97۔ کیا نظر ِبد کی کوئی حقیقت ہے؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < وَإِنْ یَکَادُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُونَکَ بِاٴَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ >(1) ”اور یہ کفار قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلا دیں گے “۔
اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظر بد کی کو ئی حقیقت ہے؟
بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں ایک مخصوص اثر ہوتا ہے کہ جس وقت وہ کسی چیز کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ممکن ہے وہ خراب ہوجائے یا نیست و نابود ہوجائے، یا اگر کسی انسان کو اس نگاہ سے دیکھ لے تو یاوہ بیمار یا پاگل ہوجائے۔
عقلی لحاظ سے یہ مسئلہ محال نہیں ہے کیونکہ آج کل کے متعدد دانشورں کا ماننا ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی طاقت ہوتی ہے جس سے بہت کام لیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی تمرین اور ممارست سے اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، ”مقناطیسی نیند‘ ‘ (ہیپناٹزم Hypnotism) بھی آنکھ کی اسی مقناطیسی طاقت کے ذریعہ ہوتی ہے۔
آج جبکہ ”لیزری شعاعیں“ دکھائی نہ دینے والی لہریں ایسا کام کرتی ہیں جو کسی خطرناک اور تباہ کن ہتھیار سے نہیں ہوسکتا، تو بعض لوگوں کی آنکھوں میں اس طاقت کا پایا جانا جو مخصوص لہروں کے ذریعہ مد مقابل پر اثر انداز ہوتی ہے، جائے تعجب نہیں رہ جاتا۔
متعدد لوگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے بعض لو گوں کی آنکھوں میں ایسی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے جنھوں نے اپنی نظر سے انسان یا حیوان یا دوسری چیزوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔
لہٰذا نہ صرف اس چیز کے انکار پر اصرار کیا جائے بلکہ عقلی اور علمی لحاظ سے اس کو قبول کیا جاناچاہئے۔
بعض اسلامی روایات میں بھی ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے اجمالی طور پر اس چیز کی تائید ہوتی ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”اسماء بنت عمیس“ نے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں عرض کی: جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے کیا میں ان کے لئے ”رقیہ“ لے لوں (”رقیہ“ اس دعا کو کہتے ہیں جو نظر لگنے سے روکنے کے لئے لکھی جاتی ہے اور اس کا تعویذ بنایا جاتا ہے)
تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”نَعَمْ، فَلَو کَانَ شَیءٍ یسبقُ القَدْرِ لَسَبَقَہُ العَیْنِ“(2) ”ہاں، کوئی حرج نہیں ہے، اگر کوئی چیز قضا و قدر پر سبقت لینے والی ہو تی تو وہ نظر بد ہو تی ہے“۔
ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اکرم (ص) نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے لئے تعویذ بنایا اور اس دعا کو پڑھا: ”اٴعِیذُ کَمَا بِکَلِمَاتِ التَّامةِ وَ اٴسْمَاءِ اللّٰہِ الحُسْنٰی کُلِّھَا عَامة، مِنْ شرِّ السَّامَةِ وَ الھَّامَةِ، وَ مِنْ
شرِّکُلُّ عَینٍ لَامَّةِ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَد“ (تمہیں تمام کلمات اور اللہ کے اسماء حسنی کی پناہ میں دیتا ہوں ،بری موت، موذی حیوانات، بری نظر اور حسد کرنے والے کے شر سے) ، اور اس کے بعد ہماری طرف دیکھ کر فرمایا: ”جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل اور اسحاق کے لئے یہی تعویذ بنایا تھا۔(3)
اسی طرح نہج البلاغہ میں بیان ہوا ہے: ”العَیْنُ حَقٌّ وَ الرقيٌّ حَقٌّ“(4) چشم بد اور دعا کے ذریعہ اس کو دفع کرنا حقیقت رکھتے ہیں“۔(5)
________________________________________
(1) سورہٴ قلم ، آیت ۵۱(2) مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، صفحہ 3۴۱
(3) نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۴۰۰
(4)نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر ۴۰۰، (یہ حدیث صحیح بخاری، جلد ۷، صفحہ ۱۷۱، باب ”العین حق“ میں بھی اسی صورت سے نقل ہوئی ہے: العین حق) ، نیز ”معجم لالفاظ الحدیث النبوی“ میں بھی مختلف منابع سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، (جلد ۴، صفحہ ۴۵۱)
(5) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۴، صفحہ ۴۲۶
۹۸۔ کیا فال نیک اور بد شگونی حقیقت رکھتے ہیں ؟
شاید ہمیشہ سے مختلف قوم و ملت کے درمیان فال نیک اور بد شگونی کا رواج پایا جاتا ہے بعض چیزوں کو ”فال نیک“قرار دیتے ہیں جس کو کامیابی کی نشانی اور بعض چیزوں کو ”بد شگونی“ ناکامی اور شکست کی نشانی سمجھتے تھے، جبکہ ان چیزوں کا کامیابی اور شکست سے کوئی منطقی تعلق نہیں پایا جاتا،خصوصاً بد شگونی کے سلسلہ میں بہت سی نامعقول اور خرافات قسم کی چیزیں رائج ہیں۔
اگرچہ ان دونوں کا طبیعی اثر نہیں ہے لیکن نفسیاتی اثر ہوسکتا ہے، فالِ نیک انسان کے لئے امید اور تحریک کا باعث ہے اور بدشگونی ناامید اور سستی کا سبب بن سکتی ہے۔
شاید اسی وجہ سے اسلامی روایات میں فالِ نیک سے ممانعت نہیں کی گئی ہے لیکن فالِ بد اور بد شگونی کے لئے شدت سے ممانعت کی گئی ہے، چنانچہ ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے: ”تَفَاٴلُوا بِالخَیْرِ تَجِدُوْہُ“ (اپنے کاموں میں فال نیک کرو (اور امیدوارر ہو) تاکہ اس کے انجام تک پہنچ جاؤ) اس حد یث میں اس موضوع کا اثباتی پہلو منعکس ہے، اور خود آنحضرت (ص) ،ائمہ دین علیہم السلام کے حالات میں بھی یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ یہ حضرات بعض مسائل کو فال نیک سمجھے تھے ،مثال کے طور پر جب سر زمین ”حدیبیہ“ میں مسلمان کفار کے مقابل قرارپائے اور ”سہیل بن عمرو“ کفارِ مکہ کا نمائندہ بن کر پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آیا،جب آنحضرت (ص) اس کے نام سے با خبر ہوئے تو فرمایا: ”قدْ سہلَ علیکم اٴمرَکمْ“ (یعنی میں ”سہیل“ کے نام سے تفاٴل کرتا ہوں کہ تمہارا کام سہل اور آسان ہوگا“۔(1)
چھٹی صدی ہجری کے ”دمیری“ نامی مشہور و معروف دانشور موٴلف نے اپنی ایک تحریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اس وجہ سے فالِ نیک کیا کرتے تھے کیونکہ جب انسان فضل پروردگار کا امیدوار ہوتا ہے تو راہ خیر میں قدم بڑھاتا ہے لیکن جب رحمت پروردگار کی امید ٹوٹ جاتی ہے تو پھر برے راستہ پر لگ جاتاہے، اور فال بد یا بد شگونی کرنے سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور انسان بلا اور بدبختی سے خوف زدہ رہتا ہے۔(2)فال بد یا بد شگونی کے بارے میں اسلامی روایات نے بہت شدت کے ساتھ مذمت کی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے(3) ، نیز پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”الطَّیْرةُ شِرْکٌ“(4) (بد شگونی کرنا (اور انسان کی زندگی میں اس کو موثر ماننا) ایک طرح سے خدا کے ساتھ شرک ہے)
اسی طرح ایک دوسری جگہ بیان ہوا ہے کہ اگر بد شگونی کا کوئی اثر ہے تو وہی نفسیاتی اثر ہے، حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”بد شگونی کا اثر اسی مقدار میں ہے جتنا تم اس کو قبول کرتے ہو، اگر اس کو کم اہمیت مانو گے تو اس کا اثر کم ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں تم بہت معتقد ہوگئے تو اس کا اثر بھی اتنا ہی ہوگا، اور اگر اس کی بالکل پروا نہ کرو تو اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا“۔(5)
اسلامی روایات میں پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ بد شگونی سے مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ اس پر توجہ نہ کی جائے، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے: ”تین
چیزوں سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا، (جنّات کا وسوسہ اکثر لوگوں کے دلوں پر اثر کر جاتا ہے) فال بد یا بد شگونی، حسد اور سوء ظن، اصحاب نے سوال کیا کہ ان سے بچنے کے لئے ہم کیا کریں؟ تو آنحضرت نے فرمایا: جب کوئی تمہارے لئے بد شگونی کرے تو اس پر توجہ نہ کرو، جس وقت تمہارے دل میں حسد پیدا ہو تو اس کے مطابق عمل نہ کرو اور جب تمہارے دل میں کسی کی طرف سے سوء ظن (اوربد گمانی) پیدا ہو تو اس کو نظر انداز کردو“۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ فال نیک اور بد شگونی کا موضوع ترقی یافتہ ممالک اور روشن فکر یہاں تک کہ مشہور و معروف نابغہ افراد کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر مغربی ممالک میںزینہ کے نیچے سے گزرنا، یا نمکدانی کا گرنا یا تحفہ میں چاقو دینا وغیرہ کو بد شگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے!
البتہ فالِ نیک کا مسئلہ کوئی اہم نہیں بلکہ اکثر اوقات اس کا اثر مثبت ہوتا ہے، لیکن بد شگونی سے مقابلہ کرنا چاہئے اور اپنے ذہن سے دور کرنا چاہئے، جس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان خداوندعالم پر توکل اور بھر پور بھروسہ رکھے، جیساکہ اسلامی روایات میں اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔(6)
________________________________________
(1) المیزان ، جلد ۱۹، صفحہ ۸۶
(2)سفینة البحار ، جلد دوم، صفحہ ۱۰۲
(3) مثلاً: سورہٴ یس ، آیت ۱۹، سورہٴ نمل ، آیت ۴۷، سورہٴ اعراف آیت۱۳۱
(5،4)المیزان ، محل بحث آیت کے ذیل میں
۹۹۔ کیا تمام اصحاب پیغمبر (ص)نیک افرادتھے؟
”پہلے مہاجرین“ کے لئے قرآن کی بیان کردہ عظمت کے پیش نظر بعض برادران اہل سنت یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ لوگ آخری عمر تک کوئی خلاف(شرع) کام نہیں کرسکتے، لہٰذا کسی چون و چرا کے بغیر سب کو قابل احترام شمار کیا جائے، اس کے بعد اس موضوع کو تمام ”اصحاب“ کے لئے عام کردیا چونکہ ”بیعتِ رضوان“ میں اصحاب کی مدح کی گئی ہے، لہٰذا ان کی نظر میں اصحاب کے متعلق کوئی تنقید قابلِ قبول نہیں ہے چاہے ان کے اعمال کیسے ہی ہوں!۔
جیسا کہ مشہور مفسر موٴلف المنار شیعوں پر شدید اعتراض کرتے ہیں کہ یہ لوگ مہاجرین پر کیوں انگلی اٹھاتے ہیں، اور ان پر کیوں تنقید کرتے ہیں!! جبکہ وہ اس بات پر توجہ نہیں کرتے کہ صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ اسلام اور تاریخ اسلام کے برخلاف ہے۔
(قارئین کرام!) بے شک ”صحابہ“ خصوصاً پہلے مہاجرین کا ایک خاص احترام ہے، لیکن یہ احترام اسی وقت تک ہے جب تک وہ صحیح راستہ پر قدم بڑھاتے رہیں، لیکن جب بعض صحابہ اسلام کے حقیقی راستہ سے منحرف ہو جا ئیں تو پھر اصولی طور پر قرآن مجید کا کچھ اور ہی نظریہ ہوگا۔
مثال کے طور پر ہم کس طرح ”طلحہ“ اور ”زبیر“ سے یونہی گزر سکتے ہیں جبکہ انھوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین اور خود اپنے انتخاب کردہ خلیفہٴ رسول کی بیعت کو توڑ دیا، ہم کیسے ان کے دامن پر لگے جنگ جمل کے سترہ ہزار مسلمانوں کے خون کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟! اگر کوئی شخص کسی ایک بے گناہ کا خون بہائے تو وہ خدا کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا، اتنے لوگوں کا خون تو بہت دور کی بات ہے، کیا اصولی طور پر جنگ جمل میں ”حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ساتھی“ اور ”طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی دیگر صحابہ “ دونوں کو حق پر مانا جاسکتا ہے؟
کیا کوئی بھی عقل اور منطق اس واضح تضا د اورٹکراؤکو قبول کرسکتی ہے؟! اور کیا ہم”صحابہ کی عظمت“ کی خاطر اپنی آنکھوں کو بند کرلیں اور پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد پیش آنے والے تاریخی حقائق کو نظر انداز قرار دے دیں اور اسلامی و قرآنی قاعدہ ”إنَّ اٴکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴتقَاکُم“(1)کو پاؤں تلے روند ڈالیں؟! واقعاًکیا یہ غیر منطقی فیصلہ ہے؟!
اصولی طور پر اس چیزمیں کیا ممانعت ہے کہ کوئی شخص ایک روز بہشتیوں کی صف میں اور حق کا طرفدار ہو، لیکن اس کے بعد دشمنان حق اور دوزخیوں کی صف میں چلا جائے؟ کیا سب معصوم ہیں؟! اور کیا ہم نے اپنی آنکھوں سے بہت سے لوگوں کے حالات بدلتے نہیں دیکھے ہیں؟!
”اصحاب ردّہ“ (یعنی رحلت پیغمبر کے بعد کچھ اصحاب کے مرتد (وکافر) ہوجانے) کا واقعہ شیعہ اور سنی سب نے نقل کیا کہ خلیفہٴ اول نے ان سے جنگ کی اور ان پرغلبہ حاصل کرلیا، کیا ”اصحاب ردّہ“ کو کسی نے نہیں دیکھا کیا وہ صحابہ کی صف میں نہیں تھے؟!
اس سے کہیں زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس تضاداو رٹکراؤ سے بچنے کے لئے بعض لوگوں نے ”اجتہاد“ کا سہارا لیا اور کہتے ہیں کہ ”طلحہ، زبیر اور معاویہ“ نیز ان کے ساتھی مجتہد تھے اور انھوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی، لیکن وہ گناہگار نہیں ہیں بلکہ اپنے ان اعمال پر خدا کی طرف سے اجر و ثواب پائیں گے!!
واقعاً کتنی رسوا کن دلیل ہے؟ جانشینِ رسول کے مقابلہ میں آجانا، اپنی بیعت کو توڑ دینا، اور ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا اور وہ بھی جاہ طلبی اور مال و مقام کے لالچ میں یہ سب کچھ کرنا کیا کوئی ایسا موضوع ہے جس کی برائی سے کوئی بے خبر ہو؟ کیا اتنے بے گناہوں کا خون بہانے پر خداوندعالم اجر و ثواب دے سکتا ہے؟! اگر کوئی شخص اس طرح بعض اصحاب کے ظلم و ستم سے ان کو بَری کرنا چاہے تو پھر دنیا میں کوئی گناہگار باقی نہ بچے گا اور سبھی قاتل و ظالم و جابر اس منطق کے تحت بَری ہوسکتے ہیں۔ اصحاب کااس طرح سے غلط دفاع کرنا خود اسلام سے بد ظن ہونے کا سبب بنتا ہے۔
اس بنا پر ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم سب کے لئے خصوصاً اصحاب پیغمبر (ص) کے احترام کے قائل ہوں، لیکن جب وہ حق و عدالت کی راہ اور اسلامی اصول سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کا کوئی احترام نہیں ہوگا۔(2)
اہل سنت کے متعدد مفسرین نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ” حمید بن زیاد“ کا کہنا ہے: ”میں محمد بن کعب قرظی کے پاس گیا اور کہا: اصحاب پیغمبر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا: ”جَمِیْعُ اٴصْحَابِ رَسُولِ اللهِ (ص) فِی الجَنّةِ مُحْسِنُھُمْ وَ مُسِیئھُم!“ (یعنی تمام اصحاب پیغمبر جنّتی ہیں چاہے وہ نیک ہوں یا گنہگار!) میں نے کہا: یہ بات تم کیسے کہہ رہے ہو؟ تو اس نے کہا: اس آیت کو پڑھو: <وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُہَاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ > یہاں تک کہ ارشاد ہوتا ہے:<رَضِیَ اللهُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ>(3)،اس کے بعد کہا کہ تابعین کے لئے صحابہ کی صرف نیک کاموں میں اتباع اور پیروی کرنے کی شرط کی گئی ہے، (صرف اسی صورت میں اہل نجات ہیں، لیکن صحابہ کے لئے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے)(4)
لیکن ان کا یہ دعویٰ متعدد دلائل کی وجہ سے باطل اور غیر قابل قبول ہے، کیونکہ: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آیہٴ شریفہ میں مذکورہ حکم تابعین کے لئے بھی ہے، تابعین سے وہ مسلمان مراد ہیں جو پہلے مہاجرین اور انصار کی پیروی کریں، اس بنا پر بغیر کسی استثنا کے پوری امت کو اہل نجات اور جنتی ہونا چاہئے۔
اور جیسا کہ محمد بن کعب کیحدیث میں اس چیز کا جواب دیا گیا کہ خداوندعالم نے تابعین میں ”نیکی کی شرط“ لگائی ہے یعنی صحابہ کے نیک کاموں میں پیروی کریں، ان کے گناہوں کی پیروی نہیں، لیکن یہ گفتگو بہت ہی عجیب ہے۔ کیونکہ اس کا مفہوم اضافہٴ ”فرع“ بر ”اصل“ کی طرح ہے یعنی جب تابعین اور صحابہ کے پیروکاروں کے لئے نجات کی شرط یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں ان کی پیروی کی جائے تو پھر بطریق اولیٰ یہ شرط خود صحابہ میں بھی ہونی چاہئے۔
بالفاظ دیگر: خداوندعالم مذکورہ آیت میں فرماتا ہے: میری رضایت اور خوشنودی پہلے مہاجرین و انصار اور ان کی پیروی کرنے والوں کے شامل حال ہوگی جو ایمان اور عمل کے لحاظ سے صحیح تھے،نہ یہ کہ سب مہاجرین و انصار چاہے نیک ہوں یا گناہگار اپنے کو رحمت الٰہی میں شامل سمجھیں، لیکن تابعین میں خاص شرط کے تحت قابل قبول ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ موضوع عقلی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عقلی لحاظ سے صحابہ اور غیر صحابہ میں کوئی فرق نہیں ہے، ابو جہل اوراسلام لاکر پھر جا نے والے میں کیا فرق ہے ؟!
پیغمبر اکرم (ص) کے برسوں اور صدیوں بعد اس دنیا میں جو افراد پیدا ہوئے اور انھوں نے اسلام کی راہ میں بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں اور جن کی قربانی پہلے مہاجرین و انصار سے کم نہیں ہے، بلکہ ان کا یہ بھی امتیاز ہے کہ انھوں نے پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھے بغیر پہچانا اور آنحضرت (ص) پر ایمان لائے، تو کیا ایسے افراد رضایت و خوشنودی الٰہی کے حقدار نہیں ہیں؟!
جو قرآن کہتا ہو کہ تم میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک وہ شخص معزز و محترمہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگارہو، تو پھر قرآن اس غیر منطقی امتیاز کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟! جس قرآن کی مختلف آیات میں ظالمین اور فاسقین پر لعنت بھیجی گئی ہے اور ان کو عذاب الٰہی کا مستحق قرار دیا گیا ہو تو پھر صحابہ کے سلسلہ میں اس غیر منطقی معصومیت کو کیونکر قبول کرسکتا ہے؟ اور کیا اس لعنت اور چیلنج میں استثنا کی کوئی گنجائش ہے؟ تاکہ کچھ (صحابہ) اس سے الگ ہوجائیں؟ کیوں؟ او رکس لئے؟
ان سب کے علاوہ کیا اس طرح کا حکم کرنا صحابہ کو ہری جھنڈی دکھانا نہیں ہے جس سے ان کا کوئی بھی کام گناہ اور ظلم شمار نہ ہو؟
تیسری بات یہ ہے کہ ایسا حکم کرنا، اسلامی تاریخ کے بر خلاف ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے تھے جو پہلے مہاجرین و انصار میں تھے لیکن بعد میں راہ حق سے منحرف ہوگئے اور پیغمبر اکرم (ص) ان پر غضبناک ہوئے (جبکہ پیغمبر اکرم (ص) کا غضبناک ہونا خدا کے غضب اور عذاب کا موجب ہے) کیا ”ثعلبہ بن حاطب انصاری“ کا واقعہ نہیں پڑھا کہ وہ کس طرح دین سے منحرف ہوگیا اور پیغمبر اکرم (ص) اس پر غضبناک ہوئے۔
واضح طور پر یوں کہا جائے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ تمام اصحاب پیغمبر (ص) کسی بھی طرح کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے، وہ معصوم تھے اور معصیت سے پاک تھے ، تو یہ بالکل وا ضح چیزوں کے انکار کی طرح ہے۔
اور اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ انھوں نے گناہ کئے ہیں اور خلاف (دین)کام انجام دئے ہیں لیکن پھر بھی خداوندعالم ان سے راضی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہگاروں سے بھی (نعوذ باللہ) خدا راضی ہوسکتا ہے!
”طلحہ و زبیر“ جن کا شمار پہلے اصحاب پیغمبر (ص) میں ہوتا تھا اسی طرح زوجہ پیغمبر (ص) جناب ”عائشہ“ کو جنگ جمل کے سترہ ہزار بے گناہ مسلمانوں کے خون سے کون بری کرسکتا ہے؟ کیا خداوندعالم اس خون کے بہنے سے راضی تھا؟۔
کیا خلیفہ پیغمبر اکرم حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ رسول خدا نے ان کو خلیفہ معین نہیں کیا تھالیکن کم سے کم اس بات کو تو اہل سنت بھی قبول کرتے ہیں کہ آپ کی پوری امت کے اجماع کے ذریعہ خلیفہ بنایا گیاتھا، توا گرجانشین رسول (ص) اور ان کے وفادار ساتھیوں کے مقابلہ میں تلوار کھینچ لی جائے تو کیا اس کام سے خداوندعالم راضی اور خوشنود ہوگا؟۔ حقیقت یہ ہے کہ ”صحابہ کو بے گناہ“ ماننے والوں کے اصرار اور اس بات پر بضد ہونے کی وجہ سے پاک و پاکیزہ اسلام کو بد نام کردیا ہے، وہ اسلام جس کی نظر میں لوگوں کی عظمت ایمان و اعمال صالحہ ہے۔
اس سلسلہ میں اخری بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں جس رضا اور خوشنودی الٰہی کی بات کی گئی ہے وہ ایک عام عنوان کے تحت ہے، اور وہ ”ہجرت“، ”نصرت“، ”ایمان“، اور ”عمل صالح“ ہے، لہٰذا تمام صحابہ اور تابعین اگر ان عناوین کے تحت قرار پائیں گے تو رضائے الٰہی ان کے شامل حال رہے گی، لیکن اگر وہ ان عناوین سے خارج ہوجائیں تو پھر رضایت اور خوشنودی الٰہی سے بھی خارج ہوجائیں گے۔
(قارئین کرام!) ہماری مذکورہ گفتگو سے بخوبی روشن ہوجاتا ہے کہ متعصب مفسر صاحب المنار کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے کہ موصوف تمام صحابہ کو گناہوں سے پاک نہ ماننے پر شیعوں پر حملہ آور ہوتے ہیں،لیکن ہم کہتے ہیں کہ شیعوں کی کیا خطا ہے؟ یہی کہ انھوں نے اس سلسلہ میں قرآن، تاریخ اور عقل کی گواہی کو ماناہے، اور بیہودہ اور غلط امتیازات کے آگے تسلیم نہیں ہوئے ہیں!!(5)
________________________________________
(1) سورہ ، حجر، آیت ۱۳، ”بے شک تم میںسے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے“۔
(2) تفسیر نمونہ ، جلد۷، صفحہ ۲۶۳ (3) سورہ توبہ ، آیت۱۰۰ ”اور مہاجرو انصار میں سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ،ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خداسے راضی ہیں“۔
(4) تفسیر المنار اور تفسیر فخر رازی مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں رجوع فرمائیں
(5) تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۱۰۸
|