۶۱۔ روح کیا ہے؟ اور یہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ روح ہی اصل ہے?
ایسا کہ ہم قرآن مجید کے سورہ اسراء ، آیت نمبر۸۵ میں پڑھتے ہیں: < وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی > ”اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجیئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے “۔
گزشتہ اور موجودہ دور کے مفسرین نے ”روح“ کے معنی اور اس آیت کی تفسیر کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے، ہم پہلے لغت کے اعتبارسے ”روح“ کے معنی کے بارے میں گفتگو کریں گے اس کے بعد قرآن میں یہ لفظ جہاں جہاں آیا ہے اسے دیکھیں گے اور اس سلسلہ میں وارد شدہ روایات بھی بیان کریں گے۔
۱۔ لغت میں:لغت کے لحاظ سے ”روح“ در اصل ”نفس“ اور ”دوڑنے“ کے معنی میں ہے، بعض لغویوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ”روح“ اور ”ریح“ (ہوا) ایک ہی معنی سے مشتق ہیں اور روح ِ انسان جو مستقل اور مجرد گوہر ہے اسے اس نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ یہ تحرک، حیات آفرینی اور ظاہر نہ ہونے کے لحاظ سے نفس اور ہوا کی طرح ہے۔
۲۔قرآنی آیات میں: قرآن حکیم میں یہ لفظ مختلف اور متنوع صورت میں آیاہے، کبھی یہ لفظ انبیاء و مرسلین کو ان کی رسالت کی انجام دہی میں تقویت پہچانے والی مقدس روح کے معنی میں آیا ہے، مثلاً سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
< وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاٴَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ>(1)
”اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی ہو ئی نشانیاں دی ہیں اور رو ح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی ہے“۔
کبھی یہ لفظ مومنین کو تقویت بخشنے والی اللہ کی روحانی اور معنوی قوت کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورہ مجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے: <اٴُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمْ الْإِیمَانَ وَاٴَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِنْہُ >(2)
”اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تا ئید کی ہے “۔
اور کبھی وحی کے خاص فرشتہ کے مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے، اور ”امین“ کے لفظ سے اس کی توصیف کی گئی ہے مثلاً سورہ شعراء میں ارشاد ہوتا ہے: <نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ # عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ >(3)
”یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں“۔
کبھی یہ لفظ خدا کے خاص فرشتوں میں سے ایک عظیم فرشتہ یا فرشتوں سے برترایک مخلوق کے معنی میں آیا ہے، مثلاً سورہ قدر میں ارشاد ہوتا ہے: < تَنَزَّلُ الْمَلاَئِکَةُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ اٴَمْرٍ >(4)
”اس میں ملائکہ ا ور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں“۔
نیز سورہ نباء میں بھی آیا ہے: <یَوْمَ یَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلاَئِکَةُ صَفًّا>(5)
”جس دن روح القدس اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے“۔
کبھی یہ لفظ قرآن اور وحیِ آسمانی کے معنی میں آیاہے مثلاً: <1>(6)
” اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی کی ہے“۔
کبھی یہ لفظ روحِ انسانی کے معنی میں آیا ہے جیسا کہ خلقتِ آدم سے متعلق آیات میں بیان ہوا ہے:
<ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ >(7)
”اس کے بعد اسے برابر کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی ہے“۔
اسی طرح سورہ حجر میں ارشاد ہوتا ہے: <فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ>(8)
”پھر جب مکمل کرلوں اور اس میں ا پنی روح حیات پھونک دوں تو سب کے سب سجدہ میں گرپڑنا“۔(9)
۳۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روح سے کیا مراد کیا ہے؟ یہ کس روح کا تذکرہ ہے کہ جس کے بارے میں کچھ لوگوں نے رسول اکرم سے سوال کیا ہے اور آپ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور اور تمہارے پاس صرف تھو ڑا ساعلم ہے۔
(11) یہاں پر روح کی اضافت خدا کی طرف اظہار عظمت کے لئے ہے اور مراد یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو ایک عظیم اور الٰہی مقدس روح بخشی ہے
آیت کے اندرونی اور بیرونی قرائن سے ایسا لگتا ہے کہ سوال کرنے والوں نے انسان کی روح سے متعلق سوال کیا ہے، وہی عظیم روح جو انسان کو حیوانات سے جُدا کرتی ہے جو ہمارا افضل ترین شرف ہے جو ہماری تمام تر طاقت اور فعالیت کا سرچشمہ ہے، جس کی مدد سے ہم زمین و آسمان کو اپنی جولان گاہ بنائے ہوئے ہیں، جس کے ذریعہ ہم علمی اسرار کی گتھیاں سلجھاتے ہیں، جس کے ذریعہ ہم موجوات کی گہرائیوں تک پہنچنے کا راستہ پاتے ہیں، چنانچہ وہ لوگ عالم خلقت کے اس عجوبہ کی حقیقت معلوم کرنا چا ہتے تھے۔
روح کی ساخت ،مادہ کی ساخت سے مختلف ہے اس پر حاکم اصول ،مادہ پر حاکم اصولوں اور طبیعی اور کیمیائی خواص سے مختلف ہیں، لہٰذا رسول اللہ (ص) کو حکم دیا گیا کہ وہ مختصر اور پُر معنی جملہ کہیں کہ ”روح عالمِ امر میں سے ہے“ یعنی اس کی خلقت پر اسرار ہے۔
اس کے بعد اس بنا پر کہ انھیں اس جواب پر تعجب نہ ہو مزید فرمایا: تمہارا علم بہت کم ہے لہٰذا کون سے تعجب کی بات ہے کہ تم روح کے اسرار نہ جان سکو اگرچہ وہ ہر چیز کی نسبت تم سے زیادہ قریب ہے۔
تفسیر عیاشی میں حضرت امام محمد باقر اور امام صادق علیہما السلام سے منقول ہے کہ آپ نے آیہٴ < وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ> کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا: ”إنَّمَا لرُّوح خَلَق مِن خَلْقِہِ، لَہُ بصر و قوة و تاٴیید یَجْعلَہُ فِی قلوب الرّسل وَالموٴمنِیْن“(10) (روح مخلوقاتِ خدا میں سے ہے اور یہ بینائی کی قوت رکھتی ہے خدا اسے انبیاء اور مومنین کے دلوں میں قرار دیتا ہے۔)
ایک حدیث انھیں دو نوں ائمہ میں سے ایک سے منقول ہے اس میں بیان ہوا ہے: ”ھی من الملکوت من القدرة“(11) (روح عالمِ ملکوت اور خدا کی قدرت میں سے ہے۔)
شیعہ اور سنّی کتاب کی متعدد روایات میں ہے کہ مشرکین قریش نے یہ سوال علمائے اہل کتاب سے حاصل کیا وہ اس کے ذریعہ رسول اللہ کو آزمانا چاہتے تھے ان سے کہا گیا تھا کہ اگر (محمد) نے روح کے بارے میں تمہیں کچھ بتادیا تو یہ اس کی عدم صداقت کی دلیل ہوگی، لیکن آپ نے ایک مختصر اور پُر معنی جواب دے کر انہیں حیران کردیا۔
مگر اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ جو روایات نقل ہوئیہیں کہ ان میں روح کو ایک ایسی مخلوق بتایا ہے جو جبرئیل اور میکائیل سے افضل ہے جو پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ رہتی ہے ، اور انھیں ان کے احکام میں انحراف سے باز رکھتی ہے(12)
آیت کی تفسیر کے بارے میں ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ روایات نہ فقط اس کے منافی نہیں ہیں بلکہ اس سے ہم آہنگ ہیں کیونکہ انسانی روح کے مختلف درجے اور مراتب ہیں، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی روح کا مرتبہ غیر معمولی اور بہت بلند ہے، او رگناہ و خطا سے معصوم ہونا جس کے آثار میں سے ہے، بہت زیادہ علم و آگاہی بھی اس کے آثار میں سے ہے اور مسلّم ہے کہ روح کا یہ مرتبہ تمام فرشتوں سے افضل ہوگا یہاں تک کہ جبرئیل اور میکائیل سے بھی (غور کیجئے )
روح کی اصالت اور اس کا استقلال علم انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ روح، اس کی ساخت اور اس کی اسرار آمیز خصوصیات کا مسئلہ ہمیشہ علماکے غور و فکر کا عنوان رہا ہے، ہر عالم نے روح کی وادیِ اسرار میں قدم رکھنے کی اپنی بساط بھر کوشش کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ روح کے بارے میں علماکے نظریات بہت زیادہ اور متنوع ہیں، ہوسکتا ہے کہ ہمارا آج کا علم بلکہ آئندہ آنے والوں کا علم بھی روح کے تمام اسرار و رموز تک پہنچنے کے لئے کافی نہ ہو اگرچہ ہماری روح اس دنیا کی ہر چیز سے ہمارے قریب تر ہے ،اور اس کا گوہر ہر چیز سے بالکل مختلف ہے جس سے ہمیں اس عالم مادہ میں سرو کار رہتاہے۔
اس پر زیادہ تعجب بھی نہیں کرنا چاہئے کہ ہم اس عجوبہٴ روزگار اور مافوق مادہ مخلوق کے اسرار اور حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے، بہر حال یہ صورتِ حال اس چیز میں مانع نہیں ہے کہ ہم روح کو دور سے نظر آنے والے منظر کو عقل کی تیز بین نگاہ سے دیکھ سکیں، اس پر حکم فرما اصول اور عمومی نظام سے آگاہی حاصل کرسکیں، اس سلسلہ میں اہم ترین روح کی اصالت و استقلال کا مسئلہ ہے جسے جاننا چاہئے۔
مادہ پرست روح کو مادی اور دماغ کے مادی خواص اور نسوں کے خلیے (Nerve Calls) میں سمجھتے ہیں اس کے علاوہ ان کی نظر میں روح کچھ نہیں ہے، ہم یہاں زیادہ تر اسی نکتے پر بحث کریں گے بقائے روح کی بحث اور تجرد کامل یا تجرد مکتبی کی گفتگو کا انحصار اسی مسئلے پر ہے، لیکن پہلے اس نکتہ کا ذکر ضروری ہے کہ انسانی بدن سے روح کا تعلق ایسا نہیں ہے جیسا کہ بعض نے گمان کررکھا ہے، روح نے بدن میں حلول نہیں کررکھا ہے اور نہ یہ مشک میں ہوا کی طرح انسانی جسم میں موجود ہے بلکہ بدن اور روح کے مابین ایک قسم کا ارتباط ہے اور یہ ارتباط روح کی بدن پر حاکمیت، تصرف اور اس کی تدبیر کی بنیاد پر ہے، بعض افراد نے اس ارتباط کو لفظ اور معنی کے مابین تعلق سے تشبیہ دی ہے، جبکہ ہم استقلال روح کے مسئلہ میں بحث کریں گے تو یہ بات بھی واضح ہوجائے گی۔
اب ہم اصل گفتگو کی طرف آتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان پتھر او رلکڑی سے مختلف ہے کیونکہ ہم اچھی طرح محسوس کرتے ہیں کہ ہم بے جان موجودات بلکہ نباتات سے بھی مختلف ہیں ہم سوچتے ہیں،ارادہ کرتے ہیں، محبت او رنفرت کرتے ہیں، وغیرہ۔
لیکن پتھر اور نباتات میں یہ احساسات نہیں ہیں لہٰذا ہمارے اور ان کے درمیان ایک بنیادی فرق موجود ہے اور اس کی وجہ انسان کی روح ہے۔
مادہ پرست یا کوئی اور نفس اور روح کے وجود کے منکر نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ علم نفسیات(Psychology) اور (Psychoanalism)کو ایک مثبت علم سمجھتے ہیں، یہ دونوںعلم اگرچہ کئی جہات سے اپنے ابتدائی مراحل طے کررہے ہیں تاہم دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں اساتذہ اور طلبہ اس کے بارے میں مطالعہ و تحقیق میں مصروف ہیں۔
جیسا کہ ہم بیان کریں گے کہ نفس اور روح دو الگ الگ حقائق نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف مراحل ہیں، جہاں جسم سے روح کے رابطہ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور ان دونوں کے مقابل تاثیرِ بیان ہوتی ہے وہاں ”نفس“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں جسم سے الگ روح سے ظاہر ہونے والے اثرات پر گفتگو ہوتی ہے وہاں لفظ ”روح“ استعمال ہوتا ہے، مختصر یہ کہ کوئی شخص انکار نہیں کرتا ہے کہ ہم میں روح اور نفس نام کی ایک حقیقت موجود نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مادہ پرستوں (Materialists) اور ماوراء طبیعت کے فلاسفہ اور روحیوں (Spirtulists)کے درمیان کیا نزاع ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دینی علمااور روحانی فلاسفہ کا یہ نظریہ ہے کہ جس مواد سے انسانی جسم بنتا ہے، اس کے علاوہ اس میں ایک اور حقیقت اور جوہر مخفی ہے کہ جو مادہ نہیں ہے لیکن انسانی بدن بلاواسطہ اس کے زیر اثر ہے،
دوسرے لفظوں میں روح ایک ماوراء طبعی حقیقت ہے اس کی ساخت اور فعالیت مادی دنیا کی ساخت اور فعالیت سے مختلف ہے، یہ ٹھیک ہے کہ یہ ہمیشہ مادی دنیا سے مربوط رہتی ہے لیکن یہ خود مادہ یا خاصیتِ مادہ نہیں ہے۔
ان کے مد مقابل مادیت کے فلاسفہ کہتے ہیں کہ ہمارے وجود میں روح نام کے مادہ کے علاوہ کوئی مستقل وجود نہیں اور مادہ سے ہٹ کر روح نام کی کوئی چیز نہیں جو کچھ بھی ہے یہی جسمانی مادہ ہے، یا اس کے طبیعی اور کیمیائی (Physical and chemical) آثار ہیں ہمارے اندر دماغ اور اعصاب نام کی ایک مشینری ہے جو ہماری زندگی کے اعمال کا ایک اہم حصہ ہے وہ بھی باقی مادی بدن کی مشینریوں کی طرح ہے اور مادی قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔
ہماری زبان کے نیچے کچھ غدود ہوتے ہیں جنہیں غدودہائے بزاق(لعاب دہن کے غدّے) (Slive Glands) کہا جاتا ہے، یہ طبیعی عمل بھی کرتے ہیں اور کیمیائی بھی جس وقت غذا منھ میں جاتی ہے تو یہ ” Artesiens“کی طرح خود بخود کام شروع کردیتے ہیں، یہ حساب میں اتنے ماہر ہیں کہ پانی کی بالکل اتنی مقدار جتنی غذا کو چبانے اور نرم کرنے کے لئے ضروری ہے اس پر چھڑکتے ہیں پانی والی غذا، کم پانی والی غذا، یا خشک غذا ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق لعاب دہن سے اپنا حصہ لیتی ہے۔
تیزابی مواد خصوصاً جس وقت زیادہ سخت ہوں ان غدوں کی کارکردگی بڑھادیتے ہیں، تاکہ اسے زیادہ مقدار میں پانی ملے اوریہ خوب باریک ہوجائے اور معدہ کی دیواروں کو نقصان نہ پہچائے۔
جس وقت انسان غذا کو نگل لیتا ہے ان کنوؤں کا عمل خود بخود رک جاتا ہے، مختصر یہ کہ ان ابلنے والے چشموں پر ایک عجیب و غریب نظام حکم فرما ہے ایسا نظام کہ اگر اس کا توازن بگڑ جائے یا ہمیشہ لعاب دہن ہمارے منہ سے گرتا رہے یا ہماری زبان اور حلق کسی قدرخشک ہوجائے تو ہمارے حلق میں لقمہ پھنس جائے۔
یہ لعاب د ہن کا طبیعی کام ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا زیادہ اہم کام کیمیائی ہے، اس میں مختلف طرح کا مواد مخلوط ہوتا ہے اور یہ غذا سے مل کر نئی ترکیب کو جنم دیتا ہے جس سے معدہ کی زحمت کم ہوجاتی ہے۔
مادہ پرست کہتے ہیں کہ ہمارے اعصاب اور مغز کا سلسلہ لعاب دہن کے غدوں کی مانند ہے اور یہ اسی طرح کے طبیعی اور کیمیائی عمل کا حامل ہے کہ جسے مجموعی طور پر طبیعی کیمیائی (Physical and chemical) کہا جاتا ہے، اور یہی طبیعی اور کیمیائی فعالیتیں ہیں جنھیں ہم آثارِ روح یا روح کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب ہم سوچ رہے ہوتے ہیں تو ایک خاص برقی سلسلہ ہمارے دماغ سے اٹھتا ہے، دور حاضر میں مشینوں کے ذریعہ ان لہروں کو کاغذ پر ثبت کردیا جاتا ہے خصوصاً نفسیاتی بیماروں کے استپالوں میں ان لہروں کے مطالعہ سے نفسیاتی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے، یہ ہمارے دماغ کی طبیعی(Physical) فعالیت ہے۔
اس کے علاوہ غور و فکر کرتے وقت اور نفسیاتی فعالیت کے موقع پر ہمارے دماغ کے خلیے ایک کیمیائی فعالیت بندکرتے ہیں لہٰذا روح اور آثار ِروح ہمارے دماغ اور اعصاب کے خلیوں کے کیمیائی تفاعل و ا نفعال کے طبیعی خواص کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے۔
اس بحث سے اہل مادہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں:
۱۔ جیسے لعاب دہن کے غدود کی فعالیت اور ان کے مختصر اثرات بدن سے پہلے نہ تھے اور نہ اس کے بعد ہوں گے اسی طرح ہماری روح کی کارگردی بھی دماغ اور اعصاب کی مشینری کے پیدا ہونے سے وجود میں آتی ہے اور اس کے مرنے سے مرجاتی ہے۔
۲۔ روح جسم کے خواص میں سے ہے لہٰذا وہ مادی شٴے ہے اور ماوراء طبیعت کا پہلو نہیں رکھتی۔
۳۔ روح پر بھی وہی قوانین حکم فرما ہیں جو جسم پر حکومت کرتے ہیں۔
۴۔ روح بدن کے بغیر کوئی مستقل وجود نہیں رکھتی اور نہ ہی رکھ سکتی ہے۔
روح کے عدم استقلال پر مادہ پرستوں کے دلائل
مادہ پرستوں کا نظریہ ہے کہ روح فکر اور روح کے تمام آثار مادی ہیں یعنی دماغ اور اعصاب کے خلیوں کے طبیعی اور کیمیائی خواص ہیں ، انھوں نے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے کچھ شواہد پیش کئے ہیں، مثلاً:
۱۔ بہت ہی آسانی کے ساتھ نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ اگر مراکز کا ایک حصہ یا اعصاب کا ایک سلسلہ بے کار ہوجائے تو آثارِ روح کا ایک حصہ معطل ہوجاتا ہے۔(13)
مثلاً تجربہ کیا گیا ہے کہ کبوتر کے مغز کا ایک خاص حصہ الگ کرلیا جائے تو کبوتر مرتا نہیں لیکن اس کی معلومات کا بہت سا حصہ ختم ہوجاتا ہے، اگر اسے غذائیں کھلائیں تو کھاتا ہے او رہضم کرتا ہے اور اگر نہ کھلائیں صرف دانہ اس کے سامنے ڈال دیں تو نہیں کھاتا او ربھوک سے مرجاتا ہے!
اسی طرح اگر انسان کے دماغ پر کچھ ضربات لگائی جائیں یا بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کے دماغ کا کچھ حصہ بیکار ہوجائے تو دیکھا جاتا ہے کہ انسان بہت سی چیزوں کو بھول جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے جرائد اور اخباروں میں پڑھا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو اہواز کے قریب ایک واقعہ پیش آیا اس واقعہ میں اس کے دماغ پر ضرب آئی، وہ اپنی زندگی کے تمام گزشتہ واقعات بھول گیا یہاں تک وہ اپنے ماں باپ تک کو نہیں پہچانتا تھا، اسے اس کے گھر لے جایا گیااس نے اسی گھر میں پرورش پا ئی تھی مگر وہ وہاں اپنے کو بالکل اجنبی محسوس کررہا تھا۔
ایسے واقعات نشاندہی کرتے ہیں کہ دماغ کے خلیوں کی فعالیت اور آثار ورح کے درمیان ایک قریبی ربط ہے۔
۲۔ غور و فکر کرتے وقت دماغ کی سطح پر مادی تغیرات زیادہ ہوتے ہیں، دماغ زیادہ غذا لیتا ہے اور فسفورس(Phosphore) واپس کرتا ہے، سوتے وقت جبکہ دماغ فکر ی کام نہیں کرتا، تھوڑی غذا لیتا ہے، یہ امر آثارِ فکر کے مادی ہونے کی دلیل ہے۔(14)
۳۔ مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ غور و فکر کرنے والوں کے دماغ کا وزن عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے (اوسطاً مردوں کے دماغ کا وزن ۱۴۰۰/ گرام ہوتا ہے اور عورتوں کے دماغ کا اوسطاً وزن اس سے کچھ کم ہوتا ہے)، یہ امر بھی روح کے مادی ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
۴۔ اگر قوائے فکری اور مظاہر روح، روح کے ایک مستقل وجود ہونے کی دلیل ہیں تو یہ بات ہمیں حیوانات کے لئے بھی ماننا چاہئے کیونکہ وہ بھی اپنی حد تک ادراک رکھتے ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری روح موجودِ مستقل نہیں ہے اور انسان شناسی کے علم نے جو ترقی کی ہے وہ بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے۔
ان دلائل سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانی اور حیوانی فیزیالوجی کی ترقی اور وسعت روز بروز اس حقیقت کو زیادہ واضح کررہی ہے کہ آثار روح اور دماغی خلیوں کے درمیان قریبی تعلق ہے۔
اس استدلال کے کمزور پہلو
مادہ پرستوں کے اس استدلال میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ انھوں نے آلات کار کو کام کا فاعل سمجھ لیا ہے۔
یہ واضح کرنے کے لئے کہ انھوں نے آلات کو فاعل کیسے سمجھ لیا ہے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں، اس مثال پر غور کیجئے:
”گیلیلیو “کے بعد آسمان کی وضع و کیفیت کے مطالعہ میں ایک انقلاب پیدا ہوا ہے، ”گیلیلیو“ (ایٹالین) نے عینک ساز کی مدد سے ایک چھوٹی سے دور بین بنائی اور وہ اس پر بہت خوش ہوا جب اس نے رات کے وقت اس کی مدد سے آسمانی ستاروں کا مطالعہ شروع کیا تو اس نے حیرت انگیز منظر دیکھا، ایسا منظر اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں دیکھا تھا، اس نے سمجھا کہ میں نے ایک اہم انکشاف کیا ہے، اس طرح اس دن کے بعد انسان عالم بالا کے اسرار کا مطالعہ کرنے کے قابل ہوگیا۔
اس وقت تک انسان ایک ایسے پروانے کی طرح تھا جس نے فقط اپنے ارد گرد کی چند شاخیں دیکھی تھیں لیکن جب اس نے دور بین کے ذریعہ جھانکا تو ا سے فطرت کا ایک عظیم جہان دکھائی دیا۔
اس سلسلہ میں ترقی و کمال جاری رہا یہاں تک کہ ستاروں کو دیکھنے کے لئے بڑی بڑی دور بینیں ایجاد ہوگئیں جن کا لینس پانچ میٹر یا اس سے بھی زیادہ تھا، انھیں پہاڑوں کی ایسی بلند چوٹیوں پر نصب کیا گیا جو صاف و شفاف ہوا کے اعتبار سے مناسب تھیں، ایسی ایسی دور بینیں بنیں جو کئی منزلہ عمارت کے برابر تھیں، ان کے ذریعہ انسان کو عالم بالا میں کئی جہان دکھائی دئے، ایسے ایسے جہان کہ عام نظر سے انسان کو ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
اب آپ سوچیں کہ اگر ایک دن ٹکنالوجی اتنی ترقی کر جائے کہ انسان ایسی دور بین بنالے جس کے عدس کا قطر ۱۰۰ میٹر ہو اور جس کا ساز و سامان اور وسعت ایک شہر کے برابر ہو تو ہم پر کتنے جہان منکشف ہوں گے۔
یہاں پریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ دور بینیں ہم سے لے لی جائیں تو یقینی طور پر آسمان کے بارے میں ہماری معلومات اور مشاہدات کا ایک حصہ معطل ہوجائے گا، لیکن کیا حقیقی طور پر دیکھنے والے ہم ہیں یا دور بینیں؟
کیا ٹیلسکوپ ہمارے لئے آلات کار ہے یا خود فاعل کار اور خود دیکھنے والی؟
دماغ کے بارے میں بھی کوئی شخص انکار نہیں کرتا کہ دماغ کے خلیے کے بغیر غور و فکر نہیں کی جاسکتا، لیکن کیا دماغ روح کے کام کا آلہ ہے یا خود روح؟!
مختصر یہ کہ مادہ پرستوں نے جو تمام دلائل پیش کئے ہیں وہ صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ دماغ کے خلیے اور ہمارے ادراک کے درمیان ربط موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی دلیل یہ ثابت نہیں کرتی کہ دماغ خود غور و فکر کرتا ہے نہ کہ ادارک کا آلہ ہے۔ (غور کیجئے )
یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مردے اگر کچھ نہیں سمجھتے تو اس کی وجہ روح کا بدن سے رابطہ کاختم ہوجاناہے، نہ کہ روح فنا ہوگئی ہے، یہ بات بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی بحری یا ہوائی جہاز کا وائر لیس خراب ہو جائے اور اس کا ساحل یا ایر پورٹ سے رابطہ نہ ہو سکے کیونکہ رابطہ کا ذریعہ منقطع ہوگیا ہے۔
استقلال روح کے دلائل
بات یہ ہورہی تھی کہ مادہ پرستوں کا اصرار ہے کہ روح سے ظاہر ہونے والے آثار و افعال کو دماغی خلیوں کے خواص سمجھنا چاہئے اور فکر، حافظہ، ایجاد، محبت، نفرت، غصہ اور علم و دانش سب کو ایسے امور سمجھنا چاہئے جنھیں تجربہ گاہ میں دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے، اور انھیں بھی عالم مادہ کے قوانین کے تحت سمجھنا چاہئے، اس کے برعکس استقلال روح کے فلاسفہ اس کی نفی پر مستحکم دلائل بیان کرتے ہیں جن میں سےہم ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ روح کا کام حقیقت نمائی ہے
مادہ پرستوںسے پہلا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ روح کے افکار و آثار دماغ کے طبیعی اور کیمیائی( Physico chemical) خواص ہیں تو پھر دماغ، معدہ ، دل اور جگر وغیرہ کے کاموں میں کوئی اصولی فرق نہیں ہونا چاہئے۔
مثلاً معدے کا کام طبیعی اور کیمیائی کار کردگی کا مرکب ہے، معدہ اپنی خاص حرکات کے ذریعہ اور تیزاب کے ترشح سے غذا کو ہضم اور اسے بدن میں جذب کرنے کے لئے تیار کرتا ہے، اسی طرح جیسا کہ کہا گیا ہے کہ لعاب دہن کا کام طبیعی اور کیمیائی عمل کی ترکیب ہے حالانکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ روح کے کام ان سب سے مختلف ہیں۔
بدن کی تمام مشینریوں کے کام ایک دوسرے سے تھوڑی بہت شباہت رکھتے ہیں لیکن دماغ کی کیفیت استثنائی ہے، تمام مشینریوں کے کام اندرونی پہلو رکھتے ہیں جبکہ روح سے ظاہر ہونے والے کام بیرونی پہلو رکھتے ہیں اور ہمیں ہمارے وجود سے باہر کی کیفیت سے آگاہ کرتے ہیں۔
اس گفتگو کی وضاحت کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا چاہئے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ کیا ہمارے وجود سے باہر کوئی جہان ہے یا نہیں؟ مسلّم ہے کہ باہر بھی ایک جہان ہے، آیڈیالسٹ حضرات (Idealists) خارجی جہان کا انکا رکرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے بس ہم ہی ہیں اور ہمارے تصورات اور خارجی جہان بالکل ان مناظر کی طرح ہیں جنھیں ہم عالم خواب میں دیکھتے ہیں اور سب کچھ تصورات ہی ہیں اور کچھ نہیںہے۔
یہ لوگ بہت بڑی غلطی پر ہیں، ہم نے متعلقہ بحث میں ان کی غلط فہمی کو ثابت کیا ہے کہ کس طرح سے آیڈیا لسٹ عمل میں ریلیسٹ (Realists) ہوجاتے ہیں اور جو کچھ وہ کتابی دنیا میں سوچتے ہیں اسے کوچہ و بازار اور عام زندگی کے ماحول میں قدم رکھتے ہی بھول جاتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیا ہم اپنے وجود سے باہر کے جہان سے آگاہ ہیں یا نہیں؟ یقینا اس سوال کا جواب بھی مثبت ہے کیونکہ ہم اپنے وجود سے باہر کے جہان کے بار ے میں بہت سا علم رکھتے ہیں اور ان موجودات کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں کہ جو ہمارے آس پاس سے بہت دور ہیں۔
اس وقت یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا خارجی جہان ہمارے وجود میں آسکتا ہے؟ مسلم ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا نقشہ ہمارے پاس ہے اور ہم واقع نمائی کی خاصیت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے وجود سے باہر کے جہان کو معلوم کرسکتے ہیں کیونکہ یہ واقع نمائی دماغ کے صرف طبیعی کیمیائی (Physico chemical) عمل کے خواص نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ خواص بیرونی دنیا کے بارے میں ہمارے تاثرات کی پیداوار ہیں یعنی ان کے معلول ہیں، جیسے غذا ہمارے معدہ پر اثرات چھوڑتی ہے تو کیا غذا کے معد ہ پر تاثر ات کا طبیعی اور کیمیائی فعل و انفعال سبب بن سکتا ہے کہ معدہ غذا کے بارے میں اگاہی رکھتا ہو؟ تو پھر کس طرح ہمارا دماغ اپنے سے باہر کی دنیا سے باخبر ہوسکتا ہے؟
دوسرے لفظوں میں خارجی اور عینی موجودات سے آگاہی کے لئے ان پر ایک قسم کا احاطہ ضروری ہے اور یہ احاطہ کرنا دماغ کے خلیوں کا کام نہیں ہے، دماغ کے خلیے تو صرف خارج سے متاثر ہوتے ہیں، اور تاثر بدن کی مشینوں کی طرح ہے جو خارجی کیفیت سے ان پر مرتب ہوتا ہے، یہ بات ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
اگر خارجی جہان سے متاثر ہونا خارج کے بارے میں اگاہی کی دلیل ہوتا تو پھر ضروری تھا کہ ہم اپنے معدے اور زبان کے ذریعہ بھی آگاہی حاصل کرتے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ہمارے ادراکات کی استثنائی کیفیت اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک دوسری حقیقت چھپی ہوئی ہے جس کا نظام طبیعی اور کیمیائی نظام سے بالکل مختلف ہے۔ (غور کیجئے )
۲۔ وحدتِ شخصیت
استقلال روح کے بارے میں جو دوسری دلیل ذکر کی جاسکتی ہے وہ انسان کی پوری زندگی میں وحدتِ شخصیت کا مسئلہ ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں شک و تردید رکھتے ہیں تب بھی اس بات میں شک نہیں رکھتے کہ ”ہم وجود رکھتے ہیں“۔
”میں ہوں“ اور اپنی ہستی کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے اور اپنے وجود کے بارے میں میرا علم حضوری ہے حصولی نہیں، یعنی میں اپنے آپ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنے آپ سے جدا نہیں ہوں۔
بہر حال اپنے آپ سے آگاہی ہماری واضح ترین معلومات میں سے ہے اور اس کے لئے کسی استدالال کی احتیاج نہیں، مشہور فرانسیسی ”ڈیکارٹ“نے اپنے وجود کے لئے یہ معروف استدلال کیا ہے : ”میں سوچ رہا ہوں پس میں ہوں“۔
یہ ایک اضافی اور غیر صحیح استدلال نظر آتا ہے کیونکہ اس نے اپنے وجود کو ثابت کرنے سے پہلے دو مرتبہ اپنے وجود کا اعتراف کیا ہے، ایک مرتبہ ”میں“ کہہ کر اور دوسری مرتبہ ”رہا ہوں“ کہہ کر۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ ”میں“ ابتدائے عمر سے آخر عمر تک ایک اکائی سے زیادہ نہیں ہے، آج کا ”میں“ وہی کل کا ”میں“، وہی بیس سال پہلے کا ”میں“ ، بچپن سے لے کر اب تک میں ایک شخص سے زیادہ کچھ نہیں ہوں ، ”میں“ وہی شخص ہوں جو پہلے تھا اور آخر عمر تک یہی شخص رہوں گا، نہ کہ کوئی اور شخص، البتہ ”میں“ نے تعلیم حاصل کی اور ”میں“ پڑھا لکھا ہوگیا، ”میں“ نے کمال و ترقی کی منزل طے کی اور پھر طے کروں گا، لیکن ”میں“ کوئی دوسرا آدمی نہیں ہوگیا، لہٰذا سب لوگ ابتدائے عمر سے لے کر آخر عمر تک مجھے ایک ہی آدمی جانتے ہیں میرا ایک ہی نام ہے اور یہ میں ہی کسی کا شناختی کارڈ وغیرہ ہوتا ہے۔
اب ہم سوچیں اور دیکھیں کہ یہ موجود واحد جس میں ہماری ساری عمر پوشیدہ ہے کیا ہے؟ یہ ہمارے بدن کے ذرّات یا دماغی خلیوں اور ان کے فعل و انفعالات کا مجموعہ ہے؟ یہ تو ہماری زندگی میں بارہا بدلتے رہتے ہیں اور تقریباً ہر سات سال کے بعد ایک مرتبہ تمام خلیے بدل جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں ایک شب و روز میں ہمارے بدن کے لاکھوں خلیے مرتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیے لے لیتے ہیں جیسے کسی پرانی عمارت کی پرانی اینٹیں نکالتے رہیں اور ان کی جگہ نئی اینٹیں لگاتے رہیں تو ایک عرصہ بعد یہ عمارت بالکل بدل جائے گی اگرچہ عام لوگوں کو اس کا اندازہ نہ ہو، جیسے کسی ایک بڑے تالاب کا پانی ایک تالاب سے نکلتا رہتا ہے اور دوسری طرف سے تازہ پانی داخل ہوتا رہتا ہے، واضح ہے کہ کچھ عرصے بعد سارا پانی بدل جائے گا، اگرچہ ظاہر میں افراد توجہ نہ کریں اور اسے پہلے والا ہی سمجھتے رہیں۔
کلی طور پر ہر موجود جو غذا حاصل کرتا ہے اور غذا کا مصرف رکھتا ہے اس کی تعمیر نو کا سلسلہ جاری رہے گا اور وہ بدل جائے گا۔
لہٰذا ایک ستر سالہ انسان کے تمام اجزائے بدن تقریباً دس مرتبہ بدل چکے ہوتے ہیں، اگر ہم مادہ پرستوں کی طرح انسان کو وہی جسم اور وہی دماغ و اعصاب اور وہی اس کے طبیعی اور کیمیائی خواص سمجھیں تو یہ ”میں“ تو ستّر سال کی عمر میں دس مرتبہ بدل چکا ہوگا، اور یہ وہی پہلے والا شخص نہیں ہوگا، حالانکہ کوئی عقل اس بات کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مادی اجزا کے بجائے کوئی ایک واحد ثابت حقیقت ہے جو ساری عمر میں موجود رہتی ہے جو مادی اجزاء کی طرح بدلتی نہیں ہے ، وہی در اصل وجود کی بنیاد ہے اور وہی ہماری شخصیت کی وحدت کا عامل اور باعث ہے۔
ایک غلط فہمی سے اجتناب
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دماغ کے خلیے نہیں بدلتے، وہ کہتے ہیں کہ فیزیالوجی کی کتابوں کے مطابق دماغ کے خلیوں کی تعداد آغاز عمر سے آخر عمر تک ایک ہی رہتی ہے یعنی وہ بالکل کم یا زیادہ نہیں ہوتے، البتہ بڑے ہوجاتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ اُن جیسے اور خلیے پیدا ہوتے ہوں، یہی وجہ ہے کہ انھیں کوئی نقصان پہنچے تو ان کی جگہ نئے خلیے پیدا نہیں ہوتے، لہٰذا ہمارے بدن میں ایک ”واحد ثابت“ موجود رہتا ہے اور یہ دماغ کے خلیے ہیں، یہی ہماری شخصیت کی وحدت کا محافظ ہے۔
یہ خیال ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ یہ خیال کرنے والوں نے دو مسئلوں کو آپس میں ملادیا ہے، دور حاضر کی سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ دماغ کے خلیے آغاز سے آخر تک تعداد کے لحاظ سے اتنے ہی رہتے ہیں ا ور ان کی تعداد میں کمی بیشی نہیں ہوتی، نہ یہ کہ ان خلیوں کے ذرات نہیں بدلتے، کیونکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ انسانی بدن کے تمام خلیوں کو ہمیشہ غذا کی ضرورت رہتی ہے نیز پرانے خلیے مرتے رہتے ہیں جیسے کوئی شخص ایک طرف کماتا رہتا ہے اور دوسری طرف خرچ کرتا رہتا ہے، مسلم ہے کہ اس شخص کا سرمایہ آہستہ آہستہ بدل جائے گا، اگرچہ اس کی مقدار نہ بدلے، جیسے کسی تالاب سے ایک طرف سے پانی نکلتا رہے اور دوسری طرف سے نیا پانی آتا رہے، ایک عرصہ بعد اس کا سارا پانی بدل جائے گا اگرچہ اس کی مقدار اتنی ہی رہے۔
(فیزیالوجی کی کتابوں میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے نمونہ کے طور پر کتاب ”ہورمونھا“ صفحہ۱۱/ اور کتاب ”فیزیالوجی حیوانی“ از ڈاکٹر محمود بہزاد و ہمراہان صفحہ نمبر ۳۲ پر رجوع کریں۔)
لہٰذا دماغ کے خلیوں میں ثبات نہیں ہیں بلکہ دوسرے خلیوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔
۳۔ بڑے کا چھوٹے پر منطبق نہ ہونا
فرض کریں کہ ہم دریا کے ایک خوبصورت کنارے پر بیٹھے ہیں،چند چھوٹی چھوٹی کشتیاں پانی کی موجوں پر تیر رہی ہیں، ایک بڑی کشتی بھی ہے ایک طرف سورج غروب ہورہا ہے اور دوسری طرف چاند طلوع ہورہا ہے، خوبصورت آبی پرندے پانی پر آکر بیٹھتے ہیں اور اڑجاتے ہیں، ایک طرف بہت بڑا پہاڑ ہے اس کی چوٹی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
ہم ساحل پر بیٹھے چند لمحوں کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں جو کچھ دیکھا ہے اسے اپنے ذہن میں مجسم کرلیتے ہیں وہی بڑا سا پہاڑ، دریا کی وہی وسعت، وہی بڑی سی کشتی، سب ہمارے صفحہ ذہن پر اُبھر آتے ہیں یعنی جیسے ایک بہت بڑا منظر ہماری روح کے سامنے یا ہماری روح کے اندر موجود ہو۔
اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس منظر کی جگہ کہاں ہے کیا چھوٹے سے دماغ کے خلیوں میں اتنا بڑا نقشہ سماسکتا ہے، یقینا نہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے وجود کا ایک اور حصہ ہو جو اس جسمانی مادہ سے ماوراء ہو اور اس قدر وسیع ہو کہ تمام مناظر اور نقشے اس میں سما سکیں۔
کیا ایک ۵۰۰ مربع میٹر عمارت کا نقشہ اسی لمبائی چوڑائی کے ساتھ چند مربع ملی میٹر زمین پر بنایا جاسکتا ہے؟ مسلّم ہے کہ اس سوال کا جواب منفی ہے کیونکہ کوئی بہت بڑا موجود اپنی وسعت کے ساتھ کسی چھوٹے موجود پر منطبق نہیں ہوسکتا، انطباق کے لئے ضروری ہے کہ جسے منطبق کرنا ہے وہ اس کے مساوی ہو یا اس سے چھوٹا۔
لہٰذا ہم انتہائی بڑے بڑے خیالی نقشوں کو اپنے دماغ کے چھوٹے چھوٹے خلیوں میں جگہ کیسے دے سکتے ہیں ،کرہ زمین تقریباً چار کروڑ مربع میٹر ہے ہم اپنے ذہن میں اس کی تصویر کھینچ سکتے ہیں، کرہ آفتاب ، زمین سے بارہ لاکھ گنا ہے اور کہکشائیں ہمارے آفتاب کی نسبت کئی ملین گنا ہیں، ہم اپنی فکر میں ان کی تصویر کشی کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ہم چاہیں کہ اپنے دماغ کے چھوٹے چھوٹے خلیوں میں یہ نقشے اسی وسعت کے ساتھ بنائیں تو بڑے کے چھوٹے پر منطبق نہ ہوسکنے کے قانون کے مطابق ممکن نہیںہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اس جسم سے مافوق ایک وجود کا اعتراف کریں جس میں یہ بڑے بڑے نقشے سماسکتے ہوں۔
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ذہنی نقشے بھی چھوٹی چھوٹی تصویریں ہیں جنھیں معین اسکیل کے تحت چھوٹا کیا گیا ہے او ر اگر انھیں اسی نسبت سے بڑا کردیا جائے تو ایک حقیقی نقشہ بن جائے گا، اور مسلم ہے کہ یہ چھوٹے نقشے دماغ کے خلیوں میں بن سکتے ہیں۔ (غور کیجئے )
اب ہم اس سوال کا جواب پیش کرتے ہیں:
اہم بات یہی ہے کہ مائیکرو فلموں کو عام پروجیکٹروں کے ذریعہ بڑا کرکے پردہٴ اسکرین پر منعکس کرتے ہیں،اسی طرح جغرافیائی نقشوں میں دی گئی اسکیل کے مطابق ہم نقشے کو ضرب دے کر اپنے ذہن میں منعکس کرتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بڑا پردہ جس پر ہماری بڑی بڑی ذہنی فلمیں منعکس ہوتی ہیں، کہاں ہیں؟
کیا وہ بڑا پردہ دماغ کے خلیے ہیں؟ وہ تو با لکل نہیں ہے اور وہ چھوٹا جغرافیائی نقشہ کہ جسے ہم بڑے عدد سے ضرب دے کر بڑے نقشہ میں تبدیل کرتے ہیں یقینا اس کے لئے کوئی جگہ چاہئے، کیا دماغ کے چھوٹے چھوٹے خلیے اس کی جگہ لے سکتے ہیں؟
واضح الفاظ میںیوں کہیں: مائیکروفلم اور جغرافیائی نقشہ میں جو کچھ خارج میں ہے وہ تو وہی چھوٹی فلم اور نقشہ ہے لیکن ہمارے ذہنی نقشوں میں تو بعینہ وہ نقشے اپنے خارجی وجود کی مقدار کے مطابق ہیں، لہٰذا انھیں ، خود انھیں کے برابر اور انھیں کی مقدار کے مطابقجگہ چاہئے، اور ہم جانتے ہیں کہ دماغ کے خلیے اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ انھیں اسی مقدار کے مطابق ان پر منعکس کیا جاسکے، مختصر یہ کہ ان ذہنی نقشوں کو ہم ان کے خارجی وجود کے مطابق تصور کرتے ہیں اور یہ بڑی تصویر چھوٹے سے خلیوں میں منعکس نہیں ہوسکتی، لہٰذا ان کے لئے کسی جگہ کی ضرورت ہے، یہیں سے ہمیں خُلیوں سے مافوق ایک حقیقی وجود کا پتہ چل جاتا ہے۔
۴۔ روح کے مادی مظاہر کیفیات کے مانند نہیں؟
یہ دلیل بھی استقلال روح اور اس کے غیر مادی ہونے کی طرف ہماری رہنمائی کرسکتی ہے کہ مظاہر روح میں کچھ خواص و کیفیات ایسی دکھائی دیتی ہیں جو مادی موجودات کے خواص و کیفیت سے کوئی شباہت نہیں رکھتیں، کیونکہ:
۱۔ موجودات کے لئے زمانہ درکار ہوتا ہے اور وہ تدریجی پہلو رکھتے ہیں۔
۲۔ وقت اور زمانہ کے ساتھ وہ کہنہ اور فرسودہ ہوجاتے ہیں۔
۳۔ ان کا متعدد اجزا میں تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن ذہنی موجودات اور اس میں پیدا ہونے والی چیزوں میں یہ آثار و خواص نہیں ہوتے، ہم اپنے ذہن، موجودہ جہاں کی طرح ایک جہان تصور کر سکتے ہیں بغیر اس کےکہ زمانہ گزرے اور اس کے لئے تدریجی پہلو کی ضرورت ہو ۔
اس بات سے قطع نظر وہ مناظر کہ مثلاً جو بچپن میں ہمارے صفحہ ذہن پر نقش ہوگئے تھے زمانہ گزرنے کے باوجود فرسودہ نہیں ہوتے اور ان کی شکل اسی طرح محفوظ رہتی ہے، ہوسکتا ہے کہ انسان کا دماغ کہنہ ہوگیا ہو لیکن اس کے کہنہ پن سے وہ گھر جس کا نقشہ بیس سال قبل ہمارے ذہن میں ثبت ہوا تھا اسی طرح باقی رہتا ہے، اس میں ایک طرح کا ثبات پایا جاتا ہے جو ماوراء مادہ جہان کی خاصیت ہے۔
نقشوں اور تصویروں کے بارے میں ہماری روح عجیب و غریب صلاحیت رکھتی ہے، ہم لمحہ بھر میں کسی تمہید کے بغیر ہر قسم کا نقشہ اپنے ذہن میں بنا سکتے ہیں، مثلاً آسمانی کرّات، کہکشائیں یا زمینی موجودات ، دریا اور پہاڑ وغیرہ، ان سب کا تصور ہمارے ذہن میں آنِ واحد میں ابھر سکتا ہے، یہ خاصیت ایک مادی موجود کی نہیں ہے بلکہ مافوق مادہ موجود کی نشانی ہے۔
اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ ۲ /اور ۲ / چار ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے اور ان کی مساوات کو ہر طرف ہم جز جز کرسکتے ہیں یعنی دو کا تجزیہ کریں یا چار کا لیکن اس مساوات کا تجزیہ نہیں کرسکتے، اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مساوات دو آدھے رکھتی ہے، اور ہر آدھا دوسرے آدھے کا غیر ہے، مساوات کا ایک ہی مفہوم ہے جو قابل تجزیہ نہیں ہے یعنی دو اور دو یا چار ہے یا نہیں ہے، اسے دو نیم ہرگز نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اس قسم کے ذہنی مفاہیم قابل تقسیم و تجزیہ نہیں ہیں، اسی بنا پر وہ مادی نہیں ہوسکتے، کیونکہ اگر وہ مادی ہوتے تو ان کا تجزیہ ممکن تھا اور انھیں تقسیم کیا جاسکتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہماری روح جو ایسے غیر مادی مفاہیم کا مرکز ہے مادی نہیں ہوسکتی، اس لئے وہ مافوق مادہ ہے۔ (غور کیجئے)(15)16)
________________________________________
(1)سورہٴ بقرہ ، آیت ۲۵۳
(2) سورہٴ مجادلہ ، آیت ۲۲
(3)سورہٴ شعراء ، آیت ۱۹۳، ۱۹۴
(4)سورہٴ قدر ، آیت ۴
5)سورہٴ نباء ، آیت ۳۸ (6) سورہٴ شوریٰ ، آیت ۵۲
(7) سورہٴ سجدہ ، آیت ۹ (8) سورہٴ حجر ، آیت ۲۹
(9) نور الثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۲۱۶ (10) نور الثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۲۱۶
(11) تفسیر نورالثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۲۱۵
(12) پیسی کولوژی ، (Phychology) ڈاکٹر ارانی صفحہ۲۳
(13) بشر از نظر مادی ڈاکٹر ارانی صفحہ۲
(14) کتاب ”معاد و جہان پس از مرگ“ کے حصہ ”استقلال روح“ کی تلخیص
(15) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۲۵۰
62۔ اجل مسمیٰ (حتمی) اور اجل معلق (غیر حتمی) سے مراد کیا ہے؟
اس میں شک نہیں ہے کہ انسان کے لئے دوطرح کی موت ہوتی ہے:
ایک حتمی اور یقینی موت ہے کہ جب انسان کا جسم باقی رہنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے یا یقینی موت کے وقت آنے پر تمام چیزیں حکم الٰہی سے انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔
اجل معلق یا غیر حتمی موت حالات کی تبدیلی سے بدل جاتی ہے، مثال کے طور پر انسان خود کشی کرلیتا ہے ، کہ اگر یہ گناہ کبیرہ نہ کرتا تو برسوں زندہ رہ سکتا تھا، یا انسان شراب اور دیگر منشیات کے استعمال یا بے حساب و کتاب شہوت رانی کے ذریعہ کچھ ہی دنوں میں اپنی جسمانی طاقت کھو بیٹھتا ہے، جبکہ اگر انسان ایسا نہ کرے تو بہت دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔
چنانچہ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو سبھی دیکھتے رہتے ہیں اور کوئی شخص بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
اتفاقی حوادث بھی اسی اجل معلق سے مربو ط ہیں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اسی بنا پر احادیث میں بیان ہوا ہے کہ راہ خدا میں صدقہ دینے، انفاق کرنے اور صلہ رحم کرنے سے عمر طولانی اور بلائیں دور ہوتی ہیں، در اصل یہ چیزیں انھیں اسباب کی طرف اشارہ ہیں۔
اور اگر ہم ان دوطرح کی موت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کریں گے تو پھر ”قضا و قدر“ اور ”انسانوں کی زندگی میں سعی و کوشش کے اثرات“ وغیرہ جیسے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔
اس بحث کو ایک آسان مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتاہے مثلاً کوئی شخص ایک نئی گاڑی خریدے، جس کا انجن اور باڈی میں لگایا گیا مختلف سامان بیس سال تک کام کرتا ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی صحیح طریقہ سے دیکھ بھال کی جائے، تو اس صورت میں اس گاڑی کی عمر وہی بیس سال ہوگی۔
لیکن اگر صحیح طور پر اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے یا اس کو نااہل لوگوں کے حوالہ کر دیا جائے ،یا اس کی طاقت کے لحاظ سے زیادہ کام لیا جائے یا ہر روز نامناسب راستہ پر چلایا جائے ، تو اس کی عمر آدھی یا اس سے بھی کم ہوسکتی ہے، یہ وہی ”اجل معلق“ ہے۔
ہمیں تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض مفسرین نے اس قدر واضح اور روشن مسئلہ پرتوجہ نہیں کی ہے۔(1)
وضاحت:
بہت سی ایسی موجودات ہیں جو فطری طور پر ایک طولانی مدت تک باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، لیکن اس مدت میں موانع پیش آسکتے ہیں جن سے وہ اپنی آخری عمر تک نہیں پہنچ سکتیں، مثال کے طور پر ایک چراغ (تیل کی مقدار بھر) مثلاً ۱۰/ گھنٹے روشنی دے سکتا ہے، لیکن اگر آندھی یا بارش آجائے تو وہ ۱۰/ گھنٹے نہیں جل سکتا۔
یہاں پر اگر چراغ جلنے میں کوئی مانع پیش نہ آئے توتیل کے آخری قطرے تک جلتا رہے گا اور تیل ختم ہونے پر ہی بجھے گا، تو گویا یہ اپنی ”حتمی اجل “ تک پہنچ گیا ہے، او راگر اس سے پہلے کوئی مانع پیش آجائے اور چراغ خاموش ہوجائے تو اس کی عمر کو ” غیر حتمی ا جل ‘ ‘کہا جا ئے گا۔
انسان کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے، اگر اس کی بقا کے لئے تمام شرائط جمع ہوجائیں اور موانع پیش نہ آئیں تو اس کی استعداد اور صلاحیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ طولانی عمر پائے (اگرچہ اس کی بھی ایک حد اور انتہا ہے) لیکن ممکن ہے کہ یہی انسان نامناسب غذاؤں، یا منشیات کے استعمال یا خود کُشی کے ذریعہ اس سے پہلے ہی مرجائے ، تو اس پہلی صورت میں اس کی موت کو ”اجل حتمی“ اور دوسری صورت میں ” غیر حتمی اجل“ کہا جاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ”حتمی اجل “ اس صورت میں ہے کہ ہم تمام ”علل تامہ“ کا لحاظ کریں، اور ”غیر حتمی اجل “ اس صورت میں ہے کہ ہم صرف ”مقتضیات“ کو مد نظر رکھیں۔
ان دو طرح کی موت کے پیش نظر بہت سی چیزیں روشن ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر جیسا کہ ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ صلہٴ رحم سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے یا قطع رحم سے عمر کم ہو جاتی ہے، (اس طرح کے موارد میں ” غیر حتمی اجل“ مراد ہوتی ہے)
یا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:< فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُہُمْ لاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ>(2) ” ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو ایک گھڑی کے لئے نہ پیچھے ٹل سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے“۔
اس آیت میں ”حتمی اجل “ مراد ہے۔
مذ کورہ آیت صرف یہ بیا ن کر رہی ہے کہ انسان اپنی آخری عمر کو پہنچ جائے ، لیکناس میں جلد آنے والی موت بالکل شامل نہیں ہے۔
بہر حال توجہ رکھنا چاہئے کہ موت کی دونوں قسمیں خداوندعالم کی طرف سے معین ہوتی ہیں، ایک مطلق طور پر اور دوسری مشروط یا معلق طور پر، بالکل اس طرح جیسے یہ چراغ بغیر کسی قید و شرط کے ۱۰ گھنٹے بعد خاموش ہوجائے گا، بالکل اسی طرح انسان اور قوم و ملت بھی ہے ، مثلاً خداوندعالم نے ارادہ فرمایا ہے کہ فلاں شخص یا فلاں قوم اتنی عمر کے بعد یقینی طور پر ختم ہوجائے گی، او راگر ظلم و ستم، نفاق اورسستی سے کام لیں گے تو ایک تہائی مدت میں ختم ہوجائے گی، دونوں موتیں خداوندعالم کی طرف سے ہیں ایک مطلق اور دوسری مشروط۔ مذکورہ آیت کے ذیل میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ ”ھُما اٴجلان اٴجَلٌ محتُومٌ وَاٴجلٌ مُوقُوفٌ“(3) اس میں ”حتمی اجل “ اور ” مشروط اجل “ کی طرف اشارہ ہے، اور اس سلسلہ میں ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ” غیر حتمی“ (مشروط) کو مقدم یا موٴخر کیا جاسکتا ہے، لیکن ”حتمی اجل“ کو مقدم یا موٴخر نہیں کیا جاسکتا۔ (نور الثقلین ، جلد اول صفحہ ۵۰۴)
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ (2) سورہٴ اعراف ، آیت ۳۴
(3) تفسیر نمونہ ، جلد۵، صفحہ ۱۴۹
۶۳۔ کیا سائنس تجسم اعمال کی تائید کرتا ہے
قرآن مجید کی آیات سے واقف افراداس بات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں روز قیامت ”تجسم اعمال“ کے بارے میں خبر دی گئی ہے، یعنی روز قیامت ہر شخص کے اعمال چاہے اچھے ہوں یا بُرے اس کے سامنے حاضر ہوجائیں گے، اور انسان کے لئے خوشی و مسرت کا سامان بن جائیں گے یا عذاب اور شکنجہ کا باعث ہوں گے، یا اس کے لئے باعثِ افتخار ہوں گے یا ذلت و رسوائی کا سبب ہوں گے۔
کیا انسان کے اعمال کا باقی رہنا ممکن ہے جبکہ انسان کے اعمال صرف کچھ حرکات و سکنات ہوتے ہیں اور انجام پانے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں؟ اس کے علاوہ انسان کے اعمال جو انسانی وجود کے عوارض ہیں کیا یہ مادہ اور جسم میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور مستقل شکل و صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں؟
چونکہ بہت سے مفسرین کے پاس ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں تھا لہٰذا وہ لوگ مجبوراً قرآنی آیات میں ”حذف اور تقدیر“ کے قائل ہوگئے اور کہتے ہیں کہ ”اعمال کے حاضر ہونے“ یا ”اعمال کے مشاہدہ“ سے اعمال کی جزا یا سزا مراد ہے۔
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ دونوں سوال کا جواب موجود ہے، لہٰذا قرآن مجید کی جن آیات میں ”تجسم اعمال“ کا بیان موجود ہے اس کا انکار کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں متعددروایات موجود ہیں انھیں میں سے حدیث معراج بھی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے جنت اور دوزخ کو دیکھا تو بدکاروں کو اپنے اعمال کی بنا پر عذاب جہنم میں مبتلا دیکھا، اور نیک لوگوں کو دیکھا کہ اپنے اعمال کی بنا پر جنت میں بہترین نعمتوں سے مالا مال ہیں۔
غیبت کے سلسلہ میں بیان ہونے والی آیت میں غیبت کرنے والے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والا قرار دیا ہے، یہ بھی ہمارے مدعا پر ایک دوسری دلیل ہے۔
لہٰذا گزشتہ آیات و روایات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ عالم برزخ اور قیامت میں انسان کے اعمال مناسب شکل میں مجسم ہوں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا>(1)” جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں“۔
یہ آیہٴ شریفہ بیان کرتی ہے کہ انسان کا عمل دنیا ہی میں ایک طرح سے جسم رکھتا ہے، اس طرح کہ یتیم کا مال کھانا ایک جلادینے والی آگ کی طرح ہے، اگرچہ حقیقت کو نہ دیکھنے والی آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔
ان آیات و روایات کو مجازی اور کنائی معنی پر حمل کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا ان کی تاویل و توجیہ کریں، جبکہ ان کے ظاہر پر عمل کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، اور کوئی مشکل پیش نہیں آتی، اس کی مزید تفصیل آئندہ بیان کی جائے گی۔
منطق عقل میں تجسم اعمال:
تجسم اعمال کے سلسلہ میںیہ اہم اشکال طبرسی علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں بیان کیاہے کہ عمل ایک”عرض“ ہے، اور”جوہر“نہیں ہے (یعنی نہ مادہ کی خاصیت رکھتا ہے اور نہ خود مادہ ہے) اور دوسرے یہ کہ عمل انجام پانے کے بعد محو اور نابود ہوجاتا ہے، لہٰذا ہماری گفتگو اور ہمارے گزشتہ اعمال کے آثار دکھائی نہیں دیتے، وہ اعمال جو بعض چیزوں میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں مثال کے طور پر اینٹ اور سیمنٹ کے ذریعہ مکان بناتے ہیں، یہ تو تجسم اعمال نہیں ہے، بلکہ عمل کے ذریعہ ایک تبدیلی انجام پائی ہے۔ (غور کیجئے )
لیکن دو نکتوں کے پیش نظر ان دو اعتراضات کا جواب، اور تجسم اعمال کی کیفیت بھی روشن ہوجاتی ہے۔
سب سے پہلے یہ عرض کیا جائے کہ آج کل یہ بات ثابت ہے کہ دنیا میں کوئی چیز بھی ختم نہیں ہوتی، ہمارے اعمال مختلف طاقت کی شکل میں موجود رہتے ہیں، اگر ہم بولتے ہیں تو ہماری آوازیں فضا میں مختلف امواج کی شکل میں پھیل جاتی ہیں، اور ذروں کی لہروں میں تبد یل ہو جا تی ہیں اور ممکن ہے کہ یہ طاقت بھی کئی مرتبہ تبدیل ہوجائے، لیکن کسی بھی صورت میں بالکل ختم نہیں ہوتیں، ہمارے ہاتھوں اور پیروں کی حرکات بھی ایک طرح کی طاقت ہے، اور یہ ”مکینک طاقت“ ہر گز ختم نہیں ہوتی، ممکن ہے کہ ایک حرارتی طاقت میں تبدیل ہوجائے ، خلاصہ یہ کہ صرف اس دنیا کے مواد جن کی طاقت ثابت و پا ئیدار ہے اگر چہ شکل بد لتی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی دانشوروں اور آزمائشوں کے ذریعہ قطعی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ”مادہ“ اور ”طاقت“ کے درمیان ایک قریبی تعلق ہے، یعنی مادہ اور طاقت ایک ہی حقیقت کے دو مظہر ہیں،”مادہ“ طاقت کا خلاصہ ہے اور ”طاقت“ مادہ کی تفصیل ہے، اور دونوں معین شرائط و حالات کے تحت ایک دوسرے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
ایٹمی طاقت ، مادہ کا طاقت میں تبدیل ہونے کا نام ہے، یا دوسرے الفاظ میں ایٹمی ذرہ کا پھٹنا اور اس کی طاقت کا آزاد ہونا ہے۔
آج سائنس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ سورج کی حرارتی طاقت ایک ایٹمی طاقت ہے جو سورج کے ایٹم پھٹنے پر نکلتی ہے، اسی وجہ سے ہر روز سورج کا وزن کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے، اگرچہ یہ وزن سورج کے وزن کے مقابلہ میں بہت ہی ناچیز ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح مادہ طاقت میں تبدیل ہوسکتا ہے اسی طرح طاقت بھی مادہ میں تبدیل ہوسکتی ہے، یعنی اگر پھیلی ہوئی طاقت دوبارہ جمع ہوجائے اور جسم و جرم کی حالت پیدا کرلے تو پھر ایک جسم کی شکل میں ظاہر ہوسکتی ہے۔
اس بنا پر کوئی مانع نہیں ہے کہ ہمارے اعمال اور گفتگو جو مختلف طاقت کی شکل میں موجود رہتے ہیں اور نابود نہیں ہوتے، وہ حکم خدا سے دوبارہ جمع ہوجائیں اور ایک جسم کی شکل اختیار کرلیں، اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ہر عمل اپنے لحاظ سے جسم حاصل کرے گا ، جو طاقت اصلاح نفس، خدمت دین، تقوی اور پرہیزگاری میں خرچ کی گئی ہے وہ ایک خوبصورت جسم میں ظاہر ہوگی، اور جو طاقت ظلم و ستم، فساد اور برائیوں میں خرچ کی گئی ہے وہ بد شکل اور متنفر صورت میں ظاہر ہوگی!
اس بنا پر ”تجسم اعمال“ کو قرآن مجید کے علمی معجزات میں شمار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس زمانہ میں طاقت کی بقا، یا مادہ کا طاقت میں تبدیل ہونا یا اس کے برعکس طاقت کا مادہ میں تبدیل ہونا،دانشوروں اور صا حبان علم کے ذہنوں تک میں نہ تھا، لیکن قرآن مجید اور روایات میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
لہٰذا نہ تو ”عرض“ ہونے کے لحاظ سے کوئی مشکل ہے اور نہ اعمال کے نابود ہونے کے لحاظ سے، کیونکہ اعمال نابود نہیں ہوتے، اور عرض و جوہر ایک ہی حقیقت کے دو جلوے ہیں، یہ بات جوہری حرکت کے پیش نظر واضح تر ہوجاتی ہے! کیونکہ ”جوہری حرکت“ کے قائل اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ عرض و جوہر ایک دوسرے سے جدا نہیںہیں، جس کی بنا پر وہ عرض میں جوہر ی حرکت کے ذریعہ حرکت جوہری سے استدلال کرتے ہیں(غور کیجئے )
اپنی بات کو مکمل کرنے کے لئے اس نکتہ کی طرف اشارہ مناسب ہے:
مشہور و معروف فرانسوی دانشور ”لاوازی“ نے قانون ”بقا ئے مادہ“ کو بہت سعی و کوشش کے بعد کشف کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ اس دنیا کے تمام مادے نابود نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔اس کے کچھ مدت بعد ”پیر کوری اور اس کی زوجہ“ نے پہلی بار ”یڈیو اکٹیو“ (جن جسموں میں ناپائیدار ایٹم پائے جاتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ طاقت میں تبدیل ہوجاتے ہیں) پر مادہ اور طاقت کے تعلق سے ایک ریسرچ کرنے کے بعد کشف کیا اور” قانون بقائے مادہ “کو ”قانون بقائے مادہ اور طاقت“ میں تبدیل کردیا، اور اس لحاظ سے قانون” بقائے مادہ “متزلزل ہوگیا اور قانون ”بقائے مادہ اور طاقت“نے اس کی جگہ لے لی، اور ایٹم کو توڑنے سے مادہ، طاقت میں تبدیل ہونے کو مختلف دانشوروں نے قبول کرلیا، معلوم ہوا کہ یہ دونوں (مادہ اور طاقت) آپس میں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، اور ایک دوسرے کی جگہ لے لیتے ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔
سائنس میں اس چیز کے کشف ہونے کی وجہ سے دانشوروں کی ریسرچ میں ایک عظیم انقلاب برپاہو گیا ہے اور عالم ہستی کی وحدت کو پہلے سے زیادہ ثابت کردیا۔
اس قانون نے قیامت اور انسان کے تجسم اعمال کے سلسلہ میں گزشتہ لوگوں کے بہت سے اعتراضات کا حل پیش کردیا جس سے تجسم اعمال کے سلسلہ میں لاحق موانع برطرف ہوگئے۔(2)
________________________________________
(1) سورہ نساء ، آیت ۱۰
(2) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۱۱۵ اور ۱۳۷
|