110 سوال اور جواب
 
22۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی عبادت کے ذریعہ سعادت اور کمال تک پہنچنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر کمال اور سعادت کے مخالف شیطان کو کیوں پیدا کیا گیا، اس کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اور وہ بھی ایک ایسا وجود جو بہت ہوشیار، کینہ اور حسد رکھنے والا، مکار ، فریب کار اور اپنے ارادہ میں مصمم ہے!
(قارئین کرام!) اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیں تو اس دشمن کا وجود انسانوں کے کمال اورسعادت تک پہنچنے کے لئے مددگار ہے۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے دفاع کرنے والی (ہماری ) فوج ،دشمن کے مقابلہ میں بہت زیادہ شجاع او ردلیر بن جاتی تھی، اور کامیابی کی منزلوں تک پہنچ جاتی تھی۔
طاقتور اور تجربہ کار وہی سپاہی اور سردار ہوتے ہیں جو بڑی بڑی جنگوں میں دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ لڑتے ہیں۔
وہی سیاستمدار تجربہ کار اور طاقتور ہوتے ہیں جو بڑے سے بڑے سیاسی بحران میںسختی کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں۔
نامی پہلوان وہی ہوتے ہیں جو اپنے مد مقابل طاقتور پہلوان سے زور آزمائی کرتے ہیں۔
اس وجہ سے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خداوندعالم کے نیک اور صالح بندے شیطان سے ہر روز مقابلہ کرتے کرتے دن بدن طاقتور اور قدرت مند ہوتے چلے جاتے ہیں!
آج کل کے دانشورانسانی جسم میں پائے جانے والے خطرناک جراثیم کے بارے میں کہتے ہیں: اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کے خلیے(Cells) سست اورناکارہ ہوجاتے اور ایک احتمال کی بنا پر انسان کی رشد و نمو ۸۰سینٹی میٹر سے زیادہ نہ ہوتی، اور سب کوتاہ قد نظر آتے، لیکن آج کا انسان مزاحم میکروب سے لڑتے لڑتے بہت طاقتور بن گیا ہے۔
بالکل اسی طرح انسان کی روح ہے جو ہوائے نفس اور شیطان سے مقابلہ کرتے کرتے طاقتور ہوجاتی ہے۔
لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیطان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو بہکائے، پہلے شیطان کی خلقت دوسری مخلوق کی طرح پاک و پاکیزہ تھی انسان میں انحراف، گمراہی ، بدبختی اور شیطنت اس کے اپنے ارادہ سے ہوتی ہیں، لہٰذا خداوندعالم نے ابلیس کو شیطان نہیں پیدا کیا تھا اس نے خود اپنے آپ کو شیطان بنایا، لیکن شیطنت کے باوجود خدا کے حق طلب بندوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیںپہنچاتا بلکہ ان کی ترقی اور کامیابی کا زینہ ہے۔ (غور کیجئے )
لیکن یہاں پر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ خداوندعالم نے اسے قیامت تک کی زندگی کیوں دیدی، کیوں فوراً ہی اس کو نیست و نابود کیوں نہ کردیا؟!
اگرچہ گزشتہ گفتگو سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے لیکن ہم ایک اور چیز عرض کرتے ہیں:
دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے، (انسان کی کامیابی اور ترقی کا باعث امتحان او رآزمائش ہے) اور ہم جانتے ہیں کہ یہ امتحان اور آزمائش ،بڑے دشمن اور طوفان سے مقابلہ کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
البتہ اگر شیطان نہ ہوتا تو بھی انسان کی ہوائے نفس اور نفسانی وسوسہ کے ذریعہ انسان کا امتحان ہوسکتا تھا، لیکن شیطان کے ہونے سے اس تنور کی آگ اور زیادہ بھڑک گئی ہے، کیونکہ شیطان باہر سے بہکانے والا ہے اور ہوائے نفس انسان کو اندر سے بہکاتی ہے۔(1)

ایک سوال کا جواب:
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوندعالم ایسے بے رحم اور طاقتور دشمن کے مقابلہ میں ہمیں تن تنہا چھوڑ دے؟ اور کیا یہ چیز خداوندعالم کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف سے ہم آہنگ ہے؟
اس سوال کا جواب درج ذیل نکتہ سے واضح ہوجائے گا اور جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم مومنین کے ساتھ فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے اور غیبی اور معنوی طاقت عطا کرتا ہے جس سے جہاد بالنفس اور دشمن سے برسرِ پیکار ہونے میں مدد ملتی ہے:
< إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمْ الْمَلَائِکَةُ اٴَلاَّ تَخَافُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُون # نَحْنُ اٴَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ >(2)
”بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہواور اس جنت سے مسرور ہو جاوٴ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ،ہم زندگانی دنیامیں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں“۔
ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ شیطان کبھی بھی ہمارے دل میں اچانک نہیں آتا، اور ہماری روح کے باڈر سے بغیر پاسپورٹ کے داخل نہیںہو سکتا، اس کا حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا، وہ ہماری اجازت سے ہم پر سوار ہوتا ہے، جی ہاں وہ دروازہ سے آتا ہے نہ کہ کسی مورچہ سے، یہ ہم ہی ہیں جو اس کے لئے دروازہ کھول دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
< إِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ،إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ>(3)
” شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے، اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں“۔
اصولی طور پر یہ انسان کے اعمال ہوتے ہیں جوشیطان کے سوار ہونے کا راستہ ہموار کرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:<إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ>(4) ”اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں“۔
لیکن بہرحال شیطان اور اس کے مختلف سپاہیوں کے رنگارنگ جال، مختلف شہوتیں، فساد کے ٹھکانے ، استعماری سیاست، انحرافی مکاتب اور منحرف ثقافت سے نجات کے لئے ایمان و تقویٰ، اور لطف الٰہی اور خدا پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
<وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلًا> (5)
”اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب شیطان کا اتباع کرلیتے“۔(6)
انبیاء علیہم السلام
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹ صفحہ ۳۴۵
(2) سورہٴ فصلت ، آیت۳۰۔ ۳۱
(3) سورہ نحل ، آیت ۹۹، ۱۰۰
(4) سورہٴ اسراء ، آیت۲۷
(5)سورہٴ نساء ، آیت۸۳
(6) تفسیر پیام قرآن ، جلد اول صفحہ ۴۲۳

۲۳۔ خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟
کیا انسانی معاشرہ کسی ایک جگہ پر رُک سکتا ہے؟ کیا انسان کے کمال اور ترقی کے لئے کوئی حد معین ہے؟ کیا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج کا انسان گزشتہ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ آگے بڑھتا چلا جارہا ہے؟
ان حالات کے پیش نظر یہ کس طرح ممکن ہے کہ دفتر نبوت بالکل ہی بند ہوجائے اور انسان اس ترقی کے زمانہ میں اپنے کسی نئے رہبر اور نبی سے محروم ہوجائے؟
اس سوال کا جواب ایک نکتہ پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ ہے کہ: انسان فکر و ثقافت کے مرحلہ میں اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ وہ پیغمبر خاتم (ص) کے بتائے ہوئے اصول اور تعلیمات کے پیش نظر کسی نئی شریعت کے بغیر اپنی ترقی کے مراحل کو طے کرسکتاہے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے انسان کو تعلیم کے ہر مرحلہ میں ایک نئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ تعلیم کے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھ سکے، لیکن جب انسان ڈاکٹر بن جاتا ہے یا کسی دوسرے علم میں صاحب نظر بن جاتا ہے تو پھر انسان کسی نئے استاد سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے گزشتہ اساتذہ خصوصاً آخری استاد سے حاصل کئے ہوئے مطالب پر بحث و تحقیق کرتا ہے اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھتا جاتاہے نئی نئی تحقیق اور نئے نئے نظریات پیش کرتا ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اپنے گزشتہ اساتذہ کے بتائے ہوئے عام اصول کی بنا پر راستے کی مشکلات کو حل کر تاہے لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ کوئی نیا دین اور نیا مذہب وجود میں آئے۔ (غور فرمائےے گا)
بالفاظِ دیگر: روحانی اور معنوی ترقی کی راہ میں موجود نشیب و فر از کے سلسلہ میں گزشتہ انبیاء نے باری باری انسان کی ہدایت کے لئے نقشہ پیش کیا تاکہ انسان میں اتنی صلاحیت پیدا ہوجائے کہ اس راستہ کا جامع اور کلی نقشہ خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر آخرالزمان (ص) پیش فرمادیں۔
یہ بات واضح ہے کہ جامع اور کلی نقشہ حاصل کرنے کے بعد پھر کسی نقشہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، اور یہ حقیقت خاتمیت کے سلسلہ میں بیان ہوئی احادیث میں موجود ہے، اور پیغمبر اکرم کو رسالت کی آخری اینٹ یا خوبصورت محل کی آخری اینٹ رکھنے والے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
یہ تمام چیزیں کسی نئے دین و مذہب کی ضرورت نہ ہونے کے لئے کافی ہیں، (یعنی مذکورہ باتوں کے پیش نظر اب کسی نئے دین کی ضرورت نہیں ہے) لیکن رہبری اور امامت کا مسئلہ انھیں کلی اصول و قوانین پر عمل در آمد ہونے پر نظارت اور اس راہ میں پیچھے رہ جانے والوں کو امداد پہنچانے کے عنوان سے ہے،البتہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ انسان کبھی بھی ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہمیشہ امام اور رہبر کی ضرورت رہے گی، اس دلیل کی بنا پر سلسلہٴ نبوت کے ختم ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سلسلہ امامت بھی ختم ہوجائے، کیونکہ ”ان اصول کی وضاحت “، ”ان کا بیان کرنا“ اور ”ان کو عملی جامہ پہنانا“ بغیر کسی معصوم رہبرکے ممکن نہیں ہے۔(1)
________________________________________
(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۵

۲۴۔ ثابت قوانین،آج کل کی مختلف ضرورتوں سے کس طرح ہم آہنگ ہے؟
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمان و مکان کے لحاظ سے ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ انسان کی ضرورت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، حالانکہ خاتم النبین کی شریعت ثابت اور غیر قابل تبدیل ہے، کیا یہ ثابت شریعت زمانہ کے لحاظ سے مختلف ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔؟
اگر اسلام کے تمام قوانین جزئی اور انفرادی ہوتے اور ہر موضوع کا حکم مکمل طور پر معین، مشخص اور جزئی ہوتا تو اس سوال کی گنجائش ہوتی، لیکن کیونکہ اسلام کے احکام و قوانین بہت وسیع اور کلی اصول پر مبنی ہیں جن پر ہر زمانہ کی مختلف ضرورتوں کو منطبق کیا جاسکتا ہے، اور اس کے لحاظ سے جواب دیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس طرح کے سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، مثال کے طور پر عصر حاضر میں مختلف معاملات انسانی معاشرہ کی ضرورت بنتے جارہے ہیں جب صدر اسلام میں ایسے معاملات نہیں تھے جیسے ”بیمہ“ یا اس کی مختلف شاخیں، جو اس زمانہ میں نہیں تھیں،اسی طرح آج کل کی (1) البتہ اسلام میں ”بیمہ“ سے مشابہ موضوعات موجود ہیں لیکن خاص محدودیت کے ساتھ جیسے ”ضمان الجریرہ“ یا “تعلق دیہ خطاء محض بہ عاقلہ“ لیکن یہ مسائل صرف شباہت کی حد تک ہیں ضرورت کے تحت بڑی بڑی کمپنیاں بنائی جاتی ہیں ، ان تمام چیزوں کے لئے اسلام میں ایک کلی اصل موجود ہے، جو سورہ مائدہ کے شروع میں بیان ہوئی ہے جسے ”وفائے عہد “ کہا جاتا ہے، ارشاد ہوتا ہے: <یَا اٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ >(2) ”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے اپنے معاملات میںوفائے عہد کرو“۔
ہم ان تمام معاملات کو اس کے تحت قرار دے سکتے ہیں، البتہ بعض قیود اور شرائط اس اصل میں بیان ہوئی ہیں، جن پر توجہ رکھنا ضروری ہے، لہٰذا یہ عام قانون اس سلسلہ میں موجود ہے، اگرچہ اس کے مصادیق بدلتے رہتے ہیں اور ہرروزاس کا ایک نیا مصداق پیدا ہوتا رہتا ہے۔
دوسری مثال: ہمیں اسلام میں ایک مسلّم اور ثابت قانون ملتا ہے جو ”قانونِ لاضرر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے(یعنی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے) جس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ میں کسی بھی طرح کے نقصان کے سلسلہ میں حکم لگایا جاسکتا ہے، اور اس کے تحت معاشرہ کی بہت سی مشکلوں کو حل کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ”معاشرہ کا تخفظ “، ”مقدمہٴ واجب کا واجب ہونا“اور”اہم و مہم“ جیسے مسائل کے ذریعہ بھی بہت سی مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے، ان تمام چیزوں کے علاوہ اسلامی حکومت میں ”ولی فقیہ“ بہت سے اختیارات اور امکانات ہوتے ہیں اسلامی کلی اصول کے تحت بہت سی مشکلات کوحل کیا جاسکتا ہے ، البتہ ان تمام امور کے بیان کے لئے بہت زیادہ بحث و گفتگو کی ضرورت ہے خصوصاً جب کہ ”باب اجتہاد“(3) کھلا ہے ، جس کی تفصیل بیان کرنے کایہ موقع نہیں ہے، لیکن جن چیزوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ مذکورہ اعتراض کے جواب کے لئے کا فی ہیں۔
________________________________________
(1) سورہ مائدہ ،آیت ۱
(۲) اجتہاد یعنی اسلامی منابع و مآخذ کے ذریعہ الٰہی احکام حاصل کرن
(3) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷، صفحہ ۳۴۶