نام کتاب : دقیق شبھات ٹھوس جوابات( جلد اوّل)
مؤلف : آیةاللہ مصباح یزدی
تدوین : محمد مہدی نادری قمّی
مترجم : سید عترت حسین رضوی
مصحح : مرغوب عالم
نظر ثانی : ہادی حسن فیضی
پیشکش :معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ
کمپوزو گرافک : رضا عباس خان
ناشر : مجمع جہانی اہل بیت (ع)
طبع اول : ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ ء
تعداد : ٣٠٠٠
مطبع : لیلا
ISBN:964-529-108-9
www.ahl-ul-bayt.org
Info@ahl-ul-bayt.org
حرف اول
جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔
اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی ۖ غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔
اگرچہ رسول اسلام ۖ کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔
(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتۖو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔
ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علام آیة اللہ جناب محمد تقی مصباح یزدی مدظلہ کی گرانقدر کتاب '' کاوشھا و چالشھا'' کو جناب مولاناسید عترت حسین رضوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام
مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت

پیش گفتار
حوزئہ علمیہ اوریونیورسٹی کے درمیان ارتباط ایک مبارک شئے ہے جسکے نتیجے بہت ہی اچھے سامنے آرہے ہیں اسکے بر خلاف معاشرہ پراثرانداز ہونے والے ان دو رکنوں میں جدائی بہت ہی بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے ۔اس طرف توّجہ دینے اور اس نیک ارتباط کو بر قرار رکھنے کے لئے انقلاب اسلامی سے پہلے حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی دونوں طرف کے بہت سے لوگ اس کام میں فعّال تھے اور اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور اسکی اسٹراٹجی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ یہ وسیع اور مستحکم رابطہ برقرار رہے ۔
مختلف بے نظیر شخصیات جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہید مفتّح؛ڈاکٹر باہنر اور دوسرے دور اندیش عالموں کا یونیورسٹی میں آنا انکی روشن بینی اور تیز نظری کی علامت اوراس ارتباط کو بڑھانے میںاہم قدم تھا،یونیورسٹیوں کے ایسے متعدداساتید کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن لوگوں نے اس ارتباط کی ضرورت اور اہمیت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس ضمن میںبہت کوشش کی ہے یہ کوششیں انقلاب اسلامی کی کامیابی اوریونیورسٹی اور حوزہ کے درمیان اتحادکے نعرے کے بعدجوکہ انقلاب اسلامی کے معمار بزرگ حضرت امام خمینی کی طرف سے دیا گیا تھا بہت وسیع ہو گئیں، اگر چہ اس وقت بھی اس راستے میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیںنیز منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے راستے میں بہت سے مشکلات پائے جاتے ہیںلہٰذا پہلے ان کو دور کیا جائے لیکن پھر بھی چشم دید تجربے اس بات کو بتاتے ہیں کہ ان دونوں صنفوںیعنی حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان نزدیکی اور رابطہ جتنا زیادہ ہوگا]کیونکہ یہ دونوں محکم قلعے ہیں[ اور جس قدر دونوں صنف کے افراد کے خیال اور تفکّر نتیجے تک پہونچانے والے ہونگے وہ قوم کے لئے مفید ہوگا اور معاشرہ انکے فوائدسے مستفید ہوگا اسکے بر خلاف ان کے درمیان جدائی خود انکے اور معاشرہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہوگی ۔
منجملہ ان لوگوں کے جنھوںنے برسوںپہلے سے اس رابطہ کی ضرورت اور اہمیت پر بہت زور دیا ہے مفکّر یگانہ، فقیہ بزرگ ،حضرت آیت.. مصباح یزدی دام ظّلہ ہیں، ثقافتی انقلاب کے سلسلے میں جو کہ انقلاب کے شروع ہی میں امام خمینی کے حکم سے انجام پایا تھا خود آقائے مصباح یزدی امام خمینی کے خاص معتمدین میں سے تھے اور اس تحریک اورپروگرام کو بنانے نیز اسے آگے بڑھانے کے لئے امام کی طرف سے آپ معےّن تھے ،یہ خود اس بات کی گواہی ہے کہ جناب استاد مصباح یزدی مختلف سالوں سے اس ارتباط پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔اسی رابطہ کے ذیل میں ایک سال یا کچھ زیادہ وقت سے یونیورسٹی کے بعض متعہّد اور متفکّراساتیدنے ایک شعبہ اسی مقصدسے قائم کیا ہے منجملہ اور کاموں کے ایک ماہانہ نششت بھی آقائے مصباح یزدی کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے ان نششتوں میں اساتید جوعنوان پیش کرتے ہیں، استادمحترم انھیں عنوان پربحث اورگفتگوکرتے ہیںنششتوں کو منعقد کرنے والی تنظیم]شعبہ اساتید دانشگاہ علم وصنعت[کی یہ خوا ہش تھی کہ چونکہ یہ تقریریں علمی لحاظ سے بہت عمدہ ہیں نیز اس وقت معاشرہ کو اس کی ضرورت بھی ہے لہٰذا ن کو با الترتیب چھاپ کر لوگوں تک پہونچایا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس وقت محمد مہدی نادری قمی ( جوکہ موسّسہ آموزشی اورپژوہشی امام خمینی کے رکن اور جناب استاد کے شاگرد بھی ہیں) کی کوششوں سے نو(٩)تقریروں کو کتاب حاضر کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے امّیدہے کہ آئندہ بھی اس سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے ملک کے علمی ،ادبی ،اور ،وہ تمام افراد جو علم سے شغف رکھنے والے ہیں انکی خدمت میں یہ مطالب پیش کرتے رہیںگے۔

انتشارات موسّسئہ پزوہشی امام خمینی