110 سوال اور جواب
 
۵۸۔ قیامت کے عقلی دلائل کیا ہیں؟
قرآن مجید میں قیامت کے سلسلہ میں سیکڑوں آیات بیان ہوئی ہیں، ان کے علاوہ قیامت کے بارے میں بہت سے عقلی دلائل بھی موجود ہیں ہم ان میں سے بعض کو خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:
الف ۔ برہانِ حکمت: اگر قیامت کے بغیر اس زندگی کا تصور کریں تو بے معنی اور فضول دکھائی دیتی ہے، بالکل اسی طرح کہ شکم مادر میں بچہ کو اس دنیاوی زندگی کے بغیر تصور کریں۔
اگر قانون خلقت یہ ہوتا کہ بچہ شکم مادر میں پیدا ہوتے ہی مرجایا کرتا تو پھر تصور کریں کہ کسی ماں کاحاملہ ہونا کتنا بے مفہوم تھا؟ اسی طرح اگر قیامت کے بغیر اس دنیا کا تصور کریں تو یہی پریشانی دکھائی دے گی۔
کیونکہ کیا ضرورت ہے کہ ہم کم و بیش ۷۰/ سال تک اس دنیا کی سختیوں کو برداشت کریں؟ اور ایک مدت تک بے تجربہ رہیں، ”و تا پختہ شود خامی ،عمر تمام است!“ یعنی جب تک انسان تجربات حاصل کرتا ہے تو عمر تمام ہوجاتی ہے!
ایک مدت تک تحصیل علم و دانش کرتے رہیں ، اور جب معلومات کے لحاظ سے کسی مقام پر پہنچ جائیں تو موت ہماری طرف دوڑنے لگے۔
اس کے علاوہ ہم کس چیز کے لئے زندگی کریں؟ چند لقمہ کھانا کھانا، چند جوڑے لباس پہننا، سونا اور بیدار ہونا، دسیوں سال تک ہر روز یہی تھکادینے والے کام انجام دینا؟!
یہ عظیم الشان آسمان، وسیع و عریض زمین، اور ان میں پائی جانے والی تمام چیزیں، یہ اساتید، مربیّ، یہ بڑے بڑے کتب خانے اور ہماری اور دوسری موجودات کی خلقت میں یہ باریک بینی، اورظرافتکیا واقعاً یہ سب کچھ کھانے پینے، پہننے اور مادی زندگی بسر کرنے کے لئے ہیں؟
اس سوال کی بنا پر معاد اور قیامت کا انکار کرنے والے اس زندگی کے ہیچ ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ اس بے معنی زندگی سے نجات پانے کے لئے خود کشی کو اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں!
کیسے ممکن ہے کہ جو شخص خداوندعالم اور اس کی بے نہایت حکمت پر ایمان رکھتا ہولیکن اس دنیا کو عالم آخرت کے لئے مقدمہ شمار نہ کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاٴَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَتُرْجَعُونَ >(1)
”کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے“۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عالم آخرت نہ ہو تو اس دنیا کا خلق کرنا فضول تھا۔
جی ہاں! یہ دنیوی زندگی اسی صورت میں با معنی اور حکمت خداوندی سے ہم آہنگ ہوتی ہے کہ جب اس دنیا کو عالم آخرت کی کھیتی قرار دیں ”الدُّنْیَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ“،یا اس کوعالم ِآخرت کے لئے پل قراردیں” الدنیاقنطرة“ یا اس عالم کے لئے یونیورسٹی اور تجارت خانہ تصور کریں ، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے عظیم کلام میں فرماتے ہیں:
”یاد رکھو کہ دنیا باور کرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے، سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے، اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کا مقام ہے، یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور آسمان کے فرشتوں کا مصلیٰ ہے، یہیںوحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیں، رحمت الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں“۔(2)
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اس جہان کے حالات کا مطالعہ اور تحقیق کے بعدیہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد ایک دوسراجہان بھی موجود ہے: < وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاٴَةَ الْاٴُولَی فَلَوْلاَ تَذکَّرُونَ>(3) ”اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو“۔
ب۔ برہانِ عدالت: اس کائنات اور قوانین خلقت میں غور و فکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تمام چیزیں حساب و کتاب سے ہیں۔
خود ہمارے بدن میں ایک ایسا عادلانہ نظام حاکم ہے کہ اگر ذرا بھی تبدیلی یا نامناسب تغیر پیدا ہوجائے تو بیماری یا موت کا سبب ہوجاتا ہے، ہمارے دل کی دھڑکنیں، خون کی روانی، آنکھوں کے پردے، ہمارے اعظائے بدن کے تمام خلیے(Cells) اور اجزا اسی دقیق نظام کی طرح ہیں جس کی حکومت پورے جہان پرہے، ”وَبِالعَدْلِ قَامَتِ السَّمٰوَاتِ وَالاٴرْضِ“(5) ”عدل ہی کے ذریعہ زمین و آسمان باقی ہیں“،کیا انسان اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ناموزوں پیوند ہوسکتا ہے؟!
یہ بات صحیح ہے کہ خداوندعالم نے انسان کو آزادی ، ارادہ اور اختیار دیا ہے تاکہ اس کا امتحان
لے سکے،اور جس کے زیر سایہ وہ کمال کی منزلوں کو طے کرسکے، لیکن اگر انسان آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھائے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے؟ اگر ظالم و ستم گر ، گمراہ اور گمراہ کرنے والے ان خداداد نعمتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائیں تو خداوندعالم کی عدالت کا تقاضا کیا ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ بعض ظالم اور مجرم لوگو ں کو اس دنیا میں سزا مل جاتی ہے اور وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن مسلم طور پر ایسا نہیں ہے کہ تمام مجرموں کو پوری سزا مل جاتی ہو، یا تمام نیک اور پاک افراد کو اپنے اعمال کی جزا اسی دنیا میں مل جاتی ہو، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں گروہ ،عدالت خدا کی میزان میں برابر قرار پائیں؟ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا، ارشاد ہوتا ہے:
< اٴَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ # مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ >(6)
”کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسا فیصلہ کررہے ہو“۔
نیز ارشاد ہوتا ہے: < اٴَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ >()(کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر قرار دےدیں؟)
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم کے احکام کی اطاعت کرنے والوں کے لحاظ سے انسانوں میں فرق ہے، جس طرح سے ”مکافات جہان“، ”محکمہ وجدان “، اور ”گناہوں کا عکس العمل“ نامی عدالتیں اس دنیا میں عدالت برقرار کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ، لہٰذا یہ بات ماننا پڑے گی کہ عدالت الٰہی نافذ ہونے کے لئے خداوندعالم کی طرف سے ایک عام عدالت
(میزان) قائم ہو، جس میں نیک اور برے لوگوں کے سوئی کی نوک کے برابر اعمال کا بھی حساب کتاب کیا جائے، ورنہ عدالت خداوندی پر حرف آتا ہے، اس بنا پر قبول کرنا چاہئے کہ اگر ہم خداوندعالم کی عدالت کو مانتے ہیں تو پھر روز قیامت پر بھی ایمان رکھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:<وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ بِالْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ>(7) ”‘اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے۔“
نیز ارشاد ہوتا ہے:<وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَیُظْلَمُونَ >(8) ”لیکن ان کے درمیان حساب کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ کیا جائے گا“۔
ج۔ برہانِ ہدف: مادہ پرستوں کے نظریہ کے برخلاف الٰہی تصورِ کائنات کے مطابق انسان کی خلقت میں ایک ہدف اور مقصد کار فرما ہے جسے فلسفی اصطلاح میں ”تکامل و ارتقا“ کہتے ہیں اور قرآن و حدیث کی زبان میں کبھی ”قربِ خداوندی “ اور کبھی ”عبادت و بندگی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندمتعال ہے: <وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ>(9) ”اور ہم نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے“۔ اگر ان تمام کی انتہا ”موت“ ہو تو کیا یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے؟! بے شک اس سوال کا جواب منفی ہے، تو پھر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہونا چاہئے جہاں ”کمال“ کی منزلیں طے ہوتی رہیں، اور اس کھیتی کی فصل کٹتی رہے، اور جیسا کہ ہم نے ایک موقع پر عرض کیا ہے کہ اس زندگی میں بھی آخری مقصد تک پہنچنے کے لئے یہ تکاملی راستہ طے ہوتا رہے گا
خلاصہ یہ کہ یہ مقصد قیامت پر ایمان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا، اور اگر اس دنیا کا تعلق عالم آخرت سے ختم ہوجائے تو سب چیزیں معمہ بن کر رہ جائیں گی اور ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکے گا۔(10
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ ۳۷۸
(2) سورہٴ موٴمنون ، آیت ۱۱۵
(3) نہج البلاغہ ،کلمات قصار کلمہ ۱۳۱
(4)سورہٴ واقعہ ، آیت ۶۲
(5) تفسیر صافی ،سورہٴ رحمن کی ساتویں آیت کے ذیل میں
(6)سورہٴ قلم ، آیت ۳۵و۳۶
(7)سورہٴ ص ، آیت ۲۸
(8)سورہٴ انبیاء ، آیت ۴۷ (9)سورہٴ یونس ، آیت ۵۴
(10) سورہٴ ذاریات ، آیت ۵۶ (11) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸، صفحہ ۴۷۹

۵۹۔ معاد؛ جسمانی ہے یا روحانی؟
معادِ جسمانی سے مراد یہ نہیں ہے کہ روز قیامت صرف جسم دوبارہ لوٹایا جائے گا، بلکہ مراد یہ ہے کہ روح اور جسم دونوں حاضر کئے جائیں گے، یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ روح کا پلٹنا تو مسلم ہے صرف جسم کے بارے میں اختلاف اور بحث ہے۔
بعض گزشتہ فلاسفہ ”معاد روحانی“ پر عقیدہ رکھتے تھے ، اور جسم کو ایسی سواری مانتے تھے جو صرف اس دنیا میں انسان کے ساتھ ہے، اور انسان مرنے کے بعد اس جسم سے بے نیاز ہوجاتا ہے، جسم کو ترک کردیتا ہے اور ”عالم ارواح“ کی طرف کوچ کرجاتا ہے۔
لیکن عظیم علمائے اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ معاد؛ روحانی اور جسمانی دونوں پہلووٴں کے ساتھ ہوگی، اگر چہ بعض حضرات اس دنیوی جسم کے قائل نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم ہماری روح کو ایک جسم عطا کرے گا، کیونکہ انسان کی حقیقت اس کی روح ہوتی ہے اور یہ عطا کردہ جسم اس کا جسم شمار کیا جائے گا!
جبکہ صاحبان تحقیق کا عقیدہ یہ ہے کہ یہی جسم جو خاک میں مل کر ذرہ ذرہ ہوگیا، حکم خدا سے اس جسم کے تمام ذرات جمع ہوجائیں گے اور اس کو ایک نئی زندگی کا لباس پہنایا جائے گا، اور یہی وہ عقیدہ ہے جو قرآن مجید کی آیات سے حاصل کیا گیا ہے۔
معاد جسمانی پر قرآن مجید میں اس قدر شواہد موجود ہیں کہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے: جو افراد صرف ”معاد روحانی“ کے قائل ہوئے ہیں انھوں نے قرآن مجید کی اکثر آیات میں ذرا بھی غور و فکر نہیں کیا ہے ورنہ معاد جسمانی کے سلسلہ میں قرآن مجید میں اتنی زیادہ آیات موجود ہیں کہ شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہتی۔
سورہ یٰس کی آخری آیات اس حقیقت کو مکمل طور پر واضح کردیتی ہیں کیونکہ اس اعرابی شخص کو تعجب اسی بات پر تھا کہ میرے ہاتھ میں موجود اس گلی ہوئی ہڈی کو کون دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟
قرآن مجید نے اس کے جواب میں واضح طور یہ اعلان کیا: <قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ >(1)
آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا“۔
معاد کے سلسلہ میں تمام مشرکین کو اس بات پر تعجب تھا کہ جب ہم خاک ہوجائیں گے اور ہمارے ذرات بھی ادھر اُدھرخاک میں پھیل جائیں گے تو پھر ہمیں کس طرح دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے؟!! جیسا کہ انھیں کی زبانی قرآن مجید نے نقل کیا ہے: < وَقَالُوا ءِ ا ذَا ضَلَلْنَا فِی الْاٴَرْضِ ءَ اِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ>(2)
اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے!!“۔
یہ لوگ کہتے تھے: <اٴَیَعِدُکُمْ اٴَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَنَّکُمْ مُخْرَجُونَ>(3)
” کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور خاک اور ہڈی ہوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤگے“۔
کفار و مشرکین روز قیامت کے سلسلہ میں اس قدر تعجب کرتے تھے کہ اس مسئلہ کے قائل (پیغمبر اکرم (ص)) کو مجنون یا خدا پر بہتان باند ھنے والا سمجھتے تھے، جیسا کہ قرآن میں انھیں لوگوں کی زبانی نقل ہواہے: < وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ>(4)”
ور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کا کہنا ہے کہ ہم تمہیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤ گے تو تمہیں نئے بھیس میں لایا جائے گا“، اسی دلیل کی وجہ سے ”معاد کے سلسلہ میں قرآنی دلائل“ اسی ”معاد جسمانی“ پرزور دیتے ہیں، اس کے علاوہ قرآن مجید نے بارہا اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ تم لوگ روز قیامت اپنی قبروں سے نکلو گے، (سورہ یٰس، آیت نمبر ۵، سورہ قمر ، آیت نمبر ۷)”قبریں “ اسی معاد جسمانی سے تعلق رکھتی ہیں۔
قرآن مجید میں جنت کے بہت سے معنوی اور مادی صفات بیان کئے گئے ہیں، جو سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جسم کو بھی حاضر کیا جائے اور روح کو بھی، ورنہ نعمتوں کے ساتھ ساتھ حور و غلمان ، قصر و محل، بہشتی غذائیں اور مادی لذتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟!
بہر حال یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی قرآن مجید کی منطق اور ثقافت سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتا ہو اور معادِ جسمانی کا انکار کرے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ قرآنی نظریہ کے لحاظ سے معادِ جسمانی کا انکار خود اصل معاد کے انکار کے برابر ہے! اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں بیان شدہ دلائل کے علاوہ خود عقلی دلائل بھی موجود ہیں کہ اگر ان کو بیان کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجائے گی، البتہ ہم یہاں پرمعاد جسمانی کے سلسلہ میں ہونے والے سوالات اور اعتراضات کو بیان کرتے ہیں جیسے ”شبہ آکل و ماکول “وغیرہ جن کو اسلامی محققین نے بیان کیا ہے۔(5)
________________________________________
(1) سورہ یٰس ، آیت ۷۹
(2)سورہٴ الم سجدہ ، آیت ۱۰
(3)سورہٴ موٴمنون ، آیت ۳۵
(4) سورہٴ سباء ، آیت ۷ (5) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸، صفحہ ۴۸۷

۶۰۔ شبہ آکل و ماکول کیا ہے؟
ہت سے مفسرین اور مورخین نے درج ذیل آیت کے ذیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ لکھا ہے:
<وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی>(1)
” اور اس موقع کو یاد کرو جب ابراہیم نے التجا کی کہ پروردگار! مجھے یہ دکھادے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے“۔
ایک دن حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گزر رہے تھے،آپ نے دریا کے کنارے ایک مردار دیکھا، جس کا کچھ حصہ دریا کے اندر اور کچھ باہر تھا، دریا اور خشکی کے جانور دونوں طرف سے کھارہے تھے، بلکہ کھاتے کھاتے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے، اس منظر نے حضرت ابراہیم کو ایک ایسے مسئلہ کی فکر میں ڈال دیا جس کی کیفیت کو سب ہی تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں اور وہ ہے موت کے بعد مردوں کا زندہ ہونے کی کیفیت، جناب ابراہیم سوچنے لگے کہ اگر ایسا ہی انسانی جسم کے ساتھ ہو اور انسان کا بدن جانوروں کے بدن کا جز بن جائے تو اس کو قیامت میں کیسے اٹھایا جائے گا، جبکہ وہاں انسان کو اسی بدن کے ساتھ اٹھنا ہے!
حضرت ابراہیم نے کہا: پروردگارا! مجھے دکھا کہ تو مردوں کوکیسے زندہ کرے گا؟ خداوندعالم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے، انھوں نے کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ دل کو تسلی ہوجائے۔
خداوندعالم نے حکم دیا کہ چار پرندے لے لو اور ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت ایک دوسرے سے ملادو پھر اس سارے گوشت کے کئی حصہ کردو ہر حصہ ایک پہاڑ پر رکھ دو،اس کے بعد ان پرندوں کو پکارو تاکہ میدان حشر کا منظر دیکھ سکو، انھوں نے ایسا ہی کیا تو انتہائی حیرت کے ساتھ دیکھا کہ پرندوں کے اجزا مختلف مقامات سے جمع ہوکر ان کے پاس آگئے اور ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگیا۔

شبہ آکل و ماکول
مردوں کے زندہ ہونے کے منظر کا مشاہدہ کرنے کا تقاضا حضرت ابراہیم نے جس وجہ سے کیا تھا اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تقاضا زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ ایک جانور کا بدن دوسرے جانوروں کے بدن کا جز بننے کے بعد وہ اپنی اصلی صورت میں کیسے پلٹ سکتا ہے، علم عقائد میں اسی بحث کو ”شبہ آکل و ماکول “ کہا جاتا ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت میں خدا انسان کو اسی مادی جسم کے ساتھ پلٹائے گا اصطلاحی الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جسم اور روح دونوں پلٹ آئیں گے۔
اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ اگر ایک انسان کا بدن خاک ہوجائے اور درختوں کی جڑوں کے ذریعہ کسی سبزی یا پھل کا جز بن جائے تو پھر کوئی دوسرا انسان اسے کھالے اور اب یہ اس کے بدن کا جز بن جائے ،یا مثال کے طور پر قحط سالی میں ایک دوسرے انسان کا گوشت کھالے تو میدان حشر میں کھائے ہوئے اجزا ان دونوں میں سے کس بدن کے جز بنیں گے، اگر پہلے بدن کا جزبنیں تو دوسرا بدن ناقص اور دوسرے کا بنیں تو پہلا ناقص رہ جائے گا۔

(جواب)
فلاسفہ اور علم عقائد کے علمانے اس قدیم اعتراض کے مختلف جوابات دئے ہیں یہاں پر سب کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری نہیں ہے، بعض علماایسے بھی ہیں جو قابل اطمینان جواب نہیں دے سکے اس لئے انھیں معادِ جسمانی سے متعلق آیات کی توجیہ و تاویل کرنا پڑی اور انھوں نے انسان کی شخصیت کو روح اور روحانی صفات میں منحصر کردیا، حالانکہ انسانی شخصیت صرف روح پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی معاد جسمانی سے متعلق آیات ایسی ہیں کہ ان کی تاویل کی جاسکے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہ کاملاً صریح آیات ہیں۔
بعض لوگ ایک ایسی معاد کے بھی قائل ہیں جو ظاہراً جسمانی ہے لیکن معاد روحانی سے اس کا کوئی خاص فرق بھی نہیں ہے۔
ہم یہاں قرآن کی آیات کے ذریعہ ایک ایسا واضح راستہ اختیار کریں گے جو دورِ حاضر کے علوم کی نظر میں بھی صحیح ہے البتہ اس کی وضاحت کے لئے چند پہلووٴں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی بدن کے اجزا بچپن سے لے کر موت تک بارہا بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دماغ کے خلیے اگرچہ تعداد کے لحاظ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے پھر بھی اجزا کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں کیونکہ ایک طرف سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی تحلیل ہوتی رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ایک مکمل تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ دس سال سے کم عرصے میں انسانی بدن کے گزشتہ ذرات میں سے کچھ باقی نہیں رہ جاتا، لیکن توجہ رہے کہ پہلے ذرات جب موت کی وادی کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو اپنے تمام خواص اور آثار نئے اور تازہ خلیوں کے سپرد کرجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسانی جسم کے تمام خصوصیات رنگ، شکل اور قیافہ سے لے کر دیگر جسمانی کیفیات تک زمانہ گزرنے کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتی ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پرانے صفات نئے خلیوں میں منتقل ہوجاتے ہیں(غور کیجئے)
اس بنا پر ہر انسان کے بدن کے آخری اجزا جو موت کے بعد خاک میں تبدیل ہوجاتے ہیں وہ سب ان صفات کے حامل ہوتے ہیں جو اس نے پوری عمر میں کسب کئے ہیں اور یہ صفات انسانی جسم کی تمام عمر کی سرگزشت کی بولتی ہوئی تاریخ ہوتی ہیں۔
۲۔یہ صحیح ہے کہ انسانی شخصیت کی بنیاد روح سے ہوتی ہے لیکن توجہ رہنا چاہئے کہ روح کی پرورش جسم کے ساتھ ہوتی ہے اور جسم کے ساتھ ہی روح تکامل و ارتقا کی منزل طے کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لئے ایک جیسے دو جسم تمام جہات سے ایک دوسرے سے شباہت نہیں رکھتے، دو روحیں بھی تمام پہلووٴں سے ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہوتی ہیں۔
اسی بنا پر کوئی روح اس جسم کی مکمل اور وسیع مفاہمت اور کارکردگی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی جس کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہو اور تکامل و ارتقاء حاصل کیا ہو لہٰذا ضروری ہے کہ قیامت میں وہی سابق جسم لوٹ آئے، تاکہ اس سے وابستہ ہوکر روح عالی ترین مرحلے میں نئے سرے سے اپنی فعالیت کا آغاز کرے اور اپنے انجام دئے ہوئے اعمال کے نتائج سے فیضیاب ہو۔
۳۔ انسانی بدن کا ہر روز اس کے تمام جسمانی مشخصات کا حامل ہوتا ہے یعنی اگر واقعاً ہم بدن کے ہر خلیے کی پرورش کرکے اُسے ایک مکمل انسان بنالیں تو وہ انسان اس شخص کے تمام صفات کا حامل ہوگا جس کا جز لیا گیا تھا ۔ (یہ امر بھی قابل غور رہے)
پہلے دن انسان ایک خلیے سے زیادہ نہ تھا پہلے نطفہ ،خلیہ تھا، اسی میں انسان کی تمام صفات موجود تھیں، تدریجاً وہ تقسیم ہوا اور دو خلیے بن گئے پھر دو سے چار ہوئے اور رفتہ رفتہ انسانی بدن کے تمام خلیے وجود میں آگئے اسی بنا پر انسانی جسم کے تمام خلیے پہلے خلیے کی طرح ہیں اگر ان کی بھی پہلے خلیے کی طرح پرورش ہو تو ہر ایک ہر لحاظ سے ایک پورا انسان ہوگا جو بعینہ پہلے خلیے سے وجود میں آنے والے انسان کی سی صفات کا حامل ہوگا۔
ان مذکو رہ تین مقدمات کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم اصل اعتراض کا جواب پیش کرتے ہیں:
قرآنی آیات صا ف طور پرکہتی ہیں کہ آخری ذرات جو موت کے وقت انسانی بدن میں ہوتے ہیں قیامت کے دن انسان انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔(1)
اس بنا پر اگر کسی دوسرے انسان نے کسی کا گوشت کھایا ہو تووہ اجزا اس کے بدن سے خارج ہوکر اصلی شخص کے بدن میں پلٹ آئیں گے، اب یہاں پر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ پھر دوسرے کا بدن تو ضرور ناقص رہ جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ناقص نہیں ہوگا، بلکہ چھوٹا ہوجائے گا کیونکہ اس کے اجزا بدن سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں اب جب وہ اس سے لے لئے جائیں گے تو اس کی نسبت دوسرا بدن مجموعی طور پر لاغر اور چھوٹا ہوجائے گا، مثال کے طور پرایک انسان کا وزن ساٹھ کلو ہے اس میں سے چالیس کلو دوسرے کے بدن کا حصہ لے لیا گیا تو باقی بیس کلو کا چھوٹا سا بدن رہ جائے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کوئی مشکل تو پیدا نہیں ہوگی؟ جواب : یقینا کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ چھوٹا سا بدن بلا کمی و زیادتی دوسرے شخص کی تمام صفات کا حامل ہے، روز قیامت ایک چھوٹے بچے کی طرح اس کی پرورش ہوگی اور وہ بڑا ہوکر مکمل انسان کی شکل میں محشور ہوگا، حشر و نشر کے موقع پر ایسی پرورش و تکامل اور ارتقاء میں عقلی اور نقلی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ پرورش محشور ہوتے وقت فوری ہوگی یا تدریجی؟ یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ جو بھی صورت ہو اس سے کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا، اور دونوں صورتوں میں مسئلہ حل ہے۔

(1) ان آیات کا مطالعہ کیجئے کہ جن میں فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی قبروں سے زندہ اٹھیں گے
اب یہاں پر ایک یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کا سارا جسم دوسرے شخص کے اجزا سے تشکیل پایا ہو تو اس صورت میں کیا ہوگا؟
اس سوال کا جواب بھی واضح ہے کہ اصولی طور پر ایسا ہونا محال ہے کیونکہ مسئلہ آکل و ماکول کی بنیاد یہ ہے کہ ایک بدن پہلے موجود ہو اور وہ دوسرے بدن سے کھائے اور یوں پرورش پائے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بدن کے تمام اجزا دوسرے بدن سے تشکیل پائیں ، پہلے ایک بدن فرض کرنا ہوگا جو دوسرے بدن کو کھائے، اس طرح دوسرے بدن کا جز بنے گا نہ کل۔ (غور کیجئے )
ہمارے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے بدن سے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا اور جن آیات میں اس مفہوم کی صراحت کی گئی ہے ان کی کوئی توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(2)
________________________________________
(1)سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۰(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۲، صفحہ ۲۲۳