علی علیہ السلام پر تلوار تان لی تھی اور ان سے کہا تھا: ”بیعت کرو ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا“، یہی وہ عبدالرحمن ہے جس نے عثمان کی مخالفت کی اور عثمان نے اسے منافق کہہ کر یاد کیا ، کیا یہ تمام چیزوں مذکورہ روایت سے مطابقت رکھتی ہیں؟ اور کیا عبد الرحمن ان دس افراد میں سے ہو سکتا ہے جنھیں جنت کی بشارت دی گئی ہو؟
کیا ابو بکر و عمر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جب کہ یہ دونوں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا سبب بنے ؟اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان سے آخری عمر تک ناراض رہیں ہوں؟
کیا عمر نے حضرت علی کو ابو بکر کی بیعت کے لئے رسی باندھ کر کھینچتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ بیعت کرو نہیں تو قتل کر دئے جاوٴگے؟
کیا طلحہ و زبیر عثمان کے قتل پر مصر نہ تھے ؟کیا یہ دونوں اس امام کی اطاعت سے خارج نہیں ہو گئے جس کی اطاعت واجب قرار دی گئی تھی؟کیا ان دونوں نے جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے مقابل تلوار نہیں چلائی ؟
اس کے علاوہ ان دس لوگوں میں صرف سعد بن وقاص نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ عثمان کو کس نے قتل کیا تو وہ جواب میں کہتا ہے۔”عثمان اس تلوار سے قتل کئے گئے جسے عائشہ نے غلاف سے باہر نکالا طلحہ نے اسے تیز کیا اور علی نے زہر میں بجھا یا تھا“۔
کیا آپس کی ان تمام مخالفت اور منافقت کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب لوگ جنتی ہیں؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔
اور خود یہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی مخدوش اور مردود ہے کیونکہ اس کی سند عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن وقاص میں سے کسی ایک پر تمام ہوئی ہے اور روایات میں عبد الرحمن کی سند کا سلسلہ بھی متصل نہیں ہے لہٰذا یہ اپنے اعتبار سے گر جاتی ہے اور سعید بن زید کے بارے میں یہ روایت معاویہ کے دور خلافت میں کوفہ میں نقل کی گئی ہے اور معاویہ کے دور سے پہلے کبھی کسی نے یہ حدیث نہیں سنی تھی جس کی بنا پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاویہ کا کارنامہ ہے۔[13]
۷۹۔قبروں پر پیسے ڈالنا
قبرستان بقیع میں ایک بورڈ پر لکھا ہوا ہے ”لا یجوز رمی النقود علی القبور“قبروں پر پیسہ ڈالنا جائز نہیں ہے“۔
ایک روز امر بالمعروف کمیٹی کا سر پرست بقیع میں آیا تو اس نے دیکھا کہ کچھ قبروں پر پیسے پڑے ہوئے ہیں اس نے مجھے دیکھا تو مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا: ”یہ پیسے زائروں کو دے دو ان کا قبروں پر ڈالنا حرام ہے“۔
شیعہ عالم: ”کس دلیل سے قبروں پر پیسے ڈالنا حرام ہے کیا قرآن اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس بات کی نہی ہوئی ہے ؟جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ تمہارے لئے ہر وہ چیز جائز ہے جس سے تمہیں منع نہ کیا گیا ہو“۔
سر پرست: ”قرآن میں آیا ہے ”اِنَّمَا الصَّدْقَةُ لِلْفُقْرَاءِ“ [14]صدقہ صرف فقراء کے لئے ہے“۔
شیعہ عالم: ”یہ پیسے بھی قبر کے فقیر مجاوراٹھاتے ہیں“۔
سرپرست: ”قبر کے مجاور فقیر نہیں ہیں“۔
شیعہ عالم: ”کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ فقیر ہی ہوں کیونکہ مدد اور بخشش کے لئے یہ قطعاً حرام نہیں ہے اگر کوئی شخص کسی مقصد کے تحت خدا کی راہ میں اپنا تمام مال کسی دولت مند کو بھی دیدے تو کیا کوئی حرج ہے جیسا کہ شادیوں میں دولہا اور دلہن کے سر سے پیسے نچھاور کرتے ہیں اور غیر فقیر بھی یہ پیسے اٹھا تے ہیں اور جس آیت کو تم نے پڑھاہے اس میں صدقہ کے لئے آٹھ مصرف ذکر ہوئے ہیں جس میں سے ایک اللہ کی راہ بھی ہے اور جب مسلمان اولیاء خدا کی قبروں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ”ہماری جان ومال آپ پر فدا ہو“، اب اگر ایک شخص اپنی دوستی اور محبت کی وجہ سے اپنا تمام مال یا اس کا کچھ حصہ اسے بخش دے تو عرفا ًاس میں کیا برائی ہے خداوند متعال نے اپنی دلیل اورذاتی رائے سے کسی حلال کو حرام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ ہم سورہٴ نحل کی ۱۱۶ ویں آیت میں پڑھتے ہیں:
”وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ اٴَلْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَلٌ وَہَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَی اللهِ الْکَذِبَ“۔
”اور اپنی زبان سے نکلنے والے جھوٹ کی وجہ سے یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام تاکہ تم خدا پر جھوٹ باندھ سکو“۔
کیا خداوند متعال نے تمہیں اپنی طرف سے قانون گڑ ھنے کی اجازت دی ہے اور ہر چیز جو تمہارے ذوق کے مطابق نہ ہو تم اسے حرام اور شرک قرار دے دو، تم بدعت کے مقابلہ کی آڑ میں ہرحلال کو حرام قرار دے دیتے ہو کیا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ حلال کو حرام کرنا خود ایک بدعت ہے اور جو لوگ اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ خود جان لیں کہ انھوں نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا ہے جیسا کہ ہم اس آیت میں پڑھتے ہیں :
”ان الذین یفترون علی الله الکذب لا یفلحون“
”جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے“۔
۸۰۔ ہر طرف سے شرک کی آواز
سعودی منڈیوں میں بہت ہی سستی شئے ہے ، یہ سودا ہر جگہ دستیاب ہے، وہاں کی امر بالمعروف کمیٹی جھوٹی سی بات کو لے کر مومن کو مشرک بنا دیتی ہے! گویا ان کی تھیلوں میں شرک اور شرک کی تہمت لگانے کے علاوہ اور کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے یہ لوگ اس سلسلہ میں صرف زبانی باتوں ہی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ شیعوں کی مختلف مشہور کتابوں پر بھی حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں مثال کے طور پر شیعوں کے مشہور ومعروف محقق و عالم استاد شیخ رضا مظفر کی یہ عبارت:
”فکانت الدعوة للتشیع لا بی الحسن علیہ السلام من صاحب الرسالة تمشی منہ جنبا لجنب مع الدعوة للشھادتین“۔
”حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کی طرف دعوت توحید و رسالت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی ہے“۔
ایک وہابی مولف نے اپنی کتاب ”الشیعہ والتشیع“ میں جو سعودی عرب میں چھپ چکی ہے لکھا ہے:
”ان النبی حسب دعویٰ المظفّری کان یجعل علیّاً شریکاً لہ فی نبوتہ و رسالتہ“۔[15]
”رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مظفر کے دعوے کے مطابق علی علیہ السلام کو اپنے نبوت و رسالت میں شریک قرار دیتے تھے“۔
چوتھاحصہ
اس مصنف سے مناظرہ
اگر یہ ہوا وہوس میں اپنے دین کو بیچ کھانے والا وہابی ذرا بھی شیعوں کے عقائد سے واقفیت رکھتا تو شیخ رضا المظفر پر اس طرح کا احمقانہ اعتراض نہ کرتا۔
اگر اس طرح کی بات شرک ہوتیں تو قرآن میں یہ آیت کبھی ذکر نہ ہوتی:
”یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ“[16]
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور تم میں سے جو اولی الامر ہو“۔
اس آیت میں اولی الامر ، اللہ اور رسول کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں اور سب نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اولی الامر کے واضح ترین مصادیق ہیں۔
کیا اس صورت حال میں یہ کہنا ممکن ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اس آیت کو پڑھ کر توحید کی طرف دعوت دینے کے بجائے شرک کی دعوت دی ہے ؟
جہاں تک رسالت کی دعوت کے ساتھ امامت کی دعوت کا ہر جگہ ہونا ہے تو یہ ایک حتمی بات ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کے بعد امامت علی اور آپ کی خلافت کی تبلیغ کرنا ہے اسی لئے آپ جس طرح اپنی رسالت اور توحید خداوندی کی تبلیغ کرتے تھے اسی طرح علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے اور انھیں اس طرف دعوت دیا کرتے تھے اس کا شرک سےکوئی ربط نہیں ہے۔
مزید وضاحت کے لئے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جب سورہٴ شعراء کی یہ آیت نازل ہوئی:
”وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ“ [17]
”اور اپنے رشتہ داروں کو ڈراوٴ“۔
تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور اس میں آپ نے یہ اعلان کیا:
کون شخص ایسا ہے جو اس کام میں میری مدد کرے اور اس کے بدلے وہ میرا بھائی ،وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ ہو جائے ؟“
اس وقت کوئی بھی علی علیہ السلام کے علاوہ نہیں اٹھا تھا اور جب کئی دفعہ دہرانے کے بعد بھی علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہ اٹھا تو آپ نے فرمایا:
”ان ھذا اخی ووصي وخلیفتي فیکم فاسمعوا لہ واطیعوہ“۔[18]
”بلاشبہ یہی میرا بھائی ،وصی اور میرے بعد تم لوگوں میںمیراجانشین ہے لہٰذا تم لوگ اس کی باتیں سنو اور اس کی اطاعت کرو“۔
شیعہ اسی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ جب بھی پیغمبر اپنی رسالت اور خدا کی وحدانیت کی دعوت دیا کرتے تھے تو علی علیہ السلام کی امامت کو بھی بتا دیتے تھے کیا وفات کے بعد علی کی خلافت کی طرف دعوت دینا شرک ہے کیا نبوت کی دعوت کے ساتھ ساتھ امامت کی دعوت دینا شرک ہے؟[19] اور کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو اصل نبوت میں اپنا شریک بنا لیا ؟
ہائے رے بے انصافی۔
۸۱۔ حج کے (سیاسی پہلو کے) بارے میں دو علماء کا مناظرہ
اسلامی انقلاب (ایران)کی کامیابی کے بعد پید اہوئے اہم مسائل کے بانی حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ نے اپنے بیانیہ میں یہ اعلان کیا:
”حج کی دو قسمیں ہیں:حج ابراہیمی اور حج بو جہلی! حج صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ ایک مکتب اور بہترین جامع یونیور سٹی ہے۔
لہٰذا ایرانیوں اور حضرت امام خمینی ۻ کے مقلدین کے نظر میں حج کی اہمیت مزید واضح ہو گئی اور ”مشرکین سے برائت“ کا مسئلہ پیش آیا ،جس کے بہت سے مثبت آثار پائے جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے حجاز کے درباری ملاوٴ ں اور بعض پرانے نام نہاد علماء نے اشکال و اعتراض کرنا شروع کر دیا ، چنانچہ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ حج میں کسی طرح کی سیاست اور شور شرابہ نہیں ہونا چاہئے ،اور گذشتہ کی طرح صرف خشک عبادت کے طور پر حج کے اعمال بجالانا چاہئے جب کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
” جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ“۔[20]
”اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اس کو لوگوں کے قیام اور صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے“۔
”مومنین کے قیام “کے وسیع معنی کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ خانہٴ کعبہ کے زیر سایہ اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو دور کریں ،اور اپنی زندگی کے معنوی ومادی مختلف پہلووٴں کو بہتر بنا نے کے لئے کوشش کرتے ہوئے سعادت کی منزلوں کو طے کریں۔
اس بنیاد پر دو عالموں (نام نہاد عالم اور دانشور عالم )کے درمیان ایک مناظرہ ہوا:
عالم نما: یہ کیا شور شرابہ اور بدعتیں ہیں جو حج میں داخل کر دی گئی ہیں ،حج کے دوران کسی بھی طرح کی سیاست اور جنگ وجدال نہیں ہونا چاہئے اور بالکل چین وسکون کے ساتھ حج کے اعمال انجام دینا چاہئے ،حج خود سازی اور رو ح کی پاکیزگی کے لئے ایک بہترین عبادت ہے ،اس میں کسی طرح کے نعرے زندہ باد یا مردہ باد نہیں ہونا چاہئے ،حج ابراہیمی اور حج بوجہلی ،واقعا ً ایک نئی چیز ہے اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں سنا!
عقلمندعالم: ہمارے عقیدہ کے مطابق جس طرح ہم علوی اسلام اور لعنتی معاویہ کا اسلام رکھتے ہیں، اسی طرح حج کی بھی دو قسمیں ہیں ابراہیمی ومحمدی حج ،اور بوجہلی ویزیدی حج۔
عالم نما: حج؛ نماز و روزہ کسی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا اس میں سیاست اور غیر خدائی کاموں سے پر ہیز کرنا چاہئے۔
عقلمندعالم: سیاست صحیح معنی میں عین دین ہے، یہ دین سے ہرگز جدا نہیں ہے بعض عبادتیں باوجود اس کے کہ عبادت ہیں اور گناہوں کے دور ہونے اور صفائے نفس کے لئے پاکیزہ ترین اور خالص ترین سبب ہیں۔
لیکن یہی عبادتیں سیاسی مقاصد تک پہنچنے کا سب سے بہترین وسیلہ بھی ہیں کیونکہ روح عبادت خدا کی طرف توجہ دینا ہے اور سیاست کی روح مخلوق خداپر توجہ کرنے کا نام ہے ،اور یہ دونوں حج کے مسائل میں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا جائے تو پھر حج،حج نہیں رہے گا۔
واضح الفاظ میں یوں سمجھئے کہ حج کے لئے ایک جھلکا ہے اور ایک مغز ،جو لوگ صرف حج کے ظاہری عبادتی پہلو پر توجہ کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے حج کو حقیقت سے خالی کر لیا ہے اور مغز کو دور پھینک دیا ہے اور صرف ظاہری جھلکے کو لے لیا ہے ،مکہ معظمہ کا ایک نام ”ام القریٰ“یعنی دیہات اور شہروں کی ماں ہے۔ [21]جس طرح ماں اپنے بچوں کو کھانا دیتی ہے ،اور ان کوپرورش اور تربیت کرتی ہے اسی طرح مکہ معظمہ پر لازم ہے کہ وہ فکری ،سیاسی اور معنوی لحاظ سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو غذا فراہم کرے ،اور ان کی اسلامی رشد و نموکے لحاظ سے تربیت کرے۔
عالم نما: ہم مسلمان ہیں ،قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں کیا قرآن کریم کا ارشا د نہیں ہے؟:
”ولا جدال فی الحج“[22]
”حج میں کوئی جنگ وجدال نہیں ہونا چاہئے “؟
لہٰذا حج کے اعمال میں ایک حاجی کو جنگ وجدال اور تو تومیں میں نہیں کرنا چاہئے ،جس حج میں مظاہرہ ،نعرہ بازی اور شور شرابہ ہو تو ایسا حج جدا ل ہے جس سے قرآن نے روکا ہے۔
عقلمندعالم: مذکورہ آیت میں جس جدل سے روکا گیا ہے اس سے مراد مومنین کے درمیان تو تو میں میں ہے ،کہ قسم بخدا ایسا نہیں ہے یا قسم بخدا ایسا ہے۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام منقول احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”جدال کے معنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔یا جو کام گناہ سے متعلق ہو، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا م فرماتے ہیں:
”جس مجادلہ میں قسم کھائی جائے ،لیکن اس سے مراد کسی مومن کا احترام ہو ،تو ایسے جد ل سے آیت میں ممانعت نہیں کی گئی ہے:بلکہ آیت میں نہی شدہ جدال سے مراد وہ جدال ہے جس میں گناہ کا تصور پایاجائے اور انسان اپنے ایمانی برادر پر غلبہ کرنا چاہئے [23]لیکن اگر دین کے استحکام اور اس کے دفاع کے لئے ہو تو نہ صرف گناہ نہیں ہے بلکہ بہترین عبادت اور عظیم اطاعت ہے۔
علامہ فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت (سورہٴ بقرہ آیت ۱۹۷)کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ”تمام علمائے علم کلام اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ دینی امور میں جدال کرنا عظیم اطاعت ہے“۔اس کے بعد اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید کی آیات سے استدلال کرتے ہیں،منجملہ سورہٴ نحل کی ۱۲۵ویں آیت جس میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
” اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحْسَنُ“۔
”آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے“۔
اسی طرح سورہٴ ہود کی آیت نمبر ۳۲ میں پڑھتے ہیں جہاں کفار کی باتوں کو بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے:
” یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَاٴَکْثَرْتَ جِدَالَنَا“۔
”(اور ان لوگوں نے کہا:) اے نوح ! آپ نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑا کیا“۔
اس آیہ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے جدال کرتے تھے، اور یہ بات واضح ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کا جدال صرف دعوت الٰہی ،یکتا پرستی اور دینی استحکام کے لئے ہوتا تھا۔
لہٰذا جس جدال سے حج میں نہی کی گئی ہے ،اس سے باطل اور بے ہودہ کاموں میں جدال ہے، نہ کہ وہ جدال جو حق وحقیقت کو ثابت کرنے کے لئے ہو۔
عالم نما:قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جدال کی مذمت کی گئی ہے اور اس کوغیر مومن کا کام قرار دیا گیا ،مثلاً سورہٴ غافر کی آیت نمبر ۴ میں ارشاد ہوتا ہے:
”مَا یُجَادِلُ فِی آیَاتِ اللهِ إِلاَّ الَّذِینَ کَفَرُوا“۔
”اللہ کی نشانیوں میں صرف وہ جھگڑا کرتے ہیں جو کافر ہوگئے ہیں۔۔۔“۔
سورہٴ حج آیت نمبر ۶۸ میں ارشاد ہوتا ہے:
” وَإِنْ جَادَلُوکَ فَقُلْ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ“
”اور اگر یہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے“۔
اسی طرح سورہٴ انعام آیت ۱۲۱میں ارشاد ہوتا ہے:
”وَلاَتَاٴْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللهِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی اٴَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ اٴَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ“
”اور دیکھو جس پر نام خدا نہ لیا گیا ہو ا سے نہ کھانا کہ یہ فسق ہے اور بے شک شیاطین تو اپنے والوں کی طرف خفیہ اشارہ کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کرلی تو تمہارا شمار بھی مشرکین میں ہوجائے گا“۔
عقلمندعالم: قرآن مجید میں لفظ”جدال“کے مختلف استعمال سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدال کے وسیع معنی ہیں،جس کی مجموعی طور پر دوقسم ہیں:
۱)پسندیدہ۔
۲)نا پسند۔
جس وقت بحث و گفتگو اور دوسروں کی بات پر اعتراض حق وحقیقت روشن ہونے اور صحیح راستہ کی ہدایت کے لئے ہو تو یہ ایک مناسب اور پسندیدہ عمل ہے اور بہت سے مقامات پر یہ جدال واجب ہے ،نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے، لیکن اگر باطل کو ثابت کرنے اور ناحق بات کو ثابت کرنے کے لئے ہو تو واقعا ً ایسا جدال مذموم اور ناپسند ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ حج کے دوران ہر جدال کو ناپسند قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عالم نما:میری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت کو سیاست سے نہیں ملانا چاہئے ،حج جیسی مقدس عبادت اور بلند مقام ،سیاست ،نعرہ بازی اور مظاہرہ کرنے کے لئے نہیں ہے ،یہ مقام مخصوص عبادت یعنی حج کے لئے ہے ،کسی دوسری جگہ پر سیاست کی باتیں کریں۔
عقلمندعالم: اسلامی عبادت میں عبادی پہلو کے علاوہ دیگر پہلو بھی پائے جاتے ہیں ، چنانچہ حج میں عبادی پہلو کے ساتھ ساتھ اجتماعی، سیاسی، اخلاقی، اقتصادی اور ثقافتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں کامل اور حقیقی حج وہی ہے جس میں تمام پہلووٴں سے فیض حاصل کیاجائے،اوراگر حج میں سیاسی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو ا یسا حج ناقص ہوگا۔
ہم یہاں پر اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے حضرت امام خمینی کے بہترین کلام کو نقل کرتے ہیں:
”حج اکبر فلسفوں میں سے ایک فلسفہ اس کا ایک سیاسی پہلو ہے جس کو ختم کرنے کے لئے ہر طرف سے ظالم کوشش کر رہے ہیں ،اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے پروپیگنڈہ کا اثر مسلمانوں پر بھی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کا سفر حج صرف خشک عبادت بنتا جا رہا ہے جس میں مسلمانوں کی مصلحتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ،جس وقت سے فریضہ حج قرار دیا گیا ہے اسی وقت سے اس کا سیاسی پہلو عبادی پہلو سے کم نہیں رہا ہے ،سیاسی پہلو اپنی سیاست کے علاوہ خود بھی عبادت ہے“۔[24]
موصوف ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”لبیک لبیک “کے ذریعہ تمام بتوں کی نفی کریں اور ”لا“کے نعروں کے ذریعہ تمام سرکش و طاغوت نمالوگوں کے خلاف آواز بلند کریں،خانہ کعبہ کے طواف میں(کہ جو عشق الٰہی کی نشانی ہے)دل کو دوسروں سے خالی کریں،اور دل میںغیر حق کے خوف کو نکال پھینکیںاور خدا کے عشق کے برابر چھوٹے بڑے بتوں اور سرکشوں نیز طاغوت سے وابستہ لوگوں سے برائت کریں،کیونکہ خداوند عالم اور اولیائے الٰہی ان سے بیزار ہیں“۔[25]
لہٰذا حج،عبادت اور سیاست دونوں کامجموعہ ہے ،اور چونکہ اسلامی سیاست بھی عین عبادت ہے ،لہٰذا ہم اسلامی سیاست کو حج سے کیسے دور کرسکتے ہیں،مثال کے طور پر اگر کسی سیب سے ا س کے پانی کو نکالیں تو کیا باقی بچے گا ؟ کیا کوڑے کو سیب کہا جا سکتا ہے؟
عالم نما: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام نیز ان کے ممتاز شاگرد ہمارے لئے نمونہ عمل اور حجت ہیں،یہ حضرات حج کے دوران صرف اعمال حج انجام دیتے تھے،ان کو سیاست سے کوئی مطلب نہ تھا۔
عقلمندعالم: یہ بات بغیر دلیل کے ہے ،اتفاقا ً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے شاگرد مناسب موقع پر خانہ کعبہ کے نزدیک سیاسی ،اجتماعی اور ثقافتی مسائل بیان کر تے تھے اور ان مختلف پہلووٴں پر اہمیت دیتے تھے ،ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔پیغمبر اکرم اور آپ کے ساتھیوں کا طواف کرتے وقت تو حیدی مظاہرہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کے ساتویں سال (یعنی فتح مکہ سے ایک سال قبل)”صلح حدیبیہ “ کے تحت اس بات کا حق رکھتے تھے کہ عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جائیں اور تین دن مکہ میں ہیں،چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ،احرام باندھ کر بہت ہی شان و شوکت کے ساتھ میںمکہ داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے ،پیغمبر اکرم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھنے کئے لئے کفار قریش کے مرد وعورت چھوٹے بڑے سبھی آئے تھے، آنحضرت اور آپ کے اصحاب کی ہیبت ان کی آنکھوں کو خیرہ کئے ہوئے تھی ،اس سیاسی اہم اور حساس موقع پر آنحضرت نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
”اپنے شانوں کو کھول دو اور شکوہ مند طور پر طواف کرو،تاکہ مشرکین تمہاری ضخیم کھال اور طاقتور بازوٴں کو دیکھ لیں“
آپ کے اصحاب نے آپ کے فرمان کی پیروی کی اور مشرکین خانہ کعبہ کے چاروں طرف صف لگائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کے عظم الشان طواف کو دیکھ رہے تھے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس وقت ”لبیک اللھم لبیک“کے نعروں کی آواز بلند ہوتی تھی ”عبد اللہ بن رواحہ“(اسلامی لشکر کے سرداروں میں سے ایک شخص)جنھوں نے اپنی تلوار کو حمائل کیا ہوا تھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلند آوازمیں بجلی کی کڑک کی طرح اس طرح ”رجز“پڑھتے تھے اور یہ نعرہ لگاتے تھے:
خلو بنی الکفار عن سبیلہ
خلو فکل الخیر فی قبولہ
یا رب انی موٴمن لقیلہ
انی رایت الحق فی قبولہ
”اے کافر زادو!پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ سے ہٹ جاوٴ،راستہ چھوڑ دو اور جان لو کہ تمام خیرو سعادت رسول اللہ کی رسالت کو قبول کرنے میں ہیں“۔
پالنے والے! میں آنحضرت کے قول پر ایمان رکھتا ہوں ،اور حق کو آپ کے فرمان کو قبول کرنے پاتا ہوں“۔[26]
اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کے لئے طواف کعبہ، شان وشوکت اوراظہار قدرت کا مظہر بن گیا جس کا تماشہ مشرکین کر رہے تھے ،حالانکہ عبادت تھی لیکن مشرکین کو مغلوب کرنے کے لئے سیاست اور اسلامی شان وشوکت کا ایک نمونہ تھا۔
۲۔امام حسین علیہ السلام کا حج کے زمانہ میں معاویہ پر شدید اعتراض
۵۸ ہجری (یعنی مرگ معاویہ سے دو سال پہلے )کا زمانہ تھا معاویہ طغیانی اور سرکشی پر کمر باندھے علویوں اور اما م علی علیہ السلام کی شیعوں کے قتل کا در پہ تھا اور ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتا تھا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس سال حج کے لئے تشریف لے گئے، مناسک حج کے دوران سر زمین منیٰ میں بنی ہاشم ،شیعوں اور انصار کے ممتاز افراد کو ایک اجتماع کی دعوت دی، جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد جمع ہوئے جن میں کچھ تابعین اور اصحاب رسول کے فرزند ان بھی تھے، حضرت امام حسین علیہ السلام اس اجتماع میں کھڑے ہوئے اور ایک پر جوش تقریر کی ،چنانچہ حمد وثناء الٰہی کے بعد فرمایا:
اما بعد !بے شک پس طاغوت (معاویہ) نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کو آپ تمام حضرات اسے جانتے ہیں، آپ لوگوں نے دیکھا ہے اور اس کے گواہ ہیں، اس کی خبریں تم تک پہنچی ہیں میں تم سے کچھ چیز وں کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں اگر صحیح ہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ بولوں تو مجھے جھٹلادینا، میری باتوں کو سنو اور ذہن نشین کرلو اور اعمال حج کےبعد جب اپنے وطن جاؤ تو اپنے قابل اطمینان لوگوں تک یہ میرا پیغام پہنچا دینا، اور ان کو معاویہ کے ظلم و ستم کے مقابلہ کی دعوت دینا، مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو ”حق“ نیست و نابود ہوجائے گا، لیکن خداوندعالم اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے“۔
اس موقع پر امام حسین علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت اور ان کے فرزندوں کی امامت پر قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول بیان کی، جب آپ کی گفتگو کا ایک حصہ ختم ہو جاتا تھا تو حاضرین یہ کہتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرتے تھے:
”اللہم نعم، قد سمعناہ و شہدناہ“ ۔
”ہم خداکو گواہ قرار دیتے ہیں کہ اس کلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے سنااور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں“۔
آخر کلام میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
” تمہیں خدا کی قسم! جس وقت اپنے وطن پہنچو تو اپنے قابل اطمینان افراد تک میرا یہ پیغام پہنچادینا اور ان کو میرے پیغام سے آگاہ کردینا“۔[27]
یہ واقعہ بھی حج کے درمیان سیاسی فائدہ کا ایک نمونہ ہے، جس میں امام علیہ السلام نے حج کے دوران مسلمانوں کے اجتماع سے ظالم و طاغوت معاویہ کے خلاف اقدام فرمایا۔
اس لحاظ سے اس واقعہ میں ہم ابراہیمی حج کو دیکھتے ہیں جو صرف خشک عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہم سیاسی مسائل بھی بیان ہوئے ہیں، سخت حالات میں حق کی رہبری کا مسئلہ ظالم اور طاغوت کی رہبری سے نفرت جیسے مسائل پر گفتگو ہوئی ہے جو مکمل طور پر سیاسی مسائل ہیں۔
۳۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کا اپنے ہم عصر طاغوت سے خانہ کعبہ میں مقابلہ
ایک مشہور و معروف تاریخی واقعہ جس میں حج کے مراسم کے ساتھ سیاسی مسائل بھی پائے جاتے ہیں، امام سجاد علیہ السلام کا خانہ کعبہ میں مراسم حج کے دوران اموی طاغوت ہشام بن عبد الملک کے ساتھ مقابلہ ہے جس کا خلاصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں:
عبد الملک کی خلافت کا زمانہ (اموی سلسلہٴ خلافت کا پانچواں خلیفہ) تھا اس کا فرزند ہشام حج کے لئے شہر مکہ میں داخل ہوا، وہ طواف کے وقت حجر اسود کو چومنا چاہتا تھا لیکن کثیر ازدحام کی وجہ سے قریب نہ جاسکتا، چنانچہ حجر اسود کے قریب ہشام کے لئے ایک منبر رکھا گیا، وہ منبر پر گیا، ہشام کے پاس کچھ لوگ جمع ہوگئے اور وہ طواف کرنے والوں کو دیکھنے لگا، اچانک دیکھا کہ امام سجاد علیہ السلام بھی طواف میں مشغول ہیں، امام علیہ السلام جب حجر اسود کو چومنا چاہتے تھے تو لوگوں نے راستہ دیا اور آپ نے بہت ہی آرام سے نزدیک جاکر حجر اسود کو بوسہ لیا۔
اس موقع پر ایک شامی مرد نے ہشام سے کہا:
”یہ شخص کون ہے جس کا اتنا احترام ہورہا ہے؟“
ہشام نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: ” میں نہیں جانتا“۔
اس حساس موقع پر خاندان رسالت کا انقلابی شاعر فرزدق جو ائمہ علیہم السلام کے شاگردوں میں تھا اس نے اس شامی مرد سے کہا:
”ولکنی اعرفہ“(لیکن میں ان کو پیچانتا ہوں“۔)
شامی نے کہا:تو پھر بتاوٴ کہ یہ شخص کون ہے؟
فرزدق نے اما م سجاد علیہ السلام کی شان میں وہ مشہور ومعروف اور عظیم الشان قصیدہ پڑھا، جس کہ ۴۱ شعر ہیں اور جس کا مطلع یوں آغاز ہوتا ہے:
ھذاالذی تعرف البطحاء و طاٴتہ
والبیت یعرفہ والحل و الحرم
”یہ وہ شخص ہے کہ مکہ معظمہ کے سنگریز ہ اس کے پیروں کے نشانوں کو پہنچانتے ہیں، خانہ کعبہ اور حجاز کے بیابان، داخل حرم اور بیرون حرم اس کو پہچانتے ہیں“۔
یہ سنتے ہی ہشام کو غصہ ہو آگیا اور فرزدق کو قیدکرنے کا حکم دیدیا ،جس وقت امام سجاد علیہ السلام کو فرزدق کے قیدی بنائے جانے کی خبر ملی تو ان کے لئے دعا کی اور ان کی دلجوئی کی ،ان کے لئے بارہ ہزار درہم بھیجے،لیکن فرزدق نے ان درہموں کو قبول نہ کیا جس کے بعد امام علیہ السلام نے ان کو پیغام بھجوایا:
”تمہیں اس حق کی قسم جو ہم تم پر رکھتے ہیں ،اس مبلغ (ہدیہ)کو ہماری طرف سے قبول کر لو ،خدا وند عالم تمہاری کی پاک نیت اور تمہارے مقام سے واقف ہے “اس موقع پر فرزدق نے اس مبلغ کو قبول کر لیا،اور قید میں ہشام کی مذمت میں اشعار کہے۔[28]
اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام خانہ کعبہ کے طواف کے وقت ہشام کی شان و شوکت پر کوئی توجہ نہیں کرتے اور فرزدق کے کلام کی تائید کرتی ہیں جو مکمل طور پر سیاسی پہلو رکھتی تھی اور ان کی احوال پرسی کی،ا ن کے لئے دعاکی اور ۱۲۰۰۰/ درہم ان کے لئے بھیجے ، نیز ان کی پاک وپاکیزہ نیت کی قدر دانی کی،اور بھر پور طریقہ سے ان کی تائید کی۔
کیا یہ واقعہ اور امام علیہ السلام کی تائید اس چیز کی عکاسی نہیں کرتی کہ حج کے عظیم الشان موقع پر سیاسی مسائل کا بیان کرنا ائمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک مقبول اور محبوب کام تھا؟!
۴۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی سیاسی وصیت
جلیل القدر محدث ثقة الاسلام شیخ کلینی علیہ الرحمة موثق سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:ہمارے پدر بزرگوار(امام محمد باقر علیہ السلا م)نے وصیت فرمائی کہ میرے مال کا ایک حصہ وقف کرنا تاکہ سر زمین منیٰ میں د س سال تک مجھ پر گریہ کیا جائے اور میرے مظلومیت پر آنسو ں بہائے جائیں“۔[29]
یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے یہ وصیت کیوں نہ فرمائی کہ مدینہ میں ان کی قبر پر عزاداری کی جائے! اور یہ کیوں نہ وصیت فرمائی کہ حج کے موسم کے علاوہ مکہ یا منیٰ میں ان پر عزاداری کریں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام علیہ السلام چاہتے تھے کہ جب حج کے موسم کے دوران لوگ منیٰ میں جمع ہو جائیں اس وقت ان کے لئے عزاداری ہو ،مجلس برپا ہوتا کہ ظالموں کا پتہ چل جائے اور لوگوں پر بنی امیہ کا ظالمانہ کردار مسلمانوں کے بارے میں ان کی حق تلفی اور ظلم وستم واضح ہو جائے ،نیز اس طرح کے دوسرے مسائل بیان کئے جائیں،پس معلوم یہ ہوا کہ موسم حج میں ضروری سیاسی مسائل کا بیان کرنااس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ جس کے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام وصیت فرماتے ہیں، اور اپنے مال کا ایک حصہ وقف کرتے ہیں۔
احکام حج عبادت وسیاست دونوں کا مجموعہ ہے
جب ہم حج کے احکام کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے علاوہ عین سیاست ہیں، مثال کے طور پر درج ذیل چند نمونے:
جب انسان، حج کے لئے احرام پہنتا ہے تو لباس کے دو حصوں سے اپنے بدن کو چھپاتا ہے، تمام لوگ چاہے غریب ہو یا امیر ،حاکم ہو یا ریاعا، سب ایک طرح کے بن جاتے ہیں ،لہٰذایہ بھی ذات پات اور طبقہ بندی کا مقابلہ ہے جو کہ سیاسی لحاظ سے ایک اہم مسئلہ ہے۔
۲۔احرام کے احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ انسان کسی کو یہاں تک جانوروں اورگھاس کو بھی نقصان نہ پہنچائے،حشرات کو مارنا بھی حرام ہے ،حرم میں درخت اور گھاس کا اکھاڑنا بھی حرام ہے ،بدن سے بال اکھاڑنابھی حرام ہے ،اسلحہ ساتھ لینا بھی حرام ہے ،۔۔۔یہ تمام احکام ہمیں امنیت اور امن وامان کا درس دیتے ہیں جو حکومت کے سیاسی پہلو وٴںمیں ایک اہم مسئلہ ہے۔
۳۔طواف کعبہ کے وقت جب سات چکر پورے ہو جائیں تو مستحب ہے کہ حجر اسودپر ہاتھ پھیریں ،امام جعفر صادق علیہ السلام ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
”وھو یمین اللہ فی ارضہ یبایع بھا خلقہ“[30]
”حجر اسود زمین پر دست خدا ہے خداوند عالم اس کے ذریعہ اپنی مخلوق سے بیعت کرتا ہے“۔
یعنی مسلمان اس پر اپنا ہاتھ رکھ کرخدا سے بیعت کرتے ہیں۔
اصولی طورپر ”بیعت “مکمل طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے ،خدا سے بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیری راہ میں قدم بڑھاتے ہیں اور تیرے دشمنوں جیسے امریکہ اور اسرائیل نیز دیگر تمام مشرکین وکفار سے دشمنی کرتے ہیں۔
۴۔منیٰ کے میدان میں ”رمی جمرات“کرتے ہیں اور ان کی طرف جو شیطان کا محاذ ہے پتھر مارتے ہیں اس عمل کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ امریکہ ،اسرائیل اور دیگر شیطانی طاقتوں کے مظہر کی طرف پتھر پھینکنا چاہئے ہمیں دشمن کی پہچان اس طرح ہو کہ پتھر اس نشانہ پر ماریں جو ”جمرہ“پر جا کر لگے ،اگر تھوڑا بھی ادھر ادھر لگے تو وہ صحیح نہیں ہے۔
۵۔منیٰ کی قربان گاہ میں،اونٹ ،گائے یا بکرا قربانی کریں جو ایثار اور فدا کاری کا درس اور شیطانیت کے مظہر سے مقابلہ کے لئے سیاست کا اہم رکن ہے۔
یہاں پریہ چیز ذکر کردینا ضروری ہے کہ جس وقت امام مہدی (عج)ظہور فرمائیں گے ،تو خانہ کعبہ کے پاس ظہور ہوگا ،وہیں پر آپ کے ۳۱۳/انصار آپ کی بیعت کریں گے۔[31]
اس بنا پر ہے کہ حضرت فا طمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
”جعل اللہ الحج تشییداً للدین“۔[32]
”خدا وند عالم نے حج کو دینی بنیاد کے استحکام کے لئے واجب قرار دیا ہے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”لا یزال الدین قائما ما قامت الکعبة “[33]
”جب تک خانہ کعبہ پا بر جا ہے اسلام بھی پا برجا ہے“۔
واقعاً یہ حقیقت ہے کہ جب حج میں صرف اس کے عبادی پہلو پر اکتفاء کی جائے اور حج کے اہم ترین پہلو یعنی سیاسی پہلو کو نظرانداز کر دیا جائے تو کیا پھر کیا دینی بنیادیں مستحکم اور مضبوط ہو سکتی ہیں؟!
۸۲۔ عبد المطلب اور ابو طالب کی قبروں کی زیارت اور ان کے ایمان کے بارے میں ایک مناظرہ
اشارہ:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جناب ”عبد المطلب“ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے دادا کی قبر اور ”ابو طالب“حضرت علی علیہ السلام کے پدر بزرگوار کی قبر ”قبرستان حجون“میں ایک جگہ ہیں،اورجب شیعہ حضرات مکہ معظمہ مشرف ہوتے ہیں تو حتی الامکان ان دونوں بزرگو کی قبور کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، لیکن اہل سنت اس سلسلہ میں کوئی اہمیت نہیں دیتے ،بلکہ اس کو جائز نہیں مانتے۔
اس چیز کے پیش نظر درج ذیل مناظرہ پر توجہ فرمائیں:
ایک شیعہ عالم نقل کرتے ہیں: میرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کمیٹی کے سرپرست کے درمیان حضرت عبد المطلب اور جناب ابوطالب کی قبروں کی زیارت کے حوالہ سے گفتگو ہوئی۔
اس نے کہا: آپ شیعہ لوگ عبد المطلب اور ابوطالب کی قبروں کی زیارت کے لئے کیوں جاتے ہیں؟
میں نے کہا:کیاکوئی مشکل ہے؟
سر پرست: عبد المطلب ”فَتْرت“(خدا کی طرف سے پیغمبر نہ ہونے کا زمانہ)میں زندگی کرتے تھے ،کیونکہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آٹھ سال کے تھے اور مبعوث بر سالت نہیں ہوئے تھے اس وقت عبد المطلب کا انتقال ہوا،لہٰذا دین توحیدی اس زمانہ میں نہیں تھا ،اس بنا پر آپ حضرات کسی بنیاد پر ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں؟!
اور ابو طالب (نعوذ باللہ)مشرک دنیا سے گئے ہیں،لہٰذا مشرک کی زیارت کے لئے جانا جائز نہیں ہے؟!
میں نے کہا:کوئی بھی مسلمان جناب عبد المطلب کو مشرک کہنے کے لئے تیار نہیں ہے،وہ اسی زمانہ میں خدا پرست اور یکتا پرست تھے،وہ دین ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرتے تھے ،یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیاء میں سے تھے وہ اہل سنت کی کتابوں میں وارد ہونے والی روایات کے مطابق ابرہہ کے حملہ کے وقت جو خانہ کعبہ کو ویران کرنے آیا تھا ،اور سورہٴ فیل کے مطابق وہ خود ہلاک ہو گیا ،جس وقت عبد المطلب اپنے اونٹ کے لئے ابرہہ کے پاس گئے تو ابرہہ نے کہا:میرے لحاظ سے آپ بہت پست آدمی ہیں اپنے اونٹ لینے کے لئے توآگئے لیکن اپنے دین اور دینی عبادتگاہ ”کعبہ“ کے بارے میں کچھ نہیں کہتے “!
جناب عبد المطلب نے جواب دیا:
”انا رب الابل ،وان للبیت ربا سیمنعہ“۔
”میں اونٹوں کا مالک ہو،اور اس گھر کا بھی ایک مالک (خدا)ہے جو عنقریب خود اس کا دفاع کرے گا“۔
اس کے بعد جناب عبد المطلب خانہ کعبہ کے پاس آئے اور خانہ کعبہ کے دروازہ کا حلقہ پکڑ کر دعا کی ،نیز چند اشعار پڑھے۔جن میں سے ایک شعر کا مضمون یہ ہے:
”پالنے والے !ہر شخص اپنے اہل خانہ کا دفاع کرتا ہے ،توبھی اپنے حرم امن میں رہنے والوں کا دفاع فرما“[34]
یہی موقع وہ تھا کہ عبد المطلب کی دعا قبول ہوئی ،خداوند عالم نے ابابیلوں کے گروہ کو بھیجاجنھوں نے ابرہہ کے لشکر کو نابود کردیا ،سورہٴ فیل اس سلسلہ میں نازل ہوا۔
اور شیعہ روایات میںبیان ہوا ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:خدا کی قسم،میرے پدر گزرگوار ابو طالب ،دادا عبد المطلب اور ہاشم بن عبد مناف نے ہر گز بتوںکی پرستش نہیں کی۔
یہ حضرات کعبہ کی طرف نماز پڑھتے تھے ،اور جناب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق عمل کرتے تھے“۔[35]
اب رہی بات ایمان ابو طالب کی بات تو:
اولاً: ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور شیعہ علماء کے اجماع کی بناپر وہ مسلمان اور مومن اس دنیا سے گئے ہیں۔
ابن ابی الحدید (جو اہل سنت کے مشہور ومعروف عالم دین ہیں)نقل کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے سوال کی: ”کیا جناب ابو طالب مومن تھے؟“امام علیہ السلام نے فرمایا: ”جی ہاں“
ایک دوسرے شخص نے امام سجاد علیہ السلام سے سوال کیا: ”یہاں کے کچھ لوگ جناب ابوطالب کو کافر کہتے ہیں“۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: واقعا ً تعجب ہے اس بات پر کہ یہ لوگ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم اور جناب ابو طالب کو ناجائز نسبت دیتے ہیں ،پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے مومن عورت کا کافر مرد سے نکاح کو ممنوع قرار دیا ہے ،جب کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد اسلام میں سبقت کرنے والوں میں تھیں،اور جناب ابو طالب کی آخری عمر تک فاطمہ بنت اسد ان کی زوجیت پر باقی رہیں“[36]
ثانیاً: اہل سنت کے علماء اور بہت سے راویوںنے نقل کیا ہے:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عقیل بن ابو طالب سے فرمایا:
”انی احبک حبین ،حبا لقرابتک منی وحبا لما کنت اعلم من حب عمی ابی طالب ایاک“۔[37]
”میں تم سے دہری محبت کرتا ہوں ایک رشتہ داری کی بنا پر دوسرے اس وجہ سے کہ میرے چچا ابو طالب تمہیں دوست رکھتے تھے “۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گفتگو بہترین گواہ ہے کہ آنحضرت ایمان ابو طالب پر عقیدہ رکھتے تھے، ورنہ تو کافر کی دوستی کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عقیل سے محبت کریں۔[38]
مزید وضاحت:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ برادران اہل سنت اپنے آباء واجداد کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ابو طالب کے ایمان نہ لانے کو نسل بہ نسل نقل کرتے چلے آئے ہیں،لیکن اس چیز سے غافل ہیں کہ ان کی معتبر اور مستند کتابوں میں دسیوں بلکہ سیکڑوں روایت موجود ہیں جو ایمان ابوطالب پر بہترین دلیل اور گواہ ہیں ،لیکن حقیقت میں حضرت ابو طالب کو مشرک کہنے کا راز متعصب اور ہٹ دھرم لوگوںکی ان کے فرزند امام علی علیہ السلام سے عداوت اور دشمنی ہے اور یہ تعصب بنی امیہ کے زمانہ سے آج تک جاری ہے خود حضرت علی علیہ السلام کی قسم کہ اگر ابو طالب آپ کے باپ نہ ہوتے تو حضرت ابو طالب کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مخلص مومن اور پاکیزہ ترین چچا اور قریش کی سب سے زیادہ مومن شخصیت کے عنوان سے پہچنواتے۔
حقیر کی ملاقات علامہ امینی مرحوم صاحب کتاب ”الغدیر “کے فرزند ارجمند سے ہوئی ،جناب ابو طالب کے بارے میں گفتگو ہونے لگی تو موصوف نے فرمایا:جس وقت ہم نجف اشرف میں تھے ،تو ہم نے سنا کہ ”احمد خیری“مصری دانشور حضرت ابو طالب کے بارے میں کوئی کتاب لکھ رہے ہیں ،ہم نے ان کو ایک خط لکھا کہ آپ اس کتاب کو اس وقت تک نہ چھپوائیں کہ جب تک الغدیر کی ساتویں جلد (جو ابھی تک نہیں چھپی اور چھاپ خانہ میں ہے)آپ تک نہ پہنچچائے جس وقت الغدیر کی ساتویں جلد چھپ گئی (جس کا آخری حصہ حضرت ابو طالب کے بارے میں ہے)فوراً ہی ان کے لئے کتاب بھیجی کچھ مدت کے بعد جناب ”احمدخیری“کا خط آیا جس میں شکریہ کے بعد تحریر تھا کہ الغدیر کی ساتویں جلد مجھے ملی،میں نے اس کتاب کو بغور مطالعہ کیا،اس کتاب نے ابو طالب کے بارے میں میرا عقیدہ بالکل بدل دیا ،اور میں نے ابوطالب کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا بالکل بر عکس ہو گیا اور میرا نظریہ بالکل بد ل گیا ہے اور مجھے ایک نئی فکر مل گئی ہے۔
آخر میں موصوف نے لکھا تھا:حضرت ابو طالب کا دفاع اور ان کا جہاد و کوشش (اسلام کے ثبات اور اسلام کی نشر واشاعت میں)اس قدر زیادہ ہیں کہ تمام مسلمانوں کے ایمان میں ان کا حصہ ہے اور تمام مسلمان ان کے مقروض ہیں“
سر پرست: اگرا یمان ابو طالب اتنا واضح و روشن ہے تو پھرہمارے علماء ابو طالب کے بارے میں کیوںمختلف باتیں کہتے ہیں اور بعض نے تو ان کے کفر کی وضاحت کی ہے ،اس مشکل کا راز کیا ہے؟!
میں نے کہا: جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے نامناسب الفاظ یہاں تک کہ نماز کی قنوت میں بھی لعنت کی جاتی تھی، اور تقریبا ً۸۰ سال منبر کے اوپر سے (نعوذ باللہ) آپ پر لعنت کی جاتی تھی ،زر خرید قلموں نے جھوٹی اور بے بنیاد روایات گڑھ کر جناب ابوطالب کو کافر بتادیا، تاکہ حضرت علی علیہ السلام کو کافر زادہ کے عنوان سے لوگوں میں مشہور کیا جائے،اور قطعی طور پر آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہی جعلی روایات آپ لوگوں کی کتابوں میں داخل ہوگئیں جس نے ذہنوں میں یہ چیز ڈال دی ہے ،ورنہ ایمان ابو طالب مکمل طور پر واضح ہے۔
ایک دوسرا راز یہ ہے کہ جناب ابو طالب راہ اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفاع میں خاص طریقہ سے تقیہ کے عالم میں رفتار کرتے تھے، تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہتر طور پر حمایت کر سکیں،اور اگر وہ علنی طور پر ایمان کااظہار فرماتے تو آغاز بعثت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حمایت بہتر اور شائستہ طور پر نہیں کر سکتے تھے۔
اس لحاظ سے بہت سی روایات کے مطابق حضرت ابو طالب کی مثال ”مومن آل فرعون“اور ”اصحاب کہف“کی طرح ہے جو دین کی ترقی و سر فرازی کے لئے اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے ،تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں ایک طولانی روایت کی ضمن میں بیان ہوا ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”خداوندعالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کی کہ میں آپ کی دو گروہوں کے ذریعہ مدد کروںگا ،ایک گروہ مخفی طور اور دوسرا گروہ ظاہری طور پر مدد کرے گا، پہلے گروہ کے سب سے بہترین رئیس جناب ”ابواطالب “اور دوسرے گروہ کے سب سے بہتر سر پرست ان کے فرزند حضرت علی علیہ السلام ہیں“[39]
اہل علم پر یہ بات واضح ہے کہ یہ دونوں گروہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے ہیں، مخفیانہ مقابلہ ظاہری مقابلہ سے کم نہیں ہوتا ہے۔
ایمان ابو طالب کے بارے میں ایک اور مناظرہ
ایک مدرسہ میں میرے اور اہل سنت کے عالم کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کے پدر بزرگوار جناب ابوطالب کے ایمان کے سلسلہ میں ایک مناظرہ ہوا:
سنی عالم:ہماری معتبرکتابوں میں ابو طالب کے بارے میں روایات مختلف بیان ہوئی ہیں ،بعض میں ان کی مدح و ثنا کی گئی ہے اور بعض میں ان کی مذمت کی گئی ہے۔
موٴلف:(ائمہ معصومین علیہم السلام جو عترت پیامبر صلی الله علیه و آله وسلم ہیں کی پیروی کرتے ہوئے) شیعہ علماء کا اتفاق اس بات پر ہے کہ جناب ابو طالب ایک ممتاز شخصیت ،مومن اور راہ اسلام میں بہت زیادہ کوشش کرنے والے فرد ہیں۔
سنی عالم:اگر ایسا ہے تو پھر(جناب )ابو طالب کے ایمان نہ لانے پر بہت سی روایات موجود ہیں؟
موٴلف:جناب ابو طالب کا جرم یہ ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے پدر بزرگوار ہیں، حضرت علی علیہ السلام کے سرسخت دشمن جن میں سر فہرست معاویہ ہے (علیہا الہاویہ) سب نے بیت المال سے دین فروشوں کو ہزار وں دینار دئے تاکہ جعلی اور جھوٹی روایتیں گڑھیں اور ان روایت گڑھنے والے سیم و زر کے غلاموں کی بے شرمی نے اتنا کام کیا کہ ابو ہریرہ (جو جھوٹی روایت گڑھنے میں مشہور ہے)سے نقل کیا گیا کہ اس نے کہا:
”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رحلت کے وقت وصیت کی کہ علی کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے“![40]
لہٰذامعاویہ اور دیگر بنی امیہ خلفاء کے زمانہ میں شکم پرست اور بے شرم وذلیل لوگوں نےجناب ابوطالب کے مشر ک ہونے پر جعلی احادیث گڑھی ظاہر سی بات تھی ،ان لوگوں نے جناب ابوطالبعلیہ السلام کے سلسلہ میں اس قدر غلط پروپیگنڈہ کیا جس کا ہزاروں حصہ بھی ابو سفیان کے بارے میں بھی نہیں کیا اس کا باطن پلید تھا اور پوری زندگی کے کارنامے سیاہ تھے۔
چنانچہ اس گندی سیاست کے تحت ہی جناب ابو طالب پر مشرک ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے۔
سنی عالم:قرآن مجید کے سورہٴ انعام آیت ۲۶ میں ارشاد خداوندی ہے:
”وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْاٴَوْنَ عَنْہ“
”اور دوسروں کو اس سے روکتے ہیں ،اور خود بھی اس سے دوری کرتے ہیں“
اس آیت سے مر اد(بعض ہمارے مفسرین کے قول کے مطابق) یہ ہے کہ ”بعض لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دفاع کرتے تھے ،لیکن پھر بھی خود پیغمبر سے دوری کرتے تھے “
یہ آیت ابو طالب جیسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو دشمنوں کے مقابلہ میں پیغمبر ٴ کا دفاع کرتے تھے لیکن ایمان کے لحاظ سے ان سے دوری کرتے تھے !
موٴلف کا قول:اولاً: جیسا کہ ہم بیان کریںگے:آیت کے معنی اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے کئے ہیں۔
ثانیا ً: بالفرض اگر ہم مان بھی لیں کہ یہی معنی صحیح ہیں تو بھی کس دلیل کے تحت یہ آیہٴ شریفہ جناب ابوطالب کے بارے میں صادق آتی ہے ؟!
سنی عالم: دلیل یہ ہے کہ ”سفیان ثوری حبیب ابن ابی ثابت“ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا: ”یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، چونکہ لوگوں کو پیغمبر اکرم کے آزار و اذیت پہنچانے سے روکتے تھے ،لیکن خود اسلام سے دور رہے “[41]
مولف: آپ کے جواب میں مجبوراً چند چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں:
۱۔آیت کے معنی اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے کئے ہیں بلکہ آیت کے قبل وبعد کے پیش نظر کفار ومشرکین کے بارے میں ہے جس کے ظاہر ی معنی یہ ہیں: ”وہ لوگ (کفار)لوگوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے روکتے تھے اور خود بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور ی کرتے تھے“[42] لہٰذا آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دفاع کی کوئی بات نہیں ہے۔
۲۔لفظ ”ینئون “دوری کے معنی میں ہے ،جب کہ جناب ابو طالب ہمیشہ پیغمبر اکرم کے ساتھ رہے اور کبھی بھی آپ سے دور ی نہیں کی۔
۳۔سفیان ثوری کی روایت جس میں ابن عباس کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:مذکورہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ روایت چند لحاظ سے قابل تردید ہے:
الف:سفیان ثوری ،یہاں تک کہ خود بزرگ علمائے اہل سنت کے اعتراف کی بنا پر جھوٹا اور غیر موٴثق ہے۔[43]
اور ابن مبارک سے منقول ہے کہ سفیان (ثوری) تدلیس کرتا تھا یعنی جھوٹ بولتا تھا اورحق کو ناحق اور ناحق کو حق کر کے پیش کرتا تھا۔[44]
اس مذکورہ روایت کا دوسرا راوی ”حبیب بن ابی ثابت “ہے اور یہ بھی ابو حیان کے قول کے مطابق تدلیس سے کام لیتا تھا۔[45]
ان تمام چیزوں کے علاوہ مذکورہ روایت ،مرسل ہے یعنی حبیب اور ابن عباس کے درمیانی راوی حذف ہیں۔
ب: ابن عباس ان مشہور ومعروف افراد میں سے ہیں جو ایمان ابو طالب کا عقیدہ رکھتے تھے، لہٰذا کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس طرح کی روایت نقل کریں؟!
اس کے علاوہ جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ جناب ابن عباس نے مذکورہ آیت کے معنی اس طرح کئے ہیں: ”کفار لوگوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے روکتے تھے ،اور خود بھی آنحضرت سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے“۔
ج: مذکورہ روایت کہتی ہے:یہ آیت صرف ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کہ لفظ ”ینھون“اور ”ینئون“جمع کے صیغے ہیں۔
اس بنا پر بعض تفسیر کے مطابق مذکورہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچاوٴں کو شامل ہے کیونکہ آنحضرتکے دس چچا تھے، لیکن ان میں سے تین مومن چچا یعنی حمزہ، عباس اور ابو طالب کو شامل نہیں ہے۔
مزید وضاحت:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے دوری کرتے تھے جیسا کہ اپنے چچا ابو لہب سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے لیکن جناب ابوطالب کے ساتھ ان کی آخری عمر تک خصوصی رابطہ تھا، چنانچہ آنحضرت نے آپ کی وفات کے سال کو ”عام الحزن“(غم کا سال )نام رکھا اور ان کے جنازہ کی تشییع کے وقت فرماتے جاتے تھے:
”وابتاہ واحزناہ! علیک کنت عندک بمنزلة العین من الحدقة والروح من الجسد“[46]
”اے پدر بزرگوار!آپ کی موت میرے نزدیک کس قدر غمناک ہے ،میں آپ کے نزدیک آنکھ میں پتلی کی مانند اور بدن میں روح کی طرح تھا“[47]
کیا واقعاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایسی ناجائز تہمت لگائی جا سکتی ہے کہ آپ کسی مشرک کی اس طرح تعریف کریںاور اس کی وفات پر اس قدر غم و اندوہ کا اظہار کریں جب کہ قرآن مجید میں متعدد آیات یہ اعلان کرتی ہیں کہ مشرکین سے بیزاری اختیار کرو؟!
۸۳۔ کیا حضرت علی علیہ السلام بہت قیمتی انگوٹھی پہنچتے تھے
اشارہ
ہم سورہٴ مائدہ کی ۵۵ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
” إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ“
”تمہارا ولی صرف خدا ،اس کا رسول اور وہ صاحب ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔
شیعہ اور سنی دونوںسے متواتر روایت نقل ہوئی ہے کہ یہ آیت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آپ کی رہبری اور ولایت کی دلیل ہے۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مولائے کائنات علی بن ابی طالب علیہ السلام مسجد میں نمازپڑھ رہے تھے ایک سائل نے آکر سوال کیا تو کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ حضرت علی علیہ السلام اس وقت رکوع میں تھے اور اسی رکوع کی حالت میں آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا اور سائل نے آکر آپ کی انگلی سے وہ انگو ٹھی اتارلی۔ اس طرح آپ نے نماز میں صدقہ کے طور پر اپنی انگوٹھی فقیر کو دے دی، اس کے بعد آپ کی تعریف و تمجید میں یہ آیت نازل ہوئی۔[48]
اب آپ ایک یونیورسٹی کے طالب علم کاایک عالم دین سے مناظرہ ملاحظہ فرمائیں:
طالب علم: ”میں نے سنا ہے کہ جو انگوٹھی علی علیہ السلام نے فقیر کو دی تھی وہ بہت ہی قیمتی تھی اور بعض کتب جیسے تفسیر برہان(ج۱،ص۴۸۵)میں ملتا ہے کہ اس انگوٹھی کا نگینہ ۵ مثقال سرخ یاقوت تھا جس کی قیمت شام کے خزانہ کے برابر تھی، حضرت علی علیہ السلام یہ انگوٹھی کہاں سے لائے تھے ؟کیا علی علیہ السلام حُسن وتزئین پسند تھے ؟کیا اتنی قیمتی انگوٹھی پہننا فضول خرچی نہیں ہے؟تصویر کے دوسرے رخ سے امام علی علیہ السلام کی طرف یہ نسبت دینا بالکل غلط ہے کیونکہ وہ لباس ،کھانے اور دوسری دنیوی اشیاء میں حد درجہ زہد سے کام لیتے تھے جیسا کہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
”فوالله ما کنزت من دنیا کم تبراً ولاادخرت من غنائمھا وفراً ولا اعددت لبالی ثوبی طمر ا ولا حزت من ارضھا شبرا ولا اخذت منہ الا کقوت اتان دبرةٍ“۔
”خدا کی قسم !میں تمہاری دنیا سے سونا چاندی جمع نہیں کرتا اور غنائم اور ثروتوں کا ذخیرہ نہیں کرتا اور اس پرانے لباس کی جگہ کوئی نیا لباس نہیں بنواتا اور اس کی زمین سے ایک بالشت بھی میں نے اپنے قبضہ میں نہیں کیا اور اس دنیا سے اپنی تھوڑی سی خوراک سے زیادہ نہیں لیا ہے۔[49]
عالم دین: ”یہ گراں قیمت انگوٹھی کے بارے میں فالتوبات ہے جو بالکل بے بیناد ہے اور متعدد روایتوں کے ذریعہ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ہرگز اس طرح کی انگوٹھی کا ذکر نہیں ہوا ہے اور صرف تفسیر برہان میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ اس انگوٹھی کی قیمت ملک شام کے خزانہ کے برابر تھی یہ روایت ”مرسلہ“ہے اور ممکن ہے کہ اس کے راویوں نے مولائے کائنات کی اہمیت کو کم کرنے کی خاطر اس روایت کو گڑھا ہو“۔
طالب علم: ”بہر حال انگوٹھی قیمتی تھی یہ بات تویقینی ہے ورنہ پھر فقیر کا پیٹ کیسے بھرتا؟“
عالم دین: ”شاعر کے قول کے مطابق اگر ہم فرض کر لیں کہ یہ انگوٹھی بہت قیمتی تھی جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
بر وای گدای مسکین درخانہ علی زن
کہ نگین پادشاہی دھد از کرم ،گدا را
تاریخ میں ملتا ہے کہ یہ انگوٹھی ”مروان بن طوق “نامی ایک مشرک کی تھی امام علیہ السلام جنگ کے دوران جب اس پر کامیاب ہوگئے تو اسے قتل کر کے غنیمت کے طور پر اس کے ہاتھ سے یہ انگوٹھی اتارلی اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی خدمت میں لے کر آئے تو آپ نے فرمایا: ”اس انگوٹھی کو مال غنیمت سمجھ کر تم اپنے پاس رکھو“، ساتھ ساتھ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ جانتے تھے کہ اگر علی علیہ السلام اس انگوٹھی کو لے بھی لیں گے تو کسی امین کی طرح اس کی حفاظت کریں گے اور مناسب مو قع پر اسے کسی محتاج و فقیر کو دے دیں گے۔
اس طرح یہ انگوٹھی آپ نے خریدی نہیں تھی اور ابھی یہ انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں چند دن ہی رہی ہوگی کہ صرف ایک محتاج کی آواز سن کر آپ نے اسے دے دیا۔[50]طالب علم: ” لوگ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نماز کے وقت خشوع و خضوع میں اس حدتک غرق ہوجاتے تھے کہ امام حسن علیہ السلام کے حکم کے مطابق جنگ صفین میں ان کے پیر میں لگے تیر کو نماز کی حالت میں نکال لیا گیا تھا لیکن انھیں احساس تک نہ ہوا اب اگر اس طرح ہے تو حالت رکوع میں انھوں نے اس فقیر کی آوازکیسے سن لی اور انگوٹھی اسے دےدی؟“
عالم دین: ” جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہیں وہ یقینا غفلت میں ہیں کیونکہ محتاج وفقیر کی آواز سننا اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو جہ خدا کی طرف عین توجہ ہے۔علی علیہ السلام نماز میں اپنے سے بیگانہ تھے نہ کہ خدا سے ، واضح طور پر نماز کی حالت میں زکوٰة دینا عبادت کے ضمن میں عبادت ہے اور جو روح عبادت کے لئے غیر مناسب ہے وہ مادی اور دنیاوی چیزیں ہیں لیکن جو توجہ خدا وند متعال کی راہ میں ہو وہ یقینا روح عبادت کے موافق ہے اور تقویت کرنے والی ہے۔
البتہ یہ جاننا چاہئے کہ خدا کی توجہ میں غرق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا احساس بے اختیاری طور پر اس کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ جو چیز خداکی مرضی کے مطابق نہیں ہے اس سے اپنی توجہ ہٹالے۔
۸۴۔ کیوں علی علیہ السلام کا نام قرآن میں نہیں ؟
علمائے اہل سنت اور اہل تشیع کی ایک بہت ہی گرماگرم مجلس تھی جس میں تمام افراد اس بات پر متقق تھے کہ بغیر کسی تعصب کے اور حسن نیت کے ساتھ مذاہب اسلام کے مذہب حقہ کے متعلق مذاکرہ کریں ،چنانچہ اس مناظرہ کا آغازاس طرح ہوا:
سنی عالم: ”اگر علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بلا فصل خلیفہ ہیں تو یہ ضروری تھا کہ قرآن مجیدمیں اس چیز کا ذکر ہوتا تاکہ مسلمان اختلاف کا شکار نہ ہوتے“۔
شیعہ عالم: ”زید بن حارثہ کے علاوہ قرآن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے کسی صحابی کا نام نہیں آیا ہے اور زید بن حارثہ کا نام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیدکی سابق بیوی”زینب“کے ساتھ شادی کے سلسلہ میں آیا ہے“۔[51]
سنی عالم: ”جس طرح ایک جزئی اور فرعی حکم کی مناسبت کی وجہ سے زید کا نام قرآن میں آیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری تھا کہ علی علیہ السلام کا نام ان کی امامت کے سلسلہ میں آئے“۔
شیعہ عالم: ”اگر علی علیہ السلام کا ذکر قرآن میں ہوتا تو آپ کے دشمن کی کثرت سے وہ لوگ قرآن ہی کو تحریف کر دیتے لہٰذا مناسب یہی تھا کہ خدا آپ کی رہبری اور ولایت کا ذکر اوصاف سے کرے کیونکہ قرآن کی یہ روش رہی ہے کہ اس نے کلیات بیان کئے ہیں اور اس کا مصداق پیغمبر اکرم نے معین کیا“۔
سنی عالم: ”قرآن میں علی علیہ السلام کے اوصاف کہاںپر بیان ہوئے ہیں؟“
شیعہ عالم: ”سیکڑوں آیات میں علی علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور بہت سی آیتیں تو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئیں ()جیسے آیت ولایت (سورہٴ مائدہ ۵۵)آیت اطاعت (سورہٴ نساء ۵۹)آیت مباہلہ(سورہٴ آل عمران ۶۶۱)آیہ تطہیر (سورہٴ احزاب ۲۳)غدیر خم میں آیہٴ بلّغ(سورہٴ مائدہ۷)آیت انذار(سورہٴ شعراء) آیت مودت (سورہٴ شوریٰ ۲۳)آیت اکمال (سورہٴ مائدہ ۳۰)وغیرہ۔[52]
مذکورہ آیتوں میں ہر ایک آیت کی شان نزول کے ساتھ ساتھ شیعہ اور سنی روایتوں میں یہ نقل
”وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا“[53]
”اور رسول جو تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے منع کردے اسے چھوڑ دو“
اور حدیث ثقلین کے مطابق جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا ہے: ”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔۔۔“اور اسی طرح تمہاری متعدد روایتوں کے مطابق آنحضرت نے یہ فرمایا: ”میں دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ،قرآن اوراپنی سنت “اس وجہ سے ہمیں چاہئے کہ سنت یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باتوں پر غور کریں اور ان پر عمل کریں اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ مذکورہ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی بیناد پر علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے قرآن مجید نے امام علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین اور بلا فصل خلیفہ بتایا اگر چہ مصلحت کی بنا پر آپ کا قرآن میں نام نہیں آیا ہے۔قرآن میں صرف چار جگہوں پر سول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آیا ہے لیکن ان کے اوصاف سیکڑوں مرتبہ ذکر ہوئے ہیں۔([54])
۸۵۔ شیعہ مذہب کی پیروی (ہی) صحیح ہے
مذکورہ نشست میں بقیہ مناظرہ اس طرح آگے بڑھا:
سنی عالم نے اپنی بات بدل کر کہا: ”اب اگر یہ بنا رکھی جائے کہ پانچ مذہب میں سے کسی ایک کی پیروی کریں تو کس مذہب کی پیروی کرناہمارے لئے بہتر ہے ؟“
شیعہ عالم: ” اگر انصاف سے دیکھیں تو مذہب جعفری کی پیروی کرنا چاہئے کیونکہ مذہب جعفری مکتب امام جعفر صادق علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لیا گیا ہے اور جو بھی اسلامی احکام امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے بیان ہوئے ہیں وہ یقینا قرآن اور سنت نبوی سے اخذ کئے گئے ہیں کیونکہ بہر حال ”گھر کی بات ، گھر والے زیادہ بہتر جانتے ہیں“۔(جس کی تفصیل مناظرہ ۷۴ میں گزر چکی ہے)
اس بحث کی تکمیل کے لئے”الازہریونیورسٹی“ کے مشہور و عظیم استاد مفتی ”شیخ محمود شلتوت“ کے فتوے کو نقل کرتے ہیں جو دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیة“کے لئے انھوں نے دیا تھا اور ۱۳۷۹ ھ میں ”رسالة الاسلام “ داراالتقریب میں یہ فتویٰ چھپ چکا ہے۔
”جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا اتباع کیا جائے یاوہ جو بغیر ہدایت کئے ہدایت پاہی نہیں سکتا(تمہیں کیا ہوگیا ہے) تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟
اس بنا پر اصلح اور متقی کا انتخاب سو فیصد اسلامی اور عقلی طریقہ ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:
”من تقدم علی المسلمین وھو یری ان فیھم من ھو افضل منہ فقد خان اللہ ورسولہ والمومنین “
”جو مسلمانوں کے کام کے لئے آگے بڑھے جب کہ وہ دیکھ رہا ہو کہ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو اس سے افضل ہے تو بلا شبہ اس نے اللہ ،اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی“۔(الغدیر،ج۷)
شیخ محمود شلتوت کا تاریخی فتوی
شیخ شلتوت اپنے اس عظیم فتوے کے ایک حصہ میں لکھتے ہیں:
”انّ مذہب الجعفریہ المعروف بمذہب الشیعة الامامیة الاثنا عشریہ، مذہب یجوز التعبد بہ شرعاً، کسائر مذاہب اہل السنة، فینبغی للمسلمین ان یعرفوا ذلک، و اَن یتخلّصوا من العصبیة بغیر الحق لمذاہب معینة، فما کان دین الله و ما کانت شریعتہ بتابعة لمذہب، او مقصورة علی مذہب، فالکلّ مجتہدون مقبولون عند الله تعالیٰ یجوز لمن لیس اہلاً للنّظر و الاجتہاد تقلیدہم و العمل بما یقرّرونہ فی فقہہم، و لا فرق فی ذلک بین العبادات و المعاملات“[55]
”مذہب جعفری جو شیعہ اثنا عشری کے نام سے مشہور ہے اس کی پیروی اور اس پر اعتقاد رکھناسنی مذہب کے دوسرے تمام مسلکوں کی طرح جائز ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کے متعلق آگاہی پیدا کریں اور بے جا تعصب اور عنادسے باز رہیں اس مذہب کے تمام علماء مجتہد ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کے فتاوے مقبول ہیں۔
لہٰذا جو خود مجتہد نہ ہو اس کے لئے ان کے تقلید کرنا جائز ہے اور انھوں نے اپنی فقہ میں جو احکام درج کئے ہیں ان پر عمل کریں اس سلسلے میں عبادات اور معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے“۔
اہل سنت کے اساتذہ اور عظیم مفکرین جیسے محمود فخام جامعة الازہر کے سابق استاد ،عبد الرحمن البخاری، قاہرہ کی مساجد کے متولی اور عبد الفتاح عبد المقصود مصر کے زبردست موٴلف و غیرہ نے شیخ محمود کے اس فتوے کی تائید کی ، چنانچہ شیخ فخام کہتے ہیں۔
”خدا وند متعال شیخ شلتوت پر رحمت نازل کرے کہ انھوں نے اس عظیم اور اہم بات پر توجہ دی اور نہایت بہادری سے ہمیشہ زندہ رہنے والا فتویٰ دیا کہ مذہب شیعہ اثنا عشری ایک فقہی اور اسلامی مذہب ہے اور یہ قرآن و سنت کے دلائل کی بنیاد پر استوار ہوا ہے لہٰذا اس پر عمل جائز ہے“۔
عبد الرحمن بخاری کہتے ہیں:
”میں آج بھی اپنا فتوی مذہب اربعہ میں منحصر نہ سمجھتے ہوئے شیخ محمود شلتوت کے فتوے کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہوں کہ شیخ شلتوت امام ومجہتد ہیں اور ان کی رائے عین حقیقت ہوا کرتی ہے“۔
عبد الفتاح عبد المقصود لکھتے ہیں:
”مذہب شیعہ اثنا عشری اس لائق ہے کہ سنی مذہب میں موجود تمام مسالک کے ساتھ اس کی بھی پیروی کی جائے، سنی مذہب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ عمل صرف اس وقت صحیح ہوگا جب ایسے مسلک کی پیروی کی جائے جو سب سے افضل وبرتر ہو ،جب ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ شیعہ مذہب کے اصل منبع حضرت علی علیہ السلام ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد وہ سب سے زیادہ احکام دین جاننے والے تھے“۔[56]
۸۶۔قبروں کی عمارتوں کو ویرانی کے بارے میں ایک مناظرہ
اشارہ
جب میں مدینہ گیا تو وہاں اسلام کی عظیم شخصیتوں جیسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ،امام سجاد علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی قبروں کو زمین کے برابر اور خاک آلود دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا حالانکہ ان تمام قبروں پر پہلے قبے اور منیاریں تھی مگر وہابیوں نے شرک اور حرام کے بہانے سے ۱۳۴۴ ھ میں انھیں مسمار کر دیا۔
اسی سلسلہ میں ایک شیعہ اور وہابی عالم کے درمیان ایک مناظرہ ہوا جو مندرجہ ذیل تفصیل کے ساتھ پیش خدمت ہے:
شیعہ عالم: ”تم لوگ کیوں ان مزاروں کو ویران کر کے ان کی اہانت کرتے ہو؟“
وہابی: ”کیا تم حضرت علی علیہ السلام کو مانتے ہو؟“
شیعہ عالم: ”کیوں نہیں وہ تو رسول کے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے پہلے امام ہیں“۔
وہابی: ”ہماری معتبر[57] کتابوں میں اس طرح نقل ہوا ہے“۔
”حدثنا یحیيٰ بن یحیيٰ ،وابو بکر ابی شیبہ وزہیر بن حرب قال یحیيٰاخبرنا ،وقال الآخرون ،حدثنا وکیع عن سفیان عن حبیب ابن ابی الھیاج الاسدی قال لی علی ابن ابی طالب ”الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ ان لا تدع تمثالا الاطمستہ ولا قبراً مشر فاً الا سویتہ۔“
”تین آدمی یحی بن یحی، ابو بکر اور زہیر بن حرب وغیرہ نقل کرتے ہیں کہ وکیع نے سفیان اور اس نے حبیب اور اس نے ابی وائل اور اس نے ابی الہیاج اسدی سے نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے ابی الہیاج سے فرمایا:
کیا میں تمہیں اس بات پر ترغیب دلاوٴں جس کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ترغیب کی ہے کوئی تصویر بھی بغیر محو کئے نہ چھوڑو اور کوئی بھی بلند قبر بغیر زمین کے برابر کئے نہ چھوڑو“۔
شیعہ عالم: ” یہ حدیث سند اور دلالت دونوں اعتبار سے مخدوش ہے سند کی رو سے اس کہ لئے اس کے راویوں میں وکیع ،سفیان ،حبیب بن ابی ثابت ،ابی وائل جیسے لوگ ہیں کہ جن کی حدیث قابل اطمینان نہیں ہے جیسا کہ احمد بن حنبل نے ”وکیع“کے بارے میں نقل کیا ہے”اس نے پانچ سو حدیثوں میں غلطی کی ہے“۔[58]
اسی طرح” سفیان “کے بارے میں ابن مبارک سے نقل ہوا ہے کہ ”سفیان حدیث نقل کرتے وقت تدلیس کرتا تھا لیکن جب مجھے دیکھتا تو شرماجاتا تھا، تدلیس: یعنی حق وناحق کو مخلوط کردینا“۔[59]حبیب بن ثابت کے بارے میں ابن حیان نے نقل کیا ہے کہ وہ بھی حدیثوں میں تدلیس کرتا تھا۔[60]
ابو وائل کے بارے ملتا ہے کہ وہ ناصبی اور امام علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا۔[61]
قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام صحاح ستہ میں ابو الہیاج سے صرف یہی ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ راویوں میں سے نہیں تھا اور قابل اعتماد بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں سمجھی جا سکتی۔
لیکن دلالت اور معنی کے لحاظ سے:
الف: ”مشرف“جو مذکورہ حدیث میں آیا ہے کہ اس کے معنی لغت میں ایک ایسا بلند مقام جو دوسرے مکانوں سے اونچا ہو اس کی وجہ سے تمام بلندی اس میں شامل نہیں ہوگی۔
ب: ”لفظ”سویة“کے معنی لغت میں برابر قرار دینے کے ہیں اور اسی طرح اس کے دوسرے معنی ٹیڑھی چیز کو سیدھا کرنا ہے۔
اب اس حدیث کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ ہر اونچی قبر کو ویران کر دو جب کہ قبروں کو زمین کے برابر کرنا اسلامی احکامات کے خلاف ہے کیونکہ تمام اسلام فقہاء نے قبر کو زمین سے ایک بالشت بلند کر نا مستحب قرار دیا ہے۔[62]
دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”سویة “کا مطلب قبر کے بالائی حصہ کو ایک سطح میں برابر کر دیا جائے نہ یہ کہ اسے اونٹ کے کوہان یا مچھلی کی پشت کی طرح کر دیا جائے جیسا کہ اہل سنت کے علماء نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ان تین احتمالات ،قبر ڈھادینا قبر کو زمین کے برابر کر دینا اور اس کے بالائی حصہ کو مسطح کرنے میں پہلا اور دوسرا احتمال غلط ہے اور تیسرا صحیح ہے، اس بنا پر یہ حدیث دلالت کے اعتبار سے بھی اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ قبروں کا ویران کرنا جائز ہے۔[63]
یہاں ہم تھوڑا سا اضافہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر امام علی علیہ السلام مزار اور قبور کو ویران کرنا واجب اور ضروری جانتے تو ان کی خلافت کے زمانہ میں اولیاء خدا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبریں موجود تھیں انھیں کیوں نہیں ویران کیا کیونکہ تاریخ میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ملتی کہ آپ نے کسی قبر کو مسمار کیا ہو کہ یہ اونچی ہے۔
اور اگر عصر حاضر میں وہابی مزاروں کو ویران کرنا واجب جانتے ہیں تو ابھی تک پیغمبر اکرم ، ابوبکر وعمر کے مزاروں کو کیوں نہیں ویران کیا؟
وہابی: ”ان کے مزاروں کو اس لئے خراب اور ویران نہیں کیا کیونکہ ان کے اور نماز گزاروں کے درمیان دیوار حائل ہوتی ہے جس کی وجہ سے نماز گزار انھیں اپنا قبلہ قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان پر سجدہ کر سکتے ہیں“۔
شیعہ عالم: ”یہ کام تو صرف ایک دیوار کی وجہ سے قابل قبول تھا لیکن اس پر گنبد خضرا اور اس کے قریب گلدستہ کی کوئی ضرورت نہ تھی“۔
وہابی: ”میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کیا تمہارے پاس قرآن سے کوئی دلیل ہے کہ تم اولیائے خدا کی قبروں کے لئے خوبصورت مقبرہ بنوائیں؟“
شیعہ عالم: ”اول تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز یہاں تک کہ مستحبات کا بھی ذکر قرآن میں موجود ہو اور اگر ایسا ہوتا تو قرآن مجید اپنے موجودہ حجم سے کئی گنا زیادہ ہوتا۔
دوم یہ کہ قرآن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے جیسے سورہٴ حج کی ۳۲ ویں آیت میں آیا ہے۔
”وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ“
”اور جو شعائر خدا کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے“۔
لفظ”شعائر“شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں اس آیت میں خدا کے وجود اور اس کی علامت نہیں بلکہ اس کے دین کی علامتوں کا ذکر ہے۔[64]
سورہ ٴشوری کی ۲۳ ویں آیت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقرباء کی مودت اجر رسالت کہی گئی ہے۔
کیا اگر ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقرباء کے مقبروں کو ان کی محبت اور احترام میں خوبصورت بنائیں اور ان کو صاف ستھرا رکھیں تو یہ کوئی غلط کام ہوگا؟“
مثال کے طور پر اگر قرآن کو ایک دھول سے اٹی ہوئی جگہ پر زمین ہی پر رکھ دیا جائے تو کیا یہ قرآن کی بے ادبی نہیں ہو گی؟ اور یہ مان بھی لیں کہ یہ توہین نہ ہوگی تب بھی اگر اسے صاف ستھری جگہ پر نہایت ادب واحترام کے ساتھ رکھیں تو کیا یہ کام اچھا نہ ہوگا؟“
وہابی: ”یہ جو تم کہہ رہے ہو لوگوں کے پسند کی باتیں ہیں کیا تمہارے پاس قرآن کی کوئی دلیل بھی موجود بھی ہے ؟“
شیعہ عالم: ”قرآن میں اصحاب کہف کے ذکر میں آیا ہے۔
”جب ان لوگوں نے غار میں پناہ لی اور وہیں ایک نہ جاگنے والی گہری نیند میں سوگئے تو لوگوں نے انھیں ڈھونڈنکالا ان لوگوں کے دمیان اس جگہ کے بارے میں نزاع ہو گیا کچھ لوگوں نے کہا:
”ابنوا علیھم بنیانا“یہاں ایک عمارت بنادو“۔
لیکن دوسرے گروہ نے کہا: ”لنتخذن علیھم مسجدا“ہم یہاں مسجد بنائیں گے“۔
قرآن مجید نے دونوں نظریوں کوذکر کیا ہے لیکن اس نے اس پر کسی طرح کی کوئی تنقید نہیں کی اگر ان دونوں نظریوں میں سے کوئی رائے حرام اور ناجائز ہوتی تو قرآن ضرور اس بات کا ذکر کرتا لیکن بات تو یہ تھی کہ یہ دونوں گروہ اصحاب کہف کے احترام کے لئے اپنی صواب دید کے مطابق کام کرنا چاہتے تھے۔ا س طرح تین مذکورہ آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اولیاء کے قبروں کو شاندار بنا نا مستحب ہے۔[65]
آخری بات یہ کہ جو بعض تاریخی اور حدیث کتابوں میں دیکھا گیا ہے کہ قبروں پر مزار اور قبہ نہ بنا یا جائے تو وہ اس لئے ہے کہ کہیں خود قبور اولیاء ،عبادت گاہ اور سجدہ گاہ نہ بن جائے لیکن اگر مومن وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنے والا کمال خلوص سے مزار اور مقبروں کو مقامات مقدسہ ہونے کی وجہ سے یہاں اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس میں شرک کی کیا بات ہے بلکہ اس طرح تو اس کی توحید اور اخلاص میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
۸۷۔ خانہ کعبہ میںحضرت علی علیہ السلام کی ولادت پر ایک مناظرہ
اشارہ
امام علی علیہ السلام کے امتیازات اور افتخارات میں سے ایک عظیم افتخار یہ بھی ہے کہ آپ دنیا کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور یہ چیز شیعہ اور سنی دونوں طرح سے ثابت اوریقینی ہے۔
علامہ امینی ،صاحب الغدیر نے اپنی کتاب کی چھٹی جلد میں اس بات کو اہل سنت کی ۱۹/ معتبر کتابوں سے نقل کیا ہے۔
یہ بات خود امام علی علیہ السلام کی افضلیت کے لئے ایک اہم اور زندہ ثبوت ہے جو دوسروں میں نہیں پائی جاتی اور اس بات سے ان کی رہبری اور ولایت بھی منحرف لوگوں پر ثابت ہوتی ہے۔
حاکم نے اپنی کتاب مستدرک (ج۲،ص۴۸۳)میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔
چنانچہ اسی کے متعلق ایک شیعہ اور سنی عالم کے مناظرہ پر توجہ فرمائیں:
سنی عالم: ”تاریخ میں آیا ہے کہ حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوا ہے“۔
شیعہ عالم: ”اس طرح کی چیز تاریخ میں ثابت نہیں ہے جیسا کہ بڑے علماء ،جیسے ابن صباغ مالکی [66]،گنجی شافعی[67] شبلنجی [68]اور محمد بن ابی طلحہ شافعی[69] کہتے ہیں:
”لم یولد فی الکعبة احد قبلہ“۔
”حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔
(اس بات پر توجہ رہے کہ حکیم بن حزام حضرت علی سے عمر میں بڑا تھا )یہ گڑھی ہوئی روایت بھی حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں کی کارستانی ہے۔انھوں نے اس طرح اس عظیم افتخار کی اہمیت کو ختم کرنا چاہا ہے“۔
سنی عالم: ”کعبہ میں ولادت ہونا مولود کے لئے کون سا افتخار ہے ؟“
شیعہ عالم: ”ایک وقت یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اتفاق سے ایسی جگہ پہنچ جائے اور وہاں ولادت ہو جائے تو اس یقینا اس میں کوئی افتخار نہیں ہے، لیکن اگر کوئی عورت اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہو کہ خدا اس کے لئے خاص انتظام کرے اور وہاں پہنچ کر بچہ کی ولادت ہوتو یہ بات یقینا دونوں کے لئے افتخار کا باعث ہوگی۔حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت خدا وند متعال کی خاص عنایتوں میں ہے جیسا کہ دیوار کاشق ہونا اور جناب فاطمہ بنت اسد کا اندر جانا سب کرامت ولطف خداوند کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے ؟“[70]
سنی عالم: ” جب علی علیہ السلام پیدا ہوئے تو وہ بعثت سے ۱۰ سال پہلے کا واقعہ ہے اس وقت کعبہ میں بت بھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ وہ بت کدہ تھا اور حضرت علی علیہ السلام جب ایک بت کدہ میں پیدا ہوئے تو بھلا ان کے لئے کون سی فضیلت کی بات ہوگی“۔
شیعہ عالم: ” کعبہ وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو دنیا میں بنائی گئی ،جسے حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا اور جہاں جنت سے حجر الاسود لا کر نصب کیا گیا تھا اس کے بعد طوفان نوح کے بعد جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں دوبارہ اس کی تعمیر کی کعبہ پوری تاریخ میں تمام انبیاء اور اولیاء خدا اور فرشتوں کا جائے طواف رہا ہے، اب اگر اس مقدس جگہ پر کچھ دنوں کے لئے بت پرست قابض ہوجائیں اور اسے بت کدہ بنا دیں تو اس کی عظمت ومنزلت میں کمی نہیں آئے گی مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مسجد میں ایک بوتل شراب لے جائے تو کیا اس مسجد کی عظمت ختم ہو جائے گی ؟
اگو کوئی شخص حالت جنابت میں یاشراب لئے مسجد میں داخل ہوتا ہے تو وہ حرام کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا لیکن جب فاطمہ بنت اسد خدا کے حکم اور مشیت سے کعبہ میں داخل ہوئیں تو یہ ان کی فضیلت و طہارت کی دلیل ہے اور وہ اس طرح سے خدا کی مہمان ہوئیں۔چنانچہ اس طرح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات حضرت علی علیہ السلام کے افتخار کا سبب ہے۔
اسی وجہ سے اوائل اسلام میں شاعروں نے خاص طور سے اس کرامت اور عنایت کو اپنے شعروں میں بیان کیا ہے اور خود اس بات کو ایک عجیب وغریب واقعہ سے قرار دیا گیا ہے۔
عبدالباقی عمری اس کے متعلق حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کر کے کہتا ہے:
انت العلی الذی فوق العلی رفعا
ببطن مکة وسط البیت اذ وضعا[71]
”تم وہی ہو جو بلندیوں سے بھی بلند ہو گئے ،جب کہ تم مکہ کے درمیان ،خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔
اسی طرح فارسی شاعر کہتا ہے:
درکعبہ تولد وز محراب شد شہید
نازم بہ حسن مطلع وحسن ختام او
”کعبہ میں ولادت اور محراب میں شہادت، ان کے آغاز و انجام ناز کرتا ہوں“۔
سنی عالم نے ہار مان کر مناظرہ کے اختتام کا اعلان کردیا۔
۸۸۔امامت اور حدیث ”اصحابی کالنجوم “سے متعلق مناظرہ
شیعہ استاد: ”ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت ،خلافت ،پیغمبر کی جانشینی دنیا وآخرت دونوں کی ایک عظیم زعامت و ریاست ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین شریعت کی حفاظت و احکام خدا کی نشر و اشاعت، حدودا لٰہی کا نفاذ اور دنیاسے تمام فتنہ کی نابودی میں رسول کا نمائندہ ہوتا ہے، ہرکس و ناکس اس عظیم منصب پر فائز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس منصب کا حقدار وہی ہے جو اسلام میں تقویٰ ،جہاد ،علم ،ہجرت،ذہانت ،سیاست ،عدالت،شجاعت اوراخلاق کے لحاظ سے تمام لوگوں سے افضل و برتر ہو اور ان تمام صفات کو دیکھنے کے بعد تاریخ اس بات کی شاہد ہے اور شیعہ و سنی روایتیں بھی اس کا اثبات کرتی ہیں کہ مولائے کائنات علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسا شخص تاریخ اسلام میں موجود نہیں ہے جسے ان تمام صفات سے ایک ساتھ متصف دیکھا گیا ہو“۔
سنی استاد: ”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اصحابی کالنجوم بایھم اقدیتم اھتدیتم۔“[72]
”میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ،ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے ہدایت پا جاوٴگے“۔
اس حدیث کی بنا پر ہم بھی صحابی کی پیروی کرکے نجات حاصل کر سکتے ہیں“۔
شیعہ استاد: ” اس حدیث کی سند کو چھوڑتے ہوئے چند دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جعلی اور گڑھی ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح کی کوئی حدیث بیان نہیں کی“۔
سنی استاد: ”کن دلائل سے ؟“
شیعہ استاد: اس حدیث کے جعلی ہونے کے بہت سے دلائل ہیں:
۱۔رات کے مسافر جب اپنا اصل راستہ بھول جاتے ہیں تو وہ لاکھوں اور کروڑوں ستاروں کو آسمان میں چمکتے ہوئے دیکھتے ہیں اب اگر یہ مسافر اس میں سے اپنی خواہش کے مطابق کسی بھی ایک ستارے کو معین کر لیں تو وہ ہر گز اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ کچھ مخصوص ستارے ہیں جنھیں سب جانتے ہیں کہ اگر مسافران ستاروں کا سہارا لے کر اپنی منزل کی طرف آگے بڑھیں گے تو ضرور اپنی منزل تک جا پہنچ جائے گا۔
۲۔ مذکورہ حدیث رسول خدا کی دوسری حدیثوں مثلاً حدیث ثقلین،حدیث خلفائے قریش، حدیث علیکم بالائمة من اھل بیتی اور حدیث اہل بیتی کالنجوم وغیرہ کے مخالف ہے۔
جیسے آنحضرت نے فرمایاہے:
”النجوم امان لاہل الارض من الغرق واھل بیتی امان من الاختلاف“۔[73]
”ستارے زمین والوں کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں اور میرے اہل بیت اختلاف سے نجات دیتے ہیں“۔
اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ حدیث”اصحابی کالنجوم“کو مسلمانوں کے ایک خاص گروہ نے نقل کیا ہے لیکن اس کی مخالف حدیثوں کو مسلمانوں کے تمام گروہوں نے نقل کیا ہے۔
۳۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اصحاب میں جو کشمکش اور اختلافات وجود میں آئے وہ اس حدیث سے موافقت نہیں کرتے کیونکہ آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے اور بعض نے بعض پر اعتراض اور طعنہ زنی کی اور یہ اختلاف و اعتراض اس حد تک پہنچا کہ عثمان کو قتل کر ڈالا گیا۔
اس کے علاوہ یہ بھی اس حدیث کے ساتھ موافق نہیں جو بعض نے بعض کو لعن وطعن کیا مثلاًمعاویہ نے حضرت علی علیہ السلام پر لعن وطعن کرنے کا حکم دیا اور بعض اصحاب نے بعض صحابہ سے جنگ کی جیسے طلحہ وزبیر نے حضرت علی علیہ السلام سے جنگ جمل میں مقابلہ کیا اور معاویہ نے جنگ صفین میں ان کے سامنے صف آرائی کی۔بعض اصحاب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور شراب خوری اور زنا کی وجہ سے ان پر حد جاری کی گئی۔(جیسا کہ ولید بن عقبہ ،اور مغیرہ بن شعبہ کے متعلق ملتا ہے۔)
کیا ”بسر بن ارطاة “جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے اصحاب میں تھا اور جس نے ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کرنے سے مسلمان ہدایت پاجائےں؟
کیا مروان بن حکم جس نے طلحہ کو قتل کیا اس کی پیروی سے ہدایت مل جائے گی؟
کیا مروان کے باپ حکم کی پیروی ہدایت دے دے گی جو اصحاب رسول میں تھا اور آنحضرت کا مذاق اڑایا کرتا تھا ان تمام باتوں پر توجہ رکھتے ہوئے اس جعلی حدیث کو صحیح ماننا واقعا ً مضحکہ خیز ہے!!“۔
سنی استاد: ”اصحابی کا مطلب یہ ہے کہ جو حقیقت میں آنحضرت کے اصحاب تھے نہ کہ وہ لوگ جو یوں ہی اصحاب بنے بیٹھے تھے۔
شیعہ استاد: ”اس طرح کے اصحاب تو صرف، سلمان ،ابوذر،مقداد،اور عمارجیسے ہی لوگ تھے مگر تم لوگ ان کے بجائے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ شمار کرتے ہوئے لہٰذا اب بھی اختلاف ختم نہیں ہوگا ، اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ ہم ان حدیثوں کے بارے میں بحث کریں جو کسی طرح سے بھی قابل اعتراض نہیں ہیں جیسے حدیث ثقلین ،حدیث سفینہ یا وہ روایتیں جن کے بارے میں ائمہ علیہم السلام نے تصریح کی ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ جب جنا ب سلمان مدائن کی طرف روانہ ہوئے تو اشعث اور جریر نامی دو افراد نے ان سے ملاقات کی مگر انھیں یقین نہ آیا کہ یہی سلمان ہیں لیکن جناب سلمان نے خود ہی اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں وہی سلمان اور صحابی رسول ہوں، پھر فورا ً آپ نے فرمایا: ”لیکن یہ جان لو کہ آنحضرت کا حقیقی صحابی وہی ہے جو ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے“۔[74]
واضح الفاظ میں یہ کہیں کہ صحابی وہی ہے جو اپنی پوری زندگی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام کی پابندی کرے اور اس پر آخری عمر تک قائم رہے اس بنا پر جناب سلمان علیہ السلام سے نقل ہوئی حدیث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس طرح کے صحابیوں کی پیروی کرکے ہم جنت وہدایت پا سکتے ہیں لیکن میں یہ پوچھتا ہوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کتنے لوگ ایسے تھے جنھوں نے اپنی راہ نہیں بدلی اور آنحضرت کے بتائے ہوئے راستہ پر باقی رہے ؟
ہماری روایتوں کے مطابق تو صرف تین یا چار اصحاب ہی ایسے تھے جو اپنے دین پر باقی رہے جیسے سلمان ،مقداد، عمار یاسر ،لیکن ان کے علاوہ بقیہ سب مرتد ہوگئے تھے“۔
۸۹۔علی علیہ السلام ، راہ عدالت کے شہید
حقجو اور حمید نامی دو اسلامی دانشوروںنے اس طرح مناظرہ کیا:
حمید: ”ہم جب امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی زندگی کا اکثر حصہ جنگ و جہادمیں پاتے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ان کی جنگ آنحضرت کے حکم سے ہوا کرتے تھی جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن علی علیہ السلام نے اپنی خلافت (جسے عمر نے غصب کر لیا تھا) کے زمانہ میں جو جنگیں لڑیں جیسے جنگ جمل ،جنگ صفین اور جنگ نہروان ان سب میں مناسب تو یہی تھا کہ وہ قوم کے بزرگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مصالحت کر لیتے اور اس قدر خوریزی سے پر ہیز کرتے“۔
حق جو: ”ہم امام علی علیہ السلام کو ایک حق پرست مخلص اور کامل انسان کے عنوان سے جانتے ہیں انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مشرکوں او ر اسلام کے مخالفوں سے جنگ کی اور اپنے دور خلافت میں بھی انھیں لوگوں سے جنگ کی جنھوں نے اسلام کے ظاہر کو لے لیا اور باطن کو چھوڑ دیا تھا یہ وہی منافق تھے جو اسلام کے نام پر اسلام کو بے عزت کر رہے تھے اور اسلام کو اس کی حقیقت سے دور کر کے اسے اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر رہے تھے،اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کو کافروں کے مقابلہ میں منافقوں سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
حمید: ”حضرت علی اگر چاہتے تو ناکثین (اصحاب جمل)قاسطین (جنگ صفین کی آگ بھڑکانے والے)اور مارقین(خوارج)کے سرداروں کو اقتدار اور بیت المال سے خاموش کر دیتے اور اس طرح وہ لوگوں کو اپنی طرف ملا لیتے“۔
حق جو: ” تمہاری بات کا انداز بتا رہا ہے کہ تم ایک عام حاکم اور خدائی رہنما جو اپنے ذاتی فائدہ پر خدا کے احکام کو ترجیح دیتا ہے دونوں کے درمیان فرق کو نہیں سمجھتے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
بہتر یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں ہوئی جنگوں کا ہم اچھی طرح سے جائزہ لیں تاکہ یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو جائے۔
جنگ جمل کے وجود میں آنے کے اسباب معاشرتی برتری اور نا انصافی تھے ان تمام باتوں کو جنگ جمل کی آگ بھڑکانے والے اسلام کے نام پر اسلامی حکومت میں یہی نا انصافیاںنافذ کرنا چاہتے تھے طلحہ وزبیر جیسے لوگ حضرت علی علیہ السلام سے اپنے لئے بڑے بڑے عہدہ کا مطالبہ کر رہے تھے یہ لوگ صاف صاف آپ سے عہدوں کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کرتے تھے فلاں عہدہ ہمیں دے دیں ،بیت المال کا اتنا حصہ ہمارا ہونا چاہئے۔
اس بیکار خواہش کی بنا پر یہ اسلامی احکام کے خلاف باتیں حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں رائج کرانا چاہتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام اس بات پر تیار نہیں ہوئے کہ خود غرض لوگوں کو ان کے ذاتی مفاد کی وجہ سے عوام کے سیاہ و سفید کا مالک بنادیںن اور انھیں ان پر مسلط کر دیں۔
امام علی علیہ السلام ایک خدا پرست انسان تھے نہ کہ ایک خود خواہ اور خود غرض حاکم جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے خدائی احکامات کو پس پشت ڈال دیتے۔
جنگ صفین میں بھی معاویہ حضرت علی علیہ السلام سے قانونی طور پر حکومت شام کے تمام اختیارات لینا چاہتا تھا اور یہ بات بھی واضح ہے کہ معاویہ ان اختیارات کے ذریعہ اپنے خاندان اور اپنی تعریف کرنے والے شکم پر ستوں کو عوام کی جان ومال پر مسلط کرنا چاہتا تھا اور اس طرح اس کی حکومت یقینا اسلامی اقدار کے برخلاف اونچ نیچ اور طبقاتی تفریق کی بنیادوں پر استوار ہوتی۔
لیکن کیاحضرت علی علیہ السلام ایسا کرنے کا موقع دیتے ؟!!کیا اس جیسے بے دین شخص کو اسلامی حکومت کی باگ ڈور پکڑا دیتے؟نہیںیہ ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔
اسی دوران مغیرہ بن شعبہ جیسے لوگوں نے بھی ”النصیحة لامر اء المسلمین“، (مسلمانوں کے حاکموں کے لئے نصیحت )کی نقاب اوڑھ کر حضرت علی علیہ السلام سے اس قسم کے مطالبے کئے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس کا سخت جواب دیتے ہوئے فرمایا:
”ولم یکن اللہ یرانی اتخذت المضلین عضدا“۔[75]
-”خدا مجھے اس حالت میں کبھی نہیں دیکھ سکتا کہ میں گمراہوں کو اپنا مددگار بناوٴں“۔
اس طرح کے مطالبے اور اس کے نتیجہ میں حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے بعض حضرت علی علیہ السلام کے مخلص اصحاب جیسے عمار یاسر ،ابو الہیثم تیہان وغیرہ نے آپ کو مشورہ بھی دیا کہ وقتی طور پر آپ ان لوگوں سے محبت اور رغبت کا اظہار کریں اور ان قوم کے لٹیروں کو امتیازی مقامات دے دیں تاکہ وہ آپ کی حکومت کے خلاف قیام نہ کریں اور بعض حکام اور گورنروں میں اہلیت نہ پاتے ہوئے بھی انھیں ان کے مقام پر باقی رکھیں کیونکہ یہ لوگ بہر حال قوم کے بڑے ہیں لہٰذا آپ ان کا خیال کریں“۔
امام علی علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہا:
”اتامرونی ان اطلب النصر بالجور ،فیمن ولیت علیہ ،واللہ لا اطور بہ ما سمر سمیرو ما ام نجم فی السماء نجماً۔“[76]
”کیا تم مجھے اس بات کا حکم دیتے ہو کہ میں محکوم لوگوں پر ظلم وجور کے ذریعہ غلبہ حاصل کروں خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور جب تک آسمان میں کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا میں اس طرح کا کام نہیں کر سکتا“۔
اس طرح حضرت علی علیہ السلام کا بے انصافی اور طبقاتی تفریق کرنے والوں سے سختی سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے اس تحریک کے حامی آپ کے مخالف ہوگئے اور جنگ جمل اور صفین میں دو محاذوں پر وہ سامنے آگئے اس کے ساتھ ہی جنگ صفین میں ہی جنگ نہروان کی داغ بیل پڑ گئی تھی، اس جنگ میں روباہ صفت معاویہ کی طرف سے نیزوں پر قرآن بلند کرنا اس کے دھوکہ بازی کے ذریعہ صلح کی خواہش نے حضرت علی علیہ السلام کے فوجیوں کو سست کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ دوحاکموں کی جنگ ہے اور جوکل تک حضرت علی علیہ السلام کے سا تھی تھے جذبات میں آکر آپ کو کافر کہنے لگے نتیجہ میں جنگ نہروان عمل میں آئی جس میں شرکت کرنے والے حضرت علی علیہ السلام کے وہ ساتھی تھے جنھوں نے صفین میں آپ کی طرف سے تلوار چلائی تھی۔اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں سے بھاگ نکلنے والوں نے مل کر آپ کے قتل کامنصوبہ بنایا اور اس طرح ”ابن ملجم اشقی الاولین والاخرین“کے ذریعہ آپ شہید کر دیئے گئے جیسا کہ آپ کے لئے لوگوں نے کہا۔”قتل علی لشدةعدلہ۔“علی اپنے عدل وانصاف میں شدت کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے“۔
اسی وجہ سے جب آپ کے سر مبارک پر ضربت لگی تو آپ نے فرمایا:
”فزت ورب الکعبة“[77]
”کعبہ کے پروردگار کی قسم میں کامیاب ہوگیا“۔
علی علیہ السلام کی کامیابی اس وجہ سے نہیں تھی کہ آپ نے ذاتی اہداف کو اہمیت نہیں دی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک عدالت قائم کرنے اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔حضرت علی علیہ السلام یہ چاہتے تھے کہ ذاتی اور شخصی مفاد کو اسلام کے سیاسی اور معاشرتی مفاد پر قربان کردیں تاکہ آئندہ آنے والے مسلمان ظالموں اور ستمگروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں مثال کے طور پر ظالم اسرائیل سے مذاکرے کے لئے تیار نہ ہوں اور سامراجی طاقتوں سے دوستی کے لئے کبھی ہاتھ نہ بڑھائیں اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے اسلام کو ایک اجنبی اسلام سمجھ کر معاویہ اور یزید کے اسلام کو نہ اپنالیں۔
۹۰۔ استاد اور شاگرد کے درمیان ائمہ کی سخاوت کے بارے میں مناظرہ
شاگرد: ”بہت سی اسلامی روایات میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ فلاں امام نے فلاں شاعر یا محتاج کو پیسہ دیا یا اس طرح کی مختلف روایات ائمہ علیہم السلام کے عطیوں کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کیایہ روایتیں صحیح ہیں؟“
استاد: ”ممکن ہے بعض روایتوں کی سند صحیح نہ ہو لیکن اس طرح کی اتنی زیادہ روایتیں موجود ہیں کہ جن کا انکار نہیں کی جاسکتا اور قطعی طور پر ان سب میں کچھ روایتیں تو ہر لحاظ سے صحیح ہیں“۔
نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل چار روایتوں پر توجہ فرمائیں:
۱۔عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے بیٹے کو سورہٴ حمد پڑھایا تو آپ نے اسے ہزار دینار دیا اور اس زمانہ کے ہزار حُلے (جو اس وقت کا بہترین لباس ہوا کرتا تھا) انعام کے طور پر دئے اور اس کامنہ موتیوں سے بھر دیا۔[78]
۲۔ایک بھٹکاہوا مسافر امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آکر کہنے لگا میرے پاس زاد راہ ختم ہوگیا ہے آپ مجھے کچھ پیسے دے دیں تاکہ میں اپنے وطن واپس جا سکوں میں وطن پہنچ کر اتنی ہی مقدار میں آپ کی طرف سے صدقہ دے دوں گا۔
امام علی رضا علیہ السلام اٹھ کر اپنے گھر کے اندر گئے اور دو سودرہم کی تھیلی لا کر اسے دی اور فرمایا: ”یہ پیسہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے لہٰذا یہ لازم نہیں ہے کہ تم میری طرف سے اتنی مقدار میں صدقہ دو“۔[79]
۳۔امام سجاد علیہ السلام نے ”فرزدق“کے لئے قید میں بارہ ہزار درہم یہ کہہ کر بھیجے کہ تمہیں ہمارے حق کی قسم ہے تم اسے قبول کر لو اور فرزدق نے قبول کر لیا“۔[80]
۴۔دعبل نے اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر ایک مرثیہ پڑھا تو امام رضا علیہ السلام نے انھیں ایک تھیلی بھیجی جس میں سو دینار تھے۔ دعبل نے ان تمام سکوں کو جن پر امام کا نام لکھا تھا عراقی شیعوں میں بانٹ دیا اور ایک ایک سکے کے بدلے سو دینا ر لے کر اپنی زندگی آسودہ کر لی۔[81]
اس سلسلہ میں اس طرح کی اور بہت سی روایتیں پائی جاتی ہیں۔
شاگرد: ”اگر یہ تمام روایتیں صحیح ہیں تو حضرت علی علیہ السلام بیت المال کوخرچ کرنے میں اتنی سختی کیوں کرتے تھے ؟اور لوگوں میں برابر سے تقسیم کرتے تھے جیسے ان کے بھائی عقیل نے جب اپنی ضرورت کے تحت اپنا حصہ بڑھانے کے لئے کہا تو حضرت علی علیہ السلام نے لوہے کی ایک سلاخ گرم کر کے عقیل کے ہاتھ پر رکھ دی جس کے بعد جناب عقیل نے ایک بلند چیخ ماری تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
”عورتیں تمہارے سوگ میں بیٹھیں تم ایک انسان کی جلائی ہوئی آگ سے چیختے ہو لیکن مجھے اس آگ کی طرف بھیج رہے ہو جسے خدا نے اپنے غیظ و غضب سے جلا رکھا ہے تم ایک چھوٹی سی اذیت سے ڈرتے ہو تو کیا میں ہمیشہ بھڑگنے والے آگ سے نہ ڈروں؟“[82]
استاد: ”یہی تمہاری غلطی ہے کہ تم یہ تصور کرتے ہو کہ تمام ائمہ علیہم السلام کی در آمد صرف بیت المال ہی تھی اسی وجہ سے ان کے عطیہ و بخشش اور علی علیہ السلام کی بیت المال میں سختی کو ایک طرح کاتضاد سمجھ رہے ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی در آمد کے مختلف ذرائع تھے اور حضرت علی علیہ السلام کام کیا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جب عمر ، ابوبکر اور عثمان کے دور خلافت میں شیعوں کو بڑی سخت زندگی گزارتے دیکھا تو پچیس سال کے دور میں آپ نے بہت سی زمینوں کو قابل کا شت بنایا اور پھر اسے اپنے شیعوں کے درمیان تقسیم کر دیا تا کہ وہ آرام سے رہ سکیں۔
آپ نے اس کے لئے ایک وقف تشکیل دے رکھاتھا جو ان زمینوں کی مجموعی در آمد کو فقراء میں تقسیم کرتے اور فقراء وپریشان حال شیعوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام ،امام محمد باقر علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام نے زراعت کی اور جانوروں کے ذریعہ تجارت کی ہے آپ ان کاموں کے لئے کچھ افراد کو معین کر دیا کرتے تھے کیونکہ انھیں اس با ت کا خیال تھا کہ مذہب حق کے پیروکار کہیں غربت کی وجہ سے دوسری طرف مائل نہ ہو جائیں اسی لئے ائمہ علیہم السلام اپنے اصحاب اور خاص خاص دوستوں اور خود اپنی زمینوں اور غلوں سے ہونے والی درآمد کو اپنے غریب شیعوں پر خرچ کر دیا کرتے تھے اور اسی مال سے ان کا خیال رکھتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے ان کے عطیات اور بخششیں اسی دولت سے ہوا کرتی تھی نہ کہ بیت المال سے۔
شاگرد: ”میں آپ کی اس منطقی گفتگو سے قانع ہوں لیکن میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ائمہ علیہم السلام کی در آمد کے ذرائع کے دوچار نمونے بھی ذکر کردیں“۔
استاد: ”بہت ہی اچھا سوال ہے۔میں چند نمونے ذکرکرتا ہوں“۔
۱۔امام علی علیہ السلام نے اپنے دوباغ جس میں کنواں بھی تھا ”ابو نیزر“ نامی ایک مسلمان کو دے رکھا تھا جن میں سے ایک کانام ”ابو نیزر“ تھا اور دوسرے کا ”بغیبغہ“ان دونوں باغوں میں کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔
”ابو نیزر“ کا بیان ہے کہ ”ایک روز میں باغ میں تھا اسی دوران علی علیہ السلام باغ میں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس کھانا ہے ؟“
میں نے کہا: ”اسی باغ کے ایک کدو کو میں نے پکایا ہے“، آپ نے جا کر وہ کھانالیا اور کھانا کھانے کے بعد بیلچہ اٹھا کر اس کھیت میں داخل ہوگئے۔تھوڑی دیر تک کھودنے کے بعد جب آپ پسینے میں شرابور ہو گئے تو گڑھے سے باہر آئے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد پھر آپ کام میں مشغول ہو گئے گڑھے کے اندر سے میں بیلچہ کی آواز کے ساتھ آپ کی زیر لب آواز بھی سن رہا تھا آپ نے گڑھے کو کھودا اور اس کی گھاس پھوس صاف کر دیا یہاں تک کہ اونٹ کی گردن کے اتنا اس میں پانی بڑھ گیا اس کے بعد آپ اس گڑھے سے باہر آئے اور فرمایا: ” خدا کی قسم !میں نے اس چشمے کو وقف کر دیا“، اس کے بعد آپ نے کاغذ وقلم مانگا، میں نے لا کر دیا تو آپ نے وہیں وقف نامہ تحریر کردیا۔
روایت میں ہے کہ ایک دفعہ امام حسین علیہ السلام مقروض ہو گئے تو معاویہ نے آپ کے پاس دولاکھ درہم بھیجے اور اس چشمہ کو خرید نے کی خواہش کا اظہار کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اسے جواب دیا: ”میرے بابا نے اس کھیت اور چشمہ کو وقف کردیا ہے تاکہ قیامت میں جہنم کی آنچ سے محفوظ رہیں،میں اسے کسی قیمت پر نہیں بیچ سکتا“۔ [83]
۲۔امام محمد باقر علیہ السلام اپنے کھیت میں پھاوڑا چلانے میں مشغول تھے کہ اس موقع ”محمد بن منکدر “نام کا ایک زاہد نما شخص آپ کو دنیا کا لالچی سمجھ کر کہنے لگا، اگر تم اسی حالت میں مر جاوٴ تو بڑی سخت حالت ہوگی“۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ” خدا کی قسم اگر اس حالت میں میری موت آجائے جب کہ میں اطاعت خدا میں مشغول ہوں تو بڑی اچھی بات ہوگی کیونکہ میں تمہاری دنیا کے کسی بھی شخص کا محتاج نہیں رہوں گا میں تو گناہ کے عالم میں موت آنے سے ڈرتاہوں“۔[84]
اسی طرح کی ایک روایت امام جعفرصادق علیہ السلام کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے۔[85]
۳۔ ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے کہا کہ میں ایک روز ایک کھیت میں گیا تو دیکھا کہ امام کاظم علیہ السلام پھاوڑا چلانے میں مشغول ہیں اور ان کا بدن پسینے میں ڈوبا ہوا ہے میں نے کہا: ” آپ کے غلام اور دوسرے لوگ کہاں ہیں کہ آپ پھاوڑا چلا رہے ہیں ؟ “
آپ نے فرمایا: ”جو لوگ مجھ سے اور میرے باپ سے افضل تھے انھوں نے اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیا ہے“۔
میں نے سوال کیا: ”وہ کون لوگ تھے ؟ “
آپ نے فرمایا:
”رسول الله وامیر الموٴمنین وآبائی کلھم کانوا قد عملوا بایدیھم وھو من عمل النبیین والمرسلین والاوصیاء و الصالحین“۔[86]
”رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام اور میرے آباوٴ اجداد سب کے سب اپنے ہاتھوں سے اپنا کام کیا کرتے تھے یہ انبیاء اور صالح اوصیاء کاکام ہے“۔
شاگرد: ”میں آپ کے اس قانع کنندہ جواب کے لئے بہت شکر گزار ہوں اس طرح کی اور باتیں ہوں تو آپ بیان فرمائیں،تاکہ میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکوں“۔
استاد: ”ضروری بات یہ کہ ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں شیعہ جو حقیقی اسلام پر عمل پیرا تھے ان کی حالت نہایت ابتر تھی اور روز بروزان پر سختیاں بڑھتی رہتی تھیں کیونکہ ان کے حقوق اور وظیفے بند کر دیئے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ نہایت فقیرانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے تھے،اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ شیعوں کی حفاظت اسلام ارکان کی حفاظت تھی اور اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ کانٹنے کی مترادف تھا، اس لئے ان لوگوں کو خمس و زکوٰة اور بیت المال میں سے دینا بھی جائز تھا، (البتہ اس طرح کہ ان کے اندر تبعیض نہ ہوسکے) تاکہ ان کے ذریعہ ناپاک لوگوں کے شر سے حقیقی اسلام بچارہے کیونکہ بیت المال کے مصرفوں میں سے ایک مصر ف اسلام کی استواری اور اس کے استحکام کے لئے خرچ کرنا بھی ہے۔[87]
۹۱۔حضرت علی علیہ السلام کی عظمت اور مسئلہ وحی کے بارے میں مناظرہ
مسجد لوگوں سے چھلک رہی تھی اور ایک عالم دین نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تقریر کرتے کرتے مندرجہ ذیل روایت کو نقل کیا:
”ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی مانگا تو اس وقت آپ کے پاس صرف علی ،جناب فاطمہعلیہ السلام اور امام حسن وامام حسین علیہم السلام موجود تھے۔آپ کو پانی لاکر دیا گیا آپ نے پہلے اسے امام حسن علیہ السلام کی طرف بڑھا دیا اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اور آخر میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف بڑھا یا تو آپ نے فرمایا: ”ھنیئا ًمریئا لک، آپ کے لئے گوارا رہو“۔
لیکن جب علی علیہ السلام کی طرف پانی بڑھا یا اور آپ نے پانی پیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ھنیئا مریئا لک یا وليّ وحجتی علی خلقی“۔
” اے میرے ولی اور میری امت پر میری حجت آپ کے لئے گوارا رہو“۔
اور آپ سجدہ میں چلے گئے، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے پوچھا: ”آپ کے سجدہ کا کیا راز تھا ؟ “، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”جب تم لوگوں نے پانی پیا اور میں نے کہا: ”ھنیئا مریئا “تو میرے کانوں میں آوازا ٓئی کہ میرے ساتھ ساتھ فرشتے بھی یہی کہہ رہے ہیں لیکن جب علی علیہ السلام نے پانی پیا اور ان کے لئے میں نے ”ھنیئا مریئا لک“کہا تو میرے کانوں میں خدا کی آواز پہنچی کہ وہ بھی یہی کہہ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی نعمت پر سجدہ شکر بجالایا“۔[88]
سامع: ”کیا خدا بولتا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے اس کی آواز سنی ؟ “
مقرر: ”خدا وند متعال مکان یا فضا میں آواز پیدا کردیتا ہے جسے اس کا پیغمبر سنتا ہے بالفاظ دیگر: انبیاء اور خدا میں تین طرح سے ارتباط ہوتا ہے۔
۱)قلب پر القاء کرنا جو بہت سے انبیاء پر وحی نازل ہونے کے بارے میں پایاجاتا ہے۔
۲) جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ جو وحی خدا لانے والے ہیں جیسا کہ سورہٴ بقرہ آیت ۹۷ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
۳) حجاب کے پیچھے سے یاکسی چیز میں آواز ایجاد کرنا جیسا کہ خد اوند متعال نے جنا ب موسیٰ علیہ السلام سے بات کی۔
”وَکَلَّمَ اللهُ مُوسَی تَکْلِیمًا“ [89]
”اور (اللہ نے) موسیٰ سے با قاعدہ گفتگو کی ہے“۔
اسی طرح سورہٴ طہ کی ۱۱ویں اور ۱۲ ویں آیت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ کے اندر سے خدا کی ا ٓواز سنی۔
”فَلَمَّا اٴَتَاہَا نُودِی یَامُوسَی إِنِّی اٴَنَا رَبُّکَ “
” جب وہ اس (آگ )کے پاس آئے تو ندادی گئی اے موسیٰ !بلا شبہ میں تمہارا پروردگار ہوں“۔
سورہٴ شوریٰ کی ۵۱ ویں آیت میں ان تین طریقوں کی وحی کی وضاحت کی گئی ہے اس طرح خداوند عالم فضایا کسی ایک چیز میں آواز پیدا کرتا ہے جسے اس کے انبیا سنتے ہیں۔
سامع: ”معاف کرنا میں خیال کررہا تھا کہ وحی کی صرف ایک قسم ہے جو صرف جناب جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ آتی ہے لیکن آپ کے بیان سے معلومات میں اضافہ ہو ا اور ساتھ ساتھ میں یہ بھی سمجھ گیا کہ خدا وند متعال کے نزدیک علی علیہ السلام کی منزلت کیا ہے جیسا کہ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کے ساتھ ہم زبان ہو کر فرمایا: ”ھنیئا مریئا“۔
لیکن میرادوسرا سوال یہ ہے کہ کیاقرآن کی آیتوں کے علاوہ بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کے طور پر کچھ چیزیں نازل ہوئی ہیں؟ “
مقرر: ”ہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآنی آیات کے علاوہ احکام وغیرہ کے بارے میں بہت سی باتیں بتاتے تھے جو تمام کی تمام وحی الٰہی ہوتی تھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معارف اور احکام الٰہی کو صرف وحی کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جیسا کہ سورہ ٴ نجم کی دوسری اور تیسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں:
”وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی “
”اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتاوہ وہی کہتا ہے جو وحی ہوتی ہے“۔
۹۲۔ایک طالب علم اور عالم دین کے درمیان ایک مناظرہ
ایک جگہ کچھ مومنین بیٹھے ہوئے جن میں ایک طالب علم اور ایک عالم دین کے درمیان اس طرح مناظرہ ہوا۔
طالب عالم: ”قرآن میں چند جگہوں[90] میں منجملہ سورہٴ اعراف کی ۱۴۳ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے عرض کیا:
”رَبِّ اٴَرِنِی اٴَنظُرْ إِلَیْکَ“
”پالنے والے توخود کو دکھا دے تاکہ میں تجھے دیکھ سکوں“۔
لیکن خداوند متعال نے فرمایا:
”لن ترانی“
”تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے“۔
میرا سوال یہ ہے کہ خدا وند متعال نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی مکان رکھتا ہے اور نہ دیکھنے والی چیز ہےحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اولو العزم پیغمبر ہوتے ہوئے بھی کیسے اس طرح کا سوال کیا جب کہ اگر کوئی عام آدمی بھی اس طرح کا سوال کرے تو لوگ اسے اچھا نہیں کہیں گے ؟ “
عالم دین: ”احتمال پایا جاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ سوال دل کی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے ہونہ کہ ان ظاہری آنکھوں سے ،جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے دل کے ذریعہ روحی اور فکری شہود تک پہنچنا چاہتے تھے یعنی ”خدا یا مجھے ایسا بنا دے کہ میرے قلب میں تیرا یقین کوٹ کوٹ کر بھر جائے گویا میں تجھے دیکھ رہا ہوں“[91] اور بہت سی جگہوں پر لفظ ”رویت“اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاًہم کہتے ہیں ”میں اپنے اندر ایسی طاقت دیکھ رہا ہوں کہ میں یہ کام باآسانی انجام دے سکتا ہوں: جب کہ قدرت دیکھنے والی چیز نہیں ہے“۔
طالب علم: ”اس طرح کی تفسیر آیت کے ظاہری لفظ کے خلاف ہے کیونکہ ظاہر لفظ ”ارنی“ اپنے کو مجھے دکھا،آنکھ سے دیکھنے پر دلالت کرتاہے جیسے خدا کے جواب ”لن ترانی“سے سمجھا جا سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا سوال انھیں آنکھوں سے دیکھنے کے لئے تھا اور اگر رویت اور شہود سے مراد فکری، روحی اور باطنی رویت ہوتی تو خدا وند متعال ہر گز منفی جواب نہ دیتا اس طرح کا شہود خداوندمتعال اپنے خاص بندوں کو یقینی طور پر عطا کر تا ہے“۔
عالم دین: ”فرض کریں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے خدا کو دیکھنے کی خواہش کی تھی جیسا کہ ظاہری الفاظ سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر ہم تاریخ میں اس واقعہ کی تحقیق کریں تو ہمیں ملتا ہے کہ یہ سوال ان کی قوم کی طرف سے تھا جسے جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زبان سے ادا کیا تھا کیونکہ ان کی قوم والے اس بات پراصرار کر رہے تھے کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اس لئے انھیں مجبور اً یہ جملہ ادا کرنا پڑا“۔
تو ضیح کے طور پر یہ عرض کیا جائے کہ فرعونیوں کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی نجات کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے درمیان دوسری بہت سی باتیں وجود میں آئیں ان میں سے ایک یہ کہ بنی اسرائیل کے کچھ افراد جناب موسیٰ علیہ السلام سے ضد کررہے تھے کہ ہم خدا کو دیکھیں گے بغیر دیکھے خدا پر ایمان نہیں لاسکتے۔جناب موسیٰ علیہ السلام آخر میں مجبور ہو کر بنی اسرائیل کے ۷۰ افراد کو لے کر کوہ طور پر گئے اور وہاں پہنچ کر آپ نے کی خداکی بارگاہ میں ان کے سوال کو بیان کیا، خداوندعالم نے جناب موسی علیہ السلام کو وحی کی ”لن ترانی۔۔۔“ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، (سورہ اعراف، آیت ۱۴۳) ، جواب نے اس بارے میں بنی اسرائیل کے لئے تمام چیزوں کو روشن کردیا۔
لہٰذا موسی علیہ السلام نے سوال رویت کواپنی قوم کی زبان سے کیا تھا کیونکہ
آپ نے اپنی قوم کی ضد پر خدا سے اس طرح کا سوال کرنے پر مجبور تھے، لیکن جب زلزلہ آیا تو جناب موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ تمام ۷۰ افراد ہلاک ہوگئے اور جناب موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے عرض کیا:
”اتھلکنا بما فعل السفھاء منّا“ [92]
”کیا تو ہمیں اس کام کے لئے ہلاک کر رہا ہے جو ہمارے بیوقوفوں نے انجام دیا ہے ؟ “
جس کے بعد خداوند متعال نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ”تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ پاوٴگے لیکن کوہ طور پر چکر لگاوٴ اگر یہ خود اپنی جگہ پر باقی رہ گیا تو مجھے دیکھ لو گے “، جب خدا وند متعال کی کوہ طورپر تجلی ہوئی توکوہ طورٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جناب موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے اورجب ہوش آیاتو خدا وند متعال سے کہا:
” سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَاٴَنَا اٴَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ“[93]
”پاک پاکیزہ ہے تو، میں نے توبہ کی اور میں سب سے پہلا مومن ہوں“۔
پہاڑ پرالٰہی جلوہ (جیسے گرج، چمک اوربجلی) کے ظاہر ہونا اپنے آثار ظاہر کرنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو خدا وند متعال نے اپنی قدرت نمائی سے ایسا بے ہوش کیا کہ تم لوگ سمجھ لو کہ جب خدا کی ایک قدرت کا اثر کا تحمل نہیں کر سکتے تو اس کے پورے وجود کو سمجھنے کی کوشش کیوں کرتے ہو؟ تم ہر گز اپنی ان مادی آنکھوں سے خداوند متعال کے مجرد وجود کو نہیں دیکھ سکتے ہو اس طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے خداوند متعال کو قلب کی آنکھوں سے دیکھا اور ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اسے ان ظاہری آنکھوں سے ہر گز نہیں دیکھا جا سکتا ہے“۔
طالب علم: ”آپ کے اس مفصل بیان کا بہت شکریہ میں اس موضوع پر مطمئن ہو گیا اور اس چیز کی امید رکھتا ہوں کہ اسی طرح آپ منطقی استدلال سے میرے باقی دوسرے شبہات کوبھی جنھیں میں انشاء اللہ کسی دوسرے وقت بیان کروں گا بیان فرمائیں گے“۔
عالم دین: ”قابل توجہ بات تو یہ کہ اہل سنت کے اکثر مفسرین آیت الکرسی کی تفسیر کرتے ہوئے جنا ب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مشابہ دوسرایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:
”جناب موسیٰ علیہ السلام نے عالم خواب (یا بیداری کی حالت میں) میں فرشتوں کو دیکھا تو ان سے سوال کیا کہ ”کیا ہمارا خداسوتاہے ؟خداوند متعال نے اپنی فرشتوں پر وحی کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو سونے نہ دو فرشتوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو تین بار نیند سے بیدار کیا اور ان کے ساتھ وہ لگے رہے تاکہ وہ سونے نہ پائیں جناب موسیٰ علیہ السلام تھک کر چور ہو گئے اور نیند کا احساس کیا تو خداوند متعال کی وحی کے مطابق ان کے دونوں ہاتھوں میں پانی بھری دو شیشیاں تھما دی گئیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے دونوں ہاتھوں میں ان دونوں شیشیوں کو لئے ہوئے ان کی حفاظت کر رہے تھے یہ دیکھ فرشتے چلے گئے اور ابھی چند لمحے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ نیند کا اثر غالب آیااور اسی وقت ان کے ہاتھ سے شیشیاں چھوٹ کر گر گئیں اور وہ چور چور ہو گئیں۔خدا وند متعال نے جناب موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی میں زمین وآسمان کو اپنی قدرت سے بچائے ہوئے ہوں ”فلو اخذنی نوم اونعاس لزالتا“ [94]اگر نیند یا ہلکی سی جھپکی بھی مجھ پر غالب آجائے تو زمین وآسمان فنا ہو جائیں۔
یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کیسے فرشتوں سے اس طرح کا سوال کیا جب کہ وہ پیغمبر تھے اور جانتے تھے کہ خداوند متعال جسم کی تمام ضرورتوں جیسے نیند وغیرہ سے پاک وپاکیز ہے؟
فخر رازی اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں: ”اگر ہم فرض کریں کہ مذکورہ روایت صحیح ہے تو ہمیں مجبورا ً کہنا پڑے گا کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ سوال نہ تھا بلکہ ان کی جاہل اور ہٹ دھرم قوم کا سوال تھا“۔[95]
واضح طور پر یوں کہا جائے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے اصرار اور ضد سے پریشان ہوکر خدا وند متعال کی بارگاہ میں اس طرح کا سوال کرتے تھے تاکہ خدا وند متعال انھیں اپنی واضح نشانیوں کے ذریعہ ہدایت کردے اور جناب موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے شیشیوں کا ٹوٹنا اگر چہ ایک بہت ہی معمولی سا حادثہ ہے لیکن عام لوگوں کو سمجھانے کے لئے یہ بہت ہی اہم اور ضروری تھا۔
ممکن ہے یہ بھی کہا جائے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں اس طرح کے پس وپیش والے لوگ تھے جو اس طرح کی باتیں کیا کرتے تھے جناب موسیٰ علیہ السلام نے ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے خداوند عالم سے اس طرح سوال کیا تاکہ اس کے واضح جواب میں اپنی قوم کو گمراہی سے نجات دے سکیں۔
۹۳۔طالب علم اور عالم دین کے درمیان مہر کے مسئلہ میں دوسرا مناظرہ
طالب علم: ”میں نے مکرر یہ بات سنی ہے کہ اسلام نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ عورتوں کی مہر کم سے کم رکھی جائے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:
”شوم المراٴة غلاء المھر“ ۔[96]
منحوس عورت وہ ہے جس کی مہر زیادہ ہو“۔
”افضل نساء امتی اصبحن وجھاواقلھن مھرا “(۲)[97]
”میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو سب سے زیادہ خوبصورت اور ہنس مکھ ہوں اور جن کا مہر سب سے کم ہو“۔
لیکن قرآن کریم میں دوجگہ ایسی آیتیں پائی جاتی ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ مہر قرار دینا بہتر کہا گیا ہے اور قرآن نے بھی اس بات پر رضایت کا اظہار کیا ہے“۔
عالم دین: ”قرآن میں کہاں اس طرح کی باتیں آئی ہیں ؟ “
طالب علم: ”پہلی جگہ سورہ ٴ نساء کی بیسویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں:
”وَإِنْ اٴَرَدْتُمْ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَارًا فَلاَتَاٴْخُذُوا مِنْہُ شَیْئًا“۔
”اور اگر تم نے اپنی بیوی کے بجائے کسی اور عورت سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو جو تم نے اسے مال کثیر دیا تھا اس میں سے کچھ واپس نہ لو“۔
لفظ ”قنطار “کے معنی بہت سے مال ہو تے ہیں۔جو ہزاروں درہم ودینا رکے لئے کہاجا تا ہے۔قرآن کی اس آیت میں لفظ قنطار لایا گیا ہے جس پر قرآن نے کسی طرح کہ تنقید بھی نہیں کی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ان سے کچھ واپس نہ لو، اس طرح اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی مہر زیادہ قرار دینا بری بات نہیں ہے ورنہ قرآن اس بری بات پر ضرور کچھ نہ کچھ کہتا۔
اسی بنا پر روایت میں آیا ہے کہ عمربن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں جب دیکھا کہ لوگ عورتوں کی مہر زیادہ سے زیادہ رکھ رہے ہیں تو وہ منبر پر گئے اور لوگوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: ”تم لوگ کیوں زیادہ مہر رکھتے ہو“۔اور خبردار کیا کہ اب اگر میں نے سن لیا کہ کسی نے اپنی بیوی کی مہر چار سو درہم سے زیادہ رکھی ہے تو اس پر حد جاری کروں گا اور چار سو درہم سے زیادہ رقم کو بیت المال میں جمع کردوں گا“۔
ایک عورت نے منبر کے نیچے سے کہا:
”کیا تم مجھے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے منع کرتے ہو اور اگر کسی نے زیادہ رکھی تو اس سے لینے کو کہتے ہو ؟ “
عمر نے کہا: ”ہاں“۔
عورت نے کہا: ”کیا قرآن کی یہ آیت تم نے نہیں سنی ہے جس میں خدا وند متعال فرماتا ہے:
”وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَارًا فَلاَتَاٴْخُذُوا مِنْہُ شَیْئًا“[98]
”اور اگر تم کسی زوجہ کو مال کثیر بھی (بعنوان مہر) دے چکے ہو تو خبردار اس میں سے کچھ واپس نہ لینا“۔
عمر نے اس عورت کی بات کی تصدیق کی اور استغفار کرتے ہوئے کہا:
”کل الناس افقہ من عمر حتی المخدرات فی الحجال“۔[99]
”تمام لوگ یہاں تک کہ پردہ میں رہنے والی عورتیں بھی عمر سے زیادہ فقیہ ہیں۔
عالم دین: ”مذکورہ آیت کی شان نزول یہ ہے کہ اسلام سے پہلے،زمانہٴ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیکر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو اس پر بری بری تہمتیں لگاتا تھا تاکہ وہ پریشان ہو کر اپنی وصول شدہ مہر کو واپس دے کر طلاق لے لے اور بعد میں اسی مہر کو وہ اپنی دوسری بیوی کے لئے معین کر دے۔
اسلام کی نظر میں مہر کا کم قرار دینا بہتر ہے لیکن اگر کسی سے یہ فعل سرزد ہوگیا اور اس نے عورت کی زیادہ مہر معین کر دی تو بعد میں بغیر عورت کی رضامندی کے اس کو کم نہیں کیا جا سکتا۔اسی بنا پر مذکورہ آیت مہر کو کم رکھنے کے حکم سے کسی طرح بھی منافات نہیں رکھتی اور حضرت عمر اور عورت کے بحث میں یہ کہنا چاہئے کہ عورت کا جواب بالکل صحیح تھا کیونکہ عمرنے کہا تھا کہ اگر کسی نے چار سو درہم سے زیادہ مہر معین کی تو اضافی رقم لے کر بیت المال میں جمع کر دی جائے گی، عورت نے مذکورہ آیت پڑھ کر عمر سے کہا مہر،معین کرنے کے بعد تم بقیہ رقم واپس لینے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔عمر نے بھی عورت کی اس بات کو قبول کرلیا۔
نتیجہ یہ کہ اسلام میں کم مہر رکھنا مستحب موکد ہے لیکن اگر اس سنت کو کسی نے ترک کیا اور زیادہ مہر رکھ دیا تو بغیر عورت کی رضایت کے اسے کم کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
طالب علم: ”آپ کے اس مفصل بیان کا شکریہ جو بہت ہی منطقی تھا اورمیں اس سے قانع ہو گیا۔۔۔ اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کی خدمت میں دوسرا سوال پیش کروں“۔
عالم دین: ”فرمائیں“۔
طالب علم: ”قرآن کریم میں جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب شعیب علیہ السلام کا واقعہ ملتا ہے جب جناب موسیٰ علیہ السلام فرعونیوں کے ڈر سے بھاگ کر مدائن شہر پہنچے اور آخر میں جناب شعیب علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے تو جناب شعیب علیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہا:
” قَالَ إِنِّی اٴُرِیدُ اٴَنْ اٴُنکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلَی اٴَنْ تَاٴْجُرَنِی ثَمَانِیَةَ حِجَجٍ فَإِنْ اٴَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا اٴُرِیدُ اٴَنْ اٴَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللهُ مِنْ الصَّالِحِین“[100]
”میں اپنی ان دونوں بیٹیوں (صفورا ولعیا)میں سے کسی ایک کی شادی تمہارے ساتھ اس شرط پر کرنا چاہتاہوں کہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں کام کرو اور اگر تم نے اسے دس کردیا تو یہ تمہاری مرضی ہے ،میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پاوٴگے“۔
جناب موسیٰ علیہ السلام نے جناب شعیب کی اس خواہش کی قدر کی اور ان کی درخواست قبول کیا۔
یہ واضح سی بات ہے کہ آٹھ سال کا م کرنا بہت ہی زیادہ مہر ہے جسے خدا کے دو نبیوں نے قبول کیا ہے اور قرآن نے بھی بغیر کسی تنقید کے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
قرآن مجیدکی تنقید نہ کرنا زیادہ مہر قرارد ینے کی اجازت دیتا ہے۔
عالم دین: ”جناب موسیٰ علیہ السلام اور جناب شعیب علیہ السلام کے واقعہ کے بارے میں یہ معلوم ناچاہئے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی جناب شعیب علیہ السلام کی لڑکیوں کے ساتھ شادی معمولی شادی نہیں تھی بلکہ یہ ایک مقدمہ تھا تاکہ موسیٰ علیہ السلام شہر مدائن کے ”شیخ “جناب شعیب علیہ السلام کے مکتب میں کافی دن تک رہ کر علم وکمال حاصل کریں۔
اگر چہ درست ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کے یہاں کئی سال کام کر کے مہر ادا کی لیکن شعیب علیہ السلام نے بھی موسیٰ علیہ السلام اور ان کی بیوی کا خرچ چلا یا اور اگر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی بیوی کی زندگی کا خرچ موسیٰ علیہ السلام کی مزدوری سے کم کر دیا جائے تو بہت کم مال باقی بچتا ہے اور اس لحاظ سے مہر کی مقداربہت کم قرار پائے گی۔
لہٰذا اس طرح جناب شعیب کی بیٹی کا بھاری مہر در اصل جنا ب موسیٰ کی مادی ومعنوی زندگی کے تحفظ کے لئے ایک مقدمہ تھا جو جناب شعیب نے اپنی بیٹی کی مرضی سے انجام دیا تھا۔
واضح اور روشن عبارت میں یہ عرض کیا جائے کہ جناب شعیب علیہ السلام ظاہری طور پر بھاری اور زیادہ مہر قرار دے کر مقصد موسیٰ علیہ السلام کی تنہائی ختم کرنا چاہتے تھے نہ کہ ان کا مقصد انھیں اس مہر سے پریشان کرنا تھا بلکہ ان کا مقصد موسیٰ علیہ السلام کی زندگی سہل اور آسان بنانا تھا جیسا کہ انھوں نے فرمایا: ”ماارید ان اشق علیک “ ،”میں تمہیں زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتا“۔
طالب علم: ”آپ کے دل کش اور استدلالی بیان کا بہت شکریہ، سچ مچ جناب شعیب علیہ السلام نے ذہانت اور ہوشمند انہ تدبیر سے جناب موسیٰ علیہ السلام کی بہت اچھی خدمت کی“۔
۹۴۔معاویہ پر لعنت کے جواز سے متعلق ایک مناظرہ
عظیم مرجع مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے تقریبا ً بیس افراد جو خراسان کے اطراف و نواح جیسے’ ’تربت جام“وغیرہ سے حج کے لئے مدینہ منورہ آئے ہوئے تھے وہاں پر میں بھی انھیں کے ساتھ باغ صفا میں رہتا تھا۔
ایک روز میرے قریب ہی رہنے والے کچھ اصفہانی حجاج کے ساتھ یہ طے پایا کہ مجلس عزا منعقد کی جائے کیونکہ عزاداری اور محرم کے دن بھی قریب ہیں خراسان کے اطراف تربت وغیرہ کے سنی کے حجاج جو باغ صفا کے ایک بڑے ہال میں رہتے تھے جگہ کے لحاظ سے وہ بہت ہی وسیع وعریض جگہ تھا لہٰذا ہم لوگوں نے ان سے باغ صفا میں کے اس ایوان عزاداری کی در خواست کی تو ان لوگوں نے ہماری درخواست کو قبول کرلیا اور کافی مدد بھی کی۔
اسی دوران مدینہ کے رہنے والے کچھ سنی اہل علم حضرات اُن ایرانی سنیوں سے ملاقات کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔میرے اور ان کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کی عظمت ومنزلت کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی اور وہ ہماری بات کی تصدیق کررہے تھے، اور اس گفتگو کے درمیان انھوں نے بہت سی حدیثیں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نقل کیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کے لئے فرمایا:
”لحمک لحمی و دمک دمی“۔
”تمہارا گوشت میرا گوشت تمہارا خون میرا خون ہے“۔
اور اسی طرح کی دوسری بہت سی روایتیں بھی نقل ہوئی ہیں جو علی علیہ السلام کی دوستی، پیغمبر اکرم کی دوستی اور علی علیہ السلام کی دشمنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی پر دلالت کرتی ہیں۔
یہاں تک کہ ہماری گفتگو کا سلسلہ لعن معاویہ تک بات پہنچا تو ان لوگوں نے کہا: ”معاویہ پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے لیکن یزید پر لعنت کرنا چاہئے کیونکہ اس نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا ہے“۔
میں نے کہا: ”تمہارے مذہب کے مطابق پر لعنت کرنا جائز ہونا چاہئے کیونکہ اس پر لعنت کرنے کا جواز تمہاری ابھی حال میں کہی ہوئی باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
”اللھم عاد من عاداہ“۔
(خدایا تو اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے )
یہ بات مسلم ہے کہ معاویہ حضرت علی علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا یہاں تک کہ مرتے وقت تک آپ سے دشمنی روارکھی اور توبہ و استغفار بھی نہیں کیا اور اس طرح اس نے آپ کی دشمنی کی وجہ سے آخری عمر تک آپ کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑا جب کہ اس چیز کو وہ آسانی سے چھوڑا سکتا تھا۔اس دلیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے اور معاویہ حضرت علی علیہ السلام کا جانی دشمن تھا لہٰذا اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔[101]
یہاں پر توضیح کے طور پر اس بات پر توجہ رہے کہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کے مطابق رسول اسلام نے خود ابو سفیان، معاویہ اور یزید پر لعنت کی ہے،[102] یہاں تک کہ فرمایا: ”جب بھی معاویہ کو منبر کے پر دیکھو،اسے قتل کردو۔ [103]
اورا گر یہ کہا جائے (جیسا کہ معاویہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں)کہ معاویہ نے اجتہاد کی رو سے علی علیہ السلام سے دشمنی کی تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ نص کے مقابلہ میں ہر گز اجتہاد جائز نہیں ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی باطنی خباثت سے اچھی طرح آگاہ تھے جس کی وجہ سے آپ نے اس کو اس طرح بددعا دی۔اہل سنت کی روایات کے مطابق رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک دن اس پر اس طرح لعنت کی:
”خدایا معاویہ اور عمر وعاص کو جہنم میں ڈال دے“۔[104]
اہل سنت حضرات کے یہاں جو اصحاب محترم اور قابل قبول سمجھے جاتے ہیں انھوں نے بھی معاویہ کے بارے میں سخت باتیں کہیں ہیں، (اس کی مزید وضاحت کے لئے آپ کتاب الغدیر جلد ۱۰ صفحہ ۱۳۹سے ۱۷۷ کا مطالعہ کریں)
شیخ حر عاملی (متوفی ۱۱۰۴ ھ ) غزالی صاحب کتاب ”احیاء العلوم “کی بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: غزالی نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ یزید اور حجاج پر لعن وطعن کرنا جائز نہیں ہے“!!
اس کے شیخ حر عاملی فرماتے ہیں: ”خاندان رسالت سے دشمنی و عداوت رکھنا کیا اس سے بھی زیادہ ممکن ہے جو غزالی ان سے رکھتا تھا؟ جب کہ شیعہ اور سنی دونوں روایتوں سے نقل ہو ا ہے کہ ایک روز ابو سفیان اونٹ پر سوار تھا معاویہ اس کی مہار پکڑے ہوئے اسے کھینچ رہا تھا اور یزید پیچھے سے ہانک رہا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تینوں کو دیکھ کر فرمایا:
”لعن اللہ الراکب والقائد والسائق“۔
”خدا! سوار ،مہارپکڑنے والے اور ہانکنے والے تینوں پر لعنت کرے“۔
اس کے بعد شیخ حر عاملی کہتے ہیں: ”کیا خدا وند متعال نے قرآن مجید (کے سورہٴ نساء میں آیت ۹۳) میں یہ نہیں فرمایا ہے:
”وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَاٴَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیماً“
”اور جو بھی مومن کو عمداً قتل کرتا ہے اس کی جزا جہنم ہوتی ہے وہ وہاں ہمیشہ رہے گا، اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے اور اس پر لعنت بھیجتا ہے اور اس کے لئے درد ناک عذاب تیار رکھتا ہے“۔
کیا غزالی اس بات کا معتقد ہے کہ امام حسین علیہ السلام مومن نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کے قاتل یزید پر لعنت جائزنہیں سمجھتا ہے ، کیا بے انصافی ہے!!؟[105]
۹۵۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ سے متعلق واعظ اور سامع کے درمیان مناظرہ
ایک بہت ہی پڑھے لکھے واعظ نے منبر پر تقریر کے دوران امام حسین علیہ السلام پر رونے کے سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کیں جن میں ایک یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”کل عین باکیة یوم القیامة الاعین بکت علی مصائب الحسین فانھا ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة“۔[106]
”روز قیامت ہر آنکھ گریہ کنا ں ہوگی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر رونے والی آنکھیں خدا کی نعمت دیکھ کر ہشاش وبشاس ہوں گی“۔
منبر سے اترنے کے بعد ایک سامع اور واعظ کے درمیان حسب ذیل طریقہ سے مناظرہ ہوا:
سامع: ”یہ تمام اجر وثواب گریہ امام حسین علیہ السلام پر کیوں ہے ؟ جب کہ امام حسین علیہ السلام دنیا میں عظیم انقلاب لا کر کامیاب و سربلند ہوئے اور اپنے خون سے یزیدیوں کو رسوا کیا اور ان کے چہرے ہمیشہ کے لئے کالے کر دیئے اور آخرت میں اس کے بدلے آپ کو بہترین مقام دیا گیا ہے اور آج بھی آپ برزخ اور جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔اور اسلامی نظریہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید سورہٴ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:
”وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُون“[107]
”اور اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والوں کو مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں“۔
واعظ: ”میں نے ایسی متعدد روایتیں دیکھی ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور عزاداری کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس گریہ و زاری کو برابر زندہ رکھنے کے بارے میں کہا گیا ہے اور شیعہ وسنی دونوں روایتوں میں آیا ہے کہ روز قیامت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خداوند متعال کی بارگاہ میں اس طرح عرض کریں گی:
”اللھم اقبل شفاعتی فیمن بکی علی ولدی الحسین“۔
”پالنے والے میرے بیٹے حسین پر گریہ کرنے والوں کے لئے میری شفاعت قبول کر“۔
اسی روایت کے ذیل میں آیا ہے:
”فیقبل اللہ شفاعتھا ویدخل الباکین علی الحسین علیہ السلام فی الجنة“۔[108]
”خدا وند عالم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شفاعت قبول کرے گا اور امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں کو جنت میں داخل کرے گا“۔
متعدد روایتوں کے مطابق انبیاء علیہم السلام اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا ہے اور عزاداری برپا کی ہے۔
کیا اگر ہم اولیائے خدا اور بارگاہ خدا وندی کے مقرب بندوں کی پیروی میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں توکوئی اعتراض کا مقام ہے ؟نہیں قطعاً نہیں، بلکہ اس عظیم سنت کو زندہ کرنے اور ائمہ علیہم السلام کی اس چیزکی اقتداء میں بہت ہی اجر وثواب ہے یہاں پر ائمہ معصومین علیہم السلام نے گریہ امام حسین علیہ السلام کو کتنی اہمیت دی ہے اس کے بارے میں سے دو عجیب واقعے نقل کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ایک روز امام سجاد علیہ السلام نے سنا: ایک شخص بازار میں یہ کہہ رہا ہے: میں ایک مسافر ہوں مجھ پر رحم کرو۔(انا الغریب فارحمونی)
امام سجاد علیہ السلام اس کے پاس گئے اور اس کی طرف متوجہ ہو کر آپ نے فرمایا:
”اگر تیری قسمت اسی (شہر مدینہ میں)مرنا ہوگی تو کیا یہاں تیری لاش کو بے گوروکفن چھوڑ دیا جائے گا ؟“
اس غریب مرد نے کہا: ”اللہ اکبر کس طرح میرے جنازہ کو دفن نہیں کریں گے جب کہ میں مسلمان ہوں اور اسلامی امت کی آنکھوں کے سامنے ہوں“۔
امام سجاد علیہ السلا م نے روتے ہوئے فرمایا:
”وا اسفاہ علیک یا ابتاہ۔تبقی ثلاثة ایام بلادفن وانت ابن بنت رسول الله“۔[109]
”کتنے افسوس کی بات ہے اے میرے بابا!رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے ہوتے ہوئے بھی آپ کی لاش تین روز تک بے گوروکفن زمین پر پڑی رہی“۔
۲۔تاریخ میں آیا ہے کہ منصور دوانقی (دوسرا عباسی خلیفہ)نے مدینہ میں اپنے والی کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگا دو۔
والی مدینہ نے حکم پانے کے بعد آگ اور لکڑی جمع کروائی اور امام جعفرصادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگادی اور گھر کے دالان سے جب شعلے بھڑکنے لگے تو مخدرات عصمت گھر میں رونے یٹنے لگیں یہاں تک کہ ان کی آواز گھر سے باہر پہنچ گئی امام جعفر صادق علیہ السلام نے بڑی مشکل سے آگ بجھا ئی اس کے دوسرے دن کچھ شیعہ حضرات آپ کی احوال پرسی کے لئے گئے تو دیکھا کہ آپ محزون ہیں اور گریہ فرمارہے ہیں ان لوگوں نے کہا: ”کیا دشمنوں کے اس عمل اور ان کی گستاخی پر آپ گریہ کر رہے ہیں جب کہ آپ کے خاندان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے؟ “
امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”میںکل کے واقعہ پر نہیں روہا ہوں بلکہ اس بات پر رورہا ہوں کہ جب گھر میں آگ کا شعلہ بھڑکنے لگا تو میں نے دیکھا کہ میرے ہوتے ہوئے عورتیں اور بچیاں ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ بھاگ کر پناہ لے رہی تھیں تاکہ انھیں آگ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
”فتذکرت عیال جدی الحسین یوم عاشوراء لما ھجم القوم علیھم ومنادیھم ینادی احرقوا بیوت الظالمین“۔[110]
تو اس وقت مجھے روز عاشورہ اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے مصیبت زدہ اہل حرم کی یا د آگئے جب ایک منادی ندا دے رہا تھا کہ ظالموں کے گھروں کو جلا دو“۔
دو مذکورہ واقعے اور اس کے علاوہ بہت سے قرائن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام ائمہ علیہم السلام ہمیشہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری برابر لوگوں کے دلوں میں تازہ دم رہے اسی بنیاد پر ہم ان کی پیروی میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت زندہ رکھنے کے لئے ان پر گریہ کرتے ہیں اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس عمل پرہمیں عظیم اجر وثواب عطا ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرنا اور غمگین ہونا اتنا عظیم اور مقدس عمل ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام زیارت امام حسین علیہ السلام کے ضمن میں فرماتے ہیں:
”السلام علی الجیوب المضرجات“۔[111]
”سلام ان گریبانوں پر جو امام حسین علیہ السلا کے غم میں چاک ہوئے ہوں“۔
سامع: ”آپ کی اس راہنمائی کا بہت بہت شکریہ ،بیشک ہمیں اپنی زندگی میں چاہئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کو اپنے لئے نمونہٴ عمل قرار دیں، لیکن یہاں میرا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہیں تمام احکام اپنے ساتھ ایک ہدف لئے ہوئے ہیں اور کتنا بہتر ہے اگر ہم ان تمام احکام کو با معرفت انجام دیں نہ کہ اندھی تقلید کرتے ہوئے۔
اسی بنا پرمیرا سوال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کا کیا مقصد اور کیا سبب ہے ؟ “
واعظ: ”امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور اس کے مقصد کی وضاحت کے سلسلے میں چند باتیں کہی جاسکتی ہیں:
۱۔شعائر اللہ کی تعظیم: مرحوم مومن پر گریہ کرنا ایک طرح کا احترام ہے اور یہ گریہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرہ میں اس کے چلے جانے سے ایک خلا واقع ہو گیا ہے اور وہ اب موجود نہیں ہے تاکہ لوگ اس کے وجود سے فائدہ اٹھائیں۔یہ گریہ اس کے باطنی احساسات ہیں جو مومن کے دنیا سے چلے جانے پر وجود میں آتے ہیں کیونکہ جب وہ مومن اس دنیا میں تھا لو گ اس سے مختلف طرح سے مستفید ہوتے رہتے تھے، گریہ ایک فطری عمل ہے اور جو شخص جتنا عظیم ہوگا دنیا والے اس پر اسی حساب سے زیادہ گریہ کریں گے۔جو دنیا سے جاتا ہے اور اس کے اوپر کوئی گریہ نہیں کرتا تو گویا یہ اس کی ایک طرح کی بے احترامی ہے۔
ایک شخص نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا: ”نیک اخلاق کیا ہے ؟ “آپ نے جواب دیا:
”ان تعاشروا الناس معاشرة ان عشتم حنواالیکم وان متم بکوا علیکم“۔ [112]
”لوگوں سے اس طرح سلوک کرو کہ جب تک زندہ رہو وہ تمہارے اشتیاق میں تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں اور جب تم مر جاوٴ تو تم پر گریہ کریں“۔
ہر قوم وملت میں یہ رسم پائی جاتی ہے کہ جب بھی اس کے درمیان سے کوئی بزرگ شخصیت اٹھ جاتی ہے تو لوگ اس کے انتقال پر گریہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی دین محمد ی پر شہادت بھی ایک عظیم اور ہمیشہ باقی رہنے والا واقعہ ہے جس پر گریہ کرنا ان کے ہدف و مقصد کوزندہ رکھنا دینی شعائر کی تعظیم سمجھا جاتا ہے۔
اور قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ“[113]
”اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔--“
۲۔عاطفی گریہ: امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی ایک روز (عاشورا) میں جگر سوز شہادت ہر انسان کے دل کو کباب کر دیتی ہے اور ہر انسان کا دل ظالم و ستمگر کے خلاف بر انگیختہ ہوجاتا ہے کربلا کا الم ناک واقعہ اس قدر دل ہلا دینے والا ہے کہ اسے زمانہ نہ کبھی بھلا سکتا ہے اور نہ ہی اسے پرانا بنا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر: عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق جنا ب عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں نےانھیں پھانسی دے کر قتل کر دیا اب تم معلوم کر سکتے ہو کہ عیسائی اس یاد کو دنیا کے چپہ چپہ میں لوگوں کے دلوں میں تازہ کرتے ہیں اور غم کا اظہار کرتے ہیں یہاں تک کہ صلیب اپنے لباس اور اپنے کلیسا وغیرہ پر نصب کرکے اسے اپنی علامت قرار دیتے ہیں۔
جب کہ قتل عیسیٰ (عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق)واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے بہت ہی کم اہمیت کا حامل ہے۔
اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری لوگوں کی محبت کو بر انگیختہ ہونے اور ان کے عظیم اہداف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔
ایک استاد کے بقول: ”عقل کی ترجمان ہمیشہ زبان رہی ہے لیکن عشق کا ترجمان آنکھ ہے جہاں احساس اور درد ہوں اورآنسو گریں وہاں عشق ضرور پایا جاتا ہے لیکن جہاں لفظوں کو ترتیب دے کر جملہ چھانٹے وہاں عقل پائی جاتی ہے“۔
اس بنا پر جس طرح مقرر کے زبردست دلائل اور پر زور خطابت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ اس خاص مذہب سے وابستہ ہے اسی طرح آنکھوں سے گرنے والا آنسو کا ایک قطرہ دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کی طرح ہوتا ہے۔[114]
مقاصد کی تکمیل اور دشمن کی مغلوبیت کے لئے احساساتی پہلوایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ان کو یکسر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کیونکہ یہ بھی کسی انقلاب کی آہٹیں ہوا کرتے ہیں۔
۳۔گریہ تائید ہے: امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا ایک طرح سے ان کے قیام اور ان کے اہداف کی تائید ہے یہ گریہ عمیق ترین شعور و احساسات کو دشمنوں اور ستمگروں کے خلاف ابھارتا ہے جس کے معنی یہ ہیں: اے امام حسین علیہ السلام! آپ ہمارے قلب و جان اور احساسات کے گھروں میں پ موجود ہیں“:
زندہ در قبر دل ما بدن کشتہ تو است
جان مائی و تورا قبر حقیقت دل است
یہ زبان حال شیعہ ہے جو ہر زمان ومکان میں تین ستونوں پر استوار ہے۔
۱۔ہمارا قلب اس مبداء ایمان کی خاطر تلاش کرتا ہے جس کے لئے امام حسین علیہ السلام قتل کئے گئے۔
۲۔ہمارے کان ان کی سیرت و گفتار کو سنتے ہیں۔
۳۔ہماری آنکھیں آنسو بہا کر کربلا کے درد ناک واقعہ کو لوگوں کے دلوں پر نقش کرتی ہیں۔
اگر مذکورہ اسباب میں سے کسی ایک سبب کی وجہ سے گریہ ہواتو یہ سو فی صد ایک سالم فطرت تقاضہ کے تحت عمل میں آیا ہے اس طرح کے گریہ میں کوئی حرج کی بات کیا بلکہ یہ تو امام حسین علیہ السلام کے قیام و انقلاب کے لئے بہت سے فوائد کا حامل بھی ہے۔
۴۔ پیام آور اور رسواگر گریہ: ہر انسان جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی کیفیت شہادت سنتا ہے کہ وہ بھوکے پیاسے عورتوں اور بچوں کے سامنے جلتی ہوئی زمین پر شہید کر دئیے گئے تو بے اختیا ر اس کے قلب و دماغ میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پورے وجود سے یزید کی پلیدی اور قساوت قلبی پر لعنت وملامت کرتا ہے۔
اسی طرح امام حسین علیہ السلام پر گریہ ہر زمان مکان میں ظلم اور ظالم کے خلاف ایک آواز اور ایک طرح کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور کبھی کبھی یہی گریہ دشمن کو کچلنے کا بہترین ذریعہ بن ہوجاتا ہے۔لہٰذ جہاں بھی گریہ بے رحم دشمنوں کی رسوائی کا سبب بنے اور الٰہی پیغام لوگوں تک پہنچ جائے تو اسے ایک قسم کا نہی عن المنکر دین کے راستے کو استوار کرنے اور ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں عملی اقدام کہا جاسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ گریہ کی چند قسمیں ہیں جیسے خوف خدا سے گریہ ،شوق کا گریہ، محبت کا گرم وپیام آور گریہ وغیرہ اگر اس گریہ کا صحیح اور مناسب مقصد ہو تو یہ گریہ اپنی تمام قسموں میں سب سی زیادہ اچھا ہے۔
ہاں ایک گریہ مایوسی ،لاچاری،عاجزی اور شکست کی وجہ سے ہوتا ہے جسے گریہ ذلت کہتے ہیں اور اس طرح کا گریہ ان عظیم ہستیوں سے بہت دور ہے اور اولیائے خدا اور اس کے آزاد بندے اس طرح کا گریہ کبھی نہیں کرتے۔
اسی طرح گریہ اور عزاداری کی دو قسم ہے ”مثبت اور منفی“منفی گریہ قابل مذمت اور نقصان دہ ہے لیکن مثبت گریہ اپنے ساتھ بہت سے اصلاحی فوائد لئے ہوئے ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ گریہ کبھی کبھی نہی عن المنکر اور طاغوتیوں کے خلاف قیامت برپاکرنے اور جہاد کی صف میں کھڑے ہو کر جنگ کرنے کا سب سے اچھا اسلحہ ثابت ہوتا ہے۔
سامع: ”میرے سوال کے جواب میں آپ کے منطقی جامع اور مانع بیان کا بہت شکریہ“۔
واعظ: ”یہاں پر اس مناظرہ کی تکمیل میں کچھ اور باتیں بتاتا چلوں:
اسلام کے بعض دستور العملمیں سیاسی پہلو بھی لایا جاتا ہے ، چنانچہ عزاداری کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ گریہ کرنے یہاں تک کہ رونے والوں جیسی صورت بنانے (تباکی) میں ایک سیاسی پہلو پوشیدہ ہے، (جیسا کہ مناظرہ نمر ۸۱میں آپ نے امام محمد باقر علیہ السلام کی اپنے اوپر دس سال تک گریہ کرنے کی وصیت میں پڑھا۔)
ائمہ علیہم السلام واقعہ کربلا کے سبب عزاداری کے ضمن میں حق وباطل کے چہرہ کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور لوگوں کو غفلت سے نکالنا چاہتے تھےے، لہٰذا انھوں نے ہر موقع اور مناسبت سے واقعہ عاشورہ کو زندہ رکھا، یہاں تک کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
”امام سجاد علیہ السلام کی انگوٹھی کے نگینہ پر یہ لکھا تھا“:
”خزیٰ و شقی قاتل الحسین بن علی علیہ السلام“۔[115]
”حسین بن علی علیہ السلام کا قاتل ذلیل اور رسوا ہوا“۔
حقیقتاً امام سجاد علیہ السلام نے اپنی انگوٹھی پر اس جملہ کو صرف اس لئے کندہ کروارکھا تھا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام لوگوںکے دلوں میں تازہ دم ہوتی رہے اور لوگوں کی نظر جب بھی میری اس انگوٹھی پر پڑے توانھیں بنی امیہ کے مظالم یاد آجائیں اور سیاسی لحاظ سے بیدا ررہیں۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور گریہ دو طرح کا ہے۔ مثبت ومنفی، اب اس میں منفی اور قابل مذمت وہ گریہ ہے جو رونے والوں کے عجز وناتوانی اور شکست کو ثابت کرے لیکن مثبت وہ گریہ ہے جو لوگوں کی عزت، شجاعت ،صلاحیت اور بیداری کا سبب بنے۔
۹۶۔پیغمبراسلام آخری نبی ہیں، اس سلسلہ میں ایک مناظرہ
اشارہ
ضروریات دین میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری پیغمبر ماننا ہے جس کے بعد خدا وند متعال کی طرف سے نہ کوئی پیغمبر آیا اور نہ کوئی شریعت ،اس بات کے اثبات میں قرآن میں بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جیسے سورہٴ احزاب آیت ۴۰،سورہٴ فرقان آیت۱، سورہٴ فصلت آیت ۴۱۔۴۲۔سورہٴ انعام آیت ۱۹ ،سورہٴ سبا ، آیت ۲۸ وغیرہ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایتیں آپ کے خاتم الانبیاء ہونے پر صریحی ور سے دلالت کرتی ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد آنے والے زمانوں میں فریبی اور چالباز لوگوں نے نیا نیا پیغمبر بنا کر آپ کی خاتمیت کو مخدوش بنانا چاہا۔تاکہ اس طرح سے خود ساختہ ادیان جیسے قادیانیت، بابی گری اور بہائیت معاشرہ میں اپنا اثر ورسوخ پید ا کرسکیں۔
اب درج ذیل مناظرہ جو ایک مسلمان اور بہائی کے درمیان ہوا ملاحظہ فرمائیں:
مسلمان: ”تم اپنی کتابوں اور تقریروں میں اسلام اور قرآن کو اس فرق کے ساتھ قبول کرتے ہو کہ اسلام نسخ ہو گیا ہے اور اس کی جگہ دوسری شریعت آگئی ہے اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قرآن نے تو اپنی متعدد آیتوں میں اسلام کو ایک عالمی اور قیامت تک باقی رہنے والا مذہب کہا ہے اور ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاتمیت کا اعلان کرتے ہوئے آنے والے نئے دین کا باطل قرار دیا ہے۔
بہائی: ”مثلاًکون سی آیت یہ کہہ رہی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری پیغمبر ہیں ؟“
مسلمان: ”سورہٴ احزاب کی ۴۰ ویں آیت میں۔
”مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا “
”محمد ، تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر شئے کا علم رکھنے والا ہے“۔
آیت میں جملہ ”خاتم النبیین “ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری پیغمبر ہیں،کیونکہ لفظ خاتم کو جس طرح بھی پڑھا جائے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے ،لہٰذا اس آیت سے صریحی طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی پیغمبر اور شریعت نہیں آئے گی“۔
بہائی: ”خاتم انگوٹھی کے معنی میں بھی آیا ہے جو زینت کے لئے استعمال ہوتی ہے اس طرح اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انبیاء کی زینت ہیں“۔
مسلمان: ”لفظ خاتم کا رائج اور حقیقی معنی ختم کرنے والے کے ہیں اور کہیں پر یہ نہیں آیا کہ لفظ خاتم کسی انسان کے لئے آیا ہو جس سے زینت مراد لی گئی ہو اور اگر ہم لغات کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلے گا کہ خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہی ہیں اب اگر کوئی لفظ اپنے معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کچھ سیاق وسباق رکھتا ہو،ہم اس لفظ کے ساتھ کوئی قرینہ یا کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں پاتے ہیں جس کی وجہ سے اصلی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائیں۔
یہاں پر لفظ خاتم کے بارے میں چند لغات آپ ملاحظہ فرمائیں فیروز آبادی ”قاموس اللغة“ میں کہتے ہیں ”ختم“مہر کرنے کے معنی میں آتا ہے اور ”ختم الشئی“یعنی کسی چیز کا آخر۔
جوہری ”صحاح“میں کہتے ہیں کہ ختم یعنی پہنچنا اور ”خاتمة الشئی“ یعنی اس چیز کاآخر۔
ابو منظور ”لسان العرب“میں کہتے ہیں کہ” ختام القوم“ یعنی قوم کی آخری فرد اور ”خاتم النبیین“ یعنی انبیاء کی آخری فرد۔
راغب ”مفردات“میں کہتے ہیں کہ خاتم النبیین یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود آکر سلسلہ نبوت کو منقطع کر دیا اور نبوت کو تمام کر دیا۔[116]
نتیجہ یہ ہو اکہ لفظ خاتم سے زینت معنی مراد لینا ظاہر کے خلاف ہے جس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور یہاں پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے“۔
بہائی: ”لفظ خاتم کے معنی خط پر آخری مہرہے جس کے معنی تصدیق شدہ کے ہیں لہٰذا اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سے پہلے کے انبیاء کی تصدیق کرنے والے تھے۔
مسلمان: ”غرض پہلے سوال کے جواب سے یہ واضح ہو گیا کہ خاتم کے اصلی اور رائج معنی تمام اور اختتام کے ہیں اور یہ کہیں پر نہیں سنا گیا ہے لفظ خاتم سے استعمال کے وقت تصدیق مراد لی گئی ہو،اتفاق سے اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خاتم یعنی آخر میں مہر لگانا یعنی خاتمہ کا اعلان کرنا“۔
بہائی: ”آیت کہتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین،یعنی پیغمبروں کے سلسلہ کوختم کرنے والے ہیں ،آیت یہ نہیں کہتی کہ مرسلین کے ختم کرنے والے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد رسول کے آنے کی نفی ہوتی ہے“۔
مسلمان: ”اگر چہ قرآن میں رسول اور نبی میں فرق پایا جاتا ہے مثلاًخداوند متعال نے قرآن میں جناب اسماعیل علیہ السلا م کو رسول اور نبی دونوں کہا ہے (سورہٴ مریم آیت ۵۴)اور اسی طرح جناب موسیٰ کو بھی رسول اور نبی بھی کہا ہے (سورہٴ مریم آیت ۵۱)لیکن یہ چیز کسی بھی طرح لفظ خاتم میں شبہ نہیں پیدا کرتی ہے کیونکہ نبی یعنی ایسا پیغمبر جس پر خدا وند متعال کی طرف سے وحی ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کی تبلیغ کرنے والا ہو یا نہ ہو، لیکن رسول وہ ہے جو صاحب شریعت اور صاحب کتاب ہو لہٰذاہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔
نتیجہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خاتم انبیاء کہاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اس فرض کے ساتھ کہ ہر رسول پیغمبر ہے بس رسول بھی نہیں آئے گا مثال کے طور پر نبی اور رسول کی مثال انسان اور عالم دین (منطق کی زبان میں عموم خصوص مطلق )کی نسبت پائی جاتی ہے جب بھی ہم کہیں کہ آج ہمارے گھر کوئی انسان نہیں آیا یعنی عالم دین انسان بھی نہیں آیا، اور ہماری بحث میں اگر کہا جائے گیا کہ کوئی پیغمبر ،رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد نہیں آئے گا یعنی کوئی رسول بھی نہیں آئے گا“۔
بہائی: ”نبی اور رسول کے درمیان تباین (جدائی )پایا جاتا ہے جو نبی ہوگا وہ رسول نہیں ہوگا اور جو رسول ہوگا وہ نبی نہیں ہوگا لہٰذا ہمارا اعتراض بجا ہے“۔
مسلمان: ”لفظ رسول ونبی میں اس طرح کا فرق ،علماء اور مفکرین اور آیات وروایات کے خلاف ہے اور یہ ایک مغالطہ ہے کیونکہ تمہارا یہ مسئلہ خود آیت میں ذکر ہوا ہے“۔
”وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ“[117]
”اور لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں“۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:”وکان رسولا ”نبیا““موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی (سورہٴ نساء آیت ۱۷۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی (سورہٴ نساء آیت ۱۷۱میں)رسول کہہ کر پکارے گئے اور سورہٴ مریم آیت ۳۰،میں نبی کہہ کر پکارے گئے ہیں اگر لفظ نبی اور رسول آپس میں ایک دوسرے کے متضاد لفظ ہوتے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام جیسے انبیاء ان دو متضاد صفتوں کے حامل نہ ہوتے، اس کے علاوہ اور بہت سی روایتیں اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں جس میں پیغمبر اکرم کو خاتم المرسلین کہا گیا ہے جن میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ ہی ختم الرسل ہیں“۔
بہائی: ”جملہ خاتم النبیین سے ممکن ہے خاص پیغمبر مراد لئے گئے ہوں اس طرح تمام کے تمام پیغمبر اس آیت میں شامل نہیں ہوں گے“۔
مسلمان: ”اس طرح کا اعتراض دوسرے اعتراضوں سے زیادہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ جو شخص بھی عربی قواعدسے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہوگا وہ اس طرح کے جملے میں ہر جگہ ”ال“سے مراد عموم لے گا اور یہاں اس الف اور لام سے مراد ”عہد“ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا اس سے عموم ہی مراد لیا جائے گا“۔
۹۷۔امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی حقیقت کے سلسلے میں ایک مناظرہ
وہابی: ” شیعہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان پر گریہ کرتے ہیں وہ اس لئے کہ اپنے اباء واجداد کے گزشتہ ظلم کا جبران کریں کیونکہ انھیں کے باپ داداوٴں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو قتل کیا ، اور پھر ان لوگوں نے توبہ کی اور اس طرح انھوں نے توابین (زیادہ توبہ کرنے والوں) کے عنوان سے اپنے گزشتہ ظلم و ستم کا جبران کرنا چاہا “۔
شیعہ: ”تم شیعوں پر یہ تہمت کس ماخذاور حوالہ سے پر لگار ہے ہو؟ “
وہابی: ”جو لوگ کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے آئے تھے وہ شام و حجاز اور بصرہ کے نہیں تھے بلکہ سب کے سب کوفہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت کوفہ میں اکثر شیعہ ہی رہتے تھے، انھیں لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا“۔
شیعہ: ”اولاً اگر بفرض محال شیعوں ہی میں سے کچھ لوگ خوف و فریب سے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں جنگ کے لئے آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہب شیعہ اور اس کے تمام ماننے والوں نے امام حسین علیہ السلام سے منحرف ہو کر یزید کے راستہ کو اختیار کر لیا تھا ،عموما ً یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر مذہب وملت میں کچھ نہ کچھ لوگ اپنے مذہب سے منحرف ہوجاتے ہیں لیکن ان کا عمل مذہب کے بے بنیاد ہونے پر دلیل نہیں بن سکتا ہے ،ثانیا ً یہ کہ حقیقت میں یہ سب باتیں محض تہمتیں ہیں جو بالکل بے بنیاد اور جھوٹی ہیں“۔
وہابی: ”کیوںاور کس دلیل سے ؟ “
شیعہ: ”سپاہیوں کا وہ لشکر جو کوفہ سے کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام سے لڑنے آیا تھا ان میں اکثر خوارج ، بنی امیہ اور وہ منافق تھے جو حضرت علی علیہ السلام حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس سے بھگائے گئے تھے اور اس لشکر کے تمام سردار حکومت علی علیہ السلام کے مخالفین میں سے تھے جن کو حضرت علی علیہ السلام نے معزول کر دیا تھا اور وہ لوگ خاندان رسالت علیہم السلام کے معتوب شمار کئے جاتے تھے جن سے ابن زیاد نے نا جائز فائدہ اٹھا یا۔
اور زیادہ تر اس گروہ مرتزقہ(خریدے ہوئے غیر عرب افراد)سے تعلق رکھتے تھے ،جنھیں بنی امیہ نے اپنی داخلی شورش کے کارکنوں کی سرکوبی کے لئے محفوظ کر رکھا تھا اس بنیاد پر کربلا میں جنگ کرنے والے شیعہ ہر گز نہیں تھے۔[118]
وضاحت: اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ میں شیعوں کی اکثریت تھی لیکن آپ کی شہادت کے بعد معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں اس کے جلادوں کی اذیت اور سزاوٴں کے خوف کی وجہ سے وہ بھاگ گئے اور ادھر ادھر بکھر گئے تھے اور معاویہ کے خریدے ہوئے ظالموں نے اکثر کو قتل کر دیا تھا اور بہت سے بچے ہوئے لوگوں کو کوفہ سے نکال دیا تھا یہاں تک کہ زیاد ابن ابیہ (عراق میں معاویہ کا گورنر) کے زمانہ میں تمام شیعوں کو قتل کر دیا گیا یا زندان میں ڈال دیا گیا تھا اور یا تو وہ لوگ کوفہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے، معاویہ کے زمانہ میں اگر کسی پر کفر والحاد اور شرک کا جرم عائد ہوتا تو اس کے لئے نہ کوئی سزا تھی اور نہ کوئی خوف تھا لیکن کسی کو شیعہ کہنا اس کے جان ومال اور اس کے گھر کو ویران کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ،زیاد ابن ابیہ ”سمیہ روسپی“کا بیٹا تھا جب یہ کوفہ کے دار الامارة میں مقرر ہو گیا تو معاویہ نے اسے لکھا: ”اے زیاد ! جو لوگ علی( علیہ السلام) کے مذہب پر زندگی گزار رہے ہیں انھیں قتل کردو اور قتل کے بعد ان کے ناک کان کاٹ لو“۔زیادنے مسجد میں اہل کوفہ کو بلوا کر کہا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کریں اگر کوئی ان پر لعنت نہیں کرے گا تو اس کی گردن اڑادی جائے گی۔[119]
منقول ہے کہ زیاد ابن ابیہ ”سعد بن سرح “نامی شخص کے قتل کے کے درپے تھا ،امام حسن علیہ السلام نے زیاد کو اپنے خط کے آخر میں لکھا کہ سعد بن سرح بے گناہ مسلمان ہے اس کا پیچھا چھوڑ دے۔
زیاد نے امام حسن علیہ السلام کے خط کے جو اب میں لکھا: ”کہیں نہ کہیں وہ میرے ہاتھ لگ ہی جائے گا اور اسے میں اس لئے قتل کردوں گا کہ وہ تمہارے (نعوذ باللہ )فاسق باپ سے محبت کرتا ہے“۔[120]
زیاد ابن ابیہ کی ایک ظلم یہ تھا کہ اس نے” سمرہ بن جندب “کو کوفہ اور بصرہ میں اپنا جانشین بنا دیا تھا اور زیاد ابن ابیہ کے مرنے کے بعد معاویہ نے سمرہ کو اس کے عہدہ پر باقی رکھا ،سمرہ کی خونخوار ی کی انتہا یہ تھی کہ اس نے ایک مرتبہ ۸۰ ہزار افراد کو نہایت دردناک طریقہ سے موت کے گھاٹ اتا ر دیا تھا۔[121]
عدوی کہتے ہیں: سمرہ نے ایک دن صبح کو ہمارے ۱۴۷/ افراد کو بے رحمی سے قتل کردیا جو سب کے سب حافظ قرآن تھے۔[122]
سر فہرست افراد جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ،مالک اشتر، محمد بن ابی بکر ،عمر بن حمق وغیرہ معاویہ کے خرید ہوئے مزدوروں کے سبب شہید کردیئے گئے۔
معاویہ کی بھیانک اور خطرناک حکومت ایسی تھی کہ عمربن حمق کا کٹا ہو اسر زندان میں ان کی بیوی کے لئے بھیجا گیا،[123] اور کوفہ کی فضا اتنی خطرناک حد تک دل ھلا دینے والی تھی کہ لوگ اپنے نزدیک ترین افراد پر بھی اس وجہ سے اطمینان نہیں رکھتے تھے کہ کہیں یہ معاویہ کا جاسوس نہ ہو۔
علامہ امینی لکھتے ہیں: ”اس بات کی طرف توجہ رہے کہ زیاد بن ابیہ کوفہ کے تمام افراد کو پہچانتا تھا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں وہ انھیں لوگوں کا جزء تھا اور وہ تمام شیعوں کو جانتا تھا جس کہ وجہ سے اگر کسی شیعہ نے پتھر کی آڑ میں یا کسی بل میں بھی پناہ لے رکھی تھی تو وہ اسے تلاش کروا کر قتل کردیتا اور ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیتا اور ان کی آنکھوں کو پھوڑ کر پھانسی پر چڑھا دیتا اور بعض کو شہر بدر کروا دیتاتھا نتیجہ میں شیعہ نام کا ایک شخص بھی کوفہ میں باقی نہیں رہ گیا تھا۔[124]
مختصر یہ کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانہ میں چار ہزار یا پانچ ہزار شیعہ کوفہ میں نہیں بچے تھے اور ابن زیاد جب تخت پر آیاتو ان افراد کو بھی پکڑوا لیا اور امام حسین علیہ السلام کے عراق میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ان سب کو جیل میں ڈال دیا شیعوں کی تعداد اس زمانہ میں بس انھیں افراد پر مشتمل تھی جو یزید کے مرنے اور زیاد ابن ابیہ کے بصرہ جانے کے بعد زندان کے دروازوں کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا تھا لیکن اس وقت تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو چار سال گزر چکے تھے اور جناب مختار کا قیام اس وقت تک عمل میں نہیں آیا تھا۔
زندان سے نکلے ہوئے یہ تمام شیعہ ۹۳ سالہ ”سلیمان بن صرد خزاعی “کی قیادت میں سپاہ شام سے جنگ کے لئے روانہ ہوگئے نتیجہ میں سلیمان اور اس کے بہت سے ساتھی اس دلیرانہ جنگ میں شہید ہوگئے۔
علامہ مامقانی لکھتے ہیں:
”امام حسین علیہ السلام کے عراق میں وارد ہونے سے پہلے ابن زیادہ نے ۴۵۰۰ شیعوں کو جیل میں ڈال دیا تھا جن میں سلیمان بن صرد خزاعی تھے جنھوں نے چار سال تک جیل کے کوٹھڑیوں میں زندگی گزاری ،اس طرح جو مشہور ہے اور ابن اثر سے نقل ہوا ہے کہ شیعہ اپنی جان کے خوف سے امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں نہیںکھڑے ہوئے لیکن وہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد کافی شرمندہ ہوئے اور سلیمان بن صرد کی قیادت میں توابین نامی ایک گروہ کو تشکیل کیا تاکہ گزشتہ گناہ کی تلافی کر سکیں، یہ سراسر جھوٹ بات ہے۔[125]
اس طرح پتہ چلتا ہے کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام کو فہ کے شیعہ نہیں تھے بلکہ خوارج، مرتدین اور منافقین تھے جو حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت میں معزول کردئے گئے تھے اور یہ امام حسین علیہ السلام کی حکومت کے بھگوڑے اور غیر عرب کے خریدے ہوئے پٹھو تھے۔
۹۸۔آیہٴ ہلاکت سے متعلق میں مناظرہ
اشارہ:
قرآن کی آیتوں میں سے سورہٴ بقرہ کی آیت۱۹۵ آیت ہلاکت کے نام سے مشہور ہے۔
”وَاٴَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِاٴَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ وَاٴَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ“
”اور راہ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو، نیک برتاؤ کرو تاکہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔
یہاں ہم مذکورہ آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے استاد و شاگرد کے درمیان ہونے والے مناظرہ کو نقل کرتے ہیں:
شاگرد: ”اس آیت میں آیا ہے کہ ”اپنے ہاتھ سے اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو، لہٰذا آیت کے مطابق ایسا قیام جس میں جان کا خطرہ ہو یا ایسی نہی عن المنکر جو ضرر و نقصان کا سبب بنے اس کا اقدام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ضررونقصان ایک قسم کی ہلاکت ہے اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیام امام حسین علیہ السلام آپ کی جنگ اور آپ کے دوستوں کی شہادت اس آیت سے کس طرح سازگار ہے ؟
استاد: ”اس آیت کے ابتدائی حصہ پر توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی راہ میں مال کا انفاق کرنا جہاد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں انفاق کرنے یا حد سے زیادہ انفاق کرنے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور انفاق کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لو۔
اسی وجہ سے تفسیر درّمنثور میں اس آیت کے ذیل میں ”اسلم بن ابی عمران“سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا: ”ہم قسطنطنیہ (ترکیہ میں آج کا استامبول) میں تھے تو دیکھا عقبہ بن سالم مصر والوں کے ساتھ اور فضال بن عبید بھی شام والوں کے ساتھ وہاں موجود تھے اور جب روم کا ایک بہت ہی عظیم لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے میدان میں آگیا تو میں نے بھی ان کے مقابلہ کے لئے صفوں کو منظم کیا اس اثنا میں ایک مسلمان شخص نے روم کے قلب لشکر پر اس طر ح حملہ کیا کہ وہ لشکر میں داخل ہوگیا یہ دیکھ کر بعض مسلمانوں نے چیخ کر کہا: ”یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے“۔
اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے کھڑے ہوکر کہا: ”تم لوگ اس آیت ”ولا تلقوابایدیکم ۔۔۔“کے معنی اپنی طرف سے غلط کر رہے ہویہ آیت ہم گروہ انصار کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب خداوند متعال نے اپنے دین کو کامران و کامیاب کیا اور اس کے چاہنے والے بہت زیادہ ہوگئے تو ہم بعض لوگوں نے چھپ چھپ کے آپس میں کہا کہ ہمارا مال ضائع ہو گیا خداوند متعال نے اسلام کو سر فراز کیا اور اس کے ماننے والے بھی زیادہ ہوگئے اگر ہم لوگ اپنے مال کو بچائے ہوئے رہتے تو ہمارا مال ضائع نہ ہوتا اس وقت ہمارے اس بیہودہ اور منفی عمل کی رد میں خدا وند متعال نے یہ آیت نازل کی ۔”اس طرح اس آیت میں ہلاکت سے مراد اپنے مال کی حفاظت اور جہاد کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے ہیں۔[126]
شاگرد: ”اس بات میں کیا مضائقہ ہے کہ اصل آیت انفاق کے بارے میں ہو لیکن اس کا آخری ٹکڑا ایک قاعدہٴ کلیّہ کے طور پر آیاہو؟“
استاد: ”کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس صورت میں اس قاعدہ کی اس طرح وضاحت ہوگی“، وہ جگہیں جو ہلاکت میں شمار کی جاتی ہیں وہاں اپنے سے نہ جاوٴ یعنی ایسے مقامات پر جہاں بلا وجہ جان جانے کا خطرہ ہو اور جہاں جان دینے سے کوئی فائد ہ نہ ہو“۔
لیکن اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر ”اہم اور اہم ترین“ کا قاعدہ نافذ ہوگا یعنی اگر جان کا خطرہ مول لے کر کوئی بہت بڑا دینی فائدہ حاصل ہو اور اسلام کو ضرورت ہو تو اس وقت اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالنا صرف یہی نہیں کہ کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ بعض اوقات واجب وضروری ہوجاتا ہے، اسلام کے اکثر احکام جیسے جہاد ،نہی عن المنکر اور امر بالمعروف میں خطرہ پایا جاتا ہے لیکن چونکہ اس طرح کے خطرے سعادت و کامرانی تک پہنچنے کے ذرائع ہوا کرتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی حرج نہیں۔
اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں کہا جائے کہ ”ہلاکت“کے معنی وہ خطرات ہیں جو بد بختی اور ذلت کا سبب بنیں لیکن اگر جہاد جیسے خطرناک کام انجام دیئے جائیں تو یہ عین سعادت اور کامرانی ہے ،امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے قیام اور انقلاب میں بھی یہی مقصد کار فرما تھا ان لوگوں نے ایسے خطرے اور ایسی موت کو خود سے اختیار کیا تھا جس کے واضح اور روشن نتائج اس زمانہ میں اور روز قیامت تک ہر زمانہ میں دکھائی دیتے رہیں گے، لہٰذا ایسا قدم سعادت کا وسیلہ ہوتا ہے نہ کہ بدبختی کا۔
مثال کے طور پر اگر کوئی ایسے خطر ے میں کو دپڑے جس میں کچھ لوگوں کی جان چلی جائے اور سیکڑوں دیناروں کا نقصان ہو لیکن اس کے بدلے لاکھوں انسانوں کی جان بچ جائے اور ہزاروں دینار کا فائدہ حاصل ہو تو کیا یہ کام اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا؟
اگر کسان گیہوں کے دانوں کو زمین میں ڈالتا ہے تاکہ اس سے ہزاروں من گیہوں حاصل کرسکے تو کیا ا سے یہ کہنا درست ہے ”تم کیوں ان دانوں کو بیکار کر رہے ہو اور مٹی میں ملارہے ہو؟“
اسی بنیاد پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
”لَوْلاَدَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتْ الْاٴَرْضُ“
” اگر خدا کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں کے وسیلہ سے دفع نہ کرے تو زمین پر فتنہ و فساد پھیل جائے“۔[127]
۹۹۔ ایرانیوں کی شیعت کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
اشارہ
اگرچہ ملک ایران میں اسلام حضرت عمر کے دور خلافت میں پہنچا مگر اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ یہاں شیعوں کی اکثریت ہے؟
تاریخی شواہد کی بنیاد پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی عوام پہلی صدی سے لے کر ساتویں ہجری صدی تک آہستہ آہستہ اسلام لے آئے ،ہر دفعہ ایک مخصوص کیفیت اور مخصوص واقعہ کی بنا پر ایسا ہوتا تھا جس کے اثرات کافی متاثر کن ہوا کرتے تھے ،اب آپ درج ذیل کے مناظرہ پر توجہ فرمائیں:
زر تشتی: ”میری نظر میں ایرانیوں نے چار وجوہات کی بنا پر شیعیت کو اختیار کیا“۔
۱۔ایرانیوں کے یہاں چونکہ موروثی سلطنت پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے انھوں موروثی امامت کو پسند کیا۔
۲۔ایرانی قوم پہلے ہی سے اس بات کی معتقد تھی کہ سلطنت وحکومت الٰہی تحفہ ہوتا ہے ان کا یہ عقیدہ شیعوں کے عقیدہ سے میل کھاتا تھا۔
۳۔ایرانیوں کے آخری بادشاہ تیسرا ”یز د گرد “کی بیٹی ’شہر بانو“سے امام حسین علیہ السلام کی شادی بھی ایرانیوں کے شیعہ ہونے میں کافی اثرانداز رہی۔
۴۔عربوں کے مقابلہ میں ایرانیوں کا نفسیاتی رد عمل شیعیت تھا تاکہ وہ اس کے زیر پردہ اپن زرتشی اعمال کو انجام دے سکیں، لہٰذا تشیع ایرانیوں کا ایجاد کردہ مذہب ہے۔[128]
شیعہ: ”ایرانیوں کے شیعہ ہونے میں ان چاروں اسباب میں سے ایک بھی سبب درست نہیں ہے ،کیونکہ ایران میں تشیع کی بنیاد سب سے پہلے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ میں پڑ چکی تھی رسول اسلام کی وفات کے بعد بنی ہاشم اور کچھ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،ابوذر،مقداد وغیرہ کا ایران سے رابطہ تھا۔
ساسانیوں کے ظلم وستم کی تاریخ او ر اس زمانہ کے حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایرانی عوام اس موروثی سلطنت سے پریشان ہو چکے تھے اور وہ ایک جامع اور عادلانہ نظام کی تلاش میں تھے جو انھیں ان نا انصافیوں سے چھٹکارا دلا سکے۔
ممکن ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور جناب شہر بانو کی شادی ایرانی تشیع پر تھوڑا بہت اثر انداز ہوئی ہو مگر اسے اساسی سبب قرار دینا غلط ہے۔
زرتشی: ”اگر ایران میںتشیع کے یہ چار اسباب نہ تھے تو وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر ایران میں تشیع کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہو گئیں؟“
شیعہ: ”اسکی بڑی لمبی داستان ہے خلاصہ کے طور پر درج ذیل گیارہ مرحلوں میں اس کی توضیح کی جاسکتی ہے:
۱۔پہلی ہجری صدی کے دوسرے حصہ میں ایرانی ،اسلام سے آشنا ہوئے کیونکہ وہ ساسانی حکمرانوں کے ظلم وجور سے تنگ آگئے تھے اور ایک مکمل اور عادلانہ نظام کے منتظر تھے۔
اس مرحلہ میں جناب سلما ن کا کردار نبیادی حیثیت کا حامل تھا جنھوں نے ساسانیوں کے سابق دارالحکومت مدائن کو اسلام کی نشر و اشاعت اور تشیع کا مرکز قرادے دیا تھا ،جناب سلمان نے اسلام کے تعارف کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اختیار کیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو گم نہ کردیں اور ایرانیوں نے اسلام کی صحیح شناخت کے لئے جناب سلمان کا انتخاب کیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور حضرت علی علیہ السلام کو گم نہ کر دیں۔
۲۔حضرت علی علیہ السلام کی کوفہ میں عادلانہ حکومت جہاں ایرانیوں کا آناجانا ہوتا رہتا تھا آپ کے عدل پسند انہ طرز حکومت اور مساوات کے طریقوں نے ان ایرانیوں کو محبت آل رسول کی طرف جذب کر لیا اور وہ اس طرح سے حقیقی اسلام سے آشنا ہوگئے۔
۳۔ امام حسین علیہ السلام کا قیام اور ان کے پیغامات بھی ایسے اسباب تھے جن کی وجہ سے ایرانیوں نے بنی امیہ کو اپنے ساسانی حکمرانوں سے الگ نہ پایا اور انھوں نے یہ جان لیاکہ یہ بھی ویسی ہی ظالم وجابر حکومت ہے لہٰذاوہ خود بخود اہل بیت علیہم السلام کی طرف کھینچتے چلے گئے اس کے بعد غم انگیز واقعہ کربلا ایک ایسے نور کی جھلک تھی جو ان کے دلوں کو اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے منور کر گئی۔
۴۔امام جعفرصادق علیہ السلام کی عظیم علمی اور ثقافتی تحریک کہ جس میں چار ہزار شاگرد شامل تھے اور سب کے سب شیعیت کے عظیم مبلغ تھے ،یہ ایک اور مرحلہ تھا جس کی بنا پر ایرانیوں کے دلوں میں شیعیت کی بنیادیں مزید مضبوط ہوتی چلی گئیں کیونکہ کوفہ،مدائن سے نزدیک تھا اور بصرہ ،ایران کی سرحد تھی لہٰذ ا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے بہت سے شاگرد انھیں اطراف کے تھے جو کوفہ کی عظیم مسجد میں بیٹھ کر شیعی طرز تفکر کی تبلیغ کرتے تھے اور اس کی نشر واشاعت میں بڑی محنت کرتے تھے۔
۵۔قم وہ مرکز بن چکا تھا جہاں عراق کے جابر حکمرانوں سے بھاگ کر شیعہ پناہ لیتے تھے، ایران میں شیعیت کے پھیلاوٴ میں اس کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
۶۔امام علی رضا علیہ السلام کا مدینہ سے خراسان کا سفر اور ان کی علمی و ثقافتی تحریک بھی انھیں اسباب میں سے تھی کیونکہ مامون شیعہ ہو چکا تھا اور اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو سنیوں کو بڑے بڑے علماء سے بحث ومناظرہ کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب امام علی رضا علیہ السلام نے اسلامی بنیادوں کے بیان میں حدیث ”سلسلة الذہب “بیان کی تو بیس ہزار یا ایک روایت کے مطابق چوبیس ہزار راویوں نے یہ حدیث سنی اور اسے لکھا۔[129]
جب کہ اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد نہ پڑھنے لکھنے والوں کے مقابلہ میں بہت کم تھی جب وہاں موجود مجمع میں ۲۴ ہزار افراد لکھنے پر قدرت رکھتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مجمع اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔
۷۔حجاز سے مختلف امام زادے اور امام علی رضا علیہ السلام کے خاص احباب کا سفر بھی انھیں اسباب میں سے ہے ،یہ لوگ امام علی رضا علیہ السلام کے عشق میں مدینہ وغیرہ سے ہجرت کر کے ایران آگئے تھے اور بعد میں ایران کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے تھے، اور ان لوگوں کا دوسرے لوگوں سے حسن رابطہ تھا، ایران میں اس طرح بھی شیعیت بہت تیزی سے پھیلی۔
۸۔ایران میں شیعوں کے بزرگ علماء کا وجود جیسے شیخ کلینی ،شیخ طوسی،شیخ صدوق،شیخ مفیدوغیرہ یہ سب اسلام حقیقی یعنی شیعیت کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسے پھیلانے میں پورے خلوص اور جدوجہد سے عملی اقدامات کرتے تھے جس کی وجہ سے ایران میں مذہب جعفری کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں، اس کے علاوہ حوزہ علمیہ نجف کی تشکیل نے بھی شیعیت کو کافی فروغ دیا۔
۹۔آل بابویہ (دیالمہ)کی حکومت نے جو شیعہ تھا چوتھی اور پانچویںصدی کے دوران سیاسی اعتبار سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اس کی حکومت نے ایران میں شیعیت کو استحکام بخشا اور اس مذہب کے لئے بڑے نفع بخش کا م انجام دیئے۔
۱۰۔آٹھویں صدی کے اوائل میں سلطان خداوند کا علامہ حلی کے ہاتھوں شیعہ ہو جانا بھی ایران میں قانونی طور پر شیعیت رائج ہو نے کا سبب بنا ،اسی زمانہ میں شیعیت نے اپنے استحکام کی طرف ایک نہایت مضبوط قدم بڑھایا۔
اسی زمانے میں علامہ حلی کا حوزہ علمیہ اور ان کی مختلف کتابیں بھی اس مذہب کی تبلیغ میں حصہ دار تھیں ان کے اس اہم کردار کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔
۱۱۔دسویں اور گیارویں صدی میں صفوی حکومت کا ظہور اور ان کے ساتھ شیعہ کے مختلف بزرگ علماء کا وجود جیسے علامہ مجلسی ،میرداماد،شیخ بہائی ،یہ بھی شیعیت کے لئے ایک سنہرا زمانہ گزرا ہے۔
یہ تمام عوامل اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کی وجہ سے ایران میں شیعیت کی بنیاد پڑی اور دیکھتے دیکھتے پورے ایران کو اس نے اپنے اثر میں لے لیا۔[130]
زرتشتی: ”ایرانیوں کے تشیع میں صرف بیرونی عوامل کا ر فرما تھے یاا ندورونی یا دونوں؟“
شیعہ: ”ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ دونوں عوامل اس میں شریک ہیں کیونکہ ایک طرف سے تو ایرانی عوام ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بے چین تھی اور مختلف بادشاہوں کے ظلم وجور سے وہ پریشان ہو کر ایک عادلانہ نظام کے خواہاں تھے ،ایک ایسا نظام ،جس میں استحصال و غارت گری کا وجود نہ ہو۔
لہٰذاان وجوہات کی بنا پر ایرانی ،اندورونی طور سے اس طرح کے نظام کے خواہاں تھے دوسری طرف خارجی طور سے انھوں نے عدل وپاکی سے آراستہ اور نہایت عالم ومقدس رہبروں کے سائے میں مذہب شیعیت دیکھا لہٰذا وہ اس کی طرف کھنچتے چلے گئے۔
ایرانی قوم ایک مکمل آئین اور ایک مکمل عادلانہ نظام کو امام علی علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کے سائے میں دیکھتے تھے اور ان کے مخالفین کے پاس آئین ونظام کے خلاف نیا آئین پاتے تھے۔
لہٰذا اس بنا پر اندورونی اور بیرونی عوامل نے ایک ساتھ مل کر ایرانیوں کے درمیان ایک عظیم الٰہی انقلاب برپا کردیا اور ان لوگوں نے اسلام کی بہترین راہ یعنی شیعیت کو اختیار کیاچنانچہ پیغمبر نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”اسعد العجم بالاسلام اہل فارس“۔[131]
”اسلام کے ذریعہ سب سے زیادہ کامیاب ہونے والے عجم اہل فارس ہیں“۔
اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:
”اعظم الناس نصیبا فی الاسلام اہل فارس“۔[132]
”مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ اسلام میں حصہ دار اہل فارس ہیں“۔
۱۰۰۔بعض قرآنی آیتوں کے درمیان ظاہری اختلاف کے متعلق ایک مناظرہ
شاگرد: ”میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو اس کی آیتوں کو دوسری بعض آیتوں کے ساتھ مقائسہ کرتا ہوں لیکن میںان کے درمیان تضاد پاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟کیا ممکن ہے کہ کلام خدا میں اختلاف پایا جائے؟“
استاد: ”خدا کے کلام میں اختلاف ناممکن ہے اور قرآن کی تمام آیتوں کے درمیان کسی طرح کا تضاد نہیں پایا جاتا [133] لہٰذا ہم خود سورہٴ نساء کی ۸۲ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
”وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلاَفًا کَثِیراً“[134]
”اگر قرآن غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے“۔
یہ قرآن کی حقانیت کی ایک دلیل ہے کہ اس کی تمام آیتوں میں کسی طرح کا کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا اور یہی اختلاف کا نہ پایا جانا اس کے معجزہ ہونے کی سند ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کسی بشر کی فکری صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
شاگرد: ”تو پھر میں کیوں بعض آیتوںکو پڑھتے وقت اس طرح کا احساس کرتا ہوں جب کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس میں اختلاف ممکن نہیں ہے؟ “
استاد: ”تم ان آیتوں کے ایک دونمونے بتاوٴجن میں تمہارے خیال میں تضاد اور اختلاف پایاجاتا ہے تاکہ ان پر غور وفکر کیا جا سکے اور بات واضح ہوجائے“۔
شاگرد: ”مثال کے طور پر میں دو نمونے ذکر کرتا ہوں۔
۱۔قرآن نے بعض مقامات پر انسان کی قدر منزلت کو اتنا بڑھا یا ہے کہ اس نے کہا ہے:
”فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِین“[135]
”پس جب میں اسے برابر کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم لوگ سجدہ ریزہوجانا“۔
لیکن بعض آیتوں میں قرآن نے اس طرح انسانوں کے مقام کو پست بتایا ہے کہ جانوروں کو بھی ان سے بلند مقام دیا ہے جیسا کہ ہم سورہٴ انعام میں پڑھتے ہیں:
”وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِنْ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَیَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ اٴَعْیُنٌ لاَیُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَیَسْمَعُونَ بِہَا اٴُوْلَئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اٴَضَلُّ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْغَافِلُونَ“[136]
”اور بتحقیق ہم نے بہت سے جن وانس کے گروہوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو دل رکھتے ہیں مگر اس سے کچھ سمجھتے نہیں،یہ لوگ چوپائے بلکہ اس سے بھی بد تر ہیں اور وہی لوگ غافل ہیں“۔
استاد: ”ان دونوں آیتوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ان دونوں آیتوں نے انسانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے،اچھے، بُرے ،جو لوگ اچھے ہیں وہ اتنے زیادہ مقرب بارگاہ ہیں کہ اللہ ان کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیتا ہے مگر ان کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جانوروں سے بھی بد تر ہیں اور عقل جیسی گراں بہا نعمت کی موجودگی میں چوپایوں جیسی حرکت کرتے ہیں“۔
لہٰذا اس بنا پر جو پہلی آیت میں انسانوں کی اتنی قدرومنزلت بیان کی گئی ہے وہ مثبت استعداد رکھنے والوں کی بات ہے،جو اپنی عقل کو صحیح طور سے کار فرما کرکے سعادت وبلند سے بلند ترین مقامات پر پہنچ جاتے ہیں ،اور دوسری آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اندر موجود شہوتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں جو اپنے اندر اتنی ساری صلاحیتوں اور خصوصیتوں کے باوجود خود کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور چوپایوں کے طور طریقے اپنا لیتے ہیں“۔
شاگرد: ”میں آپ کے قانع کنندہ بیان کا بہت شکر گزار ہوں اگر آپ اجازت دیں تو دوسرا نمونہ بھی عرض کروں؟“
استاد: ‘”کہو کوئی بات نہیں“۔
شاگرد: ”سورہٴ نساء کی تیسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں“۔
” فَانکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً “
”پس پاک عورتوں سے نکاح کرو،دوکے ساتھ تین کے ساتھ یا چار کے ساتھ لیکن اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ تم عدالت نہیں کر پاوٴگے تو ایک سے نکاح کرو“۔
اس آیت کے مطابق اسلام میں عدالت کی مراعات کرنے کی صورت میں ایک ساتھ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن ہم اسی سورہٴ کی ۱۱۹ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
”وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُم“[137]
”اور تم کبھی بھی عورتوں کے درمیان عدالت نہیں کر سکتے بھلے ہی تم کوشش ہی کیوں نہ کرو“۔
لہٰذا پہلی آیت کے مطابق کئی بیویاں رکھنا جائز ہے البتہ بشرط عدالت ،مگر دوسری آیت کے مطابق چونکہ متعدد بیویوں کے درمیان عدالت ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا ان دونوں آیتوں کے درمیان ایک طرح کا اختلاف پایا جاتا ہے؟“
استاد: ”اتفاق سے یہی بات امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں منکرین خدا ،جیسے ابن ابی العوجاء جیسے لوگوں کی جانب سے اٹھائی گئی تھی،ہشام بن حکم نے امام سے اس اعتراض کا جواب حاصل کیا اور ان اعتراض کرنے والوں کو اس کا جواب دیا[138]وہ جواب یہ ہے۔
پہلی آیت میں عدالت سے مراد رفتار وکردار میں انصاف کرنا ہے یعنی تمام بیویوں کے حقوق برابر ہیں اورانسان سب سے ظاہرا ً ایک جیسا برتاوٴ کرے لیکن دوسری آیت میں عدالت سے مراد قلبی لگاوٴ اور محبت میں عدالت قائم کرنا ہے (جو نا ممکن سی بات ہے) لہٰذا ان دونوں آیتوں میں تضاد نہیں ہے اگر کوئی ظاہری طور سے اپنی باتوں اور اپنے کردار سے چار بیویوں کے درمیان عدالت قائم کر سکتا ہو لیکن محبت اور دلی لگاوٴ میں عدالت کی رعایت نہ کرسکےتو اس کے لئے چار بیویوں کا رکھنا جائز ہوگا“۔
شاگرد: ”ہم ان دونوں آیتوں میں کیوں عدالت کے دومعنی مراد لیں جب کہ عدالت کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں؟“
استاد: ”عربی قانون کے لحاظ سے اگر کسی معنی کے لئے قرینہ موجود ہو تو اس کے ظاہری معنی مراد نہ لیتے ہوئے دوسرے مجازی اور باطنی معنی مراد لے سکتے ہیں، اور ان دونوں آیتوں میں واضح شواہد موجود ہیں کہ پہلی آیت میں عدالت سے مراد ظاہر رفتار وکرادر اور دوسری میں باطنی ،جیسا کہ ظاہر آیت سے یہی بات واضح ہوتی ہے لیکن دوسری آیت میں جملے اس طرح ہیں۔
” فَلاَتَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَةِ “[139]
”اپنے تمام میلان کو ایک ہی بیوی کی طرف متوجہ نہ کردو کہ اس کے نتیجے میں دوسری بیویوں کو یوں ہی بلا وجہ چھوڑ دوگے۔
اس جملہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس آیت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ تم عورتوں کے درمیان عدالت نہیں قائم کرسکتے اس سے مراد وہ عدالت ہے جو قلبی لگاوٴ اور رجحانات میں ہوتی ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ اس طرح کی عدالت ناممکن ہے یعنی کوئی شخص اگر چار بیویوں کا شوہر ہوگا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ چاروں کوایک مقدارمیںچاہے اور ان سب سے برابر کی محبت کرے البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ چاروں سے ایک جیسا سلوک کرے۔
لہٰذ اان دونوں آیتوں میں کوئی تضاد نہیں پایاجاتا۔
شاگرد: ”میں آپ کے اس قانع کنندہ اور مدلل بیان سے مطمئن ہو گیا،آپ کا شکریہ“۔
کیونکہ ظاہر سی بات ہے اسلامی احکام صرف وہاں تک قابل نفاذ ہوتے ہیں جہاں تک انسان کا اختیار ہو اور عمل یا عدم عمل پر اسے قابو ہو جہاں تک محبت اور دلی تعلق کا سوال ہے تو یہ ایک اضطراری عمل ہے اور اس کا تعلق احساساتی پہلووٴں سے ہوتا ہے اور انسان اپنے احساس اور قلبی محسوسات پر قادر نہیں ہوتا،لہٰذا اسلام میں چار بیویوں کے درمیان ظاہری طور پر عدالت کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ اس طرح فساد اور لڑائی کا امکان پایا جاتا ہے ۔
۱۰۱۔امام زمانہ (عج ) اور آپ کے مخصوص ۳۱۳ناصروں کے متعلق ایک مناظرہ
اشارہ:
مختلف روایتوں کے فرق کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ امام کے وہ اصحاب جو ظہور کے وقت خانہ کعبہ میں آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے جب دنیا میں آجائیں گے تو امام ظہور کریں گے اورانھیں کے انتظار میں ہیں،وہ اپنے زمانے کے پہلے انسان ہوں گے جو اپنے امام کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ان کی بیعت امام کے ظہو ر کے ساتھ ہی ہوگی وہ امام کے علمدار ہوں گے اور پوری زمین پر حضرت حجت کی طرف سے منصوب شدہ حاکم ہوں گے۔
اب آپ اسی کے سلسلہ میں در ج ذیل مناظرہ پر توجہ فرمائیں:
جستجو گر: ”براہ کرم مجھے امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ۳۱۳ /اصحاب کے متعلق وارد ہونے والی حدیث بتائیں؟“
محقق: ”یہ حدیث مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے یہ کوئی ایک حدیث نہیں ہے بلکہ دسیوں حدیث ہیں جو سب کی سب امام کے تین سو تیرہ اصحاب کے بارے میں منقول ہوئی ہیں ،ان کے نقل کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تواتر معنوی کی حد تک پہنچ چکی ہیں یعنی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت ۳۱۳ افراد کا ان سے ملحق ہونا اس قدر مشہور ہے کہ جس کی شہرت سے اس کا علم پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات ممکن ہوجاتی ہے کہ اتنے سارے لوگوں نے جھوٹ بول کر اسے نقل کیا ہو اور اس حدیث کے لئے اتنی بڑی سازش رچی ہو۔
جستجو گر: ”کوئی بات نہیں جیسا کہ مولانا کی مثنوی میں ہے“۔
آب دریا ر ا گر نتوان کشید
پس بہ قدر تشنگی باید چشید
(اگر دریا کے پانی کو نہیں بھر سکتے تو پیاس بجھانے کی مقدار کو پینا ہی چاہئے)۔
لہٰذا ان احادیث کے ایک دو نمونے ہی پیش کردیں۔
محقق: ”سورہٴ ہود کی آیت ۸۰ کی تفسیر میں بیان ہوا کہ جناب لوط علیہ السلام نے اپنی سر کش قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
”لَوْ اٴَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّةً اٴَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ“
”اے کاش تمہارے مقابل میرے پاس قدرت ہوتی یا میرے پاس کوئی مضبوط پشت پناہ ہوتا“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے: ”یہاں ”قوة“سے مراد وہی قائم عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں اور ”رکن شدید“سے مراد ان کے ۳۱۳/ اصحاب ہیں“۔[140]
دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے:
”لکانّی انظر الیھم مصعدین مِن نجف الکوفة ثلاث مائة وبضعة عشر رجلا کاٴن قلوبھم زُبر الحدید“۔[141]
”جیسے میں ان تین سو اور کچھ آدمیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں جو نجف و کوفہ سے اوپر جارہے ہیں گویا ان کے دل فولاد کے ہیں“۔
جستجو گر: ”کیا پوری دنیا میں ابھی امام کے ۳۱۳ /اصحاب پیدا نہیں ہوئے جو امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور کریں اور لوگوں کو دنیا کے ظلم و جور سے نجات حاصل ہو جائے ؟ “
محقق: ”یہ ۳۱۳ /افراد روایت کے مطابق بہت سی خصوصیتوں کے حامل ہوں گے جس کی طرف توجہ دینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں ابھی اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کر سکے“۔
جستجو گر: ”مثلاًکون سی خصوصیتیں؟“
محقق: ”جیسے ہم امام سجاد علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ جب امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف مکہ میں موجود جم غفیر کے سامنے اپنا تعارف کرئیں گے اور لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو کچھ لوگ آپ کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے۔
”فیقوم ثلاثمائة ونیف فیمنعونہ منہ“۔[142]
”تین سو کچھ افراد کھڑے ہو کر انھیں روک لیں گے“۔
”یجمعھم الله بمکة قزعاً کقزع الخریف“۔ [143]
”خدا انھیں برسات کے بادلوں کی طرف مکےہ میں اکٹھا کرے گا“۔
”وکانی انظر الی القائم علی منبر الکوفة وحولہ ثلاثمائة وثلاث رجلا عدة اہل البدر وھم اصحاب الالویة وھم حکام اللہ فی ارضہ علی خلقہ“۔[144]
”گویا قائم(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کو کوفہ کے منبر پر دیکھ رہاہوں اور ان کے اطراف بدر میں شریک ہونے والوں کی تعداد کے برابر مرد کھڑے ہیں یہ ان کے پرچم دار اصحاب اور اللہ کی طرف سے زمین پر حکومت کرنے والے لوگ ہوں گے“۔
اس حدیث کی بنا پر ان افراد کا علم و تقویٰ میں ایسا ہونا ضروری ہے کہ اگر پوری دنیا کو ۳۱۳ حصوں میں بانٹ دیا جائے تو وہ سب ایک ایک حصے پر حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بعض بزرگوں کے قول کے مطابق تین سو تیرہ افراد امام خمینی کی طرح جنھوں نے ایران کی رہبری سنبھالی لہٰذا ایسے تین سو تیرہ افراد ہونے چاہئے کہ جن کے اندر ایک ملک کو چلانے کی صلاحیت موجود ہو۔
جستجو گر: ”اب میں سمجھ گیا کہ دنیا میں ان خصوصیات کے ساتھ ابھی تین سو تیرہ افراد موجود نہیں ہیں اس کے لئے ایک وسیع منصوبہ کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے افراد تیار کئے جاسکیں اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کی راہیں ہموار ہو سکیں جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مقصد کی تکمیل اور اسلام کی ترقی کے لئے باتقویٰ اور مضبوط وسیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے باایمان اصحاب کی ضرورت محسوس کرتے تھے اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اپنے ظہور کے لئے ایسے ہی افراد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
کیا آپ ان تین سو تیرہ افراد کی کچھ خصوصیات بتا سکتے ہیں؟ “
محقق: ”سورہ ٴ بقرہ کی ۱۴۸ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں:
”اٴَیْنَ مَا تَکُونُوا یَاٴْتِ بِکُمْ اللهُ جَمِیعًا“
”تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں یکجا کر دے گا“۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے مذکورہ آیت کو پڑھنے کے بعد فرمایا:
”اس سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اصحاب مراد ہیں جن کی تعداد ۳۱۳/ہوگی خدا کی قسم !امت معدودوہی لوگ ہیں خدا کی قسم!سب ایک ساعت میں اکٹھے ہو جائیں گے جیسے موسم خزاں کے بادل تیز ہوا کے وجہ سے جمع ہوجائیں،چنانچہ وہ سب ایک دوسرے کے پاس جمع ہو جائیں گے“۔[145]
اسی طرح ان کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ دور دراز شہروں اور ملکوں سے مکہ آئیں گے“۔[146]
اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، ذی طوی (مکہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر )ان ۳۱۳/افراد کے انتظار میں توقف کریں گے یہاں تک کہ وہ لوگ آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں گے اور امام علیہ السلام ان کے ساتھ کعبہ تک آئیں گے [147]وہ لوگ پہلے انسان ہوں گے جو امام علیہ السلام کی بیعت کریں گے۔[148]
وہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھ ساتھ غیبی امداد سے مالا مال ہوںگے اور دست خدا اور اور امام علیہ السلام کا سایہ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوگا۔
جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایاہے:
”گویا میں تمہارے صاحب(امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)کو دیکھ رہا ہوں جو تین سو اور کچھ افراد کے ساتھ کوفہ کے پیچھے سے نجف آرہے ہیں داہنے طرف جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل ہیں اور اسرافیل ان کے سامنے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پرچم کو اٹھا ئے ہیں اور اس پرچم کو مخالفوں کے جس گروہ کی طرف جھکادیتے ہیں اللہ انھیں ہلا ک کردیا ہے۔[149]
جستجو گر: ”امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اصحاب کے بارے میں کیوں ”رجال“ یعنی مردوں کا لفظ استعمال ہوا ہے کیا ان کے اصحاب میں عورتیں نہیں رہیں گی؟کیا عورتیں اس تحریک میں بالکل حصہ نہیں لیں گی؟ “
محقق: ”اکثر مردوں کی بات اس لئے آتی ہے کیونکہ ظہور کے ابتدائی ایام میں صرف جنگ وجہاد کی باتیں ہوں گی لہٰذا مردوں ہی کی بات ہوتی ہے، اور چونکہ جنگ میں جائیں گے لیکن عورتیں محاذ کے علاوہ محنت کریں گی اور مجاہد وں کی خدمت کر کے وہ بھی جہاد کریں گی۔
اور جہاں تک ان ۳۱۳ /اصحاب کا سوال ہے تو بعض روایتوں کے مطابق ان میں عورتیں بھی ہوں گی جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:
”۔۔۔ویجی واللہ ثلاث مائة وبضعة رجلا فیھم خمسون امراة بمکة علی غیر میعاد قزعا کقزاالخریف“۔[150]
”خدا کی قسم ! تین سو اور کچھ آفراد آئیں گے جن میں سے پچاس عورتیں ہوگی جو سب مکہ کے پاس فصل خزاںکے بادلوں کی طرح بغیر کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت جمع ہو جائیں گے۔
مفضل سے نقل ہوا ہے کہ امام جعفر صاق علیہ السلام نے فرمایاہے: ”اما م مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھ تیرہ عورتیں ہوں گے“۔
میں نے کہا: ”یہ عورتیں امام علیہ السلام کے پاس کیوں ہوں گی“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ زخمیوں کا علاج کریں گی اور جنگی مریضوں کی تیمارداری کریں گی جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مختلف جنگوںمیں عورتیں اس طرح کا م انجام دیا کرتی تھیں“۔[151]
جستجو گر: ”امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے عالمی قیام کی نسبت سے یہ تعداد بہت کم ہے؟“
محقق: ”یہ اصحاب ابتداہی میں امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملحق ہو جائیں گے لیکن اس کے بعد دھیرے دھیرے آپ کے اصحاب کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا“۔
واضح عبارت میں یوں کہا جائے کہ یہ امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وہ خاص اصحاب ہوں گے جو آپ کی عالمی حکومت کے مرکزی ارکان ہوں گے مثلاً ایک روایت میں آیا ہے۔
”۳۶۰ /الٰہی وکامل اشخاص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے وہ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وزراء اور آپ کے عالمی حکومت کے خاص ارکان ہوں گے“۔
اس کے بعد آپ نے یہ بھی فرمایا:
”روم کو فتح کرنے میں امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ستر ہزار اصحاب تکبیر کہتے ہوئے شرکت کریں گے پہلی ہی تکبیر کی گرج کے ساتھ وہ ایک تہائی روم کو فتح کرلیں گے اور دوسری تکبیر کی گرج کے ساتھ دوسرا ایک تہائی حصہ فتح ہو جائے گا تیسری تکبیر کے ساتھ ہی پورا روم فتح ہو جائے“۔[152]
یا دوسری روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمایا: ”ستر ہزار سچے اور مخلص اصحاب کوفہ سے امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی مدد کے لئے اٹھیں گے“۔[153]
اس مناظرہ کی مکمل کرنے کی غرض سے اور کتاب کے حسن ختام کے طور پر حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے متعلق چند روایتیں پیش خد مت ہیں:
۱۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”ان القائم صلوات الله علیہ ینادی باسمہ لیلة ثلاث و عشرین، ویقوم یوم عاشوراء یوم قتل فیہ الحسین“۔[154]
”بلا شبہ قائم صلوات اللہ علیہ کو ان کے نام سے (رمضان کی)۲۳/ویں شب کو ندادی جائے گی اور یوم عاشورہ امام حسین علیہ السلام کے شہادت کے روز آپ کا قیام ہوگا“۔
۲۔امام سجاد علیہ السلام نے فرمایاہے:
”اذا قام قائمنا اذھب اللہ عزوجل عن شیعتنا العاھة،وجعل قلوبھم کزبر الحدید وجعل قوة الرجل منھم قوة اربعین رجلا ویکونون حکام الارض وسنامھا“۔[155]
”جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو خدا وند عالم تمام آفتیں اور وحشتیں ہمارے شیعوں سے دور کر دے گا اور ان کے دلوں کو فولاد کی طرف مضبوط کر دے گااس وقت ایک آدمی کی طاقت چالیس آدمیوں کے برابر ہو جائے گی وہ لوگ تمام دنیا کے حاکم اور سردارہوں گے“۔
۳۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:
”فاذا وقع امرنا وخرج مھدینا ،کان احدھم اجری من اللیث، وامضی من السنان ،ویطاٴ عدونا بقدمیہ و یقتلہ بکفہ“۔[156]
”جب ہمار اقائم ظہور کرے گا تو ہمارا ہر شیعہ شیر سے زیادہ جراٴت مند ہو جائے گا کہ نیزہ سے زیادہ تیز ہوجائے گا وہ اپنے پیروں سے ہمارے دشمن کو پامال کردے گا اوراپنی ہتھیلیوں سے انھیں مار ڈالے گا“۔
۴۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”لیعدن اٴحدکم لخروج القائم و لو سھما“۔[157]
”تم لوگوں کو اپنے آپ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے تیاری کرنا چاہئے بھلے ہی ایک ایک تیر کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو“۔
آپ نے اسی سلسلے میں یہ حدیث بھی فرمائی:
”یذل لہ کل صعب“۔[158]
”تمام مشکلات اس کے لئے آسان ہو جائیں گی“۔
الحمد لله رب العالمین
--------------------------------------------------------------------------------
[1] سورہ مائدہ ، آیت ۵۵۔
[2] تمام مفسروں کے اتفاق رائے سے یہ آیت امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب آپ نے رکوع کے عالم میں انگوٹھی فقیر کو دی تھی اہل سنت کی جن کتابوں میں یہ بات ذکر ہوئی ہے ان کی تعداد تیس سے زائد ہے جیسے ذخائر العقبی،ٰ ص۸۸،فتح القدیر، ج۲،ص۵۰، اسباب النزول واحدی،ص۱۴۸، کنز العمال ،ج۶ ص۳۹۱ وغیرہ مزیدمعلومات کے لئے کتاب” احقاق الحق“ج۲، ص ۳۹۹ سے ۴۱۰ کا مطالعہ کریں۔
[3] سورہٴ احزاب آیت ۵۷۔
[4] المناظرہ، تالیف شیخ حسین بن عبد الصمد ،طبع موسسہ قائم آل محمد (خلاصہ اور وضاحت کے ساتھ)
[5] تاریخ طبری ،۲،ص ۲۸۱ کا خلاصہ۔
[6] صحیح بخاری ،ج۲،ص۱۳۰ (مطبع الشعب ، ۱۳۷۸ھ۔
[7] مناظرات فی الحرمین الشریفین ، مناظرہ نمبر ۱۳۔
[8] صحیح ترمذی ،ج۱۳،ص۱۸۲ ، سنن ابی داوٴد ،ص۲،ص۲۶۴ ، وغیرہ میں یہی حدیث تھوڑے سے فرق کے ساتھ “سعید بن زید ”سے بھی نقل ہوئی ہے (الغدیر ،ج۱۰،ص۱۱۸)
[9] سورہ ٴنساء، آیت ۹۳۔
[10] مناقب ابن مغازلی ،ص۵۰۔مناقب خوارزمی ،ص۷۶۶و۲۴۔
[11] کنز العمال ،ج۶،ص۱۵۷ ۔الامامة ولسیاسة ،ص۷۳۔مجمع الزوائد ،ہیثمی ،ج۷،ص۲۳۵ وغیرہ ۔
[12] کنز العمال ،ج۶،ص۱۵۷ ۔الامامة والسیاسة ،ص۷۳۔مجمع الزوائد ،ہیثمی ،ج۷،ص۲۳۵ وغیرہ ۔
[13] شرح در الغدیر ،ج۱۰، ص۱۲۲ تا ۱۲۸ ۔
[14] سورہٴ بقرہ ، آیت ۶۰۔
[15] الشیعہ و التشیع، ص ۲۰۔
[16] سورہٴ نساء آیت ۵۹۔
[17] سورہٴ شعراء آیت ۲۱۴۔
[18] یہ حدیث ”یوم الانذار “کے نام سے معروف ہے ،اس کے بہت سارے مدارک ہیں منجملہ: تاریخ طبری،ج۲،ص۶۳، تاریخ ابن اثیر ،ج۲، ۔تاریخ ابو الفداء ،ج۱، وغیرہ، مزید وضاحت کے لئے کتاب احقاق الحق ،ج۴،ص ۶۲ کے بعد رجوع کریں۔
[19] کتاب ”آہین وہابیت“ سے اقتباس، ۱۲ تا ۱۴۔
[20] سورہٴ مائدہ ، آیت ۹۷۔
[21] ”لِتُنذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا “(سورہٴ انعام آیت ۹۲ سورہٴ شوریٰ آیت۷۔)
[22] سورہٴ بقرہ آیت ۱۹۷۔
[23] مجمع البیان ،ج۲ ،ص۲۹۴۔
[24] صحیفہٴ نور ،ج۱۸ ،ص۶۶،۶۷۔
[25] صحیفہٴ نور ،ج۲، ص۱۸۔
[26] کحل البصر سے اقتباس ،ص۱۱۹ ،مجمع البیان ،ج۹،ص۱۲۷۔
[27] احتجاج طبرسی، ج۲، ص ۱۸، ۱۹۔
[28] بحار الانوار ،ج۴۶،ص۱۲۷۔
[29] منتہی الامال ،۲ ص۷۹۔
[30] وسائل الشیعہ ،ج۹ ،ص۴۰۶۔
[31] سنن ابن ماجہ ،ج۲،ص۱۸ ،۱۹ ۔بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۱۶۔
[32] اعیان الشیعہ،چاپ جدید ،ج۱ ،ص۱۴۔
[33] وسائل الشیعہ ،ج۸،ص۱۴۔
[34] شرح سیرہ ابن ہشام ،ج۱، ص۳۸ تا ۶۲، بلوغ الارب ،آلوسی ،ج۱ ،ص۲۵۰ تا۲۶۳۔
[35] کمال الدین ،ص۱۰۴۔تفسیر برہان ج۲،ص۷۹۵۔
[36] شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ج۳ ،ص۳۱۲۔
[37] استیعاب ،ج۲، ص۵۰۹،ذخائر العقبیٰ،ص۲۲۲۔
[38] اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے کتاب الغدیر ،ج۷ ص۳۳۰ تا ۴۰۹ ملاحظہ کریں۔
[39] الحجة علی الذاھب ،ص۳۶۱۔
[40] شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ج۱، ص ۳۵۸، ۳۶۰۔
[41] تفسیر ابن کثیر ،ج ۲، ص ۱۲۸۔
[42] جیسا کہ ابن عباس نے مذکورہ آیت کے یہی معنی کئے ہیں ۔(الغدیر ،ج۸)
[43] میزان الاعتدال ،ص۳۹۸۔
[44] تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۱۱۵۔
[45] تہذیب التہذیب ،ج۳،ص۱۷۹۔
[46] تاریخ طبری ،نقل از کتاب ابو طالب مومن قریش۔
[47] یہاں پر گفتگو بہت ہے ،کتاب الغدیر ،ج۷،اور ابو طالب مومن قریش ، ص۳۰۳ تا ۳۱۱ پر رجوع فرمائیں۔
[48] کتاب غایة المرام میں اس سلسلہ میں اہل سنت کے ۱۲۴ اور اہل تشیع سے ۱۹ روایتیں نقل ہوئی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی (منہاج البراعة، ج ۲، ص ۳۵۰)
[49] نہج البلاغہ، نامہ ۴۵، اس خط کے مطابق آپ کے لئے اس طرح کی انگوٹھی پہننے کی بات ایک تہمت ہے ۔
[50] وقایع الایام، خیابانی (صیام) ص ۶۲۷۔
[51] ”فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا“سورہٴ احزاب، آیت ۳۷۔
[52] ان آیات سے مزید آگاہی کے لئے کتاب دلائل الصدق ج ۲، ص ۷۳ تا ۳۲۱ کی طرف رجوع کریں کہ جہاں اس سلسلہ میں ۸۲ آیت ذکر ہوئی ہیں۔
ہوا ہے کہ یہ آیتیں سب کی سب امام علی علیہ السلام کی خلافت بلا فصل اور ان کی ولایت و رہبری کے لئے نازل ہوئی ہیں اور خداوند عالم کا رشاد ہے۔
[53] سورہٴ حشر، آیت ۷۔
[54] اصولا اگر عقلی اور احساساتی پہلووٴں کو مد نظر رکھ کر یہ دیکھا جائے کہ قرآن مجید میں جو کچھ بھی اچھائیوں کا ذکر ہوا جیسے تقویٰ، علم، جہاد، ہجرت اور سخاوت ان کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد حقیقی مصداق کون ہے جو سب پر برتری رکھتا ہے تو حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں نظرآئے گا کیونکہ جب تک بزرگی کے اسباب فراہم نہ ہوں اس وقت تک بڑی جگہ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا لہٰذا قرآن کی آیت ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد ہدایت کے لئے حضرت علی کا دروازہ دکھاتی ہے مگر کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن فرماتا ہے:
”اٴَ فَمَنْ یَہْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَہِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُہْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ“ (سورہ یونس، آیت ۳۵)
[55] مجلہ رسالہ الاسلام ،ارکان رسمی ”دارالتقریب بین المذاہب الا سلامیة بالقاہرة ،سال ۱۱، نمبر ۳،سال ۱۳۷۹ ھ۔
[56] فی سبیل الوحدة الاسلامیة، سید مرتضی الرضوی، ص۵۲،۵۴،و۵۵۔
[57] صحیح مسلم ،ج۳،ص۶۱۔سنن ترمذی ،ج۲، ص۲۵۶، سنن نسائی ، ج۴ ،ص۸۸۔
[58] تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۱۲۵، ج۴، ص۱۱۵، ج۳، ص۱۷۹۔
[59] تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۱۲۵، ج۴، ص۱۱۵، ج۳، ص۱۷۹۔
[60] تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۱۲۵، ج۴، ص۱۱۵، ج۳، ص۱۷۹۔
[61] شرح حدیدی ،ج۹،ص۹۹۔
[62] الفقہ علی مذاہب الاربعة ،ج ۱، ص۴۲۰۔
[63] ”آئین وہابیت“سے اقتباس ص۵۶ سے ۶۴ تک۔
[64] مجمع البیان ،ج۴ ،ص۸۳(معالم دین اللہ )
[65] آئین وہابیت سے اقتباس ص۴۳ سے ۴۶ تک۔
[66] الفصول المہمہ ،ص۱۴۔
[67] کفایة الطالب ،ص۳۶۱۔
[68] نور الابصار، ۷۶۔
[69] مطالب السوٴل ،ص۱۱۔
[70] دلائل الصدق ،ج۲،ص۵۰۸و۵۰۹۔
[71] دلائل الصدق ،ج۲،ص۵۰۹و۵۱۰۔
[72] صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ ، مسند احمد،ج۴، ص۳۹۸۔
[73] مستدرک حاکم ، ج ۳، ص۱۴۹۔
[74] فتاوی صحابی کبیر ،ص۶۷۷۔
[75] وقعة الصفین ،طبع مصر، ص۵۸۔
[76] نہج البلاغہ صبحی صالح، خطبہ ۱۲۶۔
[77] نہج البلاغہ صبحی صالح، خطبہ ۱۲۶۔
[78] مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۶۶۔
[79] فروع کافی، ج۴، ص۲۳و۲۴ سے اقتباس۔
[80] انو ار البہیہ، ص۱۲۵۔
[81] عیون اخبار الرضا،ج ۲، ص۲۶۳و۲۶۶۔
[82] نہج البلاغہ، خطبہ۲۲۴۔
[83] معجم البلدان ، ج ۴، ص ۱۷۶۔
[84] ارشاد شیخ مفید ، ص۲۸۴۔مستدرک الوسائل ، ج ۲، ص ۵۱۴۔
[85] فروع کافی ،ج ۵، ص ۷۴۔ اسی سے مشابہ دوسری مثالیں اسی کتاب میں موجود ہیں۔
[86]
[87] خمس کی بحث طولانی ہے لیکن یہاں خلاصہ کے طور پر ہم عرض کرتے ہیں ۔
خمس کا اصل مسئلہ سورہ انفال آیت ۴۳ میں ذکر ہوا ہے اور اس کے فرعی مسائل کے متعلق تقریبا ۸۰/روایتیں (وسائل الشیعہ،جلد۶ وغیرہ )میں ذکر ہوئی ہیں خمس ایک حکومتی خزانہ ہے (زکات کے بر خلاف جو عمومی دولت ہے ) نصف خمس حاکم (اگر اسلامی حکومت ہو ورنہ مراجع تقلید اسی حکم میں ہیں )کے اختیار میں ہوتا ہے اور دوسرا حصہ مستحق سادات کا ہوتا ہے۔ائمہ معصومین علیہم السلام ولی بھی تھے اور سادات بھی لہٰذ خمس انھیں کے ہاتھوں میں رہتا تھا لہٰذ ا انھیں یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس کو شیعوں کی زندگی گزارنے بھر ان کو دے دیں کیونکہ ان شیعوں کی حفاظت ایک طرح سے اسلام کی حفاظت تھی کیونکہ ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں شیعوں کی حفاظت سے زیادہ بڑھ کر اسلام کو محفوظ رکھنے کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا ۔
[88] مشارق الانوار سے اقتباس ، بحار الانوار، ج ۷۶ ،ص ۵۷ کی نقل کے مطابق۔
[89] سورہٴ نساء آیت ۱۶۴۔
[90] سورہ ٴ بقرہ آیت ۵۵۔۵۶سورہٴ نساء آیت ۱۵۳ سورہٴ اعراف آیت ۱۵۵کی طرف رجوع فرمائیں۔
[91] جیسا کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے قیامت کے سلسلہ میں اسی طرح کا سوال کیا تھا سورہٴ بقرہ آیت ۲۶۰۔
[92] سورہٴ اعراف آیت ۱۵۵۔
[93] سورہٴ اعراف آیت ۱۴۳۔
[94] تفسیر روح البیان ،ج ۱،ص۴۰۰ ،تفسیر قرطبی ،ج ۲،ص۱۰۱۸۔تفسیر فخر رازی ،ج۷،ص۹۔
[95] تفسیر فخر رازی ،ج۷، ص۹۔
[96] وسائل الشیعہ ،ج۱۵ ،ص۱۰۔
[97] وسائل الشیعہ ،ج۱۵ ،ص۱۰۔
[98] سورہٴ نساء آیت ۲۰۔
[99] تفسیر در منثور ،ج۲،ص۱۳۳۔تفسیر ابن کثیر ،ج۱ص۴۶۸۔تفسیر قرطبی ،کشاف ،غرائب القرآن ،اسی آیت کے ذیل میں ۔
[100] سورہ قصص، آیت ۲۷۔
[101] الاحتجاجات العشرہ سے اقتباس ،احتجاج ۵۔
[102] تاریخ طبری ،ج۱۱،ص۱۳۵۷۔تذکرة الخواص ،ص۲۰۹۔کتاب صفین ،ص۲۲۰۔
[103] تاریخ بغداد ج۱۲، ص۱۸۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴، ص۳۳۔
[104] کتاب صفین ابن مزاحم ،ص۲۱۹۔مسند بن حنبل ج۴،ص۲۴۸میں ان کے نام کے جگہ ”فلاں فلاں “آیا ہے ۔
[105] الاثنی عشریہ فی الرد علی الصوفیہ،تالف شیخ حرعاملی ،ص۱۶۴۔
[106] بحار ،ج۴۴،ص۲۹۳۔
[107] سورہٴ آل عمران آیت ۱۶۹۔
[108] الاحتجاجات العشرة،ص۲۰۔
[109] ماساة الحسین ،تالیف:الخطیب شیخ عبد الوہاب الکاشی ،ص۱۵۲۔
[110] ماساة الحسین ،تالیف:الخطیب شیخ عبد الوہاب الکاشی ،ص۱۳۵،۱۳۶۔
[111] الوقایع والحوادث،ج۳،ص۳۰۷۔
[112] ماساة الحسین علیہ السلام ،ص۱۳۷۔
[113] سورہٴ حج آیت ۳۲۔
[114] انگیزہ پیدائش مذہب ،ص۱۵۰۔
[115] منتہی الآمال ،ج۲،ص۳۔
[116] مذکورہ لغت ناموں لفظ ”ختم“
[117] سورہٴ احزاب آیت ۴۰۔
[118] اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے ان لشکریوں کو عاشورا کے دن ”شیعیان آل ابی سفیان“کہہ کر بلایا تھا جب دشمن خیموں پر حملہ کر نے لگے تو آپ نے فرمایا: ”ویلکم یا شیعة آل ابی سفیان“تمہارا برا ہواے ابو سفیان کے اولاد کے پیروکارو! اگر تم دین نہیں رکھتے اور تمہیں آخرت کا کوئی خوف نہیں تو کم از کم اس دنیا میں ہی آازاد زندگی گزارو،”اللہوف“سید ابن طاووٴس ص۱۲،
لہٰذا اس بنا پر یہی نہیں کہ وہ حقیقتاً شیعیان علی نہیں تھے بلکہ وہ ظاہراً بھی شیعان علی نہیں تھے ۔
[119] مروج الذہب ج۲، ص۶۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص۱۹۹، الغدیر ج۱۱، ص۲۳و۳۹۔
[120] تاریخ طبری،ج۶،ص۱۳۲۔کامل بن اثیر ،ج۳،ص۱۸۳۔
[121] تاریخ طبری،ج۶،ص۱۳۲۔کامل بن اثیر ،ج۳،ص۱۸۳۔
[122] تاریخ طبری،ج۶،ص۱۳۲۔کامل بن اثیر ،ج۳،ص۱۸۳۔۔
[123] الغدیر ج۱۱، ص۴۴۔
[124] الغدیر ج۱۱، ص۲۸۔
[125] تنقیح المقال ،ج۲،ص۶۳۔اور اگر فرض کریں اس کے درمیان کچھ لوگ برائے شیعہ تھے بھی تب بھی انھیں شیعہ کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا البتہ ممکن ہے کہ کچھ افراد ایسے رہے ہوں جن کو سیاسی اور حکومتی حالات کا بالکل اندازہ نہ رہا ہو اور اعتقاد میں بھی وہ ضعیف رہے ہوں لہٰذا یزید کی دھمکیوں سے ڈر گئے ہوں اور پیسے کی لالچ میں آگئے ہوں مگر اس طرح کے چند افراد کی موجودگی سے یہ کہنا کہ امام حسین کو شیعوں نے قتل کیا ہے ہر گز درست نہ ہوگا جو واقعاً شیعہ تھے وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سارے حالات ان کے سامنے تھے سیاسی حکومتی تغیرات سے وہ پوری طرح آگاہ تھے ،اس وقت کوفہ میں موجود سارے شیعہ اسی نوعیت کے تھے ،اس طرح کی تمام باتیں بکے ہوئے راویوں اور درباری ملاوٴں کے دین ہیں۔جس کی اصلاح ہونا چاہئے۔
[126] تفسیر المیزان،ج۲،ص۷۴۔
[127] سورہٴ بقرہ آیت ۲۵۱۔
[128] اس طرح کی باتیں دو گروہ کرتے ہیں ،متعصب سنی جو شیعوں کو ایرانی سیاسی گروہ بتانا چاہتا ہے اور ،ایرانی نیشنلزم ، جنھوں نے اس مذہب کی آڑ میں اپنے قدیم عقائد کو محفوظ کرلیا تھا۔
[129] اعیان الشیعہ ج۲، ص۱۸ ، نیا ایڈیشن۔
[130] اس چیز کی تفصیل کتاب ”ایرانیان مسلمان در صدر اسلام و سیر تشیع در ایران“ تالیف مولف میں پڑھیں۔
[131] کنز العمال،حدیث ۳۴۱۲۵۔
[132] کنز العمال،حدیث ۳۴۱۲۶۔
[133] اس بات کی وضاحت کے لئے مناظرہ نمبر ۳۰/ کا مطالعہ کریں۔
[134] سورہ نساء، آیت۲ ۸۔
[135] سورہٴ ص،۷۲و سورہٴ حجر۲۹۔
[136] سورہٴ اعراف آیت ۱۷۹۔
[137] سورہٴ نساء آیت ۱۲۹۔
[138] تفسیر برہان ،ج۱،ص۲۲۰۔
[139] سورہٴ نساء آیت ۱۲۹۔
[140] تفسیر برہان ،ج۲،ص۲۲۸۔اثبات الہداة،ج۷ ص۱۰۰۔
[141] بحار،ج۵۲،ص۳۴۳۔
[142] بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۶۔
[143] اعیان الشیعہ ، نیا ایڈیشن،ج۲،ص۸۴۔
[144] بحار ،ج۵۲،ص۳۲۶۔
[145] نور الثقلین ،ج۱،ص۱۳۹۔
[146] اثبات الہداة،ج۷،ص۱۷۶۔
[147] اثبات الہداة،ج۷، ص۹۲۔
[148] بحار،ج۵۲،ص۳۱۶۔
[149] اثبات الہداة،ج۷،ص۱۱۳۔اعیان الشیعہ ،طبع جدید،ج۲،ص۸۲۔
[150] بحار ،ج۵۲،ص۲۳۳۔اعیان الشیعہ ، نیا ایڈیشن،ج۲،ص۸۴۔
[151] اثبات الہداة،ج۷،ص۱۵۰و۱۷۱۔
[152] المجالس السنیہ، سید محسن جبل عاملی،ج۵،ص۷۱۱و۷۲۳و۷۲۴۔
[153] بحار ،ج۵۲،۳۹۰۔
[154] ارشاد مفید ،ص۳۴۱، بحارالانوار، ج۵۲، ص۲۹۰۔
[155] بحار،ج۵۲،ص۳۱۷۔
[156] اثبات الہداة،ج۷،ص۱۱۳۔
[157] غیبة النعمانیة،ص۱۷۲۔
[158] بحار ج۵۲،ص۲۸۳۔
تمام شد
| |