دقیق شبھات ٹھوس جوابات(جلد اوّل)


اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود (٣) پچھلی بحثوں پر سرسری نظر
پچھلے دو جلسوں میں اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے متعلق اور اس کے حدود کے بارے میں مطالب کو پیش کیا گیا اگر چہ وہ مطالب اصل بحث کے لئے مقدمہ کا جنبہ رکھتے تھے وہ اہم نکتہ جس کے متعلق پچھلے جلسے میں خاص تاکید ہوئی وہ یہ تھی کہ انسان تکامل حاصل کرنے والی ایک مخلوق کے عنوان سے تکامل کے راستے کی تکمیل میں دو طرح کے عوامل کا سامنا کرتا ہے:
(١) ایک وہ عوامل و اسباب جو کہ فائدہ مند ہیں
(٢) دوسرے وہ عوامل جو کہ نقصان دہ ہیں؛ انسان کو چاہئے کہ دوسرے زندہ موجودات کی طرح مفید عوامل کو جذب کرے اور مضر عوامل کو دفع کرے ؛اس کام کے لئے سب سے پہلا قدم اور مرحلہ یہ ہے کہ انسان ان دونوں طرح کے عوامل کو پہچانے اور ایک دوسرے کو علیحدہ اور جداکرے؛ لہذٰا پہلا قدم ان عوامل کی پہچان ہے چونکہ یہ جذب و دفع جبری اوور زبر دستی نہیں ہے بلکہ خود انسان کے ارادہ و اختیار سے متعلق ہے اور جس کو وہ انتخاب کرتا ہے وہی انجام پاتا ہے لہذادوسری منزل یہ ہے کہ انسان اپنے ارادہ کومضبوط کرے تاکہ اچھے کاموں کو انجام دے سکے اور برے کاموں کو ترک کر سکے کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو اچھی اور مفید ہے انسان اس سے لگائو رکھتا ہو اور اس سے لذت حاصل کرتا ہو یا ہر وہ چیز جو کہ اس کے لئے بری اور نقصان دہ ہے اسے نا پسندکرتا ہو اور اس میں رغبت نہ رکھتا ہو؛ بلکہ بہت سی جگہوں میں مسئلہ اس کے بر خلاف ہے مثلاً وہ سبب جو کہ بہت نقصان دہ ہے اسی چیز کو انسان خاص طور سے بہت ہی لگائو کے ساتھ اختیار کرتا ہے مثلاً بعض لوگ سگر یٹ اور شراب وغیرہ کو بہت دوست رکھتے ہیں ،پیش کی جا سکتی ہے لہذا جذب و دفع کے مسئلہ میں شناخت اور پہچان کے علاوہ انسان کے ارادہ کی طاقت بھی بنیادی کردارادا کرتی ہے ۔

انسان کی روح کے کمال کے لئے مفید اور مضر ا سباب کی تشخیص کا مرجع
لیکن مفید اور مضر اسباب کے پہچاننے کے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا مرجع اس بات کومشخص ومعےّن کرے اور کہے کہ فلاں سبب ہمارے معنوی کمال اور روح کے لئے فائدہ مند ہے اور اس کو جذب کرنا چاہئے اور کون سا عامل نقصان دہ ہے کہ اس کو دفع کرنا چاہئے ؟ اسی طرح ارادہ کی تقویت کے متعلق، کون سے عوامل ہیں جو اس ارادہ کو قوی بناتے ہیں ؟
ہم مسلمان اور دیندار لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ مرجع خدا ہے اور اسی کو اس مشکل کو حل کرنا چاہئے کیوںکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور وہی مکمل طور سے انسان کی روح وجسم کے خواص وقوانین نیز ان کے ایک دوسرے پر اثرات سے واقف ہے' اور وہی خدا یہ جانتا ہے کہ کون سی چیز انسان کے لئے مفید ہے اور کون سی چیز مضر ہے اور کون سے کام روحی و معنوی جذب اور دفع کا باعث ہے ؛خدا وند عالم نے اس کام کو پیغمبروں کے ذریعہ سے انجام دیا ہے انبیاء کے بھیجنے کا بنیادی فلسفہ یہی تھادین اور اس کے تمام دستورات اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں یعنی اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ روحی و معنوی کمال اوربلندی پر پہونچے اور مفید و مضر اسباب جو کہ اس راستے میںہیں، ان کو پہچانے تو اس کودین و انبیاء کو تلاش کرنا چاہئے یعنی انبیاء اور دین سے متمسک ہونا چاہئے ۔

دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں اسلام کی کلی سیاست
اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم کو کیا کرنا چاہئے تا کہ لوگ دین کی طرف متوجہ ہوں ؟صرف یہ کہ انبیاء نے روحی اور معنوی تکامل کا نسخہ انسان کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے اور ان لوگوں کو صحیح راستے کی نشان دہی کر دی ہے ،یہی کافی ہے؟ بلکہ اس کے علاوہ ایسی تدبیر کرنی ہوگی کہ لوگ اس نسخہ کو قبول کرلیں اور اس پر عمل کریں ؛اب اس جگہ پر پھر جاذبہ اور دافعہ کی بحث آتی ہے ؛لیکن جاذبہ اور دافعہ اس معنی میں کہ انبیاء نے لوگوں کو دین کی طرف بلانے اور ان لوگوں کو اس کے قبول کرنے اور اس پر مطمئن کرنے کے لئے کس راستے اور طریقے کو اختیار کیا ہے؟یعنی اس کے لئے آیاقوت جاذبہ کے طریقے کو اپنایا اور نرمی و مہربانی کے ساتھ اس بات کی کوشش کی کہ لوگ دین کی طرف جذب ہو ں یا یہ کہ ان حضرات نے سختی اور جبری طور سے لوگوں سے چاہا کہ لوگ اس نسخہ پر عمل کریں ؟یا یہ کہ ان دونوں طریقوں کو استعمال کیا؟ خلاصہ یہ کہ کوئی خاص قانون او رقاعدہ اس کے متعلق پایا جاتا ہے یا نہیں؟ ان تین سوالوں میں ایک سوال ہے جس کے لئے ہم نے پچھلے جلسے میں وعدہ کیا تھا کہ اس کے بارے میں بحث کریں گے البتہ اگر اس مسئلہ میں تفصیل اور جامع و مکمل طریقے سے بحث کی جائے تو کئی جلسوں کی ضرورت ہو گی جس کی گنجائش فی الحال ہمارے جلسے اور پروگرام میں نہیں ہے ، لہذٰا کوشش اس بات کی ہوگی کہ جو کچھ اس سے مربوط ہے اس کو مختصر طور سے یہاں بیان کردیا جائے۔

(الف )موعظہ اور دلیل سے استفادہ
انبیاء کا سب سے پہلا کام لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا ہے؛ ان کو سب پہلا کام یہ کرنا تھا کہ لوگ ان کی باتوں کو سنیں اور اس بات کو محسوس کریں کہ انبیاء کیا کہتے ہیں اس کے بعد کا مرحلہ یہ تھا کہ لوگ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟
اس پہلے مرحلے یعنی دعوت تبلیغ اور پیغام پہونچانے میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ انبیاء لوگوں کے لئے منطق اور برہان و استدلال لیکر آئے تھے اور قرآن مجید کی آیہ اس پر دلالت کرتی ہے ''ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة والموعظة الحسنة'' (١)یعنی لوگوں کو پرور دگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو ؛دعوت تبلیغ ، حکمت اور منطق و دلیل کے ساتھ ہونی چاہئے تاکہ اس میں جاذبہ پیدا ہو؛ اس مرحلہ میں دافعہ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔
لیکن واقعیت اور حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیںکہ حکمت ودلیل اچھی طرح سمجھ لیں؛ اگر ہم خود اپنے کو دیکھیں جس دن سے ہم نے اپنے کو پہچانا
..............
(١) سورہ نحل :آیہ١٢٥۔
ہے ہم نے سنا ہے کہ ایک دین اسلام اور ایک مذہب شیعہ نام کا پایا جاتا ہے اور ہم نے اس کو قبول کیا ہے؛ لیکن کیا ہم نے حقیقت میں کبھی اس بات پر غور کیا اور سوچا کہ اس کی عقلی دلیل کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اجتماعی اسباب اور عوامل سے متاثر ہو کر شیعہ مذہب کو قبول کیا ہے؛ اور اصلاً ان لوگوں نے اس سلسلہ میں کوئی تحقیق اور جستجو نہیں کی ہے اور نہ اس کی کوئی دلیل تلاش کی ہے ؛ہاں مجلس ،اسکول اور مدرسے میں کبھی اس سلسلے میں کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن خود سے اپنے اندر ابتدائی طور پر یہ جذبہ اور خواہش نہیں ہوئی کہ اس بارے میں جاکر تحقیق اور جستجو کریں ، اگر ہے بھی تو بہت کم لوگوں میں ۔اکثر لوگ جذبات اور احساسات سے متاثر ہوکر یا مادی اور معنوی جذبوں کے تحت حرکت کرتے ہیں منطق اور دلیل کے ساتھ بہت کم لوگ متوجہ ہوتے ہیں؛ عام انسانوں کے اندر جو چیز اصلی محرّک ہے وہ فائدہ یا نقصان اور خوف یاامیدہے وہی چیز جو کہ اسلامی تہذیب میں خوف ورجا کے نام سے پائی جاتی ہے یعنی انسان کسی چیز سے خوف رکھتا ہے یا اس چیز میںاس کا کوئی فائدہ ہوتا ہیتو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا یہ کہ اس چیز میں دولت ، بلندی اور شہرت تو اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا پھر یہ کہ بھوک ، بیکاری، تازیانہ، قید خانہ اور سزا کے خوف کی وجہ سے مجبور ہو کر اس کام کو کرتا ہے، یہ مثل بہت مشہور ہے کہ انسان خوف و امید کی وجہ سے زندہ ہے ؛عام طور سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر سبق اور درس پڑھے گا تو اس کی وجہ سے دوستوں اور ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہ جائے گا یا تعلیم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی مفید کام کرے گا اور پیسہ وغیرہ کما سکے گا یا اس لئے کہ سبق پڑھ کر ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار اور دوسروں کے طعنہ سے محفوظ رہے گا کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہی ہیں ،لہذٰا جیسا کہ آیہ کریمہ میں ہے کہ پہلے حکمت کا لفظ ہے اور اس کے بعد موعظہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ''ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة و الموعظةالحسنة''یعنی برہان و دلیل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیںکہ اگر اس کام کو انجام دو گے اور کرو گے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہو گا اور اگر اس کام کو نہیں کروگے تو یہ نقصان ہو گا یا اس کے بر عکس اگر اس کام کو کروگے تویہ نقصان ہوگا اور اس کو چھوڑ دو گے تو تم کو یہ فائدہ ہوگا ۔
اگر قرآن کریم میں انبیاء کے اوصاف کا ہم غور سے مطالعہ کریں تو ان کی صفتوں میں بہت سی جگہوں پر مبشر اور منذر کالفظ آیا ہے کہ انبیاء بشارت اور انذار کے لئے آئے ہیں، خدا وند عالم قرآن کریم میںفرماتا ہے '' وما نرسل المرسلین الاّ مبشرین و منذرین '' (١)ہم نے پیامبروں کو صرف مبشر اور منذر بنا کر بھیجا ہے یعنی وہ صرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں۔
انبیاء نے دعوت اور تبلیغ کے مرحلے میں صرف برہان و دلیل (حکمت )پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ،جس کو میں نے پہلے بیان کیا او ر شروع میں مختصر طور سے اس کی
..............
(١) سورہ انعام آیہ ٤٨.
وضاحت کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری باتوں کو تم لوگ قبول کرو گے اور ان پر عمل کرو گے تو اس کے بدلے تمھارے حصّہ بے پناہ نعمتیں اور ہمیشہ رہنے والی بہشت آئے گی اور اگر تم نے ہماری باتوں کو قبول نہیں کیا اور مخالفت کی تو جہنم اور اس کا عذاب تمھارا منتظر رہے گا ؛اب اس جگہ پر لوگ مواقفت یا مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کی تاثیر اس وقت زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جب اس کے عملی نمونے یا وہ واقعے جو کہ پہلے زمانے میں ہو چکے ہیں ان کے کانوں تک پہونچتے ہیں؛ اسی لئے آپ قرآن مجید میں دیکھیں گے کہ پچھلی امتوں کے واقعات اور جو عذاب ان پر نازل ہوئے ہیں ان کا تذکرہ ہے اور اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرگز تم بھی ایسا کام نہ کرنا ورنہ تمھارا حشر بھی ویسا ہی ہوگا ؛اس جگہ انسان کے ضمیر کے اندر ایک بیچینی اوراضطرابی کیفیت اور تحریک پیدا ہوتی ہے؛ البتہ نفع اور فائدہ کی امیداورنقصان کے خوف ،ان دونوں میں نقصان کا خوف انسان کوکام پر زیادہ ابھارتاہے ؛ یعنی اگر کچھ حد تک دنیاوی اور مادی نعمتوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ا س سے کہا جائے اگر ایسی کوشش اور ز حمت کرو گے تو دولت و نعمت اور شہرت اس سے زیادہ حاصل ہو گی؛ممکن ہے کہ اگر وہ جذبہ و حوصلہ نہ رکھتا ہو تو یہی کہے گا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہی کافی ہے ؛لیکن اگر اس سے کہا جائے کہ اگر کوشش نہیں کروگے تو تمھاری دولت اور ثروت کم ہو جائے گی اور رتبہ کم ہو جائے گا ؛چونکہ نقصان کا خوف ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ نقصان نہ ہونے پائے، اور شاید اسی لئے قران کریم میں بشارت اور انذار ساتھ ساتھ ذکرہوئے ہیں لیکن پھر بھی انذار سے متعلق زیادہ تاکید ہے ، خدا وندتباک وتعا لیٰ کا ارشادہوتا ہے: ''و ان من امّةٍ الّاخلا فیھا نذیر ''(١)یعنی کوئی امت ایسی نہیں گذری ہے جس میں نذیر ( ڈرانے والے )نہ ہوںاسی وجہ سے دعوت و تبلیغ کے آغاز میں جاذبہ اور دافعہ دونوں ایک ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ اس میں حکمت اور استدلال بھی ے اور جنت کا وعدہ اور جہنم سے ڈرانا بھی ہے اور جہنم کے سلسلے میں جو روایات ہیں ان میں دلچسپ اور نہایت ہی وحشتناک طریقے سے ڈرانے والے کے وصف کو بیان کیا گیا ہے ۔
..............
(١) سورہ فاطر : آیہ ٢٤۔
(ب) موعظہ حسنہ ]نیک اور درست[ ہونا چاہئے
جو نکتہ یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ جب حکمت کے بعد موعظہ کا موقع آئے تو موعظہ حسنہ ہو نا چاہئے یعنی اگر چہ موعظہ بشارت اور انذار دونوں پر مشتمل ہوتاہے اور اس کے معانی و مطالب اچھے نہیں لگتے لیکن اسکے بیان کی کیفیت اوراندازاچھا اور دلپذیر ہونا چاہئے یہاں تک کہ اگر انذار کا مخاطب فرعون جیسا گمراہ انسان بھی کیوں نہ ہو ؟بھی خداوند عالم موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون سے کہتا ہے: اذھباالیٰ فرعون انہ طغیٰ وقولالہ قولا لینا۔۔(١)فرعون کی طرف جائو اس نے سرکشی کی ہے اس سے نرم لہجہ میں گفتگو کرو ،شاید کہ وہ قبول کرے یا خوف ا ختیار کرلے ،یعنی فرعون سرکش ہے پھر بھی تمہارے ا لفاظ اور ڈرانے کاطریقہ ایسا ہو کہوہ ڈر جائے؛ لیکن ڈرائیں تو اپنے الفاظ کونرمی اور ملائمت کے ساتھ بیان کروپہلے سختی اورخشونت کے ساتھ اسکے سامنے نہ جائو۔ دعوت اور تبلیغ کے وقت اگر شروع ہی میں چیخ اور تند کلامی سے اسکو متوجہ کروگے تو وہ اصلاًتوجہ نہیں کرے گا کہ تم کیا کہہ رہے ہو لیکن اگر اس دافعہ والے الفاظ اور اسکے مطلب کو نرمی اورخوش اخلاقی کے ساتھ کہو گے تو ممکن ہے تمھاری بات اس پر اثر کرے ۔
..............
(١) سورہ طٰہ : آیہ٤٢ الیٰ ٤٤۔
(ج)مناظرہ
اس آیہ شریف میں موعظہ کے بعد مجادلہ کو بیان کیا گیا ہے'' ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظةالحسنة وجادلہم بالتی ھی احسن''(١)یعنی اچھی نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلائو اور ان سے بہترین طریقہ سے مجادلہ کرو اس لئے کہ ان کی ہدایت کی طرف راہنمائی کرو تو اچھی طرح سے بحث ومناظڑہ کرو ،مناظرہ کے موقع پر اگر سامنے والا مغلوب بھی ہوجائے اور اسے علمی حیثیت سے شکست دیدو لیکن پھر بھی انصاف وعدالت اور ادب سے باہر نہ نکلو اسکو شکست دینے کے لئے مغالطہ کا سہارا نہ لواس بات کی کوشش کرو کہ اسکو قانع اور مطمئن کردو تاکہ حقیقت اسکو معلوم ہوجائے ؛ساری کوشش اس بات میں صرف نہ کرو کہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ہر قیمت پر اسکو میدان مناظرہ سے خارج کر دو۔
..............
(١) سورہ نحل : آیہ ١٢٥۔

دعوت وتبلیغ میں دافعہ کے استفادہ نہ کرنے کی وجہ
لہٰذایہ کہا جاسکتاہے کہ دعوت و تبلیغ کے ہر مرحلہ حکمت ،موعظہ ، مجادلہ میں سے کسی میں بھی خشونت ودشمنی اور دافعہ مناسب نہیں ہے اگرچہ مجموعہ کلام و گفتگومین ممکن ہے کہ بات جہنم، اسکی آگ اور عذاب سے متعلق ہو ،لیکن گفتگو کا اندازایسا دلپذیر اور شیرین ہو کہ سامنے والا اس کو سننے اوراس پر غوروفکر کرنے پر آمادہ ہوجائے جب آپ اس انداز سے بات کریں گے کہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو جائے تو وہ اس کے متعلق فکر کرے گا اور خود سے یہ کہے گاکہ اگر یہ جہنم اور عذاب واقعاً صحیح ہیں تو میں ہمیشہ کے لئے اس عذاب میں گرفتارہو جائوںگا پس بہتر یہ ہے کہ تحقیق اور جستجو کی جائے اور حقیقت ماجرا سے آگاہی حاصل کی جائے، خاص طور سے جب اس طرف متوجہ ہو کہ نفع اور نقصان کی تعیین میں صرف احتمال کی مقدار کافی نہیں ہے احتمال کا نتیجہ ، محتمل (جس چیز کا احتمال ہو )میں ہے کیونکہ محتمل ہی آخری نتیجہ کو مشخّص و معےّن کرتا ہے یعنی ممکن ہے کہ احتمال کے مواقع اور مواردمیں اگرچہ نفع یا نقصان کا احتمال بہت کم ہولیکن اگر محتمل قوی ہے تو وہ ہمارے لئے حرکت کا سبب ہوگا مثلاًاگر پانچ سال کا بچہ آپ سے کہے کہ اس سیڑھی پر جس سے آپ اوپر جارہے ہیںایک بجلی کا تارٹوٹ گیا ہے احتیاط سے کام لیجئے گا آپکا پیر اس پرنہ پڑے، یہاں پرمسئلہ،احتمال کے اعتبار سے بہت کمزور ہے کیونکہ پانچ سال کا بچہ کیسے بجلی کے تار کو پہچان سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ٹیلی فون کا تار یا رسّی تا اور کوئی دوسری چیز ہو، اسے کہاں سے معلوم کہ تارمیںبجلی ہے ؟شاید کوئی ایک تار ہے جو ایسے ہی سڑھیوں پر پڑا ہو ،خلاصہ یہ کہ یہ پانچ سال کے بچے کی بات کوئی خاص احتمال آپ کی نظر میں پیدا نہیں کرتی لیکن پھر بھی یہ مسئلہ موت اور زندگی سے متعلق ہے بجلی سے کوئی مذاق نہیں کرسکتا ، لہذااگرچہ احتمال بہت ضعیف اور کم ہے لیکن محتمل بہت قوی ہے، آپ سیڑھی سے اوپر جانے میں بہت محتاط اور ہوشیار رہیںگے، اگر تار مل جائے تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ اس سے بچ کر وہاں سے گذریں گے ۔
ہماری بحث میں بھی محتمل بہت مضبوط اور قوی ہے یہ مسئلہ موت اور زندگی سے بھی بڑھ کر ہے، مسئلہ عذاب اورجہنم میں ہمیشہ رہنے کا ہے وہ عذاب اور جہنم جس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اگر اسی آگ اور جہنم کو نرم وآسان زبان، دردمند احساس اور مخلصانہ اندازکے ساتھ بیان کیا جائے تو اس بات کا احتمال زیادہ ہے کہ میری بات کو سنیں گے بلکہ اس سے متا ثر بھی ہوں گے۔

انسان کے شخصی اور خصوصی افعال کے سلسلے میںاسلام کا طرزعمل
لیکن اگر دعوت وتبلیغ کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر قوم ،معاشرہ اور عوام کے عمل نیز معاشرہ پر اس کے اثر کے متعلق بحث ہوتو بات جدا ہوگی اور مسئلہ یہاں پر فرق کرتا ہے ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک پوشیدہ کام ہے اور اس کا فائدہ یا نقصان پوری طرح سے ایک خاص شخص سے مربوط ہے اور اس کا اثر سماج اورمعاشرہ پر کچھ بھی نہیں ہے مثلاً ایک انسان نماز شب پڑھنے کے لئے آدھی رات کو بستر سے اٹھتا ہے اور بغیر کسی کو اطلاع دئیے ہوئے نمازمیں مشغول ہو جاتاہے، یا العیاذ باللہ ایک بوتل شراب نکال کر گھر کے کسی گوشہ میں چھپ کرپینا شروع کر دیتاہے، ان جیسے موارد میں جاذبہ سے استفادہ کرنابہت اچھا ہے یعنی اس کے لئے نماز شب کے فوائد کو بیان کیا جائے تا کہ اس کے اندر حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو اور وہ نماز شب پڑھے ، یامخلصانہ اور دوستانہ طریقے نیز اچھے اور نرم لہجے میں شراب کے نقصانات کو اس کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے ،لیکن اسلام میںایسے مسائل ( جو کہ پوری طرح ایک خاص فرد سے مربوط ہوں ) میں طاقت و قوت اور سختی و عناد کے ساتھ منع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ،یہاں تک کہ اگر آپ کسی شخص کے ایسے کام سے مطلع ہوتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اس بات کو اس کے سامنے بیان کریں اور کہیں کہ ہاں میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر کیسے صحیح ہے کہ آپ اس کے غلط کام کو دوسرے کے سامنے بیان کریں ؟یہ مومن کا راز ہے اس کو چھپانا چاہئے اور کوئی بھی اس کو ظاہر کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی انسان تنہائی میں گناہ کرنے میں مصروف تھا اور آپ نے اس کو دیکھ لیا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس سے یہ کہیں کہ میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو ممکن ہے آپ کا یہی کہنا اس بات کا سبب ہو کہ وہ فکر کرے اب تو میرا گناہ عام ہو ہی چکا ہے چھپا کر کروں یا ظاہری طور،پراب کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،اس کے بعد کھل کر گناہ کروں گاکیونکہ گناہ تو ظاہر ہو چکا ہے لہذٰا ایسے گناہ کو ظاہرکرنااسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے ؛پھر کیا حق بنتا ہے کہ جبری اور قہری طور پر اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے ؟ہا ںاگر ایک ایسے بالواسطہ طور پر کہ وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ آپ اس کے برے کام سے واقف ہو گئے ہیں تو ایسی جگہ پر ممکن ہے اس کو نصیحت کی جائے، تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے، توپھر ایسا کرناصحیح ہے۔

اجتماعی افعال کے ساتھ اسلام کا برتائو
بہت سے اعمال ایسے پائے جاتے ہیں کہ اس کا نفع یا نقصان ایک شخص سے کر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے البتہ یہ تاثیر کبھی بلا واسطہ (ڈائریکٹ)ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ ہوتی ہے،بلا واسطہ تاثیر اس طرح کہ مثلاً کسی کو مارا پیٹا جا رہا ہو یا اس پر ظلم ہو رہا ہو؛ معاشرہ پر لوگوں کے عمل کی بالواسطہ تاثیر کے مصداق اور اس کے دائرہ کے متعلق اختلاف رائے کا ہونا ممکن ہے لیکن جو چیز مسلّم ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے وہ یہ کہ اگر چہ اس عمل کا اثر ظاہراً بعض جگہوں پرمعاشرہ کے تمام افراد پر نہ پڑتا ہو لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے مثلاً برے کام کو اگر کوئی لوگوں کے سامنے انجام دے، تو یہ ایک بالواسطہ طور پر سکھانے کا طریقہ ہے اور یہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دھیرے دھیرے اس کا برا ہونا ختم ہو جاتا ہے، اگر ماں اور باپ بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں تو گویا یہ بالواسطہ طور پر ان کو سکھاتے ہیںکہ جھوٹ بولنا کوئی قباحت نہیںرکھتا ہے اسی بالواسطہ تاثیر کی وجہ سے( جوکہ معاشرہ پر پڑتی ہے) اسلام نے تجاہر بہ فسق یعنی علی الاعلان گناہ کرنے کو منع کیا ہے اور بعض افعال کے متعلق یہ کہا ہے کہ اسکو علانیہ لوگوں کے سامنے انجام نہیں دے سکتے؛ یعنی اگر ایسے اعمال کو کسی نے تنہائی مین چھپ کر انجام دیا ہے تو صرف گناہ کیا ہے؛ لیکن حقوقی طور پراس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور حکومت اسلامی بھی اسکو کچھ کہنے والی نہیں ہے؛ لیکن اگر اسی عمل کو وہ لوگوں کے سامنے کھل کر انجام دیتا ہے تو وہ مجرم شمار کیا جائیگا اور اسکو سزا ہو گی ۔
بہر حال وہ اعمال جو کہ اجتماعی تاثیر رکھتے ہیں اور انکے انجام دینے سے لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہوتا ہے انکی نسبت اگر انکی تاثیر بلا واسطہ ہوتی ہے تو اس صورت میں دنیا کے تمام عقلاء کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قوت یعنی حکومت تا کہ ان غلط کاموں کو جن کو دوسرے کے حقوق پر تجاوز کہا جاتا ہے، روک سکے ،یہ مطلب اسلام اور دین الہیٰ سے مخصوص نہیں ہے۔ ان موارد کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی عمل سماج کے لئے معنوی ضرر کا باعث ہو تو اسلام نے حکومت کو اجازت دی ہے بلکہ اس کو مکلف کیا ہے کہ اس میں دخل دے اور اس کام کو روکے؛ اور اسلام کا یہ کام ایک بنیادی اور جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے بر خلاف دوسرے نظاموں جو کہ ڈموکراسی اورلیبرل نظام پر قائم ہیں جمہوری اور لیبرل نظام حکومت میں مثلاً اگر کوئی نیم عریاں یا نا مناسب لباس پہن کر سڑک پر آتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیںکہ یہ اس انسان کی خاص رفتارہے اور اس کا ذاتی معاملہ ہے اوراس کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، اس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہے ؛لیکن اسلام نے اس عمل سے منع کیا ہے اس نے کہا کہ یہ عمل معنوی و تربیتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کا حامل ہے ،اگر کوئی شخص ایسے عمل انجام دیتا ہے تو اسلام نے اس کو خطا کار کہا ہے اور اس کے ساتھ مجرم کے عنوان سے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔

جزائی اورکیفری قوانین، اجتماعی نظم قائم کرنے کا سبب
وہ اعمال جو کہ اجتماعی خرابیاں رکھتے ہیںاور دوسروںکے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں ان کو ہر حالت میں روکا جانا چاہئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے قانون بنانے کی محتاج ہے وہ قوانین جو کہ ایک معاشرہ اور سماج میں ہوتے ہیں، ا ن کی دو قسم ہے: (١) مدنی قانون (٢) جزائی قانون
مدنی قانون (مدنی حقوق )لوگوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو بیان کرتا ہے جیسے تجارت،شادی بیاہ،طلاق،میراث اور ان جیسے قانون ۔
جزائی قانون(کیفری قانون) اس حکم کو بیان کرتا ہے جو مدنی قانون کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتا ہے یعنی جب مدنی قانون نے لوگوں کی آزادی اور حقوق کو بیان کر دیا ؛اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جزائی قانون اس کی سزا کو بیان کرتا ہے اور تمام حکومتوں کا ایک اہم قا نون یہی جزائی قانون ہے ؛حکومت اس قانون کو بناتی ہے اور اس کو لاگو بھی کرتی ہے؛ اس کی اصل وجہ اجتماعی نظم کو برقرار رکھنا اور اس کو جاری رکھنا ہے اور وہ سب اسی جزائی قانون سے مربوط ہے؛ اگر حکومت صرف مدنی قانون کے بنانے پر اکتفا کرے اور صرف لوگوں کے حقوق کو بیان کرے اور جب لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کریں،ان کے لئے کوئی قانون نہ ہو تو ہم بہت سے مواقع اس مدنی قانون کی مخالفت اور خلاف ورزی کا مشاہدہ کریں گے ۔ہم خود اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگرراہنما پولیس وغیرہ اور جرما نہ نہ ہو تو بہت کم ہی لوگ لال بتیّ،ممنوعہ جگہ پر گاڑیوںکا پارک کرنا ، یک طرفہ راستے سے نہ گذرنا ان سب قوانین کی رعایت کوئی بھی نہیں کرے گا، جو چیز چوروں اور قاتلوںکو ان کے کام سے خوف زدہ کرتی ہے زندان اور قتل کا ڈر ہے اگر یہ ڈر نہ ہو تو لوگوں کے مال و دولت کو آرام سے لوٹ لیں اور ان لوگوں کو قتل کردیں ،بس اسی وجہ سے حکومتوں کا ایک سب سے اہم اور بنیادی کام جزائی قانون کا بنانا اور اس کو جاری کرنا ہے اس قانون کے بغیر اجتماعی نظم اور حکومت کا نظم و نسق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔