|
۱۶۔عبد اللہ دیصانی کا مسلمان ہونا
ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بہترین شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکر خدا نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا: ”کیا تمہارا خدا ہے“۔
ہشام: ”ہاں“۔
عبد اللہ: ”آیا تمہارا خدا قادر ہے ؟ “
ہشام: ”ہاں میرا خدا قادر ہے اور تمام چیزوں پر قابض بھی ہے“۔
عبد اللہ: ”کیا تمہارا خدا ساری دنیا کو ایک انڈے میں سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ ہی انڈا بڑا ہوا۔؟ “
ہشام: ”اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو“۔
عبد اللہ: ”میں تمہیں ایک سال کی مہلت دیتا ہوں“۔
ہشام یہ سوال سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: ”اے فرزند رسول !،عبد اللہ دیصانی نے مجھ سے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب کے لئے صرف خداوند متعال اور آپ کا سہارا لیا جا سکتا ہے“۔
امام علیہ السلام: ”اس نے کیا سوال کیا ہے ؟ “
ہشام: ”اس نے کہا کہ کیا تمہارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس وسیع دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا ہو ؟ “
امام علیہ السلام: ”اے ہشام! تمہارے پاس کتنے حواس ہیں ؟ “
ہشام: ”میرے پانچ حواس ہیں“۔(سامعہ ،باصرہ، ذائقہ ،لامسہ اور شامہ )
امام علیہ السلام: ”ان میں سب سے چھوٹی حس کون سی ہے ؟ “
ہشام: ”باصرہ“۔
امام علیہ السلام: ”آنکھوں کا وہ ڈھیلا جس سے دیکھتے ہو، کتنا بڑا ہے ؟ “
ہشام: ”ایک چنے کے دانے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹا ہے“۔
امام علیہ السلام: ”اے ہشام ! ذرا اوپر اور سامنے دیکھ کر مجھے بتاوٴ کہ کیا دکھتے ہو ؟“
ہشام نے دیکھا اور کہا: ”زمین، آسمان ،گھر، محل ،بیابان ،پہاڑ اور نہروں کو دیکھ رہا ہوں“۔
امام علیہ السلام: ”جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری دنیا کو تمہاری چھو ٹی سے آنکھ میں سمو دے وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے اور نہ دنیا چھوٹی ہو نہ انڈہ بڑا ہو۔
ہشام نے جھک کر امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھ اور پیروں کا بوسہ دیتے ہوئے کہا: ”اے فرزند رسول ! بس یہی جواب میرے لئے کافی ہے“۔[1]
ہشام اپنے گھر آئے اور دوسرے ہی دن عبد اللہ ان سے جاکر کہنے لگا:“۔میں سلام عرض کرنے آیا ہوں نہ کہ اپنے سوال کے جواب کے لئے“۔
ہشام نے کہا: ”تم اگر اپنے کل کے سوال کا جواب چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے، اس کے بعد آپ نے امام علیہ السلام کا جواب اسے سنا دیا۔
عبد اللہ دیصانی نے فیصلہ کیا کہ خود ہی امام کی خدمت میں پہنچ کر اپنے سوالات پیش کرے۔
وہ امام کے گھر کی طرف چل پڑا، دروازے پر پہنچ کر اس نے اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوگیا۔اندر جانے کے بعد وہ امام کے قریب آکر بیٹھ گیا اورا پنی بات شروع کرتے ہوئے کہنے لگا:
”اے جعفر بن محمد مجھے میرے معبود کی طرف جانے کا راستہ بتا دو“۔
امام علیہ السلام نے پوچھا:
”تمہارا نام کیا ہے ؟ “
عبد اللہ باہر نکل گیا اور اس نے نام نہیں بتایا۔اس کے دوستوں نے اس سے کہا:
تم نے اپنا نام کیوں نہیں بتایا؟“
اس نے جواب دیا:
”میں اگر اپنا نام عبد اللہ (خدا بندہ )بتاتا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ تم جس کے بندہ ہو ، وہ کون ہے ؟
عبد اللہ کے دوستوں نے کہا:
”امام علیہ السلام کے پاس واپس جاوٴاور ان سے یہ کہو آپ مجھے میرے معبود کا پتہ بتائیں اور میرا نام نہ پوچھیں“۔
عبد اللہ واپس گیا اور جا کر امام علیہ السلام سے عرض کیا:
”آپ مجھے خدا کی طرف ہدایت کریں مگر میرا نام نہ پوچھیں“۔
امام علیہ السلام نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے فرمایا:
”وہاں بیٹھ جاوٴ“۔
عبد اللہ بیٹھ گیا۔اسی وقت ایک بچہ ہاتھ میں ایک انڈا لئے کھیلتا ہوا وہاں پہنچ گیا ،امام علیہ السلام نے بچہ سے فرمایا:
لاوٴ انڈہ مجھے دے دو“۔
امام علیہ السلام نے انڈہ کو ہاتھ میں لے کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اے دیصانی !اس انڈہ کی طرف دیکھ جو ایک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھلیوں میں مقید ہے۔
۱۔موٹی جھلی۔
۲۔موٹی جھلی کے نیچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔
۳۔اور نازک اور پتلی جھلی کے نیچے پگھلی ہوئی چاند ی(انڈہ کی سفیدی ) ہے۔
۴۔اس کے بعد پگھلا ہوا سونا (انڈے کی زردی)ہے مگر نہ یہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وہ پگھلی ہوئی چاندی اس سونے میں ملی ہوتی ہے بلکہ یہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آیا ہے جو یہ کہے کہ میں نے اسے بنایا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گیا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں نے اسے تباہ کیا ہے ،نہ یہ معلوم کہ یہ نر کے لئے ہے یامادہ کے لئے اچانک کچھ مدت کے بعد یہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس میں سے ایک پرندہ مور کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کیا تیری نظر میں اس طرح کی ظریف وباریک تخلیقات کے لئے کوئی مدبر و خالق موجود نہیں ہے ؟ “
عبد اللہ دیصانی نے یہ سوال سن کر تھوڑی دیر تک سر جھکائے رکھا(اس کے قلب میں ایمان روشن ہو چکا تھا )اور پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ” میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماس کے رسول ہیں اور آپ خدا کی طرف سے لوگوں کے امام معین کئے گئے ہیں، میں اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کرتا ہوں اور پشیمان ہوں۔[2]
۱۷۔ایک ثنوی کو امام علیہ السلام کا جواب
ایک ثنوی (دو خدا کا عقیدہ رکھنے والا) امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر اپنے عقیدہ کے اثبات میں گفتگو کرنے لگا، اس کا عقیدہ یہ تھا کہ اس جہان ہستی کے دو خدا ہیں، ایک نیکیوں کا خدا ہے اور دوسرابرائیوں کا۔
اگر تو یہ کہتا ہے کہ خدا دو ہیں تو وہ ان تین تصورات سے خارج نہیں ہو سکتے:
۱۔یا دونوں طاقتور اور قدیم ہیں۔
۲۔یا دونوں ضعیف و ناتواں ہیں۔
۳۔یا ایک قوی و مضبوط اور دوسرا ضعیف و ناتواں ہے۔
پہلی صورت کے مطابق ،کیوں پہلا خدا دوسرے کی خدائی کو ختم نہیں کر دیتا تاکہ وہ اکیلا ہی پوری دنیا پر حکومت کرے ؟(یہ نظام کائنات جو ایک ہے اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ اس کا حاکم بھی ایک ہے ،جو قوی و مطلق ہے)
تیسری صورت بھی اس بات کی دلیل بن رہی ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور ہماری بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہم اسی کو خدا کہتے ہیں جو قوی ومضبوط ہے اور دوسرا اس لئے خدا نہیں کیونکہ وہ ضعیف و ناتواں ہے ،اور یہ اس کے خدا نہ ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری صورت میں (اگر دونوں ضعیف وناتواں ہوں)یا دونوں کسی ایک جہت سے متفق ہوں اور دوسری جہت سے مختلف [3] تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک (مابہ الامتیاز ہو) ( یعنی ان دونوں خداوٴں میں ایک خدا کے پاس کوئی ایک شئے ہے جو دوسرے کے پاس نہ ہو) اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ( مابہ الامتیاز )ا مر وجودی قدیم ہو (یعنی وہ شئے اس میں ہمیشہ پائی جاتی ہو ) اور شروع سے ہی وہ ان دوخداوٴں کے ساتھ موجود رہے تاکہ ان کی ”دوئیت“ صحیح ہو۔
اس صورت میں ”تین خدا وجود میں آجائیں گے اور اسی طرح چار خدا پانچ خدا اور اس سے بھی زیادہ ،بلکہ بے انتہا خداوٴں کا معتقد ہونا پڑے گا۔
ہشام کہتے ہیں: اس ثنوی نے دوگانہ پر ستی سے ہٹ کر اصل وجود خدا کی بحث شروع کردی اس کے سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا: ”خدا کے وجود پر آپ کی کیا دلیل ہے ؟“
امام جعفرصادق علیہ السلام: ”دنیا کی یہ تمام چیزیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے جیسے تم جب کسی اونچی اور مضبوط عمارت کو دیکھتے ہو تو تمہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے بھلے ہی تم نے اس کے معمار کو نہ دیکھا ہو“۔
ثنویہ: ”خدا کیا ہے ؟ “
امام علیہ السلام: ”خدا ،تمام چیزوں سے ہٹ کر ایک چیز ہے اور دوسرے الفاظ میں اس طرح کہ وہ تمام چیزوں کے معنی ومفہوم کو ثابت کرتا ہے اوروہ تمام کی حقیقت ہے لیکن جسم اور شکل نہیں رکھتا اور وہ کسی حس سے نہیں سمجھا جا سکتا ،وہ خیالوں میں نہیں ہے اور زمانہ کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اسے بدل سکتا ہے۔[4]
۱۸۔ منصور کے حضور میں امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا مناظرہ
ابن شہر آشوب ،مسند ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بن زیاد نے کہا: ابو حنیفہ (حنفی مذہب کے رہبر ) سے سوال کیا گیا کہ تم نے ابھی تک جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ عظیم فقیہ کون ہے ؟
ابو حنیفہ نے جواب میں کہا: ”لوگوں میں سے سب سے زیادہ عظیم فقیہ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام )ہیں، منصور دوانقی (عباسی حکومت کا دوسر ا خلیفہ ) جب امام کو اپنے پاس لے گیا تھا تو اس نے میرے پاس اس طرح پیغام بھیجا:
اے ابو حنیفہ !جعفر بن محمد (امام جعفر صاد ق علیہ السلام ) کو لوگ بہت زیادہ چاہنے لگے ہیں تم کچھ سخت و پیچیدہ سوالات آمادہ کرو، اور ان سے مناظرہ کرو“۔ (تاکہ وہ ان کے جواب نہ دے پائیں اور اس طرح ان کی مبقولیت میں کمی ہو جائے ) میں نے چالیس سوالات تیار کئے جس کے بعد منصور نے شہر ”حیرہ“(بصرہ اور مکہ کے درمیان )میں مجھے حاضر ہونے کے لئے کہا ،میں ان کے پاس گیا تو دیکھا امام جعفر صادق علیہ السلام اس کے داہنے جانب بیٹھےے ہوئے ہیں ،جیسے ہی میری نظر امام جعفر صادق علیہ السلام پر پڑی میں ان کی عظمت وجلالت سے اتنا مرعوب ہوا کہ اتنا آج تک منصور سے نہیں ہوا تھا۔میں نے منصور کو سلام کیا ، اس نے مجھے بیٹھنے کا اشا رہ کیا، میں بیٹھ گیا پھر منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابا عبد اللہ !یہ ابو حنیفہ ہے“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں میں اسے پہچانتا ہوں“۔
اس کے بعد منصور نے میری طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابو حنیفہ تو اپنے سوالات پیش کر“۔
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنا ایک ایک سوال پوچھ ڈالا انھوں نے ان سب کا جواب دیا اور آپ جواب کے دوران فرماتے تھے“۔اس مسئلہ میں تم اس طرح کہتے ہو ،اہل مدینہ اس طرح کہتے ہیں ،ان کے بعض جوابات میرے نظریئے کے مطابق تھے اور بعض اہل مدینہ کے اور بعض دونوں کے مخالف تھے۔
یہا ں تک کہ میں نے اپنے چالیس سوالات کر ڈالے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر سوال کا جواب بطور احسن واکمل دیا، اس کے بعد ابو حنیفہ کہتا ہے:
”الیس اعلم الناس ،اعلمھم باختلاف الناس ۔“
”کیا سب سے زیادہ آگاہ اور دانشور شخص وہ نہیں ہے جو لوگوں کے مختلف نظریوں کو سب سے زیادہ جانتا ہو“۔[5]
۱۹۔ایسا مناظرہ جس نے ایک ”خدا نما “کو بے بس کردیا
امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں”جعد بن درہم “نامی ایک شخص تھا جس نے اسلام کے خلاف بہت سی بدعتیں ایجاد کی تھیں اور اس نے چند لوگوں کو اپنا شاگرد بنا لیا تھا۔آخر کار اسے عید قربان کے دن سزائے موت دے دی گئی۔
اس نے ایک دن تھوڑی خا ک اور پانی لے کر ایک شیشی میں ڈالا چند دنوں بعد اس میں کیڑے مکوڑے پیدا ہو گئے۔وہ شیشی لے کر لوگوں کے درمیان آکر یہ دعویٰ کرنے لگا۔ان کیڑے مکوڑوں کو میں نے پیدا کیا ہے ،چونکہ ان کی پیدائش کا سبب میں بنا ہوں لہٰذا میں ہی ان کا خالق و خدا ہوں“۔
چند مسلمانوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اس سے پوچھو کہ شیشی میں کیڑوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اس میں نر و مادہ کتنے ہیں ،ان کا وزن کتنا ہے ؟اس سے کہو کہ ان کی شکل بدل دے ، کیونکہ جو ان کا خالق ہوگا وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہوگا کہ ان کی شکل بدل دے“۔
ان چند مسلمانوں نے اس سے انھیں سوالات کے ذریعہ مناظرہ کیا اور وہ ان کے جوابات سے قاصر رہا اس طرح اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔[6]
۲۰۔تم یہ جواب حجاز سے لے آئے ہو
امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں بہت ہی مشہور و معروف ،ابو شاکر دیصانی نام کا ایک شخص تھا جو توحید کا انکار کرتا تھا اور اس بات کا معتقد تھا کہ ایک نور کا خدا ہے اور دوسرا ظلمت کا۔وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتا تھا کہ اپنی کلامی بحث چھیڑ کر اپنے عقیدے کو ثابت کرے اور اسلام کو نیچا دکھائے، اس نے عقیدہ دیصانیہ کی بنیا د ڈالی تھی اوراس کے کچھ شاگرد بھی تھے۔یہاںتک کہ ہشام بن حکم بھی کچھ دنوں تک اس کے شاگرد رہے تھے، ہم یہاں پر اس کے اعتراض کا ایک نمونہ نقل کرتے ہیں تو جہ فرمائیں:
ابو شاکر نے خود اپنی فکر کے مطابق قرآن کریم میں ایک قابل اعتراض بات ڈھونڈ نکالی۔ایک روز اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے کہا: ”مجھے قرآن میں ایک ایسی آیت ملی ہے جو ہمارے عقیدے (ثنویہ) کی تصدیق کرتی ہے“۔
ہشام: ”کس آیت کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ “
ابو شاکر: ”سورہٴ زخرف کی ۸۴ ویں آیت پڑھتا ہوں:
”وَہُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلَٰہٌ وَفِی الْاٴَرْضِ إِلَہٌ“
”اور جو آسمان میں خدا ہے اور زمین میں خدا ہے“۔
اس بنا پر ایک معبود آسما ن کا ہے اور دوسرا زمین کا ہے۔
ہشام کہتے ہیں: ”میں سمجھ نہیں سکا کہ اس کا جواب کس طرح دوں، لہٰذا اسی سال میں جب خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوا تو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں جا کر یہ مسئلہ پیش کردیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ ایک بے دین خبیث کی بات ہے جب تم واپس جاوٴ تو اس سے پوچھو کہ کوفے میں تیرا کیا نام ہے ؟وہ کہے گا فلاں، ”تم پھر کہو “: تیرا بصرہ میں کیانام ہے؟ ”وہ کہے گا کہ فلاں، تب تم اس سے کہو ”ہمارا پروردگار بھی اسی طرح ہے ، آسمان میں اس کا نام ”الہ“ ہے اور زمین میں بھی اس کا نام ”الہ “ہے بیشک دریاوٴں صحراوٴں اور ہر جگہ کا وہی معبود الہ ہے“۔
ہشام کہتے ہیں: ”جب میں واپس لوٹا تو ابو شاکر کے پاس جاکر میں نے اسے یہ جواب سنا دیا۔
اس نے کہا: ”یہ تمہاری بات نہیں ہے، تم اسے حجاز سے لے آئے ہو“۔[7]
۲۱۔امام علیہ السلام کے شاگردوں کا ایک مردشامی سے مناظرہ
امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانہ میں شام کا ایک دانشور [8](مکہ ) میںآپ کی خدمت میں پہنچا اور اپنا تعارف اس نے اس طرح کرایا: ”میں علم کلام،علم فقہ اور احکام الٰہی کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور میں یہاں آپ کے شاگردوں سے بحث ومناظرہ کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔
امام علیہ السلام: ”تیری باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث پر مبنی ہوں گی یا تیری خود کی ہوں گی؟“
شامی دانشور: ”پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیثیں بھی ہوں گی اور میری کچھ ذاتی باتیں بھی ہوں گی“۔
امام علیہ السلام: ”تو پھر تو پیغمبر کا شریک کار ہے ؟ “
شامی دانشور: ”نہیں میں ان کا شریک نہیں ہوں“۔
امام علیہ السلام: ”کیا تجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ “
شامی دانشور: ”نہیں“۔
امام علیہ السلام: ”کیا تو جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت واجب جانتا ہے اسی طرح اپنی بھی اطاعت واجب جانتا ہے ؟ “
شامی دانشور: ”نہیں میں اپنی اطاعت واجب نہیں جانتا“۔
اب امام جعفر صادق علیہ السلام انے ایک شاگرد (یونس بن یعقوب )کی طرف رخ کرکے فرمایا:
”اے یونس ! اس شخص نے بحث ومناظرہ شروع کرنے سے پہلے ہی شکست کھالی (کیونکہ اس نے بغیر کسی دلیل کے اپنی بات کو حجت سمجھا ،حجت جانا ) اے یونس ! اگر تم علم کلام [9]اچھی طرح جانتے تو اس شامی مرد سے مناظرہ کرتے“۔
یونس: ”افسوس کہ میں علم کلام سے آگاہی نہیں رکھتا میں آپ پر فدا ہوں آپ نے علم کلام سے منع فرمایا اور کہا ہے: ”قابل افسوس ہیں وہ لوگ جو علم کلام سے سروکار رکھتے ہیں اور کہتے ہیں “یہ صحیح ہے ،یہ غلط ہے۔یہ بات نتیجہ تک پہنچتی ہے ،یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور یہ چیز سمجھ میں نہیں آتی“۔
امام علیہ السلام: ”میں نے جو منع کیا تھا وہ اس صورت میں تھا کہ اسے اختیار کرنے والے ہماری باتوں کو چھوڑدیں اور جو خود جانتے ہیں اسی پر تکیہ کریں۔ اے یونس ! باہر جاوٴ اور دیکھو اگر علم کلام جاننے والا میرا کو ئی شاگرد ہو تو اسے یہاں لے آوٴ“۔
یونس: ”میں باہر گیا اور تین افراد (حمران بن اعین ،مومن الطاق احول اور ہشام بن حکم )جو علم کلام میں کافی مہارت رکھتے تھے انھیں لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ میں نے قیس بن ماصر کو بھی لے لیا جو میری نظر میں علم کلام میں ان تمام لوگوں سے زیادہ ماہر تھے اور انھوں نے امام سجاد علیہ السلام سے یہ علم حاصل کیا تھا۔جب سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے تو امام جعفر صادق علیہ السلام خیمے سے باہر آئے یہ وہی خیمہ تھا جو کہ مکہ میں حرم کے بغل میں آپ کے لئے لگایاگیا تھا اور آپ حج شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی سے وہاں رہنے لگے تھے تبھی امام کی نظر ایک ایسے اونٹ پر پڑی جو دوڑتے ہوئے آرہا تھا امام نے فرمایا: ”خدا کی قسم اس اونٹ پر ہشام سوار ہو کر آرہے ہیں“۔
لوگوں نے سوچا کہ امام کی مراد عقیل کے بیٹے ہیں کیونکہ امام انھیں بہت چاہتے تھے اچانک لوگوں نے دیکھا کہ اونٹ نزدیک ہوا اور اس پر” ہشام بن حکم“سوار تھے (امام کے ایک بہترین شاگرد) وہ اس وقت نوجوان تھے اور ابھی جلدی ہی ان کی ڈارھی نکلی تھی موجودہ لوگوں میں ان کی عمر سب سے کم تھی تقریبا ً سبھی ان سے بڑے تھے۔امام نے ہشام کو جیسے ہی دیکھا بڑے پر جوش انداز میں ان کا استقبال کرتے ہوئے جگہ دی اور ان کی شان میں یہ حدیث فرمائی:
”ناصرنا بقلبہ ولسانہ ویدہ“۔
ہشام قلب و زبان اور اپنے تمام اعضاء سے ہمارا ناصر ومددگار ہے“۔
اسی وقت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے تمام موجود شاگردوں میں سے ایک ایک سے فرمایا: ”اس شامی دانشور سے تم لوگ بحث ومناظرہ کرو“۔ آپ نے خصوصی طور پر حمران سے فرمایا: ”شامی مرد سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے اس سے مناظرہ کیا ابھی چند لمحے نہیں گزرے تھے کہ شامی، حمران کے سامنے بے بس ہو گیا اس کے بعد امام علیہ السلا م نے مومن الطاق [10] سے فرمایا: ”طاق مرد شامی سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے مرد شامی سے مناظرہ شروع کیا ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ طاق مرد شامی پر کامیاب و کامران ہوگئے۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم بھی شامی مرد سے باتیں کرو“، وہ بھی گئے اور اس سے باتیں کی لیکن ہشان بن سالم مرد شامی پر غالب نہیں آئے بلکہ دونوں برابر رہے“۔
اب امام علیہ السلام نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم جا کر اس سے مناظرہ کرو“۔قیس نے شامی سے مناظرہ شروع کیا امام علیہ السلام اس مناظرہ کو سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے کیونکہ شامی مرد قیس کے مقابل بے بس ہو گیا تھا اور اس کی بے بسی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے جسے اچھی طرح دیکھا جا سکتا تھا۔[11]
۲۲۔شامی دانشورسے ہشام کا زبردست مناظرہ
امام جعفر صادق علیہ السلام نے مکہ میں شامی دانشور اور اپنے شاگردوں کے درمیان ہوئے مناظرہ میں (جس کی تفصیل اس سے پہلے مناظرہ میں گزرچکی ہے) ایک جوان نے (ہشام بن حکم) کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”اس سے مناظرہ کرو“۔شامی دانشور مناظرہ کے لئے تیار ہو گیا اس طرح ہشام بن حکم اورشامی دانشور کا مناظرہ شروع ہوا۔
شامی دانشور (ہشام کی طرف رخ کر کے )اے جوان! اس مرد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی امامت کے سلسلہ میں مجھ سے سوال کر(میں تجھ سے اس شخص کے بارے میں باتیں کرنا چاہتا ہوں )“
ہشام امام کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سے)اس قدر غصہ ہوئے کہ ان کابدن کانپنے لگا اور اسی حالت میں انھوں نے شامی دانشور سے کہا: ”کیا تیرا پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خیر و سعادت زیادہ چاہتا ہے یا خود بندہ اپنے بارے میں بہتر سمجھتے ہیں ؟ “
شامی دانشور: ”نہیں بلکہ پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں ان سے زیادہ خیر وسعادت چاہتا ہے“۔
ہشام: ”خدا وند متعال نے انسانوں کی خیر وسعادت کے لئے کیا کیا ہے ؟ “
شامی دانشور: ”خدا وند متعال نے اپنی حجت کو ان پر معین کیا ہے تاکہ وہ منتشر نہ ہونے پائیں وہ اپنے بندوں میں اپنی حجت کے ذریعہ الفت ومحبت پیدا کرتا ہے تاکہ ان کی بے سرو سامانی اس دوستی اور الفت کی وجہ سے ختم ہو جائے اور اس طرح خداوند متعال اپنے بندوں کو قانون الٰہی سے آگاہ کرتا ہے“۔
ہشام: ”وہ حجت کون ہے ؟ “
شامی دانشور: ”وہ رسول خدا ہیں“۔
ہشام: ”رسول خدا کے بعد کون ہے ؟ “
شامی دانشور: ”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن وسنت حجت خدا ہیں“۔
ہشام: ”کیا قرآن وسنت آج ہمارے اختلاف کو ختم کرنے میں سود مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ “
شامی دانشور: ”ہاں“۔
ہشام: ”پھر ہمارے تمہارے درمیان کیوں اختلاف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے یہاں مکہ آئے ہو ؟ “
شامی دانشوراس سوال کے جواب میں خاموش ہو گیا امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”کیوں نہیں کچھ بولتے ؟ “
شامی دانشور: ”اگر ہشام کے سوال کا جواب میں اس طرح دوں کہ قرآن وسنت ہمارے اختلاف کو ختم کرتے ہیں تو یہ بے ہودہ بات ہوگی کیونکہ الفاظ قرآن سے طرح طرح کے معنی مراد لئے جاتے ہیں۔اور اگر کہوں کہ ہمارا اختلاف قرآن و سنت کے سمجھنے میں ہے تو اس طرح میرے عقیدہ کو ضرر پہنچتا ہے اور اگر ہم دونوں کے دونوں دعویٰ کریں کہ ہم حق پر ہیں تو اس صورت میں بھی قرآن و سنت ہم دونوں کے اختلاف میں کسی طرح سود مند ثابت نہیں ہو سکتے ہیں لیکن یہی (مذکورہ دلیل) میرے عقیدہ کے لئے نفع بخش ہو سکتی ہے مگر ہشام کے عقیدہ کے لئے نہیں“۔
امام علیہ السلام: ”اس مسئلہ کو ہشام (جو علم وکمال سے سر شار ہے )سے پوچھو وہ تمہیں قانع کنندہ جواب دیں گے“۔
شامی دانشور: ”آیا خدا وند متعال نے کسی کو عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے تاکہ لوگ آپس میں متحد و ہم آہنگ رہیں ؟اور وہ ان کے اختلاف کو ختم کرے اور انھیں حق وباطل کے بارے میں توضیح دے ؟
ہشام: ” رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں یا آج ؟ “
شامی دانشور: ”رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تو وہ خو دتھے لیکن آج وہ شخص کون ہے ؟ “
ہشام نے ،امام علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ شخص جو مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر جگہ سے لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور یہی حجت خدا اور ہمارے تمہارے اختلاف کو ختم کرنے والے ہیں کیونکہ یہ وارث علم نبوت ہیں جو ان کے باپ دادا سے انھیں ملا ہے اور یہی ہیں جو زمین وآسمان کی باتوں کو ہمیں بتاتے ہیں“۔
شامی دانشور: ”میں کس طرح سمجھوں کہ یہ شخص (امام جعفر صادق علیہ السلام )وہی حجت حق ہے“۔
ہشام: ”جو بھی چاہو پوچھ لوتاکہ ان کے حجت خدا ہونے پر تمہیں دلیل مل جائے“۔
شامی دانشور: ”اے ہشام ! تم نے یہ کہہ کر میرے لئے کسی طرح کا کوئی عذر نہیں چھوڑا ہے، اب مجھ پر واجب ہے کہ میں سوال کروں اور حقیقت تک پہنچوں“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام: ”کیا تم یہی جاننا چاہتے ہو کہ شام سے یہاں تک کہ سفر کے دوران تمہیں کیا کیا چیزیں پیش آئیں ؟ اور امام علیہ السلام نے اس کے سفر کی کیفیت کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیانات سے شامی دانشور حیرت زدہ ہو گیا تھا اور اب اس نے حقیقت کو پالیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت اس کے قلب میں ایمان کا چراغ روشن ہوگیا اور بڑی خوشی کے ساتھ اس نے کہا: ”آپ نے سچ کہا، خدا کی قسم میں اب (حقیقی) اسلام لایا ہوں“۔
امام علیہ السلام: ”بلکہ ابھی ابھی تو خدا پر ایمان لے آیااور اسلام ،ایمان سے پہلے ہے۔اسلام کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں اور آپس میں شادیاں کرتے ہیں لیکن ایمان کے ذریعہ لوگ خدا کے یہاں اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ اجر وثواب ایمان پر ہی ہے تو بھی مسلمان تھا لیکن ہماری امامت کو قبول نہیں کرتا تھا اور اب ہماری امامت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے تمام نیک اعمال کے ثواب کے لائق ہو گیا ہے۔
شامی دانشور: ”آپ نے صحیح فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور آپ ان کے جانشین ہیں“۔
اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے ان کے مناظرہ کی کیفیت اس طرح بیان کی:
آپ نے حمران سے فرمایا: ”تم اپنی بات کو احادیث سے ہم آہنگ کرتے ہو اور اس طرح حق تک پہنچ جاتے ہو“۔اور ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم احادیث کو حاصل کرنے میں کافی جستجو اور سعی کرتے ہو لیکن اس کے حاصل کر نے اور اسے سمجھنے کی صحیح صلاحیت نہیں رکھتے“۔اسی طرح آپ نے مومن الطاق سے فرمایا: ”تم قیاس اور تشبیہ کے ذریعہ بحث شروع کرتے ہو اور موضوع بحث سے ہٹ جاتے ہو تم باطل کو باطل ہی کے ذریعہ ردّ کرتے ہو اور تمہارا باطلی استدلال بہت ہی زربردست ہوتا ہے۔اور آپ نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم اس طرح بات کرتے ہو کہ اپنی بات کو حدیث کے قریب کرنا چاہتے ہو لیکن دور ہو جاتے ہو، حق کو باطل کے ساتھ اس طرح مخلوط کردیتے ہو کہ تھوڑا سا حق بہت سی باطل چیزوں سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے، تم اور مومن طاق بحث کے دوران ایک طرف سے دوسری طرف بھا گتے ہو اور تم دونوں اس میں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہو“۔
یونس کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ امام علیہ السلام نے جو قیس اور مومن کے سلسلہ میں کہا ہے وہی ہشام کے بارے میں بھی کہیں گے لیکن آپ نے ہشام کی بڑی تعریف کی اور ان کی شان میں فرمایا:
”یا ہشام لا تکاد تقع تلوی رجلیک إذا ھممت بالارض طرت“۔
”اے ہشام ! تمہارے دونوں پیر کبھی زمین پر ٹکنے نہیں پاتے جیسے ہی تم شکست کے قریب پہنچتے ہو فورا ً اڑجاتے ہو“۔
(یعنی جیسے ہی تم اپنے اندر لا چاری اور شکست کے آثار محسوس کرتے ہو بڑی مہارت سے خود کو بچالیتے ہو۔)
اس کے بعد آپ نے ہشام سے فرمایا: ”تم جیسے لوگوں کو مقرروں سے مناظرہ کرنا چاہئے اور یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ بحث کے دوران لغزش نہ ہونے پائے کیونکہ خداوند متعال اس طرح کے مناظرہ اور بحث میں ہماری مدد کو پہنچتا ہے تاکہ ہم اس کے مسائل کو واضح کر سکیں۔[12]
اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہشام بن حکم کے بارے میں فرمایا:
”ہشام ہمارے حق کا دفاع کرنے والے، ہمارے نظریات کو لوگوں تک پہنچانے والے، ہماری حقانیت کو ثابت کرنے والے اور بیہودہ باتیںاور لغو کلام کرنے والے دشمنوں کا دندان شکن جواب دینے والے ہیں ،جس نے ہشام بن حکم کی پیروی کی اور ان کے افکار میں غور خوض کیا اس نے گویا ہماری پیروی کی اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت کی“۔[13]
۲۳۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حضور ایک جاثلیق کا مسلمان ہونا
امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم وغیرہ سے شیخ صدوق علیہ الرحمةنے روایت کی ہے کہ ایک بہت ہی پڑھا لکھا عیسائی تھا جس کا نام ”بریھہ“تھا لیکن اسے لوگ ”جاثلیق“[14] کہا کرتے تھے۔وہ ستر سال سے مذہب عیسائیت پر باقی تھا اور وہ برابر اسلام اور حق کی تلاش میں جستجو اور کوشش کرتا رہتا تھا۔اس کے ساتھ ایک عورت رہتی تھی جو سالہا سال سے اس کی خدمت کرتی چلی آرہی تھی۔
بریھہ نے مذہب عیسائیت کے ہیچ اور گھٹیا استدلال کو اس عورت سے اس لئے چھپا رکھا تھا کہ وہ اس کے اس راز سے آگاہ نہ ہو سکے۔بریھہ برابر اسلام کے بارے میں سوالات کیا کرتا تھا اور اسلام کے راہبر علمائے صالح کی تلاش میں رہتا تھا اور اسلامی مفکروں کے حصول میں اس نے کافی جستجو اور تحقیق کی تھی ہر فرقہ اور ہر گروہ میں جا کر ان کے عقائد کے سلسلہ میں تحقیق کرتا رہتا لیکن حق اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔
جاثلیق ان لوگوں سے کہتاہے: اگر تمہارے راہنما حق پر ہوتے تو تم میں بھی تھوڑا بہت حق ضرور پایا جاتا۔
یہاں تک کہ اس نے اپنی جستجواور تحقیق کے درمیان شیعوں کے بارے میں اور ہشام بن حکم کا نام سنا۔
یونس بن عبد الرحمن (امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد )کہتے ہیں کہ ہشام نے کہا: ”ایک روز میں اپنی دکان (جو باب الکرخ میں واقع تھی) پر بیٹھا ہوا تھا اور کچھ لوگ مجھ سے قرآن پڑھ رہے تھے کہ نا آگاہ دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک گروہ بریھہ کے ساتھ چلا آرہا ہے جس میں بعض پادری تھے اور بعض دوسرے مختلف مذہبی منصب دار تھے وہ تقریبا ً سو افراد تھے، کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سروں پر عیسائیت کی مخصوص لمبی ٹوپیاں لگائے تھے۔بریھہ جاثلیق اکبر بھی ان لوگوں کے درمیان موجود تھا وہ سب میری دوکان کے پاس اکٹھا ہو گئے اور بریھہ کے لئے ایک مخصوص کرسی لگائی گئی وہ اس پر بیٹھ گیا۔اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے عصاوٴ ں پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔
بریھہ نے کہا: ”مسلمانوں میں کوئی ایسا علم کلام کامشہور عالم نہیں ہے جس سے میں نے عیسائیت مذہب کی حقانیت کے بارے میں بحث نہ کی ہو مگر میں نے ان میں ایسی چیز نہیں پایا جس سے میں شکست کھا جاوٴں، اب میں تیرے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں تجھ سے مناظرہ کروں“۔
یونس نے ہشام اور جاثلیق کے درمیان ہونے والے پورے مناظرہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا: ”تمام نصرانی ادھر ادھر بکھر گئے۔وہ آپس میں کہہ رہے تھے ”اے کاش !ہم ہشام کے سامنے نہ آئے ہوتے “بریھہ بھی واقعہ کے بعد بہت غم زدہ ہوا وہ اپنے گھر واپس آیا اور جو عورت اسکی خدمت کرتی تھی اس نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے کہ میں تجھے غمگین و پریشان دیکھ رہی ہوں ؟ “
بریھہ نے ہشام کے ساتھ ہوئے مناظرہ کی تفصیل اسے بتادی اور کہا کہ میرے غم زدہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔
اس عورت نے بریھہ سے کہا: ”وائے ہو تم پر!!تم حق پر رہنا چاہتے ہو یا باطل پر ؟ “
بریھہ نے جواب دیا: ”میں حق پر رہنا چاہتا ہوں“۔
اس عورت نے کہا: ”تمہیں جہاں بھی حق نظر آئے وہیں چلے جاوٴ اور ہٹ دھرمی سے دور رہو کیونکہ یہ ایک طرح کا شک ہے اور شک بہت ہی بری چیز ہے اور شک کرنے والے جہنمی ہوتے ہیں“۔
بریھہ نے اس عورت کی بات کو قبول کر لیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ صبح ہوتے ہی ہشام کے پاس جائے گا۔ صبح ہوتے ہی وہ ہشام کے پاس پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ ہشام کا کوئی ساتھی موجود نہیں ہے اس نے کہا: ”اے ہشام ! کیا تمہاری نظر میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی رائے کو تم بہتر جانتے ہو اور جس کی تم پیروی کرسکو؟“
ہشام نے کہا: ”ہاں اے بریھہ!“۔
بریھہ نے اس شخص کے اوصاف کے متعلق پوچھا اور ہشام نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے اوصاف بتا دیئے، بریھہ امام جعفر صادق علیہ السلا م سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا لہٰذا ہشام کے ساتھ اس نے عراق سے مدینہ کا سفر اختیار کیا ،وہ خادمہ بھی ان کے ساتھ تھی ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام سے ملاقات کریںمگر آپ کے گھر کے دالان ہی میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملا قات ہو گئی۔
”ثاقب المناقب “کی روایت کے مطابق ہشام نے ان کو سلام کیا بریھہ نے بھی ان کی تقلید میں آپ کو سلام کیا اس کے بعد امام جعفرصاد ق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی علت بتائی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اس وقت بہت کم عمر تھے(شیخ صدوق کی روایت کے مطابق ہشام نے بریھہ کی پورا واقعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو سنادیا )
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے جاثلیق کی گفتگو
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اے بریھہ ! تو اپنی کتاب انجیل کے بارے میں کس حد تک معلومات رکھتا ہے ؟ “
بریھہ: ”میں اپنی کتاب سے پوری طرح آگاہ ہوں“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس کے باطنی معنی پر کتنا اعتماد رکھتا ہے ؟ “
بریھہ: ”اتناہی جتنا مجھے اس پر عبور ہے“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے انجیل کی آیتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔
بریھہ امام سے اتنا مرعوب ہوگیا کہ وہ کہنے لگا: ”جناب مسیح آپ کی طرح انجیل کی تلاوت کیا کرتے تھے اس طرح کی تلاوت جناب عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں کرتا“۔اس کے بعد بریھہ نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طرف رخ کر کے عرض کیا: ”میں پچاس سال سے آپ یا آپ جیسے کسی شخص کی تلاش میں تھا“۔ اس کے بعد بریھہ وہیں مسلمان ہوگیا اور اس کے بعد بھی وہ راہ اسلام پر بڑے استحکام کے ساتھ ڈٹا رہا اس کے بعد ہشام بریھہ کو اس عورت کے ساتھ لے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور ہشام نے پوری بات آپ کو بتائی اور اس خادمہ اور بریھہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بھی آپ کو سنا دیا۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:
”ذُرِّیَّةً بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ “[15]
”وہ لوگ ایسے فرزندان تھے جو ایک دوسرے سے لئے گئے تھے اور خدا سمیع وعلیم ہے“۔
بریہہ کی امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ گفتگو
بریھہ: ”میں آپ پر فدا ہوں، توریت وانجیل اور دوسرے پیغمبر وں کی کتابیں آپ کے پاس کیسے اور کہاں سے آئیں ؟ “
امام جعفر صادق علیہ السلام: ”یہ کتابیں ان کی طرف سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں جو ہم ان لوگوں کی طرح ہی ان کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں خداوند عالم اس دنیا میں کسی ایسے کو اپنی حجت قرار نہیں دیتا کہ جب اس سے پوچھا جائے تو وہ یہ کہے: ”میں نہیں جانتا“۔
اس کے بعد بریھہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہی رہنے لگا اور آخر کار امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں وفات پا گیا امام جعفر صادق علیہ السلا م نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے غسل وکفن دیا اور خود ہی اسے قبر میں لٹا کر فرمایا:
”ھذا حواری من حواری المسیح علیہ السلام یعرف حق اللہ علیہ “
”یہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک تھا جو اپنے اوپر اللہ کے حق کو پہنچانتا تھا“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے اکثر اصحاب یہ آرزو کرتے تھے کہ اس کی طرح بلند مقام کے حامل ہو جائیں۔[16]
۲۴۔امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کے سامنے ابو یوسف کی لاچاری
مہدی عباسی بنی عباس کا تیسرا خلیفہ ایک دن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، ابو یوسف بھی (جو اہل بیت علیہم السلام کا پکا مخالف تھا ) اس بزم میں حاضر تھا اس نے مہدی عباسی کی طرف رخ کر کے کہا کہ مجھے موسیٰ بن جعفر سے چند سوال کرنے کی اجازت دیجئے تاکہ میرے سوال کے جواب نہ دینے کی وجہ سے وہ مجبور و لاچار ہو جائیں۔
مہدی عباسی نے کہا: ”میں اجازت دیتا ہوں“۔
ابو یوسف نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا: ”اجازت ہے کہ میں ایک سوال کروں ؟ “
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”سوال کر“۔
ابو یوسف نے کہا: ”جس نے حج کاا حرام باندھ رکھا ہو آیا اس کا سائے میں چلنا جائز ہے ؟ “
امام علیہ السلام نے کہا: ”جائز نہیں ہے“۔
ابو یوسف نے کہا: ”اگر کسی محرم نے زمین میں خیمہ نصب کر رکھا ہو تو کیا اس میں اس کاجانا جائز ہے؟“
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں جائز ہے“۔
ابو یوسف نے کہا: ”ان دونوں سایوں میں کیا فرق ہے کہ پہلے والے میں جائز نہیں اور دوسرے والے میں جائز ہے ؟ “
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”عورت پر اپنی ماہواری کے زمانہ میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا واجب ہے ؟ “
ابو یوسف نے کہا: ”نہیں“۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”کیا عورت پر عادت کے زمانہ میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے ؟ “۔
ابو یوسف نے کہا: ”ہاں“۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اب تو یہ بتا کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے کہ پہلے میں عورت پر قضاواجب نہیںہے اور دوسرے میں قضا واجب ہے؟“
ابو یوسف نے کہا: ”احکام میں اسی طرح آیا ہے ؟ “
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”حج کے زمانہ میں احرام باندھ لینے والے کے لئے بھی اسی طرح کا حکم آیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا شرعی مسائل میں قیاس درست نہیں ہے“۔
ابو یوسف اس جواب سے پانی پانی ہو گیا،مہدی عباسی نے اس سے کہا: ”انھیں شکست دینا چاہتا تھا مگر کامیاب نہ ہو پایا“۔
ابو یوسف نے کہا: ”رمانی بحجر دامغ “موسیٰ بن جعفر نے مجھے ہلاکت خیز پتھر سے قتل کر دیا جس کی وجہ سے میں بے بس ولاچار ہو گیا۔[17]
۲۵۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا ہارون کے ساتھ مناظرہ
ہارون رشید خلفائے بنی عباس میںسے پانچواںخلیفہ تھا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران اس نے امام علیہ السلا م کو مخاطب کر تے ہوئے کہا: ” آپ نے خاص و عام میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپ پیغمبر کی اولادہیں جب کہ آنحضرت کے کوئی بیٹا ہی نہیں تھا جس کے ذریعہ ان کی نسل آگے بڑھتی، اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل ہمیشہ بیٹے کی طرف سے آگے بڑھتی ہے اور آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی ابھی حاضر ہو جائیں اور تیری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تو انھیں مثبت جواب دے گا ؟ “
ہارون: ”میں صرف مثبت جواب ہی نہیں دوں گا“۔بلکہ ان سے رشتہ جوڑکر میں عرب و عجم کے درمیان فخر کروں گا۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بیٹی کو پیغام نہیں دیں گے اور میں اپنی لڑکی کو ان کی زوجہ نہیں بنا سکتا“۔
ہارون: ”کیوں“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس لئے کہ میری ولادت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سبب سے ہے (کیونکہ میں ان کا نواسہ ہوں )لیکن تیری پیدائش میں وہ سبب نہیں بنے ہیں“۔
ہارون: ”واہ ! بہت اچھا جواب ہے، اب میرا یہ سوال ہے کہ آپ لوگ کیوں خود کو پیغمبر اکرم کی ذریت سے کہتے ہو جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی نسل ہی نہیں تھی کیونکہ نسل لڑکے سے چلتی ہے نہ کہ لڑکی سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کوئی لڑکا نہیں تھا اور آپ ان کی لڑکی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نہیں ہوگی ؟!
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”کیا میں جوا ب دوں ؟“
ہارون: ”ہاں“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں سورہٴ انعام کی ۸۴ ویں آیت میں ارشادفرماتا ہے:
”وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ . وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ ۔۔۔“[18]
”اور اس کی ذریت سے دادوٴ،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون ہیں اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزادیا کرتے ہیں اور اسی طرح زکریا ویحیٰ و عیسیٰ والیاس یہ سب صالحین میں سے تھے“۔
اب میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کون باپ تھا ؟
ہارون: ”جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہیں تھا“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”جس طرح خداوند متعال نے مذکورہ آیت میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کو ماں کی طرف سے پیغمبروں کی ذریت میں قرار دیا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام للہ علیہا کی طرف سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذریت میں شامل ہیں“۔
اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”آیا میں اپنی دلیل اور آگے بڑھاوٴں؟“
ہارون نے کہا: ”ہاں بڑھایئے“۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خداوند متعال (مباہلہ کے متعلق )فرماتا ہے:
” فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ “[19]
”اب تمہارے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی (نصاریٰ)کٹ حجتی کرے تو ا ن سے کہہ دوکہ آئیں ہم اپنے بیٹوں کو لے آئیں تم اپنے بیٹوں کو ،ہم اپنی عورتوں کو لے آئیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو لے آئیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھرمباہلہ کرکے جھوٹوں پر لعنت کریں“۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آنحضرت نے مباہلہ کے وقت حضرت علی ،اور فاطمہ زہرا،امام حسن اور امام حسین (سلام اللہ علیہم)کے علاوہ انصار یامہاجرین میں سے بھی کسی کو ساتھ لیا ہو، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”انفسنا“ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور ”ابنائنا“سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔خداوند متعال نے حسنین علیہما السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیٹے کہہ کر یاد کیا ہے۔
ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی واضح دلیل قبول کر لی اور کہا: بہت خوب اے موسیٰ۔[20]
۲۶۔امام علی رضا علیہ السلام کا ابو قرة سے مناظرہ
ابو قرة(اسقف اعظم کے دوستوں میں تھا)امام علی رضا علیہ السلام کے زمانہ کے خبر پردازوں میں تھا۔
امام علی رضا علیہ السلام کے ایک شاگرد صفوان بن یحییٰ کہتے ہیں کہ ابو قرة نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اسے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں لے جاوٴں۔
میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے اجازت لی ،آپ نے اجازت دے دی۔ابو قرة نے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر احکام دین ،حلال وحرام کے سلسلے میں چند سوالات کئے۔یہ سوال طول پکڑتے پکڑتے مسئلہ توحید تک پہنچ گیا جس کے بارے میں ابو قرة نے اس طرح سوال کیا:
مجھ سے کچھ لوگوں نے روایت کی ہے کہ خداوند عالم نے اپنا دیدار اور اپنی بات چیت کو دو پیغمبروں کے درمیان تقسیم کر رکھا ہے (یعنی خد ا وند عالم نے دو پیغمبروں کا انتخاب کیا ہے تاکہ ایک سےگفتگو کرے اور دوسرے کو اپنا کو دیدار کرائے )۔لہٰذا اس نے ہم کلام ہونے کا مرتبہ جناب موسیٰ علیہ السلام کو دیا اور اپنے دیدار کا رتبہ اور منزلت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو عطا فرمایا: ”اس بنا پر خدا ایک ایسا وجود رکھتا ہے جسے دیکھا جا سکتا ہے“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اگر اس طرح ہوتو جس پیغمبر نے جن وانس کو یہ بتا یا ہے کہ آنکھیں خدا کو دیکھ نہیں سکتی ہیں اور اپنی مخلوقات کے سلسلے میں جو اسے آگاہی ہے اس کا احاطہ کرنا اور اس کی ذات کو سمجھنا کسی کے بس میں نہیں ہے وہ اپنا شبیہ اور مثل نہیں رکھتا ہے وہ کون پیغمبر تھا؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی نے اس طرح نہیں فرمایاہے؟
ابو قرة: ”ہاں انھوں نے ایسا ہی فرمایا“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ جولوگوں کے لئے خدا کی طرف سے آیا ہواور لوگوں کو دعوت حق دے اور لوگوں سے کہے کہ یہ آنکھیں اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ خداکو دیکھ سکیں ،اس کا کوئی شبیہ نہیں اور اس کے بعد خود ہی پیغمبر یہ کہے کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے خدا کو دیکھا ہے اور اس کے احاطہ علمی کو درک کیا ہے کیاوہ انسان کی طرح دیکھا جا سکتا ہے کیا تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی ؟ “
بے دین اور ٹیڑھے دل والے افراد بھی اس طرح کی کوئی نسبت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں دے سکے کہ پہلے انھوں نے اس طرح فرمایا اور اس کے اس بر عکس کہنے لگے۔
ابو قرة: ”خدا وند متعال خود قرآن مجید کے سورہٴ نجم (آیت ۱۳ )میں فرماتا ہے:
”وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً اٴُخْرَی“
”اور سول خدا نے خدا کو دوبارہ دیکھا“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اسی جگہ سورہٴ نجم کی ۱۱ویں آیت بھی ہے جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو دیکھا ہے اسے بیان کیا ہے۔
” مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٴَی“
”ان کے دل نے جو کچھ دیکھا اسے کبھی نہیں جھٹلایا“۔
اور اسی سورہ میں آیت نمبر ۱۸ میں خدا وند متعال نے اس چیز کا بھی پتہ بتا دیا جسے پیغمبر اکرم نے دیکھا ہے:
”لَقَدْ رَاٴَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی “[21]
”اس نے اپنے پروردگار کی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں“۔
پس وہ نشانیاں جنھیں رسول نے دیکھی وہ ذات خدا کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔
اس طرح خدا وند عالم (سورہٴ طہ کی ۱۱۰ ویں آیت میں )ارشاد فرماتا ہے:
”وَلاَیُحِیطُونَ بِہِ عِلْمًا“
”وہ خدا وند عالم سے آگاہی نہیں رکھتے“۔
اس بنا پر اگر آنکھیں خدا کو دیکھ سکتی ہیں اور سمجھ سکتی ہیں تو اس کے آگاہی اور علم کا احاطہ بھی کر سکتی ہیں (جب کہ مذکورہ آیت میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کے علم وآگاہی کا احاطہ نا ممکن ہے )
ابو قرة: ”توتم ان روایتوں کی تکذیب کر رہے ہو جن میں یہ کہا گیا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے خدا کو دیکھا ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ”اگر روایتیں قرآن کے مخالف ہوں گی تو میں ان کی تکذیب کروں گا اور تمام مسلمان جس رائے پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ نہ اس کے علم وآگاہی کا کوئی احاطہ کر سکتا ہے اور نہ ہی آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہے وہ کسی بھی چیز سے شباہت نہیں رکھتا“۔[22]
نیز صفوان کہتے ہیں: امام علی رضا علیہ السلام سے ملنے کی اجازت کے لئے ابو قرة نے مجھے واسطہ قرار دیا اور اجازت ملنے کے بعدوہ وہاں پہنچ کر اول چند سوال حرام اور حلال کے سلسلے میں دریافت کئے یہاں تک کہ ابو قرة نے پوچھا: آیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ خدا محمول ہے؟“
امام علی رضا علیہ السلام: ”محمول اس کو کہتے ہیں کہ جس پر کوئی فعل حمل ہو ا ہواور اس حمل کی نسبت کسی دوسرے کی طرف دی گئی ہو اور محمول ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی نقص اور دوسرے کے سہارے کے ہوتے ہیں جسے نسبت کہا جاتا ہے مثلاًتم کہتے ہو زیر ،زبر،اوپر نیچے جس میں زبر اور اوپر کا لفظ قابل تعریف اور اچھا سمجھا جاتا ہے اور زیر اور نچے کا لفظ ناقص سمجھا جاتا ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ خداوند متعال قابل تغیر ہو۔خدا خود حامل یعنی تمام چیزوں کی نگہداشت کرنے والاہے اور لفظ محمول بغیر کسی کے سہارے کے کوئی معنی ومفہوم نہیں رکھتا (اس بنا پر اس کے لئے لفظ محمول مناسب نہیں ہے) اور جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی عظمت کاقائل ہے، اس لئے تم نے کبھی یہ نہ سنا ہوگا کہ اللہ سے دعاکرتے وقت اسے ”اے محمول“کہہ کر پکارا جائے! “
ابو قرة: ”خدا وند متعال قرآن کریم (سورہٴ حاقہ ، آیت ۱۷)میں ارشاد فرماتا ہے:
” وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ“
”اور اس دن آٹھ لوگ تمہارے پروردگار کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے“۔
اور اسی طرح (سورہٴ غافر کی ساتویں آیت میں)فرماتا ہے:
”الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ“
”جوعرش اٹھاتے ہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”عرش ،خدا کانام نہیں ہے بلکہ عرش علم اور قدرت کا نام ہے اور ایک ایسا عرش ہے کہ جس کے درمیان تمام چیزیں پائی جاتی ہیں اس کے بعد خدا وند متعال نے حمل اور عرش کی نسبت اپنے فرشتوں کی طرف دی ہے۔
ابو قرة: ”ایک روایت میں آیا ہے کہ جب بھی خداوند متعال غضبناک ہوتا ہے تو فرشتے اس کے غصہ کے وزن کو اپنے کاندھوں پر محسوس کرتے ہیں اور سجدہ میں گرجاتے ہیں جب خداکا غصہ ختم ہوجاتا ہے تو ان کے کاندھے ہلکے ہو جاتے ہیں اور اپنی عام حالت میں واپس آجاتے ہیں۔کیا آپ اس روایت کی بھی تکذیب کریں گے؟ “
امام علی رضا علیہ السلام نے اس روایت کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ”اے ابو قرة! تو یہ بتا کہ جب خدا وند عالم نے شیطان پر لعنت کی اور اپنے دربار سے نکالا تب سے لے کر آج تک کیا خدا شیطان سے خوش ہوا ہے ؟(ہرگز اس سے خوش نہیں ہوا)بلکہ ہمیشہ شیطان اور اس کے چاہنے والے اور اس کی پیروی کرنے والوں پر غضبناک ہی رہا ہے (اس طرح تیرے قول کے مطابق اس وقت سے لے کر آج تک تمام فرشتوں کو سجدہ کی حالت میں رہنا چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ عرش خدا کانام نہیں ہے )
پس تو اس وقت کس طرح یہ جرائت کرتا ہے کہ اپنے پروردگار کو تغیر و تبدل جیسے صفتوں سے یاد کرے اور اسے مخلوق کی طرح مختلف حالات سے متصف کرے۔وہ ان تمام چیزوں سے پاک و پاکیزہ ہے اس کی ذات غیر قابل تغیرو تبدل ہے ،دنیا کی تمام چیزیں اس کے قبضے میں ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔[23]
۲۷۔ ایک منکر خدا سے امام علی رضا علیہ السلام کا مناظرہ
امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک منکرخداآیا،آپ نے اس سے فرمایا:
”اگر تو حق پر ہے (جب کہ ایسا نہیں ہے)تو اس صوت میں ہم اور تم دونوں برابر ہیں اور نماز، روزہ،حج،زکات اور ہمارا ایمان ہمیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر ہم حق پر ہیں(جب کہ ایسا ہی ہے ) تو اس صورت میں ہم کامیاب ہیں اور تو گھاٹے میں ہے اور اس طرح تو ہلاکت میں ہوگا“۔
منکر خدا: ”مجھے یہ سمجھائیں کہ خدا کیا ہے ؟کہاں ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ” وائے ہو تجھ پرکہ تو جس راستے پر چل رہا ہے وہ غلط ہے ،خدا کو کیفیتوں (وہ کیسا ہے اور کیسا نہیں ہے) سے متصف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسی نے اشیاء میں کیف و کیفیت کو پیدا کیا ہے اور نہ ہی اسے مکان سے نسبت دی جا سکتی ہے کیونکہ اسی نے حقیقت مکان کو وجود بخشا ہے۔اسی بنا پر خدا وند متعال کو کیفیت اور مکان سے نہیں پہچاناجاسکتا اور نہ ہی وہ حواس سے محسوس کیاجا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کی شبیہ ہو سکتا ہے۔
منکر خدا: ”اگر خدا وند متعال کسی بھی حسی قوت سے در ک نہیں کیا جا سکتا ہے تو وہ کوئی وجود نہیں ہے“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”وائے ہو تجھ پر تیری حسی قوتیں اسے درک کرنے سے عاجز ہوں تو اس کا انکار کر دے گا لیکن میں جب کہ میری بھی حسی قوتیں اسے درک کرنے سے عاجز ہیں ،اس پر ایمان رکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ ہمارا پروردگار ہے اور وہ کسی کی شبیہ نہیں ہے“۔
منکر خدا: ”مجھے یہ بتائیں کہ خدا کب سے ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ”تو یہ بتا کہ خدا کب نہیں تھا تاکہ میں تجھے یہ بتاوٴں کے کہ خدا کب سے ہے ؟ “
منکر خدا: ”خدا کے وجود پرکیا دلیل ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ”میں جب اپنے پیکر کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس کے طول وعرض میں کسی طرح کی کوئی کمی و بیشی نہیں کر سکتا اس سے اس کا نقصان دور نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے فوائد اس تک پہنچا سکتا ہوں، اسی بات سے مجھے یقین ہو گیا کہ اس پیکر کا کوئی بنانے والا ہے اور اسی وجہ سے میں نے وجود صانع کا اقرار کیا۔اس کے علاوہ بادل بنانا، ہواوٴں کا چلانا ،آفتاب اور ماہتاب کو حرکت دینا، اس بات کی نشانی ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ضرور ہے۔[24]
۲۸۔مشیت اور ارادہ کے معنی کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
یونس بن عبدالرحمن ،امام علی رضا علیہ السلام کے شاگرد تھے، ان کے زمانہ میں ”قضا وقدر‘کی بڑی گرما گرم بحثیں ہو اکرتی تھیں لہٰذ یونس نے سوچا اس کے متعلق خود امام علی رضا علیہ السلام کی زبانی کچھ سننا چاہئے، یہ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور قضاو قدر کی بحث کے متعلق گفتگو کرنے لگے امام علی رضاعلیہ السلام نے فرمایا:
اے یونس ! قدر یہ کا عقیدہ قبول نہ کرو کیونکہ ان کا عقیدہ نہ تو دوزخیوں سے ملتا ہے اور نہ ہی شیطان سے اورنہ ۔۔۔۔[25]
یونس: ”خدا کی قسم مجھے اس سلسلے میں قدریہ کا عقیدہ قبول نہیں ہے، بلکہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کے حکم اور ارداہ کے بغیر کوئی چیز وجود میں آتی ہی نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اے یونس ! ایسانہیں ہے، بلکہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ انسان بھی اپنے امور میں مختار رہے، کیا تم مشیت خدا کا مطلب جانتے ہو؟ “
یونس: ”نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”مشیت خدا،لوح محفوظ ہے۔کیا تم ارادہ کے مطلب جانتے ہو؟ “
یونس: ”نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”ارادہ یعنی وہ جو چاہے وہ ہو جائے۔کیا تم قدر کے معنی جانتے ہو؟ “
یونس: ”نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”قدر یعنی اندازہ،تخمینہ اور احاطہ ہے جیسے مدت حیات اورموت کا علم، اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”قضا کا مطلب ہے مضبوط بنانا اور عینی وواقعی قراردینا“۔
یونس ،امام علی رضا علیہ السلام کی اس توضیح سے مطمئن اور خوش حال ہو کر چلنے کو تیار ہوگئے، انھوں نے امام کے سر اقدس کو بوسہ لیتے ہوئے آپ سے چلنے کی اجازت چاہی اور کہا: ”آپ نے میری وہ مشکل حل کر دی جن کے متعلق میں غفلت میں تھا۔ [26]
۲۹۔ امام علی نقی (ع) کی فضیلت میں مامون کا بنی عباس سے مناظرہ
شیخ مفید علیہ الرحمة کتاب ”ارشاد“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عباسی دور کا ساتواں خلیفہ مامون رشید ،امام علی نقی علیہ السلام پر فریفتہ ہو گیا تھا کیونکہ اس نے امام کے علم و فضل اور کمال کا مشاہدہ ان کےبچپن میں ہی کر لیا تھا۔اس نے دیکھا کہ جو علم وکمال امام کی ذات میں پائے جاتے ہیں وہ اس دور کے بڑے بڑے علماء اور دانشوروں میں دکھائی نہیں پڑتے۔
انھیں کمالات کی بنا پر مامون نے اپنی لڑکی (ام فضل)کی شادی آپ سے کر دی اور مامون نے امام کو بڑی شان وشوکت سے مدینہ کی طرف روانہ کیا۔حسن بن محمد سلیمانی ،ریان بن شبیب سے روایت کرتے ہیں کہ جب مامون نے چاہا کہ اپنی بیٹی ام فضل کی شادی امام علی نقی علیہ السلام سے کرے اور یہ بات بنی عباس کے کانوں تک پہنچی تو انھیں یہ بات بہت گراں محسوس ہوئی اور وہ مامون کے اس ارادہ سے بہت ناراض ہوئے انھیں اس بات کا خوف لاحق ہوگیا کہ ولیعہدی کا منصب کہیں بنی ہاشم کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔
اسی وجہ سے بنی عباس کے تمام افراد نے ایک جگہ جمع ہوکر مامون سے کہا: ”اے امیر الموٴمنین! ہم لوگ تجھے خدا کی قسم دیتے ہیں کہ تونے جو ام الفضل کی شادی امام علی نقی علیہ السلام سے کرنے کا ارادہ کیا ہے اسے ترک کردے ورنہ اس چیز کا امکان پایا جاتا ہے کہ خداوند متعال نے جو ہمیں منصب و تخت و تاج عنایت فرمایا ہے،وہ ہمارے ہاتھ سے چلا جائے اور جو مقام ومنزلت اور عزت و حشمت کا لباس ہمارے تن پر ہے وہ اتر جائے کیونکہ خاندان بنی ہاشم سے ہمارے آباء اجداد کی دشمنی سے تو اچھی طرح واقف ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گزشتہ تمام خلفاء نے انھیں شہر بدر کیا اور انھیں ہمیشہ جھوٹا سمجھتے رہے اس کے علاوہ تونے جو حرکت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ کی تھی اس سے ہمیں بہت تشویش ہوئی تھی لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچالیاتجھے خدا کی قسم ہے کہ تو اپنے اس عمل میں ذرا غور وفکر کر جس نے ہمارے دلوں میں تکلیف پیدا کر دی ہے، تو اس ارادہ سے باز آجا اور ام فضل کا رشتہ خاندان بنی عباس کے کسی مناسب فرد سے کردے۔
مامون نے بنی عباس کے اعتراض کے جواب میں کیا: ”تمہارے اور ابو طالب کے بیٹوں کے درمیان کینہ پروری اور دشمنی کی وجہ خود تم لوگ ہو !!اگر انھیں انصاف سے ان کا حق دے دو تو اس منصب خلافت کے وہی حقدار ہوتے ہیں لیکن جیسا تم نے بیان کیا کہ ہمارے گزشتہ خلفاء نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیامیں ایسے کاموں سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں خدا کی قسم جو بھی میں نے امام علی رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کے لئے کیا تھا اس پر میں ذرا بھی پشیمان نہیں ہوں۔میں نے تو یہی چاہاتھا کہ وہ خلافت کے امور کو سنبھال لیں مگر خود انھوں نے ہی اسے قبول نہیں کیا اس کے بعد خدا نے کیا کیا یہ تم لوگوں نے خود یکھا۔لیکن جس کی وجہ سے میں نے امام جواد کو اپنا داماد بنانا چاہا ہے وہ ان کا بچپن کا علم وفضل ہے وہ تمام لوگوں سے افضل وبرتر ہیں اور ان کی عقل کی بلندی اس عمر میں بھی تعجب خیز ہے، میں تو یہ سوچتا ہوں کہ میری نظروں نے جو دیکھا ہے اس کا تم لوگوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے اور بہت جلد ہی تمہیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ میں نے جس راستہ کا انتخاب کیا ہے وہی درست ہے“۔
ان لوگوں نے مامون کے جواب میں کہا: ”بیشک اس کم عمر نوجوان کی رفتار و کردار نے تجھے تعجب میں ڈال دیا ہے اور اس طرح اس نے تجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے لیکن جو بھی ہو وہ ابھی بچہ ہے اس کا علم و ادراک ابھی کم ہے اسے کچھ دن چھوڑ دے تاکہ وہ با عقل اور علم دین میں فقیہہو جائے اس کے بعد جو تیرا دل چاہے کرنا“۔
مامون نے کہا: ”تم لوگوں پر وائے ہو ،میں اس جوان کو تم سے زیادہ جانتاہوں اور اسے بہت اچھی طرح سے پہچانتا ہوں،یہ جوان اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جوخدا کی طرف سے علم لے کر آتا ہے اور اس کا علم لامحدود ہے کیونکہ اس کے علم کا تعلق امام سے ہوتا ہے اس کے تمام آباوٴاجداد علم دین میں تمام لوگوں سے بے نیاز تھے اور دوسرے لوگ ان کے کمال کے سامنے بے حیثیت تھے اور ان کی ڈیوڑھی پر علم وکمال کے حصول کے لئے ہاتھ پھیلائے کھڑے رہتے تھے اگر تم میری باتوں کی تصدیق کرنا چاہتے ہو تو ان کا امتحان لے لو تاکہ تمہارے نزدیک بھی ان کا فضل وکمال واضح ہو جائے“۔
ان لوگوں نے کہا: ”یہ اچھا مشورہ ہے اور اس بات پر ہم خوش بھی ہیں کہ اس بچہ کی آزمائش ہوجائے اب تو ہمیں اس بات کی اجازت دے کہ ہم کسی ایسے شخص کو لے آئیں جو اس نوجوان سے مسائل شرعیہ کے بارے میں بحث ومناظرہ کر سکے وہ چند سوالات کرے گا اگر انھوں نے اس کے سوالات کے صحیح جواب دیئے تو ہم تجھے اس کا م سے ہر گز نہیں روکیں گے اور اس طرح تجھ پر اپنے پرائے کا فرق بھی واضح ہو جائے گا اور اگر یہ نوجوان جواب دینے سے قاصر رہا تو تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہمارا یہ مشورہ مستقبل کے لئے کتنا مفید ہے“۔
مامون نے کہا: ”جہاں بھی تم چاہوان کا امتحان لے سکتے ہو میری طرف سے یہ اجازت ہے“۔
وہ لوگ مامون کے پاس سے چلے گئے اور بعد میں سب نے مل کر یہ پیش کش کر دی کہ مشہور زمانہ عالم اور قاضی یحییٰ بن اکثم کو امام کے مقابل لایاجائے۔
امام محمد تقی علیہ السلام میدان علم و دانش کے مجاہد
وہ سارے اعترض کرنے والے یحییٰ بن اکثم کے پاس گئے اور اسے ڈھیروں دولت کا لالچ دے کر امام علیہ السلام سے مناظرہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔
ادھر کچھ لوگ مامون کے پاس تاریخ معین کرنے پہنچ گئے ،مامون نے تاریخ معین کر دی،معین دن اس دور کے بڑے بڑے علماء یحییٰ بن اکثم کے ساتھ موجود تھے ،مامون کے حکم کے مطابق امام محمد تقی علیہ السلام کے لئے مسند بچھائی گئی اور تھوڑی دیر بعد امام علیہ السلام تشریف لے آئے (اس وقت آپ کی عمر محض نو سال تھی)مامون کی مسند بھی آپ کے بالکل قریب بچھی ہوئی تھی وہ اس پر آکر بیٹھ گیا اور دوسروں کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔یحییٰ بن اکثم نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: ”اے امیر الموٴمنین ! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں ابو جعفر سے سوال کروں؟“
مامون: ”خود ان سے اجازت لو“۔
یحییٰ بن اکثم نے آپ کی طرف مڑکر کہا: ”میں آپ پر قربان ہو جاوٴں کیا مجھے سوال کرنے کی اجازت ہے ؟ “
امام محمد تقی علیہ السلام: ”پوچھو“۔
یحییٰ: ”اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے حالت احرام میں شکار کیا ہو“۔
امام محمد تقی علیہ السلام: ”آیا حرم میں قتل کیا ہے یاحرم سے باہر ؟وہ مسئلہ اور حکم سے آگاہ تھا ہی نہیں؟جان بوجھ کر شکار کیا یابھول کر ؟پہلی دفعہ تھا یا اس سے پہلے بھی چند دفعہ ایسا کر چکا تھا؟وہ شکار پرندہ تھا یا اس کے علاوہ کچھ اور ؟وہ شکار چھوٹا تھا یا بڑا اور ساتھ ساتھ اس کام میں وہ بے باک تھا یا پشیمان ؟دن میں تھا یا رات میں؟احرام عمرہ میں تھایا احرام حج میں؟(ان بائیس (۲۲) قسموں میں سے کون سی قسم تھی کیونکہ ان سب کا حکم الگ الگ ہے )
یحییٰ ان سوالات کے سامنے حیرت زدہ ہو گیا اور اس کی بے بسی اور لاچاری کی کیفیت چہرہ سے ظاہرہونے لگی،اس کی زبان لکنت کرنے لگی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر تمام لوگوں نے امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے اسے بے بس اور لاچار سمجھ لیا۔
مامون نے کہا: ”خدا وند عالم کی اس نعمت پر شکر ادا کرتا ہوں کہ جو میں نے سوچ رکھا تھا وہی ہوا، اس کے بعد اس نے تمام خاندان کے افراد کی طرف رخ کر کے کہا: ”تم لوگوں نے دیکھا“۔اس کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کا نکاح مامون کی بیٹی سے ہو گیا۔[27]
۳۰۔ عراقی فلسفی کی حالت متغیر کردینے والا ایک مناظرہ
اسحاقِ کندی جو کافر تھا، عراق کا بہت بڑا عالم اور فلسفی مانا جاتا تھا ،اس نے قرآن کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ بعض آیتیں بعض کے خلاف ہیں تو اس نے ایک ایسی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا جس میں تناقض قرآن کوجمع کردیا گیا ہو،اس نے یہ کام شروع کردیا۔
اس کا ایک شاگرد امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے اس سے فرمایا: ”کیا تمہارے درمیان کوئی عاقل و باشعور شخص نہیں ہے جو اسحق کو اس کے اس کام سے باز رکھے؟“
شاگرد نے کہا: ”میں اس کا شاگرد ہوں، اسے اس کام سے کیسے باز رکھ سکتا ہوں“۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جسے تم اسحاق کندی سے کہنا ،تم اس کے پاس جاوٴ اور چند دن تک اس کے اس کام میں اس کی مدد کرتے رہو جب وہ تمہیں اپنا قریبی دوست سمجھ لے اور تم سے مانوس ہو جائے تو اس سے کہو کہ میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں وہ کہے گا ”پوچھو“۔تو تم اس سے کہنا: ”اگر قرآن کا بھیجنے والا تمہارے پاس آئے اور آکر کہے کہ جس آیت کے معنی تم نے مراد لئے ہیں ، آیا اس کے معنی اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتے ؟“، اسحاق کندی کہے گا“، ہاں ،یہ امکان پایا جاتا ہے“۔تب تم اس سے کہنا کہ تمہیں کیا معلوم؟! ہوسکتا ہے کہ اس آیت سے جو معنی تم نے سمجھے ہیں خدا نے اس کے علاوہ کوئی دوسرے معنی مراد لئے ہوں“۔
شاگرد اسحاق کندی کے پاس پہنچا اور کچھ دن تک اس کی کتاب کی تالیف میں اس کی مدد کرتا رہا یہاں تک کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے حکم کے مطابق اس نے اسحاق کندی سے کہا: ”آیا اس بات کا امکان ہے کہ خداوند متعال نے اس معنی کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب مراد لیا ہو جو تم نے سمجھا ہے؟“۔
استاد نے کہا: ”ہاں ممکن ہے کہ خداوند متعال نے ظاہری معنی سے ہٹ کر کوئی اور معنی مراد لئے ہوں“۔
اس کے بعد اس نے شاگرد سے کہا: ”یہ بات تجھے کس نے بتائی ؟ “
شاگرد نے کہا: ”یوں ہی میرے دل میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا“۔
اس نے کہا: ”یہ بہت ہی معیاری اور پائے کا کلام ہے،ابھی تووہاں تک نہیں پہنچ سکا ہے سچ بتا یہ کس کاکلام ہے ؟ “
شاگرد نے کہا: حضرت امام صادق علیہ السلام کا۔
اسحاق کندی نے کہا: ”ہاں تونے صحیح کہا، اس طرح کی باتیں اس خاندان اہل بیت علیہ السلام کے علاوہ کہیں اور کوئی فرد نہیں کہہ سکتا“۔
اس کے بعد اسحاق کندی نے آگ منگواکر وہ ساری چیزیں جلاڈالیں جو اس نے تناقض قرآن کے متعلق لکھی تھیں۔[28]
دوسرا حصہ:
اکابر علمائے اسلام کے مختلف گروہوں کے ساتھ مناظرے
۳۱۔سبط ابن جوزی سے ایک ہوشیار عورت کا مناظرہ
سبط ابن جوزی اہل سنت کے ایک بہت ہی مشہور ومعروف عالم تھے ،اس نے بہت ہی اہم کتابیں بھی لکھی ہیں یہ بغداد کی مسجدوں میں وعظ کیا کرتے تھے اور لوگوں کی تبلیغ کرتے تھے ۱۲ رمضان المبارک ۵۹۸ ھ کو ان کی وفات ہوئی۔[29]
حضرت علی علیہ السلام کی مشہور فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ اکثر بھرے مجمع میں ” سلونی قبل ان تفقدونی“کہا کرتے تھے۔اس طرح کی باتیں آپ اور دوسرے معصوم ائمہ علیہم السلام سے مخصوص ہیں ان کے علاوہ جس نے بھی اس کا دعویٰ کیا وہ ذلیل ہوا،اب آپ ایک باہمت عورت کا سبط ابن جوزی کے ساتھ مناظرہ ملاحظہ فرمائیں:
سبط ابن جوزی نے بھی ایک دن منبر پر جانے کے بعد دعوائے سلونی کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ اے لوگو! تمہیں جو کچھ بھی پوچھنا ہے پوچھ قبل اس کے میں تمہارے درمیان نہ رہوں، منبر کے نیچے بہت سے شیعہ سنی مرد اور عورت بیٹھے ہوئے تھے۔یہ سنتے ہی ان میں سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور اس نے سبط ابن جوزی سے اس طرح سوال کیا۔
تم مجھے یہ بتاوٴکہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ جب عثمان کو قتل کر دیا گیا تو ان کا جنازہ تین دن تک پڑا رہا اور کوئی بھی انھیں دفن کرنے نہ آیا؟
سبط: ”ہاں ایسا ہی ہے ۔“
عورت: ”کیا یہ بھی صحیح ہے کہ جب جناب سلمان علیہ الرحمة نے مدائن میں وفات پائی تو حضرت علی علیہ السلام مدینہ (یا کوفہ) سے مدائن گئے اور آپ نے ان کی تجہیز وتکفین میں شرکت کی اور ان کی نماز جناز ہ پڑھائی ؟“
سبط: ”ہاں صحیح ہے“۔
”لیکن علی علیہ السلام عثمان کی وفات کے بعد ان کے جنازے پر کیوں نہیں گئے جب کہ وہ خود مدینہ میں موجود تھے اس طرح دوہی صورت رہ جاتی ہے یا توحضرت علی علیہ السلام نے غلطی کی کہ ایک مومن کی لاش تین دن تک پڑی رہی اور آپ گھر ہی میں بیٹھے رہے یا پھر عثمان غیر مومن تھے جس کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تجہیز وتکفین میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں لیا اور اپنے عمل کو اپنے لئے درست سمجھا۔”یہاں تک کہ انھیں تین روز بعد مخفی طور پر قبرستان بقیع کے پیچھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیاگیا جیسا کہ طبری نے اپنی تاریخ میں یہ ذکر کیا ہے (ج۹،ص۱۴۳۔)
ابن جوزی اس عورت کے اس سوال کے آگے بے بس ہو گیا کیونکہ اس نے دیکھا کہ اگر دونوں میں سے کسی ایک کو بھی خطا کار ٹھہرا ئے گا تو یہ بات خلاف عقیدہ ہوجائے گی کیونکہ اس کے نزدیک دونوں خلیفہ حق پر تھے لہٰذا اس نے اس عورت کو مخاطب کر تے ہوئے کہا:
اے عورت !وائے ہوتجھ پر،اگر تو اپنے شوہر کی اجازت سے گھر کے باہر آئی کہ نامحرموں کے درمیان مناظرہ کررہی ہے، تو خدا تیرے شوہر پر لعنت کرے اور اگر بغیر اجاز ت آئی ہے تو خدا تجھ پر لعنت کرے“۔
اس ہو شمند عورت نے بڑی بے باکی سے جواب دیا:
”آیا عایشہ جنگ جمل میں مولائے کائنا ت علی ابن ابی طالب سے لڑنے اپنے شوہر رسول اکرم کی اجازت سے آئیں تھیں یا بغیر اجازت کے ؟“
یہ سوال سن کر سبط ابن جوزی کے رہے سہے ہوش بھی جاتے رہے اور وہ بوکھلا گیا کیونکہ اگر وہ یہ کہے کہ عائشہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ہی آئی تھیں تو عائشہ خطاکار ہوں گی اور اگر یہ کہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت سے باہر آئیں تھیں تو علی علیہ السلام خطاکار ٹھہرتے تھے، یہ دونوں صورت حال اس کے اس عقیدہ کے خلاف تھیں، لہٰذا وہ نہایت بے بسی کے عالم میں منبر سے اتر ا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔[30]
۳۲۔ایک حملہ میں تین سوالوں کے جواب
بہلول بن عمرو کوفی امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم علیہما السلام کے زمانہ کے ایک زبردست عالم تھے انھوں نے ہارون کے سامنے پیش کئے جانے والے عہدہ قضاوت سے جان چھڑانے کے لئے خود کو دیوانہ بنا لیا تھا ، وہ مناظر ہ میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور مخالف کے الٹے سیدھے اعتراضوں کا بڑا عمدہ جواب دیاکرتے تھے، انھوں نے سن رکھا تھا کہ ابو حنیفہ نے اپنے ایک درس میں کہا کہ جعفر بن محمد (امام صادق علیہ السلام )نے تین باتیں کہیں ہیں، لیکن میں ان میں سے کسی بھی بات کو قابل قبول نہیں سمجھتا اوروہ تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ شیطان جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا۔ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود آگ ہے لہٰذاآگ اسے کیسے جلا سکتی ہے؟
۲۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا دکھائی نہیں دیتا۔جب کہ جو چیز بھی موجود ہے اسے دکھائی دینا چاہئے۔
۳۔ بندے جو کام انجام دیتے ہیں وہ اپنے اختیار وارادے سے انجام دیتے ہیں ان کی یہ بات بھی سراسر ان احادیث و روایات کے مخالف ہے جو اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ بندوں کے تمام کام خدا کی طرف منسوب ہیں اور اس کے حکم کے بغیر کوئی کام انجام نہیںپایا۔
ایک دن ابوحنیفہ بہلول کو نظر آگئے انھوں نے زمین سے ایک ڈھیلااٹھایا اور ان کی پیشانی پر مار دیا ابو حنیفہ نے ہارون سے بہلول کی شکایت کی اور ہارون نے بہلول کو بلوالیا اور ان کی سرزنش کرنے لگا تو آپ نے ابو حنیفہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا:
۱۔ تمہیں جو درد ہو رہا ہے دکھاوٴ ورنہ اس عقیدہ کو غلط کہو جو تم یہ کہتے ہو کہ ہر موجود چیز کا دکھائی دینا ضروری ہے۔
۲۔ اسی طرح تمہارا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی چیز اپنی ہم جنس شئے کو نقصان نہیں پہنچاتی تو پھر تمہیں کیوں درد ہو رہا ہے جب کہ تم خود مٹی سے بنے ہوئے ہو(اور ڈھیلا بھی مٹی کا تھا)؟
۳۔ تم تو یہ کہتے ہو کہ بندوں کے سارے کام خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو پھر مجھ سے کیوں شکوہ کرتے ہو کیونکہ یہ ڈھیلا تو خدا نے مارا ہے۔
یہ سن کر ابو حنیفہ خاموشی سے اس بزم سے نکل گئے وہ سمجھ گئے کہ بہلول نے یہ ڈھیلا میرے اس عقیدہ کی وجہ سے مارا تھا۔[31]
۳۳۔جناب بہلول کاوزیر کو بہترین جواب
ایک دن ہارون رشید کے درباری وزیر نے بہلول سے کہا: ”تم بڑے خوش نصیب ہو تمہیں خلیفہ نے سوروں اوربھیڑیوں کا سر پرست بنا دیا ہے“۔
بہلول نے بڑی بے باکی سے کہا: ”اب جب تو اس بات سے آگاہ ہوگیا ہے توآج سے تیرے اوپر میری اطاعت لازم ہوگئی ہے“۔بہلول کا یہ جواب سن کر وہ شرمندگی سے خاموش ہو گیا، اور وہاں پر موجود لوگ یہ سن کر ہنسنے لگے۔[32]
۳۴۔جبر یہ کے ایک استاد سے شیعہ عالم کا مناظرہ
ایک دن اہل سنت کے ایک بزرگ عالم اور مذہب جبر کے استاد ضرار بن ضبی ہارون رشید کے وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس آکر کہنے لگا “میں بحث و مناظرہ کرنا چاہتا ہوں تم کوئی ایسا آدمی لے آوٴ جو مجھ سے بحث کر سکے۔“
یحییٰ: ”تم کسی شیعہ عالم سے بحث کروگے؟
ضرار: ”ہاں میں ہر ایک سے مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔“
یحییٰ نے ہشام بن حکم (امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد رشید)کو یہ پیغام بھیجا ،جناب ہشام مناظرہ کے لئے آگئے اور مناظرہ اس طرح شروع ہوا:
ہشام: ”امامت کے سلسلہ میں انسان کی ظاہری صلاحتیں معیار ہیں یا باطنی صلاحیتیں؟“
ضرار: ”ہم تو ظاہری پر ہی حکم لگاتے ہیں کیونکہ کسی کے باطن کو صرف ”وحی“کے ذریعہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔“
ہشام: ”تو نے سچ کہا۔اب یہ بتاوٴ کہ ابو بکر اور حضرت علی علیہ السلام میں ظاہری اور باطنی اعتبار سے کون رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زیادہ ساتھ رہا ،کس نے اسلا م کا زیادہ دفاع کیا اور بڑی بہادری سے اسلام کی راہ میں جہاد کیا،اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کیا اور ان دونوں میں کون ہے جس کا تمام اسلامی فتوحات میں سب سے زیادہ اہم کرداررہا؟“
ضرار: ”علی علیہ السلام نے بہت جہادکیا اور اسلام کی بڑی خدمت کی لیکن ابو بکر معنوی لحاظ سے ان سے بلند تھے ۔“
ہشام: ”یہ تو باطن کی باتیں کیوں کرنے لگا جبکہ ابھی تونے یہ کہا کہ باطن کی باتیں صرف وحی کے ذریعہ معلوم ہو سکتی ہیں اور ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ہم صرف ظاہر کی باتیں کریں گے اور تونے اس اقرار سے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اسلامی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اس بات کا بھی اعتراف کر لیاکہ وہ اور دوسرے لوگوں کے مقابل خلافت کے زیادہ حقدار تھے۔“
ضرار: ”ہاں ظاہر اً تو یہی بات صحیح ہے ۔“
ہشام: ”اگر کسی کا نیک ظاہر ،نیک باطن جیسا ہو تو کیا یہ چیز اس کے افضل اور برتر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ۔“
ضرار: ”یقیناً یہ چیز انسان کے افضل وبرتر ہونے کی دلیل ہوگی۔“
ہشام: ”کیا تمہیں اس حدیث کے بارے میں معلوم ہے کہ جس کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشاد فرمائی اور جسے تمام اسلامی فرقوں نے قبول کیا ہے:
”انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ الا لا نبی بعدی“۔
”اے علی ! تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
ضرار: ”میں اس حدیث کو قبول کرتا ہوں ۔“(اس بات کی طرف توجہ رہے کہ ضرار نے کہا تھا کہ کسی کا باطن صرف وحی کے ذریعہ پہچانا جا سکتا ہے اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی تمام باتیں وحی الٰہی سے ہوا کرتی تھیں)۔
ہشام: ”کیا یہ صحیح ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی اس طرح کی تعریف اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی علیہ السلام باطنی طور پر بھی ایسی ہی صلاحیتیوں کے مالک تھے؟ ورنہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی تعریف غلط ہو جائے گی۔“
ضرار: ”ہاں یہ اس بات کی دلیل ہے۔یقینا ً حضرت علی علیہ السلام باطنی طور پر بھی ویسی ہی صلاحیتوں کے مالک رہے ہوں گے تب ہی تو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے ان کی تعریف کی ۔“
ہشام: ”بس اب اس طرح خود تمہارے قول سے حضرت علی علیہ السلام کی امامت ثابت ہو گئی کیونکہ تم نے خود ہی کہا ہے کہ باطن کی اطلاع وحی کے ذریعہ ممکن ہے اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے آپ کی تعریف کی ہے اور وہ بغیر وحی کے کسی کی تعریف نہیں کرسکتے لہٰذا حضرت علی علیہ السلام دوسرے تمام لوگوں کے مقابل زیادہ خلافت کے حقدار ہوئے۔[33]
۳۵۔جناب فضال کا ابو حنیفہ سے دلچسپ مناظرہ
امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا زمانہ تھا ایک دن مسجد کو فہ میں ابو حنیفہ درس دے رہاتھااس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد ”فضال بن حسن “اپنے ایک د وست کے ساتھ ٹہلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابو حنیفہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ انھیں درس دے رہے ہیں، فضال نے اپنے دوست سے کہا: ”میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاوٴں گا جب تک ابو حنیفہ کو مذہب تشیع کی طرف راغب نہ کر لوں۔“
فضال اپنے اس دوست کے ساتھ اس جگہ پہنچے جہاں ابو حنیفہ بیٹھے درس دے رہے تھے، یہ بھی ان کے شاگرد وں کے پاس بیٹھ گئے۔تھوڑی دیرکے بعد فضال نے مناظرہ کے طور پر اس سے چند سوالات کئے۔
فضال: ”اے رہبر !میرا ایک بھائی ہے[34] جو مجھ سے بڑا ہے مگر وہ شیعہ ہے۔حضرت ابوبکر کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے میں جو بھی دلیل لے آتا ہوں وہ رد کردیتا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے چند ایسے دلائل بتادیں جن کے ذریعہ میں اس پر حضرت ابوبکر ،عمراور عثمان کی فضیلت ثابت کر کے اسے اس بات کا قائل کر دوں کہ یہ تینوں حضرت علی سے افضل وبر تر تھے ۔“
ابو حنیفہ: ”تم اپنے بھائی سے کہنا کہ وہ آخر کیوں حضرت علی کو حضرت ابو بکر ،عمر اور عثمان پر فضیلت دیتا ہے جب کہ یہ تینوں حضرات ہر جگہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت میں رہتے تھے اور آنحضرت ،حضرت علی علیہ السلام کو جنگ میں بھیج دیتے تھے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ان تینوں کو زیادہ چاہتے تھے اسی لئے ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے انھیں جنگ میں نہ بھیج کر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج دیا کرتے تھے ۔“
فضال: ”اتفاق سے یہی بات میں نے اپنے بھائی سے کہی تھی تو اس نے جواب دیا کہ قرآن کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام چونکہ جہاد میں شرکت کرتے تھے اس لئے وہ ان تینوں سے افضل ہوئے کیونکہ قرآن مجید میں خدا کاخود فرمان ہے:
” وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ اٴَجْرًا عَظِیمًا “[35]
”خدا وند عالم نے مجاہدوں کو بیٹھنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے“۔
ابو حنیفہ: ”اچھا ٹھیک ہے تم اپنے بھائی سے یہ کہو کہ وہ کیسے حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل وبرتر سمجھتا ہے جب کہ یہ دونوں آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میںدفن ہیںاورحضرت علی علیہ السلام کا مرقد رسول سے بہت دور ہے ۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میں دفن ہونا ایک بہت بڑا افتخار ہے یہی بات ان کے افضل اور بر تر ہونے کے لئے کافی ہے ۔“
فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی اپنے بھائی سے یہی دلیل بیان کی تھی مگر اس نے اس کے جواب میں کہا کہ خدا وند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ اٴَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ“[36]
”رسول کے گھر میں بغیر ان کی اجازت کے داخل نہ ہو“۔
یہ بات واضح ہے کہ رسو ل خدا کا گھر خود ان کی ملکیت تھا اس طرح وہ قبر بھی خود رسول خدا کی ملکیت تھی اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے انھیںا س طرح کی کوئی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ان کے ورثاء نے اس طرح کی کوئی اجازت دی۔“
ابو حنیفہ: ”اپنی بھائی سے کہو کہ عائشہ اور حفصہ دونوں کا مہر رسول پر باقی تھا، ان دونوں نے اس کی جگہ رسو ل خدا کے گھر کا وہ حصہ اپنے باپ کو بخش دیا۔
فضال: ”اتفاق سے یہ دلیل بھی میں نے اپنے بھائی سے بیان کی تھی تو اس نے جواب میں کہا کہ خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرما تا ہے۔
” یَااٴَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا اٴَحْلَلْنَا لَکَ اٴَزْوَاجَکَ اللاَّتِی آتَیْتَ اٴُجُورَہُنّ“[37]
”اے نبی!ہم نے تمہارے لئے تمہاری ان ازواج کو حلال کیا ہے جن کی اجرتیں (مہر)تم نے ادا کر دی“۔
اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اپنی زندگی میں ہی ان کا مہر ادا کر دیا تھا“۔
ابو حنیفہ: ”اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ حفصہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بیویاں تھیں انھوں نے ارث کے طور پر ملنے والی جگہ اپنے باپ کو بخش دی لہٰذا وہ وہاں دفن ہوئے“۔
فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی یہ دلیل بیان کی تھی مگر میرے بھائی نے کہا کہ تم اہل سنت تو اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ پیغمبر وفات کے بعد کوئی چیز بطور وراثت نہیں چھوڑتا اور اسی بنا پر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کو تم لوگوں نے فدک سے بھی محروم کردیا اور اس کے علاوہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ خداکے نبی وفات کے وقت ارث چھوڑتے ہیں تب یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب رسول صلی الله علیه و آله وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی نو بیویاں تھیں۔[38] اور وہ بھی ارث کی حقدار تھیں اب وراثت کے قانون کے لحاظ سے گھرکا آٹھواں کاحصہ ان تمام بیویوں کا حق بنتا تھا اب اگر اس حصہ کو نو بیویو ں کے درمیان تقسیم کیا جائے تو ہر بیوی کے حصے میں ایک بالشت زمین سے زیادہ نہیں کچھ نہیں آئے گا ایک آدمی کی قد وقامت کی بات ہی نہیں“۔
ابو حنیفہ یہ بات سن کر حیران ہو گئے اور غصہ میں آکر اپنے شاگردوں سے کہنے لگے:
”اسے باہر نکالو یہ خود رافضی ہے اس کا کوئی بھائی نہیں ہے“۔[39]
۳۶۔ایک شجاع عورت کا حجاج سے زبردست مناظرہ
عبد الملک ( اموی سلسلہ کا پانچواں خلیفہ)کی طرف سے تاریخ کا بد ترین مجرم حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر مقررکیا گیا تھا۔اس نے جناب کمیل ،قنبر ،سعید بن جبیرکو قتل کیا تھا کیونکہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے بہت بغض رکھتا تھا۔
اتفاق سے ایک دن ایک نہایت شجاع و دلیر عورت جسے حلیمہ سعدیہ کی بیٹی کہا جاتا تھا اور جس کانام حرہ تھا حجاج کے دربار میں آئی یہ حضرت علی علیہ السلام کی چاہنے والی تھی۔
حجاج اور حرہ کے درمیان ایک نہایت پر معنی اور زبردست مناظر ہ ہوا جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
حجاج: ”حرہ کیا تم حلیمہ سعدیہ کی بیٹی ہو؟
حرہ: ”یہ بے ایمان شخص کی ذہانت ہے (یہ اس بات کی طر ف اشارہ تھا کہ میں حرہ ہوں مگر تونے بے ایما ن ہوتے ہوئے مجھے پہچان کر اپنی ذہانت کا ثبوت دیا ہے )؟
حجاج: ”تجھے خدا نے یہاں لا کر میرے چنگل میں پھنسادیا ہے میں نے سنا ہے کہ تو علی کو ابوبکر و عمر وعثمان سے افضل سمجھتی ہے ؟“
حرہ: ”تجھ سے اس سلسلہ میں جھوٹ کہا گیا ہے کیونکہ ان تینوں کی کیا بات میں حضرت علی علیہ السلام کو جناب آدم،جناب نوح،جناب ابراہیم ،جناب موسیٰ ،جناب عیسیٰ ،جناب داوٴد ،جناب سلیمان علیہم السلام سے افضل سمجھتی ہوں“۔
حجاج: ”تیرا برا ہو، تو علی کو تمام صحابہ سے بر تر جانتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انھیں آٹھ پیغمبروں سے جن میں سے بعض اولوالعزم بھی ہیں افضل وبرتر جانتی ہے اگر تونے اپنے اس دعویٰ کو دلیل سے ثابت نہ کیا تو میں تیری گردن اڑاد وں گا۔“
حرہ: ”یہ میں نہیں کہتی کہ میں علی علیہ السلام کو ان پیغمبروں سے افضل وبر تر جانتی ہوں بلکہ خداوند متعال نے خود انھیں ان تمام پر برتری عطا کی ہے قرآن مجید جناب آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
”وَعَصیٰ آدمُ رَبَّہُ فَغَویٰ“[40]
”اور آدم اپنے رب کی نافرمانی کا نتیجہ میں اس کی جزا سے محروم ہو گئے“۔
لیکن خدا وند متعال علی علیہ السلام ،ان کی زوجہ اور ان کے بیٹوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
”وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُورًا“[41]
”اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے“۔
حجاج: ”شاباش لیکن یہ بتا کہ تونے حضرت علی علیہ السلام کو نوح و لوط علیہما السلام پر کس دلیل کے ذریعہ فضیلت دی “۔
حرہ: ”خداوند متعال انھیں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:
”ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَاٴَةَ نُوحٍ وَاِمْرَاٴَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنْ اللهِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ “[42]
”خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بیویوں کی مثالیں دی ہیں۔یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھیں مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی لہٰذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاوٴ“۔
لیکن علی علیہ السلام کی زوجہ ،پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔
حجاج: شاباش حرہ! لیکن یہ بتا تو کس دلیل کی بنا پر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت علی علیہ السلام کو فضیلت دیتی ہے؟
حرہ: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:
”رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِن قَلْبِي“[43]
”ابراہیم نے کہا پالنے والے! تو مجھے یہ دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے تو خدا نے کہا کیا تمہارا اس پر ایمان نہیں ہے تو انھوں نے کہا کیوں نہیں مگر میں اطمینان قلب چاہتا ہوں“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام ا س حد تک یقین کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمایا:
”لوکشف الغطا ء ماازددت یقینا“۔
”اگر تمام پردے میرے سامنے سے ہٹا دئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔“
اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ۔“
حجاج: ”شاباش لیکن تو کس دلیل سے حضرت علی کو جناب موسیٰ کلیم اللہ پر فضیلت دیتے ہے؟“۔
حرہ: ”خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”فَخَرَجَ مِنْہَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ“ [44]
”وہ وہاں سے ڈرتے ہوئے (کسی بھی حادثہ کی)تو قع میں (مصر)سے باہر نکلے“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کسی سے نہیں ڈرے، شب ہجرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے سوئے اور خدا نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:
”وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ “[45]
”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے لئے بیچ دیتے ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتا کہ داوٴد علیہ السلام پر علی کو کس دلیل سے فضیلت حاصل ہے ؟“
حرہ: ”خداوند متعال جناب دادوٴ علیہ السلام کے سلسلہ میں فرماتا ہے:
” یَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ “[46]
”اے دادوٴ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا یا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق سے فیصلے کرو اور اپنی خواہشات کو پیروی نہ کرو کہ اس طرح تم راہ خدا سے بھٹک جاوٴ گے“۔
حجاج: ”جناب داوٴد کی قضاوت کس سلسلے میں تھی؟”
حرہ: ”دو آدمیوں کے بارے میں کہ ان میں سے ایک بھیڑ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان، اس بھیڑ کے مالک کی بھیڑوں نے اس کے کھیت میں جاکر اس میں کھیتی چرلی، اور اس کی زراعت کو تباہ و برباد کردیا، یہ دونوں آدمی فیصلہ کے لئے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی شکایت سنائی، حضرت داؤد نے فرمایا: بھیڑکے مالک کو اپنی تمام بھیڑوں کو بیچ کر اس کا پیسہ کسان کو دے دینا چاہئے تاکہ وہ ان پیسوں سے کھیتی کرے اور اس کا کھیت پہلے کی طرح ہو جائے لیکن جناب سلیمان نے اپنے والد سے کہا۔”آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ بھیڑوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے تاکہ اس کے ذریعہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے“۔
اس سلسلہ میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”ففہمنا سلیمان“ [47]
” ہم نے حکم (حقیقی) سلیمان کو سمجھا دیا“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”سلونی قبل ان تفقدونی“۔
”مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو“۔
جنگ خیبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خد مت میں تشریف لے آئے تو آنحضرت نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
”اٴفضلکم و اٴعلمکم و اٴقضاکم علي“۔
”تم میں سے افضل اور سب اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتاوٴ کہ کس دلیل سے علی جناب سلیمان علیہ السلام سے افضل ہیں‘۔
(۱)حرہ: ”قرآن میں جنا ب سلیمان کا یہ قول نقل ہوا ہے:
” رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکاً لاَیَنْبَغِی لِاٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِی“[48]
” پالنے والے! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا کردے جو میرے بعد کسی کے لئے شائستہ نہ ہو“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام نے دنیا کو تین طلاق دی ہے جس کے بعد آیت نازل ہوئی:
” تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ “ [49]
”وہ آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے ہم قرار دیتے ہیں جو زمین پر بلندی اور فساد کو دوست نہیں رکھتے اور عاقبت تو متقین کے لئے ہے“۔
حجاج: ”شاباش اے حرہ اب یہ بتا کہ تو کیوں حضرت علی کو جنا ب عیسیٰ علیہ السلام سے افضل و برتر جانتی ہے؟“
حرہ: ”خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا:
” وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ # مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِہِ“[50]
”اور جب (روز قیامت) خدا کہے گا: اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا قرار دو، تو وہ کہیں گے تو پاک وپاکیزہ ہے میں کیسے ایسی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جان لیتا تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے تو عالم الغیب ہے میں نے ان سے صرف وہی کیا ہے جو تونے مجھے حکم دیا تھا“۔
اسی طرح جناب عیسی ٰ کی عباد ت کرنے والوں کا فیصلہ قیامت کے دن کے لئے ٹال دیا گیا مگر نصیروں نے حضرت علی علیہ السلام کی عبادت شروع کر دی تو آپ نے انھیں فوراً قتل کردیا اور ان کے عذاب و فیصلہ کو قیامت کے لئے نہیں چھوڑا ۔“
حجاج: ”اے حرہ! تو قابل تعریف ہے تو نے اپنے جواب میں نہایت اچھے دلائل پیش کئے اگر تو آج اپنے تمام دعووٴں میں سچی ثابت نہ ہوتی تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔“
اس کے بعد حجاج نے حرہ کو انعام دیکر باعزت رخصت کردیا۔[51]
۳۷۔ ابو الہذیل سے ایک گمنام شخص کا عجیب مناظرہ
ابو الہذیل اہل سنت کا ایک بہت ہی مشہور ومعروف عراقی عالم کہتا ہے کہ میں ایک سفر کے دوران جب شہر ”رقہ“(شام کا ایک شہر)میں وارد ہوا تو وہاں میں نے سنا کہ ایک دیوانہ بہت ہی خوش گفتار شخص ”معبدز کی“ میں رہتا ہے۔[52]
میں جب اس کے دیدار کے لئے معبد گیا تو میں نے وہاں ایک نہایت خوبصورت اور چھی قدو قامت کا ایک بوڑھا شخص بوریہ پر بیٹھا ہوا دیکھا جو اپنے بالوں اور ڈاڑھی میں کنگھی کر رہا تھا میں نے داخل ہوتے ہی اسے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ہمارے درمیان اس طرح گفتگو ہوئی۔
گمنام شخص: ”تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟
ابو الہذیل: ”عراق کا رہنے والا ہوں۔“
گمنام شخص: ”اچھا یعنی تم بہت ماہر ہو اور زندگی کے آداب واطوار سے بخوبی آشنا ہو ااچھا یہ بتاوٴ کہ تم عراق کے کس علاقہ سے تعلق رکھتے ہو؟“۔
ابو الہذیل: ”بصرہ سے“۔
گمنام شخص: ”بس علم وعمل سے آشنا ہو، تمہار نام کیا ہے ؟“
ابو الہذیل: ”مجھے ابو الہذیل علاف کہتے ہیں“۔
گمنام شخص: ”وہی جو بہت ہی مشہور کلامی ہے ؟“
ابو الہذیل: ”ہاں“۔
یہ سن کر اس نے ایک فرش کی طرف اشارہ کیا اور تھوڑی دیر بات چیت کرنے کے بعد اس نے مجھ سے سوال کیا: ”امامت کے بارے میں تیرا کیا نظریہ ہے؟“
ابو الہذیل: ”تیری مراد کون سی امامت ہے؟“
گمنام شخص: ”میری مرا د یہ ہے کہ تونے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ان کے جانشین کے طور پر کسے دوسرے لوگوں پر ترجیح دیتے ہوئے خلیفہ تسلیم کیا ہے ؟“
ابو الہذیل: ”اسی کو جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ترجیح دی“۔
گمنام شخص: ”وہ کون ہے ؟“
ابو الہذیل: ”وہ ابو بکر ہیں“۔
گمنام شخص: ”تم نے انھیں کیوں مقدم جانا؟“
ابو الہذیل: ”کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے: ” لوگوں میں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو اور اسے اپنا رہبر سمجھو“۔تمام لوگ ابو بکر کو مقدم سمجھنے کے لئے راضی ہوئے ہیں“۔
گمنام شخص: ”اے ابو الہذیل ! یہاں تونے خطا کی ہے۔کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے: ”اپنے میں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو اور اسی کو اپنا رہبر جانو“، میرا اعتراض یہ ہے کہ خود ابو بکر نے منبر سے کہا: ”ولیتکم و لست بخیرکم،میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں“۔اگر لوگ ابو بکر کے جھوٹ کو بہتر سمجھتے ہیں اور انھیں اپنا رہبر بناتے ہیں تو گویا سب کے سب رسول اسلام کے قول کے مخالفت کر رہے ہیں اور اگر خود ابو بکر جھوٹ کہتے ہیں کہ ”میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں“، تو جھوٹ بولنے والے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ منبر رسول پر جائے اور تم نے جو یہ کہا تھا کہ ابو بکر کی رہبری پر سب راضی تھے تو یہ اس وقت درست ہوگا جب انصار ومہاجرین نے ایک دوسرے سے یہ نہ کہا ہوتا کہ “ایک امیر ہمارے قبیلے سے ایک تمہارے قبیلے سے“ لیکن مہاجرین کے درمیان زبیر نے کہا کہ میں علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کے ہا تھ پر بیعت نہیں کروں گا ان کی تلوار کو توڑ دیا گیا اور ابو سفیان نے حضرت علی علیہ السلام کے پا س آکر کہا ”اگر آپ علیہ السلام چاہیں تو مدینے کی گلیوں کو پیادہ اور سوار فوجیوں سے بھر دوں“۔جناب سلمان نے بھی باہر آکر کہا ”انھوں نے کیا اور نہیں بھی کیا انھیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کیا“۔ ابوبکر کی بیعت کے سلسلہ میں خلاف اصول کام ہوا ،اسی طرح جناب مقداد اور ابوذر نے بھی اعتراض کیا ان سب سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ سب لوگ ابو بکر کی خلافت سے راضی نہیں تھے۔
اے ابو الہذیل! میں تجھ سے چند سوالات کرنا چاہتاہوں تو مجھے اس کا جواب دے“۔
۱۔مجھے بتا کیا یہ درست نہیں ہے کہ ابو بکر نے بالائے منبر یہ اعلان کیا:
”ان لي شیطاناً یعترینی، فاذا رائیتمونی مغبضاً فاحذرونی“۔
”میرے لئے ایک شیطان ہے جو مجھے بہکادیا کرتا ہے لہٰذا میں غصہ میں رہا کروں تو مجھ سے دور ہو جایا کرو“۔
وہ در اصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ” میں پاگل ہوں“۔لہٰذا تم لوگوںنے آخر کیوں ایسے شخص کو اپنا رہبر معین کر لیا؟“
۲۔تویہ بتا کہ جو شخص اس بات کا معتقد ہو کہ رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے کسی کواپنا جانشین نہیں بنا یا مگر ابو بکر نے عمر کو اپنا جانشین معین کیا جب کہ اس کے بعد عمر نے اپنا جانشین کسی کو نہیں بنایا کیا اس کے اعتقاد میں ایک طرح کا تناقض نہیں پایا جاتا۔تیرے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
۳۔مجھے یہ بتا جب عمر نے اپنی خلافت کے بعد ایک شوریٰ تشکیل دی تو یہ کیوں کہا کہ یہ چھ کے چھ جنتی ہیں اور اگر ان میں سے دوافراد چار کی مخالفت کریں تو انھیں قتل کر دو اور اگر تین تین افراد آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف رہے اس گروہ کو قتل کردینا۔ ذرا یہ بتا کہ یہ کس طرح صحیح ہوگا اور کہاں کی دیانت داری ہوگی کہ اہل بہشت کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا جائے ؟
۴۔تو یہ بھی بتا دے کہ ابن عباس اور عمر کی ملاقات اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو تو کس کے عقیدہ کے مطابق سمجھتا ہے ؟
جب عمر بن خطاب زخمی ہونے کی وجہ سے بستر پر تھے اور عبد اللہ ابن عباس ان کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ بستر پر تڑپ رہے ہیں ، ابن عباس نے پوچھا:کیوں تڑپ رہے ہو؟تو عمر نے کہا“۔میں اپنی تکلیف کی وجہ سے نہیں تڑپ رہا ہوں بلکہ اس لئے تڑپ رہا ہوں کہ میرے بعد رہبری نہ جانے کس کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس کے بعد ابن عباس اور عمر کے درمیان اس طرح گفتگو ہوئی۔
ابن عباس: ”طلحہ بن عبید اللہ کو لوگوں کا رہبر بنا دو“۔
عمر: ”وہ سخت مزاج ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بارے میں ایسا ہی فرمایا کرتے تھے ،میں اس طرح کے تند خو شخص کے ہاتھ میں رہبری کی مہار نہیں دینا چاہتا“۔
ابن عباس: زبیر بن عوام کو رہبر بنا دو“۔
عمر: وہ کنجوس آدمی ہے میں نے خود اسے دیکھا ہے وہ اپنی بیوی کی مزدوری جو اس کے اُون بننے کی تھی اس کے بارے میں بڑی سختی سے پیش آتا تھا، میں کنجوس کے ہاتھ میں رہبری نہیں دے سکتا“۔
ابن عباس: ”سعد وقاص کو رہبر بنادو“۔
عمر: ”وہ تیر و تلوار اور گھوڑوں سے کام رکھتا ہے، ایسے افراد رہبری کے لئے مناسب نہیں ہوتے“۔
ابن عباس: ”عبد الرحمن بن عوف کو کیوں نہیں رہبر بنا دیتے ؟“
عمر: ”وہ اپنے گھر کو تو چلا نہیں سکتا“۔
ابن عباس: ”اپنے بیٹے عبد اللہ کو بنا دو“۔
عمر: ”نہیں خدا کی قسم نہیں۔جو شخص اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا اس کے حوالہ میں یہ رہبری نہیں کر سکتا“۔
ابن عباس: ”عثما ن کو رہبر بنا دو“۔
عمر: ”خدا کی قسم (تین بار کہا)اگر میں عثمان کو رہبر بنا دوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے ”طائفہ معیط“(بنی امیہ کی ایک شق )کو مسلمانوں کی گردن پر سوار کر دیا جس سے مجھے یہ بھی خطرہ ہے کہ لوگ کہیں عثمان کو قتل کر ڈالیں“۔
ابن عباس کہتے ہیں: ”اس کے بعد میں خاموش ہو گیا اور چونکہ حضرت علی علیہ السلام اور عمر کے درمیان عداوت تھی اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا لیکن عمر نے خود مجھ سے کہا: ”اے ابن عباس ! اپنے دوست کانام لو“۔
میں نے کہا: ”تو علی کو خلیفہ بنادو“۔
عمر: نے کہا: خدا کی قسم! میں صرف اس وجہ سے پریشان ہوں کہ میں نے حق کو حقدار سے چھین لیا ہے۔
”و الله لئن ولیتہ لیحملنہم علی المحجة العظمیٰ، و ان یطیعوا یدخلہم الجنة“۔
خدا کی قسم! اگر میں علی علیہ السلام کو لوگوں کا رہبر بنا دوں تو وہ یقینا لوگوں کو شاہراہ حق وہدایت تک پہنچا دیں گے ، اور اگر لوگ ان کی پیروی کریں گے تو وہ انھیں جنت میں داخل کردیں گے“۔
عمر نے یہ سب کچھ کہا ، مگر پھر بھی اپنے بعد خلافت کے مسئلہ کو چھ نفری شوریٰ کے حوالہ کر دیا۔
ابو الہذیل کہتا ہے: ”جب وہ گمنام شخص یہاں تک پہنچا تو اس کی حالت غیر ہونے لگی اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ نظر آنے لگا، (تقیہ کی وجہ سے خود کو دیوانہ بنالیا)، اس کا پورا واقعہ میں نے ساتویں اموی خلیفہ مامون سے بیان کیا ، اس نے اس شخص کو بلوا کر اس کا علاج کر ایا اور اسے اپنا ندیم خاص قرار دیا ، اور وہ اس کی منطقی بات کی وجہ سے شیعہ ہو گیا۔[53]
۳۸۔مامو ن کا علماء سے مناظرہ
اہل سنت کے عظیم علماء کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مامون (عباسی دور کا ساتواں خلیفہ) صدر کی حیثیت سے بیٹھا ہوا تھا اس بزم میں ایک بہت ہی طویل مناظرہ ہوا جس کا ایک حصہ ہم پیش کرتے ہیں۔
اہل سنت کے ایک عالم نے کہا: ”روایت میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر اور عمر کی شان میں فرمایا:
”ابوبکر و عمر سید ا کھول اہل الجنة“۔
”ابو بکر اور عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔
مامون نے کہا: ”یہ حدیث غلط ہے۔کیونکہ جنت میں بوڑھوں کا وجود ہی نہیں ہے کیونکہ روایت میں ملتا ہے کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گے“۔بوڑھی عورت گریہ وزاری کرنے لگی تو آپ نے فرمایا: ”خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
” إِنَّا اٴَنشَاٴْنَاہُنَّ إِنشَاءً فَجَعَلْنَاہُنَّ اٴَبْکَارًا عُرُبًا اٴَتْرَابًا“[54]
”بے شک ہم نے انھیں بہترین طریقہ سے خلق کیا اور ان سب کو باکرہ قرا ردیا وہ ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہروں سے محبت کرتی ہوں گی خوش گفتار اور ان کی ہم سن سال ہوں گی“۔
اگر تمہارے مطابق ابوبکر و عمر جوان ہوں گے تو جنت میں جائیں گے۔تو کس طرح تم کہتے ہوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”ان الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنة من الاولین والاخرین وابوھما خیر منھما“۔[55]
”حسن اور حسین علیہما السلام جنت کے اول وآخر کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد علی بن ابی طالب علیہما السلام کا مقام ان سے بالاو بر تر ہے“۔
۳۹۔ حدیث رسول کے سلسلہ میں بیٹے کے اعتراض پر ابو دُلف کا جواب
قاسم بن عیسیٰ عجلی جو”ابو دلف“کے نام سے مشہور تھا یہ نہایت باہمت ،سخی ،کشادہ قلب،عظیم شاعر،اپنے خاندان کا سربراہ اور محب علی ابن ابی طالب علیہما السلام تھا۔اس کی وفات ۲۲۰ ھ ق کوہوئی۔
ابو دلف کا ایک بیٹا تھا جس کانام ”دلف“تھا یہ بیٹا بالکل اپنے باپ کے بر عکس بہت ہی بد بخت اور بد زبان تھا۔
ایک روز اس کے بیٹے دلف نے اپنے دوستوں کے درمیان علی علیہ السلام کی محبت و عداوت کے سلسلہ میں بحث چھیڑ دی یہ بحث یہاں تک پہنچی کہ اس کے ایک دوست نے کہا کہ پیغمبر اسلام سے روایت ہے:
”یا علی لا یحبک الا موٴمن تقی ولا یبغضک الاولدُ زنیَّةٍ اٴوحیضة“
”اے علی علیہ السلام ! تم سے صرف متقی مومن محبت کرتا ہے اور تم سے وہی دشمنی و عداوت رکھتا ہے جو زنا زادہ ہو یا جس کا نطفہ حالت حیض میں منعقد ہوا ہو“۔
دلف،جو ان تما چیزوں کا منکر تھا اس نے دوست سے کہا میرے باپ ابو دلف کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟آیا کوئی شخص اس بات کی جرائت کر سکتا ہے کہ ان کی بیوی سے زنا کرے“۔
اس کے دوستوں نے کہا: ”نہیں ہر گز نہیں۔ابو دلف کے بارے میں ایسا سوچنا بھی غلط ہے“۔
دلف نے کہا: ”خدا کی قسم میں علی علیہ السلام سے شدید دشمنی رکھتا ہوں (جب کہ میں نہ ولد الزنا ہوں اور نہ ولد حیض)
اسی وقت ابو دلف گھر سے باہر نکل رہا تھا ان کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی اور دیکھا کہ وہ چند لوگوں سے گفتگو میں مصروف ہے جب ابو دلف موضوع بحث سے آگا ہ ہو ا تو اس نے کہا۔”خدا کی قسم !دلف زنا زادہ بھی ہے اور ولد حیض بھی۔کیونکہ میں ایک روز بخار میں مبتلا تھا اور اپنے بھائی کے گھر جا کر سو گیا تھا دیکھا کہ ایک کنیز گھر میں وارد ہوئی نفس امارہ مجھے اس کی طرف کھینچ کر لے گیا تو اس نے کہا:
”میں اس وقت حالت حیض میں ہوں“۔
میں نے جماع کے لئے اس کو مجبور کیا نتیجہ میں وہ حاملہ ہو گئی جس سے دلف پیدا ہوا، اس طرح یہ ولد الزنابھی ہے اور ولد حیض بھی۔[56]
تمام دوستوں نے یہ سمجھ لیا کہ علی علیہ السلام کی دشمنی دلف کے نطفہ کے وقت سے شروع ہوئی جو آج جڑ پکڑ گئی، جب بنیا د ہی غلط تھی تو عمارت کیوں نہ غلط ہوتی۔
۴۰۔ ایک غیرت مند جوان کا ابو ہریرہ سے دندان شکن مناظرہ
معاویہ نے پیسہ کے ذریعہ کچھ جھوٹے صحابہ اور تابعین کو خرید رکھا تھا تاکہ وہ علی علیہ السلام کے خلاف حدیث گڑھیں ان اصحاب میں سے ابو ہریرہ ،عمر وعاص،مغیرہ بن شعبہ ، اور تابعین سے عروہ بن زبیر وغیرہ شامل تھے۔
ابو ہریرہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ آیا اور عجیب مکرو فریب سے اس نے علی علیہ السلام کے بارے میں نامناسب باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب کردیں۔
راتوں میں وہ” با ب الکندہ “مسجد کوفہ کے پاس آکر بیٹھ جا تا تھااور لوگوں کو اپنے مکر و فریب سے منحرف کرتا رہتا تھا۔
ایک روز ایک غیور اور دانشور جوان نے اس کے اس حیلہ میں شرکت کی ،تھوڑی دیر تک وہ ابو ہریرہ کی بیہودہ باتیں سنتا رہا اس کے بعد اس نے اس سے مخاطب ہو کر کہا:“تجھے خدا کی قسم، کیا تونے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کوحضرت علی علیہ السلام کے بارے میں یہ دعا کرتے ہوئے نہیں سنا ہے:
”اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ“۔
خدا یا !”تو اسے دوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہو اور اسے دشمن رکھ جو علی علیہ السلام کو دشمن رکھتا ہو“۔
ابو ہریرہ نے جب یہ دیکھا کہ وہ اس واضح حدیث کی تردید نہیں کر سکتا ، تو کہا: ”اللھم نعم“ خدا یا!میں تجھے شاہد وناظر جانتا ہوں ،میں نے یہ سنا ہے۔ غیور نوجوان نے کہا: ”میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ تو دشمن علی کو دوست رکھتا ہے اور دوست علی کو دشمن رکھتا ہے ،اور رسول خد ا صلی الله علیه و آله وسلم کی لعنت کا مستحق ہے“، اس کے بعد یہ نواجوا ن بڑی متانت سے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔[57]
۴۱۔ ناروا تہمتوں کا جواب
ایک دوست کاکہنا ہے کہ میں سعودی عرب میں تھا وہاں کی ایک مسجد میں ایک ادھیڑ عمر کا شخص میرے پاس آیاجس کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ شام کا رہنے والا ہے اور اس نے بھی مجھے جان لیا کہ میں شیعہ اثنا عشری ہوں۔
چند سوال و جواب کے بعد اس نے کہا: ”تم شیعہ لوگ نماز کے آخر میں تین مرتبہ کیوں ”خان الامین ،خان الامین ،خان الامین “(جبرئیل نے خیانت کی) کہتے ہو؟“
یہ بات سن کر میں پریشان ہو گیا اور میں نے اس سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو اور تم یہ اچھی طرح دیکھو کہ میںکس طرح نماز پڑھتا ہوں۔
اس نے کہا: ”ٹھیک ہے تم نماز پڑھو، میں کھڑا ہوں۔میں دو رکعت نماز آخر ی تین مستحبی تکبیروں کے ساتھ بجالایا ،اس کے بعد اس کا نظریہ معلوم کیا تو اس نے کہا: ”تم نے تو ایک ایرانی اور عجم ہوتے ہوئے بھی ہم عربوں سے اچھی نماز پڑھی ہے لیکن ”خان الامین ،خان الامین ،خان الامین“ کیوں نہیں کیا ؟“
میں نے کہا: ”یہ چیزیں اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے تم جیسے سادہ لوگوں کے دلوں میں ڈالی گئی ہیں اور یہ تہمت ہمارے دشمنوں کی طرف سے لگائی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہے“۔
وضاحت کے طور پر: ”خان الامین “سے ان کا مطلب یہ ہے کہ العیاذ باللہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ فرشتہ وحی جبرئیل امین کو علی علیہ السلام کے پاس قرآن لانا چاہتے تھا لیکن انھوں نے دھوکہ دیا اور آتے آتے راستہ بدل دیا اور قرآن پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت اقدس میں لے آئے اور قرآن آپ کے حوالہ کر دیا۔اسی وجہ سے شیعہ حضرات نماز کے بعد تین مرتبہ ”خان الامین“ (جبرئیل نے خیانت کی )کہتے ہیں۔
کتنی بے انصافی ہے ؟!ارے کون شیعہ ہے جو اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہے ؟سچ مچ اگر دنیا کے مسلمان شیعوں کو (جو مسلمانوں کا ایک اٹوٹ حصہ ہے)اس عقیدہ سے پہچاننے لگیں تو کیا وہ کافر کہنے کا حق نہیں رکھتے ہیں ؟![58]
اسی طرح کی دوسری تہمت یہ ہے کہ ہمارے استاد کہتے ہیں کہ حجاز کے ایک درباری ملانے اپنے خطبہ میں اس طرح کہا:
”اگرشیعہ اتحاد کی دعوت دیں تو ان کے قریب نہ جانا وہ ہم سے کسی بھی چیز میں ایک نظریہ نہیں رکھتے،نہ توحید کے بارے میں، نہ صفات خدا، نہ قرآن کے بارے میں اور نہ دوسرے امور میں وہ ہمارے اور عالم اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔اس نے یہاں تک کہا کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا نہ عالم ہے نہ سمیع ہے نہ بصیر بلکہ یہ تمام صفات وہ اپنے امام سے منسوب کرتے ہیں اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ لوگ اسے قبول نہیں کرتے ۔۔۔اس سے زیادہ تعجب خیز بات تو یہ تھی کہ اس ملا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تمام باتیں اس نے شیعی کتب سے کہی ہیں !!
اس زر خرید ملا ّسے کہنا چاہئے “اگر تو غرض پر ست نہیں ہے تو ذرا انصاف سے فیصلے کر۔شیعوں کی حقیقی کتابیں ہر جگہ دستیاب ہیں اور شیعوں کا قرآن بھی لاکھوں لوگوں کے پاس موجود ہے اور تفاسیر علماء شیعہ بھی لوگوں کے ہے
تمہارے لئے مناسب ہے کہ ایران کا ایک سفر کر و اورشیعوں کے حوزہائے علمیہ کو قریب سے دیکھ لو تب تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ تمہاری بیہودہ تہمتیں کتنی بے بنیاد ہیں۔
۴۲۔دلائل کے مقابل ایک وہابی عالم کی لاچاری
ایک عالم دین فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں تھا، مسجد نبی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقبر منورکے پاس کھڑاہوا تھاکہ ناگاہ ایک ایرانی شیعہ آیا اور مرقد رسول اکرم کے درو دیوار کا بوسہ دینے لگا۔
مسجد کا امام جماعت جو ایک وہابی عالم تھا اس نے ایرانی کو بوسہ دیتے دیکھ کر چلانا شروع کیا ”کیوں ان بے شعور پتھر اور کھڑکی کا بوسہ دیتا ہے اور شرک کا مرتکب ہو تا ہے، یہ دیوار پتھر کی اور کھڑکی لوہے کی ہے، کیوں بے شعور پتھر اور کھڑکی کا بوسہ لیتا ہے؟“[59]
اس وہابی اما م جماعت کی چیخ سن کر ایرانی شیعہ کے لئے میرے دل میں محبت پیدا ہوئی میں نے امام جماعت کے سامنے جاکر اس سے کہا: ”درو دیوار کا بوسہ دینا اس بات کی علامت ہے کہ ہم رسول اکرم سے محبت کرتے ہیں جس طرح ایک باپ اپنے چھوٹے بچہ کو محبت کی وجہ سے اس کا بوسہ دیتا ہے (اس کا م میں کسی بھی طرح کا کوئی شرک نہیں ہے)
اس نے کہا: ”نہ یہ شرک ہے“۔
میں نے اس سے کہا: ”آیا قرآن میں سورہ یوسف کی ۹۶ ویں آیت پڑھی ہے جس میں خداوند عالم فرماتا ہے:
” فَلَمَّا اٴَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ اٴَلْقَاہُ عَلَی وَجْہِہِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا“
”پس جب بشیر (یوسف کی زندگی کی بشارت لے کر یعقوب کے پاس)آیا اور اس (قمیص)کوان کے چہرے پر ڈال دیا گیا تو ان کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی“۔
تم سے میرا سوال یہ ہے کہ یہ پیرا ہن تو ایک کپڑا تھا اس کپڑے نے کس طرح جنا ب یعقوب علیہ السلام کی بینائی عطا کی، آیا اس کے علاوہ کوئی اوربات ہے کہ یہ کپڑا جنا ب یوسف علیہ السلام کے پاس رہنے سے ان خصوصیتوں کا مالک ہو گیا تھا؟
وہابی امام جماعت میرے اس سوال کے جواب میں بے بس ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
سورہ یوسف کی ۹۴ ویں آیت میں بھی آیا ہے۔
جس وقت قافلہ سر زمین مصر سے جدا ہوا (اور کنعان کی طرف روانہ ہوا)تو یعقوب علیہ السلام (کنعان مصر سے تقریباً۸۰ فرسخ پر واقع ہے )نے کہا: ”انی لاجد ریح یوسف“ میں بوئے یوسف سونگھ رہا ہوں“۔
پتہ چلا اولیا علیہم السلام معنوی طاقت کے مالک ہوتے ہیں اور ان کی اس نامرئی طاقت سے بہرہ مند ہونا نہ صرف یہ کہ شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے کیونکہ ایسے آثار ان کے پاک اور منزہ عقیدہ توحید سے ہی وجود میں آئے ہیں۔
وضاحت: قبور اولیاعلیہم السلام پر ہم دل کی گہرائی سے ان سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں اور انھیں ہم خانہ خدا کے دروازے قرار دیتے ہیں کیونکہ ہماری زبان اس چیز کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ بغیر کسی وسیلہ کے خدا سے رابطہ پیدا کر سکیں۔
اس لئے ہم انھیں اپنے اورخدا کے درمیان واسطہ قرا ردیتے ہیں۔
جیسا کہ سورہ یوسف کی آیت ۹۷ میں آیا ہے:
” قَالُوا یَااٴَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ“
” انھوں نے (یعنی برادران یوسف نے)کہا اے بابا! آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں بے شک ہم گنہگار تھے“۔
اس طرح اولیاء علیہم السلام سے توسل کرنا جائز ہے اور جو لوگ اسے توحید کے خلاف جانتے ہیں وہ یا تو قرآن کی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں یا انھوں نے اپنے آنکھوں پر تعصب کی عینک چڑھا رکھی ہے۔
ہم سورہ مائدہ کی ۲۵ ویں آیت میں پڑھتے ہیں:
” یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ “
”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈروا اور اس کے لئے وسیلہ تلاش کرو“۔
اس آیت میں وسیلہ سے مراد صرف انجام واجبات اور ترک محرمات نہیں ہے بلکہ مستحبات منجملہ اولیاء خداعلیہم السلام سے توسل کرنا بھی وسیلہ شمار ہوگا۔
روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ منصور دوانقی (عباسی سلسلہ کا دوسرا خلیفہ )نے مفتی اعظم(مالک بن انس مذہب مالکی کے بانی )سے پوچھا ”حرم پیغمبر میں آیا روبہ قبلہ کھڑے ہوکر دعا مانگو ں یا روبہ پیغمبر ؟
مالک نے جواب میں کہا:
”لم تصرف وجھک عنہ وھو وسیلتک و وسیلة اٴبیک آدم علیہ السلام یوم القیامة بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ ،قال اللہ تعالیٰ ،ولوانھم اذ ظلموا انفسھم۔۔۔ “
”تو کیوں اپنا چہرہ ادھر سے گھمانا چاہتا ہے جب کہ وہ تیرے وسیلہ ہیںقیامت تک کے لئے تیرے باپ آدم علیہ السلام کے وسیلہ ہیں بلکہ ان کی طرف رخ کر کے دعا مانگ اور ان سے شفاعت طلب کر تو اللہ تیری شفاعت کرے گا“۔
خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا ہے:
”وَلَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَہُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا“[60]
”اور اگر وہ ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت کرتے اور رسول اکرم بھی ان کے لئے مغفرت کرتے تو وہ یقینا خدا کو تواب ورحیم پاتے“۔[61]
شیعہ اور سنی روایتوں میں نقل ہوا ہے کہ تو بہ کے وقت حضرت آدم علیہ السلام نے خانہ خدا میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کو واسطہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا:
”اللھم اسئلک بحق محمد الاغفرت لی“۔[62]
”خدا یا ! تجھے محمد کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں کہ تو مجھے بخش دے“۔
اس بات کی تائید میں کہ اولیائے خدا علیہم السلام کی قبروں کا بوسہ دینا شرک نہیں ہے ،مندرجہ ذیل اہل سنت کی تین احادیث پر توجہ فرمائیں:
۱۔ایک شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں آکر پوچھا: ”اے رسول خدا میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جنت کے دروازے اور حورالعین کی پیشانی کا بوسہ دوں، اب میں کیا کروں ؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ماں کا پیر اور باپ کی پیشانی کا بوسہ دو(یعنی اگر ایسا کروگے تو اپنی آرزو حورعین کی پیشانی کا بوسہ دینا اور جنت کے دروازے کا بوسہ دینے تک پہنچ سکتے ہو)
اس نے پوچھا: ”اگر ماں باپ مر گئے ہوں تو کیا کروں ؟“
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ‘”ان کی قبروں کا بوسہ دو“۔[63]
۲۔جس وقت جنا ب ابراہیم علیہ السلام، اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے دیدار کے لئے شام سے مکہ آئے تو دیکھا اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں ہیں ابراہیم علیہ السلام واپس چلے گئے جب اسماعیل علیہ السلام اپنے سفر سے واپس آئے تو ان کی زوجہ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی آمد کی اطلاع دی اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کے قدم کی جگہ کو معلوم کر کے احترام کے طور پر قدم کے نشان کا بوسہ دیا۔[64]
۳۔سفیان ثوری ( اہل سنت کا صوفی)نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے پاس آکر عرض کیا: ”کیوں لوگ کعبہ کے پردے کا دامن پکڑتے ہیں جب کہ وہ پردہ بالکل پرانا ہو چکا ہے جو کسی طرح کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے ؟“
امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”یہ اس کام کے مانند ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے بارے میں گناہ کا مرتکب ہوا ہو(مثلاً اس کا حق ضائع کر دیا ہو ) اور اس کے دامن سے چپکے ،لپٹے اور اس کے اطراف اس امید سے گھومے کہ اس کا گناہ معاف کردے گا“۔[65]
۴۳۔ایک مرجع کا وہابی پلس سے مناظرہ
آیت اللہ العظمیٰ عبد اللہ شیرازی(علیہ الرحمة ) کتاب ”الاحتجاجات العشرة“ میں فرماتے ہیں: ”ایک روز میں مدینہ میں قبر رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ حوزہ علمیہ قم کا ایک طالب علم ضریح پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی طرف بڑھا اور اس نے جب دیکھا کہ شرطی (امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے کارکن جو ضریح مقدس کا بوسہ دینے والوں کو روکتے ہیں )اس سے غافل ہے تو اس نے قریب پہنچ کر ضریح مقدس کا کئی بار بوسہ لیا۔
شرطی نے جب دیکھا تو بہت ناراض ہوا اور مجھے دیکھ کر میرے پاس آکر اس نے بڑے احترام سے کہا: ”اے آقا! اپنے چاہنے والوں کو ضریح چومنے سے منع کیوں نہیں کرتے یہ درو دیوار کو جو بوسہ دیتے ہیں یہ لوہے کے علاوہ کچھ بھی نہیں جسے استامبول سے لایا گیا ہے انھیں چومنے سے منع کریں کیونکہ یہ تمام شرک ہے“۔
میں نے کہا: ”تم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہو؟“
شرطی نے کہا: ”ہاں“۔
میں نے کہا: ”پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی قبر پر بھی پتھر ہے اگر اس پتھر کا چومنا شرک ہے تو حجر اسود کا بھی چومنا شرک ہے“۔
اس نے کہا: ”حجر اسود کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چوما ہے“۔
میں نے کہا: ”اگر کسی چیز کا ”تیمناً و تبرکاً“ چومنا شرک ہے تو پیغمبر اور غیر پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے“۔
اس نے کہا: ” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اس لئے چوما کہ وہ جنت سے آیا ہے“۔
میں نے کہا: ”ہاں حجر اسود جنت سے لایا گیا ہے اس لئے وہ محترم ومقدس ہو گیا ہے اور اسے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے چوما ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے چوما جائے کیونکہ بہشت کا ایک حصہ ہے“۔
اس نے کہا: ہاں ”یہی وجہ ہے“۔
میں نے کہا: ”بہشت اور اجزاء بہشت کا مقدس اور محترم ہونا وجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے“۔
اس نے کہا: ”ہاں“۔
میں نے کہا: ”جب بہشت اور اجزاء بہشت، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود کی وجہ سے مقدس اور محترم ہو جاتے ہیں اور ان کا بوسہ دینا ”تیمناً و تبرکا ً“جائز ہوجاتا ہے تو یہ لوہا(جو قبر پیغمبر اکرم کے اطراف میں لگا ہوا ہے)اگر چہ استامبول سے آیا ہے لیکن قبر پیغمبر میں لگنے کی وجہ سے مقدس اور محترم ہو گیا ہے اس وجہ سے ان کا بھی چومنا جائز ہے“۔
توضیح کے لئے بات آگے بڑھاوٴں۔ قرآن کی جلدچمڑے سے بنائی جاتی ہے۔کیا یہ چمڑا صحرا اور دریا کی گھاس کھانے والے حیوانوں سے نہیں لیاجاتا ہے جس کا نہ پہلے احترام کر ناضروری تھا اور نہ نجس کرنا حرام تھا لیکن اسی چمڑے سے جلد قرآن بننے سے وہ محترم ہو جاتا ہے اور اس کی توہین کرنا حرام ہے اور ہم اسے بوسہ دیتے ہیں جس طرح صدر اسلام سے اب تک مسلمانوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ جلد قرآن کا چومناجیسے ایک باپ اپنے بیٹے کا بوسہ لیتا ہے،آج تک کسی نہیں کہا کہ یہ شر ک اور حرام ہے، اسی طرح ضریح پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم اور تمام ائمہ علیہم السلام کی ضریحوں کا بوسہ دینا نہ شرک ہے نہ بت پرستی۔
موٴلف کا قول: لیلیٰ ومجنوں کی تاریخ حیات میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ لیلیٰ کے محلہ کا ایک کتا مجنوں کے محلہ تک پہنچ گیا مجنوں نے جب اسے دیکھا تو اسے اپنی آغوش میں لے کر بوسہ دینے لگا ، ایک شخص نے اس سے کہا: ”لیس علی المجنون حرج“مجنوں کے لئے یہ کوئی حرج نہیں ہے یعنی تم دیوانہ ہو اس لئے کتے کا بوسہ دینے پر میں کوئی اعتراض نہیں کروں گا۔
مجنوں نے جواب میں کہا: ”لیس علی الاعمیٰ حرج“اندھے کے لئے کوئی بات نہیں ہے ، یعنی تم اندھے ہو اور تم ہمارے اس بوسہ لینے کو درک نہیں کر سکتے ہو“۔
یہ قطعہ بھی مجنوں کے لئے منسوب ہے:
اٴمر علی الدیار دیار لیلی اُقبل ذالجدارو ذالجدار
وما حب الدیار شغفن قلبي ولکن حب من سکن الدیار
”میں لیلیٰ کے گھر کی طرف سے گزرتا ہوں تو اس کے درودیوار کو چومتا ہوں۔ اس گھر کی محبت نے مجھے پاگل نہیں کیا بلکہ اس کی محبت نے مجھے دیوانہ بنا دیا جو اس گھر میں رہتا ہے“۔[66]
علی بن میثم کے چند دلچسپ مناظرے
اشارہ:
تاریخ شیعہ کے ایک جید اور زبردست متکلم جنا ب میثم تمار کے پوتے جن کا نام علی ابن اسماعیل بن شعیب بن میثم تھا لیکن انھیں علی بن میثم کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ امام رضا علیہ السلام کے صحابیوں میں سے تھے اوراپنے مخالف سے بحث ومناظرہ کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔
ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر ان کے چند مناظرے تحریر کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
۴۴۔علی بن میثم کاایک عیسائی سے مناظرہ
ایک روز آپ نے ایک عیسائی سے اس طرح مناظرہ کیا:
علی بن میثم: ” تم لوگوں نے اپنی گردن میںصلیب کی شکل کیوں لٹکا رکھی ہے “؟
عیسائی: ”کیونکہ یہ شکل اس چیز سے شباہت رکھتی ہے جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لٹکا کر پھانسی دی گئی تھی“۔
علی بن میثم: ”کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود اس طرح کی چیز کا اپنی گردن میں لٹکا نا پسند کریں گے ؟“
عیسائی: ”ہر گز نہیں“۔
علی بن میثم: ”کیوں؟“۔
عیسائی: ”کیونکہ وہ جس چیز پر قتل کئے گئے ہیں اس کو ہر گز نہیں پسند کریں گے“۔
علی بن میثم: ”مجھے یہ بتاوٴ کہ کیا جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے کاموں کے لئے گدھے پر سوار ہوتے تھے ؟“۔
عیسائی: ”ہاں“۔
علی بن میثم: ”کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ا س چیز کو پسند کرتے کہ وہ گدھا باقی رہے اور ان کی ضرورت کے وقت انھیں ان کی منزل مقصود تک لے جائے؟“
عیسائی: ”ہاں“۔
علی بن میثم: ”تم نے اس چیز کو تر ک کر دیا جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ باقی رہے اور جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے تھے تم لوگوں نے اسے باقی رکھا ہے اور اسے اپنی گردن میں لٹکا رکھا ہے جب کہ تمہارے نظریہ کے مطابق تو تمہارے لئے بہتر یہ تھا کہ گدھے کی شکل کی کوئی چیز گردن میں لٹکاتے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے باقی رکھنا چاہتے تھے، تم صلیب کو دور پھینکو ورنہ اس سے تمہاری جہل و نادانی ثابت ہوگی“۔[67]
۴۵۔ علی بن میثم کا ایک منکر خدا سے بہترین مناظرہ
ایک روز علی بن اسماعیل مامون کے وزیرحسن بن سہل کے پا س گئے تو دیکھا ایک ہواو ہوس پرست منکر خدا لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا ہے اور وزیر مامون اس کا بہت احترام کر رہا ہے اور دیگر تما م بڑے بڑے اور عظیم دانشور حضرات اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ منکر خدا بڑی گستاخی کے ساتھ اپنے مذہب کی حقانیت کے بارے میں باتیں کر رہا ہے۔
علی بن میثم یہ دیکھ کر ٹھہر گئے اور اپنے مناظرہ کی شروعات کی۔
علی بن میثم نے حسن بن سہل سے اس طرح کہا: ”اے وزیر! آج میں نے تمہارے گھر کے باہر ایک بہت ہی عجیب چیز دیکھی ہے ؟
وزیر: ”کیا دیکھا ؟“
علی بن میثم : ”دیکھا کہ ایک کشتی بغیر کسی ناخدا اور رسی کے ادھر سے ادھر چل رہی ہے“۔
اس وقت وہ منکر خدا جو وہاں بیٹھا ہوا تھا اس نے وزیر سے کہا: ”یہ (علی بن میثم)دیوانہ ہے کیونکہ عجیب الٹی سیدھی بات کرتا ہے“۔
علی بن میثم: ”نہیں صحیح بات کر رہاہوں میں دیوانہ کیوں ہونے لگا؟“
منکر خدا: ”لکڑی سے بنی کشتی بغیر ناخدا کے کیسے ادھر سے ادھر جائے گی؟“
علی بن میثم: ”یہ میری بات تعجب آور ہے یا تمہاری کہ یہ عالم ہستی جو عقل وجان رکھتی ہے یہ مختلف گھاس اور دیگر نباتات جو زمین سے اگتے ہیں، یہ باران رحمت جو زمین پر نازل ہوتی ہے تیرے عقیدہ کے مطابق بغیر کسی خالق و مدبر کے ہے جب کہ تو ایک چھوٹی سی چیز کے لئے کہتا ہے کہ بغیر کسی ناخدا اور راہنما کے ادھر سے ادھر نہیں چل سکتی؟“
یہ منکر خدا علی بن میثم کا جواب دینے سے بے بس ہو گیا اور سمجھ گیا کہ یہ کشتی والی مثال صرف مجھے شکست دینے کے لئے دی گئی تھی۔[68]
۴۶۔ علی بن میثم کاابو الہذیل سے مناظرہ
ایک روز علی بن میثم نے ابو الہذیل سے پوچھا: ”کیا یہ صحیح ہے کہ ابلیس نوع انسان کو ہر نیکی سے روکتا ہے اور ہر بدی کا حکم دیتا ہے ؟“
ابو الہذیل: ”ہاں یہ صحیح ہے“۔
علی بن میثم: ”چونکہ نیک کام کو نہیں پہچانتا لہٰذا اس کے انجام دینے سے لوگوں کو منع کرتا ہے یا برائی کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس کو نہیں جانتا“۔
ابو الہذیل: ”نہیں بلکہ وہ جانتا ہے“۔
علی بن میثم: ”یعنی یہ ثابت ہے کہ ابلیس ہر نیکی اور ہر بدی کو جانتا ہے“۔
ابو الہذیل: ”ہاں“۔
علی بن میثم: ”مجھے یہ بتاوٴ کہ رسو ل خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد تمہارا امام کون تھا؟کیا وہ تمام نیکی اور بدی کو جانتا تھا یا نہیں؟“
ابو الہذیل: ”نہیں تمام نیکی اور بدی کو نہیں جانتا تھا“۔
علی بن میثم: ”بس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس تمہارے امام سے زیادہ عقلمند اور عالم ہے“۔
ابو الہذیل اس بات کو جواب دینے سے قاصر رہا اور وہ بری طرح پھنس گیا۔[69]
ایک روز ابو الہذیل نے علی بن میثم سے پوچھا کہ رسول صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد علی علیہ السلام کی امامت اور حضرت ابو بکر سے افضل ہونے پر کیا دلیل ہے؟
علی بن میثم: ”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد تمام مسلمانوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ علی علیہ السلام ایک کامل مومن اور عالم ہیں جب کہ اس وقت ابو بکر کے سلسلہ میں اس طرح کا اجماع نہیں تھا“۔
ابو الہذیل: ”استغفر اللہ ، خدا معاف کرے کس شخص نے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر کے علم وایمان پر اجما ع نہیں کیا تھا؟!“
علی بن میثم: ”میں اور مجھ سے پہلے والے اور حالیہ زمانے میں میرے ساتھی“۔
ابو الہذیل: ”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اورتمہارے ہمنواگمراہی کی زندگی گزار رہے ہیں“!۔
علی بن میثم: ”اس طرح کا جواب گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے علاوہ کچھ نہیں یعنی تو منطقی جواب نہ دے کر برا بھلا کہہ رہا ہے اور مجھے گمراہ جانتا ہے، تیرا بھی جواب گالی گلوچ ہی ہے“[70]
(کیونکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو بہتر ہے)۔
۴۷۔ عمر بن عبد العزیز کا مناظرہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی برتری کا اعلان
عمر بن عبد العزیز (اموی سلسلہ کا آٹھواں خلیفہ )کے دور خلافت میں ایک سنی نے اس طرح قسم کھائی :
”ان علیا ًخیر ھذہ الامة والاامراتی طالق ثلاثا“۔
یقینا علی علیہ السلام اس امت کی بہترین فرد ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو میری بیوی کوتین طلاق ہو۔
وہ شخص اس بات کا معتقد تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص علی ابن ابی طالب علیہماالسلام ہیں بس اس وجہ سے اس کی طلاق باطل ہے۔
اہل سنت حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق طلاق کہہ دیا جائے تو طلاق صحیح ہے اس شخص کی بیوی کا باپ اس طلاق کو صحیح جانتا تھا کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد علی علیہ السلام تمام مسلمانوں سے افضل وبرتر نہیں تھے۔
اس عورت کے شوہر اور اس کے باپ میں بحث ہو گئی۔
شوہر کہتا تھا: ”یہ عورت میری بیوی ہے اور طلاق باطل ہے کیونکہ شرط طلاق علی علیہ السلام کا تمام امت میں برتر نہ ہونا ہے جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ علی علیہ السلام تمام لوگوں سے افضل و برتر ہیں تو طلاق کہاں واقع ہوئی ؟“
باپ کہتا تھا: ”طلاق واقع ہوگئی کیونکہ علی علیہ السلام تما م لوگوں سے افضل و برتر نہیں ہیں نتیجہ میں یہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہے“۔
یہ بحث آگے بڑھ گئی اور کچھ لوگ باپ کے طرفدار ہوگئے اور کچھ شوہر کے اور یہ مسئلہ ایک مشکل بن گیا۔
میمون بن مہران نے اس واقعہ کو عمر بن عبد العزیز کے پاس لکھ بھیجا تاکہ وہ اسے حل کرے۔یہ مسئلہ ایک مشکل بن گیا۔
عمر بن عبد العزیزنے ایک نشست بلوائی جس میں بنی ہاشم ،بنی امیہ اور قریش کے چند بزرگوں کو شرکت کی دعوت دی اور ان سے کہا کہ اس مسئلہ کا حل پیش کریں۔
اس جلسہ میں بات چیت تو بہت زیادہ ہوئی، بنی امیہ اس کا جوا ب دینے سے بے بس تھے، اس لئے انھوں نے سکوت اختیار کیا۔
آخر میں بنی ہاشم کے ایک شخص نے کہا:
”طلاق صحیح نہیں ہے کیونکہ علی علیہ السلام تمام امت میں سب سے افضل و برتر ہیں۔اور طلاق کی شرط عدم برتری ہے لہٰذ ا طلاق واقع نہیں ہوئی“۔
اس شخص نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے عمر بن عبد العزیزی سے کہا:تجھے خدا کی قسم ہے کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بیمار پڑنے پر ان کی عیادت کے لئے گئے تھے اور اس وقت علی علیہ السلام کی زوجیت میں تھیں۔
آپ نے فرمایا: ”بیٹی کیا کھانا چاہتی ہو؟“
جنا ب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیا: ”بابا انگور کھا نے کو دل چاہتا ہے“۔
حالانکہ یہ انگور کا موسم نہیں تھا اور حضرت علی علیہ السلام بھی سفر پر تھے مگر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے یوں دعا کی:
”اللھم آتنا بہ مع اٴفضل اٴمتی عندک منزلة“۔
”پالنے والے ! انگو ر کو میرے پاس اس شخص کے ذریعہ پہنچا جس کی منزلت تیرے نزدیک سب سے زیادہ ہو“۔
ناگاہ علی علیہ السلام نے دق الباب کیا اوراپنے ہاتھوں میں عبا سے ڈھکی ٹوکری کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔
پیغمبر خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”علی علیہ السلام یہ کیا ہے ؟“
علی علیہ السلام نے کہا: ”یہ انگور ہے جس کی فاطمہ الزہرا سلا م اللہ علیہا نے خواہش کی ہے“۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”اللہ اکبر ،اللہ اکبر،خدایا تو نے جس طرح علی کو اس امت کا بہترین شخص قرا دے کر مجھے خوش کیا اسی طرح ان انگور کو میری بیٹی فاطمہ کے شفا قرار دے“۔
اس کے بعد آپ نے انگور کو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رکھ دئے اور فرمایا: ”بیٹی اسے بسم اللہ کہہ کر کھاوٴ“۔
ابھی رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے باہر نہیں نکلے تھے کہ آپ صحت یاب ہوگئیں۔
عمر بن عبد العزیز نے ہاشم مرد سے کہا: ”سچ کہا اور اچھی طرح بیان کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس حدیث کو میں نے سنا ہے اور کئی جگہ دیکھا ہے اور میں اس کو ماتنا ہوں“۔
اس کے بعد عبد العزیز نے اس عورت کے شوہر سے کہا: ”عورت کا ہاتھ پکڑ اور اپنے گھر لے جا،یہ تیری بیوی ہے اگر اس کا باپ روکے تو مار مار کر اس کا چہرہ بگاڑدے“۔[71]
اس طرح اس اہم جلسہ میں عمر بن عبد العزیز (اموی دور کے آٹھویں خلیفہ ) نے قانونی طور پر تمام امت پر امام علی علیہ السلام کی برتری کا اعلان کر ادیا جس کی وجہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ عورت اس اہل سنت شخص کی زوجیت میں باقی ہے۔
۴۸۔ مخالف کی رسوائی کے لئے شیخ بہائی کا ایک عجیب مناظرہ
دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے عالم تشیع کے ایک بہت ہی جلیل القدر عالم دین محمد بن حسین بن عبد الصمد گزرے ہیں جنھیں لوگ ”شیخ بہائی“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
شیخ بہائی نے ۱۰۳۱ ھ قمری میں اس دنیا کو خیر آباد کہا، آپ کی قبر امام رضا علیہ السلام کے مرقد مقدس کے جوا ر میں واقع ہے۔
ایک سفر کے دوران آپ کی ملاقات ایک شافعی مذہب عالم دین سے ہوئی ، آپ نے بھی اس کے سامنے اپنے آپ کو شافعی ظاہر کیا۔جب اس شافعی کو یہ معلوم ہوا کہ شیخ بہائی شافعی مسلک ہیں اور مرکز تشیع (ایران) سے آئے ہیں تو اس نے شیخ بہائی سے کہا:
”یہ شیعہ حضرات اپنی باتوں کے اثبات کے لئے کوئی دلیل و شاہد بھی رکھتے ہیں؟
شیخ بہائی نے کہا: ”میرا کبھی کبھی ان سے سامنا ہوا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنے مطلب و مقصد کے ثبوت میں بہت ہی محکم دلائل رکھتے ہیں“۔
شافعی عالم نے کہا: ”اگر ممکن ہوتو ان میں سے کوئی دلیل نقل کرو“۔
شیخ بہائی نے کہا: ”مثلاًوہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایاہے:
”فاطمة بضعة منی من آذاہا فقد آذانی و من اغضبہا فقد اغضبنی“
”فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا“۔[72]
اور اس کے چار ہی ورق کے بعد یہ لکھا ہے:
”وخرجت فاطمة من الدنیا و ھی غاضبة علیھما“۔[73]
”فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اس دنیا سے عمر و ابوبکر سے ناراض رخصت ہوئیں“۔
ان دونوں روایتوں کو جمع کرنے کے بعد اہل سنت کے مطابق ان کا کیا جواب ہو سکتا ہے ؟“
شافعی مذہب فکر میں ڈوب گیا، کیونکہ ان روایتوں پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں عادل نہیں تھے اور رہبری کی لیاقت نہیں رکھتے تھے )اور تھوڑے تامل کے بعد ان سے کہنے لگا: ”کبھی کبھی شیعہ جھوٹ بھی بول لیتے ہیں ہوسکتا ہے یہ بھی جھوٹ ہو مجھے کچھ وقت دو تاکہ میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرو ں اور اس روایت کے صدق وکذب کا پتہ لگاوٴں اور سچ ہونے کی صورت میں اس کا جواب بھی معلوم کرلوں“۔
شیخ بہائی کہتے ہیں:
”دوسرے دن جب میں نے اس شافعی کو دیکھا تو میں نے اس سے کہا: ”تمہاری تحقیق کہا ں تک پہنچی ؟“
اس نے کہا: ”وہی ہو جو میں کہتا تھا کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ میں نے ان دونوں روایتوں کو صحیح بخاری میں دیکھالیکن شیعہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان چار ورق کا فاصلہ ہے لیکن میں نے جب گنا تو پانچ ورق کا فاصلہ پایا“!![74]
کتنا بہترین جواب ہے ؟! کتنی بڑی حماقت ہے ! صحیح بخاری میں ان دونوں روایتوںکا موجود ہونا مقصود ہے خواہ وہ پانچ ورق کے فاصلہ پر ہو یا پچاس ورق کے فاصلہ پر ؟!
۴۹۔ سید موصلی سے علامہ حلی کا مناظرہ
آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں شاہ خدا بندہ ،ایل خانیان کا گیارہواں بادشاہ سنی المذہب تھا مگر ۷۰۹ ہجری میں علامہ حلی (شیعوں کے بزرگ دینی مرجع متوفی ۲۶ ۷ ھ) کی زبردست مناظروں کی وجہ سے وہ شیعہ ہوگیا تھا اس نے مذہب جعفری کا قانونی طور پر اعلان کر دیا اور پورے ایران میں اسی وجہ سے شیعہ مذہب رائج ہوا۔
ایک دن اس کے پاس اہل تسنن کے بڑے بڑے علماء بیٹھے ہوئے تھے، علامہ حلی بھی شاہ کی دعوت پر وہاں موجود تھے اس بزم میں شیعہ و سنی کے درمیان مختلف مناظرے ہوئے ان میں ایک مناظرہ یہ بھی تھا:
اہل سنت کے ایک عظیم عالم دین سید موصلی نے علامہ حلی سے کہا: ”پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں (یعنی ائمہ علیہم السلام ) پر صلوات بھیجنے کا کیا جواز ہے ؟“
علامہ حلی نے یہ آیت پڑھ دی:
” وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا اٴَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ اٴُوْلَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ“ [75]
”اور ان صابروں کو بشارت دیں جن کے اوپر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم خدا کے لئے ہیں اور اسی کی طرف واپس پلٹ کے جائیں گے ان لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات ورحمت ہو“۔
سید موصلی نے بڑی اعتنائی سے کہا: ”پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے علاوہ اور کن لوگوں (ائمہ معصومین علیہم السلام ) اور کس پر ایسی مصیبت نازل ہوئی کہ وہ صلوات کے مستحق ہوجائیں؟“
علامہ حلی نے فوراً کہا: ”سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہے ان کی نسل میں ایک تیرے جیسا آدمی بھی ہے جو منافقوں کو آل رسول پر ترجیح دیتا ہے! “
علامہ کی اس حاضر جوابی پر سارا مجمع ہنس پڑا۔[76]
--------------------------------------------------------------------------------
[1] اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے تعلق نہیں رکھتی۔اس جواب میں امام کا مقصد در اصل عوام کو قانع کرنا تھا جیسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کیا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وہ اس کے جواب میں کہے: ”ہاں اڑ سکتا ہے وہ ایک ہوائی جہاز بنائے اور اس میں بیٹھ کر فضا میں پرواز کر سکتا ہے“۔امام ،آنکھ کے ڈھیلے کی مثال سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غیر معقول مثال کے ذریعہ کہ کیا خدا انڈہ میں پوری دنیا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈہ بڑاہو یا یہ بھی کوئی محال کام نہیں ہے اور خدا اس بات پر قادر ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محالات عقلیہ پر قدرت نہیں رکھتا یہ توایسا ہی ہوگا کہ ہم سوال کریں کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط ہے، اس مسئلہ کی مکمل تحقیق اور یہ کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے متعلق ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں مختلف کلامی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
[2] اصول کافی ، ص ۷۹ و۸۰۔
[3] کیونکہ ان دونوں میں ہر جہت سے اختلاف کا فرض غلط ہے کیونکہ دو چیزیں بھلے (ایک ہی جہت سے )مانند و مثل ضرور رکھتی ہیں جیسے جہت وجود وہستی میں ہر موجود شئے ایک دوسرے کی مثل ومانند ہے ۔
[4] اصول کافی ،حدیث ۵، ص۸۰و ۸۱ ج۱ ، تلخیص و توضیح اور موٴلف کی طرف سے نقل معنی کے ساتھ ۔
[5] انوار البہیہ، ص ۱۵۲۔
[6] سفینة البحار ،ج ۱،ص ۱۵۷۔
[7] اصول کافی، ج۱، ص۱۲۸۔
[8] شامی دانشور ایک سنّی عالم دین تھا ۔
[9] علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول عقائد میں عقلی ونقلی دلیلوں کے ذریعہ بحث کرتا ہے ۔
[10] اس سے مراد ابو جعفر محمد بن علی بن نعمان کوفی ہیں جن کا لقب ”احول “تھا کوفہ کے محلہ طاق المحامل میں ان کی دکان تھی اسی لئے ان کو ”مومن طاق “کہتے تھے مگر ان کے مخالفین ان کو ”شیطان الطاق “کہا کرتے تھے (سفینة البحار ج۲، ص ۱۰۰)
[11] اصو ل کافی ج۱، ص۱۷۱۔
[12] اصول کافی ، ص ۱۷۲و ۱۷۳ ۔
[13] الشافی سید مرتضی ،ص ۱۲۔تنقیح المقال ،ج ۳ ص۲۹۵۔
[14] جاثلیق ،عیسائیت کی ایک بڑی شخصیت ہوتی ہے اس کے بعد ”مطران“کا درجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ”اسقف “اور اسقف کے بعد” قیس“کا درجہ ہوتا ہے۔
[15] سورہ آل عمران ، آیت ۳۴۔
[16] انوار البھیہ ،ص۱۸۹ تا ۱۹۲۔
[17] عیون اخبار الرضا ج۱، ص۷۸ سے اقتباس ۔
[18] سورہ انعام، آیت ۸۴ و ۸۵۔
[19] سورہآل عمران ، آیت ۶۱۔
[20] احتجاج طبرسی ج۱،ص۱۶۳ سے ۱۶۵ سے اقتباس ،اسی بنا پر بعض لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تمام اولادجو قیامت تک ان کی نسل سے وجود میں آئے گی سید ہوگی اور رسول اسلام کی ذریت میں شمار ہوگی، لہٰذا اگر کسی کا باپ سید نہ ہو لیکن اس کی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہو تو وہ سید ہوگا۔(غور کریں)، موٴلف۔
[21] سورہ نجم، آیت ۱۸۔
[22] اصول کافی ، باب ابطال الروٴیة، حدیث۱، ص۹۵و ۹۶، ج ۱۔
[23] اصول کافی ، جلد ۱، باب ابطال الرویة ،ص۱۳۰و ۱۳۱۔
[24] اصول کافی ،ج۱،ص۷۸۔
[25] قدریہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ خدانے تمام امور بندوں پر چھوڑ دیئے ہیں۔
[26] اصول کافی ج۱،ص۱۵۷و۱۵۸۔
[27] ترجمہ ارشاد شیخ مفید ،ج۲،ص۲۶۹ سے لے کر ۲۷۳ تک۔
[28] انو ار البھیہ، ص۳۴۹۔ ۳۵۰۔
[29] سفینة البحار ،ج۱ ص۱۹۳۔
[30] الصراط الستقیم، بحار کی نقل کے مطابق ،ج۸، پرانا ایڈیشن ،ص۱۸۳۔
[31] مجالس الموٴمنین ،ج۲ ،ص۴۱۹،بہجة الآمال،ج۲، ص۴۳۶۔
[32] بہجة الآمال،ج۲،ص۴۳۷۔
[33] فصول المختار، سید مرتضیٰ ج۱،ص۹۔قاموس الرجال ،ج۹ص۳۴۲ سے اقتباس، تھوڑی وضاحت کے ساتھ، ۔
[34] اگرچہ فضال شیعہ تھے اور ان کا کوئی بھائی نہیں تھا ، لیکن وہ اس طریقہ سے مناظرہ کرنا چاہتے تھے۔
[35] سورہٴ نساء، آیت ۹۷۔
[36] سورہٴ احزاب، آیت ۵۳۔
[37] سورہٴ احزاب۔آیت ۴۹۔
[38] جن کے نام یہ ہیں عائشہ ،حفصہ،ام سلمہ،ام حبیبہ ،زینب،میمونہ،صفیہ،جویریہ اور سودہ۔
[39] خزائن نراقی،ص۱۰۹۔
[40] سورہٴ طہ ، آیت ۱۲۱۔
[41] سور انسان ، آیت ۲۲۔
[42] سورہٴ تحریم آیت ۱۰۔
[43] سورہٴ بقر آیت ۲۶۰۔
44] سورہٴ قصص ، آیت ۲۱۔
[45] سورہٴ بقرہ آیت ۲۰۷۔
[46] سورہٴ ص۔آیت ۲۶۔
[47] سورہ انبیاء، آیت ۷۹۔
[48] سورہٴ ص آیت ۳۵ ۔
[49] سورہٴ قصص ،آیت ۸۳۔
[50] سورہٴ مائدہ آیت ۱۱۷۔۱۱۶۔
[51] فضائل ابن شاذان ص۱۲۲۔بحارج۴،ص۱۳۴ سے ۱۳۶ تک۔
[52] وہ درحقیقت ایک ہوشمند دانشور تھا لیکن تقیہ کے طور پر دیوانوں کی طرح زندگی بسر کررہا تھا۔
[53] احتجاج طبرسی ،ج۲،ص۱۵۱ سے ۱۵۴ تک۔
[54] سورہٴ واقعہ آیت۳۵۔۳۷۔
[55] بحار،ج۴۹ ،ص۱۹۳۔
[56] کشف الیقین علامہ حلی ،ص۱۶۶۔بحار ،ج۳۹ ،ص۲۸۷۔
[57] شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ،ج۴ ص۱۶۳ اور ۶۸۔
[58] ”خان الامین “والی تہمت بعض سنی فرقوں میں بہت زیادہ مشہور ہے جب بھی شیعوں پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں تو یہ جملہ ان کی زبانوں پر ہوتاہے۔لہٰذا ڈاکٹر تیجانی سماوی نے اپنی کتاب ”پھر میں ہدایت پاگیا “میں دو جگہ اس تہمت کا ذکر کیا ہے ۔
[59] اس طرح کا اعتراض حضرت امام صادق علیہ السلام کی زندگی میں منکر خدا ابی العوجاء نے بھی کیا تھا کہ کیوں حجر اسود کو بوسہ لیتے ہو، یہ پتھر ہے اور فہم و شعور نہیں رکھتا، جس کے جواب میں ابی العوجاء مسلمان ہوگیا تھا۔
[60] سورہ نساء آیت ۶۴۔
[61] وفاء الوفاء، ج۲، ص۱۳۷۶، الدرر السنیہ، ذینی دحلان، ص۱۰۔
[62] الدر المنثور ،ج۱ص ۵۹۔مستدرک حاکم ،ج۲ ،ص ۶۱۵۔مجمع البیان ج۱،ص۸۹۔
[63] الاعلام ، قطب الدین حنفی، ص۲۴۔
[64] الاعلام قطب الدین حنفی ،ص۲۴۔
[65] انوا ر البہیہ ،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانحیات کے بیان میں۔
[66] کشکول شیخ بہائی ،ج۱ ص۹۱۔
[67] الفصول المختار، سید مرتضیٰ ،ج۱ ص۳۱۔
[68] الفصول المختار ،سید مرتضیٰ ، ص۴۴۔
[69] الفصول امختار سید مرتضیٰ ،ج۱ ص۵۔بحار ج۱۰، ص۳۷۰۔
[70] مذکورہ حوالہ ،ج۱، ص۴۴۔
[71] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،احقاق الحق کی نقل کے مطابق ،ج۴،ص۲۹۲ سے لے کر ۲۹۵ تک ۔
[72] صحیح بخار ی، طبع دارالجبل بیروت ج۷ ص۴۷۔
[73] مذکورہ حوالہ، ج۹ ص۱۸۵ ، اور دوسرے مصادر، کتاب”فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ“، ج۳ ، ص۱۹۰ میں دیکھئے ۔
[74] روضات الجنات (شیخ بہاء الدین عاملی کی سوانح حیات کے بیان میں)
[75] سورہٴ بقرہ آیت۱۵۵ سے ۱۵۷۔
[76] بہجة الامال ، ج۳ ص ۲۳۴ ، شرح من لایحضرہ الفقیہ سے نقل ،مزید وضاحت کے لئے مناظرہ ۷۰ سے رجوع کریں۔
| |