70۔کیا ”شفاعت“ توحید کے منافی ہے؟
شفاعت کے سلسلہ میں سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ شفاعت کا عقیدہ توحید کے بر خلاف ہے، البتہ یہ اعتراض وہابیوں کی طرف سے بہت زیادہ پروپیگنڈے اور کافی خرچ کی بنا پر وسیع پیمانے پر ہو تاآیا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں مزید تو جہ کی ضرورت ہے۔
وہابیوں کے عقائد کا محور عمدہ طور پر چند چیزیں ہیں،جن میں سب سے اہم ”توحید افعالی“ اور ”توحید عبادی“ ہے، یہ لوگ توحید کی اس قسم کے معنی اس طرح کرتے ہیں جس سے شفاعت شافعین، انبیاء اور اولیاء اللہ کی ارواح سے مدد مانگنا، یا خدا کی بارگاہ میں ان کو شفیع قرار دینا، توحید خدا کے منافی ہے، اور اسی وجہ سے یہ لوگ (وہابیوں کے علاوہ) ان چیزوں کا عقیدہ رکھنے والے تمام فرقوں کومشرک جانتے ہیں! اور اگر آپ تعجب نہ کریں تو یہ بھی عرض کردیا جائے کہ یہ لوگ ان عقائد رکھنے والوں کی جان، مال اور ناموس کو زمانہٴ جاہلیت کے مشرکین کی طرح مباح مانتے ہیں!
ان لوگوں نے اسی عقیدہ کی بنا پر حجازاور عراق (وغیرہ) کے بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا، ان کے اموال کو تاراج کیااور ایسا ظلم و ستم کیا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوہاب (متوفی ۱۲۰۶ئھ) اس فرقہ کے بانی نے اپنی مشہور کتاب ”رسالہ اربع قواعد“ میں بہت سی باتیں تحریر کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
شرک سے نجات صرف ”چار قواعد“ کے ذریعہ ہی ممکن ہے:
۱۔ جن مشرکین سے پیغمبر اکرم (ص) نے جنگ کی ہے وہ سب خداوندعالم کو خالق، رازق اور اس جہان کا مدبر مانتے تھے جیسا کہ سورہ یونس آیت نمبر ۳۱ میں ارشاد ہوتا ہے:
< قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ >(1)
”پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمہیں زمین اور آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمہاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تو یہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ! تو آپ کہہ دیجئے کہ پھر اس سے کیوں نہیں ڈرتے“۔
اس آیت کی بنا پر وہ لوگ خداوندعالم کی رزّاقیت، خالقیت ، مالکیت اور مدبریت کا عقیدہ رکھتے تھے۔
۲۔ مشرکین کی اصل مشکل یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: ہم بتوں کی عبادت اور ان پر توجہ صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں اور ان کے ذریعہ ہمیں قرب خدا حاصل ہوجائے، جیسا کہ قرآن مجید میں ا رشاد ہوتا ہے:
<وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ >(2)
”اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں“۔
۳۔ جو لوگ غیر خدا کی عبادت کیا کرتے تھے ان تمام سے پیغمبر اکرم (ص) نے جنگ کی ہے، چاہے وہ درختوں کی پوجا کرتے ہوں یا پتھروں اور چاند و سورج کی پوجا کرتے ہوں، یا ملائکہ ، انبیاء اور صالحین کی عبادت کرتے ہوں، پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، (یعنی آنحضرت نے ان سب سے جنگ کی ہے)
۴۔ ہمارے زمانہ کے مشرکین ( یعنی وہابیوں کے علاوہ تمام فرقے) زمانہ جاہلیت کے مشرکین سے بدتر ہیں! کیونکہ وہ سب چین و سکون کے وقت بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے لیکن سخت حالات میں صرف خدا کو پکارتے تھے جیسا کہ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر ۶۵/ میں بیان ہوا ہے:
< فَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ>(3)(4)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کرلیتے ہیں“۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اس نظریہ میں اتنے محکم ہیں اگرچہ ان کا نظریہ حقیقت میں سفسطہ اور مغالطہ ہے، لیکن پھر بھی یہ لوگ دیگر مسلمانوں کے خون کو مباح جانتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز جانتے ہیں، جیسا کہ شیخ ”سلیمان“ اس گمراہ فرقہ کا سربراہ اپنی کتاب ”الہدایة السنیہ“ میں کہتا ہے: قرآن و سنت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جو شخص ملائکہ یا انبیاء یا (مثلاً) ابن عباس اور ابوطالب وغیرہ کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے تاکہ وہ خدا کی بارگاہ میں شفاعت کریں، جیسا کہ بادشاہوں کے قریبی لوگ اس سے سفارش کرتے ہیں، تو ایسے لوگ کافر اور مشرک ہیں،ان کا
خون اور مال و دولت مباح ہے، اگرچہ یہ لوگ اپنی زبان سے کلمہ شہادتین کا اقرار کرتے ہوں نماز پڑھتے ہوں اور روزہ رکھتے ہوں۔(1)
چنا نچہ ان لوگوں نے اپنے اس شرمناک عقیدہ پرپابند رہنے یعنی مسلمانوں کی جان و مال کو مباح قرار دینے کو بہت سے مقامات پر ثابت کر دکھایا ہے جن میں سے حجاز میں طائف کا مشہور و معروف قتل عام (صفر ۱۳۴۳ئھ میں) اور (۱۸/ ذی الحجہ ۱۲۱۶ئھ میں ) کربلا کا قتل عام بہت سی تواریخ میں موجود ہے۔
اس استدلال کے انحرافی نکات
۱۔ قرآنی آیات کے پیش نظر یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت ایک قرآنی اور اسلامی مسلم حقیقت ہے، اورقرآن مجید میں ”شفاعت کرنے والے“ اور ”شفاعت کئے جانے والوں“ کے شرائط بیان ہوئے ہیں، لہٰذا یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی قرآن و اسلام کا دم بھرے اور ان تمام واضح و روشن مدارک کے باوجود اس اسلامی عقیدہ کا انکار کرے، ہمیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟ جبکہ یہ اس عقیدہ کا انکار کرتے ہیں جو قرآن اور اسلام کی ضروریات میں سے ہے، کیا کوئی مسلمان اسلام اور قرآن کے ضروریات کا انکار کرسکتا ہے؟!
۲۔ جس شفاعت کو قرآن بیان کرتا ہے اوراس کا دفاع کرتا ہے اس کا اصل مرجع ”اذن خدا“ ہے اور جب تک وہ اجازت نہ دے گا اس وقت تک کسی کو شفاعت کرنے کا حق نہیں ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ شفاعت اوپر سے او راذن پروردگار سے ہے، بادشاہ اور حکام کے حوالی موالی کی سفارش کی طرح نہیں ہے جو نیچے سے اور اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر ہوتی ہے۔
اس طرح کی شفاعت توحید کے مسئلہ پر مزید تاکید کرتی ہے، کیونکہ اس کا اصلی مرکز ذات خداوندعالم ہے، اور ایسی توحید ہے جس میں کسی طرح کا شرک نہیں پایا جاتا، لیکن وہابیوں نے قرآنی شفاعت کو شیطانی شفاعت اور حکام کے نزدیک سفارش سے مخلو ط کردیا ہے اور اس کے منکر ہوگئے ہیں، اور اس کو اصل توحید کے متضاد اور مخالف گردانتے ہیں، در اصل انھوں نے اس مسئلہ میں خود اپنے اوپر اعتراض کیا ہے نہ کہ قرآنی شفاعت پر۔
۳۔ شفاعت در اصل نجات کا ایک سبب ہے، جس طرح سے عالم خلقت اور عالم تکوین میں اسباب (جیسے درختوں اور فصلوں کے لئے نور آفتاب اور بارش ) کو موثر ماننا اصل توحید کے منافی نہیں ہے، کیونکہ ان تمام اسباب کی تاثیر اذن الٰہی کی بنا پر ہوتی ہے، در اصل ان تمام کا نام ایک قسم کی شفاعت تکوینی ہے، اسی طرح عالم شریعت میں مغفرت و بخشش اور نجات کے لئے کچھ اسباب پائے جاتے ہیں وہ بھی خدا کی اجازت سے، اور یہ توحید کے منافی ہی نہیں ہے بلکہ توحید پر مزید تاکید کرتے ہیں، اور اس کا نام ”شفاعت تشریعی“ ہے۔
۴۔ بتوں کے بارے میں قرآن کریم نے جس شفاعت کی نفی کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بت پرست ہر لحاظ سے بے خاصیت موجودات (بتوں) کو بارگاہ خداوندی میں اپنا شفیع قرار دیتے تھے، لہٰذا سورہ یونس ، آیت نمبر۱۸ میں ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: <وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ >
”اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں“۔
یقینی طور پر انبیاء اور اولیاء اللہ کی شفاعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ آیت بتوں سے مخصوص ہے ، جو کہ بے عقل و شعور پتھر اور دھات ہیں۔
دوسری طرف قرآن کریم اس شفاعت کی مذمت کرتا ہے جس میں شفاعت کرنے والے کے استقلال اور اذن الٰہی کے بغیر اس کی تاثیر کو قبول کیا جائے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
<وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ اٴَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللهِ زُلْفاً إِنَّ اللهَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیمَا ہُمْ فِیہِ یَخْتَلِفُونَ>(5)
”اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں گے ، اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کر دے گا“۔
اس آیہٴ شریفہ کے مطابق مشرکین اپنے معبودوں کو اپنا ولی اور سرپرست، اپنا حامی اور اپنا محافظ مانتے تھے، اور ان کی پوجاکرتے تھے، اور ان کے یہ دونوں کام غلط تھے، (بتوں کو اپنا ولی سمجھنا اور ان کی عبادت کرنا)
لیکن اگر کوئی شخص اولیاء اللہ ، انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی عبادت نہ کرے بلکہ ان کا احترام کرے، ان کو بارگاہ خدا میں شفیع قرار دے وہ بھی خدا کے اذن سے، تو یہ مذکورہ آیت ہرگز اس کو شامل نہ ہوگی۔
وہابی لوگ چونکہ آیاتِ شفاعت ،کفر و ایمان اور شفاعت کرنے والے نیز شفاعت ہونے والے کے شرائط کے بیان کرنے والی آیات پر مہارت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے انھوں نے بت پرستوں کے عقیدہ کو شفاعت سے ملادیا اور یہ اس مثال کی طرح ہے: ”چون ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند“ (جب حقیقت تک نہیں پہنچ سکے تو قصہ اور کہانی کی راہ اختیار کرلی۔)
۵۔ وہابیوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ عرب کے بت پرست ،خالقیت، مالکیت اور رازقیت کو خداوندعالم سے مخصوص جانتے تھے، لیکن وہ لوگ صرف بتوں کی وساطت اور شفاعت کو ما نتے تھے، یہ بھی ان کی دوسری غلط فہمی ہے، جس کی وجہ بھی قرآنی آیات سے لا علمی ہے، کیونکہ قرآن مجید کی متعددآیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بعض ان صفات کے بتوں کے لئے بھی قائل تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < فَإِذَا رَکِبُوا فِي الْفُلْکِ دَعَوْا اللهَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ>(6)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کرلیتے ہیں“۔
(یعنی مشکلات کا حل بھی غیر خدا سے چاہتے تھے)
ان الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کفار و مشرکین عام حالات میں اپنی مشکلوں کا حل بتوں سے چاہتے تھے، اگرچہ سخت حالات میں صرف خدا کے لطف و کرم کے امیدوار ہوتے تھے۔
سورہ فاطر میں پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہورہا ہے:
< قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ شُرَکَائَکُمْ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ اٴَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنْ الْاٴَرْضِ اٴَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ>(7)
”آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگوں نے ان شرکاء کو دیکھا ہے جنھیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو ذرا مجھے بھی دکھلاؤ کہ انھوں نے زمین میں کس چیز کو پیدا کیا ہے یا ان کی کوئی شرکت آسمان میں ہے“۔
اگر مشرکین ،صرف خدا وند عالم ہی کو خالق مانتے تھے اور بتوں کو صرف شافع کے عنوان سے ما نتے تھے، تواس سوال کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہ جواب میں کہہ سکتے تھے کہ ہم ان کو خالق نہیں مانتے، صرف خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ مانتے ہیں، کیا اگر کسی کو واسطہ ما نا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے خالق بھی ماننا ضروری ہے؟!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بتوں کے خلقت میں شرکت کے قائل تھے، اور پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا کہ ان کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے ان سے سوال کریں کہ ان بتوں نے کیا چیز خلق کی ہے؟
سورہ اسراء ، آیت نمبر ۱۱۱/ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مشرکین بتوں کو مالکیت اور حاکمیت میں خدا کا شریک قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ جب خدا کوکوئی مشکل پیش آتی ہے تو یہی بت اس کی مدد کرتے ہیں! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
<وَقُلْ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنْ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا >(8)
”اور کہوکہ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہیں جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اور نہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے( اور مدد گار )اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کا سر پرست ہے اور پھر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو“۔
آیت کے تینوں جملوں میں سے ہر جملہ بت پرستوں کے ایک عقیدہ کی نفی کرتا ہے کہ ”فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے “ (توجہ رہے کہ ”ولد“ بیٹے اور بیٹی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے) (9) اور ان کو خلقت میں” شریک“ نیز ان کو خدا کا” مددگار“ مانتے تھے!
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے تمام مقامات پر بت پرستوں کو ”مشرکین“ اور ان کے اعمال کو ”شرک“ کے عنوان سے یادکیا ہے، اگر وہ لوگ ”خدا “اور ”بتوں“ کے درمیان کسی شرک کے قائل نہ تھے اور ان بتوں کو صرف خدا کی بارگاہ میں شفیع مانتے تھے، تو قرآن کریم کے یہ الفاظ صحیح نہیں ہیں(معاذ اللہ)، ”شرک اور مشرک“ کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ بتوں کو خدا کی ربوبیت یا حل مشکلات یا خلقت وغیرہ میں شریک قرار دیتے تھے، (البتہ پتھر یا لکڑی کے بت ان کی نظر میں صالح اور فرشتوں کا نمونہ تھے)
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ لوگ بتوں کے لئے تدبیرِ جہان میں ایک طرح کے استقلال کے قائل تھے، اور ایک طرح سے خدا کے برابر قرار دیتے تھے، نہ فقط بارگاہ خدا میں واسطہ۔
خصوصاً قرآن کریم کی مختلف آیات میں بہت سے ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: <وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ >(10) ”اور اس کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست اور مددگار بھی نہیں ہے“۔
یہ بت پرستوں کے عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ بتوں کو اپنا ولی و ناصر مانتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: <وَ لَایُغْنِي عَنْہُمْ مَا کَسَبُوا شَیْئًا ولَا مَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللهِ اٴَوْلِیَاءَ >(11)”اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر سرپرست بنا یا ہے،کوئی کام آنے والا نہیں ہے“۔
قرآنی آیات میں متعدد بارمشرکین کے بارے میں ”من دون الله“ کا جملہ استعمال ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے علاوہ دوسری موجودات (بتوں، درختوں اور پتھروں) کی عبادت کیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ولی و ناصر اور مددگار ہوں، یہ وہی ” ربوبیت میں شرک“ ہے نہ کہ شفاعت۔
المختصر: قرآن کریم کی طرف سے مختلف آیات میں مشرکین پر دو اعتراض ملتے ہیں : پہلا اعتراض یہ لوگ ایسی موجودات کو مبدا اثر قرار دیتے ہیں جو نہ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی ان میں عقل و شعور پایا جاتا ہے، اور دوسرے: یہ لوگ خدا کی تد بیر کے مقابل بتوں کے لئے”ربوبیت“ کے قائل تھے۔
البتہ زمانہٴ جاہلیت کے بت پرستوں کی باتیں ضد و نقیض ہوتی تھیں، ایسا نہیں تھا کہ ایک منطقی انسان کی طرح اپنی باتوں کو بغیر کسی تضاد اور ٹکراؤ کے بیان کرتے ہوں، اگرچہ وہ بتوں کو مشکلات کے حل کے لئے خدا کا شریک قرار دیتے تھے اور ان کو ”من دون الله“ خدا کے علاوہ اپنا ناصر و مددگار تصور کرتے تھے، لیکن کبھی کبھی بتوں کو خدا کے نزدیک شفاعت کرنے والا بھی قرار دیتے تھے،اور یہ بات ہرگز شرک افعال پر اعتقاد کی دلیل نہیں ہے، یہ مطلب تمام قرآنی آیات کی تحقیق اور کفار و مشرکین کے تمام حالات سے حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ وہ لوگ شفاعت کو خدا کی اجازت پر موقوف نہیں جانتے تھے۔
(قارئین کرام!) ان تمام باتوں کے پیش نظر ،یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اگر انسان صرف اور صرف اولیاء اللہ کو شفیع قرار دے (نہ کہ پتھر اور لکڑی کے بتوں کو) اور صرف ان کو خدا کی بارگاہ میں ”شفیع“ مانے (نہ خدا کی ولایت اور تدبیر میں شریک ) نیز ان کی شفاعت کو خدا کی اجازت پر موقوف مانے (نہ مستقل طور پر) اس صورت میں شفا عت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مشکل اس وقت پیدا ہوگی جب ان تینوں اصول میں سے کسی ایک یا تینوں کو نظر انداز کردیا جائے، اور غلط راستہ کا انتخاب کیا جائے۔(12)
________________________________________
(1) سورہٴ یونس ، آیت۳۱ (2)سورہٴ یونس ، آیت۱۸
(3)سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۵
(4) ”رسالہ ا ربع قواعد“ تالیف: محمد بن عبد الوہاب ، بانی وہابیت، صفحہ ۲۴ سے ۲۷ تک، کشف الارتیاب سے نقل کیا ہے، صفحہ۱۶۳
(5) الھدیة السنیة ، صفحہ ۶۶
(6) سورہٴ زمر ، آیت ۳
(7) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۵
(8)سورہٴ فاطر ، آیت ۴۰
(9)سورہٴ اسرا ، آیت ۱۱۱
(10) ولد مولود کے معنی میں ہے، اوربڑ ے ،چھوٹے ،لڑکا ،لڑکی ،مفرداور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے، (دیکھئے: مفردات راغب)
(11) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۲۲ (71)سورہٴ جاثیہ ، آیت ۱۰
(12) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۵۳۶
۷۱ ۔ وضو ،غسل اور تیمم کا فلسفہ کیا ہے؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وضو کے دو فائدے واضح اور روشن ہیں، ایک پاکیزگی اور صفائی کا فائدہ دوسرے اخلاقی اور معنوی فائدہ، شب و روز میں پانچ بار یا کم از تین بار چہرے اور ہاتھوں کو دھونا انسان کے جسم کے لئے بہت مفید ہے، کیونکہ سر اور پیروں کی کھال پر مسح کرنے سے یہ اعضا بھی پاک و صاف رہتے ہیں، جیسا کہ آئندہ فلسفہٴ غسل میں بیان کیا جائے گا کہ کھال تک پانی کا پہنچناسمپاتھٹیک (Syapathetic) اور پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) اعصاب کو کنٹرول کرنے میں بہت متاثر ہے۔
اسی طرح اخلاقی اور معنوی لحاظ سے بھی چونکہ یہ کام قربتِ خدا کے لئے ہوتا ہے، جو تربیتی لحاظ سے مو ثرہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک تیری اطاعت و بندگی میں حاضر ہوں، لہٰذا اسی اخلاقی و معنوی فلسفہ کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے ایک حدیث میں اس طرح ذکر ہوا ہے:
” وضو کا حکم اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس سے عبادت کا آغاز ہوتا ہے ،(کیونکہ) جس وقت بندہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے، اور اس سے مناجات کرتا ہے تو اسے اس وقت پاک ہونا چاہئے، اور اس کے احکام پرعمل کرنا چاہئے اورگندگی اور نجاست سے دور رہے، اس کے علاوہ وضو باعث ہوتا ہے کہ انسان کے چہرہ سے نیند اور تھکن کے آثار دور ہو جائیں اور انسان کا دل خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوکر نورِ پاکیزگی حاصل کرے“۔(1)
فلسفہ غسل میں بیان ہونے والی وضاحت سے فلسفہ وضو بھی مزید واضح ہوجائے گا۔
فلسفہ غسل
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ انسان کے مجنب ہو نے پر اسلام نے غسل کا حکم کیوں دیا ہے جبکہ صرف مخصوص عضو گندا ہوتا ہے؟!! نیز پیشاب اور منی میں کیا فرق ہے جبکہ پیشاب میں صرف پانی سے دھونا لازم ہے اورمجنب ہونے کی صورت میں تمام بدن کو دھونا (یعنی غسل کرنا) ہوتا ہے؟
اس سوال کا ایک مختصر جواب ہے اور دوسرا تفصیلی۔
مختصر جواب یہ ہے کہ انسان کے جسم سے منی نکلنے سے صرف مخصوص عضو پر اثر نہیں ہوتا ( پیشاب اور پاخانہ کی طرح نہیں ہے) بلکہ اس کا اثر بدن کے تمام دوسرے اعضا پر بھی ہوتا ہے منی کے نکلنے سے بدن کے تمام اعضا سست پڑجاتے ہیں، جو اس بات کی نشانی ہے کہ اس کا اثر تمام بدن پر ہوتا ہے۔
وضاحت:
دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسان کے بدن میں دو طرح کے نباتی اعصاب ہوتے ہیں جن سے بدن کا سارا نظام کنٹرول ہوتا ہے، ”سمپاتھٹیک (Syapathetic)“ اور ”پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) اعصاب“دو طرح کے اعصاب پورے بدن میں پھیلے ہوئے ہیں اور بدن کے تمام نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، بدن ”سمپاتھٹیک اعصاب“ کا کردار بدن کے نظام میں تیزی پیدا کرنا ہے اور ”پیرا سمپاتھٹیک اعصاب“کا کردار بدن میں سستی پیدا کرنا ہے، در اصل ان دونوں کا کام گاڑی میں ریس اور بریگ کی طرح ہے، اس سے بدن میں توازن قائم رہتا ہے۔
کبھی بدن میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں جن سے یہ توازن ختم ہوجاتا ہے، انھیں میں سے ایک مسئلہ ”Climax“ (اوج لذت جنسی) ہے ، اور اکثر اوقات منی کے نکلتے وقت یہ مسئلہ پیش آتا ہے۔
اس موقع پر ”اعصاب پیرا سمپاتھٹیک (Para Syapathetic) ”سمپاتھٹیک (Syapathetic) اعصاب“پر غلبہ کرلیتے ہیں اور انسان کا توازن منفی صورت میں بگڑجاتا ہے۔
یہ موضوع بھی ثابت ہوچکا ہے کہ ”سمپاتھٹیک (Syapathetic)اعصاب“ کے بگڑے ہوئے توازن کو دوبارہ برقرار کرنے کے لئے بدن کا پانی سے مس کرنا بھی موثر ہے،اور چونکہ جنسی لذت کا عروج ’Climax“ بدن کے تمام اعضا پرحسی طور پر اثر انداز ہوتا ہے ، لہٰذاجنسی ملاپ یا منی نکلنے کے بعداسلام نے حکم دیا ہے کہ سارے بدن کو پانی سے دھویا جائے تاکہ پورے بدن کا بگڑاہواتوازن دوبارہ صحیح حالت پر پلٹنے میں مدد مل سکے۔(1)
البتہ غسل کا فائدہ اسی چیز میں منحصر نہیں ہے، بلکہ غسل ان کے علاوہ ایک طرح کی عبادت بھی ہے جس کے اخلاقی اثر کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اسی وجہ سے اگر نیت اور قصد قربت کے بغیرغسل انجام دیا جائے تو انسان کا غسل صحیح نہیں ہے، در اصل ہمبستری کرنے یا منی کے نکلنے سے انسان کا جسم
(1) جیسا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”اٴنّ الجَنابَةَ خَارجةٌ مِن کُلِّ جَسدہ فلذلکَ وَجَبَ عَلَیہ تَطْہِیر جَسَدہ کُلّہ“ (جنابت پوری بدن سے باہر نکلتی ہے لہٰذا پورے بدن کو پانی سے دھونا (یعنی غسل کرنا) واجب ہے) (وسائل الشیعہ، جلد اول صفحہ ۴۶۶) یہ حدیث گویا اسی چیز کی طرف اشارہ ہے
بھی گندا ہوجاتا ہے اور اس کی روح بھی مادی شہوات کی طرف متحرک ہوتی ہے اور جسم سستی اور کاہلی کی طرف، غسل جنابت سے انسان کا جسم بھی پاک و صاف ہوجاتا ہے اور چونکہ قربت کی نیت سے انجام دیا جاتا ہے اس کی روح بھی پاک ہوجاتی ہے، گویا غسل جنابت کا دوہرا اثر ہوتا ہے، ایک جسم پر اور دوسرا انسان کی روح پر، تاکہ روح کو خدا اور معنویت کی طرف حرکت دے اور جسم کو پاکیزگی اور نشاط کی طرف۔
ان سب کے علاوہ ، غسل جنابت کا وجوب بدن کو پاک و صاف رکھنے کے لئے ایک اسلامی حکم ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے مل جائیں گے جو پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں کرتے، لیکن اس اسلامی حکم کی بنا پر وہ گاہ بہ گاہ اپنے بدن کی گندگی کو دور کرتے ہیں، اور اپنے بدن کو پاک و صاف رکھتے ہیں، اور یہ چیز گزشتہ زمانہ سے مخصوص نہیں ہے (کہ لوگ گزشتہ زمانہ میں مدتوں بعد نہایا کرتے تھے) بلکہ آج کل کے زمانہ میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو بعض وجوہات کی بنا پر صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے، (البتہ اسلام کا یہ حکم ایک عام قانون ہے یہاں تک کہ جن لوگوں نے ابھی اپنے بدن کو دھویا ہو ان کو بھی شامل ہے)، (یعنی اگر نہانے کے بعد مجنب ہوجائے تو بھی غسل کرنا واجب ہے۔)
مذکورہ تینوں وجوہات کی بنا پر یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ منی نکلنے کے بعد (چاہے سوتے وقت یابیداری کی حالت میں ) اور اسی طرح ہمبستری کے بعد (اگرچہ منی بھی نہ نکلی ہو) غسل کرنا کیوں ضروری ہے(2)
فلسفہ تیمم کیا ہے؟
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ مٹی پر ہاتھ مارنے اور ان کو پیشانی اور ہاتھوں پر ملنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ خصوصاً جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اکثر مٹی گندی ہوتی ہے اور اس سے
جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
الف: اخلاقی فائدہ: تیمم ایک عبادت ہے، اس میں حقیقی عبادت کی عکاسی پائی جاتی ہے، کیونکہ انسان حکم خدا کے پیش نظر اپنے شریف ترین عضو یعنی پیشانی پر مٹی بھرا ہاتھ پھیرتا ہے تاکہ خدا کے سامنے اپنی تواضع اور انکساری کا اظہار کرسکے، یعنی میری پیشانی اور میرے ہاتھ تیرے سامنے تواضع و انکساری کی آخری حد پر ہیں، اور پھر انسان نماز یا دوسری ان عبادتوں میں مشغول ہوجاتا ہے جن میں وضو یا غسل کی شرط ہوتی ہے، اس بنا پر انسان کے اندر تواضع و انکساری، بندگی اور شکر گزاری کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔
ب۔ حفظان صحت کا فائدہ: آج کل یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مٹی میں بہت سے جراثیم (Bacterias ) پائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ بہت سی گندگیاں دور ہوتی ہیں، یہ جراثیم جن کا کام آلودہ کرنے والے مواد کا تجزیہ اور طرح طرح کی بدبو کو ختم کرنا ہے زیادہ تر زمین کی سطح پر معمولی سی گہرائی میں جہاں سے ہوا اور سورج کی روشنی سے بخوبی فائدہ اٹھاسکیں، بکثرت پائے جاتے ہیں، اسی وجہ سے جب مردہ جانور کی لاشیں زمین میں دفن کردی جاتی ہیں اور اسی طرح دوسری چیزیں جو گندگی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں زمین پر پڑی ہوں تو کچھ عرصہ بعد ان کے بدن کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور جراثیم کی وجہ سے وہ بدبو کا مرکز نیست و نابود ہوجاتا ہے، یہ طے ہے کہ اگر زمین میں یہ خاصیت نہ پائی جاتی تو کرہ زمین تھوڑی ہی مدت میں بدبو کے ڈھیروں میں بدل جاتا، اصولی طور پر مٹی اینٹی بیوٹک اثر رکھتی ہے، جو جراثیم مارنے کے لئے بہترین چیز ہے۔
اس بنا پر پاک مٹی نہ صرف آلودہ نہیں ہے بلکہ آلودگی کو ختم کرنے والی ہے، اور اس لحاظ سے ایک حد تک پانی کا کام کرسکتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ پانی جراثیم کو بہالے جاتا ہے اور مٹی جراثیم کو مار ڈالتی ہے۔
لیکن توجہ رہے کہ تیمم کی مٹی مکمل طور پر پاک و صاف ہو جیسا کہ قرآن کریم نے بہترین لفظ استعمال کیا ہے: ”طیباً“
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تیمم کے حوالے سے لفظ ”صعید“ استعمال ہوا ہے جو ”صعود“ سے لیا گیا ہے (جس کے معنی بلندی کے ہیں) جو اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ تیمم کے لئے زمین کی سطحی مٹی لی جائے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہو اور جس میں جراثیم کو مارنے والی بیکٹری پائی جاتی ہوں، اگر اس طرح کی پاک و پاکیزہ مٹی سے تیمم کیا جائے تو یہ تاثیر رکھتی ہے اور اس میں ذرا بھی نقصان نہیں ہے۔(3)
وضو میں ہاتھوں کو کس طرح دھویا جائے نیز سر اور پیر کا مسح کس طرح کیا جائے؟
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶ /میں روح کی پاکیزگی کے طریقہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، اور روح کی پاکیزگی کے لئے احکام وضو، غسل اور تیمم بیان ہوئے ہیں، پہلے مومنین سے خطاب ہوا اور وضو کے احکام اس ترتیب سے بیان کئے:
< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَاٴَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُ وٴسِکُمْ وَاٴَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ>(4)
”اے ایمان والو! جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ اور سر اور گٹوں تک پیروں کا مسح کرو“۔
اس آیہٴ شریفہ میں ہاتھوں کے دھلنے کی حد ”کہنی“ تک قرار دی گئی ہے کیونکہ قرآن مجید میں لفظ ”مرافق“ ہے جس کے معنی ”کہنیاں“ ہیں ،لیکن جب کسی انسان سے کہا جائے کہ ”اپنے ہاتھوں کو دھو لیجئے“ تو ممکن ہے کہ وہ شخص صرف کلائیوں تک ہاتھوں کو دھوئے، کیونکہ اکثر اوقات ہاتھوں کو یہیں تک دھویا جاتا ہے، لہٰذا اس غلطی کو دور کرنے کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہنیوں تک دھوئیں: < إِلَی الْمَرَافِقِ>
اس تفصیل کی بنا پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ آیت میں لفظ ”الیٰ“ (یعنی کہنیوں تک) ہاتھوں کے دھونے کی حد کو بیان کرنے کے لئے ہے نہ ہاتھوں کو دھونے کی کیفیت کے لئے، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے اور مذکورہ آیت کے اس طرح معنی کرتے ہیں:
ہاتھوں کو انگلیوں کے سرے سے کہنیوں تک دھوئیں، (جیسا کہ اہل سنت کے یہاں پایا جاتا ہے)
اس کی مثال بالکل اسی طرح ہے کہ اگر آپ کسی پینٹر سے کہیں کہ ہماری دیوار کو فرش سے ایک میٹر تک رنگ کردیں،تو یہ بات واضح ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیوار پر نیچے سے اوپر کی طرف رنگ کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس مقدار میں رنگ ہونا ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔
اس بنا پر مذکورہ آیت میں ہاتھوں کے دھلنے کی مقدار معین کی گئی ہے، لیکن اس کی کیفیت سنت نبی (ص) میں اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ بیان ہوئی ہے ، کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھویا جائے۔
”بِرُءُ وسِکُمْ “ میں لفظ ”ب“ بعض اہل لغت اور بعض احادیث کی بنا پر ”بعض“ کے معنی میں آیا ہے یعنی سر کے ”بعض حصہ“ کا مسح کرو، جیسا کہ احادیث میں ملتا ہے کہ سر کے اگلے حصہ کا ہاتھ سے مسح کیا جائے ، لیکن جیسا کہ بعض اہل سنت کے یہاں رائج ہے کہ پورے سر کا مسح کرتے ہیں، یہ مذکورہ آیت کے مفہوم کے موافق نہیں ہے۔
”بِرُءُ وسِکُمْ “،کے بعد ”اٴرجلِکُم“ کا آنا خود اس بات پر گواہ ہے کہ پیروں کا بھی مسح کیا جائے نہ کہ ان کو دھویا جائے،(اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ”اٴرْجلَکم“کے لام پر زبر آیا ہے تو ”بِرُءُ وسِکُمْ “کے محل پر عطف ہوا ہے نہ کہ ”وُجُوہَکُم“ پر) (5)(6)
________________________________________
(1) وسائل الشیعہ ، جلد۱ ، صفحہ ۲۵۷
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۹۱
3 تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۰۰
(4) سورہ مائدہ ، آیت ۶
(5) واضح ہے کہ ”وُجُوہَکُم“ اور ”اٴرْجُلَکُم“ میں کافی فاصلہ ہے، جس کی بنا پر اس پر عطف ہونا بعید نظر آتا ہے، اس کے علاوہ بہت سے مشہور قاری قرآن نے ”اٴرْجُلَکُم“ کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے
(6) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۵
۷۲۔ فلسفہ نماز کیا ہے؟
سورہ عنکبوت میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ نماز انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکتی ہے: <إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَر>(1)
” (اور نماز قائم کروکہ) یقینا نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے“
حقیقت نماز چونکہ انسان کو قدرتمند روکنے والے عامل یعنی خدا اور قیامت کے اعتقاد کی یاد دلاتی ہے، لہٰذا انسان کو فحشاو منکرات سے روکتی ہے۔
جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو پہلے تکبیر کہتا ہے، خدا کو تمام چیزوں سے بلند و بالا مانتا ہے، پھر اس کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے، اس کی حمد و ثنا کرتا ہے، اس کو رحمن اور رحیم کے نام سے پکارتا ہے، اور پھر قیامت کو یاد کرتا ہے ، خدا کی بندگی کا اعتراف کرتا ہے، اور اسی سے مدد چاہتا ہے، صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرتا ہے اور غضب خدا نازل ہونے والے اور گمراہوں کے راستہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ (مضمون سورہ حمد )
بے شک ایسے انسان کے دل و جان میں خدا ،پاکیزگی اور تقوی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔
خدا کے لئے رکوع کرتا ہے، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اس کی عظمت میں غرق ہوجاتا ہے، اور خود غرضی اور تکبر کو بھول جاتا ہے۔
خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔
اپنے نبی پر درود و سلام بھیجتا ہے، اور خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہوتا ہے کہ پالنے والے! مجھے اپنے نیک اور صالح بندوں میں قرار دے۔ (تشہد و سلام کا مضمون)
چنانچہ یہ تمام چیزیں انسان کے وجود میں معنویت کی لہر پیدا کردیتی ہیں، ایک ایسی لہر جو گناہوں کا سدّ باب کرتی ہے۔
اس عمل کو انسان رات دن میں کئی مرتبہ انجام دیتا ہے جب صبح اٹھتا ہے تو خدا کی یاد میں غرق ہوجاتا ہے، دوپہر کے وقت جب انسان مادی زندگی میں غرق رہتا ہے اور اچانک موٴذن کی آواز سنتا ہے تو اپنے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کی بارگاہ کا رخ کرتا ہے، یہاں تک دن کے اختتام اور رات کی شروع میں بستر استراحت پر جانے سے پہلے خدا سے راز و نیاز کرتا ہے، اور اپنے دل کو اس کے نور کا مرکز قرار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ جب نماز کے مقدمات فراہم کرتا ہے تو اپنے اعضا بدن کو دھوتا ہے ان کو پاک کرتا ہے، حرام چیزیں اور غصبی چیزوں سے دوری کرتا ہے اور اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کو برائی سے روکنے کے لئے واقعاً موثر واقع ہوتی ہیں۔
لیکن نماز میں جس قدر شرائطِ کمال اور روحِ عبادت پائی جائے گی اسی مقدار میں برائیوں سے روکے گی، کبھی مکمل طور پر برائیوں سے روکتی ہے اور کبھی جزئی طور پر،(یعنی نماز کی کیفیت کے لحاظ سے انسان برائیوں سے پرہیز کرتا ہے)
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز پڑھے اور اس پر کوئی اثر نہ ہو، اگرچہ اس کی نماز صرف ظاہری لحاظ سے ہو یا نمازی گنہگار بھی ہو، البتہ اس طرح کی نماز کا اثر کم ہوتا ہے، کیونکہ اگر اس طرح کے لوگ اس طرح نماز نہ پڑھتے تو اس سے کہیںزیادہ گناہوں میں غرق ہوجاتے۔
واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ فحشا و منکر سے نہی کے مختلف درجے ہوتے ہیں، نماز میں جتنی شرائط کی رعایت کی جائے گی اسی لحاظ سے وہ درجات حاصل ہوں گے۔
پیغمبر اکرم (ص) سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قبیلہٴ انصار کا ایک جوان آنحضرت (ص) کے ساتھ نماز ادا کررہا تھا لیکن وہ گناہوں سے آلودہ تھا، اصحاب نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں اس کے حالات بیان کئے تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”إنَّ صَلاتَہُ تَنہَاہُ یَوماً“ (آخر کار ایک روز اس کی یہی نماز اس کو ان برے کاموں سے پاک کردے گی)(2)نماز کا یہ اثر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ بعض احادیث میں نماز کے قبول ہونے یا قبول نہ ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: ”مَنْ اٴحَبَّ اٴنْ یَّعلَم اٴقْبَلَت صَلٰوتُہ اٴمْ لَم تَقْبَل؟ فَلیَنْظُر: ہَلْ مَنَعْتَ صَلٰوتَہُ عَنِ الفَحْشَاءِ وَالمُنْکِر؟ فبقدر ما منعہ قبلت منہ!“(3)(اگر کوئی یہ جاننا چا ہے کہ اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ، یا نہیں؟ تو اس کو دیکھنا چاہئے کہ نماز اس کو برائیوں سے روکتی ہے یا نہیں؟ جس مقدار میں برائیوں سے روکا ہے اسی مقدار میں نماز قبول ہوئی ہے)۔
اور اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ”ذکر خدا اس سے بھی بلند و بالاتر ہے“: ”وَلَذِکْرُ اللهِ اٴکبَرْ“
مذکورہ جملہ کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نماز کے لئے یہ اہم ترین فلسفہ ہے، یہاں تک فحشا و منکر کی نہی سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو خدا کی یاد دلائے کہ جو تمام خیر و سعادت کا سر چشمہ ہے، بلکہ برائیوں سے روکنے کی اصلی وجہ یہی ”ذکر اللہ“ ہے ، در اصل اس
اثر کی برتری اور عظمت اسی وجہ سے ہے کیونکہ یہ اُس کی علت شمار ہوتا ہے۔
اصولی طور پر خدا کی یادانسان کے لئے باعثِ حیات ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی چیز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، <اٴَلٰا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب> ”آگاہ ہوجاؤ کہ یادِ خدا دل کو اطمینان و سکون عطا کرتی ہے“۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام عبادتوں (چاہے نماز ہو یا اس کے علاوہ) کی روح یہی ذکر خدا ہے، اقوال نماز، افعال نماز، مقدمات نماز اور تعقیبات نماز سب کے سب در اصل انسان کے دل میں یادِ خدا زندہ کرتے ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ سورہ طٰہ ، آیت نمبر ۱۴/ میں نماز کے اس بنیادی فلسفہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، جناب موسیٰ علیہ السلام سے خطاب ہوتا ہے: <اَقِمِ الصَّلاَة لِذِکْرِي>، (میری یاد کے لئےنماز قائم کرو )
معاذ بن جبل سے منقول ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ”عذاب الٰہی سے بچانے والے اعمال میں ”ذکر اللہ“ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، سوال کیا گیا : راہ خدا میں جہاد بھی نہیں؟ جواب دیا: ہاں، کیونکہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: (وَلذکْرِ اللهِ اٴکْبَرْ)
انسان اور معاشرہ کی تربیت میں نماز کا کرداراگرچہ نماز کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا فلسفہ کسی پر پوشیدہ ہو لیکن قرآنی آیات اور احادیث ِمعصومین علیہم السلام میں مزید غور و فکر کرنے سے بہت ہی اہم چیزوں کی طرف رہنمائی ہوتی ہے:
۱۔ روح نماز اور نماز کا فلسفہ ذکر خدا ہی ہے ،وہی ”ذکر اللہ“ جو مذکورہ آیت میں بلندترین نتیجہ کے عنوان سے بیان ہوا ہے۔
البتہ ایسا ذکر جو غور و فکر کا مقدمہ، اور ایسی فکر جو عمل کا سبب بنے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے <وَلذکْرِ اللهِ اٴکْبَر>کی تفسیر میں فرمایا: ”ذکر الله عند مااحل و حرم“ (4) ”حلال و حرام کے وقت یاد خدا کرنا“ (یعنی یاد خدا کریں اور حلال کام انجام دیں اور حرام کاموں سے پرہیز کریں)
۲۔ نماز، گناہوں سے دوری اور خدا کی طرف سے رحمت و مغفرت حاصل ہونے کا سبب ہے، کیونکہ نماز انسان کو توبہ اور اصلاح نفس کی دعوت دیتی ہے، اسی وجہ سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے ایک صحابی سے سوال کیا: ”اگر تمہارے مکان کے پاس پاک و صاف پانی کی نہر جاری ہو اور تم روزانہ پانچ مرتبہ اس میں غوطہ لگاؤ تو کیا تمہارے بدن میں گندگی اور کثافت باقی رہے گی؟
اس نے جواب دیا: نہیں (یا رسول اللہ!)، آپ نے فرمایا: نماز بالکل اسی جاری پانی کی طرح ہے کہ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو گنا ہوں کی گند گی دور ہو جا تی ہے اور دو نمازوں کے درمیان انجام دئے گئے گناہ پا ک ہو جا تے ہیں۔(5)گویا نمازانسان کے بدن میں گناہوں کے ذریعہ وارد ہونے والے زخموں کے لئے مرہم کا کام کرتی ہے اور انسان کے دل پر لگے ہوئے زنگ کو چھڑا دیتی ہے۔
۳۔ نماز ،آئندہ گناہوں کے لئے سدّ باب بن جا تی ہے، کیونکہ نماز انسان میں ایمان کی روح کو مضبوط کرتی ہے اور تقویٰ کے پودے کی پرورش کرتی ہے، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ”ایمان“ اور ”تقویٰ“ گناہوں کے بالمقابل دو مضبوط دیواریں ہیں، اور یہ وہی چیز ہے جس کو مذکورہ آیت میں ”نہی از فحشاء و منکر“ کے نام سے بیان کیا گیا ہے، اور یہ وہی چیز ہے جس کو متعدد حدیثوںمیں پڑھتے ہیں کہ جب گنہگار لوگوں کے حالات ائمہ علیہم السلام کے سامنے بیان کئے گئے تو فرمایا: غم نہ کرو نماز ان کی اصلاح کردے گی، اور کردی۔
۴۔ نماز؛انسان کو خواب غفلت سے بیدار کردیتی ہے، راہ حق پر چلنے والوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ اپنی غرض خلقت کو بھول جاتے ہیں اور مادی دنیا اور زودگزر لذتوں میں غرق ہوجاتے ہیں ، لیکن نماز چونکہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر اور شب و روز میں پانچ بار پڑھی جاتی ہے ، مسلسل انسان کو متو جہ اور متنبہ کرتی رہتی ہے اور اس کو غرض خلقت یاد دلاتی رہتی ہے، اور اس دنیا میں اسے اس کی حیثیت سے آگاہ کرتی رہتی ہے، یہ انسان کے پاس ایک عظیم نعمت الٰہی ہے کہ شب و روز پانچ مرتبہ اس کو بھر پور طریقہ پر ہوشیار کرتی ہے۔
۵۔ نماز ؛خود پسندی اور تکبر کو ختم کرتی رہتی ہے کیونکہ انسان ۲۴ گھنٹوں میں ۱۷/ رکعت نماز پڑھتا ہے اور ہر رکعت میں دو بار اپنی پیشانی کو خدا کی بارگاہ میں رکھتا ہے، اور خدا کی عظمت کے مقابل اپنے کو ایک ذرہ شمار کرتا ہے بلکہ خدا کی عظمت کے مقابل اپنے کو صفر شمار کرتا ہے۔ نماز غرور و خود خواہی کے پردوں کو چاک کردیتی ہے ، تکبر اور برتری کو ختم کردیتی ہے۔
اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی اس مشہور و معروف حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ جس میں عبادت کے فلسفہ کو بیان کیا ہے اور ایمان کے بعد سب سے پہلی عبادت کو ”نماز“ قرار دیتے ہوئے اس مطلب کو واضح فرمایا ہے: ”فَرضَ الله الإیمَان تَطھِیْراً مِنَ الشِّرکِ وَالصَّلٰوة تَنْزِیْھاً عَنِ الکِبْرِ“(6) خداوندعالم نے انسان کے لئے ایمان کو شرک سے پاک کرنے کے لئے واجب قرار دیا ہے اور نماز کو غرورو تکبر سے پاک کرنے کے لئے (واجب قرار دیا ہے)“
۶۔ نماز ؛انسان کے لئے معنوی تکامل اور فضائل اخلاقی کی پرورش کا ذریعہ ہے، کیونکہ یہی نماز انسان کو مادہ کی محدودیت اور عالم طبیعت کی چہار دیواری سے باہر نکال کر عالم ملکوت کی طرف دعوت دیتی ہے، جس سے انسان فرشتوں کا ہم صدا اور ہمراز ہوجاتا ہے، اور انسان اپنے کو بغیر کسی واسطہ کے خدا کے حضور میں پاتا ہے اور اس سے گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ہر روز اس عمل کی تکرار خداوندعالم کے صفات جیسے رحمانیت اور رحیمیت اور اس کی عظمت کے پیش نظرخصوصاً سورہ حمد کے بعد دوسرے سوروں سے مدد لیتے ہوئے جو نیکیوں اور خوبیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ سب چیزیں انسان میں اخلاقی فضائل کی پرورش کے لئے بہترین اور موثرہیں۔
لہٰذا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے نماز کے فلسفہ کو اس طرح بیان کیا:”الصَّلاٰةُ قُربَانُ کُلَّ تَقِي“، (نماز ہر پرہیزگار کے لئے خدا سے تقرب کا وسیلہ ہے)(7)
۷۔ نماز انسان کے دوسرے اعمال کو (بھی) روح اور اہمیت عطا کرتی ہے اس لئے کہ نماز سے اخلاص پیدا ہوتا ہے، کیونکہ نماز خلوص نیت، نیک گفتار اور مخلصانہ اعمال کا مجموعہ ہے، ہر روز یہ عمل انسان کے اندر دوسرے اعمال کا بیج ڈالتا ہے اور روح اخلاص کو مضبوط کرتا ہے۔
لہٰذا ایک مشہور و معروف حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امیر ا لمومنین علی علیہ السلام نے اس وقت اپنی وصیت میں فرمایا جب آپ ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہوچکے تھے اور آپ کا آخری وقت تھا، فرماتے ہیں:
”الله الله فِي الصَّلٰوةِ فَإنَّھَا عَمُودُ دِینِکُمْ“(8)
”خدا را ! خدارا! میں تم کو نماز کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ یہی تمہارے دین کا ستون ہے“۔
ہم لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کسی خیمہ کا ستون ٹوٹ جائے یا گرجائے تو اطراف کی رسّیوں اور کیلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، اسی طرح جب نماز کے ذریعہ خدا سے بندوں کا رابطہ ختم ہوجائے تو دوسرے اعمال کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”اٴوَّلُ مَا یُحاسِبُ بِہِ العَبْدَ الصَّلٰوة فَإنْ قُبِلَتْ قَبلَ سَائرُ عَمَلِہِ ، وَاِنْ رُدَّت رُدَّ عَلَیْہِ سَائرُ عَمَلِہُ“ (روز قیامت بندوں میں جس چیز کا سب سے پہلے حساب ہوگا وہ نماز ہے، اگر نماز قبول ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز ردّ ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی ردّ ہوجائیں گے!)
شاید اس کی دلیل یہ ہو کہ نماز خالق و مخلوق کے درمیان ایک راز ہے اگر صحیح طور پر بجا لائی جائے تو انسان کے اندر نیت ،اخلاص اور قرب الٰہیپیدا ہوتا ہے جو دوسرے اعمال قبول ہونے کا ذریعہ ہے، ورنہ دوسرے اعمال کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔
۸۔نماز میں پائے جانے والے مطالب اور مضمون سے قطع نظراگر اس کے شرائط پر توجہ کریں تو وہ بھی اصلاح اور پاکیزگی کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ نمازی کی جگہ، نماز ی کے کپڑے، جس فرش پر نماز پڑھتا ہے، جس پانی سے وضو یا غسل کیا ہے، جس جگہ وضو یا غسل کیا ہے ، یہ تمام چیزیں غصبی نہیں ہونی چاہئے اور ان کے حوالے سے کسی دوسرے پر ظلم اور تجاوز نہ کیا گیا ہو، جو شخص ظلم و ستم، سود خوری، غصب، ناپ تول میں کمی ، رشوت خوری اور حرام روزی وغیرہ جیسی چیزوں سے آلودہ ہو تو ایسا شخص نماز کے مقدمات کس طرح فراہم کرسکتا ہے؟ لہٰذا ہر روز پانچ مرتبہ اس نماز کی تکرار دوسروں کے حقوق کی رعایت کی دعوت دیتی ہے۔
۹۔ نماز صحیح ہونے کے شرائط کے علاوہ، شرائطِ قبول یا بالفاظ دیگر شرائطِ کمال بھی پائے جاتے ہیں جن کی رعایت خود بہت سے گناہوں کو ترک کرنے کا سبب بنتی ہے۔
فقہ اور حدیث کی کتابوں میں بہت سی چیزوں کو ”موانع نماز“ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جن میں سے ایک مسئلہ شراب پینا ہے، روایات میں بیان ہوا ہے کہ ”لَا تُقبّل صلوٰة شَاربُ الخَمْر اٴرْبعِینَ یَوماً إلاَّ اٴنْ یَتُوبَ“(9) ”شراب پینے والے کی نماز، چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی، مگر یہ کہ توبہ کرلے“۔
متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ جن لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ان میں سے ایک ظالم افراد کا رہبر ہے“۔(10)
بعض دوسری روایات میں تصریح کی گئی ہے کہ جو شخص زکوٰة ادا نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہے، اسی طرح دوسری روایات میں بیان ہوا ہے کہ حرام لقمہ کھانے والے یا خود پسندی کرنے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان تمام احادیث کے پیش نظر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ان تمام شرائط کا فراہم کرنا انسان کی اصلاح کے لئے بہت مفید ہے۔
۱۰۔ نماز کے ذریعہ انسان میں نظم و نسق کی روح طاقتور ہوتی ہے کیونکہ نماز معین وقت پر پڑھی جاتی ہے ، یعنی اگر انسان نماز کو وقت سے پہلے یا وقت کے بعد پڑھے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، اسی طرح نماز کے دیگر آداب و احکام جیسے نیت، قیام، قعود ، رکوع اور سجود وغیرہ کی رعایت سے انسان کے لئے دوسرے کاموں میں بھی نظم کا لحاظ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
نماز کے یہ تمام فائدے اس وقت ہیں جب نماز جماعت سے نہ پڑھی جائے اور اگر نماز کے ساتھ جماعت کی فضیلت کا اضافہ بھی کردیا جائے (کیونکہ نماز کی روح، جماعت ہے) تو پھر
بے شمار برکتیں نازل ہوتی ہیں، جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی، کم و بیش اکثر مومنین نماز جماعت کی فضیلت سے آگاہ ہیں۔
ہم فلسفہٴ نماز اور اسرارِ نماز کے سلسلہ میں اپنی گفتگو کو حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ایک بہترین حدیث پر ختم کرتے ہیں:
امام علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں اس طرح فرمایا جس میں فلسفہ نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تھا:
نماز کو اس لئے واجب قرار دیا گیا ہے کہ اس میںخداوندعالم کی ربوبیت کا اقرار پایا جاتا ہے، اس میں شرک و بت پرستی کا مقابلہ ہوتا ہے ، خدا کی بارگاہ میں مکمل خضوع و خشوع پایا جاتا ہے، انسان اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے اورخداوندعالم سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہے، انسان ہر روز عظمت ِپروردگار کے سامنے اپنی پیشانی کو خم کرتا ہے۔
اور نماز کا مقصدیہ ہے کہ انسان ہمیشہ ہوشیار اور متوجہ رہے انسان کے دل پر، بھول چوک کی گرد و غبار نہ بیٹھے، مست اور مغرور نہ ہو، خاشع اور خاضع رہے، انسان دین و دنیا کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔
جب انسان ہر روز نماز کے ذریعہ ذکر خدا کرتا ہے تویہ سبب بنتا ہے کہ وہ اپنے مولا و آقا، مدبر اور خالق کو نہ بھولے اور اس پر سرکشی اور غلبہ کرنے کا تصور تک نہ کرے۔
خداوندعالم پر توجہ رکھنا اور خود کو اس کے سامنے حاضر سمجھنا؛انسان کو گناہوں سے دور رکھتا ہے اور مختلف برائیوں سے روکتا ہے۔ (11)(12)
________________________________________
(1)سورہٴ عنکبوت ، آیت ۴۵
(3،2) مجمع البیان، سورہٴ عنکبوت ، آیت نمبر ۴۵ کے ذیل میں
(4) بحا الانوار ، جلد ۸۲، صفحہ ۲۰۰
(5) وسائل الشیعہ ، جلد ۳، صفحہ ۷ (باب ۲ / از ابواب اعداد الفرائض حدیث۳)
(6) نہج البلاغہ ، کلمات قصار، نمبر ۲۵۲
(7) نہج البلاغہ ،کلمات قصار ، نمبر ۱۳۶
(8) نہج البلاغہ ،خطوط (مکتبوب)(وصیت )۴۷
(9) بحار الانوار ، جلد۸۴، صفحہ ۳۱۷ و۳۲۰
(10) بحار الانوار، جلد۸۴، صفحہ ۳۱۸
(11) وسائل الشیعہ ، جلد ۳، صفحہ ۴
(12) تفسیر نمونہ ، جلد۱۶، صفحہ ۲۸۴
|