دوسراحصہ و تیسراحصہ
  ۵۰۔ایک شیعہ عالم کا امر بالمعروف کمیٹی کے صدر سے مناظرہ
ایک شیعہ عالم دین سعودی حکومت کے مرکز امر با لمعروف اور نہی عن منکر میںپہنچ گئے وہاں انھوں نے اس کے سر پرست سے کچھ گفتگو کی جو ایک مناظرہ کی شکل اختیار کر گئی ہم اسے یہاں نقل کر رہے ہیں:
سرپرست: ”رسو ل اکرم صلی الله علیه و آله وسلم دنیا سے چلے گئے اور جو مرجاتا ہے وہ کسی کو نقصان یا فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو تم لوگ قبر رسول سے کیا چاہتے ہو۔؟“
شیعہ عالم دین: ”رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم اگر چہ اس دنیا کو چھوڑ چکے ہیں مگر در حقیقت وہ زندہ ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
” وَلَاتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ“[1]
”اور اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والوں کو تم ہرگز مردہ نہ سمجھنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف سے رزق پاتے ہیں“۔
نیز بہت سی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زندگی میں احترام کرنا واجب تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی احترام کرنا چاہئے“۔
سرپرست: ”اس آیت میں جو زندگی مراد لی گئی ہے کیا وہ ہماری اس زندگی سے مختلف اور اس کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے ؟“
شیعہ عالم: ”اس میں کیا حرج ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم رحلت کے بعد ایک دوسری زندگی کے مالک ہوں اور ہماری باتیں سنیں اور اسی عالم میں خدا کے حکم سے ہم پر لطف کریں ہماری مشکلات حل کریں؟ میں تم سے پوچھتا ہوں ”جب تمہارا باپ مر جاتا ہے تو کیا تم اس کی قبر پر نہیں جاتے اور اس کے لئے خداسے مغفرت کی دعا نہیں کرتے ؟“
سرپرست: ”کیوں نہیں ہم جاتے ہیں“۔
شیعہ عالم: میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں نہیں تھا کہ اس طرح ان کی زیارت سے مشرف ہو جاتا لہٰذا اب ان کی قبر کی زیارت کے لئے آیا ہوں“۔
اس سے واضح الفاظ میں یوںکہا جائے:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم اطہر کی وجہ سے قبر کے اطراف کا حصہ یقینا مبارک ہو گیا ہے اگر ہم اس قبر مقدس کی خاک کا بوسہ لیتے ہیں یا اسے تبرک سمجھتے ہیں تو یہ بالکل اس کے مانند ہے کہ جیسے ایک شاگرد یا بیٹا اپنے استاد یا باپ کی محبت کی وجہ سے اس کے پیر کی خاک اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگاتا ہے۔
مولف کا قول: مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب امام خمینی کو ملک بدر کیا گیا تھا تو اس وقت میرے ایک نہایت بزرگ استاد نے کہا تھا: ”میں چاہتاہوں کہ اپنے عمامہ کے تحت الحنک کو امام خمینی کے نعلین سے مس کروں اور اس خاک آلود تحت الحنک کے ساتھ نما ز پڑھوں“۔
اس طرح کی باتیں در اصل شدید محبت اور تعلق کی عکاسی کرتی ہیں ان میں کسی طرح کے کسی شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا قرآن کریم نے اولیائے خداسے توسل کرنا جائز قرار دیتے ہوئے اسے بخشش و مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ سورہ ٴ نساء کی ۶۴ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں۔
”وَلَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَہُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا“
” اور جب انھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا تو اگر تمہارے پاس آکر اللہ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو وہ اللہ کو تو اب ورحیم پاتے“۔

۵۱۔علامہ امینی کا قانع کنندہ جواب
علامہ امینی شیعوں کے عظیم عالم دین کتاب ”الغدیر “کے مولفنے اپنے ایک سفر کے دوران ایک جلسہ میں شر کت کی تو وہاں ایک سنی عالم دین نے آپ سے کہا: ”تم شیعہ حضرات علی کے سلسلہ میں غلو کرتے ہو اور انھیں حد سے زیادہ بڑھاتے ہو مثلاً”ید اللہ، عین اللہ “جیسے القاب سے یاد کرتے ہو، صحابہ کی اس حد تک توصیف کرنا غلط ہے“۔
علامہ امینی نے برجستہ جواب دیا:
”اگر عمر بن خطاب نے علی علیہ السلام کو ان القاب سے یاد کیا ہو تو اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ؟“
اس نے کہا: ”حضرت عمر کی بات ہمارے لئے حجت ہے“۔
علامہ امینی نے اسی بزم میں اہل سنت کی ایک کتاب منگوائی وہ کتاب لائی گئی علامہ نے چند ورق پلٹنے کے بعد اس صفحہ کو کھو ل دیا جہا ں یہ عبارت نقل ہوئی تھی:
”ایک شخص خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھا اسی وقت اس نے ایک نامحرم پر غلط نظر ڈالی تو امام علی علیہ السلام نے وہیں اس کے چہرہ پر ایک طمانچہ مارا وہ اپنے چہرہ پر ہاتھ رکھے عمر ابن خطاب کے پاس شکایت کرنے آیااورپورا واقعہ بیان کیا۔
عمر نے اس کے جوا ب میں کہا:
”قد رآی عینُ الله و ضرب یدُ الله“۔
”بے شک خدا کی آنکھ نے دیکھا اور خدا کے ہاتھ نے مارا“۔
سوال کرنے والے نے جب اس حدیث کو دیکھا تو قانع ہو گیا۔
اس طرح کے الفاظ و القاب در اصل احترام و تعظیم کی خاطر ہوا کرتے ہیں مثلاً”روح اللہ“ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اللہ کے روح بھی ہوتی ہے بلکہ یہ ان کی عظمت و بلندی کے بیان کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔

۵۲۔کیا سجدہ گاہ اور پتھر پر سجدہ کرنا شرک ہے؟
ایک مرجع تقلید کہتے ہیں کہ میں ایک روز مسجد نبوی میں نماز صبح انجام دینے کے بعد روضہ مقدس میں بیٹھا ہوا تھا اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھا۔اسی دوران میں نے دیکھا کہ ایک شیعہ آیا اور روضہ کے بائیں طرف کھڑا ہوکر نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا اس کے قریب ہی دوآدمی مصری روضہ کے ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے جب انھوں نے اس شیعہ کو نماز کے دوران اپنی جیب سے سجدگاہ نکالتے دیکھاتو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ”اس عجمی کو دیکھو یہ پتھر پر سجدہ کرنا چاہتا ہے“۔
شیعہ مرد رکوع میں گیا، رکوع کے بعد سجدہ کرنے کے لئے ایک پتھر پر اپنی پیشانی رکھ دی یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک دوڑتا ہوا اس کی طرف جانے لگا لیکن قبل اس کے وہ وہاں تک پہنچتا میں نے اس کا ہا تھ پکڑ کر کہا: ”تم کیوں ایک مسلمان کی نماز باطل کرنا چاہتے ہو جو اس مقدس جگہ پر نماز ادا کررہا ہے“۔
اس نے کہا: ”وہ پتھر پر سجدہ کرنا چاہتا ہے“۔
میں نے کہا: ”پتھر پر سجدہ کرنے میں کیا اشکال ہے میں بھی پتھر پر سجدہ کرتا ہوں“۔
اس نے کہا: ”کیوں اور کس لئے“۔
میں نے کہا: ”وہ شیعہ ہے اور مذہب جعفری کا پیرو ہے میں بھی مذہب جعفری کا معتقد ہوں کیا جعفر بن محمد امام جعفر صادق علیہ السلام کو پہنچانتے ہو؟“
اس نے کہا: ”ہاں“
میں نے کہا: ”کیا وہ اہل بیت رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم میں سے ہیں ؟“
اس نے کہا: ”ہاں“۔
میں نے کہا: ”وہ ہمارے مذہب کے پیشوا ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ فرش اور قالین پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسی چیز پر سجدہ کرنا چاہئے جو زمین کے اجز امیں سے ہو“۔
اس سنی شخص نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: ”دین ایک ہے نماز بھی ایک ہے“۔
میں نے کہا: ”ہاں دین ایک ہے نماز ایک ہے تو اہل سنت بھی نماز میں قیام کے وقت مختلف طریقوں سے نماز کیوں ادا کرتے ہیں تمہارے مذہب میں کچھ لوگ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں اور کچھ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہیں دین ایک ہے اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک ہی طریقہ سے نماز ادا کی تھی پھر یہ اختلاف کیوں؟تم کہوگے کہ ابو حنیفہ یا شافعی یا مالک یا احمد بن حنبل نے اس طرح کہا ہے ۔(ہاتھ کے اشارے سے بتایا )
اس نے کہا: ”ہاں ان لوگوں نے اسی طرح کہا ہے“۔
میں نے کہا: ”جعفر بن محمد امام جعفر صادق علیہ السلام ہمارے مذہب کے پیشوا ہیں جن کے لئے تم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ خاندان رسالت سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
اس بات پر بھی توجہ رہے کہ ”اہل البیت ادری بما فی البیت“ گھر والے گھر کی باتیں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔”لہٰذا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے اہل بیت احکام الٰہی سے دوسروں کے مقابل زیادہ آگاہ ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا علم بہر حال ابو حنیفہ سے کئی گنا زیادہ ہے ان کا قول ہے کہ ”زمین کے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے لہٰذا اون اور روئی پر سجدہ کرنا درست نہیں ہے ہمارے اور تمہارے درمیان اختلاف کی نوعیت بالکل وہی ہے جو خود تمہارے مذہب میں پائے جانے والے مختلف مسالک میں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کے سلسلے میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف فروع دین کا اختلاف ہے نہ کہ اصول دین کا اور فروع دین کا اختلاف کسی بھی طرح سے شرک سے تعلق نہیں رکھتا۔
جب میری بات یہاں تک پہنچ گئی تو وہاں بیٹھے ہوئے تمام اہل سنت حضرات نے میری بات کی تصدیق کی اور تب میں نے غصہ میں اس سے (جو شیعہ کی سجدہ گاہ چھیننے کے لئے دوڑا تھا)کہا:
کیا تجھے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے شرم نہیں آتی کہ ایک شخص ان کی قبر کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور تو اس کی نماز باطل کررہا ہے جب کہ وہ خود اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھ رہا ہے اور یہ شخص اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب یہ صاحب قبر لے کر آیا ہے ؟
”الذین اذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا“
وہ (اہل بیت)جن سے (خدا نے) ہر برائی کو دور رکھا اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔
تمام حاضرین نے اس کی لعنت و ملامت کی اور اس سے کہا: ”جب وہ اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھ رہا ہے تو اس سے کیوں لڑائی جھگڑا کرتا ہے “، اور اس نے اس کے بعد سب لوگوں نے مجھ سے معافی مانگی۔[2]

مختصر وضاحت
واقعی وہابیوں اور سنیوں کے علماء کا کام کتنا حیر ت انگیز ہے کہ وہ عوام کو فریب دیتے ہیں اور انھیں یہ بات ذہن نشین کراتے ہیں کہ خاک شفاء پتھر یا لکڑی پر سجدہ کرنا حرام اور شرک ہے میں ان سے پوچھتا ہوں سجدہ خاک شفا،لکڑی پتھر یا فرش اور ٹاٹ پر کرنے میں کیا فرق پایا جاتا ہے ؟تم ٹاٹ اور چٹائی پر سجدہ کرتے ہو اسے شرک نہیں قراردیتے ہو لیکن شیعہ حضرات اگرپتھر اور خاک شفا پر سجدہ کریں تو یہ شرک ہے ؟
کیا جو شخص فرش اور چٹائی پر سجدہ کرتا ہے تو گویا اس کی عبادت کرتا ہے ؟تم لوگ شیعہ حضرات کو شرک کی نسبت دیتے ہو کیا انھیں سجدہ کرتے وقت نہیں دیکھتے کہ سجدہ میں وہ تین بار ”سبحان اللہ“ کہتے ہیں یا ایک بار ”سبحان ربی الاعلیٰ“ (پاک وپاکیزہ ہے وہ ذات)اور اس کی حمد وستائش پر غور نہیں کرتے ؟تم لوگوں کی زبان بھی عربی ہے تمہیں عربی الفاظ سے زیادہ وا قف ہونا چاہئے تمہیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ جس پر سجدہ کیا جاتا ہے اور جس کے لئے سجدہ کیا جاتا ہے ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟
اگر ہم کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ ہم اس کی عبادت کرنے لگے ہیں بلکہ سجدہ کی حالت میں ہم نہایت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھ اپنے خدا وند متعال کے سامنے سر نیازخم کرتے ہیں، کیا تم نے یہ دیکھا ہے کہ بت پرست اپنے سر کے نیچے بتوں کو رکھ کر ان کا سجدہ کرتے ہوں؟ نہیں بلکہ وہ اپنے بتوں کو اپنے سامنے رکھتے ہیں پھر ان کے سامنے اپنی پیشانی زمین پر ٹیکتے ہیں، یہاں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں نہ کہ ان چیزوں کی جس پر وہ اپنی پیشانیوں کورکھتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پتھر پر سجدہ یا فرش پر سجدہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ہم ان کا سجدہ کرتے ہیں بلکہ یہ تمام صرف خداوند عالم کے لئے ہوتے ہیں، ہاں فرق یہ ہے کہ ہمارے مذہب کے پیشوا اور رہبر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ زمین کی اجزاء (پتھر یا ایسی سجدہ گاہ جو مٹی یا پتھر سے بنی ہو )پر سجدہ کرو لیکن اہل سنت کے مذہب کے رہبر اور پیشوا (مثلاً ابوحنیفہ، امام شافعی وغیر ہ)کہتے ہی کہ اگر فرش پر نماز پڑھ رہے ہو تو اسی پر سجدہ کرو۔
یہاں پر اہل سنت حضرات یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگ فرش پر سجدہ کیوں نہیں کرتے بلکہ خاک یا خاک کی انواع میں سے کسی ایک پر سجدہ کرتے ہو ؟
اس کا جواب یہی ہے: ”رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم فرش پر سجدہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ریت اور خاک پر سجدہ کیا کرتے تھے اور اس زمانہ کے تمام مسلمان بھی ریت اور مٹی پر سجدہ کرتے تھے آج ہم انھیں کی پیروی میں ریت اور مٹی پر سجدہ کرتے ہیں۔[3]
ہاں بعض روایات کے مطابق شدید گرمی کی وجہ سے لباس پر سجدہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ انس بن مالک سے ایک روایت نقل ہوئی ہے۔
”کنا نصلي مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فیضع احدنا طرف الثوب من شدة الحر فی مکان السجود“۔[4]
”ہم لوگ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو بعض لوگ شدید گرمی کی وجہ سے سجدہ کے وقت مقام سجدہ پر اپنے لباس کا دامن رکھ دیا کرتے تھے“۔
اس روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت فرش پر سجدہ کرنے میں کوئی قباحت نہیںہے لیکن آیا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے بھی وقت ضرورت گرمی کی شدت کی وجہ سے فرش پر سجدہ کیا تھایا نہیں۔؟اس طرح کی کوئی روایت اس موضوع پر آپ کے سلسلے میں نہیں پائی جاتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر زمین کے اجزاء پر سجدہ کرنا شرک ہے تو ہمیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ جوان لوگوں نے آدم کے سامنے کیا تھا وہ بھی شر ک ہی تھا یا کعبہ کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا بھی شرک ہے ،بلکہ ان دونوں موارد پر تو شرک میں خاصی شدت پائی جاتی ہے کیونکہ فرشتوں نے تو جناب آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کیا تھا نہ کہ حضرت آدم پر اور اس طرح تمام مسلمان بھی کعبہ پر سجدہ نہیں کرتے بلکہ کعبہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کسی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ جناب آدم علیہ السلام کے سامنے یا کعبہ کی سمت سجدہ کرنا شرک ہے کیونکہ حقیقت سجدہ یعنی نہایت خضوع وخشوع کے ساتھ خداوند متعال کے حکم کے سامنے سر نیاز خم کرنا ہے اسی وجہ سے کعبہ کی سمت سجدہ کرنا خدا کے حکم سے خدا کا سجدہ کرنا ہے اور جناب آدم علیہ السلام کے سامنے بھی جناب آدم کا سجدہ اولا ً توحکم خدا تھا جس کی اطاعت کے لئے فرشتوں نے اپنی پیشانیاں خم کی تھیں دوسرے یہ کہ یہ سجدہ شکر الٰہی کے طور پر تھا اور اس بنیاد پر ہم سجدہ گاہ خاک شفایا لکڑی پر سجدہ تو کرتے ہیں لیکن یہ سجدہ خدا کے حکم کی بجاآوری کے لئے ہے اور ہمارا یہ سجدہ اس چیز پر ہے جو زمین کے اجزاء میں سے ہے جیسا کہ ہمارے مذہب کے راہنما وپیشوا نے فرمایا ہے کہ خدا کے سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کو زمین کے اجزاء میںسے کسی چیز پررکھو۔


۵۳۔امر بالمعروف کمیٹی کے صدر سے ایک شیعہ دانشور کا مناظرہ
ایک شیعہ عالم دین مدینہ میںامر بالمعروف کے رئیس کے پاس اپنے کسی کام سے گیا تو وہاں کمیٹی کے رئیس اور شیعہ عالم دین میں بعض شیعہ امور کے سلسلہ میں اس طرح بحث ہوئی:
رئیس: ”تم لوگ قبر پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے قریب نماز زیارت کس لئے پڑھتے ہو جب کہ غیر خدا کے لئے نماز پڑھنا شرک ہے ؟“
شیعہ مفکر: ”ہم پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے لئے نماز نہیں پڑھتے بلکہ نماز خدا کے لئے پڑھتے ہیں اور اس کا ثواب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی روح کے لئے ہدیہ کرتے ہیں“۔
رئیس: ”قبروں کے پاس نماز پڑھنا شرک ہے“۔
شیعہ مفکر: ”اگر قبروں کے پاس نماز پڑھنا شرک ہے تو کعبہ میں بھی نماز پڑھنا شرک ہے کیونکہ حجر اسماعیل علیہ السلام میں بھی جناب ہاجرہ ،اسماعیل اور بعض دوسرے پیغمبروں کی قبریں پائی جاتی ہیں، اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع دونوں سے منقول ہے کہ بعض انبیاء کی قبریں وہاں پر موجود ہیں تمہارے کہنے کے مطابق حجر اسماعیل میں نماز پڑھنا شرک ہے جب کہ تمام مذاہب کے علماء (حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی وغیرہ)سب کے سب حجر اسماعیل میں نماز پڑھتے ہیں۔لہٰذا اس بنا پر قبروں کے قریب نماز پڑھنا شر ک نہیں ہے“۔[5]
اس کمیٹی کے ایک شخص نے کہا: ”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے نہی فرمایا ہے۔
شیعہ مفکر: ”یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سرار تہمت لگائی گئی ہے اگر قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہی کیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے تو لاکھوں اور کروڑوں زائرین کیوں ان کی مخالفت کرتے ہیں اور مسجد نبوی میں آپ کی قبر اور عمر و ابوبکر کی قبروں کے سامنے اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں؟“[6]
اس سلسلہ میں چند روایتیں بھی نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے چند صحابیوں نے قبروں کے قریب نماز پڑھی ہے۔منجملہ صحیح بخاری [7]میں نقل ہوا ہے کہ عید قربان کے دن آنحضرت نے بقیع میں نماز پڑھی اور اس کے بعد آپ نے فرمایا:
”آج کے دن کی خاص عباد ت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور اس کے بعد واپس ہوں اور قربانی کریں اور جس نے اس طرح کیا اس نے گویا میری سنت پر عمل کیا“۔
اس روایت کے مطابق رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے قبروں کے قریب نماز پڑھی ہے لیکن تم لوگوں کو قبروںکے پاس نماز پڑھنے سے روکتے ہو کہ اسلام میں یہ چیز جائزنہیں ہے اگر اسلام سے تمہارا مطلب شریعت محمدی ہے تو صاحب شریعت حضرت محمد صلی الله علیه و آله وسلم نے خود بقیع میں نماز پڑھی ہے ہاں اس بات کی طرف توجہ رہے کہ آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم جب مدینہ میں وارد ہوئے تھے تو اس وقت بقیع قبرستان تھا اور اب بھی ہے۔
اس بنا پر پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے نزدیک اور ان کی پیروی کرنے والوں کے نزدیک قبروں کے پاس نماز پڑھنا جائز ہے۔لیکن تم لوگ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی رائے کے خلاف قبروں کے نزدیک نماز پڑھنے سے منع کرتے ہو۔
اس سلسلہ میں ایک غم انگیز واقعہ
ڈاکٹر سید محمد تیجانی سماوی اہل سنت کے ایک ایسے مفکر ہیں جنھوں نے شیعیت اختیار کرلی وہ لکھتے ہیں:
”میں بقیع زیارت کے لئے گیا ہوا تھا اوروہاںکھڑا ہو کر اہل بیت علیہم السلام پر درود پڑ ھ رہا تھا کہ دیکھا ایک بوڑھا ضعیف اور ناتوان شخص رورہا ہے میں نے ا س کے گریہ سے سمجھ لیا کہ وہ شیعہ ہے تھوڑی ہی دیر بعد یہ شخص قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا کہ ناگہاں دیکھا ایک سعودی فوج کا آدمی اس کے پاس دوڑا ہوا آیا جس سے یہ پتہ چل رہا تھا کہ بہت ہی دیر سے وہ اس شیعہ کی ٹوہ میں لگا ہوا تھا آتے ہی اس نے اپنی اونچی ایڑی کے جوتے سے اسے اس طرح مارا کہ فوراًہی وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑ ا اور کچھ دیر کے لئے وہ بے ہوش ہو گیا اور اسی بے ہوشی کی حالت میں فوج کا آدمی اسے کچھ دیر تک مارتا اور برا بھلا کہتا رہا۔
اس بوڑھے کو دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور خیال کیا کہ وہ مر چکا ہے ، میری غیرت جوش میں آئی اور میں نے اس فوجی سے کہا:
”خدا خوش نہیں ہوگا اسے نماز پڑھنے کی حالت میں کیوں مار رہے ہو؟“
اس نے جھلاّ کر مجھ سے کہا: ”خاموش ہو جا ورنہ تیرا بھی یہی حشر ہوگا جو اس کا ہوا ہے“۔
میں نے اسی جگہ بعض زائرین کو دیکھا وہ کہہ رہے تھے۔”وہ جوتے ہی کا مستحق ہے کیونکہ اس نے قبر کے پاس نماز پڑھی ہے“۔
میں نے غصہ میں کہا: ”قبر کے پاس نماز پڑھنا کس نے حرام قرار دیا ہے ؟اور طویل گفتگو کے بعد میں نے کہا:
”اگربالفرض قبر کے پاس نماز پڑھنا حرام ہے تو نرمی سے منع کرنا چاہئے نہ کہ غصہ سے“۔
میں ایک بادیہ نشین کا واقعہ تمہارے لئے نقل کرتا ہوں۔
پیغمبر اسلام کا زمانہ تھا ایک بے حیا اور بے شرم بادیہ نشین نے آکر پیغمبر اسلام کے سامنے مسجد میں پیشاب کر دیا یہ دیکھ کر ایک صحابی اپنی شمشیر لے کر اسے قتل کرنے کے لئے بڑھا لیکن پیغمبر اسلام نے اسے سختی سے روکا اور کہا: ”اسے اذیت نہ دو ایک بالٹی پانی لا کر اس کے پیشاب پر ڈال دو تاکہ مسجد پا ک ہو جا ئے تم لوگوں کے امور کو آسان کرنے لئے بھیجے گئے ہو نہ کہ اذیت دینے کے لئے(تم میں جاذبیت ہونی چاہئے نہ کہ نفرت)
اصحاب نے پیغمبر کے حکم پر عمل کیا اس کے بعد آنحضرت نے بادیہ نشین کو بلایا اور اپنے قریب بٹھا کر بڑے ہی نرم لہجے میں اس سے کہا: ”یہ خدا کا گھر ہے اسے نجس نہیں کرنا چاہئے“۔
چنانچہ یہ سب دیکھ کر وہ بادیہ نشین اسی وقت مسلمان ہو گیا۔
کیا واقعی حرمین کے خدام کا اسی طرح سلوک ہونا چاہئے جس طرح وہ ایک بوڑھے اور نابینا سے پیش آتے ہیں اور کیا اس طرح اپنے اخلاق کو پیغمبر کا اخلاق کہہ کر لوگوں کے لئے اپنے کو نمونہ قرار ددے سکتے ہیں ؟[8]

۵۴۔مظلومیت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کیوں؟
امر بالمعروف کمیٹی کے ساتھ شیعہ علماء کے چند مناظرے بیان کئے جا چکے اور اب ہم چند دوسرے حصے بیان کر رہے ہیں توجہ فرمائیں۔
رئیس: ”قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس اذکار کے درمیان تم لوگ”السلام علیک ایھا المظلومة“کیوں کہتے ہو(اے مظلومہ تم پر سلام ہو)کس شخص نے فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا پر ظلم کیا ہے؟
شیعہ مفکر: ”فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں غم انگیز ستم کا واقعہ تمہاری کتابوں میں پایا جاتا ہے“۔
رئیس: ”کس کتاب میں؟“
شیعہ مفکر: ”کتاب ”الامامة والسیاسة“کے صفحہ نمبر ۱۳ پر جس کے مولف ابن قتیبہ دینوری ہیں۔
رئیس: ”ہمارے پاس اس طرح کی کوئی کتاب نہیں ہے“۔
شیعہ: ”میں اس کتاب کو دکان سے خرید کر تمہارے لئے لاوٴں گا“۔
رئیس نے میر ی اس پیش کش کو قبول کر لیا میں بازار جا کر کتاب ”الامامہ والسیاسة“خرید لا یا اور اس کے سامنے ج اول ، ص۱۹ کھول کر رکھ دیا اور کہا اسے پڑھو اس صفحہ پر اس طرح لکھا ہوا تھا۔
”اس وقت ابو بکر ان لوگوں کی جستجو میں تھا جنھوں نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کیااورعلی علیہ السلام کے گھر میں پناہ لی تھی۔ابو بکر نے عمر کو ان لوگوں کے پاس بھیجا عمر علی علیہ السلام کے گھر کے پا س آکر بلند آواز سے علی علیہ السلام اور ان کے گھر میں جو بھی لوگ تھے انھیں بلایا اور کہا ابو بکر کی بیعت کے لئے گھر سے باہر نکل آوٴ مگر وہ لوگ گھر سے باہر نہیں آئے تو عمر نے آگ لکڑی منگوائی اور کہا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے تم لوگ جلد سے جلد باہر آوٴ ورنہ تم لوگوں کے ساتھ اس گھر کو آگ لگادوں گا۔
عمر کے بعض ساتھیوں نے کہا اس گھر میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
عمر نے کہا: ”ہوا کریں“۔
مجبور ہو کر حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ تمام لوگ گھر سے باہر نکل آئے۔[9]
اسی صفحہ (۱۹) کے ذیل میں لکھا ہوا ہے کہ مرتے وقت ابو بکر نے بستر علالت پر کہا:
”کاش علی علیہ السلام کے گھر پر حملہ نہ ہوا ہوتااگر چہ انھوں نے ہم سے اعلان جنگ کیا تھا“۔
یہاں شیعہ نے وہابی رئیس سے کہا: ”ابو بکر کی بات پر خوب توجہ کرو مرتے وقت انھوں نے کس طرح افسوس اور پشیمانی کا اظہار کیا“۔
رئیس اس کتاب کے استدلال سے تلملا اٹھا اور کہنے لگا۔”اس کتاب کا مولف ابن قتیبہ شیعوں کی طرف مائل ہے“۔[10]
شیعہ مفکر: ”اگر ابن قتیبہ مذہب تشیع کی طرف مائل ہے تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے مولفین کے بارے میں کیا کہتے ہو جب کہ دونوں نے روایت کی ہے:
”فہجرتہ فاطمة و لم تکلمہ فی ذلک حتی ماتت“[11]
”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مرتے وقت ابوبکر سے ناراض تھیں اور نفرت کرتی تھیں یہاں تک کہ دنیا کو خدا حافظ کیا“۔
اس سلسلہ میں صحیح مسلم ج۵ ص۱۵۳ طبع مصر۔صحیح بخاری ج۵ ص ۱۷۷ طبع الشعب (باب غزوة خبیر) ملاحظہ فرمائیں۔[12]

۵۵۔خاک شفا اور سجدہ گاہ پر سجدہ کے بارے میں ایک مناظرہ
مصر کی ”الازہر “یونیور سٹی کے فارغ التحصیل اہل سنت کے یک عالم دین جن کا نام ”شیخ محمد مرعی انطاکی “تھا اور یہ شام کے رہنے والے تھے انھوں نے اپنی بہت ہی عظیم تحقیق کے بعد مذہب تشیع اختیار کر لیا، وہ اپنی کتاب ”لما ذا اخترت مذہب الشیعة“میں اپنے مذہب شیعہ اختیار کرنے کے سلسلہ میں تمام علل واسباب کے مدارک لکھتے ہیں۔
یہاں پر اہل سنت سے ان کا ایک مناظرہ نقل کر رہے ہیں جو خاک شفا پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں ہوا تھا ملاحظہ فرمائیں:
محمد مرعی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے چند اہل سنت ان کے گھر پر ان سے ملاقات کے لئے آئے جن میں ان کے کچھ جامعہ ازہر کے پرانے دوست بھی تھے۔گھر پر گفتگو کے دوران بات چیت یہاں تک پہنچ گئی۔
علماء اہل سنت: ”تمام شیعہ حضرات خاک شفا پر سجدہ کرتے ہیں اسی وجہ سے وہ مشرک ہیں“۔
محمد مرعی: ”خاک شفا پر سجدہ کرنا شرک نہیںہے کیوںکہ شیعہ خاک شفا پر خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں نہ کہ مٹی کا سجدہ کرتے ہیں البتہ تمہارے فکر میں اگر اس میں کوئی چیز ہے اور شیعہ اس کا سجدہ کرتے ہیں تو وہ شرک ہے لیکن شیعہ اپنے معبود خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں نتیجہ میں وہ خدا کے سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتے ہیں۔اس سے واضح یہ کہ حقیقت سجدہ، خدا کے سامنے خضوع وخشوع کا آخری درجہ ہے نہ کہ خاک شفا کے سامنے خضوع وخشوع ہے۔
ان میں سے ایک حمید نامی شخص نے کہا تمہیں اس چیز کی میں داد دیتا ہوں کہ تم نے بہت ہی اچھا تجزیہ کیا لیکن ہمارے لئے ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ تم لوگ (شیعہ)کیوں اس چیز پر مصر ہو کہ خاک شفا پر ہی سجدہ کیا جائے اور جس طرح مٹی پر سجدہ کرتے ہو اسی طرح دوسری تمام چیزوں پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟
محمد مرعی: ”ہم لوگ اس بنیاد پر خاک پر سجدہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک حدیث جو تمام فرقوں میں پائی جاتی ہے فرمایاہے:
”جعلت لی الارض مسجدا وطہورا“
”زمین میرے لئے سجدہ گا ہ اور پاک وپاکیزہ قرار دی گئی ہے“۔
حمید:کس طرح تمام مسلمان اس نظریہ پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں ؟“
محمد مرعی: ”جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اسی وقت آپ نے مسجد بنا نے کاحکم دیا کیا اس وقت اس مسجد میں فرش تھا؟“
حمید: ”نہیںفرش نہیں تھا“۔
محمد مرعی: ”بس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس وقت کے تمام مسلمانوں نے کس چیز پر سجدہ کیا تھا؟“
حمید: ”مسلمانوں نے اس زمین پر سجدہ کیا تھا جس کا فرش خاک سے بنا ہوا تھا“۔
محمد مرعی: ”بعد رحلت پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ابو بکر ،عمر اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مسلمانوں نے کس چیز پر سجدہ کیا؟کیا اس وقت مسجد میں فرش تھا؟“
حمید: ”نہیں فرش نہیں تھا۔ان لوگوں نے بھی مسجد کی زمین پر سجدہ کیا تھا“۔
محمد مرعی: ”تمہارے اس اعتراض کی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام نمازوں کے سجدے زمین پر کئے ہیں اس طرح تمام مسلمان نے آنحضرت کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی زمین پر ہی سجدہ کیا بس انھیں وجوہ کی بنا پر خاک پر سجدہ کرنا صحیح ہے“۔
حمید: ”ہمارا اعتراض یہ ہے کہ شیعہ صرف خاک پر سجدہ کرتے ہیں اور خاک زمین سے لی گئی ہے اسے سجدہ گاہ بنا دیا اور جس پر وہ اپنی پیشانیوں کو رکھتے ہیں اور سجدہ کے وقت اسی کو دوسری زمین پر رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں“۔
محمد مرعی: ”اولاًیہ کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق ہر طرح کی زمین پر سجدہ کرنا جائز ہے خواہ پتھر کا فرش ہو یا خاک کا فرش ہو۔ثانیا ً یہ کہ جہاں سجدہ کیا جائے وہ پاک ہو بس نجس زمین یا خاک پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اسی وجہ سے وہ مٹی کا ایک ٹکڑا جو سجدہ گا ہ کی شکل کا بنا یا جاتا ہے وہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ اس بات کا اطمینان رہے کہ یہ پاک ہے اور اس پر سجدہ ہو سکتا ہے۔
حمید: ”اگر شیعوں کی مراد صرف پاک اور خاص مٹی پر سجدہ کرنا ہے تو کیوں اپنے ساتھ سجدہ گاہ رکھتے ہیں کیوں نہیں تھوڑی سے خاک اپنے پاس رکھتے ؟
محمد مرعی: ”اپنے ساتھ خاک رکھنے سے کپڑے وغیرہ گندے ہو سکتے ہیں کیونکہ خاک کی طبیعت ہے کہ اسے جہاں بھی رکھا جائے گا وہ اسے آلودہ کر دے گی شیعہ حضرات اسی وجہ سے اس خاک کو پانی میں ملا کر ایک خوبصور ت شکل کی سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں تاکہ اسے اپنے ساتھ رکھنے میں زحمت نہ ہوا اور لباس گندہ نہ ہونے پائے۔
حمید: ”خا ک کے علاوہ بورئے اور قالین وغیر پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟
محمد مرعی: ”جیسا کہ میں نے کہا کہ سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے سامنے آخری درجہ کا خشوع و خضوع کیا جائے، میں کہتا ہوں کہ خاک پر سجدہ کرنا خواہ وہ سجدہ گاہ ہو یا نرم خاک ہو خدا کے سامنے زیادہ خشوع و خضوعپر دلالت کرتا ہے کیونکہ خاک سب سے زیادہ حقیر چیز ہے اور ہم اپنے جسم کا سب سے عظیم حصہ (یعنی پیشانی)کوسب سے حقیر اور پست چیز پر سجدہ کے وقت رکھتے ہیں تاکہ خدا کی عبادت نہایت خشوع و خضوعسے کریں۔اسی وجہ سے مستحب ہے کہ جائے سجدہ ،پیر اور اعضائے بدن سے نیچی ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ خضوع وخشوع پردلالت کرے اور اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ ناک کی نوک خاک میں آلودہ ہوتاکہ زیادہ سے زیادہ خضوع وخشوع کا اظہار ہو۔خاک کے ایک ٹکڑے (سجدہ گاہ)پر سجدہ کرنا اسی وجہ سے تمام چیزوں سے بہتر ہے اگر کوئی انسان اپنی پیشانی کو ایک بہت ہی قیمتی سجدہ گاہ پر سونے چاندی کے ٹکڑے پرسجدہ کرے تو اس سے اس کے خضوع وخشوع میں کمی آجاتی ہے ، اور کبھی بھی ایسابھی ہوسکتا ہے کہ بندہ خدا کے سامنے اپنے کو چھوٹا اور پست شمار نہیں کرے گا۔
اسی وضاحت کے ساتھ کہ آیا کسی شخص کے خشک مٹی (سجدہ گاہ) پر سجدہ کرنے سے تاکہ اس کا خضوع وخشوع خدا کے نزدیک زیادہ ہو جائے وہ مشرک اور کافر ہوجائے گا؟لیکن قالین ،سنگ مرمر اور قالین و فرش وغیرہ پر سجدہ کرنا خضوع وخشوع میں زیادتی کرتا ہے اور تقرب خدا کا سبب بنتا ہے ؟ اس طرح کا تصور کرنے والا شخص غلط اور گھٹیا فکر کامالک ہے“۔
حمید: ”یہ کیاہے جو شیعوں کی سجدہ گاہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے؟“
محمد مرعی: ”اولاً یہ تمام سجدہ گاہوں پر لکھا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ایسی ہیں جن پر کچھ نہیں لکھا ہوتا ہے ثانیاً بعض پر لکھا بھی ہوتا ہے تو وہ ”سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ‘ ‘ہے جو ذکر سجدہ کی طرف اشارہ کرتاہے اور بعض سجدہ گاہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ مٹی کربلا سے لی گئی ہے تمہیں خدا کی قسم ہے آیا یہ لکھے ہوئے کلمات موجب شرک ہیں؟اور آیا یہ لکھے ہوئے کلمات مٹی کو مٹی ہونے سے خارج کردیتے ہیں؟
حمید: ”نہیں یہ ہرگز موجب شرک نہیں ہے اور اس پر سجدہ کرنے میں عدم جواز پر کوئی دلیل بھی نہیںہے لیکن ایک دوسرا سوال یہ کہ خاک شفا کیا خصوصیت رکھتی ہے کہ اکثر شیعہ خاک شفا پر ہی سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟“
محمد مرعی: ”اس کا راز یہ ہے کہ ہمارے ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے روایت ہے کہ خاک شفا ہر خاک سے افضل و برتر ہے۔امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
”السجود علی تربة الحسین یخرق الحجب السبع“۔[13]
”خاک شفا پر سجدہ کرنے سے ساتھ حجاب ہٹ جاتے ہیں“۔
یعنی نماز قبولیت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور آسمان کی طرف جاتی ہے نیز یہ بھی روایت ہے کہ آپ خدا کی بارگاہ میں تذلل اور انکساری کی وجہ سے صرف خاک شفا پر سجدہ کرتے تھے۔[14] اس بنا پر خاک شفا میں ایک ایسی فضیلت ہے جو دوسری خاک میں نہیں پائی جاتی ہے“۔
حمید: ”آیا خاک شفا پر سجدہ کرنے سے نماز قبول ہوتی ہے اور اس کے علاوہ اور کسی مٹی پر سجدہ کرنے سے نماز قبول نہیں ہوگی ؟
محمد مرعی: ”مذہب شیعہ کہتا ہے اگر آپ نماز کے شرائط صحت سے کوئی بھی شرط فاقد ہو جائے تو نمازباطل ہے اور قبول نہیں ہوگی لیکن اگرنماز کے تمام شرائط پائے جاتے ہیں اور اس کا سجدہ خاک شفا پر کیا گیا ہو تو نماز قبول بھی ہوگی اور ساتھ ساتھ وہ اہمیت کی بھی حامل ہوگی اور اس کا ثواب زیادہ ہو جائے گا۔
حمید: ”کیا زمین کربلا تمام زمینوں حتی مکہ اور مدینہ کی زمینوں سے بھی افضل وبرتر ہے تاکہ یہ کہا جائے کہ خاک شفا پر نماز پڑھنا تمام خاک سے افضل و برتر ہے؟“
محمد مرعی: ”اس میں کیا اعتراض ہے کہ خدا وند عالم نے خا ک کربلا ہی میںاس طرح کی خصوصیت قرار دی ہو“۔
حمید: ”زمین مکہ جو جناب آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک مقام کعبہ ہے اور مدینہ کی زمین جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک مدفون ہے کیا ان کا مقام ومنزلت کربلا کی زمین سے کمتر ہے؟ یہ بڑی عجیب بات ہے کیا حسین علیہ السلام اپنے جد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے افضل و برتر ہیں؟
محمد مرعی: ”نہیں ہر گز نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت ومنزلت ان کے جد رسول کی وجہ سے ہے لیکن خاک کربلا کو فضیلت حاصل ہونے کے سلسلے میں یہ راز ہے کہ امام حسین علیہ السلام اس سر زمین پر اپنے نانا کے دین کی راہ میں شہید ہوئے ہیں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اور خاندان کے لوگوں نے شریعت محمد ی کی حفاظت اور اس کی نشر واشاعت کے سلسلہ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں اس وجہ سے خداوند عالم نے انھیں تین خصوصیتیں عنایت فرمائی ہیں۔
۱۔آپ کے مرقد شریف میں گنبد کے نیچے قبولیت دعا کی ضمانت۔
۲۔تمام دیگر ائمہ علیہم السلام آپ کی نسل سے ہیں۔
۳۔آپ کی خاک (خاک کربلا)میں شفا ہے۔
آیا اس طرح خاک کربلا کو خصوصیتیں عطا کرنا کوئی اعتراض کا مقام ہے؟ کیا زمین کربلا کو زمین مدینہ سے افضل کہنے کا یہ مطلب ہوا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے نانا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے افضل وبرتر ہیں؟اور تمہیں اس طرح اعتراض کرنے کا موقع مل جائے؟نہیں بلکہ مطلب اس کے بر عکس ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کا احترام ان کے جد رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کا احترام ہے اور رسول اکرم کا احترام خدا کا احترام ہے“۔
جب یہ بات یہاں تک پہنچی تو انھیں میں سے ایک شخص جو قانع ہو چکا تھا وہ خوش ہو کر وہاں سے اٹھا اور میری تعریف و تمجید کرنے لگا اور اس نے شیعوں کی کتابوں کی درخواست کرتے ہوئے مجھ سے کہا:
”تمہاری باتیں نہایت سنجیدہ اور مستحکم ہیں ابھی تک میں خیال کررہا تھا کہ شیعہ امام حسین علیہ السلام کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے افضل وبرتر سمجھتے ہیں۔آج مجھے حقیقت معلوم ہوئی، تمہارے اس حسین بیان پر تمہار ا بہت شکر گزار ہوں۔آج کے بعد سے میں بھی خاک شفا کی سجدہ گاہ اپنے ساتھ رکھو ںگا اور اس پر نماز پڑھوں گا۔[15]

۵۶۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اگر کوئی رسول ہوتا تو وہ کون ہوتا؟
ایک مرجع تقلید (مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی ) نے فرمایا: ”جب میں مکہ میں تھا تو ”باب السلام“کے نزدیک کتاب خریدنے ایک کتاب کی دوکان پر گیا تو وہاں بہت ہی پڑھے لکھے اہل سنت کے عالم سے میری ملاقات ہوگئی جب اس نے مجھے پہچان لیا کہ میں ایک شیعہ عالم ہوں تو اس نے میرا بہت ہی اچھی طرح احترام کیا اور مجھ سے چند سوالات کئے جن میں سے چند خاص خاص سوالات عرض کرتا ہوں۔اس نے مجھ سے یہ سوال کیا:
تم اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:
”لوکان نبی غیری لکان عمر“۔
”اگر میرے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے“۔
میں نے کہا: ”پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے ہر گز اس طرح کی کوئی حدیث نہیں بیان کی ہے یہ حدیث جھوٹی اور جعلی ہے“۔
اس نے کہا: ”کیا دلیل ہے ؟“
میں نے کہا: ”تم حدیث منزلت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟آیا یہ حدیث ہمارے اور تمہارے درمیان مسلم ہے یا نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:
”یا علی انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“[16]
”اے علی علیہ السلام !تمہارے نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا“۔
اس نے کہا: ”ہماری نظر میں اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے“۔
میں نے کہا: ”اس حدیث کی دلالت التزامی سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر پیغمبر اکرم کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو وہ قطعی اور یقینی طور پر علی علیہ السلام ہوتے اس حدیث کی بنا پر جس کا تم اعتراف کرتے ہو کہ یہ یقینی اور قطعی ہے دوسری حدیث خود بخود بے بنیاد اور محض جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے“۔
وہ اس بات کے سامنے بے بس اور لاچار ہو گیا اور حیرت زدہ ہو کر خاموشی اختیار کر لی۔[17]

۵۷۔متعہ (وقتی شادی) کے جواز پر ایک مناظرہ
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی فرماتے ہیں: ”اس نے اپنا دوسرا سوال اس طرح پیش کیا:“
کیا تم شیعہ حضرات متعہ کو جائز جانتے ہو؟
میں نے کہا: ”ہاں“۔
اس نے کہا: ”کس دلیل کی بنا پر؟“
میں نے کہا: ”عمر ابن خطاب کی بات کی بنا پرکہ عمر ابن خطاب نے کہا تھا:
”متعتان محللتان فی زمن الرسول وانا احرمھما“
”دو متعہ رسول خدا کے زمانہ میں حلال تھے اور میں ان دونوں کو حرام قرار دیتا ہوں“۔
اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے۔
”متعتان کانتا علی عہد رسول اللہ وانا انھی عنھما واعاقب علیھما متعة الحج ومتعة النساء“۔[18]
”رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ میں دو متعہ پائے جاتے تھے لیکن میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں اور ان دونوں کے انجام دینے والوں کی سزادوں گا وہ دومتعہ ۔۔۔متعہ حج اور متعہ نساء ہے“۔
حضرت عمر کی اس بات (روایت وقرآن کے دلائل کو چھوڑ تے ہوئے )سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں متعہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں جائز تھے لیکن اسے عمر نے حرام قرار دیا ہے۔میں تم سے پوچھتا ہوں کہ عمر نے کس وجہ سے ان کو حرام قرار دیا آیا وہ رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد پیغمبر تھے اور انھیں خدا وند متعال نے حکم دیا کہ تم ان دونوں کوحرام کر دو یا عمر پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی؟ کسی دلیل سے انھوں نے متعہ کو حرام قرار دیا جب کہ یہ بھی ہے:
”حلال محمد حلال الی یوم القیامة وحرامہ حرام الی یوم القیامة“۔
”حلال محمد قیامت تک کے لئے حلال اورحرام محمد قیامت تک کے لئے حرام ہے“۔
آیا اس طرح کی تبدیلی ایک قسم کی بدعت نہیں ہے جب کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کی وجہ سے انسان جہنم میں جھونکا جائے گا “اس وجہ سے اب مسلمان کس دلیل سے عمر کی بدعت کی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بات کو چھوڑ دیتے ہیں؟“[19]
وہ اس طرح کی باتوں کے سامنے بے بس و لاچار ہو کر خاموش ہو گیا۔
مولف کا قول: ”اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہیں کہ لیکن اس بات کا اصلی مقام فقہی کتابیں ہیں۔
سورہٴ نساء کی ۲۴ ویں آیت متعہ کے جائز ہونے پر ایک دلیل ہے صرف یہاں پر متعہ کے بارے میں امام علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔
”ان المتعة رحمةٌ رحم اللہ بھا عبادہ ولولانھی عمر مازنی الا شقی“۔[20]
”یقینا متعہ ایک ایسی رحمت ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے اپنے بندوں پر رحم کیا ہے اور اگر اسے عمر حرام نہ کرتے تو کسی بد بخت کے علاوہ زنا کا کوئی مرتکب نہ ہوتا۔

۵۸۔ایک شیعہ دانشور کا عیسائی دانشورسے مناظرہ
قرآن کے سورہ ”عبس“کی پہلی اور دوسری آیت میں آیا ہے:
”عَبَسَ وَتَوَلَّی۔ اٴَنْ جَائَہُ الْاٴَعْمَی“
”اس نے منھ بسور لیا اور پیٹھ پھیر لی کہ ان کے پاس ایک نابینا آگیا“۔
کتب اہل سنت میں ایک روایت اس آیت کے شان نزول کے بارے میں نقل ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم قریش کے سرداروں سے باتیں کررہے تھے تاکہ انھیں اسلام کی طرف دعوت دے سکیں ان کے درمیان ایک نابینا مومن فقیر بھی تھا جس کانام ”عبد اللہ بن مکتوم“تھا اس نےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب آکر چند بار کہا کہ یا رسول اللہ مجھے بھی قرآنی آیات کی تعلیم دیجئے۔پیغمبر اس پرناراض ہو گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا تو خداوند متعال نے سورہ عبس کے شروع کی آیت کے ذریعہ پیغمبر کی اس فعل پر سر زنش کی۔[21]
لیکن شیعہ روایت کے مطابق سورہ عبس کی شروع کی آیتیں عثمان کے لئے نازل ہوئی ہیں اور انھیں خدا کی طرف سے ڈانٹا گیا ہے کہ نابینا فقیر سے کیوں بے اعتنائی کی ہے۔[22]
مذکورہ بات کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل اس مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں جو ایک شیعہ مفکر اور عیسائی عالم کے درمیان ہوا ہے۔
عیسائی عالم: ”ہمارے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام تمہارے پیغمبر محمد صلی الله علیه و آله وسلم سے بہتر ہیں اس لئے کہ تمہارے پیغمبر تھوڑے سے بد اخلاق تھے کیونکہ انھوں نے ایک نابینا فقیر سے جھنجھلا کر اسے ڈانٹا اور اس کی طرف سے منہ موڑ لیا جیسا کہ سورہ عبس کی شروع کی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس قدر خوش اخلاق تھے کہ جب بھی کبھی کسی مبروص کو دیکھ لیتے تھے تو اس پرناراض نہیں ہوتے تھے بلکہ اسے شفا دے دیتے تھے“۔
عیسائی عالم: ”ہم شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ سورہ عثمان کی بد اخلاقی پر نازل ہوا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کا فروں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے تھے ہدایت یافتہ مومنین کی تو الگ بات ہے جیسا کہ تم نے قرآن کا نام لیا اسی قرآن میں خدا وند متعال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں ارشادفرماتا ہے:
”انک لعلی خلق عظیم“[23]”بلا شک تم عظیم اخلاق کے درجہ پر فائز ہو“۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین “ [24]
”اور ہم نے تمہیں صرف عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
عیسائی عالم: ”یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ بات میں نے بغداد کے ایک مسلمان خطیب سے سنا ہے“۔
شیعہ مفکر: ”ہم شیعوں کے نزدیک یہی مشہور ہے جو میں نے کہا آیت سورہ عبس عثمان کے لئے نازل ہوئی ہیں لیکن بعض پست اور بنی امیہ کے زر خرید راویوں نے عثمان کی عزت محفو ظ رکھنے کے لئے ان آیتوں کی نسبت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی طرف دیدی ہے۔بعبارت دیگر سورہٴ عبس کی آیت میں تصریح نہیں ہوئی ہے کہ جس نے اس نابینا سے منہ موڑا تھا وہ شخص کون تھا؟ایک قرینہ کے مطابق جیسے سورہ قلم کی چوتھی آیت اور سورہ انبیاء کی ۱۰۷ ویں آیت میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سورہ عبس کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”سورہ عبس بنی امیہ کے ایک شخص کے سلسلے میں نازل ہوا جو آنحضرت کے ساتھ ساتھ رہا اور اس نے جب ابن ام مکتوم نابینا کو دیکھا تو اس پر ناراض ہو ا اور اس سے دور بھاگنے لگا اور اس نے اپنا منہ موڑ لیا۔[25]
یہ سن کر عیسائی عالم بے بس ہو گیا اور اس کے بعد کچھ نہیں کہا۔

۵۹۔شیخ مفید کا قاضی عبد الجبار سے مناظرہ
شیعوں کے بہت ہی برجستہ اور مشہور معروف عالم دین محمد بن محمد نعمان جو لوگوں کے درمیان شیخ مفید کے نام سے مشہور ہوئے۔
وہ ذی الحجہ میں ۳۳۶ یا ۳۳۸ ھ ق میں ”سوبقہ“نام کے ایک دیہات (جو بغداد سے دس فرسخ شمال میں واقع”عکبرا“کے علاقہ میں واقع ہے ) میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے باپ (جو معلم تھے) کے ساتھ بغداد آئے وہاں آکر تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھایا،یہاں تک کہ عظیم علماء میں شما ر کئے جانے لگے اور مسلمانوں کے تمام فرقوں میں مقبول ہوگئے۔
علامہ حلی، شیخ مفید کے بارے میں کہتے ہیں: ”وہ شیعوں کے ایک جلیل القدر عالم اور بڑے بڑے علماء کے استاد ہیں۔ان کے بعد آنے والے تمام لوگوں نے ان کے علم سے استفادہ کیا۔[26]
ابن کثیر شامی کتاب ”البدایة النہایة“میں کہتے ہیں: ”شیخ مفید شیعوں کے رہبر ،مصنف اور شیعیت کا دفاع کرنے والے تھے ان کے درس میں طرح طرح کے مذاہب کے علماء شرکت کرتے تھے“۔[27]
شیخ مفید نے مختلف فرقوں پر دوسو سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں معروف نسب شناس نجاشی ان کی ۱۷۰ کتابوں سے زیادہ کانام لکھتے ہےں[28]،شیخ مفید کی وفات شب جمعہ میں ماہ مبارک رمضان سال ۴۱۳ ھ ق کو بغداد میں ہوئی اور آپ کی قبر کاظمین میں امام محمد تقی علیہ السلام کی قبر کے قریب مسلمانوں کے ایک قبر ستان میں واقع ہے۔
شیخ مفید فن مناظرہ میں بہت ہی مستحکم اور مضبوط تھے، ان کے مناظروں میں سے کچھ ٹھوس اور مستدل مناظرے جو کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ان میں سے ایک مناظرہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسی مناظرہ کی وجہ سے شیخ مفید کویہ لقب ملا ہے۔[29]
شیخ مفید کے زمانہ میں اہل سنت کا ایک بہت ہی عظیم عالم دین جسے لوگ قاضی ”عبد الجبار“ کے نام سے جانتے تھے جو بغداد میں در س دیا کرتے تھے، ایک روز قاضی عبد الجبار در س کے لئے بیٹھے تھے اور تمام شیعہ سنی شاگرد بھی اس کے اس درس میں موجود تھے اس دن شیخ مفید بھی درس میں حاضر ہوئے اور آکر چوکھٹ پر بیٹھ گئے۔
قاضی نے شیخ مفید کو اب تک نہیں دیکھا تھا لیکن انھوں نے ان کے اوصاف سن رکھے تھے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد شیخ مفید نے قاضی کی طرف دیکھ کر کہا:
”آیا مجھے ان دانشوروں کے سامنے اجازت دیتے ہو کہ میں آپ سے ایک سوال کروں؟“
شیخ مفید: یہ حدیث جس کے بارے میں شیعہ حضرات روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر نے صحرائے عرب غدیر میں علی علیہ السلام کے لئے فرمایا:
”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“۔
جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں“۔
کیا یہ صحیح ہے یاشیعوں نے گڑھ لی ہے ؟
قاضی: ”یہ روایت صحیح ہے“۔
شیخ مفید :اس روایت میں کلمہ مولا سے کیا مراد ہے ؟“
قاضی: ”مولا سے مطلب سر پرست اور اولویت ہے“۔
شیخ مفید: اگر اسی طرح ہے تو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے فرمان کے مطابق علی علیہ السلام دوسرے لوگوں کے سرپرست اور سب پر اولویت رکھتے ہیں“۔
اب اس حدیث کے بعد شیعہ اور سنی کے درمیا ن اختلاف اور دشمنی کیوں ہے ؟“
قاضی: ”اے بھائی ! یہ حدیث” غدیر“ روایت ہے لیکن خلافت ابو بکر ”درایت“اور امر مسلم ہے اور عاقل شخص روایت کی خاطر درایت کو ترک نہیں کرتا“۔
شیخ مفید: تمام حدیث کے بارے میں کہتے ہو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
”یا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔
”اے علی علیہ السلام ! تمہاری جنگ میری جنگ اور تمہاری صلح میری صلح ہے“۔
قاضی: ”یہ حدیث صحیح ہے“۔
شیخ مفید:اس حدیث کی بنیاد پر جن لوگوں نے جنگ جمل شروع کی جیسے ،طلحہ،زبیر ،عائشہ وغیرہ علی علیہ السلام سے جنگ کی اس حدیث کی رو سے (جب کہ تمہارا یہ بھی اعتراف ہے کہ حدیث صحیح ہے) تو ان لوگوں نے گویا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے جنگ کی اور یہ لوگ کافر ہوئے“۔
قاضی: ”اے بھائی!طلحہ وزبیر وغیرہ نے توبہ کر لی تھی“۔
شیخ مفید:جنگ جمل درایت اور قطعی ہے لیکن یہ جنگ کرنے والوں نے توبہ کی یہ روایت اور ایک سنا ہوا قول ہے اور تم نے خود ہی کہا ہے کہ درایت کو روایت پر قربان نہیں کرنا چاہئے او ر عاقل شخص درایت کو روایت کی وجہ سے ترک نہیں کرتا ہے“۔
قاضی: ”اس سوال کا جواب دینے سے بے بس ہو گیا اور ایک لمحہ بعد اس نے چونک کر اپنا سر اٹھا یا اور کہا ”تم کون ہو“
شیخ مفید : ”میں آپ کا خادم محمد بن محمد نعمان ہوں“۔
قاضی ، اس وقت اپنی جگہ سے اٹھے اور شیخ مفید کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی جگہ بٹھا کر ان سے کہا:
”انت المفید حقاً “تم حقیقت میں مفید ہو“۔
بزم کے تمام علماء قاضی کی اس بات سے رنجیدہ ہوئے اور کافی شور وغل مچایا ،قاضی نے ان لوگوں سے کہا: ”میں اس شیخ مفید کا جواب دینے میں بے بس ہو گیا تم میں سے جو بھی ان کا جواب دے سکے وہ اٹھے اور بیان کرے“۔
ایک آدمی بھی نہیں اٹھا اس طرح شیخ مفید کامیاب ہوگئے اور اسی بزم سے ان کا لقب مفید ہوگیا جو تمام لوگوں کی زبان پر آج تک جاری ہے۔[30]

۶۰شیخ مفید کا عمر بن خطاب سے (عالم خواب میں) مناظرہ
ہم قرآن میں سورہ توبہ کی ۴۰ ویں آیت میں پڑھتے ہیں:
”إِلاَّ تَنصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللهُ إِذْ اٴَخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَہُ عَلَیْہِ وَاٴَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْہَا“
”اگر تم رسول کی مدد نہیں کروگے تو اللہ نے ان کی مدد کی جب کفار نے انھیں مکہ سےنکال دیا، حالانکہ وہ دو میں سے ایک تھے جب وہ دونوں غار میں تھے اوروہ اپنے ہم سفر سے کہہ رہے تھے غم زدہ نہ ہو، خدا ہمارے ساتھ ہے اس وقت خدا نے اپنے سکینہ (سکون)کو ان (رسول )پر نازل کیا اور ان کی ایسے لشکر سے تائید کی جسے تم نے نہیں دیکھا“۔
علمائے اہل سنت اس آیت کو فضائل ابو بکر کے لئے دلیل مانتے ہیں اور ابو بکر کو رسول اکرم کا یار وفادار جانتے ہیں اور ان کی خلافت کی تائید کے لئے اس آیت کا سہارا لیتے ہیں۔
نیز اہل سنت کے شعراء بھی اسی آیت کا سہارا لیتے ہوئے ابو بکر کی ستائش کرتے ہیں۔
مثلاًسعدی کہتا ہے:

ای یار غار سید و صدیق وراھبر
مجموعہ فضائل و گجنینہٴ صفا

مردان قدم بہ صحبت یاران نھادہ اند
لیکن نہ ھمچنان کہ تو در کام اژدھا[31]

(”اے یار غار !سردار و صدیق و رہبر! اے مجموعہ فضائل اور پاکیزگی و صفا کے مرکز! لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے ہیں لیکن نہ اس طرح کہ آپ نے ازدہا کے منھ اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے“)
اب مذکورہ بالا مطلب کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ذیل میں شیخ مفید علیہ الرحمة کا (جن کی زندگی کے حالات گزر چکے) ایک مناظرہ نقل ہوا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:
علامہ طبرسی کتاب ”احتجاج “میں اور کراجکی ”کنزالفوائد“میں شیخ ابو علی حسن بن محمد رقی سے نقل کرتے ہیں کہ شیخ مفید نے فرمایا: ”ایک شب میں نے خواب میں دیکھا کہ راستہ چل رہا ہوں چلتےچلتے میری نظر لوگوں پڑی تو دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں اور وہ ان لوگوں کو قصہ سنا رہا ہے میں نے پوچھا وہ مرد کون ہے؟”لوگوں نے کہا عمر بن خطاب ہیں“۔
میں حضرت عمر کے قریب گیا تو دیکھا ایک شخص ان سے بات کر رہا ہے لیکن میں ان کی باتوں کو نہیں سمجھ پارہا ہوں ان لوگوں کی بات کاٹ کر میں نے کہا: ”مجھے بتاوٴ کہ آیہ ٴغار(ثانی اثنین إذھما فی الغار)سے ابو بکر کی برتری کی کیا دلیل ہے“۔
عمر نے کہا: ”اس آیت میں ایسے چھ نکات ہیں حضرت ابو بکر کی فضیلت کی حکایت کرتے ہیں“، ان چھ نکتوں کو شمار کر نا شروع کیا:
خدا وند متعال نے قرآن میں (سورہ توبہ، آیت۴۰ )پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب کیا ہے اور ابو بکر کو ان کے بعد دوسرا شخص قرار دیا ہے۔(ثانی اثنین)
۲۔خدا وند متعال نے ان دونوں (پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم اور ابوبکر)کو ایک ساتھ اور ایک جگہ خطاب کیا ہے یہ خود ان دونوں کے تعلقات کی حکایت ہے۔ (اذھما فی الغار)
۳۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیت میں ابو بکر کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رفیق کہہ کر خطاب کیا ہے جو خود ابو بکر کے رتبہ اور منزلت کی حکایت کرتا ہے۔ (اذیقول لصاحبہ)
۴۔خدا وند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عشق ومحبت کی وجہ سے ابو بکر کو خبر دی کہ مذکورہ آیت کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوبکر سے کہا:(ولا تحزن)غمگین نہ ہو۔
۵۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے کہا: ”خدا وند متعال ہم دونوں کا برابر کا ہمدرد ہے اور ہماری طرف سے دفاع کرنے والا ہے۔ (ان اللہ معنا)
۶۔خداوند متعال نے اس آیت میں ابو بکر کے لئے سکینہ (سکون قلب) نازل ہونے کی خبر دی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ چین و سکون میں تھے وہ سکینہ کے نازل ہونے کے محتاج نہیں تھے: (فانزل اللہ سکینتہ علیہ)
یہ چھ نکتے ابو بکر کی فضیلت کو ثابت کررہے ہیں کہ کوئی شخص ان کے رد کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔
شیخ مفید کہتے ہیں: ”سچ مچ تم نے ابوبکر سے اپنی رفاقت اور دوستی کا حق ادا کیا لیکن اب میں خدا کی مدد سے ان چھ نکتوں کا جواب اس طرح دے رہا ہوں جیسے آندھی کی تیز ہوا راکھ کو اُڑا لے جاتی ہے۔
۱۔ابوبکر کو اس آیت میں دوسرا شخص قرا رد ینا ان کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ مومن مومن کے ساتھ اور اسی طرح مومن کافر کے ساتھ ایک جگہ رہ سکتے ہیں اور جب انسان ان دونوں میں سے کسی ایک کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو کہے گا ان دونوں میں دوسرا (ثانی اثنین)
۲۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابوبکر کا ایک ساتھ ذکر کرنا بھی ابوبکر کی فضیلت پر دلالت نہیں کرتا ہے جیسا کہ پہلی دلیل میں کہا کہ ایک جگہ اکٹھا ہونا اچھائی پر دلیل نہیں ہے بہت سے مواقع پر مومن اور کافر ایک جگہ اکٹھا ہوتے ہیں جیسے مسجد پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم جو غار ثور سے نہایت ہی بافضل ہے وہاں پر بھی مومن اور منافق ایک ساتھ جمع ہوتے تھے۔اسی لئے ہم قرآن میں سورہ معارج کی ۳۶ ویں اور۳۷ آیت پڑھتے ہیں۔
” فَمَالِ الَّذِینَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُہْطِعِینَ ۔ عَنْ الْیَمِینِ وَعَنْ الشِّمَالِ عِزِینَ“
”پس ان کافروں کو کیا ہوا ہے جو تمہارے پاس جلدی جلدی داہنے بائیں سے گروہ در گروہ آتے ہیں اور اسی طرح کشتی نوح میں پیغمبر ،شیطان اور تمام جانورایک جگہ جمع ہو گئے تھے“۔
غرض ایک جگہ جمع ہونا دلیل فضیلت نہیں ہے۔
۳۔لیکن مصاحب ہونے کے بارے میں یہ بھی فضیلت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہاں پر مصاحب ہمراہ کے معنی میں ہے بہت سے موقع پر کافر مومن کے ہمراہ ہوتا ہے جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
” قَالَ لَہُ صَاحِبُہُ وَہُوَ یُحَاوِرُہُ اٴَکَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَکَ مِنْ تُرَاب“[32]
”اس سے (کافر)اس کے (مومن)دوست نے بات کے درمیان کہا کیا تو اس کا انکار کررہا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا؟“
۴۔یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے فرمایا: ””لا تحزن “غمگین نہ ہو “یہ ابو بکر کی خطا پر دلیل ہے نہ کہ ان کی فضیلت پر کیونکہ یہ حزن یا اطاعت کی وجہ سے تھا یا گناہ تھا اگر اطاعت تھا تو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کبھی اس کے لئے منع نہ کرتے پس پتہ چلا گناہ تھا جس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا۔
۵۔یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”ان اللہ معنا“(خدا ہمارے ساتھ ہے )اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کے لئے فرمایا ہے نہیں بلکہ اس سے مراد خود تنہا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے جیسا کہ خدا وند متعال نے اپنے لئے لفظ جمع استعمال کیا ہے۔
”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون“[33]
”ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں“۔
۶۔یہ کہ تم نے کہا کہ سکینہ اور آرام ابو بکر پر نازل ہوا آیت کا ظاہری سیاق اس کا مخالف ہے کیونکہ سکینہ اس شخص پر نازل ہوا جس کی مدد کے لئے خداوند متعال نے نامرئی (نہ دکھائی دینے والا) لشکر روانہ کیا اور یہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ہے۔
اور اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ دونوں(سکینہ اور نامرئی لشکر)ابو بکر کے لئے تھا تو یہاں چاہئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوت سے خارج کردو۔
بس اس سے معلوم ہوا کہ سکینہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا کیونکہ تنہا رسول ہی تھے جو غار میں اس چیز کے لئے مناسب تھے لیکن دوسری جگہوں پر پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ ساتھ مومنین پر بھی سکینہ نازل کیا گیا ہے ان کا الگ الگ ذکر پایا جاتا ہے۔جیسا کہ سورہٴ فتح آیت ۲۶ پڑھتے ہیں:
”فَاٴَنْزَلَ اللهُ سَکِینَتَہُ عَلَی رَسُولِہِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ “
بہتر ہے کہ اس آیت سے اپنے دوست کی فضیلت ثابت نہ کرو تو بہتر ہے۔
شیخ مفید کہتے ہیں اس کے بعد عمر میرا جواب نہ دے سکا اور لوگ اس سے دور بھاگے اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔[34]

۶۱۔مامون کا آیہٴ غار کے متعلق سنی عالم سے مناظرہ
مامون (عباسی دور کا ساتواں خلیفہ )نے یحییٰ بن اکثم (قاضی وقت)کو حکم دیا کہ تمام مشہور ومعروف علماء کو فلاں روز فلاں وقت پر میری بزم میں حاضر کیا جائے۔
یحییٰ بن اکثم نے اس زمانہ کے تمام مشہور معروف علماء اور راویوں کو ایک جگہ جمع کیا ،مامون اس بزم میں حاضر ہوا اور احوال پرسی کے بعد اس نے کہا: ”میں نے تمہیں یہاں اس لئے بلایا ہے کہ ساتھ بیٹھ کر آزاد طریقہ سے اور بغیر کسی قید وبند کے امامت کے بارے میں باتیں کریں تاکہ تمام لوگوں پر حجت تمام ہو جائے“۔
اس بزم میں ہر عالم نے ابوبکر و عمر کی برتری اور فضیلت کو ثابت کیا تاکہ وہ خلیفہ رسول سمجھے جائیں لیکن مامون ہر ایک کو اچھی طرح جواب دیتا رہا اور ان کی دلیلوں کو رد کرتا رہا یہاں تک اسحاق نامی ایک عالم میدان مناظرہ میں آیا اور تھوڑی دیر بحث کے بعد اس نے کہا:
”خداوند متعال قرآن کریم میں سورہٴ توبہ آیت ۴۰ میں ابو بکر کے بارے میں فرماتا ہے:
” ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَہُ عَلَیْہِ“
”اور وہ ایک شخص کے ساتھ نکلے اور دونوں غار میں تھے تو اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے پھر خدا نے اپنی طرف سے (اپنے پیغمبر) پر سکون (سکینہ) نازل کردیا“۔
خدا وند متعال نے اس آیت میں ابو بکر کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کا مصاحب اور دوست کہہ کر تعارف کرا رہا ہے۔
مامون: ”عجیب بات ہے لغت اور قرآن سے تم کتنی کم آگاہی رکھتے ہو کیا کبھی کافر مومن کا مصاحب اور رفیق نہیں ہوتا؟ایسی صورت میں یہ مصاحب کافر کے لئے کس افتخار کا سبب بنے گی؟ جیسا کہ قرآن میں سورہ ٴ کہف آیت ۳۷ میں خدا وند متعال فرماتا ہے:
” قَالَ لَہُ صَاحِبُہُ وَہُوَ یُحَاوِرُہُ اٴَکَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَکَ مِنْ تُرَاب“
”اس کے ایک ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تو اس کا انکار کردیا ہے جس نے تجھے خاک سے پیدا کیا ہے“۔
اس آیت کے مطابق مومن کافر کا ساتھی شما ر کیا گیا ہے۔
بہت سے فصحائے عرب کے اشعار بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ کبھی کبھی انسانوں کے ساتھی حیوان بھی ہوتے ہیں، لہٰذا ساتھی ہونا کسی بھی طرح کی دلیل وافتخار نہیں ہے“۔
اسحاق: ”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مذکورہ آیت کے مطابق ابو بکر کو اطمینان دلایا اور دل جوئی کی اور ان سے فرمایا:”لا تحزن“ (یعنی غمگین نہ ہو)
مامون: ”مجھے بتاوٴ کیا ابو بکر کا حزن وملال گناہ تھا یا اطاعت ؟اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اطاعت تھا تو اس صورت میں تم نے گویا فرض کر لیا کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے اطاعت سے منع کیا(جب کہ اس طرح کی نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق بالکل غلط ہے)اور اگر کہتے ہو کہ وہ عمل گناہ تھا تو اب گناہ کے لئے تم کون سی فضیلت اور افتخار کو ثابت کرتے ہو؟“
اسحاق: ”خدا وند متعال نے مذکورہ آیت میں اپنا سکون اور آرام (سکینہ) ابو بکر پر نازل کیا یہ خود ان کے لئے فضیلت اور افتخار ہے اور یہ خدا کا آرام وسکون ابو بکر سے مخصوص ہے نہ کہ پیغمبر اکرم سے کیونکہ وہ راحت وسکون کے محتاج نہیں ہیں“۔
مامون: ”خداوند متعال قرآن کریم میں ( سورہٴ توبہ کی ۲۵۔۲۶ ویں آیت ) فرماتا ہے-:
”َیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ اٴَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ # ثُمَّ اٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَہُ عَلَی رَسُولِہِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ“
”خدا نے تمہاری بہت سی جگہوں میں مد د کی اور حنین کے دن جب تمہیں تمہاری کثرت نے تعجب میں ڈال دیا تھا مگر اس کثرت نے تمہاری کوئی مدد نہ کی اور زمین تمہارے اوپر تنگ ہو گئی پھر تم میدان سے پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے پھر خداوند متعال نے اپنا سکینہ اپنے رسول اور مومنین پر نازل کیا“۔
اے اسحاق ! کیا تو جانتا ہے کہ جن مومنوں نے فرار نہیں اختیار کیا تھا اور جنگ حنین میں پیغمبر کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں رہے وہ کون لوگ تھے؟
اسحاق: ”نہیں میں نہیں جاتنا“۔
مامون:جنگ حنین ( جو سرزمین مکہ اور طائف کے درمیان ہجرت کے آٹھویں سال واقع ہوئی)تمام اسلامی لشکر شکست کھا کر میدان سے فرار ہو چکا تھا اور میدان جنگ میں صرف پیغمبر اور ان کے ساتھ بنی ہاشم کے سات افراد باقی رہ گئے تھے جن میں علی علیہ السلام تلوار سے جنگ کرتے تھے عباس (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا) نے آنحضرت کو گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی اور پانچ دوسرے افراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے تاکہ کافروں سے انھیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے [35] نتیجہ میں خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتح و کامرانی عطا کی (یہاں تک کہ خداوند متعال نے اپنے آرام وسکون (سکینہ) کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مومنین پر نازل کیا)
اس سے ثابت ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی الٰہی آرام وسکون کے محتاج تھے اور مومنین سے مراد اس آیت میں علی علیہ السلام اور چند لوگ بنی ہاشم کے ہیں جو میدان جنگ میں حاضر تھے اس بنا پر کون افضل ہے ؟آیا وہ لوگ جو میدان جنگ حنین میں پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ رہ گئے تھے اور الٰہی آرام وسکون پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم اور ان لوگوں پر نازل ہوا وہ لوگ برتر ہیں یا وہ شخص جو پیغمبر اکرم کے ساتھ غار میں تھا اور اس کے لئے سکون وراحت نازل کرنا مناسب بھی نہیں تھا؟
اے اسحاق!کون شخص بہتر ہے آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ غار میں رہنے والا یا آنحضرت پر جان فدا کرکے ان کے بستر پر چین کی نیند سونے والا؟ کیونکہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے جا رہے تھے تو خدا کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”تم میرے بستر پر سو رہو۔
حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا: ”اے رسول خدا !اگر میں آپ کے بستر پر سوجاوٴں تو آپ کی جان بچ جائے گی ؟“
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”جی ہاں“۔
حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: ”سمعاً و طاعةً“
اس کے بعد آپ بستر رسول پر آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کی چادر تان کر سوگئے۔مشرکین تمام رات انتظار کرتے رہے اور وہ شک بھی نہ کر سکے کہ اس بستر پر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے علاوہ کوئی اور سو رہا ہے۔
یہ منصوبہ تمام مشرکین کی اتفاق رائے سے وجود میں آیا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک شخص آپ کے پاس جا کر ایک ایک ضربت لگائے تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قتل ہو جائیں اور ان کا قاتل کوئی ایک شخص نہ ہو تاکہ بنی ہاشم پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کا انتقام نہ لے سکیں۔
حضرت علی علیہ السلام مشرکوں کی تمام باتیں سن رہے تھے لیکن انھوں نے ذرا بھی بیتابی کا اظہار نہیں کیا جب کہ ابو بکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غار میں رہتے ہوئے بھی بے تابی کا اظہار کر رہے تھے اور علی علیہ السلام نے تنہا ہوتے ہوئے بھی مکمل خلوص سے استقامت کی اور خداوند متعال نے علی علیہ السلام کے پاس فرشتے بھیجے تاکہ وہ مشرکوں سے ان کی حفاظت کریں۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اس طرح کی فداکاری اور ایثار کیا اور وہ اپنی طویل حیات میں بہت ہی عظیم فضائل ومناقب کے حامل تھے یہاں تک کہ خداوند متعال کے نزدیک بہت ہی محبوب اور مقبول حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔[36]

۶۲۔ موٴلف کاابن ابی الحدید سے غائبانہ مناظرہ
اہل سنت کا ایک بہت ہی مشہورو معروف اور نہایت پڑھا لکھا عظیم مورخ عبد المجید بن محمد بن حسین بن ابی الحدید مدائنی گزرے ہیں جسے عام لوگ ”ابن ابی الحدید “کے نام سے جانتے ہیں ان کی تالیفات و تصنیفات میں ایک بہت ہی اہم اور مشہور ۲۰جلدوں پر مشتمل ”شرح نہج البلاغہ “ہے۔
۶۵۵ ھ کومیں بغداد میں انھوں نے دنیا کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہا وہ اپنی شرح نہج البلاغہ کی چھٹی جلد میں پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد پرآشوب حالات کو لکھتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے چند آدمیوں کے ساتھ آکر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا گھر گھیر لیا جنا ب فاطمہ زہرا سلا م اللہ علیہا کی آواز بلند ہوئی کہتم لوگ میرے گھر سے بھاگ جاوٴ۔۔۔
اور صحیح بخاری و صحیح مسلم سے بھی نقل کرتے ہوئے واضح طور پر لکھتے ہیں:
”فھجرتہ فاطمہ ولم تکلمہ فی ذلک حتی ماتت فد فنھا علی لیلاولم یوٴذن بھا ابو بکر“۔[37]
” پھر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ابو بکر سے دوری اختیار کر لی تھی اور مرتے وقت تک ان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام نے آپ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور ابوبکر کو اس بات کی خبر بھی نہ دی۔
ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے ابن ابی الحدید عمر و ابوبکر کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے طرح طرح کی توجیہ کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں:
”فان ھذالوثبت انہ خطالم یکن کبیرة بل کان من باب الصغائر التی لا تقتضی التبری ولا توجب زوال التولی“۔
”اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ ابوبکر کی رفتار اس طرح تھی تو ان کی طرف سے یہ خطا اور گناہ تو تھا لیکن گناہ کبیرہ نہیں ہے بلکہ ایک گناہ صغیرہ ہے جو ان سے بیزاری اور ولایت کے زوال کا موجب نہیں بن سکتا ہے“۔
موٴلف: ”کیا سچ مچ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ کرنا اوراس کا حکم دنیا اور آپ کو اس حد تک ناراض کرنا کہ آخر عمر تک ابو بکر و عمر سے منہ پھیرے رہیں اور ان سے بات بھی نہیں کی، گناہ صغیرہ ہے ؟!
اگر ابن ابی الحدید کہتے کہ اصل حادثہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے تو اس پر مجھے تعجب نہ ہوتا لیکن وہ اس حادثہ کا اقرارکرتے ہوئے کس طرح ایسی باتیں کرتے ہیں؟کیا وہ گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو نہیں جانتے ؟ایسا بھی نہیں ہے کہ ابن ابی الحدید نے صرف خود نقل کیا ہے بلکہ دوسرے علمائے اہل سنت نے بھی اس کو نقل کیا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا ہے۔
”ان الله یغضب لغضب فاطمة ویرضیٰ لرضاھا“۔[38]
”بے شک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا (میرے جگر کا ٹکڑا ہے ) جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی“۔
پس اس حدیث کی بنیاد پر ان دونوں نے یقینی طور پر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دی اور فاطمہ سلا م اللہ علیہا کو اذیت دینا خدا و رسول کو اذیت دینا ہے ان چیزوں کو جانتے ہوئے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اذیت دینا گناہ صغیرہ ہے؟ہاں اگر یہ گناہ صغیرہ ہے تو پھرگناہ کبیرہ کیا ہے؟کیا خدا وند متعال قرآن مجید میں نہیں فرماتا:
”إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمْ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاٴَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُہِینًا“[39]
”بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اس نے ان کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے“۔
کیا گناہ صغیرہ انجا م دینے والا شخص خدا اور رسول کی لعنت کا مستحق نہیں ہے؟

۶۳۔نص کے مقابل اجتہاد کے متعلق ایک مناظرہ
اشارہ:
شریعت اسلام میں جو چیز آیات قرآن اورسنت پیغمبر سے صریحی اور واضح ہے اس چیز کی پیروی کرنا چاہئے اگر ہم اس کے مقابلہ میں کوئی توجیہ کریں تو ایسا اجتہاد نص کے مقابلہ میں ہوگا اور نص کے مقابلہ میں اجتہاد یقینا باطل ہے اور اس طرح کا اجتہاد ہی بدعت ہے جو کفر اور گمراہی پیدا کرتا ہے۔لیکن صحیح اجہتاد وہ ہے کہ کسی موضوع کے حکم کی صحیح دلیل سند یا دلالت کے لحاظ سے واضح نہ ہو،مجتہد قواعد اجتہاد کے ذریعہ اس موضوع کے حکم کے بارے میں استنبا ط کرتا ہے اس طرح کا اجتہاد اور اس طرح کے مجتہد جامع الشرائط مقلدین حضرات کے لئے حجت قرار دیئے گئے ہیں اسی بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے ذیل کا مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں:
ملک شاہ سلجوقی نے ایک جلسہ بلا یا اس میں خود اس کا وزیر بھی موجود تھا۔اس جلسہ میں اہل سنت کے ”عباسی “نام کے ایک بہت ہی جلیل القدر اور شیعوں کے ایک بہت ہی مشہور اور عظیم عالم (علوی) کے درمیان اس طرح مناظرہ شروع ہوا:
علوی: تمہاری معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ بعض احکام جو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ میں قطعی مناسب اور یقینی تھے عمر نے اس میں تصرف کیا ہے اور اسے بدل ڈال ہے“۔
عباسی: ”کن احکام کو انھوں نے بدل دیا؟“
علوی: ”مثال کے طور:
الف: نماز تراویح ماہ رمضان میں پڑھی جاتی ہے اور مستحب ہے، عمر نے کہا: ”اسے با جماعت پڑھو “[40]جب کہ مستحب نمازیں جماعت کے ساتھ نہیں پڑھنا چاہئے۔جیسا کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں اسی طرح تھا کہ تمام مستحبی نمازیں فرادیٰ پڑھی جاتی تھیں لیکن بعض مستحبی نمازیں جیسے نماز استقاء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں بھی جماعت سے پڑھی گئی۔
ب: یا حضرت عمر نے حکم دیا کہ اذان میں”حی علی خیر العمل“کی جگہ ”الصلوة خیر من النوم“کہا جائے۔[41]
ج: حج تمتع اور متعة النساء کو حرام قرار دیا۔[42]
د:مولفة القلوب کے حصہ کو ختم کر دیا جب کہ سورہٴ توبہ کی آیت نمبر ۶۰ میں ان کے حصے کی وضاحت ہوتی ہے اس کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں۔
ملک شاہ: کیا سچ مچ عمر نے ان احکام کو بدل ڈالا؟“
خواجہ نظام الملک: ”ہاں واقعی یہ چیزیں سنیوں کی معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں“۔
ملک شاہ: ”بس ہم کس طرح ان لوگوں کی پیروی کریں جنھوں نے بدعت پھیلارکھی ہے ؟“
قوشچی: ”اگر عمر نے حج تمتع یا متعہ سے روکا ،یا اذان میں”حی علی خیر العمل“کی جگہ”الصلوة خیر من النوم“کا اضافہ کیا تو انھوں نے اجہتاد کیا ہے اور اجتہاد بدعت نہیں ہے۔[43]
علوی: ”کیا قرآن کے واضح اور صریحی آیت یا رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کی صریحی احادیث کے مقابلہ میں دوسری باتیں پیش کی جا سکتی ہیں؟ کیانص کے مقابلہ میں اجتہاد جائز ہے ؟اگر اس طرح ہو تو ہر مجتہد اس چیز کا حق رکھتا ہے اور ایسے ہی کچھ دنوں کے بعد اسلام کے بہت سے احکام بدل جائیں گے اور اسلام کی حقیقت اور جاویدانی ہوناہمارے درمیان سے جاتی رہے گی کیا قرآن یہ نہیں فرمارہا ہے:
”وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا“[44]
”جو کچھ رسول تم کو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اسے ترک کردو“۔
اسی طرح سورہٴ احزاب میں خدا کا ارشاد ہے:
”وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللهُ وَرَسُولُہُ اٴَمْرًا اٴَنْ یَکُونَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ اٴَمْرِہِمْ “[45]
”کسی مومن یا مومنہ کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد (کس شئے پر) اختیار رکھے“۔
آیا پیغمبر (ص) نے یہ نہیں فرمایا:
”حلال محمد حلال الی یوم القیامة وحرام محمد حرام الی یوم القیامة“۔[46]
”حلال محمد قیامت تک کے لئے حلال ہے اور حرام محمد قیامت کے لئے حرام ہے“۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے صریحی احکام کو بدلنا نہیں چاہئے کہ یہ کام تو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم بھی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں قرآن میں پڑھتے ہیں۔[47]
” وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاٴَقَاوِیلِ۔ لَاٴَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِینِ ۔ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ۔ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِینَ“[48]
”اور اگر وہ (پیغمبر) ہماری طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے تو ہم انھیں قوت سے پکڑ لیتے پھر ان کی رگ قلب کو قطع کر دیتے اور تم لوگوں میں سے کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا تھا“۔

تیسراحصہ
ڈاکٹرسید محمد تیجانی کے مناظرے
اشارہ:
ڈاکٹر محمد تیجانی سیماوی ”تیونس“کے رہنے والے ہیں وہ اپنے شہریوں اور خاندان والوں کے دین کے مطابق اہل سنت میں مالکی مسلک کے پیروکارتھے، علمی منازل طے کرنے کے بعد پڑھےلکھے مفکروں میں ان کا شمار ہونے لگا ڈاکٹر محمد تیجانی نے اسلامی مذاہب میں مذہب حقہ کی تحقیق میں بڑے ہی ہوش وحواس کے ساتھ انتھک کوشش کی اس سلسلہ میں انھوں نے متعدد سفر بھی کئے جیسے نجف اشرف میں آیت اللہ خوئی اور شہید باقر الصدر اعلی اللہ مقامہم کے پاس پہنچے اور نہایت ہی عمیق تحقیق کے بعد مذہب تشیع کو قبول کیا اوراپنے شیعہ ہونے کا قانونی طور پر اعلان کر دیا اور اپنے اس تحقیق کو اپنی قیمتی کتاب ”ثم اھتدیت “میں بیان کیا ہے۔[49]

۶۴۔ توسل کے بارے میں ڈاکٹر تیجانی سے آیت اللہ شہید صدر کا مناظرہ
ڈاکٹر تیجانی پہلے مالکی مذہب کے پیروکار تھے انھوں نے تیونس سے نجف اشرف کا سفر کر کے اپنے دوست کے ذریعہ آیت العظمیٰ سید شہید صدر [50] کی خدمت میں پہنچے انھوں نے وہاں پہنچ کر تحقیق اور مناظرہ شروع کیا۔
ڈاکٹرتیجانی نے پہلے اس طرح سوال شروع کئے:
سعودی علماء کہتے ہیں:
”قبر پر ہاتھ رکھنا (چومنا)صالحین کو وسیلہ قرار دینا ان سے متبر ک ہونا شرک ہے، اس بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟“۔
آیت اللہ صدر نے فرمایا: ”اگر کوئی انسان اس عقیدہ سے قبر چومے یا انھیں وسیلہ قرار دے کہ وہ (بغیر اذن خدا کے )مستقل طور پر ہمیں ضرر و نفع پہنچا سکتے ہیں تو یہ شرک ہے، لیکن مسلمان خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے والا جانتا ہے کہ صرف اور صرف خدا ہی وہ ہے جو ضررونفع پہنچا سکتا ہے اور یہ اولیائے خدا اور اس کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں انھیں اس طرح واسطہ و وسیلہ قرار دینا ہرگز شرک نہیں ہے تمام سنی اور شیعہ مسلمان رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک اسی نظریہ پر متفق ہیں۔
یہ صرف وہابیت اور سعودی علماء ہیں جو اسی صدی میں پیدا ہوئے ہیں انھوں نے ہم مسلمانوںکے خلاف ایک ڈھونگ رچ رکھا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے خون کو مباح بھی جانتے ہیں اور ان کے درمیان فتنہ انگیزی کرتے ہیں یہ لوگ قبر کو چومنا اور ائمہ اعلیہم لسلام کو وسیلہ قرار دینا شرک سمجھتے ہیں۔
اس کے بعد شہید نے فرمایا:سید شرف الدین (شیعوں کے ایک عظیم محقق )صاحب کتاب ”المراجعات “”عید غدیر“کے موقع پر خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ تشریف لے گئے۔وہاں دستور کے مطابق عبد العزیز[51]کو مبارک باد پیش کرنے کے لئے عید قربان کے روز تمام سعودی علماء ۱۱۵۳ ء ھ میں اس نے خود ساختہ وہابی عقائد کا اعلان کر دیا کچھ لوگوں نے ا س کی پیروی کی اور ۱۱۶۰ ھ میں یہ نجد کے ایک دوسرے مشہور و معروف شہر ”درعیہ“چلا گیا جہاں اس نے شہر کے حاکم ”محمد بن سعود “سے راہ رسم پیدا کی اور پھر ان دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مل جل کر اس نئے عقیدہ کی ترویج کریں گے (آئین وہابیت ،ص ۲۶،۲۷)لہٰذا جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں یہ منحرف مذہب ۱۲ صدی ہجری میں پیدا ہوا اور آل سعود کے ہاتھوں پھلتا پھولتا رہا ۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب ۱۲۰۶ ہجری میں مر گیا مگر اس کے بعد بھی اس کے ماننے والوں نے اس کے مذہب کو قائم رکھا البتہ اس E
کے ساتھ ساتھ ان کی بھی دعوت ہوئی تمام علماء کے ساتھ ساتھ وہ بھی محل میں داخل ہوئے ،لوگ مبارک باد دیتے رہے لیکن جب آپ کی باری آئی توآپ نے پہنچ کر عبد العزیز کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے ہدیہ کے طور پر ایک بہت ہی پرانا قرآن دیا، اس نے قرآن لے کر اس کا بوسہ دیا اور مارے احترام وتعظیم کے اسے اپنی پیشانی سے مس کیا، سید شرف الدین نے فرصت غنیمت جان کر اچانک اس سے کہا: ”اے بادشاہ! اس جلد کو بوسہ کیوں لے رہے ہو ؟یہ تو بکری کی کھال سے بنائی گئی ہے“۔اس نے کہا: ”میں کھال کا نہیں بلکہ جو قرآن اس کے اندر ہے اس کا بوسہ لے رہا ہوں۔
جناب شرف الدین نے فوراً فرمایا:
”بہت اچھا بادشاہ ہم شیعہ بھی جب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے روضہ کے دروازہ اور کھڑکی کا بوسہ لیتے ہیں تو یہ جانتے ہیں کہ یہ صرف لوہا ہے یہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے ہماری غرض کھڑکی اور دروازہ سے نہیں بلکہ اسے ماوراء چیز یعنی ہماری غرض رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کا احترام اور تعظیم ہوتی ہے یہ تعظیم و تکریم بالکل اسی طرح ہے جس طرح تم بکری کی کھال چوم کر قرآن کی تعظیم و تکریم کر رہے ہو۔
یہ سن کر تمام حاضرین نے تکبیر کہی اور ان کی تصدیق کی اس کے بعد ملک عبد العزیز نے مجبور ہو کر حاجیوں کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے روضہ کو بوسہ دینے کی اجازت دے دی۔لیکن اس کے بعد جو بادشاہ آیا اس نے اس گزشتہ قانون کی کوئی رعایت نہیں کی۔
یہ سب دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں شرک نہیں ہیں بلکہ وہابیوں نے لوگوں

Fکے تمام عقائد ۶۶۱ ھ کی منحرف شخصیت ”احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ “کے مرہون منت ہیں اگر یہ کہا جائے کہ تقریبا ً چھ سو سال کے عرصہ تک مردہ پڑے ابن تیمیہ کے منحرف عقائد اور مختلف بدعتوں کو عبد الوہاب نے نئے سرے سے اجاگر کیا اور لوگوں کے درمیان پھر سے زندہ کیا تو قطعا غلط نہ ہوگا۔کیونکہ تحقیق کرنے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج کی وہابیت ابن تیمیہ کے خود ساختہ عقائد و نظریات کی بنیادوں پر استوار ہے۔ (ابن تیمیہ صائب عبد الحمید )۱۲۲۶ ھ میں وہابی شاہ سعود نے بیس ہراز سپاہیوں کے ساتھ کربلاپر حملہ کیا اور پانچ ہزار یا اس سے زیادہ افراد کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ (تاریخ کربلا ،ص۱۷۲)
کے درمیان اس لئے یہ پروپیگنڈہ پھیلایا ہے تاکہ وہ اس سیاست کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون مباح قرار دیں اور مسلمانوں پر اپنی حکومت باقی رکھیں۔تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ وہابیوں نے امت محمد پر مصائب کے کتنے پہاڑ توڑے ہیں[52]۔

۶۵۔ اذان میں حضرت علی علیہ السلام کا نام کی گواہی
ڈاکٹر تیجانی: ”شیعہ حضرات اذان واقامت میں اس بات کی گواہی کیوں دیتے ہیں کہ علی علیہ السلام خدا کے ولی ہیں؟“
آیت اللہ باقر الصدر: ”کیونکہ حضرت علی علیہ السلام خدا کے بندوں میں ایک منتخب بندہ ہیں اور خدا وند متعال نے انھیں لوگوں پر فضیلت و برتری عطا کی ہے تاکہ انبیاء کے بعد رسالت کے بار سنگین کو وہ اپنے دوش مبارک پر اٹھا سکیں ، اور تمام ائمہ علیہم السلام پیغمبروں کے اوصیاء اور جانشین ہوتے ہیں اور جس طرح ہر پیغمبر کے پاس اس کا ایک جانشین ہوتا تھا اسی طرح پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه و آله وسلم کے جانشین مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ہم لوگ انھیں تمام اصحاب پر مقدم قرار دیتے ہیں کیونکہ خداوند متعال اور اس کے رسول نے انھیں تمام لوگوں سے افضل و برتر جاناہے اور ان کی فضیلت و برتری کے لئے ہمارے پاس قرآن اور احادیث سے عقلی اور نقلی دونوں دلیلیں موجود ہیں اور ان دلیلوں میں کسی طرح کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ دلیلیں صرف ہمارے لحاظ سے متواتر نہیں ہیں بلکہ اہل سنت حضرات کی کتابوں میں بھی تواتر کی حیثیت رکھتی ہیں۔[53]
اس سلسلے میں ہمارے علماء نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں کیونکہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانہ میں مولائے کائنات کی خلافت کو نابود کرنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے پر سارے حکمراں تلے ہوئے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ مسلمان منبر سے آپ پر لعن وطعن کرتے تھے اور معاویہ ان مسلمانوں کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس کے لئے ترغیب کرتا تھا۔
اسی لئے شیعہ اور علی علیہ السلام کے تمام پیرو کار اذان و اقامت میں گواہی دیتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ولی ٴخدا ہیں اور یہ چیز مناسب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان ولی خدا پر لعنت بھیجے۔در اصل شیعوں کی یہ روش اس زمانے کے حکام سے ایک طرح کا اعلان جنگ تھا تاکہ خدا اس کے رسول اور مومنوں کی عزت کو قائم و دائم رکھے اور یہ تاریخی حوصلہ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں میں باقی رہے اور حضرت علی علیہ السلام کی حقانیت اور ان کے دشمنوں کی سازشوں سے پوری طرح آگاہ رہیں۔اسی وجہ سے ہمارے فقہاء نے اس روش کو باقی رکھا کہ ولایت علی علیہ السلام کی گواہی اذان واقامت کے دوران مستحب جانا نہ کہ اسے اذان و اقامت کا جزء قرار دیا ہے۔
اب اس وجہ سے اگر کوئی شخص ولایت علی علیہ السلام کی گواہی اذان اور اقامت کا جزء (واجب)سمجھ کر دے تو اس کی اذان واقامت باطل ہے۔[54]
۶۶۔آیت اللہ العظمیٰ آقائی خوئی طاب ثراہ سے گفتگو
ڈاکٹر تیجانی سماوی کہتے ہیں:
جب میں سنی تھا اور نیا نیا نجف اشرف میں وارد ہوا تو اپنے دوست کے ذریعہ آیت اللہ العظمیٰ آقائے خوئی کی خدمت میں جانے کا شرف حاصل ہوا میرے دوست نے آقائے خوئی کے کانوںمیں کچھ کہا اور مجھ سے اشارہ کیا کہ آپ کے قریب آکر بیٹھ جاوٴں،میں جا کربیٹھ گیا تو میرے دوست نے اس بات پر بہت اصرار کیا کہ میں تیونس کے شیعوں کے متعلق اپنا اور وہاں کے لوگوں کا نظریہ بیان کروں۔میں نے کہا:
”شیعہ ہمارے یہاں یہود ونصاریٰ سے بھی بدتر ہیں کیونکہ یہود ونصاریٰ خداوند متعال کی عبادت کرتے ہیں اور موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن جو میں شیعوں کے بارے میں جانتا ہوں وہ یہ کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی پرستش کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور انھیں پاک وپاکیزہ اور مقدس قرار دیتے ہیں۔ان کے درمیان ایک اور گروہ بھی ہے جو خداوند متعال کی عبادت کرتا ہے لیکن علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی منزلت ومقام سے بہت ہی ارفع واعلیٰ سمجھتا ہے اور یہاں تک کہتا ہے کہ پہلے یہ طے تھا کہ جبرئیل علیہ السلام قرآن کریم کو حضرت علی علیہ السلام کے پاس لے آئیں لیکن انھوں نے خیانت کی اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے پاس لے کر چلے گئے “!!
آقائے خوئی نے تھوڑی دیر اپناسر جھکائے رکھا اس کے بعد فرمایا:
”میں گواہی دیتا ہوں کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیه و آله وسلم اس کے رسول ہیں: ”اللھم صل علی محمد آل محمد “ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہیں۔
اس کے بعد انھوں نے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف نظر کی اور میری طر ف اشارہ کر کے کہا: ”اس بے چارے کو دیکھو کس طرح فریب اور چھوٹی تہمتوں کا شکار ہوا ہے یہ عجیب بات نہیں ہے بلکہ میں نے تو اس سے بھی بدتر باتیں دوسرے لوگوں سے سنی ہیں ”لا حول ولا قوة الا باللہ “اس کے بعد میری طرف رخ کر کے فرمایا:
”کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ؟“
میں نے کہا: ”ابھی میری عمر کے دس سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ میں نے آدھا قرآن حفظ کر لیا تھا“۔
انھوں نے فرمایا: ”کیا تم یہ جانتے ہو کہ اسلام کے تمام گروہ آپس میں مذہبی اختلاف کو چھوڑ کر قرآن کی حقانیت کے بارے میں اتفاق رکھتے ہیں؟اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وہی قر آن تمہارے پاس بھی ہے“۔
میں نے کہا: ”ہاں میں جانتا ہوں“۔
انھوں نے کہا-: ”کیا تم نے اس آیت کو پڑھا ہے“۔
”وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ“ [55]
”اور محمد (ص) تو صرف ایک رسول ہیں، جن سے پہلے بہت رسول گزر چکے ہیں“۔
اور خدا وند عالم فرماتا ہے:
” مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہُ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّار“[56]
” محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین ہیں“۔
پھر یہ بھی ملتا ہے۔
” مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ“[57]
” محمد (ص) تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں“۔
کیا تم نے ان آیتوں کا مطالعہ کیا ہے ؟
میں نے کہا: ”ہاں میں ان آیتوں سے واقف ہوں“۔
انھوں نے فرمایا: ”ان آیتوں میں حضرت علی علیہ السلام کہاں ہیں ؟تم دیکھتے ہو کہ یہ باتیں رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے لئے ہیں نہ کہ حضرت علی علیہ السلام کے لئے اور ہم اور تم دونوں گروہ کے لوگ قرآن کومانتے ہیں۔تم کس طرح ہم لوگوں پر تہمت لگاتے ہو کہ ہم پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کو افضل وبرتر سمجھتے ہیں؟“۔
یہ سن کر میں نے سکوت اختیار کیا اور کوئی جواب نہیں دیا
اس کے بعد انھوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ”جبرئیل کی خیانت کے بارے میں تم لوگ جو تہمت لگاتے ہوئے کہ ہم شیعہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی ہے یہ تہمت پہلے والی تہمت سے بھی زیادہ سخت ہے۔کیا ایسا نہیں ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام پیغمبر اسلام پر (آغاز بعثت میں) نازل ہوئے تو علی علیہ السلام دس سال سے بھی کم عمر تھے تو کس طرح جناب جبرئیل نے غلطی کی اور محمد (ص)،اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان فرق نہ کو سمجھ پائے ؟“
تھوڑی دیر خاموش رہ کر میں نے ان کی باتوں پر غور کیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ تمام باتیں سچ ہیں۔
انھوں نے فرمایا: ”ضمناً یہ بھی کہہ دوں کہ اسلام کے تمام گروہوں میں صرف شیعوں کا الگ گروہ ہے جو پیغمبر(ص) اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی عصمت کا معتقد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہمارا ہی عقیدہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام ہر طرح کی غلطی اور شبہ سے محفوظ ہیں“۔
میں نے کہا: ”یہ سب جو مشہور ہے وہ کیا ہے ؟“
انھوں نے فرمایا: ”یہ سب تہمت اور غلط افواہیں ہیں جو مسلمانوں کے درمیان جدائی پیدا کرنے کے لئے گڑھ لی گئی ہیں ،تم تو الحمد للہ ایک عاقل انسان ہو اور ان مسائل کو اچھی طرح سے سمجھتے ہو، اب تمہیں چاہئے کہ شیعوں اور ان کے علمی اداروںکو قریب سے دیکھو اور غور و فکر کرو کہ کیا اس طرح کی چیزیں ان کے درمیان پائی جاتی ہیں“۔
میں جب تک نجف اشرف میں رہا شیعوں کے سلسلہ میں جتنی بھی نامناسب سن رکھی تھیں ان سب کے بارے میں تحقیق کرتا رہا۔

۶۷۔نماز ظہرین اور مغربین کو ایک ساتھ پڑھنا
اشارہ:
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اہل سنت حضرات نما ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک ہی وقت میں انجام دینا باطل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر نماز کو جداگانہ اس کے وقت میں پڑھنا چاہئے اور جس طرح نماز ظہر وعصر کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا اسی طرح مغرب وعشاء کے درمیان بھی فاصلہ رکھنا چاہئے۔
ڈاکٹر تیجانی سماوی کہتے ہیں کہ جب میں سنی تھا تو اس بنیاد پر نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک وقت میں انجام دینا باطل سمجھتا تھا لیکن جب میں نجف اشرف میں وارد ہوا اوراپنے دوست کی رہنمائی میں حضرت آیت اللہ صدر کی خدمت میں پہنچا تو ظہر کا وقت ہو گیا جب آپ مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ساتھ ساتھ میں اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تمام افراد مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر نماز میں مشغول ہوگئے۔
میں نے دیکھا کہ آیت اللہ باقر الصدر نے نماز ظہر کے چند منٹ بعد نماز عصر بھی بھی پڑھ لی اور میں اس وقت ایسی میں حالت اور ایسی جگہ پر تھا کہ صف سے باہر نہیں نکل سکتا تھا ، یہ پہلا موقع تھا جب میں نے نماز ظہر وعصر ایک ہی قت میں پڑھی لہٰذا میں بڑے شش وپنج میں مبتلا تھا کہ آیا میری نماز عصر صحیح ہے یا نہیں؟
اس دن میں شہید صدر کا مہمان تھا مجھے جیسے ہی موقع ہاتھ آیا میں نے ان سے پوچھ لیا:
”کیا یہ صحیح ہے کہ مسلمان دو نمازوں کو بغیرضرورت کے وقت ایک ساتھ انجام دیں ؟“
شہید صدر: ”ہاں دو فریضوں کو یکے بعد دیگرے انجام دینا جائز ہے خواہ ضرورت کے وقت ہویانہ“۔
میں نے پوچھا: ”اس فتوے پر آپ کی دلیل کیا ہے ؟“
شہید صدر: ”چونکہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلمنے مدینہ میں بغیر کسی ضرورت کے خواہ وہ سفر ہویا خوف یا بارش ہو رہی ہو نماز ظہر وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء کو یکے بعد دیگرے انجام دی ہے اور آپ کا یہ عمل اس لئے تھا تاکہ ہم سے مشقت کم ہو جائے اور اسی طرح یہ عمل ہمارے عقیدہ کے مطابق ہمارے ائمہ علیہم السلام سے بھی ثابت ہے۔
اور ہم لوگوں کی طرح تم اہل سنت حضرات کے نزدیک بھی روایت سے یہ چیز ثابت ہے، مجھے تعجب ہواکہ کس طرح ہمارے نزدیک ثابت ہے کیونکہ آج تک نہ میں نے کہیں سنا تھا اور نہ کسی اہل سنت کو دیکھا تھا کہ کسی نے اس طرح انجام دیا ہو بلکہ وہ لوگ اس کے بر خلاف کہتے ہیں کہ اگر نماز اذان سے ایک منٹ بھی پہلے واقع ہو جائے تو نماز باطل ہے چہ جائیکہ کوئی شخص نماز عصر کو ایک گھنٹہ پہلے نماز ظہرکے فوراً بعد یا نماز عشاء کو نما مغرب کے بعد فوراً پڑھے ان چیزوں سے ابھی تک میں بالکل ناآشنا تھا اور میرے نزدیک یہ چیزیں باطل بھی تھیں۔
آیت اللہ صدر نے میرے چہرہ سے معلوم کرلیا کہ میں اس بات پر تعجب کر رہاہوں کہ ظہر کے بعد عصر اور مغرب کے بعد عشاء بغیر کسی فاصلہ کے کیسے پڑھنا صحیح ہے؟اسی وقت انھوں نے اپنے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک کتاب کی دو جلدیں میرے پاس لاکر رکھ دیں میں نے دیکھا اس میں ایک صحیح مسلم ہے اور دوسری صحیح بخاری تھی۔
آیت اللہ صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ مجھے وہ حدیث دکھادےں جس میں دونوں فریضوں کو ایک وقت میں پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے میں نے ان دونوں کتابوں میںپڑھا کہ رسول اکرم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء خوف بارش اور بغیر کسی ضرورت کے ایک ساتھ پڑھاہے اور کتاب صحیح مسلم میں مجھے اس سلسلہ میں پورا ایک باب ملا۔یہ دیکھ کر میں کافی حیران و پریشان ہو ا اور سوچ رہا تھا کہ خدایا اس وقت میں کیا کروں اسی وقت میرے دل میں ایک شک پیدا ہوا کہ شاید یہ دوکتابیں (صحیح مسلم اور صحیح بخاری )جو میں نے یہاں دیکھی ہیں تحریف شدہ ہوں یا نقلی ہوں اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ جب میں اپنے وطن تیونس واپس جاوٴں گا تو ان دونوں کتابوں کا بغور مطالعہ کر کے اس موضوع پر تفصیلی طور پر تحقیق کروں گا۔
اسی وقت شہید صدر نے مجھ سے پوچھا: ”اب ان دلیلوں کے بعد تمہاری کیا رائے ہے؟“
میں نے کہا: ”آپ حق پر ہیں اور حق کہنے والے ہیں“۔
اس کے بعد میں نے آیت اللہ کا شکریہ اداکیا لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہو اتھا یہاں تک کہ جب میں اپنے وطن واپس پہنچا تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کو لے کر پڑھا اور تفصیلی طور پر تحقیق کی تو اچھی طرح قانع ہو گیا کہ نماز ظہر وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء ملاکر پڑھنا بغیر کسی ضرورت کے اشکال نہیں ہے کیونکہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلمنے اس کام کو انجام دیا ہے۔میں نے دیکھا کہ امام مسلم اپنی کتاب”سفر“کے علاوہ ”دونمازوں کے اجتماع“[58]کے باب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھی تھی۔اسی طرح انھوں نے یہ بھی نقل کیاہے کہ آنحضرت نے مدینہ میں نماز ظہر عصر اور مغرب وعشاء کو بغیر خوف یا بارش کے ایک ساتھ پڑھی ہے۔ابن عباس سے سوال کیا گیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیوں ایسا کیا تو ابن عباس نے جواب میں کہا:
”کی لایحرج امتہ“[59]
تاکہ امت کو دشواری نہ ہو“۔
اور کتاب صحیح بخاری میں بھی(ج۱ ص ۱۴۰) باب ”وقت مغرب“میں میں نے دیکھا اور پڑھا کہ ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات رکعت نماز(نماز مغرب وعشاء)ایک ساتھ پڑھی اور آٹھ رکعت( ظہر وعصر)نما ز ایک ساتھ پڑھی اور اسی طرح کتاب ”مسند احمد“[60]میں دیکھا کہ اس موضوع پر روایت ہے اسی طرح کتاب”الموطا“[61]میں میںنے دیکھا کہ ابن عباس روایت کرتے ہیں:
”صلی رسول اللہ الظہر والعصر جمیعا والمغرب والعشاء جمیعا فی غیر خوف ولاسفر “
”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے بغیر کسی خوف وسفر کے نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھی“۔
نتیجہ یہ ہے کہ جب یہ مسئلہ اس طرح واضح اور روشن ہے تو اہل سنت کیوں تعصب اور بغض کی وجہ سے اسی موضوع کو لے کرشیعہ پر بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں؟
اس چیز سے غافل کہ خود ان کی کتاب میں اس چیز کا جواز ثابت ہے۔[62]

۶۸۔اہل سنت کے امام جماعت سے (ایک ساتھ نماز پڑھنے کے متعلق) بہترین مناظرہ
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:
”میں نے دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنے کا واقعہ اہل سنت کی کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے روایت کے مطابق تیونس میں اپنے بعض دوستوں اور بعض علماء کے درمیان بیان کردیا، چند لوگوں نے اس چیز کے صحیح ہونے کے سلسلہ میں معلومات حاصل کر لی اور اس بات کی خبر جب شہر ”قفصہ“(تیونس کا ایک شہر)کی ایک مسجد کے امام جماعت کے کانوں تک پہنچی تو وہ سخت ناراض ہو ا اور اس نے کہا جو اس طرح کی فکر رکھتے ہیں وہ نہایت بے دین ہیں اور قرآن کے مخالف ہیں کیونکہ قرآن فرما تا ہے:
”الصَّلاَةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا ً“[63]
”بلا شبہ مومنوں پر معین وقت پر نماز فرض کی گئی ہے“۔
ہدایت پانے والوں میں سے میرا یک دوست بھی تھا جس کا علمی معیاربہت ہی بلند و بالا تھا اور وہ بہت ہی ذہین وچالاک بھی تھا۔اس نے بہت ہی غصہ کی حالت میں میرے پاس آکر امام جماعت کے قول کو نقل کیا۔میں نے دو کتاب صحیح مسلم اور صحیح بخاری اسے لا کر دی اور اس سے کہا کہ نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھنے والے باب کا مطالعہ کرو۔مطالعہ کے بعد اس کے نزدیک بھی یہ مسئلہ ثابت ہو گیا۔یہاں تک کہ میرا یہ دوست جو ہر روز اسی امام جماعت کی نما ز میں شرکت کرتا تھا ایک دن نماز جماعت کے بعد اس کے در س میںجاکر بیٹھ گیا اور امام جماعت سے پوچھا: ”نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھنے کے بارے میں آپ کا خیال ہے ؟“
امام جماعت: ”یہ شیعوں کی ایک بدعت ہے“۔
میرے دوست نے کہا: ”ایسا نہیں ہے بلکہ یہ بات صحیح مسلم اور صحیح بخاری سے بھی ثابت ہے“۔
امام جماعت: ”نہیں ثابت نہیں ہے۔اس طرح کی چیز کا ہونا اس کتاب میں مشکل ہے“۔
میرے دوست نے وہ دونوں کتابیں اس کے حوالہ کر دیں اس نے وہی باب پڑھا۔جب اس کے درس میں شریک ہونے والے دوسرے نماز گزاروں نے اس سے دو نمازوں کوایک ساتھ پڑھنے کے متعلق پوچھا تو اس نے کتابیں بند کر کے مجھے دیتے ہوئے انھیں جواب دیا: ”دونمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا جواز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت میں سے ہیں جب تم رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم ہو جانا اس وقت تمہارے لئے بھی یہ جائز ہو جائے گا“!!
میرے دوست نے کہا: ”اس کی بات سے میری سمجھ میں آگیا کہ یہ ایک متعصب جاہل ہے اور اس دن میں نے قسم کھالی کہ آج سے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا“۔
یہاں ایک حکایت کا نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ، وہ یہ کہ دو شکاری شکا ر کرنے صحرا کی طرف روانہ ہوئے صحرا میں پہنچ کر دور سے انھوں نے کالے رنگ کی ایک چیز دیکھی تو ان میں سے ایک نے کہا: ”یہ کوا ہے“۔دوسرے نے کہا:نہیں یہ بکری لگ رہی ہے“۔
دونوں میں بحث ہونے لگی اور دونوں اپنی اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔جب دونوں اس کالی چیز کے قریب پہنچے تو اچانک دیکھا کہ کوا تھا جو اڑگیا۔
پہلے نے کہا: ”میں نے کہا تھا نہ کہ کواہے کیا اب تم مطمئن ہوگئے ؟
لیکن دوسرا اپنی بات پر اڑا ہو ا تھا یہ دیکھ کر دوسرے نے کہا:
”کتنے تعجب کی بات ہے ، بکری بھی اڑتی ہے ؟!!
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:
”اس کے بعد میں نے اپنے دوست کو بلا کر اس سے کہا: ”اس امام جماعت کے پاس جاوٴ اور اسے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں وہ روایت دکھاوٴ جہاں یہ نقل ہوا ہے کہ ابن عباس و انس ابن مالک اور دوسرے بہت سے اصحاب نے نماز ظہر ین و مغربین کو ایک ساتھ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی اقتدا میں پڑھی ہے اس طرح کی نماز وں کو ایک ساتھ پڑھنا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے خصائص میں سے ہر گز نہیں ہے کیا ہم رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کو اپنا نمونہ عمل نہیں سمجھتے؟ مگر میرے دوست نے معذرت کرتے ہوئے کہا: ”کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے پاس اگر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم بھی آکر یہ حکم بتائیں تو بھی وہ قانع نہیں ہوگا۔[64]

۶۹۔قاضی مدینہ کی بے بسی(آیہٴ تطہیر کی تحقیق)
ڈاکٹر محمدتیجانی کہتے ہیں:
جب میں مدینہ میں مسجد نبوی کی زیارت سے مشرف ہوا تو وہاں دیکھا کہ ایک خطیب کچھ نمازیوں کے درمیان بیٹھ کر درس دہے رہا ہے میں نے اس کے در س میں شرکت کی وہ چند آیتوں کی تفسیر کر رہا تھا لوگوں کی باتوں سے یہ معلوم ہو گیا کہ یہ مدینہ کا قاضی ہے جب اس کا درس ختم ہوگیا تو وہ اٹھ کر جانے لگا ابھی مسجد سے باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ میں نے آگے جا کر اسے روکا اور اس سے کہا:
”مہربانی کر کے مجھے یہ بتائیں کہ اس آیت تطہیر میں اہل بیتعلیہ السلام سے مراد کون ہیں؟“
”إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا“[65]
”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔
قاضی نے بغیر کسی جھجھک کے جواب دیا:
”یہاں اہل بیت سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویاں ہیں کیونکہ اس سے پہلے والی تمام آیتوں میں ازواج نبی کو خطاب کیا گیا ہے جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا:
”وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْاٴُولَی ۔۔۔“[66]
”۔۔۔ اور تم اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔۔۔“
میں نے کہا: شیعہ کہتے ہیں کہ یہ آیت علی ، فاطمہ ، حسن وحسین علیہم السلام سے مخصوص ہے میں نے ان سے کہا کہ آیت کی ابتدا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی ازواج سے متعلق ہے یعنی آیت کے شروعات ہی اس جملے سے ہوتی ہے۔
”یا ایھا النبی “
تو ان لوگوں نے جواب میں کہا:
”جو بھی اس آیت کے شروع میں آیا ہے وہ خصوصی طور پر لفظ مونث اور صیغہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے جیسے ”لستن، فلا تخضعن، و قرن فی بیوتکن، لا تبرجن، اقمن، آتین، اطعن“ وغیرہ لیکن آیت کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس کا انداز بدل گیا ہے اور اس کی ضمیر میں جمع مذکر کے طور پر ذکر ہوئی ہیں جیسے ”عنکم“ ”لیطھرکم“ وغیرہ“۔
قاضی نے اپنی عینک اوپر اٹھا ئی اور مجھے کوئی استدلالی جواب دینے کے بجائے کہنے لگا:
”خبردار !شیعوں کی زہر آلود فکر جو آیت وقرآن کی تاویل نفسانی خواہشات کی بنا پر کرتے ہیں ان کے چکر میں نہ آنا“۔[67]
یہاں پر ہم اس بحث کی تکمیل کے لئے ”تفسیر المیزان“سے استفادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سب کے علاوہ بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ یہ آیت تطہیر جو سورہٴ احزاب کے آخر میں ذکر ہوئی ہے وہ اپنے سے پہلے والی آیات کے ساتھ نازل ہوئی ہے بلکہ روایتوں سے اچھی طرح یہ پتہ چلتا ہے کہ آیت کا یہ حصہ الگ سے نازل ہوا ہے لہٰذا جب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد قرآن جمع کیا گیا تو اس آیت کوان آیات کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔[68]
اس کے علاوہ اہل سنت حضرات سے متعددروایات اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں کہ مذکورہ آیت میں اہل بیت سے مراد علی وفاطمہ حسن وحسین علیہم السلام ہیں اور یہاں تک کہ ازواج پیغمبر اکرم جیسے ام سلمہ ،عائشہ وغیرہ سے بھی نقل ہوا ہے کہ آیت تطہیر میں اہل بیت سے مراد علی وفاطمہ حسن حسین علیہم السلام ہیں۔[69]

۷۰۔آل محمد پر صلوات سے متعلق ایک مناظرہ
اشارہ:
اہل سنت حضرات جب حضرت علی علیہ السلام کا نام لیتے ہیں تو علیہ السلام کی جگہ ”کرم اللہ وجھہ “ کہتے ہیں۔جب کہ دیگر تمام صحابہ کو”رضی اللہ عنہ“کہتے ہیں کیونکہ خود وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے کوئی گناہ نہیں کیا (جس کی وجہ سے وہ انھیں رضی اللہ عنہ کہیں بلکہ ان کے لئے کرم اللہ وجھہ کہنا چاہئے کہ خداوندمتعال ان کے مرتبہ کو بلند قرار دے)
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ وہ لوگ علیہ السلام کیوں نہیں کہتے ؟
اسی سوال کے جواب کے سلسلہ میں آنے والے مناظرہ کی طرف توجہ فرمائیں۔
ڈاکٹر تیجانی سماوی جو پہلے اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، قاہرہ سے عراق کے سفر میں کشتی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ان کو ایک عالم دین ”استاد منعم“ سے دوستی ہوگئی، جو یونیورسٹی کے استاد اور عراقی شیعہ عالم دین تھے، چنانچہ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہوئی ، اور اس کے بعد بھی عراق میں ان دونوں کے درمیان بہت سی گفتگو اور مناظرے ہوئے ہیں جن میں سے ایک مناظرہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ، جو بغداد میں استاد منعم کے مکان پر ہوا تھا، ملاحظہ فرمائیں:
ڈاکٹر تیجانی: ”تم شیعہ حضرات ، علی علیہ السلام کے مقام کو اس حد تک بڑھا دیتے ہو کہ انھیں پیغمبروں کی صفت میں لا کر کھڑا کر دیتے ہو کیونکہ تم لوگ ان کے نام کے بعد کرم اللہ وجھہ کہنے کے بجائے علیہ السلام یا علیہ الصلوة والسلام کہتے ہو جب کہ صلوات وسلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخصوص ہے جیسا کہ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں۔
” إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا “[70]
” بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں ، اے صاحبان ایمان ان پر صلوات بھیجتے رہو اور ان کے سامنے تسلیم رہو“۔
استاد منعم: ”ہاں تم نے سچ کہا: ”ہم جب بھی حضرت علی علیہ السلام یا ان کے علاوہ دیگر ائمہ کے نام لیتے ہیں تو علیہ السلام کہتے ہیں لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم انھیں پیغمبر یا ان کے رتبہ کے برابر جانتے ہیں“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”تو پھر کس دلیل سے ان پر سلام وصلوات بھیجتے ہو“۔
استاد منعم: ”اسی آیت کی دلیل سے کہا جاتا ہے ” إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ۔۔۔“کیا تم نے اس کی تفسیر پڑھی ہے ؟شیعہ اور سنی دونوں متفقہ طور پر یہ نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو چند صحابیوں نے آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم سے پوچھا:
”یا رسول اللہ ! آپ پر سلام بھیجنا تو ہم جانتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلو م کہ آپ پر صلوات کس طرح بھیجی جائے گی؟“
رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: اس طرح کہو:
”اللھم صلی علی محمد وآل محمد کما صلیت علی ابراہیم وآل ابراہیم فی العالمین انک حمید مجید“۔[71]
”خدایا محمد وآل محمد پر اسی طرح درود ورحمت نازل فرما جس طرح تونے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی ہے بلاشبہ تو قابل حمد اور بزرگ ہے“۔
اور یہ بھی فرمایا:
”لا تصلوا علي الصلاةُ البتراء(مجھ پر دم بریدہ صلوات نہ بھیجو)“
اصحاب نے آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا توآپ نے فرمایا:
صرف ”اللھم صل علی محمد “ کہنا ناقص صلوات ہے بلکہ تمہیں اس طرح کہنا چاہئے: ”اللھم صل علی محمد وآل محمد“یہ پوری صلوات ہے۔[72]
اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ پوری صلوات پڑھو اور آخر کے جملہ میں آل محمد حذف نہ کرو یہاں تک نماز کے تشہد میں تمام فقہاء نے اہل بیت علیہم السلام پر صلوات بھیجنے کو واجب قرار دیا ہے اور اہل سنت کے فقہاء میں امام شافعی نے واجبی نمازوں کے دوسرے تشہد میں اسے واجب جانا ہے۔[73]
اسی بنیاد پر شافعی اپنے مشہورو معروف شعر میں ا س طرح کہتے ہیں:

یا اہل بیت رسول اللہ حبکم
فرض من اللہ فی القرآن انزلہ

کفاکم من عظیم القدر انکم
من لم یصل علیکم لا صلوة لہ

”اے اہل بیت رسول ! تمہاری محبت اللہ کی طرف سے نازل کردہ قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے تمہاری عظیم منزلت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ جس نے تم پر صلوات نہ بھیجی اس کی نماز ہی نہ ہوگی“۔[74]
ٖٓڈاکٹر تیجانی یہ سب سن کر بہت متاثر ہوئے کیونکہ استاد منعم کی یہ باتیں ان کے دلنشین ہو رہی تھیں، انھوں نے کہا:
”میں قبول کرتاہوں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم پر صلوات بھیجتے وقت ان کی آل کو بھی شامل کرنا چاہئے ، چنانچہ جب ہم جب ان پر صلوات بھیجتے ہیں تو ان کے آل کے علاوہ اصحاب وازواج کو بھی شامل کرلیتے ہیں مگر یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ جب علی علیہ السلام کا ذکر ہوتو ان کے نام کے ساتھ صلوات بھیجی جائے یا ”علیہ السلام“ کہا جائے“۔[75]
استاد منعم: ”کیا تمہارے نزدیک کتاب صحیح بخاری معتبر ہے ؟“
ڈاکٹر تیجانی: ”ہاں یہ کتاب تو اہل سنت کے اماموں میں سے ایک بلند پایہ کے امام ”امام بخاری“ کی تالیف کردہ ہے جو ہمارے نزدیک قرآن کے درجہ رکھتی ہے“۔
اس وقت استاد منعم نے اپنے کتاب خانہ سے صحیح بخاری کا ایک نسخہ لا کر مجھے پڑھنے کے لئے دیا میں نے جب ان کے نکالے ہوئے صفحہ کو پڑھا تو مجھے اس پر یہ عبارت نظر آئی:
”فلاں نے فلاں سے روایت کی اور اس نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے ”میں نےیہاں تک کہ اس بات کا اعتراف اہل سنت کے ان علماء نے بھی کہا ہے جبکہ وہ نئے اعتراض گڑھنے کے عادی ہیں ، مخصوصاً اس طرح کے اعتراضات میں مشہور سنی عالم دین ”ابن روزبہان“ جیسے لوگ بھی یہ قبول کرتے ہیں کہ یہاں پر”آل یاسین“سے مراد آل محمد ہیں۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسی سورہٴ صافات میں جناب نوح (آیت ۷۹)جناب ابراہیم (آیت ۱۰۹)جناب موسیٰ وہارون(۱۲۰)اور دوسرے مرسلین پر سلام بھیجا گیا ہے(آیت ۱۸۱) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آل محمد انبیاء کے زمرہ میں آتے ہیں اور مذکورہ آیت آل محمد کی افضل ہونے کی واضح دلیل ہے (دلائل الصدق ،ج۲ ،ص۳۹۸۔)
جب بخاری میں یہ جملہ ”علیہ السلام“ دیکھا تو مجھے بڑا تعجب ہوا مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ صحیح بخاری کا نسخہ ہے میں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور اس کے بعد بڑے غور سے پڑھا تو بھی وہی عبارت نظر آئی اب میرا شک و شبہ جاتا رہا۔
استاد منعم نے صحیح بخاری کا دوسرا صفحہ کھول کر دکھایا جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ ”علی ابن الحسین علیہ السلام “سے روایت ہے۔اس کے بعد مجھے کوئی راستہ نظر نہ آیا اور میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا البتہ تعجب سے یہ میں نے ضرور کہا ”سبحان اللہ !لیکن تھوڑ ا شک اب بھی میرے ذہن میں موجود تھا لہٰذا میں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ نسخہ” مصر کی پریس ،حلبی اینڈسنس“ سے چھپاہے بہر حال قبول کر لینے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تھا۔[76]

۷۱۔حدیث غدیر سے متعلق ایک مناظرہ
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:

اپنے وطن تیونس میں،میں نے ایک سنی عالم دین سے ایک مناظرہ میں اس طرح کہا:
”تم حدیث غدیر کو قبول کرتے ہو“؟
تیونسی عالم: ”ہاں میں اس حدیث کو قبول کرتا ہوں یہ صحیح ہے“۔
میں نے خود قرآن کی تفسیرلکھی ہے جس میں سورہٴ مائدہ کی ۶۷ ویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں حدیث غدیر کو پیش کیا ہے اس کے بعد اس نے اپنی تفسیر میرے سامنے لا کر رکھ دی اور جہاں اس نے حدیث غدیر کا تذکرہ کیا تھا وہ مجھے دکھایا۔
میں نے اس کتاب میں دیکھا حدیث غدیر کے باب میں اس طرح عبارت درج ہے:
”شیعہ حضرات اس بات کے معتقد ہیں حدیث غدیر صریحی طور پر علی کی خلافت بلا فصل پر دلالت کرتی ہے لیکن اہل سنت حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ یہ حدیث ابو بکر وعمر وعثمان کی خلافت سے منافات رکھتی ہے اس وجہ سے ہمارے لئے یہ لازم ہو گیا کہ اس روایت کی صراحت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کی تاویل کریں[77] یعنی ہم یہ کہیں کہ یہاں مولیٰ کے معنی دوست اور یاور ہیں جیسا کہ قرآن میں یہ لفط دوست اور یاور کے معنی میں آیا ہے اور خلفائے راشدین اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عظیم صحابیوں نے بھی لفظ مولا سے یہی مراد لیا ہے اس کے بعد ان کے تابعین اور علمائے مسلمین نے بھی اسی بات کی تائید کی ہے اور اسی صورت کو مقبول بتایا ہے۔اس طرح شیعوں کے اس عقیدہ کا کوئی اعتبار نہیں“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”کیا خود واقعہ غدیر تاریخ میں پایا جاتا ہے یا نہیں؟“
تیونسی عالم: ”ہاں کیوں نہیں اگر واقعہ غدیر نہ ہوا ہوتا تو علماء ومحدثین اسے نقل ہی نہ کرتے“۔[78]
ڈاکٹر تیجانی: ”کیا یہ مناسب ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم حج سے واپسی کے وقت غدیر خم کے تپتے ہوئے صحراء میں ہزاروں مرد،عورتوں اور بچوں کے مجمع میں سب کو روک کر ایک طویل خطبہ دیں اور اس کے بعد یہ اعلان کریں کہ علی تمہارے دوست اور مدد گار ہیں کیا تم اس طرح کی تاویل کو پسند کرتے ہو؟“
تیونسی عالم: ”بعض صحابہ کرام نے جنگ کے دوران حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں نقصان اٹھا یا تھا اس میں بہت سے ایسے تھے جن کے دلوں میں ان کی طرف سے کینہ پرورش پا رہا تھا لہٰذا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے میدان غدیر میں یہ اعلان کیا کہ جو علی سے کینہ رکھتے ہیں وہ اپنے کینوں کو دور کریں اور انھیں اپنا دوست اور مددگار سمجھیں؟“[79]
ڈاکٹر تیجانی: ”علی علیہ السلام کی دوستی کا مسئلہ اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ پیغمبر اکرم ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے درمیان تپتے ہوئے صحراء میں روکیں اور نماز جماعت ادا کریں اور ایک طولانی خطبہ دیں اور اس خطبہ کے دوران بعض ایسے مطالب بیان کریں جو علی علیہ السلام کی رہبری اور خلافت کے لئے مناسب ہوں نہ کہ دوستی اور یاوری کے لئے مثلاًاسی خطبے کا ایک ٹکڑا یہ ہے جس میں آنحضرت نے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا”الست اولی بکم من انفسکم “کہ میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا ؟“
تمام لوگوں نے اقرار کیا ہاں کیوں نہیں یا رسول اللہ“۔
یہ تمام باتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد رہبر وآقا کے ہیں اور اس سے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ثابت ہوتی ہے“۔
اسی وجہ سے خود ابوبکر نے بھی لفظ مولی سے امام علی علیہ السلام کی رہبری اور خلافت جانا ہے اور اسی صحرا کی تپتی ہوئی دھوپ میں امام علی علیہ السلام کے پاس آکر انھیں اس طرح مبارک باد پیش کیا۔
”بخ بخ لک یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولا کل موٴمن وموٴمنة“
”مبار ک مبارک ہو ؛اے ابو طالب کے بیٹے !اب تم میرے اور تمام مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے “
یہ مبارک باد دینا بہت ہی مشہور حدیث ہے جسے اہل سنت اور اہل تشیع سبھی نے نقل کیا ہے۔[80]
اب تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اگر یہ اعلان صرف دوستی اور یاوری کے لئے ہوتا تو ابو بکر و عمر حضرت علی علیہ السلام کو اسی طرح مبارک باد پیش کرتے ؟اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم اپنے خطبے کے بعد اس طرح اعلان کرتے:
”سلّموا علیہ بامرة الموٴمنین“۔
”اے مسلمانو! علی کوامیر المومنین کہہ کر سلام کرو“۔
اس کے علاوہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہٴ مائدہ کی ۶۷ ویں آیت کے نزول کے بعد یہ عمل انجام دیا اور آیت میں ہم یہ پڑھتے ہیں:
” یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ“ [81]
”اے رسول وہ چیز پہنچا دو جو تمہارے رب کی طرف سے پہلے ہی تم پر نازل کی جا چکی ہے اور اگر تم نے اسے نہ پہنچایا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا“۔
کیا حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ اگر اسے لوگوں کےدرمیان بیان نہ کیا جائے تو آنحضرت کی رسالت کو خطرہ لاحق ہوجائے ؟“
تیونسی عالم: ”تو اس بارے میں تم کیا کہو گے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت نہ کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت کر لی، کیا ان کا یہ عمل گناہ تھا ؟کیا انھوں نے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی نا فرمانی کی؟“
ڈاکٹر تیجانی: ”جب خود اہل تسنن اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ بعض اصحاب نے رسول اکرم کے زمانہ میں خود آپ کی مخالفت کی تو اس بنا پر یہ کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں کہ آپ کے بعد اصحاب نے ان کی مخالفت کی۔[82]
جیسے شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے یہ ثابت ہے کہ جب رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک نواجوان صحابی (اسامہ بن زید)کو سپہ سالار بنایا تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت کی مخالفت کی جب کہ آنحضرت نے انھیں تھوڑی سی مدت کے لئے بہت تھوڑے سے لشکر کا سردار بنایا تھا تو یہی لوگ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری کو کس طرح طرح قبول کر لیتے کیونکہ وہ بھی دوسروں کے مقابلہ میں کم عمر تھے (اس وقت آپ کی عمر ۳۳ سال تھی)اور خود یہ لوگ علی علیہ السلام کو ان کی پوری زندگی تک رہبر کیسے قبول کرلیتے اور تم نے خود ہی پہلے یہ اقرار کیا کہ بعض لوگ علی علیہ السلام سے بغض و عناد رکھتے تھے“۔
تیونسی عالم: ”اگر علی علیہ السلام جانتے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے مجھے اپنا خلیفہ بنایا ہے تو رسول اکرم کے بعد وہ خاموش نہ بیٹھے رہتے بلکہ اپنی بے انتہا شجاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حق کا دفاع کرتے“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”یہ تو دوسری بحث ہے جس میں ہم ابھی وارد نہیں ہونا چاہتے جب تم واضح حدیث کی تاویل کرتے ہو تو امام علیہ السلام کے خاموش رہنے پر بحث کرنے میں کس طرح قانع ہو سکتے ہو؟“
تیونسی عالم نے تھوڑا مسکرا تے ہوئے کہا: ”خدا کی قسم میں ان لوگوں میں سے ہوںجو علی علیہ السلام کو دوسروں سے افضل جانتے ہیں اور اگر یہ بات میرے بس میں ہوتی تو میں علی علیہ السلام پر کسی کو مقدم نہ کرتا کیونکہ وہ مدینة العلم اور اسد اللہ الغالب ہیں لیکن خدا نے اسی طرح چاہا کہ بعض کو مقدم اور بعض کو موخر رکھے اس کی مشیت کے بارے میں کیا کہیں“۔
میں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا: ”قضاو قدر “کی بحث دوسری ہے جس کے متعلق ابھی ہم بحث نہیں کر رہے ہیں“۔
تیونسی عالم: ”میں اپنے عقیدہ پر باقی رہوں گا اور اسے بدل نہیں سکتا“۔
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں : وہ اسی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا یہ خود اس کی بے بسی اور عاجزی کی دلیل تھی۔[83]
۷۲۔شاگرد اور استاد کے درمیان مناظرہ
شاگرد: ”خالد بن نوفل نام کا ایک استاد ، اردن کی ”شریعت یونیورسٹی “میں درس دینے آتا تھا، میں اس کے شاگردوں سے تھا، میں شیعی مسلک کا تابع تھا“۔
چونکہ یہ استاد خود سنی تھا اس لئے اسے جب بھی موقع ملتا شیعوں پر کچھ نہ کچھ الزام تراشی کرتا رہتا تھا، ایک دن میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشینوں کے متعلق گفتگو کرنے لگا آپ بھی اس گفتگوکو سنیں اور فیصلہ کریں۔
استاد: ”ہم حدیثوں کی کتابوں میں قطعی طور پر یہ حدیث نہیں پاتے کہ آنحضرت کے بارہ ہی خلیفہ ہوں گے ، لہٰذا یہ حدیث تم شیعوں کی گڑھی ہوئی ہے“۔
شاگرد: ”اتفاق سے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں متعدد مقامات پر متعدد سندوں سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے مثلاًرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”الخلفاء بعدی اثنا عشر بعدد نقباء بنی اسرائیل وکلھم من قریش۔“[84]
”میرے بعد بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر میرے بارہ خلیفہ ہوں گے اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے“۔
استاد: ”اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح بھی ہے تو تمہاری نظر میں ان بارہ سے کون لوگ مراد ہیں؟“
شاگرد: ”اس سلسلے میں سیکڑوں روایات موجود ہیں جن میں ان کے نام اس طرح بتائے گئے ہیں۔
۱۔امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام۔
۲۔حسن بن علی علیہ السلام۔
۳۔ حسین بن علی علیہ السلام۔
۴۔علی بن الحسین علیہ السلام۔
۵۔محمد بن علی الباقر علیہ السلام۔
۶۔جعفر بن محمد علیہ السلام۔
۷۔موسیٰ بن جعفر علیہ السلام۔
۸۔علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام۔
۹۔محمد بن علی الجواد علیہ السلام۔
۱۰۔علی محمد الہادی علیہ السلام
۱۱۔حسن بن علی العسکری علیہ السلام۔
۱۲۔حجة القائم (عجل اللہ فرجہ الشریف)۔
استاد: ”کیا حضرت مہدی علیہ السلام ابھی زندہ ہیں؟“
شاگرد: ”ہاں وہ زندہ ہیں اور کچھ وجوہات کی بنا پر ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں جب اس دنیا میں ان کے ظہور کی راہیں ہموار ہوجائیں گی تو وہ ظہور کریں گے اور پوری دنیا کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں گے“۔
استاد: ”یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے جب کہ ایک انسان کی طبیعی عمر زیادہ سے زیادہ سو سال ہوتی ہے“۔
شاگرد: ”ہم مسلمان ہیں اور قدرت خداوند متعال پر یقین رکھتے ہیں اس میں کیا برائی ہے کہ خداوند متعال کی مشیت سے ایک انسان ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟“
استاد: ”قدرت خدااپنی جگہ پر ہے لیکن اس طرح کی چیزیں سنت خدا سے خارج ہیں“۔
شاگرد: ”تم بھی قرآن کو قبول کرتے ہو اور ہم بھی اسے مانتے ہیں قرآن مجید کے سورہٴ عنکبوت آیت ۱۴/ میں خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے:
”وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَی قَوْمِہِ فَلَبِثَ فِیہِمْ اٴَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِینَ عَامًا“۔
”اور بلا شبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طر ف بھیجا جہاں وہ پچاس سال چھوڑ کے ایک ہزار سال رہے“۔
اس آیت کے مطابق جناب نوح علیہ السلام طوفان سے پہلے اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال زندہ رہے اسی طرح اگر خدا چاہے تو دوسرے کو بھی اتنی یا اس سے زیادہ عمر دیدے“۔
رسول خدا نے متعدد مقامات پر حضرت مام مہدی علیہ السلام کا تعارف دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے والے کی صورت میں کرایا ہے اس سلسلہ میں سیکڑوں کیا بلکہ ہزاروں حدیثیں ،سنی اور شیعہ دونوں طرف سے نقل ہوئی ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ہے۔
مثال کے طور پرحضرت رسول اسلام نے فرمایا ہے:
”المھدی من اہل بیتی یملاالارض قسطا و عدلا کماملئت ظلما و جوراً“۔[85]
مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے جو دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔
جب بات یہاں تک پہنچی تو وہ استاد چپ ہو گیا کیونکہ اس شاگرد کی تمام باتیں منطقی اور اہل سنت کے معتبر حوالوں سے مدلل تھیں۔
شاگرد نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ”چلئے ہم اپنی بات کی طرف واپس پلٹتے ہیں آپ نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا ہے: ”میرے خلیفہ بارہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے“۔
آپ نے مجھ سے پوچھا کہ وہ بارہ افراد کون لوگ ہیں میں نے ان کا نام حضرت علی علیہ السلام سے لے کر امام مہدی علیہم السلام تک سنا دیا اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ بارہ خلفاء یہ لوگ نہیں ہیں تو پھر ان کے علاوہ کون لوگ ہیں؟“
استاد: ”ان بارہ لوگوں میں چار خلفاء راشدین (ابو بکر،عمر،عثمان، اور حضرت علی علیہ السلام) کا نام لیا جاتا ہے اس کے بعد حسن علیہ السلام، معاویہ ،ابن زبیر و عمر بن عبد العزیز(کہ یہ سب ملا کر آٹھ ہوگئے)اور یہ بھی ممکن ہے کہ مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)کو بھی شمار کر لیا جائے اس کے علاوہ ابن طاہر عباسی بھی ان میں شامل ہو سکتا ہے خلاصہ کے طور پر ہماری نظر کے مطابق یہ بارہ آدمی معین نہیں ہیں ان کے متعلق ہمارے علماء کے مختلف اقوال ہیں“۔
شاگرد: ”رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ثقلین کے متعلق تم لوگوں کا کیا خیال ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا ہے:
”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی۔۔۔“۔[86]
یہ بات واضح رہے کہ عمر وابوبکر ،معاویہ ،عباسی اور عبد العزیز عترت رسول میں شمار نہیں کئے جا سکتے لہٰذا اس صورت میں ہمارے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ خلیفہ کو پہچاننا ممکن نہیں ہوگا جب کہ حدیث ثقلین کے معیار کو سامنے رکھ کر ہم بڑی آسانی سے ان کا پتہ لگا سکتے ہیںذرا سی غور وفکر کے بعد یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ وہ خلفاء وہی ہیں جن کو شیعہ مانتے ہیں کیونکہ یہی عترت اور اہل بیت کے مصداق ہیں“۔
استاد: ”ٹھیک ہے اس کے جواب کے لئے مجھے کچھ موقع درکار ہے کیونکہ اس وقت ان باتوںکا کوئی قانع کنندہ جواب میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے“۔
شاگرد: ”بہت خوب اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ آپ تحقیق کریں گے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ جانشین قیامت تک کون ہیں؟“
کچھ ہی دنوں بعد پھرشاگرد کی استاد سے ملاقات ہوئی مگر ابھی تک وہ استاد اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کوئی دلیل نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔
اسی طرح ایک دوسرے مناظرہ میں جب ایک طالب علم نے اپنے ایک استاد سے سوال کیا کہ آیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے ؟
استاد: ”ہاں ہماری معتبر کتابوں میں اس طرح کی روایتیں موجود ہیں“۔
طالب علم: ”وہ بارہ کون سے لوگ ہیں؟“
استاد: ”وہ ابو بکر ،عمر،عثمان،علی علیہ السلام، معاویہ اور یزید بن معاویہ“۔
طالب علم: ”یزید کو کس طرح خلیفہ رسول سمجھا جا سکتا ہے جب کہ وہ علی الاعلان شراب پیتا تھا اور واقعہ کربلا اسی کی کارستانی ہے اور اسی نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے صحابیوں کو قتل کیا ہے ؟“
اس کے بعد طالب علم نے اس سے کہا: ”بقیہ کا نام بتاوٴ“۔
استاد نے جو اس کے اس سوال سے بے بس ہو چکا تھا موضوع بدل لیا اور کہنے لگا۔تم شیعہ حضرات اصحاب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا بھلا کہتے ہو“۔
طالب علم: ”ہم ان کے تمام اصحاب کو بر ابھلا نہیں کہتے، تم یہ کہتے ہو کہ وہ تمام عادل تھے مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے زمانہ میں ہی سارے منافقوں کے بارے میں آیتیں اتری ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ آنحضرت کے زمانے میں سارے اصحاب عادل تھے تو ہمیں قرآن کی بہت سی آیتوں کو رد کرنا پڑے گا جو اس کا ایک عظیم حصہ ہیں“۔
استاد: ”تم گواہی دو کہ ابو بکر عمر اور عثمان سے خوش ہو“۔
طالب علم: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اصحاب میں سے جو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے راضی تھا میں بھی اس سے راضی ہوں اور جس سے بھی آنحضرت اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا راضی نہیں تھیں میں بھی اس سے راضی نہیں ہوں“۔

۷۳۔قبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بلند آواز میں زیارت پڑھنا
ایک شیعہ عالم کہتے ہیں: ”ہم تقریبا ً پچاس آدمیوں کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ منورہ مسجد النبی میں گئے اور وہاں جا کر آنحضرت کی زیارت پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔
حرم کا منتظم (شیخ عبد اللہ بن صالح )میرے قریب آیا اور اعتراض کے طور پر اس نے کہا: ”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے مرقد کے قریب اپنی آواز بلند نہ کرو“۔
میں نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے؟“
منتظم: ”خدا وند متعال قرآن (سورہ حجرات آیت ۲)میں فرماتا ہے:
” یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اٴَنْ تَحْبَطَ اٴَعْمَالُکُمْ وَاٴَنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ“۔
”اے ایمان لانے والو! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آواز بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے چیخوچلاوٴ جس طرح تم ایک دوسرے کے سامنے چیختے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بیکار نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہونے پائے“۔
میں: ”امام جعفر صادق علیہ السلام “کے اسی جگہ پر چار ہزار شاگرد تھے اور تدریس کے وقت باآواز بلند درس دیتے تھے تاکہ ان کی آواز ان کے شاگردوں تک پہنچ جائے کیا انھوں نے حرام کام کیا؟ابو بکرو عمر اسی مسجد میں بلند آواز سے خطبہ دیا کرتے تھے اور تکبیر کہتے تھے کیاا ن سب لوگوں نے حرام کا م انجام دیا؟اور ابھی ابھی تمہارے خطیب نے بلند آواز سے خطبہ دیا تم لوگ مل کر با آواز بلند تکبیر کہہ رہے تھے کیا یہ لوگ قرآن کے خلاف کر رہے تھے؟ کیونکہ قرآن اس سے منع کرتا ہے ؟
منتظم: ”اچھا تو پھر آیت کاکیا مطلب ہوا؟“
میں: ”اس آیت سے مراد ہے بے فائدہ اور بے جا شور و غل نہ کرو جو آنحضرت کی حرمت و احترام کے خلاف ہو جیسا کہ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں روایت ہے:
قبیلہٴ ”بنی تمیم“کے کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے پیچھے سے چیخ کر کہنے لگے یا محمد باہر نکلو اور ہم سے ملاقات کرو۔ [87]
دوسری بات یہ کہ ہم تو نہایت ہی تواضع و احترام سے زیارت پڑھنے میں مشغول ہیں اور مذکورہ آیت میں غور وفکر کرنے سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اس آیت میں وہ لوگ شامل ہیں جو رسول اکرم کی اہانت کی غرض سے چیخ کر آواز لگاتے تھے کیونکہ اس آیت میں اعمال کے بیکار ہونے کی بات آئی ہے اور یقینا اس طرح کی سزا کافر یا گناہ کبیرہ انجام دینے والے اور توہین کرنے والے کے لئے ہوگی نہ کہ ہمارے لئے کیونکہ ہم تو نہایت ادب واحترام سے ان کی زیارت پڑھ رہے ہیں اگر چہ ذراسی آواز بلند ہوگئی تو کیا ہوا اس لئے روایت میں آیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثابت بن قیس (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطیب )جن کی آواز بہت ہی موٹی تھی نے کہا کہ اس آیت سے مراد میں ہوں اور میرے نیک اعمال حبط ہو گئے۔جب اس بات کا علم آنحضرت کو ہوا تو آپ نے فرمایا: ”نہیںایسانہیں ہے ثابت بن قیس جنتی ہے“۔(کیونکہ وہ اپنے وظیفہ پر عمل کرتا ہے نہ کہ توہین کرتا ہے)۔[88]

۷۴۔علمائے اہل سنت سے شیخ بہائی کے پدربزرگوار کے مناظرے
دسویں صدی کے بہت ہی مشہور ومعروف عالم علامہ شیخ حسن بن عبد الصمد عاملی علیہ الرحمة (شیخ بہائی کے پدر بزرگوار)گزرے ہیں۔
موصوف محرم ۹۱۸ھ جبل عامل میں پیدا ہوئے ۸ /ربیع الاول ۹۸۴ھ میں ۶۶/ سال کی عمر میں رحلت فرماگئے وہ زبردست محقق ، تجربہ کار دانشور اور ایک عظیم شاعر تھے موصوف ۹۵۱ھ میں شہر ”حلب“ (سوریہ کا ایک شہر )میں سفر کیا وہاں ان کی ملا قات ایک صاحب علم و دانش اہل سنت عالم کے سے ہوئی اور شیعہ کے مذہب کے بارے میں چند جلسہ اور مناظرے ہوئے سر انجام وہ سنی عالم شیعہ ہو گیا،[89] یہاں پر ہم ان مناظروں کا خلاصہ چار مناظروں میں پیش کرتے ہیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟
حسین بن عبد الصمد کہتے ہیں: جب میں شہر حلب میں وارد ہوا تو وہاں پر ایک حنفی عالم جو بہت سے علوم وفنون میں ماہر تھا اور اس کا شمار محققین میں ہوتا تھا اور وہ دھوکا دھڑی سے پاک تھا۔اس نے مجھے اپنے گھر پر ہی ٹھہرا لیا۔
بات چیت ہوتے ہوتے تقلید کی بات چھڑ گئی اور پھر ہوتے ہوتے یہی موضوع ہمارے مناظرہ کا محور ہوگیا۔
حسین: ”تم لوگوں کے نزدیک کیا قرآن ،احادیث یا سنت میں سے کوئی ایسی دلیل موجود ہے جس کے ذریعہ ثابت ہو سکے کہ ابو حنیفہ کی تقلید اور پیروی ہم پر واجب ہے ؟“
حنفی: ”نہیں اس طرح کی کوئی آیت یا روایت وارد نہیں ہوئی ہے“۔
حسین: ”کیا مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہم ابو حنیفہ کی پیروی کریں ؟“
حنفی عالم: ”نہیں اس طرح کی کوئی آیت یا روایت وارد نہیں ہوئی ہے“۔
حسین: ”تو پھر کس دلیل کی بنا پر تمہارے لئے ابو حنیفہ کی تقلید جائز ہے ؟“
حنفی عالم: ”ابو حنیفہ مجتہد اور میں مقلد ہوں اور مقلد پر واجب ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے“۔
حسین: ”جعفر بن محمد علیہ السلام جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟“
حنفی عالم: ”جعفر بن محمد علیہ السلام کا مقام اجتہاد میں بہت اونچا ہے اور وہ علم و تقویٰ میں سب سے زیادہ بلند تھے ان کی توصیف ممکن نہیں ہمارے بعض علماء نے ان کے جن چارسو شاگردوں کے نام گنا ئے ہیں وہ سب کے سب نہایت پڑھے لگے اور قابل اشخاص تھے انھیں لوگوں میں سے ابو حنیفہ بھی تھے“۔
حسین: ”تم اس بات کا اعتراف کر رہے ہو کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجتہد تھے ،پائے کے عالم دین اور صاحب تقویٰ تھے ہم شیعہ اسی لئے ان کی تقلید کرتے ہیں ان باتوں کے باوجود تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہم گمراہ ہیں اور تم ہدایت کی راہوں پر گامزن ہو؟
جب ہمارا عقیدہ یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام معصوم تھے اور غلطی نہیں کر سکتے ، ان کا حکم خدا کا حکم ہوتا ہے اور اس بارے میں ہم بہت سے دلائل متفقہ بھی رکھتے ہیں وہ ابو حنیفہ کی طرح قیاس اور استحسان کی بنیاد پر فتویٰ نہیں دیتے تھے، ابو حنیفہ کے فتوے میں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کے فتوی میں ایسا کوئی امکان نہیں پایا جاتا تھا،بہر حال امام جعفر صادق علیہ السلام کی عصمت کے متعلق بحث چھوڑتے ہوئے اس وقت میں صرف آپ کی ایک بات پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے خود کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجتہد تھے لیکن ہمارے پاس ایسے دلائل موجو دہیں جن کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام تھے“۔
حنفی عالم: ”اس انحصار کے لئے تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام تھے۔
حسین: ہماری چند دلیلیں ہیں:
۱۔ ہماری پہلی دلیل یہ ہے کہ اس بات کا تو آپ نے بھی اعتراف کیا ہے اور آپ کے علاوہ اسلام کے چاروں مشہور فرقے یہ بات قبول کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام علم و تقویٰ اور عدالت میں تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے میں نے اس بات میں کسی کو اعتراض کرتے ہوئے نہیں سنا،تمام اسلامی ادیان کی احادیث وروایات کی کتابوں میں کوئی کہیں یہ نہیں دکھا سکتا کہ کسی نے امام علیہ السلام کے کسی عمل پر اعتراض کیا ہو جب کہ وہ لوگ شیعوں کے حد درجہ دشمن تھے اور حکومت وقت ہمیشہ ان کے ہاتھوں میں رہنے کے باوجود کسی دشمن نے بھی آپ کی طرف کوئی ایسی بات منسو ب نہیں کی[90]یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو ان کے علاوہ کسی اور مسلک کے امام میں موجود نہیں ہے۔
لہٰذا بغیر کسی تردید کے تقلید اس کی واجب ہو گی جو علم و فضل و تقویٰ اور عدالت میں سے افضل و برتر ہو، اور محققین اس بات پر اجماع رکھتے ہیں کہ اچھے اور مدلل فتووں کی موجودگی میں کمزور اور غیر مستند فتاوی پر عمل کرنا جائز نہیںہے۔
اس بنا پر یہ کیونکر جائزہوسکتا ہے کہ اس شخص کی تقلید ترک کریں جس کی سبھی اسلامی علماء افضلیت کا اقرار کرتے ہیں، اور ایسے شخص کی تقلید کریں جس کے یہاں شک و تردید پایا جاتا ہو!،اور چونکہ مسئلہ تقلید میں شک و تردید کا نہ ہونا عدالت سے بھی زیادہ اہم ہے، چنانچہ یہ بحث اپنے مقام پر کی گئی ہے۔
علمائے حدیث میں سے تمہارے ایک امام ”امام غزالی“ ہیں جنھوں نے ابو حنیفہ پر تنقید کرتے ہوئے ”المنخول“ نامی کتاب لکھی ہے، اسی طرح شافعی کے بعض شاگردں نے بھی ”النکت الشریفہ فی الردّ علی ابی حنیفہ“ نامی کتاب لکھی ہے۔
اس بنا پر اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ تقلید اسی شخص کی جائز ہے جس کے علم و تقویٰ اور عدالت پر سبھی کا اتفاق ہو، اور تمام اہل تحقیق کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب راجح (افضل) فتویٰ موجود ہے تو پھر مرجوح (غیر افضل) فتویٰ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک فرد سے ہیں جس کی آیہٴ تطہیر نے صراحت کی ہے اور اس بنا پر وہ ہر طرح کی نجاست اور پلیدی سے پاک ہیں جیسا کہ لغوی علامہ ابن فارس صاحب کتاب ”معجم مقاییس اللغة“نے خود اپنی کتاب ”مجمل اللغة“میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت میں شامل ہیں جب کہ ابن فارس اہل تسنن کے مشہورو معروف عالم دین ہیں اور یہ وہی مقام طہارت ہے جس کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے متعلق شیعوں کا اعتقاد ہے لیکن ابو حنیفہ کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ اہل بیت علیہم السلام میں سے نہیں ہے لہٰذا قرآن کے مطابق ہمیں ایسے افراد کی تقلید کرنا چاہئے جو تمام خطا اور نجاست سے پاک اور منزہ ہوں تاکہ مقلدین یقین کی منزل تک پہنچیں اور نجات یافتہ ہوں۔
حنفی عالم: ”ہم اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت رسول میں ہیں بلکہ ہمارے لحاظ سے آیہ تطہیر صرف پانچ افراد(پنجتن) ہی کو شامل کرتی ہے“۔
حسین: ”بالفرض اگر ہم قبول بھی کرلیںکہ امام جعفر صادق علیہ السلام ان پانچ میں سے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان کا حکم اور ان کی پیروی تین دلیلوں سے انھیں پانچ افراد کی مانند ہوگی“۔
۱۔جو شخص بھی پنجتن کی عصمت کا معتقد ہے وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عصمت کو بھی قبول کر تا ہے اور جو بھی پنجتن کی عصمت کا قائل نہیں ہے وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عصمت کا بھی قائل نہیں ہے۔پنجتن کا معصوم ہونا قرآن کی آیہٴ تطہیر سے ثابت ہے بس اسی وجہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی بھی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ علمائے اسلام اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام کی عصمت میں کوئی فرق نہیں ہے اور امام جعفرصادق علیہ السلام کی عصمت کا قائل نہ ہو کر پنجتن کی عصمت کا قائل ہونا یہ اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔
۲۔راویوں اور مورخین کے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور ان کے آبائے اجداد نے تحصیل علم کے لئے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا اور یہ بھی کہیں پر نقل نہیں ہوا کہ ان لوگوں نے علماء اور مصنفین کے دروس میں شرکت کی ہو بلکہ تمام لوگوں نے یہ نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد (امام محمد باقر علیہ السلام)سے اور امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے والد امام حسین علیہ السلام سے علم حاصل کیا اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ امام حسین علیہ السلام اہل بیت نبی میں سے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی باتیں اور اقوال اجتہاد کا نتیجہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی ان کے پاس سوال کرنے گیا تو وہ جواب لے کر واپس آتا تھا، اور جواب دینے میں کسی چیز کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس سلسلہ میں خود آپ نے تصریح کرتے ہوئے فرمایاہے: ہم لوگوں کی تمام باتوں کا منبع ہمارے بزرگ آباء واجداد ہیں اور ہمارے پاس جو بھی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا قول ہے اور یہ بات صحیح طریقہ سے ثابت ہے۔
پس نتیجہ یہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اقوال وہی ہیں جو اقوال ان ذوات مقدسہ کے ہیں جن کے لئے آیہ تطہیر نے پاک وپاکیزہ ہونے کی ضمانت لی ہے۔
۳۔تمہاری صحیح روایتوں میں متعدد طریقوں سے حدیث ثقلین نقل ہوئی ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا ہے:
”انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی الثقلین کتاب الله و عترتی ، اہل بتی ۔۔۔“[91]
”میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں اور جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے کبھی میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت میرے اہل بیت“
یہ حدیث واضح طور پر یہ بیان کر رہی ہے کہ قرآن و عترت سے تمسک موجب ہدایت ہوتا ہے اور تمام اسلامی فرقوں میں صرف مذہب شیعہ ہی ایسا فرقہ ہے جس نے ان دونوں سے تمسک اختیار کیا کیونکہ شیعوں کے علاوہ دوسرے لوگوں نے دوسرے لوگوں سے تمسک اختیار کیا۔
حدیث ثقلین میں یہ نہیں آیا ہے کہ ہم نے تمہارے درمیان قرآن اور ابو حنیفہ یا قرآن اور شافعی کو چھوڑا ہے ، پس ممکن ہے کہ عترت رسول کے علاوہ دوسرے لوگوں سے تمسک کیا جائے

۲۔مذہب تشیع کی عدم شہرت اور اہل سنت کی شہرت کے متعلق ایک مناظرہ
اس سے پہلے والے مناظرہ میں جب امام جعفر صادق علیہ السلام کی برتری کی بات آئی تو حنفی عالم نے کہا:
یہ بات صحیح ہے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ امام جعفر صاق علیہ السلام اور ان کے آباء واجداد سب کے سب بہت ہی پڑھے لکھے اور مجتہد تھے ان کا علم دوسرے لوگوں سے بہت بالاتر تھا اور ان کی تقلید ان کے مقلدوں کے لئے نجات کی ضمانت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کا مذہب اتنا زیادہ نہیں پھیلا کہ عالم کے گوشے گوشے میں ہر شخص اس سے واقف ہو جائے جب کہ مذاہب اربعہ پوری دنیا میں مشہور ہیں اور سبھی ان سے واقف ہیں اور تمام مسلمان اسی پر عمل پیرا ہیں“۔
حسین: ”اگر تمہارا مطلب یہ ہے کہ مذہب شافعی اور مذہب حنفی وغیرہ نے ہمارے مذہب کو نقل نہیں کیا تو بات صحیح ہے ، لیکن اس سے ہمارے مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ ان کی طرح ہم نے بھی ان کے مذہب کی کوئی تبلیغ نہیں کی ، اسی طرح خود مذہب شافعی نے مذہب حنفی و مذہب مالکی کو نقل نہیں کیا اور اسی طرح مذہب مالکی نے حنفی و شافعی مذہب کو نقل نہیں کیا، اسی طرح اسلام کے تمام مذاہب کا حال ہے ، لہٰذا کسی مذہب کا دوسرے مذہب کا نقل نہ کرنا کسی مذہب کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوگی۔
لیکن اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی مذہب تشیع نقل ہی نہیں کیا ، تو تمہارا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ خود شیعہ اور بہت سے اہل سنت اور دوسرے اسلامی فرقوں نے جعفری مذہب کے آداب واخلاق کو نقل کیا ہے، اس کے علاوہ خود شیعوں نے بھی اپنے مذہب کی ترویج و نشر کے لئے بہت اہتمام کیا ہے، سلسلہ ٴ روات کے متعلق تو شیعوں نے حددرجہ تحقیق کی ہے، اور اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔
حالانکہ علمائے شیعہ ،سنی علماء کے مقابل کم ہیں لیکن اگر ان کا موازنہ اہل تسنن کے مختلف دیگر مسلکوں سے الگ الگ کیا جائے تو یہ ان کے مقابل کم ہرگز نہیں ہو سکتے خاص طور پر حنبلی اور مالکی علماء سے یہ بالکل کم نہیں ہیں بلکہ ان سے زیادہ خود شیعہ علماء ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ علمائے شیعہ ہر دور میں اپنے زمانہ کے دوسرے مذہب کے علماء کے مقابل تقویٰ وعلم میں آگے ہی رہے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ بارہ اماموں کے زمانہ میں کسی بھی عالم کی علمی اور عملی سطح ان لوگوں کے برابر نہیں تھی اور ا ن کے شاگردوں کی علمی سطح اور بحث و استدلال کی صلاحیت بلا شبہ دوسرے تمام مذاہب کے علماء سے کئی گنا زیادہ تھی جیسے ہشام بن حکم،ہشام بن سالم ،جمیل بن دراج،زرارہ بن اعین ،محمد بن مسلم اور ان کے جیسے بہت سے لوگ جن کی تعریف ان کے مخالفین یہ کہہ کر کرتے تھے کہ ”یہی پایہ کے اور حقیقی عالم ہیں“۔
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ کے بعد شیعہ فرقہ میں ایک سے ایک جید علماء گزرے ہیں جیسے شیخ صدوق ،شیخ کلینی ،شیخ مفید،شیخ طوسی ،سید مرتضیٰ اور ان کے بھائی سید رضیٰ ،ابن طاووس، خواجہ نصیر الدین طوسی،میثم بحرانی،علامہ حلی،ان کے بیٹے فخر المحققین اور ان جیسے سیکڑوں علماء نے اپنی تالیفات اور علمی مناظروں سے مشرق ومغرب کو علم وحکمت سے بھر دیا ان کا انکار صرف تعصب اور جہالت کے نتیجہ میں ہی ہو سکتا ہے۔
لہٰذا ب تمہیں چاہئے کہ تم ہمارے اسی مذہب کی پیروی کرو جس کی ہم تقلید کرتے ہیں کیونکہ ہمارے امام تمام لوگوں سے افضل وبرتر ہیں اور جو بھی حقیقتاً سچے راستے کی تلاش میں ہوگا اسے آخر کا ر ہماری روش ہی اختیار کرنا پڑے گی تمہارے لئے لازم ہے کہ تم مذہب حق کے بارے میں تحقیق کرو کیونکہ تم غیر معصوم کے پیرو ہو جب کہ ہمارے لئے اس طرح کی کوئی حاجت نہیں ہے کیونکہ ہم ایسے کی تقلید کرتے ہیں جو معصوم ہے یوں بھی ہمارے یہاں امام کے لئے معصوم ہونا شرط ہے لہٰذا وہ فرقہ ناجیہ ہمیں ہیں اگر چہ ابھی تمہاری زبان ہمارے مذہب کی حقانیت کی گواہی نہیں دے رہی ہے مگر اس کے باوجود تمہارے پاس ایسے دلائل موجود ہیں جو تمہیں مذہب تشیع اختیار کرنے پر اکسا رہے ہیں کیونکہ تمہا ر اخود اعتراف ہے کہ ایسے مجتہد کی تقلید سبب نجات ہے وہ مجتہد صرف اور صرف ہمارے ہی مذہب میں پایا جاتا ہے۔
جب بات یہاں تک پہنچی تو حنفی عالم لا جواب ہوگیا اور خود اپنے اس سوال کو چھوڑ کر دوسرے مختلف سوالات کی پنا ہ ڈھونڈنے لگا۔

۷۵۔اصحاب کو برا بھلا کہنے کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
حنفی عالم: ”اب بھی میرے لئے ایک موضوع تشنہ رہ گیا ہے وہ یہ کہ اصحا ب پیغمبر کو بر ابھلا کہنا تمہاری نظر میں کیسا ہے؟ وہ اصحاب جنھوں نے آنحضرت کی جان ومال سے مدد کی اور تلواروں کو نیام سے نکال کر اپنے زور بازو سے مدد کی ، اور خدا کی توفیق سے نہ جانے کتنے شہروں کو قبضے میں کر کے اس پر پر چم توحید لہرا دیا مثال کے طور پر وہ فتوحات جوعمر بن خطاب کے زمانہ میں ہوئی ہیں وہ کسی بھی خلیفہ کے زمانہ میں نہیں ہوئیں کیونکہ ان کی قدرت وحشمت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا میں جب بھی تمہارے دلائل پرغور کرتا ہوں تو یہی سوچتاہوںکہ مذہب شیعہ میں سچائی اور حقانیت ہے لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ تمہارے مذہب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقرب اصحاب کو بر ابھلا کہنا صحیح ہے تو یہ مجھے بہت غلط عمل محسوس ہوتا ہے اور اسی سے میری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یہ مذہب باطل اور بے بنیاد ہے“۔
حسین: ”ہمارے مذہب میں ایسا نہیں ہے کہ اصحاب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برابھلا کہنا واجب ہے بلکہ عوام انھیں برابھلا کہتے ہیں اور ہمارے علماء میں کسی نے بھی یہ فتویٰ نہیں دیا کہ انھیں برابھلا کہنا واجب ہے ان کی فقہی کتابیں دستیاب ہیں تمہیں ان میں کہیں نہیں مل سکتا ہے کہ ان اصحاب کو برا بھلا کہنا واجب ہے۔
اس کے بعد میں نے اس کے سامنے بہت ہی سخت قسم کھائی کہ ”اگر کوئی شخص مذہب تشیع پر ہزار سال زندہ رہے اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو بھی دل وجان سے قبول کرے اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرے لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برابھلا کہے تو وہ گنہگار ہوگا اور اس کا ایمان ناقص مانا جائے گا“۔
حنفی عالم نے جب میری یہ بات سنی تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ نہایت خوش وخرم ہو گیا کیونکہ میں نے اس کی بات کی تصدیق کر دی تھی۔
اس کے بعد میں نے اس سے کہا: ”جب تم پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہر لحاظ سے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں تو پھر تم کیوں انھیں کا مذہب نہیںاختیار کرتے ؟“
حنفی عالم: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اہل بیت علیہم السلام کا پیرو کار ہوں لیکن میں صحابہ کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا“۔
حسین: ”تم کسی بھی صحابی کو برانہ کہو لیکن جب تمہیں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ اہل بیت، اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ایک خاص مرتبہ کے حامل ہیں تو پھر ان کے دشمنوں کے ساتھ تمہارا سلوک کیا ہونا چاہئے ؟
(ہدایت یافتہ )حنفی عالم: ”میں اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے بیزار ہوں“۔
حسین: ”تمہاری شیعیت کے درست ہونے کے لئے میرے نزدیک اتناہی کافی ہے“۔
اسی دوران اس نے کہا : ”میں خدا اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ میں ان کا چاہنے والا اور پیرو ہوں اور ان کے دشمنوں سے بیزار ہوں“۔
اس کے بعد اس نے مجھ سے چند شیعی عقائد اور فقہ کی کتابیں مانگی میں نے اسے ”مختصر النافع“ (شرح شرایع ٴالاسلام، ”محقق حلی (متوفی ۶۷۶ ھ)دیدی۔


--------------------------------------------------------------------------------


[1] سورہٴ آل عمران آیت ۱۶۹۔
[2] الاحتجاجات العشرة، مع العلماء ،فی المکة والمدینة از مرجع فقید آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی ص۱۳و ۱۵۔
[3] مزید معلومات کے لئے کتاب”التاج الجامع “ج۲ ص۱۹۲ اور احادیث صحاح ستہ ، ج ۱ ، باب سجود کی طرف رجوع کریں۔
[4] مزید معلومات کے لئے کتاب”التاج الجامع “ج۲ ص۱۹۲ اور احادیث صحاح ستہ ، ج ۱ ، باب سجود کی طرف رجوع کریں۔
[5] مناظرات فی الحرمین الشریفین۔سید علی بطحائی ،مناظرہ پنجم۔
[6] مناظرات فی الحرمین الشریفین۔سید علی بطحائی ،مناظرہ پنجم۔
[7] صحیح بخاری ج، ۸،ص ۲۶۔( مطبوعہ مطابع الشعب)
[8] ڈاکٹر تیجانی کی کتاب”ثم اہتدیت “سے اقتباس ص ۱۱۱ تا۱۱۳ ۔
[9] و انّ ابابکر تفقّد قوماً تخلّفوا عن بیعتہ عند علي کرم الله وجہہ فبعث الیہم عمر، فجاء فناداہم و ہم فی دار عليّ، فاَبَوا ان یخرجوا، فدعا بالحَطَب، و قال: و الذي نفس عمر بیدہ لتخرجنَّ اولا حرقنّہا علی مَن فیہا، فقیل لہ یا اباحفص ان فیہا فاطمة؟
فقال: و اِن، فخرجوا فبایعوا الا علیّاً “( الامامة والسیاسة مطبوعہ موسسہٴ حلبی ص ۱۹۔ )
[10] مناظرات فی الحرمین الشرفین مناظرہ ۹۔
[11] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ ص۴۶)
[12] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶ ص۴۶)
[13] بحار ،ج۸۵ ، ص۱۵۳۔
[14] وہی مصدر ،ص۱۵۸ ، ارشاد القلوب ،ص۱۴۱۔
[15] محمد مرعی انطاکی کی کتاب”لماذا اخترت مذہب التشیع“ص۳۴۱ سے ۳۴۸ تک سے اقتباس ۔
[16] صحیح مسلم ،ج۳ ، ص۲۳۶ ،صحیح بخاری ،ج۲ ، ص۱۸۵ ، مسند حنبل ج۱ ، ص ۹۸ ،۱۱۸ ، وغیرہ۔
[17] الاحتجاجات العشرة ،ص۱۶۔
[18] تفسیر فخر رازی ،سورہٴ نساء کی ۲۴ ویں آیت کے ذیل میں ۔
[19] الاحتجاجات العشرة،ص۷۔
[20] تفسیر ثعلبی و تفسیر طبری ،سورہٴ نساء کی ۲۴ ویں آیت کے ذیل میں ۔
[21] اسباب النزول ، سیوطی ،سورہ عبس کے ذیل میں۔
[22] تفسیر برہان و تفسیر نور الثقلین ،اسی آیت کے ذیل میں۔
[23] سورہٴ القلم آیت۴۔
[24] سورہٴ الانبیا ء آیت۱۰۷۔
[25] یہ حدیث مجمع البیان ج۱۰ ص ۴۳۷ میں بھی آئی ہے جو لوگ اسے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے متعلق خیال کرتے ہیں انھوں نے اس اعتراض کا کہ یہ بات رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی بد اخلاقی کی دلیل ہے اس طرح جواب دیا ہے:
ابن ام مکتوم نے آداب مجلس کا خیال نہیں کیا لہٰذا اس کی سز ایہی تھی کہ اسے اسی لحظہ سزادی جائے اور اس سے بے توجہی برتی جائے اور خدانے جو اس عمل کے متعلق سرزنش کی ہے وہ اس لئے کہ بھلے ہی اس وقت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کا منہ موڑنا درست تھا مگر پھر بھی اس بات کا امکان موجود تھا کہ دشمن یہ خیال کریں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اس سے فقیر ہونے کی وجہ سے منہ موڑ اور پیسے والوں کی طرف متوجہ رہے لہٰذا خدا وند عالم نے اس آیت کے ذریعہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کو یہ سمجھایا ہے کہ بھلے ہی کوئی کام درست ہو لیکن اگر اس کی وجہ سے دشمن سوء ظن میں مبتلا ہو جائیں تو اس عمل کو انجام نہ دیا اور اگر انجام دے بھی دیا تو ترک اولی ہوگا۔
[26] رجال نجاشی ،ص۳۱۱۔
[27] البدایة والنہایة،ج۱۲،ص۱۵۔
[28] مقدمہ اوائل المقالات ،طبع تبریز سال ۱۳۷۱ ھ ۔ق۔
[29] شیخ مفید کا مناظرہ کے متعلق ایسا عقیدہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے ۔بےشک شیعہ اثنا عشری فقیہ اور عالم دین ہمیشہ اہل مناظرہ تھے اور اس کی اہمیت کا عقیدہ رکھتے تھے آنے والے علماء بھی مناظرے میں گذشتہ علماء کی پیروی کریں گے اور مناظرے کرتے رہیں گے اور مناظروں کو مخالفین کے قانع کنندہ جواب کے لئے بہترین طریقہ مانیں گے(الفصول المختار ج۲، ص۱۱۹)
[30] مجالس الموٴمنین ،ج۱ ،ص۲۰۰و ۲۰۱(پانچویں مجلس)۔
[31] بوستان سعدی آواز قصائد فارسی۔
[32] سورہٴ کہف آیت ۳۷۔
[33] سورہٴ حجرآیت ۹۔
[34] احتجاج طبرسی ،ج۲ ،ص۳۲۶ سے لے کر ۳۲۹ تک۔
[35] وہ پانچ افراد یہ ہیں:،ابو سفیان بن حارث (رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے چچا زاد بھائی) نوفل بن حارث ،ربیعہ بن حارث ،فضل بن عباس ،عبد اللہ بن زیبر ، بعض نے عتبہ و معتب (ابولہب کے بیٹے) کانام بھی ذکر کیا ہے ، (اعلام الوریٰ ،ص۱۱۹،کامل ابن اثیر، ج۲، ص۲۳۹۔ )
[36] بحار الانوار سے اقتباس ،ج۴۹ ، ص۱۹۴۔ ۲۰۰۔
[37] شرح نہج البلاغہ ،ج۶،ص۴۶ و۴۷۔
[38] صحیح بخاری، مطبوعہ دار الجیل ، بیروت ،ج۷ ص۴۷ ،اور ج۹،ص۱۸۵ ،و دوسرے مدارک، کتاب ”فضائل الخمسہ‘ ‘ ج ۳ ، ص ۱۹۰سے ۔
[39] سورہٴ احزاب آیت۵۷۔
[40] صحیح بخاری ، ج ۲ ، ص ۲۵۱،کامل ابن اثیر ، ج ۲، ص ۳۱۔
[41] شرح زرقانی بر موطا مالک ج ۱ ص ۲۵۔
[42] تفسیر فخر رازی سورہٴ نساء آیت ۲۴ کے ذیل میں۔
[43] شرح تجرید ، قوشچی، ص۳۷۴،قوشچی اہل سنت کے ایک نہایت مشہور عالم دین ہیں جنھیں (امام المتقین )کہا جاتا تھا ۔
[44] سورہٴ حشر، آیت ۷۔
[45] سورہ احزاب، آیت ۳۶۔
[46] مقدمہ سنن دارمی، ص۳۹ ، اصول کافی ،ج۱ ،ص۶۹۔
[47] کتاب ”جستجوئے حق در بغداد “سے اقتباس (مقاتل بن عطیہ بکری) ص۱۲۷ سے ۱۲۹ تک۔
[48] سورہٴ حاقہ آ یت ۴۴۔۴۶۔
[49] اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے فارسی میں ”آنگاہ۔۔۔ہدایت شدم)کے نام سے اس کا ترجمہ لوگوں نے بہت پسند کیا اور دیکھتے دیکھتے اس کا آٹھواں ایڈیشن بھی چھپ گیا ،
[50] حضرت آیت اللہ شہید سید محمد صدر رحمة اللہ علیہ ۱۳۵۳ ھ ق میں کاظمین میں متولد ہوئے اور جوانی ہی میں مجتہد مسلم ہو گئے آپ نے مختلف موضوعات مثلاً فقہ، اصول،منطق،فلسفہ،اور اقتصاد پر تقریبا ً ۲۴ کتابیں لکھی ہیں۔۲۰ سال اپنے قلم اور بازوٴں سے عراق کی بعثی حکومت سے مسلسل جہاد کرنے کے بعد آخر کار ۴۷ سال کی عمر میں اپنی مجتہدہ بہن ”بنت الہدیٰ“ کے ساتھ یزید صفت عراق کی بعثی پارٹی کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔
[51] مسلک وہابیت ”شیخ محمد بن عبد الوہاب “کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ ۱۱۱۵ ء ھ میں نجد کے شہر ”عنیہ “میں پیدا ہوااس کا باپ اس شہر میں قاضی تھا۔
[52] ”آنگاہ ہدایت شدم“(پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۹۲تا ۹۳۔
[53] اتنی زیادہ نقل ہوئی ہے کہ جس سے انسان کو یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی حدیث ہے ۔
[54] ”آنگاہ ہدایت شدم“(پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۸۸ تا ۸۹۔
[55] سورہٴ آل عمران آیت ۱۴۴۔
[56] سورہٴ فتح آیت ۲۹۔
[57] سورہٴ احزاب آیت ۴۰۔
[58] صحیح مسلم ،ج۲ ،ص ۱۵۱(باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
[59] صحیح مسلم ،ج۲ ،ص ۱۵۱(باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
[60] مسند امام احمد حنبل ،ج۱، ص۲۲۱۔
[61] موطا االامام مالک (شرح الحوالک )ج،۱،ص۱۶۱۔
[62] لاکون مع الصادقین ،ڈاکٹر تیجانی سماوی، مطبوعہ بیروت ،ص۲۱۰ سے ۲۱۴ تک سے خلاصہ کے ساتھ اقتباس ۔
[63] سورہٴ نساء آیت ۱۰۳۔
[64] لاکون مع الصادقین سے اقتباس ،ص۲۱۴و ۲۱۵۔
[65] سورہ احزاب، آیت ۳۳۔
[66] سورہ احزاب، آیت ۳۳۔
[67] ”آنگاہ ہدایت شدم“(پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۱۱۴تا ۱۱۵۔
[68] المیزان ،ج۱۶،ص۱۱۴۔
[69] شواہد التنزیل ،ج۲ ،ص۱۱،اور ۲۵ کے بعد (اس بحث کا ماخذ”احقا ق الحق “کی ج۲ میں بھی آیا ہے ۔
[70] سورہٴ احزاب آیت ۵۶۔
[71] صحیح بخاری ،ج۶،ص۱۵۱۔صحیح مسلم ،ج۱ ص۳۰۵۔
[72] الصواعق المحرقہ، ص۱۴۴۔
[73] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۶ ،ص۱۴۴۔
[74] المواہب زرقانی ،ج۷ ص۷۔تذکرہ علامہ ،ج۱،ص۱۲۶۔
[75] مولف کا قول:قرآن میں سورہٴ ”صافات “کی ۱۳۰ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں ”سلام علی آل یاسین“(آل یاسین پر سلام ہو )ابن عباس سے منقول ہے کہ یہاں ”آل یاسین“ سے مراد آل محمد ہیں لہٰذا س بنا پر قرآنی اعتبار سے بھی آل محمد میں سے کسی کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“کہنا درست ہے ۔
[76] آنگاہ ہدایت شدم، (پھر میں ہدایت پاگیا )سے اقتباس ،ص۶۵ تا ۶۷۔
[77] یہ اس بات پر ایک ضمنی اقرار ہے کہ حدیث غدیر حضرت علیعلیہ السلام کی خلافت پر واضح بیان ہے لیکن ہم مجبور ہیں کہ اس کی وضاحت سے دست بردار ہوجائیں اور اس کی تاویل کریں (غور کریں !)۔
[78] اس حدیث کے مختلف مآخذ اور مدارک کے لئے ”الغدیر “کی پہلی جلد سے رجوع کریں۔
[79] اس ٹیونسی دانشور سے کہنا چاہئے اگر علی کو دوست رکھتے ہو تو ان کی دوستی کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی باتوں کو قبول کیا جائے اور ان کی باتوں کو قبول کرکے ان کو خوش کیاجائے حالانکہ آپ نے رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد خلافت کا دعویٰ کیا لیکن ان کی بات کو نہیں ماناگیا اور ان کو زبردستی بیعت کے لئے لے جایا گیااور آپ کے اصحاب کوآزار واذیت دی گئی اور جناب سلمان کو مارا پیٹا گیا ۔
[80] مسند احمد بن حنبل ،ج۴ ،ص۲۸۱، علامہ امینی نے الغدیر کی جلد اول میں اسے اہل سنت کے ساٹھ علماء سے نقل کیا ہے ۔
[81] سورہٴ مائدہ ، آیت ۶۷۔
[82] صحیح بخاری وصحیح مسلم ،صلح حدیبہ کے متعلق بعض صحابہ کی مخالفت ،اور عمر کا قول بھی نقل کیا ۔
[83] جناب تیجانی سماوی کے کتاب”لا کون مع الصادقین “سے اقتباس ص۵۸ سے ۶۱۔ مولف کی جانب سے خلاصہ اور اضافہ کے ساتھ۔
[84] صحیح مسلم، کتاب الامارة، جلد۴، ص ۴۸۲، (مطبوعہ دار الشعب)، مسند احمد ، ج ۵، ص۸۶، ۹۰، ۹۲، مستدرک صحیحین، ج ۴، ص۵۰۱، مجمع ہیثمی، ج ۵، ص ۱۹۰۔
[85] مسند احمد احنبل ،ج۳،ص۲۷۔
[86] مسند حنبل ،ج۴،ص۳۶۷۔صحیح مسلم ،ج۲،ص۲۳۸۔صحیح ترمذی، ج۷، ص۱۱۲۔ کنز العمال،ج۷،ص۱۱۲اس کے علاوہ دوسری بہت سی کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔
[87] تفسیر قرطبی ،ج۹،ص۶۱۲۱۔صحیح بخاری ،ج۶،ص۱۷۲۔
[88] مجمع البیان ،ص۹،ص۱۳۰۔تفسیر فی ظلال ومراغی ،اسی آیت کے ذیل میں۔
[89] یہ مناظرے چند سال قبل عربی زبان میں ”مناظرة الشیخ حسین بن عبد الصمد“ نامی کتاب میں ”موسسہ قائم آل محمد (ص)“ سے چھپ چکی ہے۔
[90] امام جعفر صادق علیہ السلام (متوفی ۱۴۸ھ)فقہ تشیع کے مروج، ابو حنیفہ (متوفیٰ ۱۵۰ھ)اور مالک بن انس (متوفیٰ ۱۷۹ھ)کے استادہیں اس طرح سے آپ سنی مذہب کے دو معروف مسلک ،حنفی ومالکی کے اماموں کے استاد رہے اسی لئے ابو حنیفہ کا یہ کہنا تھا ”لولا السنتان لھلک النعمان“اگر وہ دو سال (جو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلا م کی خدمت میں گزارے ہیں)نہ ہوتے تو نعمان (ابو حنیفہ )ہلاک ہو جاتا۔اسی طرح مالک بن انس کا کہنا ہے ”مارایت افقہ من جعفر بن محمد “میں نے جعفر بن محمد(امام صادق علیہ السلام ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ، (فی سبیل الوحدة الاسلامیة ص۶۳و۶۴)۔
[91] یہ حدیث مشہور و معروف ہے اور شیعہ و سنی کتابوں میں موجود ہے۔
اور اس طرح کا تمسک اختیار کرنے والا بھی نجات پائے ؟ہماری یہ بات یہ تقاضا کرتی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تقلید کی جائے اور اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی ابو حنیفہ کی شک آمیز تقلید پر ہزار فوقیت رکھتی ہے۔