110 سوال اور جواب
 
۶۴۔ عالمِ برزخ کیا ہے اور وہاں کی زندگی کیسی ہے؟
عالم برزخ کونسا عالم ہے ؟ اور کہاں ہے؟ اور دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے اس عالم کو ثابت کرنے کی کیا دلیل ہے؟
کیا برزخ سب کے لئے ہے یا خاص گروہ کے لئے ہے؟
اس سلسلہ میں یہ تمام سوالات موجود ہیں، قرآن مجید اور احادیث میں ان کی طرف اشارہ ہوا ہے ، اس کتاب کے لحاظ سے ہم ان کے جوابات پیش کرتے ہیں:
لفظ ”برزخ“ لغوی لحاظ سے دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو کہاجا تا ہے اس کے بعد ہر دو چیز کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کہا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”برزخ“ کہا جاتا ہے۔
اس عالم کو کبھی ”عالمِ قبر“ یا ”عالمِ ارواح“ بھی کہا جاتا ہے ، اس پر قرآن کریم کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض اس معنی میں ظاہر ہیں اور بعض واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
آیہٴ شریفہ: <وَمِن وَرَائِھِم بَرْزَخٌ إلیٰ یومَ یَبْعَثُون> اس عالم کے بارے میں ظاہرہے، اگرچہ بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یوں کئے ہیں کہ عالم آخرت سے دنیا میں نہیں پلٹا جاسکتا، کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے پیچھے ایک ایسا مانع ہے جو انسان کو دنیا میں لوٹنے سے روک دے گا، لیکن یہ معانی بہت ہی بعید نظر آتے ہیں کیونکہ ”إلیٰ یوم یبعثون“(روز قیامت تک) کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ برزخ دنیا اور آخرت کے درمیان موجود ہے نہ کہ انسان اور دنیا کے درمیان۔
جن آیات سے واضح طور پر عالم برزخ کا اثبات ہے وہ شہداء کی حیات کے بارے میں ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:<وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ>(1) ”اور خبر دار ! راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں“۔
یہاں پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہوا ہے لیکن سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۵۴/ میں تمام مومنین سے خطاب ہوا ہے:< وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ> ” اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے “
نہ صرف یہ کہ بلند مرتبہ مومنین مثل شہداء ِراہ خدا کے لئے برزخ موجود ہے بلکہ فرعون اور اس کے ساتھی جیسے سرکش کفار کے لئے بھی برزخ موجود ہے، جیسا کہ سورہ مومن میں ارشاد ہوتا ہے: <النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ>(2) ”وہ جہنم جس کے سامنے ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔(25)
اس بنا پر عالم برزخ کے موجود ہونے پر تو کوئی بحث نہیں ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے ، اگرچہ اس سلسلہ میں مختلف صورتیں بیان ہوئی ہیں لیکن سب سے واضح اور روشن یہ ہے کہ انسان کی روح اس دنیاوی زندگی کے خاتمہ کے بعد لطیف جسم میں قرار پاتی ہے اوراس مادہ کے بہت سے عوارض سے آزاد ہوجاتی ہے، اور چونکہ ہمارے اس جسم کے مشابہ ہے تو اس کو ”قالب مثالی“ یا ”بدن مثالی“ کہا جاتا ہے، جو نہ بالکل مجرد ہے اور نہ صرف مادی، بلکہ ایک طرح سے ”تجرد برزخی“ ہے۔
بعض محققین نے روح کی اس حالت کو خواب سے تشبیہ دی ہے ، مثلاً اگر انسان خواب میں بہترین نعمتیں دیکھے تو واقعاً محظوظ ہوتا ہے اور ان سے لذت حاصل کرتا ہے، یا ہولناک مناظر کو دیکھ کر غمگین اور غم زدہ ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اس کے بدن پر بھی اس کا اثرظاہر ہوتا ہے اور خطرناک خواب دیکھ کر چیختا او رچلاتا ہے، کروٹیں بدلتا ہے اور اس کا بدن پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے۔
یہاں تک کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عالم خواب میں انسان کی روح بدن مثالی کے ساتھ فعالیت کرتی ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی معتقد ہیں کہ طاقتور ارواح بیداری کی حالت میں یہی تجردِ برزخی حاصل کرلیتی ہیں یعنی جسم سے جدا ہوکر بدنِ مثالی میں اپنی مرضی کے مطابق یا مقناطیسی خواب کے ذریعہ دنیا کی سیر کرلیتی ہیں اور دنیا کے مختلف مسائل سے باخبر ہوجاتی ہیں۔(1)
بلکہ بعض حضرات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہر انسان کے بدن میں ایک مثالی بدن ہوتا ہے، لیکن موت کے وقت اور برزخی زندگی کے آغازمیں الگ ہوجاتا ہے اور کبھی اسی مادی
(3) علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار میں اس مطلب کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ متعدد روایات میںحالت برزخ کو عالم خواب سے مشابہ قراردیا گیا ہے،یہاں تک کہ بعض طاقتور نفوس ( ارواح) متعدد مثالی بدن رکھتے ہیں، اسی بنا پر جن روایات میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصوم ہر شخص کی موت کے وقت حاضر ہوتے ہیں، ان کی توجیہ اور تفسیر کی ضرورت نہیں ہے، (بحار الانوار ، جلد ۶، صفحہ ۲۷۱)
دنیا میں بھی جدا ہونے کا امکان ہوتا ہے ، (جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں)
اب اگر ہم مثالی بدن کی ان تمام خصوصیات کو قبول (بھی) نہ کریں تو اصل مطلب سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بہت سی روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور عقلی لحاظ سے بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ضمناً ہماری گزشتہ گفتگو سے اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہوجاتا ہے ، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں: بدن مثالی کا قائل ہونا گویا تناسخ کا قائل ہونا، کیونکہ تناسخ بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے کہ ایک روح مختلف بدن میں منتقل ہوتی رہے۔
اس اعتراض کاجواب شیخ بہائی علیہ الرحمہ نے واضح طور پر پیش کیا ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں: جس تناسخ کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی روح جسم سے نکلنے کے بعد اسی دنیا میں کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجائے، لیکن قیامت تک کے لئے عالم برزخ میں روح کا مثالی بدن میں بدل جانا جو پھر خدا کے حکم سے اسی پہلے بدن میں منتقل ہونا، اس کاتناسخ سے کوئی تعلق نہیںہے ،اور اگر ہم شدت کے ساتھ تناسخ کا انکار کرتے ہیں اور تناسخ کے قائل افراد کو کافر جانتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ ارواح کو ازلی مانتے ہیں اور قائل ہیں کہ یہی روح ایک بدن سے دوسرے بدن میں منتقل ہوتی رہتی ہے ، جس کی بنا پر روز قیامت معادِ جسمانی کا انکار کرتے ہیں۔(4)جس طرح سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بدن مثالی اسی مادی بدن کے اندر ہوتا ہے تو پھر تناسخ کا جواب روشن تر ہوجاتا ہے، کیونکہ روح اپنے بدن سے دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوئی ہے بلکہ بدن کے ایک حصہ سے جدا ہوکر دوسرے حصہ کے ساتھ عالم برزخ میں زندگی بسرکرتی ہے۔(5)
________________________________________
1)سورہٴ آل عمران ، آیت ۱۶۹ (2) سورہ مومن( غافر) ، آیت ۴۶
(3) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۳۱۴
(4) بحار الانوار ، جلد ۶، صفحہ ۲۷۷ (5) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۳۲۲

۶۵۔ کیا دنیا اور آخرت میں تضاد پایا جاتا ہے ؟
قرآن مجید کی متعدد آیات میں دنیا کی اپنے مادی امکانات کے ساتھ تعریف و تمجید کی گئی ہے: بعض آیات میں مال کو ”خیر“ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے: < کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ >(1)
مہارے اوپر بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی (خیر) مال چھوڑا ہے تو اپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کردے یہ صاحبان تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے“۔
بہت سی آیات میں مادی نعمتوں کو فضل خدا کا عنوان دیا گیا ہے، <وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللهِ>(2)
”اور فضل خدا کو تلاش کرو۔“۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ”روئے زمین کی تمام نعمتیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں، <خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا> (سورہٴ بقرہ ، آیت ۲۹)
بہت سی آیات میں ان تمام چیزوں کے لئے کہا گیا ہے: <سَخَّرَ لَکُم> (یہ سب تمہارے لئے مسخر کردی گئی ہیں) ، اور اگر تمام ان آیات کو ایک جگہ جمع کیا جائے کہ جن میں مادی امکانات کو محترم شمار کیا گیا ہے توان کی کثیر تعداد ہو جائے گی۔
لیکن مادی نعمتوں کی اس قدر اہمیت ہونے کے بعد بھی قرآن مجید میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن میں ان مادی چیزوں کو تحقیر اور ذلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
ایک جگہ متاع فانی اور عرض شمار کیا گیا ہے: <تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا>(سورہٴ نساء ، آیت ۹۴)
ایک دوسری جگہ اس کو غرور اور غفلت کا سبب شمار کیا گیاہے: <وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُور>(سورہٴ حدید ، آیت ۲۰)
ایک دوسرے مقام پر دنیا کو لہو و لعب اور کھیل کود سے تعبیر کیا گیا ہے: <وَمَا ہَذِہِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَہْوٌ وَلَعِبٌ>(سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۴)
ایک دوسری جگہ یاد خدا سے غفلت کا سبب قرار دیا گیا ہے: <رِجَالٌ لاَتُلْہِیہِمْ تِجَارَةٌ وَلاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ الله> (سورہ نور ، آیت ۳۷)
اسی طرح یہ مختلف نظریہ روایات میں بھی بیان ہوا ہے:
ایک طرف تو دنیا کو آخرت کی کھیتی، نیک اور صالح افراد کے لئے تجارت گاہ ،دوستان حق کے لئے مسجد، وحی الٰہی کے نزول کی جگہ، اور وعظ و نصیحت کا مقام شمار کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: ”مَسجدُ اٴحباء الله و مُصَلّٰی ملائکة الله و مھّبط وحيّ الله و متّجر اٴولیاء الله“(3)
دوسری طرف اسی دنیاکی مذمت کی گئی ہے اور اس کو غفلت و بے خبری اور یاد خدا سے غافل ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
کیا اس طرح کی تمام آیات و روایات میں تضاد ہے ؟
اس سوال کا جواب بھی خود قرآن مجید سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
دنیا اور اس کی نعمتوں کی مذمت اس جگہ کی گئی ہے جہاں ان لوگوں کو مخاطب قرار دیا گیا ہے کہ جن کا ہدف اور مقصد صرف یہی دنیاوی زندگی ہے، جیسا کہ سورہ نجم میں ارشاد ہوتا ہے: <وَلَمْ یَرِدْ إلاَّ الحیٰوة الدُّنْیَا> (سورہٴ نجم ، آیت ۲۹) ”اور زندگی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے“۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ گفتگو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالتے ہیں اور دنیاوی مادیات تک پہنچنے کے لئے کسی بھی ظلم و ستم اور خلاف ورزی کی پرواہ نہیں کرتے۔
سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: <اٴ رَضِیتُمْ بِالحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الاٴَخِرَةِ> (سورہٴ توبہ ، آیت ۳۸)کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو؟“۔
محل بحث آیات خود اس بات پر شاہد ہیں جیسا کہ ارشاد ہے: <من کان یرید العاجلة> (یعنی صرف ان کا ہدف اور مقصد یہی جلد ہی ختم ہوجانے والی مادی زندگیہے۔)
اصولاً ”کھیتی“ یا ”تجارت گاہ“ وغیرہ جیسے الفاظ اس سلسلہ میں زندہ گواہ ہیں۔
مختصر یہ کہ مادی نعمتیں سب خداوندعالم کی طرف سے ہیں اور نظام خلقت میں ان کا موجود ہونا ضروری تھا اور اگر انسان ان کے ذریعہ معنوی کمال اور سعادت تک پہنچنے میں مدد حاصل کرے تو ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔
لیکن اگر صرف دنیا ہی کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کو آخرت کا وسیلہ نہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں یہی مادی نعمتیں ، غفلت و غرو ر، طغیان و سرکشی اور ظلم و ستم کا عنوان حاصل کرلیں گی، جس کی ہر لحاظ سے مذمت کی جائے گی۔
واقعاً حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مختصر اور پُر معنی کلام میں کیا بہترین ارشادفرمایا”مَنْ اٴبصَرَ بھَا بصّرتہ وَمَنْ اٴبصَرَ إلَیھَا اٴعمتہ“(4) (جس نے اس دنیا کو چشم بصیرت کے ساتھ دیکھا (اور اس کو بینائی کا وسیلہ قرار دیا) تو دنیا اس کو بصیرت اور آگاہی عطا کرتی ہے، اور اگر کسی نے خود دنیا کو دیکھا تودنیا اس کو نابینا کردیتی ہے۔)
در اصل مذموم اور ممدوح دنیامیں یہیفرق ہے کہ اگر اس کو ہدف قرار دیا جائے تو مذموم ہے اور اگر اس کو ذریعہ اور وسیلہ قرار دیا جائے تو ممدوح ہے۔(5)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ”نِعمَ العَون الدُّنْیَا عَلَی طَلَبِ الآخرة“(6)( آخرت تک پہنچنے کے لئے دنیا بہترین مددگار ہے۔)
سورہ قصص کی آیات میں مالدار اور مغرور ”قارون“ کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے، جو اس موضوع کے لئے بہترین شاہد ہے ، لیکن اسلام اس مال و دولت کو پسند کرتا ہے جو ”آخرت کے لئے کام آئے“، جس کے ذریعہ آخرت حاصل کی جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے علماقارون سے کہتے تھے: ”وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ الله الدَّار الآخرة“ ( خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے ذریعہ آخرت حاصل کرنے کی فکر کر)۔
اسلام اس مال کو پسند کرتا ہے جس کے ذریعہ سب کے ساتھ نیکی کی جائے: ”اٴحْسَنَ کَمَا اٴحسنَ الله إلیک“
اسلام اس مال و دولت کی مدح و ثنا کرتا ہے جس میں انسان دنیا سے صرف اپنے حق کو نہ بھولے: ”لَاتَنْسِ نَصِیبکَ مِنَ الدُّنْیَا“
خلاصہ اسلام ایسے مال و دلت کو پسند کرتا ہے جس کے ذریعہ ظلم و فساد برپا نہ کیا جائے، انسانی اقدار کی پائمالی نہ ہو، اور مال زیادہ کرنے کے جنون میں مبتلا نہ ہو، نیز مال ”خود پسندی“ اور دوسرے کو ذلیل سمجھنے کا باعث نہ ہو یہاں تک کہ انسان مال و دولت کے نشہ میں خدا و رسول کے مقابلہ میں نہ آجائے۔
اس مال کے ذریعہ سب کی مشکلات دور کرناچاہئے، یہ مال اگر غریبوں کے زخم کا مرہم بن جائے، محتاج لوگوں کے درد کی دوا بن جائے تو واقعاً اسلام اس مال کوپسند کرتا ہے۔
ان مقاصد کے تحت مال و دولت حاصل کرنا دنیا کی محبت نہیں ہے، بلکہ یہ آخرت کی لگن ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: حضرت امام صادق علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور اس نے شکایت کی کہ ہم دنیا سے محبت کرتے ہیں اور اس کی آرزو کرتے ہیں (لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا پرست نہ ہوجاؤں!!)
امام علیہ السلام (اس شخص کے تقویٰ اور پاکیزگی سے باخبر تھے، آپ)نے فرمایا: تم مال و دولت سے کیا کیا کام انجام دیتے ہو؟ اس نے عرض کی: اپنے او ر اپنے اہل و عیال کا خرچ پورا کرتا ہوں، اپنے رشتہ داروں کی مدد کرتا ہوں، راہ خدا میں خرچ کرتا ہوں اور حج و عمرہ بجالاتا ہوں، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لَیسَ ھَذا طَلَبُ الدُّنیَا ھَذَا طَلَبُ الآخِرةِ“(7)(یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی نہیں ہے ، بلکہ یہ آخرت کا سوداہے)اور یہیں سے ان دو گروہوں کے نظریہ کاباطل ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے : پہلا گروہ ایسے مسلمانوں کا ہے جن کو تعلیمات اسلامی کی کوئی خبر نہیں ہے اور اسلام کو مستکبرین کا حامی قرار دیتے ہیں، اور دوسرا گروہ ان دشمنوں کا ہے جو اسلام کی صورت بگاڑ کر پیش کرتے ہیں، اور اسلام کو مال و
دولت کا مخالف اور فقر و غربت کا طرفدار قرار دیتے ہیں۔
اصولی طور پر کوئی غریب قوم آزادی اور سربلند ی کی زندگی نہیں گزار سکتی۔
فقر و غربت وابستگی کا وسیلہ ہے۔
فقر و غربت دنیا و آخرت کی ذلت کا نام ہے۔
فقر و غربت انسان کو گناہ اور آلودگی کی دعوت دیتے ہیں۔
جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے”غَنیٌّ یحجزُکَ عَن الظُّلْمِ خَیرٌ مِن فَقْرٍ یَحمَلُکَ عَلَی الاٴ ثمِ“(8) ( ایسی بے نیازی جو دوسروں پر ظلم کرنے سے روک لے، اس فقر و غربت سے بہتر ہے جو تجھے گناہوں کی دعوت دے)۔
تمام ملت اسلام کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ غنی بنیں اور دوسروں سے بے نیاز ہو جائیں، خود کفائی کی منزل تک پہنچیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، اور اپنی عزت و شرافت اور استقلال کو فقر و غربت اور دوسرے سے وابستگی پر قربان نہ کریں، یہی اسلام کا اصلی راستہ ہے۔(9)
________________________________________
(1) سورہ بقرہ ، آیت نمبر ۱۸۰
(2) سورہٴ جمعہ ، آیت ۱۰
(3) نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،جملہ ۱۳۱
(4) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۸۲ (5) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۶۷
(6) ”وسائل الشیعہ “، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷، (حدیث ۵ ،باب ۱۶،ابواب مقدمات تجارت)
(7) وسائل الشیعہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۹، (حدیث ۳، باب ۷،ابواب مقدمات التجارة)
(8) وسائل الشیعہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷ (حدیث ۷باب ۶، ابواب مقدمات التجارة)
(9) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۶، صفحہ ۱۷۴

۶۶۔ نامہٴ اعمال کیا ہے اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
< وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا >(1)
” اور ہم نے ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے“۔ (یہ وہی نامہ اعمال ہے اور ہم اس سے کہیں گے: اپنی کتاب پڑھو)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نامہ اعمال کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟
اس سلسلہ میں بیان شدہ آیات و روایات کے پیش نظر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال اس کی کتاب میں لکھے جاتے ہیں اور اگر انسان نیک ہے تو روز قیامت اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اگر برے لوگوں میں سے ہے تو اس کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
بے شک یہ کتاب اور نامہ اعمال ہمارے گھر میں موجود کتاب اور کاپی کی طرح بالکل نہیں
ہے، اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ نامہ اعمال ”انسانی روح“ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اسی روح میں انسان کے تمام اعمال ثبت ہوجاتے ہیں،(2) کیونکہ ہم جو عمل بھی انجام دیتے ہیں اس کا اثر ضرور ہماری روح و جان پر ہوتا ہے۔
یا یہ کہ یہ نامہ اعمال ہمارے اعضا و جوارح ہمارے ہاتھ پیر، آنکھ کان وغیرہ اور اس سے بالاتر وہ ہوا او رفضا ہے جس میں ہم نے وہ عمل انجام دیا ہے، کیونکہ ہمارے اعمال ہمارے جسم اور تمام اعضا پر اثر کرنے کے علاوہ ہوا اور زمین میں منعکس ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ ہم اس دنیا میں ان آثار کو محسوس نہیں کرسکتے، لیکن بے شک وہ موجود ہیں، اور جس دن ہماری آنکھوں میں نئی روشنی پیدا ہو جائے گی ان سب کو دیکھیں گے اور ان کو پڑھیں گے۔
مذکورہ آیت میں <إقْرَاٴ کِتَابکَ>( اپنی کتاب پڑھو)کا جملہ بیان ہوا ہے۔
لیکن یہ جملہ، مذکورہ تفسیر سے کہیں دور نہ کردے، کیونکہ پڑھنے کے وسیع معنی ہوتے ہیں جس میں ہر طرح کا مشاہدہ آتا ہے، مثال کے طو رپر ہم اپنی روز مرّہ کی گفتگو میں کہتے ہیں کہ میں نے فلاں کی آنکھوں کو پڑھا کہ اس کا کیا ارادہ ہے، یا فلاں کام کرنے والے کے قیافہ و چہرہ کو پڑھ لیا ہے، اسی طرح بیماروں کے ایکسرے کو آج کل پڑھنا ہی کہتے ہیں۔
اسی وجہ سے ہم قرآنی آیات، میں پڑھتے ہیں کہ اس نامہ اعمال کی سطروں کا کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ خود عمل کے واقعی اور تکوینی آثار ہیں اور بالکل انسان کی ریکارڈ کی ہوئی آواز یا فوٹو یا انگوٹھے کے نشان کی طرح ہیں۔(3)

نامہ اعمال کا فلسفہ
قرآنی آیات اور روایات میں نامہ اعمال کی تفصیل بیان ہونا خصوصاً جبکہ اعمال ، گفتگو اور نیت کی تمام جزئیات اس میں لکھی جاتی ہیں تو سب سے پہلے اس پر تربیتی آثار مرتب ہوتے ہیں ، جیسا کہ ہم نے بارہا اس بات کو عرض کیا ہے کہ قرآن کریم کی تمام تعلیمات انسان کے لئے تہذیب نفس ،روح کی پاکیزگی ،کمالات روحانی اور اخلاق و پرہیزگاری اصول کو مضبوط بنانے کے لئے ہے، اور یہ تمام انسانوں کے لئے ایک چیلنج ہے تاکہ اپنی رفتار و گفتار پر نظر رکھیں کیونکہ تمام چیزیں لکھی جارہی ہیں، اور روز قیامت ہو بہو دکھادی جائیں گی۔
یہ صحیح ہے کہ خداوندعالم کا علم تمام چیزوں پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور جو شخص خداوندعالم کے علمی احاطہ پر ایمان رکھتا ہو کہ خداوندعالم ہر جگہ موجود ہے اور سب چیزوں کو دیکھ رہا ہے تو ایسے شخص کے لئے نامہ اعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن اس حقیقت پر توجہ کرنے سے اکثر لوگوں میں بہت مفید آثار مرتب ہوتے ہیں۔
اگر کوئی یہ جانتا ہو کہ اس کے ساتھ ایک ایسا کیمرہ موجود ہے جو اس کی آواز بھی ریکارڈ کررہا ہے اور اس کی فلم بھی بنارہا ہے، چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر، گویا اپنے اعضا و جوارح کے ذریعہ جو کچھ بھی انجام دے رہا ہے وہ سب ریکارڈ ہورہا ہے ، اور ایک روز ایسا آئے گا جب خداوندعالم کی عدالت میں یہ سب فلم اور کیسٹ زندہ گواہ کی شکل میں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی،تو یقینا ایسا انسان اپنی رفتار و گفتار پر مکمل توجہ دےتا ہے، اور پھر اس کے ظاہر و باطن پرتقویٰ اور پرہیزگاری کی ہی حکومت ہوگی۔
نامہٴ اعمال پر ایمان رکھنا کہ اس میں ہر چھوٹا بڑا اعمال لکھا جارہا ہے اور دو فرشتہ انسان کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت اس کے ساتھ ہیں، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کا نامہٴ اعمال سب کے سامنے روز قیامت پیش کیا جائے گا اور تمام چھپے ہوئے گناہ اس میں ظاہر ہوجائیں گے جس سے دوست و دشمن سبھی کے سامنے ندامت اور رسوائی ہوگی، لہٰذا یہ ایمان انسان کو گناہوں سے روکنے کے لئے بہترین سبب ہے۔
نیک افراد کا نامہ اعمال ان کے لئے باعث افتخار اور عزت کا سبب ہوگا، ان کے اعمال بہتر اور موثر تر دکھائی دیں گے، اور یہ چیز نیک اعمال انجام دینے کے لئے بہترین علت ہے،لیکن بعض لوگوں کا ایمان ضعیف ہوتا ہے اور کبھی کبھی غفلت کا پردہ ان کو ان اہم حقائق سے دور کردیتا ہے، ورنہ قرآن کی یہ اصل ہر انسان کی تربیت کے لئے کافی ہے۔(4)
________________________________________
(1)سورہٴ اسراء ، آیت ۱۳
(2) تفسیر صافی
(3)تفسیر نمو نہ ، جلد ۱۲ ،صفحہ ۵۵
(4) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۷