|
٣٨ ۔ برکت
٣٨ ۔ القرآن مبارکٌ کذلک الحجة القائم آل محمد علہم السلام
قرآن کریم اور امام زمانہ - خداوند متعال کی جانب سے انسانوں کے ليے مبارک اور
بابرکت قرار دے کر بهيجے گئے ہيں جيسا کہ الله تعالیٰ قرآن کے بارے ميں فرماتا ہے: <کِتَابٌ
) اٴَنزَلنَْاہُ إِلَيکَْ مُبَارَکٌ لِيَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِيَتَذَکَّرَ اٴُولُْوا الاْٴَلبَْابِ > ( ١
یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کيا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں
ميں غور وفکر کریں اور صاحبانِ عقل نصيحت حاصل کریں۔
یعنی: اس کی تعليمات ، دستورات ، تمام لائحہٴ عمل ، جاودانی، عميق اور حيات بخش
ہيں جو آفرینش و خلقت کے ہدف کے مطابق ہيں۔
امام زمانہ - بهی مبارک اور بابرکت ہيں یعنی ان کے تمام کلمات ، دستورات اور لائحہ
عمل فطرت اور خلقت کے مطابق ہيں۔ پيغمبر مکرم اسلام (ص) خاندانِ عصمت و طہارت کی
آخری فرد کے عالمی قيام کی توصيف ميں ارشاد فرماتے ہيں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ص، آیت ٢٩ ۔ (
٧۵٩ ۔ “ اِذ بَعَثَ اللہُّٰ رَجُلاً مِن اَ طٰایِبِ عِترَْتی وَاَب اْٰررِ ذُرِّیَّتی ، عَدلْاً مُ اٰبرَکاً زکِيّاًَ ،
) اٰل یُ اٰ غدِرُ مِث اْٰ قلَ ذَرَّةٍ ” ( ١
اس وقت الله تعالیٰ ایک شخص کو ميرے بہترین فرزندوں او ر ميری پاک ترین عترت ميں سے
مبعوث فرمائے گا جس کا مکمل وجود عدل و عدالت مبارک و بابرکت اور پاک و پاکيزہ ہے وہ
کسی شخص کے معمولی اور عام حق سے چشم پوشی نہيں کرے گا۔
کيوں قرآن اور امام زمانہ - مبارک ہيں؟ کيوں کہ خداوند متعال کی طرف سے آئے ہيں کہ
خود وہ بهی پُر برکت اور زوال ناپزیر ہے۔ سورئہ رحمن ميں ہم پڑهتے ہيں : <تَبَارَکَ اسمُْ رَبِّکَ ذِی
الجَْلاَلِ وَالإِْکرَْامِ > ( ٢) بڑا بابرکت ہے آپ کے پروردگار کا نام جو صاحب جلال بهی ہے اور صاحب
اکرام بهی۔
”مبارک” اور “تبارک” لفظ “برکت” سے (بروزن درک) مشتق ہے جس کے معنی اونٹ کا
سينہ ہے، اور چونکہ جب اونٹ کسی جگہ سوتے ہيں تو ثابت رہتے ہيں اپنے سينے کو زمين
سے متصل کرتے ہيں۔ یہ لفظ بهی ثابت اور پائيدار اور بادوام رہنے کے ليے استعمال ہوا ہے۔
اورجہاں بادوام سرمایہ اور زوال نا پذیر ہو تو وہ بہت زیادہ فوائد کا حامل ہوتا ہے اور پُر
فائدہ موجود کو “مبارک” کہا جاتا ہے، اور جس کے ليے یہ عنوان زیادہ شائستہ اور سزاوار ہے وہ
) ذات پاک خداوند متعال ہے جو تمام خيرات و برکات کا سرچشمہ ہوا کرتی ہے۔ ( ٣
اس بنا پر امام زمانہ - اور قرآن کریم کے ليے مبارک کی تعبير اسی معنی ميں ہے کہ وہ
دونوں ہميشہ اور دائمی طور پر خير و برکت کے حامل تهے اور ہيں چنانچہ اگر کوئی شخص ان
سے اپنا رشتہ برقرار رکهے تو اس کا مکمل وجود برکت و رحمت ہوجائے گا۔ اور جو شخص برکت
کا متمنی اور طالب ہے، اس کے ليے قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ١، ص ١٧۴ ۔ روزگار رہایی ، ج ٢، ص ٩۵٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ رحمن، آیت ٧٨ ۔ (
٣(۔ تفسير نمونہ، ج ٢٣ ، ص ١٨۶ ۔ (
اور امام زمانہ - سے ارتباط کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہيں ہے۔ قرآن اور امام زمانہ -
سے ارتباط رکهنا دنياوآخرت کو مبارک بنا دیتا ہے۔
٣٩ ۔ عزت
٣٩ ۔ القرآن کتاب عزیز وکذلک الحجة القائم من آل محمد (ص)
قرآن اور امام زمانہ - عزیز اور عزت بخش ہيں۔
( خداوند متعال “عزیز” ہے ، <فَاعلَْمُوا اٴَنَّ اللہَّٰ عَزِیزٌ حَکِيمٌ> ( ١) <اِنَّ العِْزَّةَ لِلہِّٰ جَمِيعًا> ( ٢
یاد رکهو کہ خدا سب پر غالب ہے اور صاحب حکمت ہے، یقينا سب کی سب عزت صرف الله کے
ليے ہے۔ لہٰذا قرآن کریم کے اوصاف ميں سے ایک یہی عزت ہے۔ <وَ اِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ> ( ٣) اور یہ
ایک شکست ناپذیر کتاب ہے۔
”عزیز” وہ شخص ہے جو دوسروں پر غالب ہوتا ہے، ليکن دوسروں پر مغلوب نہيں ہوتا:
) (الذی یَقْهَر ولا یُقْهَر ) اور اس کے مقابل ميں “ذليل” ہے۔ ( ۴
دوسری تعبير ميں : “عزیز” قدرت مندی کے معنی ميں ہے جو شکست ناپذیر ہے، جس
کے اندر عظيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٠٩ ، اس کلمہ کی قرآن کریم ميں بيس مرتبہ سے زیادہ تکرار ہوئی ہے۔ (
٢(۔ سورئہ یونس، آیت ۶۵ ۔ (
٣(۔ سورئہ فصلت، آیت ۴١ ۔ (
۴(۔ الميزان، ج ١٧ ، ص ٢٢ ۔ (
نشانيوں کے دکهانے کی قدرت بهی ہوتی ہے اور جهڻلانے والوں کو مارنے کی بهی، ليکن اس
حالت کے باوجود “رحيم” ہے اور اس کی رحمتِ واسعہ تمام مقامات کو اپنے احاطے ميں ليے
ہوئے ہے ( ١) اور اس کی طرف واپس ہونے کے ليے ایک مختصر لمحہ کافی ہے کہ اس کی تمام
نظرِ لطف و کرم انسان کی طرف متوجہ ہوجائے۔
قرآن صامت اور قرآن ناطق عزیز و رحيم ہيں۔ جو شخص بهی ان کی طرف عام توجہ رکهتا ہو تو
اسے دنيا و آخرت کی بهلائی اور خير و برکت نصيب ہوگی۔ اور وہ ہميشہ “عزیز” ہر دل عزیز ہے۔
امام مہدی - بهی عزیز اور عزت بخش ہيں۔ جيسا کہ روایات ميں، دعاؤں اور زیارات ميں
یہ حقيقت بيان کی گئی ہے۔
) ٧۶٠ ۔ “ یُعِزُّ بِہِ الدِْینَ وَالقُْرآنَ وَالاِْس اٰلم وَاَهلَْہ ” ( ٢
خداوند متعال (مہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ذریعے دین، قرآن، اسلام اور
اس کے اہل کو عزت بخشے گا۔
٧۶١ ۔ اس کی محترم حکومت ميں اسلام اور مسلمين عزیز ہوں گے اور کفر و نفاق اور
اس کے اہل ذليل و خوار ہوں گے: “اللّٰهم انا نرغب اليک فی دولة کریمة تغربها الاسلام واهلہ
) وتذلُّ النفاق واهلہ ” ( ٣
خدایا! ميں تيری طرف رغبت رکهتا ہوں ایسی محترم حکومت کی جس کے ذریعے اسلام
اور اسلام والے عزت پائيں اور نفاق اور اہل نفاق ذليل ہوجائيں۔
٧۶٢ ۔ ہاں حضرت مہدی - مومنين اور موحدین کو عزت و سرفرازی عطا کریں گے اور
کافروں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امام زمانہ - خداوند متعال کی رحمت واسعہ ہيں۔ بحار الانوار، ج ۵٣ ، ص ٣۔ (
٢(۔ معجم احادیث امام مہدی -، ج ١، ص ١٧۴ ۔ روزگار هائی، ج ٢، ص ٩۵٠ ۔ (
٣(۔ مفاتيح الجنان، دعائے افتتاح۔ (
نَ ، اَلسَّلامُ عَلَيکَْ یَا نَ المُْستَْضعَْفی ذليل و رسوا کریں گے : “ اَلسَّلامُ عَلَيکَْ یَا مُعزَّالمُْوٴمِْنی
نَ” ( ١) سلام ہو آپ پر اے ان مومنوں کو عزت دینے والے! جو مستضعف ہيں سلام مُذّل الْکٰافِر ی
ہو آپ پر اے ان کافروں کو ذليل کرنے والے!۔
نَ ” ( ٢) (اور آپ موحدین اور خدا پرستوں کی عزت ہيں)۔ ”و اَنتَْ عِزُّالمُْوَحِدی
٧۶٣ ۔ در حقيقت خداوند عزیز نے انہيں دین کی نصرت اور اہل دین کی عزت کے ليے
نَ ” ( ٣) الله تعالیٰ نے آپ کو ذخيرہ ن وَاِع اٰززِ المُْومِْنی ذخيرہ فرمایا ہے: “ذَخَرَکَ اللہُّٰ لِنُصرَْةِ الدّی
بنایا ہے دین کی مدد کے ليے اور مومنوں کے غلبہ و عزت کے ليے۔
٧۶۴ ۔ وہ ایسی عزت و آبرو کے حامل ہيں کہ جس کا کوئی شریک اور ہم پلہ نہيں ہے:
دِ عِزِّ لٰایُسامیٰ ” ( ۴) ميری جان قربان تجه عزت کے پاسبان پر جس کی برابری “اَنتَْ مِن عَقی
نہيں ہوسکتی۔
٧۶۵ ۔ لہٰذا حضرت کے عاشقين ہر صبح جمعہ ميں فریاد و فغاں کرتے ہيں: “ اَینْ مُعِزّ
الْاَولِيٰاء وَمُذلُ الْاَعْداء” ( ۵) کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو ذليل کرنے والا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مفاتيح الجنان، دعائے استغاثہ حضرت مہدی -۔ (
٢(۔ مفاتيح الجنان، زیارت حضرت صاحب الامر -۔ (
٣(۔ مفاتيح الجنان، زیارت حضرت صاحب الامر -۔ (
۵(۔ مفاتيح الجنان، دعائے ندبہ۔ ( ،)۴(
۴٠ ۔ آب حيات
القرآن والحجة مائا عذب ومعين وحياة
قرآن اور امام زمانہ - آب حيات اور گوارا پانی ہيں۔ یعنی زندگی ان کے بغير تلخی اور
ناکاميابی کے ہمراہ ہے۔ جو شخص ان کے بغير زندگی بسر کرے وہ صاحبِ حيات نہيں ہے۔ اور
ان کے بغيرحيات طيبہ کا امکان نہيں پایا جاتا۔
( ٧۶۶ ۔ امام علی - قرآن کی توصيف ميں فرماتے ہيں: “جَعَلہ اللہّٰ رَیّاً لِعَطَشِ العُْلَ مٰاء ” ( ١
خداوند متعال نے قرآن کو علماء کی تشنگی کو دور کرنے کے ليے چشمہ قرار دیا ہے۔
٧۶٧ ۔ امام سجاد - بهی قرآن کی توصيف ميں یوں فرماتے ہيں: “ وَاَروِْبِہِ فی مَوقِْفِ العَْرضْ
عَلَيکَْ ظَمَاءَ هَ اٰو جِرِ اٰن” ( ٢) پروردگارا! قرآن کے ذریعے قيامت کے دن ہماری تشنگی کو بجها دے
اور اس وقت کی طاقت کم کرنے والی گرمی ميں ہميں سيراب فرما۔
٧۶٨ ۔ امام زمانہ - بهی آب شيریں اور گوارا ہيں۔ امام علی رضا - فرماتے ہيں: “ اَلاِْ اٰ ممُ
الْمٰاءُ الْعَذْبُ عَلَی الظَّماءِ ” امام، تشنگی کے وقت آب شيریں ہے۔ ( ٣) امام زمانہ - بهی آب
حيات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٨ ۔ (
٢(۔ صحيفہٴ سجادیہ، دعا ۴٢ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ٢٠٠ ۔ عيون اخبار الرضا -، ج ٢، ص ١٩٧ ۔ (
اور گوارا ہيں۔ قرآن کریم ميں ہم پڑهتے ہيں :
>قُل اٴَرَاٴَیتُْم إِن اٴَصبَْحَ مَاؤُکُم غَورًْا فَمَن یَاٴتِْيکُم بِمَاءٍ مَعِينٍ > ( ١) کہہ دیجيے کہ تمہارا خيال ہے
اگر تمہارا سارا پانی زمين کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے ليے چشمہ کا پانی بہا کر کون لائے
گا؟
٧۶٩ ۔ امام محمد باقر - اس آیہٴ کریمہ کی تاویل ميں فرماتے ہيں: “ هذِہِ نَزَلَت فیِ الِا اْٰ ممِ
کُمْ باِمٰامٍ الْقٰائم ( عليہ السلام ) یَقُولُ اِن اَصبَْحَ اِ اٰ ممُکُم غٰائِباً عَنکُْم لاٰ تَدرْونَ اَینَْ هُوَ؟ فَمَن یَاٴتی
کُمْ بِاخْبارِ السَّماءٍ وَالٴاَرض وَحلاٰلُ اللّٰہ وَحَرٰامُہ ثُمَّ قٰال وَاللّٰہ مَا جٰاء تَاٴویلُ هَذٰہِ الآیةَ وَلاٰ ظاٰہِرِ یاٴتی
) بُّدَ اَن یَجیَ تَاٴویلُ هٰا ” ( ٢
یہ آیت امام قائم - کی شان ميں نازل ہوئی ہے خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: جب
تمہارا امام تمہارے درميان سے غائب ہوجائے گا اورتمہيں معلوم نہ ہوگا کہ وہ کہاں ہے تو پهر
کون ہے جو تمہارے ليے امام کو ظاہر کرے گا تاکہ تمہيں آسمان و زمين کی خبریں بتائے اور
خداوند متعال کے حلال و حرام کی خبر دے؟ پهر آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! ابهی اس آیت
کی تاویل نہيں آئی ہے،مگر اس کی تاویل کا آنا حتمی و یقينی ہے۔
٧٧٠ ۔ حضرت امام موسی ابن جعفر - سے اس آیہٴ کریمہ کی تاویل کے متعلق دریافت
کيا گيا تو امام - نے فرمایا: “اِن فَقَدتُْم اِ اٰ ممَکُم فَلَم تَرَوٴْہُ فَ مٰا اٰ ذ تَصنَْعُونَ ؟ ( اٰقلَ : اِ اٰ ذ فَقَدتُْم اِ اٰ ممَکُم کُم بِ مٰاء جَدیَد ) ” ( ٣) جب تمہارا امام غائب ہوجائے گا اور وہ تمہيں نظر نہ آئے گا تو فَمَن یَاتْی
اس وقت تم لوگ کيا کرو گے؟ (فرمایا: اگر اپنے امام کو نہ پاؤ گے تو پهر کون ہے جو تمہارے ليے
جدید امام لائے گا؟(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ملک، آیت ٣٠ ۔ (
، ٢(۔ غيبت طوسی، ص ١٠١ ۔ تفسير صافی، ج ۵، ص ٢٠۶ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵ (
ص ۴۵٣ ۔
٣(۔ غيبت نعمانی، ص ٩٢ ۔ الحجة فی ما نزل فی القائم الحجة، ص ٣٨٧ ۔ (
اس بنا پر آب گوارا اور زندگی اس کائنات ميں موجود ہے، ليکن بعض انسان تشنگی کا
احساس نہيں کرتے۔ انسان اگر پياس کا احساس کرے تو پانی کی تلاش ميں جائے گا اور خود
کو سيراب کرے گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ: قرآن اور امام زمانہ - جاری آب حيات ہيں۔ یعنی وہ
ہدایت و معارف کے پياسوں کی تلاش ميں ہيں تاکہ انہيں سيراب کریں۔
ہم اس بات کے اميد وار ہيں کہ کائنات کے تمام انسان اس فيضانِ الٰہی کے چشمے
سے ایک پيالہ پئيں تاکہ ہدایت کی حلاوت کو چکه ليں اور سب ہی منجیِ عالمِ بشریت کے
خواہاں ہيں۔
خاتمہ
تمام انسان ، کائنات کے امام مہدی - اور فيضان کے وسيلے کی بہ نسبت کچه فرائض
کے حامل ہيں ( ١) ان فرائض ميں سے ایک فریضہ اس کتاب ميں بيان ہوا ہے: “تلاوت قرآن کرکے
حضرت بقية الله عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کو ہدیہ کرنا ہے”۔
صاحب مکيال المکارم پينتاليسویں فریضے ميں تحریر کرتے ہيں:
”الامر الخامس والاربعون : اهداء قراة القرآن اليہ عليہ السلام ”، پينتاليسواں فریضہ
) حضرت کو تلاوت قرآن ہدیہ کرنا ہے۔ ( ٢
٧٧١ ۔ انہوں نے اس فریضے کے استدلال کے ليے ایک روایت ثقة الاسلام کلينی سے
نقل کی ہے کہ امام موسیٰ کاظم - نے علی ابن مغيرہ سے جو اپنے ختم کيے ہوئے قرآن ائمہ
کو ہدیہ کرتے تهے فرمایا: “تمہاری جزا یہ ہے کہ تم قيامت کے دن ان لوگوں کے ساته ہوگے۔
وہ عرض کرتے ہيں: الله اکبر! ميرے ليے ایسی (عظيم) جزا ہے؟
) امام - نے تين مرتبہ فرمایا: ہاں”۔ ( ٣
امام زمانہ - قرآن کریم کے ہم پلہ ہيں۔ یقينا وہ ہماری تلاوت اور قرائت کے محتاج نہيں
ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیت الله سيد محمد تقی موسوی اصفہانی عليہ الرحمہ نے کتاب مکيال المکارم ج ٢، ص (
۵۶٨ ۔ ١٨٠ ميں ٨٠ فرائض امام عصر - کی بہ نسبت بيان کيا ہے۔
٢(۔ مکيال المکارم، ج ٢، ص ٣٠۶ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١٨ ۔ وسائل الشيعہ، ج ۴، ص ٨۶۴ ، حدیث ١۔ (
درحقيقت ہم ان کی عنایات و الطاف کے ضرورت مند ہيں۔
جيسے: نماز پڑهنا ، یقينا خداوند متعال ہماری نماز کا محتاج نہيں ہے۔ پهر کيوں ہم لوگوں
کا فریضہ نماز پڑهنا ہے؟ ہم نماز کيوں پڑهتے ہيں؟
نماز پڑهنا پروردگار متعال کی شکر گزاری کے مرتبے ميں ہے۔ اور جو شخص شکر الٰہی
انجام دے گا اس کے ليے خصوصی طور پر الطاف الٰہی شامل حال ہوں گی، <لَئِن شَکَرتُْم ) لَاٴَزِیدَنَّکُم> ( ١
اگر تم ہمارا شکریہ ادا کرو گے تو ہم تمہاری نعمتوں ميں اضافہ کردیں گے۔
اور جو شخص، کوئی ہدیہ یا احسان ہمارے مہربان آقا و مولا کی خدمت ميں انجام دیے
ہوگا وہ بهی احسان فرمائےں گے: <هَل جَزَاءُ الاِْحسَانِ اِلَّا الاِْحسَْانُ> ( ٢) کيا احسان کا بدلہ
احسان کے علاوہ کچه اور ہوسکتا ہے؟
خداوند متعال قرآن کریم ميں ارشاد فرماتا ہے: <وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِاٴَحسَْنَ مِنہَْا اٴَو رُدُّوہَا > ( ٣) اور جب تم لوگوں کو تحفہ (سلام) پيش کيا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم
ویسا ہی واپس کرو۔
اس بنا پر اگر ہم کوئی ہدیہ حضرت کی مقدس اور نورانی بارگاہ ميں پيش کرتے ہيں تو وہ
صرف اس ليے ہے کہ ہم ان کی توجہات اور عنایات کے ضرورت مند ہيں۔
تمّت بالخير
الحمد لله اولاً و آخراً بحسن التوفيق
٢٧ /محرم الحرام، ١۴٣٠ ئه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ابراہيم، آیت ٧۔ (
٢(۔ سورئہ رحمن، آیت ۶٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ٨۶ ۔ (
|
|