غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ
یہاں پر مناسب ہے کہ اس واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں جس میں پیامبر اسلا م ۖ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ علمی مناظرہ کیا اور وہ لوگ مغلوب ہو گئے لیکن پھر بھی مسلمان ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے تو رسول اکر م ۖ کو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیںاور یہ طے ہوا کہ دوسرے دن وہ لوگ کسی معین اور مخصوص جگہ پر حاضر ہوں اور ایک دوسرے سے مباہلہ کریں تاکہ جو شخص باطل پر ہے اس پر خداکی لعنت ہو اور اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ نجران کے عیسائیوں نے پہلے تو مباہلہ کو قبول کیا لیکن جب دوسرے دن مباہلہ کرنے آئے تو دیکھا کہ رسول ۖاپنے ساتھ اپنے سب سے زیادہ محبوب اور عزیز افراد یعنی بیٹی فاطمہ زہرا ،بھائی علی مرتضیٰ اور نواسے حسنین کو لے کر آئے ہیں تو وہ لوگ مباہلہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے اور اس بات پر معاہدہ ہوا کہ اسلامی حکومت کو جزیہ دیں گے۔
بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی جنگ سے بچنے کے لئے فقط یہی راستہ نہیں ہے کہ ہم سارے ادیان اور مذاہب کو حق جان لیں اور اس بات کو قبول کر لیں کہ ان تمام مذاہب میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اوربھی کئی راستے ہیں اور اسلام نے خود ایک منطقی حل اور ایک بہت ہی اچھا راستہ اس کے لئے پیش کیا ہے ۔
اصل بحث کی طرف باز گشت
اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں اور پلورالزم کی دلیلوں کی تحلیل وتنقید کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے شروع میں بھی اس جانب اشارہ کیا ،یہ بات ذہن نشین رہے کہ پلورالزم مختلف چیزوں میں قابل ذکر ہے لیکن فی الحال ہم یہاں پر صرف دینی پلورالزمم سے متعلق بحث و گفتگو کریں گے اور دوسری چیزیں جیسے سیاسی و اقتصادی پلورالزم وغیرہ سے بحث نہیں کریں گے اور کیا صحیح یا غلطہونا اور ان کی کمیت اور کیفیت ہماری گفتگو سے خارج ہے ۔اگر چہ اس زمانے میں دینی پلورالزم کی فکر پیش کرنے والا اور اس کا پرچم اٹھانے والا ''جان ہیک ''ہیں اور اس کی چند کتابیں اس کے متعلق پائی جاتی ہیں؛ لیکن دینی پلورالزم کی تفسیر کیا ہے اور اس سے کیا مراد ہے ؟ کوئی ایک خاص معنی مراد نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس کی مختلف طرح سے وضاحت کی گئی ہے ؛کم سے کم تین طرح سے اس کے معنی کو ذکر کیا جا سکتا ہے ۔
دینی پلورالزم کی پہلی تفسیر
پہلا بیان اس طرح ہے کہ ''تمام ادیان میں حق اور باطل پایا جاتا ہے ان کے درمیان فقط حق یا فقط باطل کا ہونا ناممکن ہے ''۔اس بیان کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ اگر آپ دنیا کے مختلف ادیان کو دیکھیں گے تو آپ کو مکمل طریقے سے کوئی بھی دین ایسا نہیں ملے گا جو کہ حق یا باطل ہوبہت سی باتیں سب میں مشترک پائی جاتی ہیں بہت سے احکام اور عقیدے نیزخصوصیات جو ایک دین میں ہیں ممکن ہے وہ دوسرے دین میں بھی حاصل ہو ں یعنی دوسرا دین بھی وہی خصوصیات رکھتا ہو مثلاً قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے کہ جو چیزیں ہم نے بنی اسرائیل کے لئے قرار دی ہیں وہی تمھارے لئے بھی قرار دی ہیں منجملہ انھیں احکام میں ایک حکم قصاص کا بھی ہے جس کے متعلق وضاحت سے فرمایا ہے 'یہ وہی حکم ہے جو ہم نے مسیحیوں اور یہودیوں کے لئے قرار دیا تھا ۔(١)اسی طرح آپ بیہودہ عقیدے اور باطل باتیں تمام دین میں دیکھ سکتے ہیں تواب چاہے اعتقاد کی باتیں ہوں یا احکام یا افکارو اقدار کی باتیں ہوں، ان سب کے اندر دنیا میں بہت سے حق پائے جاتے ہیں لیکن ان کا مجموعہ ایک جگہ نہیں ملے گا؛
..............
(١) ملاحظہ ہو سورہ مائدہ : آیہ٤٥ تا ٤٨۔
بلکہ ہر دین میں حقیقت کا کچھ حصہ پایا جاتاہے لہٰذایہ لازم نہیں ہے کہ آپ صرف ایک خاص دین کا اعتقاد رکھیں بلکہ ممکن ہے کہ آپ یہودی بھی رہیں ، مسیحی بھی، مسلمان بھی یا کسی اورمذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوںاس طرح کہ جس دین میںجو اچھا عنصر پایا جاتا ہو آپ اس کو اختیار کر لیں ؛یہاں تک کی بودھ مذہب جو کہ خدا کے وجود کا منکر ہے اس کے اندر بھی بعض اچھے عناصرہیں جیسے سکون روح، یکسوئی ، دنیا سے دوری وغیرہ آپ ان کو اختیار کر لیںالبتہ یہ بیان ایک افراطی رجحان رکھتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ تمام ادیان میں حق وبا طل کی آمیزش اس حد تک موجود ہے کہ ایک کو دوسرے سے بہتر نہیں کہا جا سکتا ؛بلکہ وہ سب ایک ہی جیسے ہیں ان میں ایک معتدل نظریہ یہ ہے کہ اگر چہ حق و باطل کاوجود تمام ادیان میں ہے لیکن حق و باطل کی مقدار ایک طرح نہیں ہے یعنی نسبی اعتبا ر سے تفاوت ہے جس کے ذریعہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی مطلق فوقیت نہیںپائی جاتی بلکہ تمام ادیان میں اچھائیاں اور برائیاں دوونوں ہی پائی جاتی ہیں۔
دینی پلورالزم کی پہلی تفسیر کا تجزیہ
اس بیان کے جواب میں سب سے پہلے ہم یہ کہیں گے کہ ہر انصاف پسند شخص اگر تھوڑی سی بھی عقل اور ادیان سے متعلق سطحی معلومات بھی رکھتا ہوگا تو وہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ادیان کے درمیان ایک دوسرے پر کوئی ترجیح نہیں ہے اور سب کے سب برابر ہیں ،بعض دین ایسے بھی ہیں کہ ان کے اندر ایسی باتیں پائی جاتی ہیں کہ زبان و قلم ان کے بیان کرنے اور لکھنے سے شرم محسوس کرتے ہیں کیا سچ مچ جانور ،گائے اور کتّے کو پوجنا خدا پرستی کے برابر ہو سکتا ہے ؟ کیا بت پرستوں کا وہ یقین و اعتقاد جو کہ ہندوستان کے بعض لوگوں میں ہے اور وہ آلہ تناسل کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے سامنے زمین پر جھکتے ہیں اور بہت سے لا ولد افراد اپنے مرض کے علاج کے لئے اس پر پانی ڈال کر تبرکاًپیتے یا استعمال کرتے ہیں اس کا مقائسہ مذہب اسلام (جو کہ نجات دینے والا ہے اور اس کے اندر تمام کمالات اور لا تعداد اچھائییاں پائی جاتی ہیںاور جو خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبادت کا حکم دیتا ہے ) سے کیا جا سکتا ہے اور ان دونوں مذہب کو ایک فہرست میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟
بہر حال ہماری نظر میں یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ تمام ادیان کوجیسا ایک قرار دینا اور سبھی کی خصوصیات اور اوصاف کو ایک جیسا قرار دینا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی منتخب کر لینا یہ ایسی باتیں ہیں جن کو کوئی بھی عقلمند انسان قبول نہیں کر سکتا ہے
دوسرے خاص کر ہمارے نظریہ میں کہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن و اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں یہ مطلب کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم قرآن کی بعض باتوں کو قبول کریں اور بعض کا انکار کریں اگر ہم نے بعض کا انکار کیا تو گویا سبھی کا انکار کیا اور قرآن کے بعض مطالب کا انکار کرکے کوئی بھی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا ہے۔ قرآن اس بارے میں واضح طور سے فرماتا ہے :افتومنو ن ببعض الکتاب ۔۔۔ (١)کیا تم لوگ قرآن کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو پس جو ایسا کرتا ہے وہ دنیا میں ذلت کے علاوہ کچھ بھی نہیں پائے گا اور قیامت کے روز سخت ترین عذاب دیکھے گا ۔دوسری جگہ ارشاد ہو رہا ہے: جو لوگ چاہتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کے درمیان جدائی ڈالیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اصل میں یہی لوگ کافر ہیں (٢) بہر حال ہم مسلمانوں کی نظر میں اسلام اور قرآن کے عنوان سے جو کچھ بھی اور نبی ۖ کی جانب سے لوگوں تک پہونچایا گیا ہے وہ سب کا سب صحیح اور حق ہے
..............
(١) سورہ بقرہ : آیت ٨٥.
(٢) سورہ نساء : آیت ١٥ ۔
اور اس میں کچھ بھی باطل نہیں ہے وانّہ لکتاب عزیز لا یاتیہ ........۔ (١) بے شک یہ کتاب عالی مرتبہ ہے جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے بھی باطل نہیںآسکتاہے۔
البتہ ان کا یہ کہنا کہ تمام ادیان میںحق کا عنصر پایا جاتاہے ہم اس کو قبول کرتے ہیں اور یہ بات کوئی مشکل بھی نہیں ہے مثلاً زر تشتیوں کا یہ مشہورمقولہ ہے 'نیک بات نیک سوچ نیک کردار ' یہ ایک اچھا مقولہ ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ہے خاص کر یہودی ' مسیحی اور زرتشتی کہ خدائی اصل رکھتے ہیں ،اگر چہ ہمارے عقیدے کے مطابق ان ادیان میں تحریف اور کمی و بیشی ہوئی ہے لیکن پھر بھی حق اور صحیح عناصر اس میں پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس بات کو قبول کر لیں کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح حق وباطل کا مجموعہ ہے اور ہم اس بات کے قائل ہو جائیں مسلمان ہو یا یہودی یا مسیحی اور زرتشتی سب کے سب برابر ہیںبلکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہمارے عقیدے کے مطابق وہ مذہب اسلام جس کو خدا وندعالم نے پیامبر اکرم ۖ کے ذریعہ بھیجا وہ پورا کا پورا حق ہے اور اس میں کچھ بھی باطل نہیں ہے ۔
..............
(١) سورہ فصّلت : آیہ ٤١ و ٤٢
دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر
دوسرابیان جو کہ دینی پلورالزم کو واضح کرتا ہے وہ یہ ہے کہ''تمام ادیان اور ان کے راستے ایک ہی حقیقت کی طرف پہونچ کر منتہی ہوتے ہیں '' ۔
پہلا بیان یہ تھا کہ مختلف ادیان کے درمیان حقائق بٹے ہوئے ہیں اور ہر دین حقیقت کے کچھ حصّوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بیان اس سے ہٹ کر اس چیز کو بتاتا ہے کہ حقیقت صرف ایک ہے ؛اور بہت سے راستے اس تک پہونچتے ہیںجو مختلف ادیان کی شکل میں پائے جاتے ہیں اس کی مثال اس طرح ہے مثلاً تہران تک پہونچنے کے لئے بہت سے راستے پائے جاتے ہیں اور لوگ مختلف راستوں سے تہران میں داخل ہو سکتے ہیں شمال، جنوب ،مشرق اورمغرب غرض کہ تہران جانے کے لئے ہر طرف سے راستہ ہے جس کوہر انسان چاہتا ہے وہ صرف ایک ہے لیکن مختلف راستوں سے جیسے اسلام ،مسیحیت ،یہودیت ،بودھ ازم،اور مختلف ادیان اس حقیقت تک پہونچا جا سکتا ہے۔
یہ بیان بھی پہلے بیان کی طرح دو طرح کا افراطی اور اعتدالی رجحان رکھتا ہے جو لوگ افراطی(شدت پسند)اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام راستے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے برابر ہیں اور ان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے۔ اعتدالی رجحان اس بات کا قائل ہے کہ اگر چہ راستے مختلف ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں لیکن مختلف راستوں میں دوری اور نزدیکی پائی جاتی اور کچھ پیچ وخم بھی رکھتے ہیں اور ان کے درمیان کمی اور زیادتی پائی جاتی ہے ایک راستہ بہت لمبا ہے تو ایک بہت چھوٹا ہے ایک بالکل سیدھا ہے تا دوسرا ٹیڑھا ہے ؛مثلاً اسلام مسیحیت کی نسبت سیدھا اور بہت کم فاصلہ رکھتا ہے لیکن اگر کوئی مسیحیت اور اس کے دستورات و احکام پر عمل کرتا ہو اور اعتقاد رکھتا ہو تو وہ بھی حقیقت تک پہونچ سکتا ہے ۔
اس دوسرے بیان کو بھی ثابت کرنے کے لئے کبھی شعراء کے اشعار اور کبھی عرفاء کی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے مثلاً شیخ بہائی کا یہ شعرپیش کیا جاتا ہے:
ہر جا کہ روم پر تو کاشانہ تو ئی تو ہردر کہ زدم صاحب آنخانہ توئی تو
در میکدہ و دیر کہ جانانہ توئی تو مقصود من از کعبہ و بتخانہ توئی تو مقصود توئی کعبہ وبت خانہ بہانہ
یعنی میںجس جگہ بھی جاتا ہوں وہاں تیرا ہی جلوہ نظر آتا ہے جس گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں اس گھر کا مالک تو ہی ہے، بت خانہ اور میکدہ کے اندرمحبوب تو ہی ہے کعبہ اور بت خانہ سے میری مراد تو ہی ہے ؛ کعبہ اور بت خانہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ حقیقت میں میرا مقصود تو ہی ہے خلاصہ یہ کہ اگرفکر و نظر کے پردہ کو چاک کیا جائے تو مسجد ، بت خانہ ، گرجا گھراور میکدہ ہر جگہ رخ محبوب کی تصویر دکھائی دیگی ''عباراتنا شتیّٰ وحسنک واحد''یعنی عبارتیں الگ الگ ہیں لیکن حسن سب کا ایک ہی ہے یعنی اگر چہ کلام سب کا الگ الگ ہے لیکن سب کے سب ایک ہی رخ زیبا کی تعریف کر رہے ہیں ۔
دینی پلورالزم کی دوسری تفسیر کاتجزیہ
کیا یہ بیان قابل قبول ہے اور اس کو سند قرار دیتے ہوئے ہم دینی پلورالزم کو قبول کر لیں ؟جو کہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ہو یامسیحیت یا یہودیت و زر تشتی سب کے سب ایک ہی حقیقت اور سب کے سب انسان کو نیکی و کمال کی طرف پہونچاتے ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تصوّر اور ثبوت کے مرحلہ میں ایسا فرض کرنا ممکن ہے ،مثلاً ایک ایسے دائرہ کو فرض کیجئے کہ جس کے چاروں طرف سے مختلف شعائیںاس کے مرکز تک پہونچتی ہوں اور تمام شعاعیں ایک ہی نقطہ پر ختم ہوتی ہوں، لیکن کیا موجودہ ادیان کے بارے میںبھی ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسی طرح ہیں جیسا ان کا وہم و خیال ہے؟ تھوڑی سی بھی دقت اور توجہ کی جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ایسا نہیں ہے ( اور مختلف ادیان میں کوئی بھی یکسانیت نہیں ہے )۔سب سے پہلا مسئلہ جو کہ اسلام میں ہے وہ توحید اور خدا کو یکتا قبول کرنے کا ہے اسلام کی سب سے پہلی آواز ہے:قولوا لا الہ ٰالاّ اللہ تفلحواتم لوگ کہو کہ خدا ایک ہے تاکہ کامیاب ہو جائو !
لیکن مسیحیت کا نظریہ اس مسئلہ توحید میں کچھ اور ہے جس کی حکایت خدا وند عالم یوں کر رہا ہے '' ا نّ اللہ ثالث ثلاثة'' یقیناً خدا تین میں سے ایک ہے ،یعنی ان کے یہاں تین خدا ہیں ؛ایک باپ کہ خدائے اصلی کہ جس کو خدائے اب کہتے ہیں، ایک بیٹا کہ جو خدائے ابن ہے، اور تیسرا خدا روح القدس ہے ۔بعض عیسائی قائل ہیں کہ تیسرا خدا حضرت مریم ہیں۔
یہ اعتقاد جس کو تثلیث کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایسا اعتقاد ہے جس کی خدا نے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے اور اس کو رد کیا ہے اس بات سے لوگوں کو روکا ہے اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہا ہے،
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ''لقد کفرالذین قالو انّ اللہ۔۔'' (١)جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے یقیناًوہ لوگ کافر ہیںاور اللہ کے علاوہ کوئی بھی خدا نہیں ہے؛ اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہیں آئینگے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب ہوگا ۔
مسیحیوں کے اس عقیدے کو (جو وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں یعنی ان کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ) خدا نے بہت ہی عجیب جانا ہے، قرآن کریم میں ارشادہورہاہے : ''وقالوااتخذالرحمٰن ولداً۔۔''(٢)اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے ایک فرزند بنا لیا ہے یقیناًتم لوگوں نے بہت سخت بات کہی ہے قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑے اورزمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں؛
..............
(١) سورہ مائدہ: آیہ ٧٣۔
(٢) سورہ مریم :آیہ ٨٨تا ٩٠۔
سچ مچ قرآن کی یہ تعبیر کتنی سخت ہے ؟تثلیث کا اعتقاد اور یہ کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں اس حد تک غلط ہے اور بربادی کا سبب ہے کہ اس کے اثر سے قریب ہے کہ تمام آسمان اور زمین نیز پہاڑ تباہ و برباد ہو جائیں ۔کیا اس طرح کی تعبیر کے بعد بھی یہ کہنا صحیح ہے کہ تثلیث کا اعتقاد اور توحید کا اعتقاد دونوں ایک حقیقت کی طرف لے جانے والے ہیں! ایک مذہب اسلام ہے جو کہتا ہے کہ سور کا گوشت کھانا حرام اور نجس ہے اور دوسرے مذاہب یہ کہتے ہیں کہ سور کا گوشت لذیذاور اچھا ہے اور اس کا کھانا جائز ہے؛ اسلام کہتا ہے کہ شراب اور الکحل نہایت بری چیز ہے اور شیطانی پھندے ہیں جب کہ مسیحیت کہتی ہے کہ بعض شراب کے کچھ حصہ میں خدا کا خون ہوتی ہے، کشیش (عیسائی عالم ) لوگ عشائے ربّانی کے مراسم میں روٹی کے ٹکڑے کو شراب میں ڈبوتے ہیں پھر سب منھ میںڈالتے اور کہتے ہیں کہ شراب جب انسان کے خون میں جاتی ہے تو خدا کا خون بن جاتی ہے ؛عاقل اور بالغ انسان کوجانے دیجئے ایک معمولی بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ یہ دو دین اس حالت میں کسی بھی صورت میں ایک نقطہ اور منزل پر نہیںپہونچ سکتے ؛آپ خود دیکھیں ایک مذہب کہتا ہے کہ جب تک شراب نہیں پیوگے تم خدا کے ماننے والے نہیں ہو سکتے ہو جب کہ دوسرا مذہب یہ کہتا ہے کہ شراب پینا شیطانی عمل ہے ؛اب اس کے بعد بھی ہم کہیں کہ دونوں مذہب ایک مقصد تک لے جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے اور افسانہ و شعر سے مشابہ ہے نہ کہ واقعیت اور حقیقت سے ؛مگر یہ کہ خدا اور شیطان کو بھی ایک جانیں اور کہیں کہ ''کعبہ اور بت خانہ سے مراد فقط تو ہی ہے ''
سچ مچ یہ بہت ہی تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے باوجود'' بہت سے سیدھے راستوں'' کے قول پراصرار کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ سب اختلاف اور تعارض جو ادیان میں پایا جاتا ہے ان سب کا نتیجہ ایک ہی ہے ؛یعنی سب کے سب آخر میں ایک مقصد تک پہونچتے ہیں ؛آخر یہ کیسے ممکن ہے اسلام کا نظریہ کہ ''خدا موجود ہے ''اور بودھ ازم کا نظریہ یہ کہ ''کوئی بھی خدا موجود نہیں ہے' 'اور پھر بھی دونوں ایک حقیقت تک پہونچتے ہوں؟!یہ کیسے ہو سکتا ہے حضرت علی کو بھی مانا جائے اور معاویہ کو بھی ؛حضرت امام حسین کو بھی قبول کریں اور یزید و شمر ذی الجوشن کو بھی؟! اور یہ اعتقاد رکھیں کہ سب کے سب حق پر ہیں اور جس کے پیچھے بھی چلا جائے وہ سیدھا راستہ ایک ہے اور منزل مقصود تک پہونچانے والاہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک پورب کو جاتا ہے اور ایک پچھم کو، ایک اتر کو جاتا ہے اوردوسرا دکھن کو، اور ہر ایک کا الگ الگ راستہ ہے اور پھر بھی اسی بات پر اصرار ہے کہ سب کے سب سیدھے راستے پر ہیں اور ایک حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں۔
شعر:
ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرا بی این رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
اے اعرابی !میں ڈرتا ہوں کہ تو کعبہ کو نہیں پہونچے گا اس لئے کہ جس راستے پر تو جا رہاہے وہ راستہ ترکستان کو جاتا ہے ۔
بہر حال پلورالزم دینی کی یہ دوسری تفسیر جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان اور مذاہب ہم کو ایک منزل مقصود تک لے جاتے ہیںاگر چہ اشعار کے لحاظ سے ایک اچھی چیز ہے ہے لیکن حقیقت اور واقعیت سے خالی ہے اور اس کا باطل ہوناسورج سے بھی زیادہ روشن ہے ۔
دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر
تیسرابیان جو دینی پلورالزم کے لئے کیا جاتا ہے وہ اصل میں ایک معرفت شناسی پر منحصر ہے اس بنیاد پر وہ تمام چیزیں جو کہ غیر حسیّ اور غیر تجربی ہیں یعنی ان کو محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ؛وہ بے معنی ہیں اور نفی اثبات کے لائق نہیں ہے اگر چہ اس کی تفصیل معرفتی شناخت سے مربوط ہے لیکن اس کی مختصر وضاحت یہاں پر کی جارہی ہے :
معرفت شناسی کی بحث میں بعض (پوزٹیوسٹ)کہتے ہیں کہ جو پہچان اور معرفت والی چیزیں ہیں وہ دو حصّوں میں منقسم ہوتی ہیں
پہلی قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ محسوس کی جاسکتی ہیں اور ان کو دیکھا جا سکتا ہے جیسے ہم کہیں کہ چراغ روشن ہے یہ بات تجربہ اور محسوس کرنے کے قابل ہے آپ بٹن کو دبائیں گے تو پورا کمرہ تاریک ہو جائیگا اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا پھر آپ بٹن کو دبائیںگے تو پورا کمرہ جگمگااٹھّے گا اور آپ جس چیز کو بھی دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں ،یا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے تو یہ تجربہ کرنے والی چیزہے ؛اور اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے؛ اگر آپ اپنے ہاتھ کو آگ کے قریب لے جائیں گے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اس طرح کی چیزیں جو تجربہ کی جا سکتی ہیں اور ان کو محسوس کیا جا سکتا ہے تو ان کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ سچ ہے یا یہ جھوٹ ؟حق ہے یا باطل؟ صحیح ہیں یا غلط؟ کیونکہ معلوم کرنے کا راستہ یہی حس اور تجربہ ہے ۔
دوسری قسم میں وہ چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربے میں نہیں آسکتی ہیں یا وہ تجربے کے لائق نہیں ہیںان چیزوںکا اقرار یا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ یا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کچھ معنی نہیں رکھتی ہیں، اوران میں سچ یا جھوٹ نہیں پایاجا تا ہے لہذٰا ایسی چیزوں کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو افراطی (شدّت پسند) پوز یٹوسٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی چیزیں اصلاً بے معانی ہیں ان کا ہونا اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ '' اس چراغ کی روشنی کا مزہ کھٹّا ہے ''یا یہ کہیں کہ '' اس چراغ کا نور انگلینڈ کا بادشاہ ہے '' جس طرح یہ دونوں چیزیں بے معنی ہیں اور کچھ مطلب نہیں رکھتی ہیں اسی طرح وہ چیزیں جو کہ تجربہ کے لائق نہیں ہیں اور محسوس نہیں کی جا سکتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ہیں ؛دین سے متعلق باتیں بھی یہی حکم رکھتی ہیں مثلاً یہ بات کہ خداموجود ہے، خدا ایک ہے یا خدا تین ہے یا خدا نہیں ہے یہ سب بھی بے معنی اور بے مفہوم باتیں ہیںکہ ان کے حق یا باطل ہونے یا سچے اور جھوٹے ہونے کا دعویٰ کرناغلط اوربیکارہے اور کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس ایک کو مانتے ہیں چاہے آپ یہ کہیں کہ خدا ایک ہے یا یہ کہیں کہ خدا تین ہے دونوں باتیں فائدہ کے اعتبار سے برابر ہیں اور کچھ بھی معنی و مفہوم نہیں رکھتی ہیں ،یہ سب باتیں نہ ہی پیٹ کی غذا بنتی ہیں اور نہ ہی جسم کا لباس اور نہ ہی انسانی زندگی کی کسی بھی مشکل کا حل پیش کرتی ہیں ۔
لیکن جو پوزیوٹیسٹ اعتدال پسند ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں ؛جن کو اصطلاح میں ما وراء طبعت کہا جاتا ہے ؛اس طرح کی چیزیں بے معنی نہیں ہیں؛ لیکن چونکہ ہماری پہونچ سے باہر ہیں اور ہم ان کو محسوس اور ان کا تجربہ نہیں کر سکتے لہذٰا ان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں اس نظریہ کا نتیجہ نسبیت اور شکاکیت ہے یعنی غیر حسی اور غیر تجربی چیزوں کے بارے میں دینی باتوں کا بھی شمار انھیں میں ہوتا ہے ،یا یہ کہیں گے کہ ان کے حق یا باطل ہونے کو ہم نہیں جانتے ہیں ؛کیونکہ وہ ہمارے تجربے میں نہیں ہیں، یایہ کہیں گے کہ ان کا جھوٹ اور سچ ہونا معاشرہ اور زمانے کے اعتبار سے فرق کرتا ہے کبھی کبھی سارے حق بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی سب کے سب باطل بھی ہو سکتے ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ان کو کس شخص ،کس زمانہ،کس معاشرہ اور کس ماحول کی نسبت دیکھتے ہیں ۔کبھی یہ کہا گیا ہے کہ افکار واقدار کے مفاہیم یا وہ چیزیں جن میں اچھائی اور برائی ہو سکتی ہے ان میں حق اور باطل نہیںپایا جاتا ہے اور اس طرح کی خبریں جیسے ' عدالت کے ساتھ انسان کو سلوک کرنا چاہئیے' ظلم نہیں کرنا چاہئیے' سچ کہنا اچھی بات ہے' جھوٹ بولنا بری بات ہے یہ سب باتیں احساس اور سلیقے اور جذبات وغیرہ سے متعلق ہیں ؛یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ہر شخص اپنے اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق رنگ کو پسند کرتا ہے،
اگرچہ یہ باتیں معنی رکھتی ہیں لیکن ان پر کوئی دلیل اور برہان نہیں ہے ۔
بہر حال دینی پلورالزم کی تیسری تفسیرکے مطابق ادیا ن اور دینی باتوں میں اختلاف کی مثال یا رنگ جیسی چیز ہے کہ مطلق طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ سبز یا زرد رنگ اچھا ہے یا ایک اچھا ہے اور دوسرا خراب ہے بلکہ ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ دونوں اچھے اور بہتر ہیں۔ یا یہ کہیں کہ ہم چونکہ ان کی حقیقت سے نا آشنا ہیں ؛اور ان کے قبول یا ردکرنے پر ہم کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے لہذٰا ان کے بارے میں ہم کو جھگڑا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہم کو اس بات کا اعتقاد رکھنا چاہئیے کہ سب کے سب برابر ہیں ان ادیان میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور جس کسی کو بھی چاہیں اختیار کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
دینی پلورالزم کی تیسری تفسیر کاتجزیہ
اس تفسیرپر نقد وتبصرہ کے لئے جو راستہ ہمارے پاس ہے وہ یہ کہ اس کے معرفت شناسی ہی کے مبنیٰ اور اصول کو بحث کا موضوع قرار دیں اورا س میں غور وفکر کریں ؛اس کے لئے ہم کو سب سے پہلے اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ معرفت شناسی کی بحث میں ہم کو مندرجہ ذیل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
(١) جیسا کہ افراطی''پوزیوٹیسٹ '' دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اشیاء جو کہ واقعی اعتبار سے حس اور تجربہ کے قابل نہیں ہیں وہ بے معنی ہیں ؟
(٢) کیا وہ باتیں جو کہ افکار واقدار کے مفاہیم پر مشتمل ہیں اور کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے یا ان کے اچھے یا برے ہونے کو بتاتے ہیں ؛ ان کو سچ یا جھوٹ سے متصف نہیں کیا جا سکتا اور ان کے بارے میں حق و باطل کو پیش نہیں کیا جا سکتا ؟
(٣)کیا عام طور پر ہر معرفت چاہے صحیح اورحق ہونے سے متعلق ہو یا غلط اور باطل ہونے سے، نسبی ہے اور کوئی بھی بات مطلق و پائدار اور یقینی نہیں ہے ؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان تمام جگہوں پر یقینی باتوں کو جان سکتے ہیں۔
(٤) خاص طور پر دینی معرفت کیا دینی معرفت کے متعلق، یقینی ، مطلق اندازمیںاور ثابت طریقے سے پائی جاتی ہے؟ یا یہ کہ تمام دینی معرفیتں خود ہماری فہم اور سمجھ کی تابع ہیںکہ جسے آج کی اصطلاح میں ہماری '' مختلف قرائتیں '' کہا جاتا ہے ۔ یہ بحث وہی ہرمنو ٹکاور دینی باتوں کی ہر منو ٹک تفسیر کی بحث ہے۔
دینی پلورالزم کا یہ تیسرا بیان آیا صحیح ہے یا غلط ؟پہلے ان مذکورہ سوالات کے جواب واضح ہوںکہ انشااللہ ہم آئیندہ بحث میں جن کو بیان کریں گے۔
|