٣۵ ۔ احتجاج
٣۵ ۔ “القرآن حجيجٌ و خصيم“
قرآن قيامت کے دن لوگوں کے ساته احتجاج کرے گا۔
٧٠٧ ۔ “ قال مولانا امير الموٴمنين علی ابن ابی طالب عليہ السلام :“کفی بالکتاب حجيجاً
وخصيماً “
مولائے متقيان امير المومنين حضرت علی ابن ابی طالب - فرماتے ہيں: کتاب الٰہی
احتجاج و حضومت کے لحاظ سے قيامت کے دن لوگوں کے معاملے ميں کفایت کرے گی اور وہ
مقدس کتاب (قرآن مجيد) ہے “اِشارَةٌ ال یٰ وُجوب تَعليم القُرآن وَتَعلّمہ وَاکرامِہِ وَحُرمَةِ اِضاعَتِہ
وَاَهانَتِہ“
حضرت کا یہ قول اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ قرآن کریم کی تعليم اور تعلم اس
کا اکرام و احترام واجب ہے اور اس کا ضائع کرنا اور اہانت کرنا حرام ہے۔
”وَکَذلک الحُجة القائِم المُنتَظر عَليہ وَعَلی آبائہ الطّاہرینَ صَلوات اللّٰہ وَسَلامہ“
اسی طرح امام زمانہ - حجّت قائم منتظر - بهی قرآن کی طرح قيامت کے دن احتجاج
فرمائيں گے۔ آیات ميں
جيسے الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلَمَّا جَائَہُم رَسُولٌ مِن عِندِْ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُم نَبَذَ فَرِیقٌ
مِن الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ نَبَذَ فَرِیقٌ مِن الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ کِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُہُورِہِم کَاٴَنَّہُم لاَیَعلَْمُونَ >
)١)
اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے سابق کی (عيسی اور محمد (ص) کی طرح)
کتابوں کی تصدیق کرنے والا تو اہل کتاب کی ایک جماعت نے کتاب خدا (قرآن یا توریت) کو پسِ
پشت ڈال دیا جيسے وہ اسے جانتے ہی نہ ہوں، گویا علمائے یہود جو عہد شکن افراد ہيں نہيں
جانتے کہ وہ کلام الٰہی ہے اور محمد (ص) الله کے رسول ہيں۔
٧٠٨ ۔ صاحب تفسير صافی نے آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں امام جعفر صادق - سے نقل کيا
ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جب یہود اور ان کی پيروی کرنے والے نواصب ميں سے خدا کی
جانب سے وہ کتاب (قرآن) جو محمد و علی عليہما السلام کے اوصاف اور ان کی ولایت کے
واجب ہونے اور ان کے اولياء کی بهی ولایت کے وجوب نيز ان کے دشمنوں سے عداوت پر
مشتمل دیکهی تو ان ميں سے بعض گروہ کتاب خدا کو جو توریت اور تمام انبياء کی کتابيں تهيں
پسِ پشت ڈال دیا، یعنی اس کے حقائق پر عمل نہيں کيا اور نبوت محمدیہ (ص) سے حسد
کی وجہ سے اور وصایت علی - کی خلش سے ان کے فضائل و مناقب کا انکار کردیا کہ جس
کا انہيں علم تها ( ٢) اور رسول کی تفسير کتاب سے ملازمہ کے باب سے ہے۔
اسی ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول ہے: <وَإِذ اٴَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ لَتُبَيِّنُنَّہُ
) لِلنَّاسِ وَلا تَکتُْمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِم وَاشتَْرَواْ بِہِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئسَْ مَا یَشتَْرُونَ> ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٠١ ۔ (
٢(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ١٧٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٨٧ ۔ (
اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد ليا کہ اسے لوگوں کے
ليے بيان کریں گے اور اسے نہيں چهپائيں گے ليکن انہوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور
تهوڑی قيمت پر بيچ دیا تو یہ بہت برا سودا کيا ہے۔
آیہٴ کریمہ اہل کتاب کے برے اعمال کو بيان کر رہی ہے اور اس سے مراد حقائق کا
مخفی کرنا اور اس کی عدم تفسير اور وضاحت نہ کرنا ہے۔ جملہٴ تبيين جو لام قسم اور نون
تاکيد ثقيلہ کے ساته ذکر ہوا ہے اس کی انتہائی تاکيد کو بيان کرتا ہے یعنی خداوند متعال کا
گزشتہ انبياء کے ذریعے بہت زیادہ تاکيد کے ساته حقائق بيان کرنے کا عہد و پيمان لينے کے
بعد بهی ان کی خيانت اس شدید تاکيد کے باوجود سامنے آئی اور انہوں نے آسمانی کتابوں
کے حقائق کو مخفی رکها لہٰذا خداوند متعال فرماتا ہے: <فنبذوہ وراء ظهورهم> یعنی انہوں نے
کتابِ خدا کو پسِ پشت ڈال دیا اس کے علاوہ یہ کہ خود انہوں نے عمل نہيں کيا اسے
فراموشی کی نذر کردیا۔ اور اس کام کے ساته انہوں نے مختصر ناچيز قيمت حاصل کی تو یہ کيا
برا معاملہ کيا ہے۔
وہ لوگ اس عظيم خيانت (کتمان حقائق) کے ساته نہ صرف یہ کہ بہت بڑی دولت نہ
حاصل کرسکے تاکہ یہ کہا جاسکے کہ مال و دولت کی عظمت نے ان کے کان اور آنکه کو اندها
کردیا بلکہ ان سب نے بہت کم قيمت پر اسے فروخت کر دیا۔
آیہٴ کریمہ اگرچہ اہل کتاب یہودو نصاریٰ کے حق ميں نازل ہوئی مگر علمی اصطلاح ميں
(مورد مخصص) نہيں ہوگا یعنی ایک ہی مقام سے مخصوص نہيں ہوگا بلکہ تمام مذہبی علماء
اور دانشوروں پر مشتمل ہوگا کہ کہيں ایسا نہ ہو کہ دینی حقائق اور الٰہی معارف و احکام کو
واضح طور پر بيان کرنے ميں کوتاہی کریں۔
علم کا ان کے اہل سے مخفی رکهنے کی سزا
٧٠٩ ۔ “ قال ابو محمّد العسکری عليہ السلام قال قال اميرالموٴمنين عليہ السلام :
سَمعت رَسول اللّٰہ (ص) یَقول مَن سَئل عَن علم فکتمہ حَيث یَجب اظهارَہ وَتَزول عَنہ التَقية جاء
یَوم القيمَة مَلَجَّماً بِلجام مِن النّار
وَقال اَمير الموٴمنينَ عليہ السلام : اذا کَتَم العٰالِمَ العِلم اَهلَہُ وَزَهَی الجٰاهِل فی تَعلّم مٰا
) لابدّ مِنہ وَبَخِلَ الغَنیّ بِمَعروفِہ وبَاع الفَقير دینَہ بِدنيا غَيرہِ حَلّ البَلآء وَعَظمَ العِقابُ ” ( ١
امام حسن عسکری - نقل فرماتے ہيں کہ حضرت امير المومنين - نے فرمایا: ميں نے
رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: جس شخص سے کسی علم کی معلومات حاصل
کی جائے اور وہ اسے مخفی کرے کہ جہاں اس کا اظہار کرنا واجب ہے اور تقيہ کا بهی کوئی
محل نہ ہو تو اسے قيامت کے دن محشر ميں یوں لایا جائے گا کہ اس کے دہن ميں آگ کی لگام
ہوگی۔
مزید حضرت امير المومنين - نے فرمایا: جب عالم اپنے علم کو مخفی کرے اور جاہل اس
کی تعليم حاصل کرنے ميں تکبر سے کام لے کہ جس کا وہ ضرورت مند ہے اور غنی و دولت مند
بخل سے کام لے نيز نيکياں انجام دینے سے اور فقير اپنے دین کو دوسرے کی دنيا آباد کرنے
کے ليے فروخت کردے تو بلا نازل ہوگی اور عظيم ترین عذاب ہوگا۔
٧١٠ ۔ حضرت پيغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ فرمایا:
) ”من کتم علماً عن اهلہ الجم یوم القيٰمة بلجام من النار” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٠ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ٧٢ ۔ (
٢(۔ المصابيح، ج ١، ص ٢٢ ۔ شرح اصول کافی، ج ١، ص ١٨٩ ۔ (
جس شخص نے علم و دانش کو اس کے اہل سے مخفی کيا خداوند متعال قيامت کے
دن اس کے دہن ميں آگ کی لگام ڈال دے گا۔
٧١١ ۔ حسن ابن عمار کا بيان ہے: ایک دن ميں “زہری” کے پاس جب اس نے لوگوں کے
ليے حدیث بيان کرنا ترک کردیا تها حاضر ہوا اور ميں نے عرض کيا: وہ حدیثيں جو سنی ہيں
ميرے ليے بهی بيان کرو۔ تو مجه سے کہا: ليکن کيا تمہيں اس بات کا علم نہيں ہے ميں اب
دوسروں کے لےے حدیث نہيں نقل کرتا۔ ميں نے عرض کيا: بہرحال یا آپ ميرے ليے حدیث بيان
کریں یا ميں آپ کے ليے حدیث نقل کروں گا۔ کہا: تمہيں حدیث بيان کرو۔ ميں نے کہا: حضرت
امير المومنين علی ابن ابی طالب- سے نقل ہوا کہ آپ فرمایا کرتے تهے:
) ” اٰ م اٴَخذ اللہّٰ عَلی اَهلٍ اَن یَتعَلّموا حَتّی اَخَذ عَل یٰ اَهل العِلم اَن یُعَلّمُوا” ( ١
الله تعالیٰ نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہد لينے سے پہلے علماء سے تعليم
دینے کا عہد و پيمان ليا ہے۔
جب ميں نے یہ دل ہلا دینے والی حدیث ان کے ليے پڑهی تو انہوں نے اپنی مہر سکوت
توڑ کر کہا: اب سنو تاکہ تمہارے ليے بيان کروں اور اسی نشست ميں ميرے ليے چاليس حدیث
بيان کی۔
اسی ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول: <کَمَا اٴَنزَْلنَْا عَلَی المُْقتَْسِمِينَ الَّذِینَ جَعَلُوا القُْرآْنَ
) عِضِينَ > ( ٢
جس طرح کہ ہم نے ان لوگوں پر عذاب نازل کيا ہے جو کتاب خدا کا حصہ بانڻنے والے
تهے جن لوگوں نے قرآن کو پارہ پارہ کردیا (اور کہا یہ جادو، کاہن پن،شعرو افسانہ ہے)۔
”فی المَجمَع : عِضين جَمع عظة واصلہ عضوة ولامَہ مَحذوفة وَلذلک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، ص ۴۶٧ ، حضرت علی - کے کلمات قصار سے۔ (
٩١ ۔ ، ٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٩٠ (
) جَمعت بالنّون وَ عضون علی غَير قِياس العظمة: القَطعة من الشَیء وَالجزء مِنہ ” ( ١
مجمع ميں ذکر ہوا ہے: عضين ، عظة کی جمع ہے اور اس کی اصل عضوة ہے اور اس کا
لام حذف ہوگيا ہے لہٰذا نون کے ساته ہوگيا اور عضون غير قياس کی بنياد پر ہے۔
العظة یعنی کسی شے کو پارہ پارہ کرنا اور ایک دوسرے سے جدا کرکے پراکندہ کرنا
ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول <الَّذِینَ جَعَلُوا القُْرآْنَ عِضِينَ > جن لوگوں نے قرآن کو پارہ پارہ کرکے
پراکندہ کيا۔ جيسا کہ روایات ميں ذکر ہوا ہے کہ وہ لوگ کفار قریش ہيں کہ جنہوں نے قرآن
کوڻکڑے ڻکڑے کرکے اسے پراکندہ کردیا اور کہا کہ یہ جادو، کاہن پن، اساطير الاولين یعنی
گزشتہ لوگوں کے افسانے اور شعر وغيرہ ہےں، ایّام حج ميں پراکندہ ہوئے مکہ کی راہوں گليوں
اور شاہراہوں پر آنے والوں کے ليے رسول خدا (ص) کے دیدار سے مانع ہوئے تهے اور مزاحمت
ایجاد کرتے تهے، جيسا کہ روایات ميں مذکور ہے۔
کہا گيا ہے: اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہيں کہ جنہوں نے قرآن کی تبعيض کی اور کہا:
“ نوٴمن ببعض ونکفر ببعض ” ہم بعض قرآن پر ایمان لائيں گے اور بعض کے متعلق کفر اختيار کریں
گے۔ اس قول کی علامہ طباطبائی نے تردید کی ہے یہ سورہ مکی ہے اور اوائل بعثت ميں نازل
) ہوا اسلام اس وقت یہود و نصاری کی بلاؤں ميں مبتلا نہيں تها۔ ( ٢
٧١٢ ۔ “ وفی الدرالمنثور : اخرج الطَبرانی فی الاٴوسط عَن ابن عَباس قال سئل رَجل
رَسول اللّٰہ (ص) قال اَراٴیت قول اللّٰہ “کَما اَنزَلنا عل یٰ المُقتَسَمين ” قالَ اليَهود وَالنّصاریٰ قالَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ۶، ص ١٢٨ ۔ (
٢(۔ تفسير الميزان، ج ١٢ ، ص ٩۵ ۔ (
الّذینَ جَعلوا القرآنَ عِضين ؛ قال اَمنوا بِبعضٍ وَکَفَروا
) بِبَعضٍ” ( ١
تفسير الدر المنثور ميں منقول ہے کہ طبرانی نے اوسط ميں ابن عباس سے نقل کيا ہے
(٩١ ، کہ ان کا بيان ہے: ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے مذکورہ آیت (سورئہ حجر، آیت ٩٠
کا معنی و مقصود دریافت کيا کيا ہے؟ فرمایا: یہود و نصاریٰ مراد ہيں کيوں کہ وہ بعض قرآنی آیات
پر ایمان لائے اور بعض دوسری آیات قرآن کا انکار کيا (یہ ہے تقسيم کا معنی) کہ قرآن کو ڻکڑے
ڻکڑے کيا بعض کو قبول کيا ایمان لائے اور بعض کا انکار کيا اور کافر ہوگئے۔
٧١٣ ۔ “ و فی التفسير العياشی عن زرارہ وحمران ومحمّد بن مسلم عن ابی جعفر و ابی
) عبد اللّٰہ عليہ السلام عن قولہ تعالیٰ < الذین جعلوا القرآن عضين >؟ قالا هم قریش” ( ٢
تفسير عياشی ميں بطور مسند محمد ابن مسلم سے منقول ہے کہ حضرت باقرین و
صادقين عليہما السلام نے مذکورہ آیت کے متعلق فرمایا: قرآن کو پارہ پارہ کرنے والے قریش
تهے۔
٧١۴ ۔ “وَفی الکافی بِاسنادہ عَن ابن فَضّال عمّن ذَکر عن ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام قال
ثَلاثةٌ یَشکونَ الَی اللّٰہ عزّوجلّ مسجِد خَرابٍ لا یُصلی فيہِ اَهلُہ وَعَالمٌ بَين جُهالٍ وَمُصحفٌ مُعلقٌ قَد
) وَقعَ عَليہ الغبارُ لا یُقراٴ فَيہِ ” ( ٣
کافی ميں بطور مسند ابن فضال سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے
فرمایا: تين چيزیں خدائے عزوجل کی بارگاہ ميں شکایت کریں گی ایک یہ کہ غير آباد مسجد
جس ميں کوئی نماز نہيں پڑهتا، دوسرے وہ عالم جو جاہلوں کے درميان ہو اور کوئی اس سے
کوئی مسئلہ دریافت نہ کرے تيسرے وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير الدر المنثور، ج ۴، ص ١٠۶ ۔ (
٢(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢۵١ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١٣ ۔ (
قرآن جو گرد و غبار سے آلودہ ہو اور کوئی اس کو نہ پڑهے۔
) ٧١۵ ۔ وَفی الوسائل :“ ثَلاثةٌ یَشکونَ یَوم الق يٰمةِ المُصحفُ وَالمَسجِد وَالعِترَةُ ” ( ١
وسائل الشيعہ ميں منقول ہے کہ تين چيزیں قيامت کے دن (خدا سے) شکایت کریں
گی:
١۔ قرآن مجيد ٢۔ مسجد ٣۔ عترت و اہل بيت پيغمبر اکرم (ص)۔
٧١۶ ۔ “ وَعَن سَعد الخَفافِ عَن اَبی جَعفر عليہ السلام انّہ قال یٰا سَعد تَعلّموا القُرآن فَانّ
القُرآن یَاٴتی یَوم القِيامَة فی اَحَسن صُورَةٍ نَظر الَيها الخَلق الیٰ اَن قال حتّی یَنتَهی الیٰ رَبّ العِزّة
فَينادیہِ تَبارک وَ تعالیٰ یا حُجّتی فی الٴارضِ وَکَلامی الصّادق النّاطق ارفَع رَاٴسَک وَسَل تعطَ
وَاشفَع تَشفع کَيف رَاٴیت عِبادی فَيقول یا رَبّ مِنهم مَن صانَنی وَحافَظ عَلیّ وَمِنهُم مَن ضَيّعَنی وَ
استَخَفّ بي وَکذّب بي وَاَنا حُجّتک عَلی جَميع خَلقِک ، فَيَقول اللہّٰ عزّوجلّ وَعِزّتي وَجَلالي وَ ارتِفاعَ
) مَکاني لاُ ثَيّبَنّ عَليکَ اَحسَن الثّوابِ وَلاَ عاقِبَنّ عَليکَ اليَوم اَليمَ العِقابِ” ( ٢
کافی ميں بطور مسند سعد خفاف سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: حضرت امام محمد
باقر - نے فرمایا: اے سعد! قرآن کے معانی و مطالب حاصل کرو کيوں کہ قيامت کے دن قرآن
نہایت خوب صورت شکل ميں آئے گا لوگ اسے دیکهيں گے لوگوں کی ایک لاکه بيس ہزار صفيں
ہوں گے جن ميں اسّی ہزار صفيں تو امت محمد کی ہوں گی اور چاليس ہزار تمام امتوں کی۔ وہ
مسلمانوں ، شہدائے بر و بحر، انبياء و مرسلين اور ملائکہ کی صفوں سے گزرتا ہوا الله تبارک
کی بارگاہ ميں پہنچے گا۔ پهر عرش کے نيچے (یہاں تک کہ فرمایا) سجدہ ميں جائے گا خدا
فرمائے گا: اے روئے زمين پر ميری حجّت! اے ميرے کلام صادق و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ٣، ص ۴٨۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۵٩٧ ۔ (
باطق اپنا سر اڻهاؤ اور سوال کرو تمہارا سوال پورا ہوگا سفارش کرو قبول ہوگی۔ وہ اپنا سر
اڻهائے گا خدا دریافت کرے گا: تو نے ميرے بندوں کو کيسا پایا؟ وہ کہے گا: پروردگار کچه تو ان
ميں ایسے تهے جنہوں نے ميری حفاظت کی اور مجهے حفظ کيا اور کوئی شے ضائع نہيں
ہونے دی اور کچه ایسے ہيں جنہوں نے مجهے ضائع کيا اور ميرے حق کو سبک سمجها مجهے
جهڻلایا حالانکہ ميں تمام مخلوق پر تيری حجّت تها تو خدائے تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: ميں
اپنے عزت و جلال اور بلندی مکان کی قسم کها کر کہتا ہوں: آج تيری حفاظت کرنے والوں کو
بہت زیادہ دوں گا اور نہ ماننے والوں اور ناقدری کرنے والوں کو سخت سزا دوں گا۔
٧١٧ ۔ “وَفی روایة : بَعدَ ما یَنتَهی الیٰ رَبّ العِزّة فَيَقول یا رَبّ فُلان بن فُلان اَظمات هَوا جَرہُ
وَاَسهَرت لَيلَہ فی دار الدّنيا ، وَفلان بن فلان لَم اظمَاٴ هَواجَرہُ وَلَم اَسهَر لَيلَہ ، فَيَقول تَبارک
وَتعال یٰ اَدخِلهم الجنّة عَل یٰ مَنازِلَهم فَيَقوم فَيتبَعونَہ فَيقولُ لِلمُوٴمن اِقرَا وَاَرقَ قال عليہ السلام
) فَيقرَا وَیَرق یٰ حَتّی بَلَغ کُل رَجلٍ مِنهُم مَنزِلَتہ التی هِی لَہ فَينزلُهُا ” ( ١
دوسری روایت ميں یہ ہے کہ پهر وہ خدا کے سامنے آئے گا اور کہے گا: اے ميرے رب!
فلاں ابن فلاں کو ميں نے دنيا ميں دوپہر کی گرمی ميں پياسا رکها اور رات کو بيدار کيا ہے اور
فلاں ابن فلاں نہ تو گرمی ميں ميرے احکام بجالانے کے ليے نہ ہی پياسا رہا اور نہ ہی بيدار رہا
(دنوں ميں عيش کرتا اور راتوں ميں محو خواب ہوتا) پهر خدائے تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: انہيں
ان کے درجات کے مطابق جنت ميں داخل کروں گا وہ کهڑے ہوں گے اور اس کے پيچهے چليں
گے وہ مومن سے کہے گا کہ قرآن کی آیت پڑهو اور اوپر چلے جاؤ، امام - نے فرمایا: چنانچہ وہ
پڑهے گا اور بلند ہوگایہاں تک کہ ہر شخص اپنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
منزلت پر فائز ہوجائے گا اور وہاں قيام پذیر ہوگا۔ خداوندا ! ہميں بهی محمد و آل محمد کے
صدقے ميں وہ درجات عطا فرما۔
مولف کہتے ہيں: مصحف (قرآن مجيد) کی شکایت یہ ہے کہ وہ کہے گا : مجهے طاقچوں
اور گهروں کی صندوقوں ميں قيد کيا ميں گردو غبار سے روبرو ہوا، یہاں تک کہ تيری بعض
مسجدوں کی صندوقوں ميں مقفّل اور بند رہا نہ پڑها جاتا تها نہ ہی اس کے دستورات پر عمل
کيا جاتا تها۔
ليکن مساجد: بہت سی مسجد ميں تعمير اور بلڈنگ کے لحاظ سے بہت خوبصورت اور
آبرو مندانہ ہيں ليکن افسوس کہ نماز گزار بہت کم اور ان احادیث کی مصداق ہيں جو علامات
آخری زمانے ميں وقوع پذیر ہوں گی۔
٧١٨ ۔(عالية من البناء خالية من الهدی) ( ١) اس حدیث کا مصداق ہوں گی کہ تعميری
لحاظ سے عالی شان ہيں مگر ہدایت سے خالی ہيں مگر بہت کم ایسی مسجدیں ہيں جو
تعمير اور نمازی کے اعتبار سے اميد بخش ہيں۔
ليکن عترت بہت واضح اور روشن ہے کيوں کہ عترت بهی قرآن کریم کی طرح دونوں ہی
امانت اور پيغمبر اسلام (ص) کی شدید تاکيد کا محل واقع ہوئے ہيں کہ فرمایا:
٧١٩ ۔ “ انی تٰارک فيکُم الثّقَلَين کِتابَ اللّٰہ وَعِترَتی وَاَهل بَيتی ”الحدیث
یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑ رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت جو
ميرے اہل بيت ہيں۔
ليکن امت اسلامی نے آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد دونوں گراں قدر امانتوں کے
ساته خيانت کی پيغمبر اکرم (ص) کا قول فراموشی کی نذر کردیا، قرآن کو جيسا کہ پہلے
اشارہ کيا پس پشت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون الحکم و المواعظ، ص ۵۵۴ ۔ (
ڈال دیا اور عترت آل اطہار پر کيا کيا ظلم و ستم روا نہيں رکها خلافت و حکومت جو ان کا الٰہی
حق تها غضب کيا ان کے اموال کو غارت کيا اور خلافِ شریعت اور غير اسلامی اعمال ميں ملوث
ہوئے یہاں تک کہ ان کی ذات مقدسہ کو بهی شہيد کردیا۔
٧٢٠ ۔ ‘ ‘وَفيہ باسنادہ عَن عَبد اللّٰہ بن سِنانٍ عَن ابی عبدِ اللّٰہ عليہ السلام قال : قال
رَسولُ اللّٰہ (ص) اقرَووٴا القُرآن بِالحَانِ العَرب وَ اصواتِها وَایّاکُم وَلَحون اَهل الفِسقِ وَاَهل الکَبٰائِر فَانّہ
سَيجیء مِن بَعدی اَقوامٌ یُرَجِّعُونَ القُرآن تَرجيعَ الغِناءِ والنّوحِ وَالرّهبانِيَة لا یَجوزُ تَراقيهِم قُلوبُهم
) مَقلوبَةٌ وَ قُلوب مَن یُعجِبُہ شَاٴنهُم ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند عبد الله ابن سنان سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق -
نے فرمایا کہ رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا: قرآن کو عرب کے لہجے اور ان کی آواز ميں پڑهو
اور اپنے کو بدکاروں اور گنہگاروں کے لہجے سے محفوظ رکهو یعنی گویّوں، غزل سراؤں وغيرہ
کے لہجوں سے، کيوں کہ ميرے بعد کچه افراد ایسے آئيں گے کہ قرآن کو راگ کی طرح آواز کے
الٹ پهير کے ساته پڑهيں گے (یعنی مقبول درگاہ خداوند متعال واقع نہيں ہوگا) یا نوحہ خوانوں
کی طرح یا ترک دنيا والوں کے غمگين لہجے ميں پڑهيں گے اور ان کا یہ پڑهنا بارگاہ الٰہی ميں
مقبول نہيں، ان کے دل الٹ چکے ہيں اور ان کے دل بهی جن کو ان کی یہ ممنوع قرائت پسند
ہے۔
٧٢١ ۔ “ وَفی الکافی بِاسنادِہ عَن اسحاق بن غالَب قال: قال اَبو عَبد اللّٰہ عليہ السلام اذٰا
جَمَع اللّٰہ عزّوجلّ الاٴولينَ وَالاٴخرینَ اذا هُم بِشخصٍ قَد اَقبَل لَم یَرقَط اَحسَن صُورةٌ مِنہ فاذَا
نَظَر الَيہ الموٴمِنونَ وَهُو القُرآن قالوا هذٰا مِنّا، هذٰا اَحسن شَیءٍ رَاٴینٰا فَاذا انتَهیٰ الَيهم جٰازَهُم ، ثمّ
یَنظرُالَيہ الشّهداء حَتّی اذا انتهیٰ الیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١۴ ، حدیث ٣۔ (
اخِرِهم جَازَهم فَيقولونَ : هٰذا القُرآن ، فَيجوزُهُمْ کُلهم حتّی اذٰا انتَهیٰ الیٰ المُرسَلين فَيقولونَ
:هٰذا القُرآن فَيجوزُهُمْ حتّی یَنتهیٰ الیٰ الملائِکة فَيقولونَ : هٰذا القُرآن فَيجوزُهُمْ ثمّ یَنتهی حتّی
یَقف عَن یَمين العَرشِ فَيقولُ الجَبّار : وَعزتي وَجلالي و اَرتفاع مَکاني لاٴکرمنّ اليَوم مَن اکرمَکَ
) وَلاَهيننَّ مَن اَهانَکَ” ( ١
کافی ميں بطور مسند اسحاق ابن غالب سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق -
نے فرمایا: قيامت کے روز جب اولين و آخرین جمع ہوں گے تو ایک نہایت خوبصورت شخص نظر
آئے ایسا حسين و جميل کہ اس سے بہتر دیکها ہی نہيں گيا جب مومن اس شخص کو جو
درحقيقت قرآن ہوگا دیکهيں گے تو کہيں گے: یہ ہم ميں سے ہے۔
جب ان سے آگے بڑهے گا تو شہدا اس کو دیکهيں گے جب وہ ان کے آخر ميں پہنچے گا
تو وہ کہيں گے: یہ قرآن ہے وہ ان سب سے گزرتا ہوا مرسلين تک پہنچے گا وہ کہيں گے: یہ
قرآن ہے۔ پهر وہ ان سے گزرتا ہوا ملائکہ کی طرف آئے گا وہ کہيں گے: یہ قرآن ہے یہاں سے
چل کر وہ عرش کے داہنی طرف کهڑا ہوگا خدا فرمائے گا : قسم ہے مجهے اپنی عزت اور جلالت
کی اور ارتفاع مکان کی! ميں آج اس کی عزت کروں گا جس نے تيری عزت کی اور اس کی
توہين کروں گا جس نے تيری توہين کی ہے۔
مولف کہتے ہيں: مذکورہ مطالب قرآن کا روز قيامت امت محمدیہ سے احتجاج کا ایک
نمونہ ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٢ ، حدیث ١۴ ۔ (
پيغمبر اکرم (ص) اور ائمہٴ ہدیٰ بالخصوص فاطمہ = اور منتقم حقيقی امام زمانہ - کا احتجاج
٧٢٢ ۔ “ فی الکافی بِاسنادِہ عَن ابی الجارودَ قال: قال ابو جَعفر عليہ السلام قال رسول
اللّٰہ (ص) : اَنا اَوّل وافدٍ عَلی العَزیز الجبّار یَوم القيامَة وَکِتابَہ وَاَهل بَيتی ثمّ اُمّتی ثمّ اَساٴلَهُم مٰا
) فَعلتُم بِکتابِ اللہّٰ وَبِاهلَ بَيتی ” ( ١
کافی ميں بطور مسند ابو جارود سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: روز
قيامت سب سے
پہلے ميں خدائے عزیز و جبّار کے سامنے حاضر ہوں گا اور خدا کی کتاب آئے گی اور ميرے اہل
بيت پهر ميری امت، ميں ان سے دریافت کروں گا کہ کتاب خدا اور ميرے اہل بيت کے ساته کيا
کيا۔
٧٢٣ ۔ “ وَعَن السّجاد زَین العابِدین عليہ السلام عَن اَبيہ عَن جَدہ اَمير الموٴمنين عليہ
السلام قال : قال رَسول اللّٰہ (ص) انّ اللّٰہ تَبارک وَ تَعالیٰ اذٰا جَمع النّاس یَوم القيٰمَةِ فی صَعيد
وٰاحدٍ کُنت اَنا وَانتَ یَومئذٍ عَن یَمين العَرش ثمّ یَقول اللّٰہ تَبارِک و تَعالیٰ لی وَلَک قوما فَالَقيا مَنْ
) اَبغَضکُما وَکَذّبتکُما فی النّار ” ( ٢
حضرت امام سجاد زین العابدین - اپنے پدر بزرگوار سے وہ اپنے جدّ امجد امير المومنين -
سے نقل فرماتے ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: خدائے تبارک و تعالیٰ جب تمام
لوگوں کو قيامت کے دن صحرائے محشر ميں جمع کرے گا تو ہم اور تم اس دن عرش کے داہنی
طرف ہوں گے پهر خدائے تبارک و تعالیٰ مجهے اور تمہيں حکم دے گا : اڻهو اور ہر اس شخص کو
جہنم ميں ڈال دو جس نے تم دونوں سے
عداوت رکهی اور تمہاری تکذیب کی۔
(اور جنت ميں اس شخص کو بهی داخل کرو جو تم دونوں سے محبت رکهتا ہو) کے فقرہ کی
اضافت کے ساته نقل ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ، حدیث ۴۔ (
٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٢، ص ٨۔ بحار الانوار، ج ٧، ص ٣٣٨ ۔ یہ حدیث اہل سنت سے “ ” (
٧٢۴ ۔ “وَفی تَفسير القُمی باسنادہ عَن ابن سَنان عَن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: کانَ
رَسول اللّٰہ (ص) یَقول : اذا سَاٴلتُم اللّٰہ فَساٴلُوہ الوَسيلَة، فَساٴلتَنا النّبی (ص) عن الوَسيلَة ،
فَقال هی دَرَجتي فی الجنّة وَهی اَلف مِرقاةٍ جَوهرة الیٰ مِرقاة زَبَرجد الیٰ مِرقٰاة لُوٴلوٍٴ الیٰ مِرقاةٍ
ذهبٌ الیٰ مِرقاةٍ فَضة ، فَيوٴتی بِها یَوم القيمَة حتّی تَنصب مَع دَرجة النّبيين کاَلقَمر بَين الکَواکِب ،
فَلا یَبقی یَومئذ نبیٌ وَلا شهيدٌ وَلا صِدیقٌ والشّهداءَ والمُوٴمنين “ هذہ دَرجة محمّد (ص) فقَال
رَسول اللّٰہ (ص) فَاٴقبَل یومئذٍ متزراً بَربطةٍ مِن نورٍ علیٰ رَاٴسی تاجُ المَلک ، مَکتوبٌ عَليہ لا الہ
اللّٰہ محمَد رَسول اللّٰہ عَلی وَلی اللّٰہ المُفلحونَ هُم الفائزونَ باللّٰہ، وَ اذا مَرَرنا بَالنّبيينَ قالوا: هٰذان
مَلکان مُقربانِ وَاذا مَررنا بِالملائِکة قالوا هذانِ مَلکان لَم نَعرفَهما وَلم نَرهُما او قال هٰذان نَبيّانِ
مُرسلان حتّی اعلَوالدّرجة وَعلیٌ یَتبعنی ، حتّی اذا صِرت فی اعلیٰ الدّرجة مِنها وَعلی اَسفل
منّی وَبِيَدہ لِوائی فَلا یَبقی یَومئذ نَبی وَلا موٴمنٌ الا رَفعوا رُوٴسَهم الیّ یَقولون ، طوبیٰ لِهذین
العَبدین ما اَکرمَهما عَلی اللّٰہ فَينادی المنادی یَسمع النبيين وَجميع الخَلایق هٰذا حَبيبی محمّد
وَهذا وَلي عَلی بن ابی طالب طوبیٰ لِمن اَحبّہ وَ وَیل لِمَن اَبغَضہ وَکذب عَليہ
ثمّ قالَ رَسول اللّٰہ (ص) : یا علی فَلا یَبقی یَومئذٍ فی مَشهد القيامَة احدٌ یُحبک الاَّ
استروَحَ لی هٰذا المَکان وَابيض وَجهہ وَفَرح قَلبہ وَلا یبقی اَحد ممّن عاداک وَنَصَب لَک حَرباً اوجحد
لَک حَقاً الاَّ اسوَد وَجهہ وَاضطربَت قدَمَاہ ، فبينا انا کَذلک اذٰا بِمَلکين قَد اَقبلا الیّ امّا اَحدَهما
فرضوان خازن الجنة ، وَامّا الاٴخر فَمالِک خازن النّار فَيدنوا الیّ رِضوان وَیُسلم عَلیّ ویقول : السّلام
عَليک یا رَسول اللّٰہ : فَاردّ عليہ السلام فَاقول اَیّها المَلک الطّيب الریحُ الحسَن الوَجہ الکَریم علی
رَبّہ مَن اَنت ؟ فَيقول : انا رِضوان خازِن الجَنّة امَرني رَبي اَن آتيکَ بِمفاتيحَ الجنّة فَخذها یا محمَد
(ص) فَاٴقول قَد قَبلت ذلِک مِن رَبّی فَلہ الحَمد عَلی ما اَنعم بِہ عَلیّ ، ادفعَها الی اخي عَلي بن
اَبی طالبٍ عليہ السلام فَيدفَعها الی عَلیٍّ ویَرجع رِضوان
ثُمّ یَدنو مالِک خازِنِ النّار فَنسلمُ عَلیّ وَیَقول : السّلام عَليک یا حَبيب اللّٰہ انا اقُول لَہ :
عَليک السّلام ایّها المَلک ما اَنکر رُوٴیتک وَاقبَح وَجهک مَن انت ؟ فَيقول : اَنا مٰالک خَازن النّار اَمَرنی
رَبّی اَن آتيک بِمفاتيحَ النّار ، فَاٴقول : قَد قَبلت لٰذِک مِن رَبّی فَلہ الحَمد عَلی ما اَنعَم بِہ عَلیّ وَ
فَضّلنی بِہ اَدفعها الیٰ اخي عَلی بن اَبی طالب ، فَيدفَعها الَيہ ، ثمّ یَرجِع مٰالِک فَيقبِلُ عَلی عليہ
السلام وَ مَعہ مَفاتيحُ الجنّة وَمَقاليد النّار حَتّی یَقعد عَلی شَقير جَهنم وَ یَاٴخذ زِمامِها بِيَدہ وقَد
عَلا زَفيرَها وَ اشتدّ حَرّها وَکثر شَرَرها ، فَتنادی جَهنّم یا عَلی حُزني قَد اَطفَاٴ نُورِک لَهَبي ، فَيقول
لَها عَلیٌ عليہ السلام : ذري هذٰا وَليی وَخُذي هٰذا عَدوّي ، فَلِجَهنم یَومَئذ اشَد مُطاوِعَة لِعَلي مِن
غلامِ اَحدکم لِصاحِبہ ، فَان شآء یَذهَب بِہ یُمنة وَان شاءَ یَذهَب بِہ یُسرَةً ، وَلِجَهنّم یَومئذٍ اشدّ
) مُطاوِعةً لِعلیٍ في مٰا یَاٴمرها بِہ مِن جَميعَ الخَلائِقِ ، وَذَلک انّ عَلياً یَومَئذٍ قَسيمُ الجَنّة وَالنّارِ ” ( ١
تفسير قمی ميں بطور مسند ابن سنان سے انہوں نے حضرت امام جعفر صادق - سے
روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: رسول الله (ص) کہا کرتے تهے خدا سے جب کسی شے کا
سوال کرو تو اس سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٣٢۵ ، اس روایت کو کليني، ابن بابویہ اور تمام محدثين رضوان الله (
عليہم نے صحيح اور معتبر اسناد کے ساته حضرت امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے۔
وسيلہ طلب کرو۔ ميں نے دریافت کيا یا رسول الله (ص)! وسيلہ کيا چيز ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ
جنت ميں ميرے ليے ایک درجہ ہے اور اس کے ایک ہزار زینے ہيں اور ہر زینے کا دوسرے زینے
کے درميان کا فاصلہ ایک ماہ تيز رفتار گهوڑے کے دوڑنے کے برابر ہے اور اس کے زینے گوہر،
زبرجد، یاقوت، سونے اور چاندی کے ہيں۔ اس وسيلے کو انبياء کے درجات کے قریب نصب کيا
جائے گا۔ ميرا یہ درجہ انبياء کے درجات ميں اس طرح چمکے گا جس طرح ستاروں کے درميان
چاند چمکتا ہے، پهر کوئی نبی، صدیق اور شہيد ایسا نہيں ہوگا مگر یہ کہہ رہا ہوگا: طوبیٰ او
خوش نصيبی ہے اس شخص کے ليے جس کے ليے یہ درجہ ہے۔ پهر منادی کی طرف سے آواز
آئے گی: جس کو تمام انبياء اور تمام مخلوقات خدا سنے گی کہ یہ درجہ محمد (ص) کا ہے، اور
ميں اس دن اس حالت ميں آؤں گا کہ ميرے اوپر ایک نور کی قبا ہوگی اور ميرے اوپر بادشاہوں
والا تاج ہوگا۔ اور علی ابن ابی طالب کے سر پر کرامت و بزرگی کا تاج ہوگا اور وہ ميرے آگے آگے
ہوں گے اور ان کے ہاتهوں ميں پرچم ہوگا جو کہ پرچم حمد ہوگا، اس پرچم پر یہ تحریر ہوگی: (لا
الہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ المفلحون هم الفائزون باللّٰہ ) اور الله کے ذریعے فلاح ان لوگوں کے
ليے ہے جو خدا تک پہنچ چکے ہيں۔ جب ہم دونوں انبياء کے قریب سے گزریں گے تو تمام انبياء
آواز دیں گے: یہ دو خدا کے مقرب فرشتے ہيں جن کو ہم نہيں پہچانتے اور ان کو پہلے ہم نے
کبهی نہيں دیکها۔ جب ہم فرشتوں کے قریب سے گزریں گے تو وہ آواز دیں گے: یہ خدا کے دو
مقرّب نبی و مرسل ہيں۔ حتیٰ کہ ميں اس درجہ کے اوپر جاؤں گا اور علی - ميرے پيچهے
پيچهے ہوں گے۔ یہاں تک ميں سب سے اوپر والے زینے پر چلا چاؤں اور علی - ایک زینہ نيچے
رہ جائيں گے اور اس دن کوئی نبی و صدیق اور شہيد باقی نہيں رہے گا مگر یہ کہہ رہا ہوگا
طوبیٰ و خوش نصيبی ہے ان دونوں بندوں کے ليے کہ وہ خدا کے نزدیک کتنے زیادہ مکرّم و
محترم ہيں۔
اس کے بعد خداوند متعال کی طرف سے آواز آئے گی: جس کو تمام انبياء ، صدیق اور
شہيد سنيں گے یہ ميرا محبوب محمد (ص) ہے اور یہ ميرا ولی علی (عليہ السلام) ہے ۔
طوبیٰ اور خوش بختی ہے اس شخص کے ليے جس نے اس سے محبت کی اور بدبختی ہے
اس کے ليے جس نے اس سے دشمنی رکهی، اور اس کی تکذیب کی۔ پهر اس کے بعد رسول
خدا (ص) نے فرمایا: اے علی - ! جس نے تيرے ساته محبت کی ہوگی وہ اس آواز سے راحت
و خوشی محسوس کرے گا اور اس کا چہرہ سفيد اور دلشاد ہوجائے گا، اور کوئی نہيں بچے گا
جس نے تيرے ساته عداوت و دشمنی کی ہوگی، یا تيرے ساته جنگ کی ہوگی یا تيرے حق کو
غصب کيا ہوگا مگر یہ کہ اس کا چہرہ سياہ ہوجائے گا ، اور اس کے قدم ڈگمگانے لگيں گے۔ اس
دوران خدا کے دو فرشتے آئيں گے: ان ميں سے ایک جنت کا رضوان اور خازن (یعنی کليد بردار)
اور دوسرا جہنم کا کليد بردار ہوگا۔ جنت کا رضوان قریب آئے گا اور کہے گا: السلام عليک یا احمد
(ص)! پس ميں جواب ميں کہوں گا: السلام عليک یا ملک تو کون ہے اور تيرا چہرہ کتنا خوبصورت
ہے اور تيری خوشبو کتنی اچهی اور بہتر ہے۔ پس وہ فرشتہ آواز دے گا: ميں رضوان جنت اور
جنت کا کليد بردار ہوں اور یہ جنت کی چابياں ہيں۔ اے احمد (ص)! ان کو وصول فرمائيں۔ ميں
کہوں گا: ميں نے ان کو اپنے رب کی طرف سے قبول کرليا ہے اور اس کی اس فضل و نعمت پر
ميں حمد کرتا ہوں۔ ميں یہ چابياں اپنے بهائی علی ابن ابی طالب کے حوالے کردوں گا اس کے
بعد وہ رضوان جنت واپس چلا جائے گا۔ اس کے بعد دوسرا فرشتہ قریب آئے گا، اور کہے گا:
السلام عليک یا احمد ! تو ميں جواب ميں کہوں گا: عليک السلام یا ملک۔ تو کون ہے؟ اور تيرا
چہرہ کتنا خوف ناک ہے اور تجه سے کتنی سخت قسم کی بدبو آرہی ہے۔ وہ جواب دے گا: ميں
جہنم کا مالک اور خازن ہوں اور یہ جہنم کی چابياںہيں جو آپ کی طرف آپ کے رب عزیز نے
بهيجی ہے۔ اے احمد (ص)! ان کو قبول فرمائيں ميں کہوں گا کہ: ميں نے ان کو اپنے رب کی
طرف سے قبول کرليا ہے اور اس نے جو مجهے فضيلت دی ہے اس پر اس کی حمد و ثنا ادا کرتا
ہوں۔ تم ان چابيوں کو ميرے بهائی علی ابن ابی طالب کے حوالے کردو، پس اس کے بعد وہ
فرشتہ بهی چلا جائے گا۔
اس کے بعد علی - آگے بڑهيں گے یہاں تک کہ وہ جہنم کے دروازے پر کهڑے ہوجائيں
گے کہ جہنم کے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے، اور آواز پيدا کر رہے ہوں گے اور ان کی گرمی زیادہ
سے زیادہ ہورہی ہوگی، علی - جہنم کی مہار کو اپنے ہاتهوں ميں ليں گے، جہنم عرض کرے
گی: اے علی - ! مجهے چهوڑ دو، آپ کے نور نے ميرے شعلوں کو ڻهنڈا کردیا ہے۔ علی -
فرمائيں گے: آرام کر اور اس کو لے لے اور اس کو چهوڑ دے، اے جہنم! اس کو لے لے یہ ميرا
دشمن ہے اور اس کو چهوڑ دے یہ ميرا دوست ہے۔ اس دن جہنم علی - کی سب سے زیادہ
مطيع و فرماں بردار ہوگی، جس طرح تمہارے غلام تمہاری اطاعت کرتے ہيں۔ اس سے زیادہ
سخت مطيع ہوگی اور اس دن اگر علی چاہيں گے تو جہنم کو دائيں بائيں کهينچ ليں گے، اور
علی - جو اس کو حکم دیں گے وہ تمام مخلوقات ميں سے زیادہ اس حکم ميں علی - کی
اطاعت کرے گی۔
حضرت امير المومنين علی - کا اپنی غصب شدہ امامت و خلافت کے متعلق شکایت کرنا
مولف کہتے ہيں: مشہور و معروف خطبہٴ شقشقيہ حضرت کی مظلوميت پر پہلی دليل
اور غاصبوں سے احتجاج ہے۔
٧٢۵ ۔ “قال علی عليہ السلام : اَما وَاللّٰہ لَقد تَقمصّها ابنَ ابی قُحافَة ، وَانّہ لِيَعلم انّ مَحلّی
مِنها مَحلُ القُطب مِن الرّحی یَنحَدِر عَنی السَيلُ ، وَلا یَرقی الیّ الطَير، فَسَدلت دُونَها ثَوباً ،
وَطَوبتُ عَنها کَشحاً ، وَطَفِقَتُ ارتای بَين اَن اَصول بِيَد جذٓاءَ ، او اصبِرُ عَلی طَخيَة عَميآء ، یَهرَم فِيها
الکَبير، وَیشَيبُ فيها الصّغيرُ ، وَیکدَحُ فيها موٴمنٌ حَتی یَلقی رَبّہ ، فَراٴیت ان الصّبر عَلی هٰاتا
اٴحجیٰ ، فَصبرتُ
) وَفی العَين قَذیً ، وَفی الخَلق شَجاً ، اَریٰ تُراثي نَهب الخطبة ” ( ١
مولف کہتے ہيں: حضرت امير المومنين عی ابن ابی طالب - کی مظلوميت کے بارے ميں
ابن ابی الحدید اور ان کے علاوہ بعض دوسرے شارحين نہج البلاغہ نے اس خطبہ کو شقشقيہ
اور بعض دوسروں نے متقمصہ کے نام سے یاد کيا ہے۔
پہلے کی وجہ تسميہ یہ ہے کہ جب ابن عباس نے خطبہ کو پایہٴ تکميل تک پہنچانے کا
تقاضا کيا اور مزید مطالب سننے کی درخواست کی تو فرمایا: هيهات یابن عباس تلک شقشقة
وهدرت آہ ؛ افسوس ابن عباس یہ تو ایک شقشقہ تها جو ابهر کر دب گيا۔
دوسرے کی وجہ تسميہ یہ ہے کہ حضرت - نے خلافت کو قميص اور پيراہن سے شباہت
دی ہے اور فرمایا: “ولقد تقمّصها ابن ابی اقحافة ” ابن ابی قحافہ نے قميص خلافت کو کهينچ
تان کر پہن ليا ہے
اب اس مبارک خطبہ کا ترجمہ مختصر وضاحت کے ساته مندرجہ ذیل ہے:
آگاہ ہوجاؤ! کہ خدا کی قسم! ابن ابی قحافہ نے قميص خلافت کو کهينچ تان کر پہن ليا
ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے ليے ميری حيثيت مرکزی کيل کی ہے۔
علوم و معارف کا سيلاب ميری ذات سے گزر کر نيچے جاتا ہے اور ميری بلندی تک کسی کا طائر
فکر بهی پرواز نہيں کر سکتا ہے۔ پهر بهی ميں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے
پہلو تہی کرلی اور یہ سوچنا شروع کردیا کہ کڻے ہوئے ہوئے ہاتهوں سے (اصحاب کے بغير)
حملہ کروں (اور اپنے مسلّم حق کا مطالبہ کروں) یا اسی بهيانک اندهيرے پر صبر کرلوں جس
ميں سن رسيدہ بالکل ضعيف ہوجائے اور بچہ بوڑها ہوجائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی
بارگاہ تک پہنچ جائے، تو ميں نے دیکها کہ ان حالات ميں صبر ہی قرین عقل ہے تو ميں نے اس
عالم ميں صبر کرليا کہ آنکهوں ميں مصائب کی کهڻک تهی اور گلے ميں رنج و غم کے پهندے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٣۔ (
تهے۔ ميں اپنی ميراث کو لڻتے دیکه رہا تها یہاں تک کے پہلے خليفہ نے اپنا راستہ ليا اور خلافت
کو اپنے بعد خطّاب کے بيڻے کے حوالے کردیا۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے اسے نہج البلاغہ ميں مختصر طور پر بعض مطالب کو ذکر کيا
ہے کہ ہم عين عبارات کو (بعنوان احتجاج) ذکر کر رہے ہيں :
قال وَاعلَم انّہ قَد تَواتَر مِن امير الموٴمنينَ عَلیٍ عليہ السلام بِنحو هٰذا القَول : یَعنی قولہ
: اللّٰهم انّی استَعدیکَ عَلی قُریش وَمَنْ اَعانَهم ، فَانّہ قطَعوا رَحمی وَصَغّروا عَظيم مَنزلتي ،
وَاَجمَعوا عَلی مُنازعَتی اَمراً هُولی ، ثّم قالوا اَلا انّ فی الحَق ان نَاٴخُذَہ ، وَفی الحَقّ اَن نَترکہ ،
وَنَحو قَولہ : ما زِلت مَظلوماً مُنذ قَبض اللّٰہ نَبيہ الیٰ یَوم النّاس هذا ، وقَولہ : اللّٰهمَ انّ قُریشاً
مَنعتَني حَقي وَعَصتني اَمري وَقَولہ فَجزتُ قُرَیشاً عَني الجَواري فَانّهم ظَلموني حَقي و غَصبوني
سُلطانَ ابن اُمي، وَقَولہ مازِلت مَظلوماً ، وَقَولہ اَری تُراثي نَهب
وَقَولہ : اَنّ لَنا حَقاً ان نُعطہ نَاٴخذَہ وَان نَمنَعہ نَرکب اعجٰازَ الا بِک وَان طالَ السّری وَقَولہ
مٰازِلت مُستاٴثراً عَلیّ ، مَدفوعاً عمّا استَحقَہ استَوجبُوہ وقولہ عليہ السلام لَقد ظَلمت عَددا
) لَحَجر وَالمَدَرِ۔ ( ١
ابن ابی الحدید کہتے ہيں: جان لو کہ اس قسم کے اقوال حضرت امير المومنين علی -
سے بطور تواتر نقل ہوئے ہےں، جيسے ان کا یہ قول: خدایا! ميں قریش اور ان کے انصار کے
مقابلہ ميں تجه سے مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے ميری قرابت کا رشتہ توڑ دیا اور ميری عظيم
منزلت کو حقير بنا دیا مجه سے اس امر کے ليے جهگڑا کرنے پر تيار ہوگئے جس کا ميں واقعاً
حق دار تها اور پهر یہ کہنے لگے کہ آپ اسے لے ليں تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ٩، ص ٣٠٧ ۔ (
بهی صحيح ہے اور اس سے دست بردار ہوجائيں تو بهی برحق ہے۔ (یعنی خلافت کو اگر ہم لے
ليں تو برحق طور پر ليا ہے اور اگر تمہارے سپرد کردیں تو برحق طور پر سپرد کيا ہے)۔
مزید یہ بهی کہتے ہيں: جس زمانے ميں پيغمبر (ص) کی رحلت ہوئی اس وقت سے آج
تک لوگوں کے درميان ميں ہميشہ مظلوم رہا ہوں اور فرماتے ہيں: خدایا! قریش نے ميرا حق
چهين ليا، ميرے حکم کی مخالفت کی لہٰذا قریش کی مصيبتوں اور سختيوں کی جزا دے (یعنی
الله مصائب کو ان لوگوں کی جزا قرار دے) کہ ميرا حق ظلم و ستم کے ساته لے ليا اور ميری
ماں کے بيڻے کی حکومت (یعنی حضرت رسول اکرم (ص) کی حکومت کو کيوں کہ دونوں کا
نسب فاطمہ بنت عمرو ابن عمران، عبد الله اور ابو طالب کی ماں تک پہنچتا ہے) ہم سے غصب
کرليا اور فرمایا: ميں ہميشہ مظلوم رہا ہوں مزید یہ بهی فرمایا: یقينا اس (ابوبکر) کو معلوم ہے
کہ خلافت کی چکی کے ليے ميری حيثيت مرکزی کيل کی ہے جو ميرے اطراف ميں طواف
کرتی ہے اور فرمایا: ميں اپنی ميراث کو لڻنے دیکه رہا ہوں۔
نيز فرماتے ہيں: یقينا ہمارے ليے ایک حق ہے کہ اگر ہميں دیں گے تو ہم اسے لے ليں
گے اور اگر واپس نہ دیں تو ہم اس کے طلب کرنے ميں ہر قسم کی سختيوں اور دشواریوں کو
تحمل کریں گے اگرچہ ایک طولانی مدت ہی کيوں نہ گزر جائے۔ مزید فرماتے ہيں: ان لوگوں نے
ہميشہ دوسروں کو ہم پر مقدم کيا اور مجهے اس چيز سے منع کيا جس کا ميں مستحق تها اور
مجه پر پتهر اور سنگریزوں کی تعداد کے برابر (یعنی بے شمار) ظلم کيا ہے۔
مولف کہتے ہيں: تمام ائمہٴ اطہار کے احتجاجات کو کلام کے طولانی ہونے کے خوف
سے آپ قارئين کرام کو مفصل و مدوّن کتابوں کی طرف رجوع کرنے کی درخواست کرتے ہيں ہم
صرف آخری حجّت الٰہی حضرت بقية الله الاعظم جو اپنے تمام آباء و اجداد طاہرین و مظلومين
کے حقيقی منتقم ہيں ان کے احتجاجات کی طرف آپ کو متوجہ کر رہے ہيں۔
٧٢۶ ۔ “وَفی دَلائل الامٰامةِ لابي جَعفر مُحمد بن جَریر الطّبري بِاسنادہ عَن اَبی حَمزة ثابِت
بن دینارِ الثُمالی قال : سَالت اَبا جَعفر محمد بن عَلی الباقر عليہ السلام ، فَقلت یاَبن رَسول
اللّٰہ لَم سُمّی عَلیٍ امير الموٴمنين وَهو اسمٌ لَم یُسم بہ اَحدٌ قَبلہ وَلا یَحل لاحَدٍ بَعدہ ، فَقال
لاٴنّہ ميرَةٌ العِلم یُمتار مِنہ وَلا یَمتار مِن اَحد سِواہ ، قُلت فَلم سُمی سَيفُہ ذَا الفقار ؟ قال لاٴنّہ
ماضَرب بِہ اَحداً مِن اَهل الدّنيا اِلاَّ افقَرَہ بِہ اهلَہُ وَوَلدہ وَافَقرہ فی الاٴخِرة الجنّة فَقلت یَابن رَسول
اللّٰہ الَستُم کُلکُم قائِمين بِالحَق ؟ قال لَمّا قُتل جَدّی الحُسين ضَجَّت المَلائکة بالبُکاء وَالنحيب و
قالوا الهَنا اتصفَح عَمّن قَتَل صَفوتک وَابن صَفوتک وَخِيرتک مِن خَلقک فَاوح یٰ اللہُّٰ الَيهم قَرّوا
مَلائکَتي فَعِزّتي وَجَلالي لانتِقَمن مِنهم وَلَو بَعد حينٍ ثمّ کَشَف لَهم عَن الائمّة مِن وُلد الحُسين
) فَسرت المَلائکة بِذلک وَرَاٴوا اَحدهُم قائِماً یُصلی فَقال سُبحانہ بِهذا القائِم انتَقُم مُنهم ” ( ١
دلائل الامامة ميں ابو جعفر محمد ابن جریر طبری بطور مسند ابو حمزہ ثابت ابن دینار
ثمالی سے نقل کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے دریافت کيا
کہ اے فرزند رسول (ص) ! حضرت علی - کا نام امير المومنين کيوں پڑ گيا یہ نام تو نہ پہلے
کسی کا تها اور نہ آپ کے بعد کسی کے ليے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا: اس ليے کہ وہ ميرة العلم
(علم کا ذخيرہ اور دریائے موّاج) ہيں۔ انہی سے علم حاصل کيا جاتا ہے اور وہ نشر ہوتا ہے آپ
کے علاوہ کسی دوسرے سے نہيں۔
ميں نے عرض کيا: فرزند رسول! ان کی تلوار کو ذوالفقار کيوں کہتے ہيں؟ فرمایا: اس ليے
کہ آپ جس کو بهی مخلوق ميں اس تلوار سے مارتے تهے اس کو دنيا ميں اس کے اہل و عيال
سے اور آخرت ميں جنت سے بهی جدا کردیتے تهے۔ ميں نے عرض کيا: اے فرزند رسول (ص)!
کيا آپ تمام حضرات قائم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ دلائل الامامہ، طبری، ص ۴۵٣ ۔ علل الشرائع، ج ١، ص ١۶٠ ۔ (
بالحق نہيں ہيں؟ فرمایا: ہاں ہاں، ميں نے عرض کيا: پهر امام قائم - کو قائم کيوں کہتے ہيں؟ آپ
نے فرمایا: جب ہمارے امام حسين - شہيد کر دیے گئے تو ملائکہ نے الله تعالیٰ کی بارگاہ ميں
روتے ہوئے فریاد کی: اے ميرے الله اور ہمارے مالک! جس نے تيرے منتخب بندے کو قتل کيا ،
کيا تو اس کا مواخذہ نہيں کرے گا؟ تو الله نے ان کی طرف وحی کی کہ اے ميرے ملائکہ! بے
قرار نہ ہو مجهے اپنی عزت و جلالت کی قسم! ميں ضرور ان سے انتقام لوں گا خواہ کچه عرصہ
بعد ہی کيوں نہ لوں۔ پهر الله تعالیٰ نے امام حسين کی اولاد ميں جتنے ائمہ تهے ان سے
ملائکہ کے ليے حجاب کو ہڻایا اور انہيں دیکه کر ملائکہ بے حد مسرور ہوئے اور ان ہی ائمہ ميں
سے ایک امام کهڑے ہوکر نماز پڑه رہے تهے تو الله تعالیٰ نے فرمایا: ميں اسی قائم (قيام کرنے
والے) کے ذریعے ان قاتلوں سے انتقام لوں گا۔
٧٢٧ ۔ “ وَفيہ باسنادَہ عَن اَبی الجارُود عَن اَبی جَعفر عليہ السلام قالَ سَاٴلتُہ مَتیٰ تَقوم
قائِمَکم : قال یا اَبا الجارودَ لا تَدرکون فَقلتَ اهلَ زَمانِہ فَقال وَلَن تُدرک اَهل زَمانِہ ، یَقومُ قائِمنا
بِالحقِ بَعد ایاسٍ مِن الشّيعَة یَدعوالنّاس ثَلاثاً فَلا یُجيبہ اَحدٌ فَاذا کانَ یَوم الرّابع تَعلّق بِاستارِ
الکَعبةِ ، فَقال یارَبّ انصُرنی وَ دَعوتُہ لا تَسقُط فَيقول تَبارک وَ تَعالیٰ لِلملائِکة الّذین نَصروا رَسول
اللّٰہ (ص) یَوم بَدرٍ وَلَم یَحطّوا سُروحُهم وَلَم یُطيعُوا اَسلِحتهُم فَيبایعونَہ ثُمّ یُبایِعہ مِن النّاس ثَلاث
ماٴةَ وَ ثَلاثة عَشر رَجلاً یَسيرُ الَی المَدینة فَيسير النّاس حَتی یَرضی اللّٰہ عزّوجلّ ، فَيقتُل الفَ وَ
خَمسماٴةَ قُرشِياً لَيس فِيهم الاَّ فَرخ زِینةٍ ثمّ یَدخل المَسجد فَينتقِصَ الحائِط حتّی یَضعُہ ال یٰ
الاٴرض ثمّ یُخرج الازرَق وَزرَیق لَعنهما اللّٰہ غَضّين طَرِتين یُکلمهُما فَيجيبانِہ فَترتابُ عِند ذلک
المُبطِلون ، فَيقولون یُکلّم المَوتی فَيقتل مِنهم خَمسماٴة مَرتابٍ فی جَوف المَسجد ثمّ یَحرقُها
بِالحَطب الّذی جَمَ اٰ عہُ لِيَحرقا بِہ عَلياً وَفاطِمة وَالحَسَن وَالحُسينَ وَذلِک الحَطب عِندنا نتَوارِثہ وَیَهدم
قصرَ المَدینة وَیَسيرُ الیٰ الکوفُة فَيخرج مِنها سِتة عَشر اَلفاً مِن البَتریة شٰاکّين فی السّلاح قُراءُ
القُرآن فُقهاء فی الدینِ قدِ قَرحُوا جِباهُهم وَسَمَروا رَساماتَهم وَعَمّهم النِفاق وَکُلّهم یقولون یابن
فاطمة ارجع لا حاجة لنا فيک فيضع السيف فيهم علی ظهر النجف عشية الاٴثنين من العصر الی
العشاء فَيقتلُهُم اَسرع مِن جزر جزورٍ فَلا یَفوت مِنهم رَجلٌ وَلا یَصاب مِن اَصحابہ احدٌ دمائَهم قُربان
الَی اللّٰہ ، ثمّ یَدخل الکُوفة فَيقتل مَقاتِليها متٰی یَرضی اللٰہ، قال فَلم اعقَل المَعنٰی فَمکث قَليلاً
ثمّ قُلت وَ مایَدریہِ جَعلت فَداک متیٰ یَرضی اللّٰہ عزّوجلَ قال یا اَبا الجارود انّ اللّٰہ اوحیٰ الیٰ
موسیٰ وَہو خَير من ام موسیٰ واوحیٰ اللّٰہ الی النّحل وَهو خَيرٌ مِن النّحل فَعقلتُ المَذهَب فَقال
لی اٴعقلَت المَذهب ؟ قُلت نَعم فَقال انّ القائِم عليہ السلام لَيَملک ثَلاثماٴة وَتِسع سِنين کَما
لَبث اَصحاب الکَہف فی کَهفِهم یمَلاء الاٴرض عَدلاً وَ قسطاً کَما مَلئت ظُلماً وَ جوراً وَ یفَتح اللّٰہ عَليہ
و شرق الٴارض وَغَربِها یَقتل النّاس حَتّی لا یَری الاَّ دینُ مُحمد (ص) یَسير بسيَرةِ سُليمان بُن
) داود یَدعو الشّمس وَالقمر فَيُجيبانِہ وَیَطوی لَہ الاٴرض فَيوحی اللّٰہ الَيہ فَعمِل بِامراللّٰہ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند ابو الجارود سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام
محمد باقر - سے دریافت کيا کہ حضرت قائم - کا قيام کب ہوگا؟ فرمایا: اے ابو الجارود! تم وہ
زمانہ درک نہيں کرو گے، پهر ميں نے عرض کيا: کيا ان کے زمانے والوں کا زمانہ مجهے نصيب
ہوگا؟ فرمایا: ان کے زمانے والوں کو بهی ہر گز درک نہيں کرو گے، ہمارے قائم حق کے ساته
شيعوں کے نا اميد ہونے کے بعد قيام کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ دلائل الامامہ طبری، ص ۴۵۵ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ٣، ص ٣٠۶ ۔ (
گے ، تين دن تک لوگوں کو دعوت دیں گے کوئی شخص بهی ان کی دعوت پر لبيک نہيں کہے گا
جب چوتها دن ہوگا تو خانہٴ کعبہ کے پردے سے آویزاں ہوکر عرض کریں گے: اے ميرے پروردگار!
ميری مدد فرما اور ان کی دعا رد نہيں ہوگی پهر الله تعالیٰ ان فرشتوں کو جو روزِ بدر رسول خدا
(ص) کے ہم رکاب ہوکر جنگ ميںمشغول تهے اور انہوں نے اپنے گهوڑے کی زین کو اس سے
نہيں اڻهایا ہوگا نيز اپنے اسلحوں کو بهی دور نہيں رکها ہوگا حکم دے گا کہ حضرت کی بيعت
کریں پهر ان ميں سے ٣١٣ افراد ان کی بيعت کریں گے پهر مدینہٴ منورہ کی طرف جائيں گے اور
لوگ بهی حرکت کریں گے یہاں تک کہ الله تعالیٰ راضی ہوجائے گا پهر قریش کے ١۵٠٠ سو افراد
کو قتل کریں گے ان ميں سے ہر ایک زنا کاروں کی اولاد ہوگا (یعنی سب ولد الزنا ہوں گے) پهر
مسجد ميں داخل ہوکر دیوار کو خراب کرکے اسے زمين کے برابر کردیں گے اس کے بعد ارزق و
زریق لعنهما الله کو قبر سے خارج کریں گے اور وہ تر و تازہ مردے کی حالت ميں ہوں گے پهر ان
کے ساته گفتگو کریں گے وہ لوگ بهی جواب دیں گے، پهر اس وقت اہل باطل شک کریں گے تو
وہ کہيں گے مردوں سے بات کریں پهر مسجد کے درميان ١۵٠٠ افراد جو شک و شبہ والے ہوں
گے قتل کریں گے۔
پهر ان دونوں کو ان کی اس لکڑی سے جلائيں گے جو انہوں نے حضرت علی -، فاطمہ
-، حسن - اور حسين - کو جلانے کے ليے جمع کی ہوگی اور وہ لکڑی ہمارے پاس بطور ميراث
پہنچی ہے اور قصر مدینہ کو خراب کریں گے پهر کوفہ کی طرف حرکت کریں گے اور بتریہ فرقے
زکے سولہ ہزار جو اسلحوں سے ليس ہوں گے قاری قرآن اور فقيہ ہوں گے اہل دین ہوں گے۔
(کثرت عبادت کی وجہ سے) ان کی پيشانی زخمی ہوگی ليکن سب نفاق ميں ڈوبے ہوئے ہوں
گے سب یہ کہيں گے: اے فرزند فاطمہ! آپ واپس چلے جائيں ہميں آپ کی ضرورت نہيں ہے۔ پهر
نجف کی پشت والی سرزمين پر ان لوگوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبتریہ فرقے کا تعلق مغيرہ ابن سعد سے ہوگا کہ جس کو ابتر کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ
فرقہ زیدیہ فرقوں ميں سے ایک ہے۔ (مترجم(
کے درميان اپنی شمشير چلائيں گے اور دوشنبہ کی رات ميں عصر سے عشاء کے وقت تک
سب کو قتل کریں گے اور ان کو اونٹ قتل کرنے سے بهی زیادہ جلدی قتل کریں گے یہاں تک کہ
ایک شخص بهی باقی نہيں رہے گا اور ان کے اصحاب ميں سے کسی ایک کو بهی کوئی گزندو
نقصان نہيں پہنچے گا () (ان کا خون تقرّب الٰہی کا ذریعہ ہوگا) پهر کوفے ميں داخل ہوں گے اور
جنگجو افراد کو قتل کریں گے یہاں تک کہ خدا راضی ہوجائے۔ راوی کا بيان ہے: ميں اس کا معنی
نہيں سمجه پایا تهوڑی دیر ڻہر کر ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان ہوجاؤں، ان کو کيسے
معلوم ہوگا کہ کب خدا راضی ہوگا؟ فرمایا: اے ابو الجارود! الله تعالیٰ نے مادرِ موسٰی کی طرف
وحی نازل فرمائی اور وہ تو مادرِ موسیٰ سے بہتر ہيں اور شہد کی مکهی کی طرف وحی نازل
کی اور وہ تو شہد کی مکهی سے بہتر ہيں، پهر ميں اس راستے کو سمجه گيا پهر فرمایا: تم
نے راستہ کو سمجه ليا، ميں نے عرض کيا: ہاں، پهر فرمایا: ہمارے قائم - تين سو نو سال تک
حکومت کریں گے جس طرح اصحاب کہف اپنے غار ميں رہے۔ وہ زمين کو عدل و انصاف سے اس
طرح بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی الله تعالیٰ ان کو سرزمين
مشرق و مغرب پر فتح و کامرانی عطا فرمائے گا اور وہ (مخالف خدا اور رسول (ص) کے افراد کو
اتنا قتل کریں گے کہ سوائے دین محمد کے اور کوئی دین باقی نہيں رہے گا آپ، حضرت سليمان
ابن داؤد - کی سيرت پر عمل کریں گے، آپ سورج اور چاند کو آواز دیں گے اور وہ دونوں آپ کی
آواز پر لبيک کہيں گے۔ آپ کے ليے زمين سمٹ جائے گی پهر آپ کی طرف الله کی طرف سے
وحی آئے گی اور آپ بحکم خدا وحی پر عمل کریں گے۔
٧٢٨ ۔ “وَفيہ بِاسنادِہ عَن عَبد الرحمن القَصير قالَ : قال اَبو جَعفر عليہ السلام : امٰا لَو قٰام
القآئِم عليہ السلام لَقد ردّت الَيہ الحُميراء حَتّی یُجلّدها الحَد وَ یَنتَقم لامِہ فاطِمة مِنها ، قُلت
جعلت فَداک وَلَم یُجلّدها الحَدّ قالَ لِفریتَها عَلی ام ابراہيمَ ، قُلت فکيف اَخّرہ اللّٰہ عزّوجلّ لِلقائِم
عليہ السلام فَقال لاٴنُ اللّٰہ تَبارک
) وَ تَعال یٰ بَعث مُحمداً رَحمةً وَیَبعَث القائِم نِقمَةً ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند عبد الرحمن قصير سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ حضرت
امام محمد باقر - نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! اگر قائم - قيام کریں گے تو یقينا حميرا (عائشہ) کو
واپس بلائيں گے تاکہ اس پر حد جاری کریں اور اپنی ماں حضرت فاطمہ = کے ليے اس سے
انتقام ليں گے، ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان ہو جاؤں کيوں اس پر حد جاری کریں گے۔
فرمایا: کيوں کہ ابراہيم کی ماں پر تہمت لگائی تهی، ميں نے عرض کيا: کيسے الله تعالیٰ نے
اس پر حد جاری کرنے ميں قائم - کے ذریعے تاخير فرمائی؟ فرمایا: کيوں کہ الله تعالیٰ نے
حضرت محمد (ص) کو رحمت بناکر بهيجا تها اور قائم - کو نقمت و عذاب بناکر مبعوث فرمائے
گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ دلائل الامامہ، طبری، ص ۴٨۵ ۔ مختصر بصائرالدرجات، ص ٢١٣ ۔ مستدرک الوسائل، ج ١٨ ، ص (
٩٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢٢ ، ص ٢۴٢ ۔
|