تہذیب وثقافت کے سلسلے میں ہما ری ذمہ داری(١)
خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محترم اساتید کے درمیان حاضر ہونے کی تو فیق عطافرمائی امید کرتا ہوں کہ یہ نیک اور مبارک قدم ہوگا ان عظیم اور سنگین ذمہ داریوں کو انجام دینے کی جو ذمہ داریاںاس خاص دور میں ہمارے اوپر عائدہیں سب سے پہلے میں اس بات کی اجازت چاہتا ہوں کہ ایک مختصر مقدّمہ جو اس ذمہ داری سے متعلّق ہے اسکو بیان کروں اسکے بعد اللہ کے فضل وکرم سے آئندہ جلسوں کے جو موضوعات دوستوں کے سامنے ہیںان کے بارے میں تفصیل سے بحث کروں گا
مذہب اسلام مین ایک دستور(قاعدہ )ہے ''طاقت کے مطابق ذمہ داری'' یعنی خداوندعالم نے جسکو جتنی نعمت عطا کی ہے اور جس قوّت و استعداد کا اسکو مالک بنایا ہے اسی کے مطابق اسکو ذمہ داری عطاکی ہے (انسان کی ذمہ داری)یہ ایک ایسا اہم موضوع ہے جو بہت ہی زیادہ تفصیل چاہتا ہے اس سے پہلے کہ اصل موضوع ''قوت و طاقت کے اعتبار سے ذمہ داری ''کے بارے میں بحث ہو اس سلسلے میں مختصر وضاحت پیش کی جاتی ہے۔
انسان جواب دہ ہے یا حقوق طلب
اس بات کے علاوہ کہ انسان خودفطری طور پر اس بات کو محسو س کرتاہے کہ وہ جانوروں کی طرح آزادنہیںہے کہ بغیر ذمہ داری کے جیسے چاہے ویسے زندگی بسر کرے ،مختلف ادیان بھی اس بات پر تاکید کرتے ہیںشاید آپ نے سنا ہوگا مشہور فلسفی ''اما نوئل کانٹ''کہتا ہے کہ دنیا میں دو چیزوں نے مجھکو بیحدمتأثر کیا ہے اور میرے لئے تعجب اور حیرانی کا باعث ہیں ایک آسمان میں ستاروںکا ہونا دوسرے انسان کے اندر اسکی فطرت کی آواز، اور فطرت بہت ہی خوبصورت آواز ہے جو انسان کے اندر موجود ہے بہر حال انسان اپنی اس فطرت اوّلیہ کے باعث کم و بیش اس بات کا احساس کرتا ہے کہ ایک طرح کی ذمہ داری اسکے اوپر ہے البتہ اس فطری احساس کا واضح اور ثابت ہونا یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کواس وقت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔
انسان فطرتاً جواب دہ اور ذمہ دارہے اس نظریہ کے مقابل ایک دوسرا قدیمی نظریہ جو پایا جاتا ہے اور آخری چند برسوں میں اسے خاص رونق وشہرت ملی ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنے حقوق حاصل کرنے اور لینے کے لئے جہان ،طبیعت ،خدااورحکومت سے کوشش کرنی چا ہئیے یہ فکر پرانی ہو چکی ہے کہ انسان ذمہ دار اورمکلّف ہے یہ گذرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیںاب وہ زمانہ ختم ہو چکا ہے کہ انسان کو سکھایا جائے کہ وہ بندہ ہے اور خداا اسکا مولا ہے بلکہ اب وہ زمانہ ہے کہ انسان ہی آقامولا ہے آج وہ دور نہیں رہاکہ انسان تکلیف اور ذ مہ داری کے پیچھے دوڑے بلکہ زمانے نے اسکے جن حقوق کو بھلا دیا یا ضا ئع کر دیا ہے ان کے لیٔے کوشش کرے ۔
بہرحال اس دوسرے نظریہ کے برخلاف، جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے عقل ووجدان اور انسانی فطرت گواہ ہیں کہ انسان ذمہ دار ہے اور ذمہ داریاں اسکو گھیر ے ہوے ہیں اور انسان ذمہ داریوں کا جواب د ینے والاہے تمام ادیان بھی اس بات پر اتّفاق رکھتے ہیں، قرآن کریم کی اکثر آیات انسان کے ذمہ دار ہونے کو بتاتی ہیںقرآن مجیدمیں خدا فرماتا ہے : '' فوربّک لنسئلنّھم اجمعین عمّا کانوا یعملون'' (١)تمہارے خدا کی قسم جوکچھ وہ انجام دیتے ہیں اسکے بارے میں سوال کیا جائے گا ''پھر ارشاد ہورہا ہے: '' ولتسئلنّ عماّتعملون '' (٢)یعنی تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو اس کے بارے میں ضرور ضرور سوال ہوگا ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے: ''انّ السمع والبصر و الفو اد کل اولٰیک کان عنہ مسئولا''(٣)یعنی آنکھ کان اور دل سب کے بارے میں سوال ہو گا ۔
..............
(١) سورہ حجر : آیہ ٩٢و ٩٣۔
(٢)سورہ نحل : آیہ ٩٣۔
(٣)سورہ اسرا :آیہ ٣٦
اور بندوں سے سوال کے بارے میں دوسری جگہ اسی قرآن میںارشاد فرماتا ہے: ''وقفوہم انہم مسئولون''(١) ان لوگوں کو روکو ان سے سوال کرناہے ایک جگہ اور قرآن میں فرماتا ہے : ''وکان عھداللہ مسئولا '' (٢)اور خدا کا عہدو پیمان ہمیشہ قابل سوال ہے''ایک جگہ اور فرماتا ہے'' ثم لتسئلنّ یو مئذٍ عن النعیم''(٣) اس دن (قیامت کے دن ) خدا کی نعمت کے بارے میں سوال ہوگا '' ۔
..............
(١)سورہ صافات : آیہ ٢٤۔
.(٢)سورہ احزاب : آیہ ١٥۔
(٣)سورہ تکاثر : آیہ ٦۔
طاقت اور ذمہ داری کا توازن
انسان اپنے اوپر ذمہ داری رکھتا ہے اس اصل میں کویٔ بحث نہیں ہے لیکن جس نکتہ کی طرف توّجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ ذمہ داری ہر دور میں سبھی لوگوں پر برابر نہیں ہے بلکہ مختلف وجوہ کی بنا پرہر ایک پر علیحدہ طریقے سے عائدہوتی ہے اور سب پر الگ الگ طرح سے ہے ۔
ایک وجہ جو ایک شخص کے لیٔے ذمہ داری کو دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ یہی طاقت و قوّت ہے جو ہر ایک میں الگ الگ پائی جاتی ہے یہ وہی قاعدہ(طاقت کے مطابق ذمہ داری) ہے جسکی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا، چونکہ لوگوں کی طاقت و قوّت، انکی ذہنی استعداد، انکی جسمانی اور روحانی طاقت نیز انکا اجتماعی مقام وغیرہ ایک جیسا نہیں ہے لہٰذا ان افراد کی ذمہ داری بھی ایک جیسی نہیں ہے ،قرآن کریم میںارشاد ہوتا ہے : ''لا یکلّف اللہ نفساً الاّ وسعھا ''(١) یعنی خدا کسی کو قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کام جو صدر یا وزیر اعظم اپنے منصب و مقام کے سبب انجام دے سکتا ہے وہ ایک معمولی عہدہ پر رہنے والا انجام نہیں دے سکتا اسی اعتبار سے ان لوگوں کی ذمہ داری بھی جدا جدا ہے اور سب کی ذ مہ داری ایک جیسی نہیں ہو سکتی ۔
..............
(١) سورہ بقرہ :آیہ ٢٨٦۔
ایک دوسری وجہ جو کہ ذمہ داری کے حوالے سے کمی یا زیادتی کا سبب بنتی ہے وہ ان خطرات کا شدید یا ضعیف ہونا ہے جو کہ ایک شخص یا پوری قوم کو در پیش ہوتا ہے جس قدر خطرات شدید ہونگے اسی اعتبار سے ذمہ داری بھی سخت ہوگی اگر ماحول پوری طرح سے پرامن ہے اور ساری چیزیں کنٹرول میں ہیں تو رات کے وقت بھی آپ سکون و آرام سے سوسکیںگے لیکن اگر قوم ومعاشرے کے اندر نا امنی پائی جاتی ہے اسکے محافظ اورچوکیدار کمزورہیںچور اوراوباش کا خطرہ زیادہ ہے توگھر،مال و اسباب،بیوی بچوّں کی حفاظت کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری میں اضافہ ہو جائے گااگر یہ بات عام ہو جائے کہ بازار میں زہریلی غذا ئیںپائی جاتی ہیں تو انسان اس سے بچنے کی تدابیر کے بارے میں غور و فکر کرے گا اور ایک خاص ذمہ داری کا احساس کرے گا ۔بہر حال خطرہ جتنا زیادہ بڑا ہو گا اتنا ہی انسان کے اندرذمہ داری کا احساس زیادہ ہوگا اور وہ سوچے گا کہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے جسکی وجہ سے وہ خطرات سے دور رہ سکے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ قاعدہ مقام اثبات سے مربوط ہے یعنی جب ہم خطرہ کو لمس اور محسوس کریںیا احتمال ہوکہ خطرہ موجود ہے یا خطرہ کا امکان پایاجارہاہو یعنی خطرہ کا ہونا کسی بھی طرح ہمارے لیٔے ثابت ہو جائے، لیکن کبھی کبھی واقعاً اور حقیقتاً خطرہ موجود رہتا ہے مگر چونکہ ہم اس سے ناواقف ہیں یا خطرہ ہمارے لیٔے ثابت ہی نہیں ہوتا لہٰذا اس سے بچنے کی تدابیر نہیں کرتے چاہے یہ خطرہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جب ہم کو اطّلا ع ہی نہیںہے تو اس سے نمٹنے کے لئے کچھ بھی نہیںکرینگے لہٰذا پہلے خطرہ کااحساس کریں پھر اسکے بعد اپنی ذمہ داریوں کو اس کے مقابلے میں درک کریں۔
حوزئہ علمیہ ا و ریونیورسٹی کے اساتذہ کی ذمہ داریاں
بہر حا ل جو کچھ اس تقریر میں آپ لوگوں سے مربوط ہے وہ یہ کہ مختلف لحاظ سے دوسروں کی بہ نسبت آپ لوگوں کی ذمہ داریاںسنگین اور زیادہ ہیں۔ جن میں ایک وجہ یہ ہے کہ خدا وندعالم نے آپ کو ذاتی قوّت و استعداد عنایت کی ہے اگر یہ عنایت نہ ہوتی توآپ یونیورسٹی کے استاد نہ ہوتے یہی ہوش اور علمی صلاحیت نیزاعلیٰ تحقیق و تعلیم جو آپ کے پاس ہے اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آپ کی صلاحیت دوسرے لوگوں سے زیادہ ہے ۔
دوسرے یہ کہ اجتماعی حیثیت کی وجہ سے جو اثر نوجوان افراد اور طالب علموں پر آپ ڈال سکتے ہیں اسکی وجہ سے آپ کی ذمہ داری زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے کہ معمولی افراد حتیّٰ ادارے اور وزارتی امور کے ذمہ دار بھی نو جوانوں پروہ اثر نہیں ڈال سکتے جو آپ لوگوں کی ذات سے ممکن ہے آپ ہی حضرات نوجوانوں کی تربیت اور انکی فکروںکو پختہ کرکے در حقیقت ملک کومضبوط بناتے ہیںاور آئندہ کی تاریخ رقم کرتے ہیںیہی وہ نوجوان ہیں جو بہت جلد ملک کے عظیم عہدہ پر فائزہونگے رہبر سے لیکرصدر یا پارلیمانی امور کے ممبران اور دوسرے عہدوں پر متمکّن ہونے والے افراد سب کے سب اسی حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی کے جوانوں میںسے ہونگے اب استاد چاہے یونیورسٹی کا ہو یا حوزئہ علمیہ کا اس کی ذمہ داری اس لحاظ سے عظیم اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سنگین ہے تیسری بات جو ہماری اور آپ کی ذمہ داریوںکے زیادہ سنگین ہونے کا سبب ہے وہ درحقیقت زمانے کے خاص حالات کے تحت ہے اس وقت ہم ایسے ماحول اور شرایٔط میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمن کا خطرہ خاص طور پر آداب و رسوم نیزتہذیب وتمدّن کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے اور ہم دشمن کے حملہ اور اسکے نفوذ کو اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں۔کل تک جو کہہ رہے تھے کہ یہ ایک کلچر اور تہذیب کا دوسرے کلچر اور تہذیب کے ساتھ معاملہ اور تبادلہ ہے اور اسے سازش کہنا ایک وہم ہے۔میں یہ نہیں سمجھتا کہ جو لوگ تھوڑی سی بھی عقل و فکر رکھتے ہیں یا ان کے اندر تھوڑی سی بھی سوجھ،بوجھ موجود ہے ان پر یہ حقیقت پوشیدہ ہوگی تہذیب اور کلچر کا خطرہ اس معاشرہ میں، خاص طور پر نوجوانوں کے لیٔے بہت خطرناک ہے اگر ہم نے دیر کی اور دشمن کے نفوذ اورانکے اثرات کو نہیں روکا تو بہت جلد ہم اس بات کا مشاہدہ کرینگے کہ ہماری تہذیب اور ہماراکلچربالکل پوری طرح سے بدل چکا ہوگا آجکل دشمن کے ہاتھ میں نئے الکٹرانک وسائل، سٹلائٹ ،اینٹرنیٹ اور دوسرے امکانات پہلے سے زیادہ منظّم طریقے سے پائے جاتے ہیںاور دشمن اپنی کوشش اورفعالیت کو روز بروز بڑھا رہا ہے اور بہت تیزی سے کہ جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا یکے بعد دیگرے تہذیب و تمدّن کے قلعے مسمار کئے جا رہا ہے۔
آ ج کی دنیا میںتہذیبی اور اخلاقی انحطاط
آج دنیا میں اخلاقی اور تہذیبی آلودگی اور پستی کا عالم یہ ہے کہ مغربی ممالک کے افراد بھی اس سے تنگ آگئے ہیں اور وہ لوگ خود اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں یقینا آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہونگے یہاں صرف ایک مورد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے(جو ہزاروں میں ایک ہے) ۔
قرآن کریم میں ایک واقعہ ذکر ہوا ہے جسکی اس نے سختی سے مذمّت کی ہے اور وہ قوم لوط کا واقعہ ہے۔ قوم لوط کے لوگ اس برے فعل کو انجام دیتے تھے اور وہ لوگ اس بری بیماری میں مبتلا تھے وہ لوگ اپنی شہوانی خواہشات کی آگ کو اپنی ہی جنس کے افراد سے بجھاتے تھے جبکہ جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے صنف مخالف موجود تھیںانکے اس عمل کو بہت ہی بری صفت قرار دیا ہے۔
خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے : ''ا نّکم لتاتون الفاحشةما سبقکم بھا من احدمن العالمین''(١)یعنی تم لوگ ایسا برا فعل انجام دیتے ہوکہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے کسی نے اس فعل کوانجام نہیں دیا۔ آخر کاروہ لوگ اسی برے کام پر مصررہے اور ان لوگوں نے حضرت لوط کے موعظہ اور نصیحت پر کوئی توّجہ نہیں دی پھر خدا وندعالم نے ان پر عذاب نازل کیا اوران لوگوں کوصفحہ ہستی سے مٹادیا ۔یہ قصّہ ایک
..............
(١)سورہ عنکبوت : آیہ ٢٨۔
چھوٹے شہرمیں وہ بھی دنیا کے ایک کنارے بسنے والے ہزاروں سال پہلے چندافرادسے متعلّق تھا لیکن آج آپ دنیامیںدیکھیںکہ کیاہورہاہے خودمغربی ممالک کے افرادجو عندیہ اوراشارہ دے رہے ہیں اسی اندازے کے مطابق دنیا کے تقریباًپچاس فیصدی سے زیادہ بڑے بڑے لوگ اس بری عادت میں مبتلا ہیں حتّیٰ بات یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ لوگ ہم جنسوں کی حمایت میں کھلے عام پر سڑکوں پرآکر مظاہرہ کرتے ہیں اور ریلی نکالتے ہیںبعض ممالک میںپارلیمانی امورکے ممبران نے سرکاری طورپراس قانون کو منظور کروا یاہے اورقانون بنا کراسکوجائزقراردیاہے آج دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہم جنسوں نے تنظیم اورکلب کے ساتھ اپنے لئے مخصوص جگہیں بنا لی ہیں اسکے علاوہ بعض رسالے اورکتاب خانے بھی انھیں سے مخصوص ہیں ۔
اگرمیں اپنی آنکھ سے نہ دیکھتا تو یقین نہ کرتا ایک بار جب میں نے امریکہ کے شہرفیلاڈیفنا کاسفرکیا اورموقع ملنے پربعض شہروں کودیکھنے گیا انھیں میں سے ایک واشنگٹن شہربھی تھا ایک دوست ]جوکہ آجکل ایران میں نائب وزیر ہیں[انکے ساتھ گاڑی پرسوارہوکرجا رہا تھا راستے میں ایک چوراہے پر بہت بڑا کتب خانہ نظرآیا میں نے اپنے دوست سے کہا کہ بہترہے اس لائبریری کودیکھتے ہوئے چلیں انھوں نے جواب دیایہاں اترنا بہترنہیں ہے میں نے اسکا سبب پوچھا توکہنے لگے کہ یہ لائبریری ہم جنسوں کی ہے اگرہم یہاں اتر گئے توہمیںبرائی سے متّہم کیا جائے گا۔ میں نے اسی چوراہے پربہت سے مردوں کوعورتوں کا مختصر لباس پہنے ہوئے دیکھا جواپنے کوسجا سنوارکر دوسروں کے لئے پیش کررہے تھے ۔یہ آج دنیا کی حالت ہے کس قدربے شرمی اورذلّت کا کام ہے !
اب آپ خودہی تصوّرکریں ذرائع ابلاغ اورانٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ کتنی جلدی اورآسانی کے ساتھ اخلاق کوخراب کرنے والے ان جراثیم کوپھیلایا جا سکتا ہے ایسے ہی نہیں مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم اورنفسیات سے واقفیت رکھنے والے افرادنے خطرے کا اعلان کیا ہے انھوںنے بچوّں کے غیراخلاقی باتوںسے آگاہ ہونے اورانٹرنیٹ وغیرہ سے ہیجان انگیز تصاویرکے نہ دیکھنے پرسختی سے تاکیدکی ہے آج ہالیوڈجدیدقسم کے تکنیکی اورفنیّ وسائل سے ایسی جذّاب اورپرکشش فلمیں بنا کرساری دنیا میں نشرکررہا ہے جس میں اخلاق کے خلاف بہت ہی غلط تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اے کاش یہ سلسلہ یہیں پرختم ہوجاتا مگرایسا نہیںہے اس سے بڑا بھی خطرہ پایا جا رہا ہے اوروہ فکری انحراف کا خطرہ ہے جس طرح اخلاقی برائیاںآج کی دنیا میں بے نظیر ہیں ویسے ہی فکری انحراف بھی آج کل روزبروزبڑھتا جا رہا ہے کہ اب تک کسی شیطان کے ذریعہ یہ کام انجام نہیں پایا آج تک انسانی عقیدے کو خراب کرنے کا ذریعہ ابلیس تھا لیکن اگروہ بھی بعض انسان نما شیطانوںکی حرکت اوران کے کرتوت کو ملاحظہ کرلے تودانتوں تلے انگلی دبالے انھوں نے ایسا ماحول بنا لیا ہے اور وہ ایسا چھا گئے ہیں کہ اگر کوئی کہتا ہے میںفلاں چیزپریقین رکھتا ہوںتویہ کہتے ہیں کہ عجب بیوقوف اورناسمجھ انسان ہے! ہاں آجکل کے روشن فکروں کی اصطلاح میںانسان کو فخراسی بات پر ہے کہ وہ یہ کہے ہم کو تمام چیزوں میں شک و شبہ ہے اور کوئی بھی چیز دنیا میں یقینی اور ثابت نہیںہے اورنہ کوئی چیزیقین کرنے کے قابل ہے۔
|