110 سوال اور جواب
 
۸۲۔ عدّہ کا فلسفہ کیا ہے؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا : < وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ>(1) ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کر یں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔
یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ہے؟
چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ہے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ہے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ہو سکے، ایک طرف تو ”اس کوجائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراہم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حتی الامکان اس کام سے روک تھام ہو سکے۔
انہی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ہے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ہے جس کی مدت تین ”طہر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ہونا۔
”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ کبھی کبھی بعض وجوہات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ہے اورعقل وجدان پر غالب آجاتی ہے۔
معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ہیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ہی بعد میاں بیوی ہوش میں آتے ہیں اور پشیمان ہوجاتے ہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے پریشان ہیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ہے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ہوجانے والی لہریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔
خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ہے جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ہونے کے لئے ایک موثر قدم ہے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں: < لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِن لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا> ”ان کو گھروں سے نہ نکالو تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ہوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پہلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ہوجاتا ہے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ہے۔

عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ
عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ یہ صحیح ہے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ عورت حاملہ ہونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ہے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ہے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ہوجائے، تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اپنے گزشتہ شوہر سے حاملہ نہیں ہے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔(2)
________________________________________
(1)سورہٴ بقرہ ، آیت۲۲۸
(2) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۰۶

۸۳۔ غنا؛ کیا ہے اور اس کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟
غنا (گانا) کی حرمت میں کوئی خاص مشکل نہیں ہے ، صرف موضوعِ غنا کو معین کرنا مشکل ہے۔
آیا ہر خوش آواز اور مترنم لہجہ غنا ہے؟
مسلّم طور پر ایسا نہیں ہے، کیونکہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے اور مسلمین کی سیرت اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ قرآن اور اذان وغیرہ کو بہترین آواز اور خوش لہجہ میں پڑھا جائے۔
کیا ہر وہ آواز جس میں ”ترجیع“ (گٹگری) یعنی آواز کا اتار چڑھاؤ پایا جاتا ہو، وہ غنا ہے؟ یہ بھی ثابت نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں شیعہ اور اہل سنت کے فقہا کے بیان سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ غنا، طرب انگیز آواز اور لہو باطل ہے۔
واضح الفاظ میں یوں کہا جائے: غنا اس آہنگ اور طرز کو کہا جاتا ہے جو فسق و فجور اور گناہگاروں، عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مطابقت رکھتا ہو۔
یا اس کے لئے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ غنا اس آواز اور طرز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کی شہوانی طاقت ہیجان میں آجائے، اور انسان اس حال میں احساس کرے کہ اگر اس طرز اور آواز کے ساتھ شراب اور جنسی لذت بھی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا!۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کبھی ایک ”آہنگ“ اور ”طرز“ خود بھی غنا اور لہو و باطل ہوتا ہے اور اس کے الفاظ اور مفہوم بھی، اس لحاظ سے عاشقانہ فتنہ انگیز اشعار کو مطرب طرز میں پڑھا جاتا ہے، لیکن کبھی صرف آہنگ اور طرز غنا ہوتا ہے لیکن اشعار یا قرآنی آیات یا دعا اور مناجات کو ایسی طرز سے پڑھیں جو عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مناسب ہے، لہٰذا یہ دونوں صورتیں حرام ہیں۔ (غور کیجئے )
اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ غنا کے سلسلہ میں دو معنی بیان کئے گئے ہیں: ”عام معنی“ ، ”خاص معنی“ ، معنی خاص وہی ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں یعنی شہوانی طاقت کو ہیجان میں لانے والی اور فسق و فجور کی محافل کے موافق طرز اور آواز ۔
لیکن عام معنی : ہر بہترین آواز کو غنا کہتے ہیں، لہٰذا جن حضرات نے غنا کے عام معنی کئے ہیں انھوں نے غنا کی دو قسمیں کی ہیں، ”حلال غنا “، ”حرام غنا “۔
حرام غنا سے مراد وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور حلال غنا سے ہر وہ دلکش اور بہترین آواز ہے جو مفسدہ انگیز نہ ہو اور محافل فسق و فجور سے مناسبت نہ رکھتی ہو۔
اس بنا پر غنا کی حرمت تقریباً اختلافی نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی میں اختلاف ہے۔
اگرچہ ”غنا“ کے کچھ مشکوک موارد بھی ہیں (دوسرے تمام مفاہیم کی طرح) جس میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں طرز یا فلاں آواز فسق و فجور کی محفلوں سے مناسبت رکھتی ہے یا نہیں؟ اس صورت میں یہ آواز ”اصل برائت“ (1) کے تحت جواز کا حکم رکھتی ہے (البتہ غنا کی مذکورہ تعریف کے پیش نظر اس کے مفہوم سے کافی معلومات کے بعد)
(1) یہ قاعدہ علم اصول میں ثابت ہے کہ اگر کسی کام کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو تو اصل برائت جاری کی جائے گی یعنی وہ کام جائز ہے۔ (مترجم)
یہیں سے یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ وہ رزمیہ ترانہ جو میدان جنگ اور ورزش کے وقت مخصوص آہنگ و آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
البتہ غنا کے سلسلہ میں دوسری بحثیں بھی پائی جاتی ہیں جیسے غنا سے کیا کیا مستثنیٰ ہیں؟ اس سلسلہ میں کہ کس نے کس کو قبول کیا ہے اور کس نے کس کا انکار کیا ہے، فقہی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔
یہاں پر جس آخری بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ اوپر بیان کیا ہے وہ پڑھنے سے متعلق ہے، لیکن موسیقی کے آلات اور ساز و سامان کی حرمت کے بارے میں دوسری بحث ہے جس کا ہماری بحث سے تعلق نہیں ہے۔

حرمت غنا کا فلسفہ
مذکورہ شرائط کے ساتھ ”غنا“ کے معنی اور مفہوم میں غور و فکر کرنے سے غنا کی حرمت کا فلسفہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔
ہم یہاں پر ایک مختصر تحقیق کی بنا پر اس کے مفاسد اور نقصانات کو بیان کرتے ہیں:

الف: برائیوں کی طرف رغبت
تجربات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں (اور تجربات بہترین شاہد اور گواہ ہوتے ہیں) کہ غنا (یعنی ناچ گانے) سے متاثر ہونے والے افراد تقویٰ اور پرہیزگاری کی راہ کو ترک کرکے جنسی بے راہ روی کے اسیر ہوگئے ہیں۔
غنا کی محفلیں عام طور پر فساد کے مرکز ہوتی ہیں، یعنی اکثر گناہوں اور بدکاریوں کی جڑ یہی غنا اور ناچ گانا ہوتا ہے۔
بیرونی جرائد کی بعض رپورٹوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ ایک پروگرام میں لڑکے اور لڑکیاں شریک تھیں وہاں ناچ گانے کا ایک مخصوص ”شو“ ہوا جس کی بنا پر لڑکوں اور لڑکیوں میں اس قدر ہیجان پیدا ہوا کہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئے اور ایسے واقعات پیش آئے جن کے ذکر کرنے سے قلم کو شرم آتی ہے۔
تفسیر ”روح المعانی“ میں ”بنی امیہ“ کے ایک عہدہ دار کے حوالہ سے نقل ہوا ہے جو کہتا تھا: غنا اور ناچ گانے سے پرہیز کرو، کیونکہ اس سے حیا کم ہوتی ہے، شہوت میں اضافہ ہوتا ہے، انسان کی شخصیت پامال ہوتی ہے، اور (یہ ناچ گانا) شراب کا جانشین ہوتا ہے، کیونکہ ایسا شخص وہ سب کام کرتا ہے جو ایک مست انسان (شراب کے نشہ میں) انجام دیتا ہے۔(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بھی ناچ گانے کے فسادات اور نقصانات سے واقف تھے۔اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایات میں بارہا بیان ہوا ہے کہ ناچ گانے کے ذریعہ انسان کے دل میں روحِ نفاق پرورش پاتی ہے، تو یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے، روح نفاق وہی گناہوں اور برائیوں سے آلودہ ہونا اور تقویٰ و پرہیزگاری سے دوری کا نام ہے۔
نیز اگر روایات میں بیان ہوا ہے کہ جس گھر میں غنا اور ناچ گانا ہوتا ہے اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے تو یہ بھی انھیں فسادات سے آلودگی کی وجہ سے ہے کیونکہ فرشتے پاک و پاکیزہ ہیں اور پاکیزگی کے طالب ہیں نیز آلودہ فضا سے بیزار ہیں۔

ب: یاد خدا سے غفلت
بعض اسلامی روایات میں ”غنا“ کے معنی میں ”لہو “ کا استعمال ہونے والا لفظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان اتنا مست ہوجاتا ہے کہ یاد خداسے غافل ہوجاتا ہے۔
حضرت امام علی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”کل ما الہی عن ذکر الله فہو من المیسر“ (1)(یاد خدا سے غافل کرنے والی (اور شہوت میں غرق کرنے والی) ہر چیز جوے کا حکم رکھتی ہے۔

ج۔ اعصاب کے لئے نقصان دہ آثار
غنا اور ناچ گانا نیز موسیقی، در اصل انسانی اعصاب کے نشہ کے عوامل میں سے ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ نشہ کبھی منھ کے ذریعہ انسان کے بدن میں پہنچتا ہے (جیسے شراب)
اور کبھی حس شامہ اور سونگھنے سے ہوتا ہے (جیسے ہیروئن)
اور کبھی انجکشن کے ذریعہ ہوتا ہے (جیسے مرفین)
اور کبھی حس سامعہ یعنی کانوں کے ذریعہ نشہ ہوتا ہے (جیسے غنا اور موسیقی)
اسی وجہ سے کبھی کبھی غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان بہت زیادہ مست ہوجاتا ہے، اگرچہ کبھی اس حد تک نہیں پہنچتا لیکن پھر بھی نشہ کا تھوڑا بہت اثر ہوتا ہے۔
اور اسی وجہ سے غنا میں نشہ کے بہت سے مفاسد موجود ہیں چاہے اس کا نشہ کم ہو یا زیادہ۔
” اگر مشہور موسیقی داں افراد کی زندگی پر دقیق توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی عمر میں نفسیاتی مشکلات میں گرفتار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اعصاب جواب دے دیتے ہیں، اور بہت سے افراد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بعض لوگ اپنی عقل و شعور کھو بیٹھتے ہیں اور پاگل خانوں کے مہمان بن جاتے ہیں، بعض لوگ مفلوج اور ناتواں ہوجاتے ہیں، یہاں تک بعض لوگوں کا موسیقی کا پروگرام کرتے ہوئے بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے اور وہ موقع پر ہی دم توڑ جاتے ہیں“۔(2)
مختصر یہ کہ غنا اور موسیقی کے آثار جنون کی حد تک ، بلڈ پریشر کا بڑھنا اور دوسرے خطرناک آثار اس درجہ ہیں کہ اس کے بیان کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
عصر حاضر میں ناگہانی اموات کے سلسلہ میں ہونے والے اعداد و شمار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گزشتہ کی بنسبت اس زمانہ میں ناگہانی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں ان میں سے ایک وجہ یہی عالمی پیمانہ پر غنا اور موسیقی کی زیادتی ہے۔
د۔ غنا ،استعمار کا ایک حربہ عالمی پیمانہ پر استعمار ،عام لوگوں خصوصاً نسل جوان کی بیداری سے خوف زدہ ہے، اسی وجہ سے استعمار کے پاس اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی منصوبہ بندی ہے کہ جس سے مختلف قوموں کوجہالت اور غفلت میں رکھنے کے لئے غلط سرگرمیوں کو رائج کرے۔
عصر حاضر میں منشیات صرف تجارتی پہلو نہیں رکھتی، بلکہ ایک اہم سیاسی حربہ ہے یعنی استعمار کی ایک اہم سیاست ہے، فحاشی کے اڈّے، جوے خانے اور دوسری غلط سرگرمی، منجملہ غنا اور موسیقی کو وسیع پیمانہ پر رائج کرنا استعمار کا ایک اہم ترین حربہ ہے، تاکہ عام لوگوں کے افکار کو منحرف کردیں، اسی وجہ سے دنیا بھر کی ریڈیو سرویسوں میں زیادہ تر موسیقی ہوتی ہے، اسی طرح ٹیلی ویژن وغیرہ میں بھی موسیقی کی بھر مار ہے۔(3)
________________________________________
(1) تفسیر روح المعانی ، جلد ۲۱، صفحہ ۶۰
(2) تاثیر موسیقی بر روان و اعصاب، صفحہ ۲۶
(3)تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷ صفحہ ۲۲

۸۴۔ زنا کی حرمت کا فلسفہ کیا ہے؟
۱۔ زنا کے ذریعہ خاندانی نظام درہم و برہم ہوجاتاہے، ماں باپ اوراولادکے درمےان رابطہ ختم ہوجاتاہے جبکہ یہ وہ رابطہ ہے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ہے بلکہ خود اولاد کی نشو ونما کا موجب بھی ہے، یہی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ہے اور انہیں دوام بخشتاہے۔
المختصر : جس معاشرے میںغیر شرعی اور بے باپ کی او لاد زیادہ ہواس کے اجتماعی روابط سخت متزلزل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ہی ہوتے ہیں۔
اس مسئلہ کی اہمیت سمجھنے کے لئے ایک لمحہ اس بات پر غور کرنا کافی ہے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ہوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر معین اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ہوگی، اس اولاد کو کسی کی مدد اور سر پرستی حاصل نہ ہوگی، اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا اور نہ بڑا ہونے کے بعد۔
اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور مشکلات میں محبت کی تاثیر تسلیم شدہ ہے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے بالکل محروم ہوجائے گی، اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پہلوؤں سے حیوانی زندگی کی شکل اختیار کرلے گا۔
۲۔ یہ شرمناک اور قبیح عمل ہوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکش کا باعث ہوگا، وہ واقعات جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ہیں ان سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی بے راہ روی بدترین جرائم کو جنم دیتی ہے۔
۳۔ یہ بات علم اور تجربہ نے ثابت کردی ہے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتا ہے، چنانچہ اسی بنا پر اس کے بُرے نتائج کی روک تھا م کے لئے آج کے دور میں بہت سے اداروں کی بنا رکھی گئی ہے اور بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود اعداد وشمار نشاندہی کرتے ہیں بہت سے افراد اس راستہ میں اپنی صحت و سلامتی کھو بیٹھے ہیں۔
۴۔ اکثر اوقات یہ عمل اسقاط حمل، قتل ِ اولاد اور نسل کے قطع ہونے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ایسی عورتیں ایسی اولاد کی نگرانی کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتیں، اصولاً اولاد ان کے لئے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے، لہٰذا وہ ہمیشہ اسے پہلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ فرضیہ بالکل خیال خام ہے کہ ایسی اولاد حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں میں رکھی جاسکتی ہے کیو نکہ اس فرض کی ناکامی عملی طور پر واضح ہوچکی ہے اور ثابت ہوچکا ہے کہ اس صورت میں بن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ہے، اور نتیجتاً بہت ہی نامطلوب اور غیر پسندیدہ ہے، ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ہر چیز سے عاری ہوتی ہے۔
۵۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مشترکہ زندگی کی تشکیل ، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرنا شادی کے نتائج میں سے ہیں، اور ایسا بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے مخصوص ہوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ہوں۔
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں: ”میں نے پیغمبر اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: زنا کے چھ بُرے اثرات ہیں، ان میں سے تین دنیا سے متعلق ہیں اور تین آخرت سے:
دنیاوی برے اثراث یہ ہیں کہ یہ عمل ،انسان کی نورانیت کو چھین لیتا ہے، روزی منقطع کردیتا ہے اور موت کو نزدیک کر دیتا ہے۔
اور اُخروی آثار یہ ہیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب ، حساب و کتاب میں سختی اور آتش جہنم میں داخل ہونے (یا اس میں دوام) کا سبب بنتا ہے۔(1)(2)
________________________________________
(1)مجمع البیان ، جلد ۶، صفحہ ۴۱۴
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۰۳