۷۹۔ پردہ کا فلسفہ کیا ہے؟
بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔
لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔
البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟!
بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟!
اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔
اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔
فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ:
۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی،یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ”کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا“!
ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟!
اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔
۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ”ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“ انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔
جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔
لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔
۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔
فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔
جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔
تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔
۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہواو ہوس پوری کرنے کے آلہٴ کار میں بدل جائے گی!۔
ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟!
واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حجاب کے مخالفین کے اعتراضات
(قارئین کرام!) ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:
۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔
لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ:
اولاً : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
مختصر یہ کہ موجودہ حالات خوداس اعتراض کا دندان شکن جواب ہیں، اگرچہ ہم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ”امکان“ کی باتیں کرتے تھے (یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ہیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رہے ہیں، اور فلاسفہ کا کہنا ہے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ہونا ہے، یہ بات خود آشکار ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ثانیاً: اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ہوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نہیں ہے؟
جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نہیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اہمیت سے بے خبر ہیں، ان لوگوں کا گمان ہے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاہوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھادیں۔
وہ لوگ اس چیز سے غافل ہیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اہمیت درہم و برہم ہوجاتی ہے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نہیں ہوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ہوگا۔
۲۔ پردہ کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پردہ کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نہیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ہے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو ، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رہے؟!۔
لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ہیں کہ حجاب ہمیشہ برقع یاچادر کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ہے اگر چادر سے پردہ ہوسکتا ہو تو بہتر ہے ورنہ اگر امکان نہیں ہے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے (یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں)
ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا پردہ با قی رکھتے ہو ئے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ ایک بستی کی رہنے والی عورت اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے بہت سے اہم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
۳۔ ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ہوجاتا ہے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ہے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ہوتے ہیں کیونکہ ”الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ“!( جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی طرف مزید دوڑتا ہے) اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ آج کے معاشرہ کا شاہ کے زمانہ سے موازنہ کیا جائے آج ہر ادارہ میں پردہ حکم فرما ہے، اور شاہ کے زمانہ میں عورتوں کو پردہ کرنے سے روکا جاتا تھا۔
اس زمانہ میں ہر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ہی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ہوگئی ہیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ہوئی ہے، ہمارے معاشرہ میں بہت سدھار آیا ہے اور اگر فضل خدا شامل حال رہا اور یہی حالات باقی رہے اور دوسری مشکلات بر طرف ہو گئی تو ہمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ہوجائے گا اور عورت کی اہمیت اجاگر ہوتی جائے گی۔(1)
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۴۴۲
۸۰۔ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر کیوں ہے؟
اگرچہ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر ہے ، لیکن اگر غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے دو برابر ہے! اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حمایت کی ہے۔
وضاحت: اسلام نے مرد کے کاندھوں پر ایسی ذمہ داری رکھی ہے جس سے اس کی در آمد کا آدھا حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ عورتوں کے ذمہ کوئی خرچ نہیں ہے،چنا نچہ ایک شوہر پر واجب ہے کہ اپنی زوجہ کو ؛ مکان، لباس، کھانا اور دوسری چیزوں کا خرچ ادا کرے، اور اپنے بچوں کا خرچ بھی اسی کی گردن پر ہے، جبکہ عورتوں پر کسی طرح کا کوئی خرچ نہیں ہے یہاں تک کہ اپنا ذاتی خرچ بھی اس کے ذمہ نہیں ہے، لہٰذا ایک عورت میراث سے اپنا پورا حصہ بچا کر بینک میں رکھ سکتی ہے، جبکہ مرد اپنے حصہ کو بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مرد کی آمدنی کا آدھا حصہ اہل و عیال پر خرچ ہوگا، اور آدھا اس کے لئے باقی رہے گا، جبکہ عورت کا حصہ اسی طرح محفوظ رہے گا۔
یہ مسئلہ وا ضح ہو نے کے لئے اس مثال پر توجہ کریں: فرض کریں کہ پوری دنیا کا مال و دولت ۳۰ / ارب روپیہ ہے، جو میراث کے عنوان سے مردووں اور عورتوں میں تقسیم ہونا ہے، تو اس میں ۲۰/ ارب مردوں کا اور ۱۰/ ارب عورتوں کا حصہ ہوگا، لیکن عورتیں عام طور پر شادی کرتی ہیں اور ان کی زندگی کا خرچ مردوں کے ذمہ ہوتا ہے، تو اس صورت میں عورتیں اپنے ۱۰/ ارب کو بینک میں جمع کر سکتی ہیں، اور عملی طور پر مردوں کے حصہ میں شریک ہوتی ہیں، کیونکہ خود ان پر اور بچوں پر بھی مرد ہی کا حصہ خرچ ہوگا۔ اس بنا پر حقیقت میں مردوں کا آدھا حصہ یعنی ۱۰/ ارب عورتوں پر خرچ ہوگا، اور وہ دس ارب جو ان کے پاس محفوظ ہے سب ملاکر ۲۰/ ارب (یعنی دو تہائی) عو رتوں کے اختیار میں ہوگا، جبکہ عملی طور پر مردوں کے خرچ کے لئے صرف دس ارب ہی باقی رہے گا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کا حقیقی خرچ اور فائدہ کے لحاظ سے مردوں کے دو برابر ہے، اور یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ ان کے یہاں کاروبار کرنے کی قدرت کم پائی جاتی ہے، اور یہ ایک طرح سے منطقی اور عادلانہ حمایت ہے جس پر اسلام نے عورتوں کے لئے توجہ دی ہے، حقیقت میں ان کا حصہ زیادہ رکھا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر ان کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا ہے۔
اسلامی روایات کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ سوال پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے لوگوں کے ذہن میں موجود تھا جس کی بنا پر دینی رہبروں سے یہ سوال ہوتا رہا ہے، اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا ہے جن میں سے اکثر کا مضمون ایک ہی ہے، اور وہ جواب یہ ہے: ”خداوندعالم نے زندگی کا خرچ اور مہر مرد کے ذمہ رکھا ہے، اسی وجہ سے ان کا حصہ زیادہ قرار دیا ہے“۔
کتاب ”معانی الاخبار“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کے حصہ سے آدھا اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ عورت جب شادی کرتی ہے تو وہ مہر لیتی ہے اور مرد دیتا ہے، اس کے علاوہ بیوی کا خرچ شوہر پر ہے، جبکہ عورت خود اپنی اور شوہر کی زندگی کے خرچ کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتی“۔(1)
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۲۹۰
۸۱۔ فلسفہ متعہ کیا ہے؟
یہ ایک عام اور کلی قانون ہے کہ اگر انسان کی طبیعی خواہشات صحیح طریقہ سے پوری نہ ہوں تو پھر اس کو پورا کرنے کے لئے غلط راستہ اپنانا پڑتا ہے، کیونکہ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طبیعی خواہشات کا گلا نہیں گھوٹا جاسکتا ، اور اگر بالفرض ایسا کربھی لیا جائے تو ایسا کام عقلی نہیں ہے، کیونکہ یہ کام ایک طرح سے قانونِ خلقت سے جنگ ہے۔
اس بنا پر صحیح راستہ یہ ہے کہ اس کو معقول طریقہ سے پورا کیا جائے اور اس سے زندگی بہتربنانے کے لئے فائدہ اٹھایا جائے۔
اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنسی خواہش انسان کی بہت بڑی خواہش ہوتی ہے، یہاں تک کہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جنسی خواہش ہی انسان کی اصل خواہش ہوتی ہے اور باقی دوسری خواہشات کی بازگشت اسی طرف ہوتی ہیں۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے مواقع ایسے ہیں جن میں انسان خاص عمر میں شادی نہیں کرسکتا، یا شادی شدہ انسان طولانی سفر میں یہ جنسی خواہش پوری نہیں کرسکتا۔
یہ موضوع خصوصاً ہمارے زمانہ میں تعلیم کی مدت طولانی ہونے کے سبب اور بعض دیگرمسائل اور مشکلات کی بنا پر شادی دیر سے ہوتی ہے، اور بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو جوانی کے شروع اور اس خواہش کے شباب کے وقت شادی کرسکتے ہیں، لہٰذا یہ مسئلہ بہت مشکل بن گیا ہے۔ اس موقع پر کیا کیا جائے؟ کیاایسے مواقع پر لوگوں کی اس خواہش کا (راہبوں کی طرح) گلا گھوٹ دیا جائے ؟ یا یہ کہ ان کو جنسی آزادی دے دی جائے اور عصر حاضر کی شرمناک حالت کو ان کے لئے جائز سمجھ لیا جائے؟
یاایک تیسرا راستہ اپنایا جائے جس میں نہ شادی جیسی مشکلات ہوں اور نہ ہی جنسی آزادی؟
المختصر: ”دائمی ازدواج“ (شادی) نہ گزشتہ زمانہ میں تمام لوگوں کی اس خواہش کا جواب بن سکتی تھی اور نہ آج، اور ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں، یا ”فحاشی“ کو جائز مان لیں، (جیسا کہ مغربی ممالک میں آج کل رسمی طور پر صحیح مانا جارہا ہے) یا ”وقتی ازواج“ (یعنی متعہ)کوقبول کریں، معلوم نہیں ہے جو لوگ متعہ کے مخالف ہیں انھوں نے اس سوال کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے؟!
متعہ کا مسئلہ نہ تو شادی جیسی مشکلات رکھتا ہے کہ انسان کو اقتصادی یا تعلیمی مسائل اجازت نہیں دیتے کہ فوراً شادی کرلے اور نہ ہی اس میںفحاشی کے درد ناک حادثات پیش آتے ہیں۔
متعہ پر ہونے والے اعتراضات
ہم یہاں متعہ کے سلسلہ میں کئے گئے کچھ اعتراضات کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں:
۱۔ کبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ”متعہ“ اور ”فحاشی“ میں کیا فرق ہے؟ دونوں ایک خاص مَبلَغ کے عوض”جسم فروشی“ ہی توہیں، در اصل یہ تو فحاشی اور جنس بازی کے لئے ایک نقاب ہے ، صرف ان دونوں میں چند صیغوں کا فرق ہے!!۔
جواب: ان لو گوں کے اعتراض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ متعہ کے سلسلہ میں معلومات نہیں رکھتے، کیونکہ متعہ صرف دو جملہ کہنے سے تمام نہیں ہوتابلکہ بعض قوانین، شادی کی طرح ہوتے ہیں، یعنی ایسی عورت متعہ کی مدت میں صرف اسی مرد سے مخصوص ہے، اور مدت تمام ہونے کے بعد عدہ رکھنا ضروری ہے یعنی کم سے کم ۴۵ دن تک کسی دوسرے سے شادی یا متعہ نہیں کرسکتی، تاکہ اگر پہلے شوہر سے حاملہ ہوگئی ہے توواضح ہوجائے، یہاں تک کہ اگر مانعِ حمل چیزیں استعمال کی ہوں تو اس مدت کی رعایت کرنا واجب ہے، اور اگر اس مرد سے حاملہ ہوگئی ہے تو یہ بچہ اس مرد کا ہوگا اور اولاد کے تمام مسائل اس پر نافذ ہوں گے، جبکہ فحاشی میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے، پس معلوم یہ ہوا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
اگرچہ (میاں بیوی کے درمیان) میراث ، خرچ اور دوسرے احکام میں شادی اور متعہ میں فرق پایا جاتا ہے، (1)لیکن اس فرق کی وجہ سے متعہ کو فحاشی کی صف میں قرار نہیں دیا جاسکتا، بہر حال یہ بھی شادی کی ایک قسم ہے اور شادی کے متعدد قوانین اس پر نافذ ہوتے ہیں۔
۲۔ متعہ پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس قانون کے پیچھے بہت سے عیاش لوگ غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور متعہ کی آڑ میں ہر طرح کی فحاشی کرسکتے ہیں، جبکہ اس کی اجازت نہ ہونے کی صورت میں بعض شریف انسان متعہ سے دور رہتے ہیں، اور شریف خواتین اس سے پرہیز کرتی ہیں۔
جواب: دنیا میں کس قانون سے غلط فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے؟ کیا ہر فطری قانون کو اس لئے ختم کردیا جائے کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جارہا ہے! ہمیں غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکنا چاہئے۔
مثال کے طور پر اگر بہت سے لوگ حج کے موقع سے غلط فائدہ اٹھانا چاہیں (جیسا کہ دیکھا گیا ہے) اور اس مبارک سفر میں منشیات کی تجارت کے لئے جائیں، تو کیا اس صورت میں لوگوں کو حج سے روکا جائے یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکا جائے؟!
(1) اسلام کا یہ مسئلہ ہے کہ متعہ سے پیدا ہونے والے بچوں کے احکام شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کی طرح ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتاور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج شریف انسان اس اسلامی قانون سے پرہیز کرتے ہیں، تو یہ قانون کا نقص نہیں ہے بلکہ قانون پر عمل کرنے والوں یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کا نقص ہے، اگر آج ہمارے معاشرہ میں صحیح طریقہ پر متعہ کا رواج ہوجائے اور اسلامی حکومت خاص قوانین کے تحت اس سلسلہ میںصحیح منصوبہ بندی کرے ، تو اس صورت میں غلط فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام ہوسکتی ہے (اور ضرورت کے وقت ) شریف لوگ بھی اس سے کراہت نہیں کریں گے۔
۳۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں: متعہ کی وجہ سے معاشرہ میں (ناجائز بچوں کی طرح) بے سرپرست بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔
جواب: ہماری مذکورہ گفتگو مکمل طور پر اس اعتراض کا جواب ہے، کیونکہ ناجائز بچے قانونی لحاظ سے نہ باپ سے ملحق ہیں اور نہ ماں سے، جبکہ متعہ کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچوں میں میراث اور اجتماعی حقوق کے لحاظ سے شادی سے پیدا ہونے والے بچوں سے کوئی فرق نہیں ہے، گویا اس حقیقت پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ اعتراض کیا گیا ہے۔
”راسل“ اور ”وقتی شادی“
آخر کلام میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی یاد دہانی کرادی جائے کہ مشہور و معروف انگریزی دانشور ”برٹرانڈ راسل “ کتاب ”زنا شوئی و اخلاق“ میں ”آزمائشی شادی“ کے عنوان سے اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
وہ ایک جج بنام ” بن بی لینڈسی“ کی تجویز ”دوستانہ شادی“ یا ”آزمائشی شادی“ کا ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے:
جج صاحب موصوف کی تجویز کے مطابق جوانوں کو یہ اختیار ملنا چاہئے کہ ایک نئی قسم کی شادی کرسکیں جو عام شادی (دائمی نکاح) سے تین امور میں مختلف ہو:
الف: طرفین کا مقصد صاحب اولاد ہونا نہ ہو، اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ انھیں حمل روکنے کے طریقہ سکھائے جائیں۔
ب۔ ان کی جدائی آسانی کے ساتھ ہوسکے۔
ج۔ طلاق کے بعد عورت کسی قسم کا نان و نفقہ کا حق نہ رکھتی ہو۔
راسل جج لینڈسی کا مقصد بیان کرنے کے بعد کہتا ہے: ”میرا خیال ہے کہ اس قسم کی شادی کو قانونی حیثیت دے دی جائے تو بہت سے نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم وقتی نکاح پر تیار ہوجائیں گے اور وقتی مشترک زندگی میں قدم رکھیں گے، ایسی زندگی سے جو ان کی آزادی کا سبب بنے، تو اس طرح معاشرہ کی بہت سی خرابیوں، لڑائی جھگڑوں خصوصاً جنسی بے راہ روی سے نجات مل جائے گی۔(1)
بہر حال جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ وقتی شادی کے بارے میں مذکورہ تجویز کس لحاظ سے اسلامی حکم کی طرح ہے، لیکن جو شرائط اور خصوصیات اسلام نے وقتی شادی کے لئے تجویز کی ہیں وہ کئی لحاظ سے زیادہ واضح اور مکمل ہیں، اسلامی وقتی شادی میں اولاد نہ ہونے کو ممنوع نہیں کیا گیا ہے اور فریقین کا ایک دوسرے سے جدا ہونا بھی آسان ہے، جدائی کے بعد نان و نفقہ بھی نہیں ہے۔(2)
متعہ کی تاریخی حیثیت
علمائے اسلام کا اتفاق ہے بلکہ دین کے ضروری احکام میں سے ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں ”متعہ“ تھا، (اور سورہ نساء کی آیہٴ شریفہ <فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ
اٴُجُورَہُنَّ فَرِیضَة>(3) متعہ کے جواز پر دلیل ہے ، کیونکہ مخالف اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ متعہ کا جواز سنت پیغمبر سے ثابت ہے) یہاں تک صدر اسلام میں مسلمان اس پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عمر کا یہ مشہور و معروف قول مختلف کتابوں میں ملتا ہے : ”مُتْعَتَانِ کَانَتَا عَلَی عَھْدِ رَسُولِ الله وَاٴنَا اُحرِّمُھُمَا وَ مُعَاقِب عَلَیْھِمَا: مُتعَةُ النِّسَاءِ وَ مُتْعَةُ الحجِّ“(4)”دو متعہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں رائج تھے اور میں ان کو حرام قرار دیتا ہوں، اورانجام دینے والوں کو سزا دوں گا، متعة النساء اور حج تمتع (جو حج کی ایک خاص قسم ہے)، چنانچہ حضرت عمر کا یہ قول اس بات کی واضح دلیل ہے کہ متعہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں ہوتا تھا، لیکن اس حکم کے مخالف کہتے ہیں کہ یہ حکم بعد میں نسخ ہوگیا ہے اور حرام قرار دیا گیا ہے۔
لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ جن روایات کو ”حکم متعہ کے نسخ“ کے لئے دلیل قرار دیا جاتا ہے ان میں بہت اختلا ف پایا جا تا ہے، چنانچہ بعض روایات کہتی ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) نے اس حکم کو نسخ کیا ہے، لہٰذا اس حکم کی ناسخ خود پیغمبر اکرم (ص) کی سنت اور حدیث ہے، بعض کہتی ہیں کہ اس حکم کی ناسخ سورہ طلاق کی درج ذیل آیت ہے:
< إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاٴَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ>(5)
”جب تم لو گ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو“۔
حالانکہ اس آیہٴ شریفہ کا محل بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس آیت میں طلاق کی گفتگو ہے، جبکہ متعہ میں طلاق نہیں ہوتی متعہ میں مدت ختم ہونے سے جدائی ہوجاتی ہے۔
یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں متعہ قطعی طور پر پایا جاتا تھا، اور اس کے نسخ ہونے پر کوئی محکم دلیل ہمارے پاس نہیں ہے، لہٰذا علم اصول کے قانون کے مطابق اس حکم کے باقی رہنے پر حکم کیا جائے گا، (جسے علم اصول کی اصطلاح میں استصحاب کہا جاتا ہے)۔
حضرت عمر سے منقول جملہ بھی اس حقیقت پر واضح دلیل ہے کہ متعہ کا حکم پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں نسخ نہیں ہوا تھا۔
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے علاوہ کوئی بھی شخص احکام کو نسخ کرنے کا حق نہیں رکھتا، اور صرف آنحضرت (ص) کی ذات مبارک ہی حکم خدا کے ذریعہ بعض احکام کو نسخ کرسکتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد باب نسخ بالکل بند ہوچکا ہے ، اور اگر کوئی اپنے اجتہاد کے ذریعہ بعض احکام کو منسوخ کرے تو پھر اس دائمی شریعت میں کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ، اور اصولی طور پر پیغمبر اکرم (ص) کی گفتگو کے مقابل اجتہاد کرے تو یہ ”اجتہاد مقابلِ نص“ ہوگا جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ صحیح ترمذی جو اہل سنت کی مشہور صحیح ترین کتابوں میں سے ہے،اور”دار قطنی“ (66) میں تحریر ہے: ”ایک شامی شخص نے عبد اللہ بن عمر سے”حج تمتع“ کے بارے میں سوال کیا توعبد اللہ بن عمر نے کہا: یہ کام جائز اور بہتر ہے ، اس شامی نے کہا: تمہارے باپ نے اس کو ممنوع قراردیا ہے، تو عبداللہ بن عمر بہت ناراض ہوئے اور کہا: اگر میرا باپ کسی کام سے نہی کرے، جبکہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس کی اجازت دی ہو تو کیا تم لوگ سنت پیغمبر کو چھوڑ کر میرے باپ کی پیروی کروگے؟ یہاں سے چلے جاؤ۔(7)
متعہ کے سلسلہ میں اسی طرح کی روایت”عبد اللہ بن عمر “ سے صحیح ترمذی میں بھی نقل ہوئی ہے، 8)
اور ”محاضرات“ راغب سے نقل ہوا ہے کہ ایک مسلمان نے متعہ کیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ اس کام کے جوازکا حکم کس سے حاصل کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ”عمر“ سے! لوگوں نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جبکہ خود عمر نے اس کام سے روکا ہے یہاں تک کہ انجام دینے والے کے لئے سزا کا وعدہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ٹھیک ہے، میں بھی تو اسی وجہ سے کہتا ہوں، کیونکہ عمر نے کہا: پیغمبر اکرم (ص)نے اس کو حلال کیا تھالیکن میں اس کو حرام کرتا ہوں، میں نے اس کا جواز پیغمبر اکرم (ص) سے لیا، لیکن اس کی حرمت کسی سے قبول نہیں کروں گا!(9)
یہاں پر اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ اس حکم کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی متضاد بیانات رکھتے ہیں اور تناقض اور تضاد گوئی کے شکار نظر آتے ہیں:
اہل سنت کی معتبر کتابوں میں متعدد روایات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ یہ حکم پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں ہرگز منسوخ نہیں ہوا تھا، بلکہ عمر نے اس کو ممنو ع قرار دیاہے، لہٰذا اس حکم کو
(1) ”متعہ ٴ حج“ سے مراد جس کو عمر نے حرام قرار دیا تھا یہ ہے کہ اس حج تمتع سے قطع نظر کی جائے ، حج تمتع یہ ہے کہ انسان حج کے لئے جاتا ہے تو پہلے محرم ہوتا ہے اور ”عمرہ“ انجام دینے کے بعد احرام سے آزاد ہوجاتا ہے(اور اس کے لئے حالت احرام کی حرام چیزیں یہاں تک کہ ہمبستری بھی جائز ہوجاتی ہے) اور اس کے بعد دوبارہ حج کے دوسرے اعمال نویں ذی الحجہ کو انجام دیتا ہے، دور جاہلیت میں اس کام کو صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا اور تعجب کیا جاتا تھا کہ جو شخص ایام حج میں مکہ معظمہ میں وارد ہوا ہو اور حج انجام دینے سے پہلے عمرہ بجالائے، اور اپنا احرام کھول دے، لیکن اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دیدی، اور سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۶ میں اس موضوع کی وضاحت فرمادی
منسوخ ماننے والی ان تمام روایات کا جواب دیں، ان روایات کی تعداد ۲۴ ہے، جن کو علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی نامور کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی جلد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے،ہم یہاں پر ان میں سے دو نمونے پیش کرتے ہیں:
۱۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا: ہم پیغمبر اکرم کے زمانہ میں بہت آسانی سے متعہ کرلیتے تھے، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عمر نے ”عمر بن حریث“ کے مسئلہ میں اس کام سے بالکل روک دیا۔(68)
۲۔ دوسری حدیث کتاب ”موطاٴ بن مالک“، ”سنن کبریٰ بیہقی“ اور ”عروہ بن زبیر“ سے نقل ہوئی ہے کہ ”خولہ بن حکیم“ نامی عورت حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دربار میں حاضر ہوئی اور اس نے خبر دی کہ مسلمانوں میں ایک شخص ”ربیعہ بن امیہ“ نامی نے متعہ کیا ہے، تو یہ سن کر حضرت عمر نے کہا: اگر پہلے سے اس کام کی نہی کی ہوتی تو اس کو سنگسار کردیتا ،(لیکن آج سے اس کام پر پابندی لگاتا ہوں!)(69)
کتاب بدایة المجتہد، تالیف ابن رشد اندلسی میں بھی تحریر ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں: ”پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اور ”ابوبکر“ کی خلافت اور”عمر“ کی آدھی خلافت تک متعہ پر عمل ہو تا تھا اس کے بعد عمر نے منع کردیا“۔(10)
دوسری مشکل یہ ہے کہ اس حکم کے منسوخ ہونے کی حکایت کرنے والی روایات میں ضد ونقیض باتیں ہیں، بعض کہتی ہیں: یہ حکم جنگ خیبر میں منسوخ ہوا ہے، بعض کہتی ہیں کہ ”روز فتح مکہ“
منسوخ ہوا اور بعض کہتی ہیں جنگ تبوک میں، نیز بعض کہتی ہیں کہ جنگ اوطاس میں منسوخ ہوا، لہٰذا ان تمام چیزوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام روایات جعلی ہیں جن میں اس قدر تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ہے۔
(قارئین کرام!) ہماری گفتگو سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ صاحب تفسیر المنار (دور حاضر کے سنی عالم ) کی گفتگو تعصب اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے، جیسا کہ موصوف کہتے ہیں: ”ہم نے پہلے تفسیر المنارکی تیسری اور چوتھی جلد میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ عمر نے متعہ سے منع کیا ہے لیکن بعد میں ایسی روایات ملی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ کا حکم خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں منسوخ ہوگیا تھا نہ کہ زمانہ عمر میں منسوخ ہوا، لہٰذا اپنی گزشتہ بات کی اصلاح کرتے ہیں اور اس سے استغفار کرتے ہیں“۔(10) یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟! کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں متعہ کا حکم منسوخ ہونے کی حکایت کرنے والی ضد و نقیض روایات کے مقابل ایسی روایات موجود ہیں جو اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ یہ حکم حضرت عمر کے زمانہ میں بھی تھا، لہٰذا نہ تو معافی کی گنجائش ہے اور نہ توبہ و استغفار کی ، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس معاصر کا پہلا نظریہ حقیقت ہے اور دوسرے نظریہ میں حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے!
یہ بات یونہی ظاہر ہے کہ نہ تو ”عمر“ اور نہ کوئی دوسرا شخص یہاں تک ائمہ معصومین علیہم السلام جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کے حقیقی جانشین ہیں، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں موجود احکام کو منسوخ کرے، اور اصولی طور پر آنحضرت (ص) کی وفات کے بعد اور وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد نسخ معنی نہیں رکھتا، اور جیسا کہ بعض لوگوں نے ”کلامِ عمر“ کو اجتہاد پر حمل کیا ہے کہ یہ حضرت عمر کا اجتہاد ہے، یہ بھی تعجب کا مقام ہے کیونکہ ”نص“ کے مقابلہ میں ”اجتہاد“ ممکن ہی نہیں۔(12)
________________________________________
(1) کتا ب زنا شوئی و اخلاق صفحہ ۱۸۹و ۱۹۰
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۴۱
3)سورہٴ نساء ، آیت ۲۴ ”جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت بطور فریضہ دے دے“۔
(4) کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۸، اور تفسیر قرطبی ، تفسیر طبری میں مذکورہ جملہ کے مانند تحریر نقل ہوئی ہے، نیز سنن بیہقی ، جلد ۷ کتاب نکاح میں بھی وہ جملہ ذکر ہوا ہے
(5) سورہ طلاق ، پہلی آیت
(6)تفسیر قرطبی ، جلد ۲ ، صفحہ ۷۶۲ ، سورہٴ بقرہ، آیت ۱۹۵ کے ذیل میں
(7) الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۰۶
(69)الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۱۰
(8) بدایة المجتہد ،کتاب النکاح
(9) شرح لمعہ ، جلد ۲ ،کتاب النکاح
(10) کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۹(حاشیہ)
(11)تفسیر المنار ، جلد ۵، صفحہ ۱۶ (12) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۳۷
|