۹۴۔ دعا و زاری کا فلسفہ کیا ہے؟
دعا کی حقیقت، اس کی روح اور اس کے تربیتی اور نفسیاتی اثر سے بے خبر لوگ دعا پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، ترقی اور کامیابی کے وسائل کے بجائے اسی راستہ پر لگا دیتی ہے، اور انھیں سعی و کوشش کے بدلے اسی پر اکتفا کرنے کا سبق دیتی ہے ۔
کبھی کہتے ہیں: دعا اصولی طور پر خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام دے گا، وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے مصالح و منافع کو بہتر جانتا ہے، پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اس سے سوال کرتے رہیں؟!
کبھی کہتے ہیں: ان تمام چیزوں کے علاوہ دعا؛ارادہٴ الٰہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے منافی ہے!
(قارئین کرام!) جو لوگ اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں، انسان ؛ ارادہ کی تقویت اور دکھ درد کے دور ہونے کے لئے کسی سہارے کا محتاج ہے، اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن چمکا دیتی ہے، جو لوگ دعا کو فراموش کئے ہوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچار ہوتے ہیں۔
ایک مشہور ماہر نفسیات کا کہنا ہے: ”کسی قوم میں دعا و تضرع کا فقدان اس ملت کی تباہی کے برابر ہے، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی“۔
البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا اور باقی تمام دن ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا، بیہودہ اور فضول ہے، دعا کو مسلسل جاری رہنا چاہئے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اس کے عمیق اثر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔(1)
جو لوگ دعا کو کاہلی اور سستی کا سبب سمجھتے ہیں وہ دعا کے معنی ہی نہیں سمجھے، کیونکہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ مادی وسائل و اسباب سے ہاتھ روک لیا جائے اور صرف دستِ دعا بلند کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام موجودہ وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رہے اور وہ مقصد تک نہ پہنچ پائے تو دعا کا سہارا لے، توجہ کے ساتھ خدا پر بھروسہ کرے اپنے اندر امید کی کرن پیدا کرے اور اس مبداٴ عظیم کی بے پناہ نصرتوں کے ذریعہ مدد حاصل کرے۔
لہٰذا دعا مقصد تک نہ پہونچنے کی صورت میں ہے نہ کہ یہ فطری اسباب کے مقابلہ میں کوئی سبب ہے۔
مذکورہ ماہر نفسیات لکھتا ہے:
”دعا انسان میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے ، باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات یہ انسان کے لئے بہادری اور دلاوری کی روح کو ابھارتی ہے، دعا کے ذریعہ انسان پر بہت سی علامات ظاہر ہوتی ہیں ، جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی انبساط و مسرت، مطمئن چہرہ، استعداد ہدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ ، یہ سب دعا کے اثرات ہیں، دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بہتر طریقہ سے کار آمد بنالیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری دنیا میں دعا کے حقیقی رخ کو پہچاننے والے لوگ بہت کم ہیں “۔(2)
(قارئین کرام!) ہمارے مذکورہ بیان سے اس اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منافی ہے، کیونکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں دعا؛ پروردگار کے بے انتہا فیض سے زیادہ سے زیادہ کسبِ کمال کا نام ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان دعا کے ذریعہ پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اہلیت اور استعداد حاصل کرلیتا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے ، اس کے منافی نہیں ہے۔
ان سب کے علاوہ دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی کا نام ہے، انسان دعا کے ذریعہ ذات الٰہی کے ساتھ ایک نئی وابستگی پیدا کرتا ہے، اور جیسے تمام عبادات ؛ تربیتی تاثیر رکھتی ہیں اسی طرح دعا میں بھی یہی تاثیر پائی جاتی ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا امور الٰہی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ہو خدا عطا کردیتا ہے، چنانچہ وہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے لحاظ سے تقسیم ہوتے ہیں، جتنی استعداد اور لیاقت زیادہ ہوگی انسان کو عطیات بھی اس لحاظ سے نصیب ہوں گے۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”إنَّ عِنْدَ الله عَزَّ وَ جَلَّ مَنْزِلَةٌ لَاتَنَالُ إلاَّ بِمَساٴلةٍ“(3) ”خداوندعالم کے یہاں ایسے مقامات اور منازل ہیں جو بغیر مانگے نہیں ملتے“۔
ایک دانشور کا کہنا ہے: جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی قوت سے متصل کرلیتے ہیں جس نے ساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر رکھا ہے“۔(4)
نیز موصوف کا کہنا ہے: ”آج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات بھی یہی تعلیم دیتا ہے جو انبیاء کی تعلیم تھی، کیونکہ نفسیاتی ڈاکٹراس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دعا، نماز اور دین پر مستحکم ایمان؛ اضطراب، تشویش، ہیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جو ہمارے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے“۔(5) (6)
________________________________________
(1) ”نیایش“ تالیف :طبیب و روانشناس مشہور ”الکسیس کارل“
،(2)”نیایش الکسیس کارل
(3) اصول کافی ، جلد دوم، صفحہ ۳۳۸ ، بابُ فَضْل الدُّعَا ء والحِثُّ عَلَیہ ، حدیث۳
(4) آئین زندگی ، صفحہ۱۵۶
(5) آئین زندگی ، صفحہ ۱۵۲
(6) تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۳۹
۹۵۔ کبھی کبھی ہماری دعاکیوں قبول نہیں ہوتی؟
دعا کی قبولیت کے شرائط کی طرف توجہ کرنے سے بھی بظاہر دعا کے پیچیدہ مسائل میں نئے حقائق آشکار ہوتے ہیں اور اس کے اصلاحی اثرات واضح ہوجاتے ہیں، اس ضمن میں ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں:
۱۔ دعا کی قبولیت کے لئے ہر چیز سے پہلے دل اور روح کی پاکیزگی کی کوشش کرنا، گناہ سے توبہ اور اصلاح نفس ضروری ہے ، اس سلسلہ میں خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں اور رہبروں کی زندگی سے الہام و ہدایات حاصل کرنا چاہئے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:”جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے خدا کی حمد و ثنا کرے، پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اورپھر اپنی حاجت طلب کرے“(1)
۲۔ اپنی زندگی کی پاکیزگی کے لئے غصبی مال اور ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کرے اور حرام غذا نہ کھائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے: ”مَنْ اٴحَبَّ اٴنْ یُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطِبْ مَطْعَمَہُ وَ مَکْسِبَہ“(2) ”جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کے لئے اس کی غذا اور کار وبار کاحلال اور پاکیزہ ہوناضروری ہے “
۳۔ فتنہ و فساد کا مقابلہ کرے اور حق کی دعوت دینے میں کوتاہی نہ کرے کیونکہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیتے ہیں ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ پیغمبر اسلام سے منقول ہے: ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو ، ورنہ خدا بُرے لو گوں کو تمہارے اچھے لوگوں پر مسلط کردے گا، پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہیں ہوگی“۔(3)
حقیقت میں یہ عظیم ذمہ داری جو ملت کی نگہبان ہے اسے ترک کرنے سے معاشرہ کا نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں بدکاروں کے لئے میدان خالی ہوجاتا ہے، اس صورت میں دعا اس کے نتائج کو زائل نہیں کرسکتی کیونکہ یہ کیفیت ان کے اعمال کا قطعی اور حتمی نتیجہ ہے۔
۴۔ دعا قبول ہونے کی ایک شرط خدائی عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے، ایمان، عمل صالح، امانت اور صحیح کام اس عہد و پیمان کا ایک حصہ ہیں، جو شخص اپنے پروردگار سے کئے گئے عہد کی پاسداری نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں ہونا چاہئے کہ پروردگار کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ اس کے شامل حال ہوگا۔
کسی شخص نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے دعا قبول نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا : خدا کہتا ہے کہ دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور وہ قبول نہیں ہوتی!
اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا: ”إنَّ قُلُوبَکُم خَانَ بِثَمانِ خِصَالِ“ تمہارے دل و دماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے، ( جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی):
۱۔ تم نے خدا کو پہچان کر اس کا حق ادا نہیں کیا، اس لئے تمہاری معرفت نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔
۲۔ تم اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر پر ایمان تو لے آئے ہو لیکن اس کی سنت کی مخالفت کرتے ہو، ایسے میں تمہارے ایمان کا کیا فائدہ ہے؟
۳۔ تم اس کی کتاب کو تو پڑھتے ہومگر اس پر عمل نہیں کرتے، زبانی طور پر تو کہتے ہو کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، لیکن عملی میدان میں اس کی مخالفت کرتے رہتے ہو!
۴۔ تم کہتے ہو کہ ہم خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی نافرمانی کی طرف قدم بڑھاتے ہو اور اس کے عذاب سے نزدیک ہوتے رہتے ہو۔
۵۔ تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے مشتاق ہیں حالانکہ تم ہمیشہ ایسے کام کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور لے جاتے ہیں۔
۶۔ نعمتِ خدا سے فائدہ اٹھاتے ہو لیکن اس کے شکر کا حق ادا نہیں کرتے!
۷۔ اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو (اور تم اس سے دوستی کا نقشہ بناتے رہتے ہو) تم شیطان سے دشمنی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملی طور پر اس کی مخالفت نہیں کرتے۔
۸۔ تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب کو مڑکر بھی نہیں دیکھتے۔ ان حالات میں تم کیسے امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جب کہ تم نے خود اس کی قبولیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو، اپنے اعمال کی اصلاح کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو تاکہ تمہاری دعا قبول ہوسکے۔(4)
یہ پُر معنی حدیث صراحت کے ساتھ اعلان کررہی ہے:
خدا کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ مشروط ہے مطلق نہیں، بشرطیکہ تم اپنے عہد و پیمان پورا کرو حالانکہ تم آٹھ طرح سے پیمان شکنی کرتے ہو، تم عہد شکنی نہ کرو تو تمہاری دعا قبول ہوجائے گی۔
مذکورہ آٹھ احکام جو دعا کی قبولیت کے شرائط ہیں انسان کی تربیت، اس کی توانائیوں کو اصلاح کرنے اور اسے ثمر بخش بنانے کے لئے کافی ہیں۔
۵۔ دعا کی قبولیت کے لئے ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل اور کوشش کے ہمراہ ہو، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے کلمات قصار میں بیان ہوا ہے: ”الداعی بلا عمل کالرامی بلا وتر!“(71)(عمل کے بغیر دعا کرنے والا، بغیر کمان کے تیر چلانے والے کے مانند ہے)۔
اس چیز کی طرف توجہ رکھنا چاہئے کہ چلہٴ کمان تیر کے لئے عامل حرکت اور ہدف کی طرف پھینکنے کا وسیلہ ہے اس سے تاثیرِ دعا کے لئے عمل کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
مذکورہ پانچوں شرائط سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مادی علل و اسباب کے بجائے دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ قبولیت دعا کے لئے دعا کرنے والے کی زندگی میں ایک مکمل تبدیلی بھی ضروری ہے، اسے اپنی فکرکو نئے سانچے میں ڈھالنا چاہئے اور اسے اپنے گزشتہ اعمال پر تجدید نظر کرنا چاہئے۔
ان تمام مطالب کے پیش نظر دعا کو اعصاب کمزور کرنے والی ا ور کاہلی کا سبب قرار دینا کیابے خبری اور غفلت نہیں ہے؟! اور کیا یہ تہمت کسی غرض کے لئے نہیں ہے؟!(5)
________________________________________
(1) سفینة البحار ، جلد اول صفحہ ۴۴۸و ۴۴۹ (68) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸، ۴۴۹
(2) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸و ۴۴۹
(3) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۴۴۸
(4)نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۳۳۷
(5) تفسیر نمونہ ، جلد اول ، صفحہ ۶۴۳
۹۶۔ جبر اور اختیار کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟
علمائے اسلام کے درمیان یہ مسئلہ زمانہٴ قدیم سے مورد نزاع رہا ہے ، ایک جماعت انسان کی آزادی اور اختیار کی قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ جبر کے نظریہ کا طرفدار ہے، اور ہر جماعت اپنے مقصد کے اثبات کے لئے دلائل پیش کرتی ہے۔
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ”جبر کے قائل“ بھی اور ”اختیار کے طرفدار“ بھی مقام عمل میں اختیار اور آزادی کو ہی صحیح مانتے ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ تمام بحث و گفتگو صرف علمی میدان تک ہے، مقام عمل میں نہیں، جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ تمام انسانوں میں آزادی، ارادہ اور اختیار اصل ہے، اور اگر اس سلسلہ میں مختلف وسوسے نہ پائے جائیں تو سبھی انسان آزادی اور اختیار کے طرفدار ہوں گے۔
عام فکر وخیال اور فطرتِ انسان ”نظریہ اختیار“ کی واضح دلیل ہے، جو انسانی زندگی کے مختلف مواقع پر جلوہ گر ہے،کیونکہ اگر انسان اپنے اعمال میں خود کو مجبور سمجھے اور اپنے لئے اختیار کا قائل نہ ہو ، تو پھر کیوں:
۱۔ انسان اپنے کئے ہوئے بعض کاموں پر یا بعض کاموں کے نہ کرنے پر پشیمان اور شرمندہ ہوتا ہے، اور یہ طے کرلیتا ہے کہ اپنے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھائے، ”جبر کا عقیدہ رکھنے والوں “کو (بھی) یہ شرمندگی بہت سے موارد میں پیش آتی ہے، اگر نظریہٴ اختیار صحیح نہیں ہے تو پھر یہ شرمندگی کیسی؟!
۲۔ بُرے لوگوں کی سب مذمت کرتے ہیں، اگر جبر کا نظریہ صحیح ہے تو ملامت کیسی؟!
۳۔ نیک اور اچھے لوگوں کی سب تعریفیں کرتے ہیں، اگر جبر کا نظریہ صحیح ہے تو تعریف کیوں؟!
۴۔ سبھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ خوش بخت ہوجائیں، اگر سبھی مجبور ہیں تو پھر تعلیم و تربیت کیا معنی رکھتی ہے؟!
۵۔ معاشرہ میں اخلاقی سطح کو بلند کرنے کے لئے سبھی علمااور دانشور کوشش کرتے ہیں۔
۶۔ انسان اپنی خطاؤں سے توبہ کرتا ہے، لیکن اگر جبر کے نظریہ کو قبول کیا جائے تو پھر توبہ کی کیا حیثیت ہے؟!
۷۔ انسان اپنی کوتاہی اور خامیوں پر حسرت اور افسوس کرتا ہے، کیوں؟
۸۔ پوری دنیا میں مجرم اور بُرے لوگوں کو سزا ملتی ہے اور سختی کے سا تھ سوال و جواب ہو تے ہیں،لیکن جو کام ان کے اختیار میں نہیں ہے تو پھر یہ سزا اور بازپرس کیسی؟!
۹۔ پوری دنیا اور تمام مذہب و ملت میں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم سبھی کے یہاں مجرموں کے لئے سزا معین ہے، لیکن انسان جس کام پر مجبور ہو تو پھر سزا کیسی؟!
۱۰۔ یہاں تک کہ جبری مکتب کے قائل لوگوں کا اگر کوئی نقصان کر دیتا ہے یا کو ئی ان پر ظلم و ستم کرتا ہے تو ان کی فریاد بلند ہوجاتی ہے، اس کو خطاکار شمار کرتے ہیں اور اس کو عدلیہ تک لے جاتے ہیں!
خلاصہ یہ کہ اگر حقیقت میں انسان مختار نہیں ہے تو پشیمانی کیوں؟!
مذمت اور ملامت کس لئے؟ اگر کسی کا ہاتھ بے اختیار لرزتا ہو تو کیا اس کو ملامت کی جائے گی؟ کیوں نیک افراد کی مدح و ثنا کی جاتی ہے، کیا انھوں نے اپنے اختیار سے کچھ کیا ہے جو نیک کام کی طرف ترغیب دلانے سے نیک کام کرتے رہتے ہیں؟!
اصولی طور پر تعلیم و تربیت کی تاثیر کو قبول کرتے ہوئے جبری نظریہ کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔
اس کے علاوہ آزادی اور اختیار کو قبول کئے بغیر اخلاقی مسائل کا ہرگز کوئی مفہوم نہیں نکلتا۔
اگر ہم اپنے کاموں میں مجبور ہوں تو پھر توبہ کیوں؟ کیوں حسرت کی جائے؟ اس لحاظ سے مجبور شخص کو سزا دینا سب سے بڑا ظلم ہے۔
یہ سب چیزیں واضح کرتی ہیں کہ تمام انسانوں میں آزادی اور اختیار اصل ہے اور نوعِ بشر کا دل بھی اسی چیز کی گواہی دیتا ہے، نہ صرف عوام الناس بلکہ تمام علمااور فلاسفہ مقام عمل میں اسی طرح ہیں ، یہاں تک کہ جبری نظریہ رکھنے والے بھی مقام عمل میں اختیار کے نظریہ کو مانتے ہیں: ”الجَبریُّونَ إخْتِیَاریُّونَ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ“!
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اسی مسئلہ پر بارہا تاکید کی ہے، ارشاد خداوندی ہے: <فَمَنْ شَاءَ إتَّخِذَ اِلٰی رَبَّہِ مَآبَا>(1)”(یہی بر حق دین ہے )تو جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف ٹھکانا بنا لے“۔
قرآن مجید کی دیگر آیات میں انسان کے ارادہ و اختیار پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے ، ان سب کو یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے صرف دو آیتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
<إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا>(2) ”یقینا ہم نے انسان کو راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: <فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ>(3) ”اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہوجائے“۔ (لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کافروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے)
”جبر و تفویض“ کے سلسلہ میں گفتگو بہت طویل ہے، اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں، لیکن اس مسئلہ میں صرف قرآن و وجدان کی روشنی میں لکھا گیا ہے، ہم اس گفتگو کو ایک ”اہم نکتہ“ کی یاد دہانی کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں:
مسئلہ جبر سے ایک گروہ کی طرفداری فلسفی یا استدلالی مشکلات کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس عقیدہ کی پیدائش میں اجتماعی اور نفسیاتی عوامل کا دخل تھا۔
”جبر“ یا ”جبری زندگی“ اور جبر کے معنی میں ”قضا و قدر“ کا عقیدہ رکھنے والے متعدد افراد بعض ذمہ داریوں سے فرار کرنے کے لئے اس عقیدہ کا سہارا لیتے ہیں، جو اس عقیدہ کی آڑ میں ہر غلط کام اور شکست کی توجیہ کرنا چاہتے ہیں جو خود ان کی سستی اور کاہلی کی بنا پر ہوتا تھا۔
یا اپنی ہوس اور بے راہ روی پر اس عقیدہ کا پردہ ڈال کر ہر کام کو جائز کرنا چاہتے تھے۔
اور کبھی استعمار،عوام الناس کی تحریک کو کچلنے اور قوم و ملت کے قہر و غضب کی آگ کو خاموش کرنے کے لئے اپنے عقیدہ کو لوگوں پر حمل کرتا ہے کہ شروع سے تمہاری قسمت میں یہی تھا لہٰذا اس پر راضی اور تسلیم ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں !
اس (غلط) نظریہ کے تحت اپنے تمام ظلم و ستم اور غلط اعمال کی توجیہ کرلیتے ہیں، اور سبھی گناہگاروں کے گناہوں کی منطقی اور عقلی توجیہ ہوجاتی ہے، اس صورت میں اطاعت گزار اور مجرم کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔(4)
انسان کی آزادی اور اختیار کے لئے سورہ فصلت کی یہ آیہٴ کریمہ واضح دلیل ہے :<وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ >(5)یہ آیہٴ شریفہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ خداوندعالم کسی کو بلا وجہ عذاب نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کے عذاب میں دلیل کے بغیر اضافہ کرتا، اس کے کام صرف عدالت پر مبنی ہوتے ہیں، کیونکہ ظلم و ستم کا سر چشمہ؛ کمی اور خامی، جہل و نادانی یا ہوائے نفس ہوتے ہیں، جبکہ خداوندعالم کی ذات اقدس ان تمام چیزوں سے پاک و منزہ ہے۔
قرآن مجید اپنی واضح آیات (بینات) میں ”جبری نظریہ“ ( جس کے پیش نظر معاشرہ میں ظلم و فساد پھیلتا ہے ، برائیوں کی تائید ہوتی ہے اور انسان ہر طرح کی ذمہ داری سے بچ جاتا ہے) کو باطل قرار دیتی ہیں، اور سبھی انسانوں کو اپنے اعمال کا ذمہ دار شمار کرتی ہیں، اور ہر انسان کے اعمال کے نتائج (جزا یا سزا) اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔
حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہواہے، کہ آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا: ”ھَلْ یجبَرُ الله عِبَادہ عَلَی المُعَاصِی؟ فَقَالَ:لا ، بَل یُخَیُّرھُم وَ یُمَھِّلُھُم حَتّٰی یَتُوبُوا“
”کیا خداوندعالم اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:نہیں، بلکہ ان کو آزاد چھوڑ دیتا ہے اور ان کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں“
اس صحابی نے دوبارہ سوال کیا: ”ھل کلف عبادہ ما لایطیقون؟“ کیا خداوندعالم اپنے بندوں کو ”تکلیف ما لایطاق“ دیتا ہے ؟ (یعنی ایسی چیز کے انجام دینے کے لئے کہتا ہے جس کی انسان میں طاقت نہ ہو۔)
اس وقت امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”کَیفَ یَفْعَلُ ذَلکَ؟ وَ ھُوَیَقُولُ: <وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ>(6) ” وہ کس طرح ایسا کرسکتا ہے جبکہ خود اس نے فرمایا ہے: ’اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے مزید فرمایا: ہمارے پدر بزرگوار موسیٰ بن جعفر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار جعفر بن محمد علیہ السلام سے اس طرح نقل فرمایا ہے: ”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے یا تکلیف ما لا یطاق دیتا ہے، تو ایسے شخص کے ہاتھوں کا ذبیحہ نہ کھاؤ ، اس کی گواہی قبول نہ کرو، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو، اور اس کو زکوٰة نہ دو، (خلاصہ یہ کہ اس پر اسلام کے احکام جاری نہ کرو)(7)
(قارئین کرام!) مذکورہ حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک ظریف نکتہ ہے کہ ”مکتب جبری“ تکلیف مالا یطاق کا دوسرا چہرہ ہے، کیونکہ اگر انسان ایک طرف گناہ کرنے پر مجبور ہو اور دوسری طرف اس کو نہی کی جائے تو یہ تکلیف ما لا یطاق کا واضح مصداق ہوگا۔(8)
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: <إِنَّ ہَذِہِ تَذْکِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَی رَبِّہِ سَبِیلًا>() ” بے شک یہ ایک نصیحت کا سامان ہے اب جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستہ کو اختیار کرلے“،(یہ خود ایک یاد دہانی ہے جس کے ذریعہ انسان خداوندعالم کے بتائے ہوئے راستہ کا انتخاب کرسکتاہے)
اور چونکہ ممکن تھا کہ کم ظرف لوگ اس مذکورہ تعبیر سے مطلق طور پر ”تفویض“ کا تصور کرلیں، اسی وجہ سے بعد والی آیت میں ”تفویض“ کی نفی کے لئے ارشاد ہوا ہے: < وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ > ” اور تم لوگ صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے“۔ ”بے شک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحب حکمت ہے“۔ <إِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا>(10)
در اصل یہ مشہور و معروف قاعدہ”الامر بین الامرین“(۲) کا اثبات ہے، ایک طرف تو خداوندعالم فرماتا ہے: ”خدا نے راستہ دکھا دیا ہے ، راستہ کا انتخاب تمہارا کام ہے“ ، دوسری طرف فرماتا ہے: ”تمہارا انتخاب مشیت الٰہی پر موقوف ہے“، یعنی تم مکمل طور پر استقلال نہیں رکھتے بلکہ تمہاری قدرت، آزادی اور ارادہ خدا کی مرضی اور اس کی طرف سے ہے، وہ جس وقت بھی ارادہ کرے تمہاری قدرت اور آزادی کو سلب کرسکتا ہے۔
اس لحاظ سے نہ مکمل ”تفویض“ ہے اور نہ ”اجبار اور سلبِ اختیار“ بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دقیق و لطیف حقیقت ہے، بالفاظِ دیگر: ایک قسم کی آزادی ہے لیکن مشیت الٰہی سے وابستہ ،یعنی جب بھی خدا چاہے اس آزادی کو واپس لے سکتا ہے، تاکہ بندگان خدا تکالیف اور ذمہ داریوں کا احساس کریں دوسری طرف سے خدا سے بے نیازی کا تصور بھی پیدانہ ہو۔
مختصر: یہ تعبیرات اس وجہ سے ہیں کہ بندے ہدایت، حمایت، توفیق اور تائید ذات مقدس سے بے نیازی کا تصور نہ کریں، اپنے کاموں کے عزم و ارادہ کو خداوندعالم کے سپرد کریں اور اس کی حمایت کے زیر سایہ قدم اٹھائیں۔
یہاں سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ بعض جبری مسلک رکھنے والے مفسرین اس آیت کا سہارا لیتے ہیں البتہ وہ اس مسئلہ میں پہلے سے فیصلہ کرچکے ہیں (یعنی جبری نظریہ کو پہلے سے قبول کرچکے ہیں) جیسا کہ فخر رازی کا کہنا ہے: ”وَ اعلم اٴنَّ ھَذِہ الآیةِ مِن جُمْلَةِ الآیَاتِ التی تَلاطمتْ فِیْھَا اٴمْوَاجُ الجَبْرِ وَ القَدْرِ!“(11) ”جاننا چاہئے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن میں ”جبر“ کی موجیں متلاطم ہیں“،جی ہاں! اگر اس آیت کو پہلی آیات سے الگ کرلیں تو اس طرح کا وہم و گمان کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ ایک آیت میں ”اختیار“ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری آیت میں ”مشیتِ پروردگار“ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے، جس سے ”الامر بین الامرین“ کا مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ ”تفویض“ کے طرفدار افراد بھی اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آیت ”مطلقِ اختیار “ کو بیان کرتی ہے، جبکہ ”جبر“ کے طرفدار بھی اس آیت، کہ جس سے صرف جبر کی بو آتی ہے، تمسک کرتے ہیں اور دونوں پہلے سے اپنے کئے ہوئے فیصلہ کی توجیہ کرتے ہیں، جبکہ کلام الٰہی (بلکہ کسی بھی کلام) کو صحیح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نظریہ کو دور رکھیں اور تعصب سے کام نہ لیتے ہوئے فیصلہ کریں۔آیت کے ذیل میں فرمایا گیا ہے: <ان اللہ کان علیماً حکیما> جو اسی بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کیونکہ خداوندعالم کی حکمت اور اس کا علم اس بات کا مو جب ہے کہ انسان کمال اور ترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں آزاد ہے ورنہ اجباری تکامل و ترقی کوئی کمال نہیں ہے۔
اس کے علاوہ خداوندعالم کا علم اور اس کی حکمت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کچھ لوگوں کو نیک کام پر مجبور کرے اور کچھ لوگوں کو برُے کاموں پر مجبور کرے ، پہلے گروہ کو جزا یا انعام دے اور دوسرے گروہ کو سزا اور عذاب میں مبتلا کرے۔(12)
________________________________________
(1) سورہٴ نباء ، آیت ۳۹
(2) سورہٴ دہر ، آیت ۳
(3) سورہٴ کہف ، آیت ۲۹
(4) تفسیر نمونہ ، جلد۲۶، صفحہ ۶۴
(5) سورہٴ فصلت ، آیت ۴۶: ”اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“
(6) سورہٴ فصلت ، آیت ۴۶
(7) عیون اخبار الرضا ، نور الثقلین ، جلد ۴، صفحہ ۵۵۵ کے نقل کے مطابق
(8) تفسیر نمونہ ، جلد۲۰، صفحہ ۳۰۸ (۴) سورہٴ انسان (دہر)، آیت ۲۹
(10)سورہ انسان (دہر) ، آیت ۳۰ (۲) یعنی نہ جبر ہے اور نہ تفویض، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ صحیح ہے
(11) تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۰ ، صفحہ ۲۶۲ (12) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۵، صفحہ ۳۸۵
|