|
٣٧ ۔ سچ بولنے والا
٣٧ ۔ القرآن هُو المُحدث الذی لایُکَذب۔
قرآن مجيد ایسا قوت گویائی رکهنے والا ہے کہ جهوٹ نہيں بولتا اپنے قصوں، احادیث و
روایات ميں جو اس کے تمام اقوال ہيں کسی مقولے ميں ہوں وحی الٰہی پر اختتام پذیر ہوتے
ہيں اور مصدر ربوبيت سے ماخوذ ہيں۔ اسی طرح امام زمانہ - جو خدا کی طرف سے بهيجے
گئے ہيں ان کے بهی تمام کلمات نور اور سچ ہيں۔
”وکذلک الحجة القائم المنتظر - عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف وصلوات اللّٰہ وسلامہ عليہ
وعلی آبائہ‘’
>وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدخِْلُہُم جَنَّاتٍ تَجرِْی مِن تَحتِْہَا الاْٴَنہَْارُ خَالِدِینَ فِيہَا اٴَبَدًا
) وَعدَْ اللهِ حَقا وَمَن اٴَصدَْقُ مِن اللهِ قِيلًا > ( ١
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نيک اعمال کيے ہم عنقریب انہيں ان جنتوں ميں
داخل کریں گے جن کے نيچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان ميں ہميشہ ہميشہ رہيں گے۔ یہ خدا
کا برحق وعدہ ہے اور خدا سے زیادہ راست گو کون ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ١٢٢ ۔ (
و قولہ تعالی: <اللهُ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ لَيَجمَْعَنَّکُم إِلَی یَومِْ القِْيَامَةِ لاَرَیبَْ فِيہِ وَمَن اٴَصدَْقُ مِن اللهِ
) حَدِیثًا > ( ١
الله جل جلالہ وہ خدا ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہيں ہے ۔ وہ تم سب کو روزِ قيامت
جمع کرے گا اور اس ميں کوئی شک نہيں ہے اور الله سے زیادہ سچی بات کون کرنے والا ہے۔
مولف کہتے ہيں: دونوں آیتوں کے آخر ميں خداوند عظيم الشان فرماتا ہے: <و من اصدق
من اللّٰہ قيلاً و حدیثاً> یہ اسے ابلاغ کرنے ميں تاکيد ہے۔
و قولہ تعالیٰ: <لَقَد کَانَ فِی قَصَصِہِم عِبرَْةٌ لِاٴُولِْی الاْٴَلبَْابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفتَْرَی وَلَکِن ) تَصدِْیقَ الَّذِی بَينَْ یَدَیہِْ وَتَفصِْيلَ کُلِّ شَیءٍْ وَہُدًی وَرَحمَْةً لِقَومٍْ یُؤمِْنُونَ > ( ٢
یقينا ان کے واقعات ميں صاحبان عقل کے ليے سامانِ عبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات
نہيں ہے جسے گڑه ليا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس
) ميں ہر شے کی تفصيل ہے اور یہ صاحب ایمان قوم کے ليے ہدایت اور رحمت بهی ہے۔ ( ٣
و قولہ تعالیٰ: <وَلَقَد اٴَرسَْلنَْا نُوحًا إِلَی قَومِْہِ فَلَبِثَ فِيہِم اٴَلفَْ سَنَةٍ إِلاَّ خَمسِْينَ عَامًا
) فَاٴَخَذَہُم الطُّوفَانُ وَہُم ظَالِمُونَ # فَاٴَنجَينَْاہُ وَاٴَصحَْابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلنَْاہَا آیَةً لِلعَْالَمِينَ > ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ٨٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ یوسف، آیت ١١١ ۔ (
٣(۔ مولف کہتے ہيں: انبياء کے واقعات اور ان کی امتوں ميں صاحبان عقول کاملہ کے ليے عبرت (
و نصيحت ہے۔ اور قرآن کریم ایسا کلام نہيں ہے جو انسان کی دست رسی ميں ہوجائے اور وہ
اسے بيان کرے بلکہ وہ تو الٰہی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو قرآن سے پہلے انبيائے
عظام لے کر آئے جيسے توریت، انجيل، زبور وغيرہ اور ان تمام چيزوں کی بهی اس ميں
تفصيلات موجود ہيں جو دین کے دائرے ميں انسانوں کو ضرورت درپيش ہوسکتی ہے۔ فيض
کاشانی کی تفسير صافی سے اقتباس۔
١۵ ، ۴(۔ سورئہ عنکبوت، آیت ١۴ (
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بهيجا اور وہ ان کے درميان پچاس سال کم ایک
ہزار سال رہے پهر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت ميں لے ليا کہ وہ لوگ ظالم تهے۔ پهر ہم نے نوح
کو اور ان کے ساته کشتی والوں کو نجات دی اور اسے عالمين کے ليے ایک نشانی اور قرار دے
دیا۔
ان آیات کی وضاحت یہ ہے کہ قوم نوح والے ایک دراز مدت تک بتوں کی پرستش کيا
کرتے تهے اور انہيں خير و شر کی توجہ مبذول کرنے کا وسيلہ بهی جانتے تهے اور جہالت و
ہوائے نفس کی پيروی ميں انہيں “ودّ” “سواع” “یغوث” اور “نسر” جيسے مختلف ناموں سے
پکارتے تهے۔ خداوند متعال نے حضرت نوح جو تمام جہات سے فصاحت بيان ، سرشار عقل،
مجادلے اور گفتگو ميں بہت زیادہ تحمل کرنے والے اور مکمل بصيرت کے حامل تهے ان لوگوں
کی طرف بهيجا۔
حضرت نوح - اپنی قوم کو خدا کی طرف دعوت دیتے تهے ليکن وہ اپنا رخ موڑ ليتے تهے
عذاب الٰہی سے انہيں ڈراتے دهمکاتے تهے تو وہ اپنی آنکه، کان اور سر کو بند کرليتے تهے ۔
ليکن حضرت نوح - اميد واری کے ساته نيک کردار کے ذریعے اور نرمی گفتار کے ساته ان کو
خدا کی طرف دعوت دینے کے ليے مختلف فنون کو بروئے کار لاتے تهے اور تبليغ رسالت ميں
کوشاں رہتے تهے آشکار مزید مخفی طور پر الله کی طرف دعوت دیتے تهے اور کمال فصاحت و
بلاغت کے ساته جو کچه ان کے ادراک و فہم کے مطابق ہوا کرتا تها بيان کرتے تهے انہيں
پروردگار کے جلال و قدرت کو یاد دلاتے تهے۔
حضرت نوح - کے مسلسل مبارزہ، حجّت اور دليل و برہان قائم کرنے کے بعد ان کی قوم
کے انگشت شمار افراد نے ان کی دعوت کو قبول کيا اور ان کی رسالت کی تصدیق کی بقيہ
افراد قوم اپنی گمراہی اور شقاوت پر باقی رہے۔
حضرت نوح - جو اولو العزم پيغمبروں ميں سے ایک ہيں نو سو پچاس سال اپنی قوم کے
درميان باقی رہے ان کے آزار و اذیت پر صبر کرتے رہے ان کے مسخرے پن کو نظر انداز کرتے رہے
کہ شاید اس طویل مدت کے دوران اپنی سرکش و دشمنی سے دست بردار ہوجائيں ليکن
آخرکار حضرت نوح - کی اميد واری ميں کمی واقعی ہوئی اور ان کی وسعت نظر پر ظلمت چها
گئی خدا سے شکایت کی اور اس سے استعانت و مدد طلب کی ہے۔
لہٰذا حضرت نوح - پر وحی نازل ہوئی کہ ان چند افرادِ قوم کے علاوہ جو ایمان لاچکے ہيں
اب کوئی دوسرا ایمان نہيں لائے گا لہٰذا ان کے فعل کی وجہ سے غم زدہ نہ ہو اور رنج و الم کا
شکار نہ ہو۔
حضرت نوح - نے اپنی قوم کے افراد کی نفرین و ملامت کی اور الله تعالیٰ نے ان کی
دعا قبول فرمائی اور ان کے درميان کشتی بنانے کا حکم ہوا اور کشتی حکم پروردگار کے مطابق
بنائی گئی۔ خدا نے حضرت نوح کو وحی کی کہ جب ميرا حکم ہو اور عذاب کی علامت آشکار ہو
تو کشتی ميں چلے جاؤ اور اپنے اہل و عيال اور وہ افراد جو تم پر ایمان لائے انہيں بهی اپنے
ہمراہ کشتی ميں لے جاؤ اور ہر جانور ميں سے ایک جوڑا بهی تاکہ فرمان الٰہی جاری ہو۔
آسمان سے بارش کا سيلاب رواں دواں ہوا اور زمين کے تمام چشمے شدّت سے ابلنے
لگے اور سيلاب نے ڻيلوں چڻانوں کو اپنے حصار ميں لے ليا حضرت نوح - ، ان کے اصحاب اور ان
کے رشتہ داروں نے الله کا نام زبان پر جاری کيا وہ لوگ کشتی پر سوار ہوگئے۔ نوح نے کشتی
کے اوپر سے دریا پرنظر ڈالی تو اپنے فرزند کنعان کو بدبختیِ کفر ميں گرفتار دیکها وہ اپنے پدر
گرامی کے دامن کو چهوڑ کر موت اور موج کے گریبان ميں گرفتار ہوا اب کافی ہاته پير مارتا ہے
تاکہ خود کو کسی چڻان یا بلند پہاڑ کے دامن ميں پناہ لينے کے ليے پہنچائے ليکن موت پہاڑ ،
ڻيلے اور چڻان سے زیادہ نزدیک تهی۔
حضرت نوح - اپنے فطری حکم کے مطابق اپنے بيڻے کو اس حالت ميں دیکه کر فریاد
بلند کی: اے ميرے پيارے بيڻے! کہاں جا رہے ہو؟ تم جہاں کہيں بهی جاؤ گے موت اور ارادہٴ
پروردگار کے احاطے ميں ہو۔ لہٰذا خدا پر ایمان لاکر کشتی ميں سوار ہوجاؤ تاکہ خود کو موت
سے نجات دو ليکن وہ اتنا زیادہ غرور و تکبر کبر و نخوت ميں مبتلا تها کہ نوح کے جواب ميں کہا:
مجهے آپ کے کشتی کی ضرورت نہيں ہے ميں عنقریب پہاڑ کے دامن ميں پناہ گزیں ہوجاؤں گا
تاکہ مجهے غرق ہونے سے بچالے حضرت نوح نے آواز دی کہ آج حکم پروردگار اور عذاب الٰہی
کے مقابل ميں کوئی بهی حافظ و نگہبان نہيں ہے مگر یہ کہ جس کی ذات کے ليے پروردگار کا
) رحم و کرم شامل حال ہوجائے۔ ( ١
مولف کہتے ہيں: مذکورہ آیات جو مختصر طور پر بطور نمونہ ذکر کی گئيں سورئہ نساء
١٢٢ جو من جملہ الٰہی وعدوں کو بيان کرنے والی ہيں وہ مومنين کے حق ميں ہے ، کی آیات ٨٧
اور دوسری روز قيامت کے محکمہ ميں ڈرانے دهمکانے کی نشان دہی کرتی ہے۔ مذکورہ آیات
کے ذیل ميں یہ تاکيد کرنا کہ خدا سے زیادہ سچا کون ہے مکمل عقيدہ اور کامل یقين و اطمينان
قلب کے ساته تصدیق کرکے وہ مذکورہ عنوان کہ جسے پہلی فصل ميں بيان کيا کہ قرآن ایسا
بولنے والا ہے جو جهوٹ نہيں بولتا بہت مناسب عنوان ہے۔
سورئہ یوسف کی آیت نمبر ١١١ ميں جو حضرت یوسف - کے واقعات کی حکایت کرتی
ہے کہ انہوں نے اپنے بهائيوں کے ایجاد کردہ تمام مصائب کے مقابل ميں تحمل سے کام ليا
جس کے نتيجے ميں عزیز مصر ہوگئے کہ جس کا ذکر خود سورہ ميں تفصيلاً موجود ہے اور
١۵ ميں مذکور ہے کہ وہ اپنی ، اسی طرح حضرت نوح - کا واقعہ سورئہ عنکبوت کی آیات ١۴
قوم کے درميان نو سو پچاس سال رہ کر ان لوگوں کو خداوند متعال کی طرف دعوت دی تهی
مگر ان کی قوم والوں نے ان کی دعوت قبول نہيں کی پهر طوفان اور کشتی کا واقعہ رونما ہوا
کہ جس ميں ان کے بيڻے کنعان کے غرق ہونے کا مسئلہ اس قدر نمایاں اور یقينی طور پر ثابت
ہے کہ جس ميں ہميشہ کے ليے کبهی بهی شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے اس بنا پر قرآن
مجيد نے ہر قسم کی خبریں جو گزشتہ صدیوں کے حالات اور انبياء نيز ان کی امتوں کے متعلق
ہيں یا وہ آئندہ کے لوگوں کے حالات کے متعلق ہمارے ليے بيان کرتا ہے یقينا وہ گزشتہ افراد کے
متعلق محقق ہوچکا ہے۔ اور آئندہ کے متعلق محقق ہوگا۔
ليکن اس سلسلے ميں روایات بہت زیادہ ہيں اب ہم معادن وحی و تنزیل سے صادر ہونے
والی چند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ قصص القرآن ، صدر بلاغی سے بطور مختصر اقتباس۔ (
روایات آپ کے گوش گزار کرتے ہيں۔
٧۴٣ ۔ “وَفی الکافی باسنادہ عَن سَماعة بن مهران قال قال اَبو عَبد اللّٰہ عليہ السلام انّ
الَعزیزَ الجَبّار اَنزلَ عَليکُم کِتابَہُ وَهُو الصّادق البارّ فيہ خَبرُکم وَخَبر مِن قَبلَکم وَخَبَر مِن بَعدکُم وَخَبر
) السّمآء وَالارض وَلَو اَتاکم مَن یُخبرکُم عَن ذلِک لتعَجَبتُم ” ( ١
کافی ميں بطور مسند سماعہ ابن مہران سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق -
نے فرمایا: خدائے عزیز وجبّار نے تم پر اپنی کتاب نازل کی اور وہ سچا اور خير پسند ہے نيز اس
ميں تمہارے متعلق بهی خبر دی گئی ہے اور تم سے پہلے گزشتہ افراد کے متعلق بهی اور تم
سے بعد والوں کے متعلق بهی، اس ميں آسمان و زمين کی بهی خبر موجود ہے۔ اگر کوئی
تمہارے پاس یہ خبریں بيان کرتا تو کيا تم تعجب نہ کرتے۔
٧۴۴ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن الحسين بن احمد المِنقری قال سمعت ابا ابراہيم عليہ السلام
) یَقول مَن استَکفی بایَةٍ مِن القرآنِ مِن الشَرق الی الغَرب کُفِیَ ( اذا کانَ بِيقينٍ ) ” ( ٢
کافی ميں بطور مسند احمد منقری سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ: ميں نے حضرت
موسیٰ ابن جعفر - کو کہتے ہوئے سنا: جو شخص قرآن کی ایک آیت کے ذریعے یقين او صدق
نيت کے ساته کفایت طلب کرے تو قرآن اس کے ليے مشرق و مغرب تک تمام مہمات ميں
کفایت کرے گا۔
٧۴۵ ۔ “ وَفيہ باسنادہ عَن الاصبغ بن نباتہ قال سَمعت امير الموٴمنين عليہ السلام یَقول
) نَزلَ القرآنُ اَثلاثاً ثُلثٌ فينا وَفی عَدونا وَثلثٌ سُننٌ وَامثالٌ وَثلثٌ فَرائِضُ وَاحکامُ ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۵٩٩ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٢٣ ، حدیث ١٨ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٢٧ ۔ (
اسی کتا ب ميں اصبغ ابن نباتہ سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے حضرت امير
المومنين کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ: قرآن تين حصوں ميں نازل ہوا ہے، اس کا ایک حصہ ہمارے
اور دشمنوں کے متعلق ہے اور ایک تہائی حصہ سنن و امثال کے بارے ميں ہے اور بقيہ تہائی
حصہ فرائض و احکام کے متعلق ہے۔
٧۴۶ ۔وَفيہ باسنادہ عَن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: قال رَسول اللّٰہ (ص) تَعلّموا القُرآنَ
فانّہ یَاٴتی یَوم القيمَة صاحِبَہ فی صُورة شابٍ جَميل شاحِبِ الّلونِ فَيَقول لَہ القُرآن اَمّا الذی کُنت
اَسهرتُ لَيلک وَاَطماٴتَ هَو اجِرک وَاجَفَفت ریقَک وَاسَلت دَمعتک اٴدول مَعک حَيثما اٴلت وَکل باخِر
مِن وَراء تِجارَتہ وَاَنا اليَوم لَک مِن وَراء تِجارَة کل تاجِر وَسَياٴتيکَ کِرامَة مِن اللہّٰ عزّوجلّ فَابشِر
فَيوٴتی ب اٰتج فَيوضَع عَل یٰ رَاٴسہ وَیُعطَْی الاٴمان بِيَمينِہِ وَالخُلَد فی الجِنان بِيَسارہ وَیُکس یٰ حُلَّتَينِ
ثُمّ یُقالُ لَہ اِقراٴ وَ اَرقَ فَکلّما قَراٴ اٰیة صَعِد دَرَجة وَیُکسیٰ اَبواہ حُلَّتين اِن کٰانا موٴمنين ثّمَ یُقال لَهما
) هٰذا لِما عَلَمتماہُ القُرآن ۔ ( ١
حضرت امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے ارشاد
فرمایا: قرآن حاصل کرو کہ وہ روز قيامت اپنے پڑهنے والوں کے پاس ایک خوب صورت جوان کی
شکل و صورت ميں آئے گا اور اس سے کہے گا: ميں وہی قرآن ہوں جس نے تجهے راتوں رات
جگایا اور بيدار رکها تها گرم دن کی دوپہر ميں تجهے پياسا رکها تها اور تيرا لعاب دہن خشک
ہوگيا تها تيرے آنسوبہ رہے تهے جہاں تو جائے ميں تيرے ساته جاؤں گا ہر تاجر تجارت ميں اپنے
نفع ميں لگا ہوا ہے اور ميں ہر تاجر سے زیادہ تيرے نفع کے خيال ميں ہوں الله تبارک و تعالیٰ کی
رحمت تيرے شامل حال ہوگی لہٰذا تجهے خوش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ۔ (
خبری ہو پهر ایک تاج تيرے سر پر لاکر رکها جائے گا اور امن و امان کا پروانہ داہنے ہاته ميں ہوگا
اور ہميشہ بہشت ميں رہنے کا حکم بائيں ہاته ميں ہوگا اور دو جنت کے حلّے بائيں ہاته ميں ہوں
گے اور اس سے کہا جائے گا : قرآن پڑهو اور اوپر کے درجہ ميں جاؤ۔ جب آیت پڑهے گا تو اس
کی روح بلند ہوگی اور اس کے والدین بهی دو حلّے پہنے ہوں گے اگر مومن ہوں گے تو یہ کہا
جائے گا کہ یہ اس کا نتيجہ ہے جو تم نے اپنے بيڻے کو قرآن پڑهایا تها۔
٧۴٧ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن مِنهال القَصّاب عَن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام :قال مَن قَراٴ القُرآن
وَهُو شابٌ مُوٴمنٌ اختَلَط القرآن بِلَحمِہِ وَدَمہِ وَجَعلَہُ اللہّٰ عزُوجلُ مَع السّفرَةَ الکِرامِ البَرَرَةِ وَ کانَ
القرآنُ حَجيزاً عَنہ یَوم القِيامَة یَقول یا ربّ انّ کُلَ عامِل قَد اَصابَ اَجرَْ عَمَلِہ غَير عامِلی فَبلَّغ بِہ اکرَم
عَطایاکَ ، قالَ فَيکسُوہُ اللّٰہ العَزیز الجبّار حُلّتين مِن حُلَلِ الجَنة وَیُوضَع عَلی راٴسہ تاجُ الکَرٰامَة ثُم
یقال لہ : هَل اَرضَيناکَ فيہ ؟ فَيقولُ القُرآن یا رَبّ قَد کنت اَرغبُ لَہ فيما هَوَ اَفضلُ مِن هذا فَيعطی
اَلاَمنَْ بِيَمينہ وَالخُلدَْ بِيَسارِہ ثمّ یَدخُل الجَنَة فَيقال لَہ اقراٴ وَاصعَد دَرجة ثمّ یقالُ لَہ هَل بَلَغنا بہ
وَاَرضيناکَ فَيقول نَعم قال وَمَن قَراٴہُ کَثيراً وَتعاهَدَہُ بِمَشقّةٍ مِن شِدّةِ حِفظِہ اَعطاہ اللہّٰ عزّوجلّ
) اَجر هذا مَرّتَين ” ( ١
نيز اسی کتاب ميں منہال قصاب سے حضرت امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی
ہے کہ آپ نے فرمایا: جو مومن جوانی کی حالت ميں قرآن پڑهے گا قرآن اس کے گوشت و خون
ميں داخل ہوجائے اور خدا اس کو اپنے برگزیدہ پيغمبروں کے ساته رکهے گا اور قرآن اس کو روز
قيامت (آتش جہنم کے) عذاب سے روکنے والا بن جائے گا اور کہے گا: اے ميرے پروردگار! ہر
عمل کرنے والا اجر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ۔ ثواب الاعمال، ص ١٠٠ ۔ (
تک پہنچ گيا سوائے مجه پر عمل کرنے والے کے لہٰذا اس کو بہترین بخشش عطا کر امام - نے
فرمایا: الله تعالیٰ اس کو جنت کے دو حلّے پہنائے گا اور اس کے سر پر تاج کرامت رکهے گا کيا
ہم نے تجهے راضی کردیا ، قرآن جواب دے گا: اے ميرے پروردگار ! ميں تو اس کے ليے اس سے
زیادہ چاہتا ہوں ، لہٰذا خدا اس کو اس کے داہنے ہاته ميں دے گا اور خلد کو بائيں ہاته ميں پهر وہ
جنت ميں داخل ہوگا اس سے کہا جائے گا: قرآن پڑهو اور بلند درجہ حاصل کرو۔ پهر (قرآن سے)
کہا جائے گا: ہم نے تجه پر عمل کرنے والوں کا حق پورا کردیا اور تجهے راضی کردیا؟ قرآن کہے
گا: اے ميرے پروردگار! مجهے ان سے اس سے زیادہ بہتر اميدیں وابستہ تهی، راوی کا بيان ہے
کہ: امام - نے فرمایا: امان نامہ کو داہنے ہاته ميں اور بہشت کا دائمی پروانہ بائيں ہاته ميں دیا
جائے گا پهر وہ بہشت ميں داخل ہوگا اور اس سے کہا جائے گا کہ ایک آیت پڑهو اور ایک درجہ
اوپر جاؤ پهر قرآن کو خطاب کيا جائے گا: اس کی جزا ہم نے عطا کردی ہے اور تمہيں راضی کردیا
ہے۔ وہ عرض کرے گا: ہاں ميرے پروردگار۔
امام - نے فرمایا: جو قرآن کو زیادہ پڑهے گا اور اس کو یاد کرنے ميں زیادہ زحمت و
مشقت اڻهائے گا تو خداوند متعال اس کو دوگنا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
٧۴٨ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن یعقوب الاٴحمر قال قُلت لابی عبد اللّٰہ عليہ السلام جُعِلت فَداک
انی کُنت قَرَات القرآن فَفَلت مِنی فَاْدْعُ اللّٰہ عزّوجلّ اَن یُعلمنيہ قال: فَکانّہ فَزع لِذلِک فَقال عَلّمک
اللّٰہ هُو وَایّاما جَميعاً قال وَنَحن نَحو مِن عَشرةٍ ، ثمّ قال السورَة تکون مَع الرجل قَد قَراٴها ثمّ
تَرکَها فَتاٴتيہ یَوم القيامَة فی اَحسن صُورَةٍ وَتُسَلِمُ عَليہ فَيقول من اَنت ؟ فَتقول اَنا مُنورة کَذا وکَذا
فَلو اَنّک تَمسَکّتَ بي وَاخَذتَ بی لَاَ نْزَلتُک هٰذہ الدّرجة فَعليکُم بالقرآن ، ثمّ قال : انّ مِن النّاس
مَن یَقراٴ القرآن لِيَقال: فلانٌ قارِیٌ وَمِنهم مَن یَقراٴ القرآن لِيَطلب بِہ الدنيا وَلا خَير فی ذلک وَمِنهم
) مَن یَقراٴ القرآن لِينتَفع بِہ فی صَلاتہ وَلَيلِہ وَنَهارہ”( ١
یعقوب احمر کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام جعفر صادق - سے عرض کيا: ميں آپ پر
قربان جاؤں، ميں نے قرآن پڑها تها مگر اب ميں اسے بهول گيا ہوں وہ ميرے ذہن سے نکل گيا
ہے لہٰذا الله تعالیٰ سے دعا فرمائيں کہ وہ مجهے پڑهنے کی توفيق عطا فرمائے۔ راوی کا بيان
ہے: حضرت ميرے اس بيان سے جو ميں نے ان کے سامنے ذکر کيا ناراض ہوئے اور فرمایا: الله
تعالیٰ تجهے بهی توفيق دے اور ہم سب کو بهی، راوی کا بيان ہے: ہم لوگ اس وقت گهر کے
اندر تقریباً دس آدمی تهے ، پهر فرمایا: ہر سورت قرآن اس کے ساته ہوگی جس نے اس کو پڑها
اور ترک کردیا وہ روزِ قيامت اس کے پاس نہایت اچهی صورت ميں آئے گی اور سلام کرے گی اور
کہے گی : تو کون ہے؟ تو وہ کہے گا: ميں فلاں سورت ہوں وہ کہے گا: اگر تو مجه کو پڑهتا رہتا
اور مجه سے تعلق رکهتا تو اعلیٰ درجے پر فائز ہوتا ۔ پهر امام نے فرمایا: قرآن کواپنے ليے لازم
قرار دو جو بعض لوگ قرآن پڑهتے ہيں وہ قاری قرآن کہلاتے ہيں اور ان ميں سے بعض افراد تو
دنيا طلب کرنے کے ليے قرآن پڑهتے ہيں ان کے ليے اس ميں کوئی خير و خوبی نہيں ہے اور ان
ميں سے بعض ایسے افراد ہيں جو قرآن پڑهتے ہيں تاکہ اپنی نماز ميں اور شب و روز اس سے
فائدہ اڻهائيں۔
٧۴٩ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن ابی بَصير قال : قال ابو عَبد اللّٰہ عليہ السلام مَن نَسِی سُورة مِن
القرآن مُثِلَت لَہ فی صُورةٍ حَسنةٍ وَدَرجةٍ رَفيعة فی الْجنة فَاذا رَاٴها قال ما اَنت ما احسَنکَ لَيتک
) لی ؟ فَيقول ا اٰ م تَعرِفُنی ؟اَنا سُورَة کَذا وَکَذا وَلَو لَم تَنسنی رَفَعتُْکَ ال یٰ ه اٰ ذ” ( ٢
ابو بصير سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: جس شخص نے قرآن
کی ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٧ ۔ (
٢(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
سورت بهی فراموش کردی تو وہ سورت ایک حسين اور خوب صورت شکل ميں جنت کے دروازے
کے اندر اس کے پاس آئے گی جب وہ اسے دیکهے گا وہ کہے گا: تو کون ہے؟ تو کتنی حسين
و جميل ہے، کاش تو ميرے ليے ہوتا تو وہ کہے گی: تو نے مجهے نہيں پہچانا ميں فلاں سورت
ہوں اگر تو مجهے ترک نہ کرتا تو ميں تجهے بلند درجے پر فائز کرتا۔
٧۵٠ ۔ “ وَفيہ باسنادہ عَن یعقوب الاٴحمر قال قُلت لابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام انّ عَلیّ دَیناً
کَثيراً وَقَد دَخَلَنی ما کانَ القُرآن یَتَفَلَّتْ مِنی فَقال ابو عُبد اللّٰہ عليہ السلام القرآنُ القرآن اِنَّ الآیة
مِن القرآن وَالسّورَة لَتجيی یَوم القيمَة حَتّی تَصعَد اَلف دَرجةٍ یَعنی فی الجنة فَتقول لَو حَفِظتَنی
) لَبَلَغتُْ بِکَ هٰيهنا ” ( ١
یعقوب احمر سے منقول ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق - سے عرض کيا:
ميرے اوپر قرضہ بہت زیادہ ہے اور ميں اپنے دل ميں اتنے شدید غم و اندوہ ميں مبتلا ہوں کہ
قرآن ميرے ذہن سے نکل گيا ہے ميں اسے فراموش کرچکا ہوں؟ حضرت امام صادق - نے فرمایا:
قرآن کو ترک نہ کرو قرآن کو ترک نہ کرو، یقينا اس کی ہر آیت اور اس کی ہر سورت قيامت کے
دن آئے گی (اور جنت ميں) ہزار درجہ بلند ہوگی۔ پهر کہے گی: اگر تم نے ميری حفاظت کی
ہوتی تو ميں تجهے اس مقام و بلندی پر پہنچا دیتا۔
مولف کہتے ہيں: اس فصل ميں مذکورہ آیات و روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن
مجيد تمام قصوں، احادیث ، گزشتہ اور آئندہ کے لوگوں کے متعلق جو خبریں بيان کی ہيں وہ
عين واقعيات پر مبنی ہيں اور وہ کبهی بهی جهوٹ نہيں بولتا “القرآن هو المحدث الذی لا یکذب”۔
حضرت رسول اکرم (ص) کا ہر دل عزیز مقدس وجو دقرآن مجيد کی صراحت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٨ ۔ (
<وَمَا یَنطِْقُ
عَنْ
الْہَوَی إِنْ ہُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی > ( ١) پيغمبر اکرم کبهی بهی اپنی خواہش نفسانی سے کلام
نہيں کرتے ان کا کلام وہی وحی الٰہی ہے جو جبرئيل کے ذریعے آنحضرت (ص) پر نازل ہوا ہے ۔
یہاں تک کہ ایک کلمہ بهی اپنی طرف سے اپنی مکمل حيات طيّبہ ميں کلام نہيں کيا مگر اس
آیہٴ کریمہ کے منطوق کے مطابق: <وَلَو تَقَوَّلَ عَلَينَْا بَعضَْ الاْٴَقَاوِیلِ # لَاٴَخَذنَْا مِنہُْ بِاليَْمِينِ # ثُمَّ
) لَقَطَعنَْا مِنہُْ الوَْتِينَ > ( ٢
تو اب مجهے اور اس بات کے جهڻلانے والوں کو دو ہم عنقریب انہيں اس طرح گرفتار کریں
گے کہ انہيں اندازہ بهی نہ ہوگا اور رہم تو اس ليے ڈهيل دے رہے ہيں کہ ہماری تدبير مضبوط
ہے۔ خداوند متعال نے تمام اشياء اور علوم کو اپنے پيغمبر گرامی (ص) کو عطا فرمایا جيسا کہ
خطبہٴ غدیر خم ميں ہم اس کی طرف اشارہ کریں گے۔
غدیر خم کہاں ہے؟
سرزمين سعودی عربيہ دو عظيم شہر مکہ و مدینے کے درميان دوميل کے فاصلے پر
مقام جحفہ جو اہل شام کا ميقات ہے ایک مشہور “خم” نامی تالاب موجود ہے اور ایسے خشک
پہاڑی اور صحرائی علاقے ميں پانی موجود ہونے کی اہميت کی وجہ سے اس کا نام غدیر پڑگيا،
اسی وجہ سے “غدیر خم” کو مورخين نے وہ وادی تحریر کی ہے کہ مکہ و مدینہ کے درميان
جحفہ کے نزدیک پيغمبر اکرم نے وہاں خطبہ پڑها تها۔
”غدیر خم چند ایک جنگلی درخت کی وجہ سے اور وہ پانی جو ایک تالاب کے درميان ہے
قافلے والوں اور رہ گزر افراد کے ليے مکہ و مدینہ کے درميان ایک مناسب جگہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نجم، آیت ٣۔ (
۴۶ ۔ ، ٢(۔ سورئہ حاقہ، آیت ۴۴ (
سرزمين “غدیر خم” ایک خاص جغرافيائی موقعيت کی بهی حامل ہے اس معنی ميں کہ
مکہ سے واپسی کے وقت اہل مدینہ ، اہل مصر اور اہل عراق وہاں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے
ہيں اور اس وجہ سے ایک عمومی تقریر کے ليے ایک بہترین اور مناسب جگہ ہے تاکہ تمام
لوگوں تک وہ مطالب پہنچ جائيں۔ برسوں سے تمام جغرافيا دانوں اور مورخين نے “غدیر خم” کے
واقعے کو ذکر کيا ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اس مقام پر ایک خطبے کے ذیل ميں حضرت علی
ابن ابی طالب - کے فضائل کی وضاحت فرمائی اور ان کی اولویت اور امامت کا ذکر کيا ہے۔
دوسری تعبير ميں “غدیر خم” کی آفاقی شہرت و اہميت اسلامی کتابوں ميں اس واضح و
روشن خطبے کے ذریعے عياں اور نمایاں ہے جسے پيغمبر اکرم (ص) نے بيان فرمایا ہے نہ یہ
کہ خود اس سرزمين کی اپنی خاص اہميت ہے۔
اسلام ميں وہ آئين جس کی ایمان اور عمل صالح پر بنياد رکهی گئی ہے دو عظيم اور
مشہور عيد، عيد الفطر، عيد قربان ، عبادی اعمال، تزکيہٴ نفس اور معرفت الٰہی حاصل کرنے کے
بعد انجام پذیر ہوتی ہے۔ یعنی مسرت اور شکر گزاری ایک وہ توفيق ہے جو بندہ روزہ اور حج
جيسے وظيفے کی ادائيگی کے ليے پيدا کرتا ہے۔
بعض دوسری عيدیں اہم تاریخی مناسبت کے واقع ہونے کی بنا پر ہےں جو انسانوں کی
ہدایت و کاميابی کا سرچشمہ واقع ہوئی ہيں جيسے عيد مبعث اور عيد غدیر۔ اگر ایّام کی
اہميت کو ان کے نمایاں آثار کو جانيں کہ حکم بهی یہی ہے تو بغير کسی شک و شبہ کے بعثت
رسول اکرم (ص) کے بعد روزِ غدیر اہم اور عزیز ترین دنوں ميں سے ہے نيز عيد منانے اور
خوشيوں کی یاد تازہ کرنے کے ليے شائستہ ہے کہ در واقع یہ دن بعثت الٰہی کا استمرار ہے اور
اس کا انگيزہ و علت ثقافتی اور معاشرتی ہے اور اس کی تکميل اور اختتام کا دن عيد غدیر ہے
کيوں کہ عيد غدیر ایک ایسا دن ہے جو عدالت پهيلانے والے حاکم و رہبر کے ليے شائستہ ترین
معين دن ہے اور احکام قرآن کے نفاذ کے ليے بهی۔
عيد غدیر ایسا دن ہے کہ امت اسلام کی زمام، عدالتِ محض کے حامل ہاتهوں ، آشکار
حق اور خالص توحيد کے پرچم دار کو سپرد کی جاتی ہے۔
عيد غدیر ایسا دن ہے کہ جس ميں سياسی اسلام کا فلسفہ محقق ہوتا ہے اور اعلیٰ
اسلامی حاکم جسے طول تاریخ ميں آئيڈیل اور اسوئہ حسنہ ہونا چاہيے اس کا تعارف ہوتا ہے۔
عيد غدیر ایسا دن ہے کہ خالق دو جہاں کی طرف سے امارت و امامتِ علی ابن ابی
طالب - پيغمبر اسلام (ص) کی زبان سے پہنچائی گئی اور مسلمانوں سے اس کی معرفت
کے سائے ميں عہد و پيمان ليا گيا، عظيم اصحاب نے اس منصب کی بنا پر ان کو تبریک و تہنيت
پيش کی اور حسان ابن ثابت نے اپنے بہترین اشعار ميں اس واقعہ کو نظم کيا۔
معادن وحی و تنزیل سے من جملہ صادق آل محمد حضرت امام جعفر ابن محمد عليہما
السلام سے متعدد حدیث روز غدیر کے عيد ہونے کے متعلق صادر ہوئی ہے اور اس دن روزہ
رکهنا سنت ہے نيز مومنين اور اپنے رشتہ داروں کے ساته احسان کرنے کے سلسلے ميں بهی
نقل ہوئی ہے ہم ان ميں سے صرف ایک حدیث ذکر کرنے پر اکتفاء کر رہے ہيں۔
٧۵١ ۔ سہل ابن زیاد عبد الرحمن ابن سالم سے اور وہ اپنے پدر گرامی سے نقل کرتے
ہيں کہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق - سے دریافت کيا : کيا جمعہ، عيد فطر اور عيد قربان
کے علاوہ مسلمانوں کے ليے کوئی اور بهی عيد ہے؟ فرمایا: ایک دن، حرمت و احترام کے لحاظ
سے ان سے زیادہ ہے۔ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں وہ کون سے عيد ہے؟
فرمایا: اس دن جب رسول خدا (ص) نے حضرت علی - کو اپنا خليفہ بنایا اور فرمایا: “
مَن کنتُ مَولاہ فعلیٌ مَولاہ” جس کا ميں مولا ہوں اس کے علی - بهی مولا ہيں۔ ميں نے عرض
کيا: وہ کون سا دن ہے؟ فرمایا: تمہيں اس دن سے کيا کام ہے اور دن تو بدلتا رہتا ہے ليکن اس
کی تاریخ اڻهارہ ذی الحجة الحرام ہے۔
جب ميں نے اس دن کی معرفت حاصل کرلی تو عرض کيا: ہم کو اس دن کيا کرنا
چاہےے؟ فرمایا: الله کا ذکر کرو، روزہ رکهو ، محمد و آل محمد کا ذکر کرو۔ یقينا رسول خدا
(ص) کہ ان پر اور ان کی آل پر خدا کا درود و سلام ہو انہوں نے امير المومنين -سے تاکيد کی
کہ اس دن کو عيد قرار دیں وہ اپنے اوصياء کو اس دن عيد منانے کی وصيت کرتے تهے چنانچہ
) دوسرے انبياء بهی ایسا ہی کرتے تهے۔ ( ١
مولف کہتے ہيں: پيغمبر اکرم (ص) ذی الحجة الحرام ١٠ ه ء ق کے اڻهارہویں دن حجة
الوداع سے واپس ہو رہے تهے مقام جحفہ کے وسيع صحرا ميں جو ایک لاکه حاجيوں سے زائد
افراد کی تعداد سے مملو تها اپنے بہت ہی بہترین اور جامع بيانات کے ساته مشہور و معروف
خطبہٴ غدیر کو بيان فرمایا۔ غدیر خم کے منظم خطبے کی نورانيت و درخشندگی قرآن مجيد کی
بہت سی آیات جو اس کے مضامين ميں مندرج ہيں تمام اسلامی کتابوں ميں ایک خاص امتياز
کی حامل ہے ۔ چونکہ ہماری کتاب کی وسعت اس کے تمام جملوں کی وضاحت سے قاصر ہے
لہٰذا ہم اپنی ضرورت کے مطابق حضرت ختمی مرتبت پيغمبر اکرم (ص)، حضرت امير المومنين
اور اُن حضرت کی اولاد طاہرین بالخصوص مولانا صاحب الزمان - کے مقدس اورہر دل عزیز وجود
جو خاتم الاوصياء اور روئے زمين پر حجّت الٰہی ہيں ان کے علوم و کمالات کے ذکر پر اکتفا کرکے
اس فصل کو ختم کرتے ہيں۔ خطبہٴ غدیر خم کا خلاصہ اور ماحصل یہ ہے کہ یقينا ہمارے پيغمبر
اکرم کی ملکوتی صدا اور ان کے کلام کا ہر فقرہ ایک چراغ ہے جو تمام اسلامی معاشرے کے
ليے راہ کو روشن کرنے والا ہے اور اس کی ہر عبارت ایک ایسی حکایت ہے جو رسالت کے ابلاغ
ميں صداقت کی حامل ہے اور آئندہ بشریت کے ليے مہربان بهی۔
خالص توحيد، کمال عبودیت، پيغمبر (ص) کا تسليم ہونا، پيغمبری کے وظيفے کو ادا
کرنا، امت کے منحرف ہونے کا خوف، اس سے خوف دلانا، مومنين و منافقين کا تعارف کرانا، بعض
آیات قرآن سے دليل و شاہد پيش کرنا، بشارت و انذار، حضرت علی - کی امامت کا بارہا نمایاں
طور پر تعارف کرانا نيز ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢٨۶ ۔ ، ١(۔ الغدیر، ج ١، ص ٢٨۵ (
کی اطاعت کی وصيت کرنا، ان کی نسل سے ائمہٴ کا ذکر کرنا بالخصوص امام زمانہ مہدی
موعود قائم بالحق عجل الله تعالیٰ فرجہ کا ذکر کرنا بالآخر حضرت امير المومنين علی ابن ابی
طالب - کو بہ عنوان علم نبوی کا مخزن ہونے سے متعارف کرانا ان کا مفسر قرآن اور حق و
باطل کی ميزان بيان کرنا اور ان کے ليے لوگوں سے بيعت لينا ان مطالب کی فہرست کہ جو
مسلمانوں کی حالت کے نگراں رہبر کی طرف سے چند گهنڻے کے خطبے کے ضمن ميں بيان
ہوئی ہے اور اسے آئندہ لوگوں تک پہنچانے کی بهی وصيت کی ہے۔
”الله تعالیٰ نے تمام اسماء اور اشياء کے علوم پيغمبر اکرم (ص) کو عطا فرمایا ہے“
٧۵٢ ۔ “قال عليہ السلام مَعاشِر النّاس ما مِن عِلم اِلاَّ وَقَد اَحصٰاہ اللّٰہ فِیَّ وَکُل عِلم عُلّمتُہ
) فَقَد اَحصيتُہُ فی اِمٰام المُتَقين ، وَما مِن عِلم اِلاَّ وَقَد عَلّمتُہ عَليّاً وَهُو الاٴمام المُبينُ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٢١٢ ، آیہٴ کریمہ <وکل شیء احصيناہ فی امام مبين > کے ذیل ميں (
یوں ایک روایت نقل کی ہے: “ ” تفسير صافی، ج ۴، ص ٢۴٧ ۔
امير المومنين - سے مروی ہے کہ حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! ميں امام مبين ہوں جو حق
و باطل کو واضح کرکے بيان کرتا ہوں اور اس کا علم مجهے رسول خدا (ص) اور اوصياء سے ورثہ
ميں ملا ہے۔ وعن امير الموٴمنين “ع ” “انّہ قال انا وَاللّٰہ الامام المُبين ابين الحق من الباطل ورثتہ
من رسول اللّٰہ و اوصياء ”و فی الصافی عن الباقر عن ابيہ عن جدہ “ع” “قال لمّا نَزلت هذہ الآیة
علی رسول اللّٰہ “ص” <وکل شیء احصيناہ فی امام مبين > قام ابو بکر و عمر ومن مجلسهما
وقالا یا رسول اللّٰہ “ص” هو التوراة قال لا قالا فهو الانجيل قال لاقالا فهو القرآن قال لا قال فاقبل
الامير الموٴمنين “ع” فقال رسول اللّٰہ “ع” هو هذا انہ الامام الذی احصی اللّٰہ فيہ علم کل شی ،
تفسير صافی ،ج ۴، ص ٢۴٧
تفسير صافی ميں امام محمد باقر - نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کيا ہے کہ جب یہ
آیت <وکل شیء احصيناہ فی امام مبين> رسول خدا (ص) پر نازل ہوئی تو ابوبکر اور عمر اپنی
جگہ کهڑے ہوئے اور عرض کيا: یا رسول الله (ص)! کيا امام مبين سے مراد توریت ہے؟ فرمایا:
نہيں، عرض کيا: کيا انجيل مراد ہے؟ فرمایا: نہيں، پهر دریافت کيا: کيا قرآن مراد ہے؟ فرمایا:
نہيں، اسی اثنا ميں امير المومنين علی - تشریف لائے تو رسول الله (ص) نے فرمایا: وہ امام یہ
ہيں ان کی ذات ميں الله نے ہر شے کے علم کو جمع کردیا ہے۔
اے لوگو! کوئی علم و دانش ایسا نہيں ہے کہ الله تعالیٰ نے مجهے عطا کيا اور ميں نے
اپنے ان تمام علم و دانش کو امام المتقين کی ذات ميں جمع کردیا ہے اور کوئی ایسا علم و
دانش ایسا نہيں ہے کہ جسے ميں نے علی کو تعليم نہ دیا ہو اور وہ ایسا امام ہے جوانہيں بيان
کرنے والا ہے۔
مولف کہتے ہيں: اس بنا پر حضرت امير المومنين -، وہ تمام علوم کہ جسے الله تعالیٰ
نے اپنے پيغمبر اکرم (ص) کو عطا فرمایا اس کے حامل اور وارث ہيں اور اسی طرح اُن حضرت
کے بيڻے (ائمہٴ معصومين) یکے بعد دیگرے آنحضرت (ص) کے تمام علوم کے وارث ہيں یہاں تک
کہ یہ سلسلہ امام حسن عسکری تک پہنچتا ہے۔ اور ان بزرگوار کے بعد ان کے فرزند ارجمند
مولانا صاحب العصر و الزمان حضرت مہدی قائم آل محمد - اور ان کے آباء و اجداد تمام انبياء و
اوصياء اور ان کے اجداد کرام کے علوم کے وارث ہيں اور جو حکم ان سے صادر ہو صادق و مصدق
اور وحی الٰہی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر پيغمبر رحمت (ص) نے اپنے عظيم الشان خطبے ميں ارشاد فرمای ا:
٧۵٣ ۔ “مَعاشر النّاس تَدبّروا القُرآن وَافهَموا آیاتِہِ وَانظُروا الیٰ مُحکماتِہ وَلا تَتّبَعوا مُتشابِهہ
فَواللّٰہ لَن یُبيّن لَکم زَواجرہ وَلا یُوضَح لَکم تَفسيرہ اِلاَّ الذی اَنا اخذٌ بِيَدہ وَمُصعِدہ الیّ وَشائلٌ
بِعضدہِ وَمُعلِمکُم: انّ مَن کُنت مَولاہ فَهذا علیٌ مَولاہ وَهو عَلیّ بن اَبی طالب اَخي وَوَصي وَمُوالاتہ
مِن اللہٰ عزّوجلّ اَنزلها عَلیّ
مَعاشر النّاس اَن عَلياً وَالطيّبينَ مِن وُلدی هم الثّقَل الاٴصغَرُ وَالقُرآن الثَقل الاکبرَ وَکُل واحدٍ
منيیٴ عَن صاحِبہ وَمَوافِق لَہ لَن یَفتَرِقا حَتّی یَردا عَلیّ الحَوضَ هُم اُمَنآء اللّٰہ فی خَلقِہ وَ حُکمائہ
) فی اَرضِہ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی صدوق، ص ٨٢ ۔ کفایة الاثر، ص ١٣١ ۔ روضة الواعظين، ص ٩۴ ۔ احتجاج، ج ١، ص ٧۴ ۔ (
اے لوگو! قرآن ميں غور و فکر کرو اور اس کی آیات کو سمجهو اور اسے درک کرو (یہ نہيں
فرمایا: اس کی آیات کو پڑهو(
یعنی صرف پڑهنے پر اکتفا نہ کرو قرآن کے محکمات پر ہميشہ دقّت کرو، اور اس کے متشابهات
کی پيروی نہ کرو (یعنی تمہارے ليے جن آیات کے معنی صریح اور واضح مفہوم نہ ہوں )۔
خدا کی قسم! ہرگز کبهی بهی تمہارے ليے قرآن کے محرمات اور منهيات کو روشن نہيں
کرے گا اور نہ ہی اس کی آیات کو تمہارے ليے نمایاں کرے گا سوائے اس شخص کے کہ جس
کا ميں نے ہاته پکڑ کر اوپر اڻهایا ہے اور اب اس کے بازو کو بلند کرکے تمہارے ليے اعلان کرتا ہوں
جس جس کا ميں مولا و سرپرست اور صاحب اختيار ہوں یہ علی بهی اس کا مولا و سرپرست
اور صاحب اختيار ہے۔ وہ علی ابن ابی طالب ميرا بهائی اور ميرا وصی ہے، وہ ایسا شخص ہے
کہ اس سے دوستی اور اس کی نصرت کرنے کے ليے خدائے بزرگ و برتر نے مجهے بتایا ہے۔
اے لوگو! علی اور ان کی اولاد طاہرہ ثقل اصغر ہيں اور قرآن کریم ثقل اکبر ہے ان دونوں
ميں سے ہر ایک دوسرے کے مویّد و موافق ہوں گے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا بهی نہ
ہوں گے جب تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس نہ پہنچ جائيں۔
یہ لوگ لوگوں کے درميان الله تعالیٰ کے امين اور صاحبان حکمت ہيں۔
من کلام لہ روحی لہ الفداء - و عجل اللّٰہ تعالی فرجہ الشریف - انا بقية اللّٰہ في ارضہ
٧۵۴ ۔ “قالَ الصَدوق : حَدثَنا عَلی بن عَبد اللّٰہ الوَرّاق قال حَدثَنا سَعد بن عَبد اللّٰہ عن احمَد
بن اسحٰاق بن سَعد الاٴشعری قالَ دَخلت علیٰ ابی مُحمد الحسن بن عَلی عليہ السلام وَانا
اُرید اَن اساٴلُہ عَن الخَلف مِن بَعدہ ، فَقال لی مُبتَدئاً: یا احمَد بن اسحاقَ ان اللّٰہ تَبارک وَ تَعالیٰ
هٰا الیٰ اَن تَقوم السّاعة مِن حُجّة اللّٰہ عَلیٰ لَم یَخل الاٴرض مُنذ خَلَق آدَم عليہ السلام وَلا یُخَلی
خلقِہ، بِہ یَدفع البَلاء عَن اَهل الارضِ ، وَبِہ یُنزّلُ الغَيثَ وَبِہ یَخرج بَرکاتُ الاٴرض
قالَ قُلت لَہ : یَا بن رَسول اللّٰہ ، فَمَن الاٴمام وَالخَليفة بَعدک ؟ فَنَهض عليہ السلام مُسرعاً
فَدخل البَيت ثمّ خَرَجَ وَعَلی عاتِقِہ غُلام کانَ وَجهُہ القَمر لَيلَة البَدر مِن اَبناء الثَلاثَ سنين
فَقال یا اَحمد بن اسحاق ، لَو لا کَرامتک عَلی اللّٰہ عزّوجلّ وَعلی حُجَجِہ ما عَرَضت عَليک
ابنی هٰذا انّہ سَمی رَسول اللّٰہ (ص) وَکُنيہ الذی یَملاء الاٴرض قِسطاً وَ عدلاً کما ملئت جوراً
وَظُلم
یا اَحمد بن اسحاق مَثَلُہُ فی هذہ الاٴمة مَثَل الخِضر عليہ السلام وَمَثلہ مَثَل ذی القَرنين
وَاللّٰہ لَنبين غَيبَة لا یَنحو فيها مِن الهَلکة اِلاَّ مَن ثَبَتہ اللّٰہ عزّوجلّ عَلی القَول بامٰامَتہ وَ وَفَقہ فيها
للدّعا بِتَعجيلِ فَرَجہ
فَقال : اَحمد بن اسحاق فَقلت لہ یا مَولای فَهَل مِن عَلامة یَطمئن اليها قَلبی ؟
فنطق الغلام عليہ السلام بِلسان عَربی فَصيحٍ ، فَقال : اَنا بَقية اللّٰہ فی اَرضِہ وَالمُنتقم
مِن اَعدائہ فَلا تَطلب اَثراً بَعد حين یا اَحمد بن اسحاق
فَقال احمد بن اسحاق فَخرَجت مَسروراً فَرِحاً فَلمّا کانَ مِن الغد عُذت اليہ فَقُلت لَہ یَابن
رَسولُ اللّٰہ لَقد عَظم سُروری بِما مَنَنت بِہ عَلیّ ، فَما السنّة الجارِیَة فيہ مِن الخِضر وَذي القَرنَين ؟
فَقال طُول الغَيبةِ یا اَحمد ، قُلت یَابن رَسول اللّٰہ وَانّ غِيبَتَہ لَتَطولُ ؛ قال ای وَربّی ، حَتّی
یَرجع عَن هذٰا الاٴمر اکثر القائِلينَ بِہ وَلا یَبقی الاَّ مَن اَخذ اللّٰہ عزّوجلّ عَهدہِ لِولایتِنا وَکتَب فی قَلبہ
الاٴیمانَ وَاَیّدہُ بِروحٍ مِنہ
یا احمَد اسحاق هذٰا اَمر مِن اَمر اللّٰہ وَسرّ مِن سرّ اللّٰہ وَغيبٌ مِن غِيب اللّٰہ فَخذ مٰا اٴتَيتُک
) وَاکتِمہ وَکُن مِن الشّاکِرین تَکُن مَعنا غَداً فی عِلِيِّين ’ ” ( ١
حضرت روحی لہ الفداء عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے کلام ميں سے ہے: ميں زمين
پر بقية الله ہوں۔
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نقل کرتے ہيں کہ علی ابن عبد الله ورّاق نے روایت کی ہے کہ
مجه سے سعد ابن عبد الله نے احمد ابن اسحاق ابن سعد اشعری سے بيان کيا ہے کہ: ایک
مرتبہ ميں حضرت امام حسن عسکری - کی خدمت ميں اس ارادے سے حاضر ہوا کہ دریافت
کروں کہ آپ نے اپنا جانشين کس کو مقرر فرمایا ہے: مگر ميرے سوال کرنے سے قبل ہی آپ نے
فرمایا: اے احمد ابن اسحاق! الله تعالیٰ نے خلقتِ آدم - سے یومِ قيامت تک زمين کو اپنی
حجّت سے کبهی خالی نہ چهوڑا تاکہ اس کی وجہ سے اہل زمين کی بلائيں دور کرتا رہے، اس
کی وجہ سے پانی برساتا رہے، اس کی وجہ سے زمين سے برکتيں ظاہر فرماتا رہے۔
راوی کا بيان ہے: ميں نے عرض کيا: یابن رسول الله! پهر آپ کے بعد امام و خليفہ کون
ہوگا؟
یہ سن کر آپ اڻهے، گهر ميں داخل ہوئے اور جب واپس آئے تو آپ کے دوشِ مبارک پر
تقریباً ایک تين سالہ بچہ تها جس کا چہرہ چودهویں رات کے چاند کی طرح منورتها۔ پهر آ پ نے
فرمایا: اے احمد ابن اسحاق! اگر الله اور الله کی حجّت کی نظر ميں تمہاری کوئی وقعت نہ
ہوتی تو ميں اپنے اِس بچے کو تمہارے سامنے نہ لاتا۔ یہ بچہ وہ ہے جس کا نام اور جس کی
کنيت خود (ہمارے جدّ امجد) رسول الله تجویز فرما گئے تهے۔ یہی زمين کو عدل و انصاف سے
اسی طرح بهر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوئی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣٢٧ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۴، ص ٢۶٨ ۔ (
اے احمد ابن اسحاق! اسے بچے کی مثال اِس اُمت ميں خضر - کی طرح اس کی مثال
ذوالقرنين کی مثال ہے۔ خدا کی قسم، اس کی یقينا ایسی غيبت ہوگی کہ جس ميں ہلاکت
سے نجات وہی پائے گا جس کو الله تعالیٰ اس کی امامت پر ثابت قدم رکهے گا اور اس امر کی
توفيق دے گا کہ وہ اس کی غيب کے زمانے ميں تعجيلِ ظہور کے ليے دعا کرتا رہے گا۔
احمد ابن اسحاق کا بيان ہے کہ ميں نے عرض کيا: مولا و آقا! کيا کوئی ایسی علامت
بهی ہے جس سے ميرا قلب مطمئن ہوجائے؟
یہ سن کر اُس بچے نے فصيح عربی زبان ميں فرمایا: سنو! ميں الله کی زمين پر الله کی
طرف سے باقی رہنے والا ہوں، ميں الله کے دشمنوں سے انتقام لينے والا ہوں۔ اور اے احمد ابن
اسحاق! اب اپنی آنکهوں سے دیکه لينے کے بعد کوئی علامت تلاش نہ کرو۔
احمد ابن اسحاق کا بيان ہے کہ پهر ميں وہاں سے خوش خوش نکلا۔ اور دوسرے دن پهر
حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کيا: فرزند رسول (ص)! آپ نے (اپنے جانشين کی زیارت کرا کے) مجه
پر احسان فرمایا ہے اس سے مجهے بے حد خوشی ہے مگر یہ تو فرمائيے کہ ان ميں حضرت
خضر - اور حضرت ذو القرنين کی کيا صفات ہوںگی؟
آپ نے فرمایا: طویل غيبت۔ ميں نے عرض کيا: فرزند رسول (ص)! کيا ان کی غيبت بہت
طویل ہوگی؟
آپ نے فرمایا: ہاں، خدا کی قسم! اتنی طولانی غيبت ہوگی کہ اکثر لوگ جو اِن کی
امامت کے قائل ہوں گے وہ بهی اپنے قول سے پهر جائيں گے، صرف وہی لوگ رہ جائيں گے جن
سے الله تعالیٰ نے ہماری ولایت کا اقرار لے ليا ہوگا، جن کے دلوں ميں الله نے ایمان کو نقش کر
دیا ہوگا، اور جن کی مدد روح القدس کے ذریعے فرمائی ہوگی۔
اے احمد ابن اسحاق! یہ قدرت کے کرشموں ميں سے ایک کرشمہ ، الله کے اَسرار ميں
سے ایک راز اور الله کے غيوب ميں سے ایک غيبت ہے۔ ميں نے جو کچه بتایا ہے اُسے یاد رکهنا،
دل ميں پوشيدہ رکهنا، خدا کا شکر ادا کرتے رہنا، تم کل کے دن عليين کے درجے ميں ہوگے۔
٧۵۵ ۔ “وَفی کمال عنہ عليہ السلام : اول ما ینطق بہ القائم عليہ السلام حين یخرج هذہ
الآیة <بَقية اللّٰہِ خَيْرٌ لکم ان کُنتُم مُوٴمنين ثُمّ یَقول انا بَقية اللّٰہ وَحُجتِہ وَخَليفَتہ عَليکُم >فَلا یُسلم
) عَليہ مُسلِم الاّ قال السّلام عَليک یا بَقيةَ اللّٰہ فی اَرضِہِ ” ( ١
کمال الدین صدوق عليہ الرحمہ ميں روایت نقل ہوئی ہے کہ : سب سے پہلا کلام جو
حضرت ظہور فرمانے کے بعد کریں گے اسی آیت <بَقية اللّٰہِ خَيْرٌ لکم ان کُنتُم مُوٴمنين ثُمّ یَقول
انا بَقية اللّٰہ وَحُجتِہ وَخَليفَتہ عَليکُم> (الله کی طرف کا ذخيرہ تمہارے حق ميں بہت بہتر ہے اگر
تم صاحبِ ایمان ہو) کی تلاوت فرمائيں گے۔ پهر اپنا تعارف کرائيں گے کہ ميں بقية الله، الله کی
حجّت، او ر اس کا تمہارے ليے خليفہ و جانشين ہوں پهر چاروں طرف سے لوگ انہيں آکر ان
الفاظ کے ساته سلام کریں گے۔
ومن کلام لہ روحی و روح العالمين فداہ اَنَا القائم من آل محمد (ص)
٧۵۶ ۔ “قالَ شَيخَنا الاٴجل الصَدوق قدَس سرہ وَ سَمعنا شَيخاً مِن اَصحابِ الحَدیث یُقال لَہ
احمد بن فارِس الاٴدیبِ یَقول سَمِعت بِهَمدان حِکایَةً حَکَيتُها کما سَمِعتُها لِبَعض اخوانی فَساٴلنی
اَن اثبَتَها لہ بِخَطی وَلَم اَجد ال یٰ مُخالفتِہِ سَبيلاً وَقَد کَتَبتها وَعَهدتُها عَلی مَن حَکاه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣٣١ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ٣، ص ۴٩٣ ، ج ۵، ص ١٧۵ ۔ (
وَذلک انّ بِهَمدان نٰاساً یَعرَفون بِہ بَنی راشد وَهُم کُلّهم یَتَشيّعونَ وَمَذهَبَهم مَذهب اهل
الاٴمامَة فَساٴلت عَن تَشيعتُهُم مِن بَين اَهل هَمدان ؟ فَقال لی شيخ مِنهم رَاٴیت فيہ صَلاحاً وَ
سَمعاً: انّ مَسبب ذلک انّ جَدّنا الّذی نَنتَسب الَيہ خَرجَ حٰاجاً، فَقال انّہ لمّا صَدَر مِن الحَج وَ سٰاروا
مَنازِل فی ال اٰبدِیَة قال فَنَشطت فی النُزول وَالمَشی ، فَمشيت طَویلاً حَتّی اَعييتُ وَ نعَسَت، فَقلت
فی نَفسی انام نَومةً تریحنی ، فَاذا جَآء اَواخر القافِلَة قُمت ، قال: فَما انتَبَهت الا بحر الشّمس وَلَم
ار اَحداً فَتوحَّشَت وَلَم اَر طَریقاً وَلا اَثراً
فَتَوکلت عَلی اللّٰہ عزّوجلّ وَقُلت اَسير حَيث وَجّهنی وَمَشيت غَير طَویل فَوقعت فی اَرضٍ
خَضراءٍ نَظراءٍ کاٴنّها قَریبَة عَهدٍ مَن غَيث وَاذاً تربتَها اَطيَب تُربةٍ ، وَنَظرتُ فی سَواء تِلک الاٴرض اَی
وَسطها الیٰ قَصر یَلوح کاٴنّہ سَيفٌ ، فَقلتُ لَيت شعري ما هٰذا القَصر الّذی لَم اَعهدہُ وَ لَم اسمَع
بِہ فَقصدتُہُ فَلمّا بَلّغت ال اٰبب رَاٴیت خٰادَمين اَبيضَين ، فَسلّمتُ عَليهِما فَردّا رَداً جَميلاً ،وَ قا اٰل اِجلس
فَقد اَراد اللّٰہ بِک خَيراً ، فَقام اَحدهما وَدَخل وَاحتَبَس غَير بَعيد ثمّ خَرَج فَقال قُم فَادْخُلْ فَدخلتُ
قَصراً لَم ارَبَناءً اَحسن مِن بَنائہ وَلا اَضَواٴ مِنہ ، فَتقدّم الخِادِم ال یٰ سترٍ عَلی بيتٍ فَرفعہ ، ثمّ قال
لی اُدخل فَدخلت البَيت ، فَاذا فَتیً جٰالس فی وَسط البَيت وَقَد عُلِّق فَوق راٴسہ سَيف طَویلٌ تَکاد
ظبتَہ تَمسّ رَاٴسَہ ای طَرفُہ ، وَالفَتی کَانّہ بَدرٌ یَلوح فی ظُلامٍ ، فَسَلَّمْتُ فَرد االسّلام بِالطف کَلام
وَاَحْسِنَةِ، ثمّ قال لی اَتدري مَن اَنا ؟ فَقلت لا وَاللّٰہ ، فَقال اَنا القآئم مِن آل محمّد (ص) ، اَنا الّذی
اَخرُْجُ فی آخر الزّمانِ بِهذا السّيف وَاشاراليہِ فَاملاٴ الاٴرضَ قِسطاً وَعدلًا کما مُلئت جَوراً وَظُلماً
فَسقَطت علیٰ وَجهی وَ تعَفرت فَقال لا تَفعل اِرفَع رَاٴسک انتَ فلا نٌ مِن مَدینةٍ بالجَبل یَقال لَهما
هَمدان فَقلت صَدقت یا سَيدی وَمَولای ، قال: فَتحبّ اَن تَوٴوبَ ال یٰ اَهلکَ؟
فَقلتَ نَعم یا سَيّدی وَاُبَشِّرُهُم بما اَتاحَ اللّٰہ عزّوجلّ لی
فَاٴوماٴ الیَ الخادِم فَاٴخذَ بِيَدیَ وَنَاولني صرّةً وَخَرج وَمَشی مَعی خُطواتٍ فَنظرتُ ال یٰ طِلال
وَاشجارٍ وَمِنارَة مَسجدٍ ، فَقال ، اتَعرف هذٰا البَلَد ؟َ فَقلت انّ بِقربِ بَلدِنا بَلَدةٌ تُعرف باسد آبادٍ وَهی
تَشبَهُها قال فَقال هٰذہ استد آباد امضِ راشد
فالتَفت فَلم اَرہ وَاذاً فی المصرّة اَربَعون اٴو خَمسونَ دینارَاً فَورَدت هَمدان وَجَمعت اَهلی وَ
) بَشّرتَهم بِما یَسرّہ اللہّٰ عزّوجلّ لي وَلَم نَزل بِخيرٍ مابَقِی مَعنا مِن تِلک الدّنانير” ( ١
امام زمانہ - روحی ارواح العالمين لہ الفداء کا یہ قول بهی ہے ميں قائم آل محمد (ص)
ہوں۔
شيخ صدوق عليہ الرحمہ ناقل ہيں کہ ميں نے اپنے استاد بزرگوار جو اہل حدیث ميں
سے ہيں جنہيں لوگ احمد ابن فارس ادیب کے نام سے جانتے ہيں ان کا بيان ہے کہ ميں نے
بعض اصحابِ حدیث سے یہ روایت سنی ہے کہ ہمدان ميں کچه لوگ تهے جو بنی راشد کے نام
سے پہچانے جاتے تهے جو سب کے سب شيعہ تهے
ميں نے اُن لوگوں سے دریافت کيا کہ ہمدان کی آبادی ميں تم لوگ شيعہ کيسے ہو؟
اُن ميں سے ایک نے کہا: “جو بظاہر مردِ صالح بزرگ معلوم ہوتے تهے” کہ ہم لوگوں کے
شيعہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے جدّ اعلیٰ جن کی طرف ہم لوگ منسوب ہيں، ایک مرتبہ
حج کے ليے گئے۔ جب حج کرکے واپس ہوئے اور ان کا قافلہ صحرا کی منزليں طے کرتا ہوا آگے
بڑها تو (اُن کا بيان ہے کہ) چونکہ ميں پا پيادہ بہت سفر کرچکا تها اور کافی تهک چکا تها اس
ليے سوچا کہ ميں قافلے کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۵٣ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۴، ص ۴٢٧ ۔ (
اگلے حصے ميں رہوں تاکہ کچه آرام کرلوں اور آنکه جهپکالوں تو پهر قافلے کے آخری حصے ميں
ساته ہوجاؤں گا۔
چنانچہ ميں نے ایسا ہی کيا اور سو گيا۔ جب آنکه کهلی تو آفتاب سر پر تها اور قافلہ آگے
جا چکا تها۔ قریب و نزدیک کوئی نظر نہ آیا تو مجهے بڑی وحشت ہوئی مگر ميں نے الله پر
بهروسہ کيا اور دل ميں کہا، ميں تنہا ہی چلتا ہوں جدهر الله چاہے لے جائے۔
تهوڑی ہی دور چلا تها کہ مجهے ایک سرسبز و شاداب خطّہ نظر آیا۔ ایسا معلوم ہوتا تها
کہ جيسے ابهی کچه دنوں پہلے یہاں بارش ہوئی ہے جس کی وجہ سے موسم بهی خوش
گوار ہے اور خطّہ بهی سرسبز و شاداب نظر آرہا ہے۔ پهر ميں نے نظر دوڑائی تو دیکها کہ اس
خطّے ميں ایک قصر ہے جو تلوار کی طرح چمک رہا ہے۔ ميں نے دل ميں کہا کہ کاش معلوم ہوتا
کہ یہ قصر کيسا (اور کس کا) ہے، ميں نے تو اِس خطّے ميں نہ کبهی کوئی قصر دیکها ، نہ
کسی سے سنا۔ چنانچہ ميں قصر کی طرف چل دیا، جب اس کے دروازے پر پہنچا تو وہاں دو
گورے رنگ کے خادم موجود تهے ، ميں نے اُنہيں سلام کيا۔ اُنہوں نے جوابِ سلام دیا اور کہا: الله
تمہارا بهلا کرے، بيڻه جاؤ۔ اُن ميں سے ایک اندر گيا، تهوڑی دیر ميں واپس آکر کہنے لگا: اُڻهو اور
اندر آجاؤ۔
ميں اندر گيا تو دیکها کہ عجيب و غریب خوش نما عمارت ہے کہ آج تک ایسی عمارت
دیکهنے ميں نہيں آئی۔
اتنے ميں ایک خادم نے آگے بڑه کر ایک کمرے کا پردہ اُڻهایا اور کہا: اندر چليے۔
ميں اندر گيا تو دیکها کہ ایک جوان کمرے کے وسط ميں بيڻها ہوا ہے اور اس کے سر پر
ایک لمبی سی تلوار لڻک رہی ہے جو اُس جوان کے سر سے مس ہوا چاہتی ہے اور اُس کا
چہرہ اندهيرے ميں چودهویں کے چاند کی طرح چمک رہا تها۔ ميں نے اُسے سلام کيا، اس نے
جوابِ سلام بهی بہت شفقت و محبت سے دیا۔
پهر کہا: تم جانتے ہو، ميں کون ہوں؟
ميں نے کہا: خدا کی قسم! مجهے معلوم نہيں۔
فرمایا: ميں قائم آل محمد (ص) ہوں۔ ميں وہ ہوں جو آخری زمانہ ميں اِس تلوار کے ساته
ظہور کروں گا۔ (یہ کہہ کر اُس تلوار کی طرف اشارہ کيا) اور زمين کو عدل و انصاف سے اسی
طرح بهر دوں گا جيسے وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی۔
یہ سن کر ميں قدم چومنے کے ليے منه کے بل گر پڑا۔
آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اپنا سر اُڻهاؤ، (پهر فرمایا:) تمہارا نام یہ ہے اور تم پہاڑی
علاقے کے اس شہر کے رہنے والے ہو جس کو ہمدان کہتے ہيں۔
ميں نے عرض کيا: جی ہاں، ميرے مولا و آقا! آپ نے سچ فرمایا۔
پهر فرمایا: کيا تم اپنے اہل و عيال ميں جانا چاہتے ہو؟
ميں نے عرض کيا: جی ہاں، ميرے مولا، ميں اُن سب کو بتاؤں گا کہ الله کے فضل سے
مجهے آپ کی زیارت نصيب ہوئی۔
یہ سن کر آپ نے خادم کو اشارہ کيا، اُس نے ميرا ہاته پکڑا اور ایک تهيلی دی۔ ابهی وہ
ميرے ساته چند ہی قدم چلا تها کہ مجهے درخت اور مسجدوں کے مينار نظر آئے۔
خادم نے پوچها: تم اِس شہر کو پہچانتے ہو؟ ميں نے کہا: یہ تو ایسا ہی شہر ہے جيسا
ہمارے شہر کے قریب ایک مشہور شہر “اسد آباد” ہے ۔
اُس نے کہا: ہاں یہ وہی اسد آباد ہے۔ اب تم جاؤ اور راستہ نہ بهولو گے۔
اب جو ميں نے مڑ کر دیکها تو وہ خادم غائب تها۔ پهر ميں شہر اسد آباد ميں داخل ہوا اور
وہ تهيلی کهولی تو اس ميں پچاس یا چاليس سرخ دینار تهے۔ وہاں سے ميں ہمدان چلا آیا اور
اپنے پورے کنبے کو جمع کيا اور ان سب کو بتایا کہ مجه پر الله تعالیٰ نے کيا عنایت فرمائی ہے۔
پهر جب تک وہ دینار ہمارے پاس رہے بہت ہی خوشحالی ميں زندگی بسر ہوتی رہی۔
و من کلام لہ روحی الفداء تتفصل عن قریب الی قریة اهلها جميعا من الشيعة
٧۵٧ ۔ “مِن کَلام مَولانٰا الحُجة المُنتظر عَجّل اللّٰہ تَعالیٰ فَرجہ لِرَجلٍ صاحِبَہ الَمولیٰ علی
الرّشتي مِن تَلامِذہ المَرحوم السيّد الميرزا الشيرازي الکَبير قدہ فی حِکایة لَہ وَهِی السّابِعةَ وَ
الاٴربَعون مِن حِکایات جَنّة الماٴویٰ لِلشيخ الاجَل النوري رَحمہ اللّٰہ قالَ:
قالَ الشّيخ الرّشتی رَجَعت مَرّة مِن زِیارَة اَبی عَبد اللّٰہ الحُسين عليہ السلام عٰازِماً لِلنجف
الاٴشرفِ مِن طَریق الفُرات ، فَلمّا رَکبنٰا فی بَعض السّفن الصّغارِ التی کانَت بَين کَربلا وَ طُویرج ،
اَراٴیتَ اَهلَها مِن اَهل الحِلّة ، وَمِن طُویرج تَفترقُ طَریق الحِلّة وَالنجفِ ، وَاشَتَغل الجَماعَة بِالّلهو
واللعبِ وَلاا لمَزاحِ وَرَاٴیت وَاحداً مِنهم لا یَدخل فی عَمَلهم ، عَليہ آثار السَکينة وَالوَقار ، ولا یُمازِح
وَلا یُضاحِک وَکانوا یَعيبون علی مَذهبہ وَیَقدحون فيہ ، وَمع ذلِک کان شَریکاً فی اَکلهِم وَشُربِهم
فَتعجبت مِنہ الیٰ اَن وَصَلنٰا الٰی مَحَل کان الٰماء قَليلاً فَاَخْرَجَنٰا صاحب السّفينَة فکنا نَمشی علیٰ
شاطِی النّهر
فَاتّفق اجتماعی مَع هذا الرَّحل فی الطَریق؟ فَساٴلتہ عَن سَبب مُجانبَتہ عَن اصحابِہ
وَذَمِهّمِ اِیّاہُ وَ قَدحِهِم فِيہ ؟ فَقالَ هٰوٴلاء مِن اَقربائی مِن اَهل السنّةِ ، وَابی مِنهم وَاُمی مِن اَهل
الاٴیمانِ وَ کُنتُ اَیضاً مِنهم ، وَلٰکن اللّٰہ مَنّ عَلیّ بِالتشيع بِبَرکة الحجّة صاحِب الزمانِ عليہ السلام،
فَساٴلت کيفيَة ایمانِہ ، فَقال اسمی یٰاقوت وَاَنا اَبيعُ الدّهن عِند جِسر الحِلة، فَخرجت فی بَعض
السنين لطَلب الدّهن مِن اَهل البَراری خارِجَ الحِلة ، فَبَعدت عَنها بِمَراحِل الی اَن قَضيت وَطری مِن
شَراء مٰا کُنت اریدہ وَحَملتہ عَلی حِماری ، وَ رَجعت مَع جَماعة مِن اَهل الحِلة ، وَنَزلنا فی بَعض
المَنازل وَنَمنا وَانتبَهت فَما رَاٴیت اَحداً مِنهم وَقَد ذَهبوا جَميعاً وَکان طَریقُنا فی بَریة قَفرذات سِباعٍ
کَثيرة، لَيس فی اَطرافها مَعمورةً الا بَعد فَراسخ کَثيرة ، فَقُمت وَجَعلت الحملَ عَلی الحِمار
وَمشَيئت خَلفهم فَضلّ عَنی الطریقَ وَبَقيت متحَيراً خائِفاً مِن السّباعَ وَالعَطَش فی یَومہ، فَاٴخذت
استَغيث بِالخُلَفاء وَالمَشایخ وَاَساٴلُهم الا عٰانَة وَجَعَلتَهُم شُفَعائی عِند اللہّٰ تَعال یٰ وَتَضرّعت کَثيراً
فَلم یَظهر مِنهم شَی ، فَقلت فی نَفسی : انی سَمعت مِن امّی انّها کانَت تَقول : انّ لَنا اِماماً
حَياً یکنی اَبا صالحٍ ، یُرشد الضّال وَیَغيث المَلُهوف وَیُعين الضَعيف فَعاهَدت اللّٰہ تَعالیٰ ان استَغَثت
بِہ فَانّما اثَنی اَن اَدخل فی دین اُمّي
فَنادیتُہ وَاستَغيت بِہ ، فَاذا شخصٌ في جَنبي وَهُو یَمشي مَعي وَعَليہ عَما مة خَضراء قال
رَحِمہ اللّٰہ وَاٴشار الی نَبات حٰافة النّهر، وَ قال کانَت خَضرتَها ای العَمامَة مِثل خُضرة هٰذا النّباتِ
ثُمّ دَلّنی عَلی الطّریق وَاَمرنی بالدّخول فی دینِ امّی ، وَذَکر کَلمات نَسيتُها ، وَقال سَتَصل
عَن قَریب ال یٰ قَریَة اَهلِها جَميعاً مِن الشيعَة
قالَ فَقلت یا سَيدی اَنت لاتحبیء مَعی الیٰ هذہ القَریة ؟ فَقال ما مَعناہ: لا ، لانّہ استَغاث
بي اَلف نفسٍ فی اَطراف البِلاد اریدُ اَن اغيثَهم ، ثمّ غابَ عَنّی ، فَما مشيت الاّ قَليلاً حَتّی وَصَلت
ال یٰ القَریَة وَکانت فی مَسافَة بَعيدةٍ ، وَوَصل الجَماعَة الي هٰا بَعدی بِيَوم فَلمّا دَخلت الحِلّة ذَهَبت
الیٰ سَيُّد الفُقهاء السيُد مَهدی القَزوینی طابَ ثَراہ وَ ذکَرت لَہ القِصَة فَعلّمنی مَعالم دینی ،
فَساٴلت مِنہ عَمَلاً اَتوَصل بِہ الیٰ لِقائِہ عليہ السلام مَرّة اَخریٰ فَقال، زُر اَبا عَبد اللّٰہ عليہ السلام
اَربَعين لَيلَة الجُمعة ،قالَ فکنتُ ازورَہ مِن الحِلة فی لَيالی الجُمَعة الیٰ اَن بقی وٰاحِدةٌ، فَذهبُت
مِن الحِلَّة فی یَوم الخَميس ، فَلمّا وَصَلت الیٰ باب البَلَد فَاذا جَماعةٌ مِن اَعوان الظلمَة یُطالِبون
الوارِدَین التَذکِرة وماکان عَندی تَذکرة ولا قَيمَتها فَبقيتُ مُتخيراً وَالناس مُتزاحِمون عَل یٰ الباب فَاَردت
مِراراً ان اتخفّی وَاجورُعَنهم فَما تيسر لی وَاذاً بِصاحبی صاحب الامر عليہ السلام فی زیّ لِباس
طَلبة الاَعاجِم عَليہ عَمامَةً بَيضاء فی داخل البَلد فَلما راٴیتہ استَغثتُ بِہ فَخرج وَاخذَنی مَعَہ
وَادخلَني مِن الباب فَما راٴني احدٌ، فَلما دَخَلت البَلَد اَفتقدتٌ مِن بَين النّاس وبَقيت متحَيراً علیٰ
) فَراقِہ عليہ السلام ” ( ١
ہمارے آقا و مولا حجّت منتظر - کے اقوال ميں سے یہ ہے، ایک شخص جناب مولا علی
رشتی عليہ الرحمہ جو سيد بزرگوار آقا مرزا محمد حسن شيرازی کے من جملہ شاگردوں ميں
سے تهے جو مرزا بزرگ کے نام سے مشہور تهے اور وہ ان کے دوست تهے ایک حکایت ميں
جسے شيخ مرزا حسين نوری نے حکایت نمبر ۴۵ کے ذیل ميں جنت الماویٰ ميں نقل کيا ہے ان
کا بيان ہے: مولا علی رشتی کہتے ہيں: ایک دن ميں زیارت حضرت ابا عبد الله الحسين کی
زیارت سے فارغ ہو کر فرات کے راستے سے نجف اشرف کی طرف واپس ہو رہا تها (ان کی زیارت
سے مشرف ہونے والوں پر ہزاروں درود و سلام ہو) اس وقت ایک چهوڻی سی کشتی ميں سوار
ہوگيا کہ جس ميں سب لوگ حلّہ کے رہنے والے تهے اور طویرج سے نجف و حلّہ کا راستہ جدا
ہوجاتا تها، ميں نے دیکها کہ وہ ساری جماعت لہو و لعب ميں مشغول ہے سوائے ایک شخص
کے جو اس ہنسی مذاق سے بالکل عليحدہ اور پُرسکون ہے یہاں تک کہ ميں نے مشاہدہ کيا
کہ اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۵٣ ، ص ٢٩٣ ۔ الزام الناصب، ج ٢، ص ٧٠ ۔ (
کے یہاں وقار و سکون کے آثار نمایاں ہيں وہ ان کے اعمال ميں شریک نہيں ہوتا ہے اور ان کے
ساته ہم آہنگ بهی نہيں ہوتا ہے نہ ہی وہ مذاق کرتا ہے نہ ہی ہنستا ہے اور وہ لوگ اس کے
مذہب کی نسبت سے اس پر اعتراض اور تنقيد کرتے ہيں ، اس کے باوجود اس کے ساته آپس
ميں کهانے پينے ميں شریک ہيں، ميں بہت تعجب ميں تها، یہاں تک کہ ہم لوگ ایک ایسی جگہ
پہنچے کہ وہاں نہر کا پانی کم تها لہٰذا کشتی حرکت نہيں کر رہی تهی (ناچار) صاحب کشتی
نے ہم سب کو کشتی سے اتار دیا اور ہم لوگ نہر کے کنارے پا پيادہ چلنے لگے۔
اتفاق سے ميں اس شخص کے کنارے قرار پایا، ہم لوگ ہمراہ ہوئے اور ميں نے اس سے
اپنے دوستوں سے کنارہ گيری کی وجہ دریافت کی اور اس بات کا سبب بهی معلوم کيا کہ
کيوں وہ لوگ اعتراض اور ملامت کر رہے تهے؟ جواب دیا: یہ لوگ ميری قوم کے رشتہ داروں ميں
سے ہيں اور اہل سنت و الجماعت ہيں اور ميرا باپ بهی انہی لوگوں ميں سے ہے ليکن ميری
ماں اہل ایمان اور شيعہ ہے ميں خود بهی سنی اور انہيں کے مذہب پر تها مگر خدائے عزوجل
نے ميرے اوپر احسان فرمایا اور حضرت حجّت - (صلوات الله عليہ) کی برکت سے شيعہ ہوگيا
(اس وجہ سے یہ لوگ مجهے طعنہ دیتے ہيں) یہ سن کر ميں نے اس کے ایمان قبول کرنے کی
کيفيت دریافت کی تو اس نے بيان کيا: ميرا نام یاقوت ہے اور مشغلہ گهر کی تجارت ہے۔ ایک
سال مال کی خریداری کے ليے ميں حلّے سے باہر دیہات ميں گيا ہوا تها واپسی ميں حلّے کے
رہنے والوں کے ساته ایک جگہ آرام کرنے کے ليے ہم سب اترے اور سوگئے جب ميں اڻها تو
دیکها کہ سب چلے گئے ہيں کسی کا پتہ نہيں جلدی ميں ميں نے اپنا سامان اپنی سواری پر
رکها اور ساتهيوں کا پيچها کيا مگر غلط راستہ پر پڑ گيا کہ کيا کروں پياس کی شدّت ، درندوں کا
خوف اس حالت ميں تضرّع و زاری کے ساته ميں نے خلفاء و مشائخ (اساتذہ) سے فریاد کرنا
شروع کی مگر کچه نہ ہوا اس وقت مجهے خيال آیا کہ ميں نے اپنی والدہ کو یہ کہتے ہوئے سنا
ہے کہ ہمارے امام زندہ ہيں ان کی کنيت “ابو صالح” ہے وہ گم گشتہٴ راہ کو راستہ بتا دیتے ہيں
، بے کس و بے بس کی فریاد کو پہنچتے ہيں ضعيفوں کی مدد کرتے ہيں لہٰذا ميں نے خدا سے
یہ عہد کيا کہ ان سے استغاثہ کرتا ہوں اگر انہوں نے مجه کو نجات دے دی تو اپنی ماں کے
مذہب ميں داخل ہوجاؤں گا اس کے بعد ميں نے ان کو پکارا اور فریاد کی یکایک دیکها کہ ایک
صاحب ميرے ہمراہ چل رہے ہيں جن کے سر پر سبز عمامہ ہے (راوی کا بيان ہے: وہ سبزہ زار
جو نہر کے کنارے اُگے ہوئے تهے اشارہ کيا کہ ان کا عمامہ انہيں سبزہ زار کی طرح سبز تها)
انہوں نے مجه کوراستہ بتایا اور ماں کا مذہب اختيار کرنے کا حکم دیا اور بعض کلمات بهی ارشاد
فرمائے کہ جنہيں ميں فراموش کرچکا ہوں۔
اور فرمایا: تم بہت جلد ایک ایسی بستی ميں پہنچ جاؤ گے کہ جہاں کے رہنے والے
سب شيعہ ہيں اس وقت ميں نے عرض کيا: اے ميرے آقا و مولا! کيا آپ ميرے ہمراہ اس آبادی
تک نہيں چليں گے؟ ایک بات کہی جس کا مطلب یہ تها، نہيں، کيوں کہ بہت سے شہروں کے
اطراف ميں ہزاروں انسان مجه سے استغاثہ و فریاد کر رہے ہيں جن کی فریاد رسی کے ليے
مجه کو پہنچنا ضروری و لازمی ہے یہ فرما کر وہ ميری نظر سے غائب ہوگئے۔
ليکن ابهی ميں نے مختصر سا راستہ طے کيا تها کہ آبادی ميں پہنچ گيا حالانکہ مسافت
بہت طولانی تهی اور ميرے ساته والے افراد ایک دن بعد وہاں پہنچے۔ پس جب ہم حلّہ آگئے تو
ميں سيد الفقہاء سيد مہدی قزوینی طاب ثراہ کی خدمت ميں حاضر ہوا اور مکمل واقعہ بيان کيا
انہوں نے مجهے معالم دین اور تمام احکام تعليم فرمائے ، اس کے بعد ميں نے ایسا عمل بهی
ان سے دریافت کيا جو ميرے ليے دوبارہ حضرت کی زیارت کی توفيق کا وسيلہ ہوجائے؟ جواب
دیا: چاليس شب جمعہ امام حسين - کی زیارت کرو چنانچہ ميں نے یہ عمل شروع کردیا کہ
زیارت شب جمعہ کے ليے حلے سے کربلا جاتا تها جب ایک روز باقی رہ گيا تو ميں جمعرات کے
دن کربلا کی طرف روانہ ہوا شہر کے دروازہ پر پہنچ کر ميں نے دیکها کہ سرکاری جانچ کرنے
والے آنے والوں سے داخل ہونے کے ليے اجازت کے کاغذات کا مطالبہ کر رہے ہيں جو ميرے پاس
نہ تهے ميں متحير ہوا کہ کيا کيا جائے دروازہ پر ہجوم تها اندر جانے والے لوگ ایک دوسرے کے
مزاحم ہو رہے تهے چند مرتبہ ميں نے چاہا کہ چهپ کر نکل جاؤں مگر موقع نہ مل سکا اسی
حالت ميں، ميں نے دیکها کہ حضرت صاحب الامر - اندر تشریف فرما ہيں دیکهتے ہی ميرے دل
نے فریاد کی حضرت باہر تشریف لے آئے اور ميرا ہاته پکڑ کر اس طرح داخل کردیا کہ کسی نے
مجه کو نہ دیکها اس کے بعد جو ميں نے نظر کی تو حضرت کو نہ پایا اور ان کی جدائی کی
حسرت ميں متحير رہ گيا۔
مولف کہتے ہيں:حضرت سے استغاثہ و فریاد کرنا اور انہيں یا ابا صالح -کہہ کر پکارنا بہت
زیادہ مجرّب ہے ليکن یہ عمل صرف صحرا ميں گم ہونے سے مخصوص نہيں ہے بلکہ ہم سب ہر
حالت ميں گمراہی ميں ہيں اور دین ميں گمراہی کا پایا جانا راستے کی گمراہی سے بدتر ہے
کيوں کہ دین ميں گمراہی کا ہونا دائمی ہے برخلاف راستے ميں گمراہی کے کہ اس کا زمانہ
مختصر ہے ممکن ہے کہ وہاں چند لمحات کے بعد راستہ مل جائے۔
٧۵٨ ۔ “ وَفی کمال الدّین للصدوق عليہ الرحمة: حَدثنا مُحمد بن مُحمد بن حِصام الکُليني
قالَ حَدثَنا محمّد بن یَعقوب الکُلينی عَن اِسحاق بن یَعقوب قال سَاٴلت محمّد بن عُثمان الُعمری
اَن یُوصِل لی کِتاباَ قَد سَاٴلت فيہ عَن مَسائلَ اشکلَت عَلیّ فَوردَت فی التَوقيع بِخَط مَولانا
صاحِب الزّمان عليہ السلام امّا سَاٴلت عَنہ اَرشدکَ اللّٰہ وَثَبّتکَ مِن اَمر المُنکرین لی مِن اَهل بَيتَنا
وَبَنی عَمّنا فَلم اَنّہ لَيس بَينَ اللہِّٰ عزّوجلّ وَبَين اَحدٍ قرابَة، وَمَن اَنکَرنی فَليسَ مِنّی وَسَبيلہُ سَبيل
ابن نُوحٍ عليہ السلام
اَمّا سَبيلُ عَمّی جَعفر وَ وَلدہ فَسَبيل اخوَةِ یُوسُف عليہ السلام
اَمّا الفُقاعُ فَشرُبُہ حَرامٌ، وَلا بَاء بالشّلماب ( ١) وَامّا اَموالُکم فَلا نَقبلها الاّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شلماب: ایک شربت جو شليم (شلغم) سے بنتا ہے کہ وہی زوان ہے جو گندم ميں ہوتا ہے۔ (
لِتُطَهّروا فَمن شٰاء فَليَصل وَمَن شٰاء فَليَقطع فَما آتانی اللّٰہ خَير ممّا اٰتاکُم
وَامّا ظُهور الفَرج فانّہ الی اللّٰہِ تَعالیٰ ذِکرُہُ وَکَذِب الوقاتُونُ
وَاٴمّا قَولُ مَن زَعم انّ الحُسين عليہ السلام لَم تُقتل فکُفرٌ وَتکذیب وَضلال
وَاٴمّا الَحوادِث الوَاقعةِ فَارجعوا اِلی رَواہ حَدیثَنا فَانّهم حُجتی عَليکُم وَانا حُجة اللہِّٰ عَليهِم
وَاٴمّا مُحمد بن عُثمان العَمری وَعَن اَبيہ مِن قَبل فانّہ ثِقَتی وَکتابُہ کِتابی
وَاٴمّا مُحمد بن عَلی بن مَهزیار الاٴهوازی فَسيُصلح اللّٰہ لہُ قَلبَہ وَیَزیلَ عَنہ شکُّہ
وَاٴمّا اٰ م وَصلت اٰن بِہ فَلا قَبول عِندنَا الاّ لِما طٰاب وَطَهَر ، وَثَمن المُغنيةِ حَ اٰرم
وَاٴمّا مُحمد بن شاذان بن نَعيم فَهو رَجل مِن شِيعتِنا اَهل البَيت
وَاٴمّا ابو الخطّاب مُحمّد بن ابی زَینب الاٴجدع فَملعونُ وَاَصحابہ مَلعونون فَلاٰ تُجالس اَهل
مَقالَتِهم فانّی مِنهم بریٴ وَآبائی عَليهم السلام مِنهم بُرآء
وَاٴمّا المُتلَبسون بِاٴموالِنا فَمن استَحَل مِنها شَيئا فَاَکَلُہ فَانّما یَاٴکل النّيران
وَاٴمّا الخُمسُ فَقد اُبيح لِشيعَتِنا وَجَلعوا مِنہ فی حلٍ الیٰ وَقت ظُهور امرِنا لِتيطيبَ وِلادتَهم
ولاَ تَخبث
وَاٴمّا نِدامَة قوم قَد شَکوا فی دین اللّٰہ عزّوجلّ علیٰ ما وَصلونا بِہ فَقد اٴقَلَنا مِن استَقالَ وَلا
حاجَة فی صِلَة الشَّاکينَ
وَاٴمّا عِلة مٰا رَفع مِن الغَيبةِ فَانّ اللّٰہَ عزّوجلّ یقول: یا ایّها الَّذینَ آمَنوا لا تَسئلوا عَن اٴشياءَ
اِن تُبدلکم تَسوٴکُم ، انّہ لَم یَکن لاحد مِن آبائی عليہم السلام الا وَقَد وَقَعت فی عُنقہ بَيعةٌ
لِطاغِيَة زَمانِہِ وَاني اَخرجُ حينَ اَخرج وَلا بَيعَة لاحدٍ مِن الطّواغيتِ فی عُنقي
وَاٴمّا وَجہ الانتفاعِ بي في غَيبَتني فکالانتفاعِ بالشّمس اذا غَيبتَها عَن الابصارِ السّحابِ وَ
انی الاٴمان لاٴهل الارضِ کما انّ النّجومُ امانٌ لا هلِ السّماءِ ، فَاغلقوا باب السُؤال عَمّا لا یُعنيکُم
وَلا تَتکلَفوا عِلم ما قَد کَفيتُم وَاکثَروا الدّعآء بِتعجيلِ الفَرجِ فَان ذلِک فَرجَکم وَالسّلام عَليک یا
) اِسحاق بن یَعقوب وَعَلی من اتّبع الهُدیٰ ” ( ١
شيخ صدوق عليہ الرحمہ اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته اسحاق ابن یعقوب سے نقل
کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے: ميں نے محمد ابن عثمان عمری امام زمانہ - کے دوسرے نائب
خاص سے درخواست کی کہ وہ ميرا ایک خط جس ميں بہت سے مشکل مسائل درج ہيں
ميرے مولا تک پہنچا دیں تو حضرت صاحب الزمان - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے دستِ
مبارک کی لکهی ہوئی یہ تحریری توقيع ميرے پاس آئی۔
الله تمہيں ہدایت پر قائم رکهے تم نے ان لوگوں کے متعلق دریافت کيا ہے جو ہمارے اہل
خاندان ميں سے ہيں اور ميرے بنی اعمام (چچيرے بهائی) ہيں۔ تو واضح ہو کہ: الله تعالیٰ کی
کسی شخص سے کوئی قرابت نہيں ہے۔ جو بهی ہم سے انکار کرے وہ ہم سے نہيں ہے اور
اُس کا حشر بهی وہی ہوگا جو پسر نوح کا ہوا تها۔ اب رہ گيا ميرے چچا جعفر اور اُن کی اولاد
کا معاملہ تو اُن کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے، جيسے بردرانِ یوسف - کا معاملہ۔ جو کی شراب
حرام ہے۔ آبِ شلغم ميں کوئی حرج نہيں ہے۔ ہم تم لوگوں کے بهيجے ہوئے اموال صرف اِس ليے
قبول کرليتے ہيں تاکہ تم لوگ پاک و طاہر ہوجاؤ۔ اب جس کا دل چاہے بهيجے اور جس کا دل
چاہے نہ بهيجے۔ جو کچه بهی تم لوگ بهيجتے ہو اُس سے کہيں بہتر و زائد وہ ہے جو الله نے
ہميں عطا فرمایا ہے۔ اور رہا ظہور فرج کا سوال تو یہ الله کے اختيار ميں ہے اس کا وقت معين
کرنے والے جهوڻے ہيں۔
اور کسی شخص کا یہ کہنا کہ امام حسين - قتل نہيں ہوئے۔ یہ کفر و تکذیب اور
گمراہی ہے۔ اور حوادثِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴٨٣ ۔ (
واقعات (احکام وغيرہ ميں مختلف جدید مسائل) کے بارے ميں یہ ہے کہ ہماری احادیث کے
راویوں سے رجوع کيا کرو وہ لوگ تم پر ہماری طرف سے حجّت ہيں اور ہم اُن لوگوں پر (راویوں پر)
حجّت ہيں
اور محمد ابن عثمان عمری رضی الله عنہ اور اُن سے پہلے اُن کے والد ہمارے ثقہ (با بهروسہ)
ہيں اور اُن کی تحریر ہماری تحریر ہے۔ (یعنی جو کچه کہيں یا لکهيں ميری تائيد شامل ہے(
اور محمد ابن علی بن مہزیار اہوازی ، تو الله تعالیٰ عنقریب اُس کے قلب کی اصلاح
کردے گا۔ اور اس کا شک بهی دور ہوجائے گا۔
اور جو چيز مال دنيا ميں سے ہمارے پاس بهيجی گئی ہے تو ہمارے یہاں وہی چيز قبول
ہے جو طيّب و طاہر ہو۔ اور گانا گانے والی کی اُجرت حرام ہے۔ یعنی گانا گانے والی کنيزیں اگر
فروخت کی جائيں ان کی جو بهی قيمت دستياب ہوگی وہ حرام ہے۔
اور محمد ابن شاذان ابن نعيم یہ ہم اہل بيت کے شيعوں کی ایک فرد ہے۔ اور ابو الخطاب
محمد ابن زینب اجدع، تو وہ ملعون اور اس کے اصحاب بهی ملعونوں ميں سے ہيں ان لوگوں کی
صحبت ميں نہ بيڻهو ہم بهی ان لوگوں سے براٴت و بيزاری کرتے ہيں اور ہمارے آبائے کرام بهی
ان لوگوں سے براٴت کرتے تهے۔ اور جو لوگ ہمارے اموال سے متعلق ہيں تو جو شخص اس ميں
سے ذرا سی چيز بهی اپنے ليے حلال کرلے، اور اسے کهائے تو سمجه لو کہ آگ کهاتا ہے۔
اوررہا خمس، تو یہ ميں اپنے شيعوں کے ليے مباح کرتا ہوں اور ہمارے ظہورِ امر تک ان
کے ليے حلال ہے تاکہ ان کی ولادت پاک وپاکيزہ رہے اور گندی نہ ہو۔
اور وہ گروہ جسے دینِ خدا ميں شک ہے اور وہ اپنے بهيجے ہوئے مال پر نادم ہيں تو جو
واپس لينا چاہے واپس لے لے ہميں شک کرنے والے گروہ کے مال کی ضرورت نہيں ہے۔
اور یہ سوال کہ غيبت کيوں واقع ہوئی تو الله تعالیٰ کا ارشاد ہے “اے اہل ایمان! ایسی
باتيں نہ پوچها کرو کہ اگر وہ تمہيں بتادی جائيں تو تم کو برا معلوم ہو”۔ (مائدہ، آیت ١٠١ ) سنو!
بے شک ہمارے آبائے کرام ميں سے کوئی ایسا نہيں ہے جس پر ان کے زمانے کے ظالم کی
بادشاہت نہ رہی ہو۔ لہٰذا یہ غيبت اس ليے ہے کہ جب ميں ظہور کروں گا تو مجه پر کسی
طاغوت و ظالم کی بادشاہت باقی نہ رہے۔
اور یہ سوال کہ زمانہٴ غيبت ميں مجه سے انتفاع (نفع و فائدہ حاصل کرنے) کی صورت
کيا ہے تو یہ انتفاع و نفع ویسا ہی ہے جيسے آفتاب بادلوں ميں چهپا ہوتا ہے اور لوگ اس سے
نفع اڻهاتے ہيں۔ ميں اہل زمين کے ليے اسی طرح امان ہوں جس طرح ستارے اہل آسمان کے
ليے امان ہيں۔ لہٰذا ایسے سوالات کے دروازے بند کرو جس سے تمہيں کوئی مطلب نہيں۔ اور
وہ بات معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو جس کی تمہيں ضرورت نہيں۔ اور تعجيل فرج کے ليے
زیادہ سے زیادہ دعا کرو کيونکہ اس ميں تمہاری کشادگی ہے۔ اے اسحاق ابن یعقوب! تم پر
سلام اور ان لوگوں پر بهی سلام ہو جو راہِ ہدایت پر گامزن ہيں۔
اللّٰهم عجل فرجہ الشریف وجعلنا من اعوانہ وانصارہ وشيعتہ المستشهدین بين یدیہ آمين
خدایا! ان کے مبارک ظہور ميں تعجيل فرما اورہميں ان کے اعوان و انصار اور شيعوں ميں
قرار دے نيز ان کے سامنے شہادت پانے والوں ميں قرار دے۔ آمين۔
|
|