۵۵۔ کیا دس سالہ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے؟
یہ ایک مشہور و معروف سوال ہے جو قدیم زمانہ سے بہا نہ باز لو گوں کے درمیان ہوتا آرہا ہے اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ٹھیک ہے حضرت علی علیہ السلام نے سب سے پہلے اظہار اسلام کیا، لیکن اس دس سالہ اور نابالغ بچہ کا اسلام قابل قبول ہے یا نہیں؟ اور اگرآپ کے بلوغ کو معیار قرار دیں تو دوسرے بہت سے لوگ اس وقت اسلام یا مسلمان ہو چکے تھے ۔
یہاں ”مامون عباسی“ اور اس کے زمانہ کے ایک مشہور و معروف سنی عالم دین ”اسحاق“ کی گفتگو کا بیان کرنا مناسب ہے، (اس واقعہ کو ”ابن عبدربّہ“ نے اپنی کتاب ”عقد الفرید“ میں تحریر کیا ہے)
مامون نے اس سے کہا: پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت میں سب سے افضل کونسا عمل ہے؟
اسحاق نے کہا: خدا کی توحید اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کی گواہی میں اخلاص سے کام لینا۔
مامون نے کہا: کیا تم کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہو جو حضرت علی علیہ السلام سے پہلے مسلمان ہوا ہو؟
اسحاق نے کہا: علی اس وقت اسلام لائے جب وہ کم سن اور نابالغ تھے، اور شرعی ذمہ داریاں بھی ان پر نافذ نہیں ہوئی تھیں۔
مامون نے کہا: حضرت علی علیہ السلام کا اسلام پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت کی بنا پر تھا یا نہیں؟ اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے اسلام کو قبول کیا یا نہیں؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کسی ایسے شخص کو اسلام کی دعوت دیں جس کا اسلام قابل قبول نہ ہو!
یہ سن کر اسحاق لاجواب ہوگیا۔(1)
مرحوم علامہ امینی علیہ الرحمہ ”عقد الفرید“ سے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں: ابوجعفراسکافی معتزلی (متوفی ۲۴۰ئھ) اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ سب مسلمان اس بات کو جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے، پیغمبر اکرم (ص) پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام نے منگل کے روز اظہار اسلام فرمایا، اور آپ فرماتے تھے کہ میں نے دوسروں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے، اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ ”میں اسلام لانے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں“اور یہ ہر مشہور بات سے زیادہ مشہور ہے، ہم نے گزشتہ زمانہ میں کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کے اسلام کو کم اہمیت قرار دے، یا یہ کہے کہ حضرت علی اس وقت اسلام لائے جب آپ کم سن تھے، عجیب بات تو یہ ہے کہ ”عباس“ اور ”حمزہ“ جیسے افراد اسلام قبول کرنے میں ”جناب ابوطالب‘‘ کے عکس العمل کے منتظر تھے ، لیکن فرزند ابوطالب (حضرت علی علیہ السلام) نے اپنے پدر بزرگوار کے اسلام کا انتظار نہ کیا اور فوراً ہی اظہار ایمان کردیا۔(۲)
خلاصہٴ گفتگو یہ ہے : پہلی بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا اسلام قبول کیا ، لہٰذا اگر
کوئی شخص اس کم سنی میں حضرت کے اسلام کو قبول نہ کرے تو گویا وہ پیغمبر اکرم (ص) پر اعتراض کرتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کی مشہور و معروف روایات میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کھانا تیار کرایا اورقریش میں سے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کی اور ان کو اسلام کا پیغام سنایا، فرمایا: جو شخص سب سے پہلے اسلام کے پیغام میں میری نصرت و مدد کرے گا وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین ہوگا، اس موقع پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کسی نے رسول اسلام کی دعوت پر لبیک نہیں کہی، آپ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! میں آپ کی نصرت و مدد کروں گا، اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتا ہوں، اس موقع پر پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی! تم میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ہو۔
کیا کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ایک نابالغ شخص کو (جس کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ ان کا اسلام قابل قبول نہیں ہے) اپنا بھائی ، وصی اور جانشین قرار دیں اور دوسروں کو ان کی اطاعت کی دعوت دیں ! یہاں تک کہ مشرکین ِمکہ ابو طالب کا مذاق اڑاتے ہوئے ان سے کہیں کہ تم اب اپنے بیٹے کی اطاعت کرنا بے شک، اسلام قبول کرنے کے لئے بالغ ہوناشرط نہیں ہے، ہر وہ نوجوان جو صاحب عقل وشعور ہواگراسلام کو قبول کرے اور بالفرض اس کا باپ بھی مسلمان نہ ہو تو وہ اپنے باپ سے جدا ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوجائے گا۔
تیسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حتی نبوت کے لئے بھی ”بلوغ“ کی شرط نہیں ہے اور بعض انبیاء کو یہ مقام بچپن میں ہی مل گیا تھا، جیسا کہ جناب یحيٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: < وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا >(3)’اور ہم نے انھیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی’“۔
اور جناب عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی ملتا ہے کہ انھوں نے پیدائش کے بعد ہی واضح الفاظ میں کہا: < قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللهِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا>(4) ” (جناب) عیسیٰ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے“۔
ان دلیلوں میں سب سے بہترین دلیل یہی ہے کہ خود پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے اسلام کو قبول کیا اور دعوت ذوالعشیرہ میں یہ اعلان کیا کہ علی علیہ السلام میرے بھائی، میرے وصی اور میرے جانشین ہیں۔
بہر حال وہ روایت جس میں بیان ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں ہیں، یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک ایسی عظیم فضیلت بیان کرتی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے ، اسی دلیل کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے لئے امت میں سب سے زیادہ حقدار اور مناسب شخص ہیں۔(5)
________________________________________
عقد الفرید ، جلد ۳، صفحہ ۴۳ (تلخیص کے ساتھ)(1)
(۲) الغدیر ، جلد ۳، صفحہ ۲۳۷
(3) سورہٴ مریم ، آیت ۱۲3
4) سورہٴ مریم آیت۳۰
(5) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۳۵۵
۵۶۔ امام حسن نے زہر آلود کوزہ سے پانی کیوں پی لیا اور امام رضا نے زہر آلود انگور کیوں تناول فرمایا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ائمہ معصومین علیہم السلام خداوندعالم کی طرف سے علم غیب جانتے ہیں۔
لیکن یہ علم کیسا ہے، اور اس کی وسعت اور حدود کہاں تک ہے، یہ مسئلہ بہت پیچیدہ مسائل میں سے ہے جو اس طرح کی بحث و گفتگو میں دکھائی دیتا ہے، اس سلسلہ میں روایات بھی مختلف ہیں اور علماکے درمیان بھی اختلاف پایا جاتا ہے، درج ذیل مسئلہ انھیں بنیادی اور قابل توجہ احتمالات میں سے ہے:
ائمہ علیہم السلام تمام چیزوں کو”بالقوة“ جانتے ہیں نہ کہ ”بالفعل“ یعنی غیب کی باتوں کو جاننے کے لئے جب بھی ارادہ کریں تو خداوندعالم ان پر الہام فرمادیتا ہے، یا ان کے پاس ایسے قواعد اور اصول ہیں جن کے ذریعہ وہ ایک نیا باب کھول لیتے ہیں اور اسرار غیب سے آگاہ ہوجاتے ہیں، یا ان کے پیش نظر ایسی کتابیں ہیں کہ جب وہ ان پر نظر فرماتے ہیں تو اسرار غیب سے باخبر ہوجاتے ہیں، یا یہ کہ جب بھی خداوندعالم ارادہ فرمائے تو انھیں اسرارِ غیب سے باخبر کردیتا ہے، اور جب خداوندعالم اپنے ارادہ سے صرف نظر کرلیتا ہے تو وقتی طور پر یہ علوم مخفی ہوجاتے ہیں۔
اس بات (پہلی صورت) پر شاہد وہ روایات ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام جب کسی چیز کے سلسلہ میں جاننا چاہتے تھے تو ان کو معلوم ہوجاتا تھا، شیخ کلینی علیہ الرحمہ نے اس سلسلہ میں مستقل طور پر ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ”اِن الائمة اذا شاوٴا یعلموا علموا“(1)ہے ”جب ائمہ جاننا چاہتے ہیں تو جان لیتے ہیں“۔
اس بیان سے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے سلسلہ میں متعددمشکلوں کو بھی حل کیا جاسکتا ہے، جیسے یہ کہ امام حسن نے زہر آلود کوزہ سے پانی کیوں پی لیا اور امام رضا نے زہر آلود انگور کیوں تناول کرلیا؟ کیوں فلاں نااہل شخص کو قضاوت یا گورنری کے لئے انتخاب کیا، یا جناب یعقوب علیہ السلام اس قدر کیوں پریشان ہوئے؟ جبکہ ان کے فرزند ارجمند (جناب یوسف علیہ السلام) بلند مقامات کو طے کررہے تھے، اور آخر کار فراق کی گھڑیاں وصال میں تبدیل ہوگئیں، اور اسی طرح دوسرے سوالات حل ہوجاتے ہیں۔ ان تمام موارد میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ جاننا چاہتے تو جان سکتے تھے، لیکن یہ حضرات خود اس بات کو جانتے تھے کہ خداوندعالم کی طرف سے امتحان یا دوسرے مقاصد کے تحت ان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ آگاہی پیدا کریں۔
ایک مثال کے ذریعہ اس مسئلہ کو واضح کیا جاسکتا ہےکہ کوئی شخص کسی دوسرے کو ایک خط دے تاکہ فلاں شخص تک پہنچادے، جس میں بہت سے افراد کا نام یا ان کا عہدہ لکھا ہوا ہے، تو یہاں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ خط کے مضمون سے آگاہ نہیں ہے، لیکن کبھی صاحب خط کی طرف سے خط پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے اس صورت میں وہ خط کے مضمون سے آگاہ ہوسکتا ہے اور کبھی کبھی خط کے کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی تو اسے خط کا مضمون معلوم نہیں ہو تا۔(2)
________________________________________
(1) اصول کافی ، جلد اول، صفحہ ۲۵۸ ،(اس باب میں تین روایتیں اسی مضمون کی نقل ہوئی ہیں)، مرحوم علامہ مجلسی ۺنے بھی مرآة العقول ، جلد ۳، صفحہ ۱۱۸، میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے
(۲) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۲۴۹
۵۷۔ فلسفہٴ انتظار کیا ہے؟
حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کا انتظار اسلامی تعلیمات میں کسی دوسرے دین سے نہیں آیا بلکہ قطعی ترین مباحث میں سے ہے، جو خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے بیان ہوا ہے، اور تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔
اب ہم اس انتظار کے نتائج اور اسلامی معاشروں کی موجودہ حالت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کے ظہور کا انتظار انسان کو اس منزل فکر تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنی حالت کو بھول جاتا ہے اور ہر طرح کے شرائط کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے؟
یا یہ کہ در اصل یہ عقیدہ انسان کو اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دیتا ہے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کے اندر تحرک ایجاد کرتا ہے یا اس میں انجماد پیدا کردیتا ہے۔اور کیا یہ عقیدہ اانسان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ کرتا ہے یا ذمہ داریوں سے آزاد کردیتا ہے؟
کیا یہ عقیدہ انسان کو خواب غفلت کی دعوت دیتا ہے یا انسانیت کو بیدار کرتا ہے؟
لیکن ان سوالات کی تحقیق اور وضاحت سے پہلے اس نکتہ پر توجہ کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر بلند ترین مفاہیم اور اصلاح کے بہترین قوانین کسی نااہل یا ناجائز فائدہ اٹھانے والے کے ہاتھوں میں پہنچ جائے تو ممکن ہے کہ وہ ان سے غلط فائدہ اٹھائے یا ان کے بالکل برعکس مقاصد تک پہنچائے، جیسا کہ اس سلسلہ میں ہمیں بہت سے نمونے ملتے ہیں، ”انتظار“ کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے جیسا کہ ہم بعد میں بیان کریں گے۔
بہر حال اس طرح کی گفتگو میں ہر طرح کی غلط فہمی سے بچنے کے لئے پانی کو اس کے سرچشمہ سے لیا جائے تاکہ نہروں اور راستوں کی گندگی اس میں اثر نہ کر سکے، یعنی ہمیں ”انتظار“ کے مسئلہ میں اصلی اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور ”انتظار“ کے سلسلہ میں بیان ہونے والی مختلف روایات کو غور و فکر سے پڑھنا چا ہئے تاکہ ان کے اصلی مقصد سے آگاہی حاصل ہو سکے ۔
محترم قارئین ! اب یہاں پر بیان ہونے والی چند روایات پر غور کیجئے:
۱۔ کسی شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کی ولایت کا اقرار کرتا ہو اور ”حکومت حق“ کے ظہور کا انتظار کرتا ہو، اور اسی حال میں اس دنیا سے چل بسے؟
امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: ”ھُوَ بِمَنزلةِ مَن کَانَ مَعَ القَائِمِ فِي فِسطاطُہُ ثُمَّ سَکَتَ ھَنِیّئة ثُمَّ قَالَ ھُوَ کَمَنْ کَانَ مَعَ رَسُولِ الله!“(1)
”وہ اس شخص کی مانند ہے جو حضرت کے ساتھ ان کی رکاب ( محاذ) پر حاضر ہوا ہو، (اس کے بعد حضرت تھوڑی دیر خاموش ر ہے) اور فرمایا: وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے پیغمبر اکرم (ص) کی رکاب میں جہاد کیا ہو“۔ بالکل یہی مضمون دوسری بہت سی روایات میں بھی بیان ہوا ہے۔
(8) محاسن برقی ،بحار الانوار کے نقل کے مطابق طبع قدیم ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۶
۲۔ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ ”بِمنزلةِ الضَّارِبِ بِسَیْفِہِ فِي سَبِیْلِ الله“یعنی راہ خدا میں تلوار چلانے والے کی مانند ہے۔
۳۔ بعض دوسری روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ ”کَمَنْ قَارعَ مَعَ رسُولِ الله بِسَیْفہ“یعنی اس شخص کی مانند ہے جس نے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ دشمن کے سر پر تلوار چلائی ہو۔
۴۔ بعض روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ ”بِمَنْزِلَةِ مَنْ کَانَ قَاعِداً تَحْتَ لَوَاءِ القَائِمِ“ یعنی اس شخص کی مانند ہے جو حضرت قائم (عج) کے پرچم کے نیچے ہو۔
۵۔ اور دوسری روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ ”بِمَنْزِلَةِ المُجَاھدِ بَین یَدي رَسُولِ الله‘ِ‘ یعنی اس مجاہد جیسا ہے جس نے پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں جہاد کیا ہو۔
۶۔ بعض دیگر رویات میں بیان ہوا ہے کہ ”بِمَنْزِلَةِ مَن إسْتَشْہَدَ مَعَ رَسُولِ الله“ اس شخص کی مانند ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ شہید ہوا ہو۔
حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار کے سلسلہ میں ان چھ روایات میں یہ سات طرح کی شباہتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ مسئلہ انتظار ایک طرف اور دوسری طرف دشمن ِ (اسلام) سے جہاد اور اس سے مقابلہ میں ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ (غور کیجئے )
۷۔ بہت سی روایات میں اس طرح کی حکومت کے انتظار کے ثواب کو سب سے بڑی عبادت کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام سے منقول بعض احادیث میں یہ مضمون ملتا ہے ، درج ذیل حدیث پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:
”اٴَفْضلُ اٴعْمَالِ اُمَّتِی إنْتِظَارِ الفَرَجِ مِنَ الله عَزَّوَجَلَّ“ (9)
(9) کافی میں بحار سے نقل کیا ہے ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۷9
”میری امت کا سب سے بہترین عمل ”انتظار فرج“ (کشادگی)ہے“۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے: ”اٴفضلُ العبادةِ إنتظار الفَرج“(1) یعنی انتظار فرج بہترین عبادت ہے۔
اس حدیث میں انتظار فرج کے معنی چا ہے عام اور وسیع لیں یا امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے انتظار کے معنی لیں انتظار کے مسئلہ کی اہمیت واضح اور روشن ہوجاتی ہے۔
یہ تمام الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس طرح کے انقلاب کا انتظار کرنا ہمیشہ وسیع پیمانہ پر جہاد کاتصور لئے ہوئے ہے، ہم یہاں پہلے انتظار کا مفہوم اور پھر اس کے تمام نتائج پیش کریں گے۔
مفہوم انتظار
”انتظار “عام طور پر اس حالت کو کہا جاتا ہے کہ جس میں انسان پریشان ہو اور اس سے بہتر حالت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
مثال کے طور پر ایک بیمار اپنی شفاکا انتظار کرتا ہے، یا کوئی باپ اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتا ہے، جس سے دونوں پریشان ہیں اور بہتر حالت کے لئے کوشش کرتے ہیں۔
اور جیسے کوئی تاجر بازار کی ناگفتہ بہ حالت سے پریشان ہو اور وہ اقتصادی بحران کے خاتمہ کا انتظار کرتا ہے ، لہٰذا اس میں یہ دو حالتیں پائی جاتی ہیں:
۱۔ اپنی موجودہ حالت سے پریشانی۔
۲۔ حالت بہتر بنانے کے لئے کوشش۔
اس بنا پر امام مہدی (عج) کی حکومت عدالت اور آنحضرت کے قیام کا انتظار دو عنصر سے (1) کافی میں بحار سے نقل کیا ہے ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۳۶9 مرکب ہے: عنصر ”نفی“ اور عنصر ”اثبات“ عنصر نفی یعنی موجودہ حالت سے غمگین اور پریشان رہنا، اور عنصر اثبات یعنی حالات بہتر ہونے کے لئے سعی و کوشش کرنا ۔
اگر یہ دونوں پہلو اس کی روح میں جڑ کی طرح ثابت ہوجائیں تو پھر اس کے اعمال میں قابل توجہ تبدیلی پیدا ہوجائے گی۔
اور انسان ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے گا ،اپنے نفس کی اصلاح کرے گاتاکہ جسمی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیار ہوجائے۔
اگر ہم مزید غور و فکر کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ دونوں چیزیں انسان کی اصلاح اور اس کی بیداری کے لئے بہت مفید ہیں۔
(قارئین کرام!) اب اگر ”انتظار“ کے اصلی مفہوم کے پیش نظر مذکورہ روایات دیکھیں تو ان میں بیان ہونے والا ثواب صاف سمجھ میں آتا ہے، اور ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ایک حقیقی انتظار کرنے والے کا مرتبہ اتنا کیوں بلند ہے جیسا کہ وہ خود حضرت امام زمانہ (عج) کے پرچم کے نیچے ہو یا جس نے راہ خدا میں جہاد کیا ہو یا اپنے خون میں نہایا یا شہید ہوگیا ہو۔
کیا یہ سب راہ خدا میں جہاد کے درجات کے مختلف مراحل نہیں ہیں جو انتظار کرنے والوں کے لحاظ سے پائے جاتے ہیں۔
یعنی جس طرح سے راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں قربانی کا جذبہ مختلف ہوتا ہے اور ان میں ادب و اخلاق نیز آمادگی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ، اگرچہ یہ دونوں ”مقدمات“ اور ”نتیجہ“ کے لحاظ سے مشابہ ہو تے ہیں، کیونکہ دونوں جہاد ہیں اور دونوں میں اصلاح نفس اور آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا ایسی عالمی حکومت کے فوجی کو بے خبر وغافل نہیں ہو نا چا ہئے ایسے لشکر میںہر کس و نا کس شامل نہیں ہو سکتا؟
اسی طرح جو شخص اسلحہ لئے ہوئے ہے اور اس رہبرانقلاب کے دشمنوں سے جنگ کررہا ہے، اور صلح و عدالت کی حکومت کے دشمنوں سے مقابلہ کررہا ہے، تو اس کے لئے وسیع پیمانہ پر روحی ، فکری اور جنگی تیاری کی ضرورت ہے۔
ظہور امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے انتظار کے واقعی اثر سے مزید آگاہی کے لئے درج ذیل مطلب پر توجہ فرمائیں:
انتظار یعنی مکمل آمادگی میں اگر ظالم و ستمگر ہوں تو پھر کسی ایسی حکومت کا انتظار کرنا کیسے ممکن ہے جس کی تلوار ظالم و جابرلوگوں کے سر پر چمکے گی۔
میں اگر گناہوں سے آلودہ اور ناپاک ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کسی ایسے انقلاب کا انتظار کروں جس کا پہلا شعلہ گناہوں سے آلودہ لوگوں کو جلاکر راکھ کردے گا۔
عظیم الشان جہاد کے لئے آما دہ فوج کے افراد ہمیشہ اپنی طاقت و قوت بڑھاتے رہتے ہیں، اور ان میں انقلابی روح پھونکتے رہتے ہیں اور ہر طرح کے ضعف اور کمزوری کو دور کرتے رہتے ہیں۔
کیونکہ ”انتظار“ ہمیشہ اسی لحاظ سے ہوتا ہے کہ جس چیز کا انسان انتظار کر رہاہے۔
ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار۔
ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔
لیکن ہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل جیسے لگّی اور درانتی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب آپ غور کیجئے کہ جو لوگ ایک عالمی عظیم الشان اصلاح کرنے والے کا انتظار کرتے ہیں، وہ لوگ در اصل ایک بہت بڑے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں جو تاریخ بشریت کا سب سے بڑا انقلاب ہوگا۔
یہ انقلاب گزشتہ انقلابات کے برخلاف کوئی علاقائی انقلاب نہ ہوگا بلکہ ایک عام انقلاب ہوگا جس میں انسانوں کے تمام پہلوؤںپر نظر ہوگی اور یہ انقلاب سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ہوگا۔
پہلا فلسفہ۔ اصلاح نفس اس طرح کے انقلاب کے لئے ہر دوسری چیز سے پہلے مکمل طور پر آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس طرح کی اصلاحات کے بھاری بوجھ کو اپنے شانوں پر اٹھاسکے، اس چیز کے لئے سب سے پہلے علم واندیشہ ،روحانی فکر اور آمادگی کی سطح کو بلند کیا جاتا ہے تاکہ اس کے اہداف و مقاصد تک پہنچا جاسکے، تنگ نظری، کج فکری، حسد، بچکانا اختلافات، بیہودہ چیزیں اور عام طور پر ہر طرح کا نفاق اور اختلاف”سچے منتظرین“ کی شان میں نہیں ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حقیقی طور پر انتظار کرنے والا شخص ایک تماشا ئی کا کردار ادا نہیں کرسکتا، بلکہ سچا منتظر وہ ہے جو ابھی سے انقلابیوں کی صف میں آجائے۔
اس انقلاب کے نتائج پر ایمان رکھنا ہرگز اس کو مخالفوں کی صفوں میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور موافقین کی صف میں آنے کے لئے ”نیک اعمال، پاک روح، شجاعت و بہادری اور علم و دانش“ کی ضرورت ہے۔
میں اگر گنہگار اور فاسد ہوں تو پھر کس طرح اس حکومت کا انتظار کروں جس میں نااہل اور گنہگاروں کا کوئی کردار نہ ہوگا، بلکہ ان کو قبول نہ کیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی۔
کیا یہ انتظار انسان کی فکر و روح اور جسم و جان سے آلودگی کو دور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟!
جو فوج آزادی بخش جہاد کا انتظار کررہی ہو اور بالکل تیار ہو، تو اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔
لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ منتظر نہیں ہے اور اگر فوج آمادگی کا دعویٰ کرتی ہے تو جھوٹی ہے۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، اس وقت سوچیں کہ اس طرح کی یہ آمادگی اور تیاری کس طرح انسان ساز اور اصلاح کناں ہوگی۔
پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی مذاق کام نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ایک آسان کام نہیں ہوسکتا، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔
ایسا انقلاب لانے کے لئے بہت ہی عظیم انسان، مصمم، بہت بہادر، غیر معمولی طور پر طیب و طاہر، بلند فکر اور گہری نظرکے ساتھ مکمل طور پر آمادگی رکھنے والا ہونا چاہئے۔
ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار اصلاح کرنے والا نہیں ہے؟!
دوسرا فلسفہ : معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا
صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جا ئے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی،کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ کے لئے کام کرنا ہوگا، سب کی سعی و کوشش میں ہم آہنگی ہو، اس انقلاب کے لئے کوشش اسی عظیم الشان پیمانہ پر ہو جس کا ہم انتظار کررہے ہیں۔
ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فو جی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسو ئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے۔
فلسفہ انتظار کا ایک دوسرا ثمرہ یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرے جس پر مذکورہ روایات میں اس قدر ثواب کا وعدہ دیا گیا ہے۔
تیسرا فلسفہ: حقیقی منتظرین برے ماحول میں رنگے نہیں جاتے
حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے انتظار کا ایک اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان ،گناہوں اور بُرے ماحول میں گم نہ ہونے پائے، اور اپنے کو گناہوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھے۔
وضاحت: یعنی جب ظلم و ستم اور گناہوں کا بازار گرم ہو، اکثر لوگ گناہوں اور برائیوں میں پھنسے ہوئے ہوں، تو ایسے ماحول میں نیک کردار افراد (بھی) فکری بحران کا شکار ہوجاتے ہیں ، اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کی اصلاح سے مایوس ہوجاتے ہیں۔
کیونکہ کبھی کبھی ایسے افراد یہ سوچتے ہیں کہ اب تو کام ختم ہوچکا ہے اور اصلاح کا کوئی راستہ ہی باقی نہیں رہ گیا ہے، اور اپنے کو پاک و پاکیزہ رکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے، چنانچہ یہی نا امیدی اور مایوسی ان کو آہستہ آہستہ گناہوں اور برائیوں کی طرف کھینچتی ہے اور ان پر ماحول کا اثر ہونے لگتا ہے، وہ آلودہ اکثریت کے مقابلہ میں صحیح و سالم اقلیت کے عنوان سے اپنے کو محفوظ نہیں کرپاتے، اورماحول کے رنگ کو نہ اپنانے کو ایک ذلت و رسوائی سمجھتے ہیں!
ایسے موقع پر فقط ایک ہی چیز ان کے لئے ”امید کی کرن“ ہوتی ہے اور پرہیزگاری کی دعوت دیتی ہے، نیز ان کو برے ماحول سے محفوظ رہنے کی دعوت دیتی ہے اور وہ آخری صورت میں اصلاح کی امید ہے ، صرف اسی صورت میں انسان اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے سعی و کوشش سے ہاتھ نہیں روکتا۔
اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں گناہوں کی بخشش سے مایوسی کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ بعض لوگ تعجب کریں کہ کیوں رحمت خدا سے مایوسی کو اس قدر عظیم اور اہم شمار کیا گیا ہے، یہاں تک کہ بہت سے گناہوں سے بھی اہم قرار دیا گیا ہے تو در اصل اس کا فلسفہ یہی ہے کہ رحمت خدا سے مایوس گنہگار ہرگز اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتا، یا کم از کم وہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کرنے سے نہیںرکتا، اس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت؟! میں تو بدنام زمانہ ہوگیا ہوں اب مجھے دنیا کا کوئی غم نہیں ہے!! سیاہی سے زیادہ تو کوئی رنگ نہیں ہے، آخر کار جہنم ہے، جہنم تو میں نے خرید ہی لیا ہے اب اور کسی چیز کا ڈر کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ لیکن جب اس کے لئے امید کی کرن پھوٹتی ہے، رحمت پروردگار کی امید، موجودہ حالت کے بدلنے کی امید ، تو پھر اس کی زندگی میں ایک نیا رخ آجاتا ہے ، اوریہ امید اس کو گناہوں کے راستہ پر چلنے سے روک دیتی ہے اور اسے اپنی اصلاح ، توبہ اور پاکیزگی کی دعوت دیتی ہے۔
اسی وجہ سےبرے لوگوں کے لئے ”امید کی کرن“ کوایک تربیتی سبب شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح نیک اور صالح افراد جو بُرے ماحول میں پھنسے رہتے ہیں وہ بھی بغیر امید کے اپنی اصلاح نہیں کرسکتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایسے اصلاح کرنے والے کے ظہور کے انتظار کی بنا پر دنیا جتنی زیادہ فاسد ہوتی جارہی ہے امام زمانہ کے ظہور کی امید بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے، اور انتظار کرنے والوں کے لئے موثر ہے، جو ماحول کی تیز آندھیوں کے مقابل محفوظ کردیتی ہے، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ معاشرے میں ظلم و فساد اور برے ماحول سے نا امید نہیں ہوتے بلکہ جس طرح وعدہ وصال جب نزدیک ہوجاتا ہے تو آتش عشق مزید بھڑک جاتی ہے اسی طرح جب انسان اپنے مقاصد کو نزدیک دیکھتا ہے تو اصلاح معاشرہ نیز ظلم و فساد سے مقابلہ کے لئے کوشش میں مزید عشق پیدا ہوجاتا ہے۔
(قارئین کرام!) ہماری گزشتہ بحث و گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ انتظار کا غلط اثر اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کو مسخ کردیا جائے، یا اس میں تحریف کردی جائے جیسا کہ بعض مخالفین نے اس میں تحریف کی ہے اور موافقین نے اس کو مسخ کردیا ہے، لیکن اگر واقعی طور پر معاشرہ اور خود انسان میں انتظارِ ظہور کا صحیح مفہوم پیدا ہوجائے تو یہ اصلاح، تربیت اور امید کا بہترین سبب ہے۔
اس موضوع کے واضح کرنے کے لئے بہترین دلیل درج ذیل آیہٴ شریفہ ہے ،ارشاد خداوندی ہے:
< وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاٴَرْضِ>(1)
”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے“۔
اس آیہٴ شریفہ کے ذیل میں معصومین علیہم السلام سے نقل ہوا ہے کہ اس سے مراد ”ہُوَ القَائِمُ وَاٴصحابِہ“ ”قائم آل محمد اور آپ کے اصحاب وانصار ہیں“۔)
ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”نَزَلَتْ فِي المَہْدِیّ علیہ السّلام) یہ آیہٴ شریفہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
اس آیت میں حضرت امام مہدی (عج) اور آپ کے اصحاب ”الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “ کے عنوان سے یاد کئے گئے ہیں، لہٰذا یہ عالمی انقلاب، مستحکم ایمان ( جس میں کسی طرح کا ضعف اور کمزوری نہ پائی جاتی ہو، ) اور اعمال صالح (جس سے دنیا بھر کی اصلاح کا راستہ کھل جاتا ہو) کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور جو لوگ اس انقلاب کے انتظار میں ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے علم و ایمان کی سطح کو بھی بڑھائیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے بھی کوشش کرتے رہیں۔صرف اسی طرح کے افراد اپنے کو اس حکومت کی بشارت دے سکتے ہیں ، نہ کہ ظلم و ستم کی مدد کرنے والے! اور نہ ہی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح سے دور ہیں۔
اور نہ ہی وہ بزدل انسان جوایمان کی کمزوری کی وجہ سے اپنے سایہ سے بھی ڈرتے ہیں۔
اور نہ ہی سست ،کاہل اور ناکارہ انسان جو فقط ہاتھ پر ہاتھ رکھے معاشرہ میں پھیلنے والے گناہ و فساد پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور معاشرہ میں موجودہ برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ایک قدم بھی اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اسلامی معاشرہ میں حضرت امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور کے انتظار کا یہی فلسفہ ہے۔(2)
________________________________________
(1)سورہ نور ، آیت ۵۵
(2) بحار الانوار ،قدیم ، جلد ۱۳،صفحہ ۱۴
|