دقیق شبھات ٹھوس جوابات(جلد اوّل)


اسلام میںجاذبہ اور دافعہ کے حدود (٢ )

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے بارے میں تین طرح کے سوالات
پچھلے جلسے کے مطالب کے ذیل میں اگر ہم جاذبہ اور دافعہ کے حدود کے بارے میں اسلام کے مطابق گفتگو کرنا چاہیں جو کہ تمام جہتوں کو شامل ہو تو اس بارے میں کم سے کم تین طرح سے گفتگو ہو سکتی ہے۔
گفتگو کا پہلا عنوان اور محور یہ ہے کہ ہم بحث اس طریقے سے کریں کہ اصولی طور پر اسلام کے تمام معارف چاہے وہ عقیدہ سے متعلق ہوں یا اخلاق و احکام سے خواہ وہ ایک انسان سے مربوط ہوں یا ُپورے معاشرے سے عبادتی ہوں یا حقوقی یا سیاسی ہے یا....،یہ مسائل اس بات کا سبب ہوتے ہیں کہ انسان بعض امور کو اپنے اندر جذب کرے اور بعض امور کو دفع کرے وہ امور مادی ہوں یا معنوی؛ اس صورت میں جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام جاذبہ رکھتا ہے ؛یعنی اس کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ وہ انسان کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو اپنے اندر جذب کرے ،اور اسلام کے دافعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں وہ ان چیزوں سے پرہیز کرے اور ان کو اپنے سے دور رکھے ؛یہ دافعہ اور جاذبہ کے پہلے معنی ہیں کہ جس کا اسلام میں تصّورہے؛او ر اسی کی بنیاد پر سوال پیش کیا جا سکتا ہے، اس کا مختصر جواب بھی یہ ہے کہ ہم چار فرض تصور کریں :
(١) اسلام صرف جاذبہ رکھتا ہے (٢)اسلام صرف دافعہ رکھتا ہے (٣) اسلام نہ جاذبہ رکھتا ہے اور نہ ہی دافعہ (٤) اسلام جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتا ہے ،کہ ان چاروں میں سیچوتھا فرض صحیح ہے۔
دوسرا معنی جو اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے لئے لیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ اسلام کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ بعض افراد کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض افراد کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ،جاذبہ یعنی وہ لوگوںکو اپنی طرف کھیچنتے ہیںاور دافعہ یعنی وہ ان کے لئے اسلام سے دوری کا سبب بنتے ہیں یا تمام اسلامی معارف میں بعض عناصر ایسے ہوتے ہیںاور وہ ان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض عناصر ایسے بھی ہیں جن کو بعض افراد پسند نہیں کرتے ہیں اور ان کے لئے دفع اور دوری کا سبب بنتے ہیں
تیسرے معنی یہ ہیںکہ ہم اس بات کو دیکھیں کہ اسلام غیر مسلموں کو اسلام کی طرف بلانے میں یا وہ لوگ جو کہ مسلمان ہیں انکی تربیت اور رشد و کمال کے لئے کس طریقے کو اپناتا ہے اور کون سے عمل انجام دینے کو کہتا ہے؟ کیا صرف جاذبہ کے طریقے کو اپناتا ہے یا دافعہ کے طریقے کو اختیار کرتا ہے یا دونوں طریقوںکو استعمال کرتا ہے ؟

انسان کاتکامل جاذبہ اور دافعہ کارہین منّت ہے
اس سے قبل کہ ہم ان تینوں معانی پر تفصیلی گفتگو اور بحث کریں اس سوال کو پیش کریں گے کہ انسانکے لئے ایک متحرک مخلوق کے عنوان سے جو کہ اپنے تکامل کے راستے میں ایک مقصد کو نظر میں رکھتا ہے اور اس تک پہونچنے کی کوشش کرتا ہے کیا اصلاً کوئی قوت جاذبہ ہے جو زیادہ سے زیادہ اور بہتر طریقے سے اس راستے میں اس کی مدد کرتی ہے یا کوئی قوت دافعہ ہے یا دونوں قوتیں پائی جاتی ہیں ؟
اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے تھوڑے سے غور و فکر اور دقت کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر زندہ رہنے والی چیزیںجو کہ دنیا میں پائی جاتی ہیں ان کو دیکھا جائے؛ چاہے وہ حیوان ہوں یا انسان؛ پیڑ پود ے ہوں یا کچھ اور؛سب کے سب جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ؛ہر زندہ رہنے والی چیز کے لئے سب سے اہم اور پہلی چیز جو اس کے لئے خصوصیت رکھتی ہے، وہ غذا ہے۔ تمام زندہ موجودات اپنے نشو نما نیز اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے کھانے اور غذا کی احتیاج رکھتے ہیں غذا اور کھانا بغیر جاذبہ کے نہیں ہو سکتا ؛یعنی غذا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے باہر سے کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہوکر جذب ہو جائے اسی طرح ہر چیز کا جذب تمام زندہ موجودات کے لئے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ بعض چیزوں کا جذب،زندہ شے کی نشوو نما اور اس کے تحرک میں خلل پیدا ہونے کا باعث ،اس کے متوقف ہونے،یہاں تک کی اس کی موت کا باعث ہوجاتا ہے لہذٰا ضروری ہے کہ ان چیزوں کی نسبت دافعہ بھی رکھتا ہو تاکہ ان کو اہنے بدن سے دور رکھے۔ لہذٰا تمام زندہ موجودات اپنے وجود کے باقی رکھنے کے لئے اور اپنے رشد وکمال کے لئے جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں۔ اس جگہ پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزوں کو جذب کرے اور بعض چیزوں کو دفع کرے تو جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ مادی جذب و دفع ہوتی ہے یعنی ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ تمام جگہوں پر جو کچھ جذب یا دفع ہے ایک مادی اور محسوس ہونے والی چیز ہے ؛ لیکن ہم کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اسلامی معارف کے اعتبار سے انسان کی زندگی صرف اسی بیو لوجک اور مادی زندگی تک محدود نہیں ہے ؛بلکہ انسان ایک معنوی زندگی بھی رکھتا ہے جو کہ روح سے مربوط ہے یعنیایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو کہ انسان کے جسم سے مربوط ہے اورایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو انسان کی روح سے مربوط ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: '' یا ایھاالذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم''(١) اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو جب خدا و رسول تم
..............
(١) سورہ انفال آیہ ٢٤ .
کو کسی چیز کی طرف بلائیں جو کہ تم کو زندگی بخشنے والی ہو تو تم اس پر لبےّک کہو ؛یہ بات مسلم ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خدا نے جن لوگوں کو مخاطب کیا ہے؛ وہ صاحبان ایمان ہیں اور حیوانی زندگی رکھتے ہیں؛ اور رسول ۖ کی باتوں کو سنتے ہیں، تو خدا اور رسول کیوں ان لوگوں کو اس چیز کی طرف بلارہے ہیں جو ان کو زندگی بخشتی ہو؛ یقیناً یہ حیات جسمانی اور مادی زندگی نہیںہے بلکہ اس سے دوسری زندگی مراد ہے۔ قرآن کریم میںدوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے'' و ما علمّناہ الشعر وما ینبغی لہ ان ھو الّاذکر و قرآن مبین لینذر من کان حےّاً '' (١) ہم نے اس (رسول )کوشعر نہیں سکھایا اور نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے یہ صرف نصیحت اور روشن قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے تا کہ جو زندہ ہوں ان کو ڈرائیں۔ اب یہ کہ قرآن اس شخص کی ہدایت کرتا ہے جو زندہ ہے اس کا مطلب کیا یہی جسمانی اور مادی زندگی ہے ؟ اگر مراد یہی مادی زندگی ہے تو ایسی زندگی تو سارے انسان رکھتے ہیں؛ لہذٰا قرآن کو سب کی ہدایت کرنی چاہئے لیکن ہم دیکھتے اور جانتے ہیں کہ قرآن نے ابولہب ،ابو جہل جیسوں کی اگر چہ یہ لوگ ظاہری اور جسمانی زندگی رکھتے تھے، کوئی ہدایت نہیں کی اور قران ایسے لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ،تو معلوم ہوا کہ اس حیات سے مراد قران میں کوئی دوسری حیات ہے حیات یعنی زندہ دلی ،روحی زندگی جو کہ انسان کو'' سننے والا کان ''دیتی ہے تاکہ خدا کے
..............
(١) سوررہ ےٰسین : آیہ ٦٩ اور ٧٠ ۔
کلام کو سن کر ہدایت حاصل کر سکے ''فانّک لا تُسمع الموتی''(١)اے رسول آپ مردوں کو نہیں سناسکتے ،اس آیہ میں مردوں سے مراد ''مردہ دل افراد '' ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے جسم تو زندہ ہیں لیکن ان کی روحیں مردہ ہیں روح اور دل کی زندگی کی کیا نشانی ہے ؟ اس کی علامت اور نشانی ،خشیت و خوف الٰہی ہے ''انما تنذرالذین یخشون ربّھم بالغیب''(٢) اے رسول ! تم صرف انھیں لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جواز غیب خدا سے ڈرتے ہیں؛ دل کے زندگی کی نشانی یہ ہے کہ جب ان کو متوجہ کریں اور بتائیںکہ تمھارا ایک خالق ہے اس کا تم پر حق ہے اور اس نے تم کو کسی مقصد کے تحت خلق کیا ہے اور تمھارے اوپراس نے کچھ ذمہ داری قراردی ہے تو اسکا دل کانپ اٹھتا ہے اور پھر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہو تا ہے،دل میں خوف خدا اور ایمان آنے کا نتیجہ یہ ہے کہ' 'یئوتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نوراًتمشون بہ ''(٣)یعنی خدا وند عالم اپنی رحمت سے تم کودوہرے حصے عطا فرماتا ہے اور ایسا نور قرار دیتا ہے کہ اس کے سبب اور اس کی برکت سے تم چل سکتے ہو؛ یہ نور، مادی اور محسوس کرنے والا نور نہیں ہے ،بلکہ وہی نور ہے جو کہ روح اور دل کی زندگی سے مربوط ہے، ایسی زندگی جس کی طرف خداوند عالم نے قران مجید میں مختلف مقامات پراشارہ
..............
(١)سورہ روم :آیہ٥٢۔
(٢) سورہ فاطر: آیہ ١٨۔
(٣) سورہ حدید: آیہ ٢٨۔
کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ''فا نھا لا تعمی الابصار و لٰکن تعمی القلوب التیّ فی الصدور''(١)
حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ وہ دل جو کہ سینے میں ہیں وہ اندھے ہیں ،مادی اور جسمانی آنکھ زندہ ہے اور دیکھتی ہے، لیکن روحانی اور باطنی آنکھ نہیں رکھتے ہیں،وہ صنوبری دل جو کہ سینے کے اندر دھڑکتا ہے اور زندہ ہے لیکن ایک دوسرا جو دل بھی ہے کہ عیب ونقص اسی میں ہے'' ثمّ قست قلوبکم من بعدذالک فھی کالحجارة او اشدّ قسوة '' (٢)پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے پتھر کی، طرح بلکہ اس بھی زیادہ سخت وہ دل پتھر جیسا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کہ کوئی چیز اس میں اثر نہیں کر سکتی ؛بلکہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے '' وانّ من الحجارة لما یتفجّرمنہ الانھار وانّ منھا لما یشقّق فیخرج منہ المائ'' (٣) اور بعض پتھروں سے نہریںنکلتی ہیں اور بعض شگافتہ ہوتے ہیں تو اس سے پانی نکلتا ہے بہر حال قران مجید میں ایسی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیںجن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس جسمانی آنکھ، کان اوردل کے علاوہ حیاتی آنکھ،کان،دل کا قائل ہے، اور جس طرح سے جسم کی زندگی،نشو ونما اس کے تکامل کے لئے جذب و دفع کی ضرورت ہے ویسے ہی روحی حیات کو بھی جذب و دفع کی احتیاج ہے۔ جس طرح سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی زندگی پر اثر ڈالتی ہیںاور اس جسم کے لئے مفید یا مضر ہیں ایسے ہی بہت سے عوامل ایسے بھی پائے
..............
(١)سورہ حج؛آیہ ٤٦۔
(٢)اور (٣)سورہ بقرةآیة٧٤.
جاتے ہیں جو کہ اس روحانی زندگی کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ۔جس طرح جسمانی زندگی کئی مرتبے اوردرجے رکھتی ہے اور اس میں نقص و کمال ، اور شدت وضعف پایا جاتا ہے، روحانی زندگی بھی اسی طرح کئی درجے اور مرتبے رکھتی ہے ؛روحانی زندگی کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان انبیاء کی پہلی دعوت جو ایمان اور توحید سے متعلق ہے اس کو قبول کرے اور اس کو جذب کرسکے ۔ البتہ انبیاء کی اس ہدایت کے اثر اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد انسان دھیرے دھیرے روحانی زندگی کے بلند مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے؛ اسی جگہ پرتزکیہ و تہذیب نفس کی بحث آتی ہے۔

تزکیہ نفس یعنی روح کے کمال کے لئے لازمی جذب اور دفع
نفس کو پاک و صاف کرنے (تزکیہ نفس )کی بحث اصل میں وہی ''روح سے مربوط جذب و دفع ''بحث ہے۔ ایک درخت کے لئے جب یہ چاہیں کہ وہ خوب تناور اورپھولے پھلے توضروری ہے کہ وہ مٹی اور ہوا سے مواد کو جذب کرے اور اس کی چھٹائی کی جائے اور مضر نباتی زہروں اور آفتوں کو او سے دور رکھا جائے۔اور یہ دونوں چیزیں یعنی جذب و دفع ضروری ہے ؛انسان کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں یعنی وہ ایسا کام کرے کہ اس کی روح صیقل ہو۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کی روح اور زندگی کے لئے ضروری اور مفید ہو ںان کو جذب کرے اور وہ چیزیں جو انسان کی روح کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اس کو اپنے سے دور کرے ، لہذٰا سب سے پہلاقدم یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانے اور ان کی معرفت حاصل کرے اور غفلت و جہالت سے باہر آئے؛ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی روح ایسی ہے کہ '' بذکر اللہ تطمئنّ القلوب '')١) خدا وند عالم کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، روح کی غذا خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے، دل کی زندگی اور خدا کی یاد کے درمیان ربط پایا جاتا ہے؛ یہی دل ایسا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے،
..............
(١) سورہ رعد: آیہ ٢٨۔
اوراس کو آفتوں اور زہریلے گناہوں سے نہ بچایاجائے اور ان کو دل سے دور نہ کیا جائے ؛تو ایسا بگڑ جاتا ہے کہ خدا وند عالم اس بیزار ہو جاتا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :''واذا ذکر اللہ وحدہ اشمازت قلوب الّذین لا یومنون با لآخرة''(١)اور جب ان کے سامنے خدائے یکتا کا ذکر آتا ہے تو جن کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں؛ اگر چہ خدا کو پہچاننا اور اس کی معرفت حاصل کرنا ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے ؛اور انسان کی طبیعت اولیٰ اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ خدا کو دوست رکھتی ہے اور اس کو پہچانتی ہے لیکن برائیاں اور غلط کام اس کو اس طرح خراب کر دیتے ہیں کہ جب خدا کا نام آتا ہے تو وہ ناخوش ہو جاتے ہیں۔ جس طرح انسان کی پہلی طبیعت اس طرح بنی ہے کہ جب دھواں اس کے حلق اور پھپھڑے میں جاتا ہے تو وہ تکلیف محسوس کرتا ہے اور فطری طور پر اس کی وجہ سے کھانسنے لگتا ہے لیکن جب سگریٹ پینے کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنے جسم کو ایسا عادی بنا لیتا ہے کہ جب تک سگریٹ کا دھواں اپنے حلق میں نہیں ڈال لیتا اس کو آرام اور سکون نہیں ملتا ہے حتیٰ اگر سگریٹ پئے بھی رہتا ہے اور اس کا اس سے دل بھی بھرا رہتا ہے لیکن صرف اس وجہ سے کہ سگریٹ گھرمیں نہیں ہے تو اس کو نیند نہیں آتی ہے ؛وہی تلخ اور کڑوادھواںجو کہ پہلی فطرت کے خلاف تھا اوراس کوتکلیف دیتا تھا اب اس کی عادت کی وجہ سے اس کا مزاج ایسا بدل گیا ہے کہ وہی
..............
(١) سورہ زمر : آیہ ٤٥۔
دھواں اس کی زندگی کا حصّہ بن گیا ہے اور اس سے ایسی وابستگی ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر
اس کو نیند نہیں آتی ہے۔
منجملہ ان چیزوں کے جو انسان کی معنوی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں خدا وند عالم کی محبت ، اس کے دوستوں کی محبت ،اس کے دوستوں کے دوستوں کی محبت ہے کہ جن کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے انسان کو کوشش کرنا چاہئے؛ اس کے بر خلاف گناہ ،شیطان اور دشمنان خدا اور دشمنان دین کی محبت کو اپنے دل سے نکالنے کی سعی کرنی چاہئے۔ انسان کی معنوی زندگی کے لئے صرف گناہ ہی نہیںبلکہ گناہ کا تصّور بھی نقصان پہونچانے کا سبب بنتا ہے؛ اگر مومن یہ چاہتا ہے کہ اس کا ایمان مکمل ہو اور اس کی روح بلند سے بلند تر ہو تو اس کو اپنے ذہن میں گناہ کا خیال بھی نہیں لانا چاہئے؛ شاید یہ بات ہمارے زمانے اور دور میں ]کیونکہ ہمارا ماحول ایسا ہے[ افسانہ لگتی ہو اور اس کا تصور بھی کرنا ہمارے لئے مشکل ہو تصدیق تو بعد کی بات ہے ؛لیکن یہ بات واقعیت اور حقیقت رکھتی ہے ؛اگر چہ میں ان بعض داستانوں پر جو لوگ بیان کرتے ہیںذاتی طور سے یقین نہیں رکھتا اور عام طور پرمیری عادت بھی نہیں ہے کہ میں بحث کو قصّہ اور کہانی سے ثابت کروں لیکن پھر بھی کبھی کبھی ذہن کو مطالب سے قریب کرنے کے لئے بعض داستانوں کا نقل کرنا مفید ہوتا ہے لہٰذامیں انھیں داستانوں میں سے ایک کو یہاں پر نقل کر رہا ہوں جو کہ اس سے (بحث ) مربوط ہے ۔

روحی جذب و دفع کا ایک عالی نمونہ
یہ داستان سید رضی اور سید مرتضیٰ سے متعلق مشہور ہے یہ دونوں بھائی تھے سید رضی وہی ہیں جنھوں نے نھج البلاغہ کو جمع کیا ہے؛ سید مرتضیٰ بھی صف اول کے علماء سے ہیں اور بہت بڑی شخصیت کے مالک ہیں ،جب ان دونوں بھائیوں نے پہلی مرتبہ اپنے استاد شیخ مفید کے پاس جانا چاہا مرحوم مفید نے اس سے پہلے رات کو خواب میں دیکھا کہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیھا اپنے دونوں فرزند امام حسن اور امام حسین کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئی ہیں اور فرماتی ہیں کہ یا شیخ علّمھما الفقہ یعنی اے شیخ ان کو فقہ کی تعلیم دو شیخ خواب دیکھ کر اٹھے تعجب کیا یہ کیا ماجرا ہے؟میری کیا حیثیت ہے کہ میںامام حسن اورامام حسین کو تعلیم دوں، صبح ہوئی اور درس کے لئے مسجد گئے ابھی درس دے ہی رہے تھے کہ ایک معظمہ خاتون کو دیکھا دو بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تشریف لائیں اور فرماتی ہیں یا شیخ علّمھما الفقہ اے شیخ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دو یہ دونوں بچّے کوئی اور نہیں بلکہ وہی سید رضی اور سید مرتضیٰ تھے ۔بہر حالم میرا مقصد یہ واقعہ ہے جیسا کہ لوگوں کا بیان ہے: ایک دن ان دونوں بھائیوں نے سوچا جماعت سے نماز پڑھی جائے؛ مستحب ہے کہ امام جماعت ماموم سے افضل ہو اور یہ دونوں بھائی علم کے اس بلند درجے پر فائز تھے کہ نہ صرف واجبات بلکہ مستحبات پر بھی عمل کرتے اور محرمات کے ساتھ مکروہات سے بھی پرہیز کرتے تھے؛ سید مرتضیٰ چاہتے تھے کہ اس مستحب (جماعت سے نماز پڑھنے )پر بھی عمل کریں دوسری جانب واضح اور صریحی طور پر اپنے بھائی سے یہ کہہ نہیں سکتے تھے کہ اے بھائی !میں تم سے افضل ہوں لہذٰا مجھ کو امام جماعت ہونا چاہئے تا کہ جماعت کااور زیادہ ثواب ہم دونوں کو مل جائے،لہذا انھوں نے چاہا کہ اشارے میںاپنے بھائی کو اس مطلب کی جانب متوجہ کریں اور کہا کہ ہم میں سے وہ امامت کرے جس سے آج تک کوئی گناہ سرزدنہ ہوا ہو گویا سید مرتضیٰ اشارةًیہ بتاناچاہتے تھے کہ جس وقت سے میں حد بلوغ کو پہونچا ہوں، تب سے آج تک مجھ سے کوئی گناہ نہیں ہوا ہے؛ لہذا بہتر یہ ہے کہ میں امامت کے فرائض انجام دوں۔سید رضی نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ ہم دونوں سے وہ امام ہو جس نے آج تک گناہ کا خیال بھی نہ کیا ہو، گویایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب سے میں سن بلوغ کو پہونچا ہوں تب سے میں نے گناہ کا خیال بھی نہیں کیا بہر حال یہ واقعہ کتنی حقیقت رکھتا ہے یہ بات اہم نہیں ہے اہم یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان کا سب سے بہترین اور بلند درجہ یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں گناہ کا تصور بھی نہ آئے۔ قرآن کریم میں خدا وندعالم ارشادفرماتا ہے: '' یا ایھاالذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم '' (١)اے وہ لوگو !جو کہ ایمان
..............
(١)سورہ حجرات : آیہ ١٢ ۔
لائے ہو بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو بیشک بعض گمان اور شک گناہ ہیں، لہذٰا مومن کو چاہئے کہ برے گمان سے بھی دافعہ رکھتا ہو اور اس گمان کو اپنے سے دور رکھے؛ گنا ہ کا خیال رکھنا اور اس کے مناظر کو سوچنا اور اس کی فکر کرنا ممکن ہے انسان کے اندر دھیرے دھیرے وسوسہ کو جنم دے اور اس کو گناہ کی طرف کھینچ لے جائے مومن کو چاہئے کہ ہر حال میں خدا کو یاد رکھے قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: '' الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً وعلیٰ جنوبھم ''(١)وہ لوگ ہر حال میں چاہے کھڑے ہوں یا بیٹھے یا کروٹ کے بل ہوں خدا کو یاد رکھتے ہیں ؛اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلو کے بل لیٹے ہوں یا سونے کے لئے آنکھوں کو بند کرلئے ہوں ؛اس حال میں بھی خدا کو یاد رکھو؛ اوراس بات کی کو شش کرو کہ خدا کی یاد میں تم کو نیند آ ئے تاکہ تمہاری روح بھی سونے کے عالم میں خدا کے عرش اور ملکوت کی سیرکرے ؛بہت سے ایسے لوگ بھی ہیںجوسونے کے وقت دوسری فکروںکو اپنے ذہن میں لاتے ہیں اور اس سے اپنی فکر کو گندہ کرتے ہیںاورجس وقت سوتے ہیں توشیاطین کی دنیا کی سیر کرتے ہیں اور خواب بھی گناہ کا دیکھتے ہیں۔
یہ وہ اثرات ہیںجو انسان کی معنوی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ جس طرح مادی اور دنیاوی زندگی میںانسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اسکا جسم نشو ونما کرے
..............
(١)سورہ آل عمران: آیہ، ١٢٥
اور صحیح اورسالم رہے تو اسکوچاہئے کی اچھی غذا کھائے اور خراب وزہریلے کھانے سے جوکہ نقصان دہ ہے پرہیز کرے ،اسی طرح روحی زندگی کے شعبہ میں بھی جو چیز اسکی روح کے لئے فائدہ مندہے اسکو جذب یعنی حاصل کرے اور جو چیزنقصان دہ اور مضر ہے اسکو دفع یعنی دور کرے ۔

آیہ'' فلینظرالانسان الیٰ طعامہ''(١) کی تفسیر
یعنی انسان اپنی خوراک اور غذا کی طرف دیکھے ،البتہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے قرینے سے یہ بات کی ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں طعام، مادی اورجسمانی غذاسے مربوط ہے،کیوںکہ گفتگو اس اندازسے ہے کہ اے انسان دیکھ یہ غذا کہاں سے آرہی ہے؟ ہم نے پانی کو آسمان سے کیسے نازل کیا،اور کس طر ح پودوں اورسبزوںکو اگایا؛پھر یہ سبزے کس طرح جانوروں کی غذا بنے اور پھر تم کس طرح ان جانوروں کے گوشت سے فائدہ حاصل کرتے ہو؛ یہ سب نعمتیںہیں جن کو خدا نے تمھارے لئے مہّیا کی ہے ؛خلاصہ یہ کہ آیہ اس بات کی نشان دہی کر رہی ہے کہ ظاہراًیہاں طعام سے مراد جسمانی غذا ہے؛ لیکن اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جو در حقیقت تاویل کی منزل میں ہے اس آیت کی باطنی تفسیر ہے کہ '' 'فلینظر الانسان الیٰ علمہ من یتّخذ'' انسان اپنے علم کو دیکھے کہ وہ کہاں سے حاصل کررہا ہے ؟کیونکہ علم روح کی غذا ہے اور اس کے مصرف میں انسان
کو خاص توجہ دینی چاہئے ؛یعنی جس طرح انسان باہر سے غذا اور کھانا
..............
(١) سورہ عبس: آیہ ٢٤۔
لاناچاہتا ہے تو وہ اس بات کی سعی کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کون سا ہوٹل صفائی کا زیادہ خیال رکھتا ہے اور کس کا کھانا اچھا اور بہتر رہتا ہے،اس کے بعد وہاں سے غذا حاصل کرتا ہے اسی طرح علم بھی آپ کے روح کی غذا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب اور جس سے چاہا علم حاصل کر لیا ؛بلکہ آپ جس استاد سے علم حاصل کر رہے ہیں اس کو دیکھنا چاہئے کیا وہ معنوی اور روحی پاکیزگی رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ہر وہ علم جو کسی بھی صورت میں پیش ہو چاہے کلا س میںہو یا کتاب میں ، تقریر ہو یا تحریر یاکسی اور طریقہ سے اس پر بھروسہ نہ کریں ؛بلکہ دیکھیںکہ یہ علم کس طرح اور کہاں سے آرہا ہے؛ اس لئے کہ علم کا اثرروح پر،اس غذا کے اثرات سے جو کہ جسم و بدن پر ہوتا ہے کم نہیں ہے ؛جس طرح آپ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آپ کی جسمانی غذا صاف اور پاک و پاکیزہ ہو؛ پھل، سبزی وغیرہ کو خود آپ دھو کر استعمال کرتے ہیں اور ان چیزوں کو اس کے بعد کھاتے ہیں، علم بھی آپ کی روح کی غذا ہے اس سے بھی باخبر ر ہیں کہ جو علم حاصل کر رہے ہوں وہ خراب اور آلودہ تو نہیں ہے، اس مقام پر بھی جاذبہ اور دافعہ ضروری ہے۔
وہ چیزیں جو ایمان کو کمزور کرتی ہیں اور ہمارے عقیدہ ا ور یقین کو متزلزل کرتی ہیں یا ان کے خراب کرنے کا سبب ہیں ان سے ہم کو بچنا چاہئے اور ایسے علم کو حاصل کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس کو حاصل نہیں کرنا چاہئے، مگر صرف اس صورت میں کہ ہمارا علم اتنا مستحکم ہو کہ وہ غلط باتیں ہمارے اوپر اثر نہ ڈال سکیںاور ان کے اثرات سے محفوظ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔
جس طرح ٹیکوں اور انجکشن کے ذریعہ ہم اپنے بدن کو بعض بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور انجکشن کا کام یہ ہوتا ہے کہ بیماریوں اوروبائوں کے جراثیم کو ہمارے جسم پر موثر ہونے نہیں دیتا؛ اسی طرح محکم اور متقن دلائل خاص کر اسلامی علوم کو حاصل کرکے ہم اپنی روحانی فکر کو بھی بعض غلط فکروں اور گمراہ کن شبہات سے محفوظ کر لیں تاکہ وہ غلط شبہے اور فاسد فکریں ہمارے اوپر اثر انداز نہ ہو سکیں ؛اگر کوئی شخص مصئونیت اور علمی کمال کے اس درجہ پر پہونچا ہو تو اس کے لئے غلط مطالب کا پڑھنا اور اس طرح کے شبہات کا مطالعہ کرناحرج نہیں رکھتاہے؛ لیکن جو شخص اس مرتبہ کمال پر نہیںپہونچا ہے اس کو چاہئے کہ ان مطالب سے اپنے کو دور رکھے ۔ خدا وند عالم قرآن کریم میں ارشاد فر ما رہا ہے : ''اذا سمعتم آیات اللہ یکفر بھا و یستھزابہ فلا تقعدوامعھم حتیّ یخوضوا فی حدیث غیر ہ انکم اذا مثلھم'' (١)جس وقت تم دیکھو یا سنو کہ خدا کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اوراس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو انکے ساتھ نہ بیٹھو،یہاںتک کہ وہ لوگ اس کے علاوہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہو جائیں ورنہ تم بھی انھیں میں سے ہو جائوگے یہ نہ کہو کہ ہم مومن ہیں اور خدا و رسول کو
..............
(١) سورہ نساء : آیہ ١٤٠۔
مانتے ہیںلہذاان کافروںکی باتیں ہمارے اندر اثر نہیں کریں گی۔ جب تک تم ہر طرح سے محکم اورمحفوظ نہ ہو جائو اس وقت تک اس بات کا خوف ہے کہ اگر تم ان کے جلسوں میں جائو گے، تقریروں کو سنو گے تو یہ فکری جراثیم دھیرے دھیرے تمھارے اندر بھی سرایت کر جائیں گے اور تمھارے اعتقاد و ایمان کو خراب کر دیں گے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ''اذا رایت الذین یخوضوا فی آیا تنا فا عرض عنھم حتیّٰ یخوضوا فی حد یث غیرہ ''(١)اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری نشانیوں کے بارے میں بے ربط بحث کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جائو یہاں تک کی وہ دوسری باتوں میں مصروف ہو جائیں ۔خدا کا دستور جو کہ ہماری اور آپ کی روح کا معالج ہے اور جو دوا تجویز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے لازمی علم ومعرفت کے ٹیکے کے ذریعہ محفوظ ہونے سے پہلے ایسی محافل وجلسات میںکہ جہاں فکری شبہات اور باطل خیالات پیدا کئے جاتے ہیں شرکت نہ کرو، وہ اخبار، مقالہ اور ڈائجسٹ نیز ایسی کتابیں جو کہ مذہبی مقدسات کا مسخرہ کرتے ہیں اور ان کی توہین کرتے ہیں اور دین کے اصول اور احکام میں شک و شبہ کا سبب واقع ہوتے ہیںتو ان کو نہیں پڑھنا چاہئے۔ اگر ایسی جگہوں پر جائیں گے یا ایسی چیزوں کو پڑھیں گے تو کیا ہوگا ؟ قرآن میں اس کے جواب کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: '' انکم اذاًمثلھم انّ اللّہ جامع الکافرین و المنافقین فی جھنم جمیعاً ''(٢)
..............
(١) سورہ انعام : آیہ ٦٨۔
(٢)سورہ نساء :آیہ ١٤٠۔
اور اس صورت میں تم بھی انھیں کے مثل ہو جائو گے ،بیشک خدا کافروں اور منافقوں سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔'' اگر تم نے ہماری نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اپنے کانوں سے سن کر اس پر عمل نہیں کیا اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے تو تم بھی دھیرے دھیرے مقدسات کی اہانت کرنے اور دینی عقائدو احکام کو کمزور کرنے والوں میں شمار کئے جائوگے اور آخر کار تم بھی جہنم میں جائوگے ۔
جس طرح کوئی پھیلنے والی بیماری میں مبتلا ہو تو آپ اس سے بچتے اور دور رہتے ہیں تا کہ اس کی بیماری کی زد میں آپ بھی نہ آجائیںاسی طرح آپ کو ان لوگوں کے جلسات اور خود ان لوگوں کے درمیان نہیں جانا چاہئے جو فکری بیماریوں کو اٹھائے پھرتے ہیں یا نقل کرتے ہیں، لہذٰا ان سے پرہیز کرنا چاہئے مگر یہ کہ آپ محفوظ رہنے والے اسباب و وسائل سے مجہّز ہوں ،جو کہ پھیلنے والے جراثیم کو آپ کے اندر آنے سے روک سکیں، اس حالت میں صرف ان سے بچنا ہی نہیں چاہئے بلکہ ان کے علاج کی کوشش کرنی چاہئے، اور ان کو اس بیماری سے نجات دلانا چاہئے جس طرح ڈاکٹر اور نرس ،محافظ وسائل او ر سسٹموںکے ذریعہ جراثیم اور اس کے اثرات کے داخل ہونے سے ر وکتے ہیں نیز جسمانی بیماریوں سے مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔
اگرچہ ڈاکٹر کا فریضہ ہے کہ وہ بیمار کے قریب آئے اور اس سے ربط رکھے پھر بھی وہ یہ کام بہت احتیاط سے کرتا ہے اور تمام حفاظتی چیزوں کی رعایت کرتے ہوئے انجام دیتا ہے اور دوسرے لوگ علم و وسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ بیماری سے متعلق کچھ نہیں کر سکتے بلکہ بیمار کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی بیمار ہو جاتے ہیں ،انھیںکسی بھی صوورت سے ایسی حالت میں مریض سے قریب نہیں ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ لوگوں کی روح اورفکر بھی پھیلنے والی خطرناک بیماریاں رکھتی ہوں اور لازمی احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ان کی بیماریاں ہمارے اندر سرایت کر جائیں۔

روح کی بیماری اور سلامتی
روح کی مکمل سلامتی کی علامت اور نشانی یہ ہے کہ وہ خدا کو دوست رکھے، اس کے اندر خدا کی یاد، اس کے ذکر سے لذت اور خوشی کا احساس ہونیز ہر وہ چیز اور ہر وہ شخص جو اس کی سچی اطاعت اور اس کے حکم کی پیروی کرتا ہواس سے عشق اور والہانہ محبت کرتا ہو۔ روح کے بیمار ہونے کی نشانی یہ ہے کہ جب نماز ،دعااور دینی محافل و مجالس سے متعلق گفتگو ہو تو اس کے اندر کوئی جذبہ پیدا نہ ہو اور بہت ہی نا گواری اور بے توجہی کے ساتھ اس کے لئے آمادہ ہوتا ہو؛ اگر کوئی انسان کئی گھنٹوں سے کھانا نہ کھائے ہو اور اس کے بعد بھی اس کو بھوک نہ لگے اور بہترین اچھی غذا ئوںکو کھانے کے لئے تیار نہ ہو تو یہ بیماری اور مزاج کے خراب ہونے کی نشانی ہے ۔
ہم کو یہ جاننا چاہئے اور اس بات پر متوجہ ہونا چاہئے کہ دل بھی بیماریاں رکھتا ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے : ''فی قلوبھم مرض '' (١)یعنی ان کے دلوں میں مرض ہے، اگر دل میں بیماری ہو اور اس کا علاج نہ ہو تو بیماری بڑھتی جاتی ہے ، فزادھم اللہ مرضاً (٢)اور اللہ ان کی بیماری کو زیادہ کر دیتا ہے؛ اگرہم اس بیماری کو بڑھنے سے نہ
..............
(١۔٢) سورہ بقرہ :آیہ ١٠۔
روکیں اور وہ دل کے اندر جڑ پکڑ لے تو پھر کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے اور پھر اس کے اچھا ہونے کی امید باقی نہیں رہتی؛ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی آدمی نہایت ڈھالو اور گہری کھائی میںجا پڑا ہو اور اپنے کو اس کی تہ تک گرنے سے نہ روک سکتا ہو۔قرآن مجیدمیں ارشاد ہوتا ہے '' طبع اللہ علیٰ قلوبھم و سمعھم وابصارھم اولٰئک ھم الغافلون '' (١)خدا نے ان کے دلوں اور کانوں نیز ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے وہی لوگ غافل اور لا پروا ہ ہیں۔
کبھی اس حال میں کہ ہماری بیماری کینسراور لاعلاج بیماری میںتبدیل ہو جاتی ہے، ہم اس سے غافل رہتے ہیںاورکبھی کبھی تو بہت خوش رہتے ہیںاور سوچتے ہیں کہ دن بہ دن ترقی حاصل کر رہے ہیں اور منزل کمال سے نزدیک ہو رہے ہیں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے : ''قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا الذین ضلّ سعیھم فی الحیوٰةالدّنیاوھم یحسبون انھم یحسنون صنعا ''(٢) اے پیغمبر! آپ کہ دیجئے کہ کیا ہم تم لوگوں کو ان لوگوںکے بارے میںاطلاع دیںجو اپنے اعمال میںبدترین خسارہ میںہیں؛یہ وہ لوگ ہیںجن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں ۔
..............
(١) سورہ نحل : آیہ ١٠٨۔
(2) سورہ کہف : آیہ ١٠٣ اور ١٠٤۔
ہماری روح جذب وودفع کی محتاج ہے اوراس با ت کا انتخاب کہ کون چیزدفع کریں؟ اورکون چیز جذب کریں ؟یہ ہمارے اوپر چھوڑدیا گیا ہے ۔ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ ہم سگریٹ نوشوں اور گانجا،بھنگاور چرس پینے والوں کے مانند دھوئیںاور زہریلی چیز کو اپنی روح میں داخل کریںاور یہ بھی ممکن ہے کھلاڑیوں ، کوہ نوردوں(پہاڑ پر سفر کرنے والوں )کی طرح پاک اور صاف وشفاف ہوا کو دل اور روح کے لئے انتخاب کریں ؛ من کان یر ید العاجلةعجّلنا لہ فیھا ما نشاء لمن یرید۔۔..۔۔(١) جو شخص بھی دنیا کا طلبگار ہے ہم اسکے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دیدیتے ہیں پھر اسکے بعد اسکے لئے جہنم ہے جسمیں وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ داخل ہوگا اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور وہ اسکے لئے ویسی ہی کوشش بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اسکی سعی یقینا مقبول ہے ہم آپ کے پروردگار کی عطا وبخشش سے ان سب کی مدد کرتے ہیں اور پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے۔ وہ لوگ جو کہ جلد ختم ہونے زندگی اوروالی لذتوں کے طلبگارہیں اور اسکے علاوہ کوئی غوروفکر نہیں کرتے اور طبعی طور سے اس تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی تمام توقعات ا و رخواہشات تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ انسان کی خواہشیں بے انتہاہیں جوکچھ اسکو عطا کیا جاتا ہے اسکے بعدبھی وہ اس سے زیادہ کی تلاش میں رہتا ہے، بہر حال خدا انکی اس طرح مددکرتا ہے کہ انکی بعض خواہشوں کو پورا کرتا ہے لیکن انجام اور نتیجہ میں
..............
(١) سورہ اسراء آیہ ١٨ الیٰ ٢٠.
انکے لئے ذلت اور عذاب جہنم ہے بعض دوسرے گروہ ہیں جو کہ آخرت کے طلبگار اور اسکی نعمتوں کی لذ ت چاہتے ہیں؛ قرآن کی عبارت میں یہ گروہ توجہ کے لائق ہے ارشاد ہو رہا ہے :سب سے پہلے ارادالآخرة آخرت کے چاہنے والے ہیں؛ لیکنایسی چاہت نہیں کہ اسکو حاصل کرنے کیلئے کچھ خرچ نہیں کرتے ؛بلکہوسعیٰ لھاسعیھا وہ اسکے لئے کوشش کرتے ہیں اور مناسب چیزوں کو اپنی اس خواہش پر صرف کرتے ہیں ؛ لیکن صرف اسی پر اکتفا ء نہیں کرتے بلکہ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ و ھو مومن یعنی ایمان کے مزہ کو بھی اپنی کوشش اور عمل کے ساتھ شامل کرتے ہیں،ایسے لوگ صرف اپنی خواہشوں کو ہی نہیں پہنچتے؛ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ہم (خدا) ایسے لوگوں کی محنت اور کوشش پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کان سیعھم مشکوراً ان کی کوششیں لائق شکرہیں البتہ خدا وند عالم کا شکر کیاہے؟ وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔
جو بات اس آیت میں اہم اور توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے : کلاًنمد ھٰولاء من عطا ء ربک ہم دونوں گروہ کو ان کی خواہشوں تک پہونچتے میں مدد کرتے ہیں اور دونوں کے لئے وسائل و اسباب کو مہےّا کرتے ہیں یعنی ان چیزوں کا انتخاب جو جذب و دفع سے متعلق ہے خود انسان کے اوپر ہے انسان کا انتخاب اچھا ہو یا برا ؛اس سے فرق نہیں پڑتا ہے ،ہماری طرف سے اس کو اپنی خواہش تک پہونچنے میں مدد ملتی ہے؛اس ضمن میں ایک دوسری الھٰی سنت بھی پائی جاتی ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :'' من جاء با لحسنة فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسّئےة فلا یجزٰی الاّ مثلھا ''(١)جو کوئی اچھا کام کرتا ہے اس کو اس کا دس گنا ثواب ملتا ہے اور جو کوئی برا کام کرتا ہے اس کا بدلہ اس کو اتنا ہی ملتا ہے جوشخص غلط اور زہریلی چیزوں کا انتخاب کرتا ہے تو جتنی وہ چیز اور مادہ خراب کرنے کی قوت اورطاقت رکھتا ہے اتنا ہی ہم اس کو موثر بناتے ہیں ؛لیکن جب وہ اچھی چیز اور اچھے مادہ کا انتخاب کرتا ہے تو ہم اس کی تاثیر کو دس گنا بڑھا دیتے ہیں ۔
..............
(١)سورہ انعام آیہ ١٦٠.
بحث کا خلاصہ
اس جلسہ میں ہماری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان جسمانی زندگی میں جس طرح جاذبہ اور دافعہ کی ضروت رکھتا ہے اسی طرح روحانی اور معنوی زندگی میں بھی جاذبہ اور دافعہ کی ضرورت رکھتا ہے یعنی اس کو ضرورت ایسی قوت و طاقت کی ہے جو اس کے ایمان ، خدا کی محبت اور مفید علم کی راہ میں اس کی مدد کرسکے جو کہ اس کے دل اور قلب کے لئے فائدہ مند ہو، اس کی انسایت کو بڑھائے اور اس کو مضبوط کرے اور اس کو ایسی قوت و طاقت کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعہ وہ شیطان ،گناہ اور دشمنان خدا کی محبت 'جو اس کے دین اور معنوی زندگی کے لئے نقصان دہ ہے 'کو اپنی روح سے دور کردے ۔
البتہ یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری اصل بحث جیسا کہ میں نے اس کو شروع میں بھی عرض کیا اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے متعلق تھی اور میں نے عرض بھی کیا کہ اس کو تین طرح سے پیش کیا جا سکتا ہے :
(١) یہ کہ اسلام کے مجموعی عقائد واخلاق، احکام ا ور دستورات ایسے ہیں کہ انسان کو صرف کچھ چیزوں کے جذب کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا فقط دفع کرنے پریا یہ دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں۔
(٢) اسلام کے احکام اور دستورات ایسے ہیں کہ انسان کے لئے صرف جاذبہ رکھتے ہیں یا صرف دافعہ یاپھر جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتے ہیں ۔
(٣) اسلام لوگوں کوجب اپنی طرف اور ان کی تربیت کی دعوت دیتا ہے تو صرف جذبی راستوں کا انتخاب کرتا ہے یا فقط دفعی راستوں اور طریقوں کو، یا دونوں راستوں کو اختیار کرتا ہے۔ ہم نے اس جلسے میں جو کچھ کہا اصل میں وہ اس بحث کا مقدمہ تھا اور تینوں سوالات ابھی بھی باقی ہیں جن کے بارے میں آئندہ جلسوں میں بحث اور گفتگو ہو گی۔

سوال اور جواب
سوال : جسم کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اس کے اندر معین مقدار میں غذا کو جذب کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اگر اس سے زیادہ وہ کھانا کھائے گا تو اس کے لئے نقصان کا سبب بنے گا اور وہ دافعہ کی حالت کوپیدا کرے گا۔ کیا روح اور اس کی غذا کے بارے میں بھی یہی محدودیت اور حد بندی ہے ؟

جواب : سوال بہت اہم ہے اور یہ سوال فلسفہ اخلاق کے مشہورمکتب فکرسے جس کا نام'' مکتب اعتدال ''ہے تعلق رکھتا ہے اس مکتب فکر کے طرف دار لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اخلاقی فضائل کے باب میں فضیلت کا معیار اعتدال ہے؛ زیادہ بڑھ جانا یا کم ہونا نقصان دہ ہے۔ فطری اور طبعی طور سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض چیزیں کوئی خاص حد نہیں رکھتی ہیں؛ جتنی زیادہ ہو ںبہترہے جیسے خدا کی محبت ،عبادت ،علم اور بہت سی ایسی چیزیںہیں ان جیسی چیزوں میں اعتدال کے کیا معنی ہیں ؟؛جو سوال یہاں پر پیش ہوا ہے وہ بھی اسی جیسا ہے جس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ فضائل کا حاصل کرنا کوئی حد اور انتہا نہیں رکھتا لیکن مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ انسان دنیا میں محدود طاقت کا مالک ہے ۔اگر وہ صرف کسی ایک چیز کے لئے اپنی پوری طاقت کو صرف کر دے گا تو دوسری چیزوں سے محروم ہو جائے گا ؛اگر ہم صرف عبادت کرنے لگیں اور کھانے ، آرام اور اپنے بدن کی سلامتی کی فکرنہ کریں تو ہمارا جسم بیکار ہو جائے گا اور عبادت کی طاقت و ہمت بھی ہم سے چھن جائے گی ؛یعنی ہماری عبادت میں بھی خلل پڑے گا اور ہمارا جسم بھی بیمار پڑ جائے گا ۔یا یہ کہ خدا کا ارادہ انسان کی نسل کو باقی رکھناہے اور یہ مسئلہ بھی اس بات پر منحصر اورمتوقف ہے کہ ہم شادی بیاہ کریں ،ازدواجی رابطہ کو برقرار رکھیں ؛بچوں کی تربییت کریں خلاصہ یہ کہ ایک خاندان کو چلانے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یقینی طور پر بہت سی قوتوں اور اپنے وقت کو خرچ کرنا پڑے گا؛ اگر انسان صرف معنوی اور اخلاقی مرتبے کی بلندی کی فکر میں رہے گا اور کوئی بھی اہتمام خاندان اور بیوی بچے سے متعلق نہ کرے تو انسانی نسل ختم ہو جائے گی یا برباد ہو جائے گی ۔یا مثلاً اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میدان جنگ میں حاضر رہے تو وہ زیادہ عبادات اور مستحبات کو انجام نہیں دے سکتا ۔لہذٰاچونکہ انسان دنیا میں کئی قسم کے وظائف اور ذمہ دااریوں کو رکھتا ہے اس کی قوت و طاقت بھی محدود ہے ؛لہذٰا اپنی طاقت و قوت کو ان کے درمیان تقسیم کرے اور ہر حصّہ میںضرورت بھراس طرح صرف کرے کہ بعض دوسری چیزوں سے مزاحمت کا سبب نہ بنیں ان کے لئے خرچ کرے؛ البتہ یہ انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایسا کام کرے کہ اس کی پوری زندگی نماز و قرآن سے لیکر کھانے پینے اور روز انہ کے معمولی کاموںتک بھی لمحہ بہ لمحہ خدا وند عالم سے قریب ہونے کا باعث بنے اور وہ بلندی کے درجات کو حاصل کرتا جائے ۔