۷۳ ۔ روزہ کا فلسفہ کیا ہے؟
روزہ کے مختلف پہلو ہیں اور انسان کے اندر مادی و معنوی لحاظ سے بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ”اخلاقی پہلو“ اور ”تربیتی فلسفہ“ ہے۔
روزہ کاسب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ انسان کی روح ”لطیف“،اور اس کی ”قوّت ارادی“ مضبوط ہوتی ہے اور خواہشات میں ”اعتدال“ پیدا ہوتا ہے۔
روزہ دار کو چاہئے کہ روزہ کے عالم میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بھی چشم پوشی کرے، اور عملی طور پر یہ ثابت کر دکھائے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کا اسیر نہیںہے، سرکش نفس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے اور ہوا وہوس اور شہوت و خواہشات اس کے کنٹرول میں ہے۔
در اصل روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے، جس انسان کے پاس کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود ہو ں جب اوراس کو بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ فوراً کھاپی لےتا ہے، بالکل ان درختوں کے مانند جو کسی نہر کے قریب ہوتے ہیں اور ہر وقت پانی سے سیراب ہوتے رہتے ہیں وہ نازپرور ہوتے ہیں یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرتے ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اگر انھیں چند دن تک پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہوجاتے ہیں۔
لیکن جنگل،بیابان اورپہاڑوں میں اگنے والے درخت ہمیشہ سخت طوفان، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریباں رہتے ہیں، لہٰذا ایسے درخت بادوام اور مستحکم ہوتے ہیں!!
روزہ بھی انسان کی روح و جان کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے، یہ وقتی پابندیوں کے ذریعہ انسان میں قوت ِدفاع اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلہ میں طاقت عطا کرتا ہے، چونکہ روزہ سرکش خواہشات اور انسانی جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہٰذا اس کے ذریعہ انسان کے دل پر نور و ضیا کی بارش ہوتی ہے، خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جاکر کھڑا کردیتا ہے، <لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ>(1)، (شاید تم پرہیزگار بن جاؤ) اس آیہٴ شر یفہ میںروزہ کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔
اس مشہور و معروف حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”الصُّومُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ“(2) (روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ایک ڈھال ہے)۔
ایک اور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:روزہ؛ شیطان کا منہ کالا کردیتا ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے خدا کے لئے محبت و دوستی نیز عملِ صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور توبہ و استغفار سے اس کے دل کی بھی رگ کٹ جاتی ہے۔(3)
نہج البلاغہ میں عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام روزہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وَالصِّیَامُ إبْتَلاَءُ لإخْلاَصِ الْخَلْقِ“(4) ”خداوندعالم نے روزہ کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں اخلاقی روح کی پرورش ہوسکے“۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لِلْجَنّة بَاباً یُدعی الرَّیَّان لَا یَدخُلُ فِیھَا إلاَّالصَّائِمُونَ“ (بہشت کے ایک دروازے کا نام ”ریان“ (یعنی سیراب کرنے والا) ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔)
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازہ کا انتخاب اس بنا پر ہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔(5)
روزہ کے معاشرتی اثرات
روزہ کا اجتماعی اور معاشرتی اثر کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، روزہ انسانی معاشرہ کے لئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضہ کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور معاشرہ کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکیں گے اور دوسری طرف شب و روز کی غذا میں کمی کرکے ان کی مدد کے لئے جلدی کریں گے۔
البتہ ممکن ہے کہ بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کرکے خداوندعالم صاحبِ قدرت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہواور اگر یہ معاملہ حسّی اور عینی پہلو اختیار کرلے تو اس کاایک دوسرا اثر
ہوتا ہے ،روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے، اس مشہور حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزہ کی علت اور سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے کہ غنی بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کردے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوجاتا ہے خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و غم کااحساس ہو جائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔(6)
روزہ کے طبی اثرات
طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک (کھانے پینے سے پرہیز) بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے، شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مبسوط تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں، اور چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا جس سے خطرناک اور اضافی چربی پیدا ہوتی ہے یا یہ چربی اور خون میں اضافی شوگرکا باعث بنتی ہے، عضلات کا یہ اضافی مواد در حقیقت بدن میں ایک متعفن (بدبودار) بیماری کے جراثیم کی پرورش کے لئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے، ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راہ حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزہ کے ذریعہ ختم کیا جائے، روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلادیتا ہے، در اصل روزہ بدن کو صاف و شفاف مکان بنادیتا ہے۔
ان کے علاوہ روزہ سے معدہ کو اچھا خاصا آرام ملتا ہے جس سے ہاضمہ کا نظام صحیح ہوجاتا ہے، چونکہ یہ بدن انسان کی نازک ترین مشینری ہے جو سال بھر کام کرتی رہتی ہے لہٰذا اس کے لئے اتنا آرام نہایت ضروری ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اسلامی حکم کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے، یہ اس لئے ہے تاکہ اس سے حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جاسکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتیجہ نہ حاصل ہوسکے۔
چنانچہ ”الکسی سوفرین“ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:
روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے: خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ (Appendicitis) اندرونی اور بیرونی قدیم پھوڑے، تپ دق (T.B) اسکلیروز، نقرس، استسقاء،(جلندر کی بیماری جس میں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور پیٹ دن بدن بڑھتا جاتا ہے) جوڑوں کا درد، نور استنی، عرق النساء (چڈوں سے ٹخنوں تک پہنچنے والا درد)، خزاز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض جگر اور دیگر بیماریاں ۔ امساک اور روز ہ کے ذریعہ علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ بیماریاں جو جسمِ انسان کے اصول سے متعلق ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلاً سرطان، سفلیس، سل اور طاعون کے لئے بھی شفا بخش ہے(7)
ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”صُومُوا تَصَحُّوا“،(8) (روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو)۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا: ”المِعْدَةُ بَیْتُ کُلِّ دَاءٍ وَالحَمیةُ رَاسُ کُلِّ دَوَاءٍ“(9) معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک ( روزہ) ہر مرض کی دوا ہے۔(10)
________________________________________
(1)سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۳ (2) بحار الانوار ،جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۶
(3) بحا رالانوار، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۵
(4)نہج البلاغہ ،کلمات قصار، کلمہ نمبر ۲۵۲
(5) بحار الانوار ، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۲
(6) وسائل الشیعہ ، جلد ۷، باب اول ،کتاب صوم ، صفحہ ۳
(7) روزہ روش نوین برای درمان بیماریہا، صفحہ ۶۵،طبع اول
(8) بحا رالانوار ، جلد۹۶، صفحہ ۲۵۵
(9) بحار الانوار ، جلد ۱۴ ، طبع قدیم
(10) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۶۲۸
۷۴۔ خمس کا نصف حصہ سادات سے مخصوص ہونا؛ کیا طبقاتی نظام نہیں ہے؟
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ یہ اسلامی ٹیکس جو بہت سے مال کا پانچواں حصہ ہے جس کاآدھا حصہ سادات اور اولاد پیغمبر اکرم (ص) سے مخصوص ہے، کیا یہ ایک طرح سے نسل پرستی نہیں ہے؟ جس میں اقربا پروری دکھائی دیتی ہے، یہ موضوع اسلامی اجتماعی عدالت اور اسلام کے عالمی ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
جواب میں ہم عرض کرتے ہیں جو لو گ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں انھوں نے اس اسلامی حکم کی مکمل طور پر تحقیق نہیں کی ہے، کیونکہ اس اعتراض کا جواب خمس کے شرائط میں موجود ہے۔
وضاحت:
اولاً: خمس کا نصفحصہ جو سادات اور بنی ہاشم کو دیا جاتا ہے لیکن صرف غریب اور نیاز مند افراد کو دیا جاتا ہے اور وہ بھی سال بھر کا خرچ، اس سے زیادہ نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا خمس کا یہ نصف حصہ صرف انھیں لو گوں کو دیا جاسکتا ہے جو غریب، بیمار ، یتیم بچے ہوں، یا کسی بھی باعث اپنی زندگی کے خرچ سے لاچار ہوں۔
لہٰذا جو لوگ کام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں (اس وقت یا آئندہ) اور اپنے خرچ بھر در آمد رکھتے ہوں ان کو خمس نہیں دیا جاسکتا۔
ثانیاً: محتاج اور غریب سادات کو زکوٰة لینے کا حق نہیں ہے، وہ زکوٰة کے بدلے صرف نصفخمس میں سے لے سکتے ہیں(1)
ثالثاً: اگر سہم سادات جو خمس کا نصفحصہ ہے اگر سادات کی ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو اس کو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور دوسرے موارد میں خرچ کیا جائے گا، اور اگر سہم سادات ؛ سادات کے لئے کافی نہ ہو تو انھیں بیت المال یا زکوٰة سے دیا جائے گا۔
مذکورہ تین نکات پر توجہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مادی لحاظ سے سادات اور غیر سادات میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔
غیر سادات کے غریب افراد اپنے خرچ کے لئے زکوٰة لے سکتے ہیں لیکن خمس سے محروم ہیں، اسی طرح غریب سادات صرف خمس لے سکتے ہیں لیکن وہ زکوٰة سے محروم ہیں۔
در اصل یہاں پر دو صندوق ہیں ”خمس کا صندوق“، ”زکوٰة کا صندوق“، سادات یا غیر سادات ان دونوں میں سے صرف ایک سے لے سکتے ہیں اور وہ بھی برابر برابر یعنی اپنے سال بھر کا خرچ ۔ (غور کیجئے )
جن لوگوں نے ان شرائط پر غور نہیں کیا وہ اس طرح کا تصور کرتے ہیں کہ سادات کے لئے بیت المال سے زیادہ حصہ قرار دیا گیا ہے یا ان کے لئے خمس ایک اعزاز قرار دیاگیا ہے۔
صرف یہاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ہے کہ اگر ان دونوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فر ق نہیں ہے تو پھر اس فرق کا فائدہ کیا ہے؟
(1) سادات کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی ، یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے اور اس سلسلہ میں حدیث و فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے غیر سادات کے غریبوں کا خیال رکھا ہو لیکن غریب سادات کا خیال نہیں کیا ہے؟!
اس سوال کا جواب بھی اس بات پر غور و فکر کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ خمس اور زکوٰة میں ایک اہم فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ زکوٰة ایک ایسا ٹیکس ہے جو در اصل اسلامی معاشرہ کے عام اموال سے متعلق ہے لہٰذا اس کو معمولاً اسی سلسلہ میں خرچ بھی کیا جاتا ہے، لیکن خمس ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت سے متعلق ہے یعنی اسلامی حکومت کے عہدہ داروں اور حکومتی ملازمین اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
اس بنا پر سادات کا عام اموال (زکوٰة) سے محروم ہونا؛ در حقیقت پیغمبر اکرم (ص) کے رشتہ داروں کو اس حصہ (مال) سے دور رکھنا ہے تاکہ مخالفوں کو بہانہ نہ مل جائے کہ پیغمبر نے اپنے رشتہ داروں کو عام اموال پر قابض بنا دیا ۔
دوسری طرف غریب سادات کی ضرورت بھی کہیں سے پوری ہونی چاہئے تھی، تو اسلامی قوانین نے اس سلسلہ میں یہ پیش کش کی کہ سادات؛ اسلامی حکومت کے بجٹ سے استفادہ کریں نہ عام بجٹ سے، در اصل خمس نہ صرف سادات کے لئے ایک امتیاز ہے بلکہ مصلحت کے تحت بد گمانی سے بچانے کے لئے قرار دیا گیا ہے (1)
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ۱ ۱۸
۷۵۔ فلسفہ زکوٰة کیا ہے؟
اسلام صرف ایک اخلاقی یا فلسفی اور اعتقادی مکتب کے عنوان سے نہیں آیا ہے بلکہ ایک ”مکمل آئین“ کے عنوان سے پیش ہوا ہے جس میں تمام مادی اور معنوی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے، اسلام نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے ہی حکومت تشکیل دے کر غریب اور محتاج لوگوں کی حمایت اور طبقاتی نظام کا مقابلہ کیا ہے ، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بیت المال اور زکوٰة جو بیت المال کی در آمد کا راستہ ہے ؛ اسلام کی اہم منصوبہ بندی میں سے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر معاشرہ میں غریب، محتاج، بیمار، بے سرپرست یتیم اور اپاہج لوگ پائے جاتے ہیں، جن کی حمایت اور مدد ہونی چاہئے۔
اور اسی طرح دشمن کے مقابل اپنی حفاظت کے لئے نگہبان اور مجاہدین کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خرچ حکومت کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
اسی طرح حکومتی ملازمین، قاضی، دینی ادارے اور تبلیغی وسائل کے لئے بھی کچھ مصارف کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے منظم طور پر مالی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسلامی نظام بہتر طور پر قائم ہوسکے۔
اسی وجہ سے اسلام نے زکوٰة پر ایک خاص توجہ دی ہے جو در اصل ایک طرح سے ”انکم ٹیکس“ اور ”ذخیرہ شدہ سرمایہ پر ٹیکس“ ہے ، اور زکوٰة کی اہمیت کے پیش نظر اس کو مہم ترین عبادت میں شمار کیا گیا ہے، بہت سے مقامات پر نماز کے ساتھ ذکر ہوا ہے، یہاں تک کہ قبولیتِ نماز کی شرط شمار کی گئی ہے!
بلکہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ اگر اسلامی حکومت نے کسی شخص یا اشخاص سے زکوٰة کا مطالبہ کیا اور انھوں نے زکوٰة دینے سے انکار کیا اور حکومت سے مقابلہ کیا تو ان کو مرتد شمار کیا جائے گا، اور اگر ان پر وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہ ہو تو اس صورت میں طاقت کا سہارا لینا جا ئز ہے ،جیسا کہ واقعہٴ ”اصحاب ردّہ“ (جس گروہ نے پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد زکوٰة دینے سے انکار کیا اور خلیفہ وقت نے ان سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی یہاں تک حضرت علی علیہ السلام نے اس مقابلہ پر رضا مندی دے دی اور خود ایک پرچم دار کے عنوان سے میدان جنگ میں حاضر ہوئے) تاریخ میں مشہور ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے: ”مَنْ مَنَعَ قِیْرَاطاً مِنَ الزَّکٰاةِ فَلَیسَ ھُوَ بِمَوٴمِنٍ، وَلَا مُسْلِمٍ، وَلا کَرَامَةٍ!“(1) ”جو شخص زکوٰة کی ایک قیراط (2) ادا نہ کرے تو وہ نہ مومن ہے اور نہ مسلمان، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے“۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ زکوٰة کے سلسلہ میں بیان شدہ روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے زکوٰة کی ”حدود“ اور ”مقدار“ اس قدر دقیق معین کی ہے کہ اگر تمام مسلمان اپنے مال کی زکوٰة صحیح اور مکمل طریقہ سے ادا کریں تو اسلامی ممالک میں کوئی غریب اور فقیر نہیں پایا جائے گا۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے: ”اگر تمام مسلمان اپنے مال کی زکوٰة ادا کریں تو کوئی مسلمان غریب نہیں رہ سکتا، لوگ غریب، محتاج، بھوکے اور ننگے نہیں ہوتے مگر مالداروں کے گناہوں کی بدولت“۔(3)
اسی طرح روایات سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰة کی ادائیگی سے ملکیت کا تحفظ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان اس اسلامی اہم اصل کو بالائے طاق رکھ دیں تو لوگوں کے درمیان (غریب او رامیر میں) اس قدر فاصلہ ہوجائے کہ مالدار لوگوں کا مال خطرہ میں پڑ جائے گا۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ ”حَصِّنُوا اٴمْوَالُکُمْ بِالزَّکَاةِ“(4) ”زکوٰة کے ذریعہ اپنے مال کی حفاظت کرو“۔
یہی مضمون خود پیغمبر اکرم (ص) اور امیر المومنین علی علیہ السلام سے دوسری احادیث میں نقل ہوا ہے۔(5)
________________________________________
(1) وسائل الشیعہ ، جلد ۶، صفحہ ۲۰، باب ۴، حدیث۹
(2) درہم کے بارہویں حصے کے برابر ایک وزن
(3) وسائل الشیعہ ، جلد ۶، صفحہ۴ (باب ۱،حدیث ۶ از ابواب زکوٰة )
(4) وسائل الشیعہ ،جلد ۶، صفحہ ۶،(باب۱، حدیث ۱۱ از ابواب زکوٰة )
(5) تفسیر نمونہ ، جلد ۸، صفحہ ۱۰
|