۱۹۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟
جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں : <وَلٰا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ > (1)
”اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنا اور آرزو نہ کرنا“۔
اس آیہٴ --شریفہ کے پیش نظر بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی استعداد اور قابلیت زیادہ اور بعض لوگوں کی استعداد کم کیوں ہے؟ اسی طرح بعض لوگ دوسروں سے زیادہ خوبصورت اور بعض کم خوبصورت ہیں، نیز بعض لوگ بہت زیادہ طاقتور اور بعض معمولی طاقت رکھتے ہیں، کیا یہ فرق خداوندعالم کی عدالت کے منافی نہیںہے؟
اس سوال کے ذیل میں ہم چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بعض لوگوں میں جسمانی یا روحانی فرق کا ایک حصہ طبقاتی نظام، اجتماعی ظلم و ستم یا ذاتی سستی اور کاہلی کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا نظام خلقت سے کوئی سروکار نہیں، مثال کے طور پر بہت سے
مالدار لوگوں کی اولاد غریب لوگوں کی اولاد کی نسبت جسمی لحاظ سے طاقتور، خوبصورتی کے لحاظ سے بہتر اور استعداد و قابلیت کے لحاظ سے بہت آگے ہوتی ہے، کیونکہ ان کے یہاں غذائی اشیاء کافی مقدار میں ہوتی ہیں اور صفائی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، جبکہ غریب لوگوں کے یہاں یہ چیزیں نہیں ہوتیں، یا بہت سے لوگ سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں اور اپنی جسمانی طاقت کھوبیٹھتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے فرق کو ”جعلی اور بے دلیل“ کہا جائے گا جو طبقاتی نظام کے خاتمہ اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا ماحول پیدا ہونے سے خود بخود ختم ہوجائے گا ، قرآن کریم نے اس طرح کے فرق کو کبھی بھی صحیح نہیں مانا ہے۔
۲۔ اس فرق کا ایک حصہ انسانی خلقت کا لازمہ اور ایک طبیعی چیز ہے یعنی اگر کسی معاشرہ میں مکمل طور پر عدل و انصاف پایا جاتا ہو تو بھی تمام لوگ ایک کارخانہ کی مصنوعات کی طرح ایک جیسے نہیں ہوسکتے، طبیعی طور پر ایک دوسرے میں فرق ہونا چاہئے ، لیکن یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ معمولاً خداداد صلاحتیں اور روحی و جسمی استعداد اس طرح تقسیم ہوئی ہیں کہ ہر انسان میں استعدادکا ایک حصہ پایا جاتا ہے یعنی بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے کہ یہ تمام چیزیں ان میں جمع ہوں، ایک انسان، جسمانی طاقت سے سرفرازہے تو دوسرا علم حساب میں بہترین استعداد کا مالک ہے، کسی انسان میں شعرکہنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں تجارت کا سلیقہ پایاجاتا ہے، بعض میں زراعتی امور انجام دینے کی طاقت پائی جاتی ہے، اور بعض دوسرے لوگوں میں دوسری مخصوص صلاحتیں ہوتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ معاشرہ یا انسان اپنی صلاحیت کوبروئے کار لائے اور صحیح ماحول میں اس کی پرورش کرے تاکہ ہر انسان اپنی صلاحیت کو ظاہر کرسکے اور اس سے حتی الامکان سرفرازہوسکے۔
۳۔ اس نکتہ پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ ایک معاشرہ کے لئے انسانی بدن کی طرح مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اگر ایک بدن کے تمام اعضا اور خلیے (Cells)ظریف اور لطیف ہوں گے جیسے آنکھ، کان اور مغز وغیرہ کے خلیے تو انسان میں دوام پیدا نہیں ہوسکے گا، یا اگر انسانی جسم کے تمام اعضا نرم نہ ہوں بلکہ ہڈیوں کے خلیوں کی طرح سخت ہوں تو وہ مختلف کاموں کے لئے بے کار ہیں(اور اس صورت میں انسان زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا) بلکہ انسان کے جسم کے لئے مختلف خُلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک عضو میں سننے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے زبان سے گفتگو کی جاتی ہے، پیروں سے ادھر ادھر جانا ہوتا ہے، لہٰذا جس طرح انسان کے لئے مختلف اعضا و جوارح کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک ”عمدہ معاشرہ“ کے لئے مختلف صلاحیتوں اور استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے بعض لوگ بدنی طور پر کام کریں اوربعض لوگ علمی اور غور و فکر کا کام انجام دیں، لیکن یہ نہیں کہ معاشرہ میں کچھ لوگ غربت اور پریشانی کی زندگی بسر کریں، یا ان کی خدمات کو اہمیت نہ دی جائے یا ان کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، جس طرح سے انسانی اعضا و جوارح اپنے تمام تر فرق کے باوجود ہر قسم کی غذا اور دوسری ضرروتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان میں روحی اور جسمی طبیعی اختلاف خداوندعالم کی حکمت کے عین مطابق ہے اور خداوندعالم کی عدالت، حکمت سے کبھی جدا نہیں ہوتی ، مثال کے طور پر اگر انسان کے تمام اعضا ایک ہی طرح کے خلق کئے جاتے تو اس کی حکمت کے منافی تھااور یہ عدالت نہ ہوتی، جبکہ عدالت کے معنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دینے کے ہیں، اسی طرح اگر معاشرہ کے تمام لوگ ایک روز ایک ہی بات سوچیں اور ایک دوسرے کی استعداد برابر ہوجائے تو اسی ایک دن میں معاشرہ کی حالت درہم و برہم ہوجائے گی! (2)
________________________________________
(1) سورہ نساء ، آیت نمبر ۳۲
(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۵ ۳۶
۲۰۔ کیا روزی کے لحاظ سے لوگوں میں موجودہ فرق ، عدالت الٰہی سے ہم آہنگ ہے؟
قرآن کریم کے سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے: <وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ> (1) ”خداوندعالم نے تم میں سے بعض لوگوں کو روزی کے لحاظ سے بعض دوسرے لوگوں پر برتری دی ہے“۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق و روزی کے لحاظ سے فرق قرار دینا ؛ کیا خداوندعالم کی عدالت اور معاشرہ کے لئے ضروری مساوات سے ہم آہنگ ہے؟
(قارئین کرام!) اس سوال کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مادی اسباب اور مال و دولت کے لحاظ سے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کی اہم وجہ خودانسانوں کی استعداد اور صلاحیت ہے، انسان میں موجودہ جسمی اور عقلی یہی فرق ہی باعث ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس بہت زیادہ مال وs دولت جمع ہوجائے اور بعض دوسروں کے پاس نسبتاً کم رہے۔
البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعض لوگ اتفاقات کی بنا پر مالدار بن جاتے ہیں جو کہ خود ہمارے نظریہ کے مطابق صرف ایک اتفاق ہوتا ہے لیکن ایسی چیزوں کومستثنیٰ شمار کیا جاسکتا ہے، ہاں جو چیز اکثر اوقات قاعدہ و قانون کے تحت ہوتی ہے تو وہ استعداد وصلاحیت اور انسان کی کارکردگی کا فرق ہے (البتہ ہماری گفتگو ایسے سالم معاشرہ کے بارے میں ہے جس میں ظلم و ستم نہ ہو اور نہ ہی استثمار، اور نہ ہی ایسا معاشرہ جو قوانین خلقت اور انسانی نظام سے بالکل دور ہو)
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کبھی کبھی ہم جن لوگوں کو اپاہج (لولا او رلنگڑا) اور کم اہمیت سمجھتے ہیں وہ بہت زیادہ مال و دولت جمع کرلیتے ہیں اور اگر ان کے جسم و عقل کے بارے میں مزید غور و فکر کریں اور ظاہری طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے گہرائی سے سوچیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ ان کے اندر کچھ ایسی طاقتور چیزیںپائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں، (ایک بار پھر اس بات کی تکرار کرتے ہیں کہ ہماری بحث ایک سالم اور ظلم و ستم سے دور معاشرہ کے بارے میں ہے)۔
بہر حال استعداد اور صلاحیت کی وجہ سے آمدنی میں فرق ہوتا ہے، اور استعداد خداوندعالم کی عطا کردہ نعمت ہے، ہوسکتا ہے بعض مقامات میں انسان سعی و کوشش کے ذریعہ کسب کرلے، لیکن دیگر مواقع پر انسان کسب نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ ایک سالم معاشرہ میں بھی اقتصادی لحاظ سے درآمد میں فرق پایا جانا چاہئے، مگر یہ کہ ایک جیسے انسان، ایک جیسی استعداد اور ایک جیسے رنگ کے انسان بن جائیں کہ جن میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہ ہو، جو خود مشکلات اور پریشانیوں کی ابتدا ہے!
۲۔ کسی انسان کے بدن، یا کسی درخت یا کسی پھول کو مد نظر رکھیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ ان تمام چیزوں کے جسم کے تمام اعضا ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوجائیں؟
تو کیا درختوں کی جڑوں کی طاقت نازک پتوں کی طرح یا انسان کے پیر کی ایڑی ،آنکھ کے نازک پردہ کی طرح ہوسکتی ہے؟ اگر ہم ان کو ایک جیسا بنادیں تو کیا ہمارے اس کام کو صحیح کہا جاسکے گا؟! (اگر یہ نازک آنکھ، ایڑی کی طرح سخت یا ایڑی ،آنکھ کی طرح نرم ہوجائے تو انسان کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے؟!!)
اگر جھوٹے نعرے اور شعور سے خالی نعروں کو دور رکھ کر فرض کریں کہ اگر ہم نے کسی روز تمام انسانوں کو ایک طرح بنادیا جو ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں ، اور دنیا کی آبادی پانچ ارب فرض کریں اور وہ سبھی ذوق، فکر اور صلاحیت بلکہ ہر لحاظ سے ایک جیسے ہوں، بالکل ایک کارخانہ سے بننے والی سگریٹ کی طرح۔
تو کیا اس وقت انسان بہتر طور پر زندگی گزار سکے گا؟ قطعی طور پر جواب منفی ہوگا، یہی نہیں بلکہ دنیا ایک جہنم بن جائے گی، سب لوگ ایک چیز کی طرف دوڑیں گے، ایک ہی عہدہ کے طالب ہوں گے، سب کو ایک ہی کھانا اچھا لگے گا، اور سب ایک ہی کام کرنا چاہیں گے!
یہ بات مکمل طور پرواضح ہے کہ اس طرح زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی، اور اگر یہ گاڑی چلی بھی تو واقعاً بور کرنے والی ، بے مزہ اور ایک طرح کی ہوگی، جس کا موت سے کوئی زیادہ فرق نہیں ہوگا۔
اجتماعی زندگی کی بقا بلکہ مختلف استعداد کی پرورش کے لئے نہایت ضروری ہے کہ استعداد اور صلاحیت میں فرق ہو، جھوٹے نعرے اس حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔
لیکن اس بات سے کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ ہم طبقاتی نظام یا استعماری نظام کو قبول کرتے ہیں، نہیں ، ہرگز نہیں، ہماری مراد طبیعی فرق ہے نہ کہ مصنوعی، اور وہ فرق مراد ہے جو ایک دوسرے کے تعاون کا باعث ہو، نہ کہ ایک دوسرے کی ترقی میں رکاوٹ بنے، اورجس سے ایک دوسرے پر ظلم و ستم کیا جائے۔
طبقاتی اختلاف (توجہ رہے کہ طبقات سے مراد وہی استثماری نظام اور استثماری نظام کو قبول کرنے والے لوگ ہیں) نظام خلقت کے موافق نہیں ہے ، بلکہ نظام خلقت سے موافق استعداد اور صلاحیت اور سعی و کوشش کا فرق ہے، او ران دونوں کے درمیان زمین تا آسمان فرق ہے۔ (غور کیجئے )
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ استعداد اور لیاقت کے فرق سے اپنی اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کے راستہ میں مدد لی جائے، بالکل ایک بدن کے اعضا کے فرق کی طرح، یا ایک پھول کے مختلف حصوں کی طرح، جو اپنے فرق کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مددگار ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے لئے باعث زحمت و پریشانی۔
المختصر : استعداد اور صلاحیت کے فرق سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے ، اور نہ ہی اس کو طبقاتی نظام بنانے میں بروئے کار لانا چاہئے۔
اسی وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: < اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُون> (2) ”کیا خداوندعالم کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کرتے ہو؟“۔
اس آیت میں طبیعی طور پر فرق (نہ کہ مصنوعی اور ظالمانہ فرق) خداوندعالم کی ان نعمتوں میں سے ہے جس کو معاشرہ کی بقا کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔(3)
________________________________________
(1) سورہ نحل ، آیت ۷۱
(2) سورہ نحل ، آیت ۷۱
(3) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ ۳۱۲
۲۱۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟
یسا کہ سورہ شوریٰ آیت نمبر ۳۰ میں ارشاد ہوا: < وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ> ”جو مصیبت بھی تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے“۔
مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم پر پڑنے والی مصیبتوں کا سرچشمہ کیا ہے؟
اس آیت سے متعلق چند نکات کے بارے میں غور کرنے سے بات واضح ہوجاتی ہے:
۱۔ آیہٴ کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان پر پڑنے والی مصیبتیں ایک طرح سے خدا کی طرف سے سزا اور ایک چیلنج ہوتی ہیں، (اگرچہ بعض مقامات جدا ہیں جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے) اس وجہ سے دردناک حادثات اور زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا فلسفہ سمجھ میں آجاتا ہے۔
جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں آیا ہے کہ آپ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:
یہ آیہٴ شریفہ < وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ > قرآن کریم کی بہترین آیت ہے، یا علی! انسان کے جسم میں کوئی خراش نہیں آتی، اور نہ ہی کسی قدم میں لڑگھڑاہٹ پیدا ہوتی مگر اس کے انجام دئے گناہوں کی بنا پر آتی ہے، اور جو کچھ خداوندعالم اس دنیا میں معاف کردیتا ہے اس سے کہیں زیادہ قیامت کے دن معاف فرمائے گا، اور جو کچھ اس دنیا میں عقوبت اور سزا دی ہے تو خدا اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ روز قیامت اس کو دوبارہ سزا دے“۔(1)
لہٰذا اس طرح کے مصائب اور پریشانیاں نہ صرف یہ کہ انسان کے بوجھ کو کم کردیتی ہیں بلکہ آئندہ کے لئے بھی اس کو کنٹرول کرتی رہتی ہیں۔
۲۔ اگرچہ آیت کے ظاہر سے عمومیت کا اندازہ ہوتا ہے یعنی تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو شامل ہے، لیکن مشہور قاعدہ کے مطابق تمام عموم میں ایک مستثنیٰ ہوتا ہے، جیسا کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کو بہت سے مصائب اور پریشانیاں پیش آئی ہیں، جن کی وجہ سے ان حضرات کا امتحان ہوا ہے جس سے ان کا مقام رفیع و بلند ہواہے ۔
اسی طرح جن مصائب سے غیر معصومین دوچار ہوئے ہیں ان میں بھی امتحان اور آزمائش کا پہلو رہا ہے۔
یا جو مصائب جہالت کی بنا پر یا غور و فکر اورمشورہ نہ کرنے کی وجہ سے یا کاہلی اور سستی کی بناپر پیش آتے ہیں وہ خود انسان کے اعمال کا اثر ہوتا ہے۔
بالفاظ دیگر: قرآن مجید کی مختلف آیات اور معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ آیت کی عمومیت سے بعض مقامات مستثنیٰ ہیں، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ بعض مفسرین نے اس سلسلہ میں مستقل باب میں بحث وگفتگو کی ہے۔
خلاصہ یہ کہ بڑے بڑے مصائب اور پریشانیوں کے مختلف فلسفے ہوتے ہیں جن کے بارے میں توحید اور عدل الٰہی کی بحث میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔
مصائب اور مشکلات ؛ استعداد کی ترقی، آئندہ کے لئے چیلنج، امتحان الٰہی، غفلت ،غرور کا خاتمہ او رگناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں۔
لیکن چونکہ یہ مصائب اور مشکلات اکثر افراد کے لئے کفارہ اور سزا کا پہلو رکھتے ہیں لہٰذا مذکورہ آیت نے عام طور پر بیان کیا ہے، اسی طرح حدیث میں بھی وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یزید کے دربار میں پہنچے تو یزید نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا:
”یا عليّ! وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ!“
(یعنی کربلا کا واقعہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)
لیکن امام زین العابدین علیہ السلام نے فوراً اس کے جواب میں فرمایا:
”نہیں ایسا نہیں ہے، یہ آیہٴ شریفہ ہماری شان میں نازل نہیں ہوئی ہے، ہماری شان میں نازل ہونے والی دوسری آیت ہے ، جس میں ارشاد ہوتا ہے:ہر وہ مصیبت جو زمین یا تمہارے جسم و جان پر آتی ہے ، خلقت سے پہلے کتاب (لوح محفوظ) میں موجود تھی، خداوندعالم ان چیزوں سے باخبر ہے، یہ اس لئے ہے تاکہ تم مصیبتوں میں غمگین نہ ہو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس پر بہت زیادہ خوش نہ ہو، ( ان مصائب کا مقصد یہ ہے کہ تم جلد فناہونے والی اس دنیوی زندگی سے دل نہ لگاؤ، یہ چیزیں تمہارے لئے ایک امتحان اور آزمائش ہے)
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہم کسی چیز کے نقصان پر کبھی غمگین نہیں ہوتے ، اور جو کچھ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اس پر خوش نہیں ہوتے، (ہم سب چیزوں کو جلد ختم ہونے والی مانتے ہیں، اور خداوندعالم کے لطف و کرم کے منتظر رہتے ہیں) (2).
۳۔بعض اوقات مصائب، اجتماعی پہلو رکھتے ہیں اور تمام لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہوتے
ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :
<ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ>(3)
”لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستہ پر آجائیں“۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ سب اس انسانی معاشرہ کے لئے ہے جو اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے عذاب اور مشکلات میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
اسی طرح سورہ رعد آیت نمبر ۱۱/ میں ارشاد ہوتا ہے:
< إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِہِمْ>
”اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کوتبدیل نہ کرلے“۔
اور اسی طرح کی دیگر آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انسان کے اعمال اور اس کی زندگی کے درمیان ایک خاص رابطہ ہے کہ اگر فطرت اور خلقت کے اصول کے تحت قدم اٹھائے تو خداوندعالم کی طرف سے برکت عطا ہوتی ہے،اور جب انسان ان اصول سے گمراہ ہوجاتاہے تو اس کی زندگی بھی تباہ و برباد ہوجاتی ہے ۔(14)
اس سلسلہ میں اسلامی معتبر کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرکے اپنی بحث کو مکمل کرتے ہیں:
۱۔حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
”مَاکَانَ قَطْ فِی غَضِ نِعمَةٍ مِنْ عیشٍ ،فَزَالَ عَنْھُم، إلاَّ بِذنوبِ اجترحُوھا، لاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیْدِ، ولَو کَانَ النَّاسُ حِینَ تنزلُ بِھم النقم ،وَ تَزُوْلُ عَنْھُم النِعَمِ ،فَزَعُوا إلیٰ رَبِّھِم بِصِدقٍ مِنْ نِیَاتِھِمْ وَوَلَّہُ مِنْ قُلُوبِھِم، لَردَّ عَلَیھِمْ کُلَّ شاردٍ،وَاٴصْلَحَ لَھُمْ کُلَّ فَاسِدٍ“(4)
”خدا کی قسم کوئی بھی قوم جو نعمتوں کی تر و تازہ اور شاداب زندگی میں تھی اور پھر اس کی وہ زندگی زائل ہوگئی تو اس کا کوئی سبب ان گناہوں کے علاوہ نہیں ہے جن کا ارتکاب اس قوم نے کیا ہے، اس لئے کہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، پھر بھی جن لوگوں پر عتاب نازل ہوتا ہے اور نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں اگر صدق نیت اور تہِ دل سے پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کریں تو وہ گئی ہوئی نعمت واپس کردے گا اور بگڑے کاموں کو بنادے گا“۔
۲۔ کتاب ”جامع الاخبار“ میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے ایک دوسری روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”إنَّ البَلاءَ لِلظَّالِمِ اٴدَبٌ،وَلِلْمُوٴمنِ إمْتِحَانٌ، وَلِلْاٴنْبِیَاءِ دَرجةٌ وَلِلْاٴوْلیاءِ کَرَامَةٌ“(5)
”انسان پر پڑنے والی یہ مصیبتیں؛ظالم کے لئے سزا، مومنین کے لئے امتحان، انبیاء اور پیامبروں کے لئے درجات (کی بلندی) اور اولیاء الٰہی کے کرامت و بزرگی ہوتی ہیں“۔
یہ حدیث اس بات پر ایک بہترین گواہ ہے کہ مذکورہ آیت میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں۔
۳۔ ایک دوسری حدیث اصول کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمای
إنَّ الْعَبدَ إذَا کَثُرَتْ ذُنوبُہ ،وَلَمْ یَکُن عِنْدَہُ مِنَ الْعَمِلِ مَا یکفّرُھَا، ابتلاہُ بِالحُزْنِ لِیکفّر ھا“(6)
”جس وقت انسان کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور جبران وتلافی کرنے والے اعمال اس کے پاس نہیں ہوتے تو خداوندعالم اس کو غم و اندوہ میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں کی تلافی ہوجائے“۔
۴۔ اصول کافی میں اس سلسلہ میں ایک خاص باب قرار دیا گیا ہے جس میں ۱۲ حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔(7)
البتہ یہ تمام ان گناہوں کے علاوہ ہے جن کو خداوندعالم مذکورہ آیت کے مطابق معاف کردیتا ہے اور انسان پر رحمت کی بارش برساتا ہے جو خود ایک عظیم نعمت ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
ممکن ہے کہ بعض لوگ اس قرآنی حقیقت سے غلط فائدہ اٹھائیں اور وہ یہ کہ جو مصیبت بھی ان پر پڑے اس کا پُر جوش استقبال کریں اور کہیں کہ ہمیں ان تمام مصائب کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے ، اور اس درس آموز اصل اور قرآنی حقیقت کے برعکس نتیجہ اخذ کریں، یعنی اس سے غلط نتیجہ اخذ کریں کہ جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔
کبھی بھی قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ مصیبتوں کے سامنے تسلیم ہوجائیں اور ان کو دور کرنے کے لئے کوشش نہ کریں، اور ظلم و ستم اور بیماریوں کے مقابلہ میں خاموش رہیں، بلکہ قرآن کا فرمان
ہے: اگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مشکلات دور نہ ہوں تو سمجھ لو کہ کوئی ایسا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا مل رہی ہے،لہٰذا اپنے گزشتہ اعمال کی طرف توجہ کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں، اور اپنی اصلاح کریں اپنے کو برائیوں سے دور کریں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں مذکورہ آیت کو انھیں بہترین اور اہم تربیتی آثار کی بناپر ”بہترین آیت“ شمار کیا گیا ہے ،اور دوسری طرف اس سے انسان کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے، اس کے دل میں امید کی کرن پیدا ہو تی ہے اور خدا کا عشق بھی پیدا ہو جاتا ہے۔(8)
________________________________________
(1) ”مجمع البیان“ ، جلد ۹، صفحہ ۳۱، اس حدیث کو ”درالمنثور “ اور تفسیر ”روح المعانی “میں مختصر فر ق کے ساتھ بیان کیا ہے اوراس طرح کی حدیثیں بہت زیادہ ہیں
(2) تفسیر ”علی بن ابراہیم“ مطابق ”نور الثقلین“ ، جلد ۴، صفحہ ۵۸۰
(3) سورہ روم ، آیت ۴۱ (4)تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۶۱
(5) نہج البلاغہ، خطبہ: ۱۷۸ (16) بحار الانوار ، جلد ا۸، صفحہ ۱۹۸
(6) ”اصول کافی“، جلد دوم، کتاب الایمان والکفر باب تعجیل عقوبة الذنب حدیث۲
(7) ”اصول کافی“، جلد دوم، کتاب الایمان والکفر باب، تعجیل عقوبة الذنب حدیث۲
(8) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۴۰
|