110 سوال اور جواب
 
۲۸۔ وحی کی اسرار آمیز حقیقت کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ”وحی“ کی حقیقت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ وحی ایک ایسا”ادراک“ ہے جوہمارے ادراک اور سمجھ کی حد سے باہرہے، بلکہ یہ ایک ایسا رابطہ ہے جوہمارے جانے پہچانے ہوئے ارتباط سے باہر ہے، پس ہم عالم وحی سے اس لئے آشنا نہیں ہو سکتے کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
لہٰذاایک خاکی انسان عالم ہستی سے کس طرح رابطہ پیداکرسکتا ہے؟ اور خداوندعالم جو ازلی، ابدی اور ہر لحاظ سے لامحدود ہے کس طرح محدود او رممکن الوجود سے رابطہ برقرار کرتا ہے؟ وحی نازل ہوتے وقت پیغمبر اکرم (ص) کس طرح یقین کرتے تھے کہ یہ رابطہ خدا کی طرف سے ہے؟!
یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا مشکل ہے، اور اس کے سمجھنے کے لئے زیادہ کوشش کرنا (بھی) بے کار ہے۔
ہم یہاں یہ عر ض کرتے ہیں کہ اس طرح کارابطہ موجود ہے،چنانچہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اس طرح کے رابطہ کی نفی پر کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برخلاف اپنی اس دنیا میں بھی کچھ ایسے راز ہوتے ہیں جن کو ہم بیان کرنے سے عاجز ہیں، اور ان خاص رابطوں کے پیش نظر ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے احساس اور رابطہ کے مافوق بھی احساس، ادراک اور آنکھیں موجود ہیں۔
مناسب ہے کہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال کا سہارا لیا جائے۔
فرض کیجئے کہ ہم کسی ایسے شہر میں زندگی بسر کرتے ہوں جہاں پر صرف اور صرف نابینا لوگ رہتے ہوں (البتہ پیدائشی نابینا ) اوروہاں صرف ہم ہی دیکھنے والے ہوں، شہر کے تمام لوگ”چار حسّ “ والے ہوں (اس فرض کے ساتھ کہ انسان کی پانچ حس ہوتی ہیں)اور صرف ہم ہی ”پانچ حس “والے ہوں، ہم اس شہر میں ہونے والے مختلف واقعات کو دیکھتے ہیں اور شہر والوں کو خبر دیتے ہیں، لیکن وہ سب تعجب کرتے ہیں کہ یہ پانچویں حس کیا چیز ہے،جس کی کارکردگی کا دائرہ اتنا وسیع ہے؟ اور ان کے لئے جس قدر بھی بینائی کے بارے میں بحث و گفتگو کریں تو بے فائدہ ہے، ان کے ذہن میں ایک نامفہوم شکل کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا، ایک طرف سے اس کا انکار بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے مختلف آثار و فوائد کا احساس کرتے ہیں، دوسری طرف چونکہ بینائی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں دیکھا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ وحی ”چھٹی حسّ“ کا نام ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا ادارک اور عالم غیب اور ذات خداسے رابطہ ہے جوہمارے یہاں نہیں پایا جاتاہے، جس کی حقیقت کو ہم نہیں سمجھ سکتے، اگرچہ اس کے آثار کی وجہ سے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
ہم تو صرف یہی دیکھتے ہیں کہ صاحب عظمت افراد ایسے مطالب جو انسانی فکر سے بلند ہیں؛ اس کے ساتھ انسانوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو خدا اور دین الٰہی کی طرف بلاتے ہیں، اورایسے معجزات پیش کرتے ہیں جو انسانی طاقت سے بلند و بالاہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عالم غیب سے رابطہ ہے، جس کے آثار واضح و روشن ہیں لیکن اس کی حقیقت مخفی ہے۔
کیا ہم نے اس دنیا کے تمام رازوں کو کشف کرلیا ہے کہ اگر وحی کی حقیقت کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا انکار کر ڈالیں؟
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم حیوانات کے یہاں بعض پُراسرار چیزیں دیکھتے ہیں جن کی تفسیر و توضیح سے عاجز ہیں، مگر مہاجر پرندے جو کبھی کبھی ۱۸۰۰۰/ کلومیٹر کا طولانی سفر طے کرتے ہیں اور قطب شمال سے جنوب کی طرف یا اس کے برعکس جنوب سے شمال کی طرف سفر کرتے ہیں، کیا ان کی پُراسرار زندگی ہمارے لئے واضح ہے؟
یہ پرندے کس طرح سمت کا پتہ لگاتے ہیں اوراپنے راستہ کو صحیح پہچانتے ہیں؟ کبھی دن میں اور کبھی اندھیری رات میں دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم ان کی طرح بغیر کسی وسیلہ اور گائڈ کے ایک فی صدبھی سفر کریں تو بہت جلد راستہ بھٹک جائیں گے، یہ وہ چیز ہے جس کے سلسلہ میں علم و دانش بھی ابھی تک پردہ نہیں اٹھاسکی، اسی طرح بہت سی مچھلیاں دریا کی گہرائی میں رہتی ہیں اور انڈے دینے کے وقت اپنی جائے پیدائش تک چلی جاتی ہیں کہ شاید ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہو، یہ مچھلیاں کس طرح اپنی جائے پیدائش کو اتنی آسانی سے تلاش کرلیتی ہیں؟
ان کے علاوہ اس دنیا میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو ہمیں انکار اور نفی سے روک دیتی ہیں،اس جگہ ہمیں شیخ الرئیس ابو علی سینا کا قول یاد آتا ہے ”کْلُّ ما قرَع سمَعکَ مِن الغرائبِ فضعہ فی بقعة لإمکان مالم یذدکَ عنہ قاطعُ البرہانِ“ (اگر کوئی عجیب و غریب چیز سننے میں آئے تو اس کا انکار نہ کرو ، بلکہ اس کے بارے میں یہ کہو کہ ممکن ہے، جب تک کہ اس کے برخلاف کوئی مضبوط دلیل نہ مل جائے!)

منکر ِوحی کی دلیل
جب بعض لوگوں کے سامنے وحی کا مسئلہ آتا ہے تو جلد بازی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: یہ چیز علم اور سائنس کے برخلاف ہے!
اگر ان سے سوال کیا جائے کہ یہ کہاں علم اور سائنس کے برخلاف ہے؟ تو یقین کے ساتھ اور مغرور لہجہ میں کہتے ہیں :جس چیز کوعلوم طبیعی اور سائنس ثابت نہ کرے تو اس کے انکار کے لئے یہی کافی ہے، اصولی طور پر وہی مطلب ہمارے لئے قابل قبول ہے جو علوم اور سائنس کے تجربوں سے ثابت ہوجائے!!
اس کے علاوہ سائنس کی ریسرچ نے اس بات کو ثابت نہیں کیا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی حس موجود ہے جس سے ماوراء طبیعت کا پتہ لگایا جاسکے، انبیاء بھی ہماری ہی طرح انسان تھے ان کی اور ہماری جنس ایک ہی ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کے یہاں ایسا احساس اور ادراک پایا جاتا ہو جو ہم میں نہ ہو؟
ہمیشہ کا اعتراض اور ہمیشہ کاجواب مادہ پر ستوں کا اعتراض صرف ”وحی“ کے سلسلہ میں نہیں ہے وہ تو ”ما وراء طبیعت“ کے تمام مسائل کا انکار کرتے رہتے ہیں، اور ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہر جگہ یہی جواب پیش کرتے ہیں:
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنس کا دائرہ ،صرف(مادی ) دنیا تک ہے ، اور سائنس کی بحث و گفتگو کا معیار اور آلات :لیبریٹری ، ٹلسکوپ، میکرواسکوپ وغیرہ ہیں اور اسی دائرے میں گفتگو ہوتی ہے، سائنس ان معیار اور وسائل کے ذریعہ ”جہان مادہ“ کے علاوہ کوئی بات نہیں کہہ سکتی نہ کسی چیز کو ثابت کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کا انکار کرسکتی ہے، اس بات کی دلیل بھی روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام وسائل محدود اور خاص دائرے سے مخصوص ہیں۔
بلکہ علم و سائنس کے مختلف آلات کسی دوسرے علم میں کارگر نہیں ہوسکتے، مثال کے طور پر اگر ”سِل“ کے جراثیم کو بڑی بڑی نجومی ٹلسکوپ کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اگر ”پلوٹن“ ستارے کو میکروسکوپ اور ذرہ بین کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے!!
کسی چیز کی پہچان اور شناخت کے لئے اسی علم کے آلات اوروسائل ہونا ضروری ہے، لہٰذا ”ماوراء طبیعت“ کی پہچان کے صرف عقلی دلائل ہی کارگر ہوسکتے ہیں جن کے ذریعہ اس عظیم دنیا کے راستے ہمارے لئے کھل جاتے ہیں۔
جو افراد علم کو اس کی حدود سے خارج کرتے ہیں وہ نہ عالم ہیں اور نہ فیلسوف، یہ لوگ صرف دعو یٰ کرتے ہیں حالانکہ خطاکار اور گمراہ ہیں۔
ہم صرف یہی دیکھتے ہیں کہ کچھ عظیم انسان آئے اور ہمارے سامنے کچھ مطالب بیان کئے، جو نوع بشر کی طاقت سے باہر تھے، جس کی بنا پر ہم سمجھ گئے کہ ان کا ”ماوراء طبیعت“ سے رابطہ ہے، لیکن یہ رابطہ کیسا ہے؟ یہ ہمارے لئے بہت زیادہ اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ہاں اس طرح کا رابطہ موجود ہے۔(1)
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۹۶

۲۹۔ کیا پیغمبر اکرم (ص) امّی تھے؟
”اُمّی“ کے معنی میں تین مشہور احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نہ پڑھا ہو، دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکہ ہو اور مکہ میںظاہر ہوا ہو، اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم او رامت کے درمیان قیام کیا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور و معروف پہلے معنی ہیں، جو استعمال کے موارد سے بھی ہم آہنگ ہیں، اور ممکن ہے تینوں معنی باہم مراد ہوں۔
اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کہ”پیغمبر اکرم (ص)کسی مکتب اور مدرسہ میں نہیں گئے “اور قرآن کریم نے بھی بعثت سے پہلے آنحضرت (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے:< وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَابٍ وَلاََتخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ>(1)
”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑجاتے“۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت پورے حجاز میں پڑھے لکھے لوگ اتنے کم تھے کہ ان کی تعداد انگشت شمار تھی اور سبھی ان کوجا نتے تھے، مکہ میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تھا لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد ۱۷/ سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑھی لکھی تھی۔(2)
ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو یقینی طور پریہ بات مشہور ہوجاتی، بالفرض اگر (نعوذ باللہ) آنحضرت (ص)کی نبوت کو قبول نہ کریں، تو پھر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نہ کرتے کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا یہ بہترین شاہدہے کہ آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
بہر حال پیغمبر اکرم (ص) میں اس صفت کا ہونا نبوت کے اثبات کے لئے زیادہ بہتر ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ اس طرح کی عمدہ گفتگوکرتا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت (ص) کا خداوندعالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطہ ہے۔
یہ آنحضرت (ص) کی بعثت نبوت سے پہلے، لیکن بعثت کے بعد بھی کسی تاریخ نے نقل نہیں کیا کہ آپ نے کسی کے پاس لکھناپڑھنا سیکھا ہو، لہٰذا معلوم یہ ہو ا کہ آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“ صفت پر باقی رہے۔
لیکن یہاں پر سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے معنی جاہل ہونا نہیں ہے، اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاہل معنی کرتے ہیں وہ اس فرق کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔
اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) تعلیم الٰہی کے ذریعہ ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا اور لکھنا“ جانتے ہوں، بغیر اس کے کہ کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی ہو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے ہیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری ہیں۔
حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات اس بات پر بہترین شاہد ہیں، جن میں بیان ہوا ہے : پیغمبر اکرم (ص) لکھنے پڑھنے کی قدرت رکھتے تھے۔(3)
لیکن ان کی نبوت میں کہیں کوئی شک نہ کرے اس قدرت سے استفادہ نہیں کرتے تھے،اور جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کی طاقت کوئی کمال محسوب نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں علمی کمالات تک پہنچنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ علم واقعی اور کمال حقیقی، تو اس کا جواب بھی اسی میں مخفی ہے کیونکہ کمالات کے وسائل سے آگاہی رکھنا خود ایک واضح کمال ہے۔لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا تصور ہے جس طرح کہ سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے:
< یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ>(4) یا اس کے ماننددوسری آیات، اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے سامنے لکھی ہوئی کتاب (قرآن) سے پڑھتے تھے، یہ بھی ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ تلاوت کے معنی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا بھی ہیں اور زبانی طور پر پڑھنا بھی، جو لوگ قرآن، اشعار یا دعاؤں کو زبانی پڑھتے ہیں ان پر بھی تلاوت کا اطلاق بہت زیادہ ہو تا ہے۔(5)
________________________________________
(1) سورہ عنکبوت ، آیت ۴۸
(2) فتوح البلدان بلاذری ،مطبوعہ مصر، صفحہ ۴۵۹
(3) تفسیر برہان ، جلد ۴، صفحہ ۳۳۲، سورہٴ جمعہ کی پہلی آیت کے ذیل میں
(4) سورہ جمعہ ، آیت ۲”(وہ رسول) انھیں کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“۔
(5) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۰

۳۰۔ معراج؛ جسمانی تھی یا روحانی اور معراج کا مقصد کیا تھا؟
شیعہ ،سنی تمام علمائے اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ رسول اسلام کو یہ عالم بیداری میں معراج ہوئی، چنا نچہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیات کا ظاہری مفہوم بھی اس بات پر گواہ ہے کہ یہ بیداری کی حالت میں معراج ہوئی۔
اسلامی تواریخ بھی اس بات پر گواہ ہیں چنا نچہ بیان ہوا ہے : جس وقت رسول اللہ نے واقعہٴ معراج کو بیان کیا تو مشرکین نے شدت کے ساتھ اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بہانہ بنالیا۔
یہ بات خود اس چیز پرگواہ ہے کہ رسول اللہ (ص)ہرگز خواب یا روحانی معراج کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اتناشور وغل نہ کرتے ۔
لیکن جیساکہ حسن بصری سے روایت ہے : ”کان فی المنام روٴیا رآہا“ (یہ واقعہ خواب میں پیش آیا )
اور اسی طرح حضرت عائشہ سے روایت ہے : ” والله ما فقد جسد رسول الله (ص) ولکن عرج بروحہ“
”خداکی قسم بدن ِرسول اللہ (ص)ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“۔
ظاہراً ایسی روایات سیاسی پہلو رکھتی ہیں۔(1)

معراج کا مقصد
یہ بات ہمارے لئے واضح ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاہی کی بنا پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں جس میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ہیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پھرسے پہچاننا چاہئے“(2) میں کہتے ہیں:”محمد اپنے سفرِ معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں“
یہ عبارت نشاندھی کرتی ہے کہ وہ قلم لکڑی کا تھا، اور وہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور اس سے آواز پیدا ہوتی تھی ،اوراسی طرح کی اور بہت سے خرافات اس میں موجود ہیں “۔
جب کہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات بالخصوص عالم بالا میں موجودہ عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورہبری کے لئے ایک نیا احساس اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔ معراج کاہدف واضح طورپر سورہٴ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہٴ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان ہوا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے جس میں آپ سے مقصد معراج پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
”إنَّ الله لا یُوصف بمکانٍ ،ولایُجری علیہ زمان ،ولکنَّہ عزَّوجلَّ اٴرادَ اٴنْ یشرف بہ ملائکتہ وسکان سماواتہ، و یکرَّمھم بمشاھدتہ ،ویُریہ من عجائب عظمتہ مایخبر بہ بعد ھبوطہ“ (3)
”خدا ہرگز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باشندوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکران کولوگوں کے سا منے بیان کریں“۔ (4)
________________________________________
(1)تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۵
(2)مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے “ محمد پیغمبری کہ از نوباید شناخت “ صفحہ ۱۲۵
(3) تفسیر برہان ، جلد ۲، صفحہ ۴۰۰
(4) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۶