110 سوال اور جواب
 
۱۔ خدا کی معرفت کیوں ضروری ہے؟
جب یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی فعل بغیر علت کے نہیں ہوتا تو پھر اس دنیا کے خالق کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ہونا چاہئے، چنانچہ فلاسفہ اور دانشوروں نے خدا شناسی کے لئے تین بنیادی وجہیں اور علتیں بیان کی ہیں،جن پر قرآن کریم نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے:
۱۔ عقلی علت ۔
۲۔ فطری علت ۔
۳۔ عاطفی علت ۔

1. عقلی علت :
انسان کمال کا عاشق ہوتا ہے، اور یہ عشق تمام انسانوں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے، انسان جس چیز میں اپنا کمال دیکھتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے،البتہ یہ بات علیحدہ ہے کہ بعض لوگ خیالی اور بےہودہ چیزوں ہی کو کمال اور حقیقت تصور کربیٹھتے ہیں۔
کبھی اس چیز کو ”منافع حاصل کرنے اور نقصان سے روکنے والی طاقت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انسان اسی طاقت کی بنا پر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ جس چیز میں اس کا فائدہ یا نقصان ہو اس پر خاص توجہ دے۔
انسان کی اس طاقت کو ”غریزہ“ کا نام دینا بہت مشکل ہے کیونکہ معمولاً غریزہ اس اندرونی رجحان کو کہا جاتا ہے جو انسان اور دیگر جانداروں کی زندگی میں بغیر غور و فکر کے اثر انداز ہوتا ہے اسی وجہ سے حیوانات کے یہاں بھی غریزہ پایا جاتا ہے۔
لہٰذا بہتر ہے کہ اس طاقت کو ”عالی رجحانات“کے نام سے یاد کیا جائے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا تذکرہ بھی کیاہے۔
بہر حال انسان کمال دوست ہوتا ہے اور ہر مادی و معنوی نفع کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے ضررو نقصان سے پرہیز کرتا ہے چنانچہ اگر انسان کو نفع یا نقصان کا احتمال بھی ہو تو اس چیز پر توجہ دیتا ہے اور جس قدر یہ احتمال قوی تر ہوجاتا ہے اسی اعتبار سے اس کی توجہ بھی بڑھتی جاتی ہے، لہٰذایہ ناممکن ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کو اہم و موثر مانے لیکن اس سلسلہ میں تحقیق و کوشش نہ کرے۔
خدا پر ایمان اور مذہب کا مسئلہ بھی انھیں مسائل میں سے ہے کیونکہ مذہب کا تعلق انسان کی زندگی سے ہوتا ہے اور اسی سے انسان کی سعادت اور خوشبختی یا شقاوت اور بدبختی کا تعلق ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعہ انسان سعادت مند ہوتا ہے یا بدبخت ہوجاتا ہے،اور ان دونوں میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔
اس بات کو واضح کرنے کے لئے بعض علمامثال بیان کرتے ہیں: فرض کیجئے ہم کسی کو ایک ایسی جگہ دیکھیں جہاں سے دوراستے نکلتے ہوں ، اور وہ کہے کہ یہاں پر رکنا بہت خطرناک ہے اور (ایک راستہ کی طرف اشارہ کرکے )کہے کہ یہ راستہ بھی یقینی طور پر خطرناک ہے لیکن دوسرا راستہ ”راہ نجات“ ہے اور پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ شواہد و قرائن بیان کرے، تو ایسے موقع پر گزرنے والا مسافر اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ میں تحقیق و جستجو کرے ،ایسے موقع پر بے توجہی کرنا عقل کے برخلاف ہے۔(1)
جیسا کہ ”دفعِ ضررِمحتمل “(احتمالی نقصان سے بچنا) ایک مشہور و معروف قاعدہ ہے جس کی بنیاد عقل ہے، قرآن کریم نے پیغمبر اکرم (ص) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
< قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہِ مَنْ اٴَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ >(۲)
”آپ کہہ دیجئے کہ کیا تمہیں یہ خیال ہے اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا تو اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا“۔
البتہ یہ بات ان لوگوں کے سلسلہ میں ہے جن کے یہاں کوئی دلیل و منطق قبول نہیں کی جاتی ، در حقیقت وہ آخری بات جو متعصب، مغرور اور ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے : اگر تم لوگ قرآن، توحید اور وجود خدا کی حقانیت کو سوفی صد نہیں مانتے تو یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس کے بر خلاف بھی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، لہٰذا یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ قرآنی دعوت اور قیامت واقعیت رکھتے ہوں تو اس موقع پر تم لوگ سوچ سکتے ہو کہ دین خدا سے گمراہی اور شدید مخالفت کی وجہ سے تمہاری زندگی کس قدر تاریکی اور اندھیرے میں ہوگی۔
اس بات کو ائمہ علیہم السلام نے ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے آخری بات کے عنوان سے کی ہے،جیسا کہ اصول کافی میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے ملحد و منکر خدا ”ابن ابی العوجاء“ سے متعدد مرتبہ بحث و گفتگو فرمائی ہے،اور اس گفتگو کاآخری سلسلہ حج کے موسم میں ہوئی ملاقات پر تمام ہواجب امام علیہ السلام کے بعض اصحاب نے آپ سے کہا: کیا ”ابن ابی العوجاء“ مسلمان ہوگیا ہے؟!تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا دل کہیں زیادہ اندھا ہے یہ ہرگز مسلمان نہیں ہوگا، لیکن جس وقت اس کی نظر امام علیہ السلام پر پڑی تو اس نے کہا: اے میرے مولا و آقا!
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ماجاءَ بِکَ إلیٰ ہذَا المَوضِع“ (تو یہاں کیا کررہا ہے؟)
تو اس نے عرض کی: ”عادة الجسد، و سنة البلد، و لننظر ما الناس فیہ من الجنون و الحلق و رمی الحجارة!“ (کیونکہ بدن کو عادت ہوگئی ہے اور ماحول اس طرح کا بن گیا ہے ، اس کے علاوہ لوگوں کا دیوانہ پن، ان کا سرمنڈانا اور رمی ِجمرہ دیکھنے کے لئے آگیا ہوں!!)
امام علیہ السلام نے فرمایا: اٴَنْتَ بعدُ علیٰ عتوک و ضلالک یا عبدَ الکریم! (اے عبد الکریم!تو ابھی بھی اپنے ضلالت و گمراہی پر باقی ہے )(3)
اس نے امام علیہ السلام سے گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے کہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لا جدال فی الحج“(حج، جنگ و جدال کی جگہ نہیں ہے) اورامام علیہ السلام نے اس کے ہاتھ سے اپنی عبا کو کھینچتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ”ان یکن الامر کما تقول۔ ولیس کما تقول۔ نجونا ونجوت ۔ وان یکن الامر کما نقول ۔وھو کمانقول۔نجونا وھلکت“!:
”اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے تو کہتا ہے کہ (خدا اورقیامت کا کوئی وجود نہیں ہے) جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے، تو ہم بھی اہل نجات ہیں اور تو بھی، لیکن اگر ہمارا عقیدہ ہے ،جب کہ حق بھی یہی ہے تو ہم اہل نجات ہیں اور تو ہلاک ہوجائے گا“۔

”ابن ابی العوجاء“ نے اپنے ساتھی کی طرف رخ کیا اور کہا: ”وجدت فی قلبی حزازة فردونی،فردوہ فمات“ (میں اپنے دل میں درد کا احساس کررہا ہوں، مجھے واپس لے چلو، چنانچہ جیسے ہی اس کو لے کر چلے تو تھوڑی ہی دیر بعدوہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔(4) (5) .

۲۔جذبہٴ محبت:
اشارہ:
ایک مشہور و معروف ضرب المثل ہے کہ ”انسان احسان کا غلام ہوتا ہے“ (الانسان عبید الاحسان(
یہی مطلب تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حدیث میں بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
”الإنسان عبد الإحسان“(6)
”انسان، احسان کا غلام ہے“۔
نیزامام علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
”بالإحسان تملک القلوب“(7)
”احسان کے ذریعہ انسان کے قلوب کو مسخر کیا جاتا ہے “۔
نیز ایک دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:
”وافضِلْ علیٰ من شئت تکن اٴمیرہ“(8)
”ہر شخص کے ساتھ احسان کرو تاکہ اس کے حاکم بن جاوٴ“
ان تمام مطالب کا سرچشمہ حدیث ِپیغمبر اکرم (ص) ہے کہ آپ نے فرمایا:
”إنَّ اللهَ جَعَلَ قُلُوب عبادِہِ علیٰ حُبَّ مَنْ اٴحسَنَ إلیھا ،و بغض من اٴساء إلیھا“(9)
”خداوندعالم نے اپنے بندوں کے دلوں کو اس شخص کی محبت کےلئے جھکادیا ہے جو ان پر احسان کرتا ہے اور ان کے دلوں میں اس شخص کی طرف سے عداوت ڈال دی ہے جو ان سے بدسلوکی کرتا ہے“۔
مختصر یہ کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان کرے یا اس کی کوئی خدمت کرے یا اس کو کوئی تحفہ دے تو وہ شخص بھی اس سے محبت کرتا ہے، اور نعمت عطا کرنے والے اور احسان کرنے والے سے مانوس ہوجاتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کو مکمل طریقہ سے پہچانے، اور اس کا شکریہ ادا کرے، اور یہ بات بھی طے ہے کہ نعمت اور احسان جتنے اہم ہوتے ہیں ”منعم“ (یعنی نعمت دینے والے) کی نسبت اس کی محبت اور اس کی پہچان بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے علمائے علم کلام (عقائد) قدیم الایام سے مذہب کی تحقیق کے سلسلہ میں ”شکرِ منعم“ (نعمت عطا کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے کو ) معرفت خدا کی علتوں میں سے ایک علت شمار کرتے ہیں۔
لیکن اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ ”شکر منعم“کا مسئلہ عقلی حکم سے پہلے ایک عاطفی مسئلہ ہے، اس مختصر سے اشارہ کو عرب کے مشہور و معروف شاعر ”ابو الفتح بستی“ کے شعر پر ختم کرتے ہیں:

احسن إلی النَّاس تَستعبد قلوبَھُم
فطالما استعبد الإنسان إحسان
”لوگوں کے ساتھ نیکی کرو تاکہ ان کے دل پر حکومت کرسکو ، بے شک انسان احسان کا غلام ہوتا ہے“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ” ایک روز رسول اکرم عائشہ کے حجرے میں تھے تو عائشہ نے سوال کیا کہ آپ اس قدر کیوں خود کو (عبادت کے لئے) زحمت میں ڈالتے ہیں؟ جبکہ خداوندعالم نے آپ کے گزشتہ اور آئندہ کے الزاموں کو معاف کردیا ہے“(10)
آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”إلاّٰ اکون عبداً شکوراً“(11) (کیا مجھے اس کا شکر گزار بندہ نہیں ہونا چاہئے؟)

۳۔ فطری لگاؤ:
اشارہ:
جس وقت فطرت کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو اس سے مراد اندرونی ادراک و احساس ہوتا ہے جس کے اوپر کسی عقلی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
جس وقت ہم ایک دلکش منظر ، یا خوبصورت باغ اور چمن دیکھتے ہیں اور ہمارے دل میں اس خوبصورت منظر کے پیش نظر کشش محسوس ہوتی ہے تو اندر سے ہمارا احساس آواز دیتا ہے کہ اس کشش اور لگاؤ کا نام عشق یا خوبصورتی رکھ دیا جائے، جبکہ یہاں کسی بھی طرح کے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
جی ہاں! خوبصورتی کا احساس کرنے والی یہ طاقت ،انسان کی بلند پرواز روح کے خواہشات اور رجحانات میں سے ہے، مذہب کے سلسلہ میں یہ کشش خصوصاً معرفت خدا کا مسئلہ بھی ایک اندورنی اور ذاتی احساس ہے، بلکہ انسان کے اندر سب سے بڑی طاقت کا نام ہے۔
اسی وجہ سے ہم کسی قوم و ملت کو نہیں دیکھتے (نہ آج اور نہ ماضی میں ) کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد نہ پائے جاتے ہوں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمیق احساس ہر انسان کے یہاں پایا جاتا ہے۔
قرآن مجید نے عظیم الشان انبیاء کے قیام کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس نکتہ پر توجہ دی ہے کہ رسالت کی ذمہ داری شرک و بت پرستی کا خاتمہ تھا (نہ کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا، کیونکہ یہ موضوع تو ہر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے)
یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انبیاء علیہم السلام یہ نہیں چاہتے تھے کہ ”خدا پرستی کا درخت“ لوگوں کے دلوں میں لگائیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کے دلوں میں موجود اس درخت کی آبیاری کریں اور اس کے پاس سے بے کار گھاس اور کانٹوں کو ہٹادیں جن کی وجہ سے کبھی یہ درخت بالکل خشک ہوسکتا ہے یہاں تک کہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔
”الاَّ تعبد وا إلاَّ الله“ یا ”الَّا تعبدوا إلاَّ إیاہُ“ (خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرو) اس جملہ میں بتوں کی پوجا سے روکا جارہا ہے نہ یہ کہ وجود خدا کو ثابت کیا جارہا ہے، اور یہ جملہ بہت سے انبیاء کی گفتگو میں بیان ہوا ، منجملہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تبلیغ میں(12) جناب نوح علیہ السلام کی تبلیغ میں(13) جناب یوسف علیہ السلام کی تبلیغ میں(14) اور جناب ہود علیہ السلام کی تبلیغ میں بیان ہوا ہے۔(15)
اس کے علاوہ ہمارے دل و جان میں دوسرے فطری احساسات بھی پائے جاتے ہیں جیسے علم و دانش ؛ جن کے بارے میں بہت زیادہ شوق و رغبت ہوتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس وسیع و عریض دنیا کے عجیب و غریب نظام کو تو دیکھیں لیکن اس نظام کے پیدا کرنے والے کی معرفت و شناخت کے سلسلہ میں کوئی شوق ورغبت نہ ہو؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دانشور چیونٹیوں کی شناخت کے بارے میں بیس سال تک ریسرچ کرے اور دوسرا دسیوں سال پرندوں یا درختوں، یا دریائی مچھلیوں کے بارے میں تحقیق کرے ، لیکن اس کے دل میں علم کا شوق نہ پایا جاتا ہو؟ کیا یہ لوگ اس وسیع و عریض دنیا کے سرچشمہ کی تلاش نہیں کریں گے؟!
جی ہاں! یہ تمام چیزیں ہمیں ”معرفت خدا“کی دعوت دیتی ہیں، ہماری عقل کو اس بات کی طرف بلاتی ہیں، ہماری عاطفی طاقت کو اس طرف جذب کرتی ہیں اور ہماری فطرت کو اس راستہ کی طرف لگاتی ہیں۔(16)
________________________________________
(1) تفسیر پیام قرآن ،جلد ۲، ص۲۴.
(۲) سورہ فصلت آیت۵۲.
(3) ”عبد الکریم “ کا اصلی نام ”ابن ابی العوجاء“ تھا،کیونکہ وہ منکر خدا تھا لہٰذا امام نے خاص طور سے اس کواس نام سے پکارا تاکہ وہ شرمندہ ہوجائے
(4) کافی، جلد اول، صفحہ ۶۱، (کتاب التوحید باب حدوث العالم)
(5) تفسیر نمونہ ج۲۰، صفحہ ۳۲۵
(7،6) غررالحکم
(8) بحار الانوار ، جلد ۷۷، صفحہ ۴۲۱ ( آخوندی)
(9) تحف العقول ص۳۷ (بخش کلمات پیامبر (ص))
(10) سورہٴ فتح کی پہلی آیت کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفسیر کی وضاحت تفسیر نمونہ کی جلد ۲۲، کے صفحہ ۱۸ پر موجود ہے
(11) اصول کافی ،جلد ۲،باب الشکر حدیث۶
(12) سورہٴ ہود، آیت۲
(13) سورہٴ ہود، آیت۲۶
(14) سورہٴ یوسف، آیت۴۰
(15) سورہٴ احقاف ، آیت۲۱
(16) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۲، صفحہ ۳۴
۲۔ خداوندعالم کو کیوں درک نہیں کیا جاسکتا؟
خداوندعالم کی ذات پاک کا نامحدود ہونا اور ہماری عقل ، علم اور دانش کا محدود ہونا ہی اس مسئلہ کا اصلی نکتہ ہے۔
خداوندعالم کا وجود ہر لحاظ سے لامتناہی ہے، اس کی ذات ،اس کے علم و قدرت اور دوسرے صفات کی طرح نامحدود اورختم نہ ہونے والا ہے، دوسری طرف ہم اور جو چیزیں ہم سے متعلق ہیں چاہے علم ہو یا قدرت، زندگی ہو یا ہمارے اختیار میں موجود دوسرے امور سب کے سب محدود ہیں۔
لہٰذا ہم اپنی تمام تر محدودیت کے ساتھ کس طرح خدا وندعالم کے لامحدود وجود اور نا محدود صفات کو درک کرسکتے ہیں؟ ہمارا محدود علم اس لامحدود وجود کی خبر کس طرح دے سکتا ہے؟۔
جی ہاں! اگر ہم دور سے کسی چیز کو دیکھیں اگرچہ وہ ہماری سمجھ میں نہ آرہی ہو لیکن پھر بھی اس کی طرف ایک مختصر سا اشارہ کیا جاسکتا ہے، لیکن خداوندعالم کی ذات اور صفات کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے یعنی تفصیلی طور پر اس کی ذات کا علم نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ ایک لامحدود وجود کسی بھی لحاظ سے اپنا مثل و مانند نہیں رکھتا، وہ محض اکیلا ہے کوئی دوسرا اس کی طرح نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی دوسرا اس کی مانند ہوتا تودونوں محدود ہوجاتے۔
اب ہم کس طرح اس وجود کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کریں جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے، اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سبھی ممکنات کے دائرے میں شامل ہے، اور اس کے صفات خداوندعالم سے مکمل طورپرفرق رکھتے ہیں(1)
ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اصل وجود سے آگاہ نہیں ہیں، اس کے علم، قدرت، ارادہ اور اس کی حیات سے بے خبر ہیں، بلکہ ہم ان تمام امور کے سلسلہ میں ایک اجمالی معرفت رکھتے ہیں، جن کی گہرائی اور باطن سے بے خبر ہیں، بڑے بڑے علمااور دانشوروں کے عقلی گھوڑے (بغیر کسی استثنا کے)اس مقام پر لنگڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں، یا شاعر کے بقول:

بہ عقل نازی حکیم تاکی؟ بہ فکرت این رہ نمی شود طی!
بہ کنہ ذاتش خرد برد پی اگر رسد خس و بہ قعر دریا!(۲)

”اے حکیم و دانا و فلسفی تو اپنی عقل پر کب تک ناز کرے گا، تو عقل کے ذریعہ اس راہ کو طے نہیں کرسکتا۔
اس کی کنہِ ذات تک عقل نہیں پہنچ سکتی ہیں جس طرح خس و خاشاک سمندر کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے حدیث نقل ہوئی ہے:
”إذا انتہیٰ الکلام إلیٰ الله فامسکوا“(3)
” جس وقت بات خدا تک پہنچ جائے تو اس وقت خاموش ہوجاؤ“
یعنی حقیقت خدا کے بارے میں گفتگو نہ کرو، کیونکہ اس کے سلسلہ میں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں اور کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتیں، اس کی لامحدود ذات کے بارے میں محدود عقلوں کے ذریعہ سوچنا ناممکن ہے، کیونکہ جو چیز بھی عقل و فکر کے دائرہ میں آجائے وہ محدود ہوتی ہے اور خداوندعالم کا محدود ہونا محال ہے۔(4)
یاواضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ جس وقت ہم اس دنیا کی عجیب و غریب چیزوں اور ان کی ظرافت و عظمت کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں یا خود اپنے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو اجمالی طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا کوئی پیدا کرنے والاہے، جبکہ یہ وہی علمِ اجمالی ہے جس پر انسان خدا کی معرفت اور اس کی شناخت کے آخری مرحلہ میں پہنچتا ہے، (لیکن انسان جس قدر اسرار کائنات سے آگاہ ہوتا جاتا ہے اور اس کی عظمت واضح ہوتی جاتی ہے تو اس کی وہ اجمالی معرفت قوی تر ہوتی جاتی ہے) لیکن جب ہم خود اپنے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ کون ہے؟ اور کس طرح ہے؟ اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہیں تو حیرت و پریشانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا، یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی شناخت کا راستہ مکمل طور پر کھلا ہوا ہے حالانکہ مکمل طور پر بند بھی ہے۔
اس مسئلہ کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوتِ جاذبہ کا وجود ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو چھوڑتے ہیں تو وہ گرجاتی ہے اور زمین کی طرف آتی ہے ، اور اگر یہ قوتِ جاذبہ نہ ہوتی تو روئے زمین پر بسنے والے کسی موجود کو چین و سکون نہ ملتا،لیکن اس قوہٴ جاذبہ کے بارے میں علم ہونا کوئی ایسی بات نہیں جو دانشوروں سے مخصوص ہو ، بلکہ چھوٹے بچے بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں البتہ قوتِ جاذبہ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا دکھائی نہ دینے والی لہریںہیں ، یا نامعلوم ذرات یا دوسری کوئی طاقت؟ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے ۔
اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ قوتِ جاذبہ ،مادی دنیا میں معلوم شدہ چیز کے برخلاف، ظاہراً کسی چیز کو دوسری جگہ پہنچانے میں کسی زمانہ اور وقت کی محتاج نہیں ہے، نور کے برخلاف جو کہ مادی دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے ، لیکن کبھی اس نور کوایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں، جبکہ قوتِ جاذبہ اسے دنیا کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ میں لمحہ بھر میں منتقل کردیتی ہے، یا کم سے کم ہم نے جو سرعت و رفتار سنی ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی رفتار ہوتی ہے۔
یہ کونسی طاقت ہے جس کے آثار ایسے(عجیب و غریب) ہیں؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کوئی شخص بھی اس کا واضح جواب نہیں دیتا، جب اس ”قوتِ جاذبہ “ (جو ایک مخلوق ہے) کے بارے میں ہمارا علم صرف اجمالی پہلو رکھتا ہے اور اس کے بارے میں تفصیلی علم نہیں ہے، تو پھر کس طرح اس ذات اقدس کی کُنہ (حقیقت) سے باخبر ہوسکتے ہیں جو اس دنیا اور ماورائے طبیعت کا خالق ہے جس کا وجود لامتناہی ہے، لیکن بہر حال ہم اس کو ہر جگہ پر حاضر و ناظر مانتے ہیں اور کسی بھی ایسی جگہ کا تصور نہیں کرتے جہاں اس کا وجود نہ ہو۔
با صد ہزار جلوہ برون آمدی کہ من با صد ہزار دیدہ تماشا کنم تو را (5)
” تولاکھوں جلووں کے ساتھ جلوہ افروز ہے تاکہ میں لاکھوں انکھوں کے ذریعہ تیرا دیدار کروں“۔
________________________________________
(1) اگر آپ حضرات تعجب نہ کریں تو ہم ”لامتناہی“ (لامحدود) مفہوم کا تصور ہی نہیں کرسکتے ،لہٰذا کس طرح لفظ ”لامتناہی“ کو استعمال کیا جاتا ہے؟ اور اس کے سلسلہ میں خبر دی جاتی ہے اور اس کے احکام کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ، تو کیا بغیر تصور کے تصدیق ممکن ہے؟
جواب : لفظ ”لامتناہی“ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ”لا“ جو کہ عدم اور نہ کے معنی میں ہے اور ”متناہی“ جو کہ محدود کے معنی میں ہے، یعنی ان دونوں کو الگ الگ تصور کیا جاسکتا ہے، (نہ ، محدود) اس کے بعد دونوں کو مرکب کردیا گیا، اور اس کے ذریعہ ایسے وجودکی طرف اشارہ کیا گیاہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اور اس پر (صرف) علم اجمالی حاصل ہوتا ہے (غور کیجئے)
(۲) پیام قرآن ، جلد ۴، ص۳۳.
(3) تفسیر ”علی بن ابراہیم “ نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۷۰ کی نقل کے مطابق.
(4) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۵۵۸.
(5) پیام امام (شرح نہج البلاغہ)، جلد اول، صفحہ ۹۱
۳۔ کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں ؟
خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیہودہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ہو، تم کہتے ہو کہ خدا کا نہ جسم ہے اور نہ اس کے رہنے کے لئے کوئی جگہ، نہ زمان درکار ہے اور نہ کوئی رنگ و بووغیرہ تو ایسے وجودکو کس طرح درک کیا جاسکتاہے اور کس ذریعہ سے پہچانا جاسکتا ہے؟لہٰذا ہم تو صرف اسی چیز پر ایمان لاسکتے ہیں کہ جس کو اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکیں اور جس چیز کو ہماری عقل درک نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے“۔
جواب :اس اعتراض کے جواب میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی جاسکتی ہے:

۱۔ معرفت خدا کے سلسلہ میں مادیوں کی مخالفت کے اسباب :
ان کا علمی غرور اور ان کا تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دینا ، اور اسی طرح ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ قرار دینا ہے، نیز اس بات کا قائل ہونا کہ طبیعی اور مادی چیزوں کے ذریعہ ہی کسی چیز کو درک کیا جاسکتا ہے، (یہ سخت بھول ہے۔)
کیونکہ ہم اس مقام پر ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سائنس کے سمجھنے اور پرکھنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟!
واضح ہے کہ اس سوال کا جواب مثبت ہے کیونکہ سائنس کے حدود دوسری موجودات کی طرح محدود ہیں ۔
تو پھر کس طرح لامحدود موجود کو طبیعی چیزوں کے ذریعہ درک کیا جاسکتا ہے؟۔
لہٰذا بنیادی طور پر خداوندعالم، اور موجودات ِماورائے طبیعت ،سائنس کی رسائی سے باہر ہیں، اورجو چیزیں ماورائے طبیعت ہوں ان کو سائنس کے آلات کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، ”ماورائے طبیعت “سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس کے ذریعہ ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سے ہر شعبہ کے لئے ایک الگ میزان و مقیاس ہوتا ہے جس سے دوسرے شعبہ میں کام نہیں لیا جاسکتا، نجوم شناسی، فضا شناسی اور جراثیم شناسی میں ریسرچ کے اسباب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔
کبھی بھی ایک مادی ماہر اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایک منجم سے کہا جائے کہ فلاں جرثومہ کو ستارہ شناسی وسائل کے ذریعہ ثابت کرو، اسی طرح ایک جراثیم شناس ماہر سے اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آلات کے ذریعہ ستاروں کے بارے میں خبر دے ، کیونکہ ہر شخص اپنے علم کے لحاظ سے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکتا ہے، اور اپنے دائرے سے باہر نکل کر کسی چیز کے بارے میں ”مثبت“ یا ”منفی“ نظریہ نہیں دے سکتا۔
لہٰذا ہم کس طرح سائنس کو اس بات کا حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے دائرے سے باہر بحث و گفتگو کرے ، حالانکہ اس کے دائرے کی حد عالم طبیعت اور اس کے آثار و خواص ہیں؟!
ایک مادی ماہر کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ”ماورائے طبیعت“ کے سلسلہ میں خاموش ہوں، کیونکہ یہ میرے دائر ے سے باہر کی بات ہے، نہ یہ کہ وہ ماورائے طبیعت کا انکار کرڈالے، یہ حق اس کو نہیں دیا جاسکتا۔
جیسا کہ اصولِ فلسفہٴ حسی کا بانی ” ا گسٹ کانٹ“ اپنی کتاب ”کلماتی در پیرامون فلسفہ حسی“ میں کہتا ہے:”چونکہ ہم موجودات کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں لہٰذا اپنے زمانہ سے پہلے یا اپنے زمانہ کے بعد آنے والی موجودات کا انکار نہیں کرسکتے، جس طرح سے ان کو ثابت بھی نہیں کرسکتے،(غور کیجئے گا(
خلاصہ یہ کہ حسی فلسفہ ، جہل مطلق کے ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نہیں دےتا، لہٰذا حسی فلسفہ کے فرعی علوم کو بھی موجوات کے آغاز اور انجام کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ، یعنی ہم خدا کے علم و حکمت ، او راس کے وجود کا انکار نہ کریں اور اس کے بارے میں نفی و اثبات کے سلسلہ میں بے طرف رہیں ،(نہ انکار کریں اور نہ اثبات) “
ہمارے کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ”ماورائے طبیعت دنیا“ کو سائنس کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نہیں ہوسکتا۔
دنیا بھر کے خداپرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ہے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ہے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نہیں کیا جاسکتا۔
لہٰذا یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گہرائیوں میں میکروسکوپ (Microscope) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بیہودہ اور بےجا ہے۔

۲۔ اس کی نشانیاں
دنیا کی ہر چیز کی پہچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ہی اس کو پہچانا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ہیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ہی پہچانتے ہیں، (غور کیجئے )
کیونکہ کوئی بھی چیز ہمارے فکر و خیال میں داخل نہیں ہوسکتی اور ہمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر: اگر آپ آنکھوں کے ذریعہ کسی جسم کو تشخیص دینا چاہیں اور اس کے وجود کو درک کرنا چاہیں تو شروع میں اس چیز کی طرف دیکھیں گے اس کے بعد نور کی شعائیں اس پر پڑتی ہیں اور آنکھ کی پتلی میں نورانی لہریں ”شبکیہ“ نامی آنکھ کے پردہ پر منعکس ہوتی ہیں تو بینائی اعصاب نور کو حاصل کرکے مغز تک پہنچاتے ہیں او ر پھر انسان اس کو سمجھ لیتا ہے۔
اور اگر لمس کے ذریعہ (یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پہنچاتے ہیں اور انسان اس کو درک کرتا ہے، لہٰذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور کبھی بھی وہ جسم ہمارے مغز میں قرار نہیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ہو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ہو تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں پہچان سکتے۔
مزید یہ کہ کسی چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ہونا کافی ہے، مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم کرنا ہوکہ دس ہزار سال پہلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وہاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ہونا کافی ہے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائیں گی۔
اس بات کے پیش نظر ہر موجود چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے اور یہ کہ ہر چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ہونا کافی ہے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نہیں ہے؟!
آپ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ہیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ہزار سال پہلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ہیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ہمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے کراں نظم ، جیسی چیزیں موجود ہیں کیا اتنے آثار کافی نہیں ہیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ہر جگہ موجود ہیں، پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نہیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نہیں دیکھ سکے، توکیا ہر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاہے؟!

۳۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:
خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے اس کوقبول نہیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ہونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں جن کو دیکھا اوردرک نہیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ہونے والی چیزیں صفر شمار ہوتی ہیں!
نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
۱۔ علم فیزکس کہتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ہیں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں۔
اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ نور کی لہروں کے ذریعہ رنگ پیدا ہوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ہوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ہضم کرلیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے جن کو واپس کرتا ہے وہ وہی رنگ ہوتا ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں، لہٰذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لہروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں، یعنی اگر نور کی لہروں کی شدت فی سیکنڈ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پہنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لہروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے ، اس سے زیادہ لہروں یا کم لہروں میں بہت سے رنگ ہوتے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھ پاتے ۔
۲۔ آواز کی موجیں ۱۶/مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۰۰۰/۲۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ہمارے لئے قابل فہم ہیں اگر اس سے کم یا زیادہ ہوجائے تو ہم اس آواز کو نہیں سن سکتے۔
۳۔ امواجِ نور کی جن لہروں کو ہم درک کرسکتے ہیں انھیں۴۵۸ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ہونا چاہئے اس سے کم یا زیادہ چاہے فضا میں کتنی ہی آوازیں موجود ہوں ہم ان کو درک نہیں کرسکتے۔
۴۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعدادانسان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نہیں جاسکتے ، اور شایداس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ہو۔
۵۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نہیں ہے، حالانکہ دنیاکی ہر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ہوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دانشور وں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نہیں جھٹلایا۔(1)
خلاصہ یہ کہ ہمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے لہٰذا ان کے ذریعہ ہم عالَم کو بھی محدود مانیں۔(2)
لہٰذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، آپ دیکھئے دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں بھری پڑی ہیں جو غیر محسوس ہیں جن کو ہمارے حواس درک نہیں کرسکتے!
جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پہلے یا ذرہ بینی (چھوٹی چھوٹی چیزوں) کے کشف سے پہلے کسی کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے لحاظ سے مخفی ہوں اور ابھی تک سائنس نے ان کو کشف نہ کیا ہو بلکہ بعد میں کشف ہوں تو ایسی صورت میں ہماری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان شرائط (علم کا محدود ہونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ہونے) کے تحت ہم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نہیں ہیں۔
البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ دعویٰ کرناچاہتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون ، پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کرکے بعض مجہول چیزوں کو کشف کرلے گا، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز و سامان کے ذریعہ ”عالم ماورائے طبیعت“ کو بھی کشف کرلے!
جی نہیں، اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ ”ماورائے طبیعت“ اور ”ماورائے مادہ “ کو مادی وسائل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و سازو سامان کے بس کی بات نہیں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ہونے سے پہلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نہیں تھا اور ہمیں اس بات کا حق نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کوچونکہ ہم نہیں دیکھتے؛ جن چیزوں کو دنیاوی سازو سامان کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ، یاوہ سائنس کے ذریعہ ثابت نہیں ہیں لہٰذا ان کا کوئی وجود نہیں ہے، اسی طرح سے ”ماورائے طبیعت“ کے بارے میں یہ نظریہ نہیں دے سکتے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہٰذا اس غلط راستہ کو چھوڑنا ہوگا اور خدا پرستوں کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ہوگا(3) .
________________________________________
(1) منجملہ ان چیزوں کے جو محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی دانشور نے ان کا انکار نہیں کیا ہے زمین کی حرکت ہے یعنی 8کرہٴ زمین گھومتی ہے، اور یہ وہی ”مدو جزر“(پھیلنا اورسکڑنا ) ہے جو اس زمین پر رونما ہوتا ہے، اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے، جس کو نہ کبھی ہم نے دیکھا، اور نہ کبھی اس کااحساس کیا، یہ زمین دن میں دو بار ۳۰cmاوپر آتی ہے
انھیں چیزوں میں سے ہوا بھی ہے جوہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتی ہے اوراس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے لہٰذا اس دباؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جبکہ کوئی بھی انسان یہ تصور نہیں کرتا کہ ہوا اس قدر وزنی ہے، ”گلیلیو“ اور ”پاسکال“ سے پہلے کسی کو ہوا کے وزن کا علم نہیں تھا، اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواہی دے دی پھر بھی ہم اس کا احساس نہیں کرتے
انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے ”اٹر“ ہے کہ بہت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کااعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئے تمام جگہوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ”اٹر“ ایک بے وزن اوربے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ہوئے ہے، لیکن ہم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں
2) مذکورہ بالا مطلب کی تصدیق کے لئے ”کامیل فلامارین“ کی کتاب ”اسرار موت“ سے ایک اقتباس آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر تے ہیں:
”لوگ جہالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور انسان یہ نہیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ہی حقائق کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں“! اس کے بعد ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے جن کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے، اوراس کے بعد موٴلف کتا ب ایک ایک کرکے بیان کرتا ہے اور پھر ہر ایک حس کی محدودیت کو ثابت کرتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے:”لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عقل اور سائنس کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ بہت سی حرکات ، ذرات، ہوا ، طاقتیں اور دیگر چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے، اور ان حواس میں سے کسی ایک سے بھی ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اطراف میں بہت سی ایسی چیزیں ہوں جن کا ہم احساس نہیں کرتے ، بہت سے ایسے جاندار ہوں جن کو ہم نہیں دیکھتے، جن کا احساس نہیں کرتے، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ”ہیں“ بلکہ ہم یہ کہیں : ”ممکن ہے کہ ہوں“ کیونکہ گزشتہ باتوں کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو ہمارے لئے کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ بلکہ یہی حواس بعض اوقات تو ہمیں فریب دیتے ہیں ،اور بہت سی چیزوں کو حقیقت کے بر خلاف دکھاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ تمام موجودات کی حقیقت صرف وہی ہے جس کو ہم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرلیں، بلکہ ہمیں اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ بہت سی موجودات ہوں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، جیسا کہ ”جراثیم“ کے کشف سے پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ”لاکھوں جراثیم“ ہر چیزکے چاروں طرف موجود ہوں گے، اور ان جراثیم کے لئے ہر جاندار کی زندگی ایک میدان کی صورت رکھتی ہوگی
نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے یہ ظاہری حواس اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ موجودات کی حقیقت اور ان کی واقعیت کا صحیح پتہ لگاسکیں، مکمل طور پر حقائق کو بیان کرنے والی شئے ہماری عقل اور فکر ہوتی ہے“ (نقل از علی اطلال المذہب المادی، تالیف فرید وجدی ، جلد ۴)
(3) آفریدگار جہان، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی بحثوں کا مجموعہ، صفحہ ۲۴۸