دقیق شبھات ٹھوس جوابات(جلد اوّل)


دینی پلورالزم(١)
ہمارے زمانے کا عظیم بحران
جس زمانے اور جس دور میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں خاص طور سے آخری دس سالوں کا عرصہ اگر اس کو بحران کے دور کے نام سے یاد کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ؛ انسانی تمدّن کی تاریخ میں مختلف زمانے دیکھے گئے ہیں جو کہ مختلف مناسبتوں کی وجہ سے الگ الگ ناموں سے یاد کئے گئے ہیں لیکن کسی بھی زمانے میں ایسا عظیم ثقافتی بحران نہیں دیکھا گیا کہ ایک اعتبار سے اسے بحرانی ہو ےّت کا نام دیا گیا ہے۔ اگر آج ہم ترقی یافتہ ممالک کے ثقافتی مسائل کے بارے میں توجہ کریں اور گفتگو کریں تو ایک عجیب آشفتگی،سرگردانی،ابہام اور شدید فکری شکّاکیت(شک پرستی)کو دیکھیں گے کہ ایسا شکّاکیت سے لبریز زمانہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
پہلے زمانے میں یونانی کلچر میں ''سوفسٹ'' نام سے گروہ پیدا ہوا تھا چند دنوں تک تو ان کا نام و نشان رہا ؛لیکن بہت جلد ہی ختم ہو گئے ۔پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں ایک مرتبہ پہر شک پرستی کا طوفان ''پیرن ''اور اس کے چاہنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوا ؛ اور وہ بھی بہت جلدی ختم ہو گیا ؛اس کے بعد شک پرستی کا تیسرا دور ''رنسانس'' کے بعد شروع ہوا ؛اس کا اثرپہلے کی بہ نسبت زیادہ رہا ؛لیکن اتنا بھی نہیں کہ دنیا کے تمام اسکولوں،یونیورسٹیوں اور ثقافتی جگہوں پرچھا جائے مگر آخر کے دس سالوں میں شک پرستی کی ایک نئی موج اٹھی ہے جس کی وسعت و شدت گذشتہ موجوں سے بہت زیادہ ہے وہ اس طرح کہ اس نے چند جگہوں کو چھوڑ کر دنیا کے تمام علمی اورتمدّنی مراکز کو خاص طور سے اسکولوں اور یو نیورسٹیوںکو پریشانی اور درد سر میں مبتلا کر دیا ہے؛ تمام طرح کے شکی مکاتب فکر اور فلسفے بہت زیادہ رواج پا گئے ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر وہ شکاکیت کا نام نہ رکھتے ہوں ،لیکن ان کے مطالب شک پرستی کے عناصر سے خالی نہیں ہیں۔اور دنیا کا ثقافتی ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں یقین اور حقیقت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کو برا اور ناسمجھ سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کو بے عزّت کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ یقین پرست اور ڈگما تیزم کا حامی ہے، آج کل یقین پرست ہوناایک علمی گالی شمار کیا جاتا ہے؛ اور شک پرستی، نسبیت اورمطلق انگاری کی نفی ، اس طرح سے دنیا کی فکری اور معاشرتی فضاوئں پر چھا گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد رکھتا ہے اور دعوے سے کہتا ہے کہ ہم اس چیز پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو پوری طرح سے صحیح سمجھتے ہیں تو اس آدمی کو ناسمجھ ،سادہ لوح اور علم وفہم سے خالی تصور کرتے ہیں اور اس کو جاہل افراد میں شمار کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ میں نے ایک جگہ پر کہا کہ اگر ہم اس زمانے کو نئی جاہلیت زمانہ کے نام سے یاد کریں تویہ اسم با مسّمیٰ ہوگا کیونکہ آج کل قابل فخر بات یہ کہناہے کہ ہم نہیں جانتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں آج ہمیں اس مقام پر پہونچنا چاہئے کہ اچھّی طرح سمجھ لیں کہ تمام چیزیں مشکوک ہیں اور کوئی چیز یقینی وجود نہیں رکھتی ہے یعنی یہ قابل فخر ہے کہ ہم ہر چیز میں شک و جہل کا اقرار کریں یہ ایک نئی جاہلیت ہے جس کا ہم کو آج کل سامنا ہے؛ یہ اس جاہلیت کے مقابل ہے جس کو قرآن کریم نے '' جاہلیت اولیٰ ''کے نام سے یاد کیا ہے (١)
بہر حال ان لو گوں کی نظر میں''ڈگماتیزم اور یقین پرستی'' انسان کی ناسمجھی اور کج فہمی کی دلیل ہے، البتہ ہمارے نظریہ کے مطابق تمام چیزوں میں بھی شک پرستی اور نسبیت کا اعتقادآج جس کا دفاع کیا جا رہا ہے، جہالت اور ناسمجھی کے علاوہ اور کوئی دوسری چیزنہیںہے، ہم نے قرآن کریم سے سیکھاہے کہ یقین اور یقینی چیزوں کو حاصل کرو اور اس کو اختیار کرو اور شک وتردید کے پردوں کو اپنے سے دور کرو۔سورہ بقرہ کے شروع ہی میں اس جانب اشارہ ہوا ہے ''و باالآخرة ھم یوقنون'' (٢)یعنی مومنین وہ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہوں ؛ قرآن مجید کا دستور یہ ہے کہ جس جگہ وہ کسی کی سرزنش کرتا ہے یا اس کی مذّمت کرتا ہے اور غلط قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے: یہ لوگ شک والے ہیں بالکل اس کے خلاف جو کہ آج کی دنیا میں پایا جا رہا ہے کہ اگر کسی کی طرف علمی اعتبار سے نامناسب نسبت دینا ہو تو کہتے ہیں کہ یہ اہل یقین ہے۔
..............
(١) سورہ احزاب : آیہ ٣٣۔
(١) سورہ بقرہ : آیہ ٤۔
پلورالزم تساہل تسامح ،بحران پیدا کرنیوالوں کے ہتھکنڈے
بہر حال ہماری نظر میں شک پرستی اور نسبیت کا اعتقاد انسانی معاشرہ کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت اور آفت ہے کم سے کم ہمارے سماج کے لئے اس بات کا سبب ہے کہ ہماریاعتقادات اورثقافت جن کے لئے ہم نے قربانی پیش کی ہے اور ان کے وجود کے لئے صدیوں ہم نے زحمت برداشت کی ہے تا کہ وہ عالم وجود میں آئیں ، وہ سب ختم ہو جائے ؛اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمگیر شک پرستی کی موج و آفت] جو کہ ایک فاجعہ اور خطرناک بیماری ہے [کے مقابلہ میں کیا کیا جائے؟ ہم ایک اسلامی ملک اور حکومت ہونے کی وجہ سے جس طرح دوسرے شعبوں اقتصاد و صنعت وغیرہ میں مختلف کارنامے انجام دیتے ہیںان کے علاوہ اس ادبی اورثقافتی میدان میں کون سا کام انجام دیں ؟البتہ ثقافت سے ہماری مرادنئی اصطلاح میں ر قص و سرود نہیں ہے بلکہ دینی اصولاعتقادات اور اقدار ہیں ہماری نظر میں اسلام ایک قطعی اصول اور محکم اقدار کا نام ہے ہمارا وظیفہ اور ذمہ داری یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم انکی حفاظت کریں اس کے بعد دوسروں کو ان کی جانب دعوت دیں نہ یہ کہ سیکو لرازم،لیبرال ازم، پلو رل ازم اور دوسرے کئی ازم اور نظریوںکے مقابلہ میں پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے اثرات کو قبول کر لیں ۔آج اس ملّت کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف ثقافتی حیلوں کو وسیلہ بنا کرلوگوں خصوصاً جوانوںکے اعتقاد،اعتماد اوریقین ،کو زیر سوال لا کرمتزلزل کردیںاورانھیںحیلوں میں ایک حیلہ ''پلو رالزم''نام کی ایک خطرناک فکر ہے جس کی وہ لوگ ترویج کرتے ہیں؛ اس کی اہمیت کے اعتبار سے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں کچھ عرض کروں۔
پلورالیسٹ کہتے ہیں انسان مختلف عقیدوں اور فکروں کے مجموعہ کا نام ہے اور وہ مختلف راہ و روش رکھتاہے اور ہر عقیدہ اور راہ وروشجو کسی بھی معاشرہ سے متعلق ہواور وہ اس کو پسندکرتا ہو تو وہ محترم ہے ہم کو چاہئے کہ ہم ان کی فکر و نظر کا احترام کریں البتہ دوسروں کو بھی ہماری فکر و نظر کا احترام کرنا چاہئے ۔ہم کو نہ تو کسی کی فکر ونظر سے چھیڑ چھاڑ کرنی چاہئے اورنہ تو اس بات کا انکار کرنا چاہئے کہ دوسروں کی فکریں ہماری فکروں کی جا نشین ہو جائیںکسی شخص کو بھی اپنی فکرکے حوالے سے مطلق تصوّرنہیں کرناچاہئے بلکہ اس بات کو نظر میں رکھنا چاہئے کہ دوسرے لوگ بھی الگ فکرونظرکے مالک ہیںاس پرکوئی دلیل نہیں ہے کہ ہماری فکرو نظر صحیح ہے اور دوسروں کی غلط ہے آپ کس اصول کی بناء پر دوسروں کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں اور فقط اپنی فکر کو صحیح جانتے ہیں؟ اگر آپ مسلمان ہیں اور اسلام کو قبول کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی ہیں جو مسیحیت ، بودھ ایزم اور دوسرے مذاہب کو قبول کرتے ہیں اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ آپ کا اسلام ان سے افضل و برتر ہے؛ ہم سب کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا بھی اور ان کے عقائد کا بھی احترام کریںاور تعصب و دشمنی نہ رکھیں اور اس بات کی کوشش میں نہ رہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی لازمی طور پر اپنے مذہب اور دین کے اندر داخل کریں ،ہم کو چاہئے کہ ہم دوسروں کے افکار و عقائد سے چشم پوشی کریں اور ان سے اتسامح و تساہل کے ساتھ برتاؤ کریں اور اس بات کا احتمال رکھیں کی شاید دوسرے لوگ بھی حق پر ہوں اور سچ کہتے ہوں ۔
جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے یہ فکر حقیقت میں وہ ہتھیار ہے جس کو دنیا کی استعماری طاقتیں اسلامی کلچر کو روکنے خاص طور پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کے لئے استعمال کرتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ مغرب کے مادی اور الحادی کلچر کو رواج دینے کے لئے بھی یہ کوششیں ہیں؛آج ہم خود اس بات کے شاہد ہیں کہ بعض نشریات ،اور تقریروں، جلسوں میں اسی فکر کو رواج دینے کی کوششیں کی جارہی ہیںاور اس کے نفوذو اثر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ بعض ایسے افراد جن کے متعلق گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ان کو بھی اس فکر سے متاثر ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔

جوانوں سے متعلق ہماری اہم ذمہ داری
حضرت امام خمینی کی زندگی میں آپ کی بزرگ شخصیت کا لوگو ں پر اتنا اثر تھا کہ وہ لوگ آپ سے والہانہ محبت کرتے تھے بے چون و چرا آپ کی باتوں کو قبول کرتے تھے اور آپ کے نظریہ اور رفتار و گفتار کو مانتے تھے تمام ذمہ دار افراد کے درمیان حتیّٰ عوام الناس کے درمیان آپ کی بات حرف آخر رکھتی تھی؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف آپ ہی کی شخصیت ایسی تھی ۔یہ حقیقت ہے کہ ایسی چیزیں ہمیشہ اور ہر نسل میں باقی نہیں رہتی ہیں لہٰذا ہم کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ اگروہ راہ اور فکر حقیقت میں صحیح اور درست تھی تو ہم کومنطق اور دلیلوں کے ذریعہ اس کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہئے اور اس کو پھیلانا چاہئے ؛خاص طور پر آئندہ نسلوں کے لئے ہمارا صرف یہ کہنا (امام خمینینے یہ کہا اور امام خمینینے یہ کیا) کافی نہیں ہے،
وہ عشق و جذبہ جو کہ انقلاب کے شروع اور پہلی نسل میں پایا جاتا تھا اور ان کے اندر جو شہادت کا جذبہ تھا ،جس کو میدان جنگ میں دیکھتے تھے ظاہرہے آنے والی نسلوں (یا ان لوگوں میں جنھوں نے امام خمینیکے ملکوتی چہرے کو نہیں دیکھا ہے یا جو لوگ ہر ہفتے یا روز انہ امام خمینیکے حکیمانہ جملوں کو نہیں سنتے )کے اندر نہیں پایا جا سکتا لہذا ہم کو چاہئے کہ واضح دلیلوں اور منطقی باتوں سے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
حقیقت میں اگر ہم ان نوجوانوں کی جگہ پر ہوں جو کہ ابھی جلدی ہی رشد و کمال پر پہونچے ہیںاور وہ مختلف نظریات اورمکاتب فکر سے روبرو ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ ان جوانوں کے لئے جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ اتنے نظریات جو کہ اس دنیا میں ضد و نقیض کی صورت میں پائے جاتے ہیں کیا دلیل پائی جاتی ہے کہ امام خمینی کا نظریہ ہی صحیح اور درست ہو؟ کون سی دلیل پائی جاتی ہے کہ اسلام ہی سب سے اچھا دین ہے اور اس کا راستہ سب سے اچھا راستہ ہے کیا دنیا میںمسیحی دین اور دوسرے دین کے ماننے والے کثیر تعداد میں نہیںپائے جاتے ہیں آپ کو کہاںسے معلوم ہوا کہ انکا عقیدہ اسلام اور امام خمینیسے بہتر نہیں ہے ،میں کیوں اسلام، انقلاب اور امام خمینیکو قبول کروں؟یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات اور مسائل ہیںجو کہ ہمارے جوانوںکے ذہن میں پائے جاتے ہیں اور انکے ذہنوں کو جھنجوڑ تے رہتے ہیںاور کبھی کبھی تو واضح طریقہ سے ان باتوں کو زبان پر لاتے ہیں اور ان کا اظہار کرتے ہیں اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مناسب ذہنی میدان اور ماحول'' پلورا لیزم ''کی ترویج کے لئے دین وثقافت کے حدود میں میں پا یا جا رہا ہے۔
میں خود دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو کہ مسیحی تھے لیکن کہتے تھے کہ اسلام بھی اچھا دین ہے لیکن جب میںنے ان سے سوال کیاکہ پھر کیوں نہیںمسلمان ہو جاتے تو جواب میںکہتے ہیں چونکہ مسیحیت بھی اچھا دین ہے۔حتیّٰ اس سے بھی بڑھ کر آج پاپ (مسیحیوں کا رہنما)بھی اعتراف کرتا ہے کہ اسلام ترقی یافتہ اور اچھا دین ہے لیکن کبھی یہ نہیں کہتا کہ مسیحیت برا دین ہے یا اسلام مسیحیت سے بہتر ہے جب مسیحیت کا راہبر یہ اعلان کرتا ہے کہ اسلام بہت سی خوبیوں کا دین ہے تویہ خودبخوداس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دو اچھے دین ہیں ایک اسلام اور ایک مسیحیت۔ اگر آپ بودھ مذہب کے رہبر(بودھ ایسا مذہب ہے جسکے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں)سے ملاقات کریں گے تو ممکن ہے وہ بھی کہے کہ بودھ اچھا دین ہے اسلام بھی اچھا مذہب ہے یہ وہی دینی پلورالیزم ہے یعنی ہم ایک اچھا اور برحق دین نہیںرکھتے بلکہ حق پر کئی دین ہیںکسی کو بلاوجہ یہ ضدنہیںکرنی چاہئے کہ جنت میںجانے اور سعاد ت مند بننے کے لئے مسلمان ہونا ضروری اور شرط ہے بلکہ مسیحی ،زرتشتی،بودھ اور دوسرے لوگ بھی جنت میںجاسکتے ہیںاور سعا د تمند بن سکتے ہیںاسی طرح ایک دین کے اندر بھی مختلف مکاتب فکر کوبھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دینی چاہئے ؛بلکہ سب کے سب اچھے اور حق پر ہیںجیسے اسلام مذہب میں سنی اورشیعہ ہیں یامسیحیت میں ''کیتھولک'' ''پروتٹیسٹان اور ''ارتڈوکس'' لہذا ایک دوسرے کے باطل یا غلط ہونے کانظریہ نہیںرکھنا چاہئے۔

پلورالیسٹ کیا کہتے ہیں
پلورالیسٹ دینی پلورالزم کی تائید کے لئے پلو رالیزم کے دوسرے مظاہر کے ذریعہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دینی پلورالیزم بھی صحیح ہے مثلاً کہتے ہیں آج د ونیاکے مملک مختلف حکومتی روش اور سسٹم کے تحت چل رہے ہیں؛بعض ترقی یافتہ ممالک مثلاًانگلینڈ، جاپان وغیرہ میں با دشاہی حکومت پائی جاتی ہے اور دوسرے کئی ملکوں میں جمہوری حکومت پائی جاتی ہے؛ جمہوری حکومتوں میں بھی بعض جگہوں پر ریاستی اور کہیں پر پارلیمانی طریقہ حکومت پایا جاتا ہے۔ جب سیاست کے میدان میں حکومت کے مختلف قسم کے سسٹم سے متعلق بحث ہوتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ (ان تمام سسٹم میں کون سا سسٹم اچھا ہے؟ ) وہ لوگ کوئی آخری اور فیصلہ کن جواب نہیں دیتے ؛بلکہ کہتے ہیں کہ ان تمام سسٹم میں بعض اچھائیاں اور خوبیاںبھی پائی جاتی ہیں؛اور بعض حد بندیاں اور کمیاں پائی جاتی ہے اور کسی سسٹم کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ برا ہے وہ تمام سسٹم اچھے ہیں یہ سیاسی پلو رالزم یعنی سیاسی حکومت کے انتخاب میں لازم نہیں ہے کہ ہم کہیں یہ طریقہ حکومت اچھا اور صحیح ہے اور بقیہ حکومت کے سسٹم اور طریقے غلط اور باطل ہیں اسی طرح ایک حکومت یا کابینہ کے بنانے اور تشکیل دینے میں کئی الگ الگ پارٹیاں ہوتی ہیں یہ بھی ایک سیاسی پلورالزم کا نمونہ ہے۔وہ مختلف پارٹیاں جو کہ ایک ملک میں پائی جاتی ہیںاور الگ الگ نظریات اور فکریں رکھتی ہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں ان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف ایک پارٹی صحیح اور باقی دوسری غلط ہیںاور ان کو چھوڑ دیا جائے۔اصولی طور پر اگر آج دنیا میں تمام لوگ متفقہ طور پر صرف ایک پارٹی کے طرف دار ہوں تویہ لوگ اسکو عقب ماندگی کی نشانی اور اس پارٹی کی تنزّلی کا سبب سمجھتے ہیںیہ لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اور متمدن معاشرہ ضروری طور پر مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہوں اورلوگ الگ الگ گروہ کے طرف دار ہوتے ہیں بنیادی طور پر مختلف نظریوں کا پارٹیوں میں ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ آپس میں رقابت پیدا ہو،و پارٹی حکومت میں نہیں ہے وہ حکومتی پارٹی کے کارناموں کو دیکھے اور اس پر نظر رکھے نیز ہر پارٹی ایک دوسرے کی کمیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھے اس طرح ہر پارٹی اپنے کاموں پر نظر رکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کوئی کمی اور غلطی نہ ہونے پائے اگر غلطیاں اور کمزوریاں ہیں تو اس کا ازالہ کیا جائے نیز اس بات کی ہر پارٹی کوشش کرتی ہے کہ سبھی کام کو اچھے طریقے سے انجام دیا جائے تاکہ لوگوں کے ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں؛ انھیں سب وجہوں سے ذمہ دار اور سیاسی افراد اپنے ملکوں میں ترقی دیتے ہیںکہ نتیجہ میں جس کا فائدہ اس معاشرہ کے تمام عوام کو پہونچتا ہے۔ اس بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پلورالزم اور چند پارٹیوں کا ہونا ایک پسندیدہ اور فائدہ مند بات ہے اور وہ سیاسی سسٹم اور طریقہ کارجو ایک ہی پارٹی میں محدود ہوسیاسی پلورالزم کے مقابلہ میں نامناسب اور بیکار ہے ۔
اسی طرح اقتصادی میدان میں بھی یہ بات بہت حد تک واضح ہے کہ مختلف اور متعدد نظریے اور کئی اقتصادی طاقتوںاور ذرائع کا ہونا ہی اچھا اور قابل قبول ہے اور ایک محور کا اقتصاد بہت زیادہ نقصاندہ اور عیب کا باعث ہے اور یہ قابل دفاع بھی نہیں ہے ۔ جس میدان میں کئی اقتصادی محور موجود ہونگے وہاں آپس میں رقابت پیدا ہو گی اور رقابت کے نتیجہ میں اچھی چیزیںبہتر صورت میں بہت کم قیمت پر استعمال کرنے والوں تک پہونچیں جائیں گی اور اقتصادی مارکیٹ میں اچھی طرح وسعت اور ترقی بھی اسی رقابت کے ذریعہ ہوتی ہے جبکہ ایک محوری اقتصاد میں محدودیت پیدا ہو جاتی ہے اور رقابت نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر چیزوں کی کیفیت اور بناوٹ اچھی بھی نہیں ہوتی اور قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس میں ترقی اور وسعت چند محوری اقتصاد کی بہ نسبت بہت کم ہوتی ہے لہٰذا ان سب باتوں کی وجہ سے اقتصادی پلورالزم قابل قبول اور فائدہ مند ہے ۔
پلورالیسٹ اس طرح کی باتیں ذکر کر کے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس طرح پلورالزم اور کثرت خواہی مختلف جگہوں جیسے سیاست، اقتصاد اور دوسری چیزوں میں اچھی چیز ہے اسی طرح دین اور کلچر میں بھی پلورالزم اور کثرت گرائی پائی جانی چاہئے؛ تاکہ اس طرح سے تمام اد یان کے معاشرہ اور سماج کے اندر پوری طرح سے فراہم ہو نا چاہئے اور اعتقادی نظریہ سے بھی اس بات کا یقین رکھیں کہ مختلف ادیان میں کوئی برتری نہیں پائی جاتی ہے اوران میں کسی ایک دین کو قبول کرنے کی حیثیت بقیہ تمام ادیان قبول کرنے کے برابر ہے لہٰذا دینوں میں حق و باطل کا قائل ہونا اور ان کو اچھے برے میں تقسیم کرنا یا ان کوا چھے اور برے عنوان سے یاد کرنا یہ سب پوری طرح بے بنیاد اور بے فائدہ ہے اور عیسائی، مسلمان ،شیعہ اورسنی،کیتھولیکاور پروٹیسٹ خلاصہ یہ کہ تمام ادیان نیز فرق و مذاہب حقیقت تک پہونچنے کے راستے اور منزل مقصود اور ساحل نجات تک پہونچانے والے صراط مستقیم ہیں ،اور ان میں سے کسی ایک پر تعصب کرنا بے عقلی اور غیر منطقی ہونے کی دلیل ہے عقلمند انسان جس طرح اقتصادی اور سیاسی پلورالزم کو قبول کرتا اسی طرح وہ اس کو دین کے بارے میں بھی قبول کرتا ہے اور دین میں کثرت کا ہونا پوری طرح سے فطری اعتبار سے قابل قبول اور معقول ہے۔
بہر حال آج کل یہ فکر ہمارے سماج میں مختلف طریقوں سے ترویج کی جارہی ہے ،جیساکہ پہلے اشارہ کیا جاچکاہے واقعاً ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حقیقت میں جس طرح ہم لوگ اقتصاداورسیاست کے میدان میں کثرت کو قبول کرتے ہیں مثلاًاقتصاد کے میدان میں اہل اقتصاد صادرات کو وسیع یا واردات کو کم کرنے اور مکمل طرح سے رشد و وسعت میں کسی ایک ملک سے متعلق ایک خاص نظریہ نہیں رکھتے ہیںان کے درمیان اختلاف کا ہونا فطری چیز ہے یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک نظریہ پر پہونچیں ؛پھر اب کیا مشکل ہے کہ دین اور ثقافت کے بارے میں بھی اسی چیز(پلورالزم اورکثرت گرائی) کو قبول کریں ؟سچ مچ اس بات پر کیوں ضد اور اصرار ہے کہ میں لازمی طور پر اسلام ہی کو نہ کہ مسیحیت کو قبول کروں ؟ حقیقت میں کیا یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دین کا پابنداور خدا کے وجودکا اعتقاد رکھوں؟ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں یا خدا کیوجود میں شک و شبہ رکھتے ہیں ،یہ بھی ایک عقیدہ دوسرے عقیدوںکے درمیان ہے اوردوسرے عقیدوں جیسا ہی ہے میںکیوں نہ اس عقیدے کو قبول کروں ؟
اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیںکہ یہ مسئلہ پوری طرح سے بہت ہی اہم ہے اور ایک مضمون یا کتاب سے زیادہ مطالب کا حامل ہے یہ مسئلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ ہمآمادہ ہو کر منطقی اور استدلالی جواب کے ساتھ نوجوان نسلوں کے سوالات کے جواب دینے کے لئے حاضر ہوں اور اس شبہ کو حل کریں۔


پلورالسٹ کے پہلے بیا ن پرتنقید
مذکورہ بیان جو کہ پلورالزم کہ تائید کرتا ہے سب سے پہلے اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ منطقی لحا ظ سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ہم اقتصاد و سیاست میں کثرت گرائی کو قبول کرتے ہیں تو دین اورکلچر میں بھی اس کو قبول کریں ؛پلورالزم کے مذکورہ بیان میں جو کچھ کہا گیا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ''چونکہ سیاست و اقتصاد اور دوسرے امور میں کثرت گرائی فائدہ مند ہے اور لوگ اس کو پسند کرتے ہیں؛لہٰذا دین و ثقافت کے مطالب میں بھی کثرت گرائی مفید و مطلوب ہے ''
ہماری اصلی بحث اسی میں ہے یہ مطلب صرف ایک دعویٰ ہے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے یہ مطلب ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی کہے ''چونکہ فٹ بال کے کھیل میں گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید و مطلوب ہے لہٰذا والی بال کے کھیل میں بھی گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید ومطلوب ہے ''
حقیقت میں جس طرح یہ دوسرا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے اور تعجب انگیز ہے اسی طرح پہلا دعویٰ بھی ہے۔ اس کے بارے میں تھوڑی وضاحت اس طرح سے ملاحظہ ہویہ صحیح ہے کہ اقتصادی، سیاسی اور اس جیسے دوسرے بعض ایسے مسائل ہیں کہ ان کا جواب ایک نہیں ہے ان کے جواب میں کثرت اور زیادتی ممکن ہے بلکہ کبھی کبھی صحیح اور پسندیدہ بھی ہے لیکن بعض دوسرے مسائل ایسے بھی ہیںجن کا جواب صرف اور صرف ایک ہی ہے، ان کا جواب ایک سے زیادہ قابل قبول اور قابل تصّور نہیں ہے جیسے ریاضی،فزکس اور ہندسہ وغیرہ ،مثلاً حساب میں ٢ضرب ٢ کا جواب فقط ٤ ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا جواب صحیح نہیں ہے یا ہندسہ میں ٣ زاوئیے جو کہ مثلث اعتبار سے برابر ہوں جو کہ دلیل سے ثابت ہوتے ہیں اس کا جواب صرف ١٨٠ درجہ ہی ہوگا اس کے علاوہ دوسرا کوئی جواب نہیں ہے یا ایک مسافت کا حساب لگایا جائے جو کہ ایک متحرک معین زمانہ میں مشخص رفتار کے ساتھ طے کرتاہو تو اس کا جواب ایک ہی ہوگا کہ جس d=v.t فارمولے کے ذریعہ حساب کیا جائے گا ،کیا کوئی یہاں پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اقتصادی اور سیاسی مسائل میں جس طرح مختلف نظرئیے پائے جاتے ہیں اور اس کا ایک جواب نہیں پایا جاتا اسی طرح دو ضرب دو کے بارے میں بھی ہے اور تمام علم ریاضی کے جاننے والے دوسروں سے علیحدہ جواب دے سکتے ہیں اور ان میں یہ بھی احتمال ہو کہ کوئی صحیح اور کوئی غلط ہو ؟ ہاں اس نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے کہ ممکن ہے ریاضی اور اس جیسے مسائل کے جواب دو یا اس سے زیادہ راہ حل رکھتے ہوں؛ مگرآخر میں سارے مختلف راہ حل ''ایک جواب تک پہونچیں گے ''اور چند راہ حل کا ہونا کئی صحیح جواب کے ہونے سے الگ اور جدا چیزہے۔
لہذٰا ممکن ہے کہ انسانی وجودات اور معارف میں ہمارے سامنے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ ہوں اور ایسے مسائل بھی ہوں؛ جن کے جواب فقط ایک ہوں اور ہمارا اصلی سوال ان لوگوں سے جو پلورالزم دینی کے قائل ہیں یہ ہے کہ آپ کو کہاں سے معلوم کہ دین ان مسائل سے ہے جن کے جواب ایک سے زیادہ نہیں ہے ؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ دین اقتصاد اور سیاست کی طرح ہے جس کے کئی جواب ہیں اور اس کے اندر کثرت فائدہ مند اور مطلوب ہے تو ہم بھی اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا نہیں ہے، دین کے مسائل فیزیکس اور ریاضی جیسے ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ صحیح نہیں ہیں،ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ''خدا ہے یا نہیں؟ '' کا سوال دو ضرب دو یعنی دو دو چارمسئلہ جیسا ہے کہ صرف اور صرف اس کے جواب میں ایک ہی بات صحیح ہے ۔

پلورالسٹوںکی دوسری دلیل
یہاں پر جو لوگ دینی پلورالزم اورکژت گرائی کے قائل ہیں وہ اپنے مدّعا کو ثابت کرنے کے لئے دوسری دلیل کا سہارا لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان سے متعلق جوامورہیں وہ دو طرح کے ہیں کچھ امور حقیقی اور واقعی ہیں جبکہ کچھ قرار دادی اور اعتباری ہیں، واقعی اور حقیقی امور ایسے ہی ہیں جیسا آپ کہتے ہیں یعنی ان کے جواب صرف ایک ہی ہیں یہ ایسی چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربہ سے ثابت ہیں؛ لیکن جو امور قرار دادی اور اعتباری ہیں جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے وہ امور انسان کے ذوق اور سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کوئی حقیقت اور واقعیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے افراد اور معاشروں کے ذوق اور سلیقہ اور قرار دادو اعتبار کے اختلاف کے سبب بدلتے رہتے ہیں؛ اس کے بر خلاف واقعی امور ہیں مثلاً ایک خاص کمرے کی مساحت انسان کے معاملہ اور ذوق وسلیقے سے معین نہیں ہو تی؛بلکہ حقیقی طور پر اس کمرہ کی پیمائش اتنی ہی ہوگی جتنے میں موزائیک پتھر لگے ہوئے ہیں ۔
امور اعتباری میں اصلاًاس طرح کے جملوں کو جیسے بہتر ہے یا بدتر ہے اچھا یا برا ہے صحیح یا غلط ہے یا اس سے ملتے جلتے جملوں کو استعمال نہیں کیا جاتا ؛ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان جیسے جملوں کو استعمال کریں تو ہم کو کہنا ہوگا کہ سب ہی صحیح، اچھے اور بہتر ہیں خراب ،غلط اور برے کایہاں وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایک شخص صورتی رنگ کو پسند کرتا ہے اور دوسرا ہرے رنگ کو تو اب کوئی بھی آدمی ایک دوسرے کو غلط نہیں کہہ سکتا ہے اور برے ،غلط یا باطل جیسے الفاظ کو استعمال نہیں کر سکتا ہے؛ بلکہ کہنا چاہئے کہ صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور سبز رنگ بھی بہتر ہے خلاصہ یہ کہ جو اموراور مسائل اعتباری ہیں ان کا جواب ایک نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ان کے جواب ایک سے زیادہ ہوں ۔
پلورالسٹ والے دعوی ٰ کرتے ہیں کہ دین ثقافت اور افکار واقداراعتباری امور میں سے ہیں اور ذوق وسلیقہ اور قرار داد واعتبار کے تابع ہیں؛ جس طرح اس سوال کے جواب میں کہ( کون سا رنگ اچھا ہے؟ ) ایک جواب نہیں ہے اور خاص طور سے ایسے سوال بے معنی اور نا مناسب ہیں لہذٰا اس سوال کے جواب میں کہ ''کون سا دین اور کلچر اور مکتب فکربہتر اور صحیح ہے؟) ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی جواب کو اختیار کیا جائے ؛ایک لحاظ سے ایسا سوال ہی کرنا بے کار ہے اگر کوئی شخص اسلام کو پسند کرتا ہے اس کے لئے وہ اچھا ہے اگر کوئی مسیحیت کو پسند کرتا ہے تو اس کے لئے وہ بہتر ہے اگر کوئی یہ کہے کہ خدا ایک ہے تو ٹھیک ہے اگر کسی نے یہ کہا کہ خدا تین ہیں تو یہ بھی صحیح ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر کسی نے کہا خدا ہے اور کسی نے کہا کہ خدا نہیں ہے تو دونوں کی بات صحیح ہے اور دونوں حق پر ہیں ،میں چاہتا ہوںکہ بیت المقدس یعنی قبلہ اوّل کی طرف رخ کر کے نماز پڑھوں اور آپ چاہتے ہیں کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں تو اس میں کوئی بھی مشکل نہیں ہے ،دونوں صحیح ہے ؛جس طرح آپ اس کھانے کو پسند کرتے ہیں ،اور میں اس کھانے کو پسند کرتا ہوں ؛ایسا ہی دین کا بھی معاملہ ہے میں اسلام کو پسند کرتا ہوں ،آپ بودھ کو پسند کرتے ہیں اورہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں رکھتا دونوں میں کوئی بھی دشمنی اور جنگ نہیں ہے بلکہ دونوں ہی بہتر اور اچھے ہیں۔ مثلاً کامیابی اور جیت کے موقع پر مغربی کلچر میں انگلیوں کو ایک خاص شکل میں گھمایا جاتا ہے یعنی]v[ بنایا جاتا ہے جب کہ اس حرکت کو ایرانی کلچر مین ایک بے عزتی اور گالی شمار کیا جاتا ہے لیکن اس حرکت پر ہم مغربی ممالک کے لوگون کو غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ایک قرار دادی اور اعتباری چیز ہے بالکل ایسے ہی دینی امور بھی ہیں ۔
جس مسئلہ کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے اور پلورالیسٹدینی پلورالزم کی تائید کے لئے اسی طرف اشار ہ کرتے ہیں اصطلاح میں اس کو''افکار واقدار میں نسبیت ''کے نام سے یاد کیا جاتا ہے افکارو اقدار میں نسبیت کی بحث اس کا خلاصہ اور نتیجہ یہی ہے کہ اچھا اور برا ہونا نیز فائدہ مند مسائل اور اس کے علاوہ اخلاقی اقدارکی باتیں سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں مختلف لوگوں کی نسبت ممکن ہے تفاوت واختلاف ہو، جس طرح کھانے اور رنگ کے متعلق الگ الگ پسندہوتی ہے اورمختلف افراد کی نسبت پسندوںمیں فرق ہوتا ہے اچھائی اور برائی اور اس کے علاوہ افکار واقداربھی اسی طرح سے ہیں ؛جس طرح کھانے اور رنگ کے بارے میں کسی ایک کو مطلق طور پر اچھا نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ ممکن ہے ایک رنگ یا غذا ایک آدمی کے نزدیک پسندیدہ ہے اور وہی چیزدوسرے کے نزدیک بری اور ناپسند ہے اسی طرح افکار و اقدار اور اخلاقی مسائل کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ہر انسان اور سماج کی نسبت مختلف ہوتی ہے اوربدلتی رہتی ہے ۔
یہاں تک اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ صاحبان پلورالسٹوں نے پہلے تویہ کہا :
(١) چونکہ اقتصاد اور سیاست میںپلورالزم اور کثرت گرائی صحیح اور فائدہ مندچیز ہے لہذا دینی امور میں بھی ہم اس بات کو قبول کریں کہ کثرت گرائی ایک اچھی اور مفید چیز ہے ،
اس بات کا جواب ہم نے یہ دیا کہ دینی مسائل بھی فیزیک اور حساب جیسے ہیںجو کہ ایک جواب رکھتے ہیں اس میں تکثر اورکثرت گرائی صحیح نہیں ہے۔ (٢)اس کے بعد پلورالسٹوں نے کہا کہ افکار واقدار میں نسبیت پائی جاتی ہے اور انھوں نے بعض اخلاقی و اجتماعی آداب و رسوم کو پیش کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ عام فکری مسائل میں بھی نسبیت پائی جاتی ہے تاکہ بعد میں نتیجہ پیش کر سکیں کہ دین کے اموربھی نسبی ہیں ۔

پلورالزم کو ثابت کرنے کی تیسری کوشش
پلورالسٹ اس ذیل میں پچھلی باتوں سے بھی آگے بڑھ کر اس بات کا دعویٰ کر بیٹھے کہ حقیقت اور اصل میں تمام معارف اور مسائل چاہے وہ جس شعبہ کے ہوں ہر جگہ نسبیت پائی جاتی ہے اوراصولی طور پر کوئی شناخت اور معرفت بغیر نسبیت کے نہیں ہو سکتی ہیںبس فرق اتنا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ نسبیت بالکل واضح اور روشن ہے اور سب لوگ اس کو جانتے ہیں لہذٰا آسانی سے قبول کر لیتے ہیں اور بعض جگہوں پر یہ نسبیت پوری طرح سے واضح نہیں رہتی ہے اور عام لوگوں کا نظریہ ایسی جگہوں پر یہ ہوتاہے کہ مطلق اورثابت معرفت کو حاصل کر لیا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے یہ وہی چیزیں ہیں جن کی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ معرفت و شناخت میں نسبیت کا قول اصل میں وہی شک پرستی ہے جو کہ آخری دس سالوں سے پہلے اور حضرت عیسیٰ سے پہلے اور ان کے بعدبھی دو تین بار فلسفیوں اور دانشوروںکے
یہاں پائی گئی تھی ،لیکن یہ نظریہ اس وسعت سے نہیں پھیلا تھا اور اتناموثرنہیں ہواتھا لیکن ادھر آخری دس سالوں میں بہت زیادہ پھیل گیا ہے اس نے آج دنیاکی اکثر فکری اور ثقافتی مراکز کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ،ایک عالم کو آج فخر اس بات پر ہے کہ وہ کہے میں اس بات کو نہیں جانتا اور اس چیز میں شک رکھتا ہوں ؛اگر کوئی شخص علم و یقین کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے دعوے کو نادانی کی علامت سمجھا جا تا ہے ۔
بہر حال اگر تمام معارف و شناخت نے نسبیت کے رنگ کو اختیار کر لیا تودین اور دینی معرفت بھی محفوظ نہیں رہ پائے گی اور وہ بھی نسبی اور تغیر پذیر بن جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا اور ہم کہہ سکتے ہیں مثلاً سماج ]الف [کے نزدیک اور ان کے نظریہ کے مطابق مسیحی دین صحیح اور بہتر ہے اور وہ حق پر ہے، سماج ] ب[ کے نزدیک اسلام دین اچھا اور حق پر ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی سماج کے نزدیک ایک وقت میں ایک دین بہتر اور حق پر ہو اور دوسرے زمانے میں دوسرا دین بہتر اور حق پر ہو اور معلوم نہیں کہ حقیقت اور سچاّئی کیا ہے؟ اصلاًحقیقت بھی ایک نسبی مسئلہ ہے اس سماج اور اس زمان کی نسبت حقیقت ایک چیز ہے اور دوسرے زمانے اورسماج کی نسبت دوسری چیز ہے ۔
مسلمان پلورالسٹ ( بہتر ہے کہ ہم ان کو وہ پلورالیسٹ کہیں جو کہ ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں )دینی پلورالزم کی تائید میں کبھی کبھی قرآنی آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہیں اور کبھی مولوی،حافظ اور عطاّر وغیرہ کے اشعار پیش کرتے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ،بت خانہ، مسجد،کلیسا یہ سب ظاہری طور پر اگر چہ الگ الگ ہیں لیکن سب کے سب ایک ہی خدا کی تلاش اور خدا پرستی کی ایک ہی حقیقت تک پہونچاتے ہیں جیسے یہ شعر بہت ہی شور و غل کے ساتھ پیش کیا جا تا ہے ۔

مقصود من از کعبہ و بت خانہ تویی تو
مقصود تویی کعبہ و بت خانہ بہانہ

اے خدامیری مراد کعبہ اور بت خانہ سے تو ہی ہے مقصود اور مراد تو ہی ہے کعبہ و بت خانہ تو ایک بہانہ ہے۔
اس طرح سے پلورالزم کی بحث اجتماعی مسائل میں کثرت پرستی سے شروع ہوتی ہے ا ور پھر آگے چل کرافکار واقدار میں نسبیت کی بحث پیش کی جاتی ہے اور آخر میں یہ بحث انسان کے تمام معارف میں نسبیت تک پہونچ جاتی ہے ۔یہ بات بہت ہی واضح ہے کہ اگر پلورالزم کے نظریہ اور فکر کو قبول کر لیا جائے تو اسلام ، انقلاب ، امام خمینی اور اسلامی افکار واقدار کاپابند رہنا لازم و ضروری نہیں رہ جاتا ہے ؛اور ہر طرح کے اعتقاد ،اعمال اور رفتار نیز تمام اخلاقی برائیوں کی توجیہ آسانی سے کی جا سکتی ہے اور ان تمام چیزوں کو قبول کر سکتے ہیں اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے ان تمام مطالب اور باتوں کی تحقیق وتنقید کریں گے اور مسئلہ کی حقیقت کو روشن کریں گے۔