|
٣۶ ۔ ہادی
٣۶ ۔ اَلقُرآنُ هُوَ الهٰادی الّذی لا یَضِلُّ:
وَکَذلِکَ الحجة المنتظر عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف
قرآن کریم ایسا ہدایت کرنے والا ہے کہ جو شخص ہدایت کا طالب ہے اسے گمراہ نہيں
کرسکتا۔
اسی طرح امام زمانہ - ہيں جو شخص طالب ہدایت ہے اسے ہدایت فرمائيں گے۔
٧٢٩ ۔ “وَفی الکافی باسنادہ : عَن طَلحہ بن زید عَن اَبی عَبد اللّٰہ عليہ السلام : قال اَنّ
هٰذا القرآن فيہِ مَ اٰنرُ الهُد یٰ وَ مَصابيحُ الدُّج یٰ فَليَْجلُْ جالٍ بَصَرہُ وَیَفتَحُ لِلضياءَ نَظَرَہُ فَانَ التّفکرَ حَياةٌ
) قَلبِ البَصير کَما یَمشی المُستَنيرُ فی الظُّلُماتِ بِالنُّورِ ” ( ١
مزید اسی کتاب ميں طلحہ ابن زید نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ
حضرت - نے فرمایا: یقينا اس قرآن ميں ہدایت و سعادت کے روشن منارے ہيں تاریکی اور اسے
ختم کرنے کے ليے چراغ ہيں۔
)بہت بجا اور مناسب ہے) جو افراد اس جادہ مستقيم اور پُر نور راہ ميں کہ جس ميں
ہدایت و سعادت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢٨ ۔ بحار الانوار، ج ٧۴ ، ص ١٣۵ ۔ (
کی علامات پائی جاتی ہيں وہ بصيرت اور چشم دل کو کهول کر تمام غورو فکر کے ساته اس
راستہ کو طے کریں، جس طرح تاریک شب ميں چلنے والے روشنی سے استفادہ کرکے خود کو
ظلمت کے حوادث اور نشيب و فراز سے محفوظ رکهتے ہيں عميق غور وفکر سے قرآن مجيد کی
رہنمائيوں سے صاحب بصيرت افراد کے دلوں کو تازہ روح ملتی ہے اور اس کے گراں قدر مطالب
سے استفادہ کرتے ہيں۔
>إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًْا
) کَبِيرًا > ( ١
الله تعالیٰ فرماتا ہے: بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے
اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نيک اعمال بجا لاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر
ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول <یهدی للتی هی اقوم> ( ٢) یعنی اس دیانت اور ملت کی طرف
ہدایت کرتا ہے کہ جس کا راستہ زیادہ استوار اور با استقامت ہے اور کہا گيا ہے کہ ایسے کلمہ
کی طرف ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ صحيح اور مناسب کلمات ميں سے ہے اور اس سے
مراد کلمہٴ توحيد ہے۔ اور کہا گيا ہے کہ ہدایت کرتا ہے ایسی حالت کی طرف جو مناسب ترین
حالات ہيں اور وہ وحدانيت خدا، انبياء ، رسول اور اطاعتِ الٰہی پر اعتقاد رکهنا ہے۔
٧٣٠ ۔ “ وَفی الکافی باسنادہ عَن العلاء بن سيّابہ عَن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی
) قَولہ تعالیٰ<انّ هذا القُرآنَ یَهدی للّتی هی اقوم > قال یَهدي الی الامام ” ( ٣
کافی ميں کلينی اپنی سند کے ساته علاء این سيّابہ سے نقل کرتے ہيں کہ امام صادق
- فرماتے ہيں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩٨ ، ای “ای للملة التی هی اقوم الملل واالطریقة التی هی اقوم الطریق (
واول فی الخبر بالامام لانہ الهادی الی تلک الملة والمبين لتلک الطریقة والداعی اليها ” حاشيہٴ
کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔
٣(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ اس سے مراد امام معصوم - ہے جو
تمام ملتوں اور فرقوں کو قرآن کی طرف ہدایت کرنے والا ہے اس کے احکام و قوانين اور مطالب
کو واضح طور پر بيان کرنے والا ہے نيز اس کی معرفت اور عمل کرنے کی دعوت دینے والا ہے۔
) ٧٣١ ۔ “ وعن الباقر عليہ السلام یهدي الی الولایة” ( ١
امام محمد باقر - نے فرمایا: یعنی (قرآن) ولایت کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
٧٣٢ ۔ “ وَفی المعانی عَن الصادق عَن ابيہ عن جدّہ السّجاد عليہم السلام (قال) اَلا اٰ ممُ
مِنّا لا یَکُون الاّ مَعصوماً وَلَيست العِصمَةُ فی ظاہِرِ الخِلقَةِ فَيُعرَْفُ بِها وَ لِذلِک لا یَکون الاَّ مَنصُوصاً
فَقيلَ ما مَعْنٰی المَعصُومُ قالَ هُو المُعتَصم بِحَبل اللّٰہ وَحَبل اللّٰہ هُو القُرآن وَالقُرآن یَهدي الامامَ
) وَذلک قَولُ اللّٰہ عزّوجلّ انّ هذا القُرآنَ یَهدی لِلَتي هِی اَقَومُ ” ( ٢
لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت
ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا وجود خارجی پایا جاتا ہے اور وہ خلقت انسانی کے ظاہر سے
نمایاں اور پہچانی جائے۔ لہٰذا اسے الله تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔
کہا گيا: اے رسول خدا (ص)! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا
ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو
بالکل سيدها ہے” ۔
٧٣٣ ۔ “ وَفی الکافی : احمد بن مهران عَن عَبد العظيم بن عَبد اللّٰہ الحسنی عن موسیٰ
بن محمّد عن مونس بن یعقوب عمن ذکرہ عَن ابی جعفر عليہ السلام فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
٢(۔ تفسير صافی، ج ٣، ص ١٨٠ ۔ (
قول تعالیٰ <وَاَن لَو استَقامُوا عَلی الطّریقَة لا سيقَناهُم اٰ مءً غَدَقاً > ، قال یَعنی لَو استَقامُوا علَی
وِلایَة عَلی بن اَبی طالب اَمير الموٴمنين وَالاوصيآء مِن وُلدِہِ عليہم السلام وقَبِلوا طاعَتَهم فی
امَرهم وَنَهيهِم لا سقَينٰاهُم مٰاءَ غَدَقاً یَقوُل لا شرَبنا قُلوبَهُم الایمٰان وَالطّریقَة هی الایمٰانَ بِولایَة
) علي وَالاوصيٰآء عليہم السلام ” ( ١
کافی ميں احمد ابن مہران، عبد العظيم ابن عبد الله الحسنی، موسی ابن محمد، مونس
ابن یعقوب وغيرہ نے نقل کيا ہے کہ حضرت امام محمد باقر - نے آیہٴ کریمہ <ان لو استقاموا
علی الطریقة> (اگر وہ گروہ والے طریقہٴ حق پر قائم رہيں گے تو ہم ان کو بہت زیادہ پانی سے
سيراب کریں گے) کے متعلق فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ ولایت علی - اور ان کے
اوصياء کے راستہ پر قائم رہيں گے اور ان کی امر و نہی ميں اطاعت قبول کریں گے تو البتہ ہم ان
کو (روز قيامت) بہت زیادہ پانی سے سيراب کریں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے دلوں کو
ایمان سے بهر دیں گے اور طریقہ سے مراد ولایت امير المومنين - اور ان کے اوصياء پر ایمان
لانا ہے۔
٧٣۴ ۔ “ وَفيہ باسنادہ عَن جابر الجعفی عَن ابی جعفر عليہ السلام قال قال رسول اللّٰہ
(ص) مَن سَرّہُ اَن یُحيی حَياتی وَیَموت مَيتَتی وَیَدخُلَ الجنةْ الّتی وَعَد فيها وَلّی وَیَتَمَسَّک بِقضيبٍ
غَرسَہ رَبّی بيَدہِ فَلَيتوَلّ عَلی بن اَبی طالب عليہ السلام واَوصيائہ مِن بَعدہ فاِنّهم لایَدخلُونکم
فی باب ضَلالٍ وَلا یخرجُونکم مِن باب هُدی فَلا تُعلموهُم فانهم اَعلَم مِنکم وَانّی سَاٴلتُ رَبّی اَلاَّ
یُفرقَ بَينهم وَبَين الکتابَ حَتّی یَردا عَلیّ الحَوض هکذا وَضَمّ بَين اصبَعِيہ وَعَرضُہ مابَين صَنعآء الیٰ
) اَیلہ فيہ قد حانِ فِضَة وَذهبَ عَدَد النّجوم” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢٢٠ ، ص ۴١٩ ۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ۴۴٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢۴ ، ص (
١٠١ ۔
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢٠٩ ۔ (
اسی کتاب ميں بطور مسند جابر جعفی نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ
رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو اس بات کا طالب ہے کہ ميری جيسی زندگی بسر کرے اور
ميری جيسی موت واقع ہو اور اس جنت ميں داخل ہو جس کا وعدہ ميرے رب نے مجه سے کيا
ہے اور اس شاخ سے تمسک اختيار کرے جس کو الله تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے لگایا ہے
تو اس کو چاہيے کہ علی(عليہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے اوصياء سے محبت کرے وہ تم
کو ضلالت کے دروازہ سے داخل نہيں کریں گے اور کسی بهی دروازہٴ ہدایت سے خارج نہ ہونے
دیں گے تم ان کو تعليم نہ دینا وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہيں اور ميں نے اپنے رب سے
درخواست کی ہے کہ ان کے اور قرآن کے درميان جدائی نہ ڈالے یہاں تک کہ وہ دونوں حوض
کوثر پر ميرے پاس آئيں گے اس کے بعد آپ نے دونوں انگليوں کو متصل کيا کہ اس طرح باہم آئيں
گے اور فرمایا کہ حوض کوثر کی وسعت اور مسافت صنعا سے ایلہ تک ہے اور اس پر بقدر عدد
نجوم سونے اور چاندی کے پيالے ہوں گے۔
٧٣۵ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن محمْد بن مُسلم قال سَئلت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام عَن قول
اللہٰ عزّوجلّ <الّذینَ قالوا رَبّنا اللّٰہ ثُمّ استقامُوا> الی آخرہ فَقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام استَقاموا
عَلی الائمّة وٰاحدٌ بَعد واحِد تَتَنزّل عَليهم المَلائکة الا تَخافُوا وَلا تَحزَنوا وَابشَروا بالجَنّة التی کُنتُم
) تُوعَدون ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند محمد ابن مسلم سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے
امام جعفر صادق - سے دریافت کيا الله تعالیٰ کے اس قول <الذین قالو ربّنا اللّٰہ ثم استقاموا>
(جن لوگوں نے کہا: ہمارا پروردگار الله ہے پهر اس پر ثابت قدم رہے) کے متعلق تو امام - نے
فرمایا: اس سے مراد ائمہ کی امامت پر یکے بعد دیگرے ایمان لانا اور ثابت قدم رہنا ہے ،
ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢٢٠ ، حدیث ٢۔ (
اور کہتے ہيں: نہ آئندہ کا خوف کرو نہ گزشتہ باتوں کا غم تم کو ہو، اس جنت کی تمہيں بشارت
دی جاتی ہے جس کا تم سے وعدہ کيا گيا ہے۔
ائمہ لوگوں کے ہادی ہيں۔
٧٣۶ ۔ “ و فی الکافی باسنادہ عَن برید العجلی عَن ابی جعفر عليہ السلام فی قول اللّٰہ
عزّوجل( <انّما اَنت مُنذرٌ وَلِکلّ قَوم هادٍ > ، فَقال رَسول اللّٰہ (ص) المنذر وَلِکل زَمانٍ منّا هاد
یَهدیَهُم الیٰ ما جآء بِہ نَبی اللّٰہ (ص) ثُمّ الهُداة مِن بَعدِہِ عَلی عليہ السلام ثُم الاوصِيآء واحدٌ بَعد
) واحدٌ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند برید عجلی سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام
محمد باقر - سے الله تعالیٰ کے اس قول <انّما اَنت مُنذرٌ وَلِکلّ قَوم هادٍ > (آپ یقينا ڈرانے والے
ہيں اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی ہے) کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: رسول خدا (ص) ڈرانے
والے ہيں اور ہر زمانے ميں ہم اہل بيت ميں سے ایک ہادی ہے جو لوگوں کو ان چيزوں کی طرف
ہدایت کرتا ہے جسے نبیِ خدا لے کر آئے ہيں حضرت رسول خدا (ص) کے بعد ہادی خلق
حضرت علی - ہيں اور ان کے بعد اوصياء ميں سے ایک کے بعد دوسرا ہے۔
٧٣٧ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن الفضل قال سَئلت ابا عَبد اللّٰہ عليہ السلام عَن قول اللّٰہ عزّوجلّ
) وَلِکُل قَوم ہٰادٍ ؟ فَقال کُل امٰامٍ هادٍ لِلقَرن الّذی هُو فيهِم ” ( ٢
فضل کا بيان ہے: امام جعفر صادق - سے الله تعالیٰ کے اس قول: “ہر قوم کے ليے ایک
ہادی ہے” کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: ہر امام اپنے زمانے والوں کے ليے ہادی ہوتا ہے یعنی
اپنے زمانے والوں کا رہبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩١ ۔ (
٢(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١٩١ ۔ (
٧٣٨ ۔ “ وَفيہ باسنادہ عَن اَبی بَصير قال قُلت لا بی عبد اللّٰہ عليہ السلام اِنّما اَنت مُنذِرٌ
وَلِکُل قَومٍ هٰادٍ؟ فَقال رَسول اللّٰہ (ص) المُنذِر عَلي عليہ السلام الهادِی یا اَبا مُحمد هَل مِن هادِ
الَيوم ؟ قُلت بَلی جُعِلتُ فَداکَ مازالَ مِنکُم هاد بَعد هادٍ حَتی دُفعت الَيکَ فَقال رَحمکَ اللّٰہ یا اَبا
مُحمد لَو کانت اذا نَزلَت ایةٌ عَلی رَجل ثمّ ماتَ ذلک الرّجل ماتَت الایةُ ماتَ الکِتاب وَلٰکنّہ حَی یَجري
) فيمَن بَقَی کَما جَر یٰ فيمَن مَض یٰ” ( ١
ابو بصير کا بيان ہے: ميں نے امام جعفرصادق - سے آیہٴ کریمہ <انّمٰا اَنت مُنذرٌ وَلِکلّ
قَوم هادٍ > (یقينا آپ ڈرانے والے ہيں اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی ہے) کے متعلق دریافت کيا
فرمایا: رسول الله (ص) ڈرانے والے ہيں اور علی - ہادی و رہبر ہيں اے ابو محمد! بتاؤ اس زمانہ
ميں بهی کوئی ہادی ہے؟ ميں نے کہا: ميں آپ پر فدا ہوں آپ کے گهرانے ميں سے ہر زمانے
ميں ایک کے بعد دوسرا ہادی رہا ہے۔ فرمایا: اے ابو محمد: الله تم پر رحمت نازل کرے اگر آیت
کسی منزل پر نازل ہوئی پهر یہ شخص مرجائے (اور اس کے بعد کوئی ہادی نہ ہو) تو یہ آیت
(متشابہ) بهی مرجائے گی اور وہ کتاب بهی (کيونکہ آیات متشابهات کی تاویل کرنے والاکوئی
نہ ہوگا) ليکن وہ زندہ رہتا ہے اور وہ قرآن ہميشہ گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ زندہ رہنے والوں پر
منطبق ہوگا۔
٧٣٩ ۔ “ وَفيہ باسنادہ عَن عَبد الرحيم القَصير عَن ابی جَعفر عليہ السلام فی قَول اللّٰہ
تَبارک و تَعالیٰ <اِنّمٰا اَنت مُنذٌر وَلِکل قَوم هاد > فَقال رَسول اللّٰہ (ص) المنذِرُ و علی الهادی اَمّا
) وَاللّٰہ ما ذَهبَت مِنّا وَما زالَت فينا الی السّاعَةِ ” ( ٢
عبد الرحيم قصير کا بيان ہے: ميں نے آیہٴ کریمہ (یقينا آپ ڈرانے والے ہيں اور ہر قوم کے
ليے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١٩٢ ۔ (
٢(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١٩٢ ۔ (
ایک ہادی ہے) کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: رسول خدا (ص) ڈرانے والے ہيں اور علی - رہبر
ہيں جان لو کہ خدا کی قسم! ہمارے خانوادے سے امر ہدایت کبهی بهی کہيں اور صبح قيامت
تک جانے والا نہيں ہے۔
انّ الائمّة عليہم السلام نور اللّٰہ عزّوجلّ
یقينا ائمہ خداوند متعال کے نور ہيں۔
٧۴٠ ۔ “فی الکافی باسنادہ عَن ابی خالد الکابلی قال سَاٴلت اَبا جَعفر عليہ السلام عَن
قول اللّٰہ عزّوجلّ فَآمنُوا بِاللّٰہِ وَرَسولہ والنّورُ الّذی اَنزلنا ”فَقال یا ابا خالد : اَلنّور وَاللّٰہ الائِمة مِن آل
مُحمد عليہ السلام الیٰ یَوم القِيمَة وَهُم واللّٰہ نُور اللّٰہ الّذی اَنزلَ وَهُم وَاللّٰہ نورُ اللّٰہ فی السّمواتِ
وَفی الارض وَاللّٰہ یا اَبا خالدٍ النَور الامام فی قُلوب الموٴمنين اَنوَر مِن الشّمس المُضيئة بالنهارِ وهم
وَاللّٰہ یُنورونَ قُلوبَهم الموٴمنين ، وَیَحجَب اللّٰہ عزّوجلّ نُورَهم عَمّن یَشآء فَتظلَم قُلوبَهم وَاللّٰہ یا ابَا
خالد لا یُحبنا عَبدٌ وَ یَتولانا حَتّی یُطهر اللّٰہ قَلبَہ وَلا یُطهر اللّٰہ قَلب عَبدٍ حَتّی یسلم لَنا وَ یَکون
سِلماً لَنا فَاذا کانَ مُسلماً لنا سلّمہ اللّٰہ مِن شدید الحِسابِ وَامَنَہ مِن فَز ع یَوم القيامَة الاکبر ”
)١)
اصول کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته ابو خالد کابلی سے انہوں
نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: اے ابو خالد! خدا کی قسم! نور
امام قلوب مومنين ميں ہے وہ نصف النہار کے سورج سے زیادہ روشن ہوتا ہے اور وہ (ائمہ) قلوب
مومنين کو منور کرتے رہتے ہيں اور الله تعالیٰ ان کے نور کو جس سے چاہتا ہے چهپاتا ہے تو ان
کے قلوب تاریک ہوجاتے ہيں خدا کی قسم! اے ابو خالد! ہم سے کوئی بندہ محبت نہيں کرتا اور
نہ ہی ہم کو دوست رکهتا ہے مگر یہ کہ الله اس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ج ١، ص ١٩۴ ۔ (
قلب کو پاک و پاکيزہ کرتا ہے اور کسی بندہ کا دل پاک نہيں کرتا جب تک وہ ہم کو تسليم نہ
کرے اور ہم سے صلح و مصالحت سے پيش نہ آئے لہٰذا جب وہ ہم سے صلح و مصالحت سے
پيش آتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو قيامت کے دن سخت حساب اور عظيم خوف سے محفوظ رکهتا
ہے۔
٧۴١ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَن محمّد بن الفُضيلی عَن ابی الحسن عليہ السلام : قال سَئلتُہُ
عَن قول اللّٰہ تَبارک وَ تعالیٰ <یُریدونَ لِيَطفَؤا نُور اللہّٰ بِاٴفواهِهِم > قال یُریدونَ لِيَطفَؤا وِلایة اَمير
الموٴمنين عليہ السلام بِاٴفوٰاهِهِم ، قُلتُ قولہ تعالیٰ <وَاللّٰہ متم نورِہ > قال یَقول وَاللّٰہ متمُ
الامامَة وَالامامَة هِی النّور وَذلک قَولہ عزّوجلّ< آمِنوا باللّٰہ وَرَسولِہ وَالنّور الّذی اَنزَلنا > قال النّور هُو
) الا مٰامُ ” ( ١
محمد ابن فضيل کا بيان ہے: ميں نے ابو الحسن امام رضا - سے آیہٴ کریمہ (وہ چاہتے
ہيں کہ نور خدا کو اپنی پهونکوں سے بجها دیں) کے متعلق دریافت کيا فرمایا: یعنی وہ چاہتے
ہيں کہ ولایت امير المومنين - کو اپنی پهونکوں سے خاموش کردیں۔ پهر ميں نے دریافت کيا کہ
اس آیت (خدا اپنے نور کو تمام کرنے والا ہے) کا کيا مطلب ہے؟ فرمایا: وہ کہتا ہے کہ الله امامت
کا تمام نور تمام اور مکمل کرنے والا ہے امامت نور ہے اور ایسا ہی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر
فرماتا ہے: “الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر جو ہم نے نازل کيا ہے” فرمایا: یہاں
نور سے مراد امام ہے۔
٧۴٢ ۔ “عَن صالح بن سَهل الهَمدانی قال: قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قَول اللّٰہ
تَعال یٰ <اللّٰہُ نُورُ السّمواتِ وَالارضِ مَثل نُورِہ کَمشکاةٍ > فاطمة عليہا السلام <فيها مِصباحٌ>
الحَسن “المصباحُ فی زُجاجَة”الحُسين <الزّجاجَة کاٴنّها کَوکب دُریّ > فاطِمة کَوکبٌ دُری بَين
نِساءَ اهل الدّنيا <یُوقَد مِن سَجَرة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ج ١، ص ١٩۶ ۔ (
مُبارَکة> ابراہيم عليہ السلام <زَیتُونَةٍ لا شَرقيةٍ ولا غَربيّة > لا یَهودیّة وَلا نَصرانيةٍ <یَکاد زَیتُها
یضی>یَکاد العِلم یَتفَجر بِها<وَلَو لم تَمسَسہ نارٌ نُورٌ علیٰ نُورٍ> امامُ مِنها بَعد اِمام <یَهدی اللّٰہ
لنورہ مَن یَشاءُ > یَهدی الاٴئمِة مَن یَشاء <وَیَضرب اللہّٰ الامثالَ لِلناسِ > قلت اَو کَظلماتٍ قالَ:
الاولَ وَصاحبُہ وَیَغشاہ مَوج الثالث مِن فَوقہ موجٌ ظُلماتُ الثانی بَعضها فَوق بَعض : مُعاویَة لَعنہ اللّٰہ
وَفِتَن بَنی امَية اذٰا خَرج یَدہ المُوٴمن فی ظُلمة فِتنتَهم لَم یَکد یَراها وَمَن لَم یَجعل اللّٰہ لَہ نُوراً اِماماً
مِن وُلد فاطمة فَمالَہ مِن نور اِمام یَوم القِيامة ، وَقال فی قولہ یَسعی نُورَهم بَين اَیدیهم وَبِایمٰانِهم
اَئمة الموٴمنين یَومَ القيٰمةِ تَسعی بَين یَدی الموٴمنينَ وَ بایمانِهم حَتی یُنزلُوهُم مَنازل اَهل الجنّة
)١) ”
صالح ابن سہل ہمدانی کا بيان ہے:حضرت امام جعفر صادق - نے سورئہ مبارکہ نور کی
آیت نمبر ٣۵ جو آیہٴ نور سے مشہور ہے اس کی تاویل ميں یوں فرمایا: الله زمين اور آسمان کا
نور ہے (ان کا چراغ دان ہے) اس کے نور کی مثال ایک فانوس کی ہے اور وہ فانوس فاطمہ =
ہيں کہ اس فانوس ميں ایک چراغ اور وہ چراغ امام حسن - ہيں اور چراغ شيشے ميں ہے اور وہ
شيشہ امام حسين - ہيں اور شيشے کا چراغ ایک درخشاں ستارے کی طرح ہے اور وہ تمام
کائنات کی عورتوں کے درميان درخشاں ستارہ فاطمہ ہيں ، اور وہ چراغ روشن ہے شجر مبارکہ
ابراہيم سے۔ تيل اس چراغ کا زیتون ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی (نہ مشرقی ہے نہ مغربی) نہ
یہودی ہے نہ نصرانی اس کا روغن روشن ہے یعنی قریب ہے کہ علم اس سے پهوٹ پڑے اور
اگرچہ آگ مس نہ کرے تب بهی نورٌ علیٰ نور ہے یعنی امام کے بعد امام، خدا جس کی چاہتا ہے
اس نور سے ہدایت کرتا ہے۔ یعنی ائمہ کے ذریعے، اور الله ایسی ہی مثاليں بيان کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير نور الثقلين، ج ٣، ص ۶٠٢ ۔ (
ہمدانی کا بيان ہے: ميں نے عرض کيا: (ان کلمات کی تاویل بيان فرمائيں ) (یا تاریکيوں جيسے
سے کيا مراد ہے؟) فرمایا: اول اس کا صاحب ہے کہ جس کو موج نے ڈهانپ ليا ثالث نے، تاریک
موجيں ایک دوسرے پر چڑهی ہوئی ہيں اور وہ معاویہ لعنة الله عليہ اور بنی اميہ کے فتنے ہيں
کيوں کہ جب کوئی مومن اپن ہاته کو اس فتنے کی تاریکی ميں باہر نکالتا ہے تو اسے نہيں
دیکهتا (بنی اميہ کے جرائم اور فتنے مومنين کو اپنی لپيٹ ميں ليے ہوئے ہيں اور انہيں حيران و
سرگردان بنادیا ہے) اور جس کے ليے الله نے کوئی نور مقرر نہيں فرمایا سے مراد یہ ہے کہ
جس کو اولاد فاطمہ زہرا = کے نور سے ہدایت نہ ہو اس کے ليے روز قيامت کوئی نور نہ ہوگا اور
ان کا کوئی امام نہ ہوگا۔
اور خداوند متعال کے قول کے متعلق “کہ ان کا نور ان کے سامنے اور داہنی طرف دوڑتا
ہوگا” ( ١) فرمایا: ائمہ مومنين ہيں جن کا نور مومنين کے سامنے اور داہنی طرف دوڑے گا اور وہ
ان کو جنت کی منازل کی طرف لے جائے گا۔
مولف کہتے ہيں کہ: قرآن کریم مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہے محکم و متشابہ، عام
و خاص اور مجمل و مبين وغيرہ من جملہ تنزیل و تاویل ہے۔ تنزیل یا تفسير سے مراد قرآن کا
ظاہری معنی ہے جو بہت سادہ اور روشن ہے یعنی ہر وہ شخص جو قرآنی عربی لغات سے
آشنائی رکهتا اور اسے سمجهتا ہے وہ ترجمہ یا تفسير کرسکتا ہے یعنی اس کے سادے اور
روشن معنی ميں غور و فکر کرے تدبر کرے استنباط کرے اسے تحریر کرے یعنی ایک ظاہری
معنی سے زیادہ احتمال نہيں دیا جاسکتا ہے۔
ليکن تاویل قرآن اس کا باطنی اور مخفی معنی ہے کہ آیہٴ کریمہ <لا یعلم تَاویلَہ الا اللّٰہ وَ
الرّاسخون في العلم> ( ٢) (کہ اس کی تاویل کا علم سوائے الله اور راسخون فی العلم کے کوئی
بهی نہيں جانتا) کی صراحت کی بنا پر ائمہٴ طاہرین سلام الله عليہم اجمعين ہيں کہ قرآن ان
کے گهر ميں نازل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سوئہ یوسف، آیت ٧۵ ۔ (
٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣۔ (
ہوا اور “اهل البيت ادری ما فی البيت” گهر والے گهر کی بات دوسروں سے بہتر جانتے ہيں۔
لہٰذا اس کے متعدد بطون کا سمجهنا پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصيائے کرام کے
مقدس وجود ميں منحصر ہے کہ انہيں وحی و الہام کے ذریعے ان کی تاویلات کی ہدایت کی
گئی ہے۔ لہٰذا ان عظيم ہستيوں سے جو کچه تاویل و تنزیل قرآن کے متعلق صادر ہو بغير کسی
شک و شبہ کے حق، مقبول اور لازم الاتباع ہے۔ متعدد کتابيں تاویلات القرآن کے نام سے مدوّن
و مرتّب ہوئی ہيں جو لوگوں کی دست رس ميں ہيں اور حضرت امام جعفر صادق -کے آیہٴ
کریمہ نور کے متعلق اقوال بيان ہوئے ہيں کہ قرآن کی نمایاں آیات ميں سے ایک آیت وہ بهی ہے
جو قرآن کی ابتکاری و تخليقی تعابير ميں سے ہے اور تاویل قرآن سے مربوط ہے۔
مولف کہتے ہيں: موجودہ کتاب ميں عنوان ، القرآن حی لایموت،( قرآن ہميشہ زندہ رہنے
والا ہے) کے متعلق اجمالی طور پر ہم نے ذکر کيا کہ قرآن ہميشہ تر و تازہ اور قيامت تک جاوداں
ہے اور تمام مخلوقات اور ہر زمانے کے ليے ہے کسی مخصوص زمانے یا ایک خاص شخص سے
مخصوص نہيں ہے ہميشہ زندہ و پائندہ اور باقی ہے اور باقی رہنے والوں پر منطبق ہوتا ہے جس
طرح گزشتہ لوگوں پر منطبق ہوتا تها۔
قرآن مجيد نور ہے اور نور وہی حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کی ولایت ہے
تمام دشمن افراد چاہتے ہيں کہ نورِ ہدایت کو خاموش کریں مگر خداوند تبارک و تعالیٰ باوجودیکہ
وہ لوگ نور خدا کہ جس سے ائمہٴ اطہار مراد ہيں صبح قيامت تک کے ليے تمام اور مکمل
کرنے ولا ہے۔
گزشتہ مطالب کا ماحصل خواہ آیات ہوں یا روایات یہ ہے کہ قرآن کریم حضرت ولی عصر
امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ اور ان کے آباء و اجداد طاہرین سلام الله عليہم اجمعين قرآن کے
شریک اور ایک دوسرے کے لازم و ملزوم تهے اور ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک
کہ حوض کوثر پر وارد ہوں اور حضرت پيغمبر اکرم (ص) کے سامنے حاضر ہوں۔ حشرنا اللّٰہ معهم
انشاء اللّٰہ تعالیٰ انشاء الله تعالیٰ خدا ہميں ان کے ساته محشور فرمائے۔
|
|