110 سوال اور جواب
 
۱۰۰۔ ذوالقرنین کون تھے؟
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: < وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ قُلْ سَاٴَتْلُوا عَلَیْکُمْ مِنْہُ ذِکْرًا >(1)
” اور اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں عنقریب تمہارے سامنے ان کا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا“۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟
جس ذوالقرنین کا قرآن مجید میں ذکر ہے،تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے،تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں سے یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے،اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے،اس سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں، ان میں سے یہ تین زیادہ اہم شمار ہوتے ہیں:
پہلا نظریہ :بعض کا خیال ہے کہ”ا سکندر مقدونی“ ہی ذوالقرنین ہے۔
لہٰذا وہ اسے اسکندر ذوالقرنین کے نام سے پکارتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس نے اپنے باپ کی موت کے بعد روم،مغرب اور مصر پر تسلط حاصل کیا، اس نے اسکندریہ شہر بنایا، پھر شام اور
بیت المقدس پر اقتدار قائم کیا،وہاں سے ارمنستان گیا،عراق و ایران کو فتح کیا،پھر ہندوستان اور چین کا قصد کیا وہاں سے خراسان پلٹ آیا، اس نے بہت سے نئے شہروں کی بنیاد رکھی،پھر وہ عراق آگیا،اس کے بعد وہ شہر” زور“ میں بیمار پڑا اور مرگیا، بعض نے کہا ہے کہ اس کی عمر چھتیس سال سے زیادہ نہ تھی، اس کا جسد خاکی اسکندریہ لے جاکر دفن کردیا گیا۔(2)
دوسرا نظریہ:موٴرخین میں سے بعض کا نظریہ ہے کہ ذوالقرنین یمن کاایک بادشاہ تھا۔
اصمعی نے اپنی تاریخ” عرب قبل از اسلام“ میں،ابن ہشام نے اپنی مشہور تاریخ ”سیرة“ میں اورا بوریحان بیرونی نے”الآثار الباقیہ“میں یہی نظریہ پیش کیا ہے۔
یہاں تک کہ یمن کی ایک قوم”حمیری“کے شعرا اور زمانہٴ جاہلیت کے بعض شعرا کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ ذوالقرنین ہم میں سے ہیں۔
تیسرا نظریہ: جو جدید ترین نظریہ ہے جس کو ہندوستان کے مشہور عالم ابوالکلام آزاد نے پیش کیا ہے،ابوالکلام آزاد کسی دور میں ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے،اس سلسلے میں انہوں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔(3)
اس نظریہ کے مطابق ذوالقرنین،”کورش کبیر“ ”بادشاہ ہخامنشی “ہے۔(4)
لیکن چونکہ پہلے اور دوسرے نظریہ کے لئے کوئی خاص تاریخی منبع نہیں ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم نے ذو القرنین کے جو صفات بیان کئے ہیں ان کا حامل سکندر مقدونی ہے نہ کوئی بادشاہِ یمن۔
اس کے علاوہ اسکندر مقدونی نے کوئی معروف دیوار بھی نہیں بنائی ہے، لیکن رہی یمن کی ”دیوارِ ماٴرب“ تو اس میں ان صفات میں سے ایک بھی نہیں ہے جو قرآن کی ذکر کردہ دیوار میں ہیں، جبکہ ”دیوار ماٴرب“ عام مصالحہ سے بنائی گئی ہے اور اس کی تعمیر کا مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا اور سیلاب سے بچنا تھا، اس کی وضاحت خود قرآن میں سورہ سبا میں بیان ہوئی ہے۔
لہٰذا ہم تیسرے نظریہ پر بحث کرتے ہیں یہاں ہم چند امور کی طرف مزید توجہ دینا ضروری سمجھتے ہیں :
الف: سب سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ذوالقرنین کو یہ نام کیوں دیا گیا؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ”ذوالقرنین“ کے معنی ہیں ”دوسینگوں والا“، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب تک پہنچے جسے عرب”قرنی الشمس“(سورج کے دوسینگ)سے تعبیر کرتے ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ انہو ں نے دوقرن زندگی گزاری یا حکومت کی ، اورپھر یہ کہ قرن کی مقدار کتنی ہے،اس میں بھی مختلف نظریات ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ ان کے سر کے دونوں طرف ایک خاص قسم کا ابھار تھا ا س وجہ سے ذوالقرنین مشہور ہوگئے ۔
بعض کا یہ نظریہ ہے کہ ان کا خاص تاج دوشاخوں والا تھا۔
ب۔ قرآن مجیدسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے خدا وند عالم نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دئے تھے،انہوں نے تین اہم لشکر کشی کی، پہلے مغرب کی طرف،پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف گئے جہاں ایک کوہستانی درّہ موجود تھا، ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے۔
وہ ایک مرد مومن،موحد اور مہربان شخص تھے، وہ عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے، اسی بنا پر خدا وند عالم کا خاص لطف ان کے شامل حال تھا۔
وہ نیک لو گوں کے دوست او رظالموں کے دشمن تھے،انہیں دنیا کے مال و دولت سے کوئی لگاؤ نہ تھا، وہ اللہ پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روز جزا پر بھی۔ انہو ں نے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی ہے،یہ دیوار انہوں نے اینٹ اور پتھر کے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائی(اور اگر دوسرے مصالحے بھی استعمال ہوئے ہوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی)، اس دیوار کے بنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم دیدہ لوگوں کی یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا۔
وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشہور تھا،لہٰذا قریش اور یہودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ (ص) سے سوال کیا تھا، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: <وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ> ” اور اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، حضرت رسول اللہ (ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ہیں جن میں بیان ہواہے کہ: ”وہ نبی نہیں تھے بلکہ اللہ کے ایک صالح بندے تھے“۔(5)
ج۔تیسرا نظریہ (ذو القرنین کورش ہی کو کہتے ہیں) اس کی دو بنیاد ہیں:
۱۔اس مطلب کے بارے میں سوال کرنے والے یہودی تھے، یا یہودیوں کے کہنے پر قریش نے سوال کیا تھا، جیسا کہ آیات کی شان نزول کے بارے میں منقول روایات سے ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں یہودی کتابوں کو دیکھنا چاہئے۔ یہودیوں کی مشہور کتابوں میں سے کتاب ”دانیال“ کی آٹھویں فصل میں تحریر ہے:
”بل شصّر“ کی سلطنت کے سال مجھے دانیال کو خواب میںدکھایا گیا، جو خواب مجھے دکھایا گیا اس کے بعد اور خواب میں ،میں نے دیکھا کہ میں ملک ”عیلام “ کے ”قصر شوشان“ میں ہوں، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ”دریائے ولادی“ کے پاس ہوں،میں نے آنکھیں اٹھاکر دیکھا کہ ایک مینڈھا دریا کے کنارے کھڑا ہے، اس کے دو لمبے سینگ تھے، اور اس مینڈھے کومیں نے مغرب، مشرق اور جنوب کی سمت سینگ مارتے ہوئے دیکھا، کوئی جانور اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا تھا اور کوئی اس کے ہاتھ سے بچانے والا نہ تھا وہ اپنی رائے پر ہی عمل کرتا تھا اور وہ بڑا ہوتا جاتا تھا۔(6)
اس کے بعد اسی کتاب میں دانیال کے بارے میں نقل ہوا ہے جبرئیل اس پر ظاہر ہوئے اور اس کے خواب کی تعبیر یوں بیان کی:
”تم نے دو شاخوں والا جو مینڈھا دیکھا ہے وہ مدائن اور فارس (یا ماد اور فارس) کے بادشاہ ہیں۔
یہودیوں نے دانیال کے خواب کو بشارت قرار دیا وہ سمجھے کہ ماد و فارس کے کسی بادشاہ کے قیام اور بابل کے حکمرانوں میں ان کی کامیابی سے یہودیوں کی غلامی اور قید کا دور ختم ہوجائے گا، اور وہ اہل بابل کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے۔
زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ ”کورش“ نے ایران کی حکومت پر غلبہ حاصل کرلیا اس نے ماد اور فارس کو ایک ملک کرکے دونوں کو ایک عظیم سلطنت بنا دیا، جیسے دانیال کے خواب میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے سینگ مغرب، مشرق اور جنوب کی طرف مارے گا، کورش نے تینوں سمتوں میں عظیم فتوحات حاصل کیں۔
اس نے یہودیوں کو آزاد کیا، اور فلسطین لوٹنے کی اجازت دی۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ توریت کی کتاب اشعیاء فصل ۴۴، نمبر ۲۸ میں بیان ہوا ہے: ”اس وقت خاص طور سے کورش کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ میرا چرواہا ہے اس نےمیری مشیت کو پورا کیا ہے اور شیلم سے کہے گا تو تعمیر ہوجائے گا۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ توریت کے بعض الفاظ میں ”کورش“ کے بارے میں ہے کہ عقابِ مشرق اور مردِ تدبیر جو بڑی دور سے بلایا جائے گا۔ (کتاب اشعیاء فصل ۴۶، نمبر ۱۱)
دوسری بنیاد یہ ہے کہ انیسویں عیسوی صدی میں دریائے” مرغاب “کے کنارے تالاب کے قریبکورش کا مجسمہ دریافت ہوا، یہ ایک انسان کے قد وقامت کے برابر ہے،اس میں کورش کے عقاب کی طرح دو پَر بنائے گئے ہیں اور اس کے سرپر ایک تاج ہے، اس میں مینڈھے کے سینگوں کی طرح دو سینگ نظر آتے ہیں۔
یہ مجسمہ بہت قیمتی اور قدیم فن سنگ تراشی کا نمونہ ہے، اس نے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے جرمنی ماہرین کی ایک جماعت نے صرف اسے دیکھنے کے لئے ایران کا سفر کیا۔
توریت کی تحریرکو جب اس مجسمہ کی تفصیلات کے ساتھ ملایا گیا تو ابو الکلام آزاد کو مزید یقین ہوا کہ کورش ذو القرنین (دو سینگوں والا) کہنے کی وجہ کیا ہے، اس طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ کورش کے مجسمہ میں عقاب کے دو پر کیوں لگائے گئے ہیں، اس سے دانشوروں کے ایک گروہ کے لئے ذو القرنین کی تاریخی شخصیت مکمل طور پر واضح ہوگئی۔
اس کے علاوہ اس نظریہ کی تائید کے لئے کورش کے وہ اخلاقی صفات ہیں جو تاریخ میں لکھے ہوئے ہیں:
یونانی مورخ ہر ودوٹ لکھتا ہے: کورش نے حکم جاری کیا کہ اس کے سپاہی جنگ کرنے والوں کے علاوہ کسی کے سامنے تلوار نہ نکالیں اور اگر دشمن کا سپاہی اپنا نیزہ خم کردے تو اسے قتل نہ کریں، کورش کے لشکر نے اس کے حکم کی اطاعت کی ، اس طرح سے ملت کے عام لوگوں کو مصائب جنگ کا احساس بھی نہ ہوا۔
ہرو دوٹ کو رش کے بارے میں لکھتا ہے: کورش کریم، سخی، بہت نرم دل اور مہربان بادشاہ تھا، اسے دوسرے بادشاہوں کی طرح مال جمع کرنے کا لالچ نہ تھا، بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ کرم و بخشش کا شوق تھا، وہ ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیتا تھا اور جس چیز سے زیادہ خیر اور بھلائی ہوتی تھی اسے پسند کرتا تھا۔
اسی طرح ایک دوسرا مورخ ”ذی نوفن“ لکھتا ہے: کورش عاقل اور مہربان بادشاہ تھا، اس میں بادشاہوں کی عظمت اور حکماء کے فضائل ایک ساتھ جمع تھے، وہ بلند ہمت تھا اس کا جود و کرم زیادہ تھا اس کا شعار انسانیت کی خدمت تھا ا ور عدالت اس کی عادت تھی وہ تکبر کے بجائے انکساری سے کام لے لیتا تھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ کورش کی اس قدر تعریف و توصیف کرنے والے مورخین غیر لوگ ہیں کورش کی قوم اور وطن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے جو کہ اہل یونان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یونان کے لوگ کورش کی طرف دوستی اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے کیونکہ کورش نے ”لیدیا“ کو فتح کرکے اہل یونان کو بہت بڑی شکست دی تھی۔
اس نظریہ کے طرفدار کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ذو القرنین کے بیان ہونے والے اوصاف کورش کے اوصاف سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اس تمام باتوں کے علاوہ کورش نے مشرق، مغرب اور شمال کی طرف سفر بھی کئے ہیں اس کے تمام سفر کا حال (اور سفر نامہ) اس کی تاریخ میں تفصیلی طور پر ذکر ہوا ہے، یہ قرآن میں ذکر کئے گئے ذو القرنین کے تینوں سفر سے مطابقت رکھتے ہیں۔
کورش نے پہلی لشکر کشی ”لیدیا“ پر کی ،یہ ایشائے صغیر کا شمالی حصہ ہے یہ ملک کورش کے مرکز حکومت سے مغرب کی سمت میں تھا۔
جس وقت آپ ایشائے صغیر کے مغربی ساحل کے نقشہ کو سامنے رکھیں گے تو دیکھیں گے کہ ساحل کے زیادہ تر حصے چھوٹی چھوٹی خلیجوں میں بٹے ہوتے ہیں، خصوصاً ”ازمیر“ کے قریب جہاں خلیج ایک چشمہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔
قرآن کا بیان ہے کہ ذو القرنین نے اپنے مغرب کے سفر میں محسوس کیا کہ جیسے سورج کیچڑ آلود چشمہ میں ڈوب رہا ہے، یہ وہی منظر ہے جو کورش نے غروب آفتاب کے وقت ساحلی خلیجوں میں دیکھا تھا۔
کورش کی دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی جیسا کہ ہرو دوٹ نے کہا ہے کہ کورش کا یہ مشرقی حملہ ”لیدیا“ کی فتح کے بعد ہوا خصوصاً بعض بیابانی وحشی قبائل کی سرکشی نے کورش کو اس حملہ پر مجبور کیا۔
چنانچہ قرآن میں بھی ارشاد ہے:
< حَتَّی إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَہَا تَطْلُعُ عَلَی قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَہُمْ مِنْ دُونِہَا سِتْرًا>(7) ”یہاں تک کہ جب طلوع آفتاب کی منزل تک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک ا یسی قوم پر طلوع کررہا ہے جن کے پاس سورج کی کرنوں سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا“۔
یہ الفاظ کورش کے سفر مشرق کی طرف اشارہ کررہے ہیں جہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع کر رہا ہے جن کے پاس اس کی تپش سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم صحرا نوردتھی اور بیابانوں میں رہتی تھی۔
کورش نے تیسری لشکر کشی شمال کی طرف ”قفقاز“ کے پہاڑوں کی طرف کی یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک درّے میں پہنچا،یہاں کے رہنے والوں نے وحشی اقوام کے حملوں اور غارت گری کو روکنے کی درخواست کی اس پر کورش نے اس تنگ درے میں ایک مضبوط دیوار تعمیر کردی۔ اس درّہ کو آج کل درّہ ”داریال“ کہتے ہیں، موجودہ نقشوں میں یہ ”ولادی کیوکز“ اور ”تفلیس“ کے درمیان دیکھا جاتا ہے وہاں اب تک ایک آہنی دیوار موجود ہے، یہ وہی دیوار ہے جو کورش نے تعمیر کی تھی، قرآن مجید نے ذو القرنین کی دیوار کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ پوری طرح اس دیوار پر منطبق ہوتے ہیں۔
اس تیسرے نظریہ کا خلاصہ یہ تھا جو ہماری نظر میں بہتر ہے۔(8)
یہ صحیح ہے کہ اس نظریہ میں بھی کچھ مبہم چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن عملاً ذو القرنین کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک جتنے نظریات پیش کئے گئے ہیں اسے ان میں سے بہترین کہا جاسکتا ہے۔(9)
________________________________________
(1) سورہٴ کہف ، آیت ۸۳
(2) تفسیر فخر رازی، محل بحث آیت میں اور کامل ابن اثیر ، جلد اول صفحہ ۲۸۷ میں اور بعض دوسرے مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ سب سے پہلے اس نظریہ کو پیش کرنے والے شیخ ابو علی سینا ہیں جنھوں نے اپنی کتاب الشفاء میں اس کا ذکر کیا ہے
(3)المیزان ، جلد ۱۳، صفحہ ۴۱۴
(4)فارسی میں اس کتاب کے ترجمعہ کا نام”ذوالقرنین یا کورش کبیر“ رکھا گیا ہے، اور متعدد معاصر مورخین نے اسی نظریہ کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے
(5)دیکھئے تفسیر نو رالثقلین ، جلد ۳صفحہ ۲۹۴/اور ۲۹۵
(6) کتاب دانیا ل ،فصل ہشتم ،جملہ نمبر ایک سے چار تک
(7) سورہٴ کہف ، آیت ۹۰
(8) اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ”ذو القرنین یا کورش کبیر“ اور ”فرہنگ قصص قرآن“ کی طرف رجوع فرمائیں
(9) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۵۴۲

۱۰۱۔ کیوں بعض ظالم اور گناہگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ہیں اور ان کو سزا نہیں ملتی؟
قرآن مجید کی آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوندعالم گناہوں میں زیادہ آلود نہ ہونے والے گناہگاروں کو خطرہ کی گھنٹی یا ان کے اعمال کے عکس العمل یا ان کے اعمال کی مناسب سزا کے ذریعہ جگا دیتا ہے، اور ان کو راہ راست کی ہدایت فرمادیتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے یہاں ہدایت کی صلاحیت پائی جاتی ہے ، ان پر لطف خدا ہوسکتا ہے، در اصل ان کی سزا یا مشکلات ان کے لئے نعمت حساب ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: <ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ>(1) ” (لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر) فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خداان کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستہ پر آجائیں“۔
لیکن گناہ و معصیت میں غرق ہونے والے باغی اور نافرمانی کی انتہا کو پہچنے والے لوگوں کو خداوندعالم ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ، ان کو مزید موقع دیتا ہے تاکہ وہ گناہوں میں مزید غرق ہوجائیں، اور بڑی سے بڑی سزا کے مستحق بن جائیں، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پیچھے کے تمام پلوں کو توڑ دیا ہے اور پیچھے پلٹنے کا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا، انھوں نے حیا و شرم کے پردوں کو چاک کر ڈالااور ہدایت کی صلاحیت کو بالکل ختم کردیا ہے۔
قرآن مجید کی ایک دوسری آیت اسی معنی کی تائید کرتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: <وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِاٴَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ>(2) ”اورخبردار یہ کفارنہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت وآرام دے رہے رہیں وہ ان کے حق میں بھلائی ہے ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے“۔
اسلام کی شجاع خاتون جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے شام کی ظالم و جابر حکومت کے سامنے ایک بہترین خطبہ دیا جس میں اسی آیہٴ شریفہ سے ظالم و جابر یزید کے سامنے استدلال کیا اور یزید کو ناقابل بازگشت گناہگاروں کا واضح مصداق قرار دیا ،آپ فرماتی ہیں:
”تو آج خوش ہورہا ہے، اور سوچتا ہے کہ گویا دنیا کو ہمارے اوپر تنگ کردیا ہے اور آسمان کے دروازہ ہم پر بند ہوگئے ہیں، اور ہمیں اس دربار کے اسیر کے عنوان سے در بدر پھرایا جارہا ہے، تو سوچتا ہے کہ میرے پاس قدرت ہے، اور خدا کی نظر میں قدر و منزلت ہے، اور خدا کی نظر میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے؟! تو یہ تیرا خیال خام ہے، خدا نے یہ فرصت تجھے اس لئے د ی ہے تاکہ تیری پیٹھ گناہوں کے وزن سے سنگین ہوجائے، اور خدا کی طرف سے درد ناک عذاب تیرا منتظرہے“

ایک سوال کا جواب:
مذکورہ آیت بعض لوگوں کے ذہن میں موجود اس سوال کا جواب بھی دے دیتی ہے کہ کیوں بعض ظالم اور گناہگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ہیں اور ان کو سزا نہیں ملتی؟
قرآن کا فرمان ہے: ان لوگوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی، قانون آفرینش اور آزادی و اختیار کے مطابق ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ تنزل کے آخری مرحلہ تک پہنچ جائیں اور سخت سے سخت سزاؤں کے مستحق ہوجائیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوندعالم اس طرح کے لوگوں کو بہت زیادہ نعمتیں عطا کرتا ہے اور جب وہ خوشی اور غرور کے نشہ میں مادی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہیں تو اچانک سب چیزیں ان سے چھین لیتا ہے، تاکہ اس دنیا میں بھی سخت سے سخت سزا بھگت سکیں، چونکہ اس طرح کی زندگی کا چھن جانا ان لو گوں کے لئے بہت ہی ناگوار ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: <فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاہُمْ بَغْتَةً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ >(3)” پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئے یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش حال ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے“۔
در اصل ایسے لوگ اس درخت کی طرح ہیں جس پر نا معقول طریقہ سے انسان جتنا بھی اوپر جاتا ہے خوش ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس درخت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اچانک طوفان چلتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتا ہے اور اس کی تمام ہڈی پسلیاں چور چور ہوجاتی ہیں۔(4)
________________________________________
(1) سورہٴ روم ، آیت ۴۱
(2) سورہ آل عمران ، آیت ۱۷۸
(3) سورہٴ انعام ، آیت ۴۴/ 4) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۳

۱۰۲۔ ایمان نہ رکھنے والی اقوام کیوں عیش و عشرت میں ہیں؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < وَلَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ>(1) ”اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لےتے تو ہم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“۔
اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایمان اور تقویٰ ،رحمت الٰہی اور برکات کا موجب ہے تو پھر ان قوموں کے پاس بہت زیادہ نعمتیں کیوں پائی جاتی ہیں جن کے پاس ایمان نہیں ہے! ان کی زندگی بہترین ہوتی ہے،اور ان کو پریشانی نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب درج ذیل دو نکات پر توجہ کرنے سے روشن ہوجائے گا:
۱۔یہ تصور کرنا کہ بے ایمان قوم و ملت نعمتوں سے مالا مال ہے؛ ایک غلط فہمی ہے، جو ایک دوسری غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور وہ مال و دولت ہی کو خوش بختی سمجھ لیناہے۔
عام طور پر عوام الناس میں یہی تصور پایا جاتا ہے کہ جس قوم و ملت کے پاس ترقی یافتہ ٹیکنیک ہے یا بہت زیادہ مال و دولت ہے وہی خوش بخت ہے، حالانکہ اگر ان اقوام میں جاکر نزدیک سے دیکھیں تو ان کے یہاں نفسیاتی اور جسمانی بے پناہ درد اور مشکلات پائی جا تی ہیں اور اگر نزدیک سے دیکھیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان میں سے متعدد لوگ دنیا کے سب سے ناچار افراد ہیں، قطع نظر اس بات سے کہ یہی نسبی ترقی ان کی سعی و کوشش، نظم و نسق اور ذمہ داری کے ا حساس جیسے اصول پر عمل کا نتیجہ ہیں، جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں بیان ہوئے ہیں۔
ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ اخباروں میں یہ بات شایع ہوئی کہ امریکہ کے شہر ”نیویورک“ میں (جو مادی لحاظ سے دنیا کا سب سے مالدار اور ترقی یافتہ شہر ہے)اچانک (طولانی مدت کے لئے) بجلی چلی گئی اور ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا:” بہت سے لوگوں نے دکانوں پر حملہ کردیا اور دکانوں کو لوٹ لےا، اس موقع پر پولیس نے تین ہزار لوگوں کو گرفتار کرلیا“۔
یہ بات طے ہے کہ لٹیروں کی تعدادان گرفتار ہونے والوں سے کئی گنا زیادہ ہوگی جو موقع سے فرار نہ کرسکے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے، اور یہ بھی مسلم ہے کہ یہ لٹیرے کوئی تجربہ کار نہیں تھے جس سے انھوں نے ایک پروگرام کے تحت ایسا کیا ہو کیونکہ یہ واقعہ اچانک پیش آیا تھا۔
لہٰذا ہم اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ اور مالدار شہر کے ہزاروں لوگ چند گھنٹوں کے لئے بجلی جانے پر ”لیٹرے“ بن سکتے ہیں، یہ صرف اخلاقی پستی کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس شہر میں اجتماعی نا امنی کس قدر پائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اخباروں میں اس خبر کا بھی اضافہ کیا جو در اصل پہلی خبر کا ہی تتمہ تھا کہ انھیں دنوں ایک مشہور و معروف شخصیت نیویورک کے بہت بڑے ہوٹل میں قیام پذیر تھی، چنانچہ وہ کہتا ہے: بجلی جانے کے سبب ہوٹل کے ہال اور راستوں میں آمد و رفت خطرناک صورت اختیار کر چکی تھی کیونکہ ہوٹل کے ذمہ دار لوگوں نے آمد و رفت سے منع کردیا تھا کہ کوئی بھی اکیلا کمرے سے باہر نہ نکلے، کہیں لٹیروں کا اسیر نہ ہوجائے، لہٰذا مسافروں کی کم و بیش دس دس کے گروپ میں وہ بھی مسلح افراد کے ساتھ آمد و رفت ہوتی تھی اور مسافر اپنے اپنے کمروں میں پہنچائے جاتے تھے ! اس کے بعد یہی شخص کہتا ہے کہ جب تک شدید بھوک نہیں لگتی تھی کوئی بھی باہر نکلنے کی جرائت نہیں کرتا تھا!!
لیکن پسماندہ مشرقی ممالک میں اس طرح بجلی جانے سے اس طرح کی مشکلات پیش نہیں آتیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان ترقی یافتہ اور مالدار ممالک میں امنیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
ان کے علاوہ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ وہاں قتل کرنا پانی پینے کی طرح آسان ہے، اور قتل بہت ہی آسانی سے ہوتے رہتے ہیں، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی کو ساری دنیا بھی بخش دی جائے تاکہ ایسے ماحول میں زندگی کرے تو ایسا شخص دنیا کا سب سے پریشاں حال ہوگا، اور امنیت کی مشکل اس کی مشکلات میں سے ایک ہے۔
اس کے علاوہ اجتماعی طور پر بہت سی مشکلات پائی جاتی ہیں جو خود اپنی جگہ دردناک ہیں، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر مال و دولت کو باعث خوشبختی تصور نہیں کرنا چاہئے۔
۲۔ لیکن یہ کہنا کہ جن معاشروں میں ایمان اور پرہیزگاری پائی جاتی ہے وہ پسماندہ ہیں، تو اگر ایمان اور پرہیزگاری سے مراد صرف اسلام اور تعلیمات ا نبیاء کے اصول کی پابندی کا دعویٰ ہو تو ہم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے افراد پسماندہ ہیں۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایمان اور پرہیزگاری کی حقیقت یہ ہے کہ ان کا اثر زندگی کے ہر پہلو پر دکھائی دے، صرف اسلام کا دعویٰ کرنے سے مشکل حل نہیں ہوتی۔
نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج اسلام اور انبیا الٰہی کی تعلیمات کو بہت سے اسلامی معاشروں میں یا بالکل ترک کردیا گیا ہے یا آدھا چھوڑ دیا گیا ہے، لہٰذا ان معاشروں کا حال حقیقی مسلمانوں جیسا نہیں ہے۔
اسلام، طہارت، صحیح عمل، امانت اور سعی و کوشش کی دعوت دیتا ہے، لیکن کہاں ہے امانت اور سعی و کوشش؟
اسلام، علم و دانش اور بیداری و ہوشیاری کی دعوت دیتا ہے، لیکن کہاں ہے علم و آگاہی؟ اسلام، اتحاد اور فدارکاری کی دعوت دیتا ہے، لیکن کیا اسلامی معاشروں میں ان اصول پر عمل کیا جارہا ہے؟ جبکہ پسماندہ ہیں؟! اس بنا پر یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اسلام ایک الگ چیز ہے اور ہم مسلمان ایک الگ چیز، (ورنہ اگر اسلام کے اصول اور قواعد پر عمل کیا جائے تو اسلام اس نظام الٰہی کا نام ہے جس کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مسلمان خوش حال نظر آئیں گے)(2)
________________________________________
(1) سورہ اعراف ، آیت۹۶
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۲۶۸