قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٣۴ ۔ دلوں کی روشنی
٣۴ ۔ اَلقُرآنُ جَلاء القُلوب “لِلقلوب“
وَکَذلک الحُجة القائم عليہ السلام
قرآن مجيد دلوں کی روشنی ہے (دلوں کو جلا و روشنی بخشنے والا ہے( اسی طرح حضرت حجّت قائم آل محمد اور ان کے آباء و اجداد کرام دلوں کو جلا اور روشنی بخشنے والے ہيں۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <یَااٴَیُّہَا النَّاسُ قَد جَائَتکُْم مَوعِْظَةٌ مِن رَبِّکُم وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ ) وَہُدًی وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ > ( ١
ایها الناس! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصيحت (قرآن) اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبان ایمان کے ليے رحمت “قرآن” آ چکا ہے۔ آیہٴ کریمہ کا مضمون چار اہم موضوع پر مشتمل ہے جو قابل بحث و تحقيق ہے: ١۔ الله تعالیٰ کی جانب سے موعظہ ٢۔ اندرونی بيماریوں کے ليے شفا ٣۔ ہدایت ۴۔ رحمتِ پروردگار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ۵٧ ۔ (
علامہ راغب مفردات ميں کہتے ہيں: “الوعظ زجر مقترن بتخویف ” ( ١) وعظ کا معنی خوف دلانے کے ساته روکنا اور منع کرناہے۔
علامہ خليل کہتے ہيں: یہ وعظ وہی خير و خوبی کی یاد آوری ہے کہ جس کے ذریعہ قلب ميں رقّت پيدا ہو۔ والعظة والموعظة
وعظ ، نصيحت کے معنی ميں بهی آیا ہے : “ وعظة یعظة عظاً وعظة ای نصح لہ“ ٢۔ الصدر: من جملہ اعضا و جوارح بدن ميں سے ایک عضو بدن (سينہ) کے معنی ميں ہے جس کی جمع صدور آتی ہے الله تعالیٰ نے فرمایا: <رَبِّ اشرَْح لِی صَدرِْی > ( ٢) موسی نے عرض کيا: پروردگار ميرے سينے کو کشادہ کردے۔
الله نے فرمایا: <فَإِنَّہَا لاتَعمَْی الاْٴَبصَْارُ وَلَکِن تَعمَْی القُْلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ > ( ٣) اس ليے کہ در حقيقت آنکهيں اندهی نہيں ہوتی ہيں بلکہ وہ دل اندهے ہوتے ہيں جو سينوں کے اندر پائے جاتے ہيں۔ <وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُورِ > ( ۴) اور دل کے رازوں کو ظاہر کردیا جائے گا۔ بعد ميں ہر شے کے مقدم ہونے پر اطلاق ہوتا ہے جيسے صدر مجلس، صدر نيزہ، صدر کلام وغيرہ۔ ٣۔ الہدیٰ: هی الدّلالَة عَلی المَطلوب بِلطف کسی شخص کو نرمی اور محبت کے ساته اس کے مقصد کی طرف رہنمائی کرنا۔
۴۔ الرحمة: رقة تَقتضی الاحسانَ الَمرحوم ( ۵) وَتاٴثر خاص فی القُلوب عَن مُشاهدة ضرّ ) اَو نَقص فی الغير یَبعث الراحم الی جَبر کَسرہ وَاتمامَ نَقصہ۔ ( ۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مفردات راغب، ص ۵٢٧ ۔ ) ٢(۔ سورئہ طہ، آیت ٢۵ ۔ (
٣(۔ سورئہ حج، آیت ۴۶ ۔ ) ۴(۔ سورئہ عادیات، آیت ١٠ ۔ (
۵(۔ مفردات راغب، ص ١٩١ ۔ ) ۶(۔ الميزان، ج ١٠ ، ص ٨٠ ۔ (
وہ رقّت قلب جو مرحوم (یعنی جس پر رحم کياجائے) پر احسان کا تقاضا کرتی ہو۔ پهر کبهی اس کا استعمال صرف رقّت قلب کے معنی ميں ہوتا ہے اور کبهی صرف انسان کے معنی ميں خواہ رقّت کی وجہ سے نہ ہو۔
دونوں تعریف (رحمت )معنی و مفہوم کے لحاظ سے قریب المخرج ہيں۔ جب انسان کا ایک ایسے موقع سے سابقہ پڑتا ہے جو فقر و فاقہ اور بے چارگی ميں مبتلا ہو یا کسی عضو ميں کمی یا روزمرہ کی معيشت ميں تنگی کا حامل ہو تو فطری طور پر اس کا قلب متاثر ہوجاتا ہے اور اسے اس کی تلافی اور شکستگی کو جوڑنے اور نواقص کی تکميل پر برانگيختہ کرتا ہے۔

چاروں عناوین کی وضاحت تقریباً تيس مقام پر پروردگار متعال مختلف الفاظ کے ساته تمام مخلوقات کو موعظہ فرما رہا ہے۔ اب ہم ان ميں سے تين چار مقام کو بطور اختصار پيش کرنے پر اکتفا کر رہے ہيں : الله تعالیٰ کا قول: <ہَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَمَوعِْظَةٌ لِلمُْتَّقِينَ> ( ١) یہ عام انسانوں کے ليے ایک بيان حقائق ہے اور صاحبان تقویٰ کے ليے ہدایت اور نصيحت ہے۔
آیہٴ کریمہ تاخير کے اعتبار سے تقسيم کے مقام ميں ہے یعنی یہ قرآن بعض کے ليے ) بيان اور وضاحت ہے اور بعض دوسروں (متقين) کے ليے ہدایت اور موعظہ ہے ( ٢ هذا: قرآن کریم کی طرف اشارہ ہے “بيان للناس” تمام لوگوں کے ليے رہنما اور حجّت ہے اور ہدی، ہدایت بهی ، ہدایت اور بيان کے درميان فرق یہ ہے کہ “بيان” دوسروں کے ليے معنی کا اظہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣٨ ۔ (
٢(۔ الميزان، اسی آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں۔ (
مقصود ہوتا ہے خواہ وہ جو شخص بهی ہو اور “ہدایت” ہدایت کا راستہ بتانا مقصود ہوتا ہے تاکہ اس راہ پر چلے نہ راہِ ضلالت و گمراہی پر اور “موعظہ للمتقين” موعظہ متقين کے ليے مخصوص ہے اگرچہ بيان ہدایت اور موعظہ بهی تمام لوگوں کے ليے ہے یہ اس ليے ہے کہ متقين ہی وہ ہيں جنہوں نے اس سے فائدہ اڻهایا اور اس سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہيں اور اس ہدایت سے ) ہدایت یافتہ ہوتے ہيں اور اس کے موعظے سے نصيحت حاصل کرتے ہيں۔ ( ١
٢۔ الله تعالیٰ کا قول ہے: <إِنَّ اللهَ یَاٴمُْرُکُم اٴَن تُؤَدُّوا الاْٴَمَانَاتِ إِلَی اٴَہلِْہَا وَإِذَا حَکَمتُْم بَينَْ ) النَّاسِ اٴَن تَحکُْمُوا بِالعَْدلِْ إِنَّ اللهَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللهَ کَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا > ( ٢
بے شک الله تبارک و تعالیٰ تمہيں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو اور جب کوئی فيصلہ کرو تو انصاف کے ساته کرو الله تمہيں بہترین نصيحت کرتا ہے بے شک الله سميع بهی ہے اور بصير بهی۔

شان نزول
۶٧٧ ۔ تفسير مجمع البيان اور دوسری تفسيروں ميںنقل ہوا ہے کہ یہ آیہٴ کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب پيغمبر اکرم (ص) مکمل کاميابی کے ساته شہر مکہ مکرمہ ميں داخل ہوئے عثمان ابن طلحہ جو خانہٴ کعبہ کا کليد دار تها اسے اپنے پاس بلوا کر اس سے کليد (کنجی) کو واپس ليا تاکہ خانہٴ کعبہ کو موجودہ بتوں سے پاک کریں۔
پيغمبر اکرم (ص) کے چچا عباس نے اس عمل کے انجام دینے کے بعد تقاضا کيا کہ پيغمبر (ص) خانہٴ کعبہ کی کليد ان کے سپرد کردیں کيوں کہ بيت الله کی کليد داری کا منصب عرب قوم کے درميان ایک برجستہ اور عالی مقام سمجها جاتا تها “گویا عباس کا رجحان یہ تها کہ اپنے برادر زادہ کے اجتماعی و سياسی نفوذ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ٢، ص ۵٠٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٨ ۔ (
سے ذاتی استفادہ کریں” ليکن پيغمبر اکرم (ص) نے اس تقاضے کے برخلاف خانہٴ کعبہ کو بتوں کی کثافت سے پاک کرنے کے بعد خانہٴ کعبہ کا دروازہ مسدود کردیا اور کليد کو پهر عثمان ابن طلحہ کو واپس کردیا اور اس وقت مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی ( ١) <إِنَّ اللهَ یَاٴمُْرُکُم اٴَن تُؤَدُّوا الاْٴَمَانَاتِ إِلَی اٴَہلِْہَا > ( ٢) بے شک الله تمہيں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو۔

امانت اور عدالت اسلام کی نظر ميں
آیہٴ کریمہ اگرچہ خاص موقع پر نازل ہوئی ليکن یہ بهی ظاہری بات ہے کہ اس سے ایک عمومی اورہمہ گير حکم کا استفادہ ہوتا ہے۔
صراحتاً فرماتا ہے: “الله تعالیٰ تمہيں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچادو”۔ امانت ایک وسيع مفہوم کا حامل ہے جو ہر قسم کے مادی اورمعنوی سرمائے پر مشتمل ہے، ہر ایک مسلمان کا اس آیت کی صراحت کے مطابق فریضہ ہے کہ کسی قسم کی امانت ميں خواہ وہ کسی بهی شخص کی ہو بغير کسی استثناء کے خيانت نہ کرے خواہ وہ مسلمان ہو یا غير مسلمان، یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ در واقع اسلام ميں حقوق بشر کے اعلان اور اطلاعيہ کے منشورات ميں سے ایک منشور ہے کہ جس ميں تمام انسان برابر کے شریک ہيں۔ قابل توجہ یہ ہے کہ بالا مذکورہ امانت کی شان نزول ميں صرف ایک مادی امانت ہی تهی اس کے مقابل ميں بهی ایک فرد مشترک تها۔ یہ تو امانت کی طرف اجمالی اشارہ تها۔ آیت کے دوسرے حصے ميں دوسرے اہم دستور کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ “حکومت ميں عدالت” کا مسئلہ ہے۔ آیہٴ کریمہ ميں الله تعالیٰ فرما رہا ہے: خداوند متعال تمہيں بهی حکم دیتا ہے کہ جب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ٣، ص ١١٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٨ ۔ (
تم لوگوں کے درميان قضاوت اور حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساته حکم کرو”۔ <وَإِذَا حَکَمتُْم ) بَينَْ النَّاسِ اٴَن تَحکُْمُوا بِالعَْدلِْ > ( ١ لہٰذا ان دو اہم حکم کی تاکيد کے ليے فرما رہا ہے: “الله تعالیٰ تمہيں بہترین وعظ و نصيحت کرتا ہے” <إِنَّ اللهَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ > پهر مزید تاکيد کرتے ہوئے فرما تا ہے: “ہر حالت ميں خداوند متعال تمہارے اعمال کو دیکهنے والا ہے تمہاری باتوں کو بهی سنتا ہے اور تمہارے اعمال کو بهی دیکهتا ہے” <إِنَّ اللهَ کَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا >۔
یہ حکم بهی ایک عمومی اور کلی قانون ہے اور ہر قسم کی قضاوت و حکومت کو خواہ وہ عظيم امور ميں ہوں یا حقير امور ميں ہوں ان سب پر مشتمل ہے یہاں تک اسلامی روایات ميں ہم پڑهتے ہيں ایک دن دو ننهے بچوں نے ایک تحریر لکهی تهی اور ان ميں بہترین تحریر کے انتخاب کے ليے امام حسن - کی خدمت ميں پہنچے تو اس منظر کا حضرت امير المومنين - مشاہدہ کر رہے تهے فوراً اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا : ۶٧٨ ۔ یا بُنیّ اُنظر کَيف تَحکمُ فانّ هٰذا حُکمٌ وَاللّٰہ سَاٴَلَک عَنہ یَوم القِيٰمَة ۔ اے ميرے بيڻے! خوب دقّتِ نظر سے کام لو کہ کيسے قضاوت کرتے ہو کيوں کہ یہ خود ایک قسم کی قضاوت ہے اور خداوند متعال قيامت کے دن اس کے بارے ميں تم سے سوال کرے گا ( ٢)۔
یہ دو اہم اسلامی قانون (امانت کی حفاظت اور حکومت ميں عدالت) ایک صحيح و سالم انسانی سماج کی بنياد ہے اور کوئی بهی معاشرہ خواہ مادی ہو یا الٰہی و دینی ان دونوں بنيادی قانون کے نفاذ کے بغير سر و سامان نہيں پاسکتا ۔ پہلا قانون کہتا ہے: اموال و ثروتيں ، مناصب، ذمہ داریاں ، انسانی سرمائے ثقافتيں اور تاریخی ميراثيں سب ہی کچه الٰہی امانات ہيں جو اجتماعی معاشرے ميں مختلف افراد کے ہاتهوں سپرد کی جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ نساء، آیت ۵٨ ۔ (
٢(۔ تفسير مجمع البيان، ج ٣، ص ۶۴ ۔ (
ہيں اور سب ہی کا فریضہ یہ ہے کہ ان امانات کی حفاظت ميں اور انہيں ان کے صالح ترین اہليت رکهنے والے افراد کو سپرد کرنے کی کوشش کریں اور کسی بهی صورت ميں ان امانتوں ميں خيانت واقع نہ ہونے پائے۔
دوسری طرف ہميشہ اجتماعات ميں،متضاد باتيں ، متضاد قسم کی دوسری چيزیں جو انسان کے ذاتی منافع کی حامل ہوتی ہيں موجود ہوتی ہيں جسے عادلانہ حکومت کے ذریعہ حل و فصل ہونا چاہيے تاکہ ہر قسم کا نابجا امتياز اور تفاوت نيز ظلم و ستم معاشرے سے رخت سفر باندهے۔
جيسا کہ پہلے ذکر کيا گيا ہے کہ امانت ان اموال ميں منحصر نہيں ہے کہ جسے لوگ ایک دوسرے کو سپرد کرتے ہيں بلکہ دانشور افراد بهی معاشرہ ميں ایسے امانت دار ہيں کہ جن کا فریضہ ہے کہ حقائق کو مخفی نہ کریں، یہاںتک کہ انسان کی اولاد امانات ہيں کہ اگر ان کی تعليم و تربيت ميں کوتاہی ہو تو امانت ميں خيانت واقع ہوئی ہے، اس سے بهی بالاتر خود انسان کا وجود نيز ہستی اور تمام طاقتيں جو خدا نے اسے عطا فرمائی ہيں وہ بهی پروردگار کی امانت ہيں کہ انسان کا فریضہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت ميں کوشاں رہے، سلامت جسم و روح کی حفاظت ميں اور جوانی کی سرشار طاقت و فکر کی نگہداشت ميں بهی کوتاہی نہ کرے لہٰذا خود کو خودکش حملے سے یا اپنے نفس کو ضرر یا ہلاکت تک پہنچانے کے ليے دست درازی نہيں کرسکتا۔
۶٧٩ ۔ یہاں تک کہ بعض اسلامی روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ وہ علوم و اسرار اور امانتِ امامت جو ہر ایک امام کودوسرے امام کے سپرد کرنا ضروری ہوتا ہے مذکورہ آیت ميں ) شامل ہے۔ ( ١
قابل توجہ یہ ہے کہ مورد بحث آیت ميں امانت کی ادائيگی عدالت پر مقدم کرکے ذکر ہوئی ہے، اور یہ شاید اس ليے ہے کہ قضاوت ميں مسئلہ عدالت ہميشہ خيانت کا مد مقابل سے ملازمہ پایا جاتا ہے، کيوں کہ اصل و اساس یہ ہے کہ تمام لوگ امين ہوں۔ ليکن اگر ایک فرد یا بعض افراد اس مسلم اصل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نور الثقلين، ج ١، ص ۴٩۶ ۔ (
سے منحرف ہوجائيں تو نوبت اس عدالت تک پہنچتی ہے کہ خود انہيں ان کے فریضہ سے آشنا ) کرتی ہے۔ ( ١

اسلام ميں امانت اور عدالت کی اہميت
اسلامی منابع ميں اس قدر اس موضوع کے بارے ميں تاکيد ہوئی ہے کہ اور دوسرے تمام احکام ميں کم مشاہدہ ميں آتی ہے اب ہم اس سلسلے ميں چند حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہيں :
۶٨٠ ۔ حضرت امام صادق - سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
”لا تَنظَروا الیٰ طُول رکُوع الرّجُل وَسُجودہ ، فَاّن ذلِک شَی ء اِعتادَہ فَلو تَرکَہ استوحَشَ وَ ) لکنِ انظُرو ال یٰ صِدق حَدیثہ وَاداءِ اَمانَتِہ ” ( ٢
صرف کسی شخص کے طویل رکوع و سجود کو نہ دیکهو کيونکہ ممکن ہے یہ اس کی عادت ہوگئی ہے اگر اس کو ترک کردے تو اسے وحشت ہوگی بلکہ اس کی بات کی سچائی اور ادائے امانت کو مدّنظر قرار دو۔
۶٨١ ۔ امام جعفر صادق - سے ایک دوسری حدیث ميں منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا:حضرت علی - کو وہ جو کچه پيغمبر اکرم (ص) کے نزدیک اعلیٰ مقام حاصل تها وہ قول ) ميں راست گوئی اور ادائے امانت کی وجہ سے تها ( ٣
۶٨٢ ۔ نيز امام جعفر صادق - سے دوسری حدیث ميں نقل ہوا ہے کہ اپنے اصحاب ميں سے ایک صحابی سے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير نمونہ، ج ٣، ص ۴٣٢ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٠۵ ۔ بحار الانوار، ج ۶٨ ، ص ٨۔ (
٣(۔ تفسير نور الثقلين، ج ١، ص ۴٩۶ ۔ (
”اِنّ ضارِب عَلیٍ بالسّيفِ وَقَاتلَہ لَو ائتمَنی وَاستنضَحي وَاستَشارَني ثمّ قبِلت ذلک مِنہ لاٴدَیت الَيہ الاٴمانَةَ“
اگر حضرت علی - کا قاتل کوئی امانت ميرے پاس رکهتا یا مجه سے کوئی نصيحت کا خواستگار ہوتا یا مجه سے کوئی مشورہ طلب کرتا تو ميں ان امور کے اجرا کرنے کے ليے اپنی ) آمادگی ظاہر کرتا اور یقينی طورپر حق امانت کو ادا کرتا۔ ( ١
۶٨٣ ۔ وہ روایات جو شيعہ اور اہل سنت کے منابع ميں پيغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوئی ہيں ان ميں یہ عظيم قول پيغمبر نمایاں اور روشن طور پر اپنی تابانی ظاہر کر رہا ہے: ” ”آیَة المُنافِق ثَلاثٌ اِذا حَدثَ کَذب وَاِذَا وَعدَ اخلَفَ وَاِذا ائتِمَن خانَ“ منافق کی تين نشانی پائی جاتی ہے: جب وہ گفتگو کرتا ہے تو جهوٹ بولتا ہے اور جب وہ وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب وہ کسی کی امانت اپنے پاس رکهتا ہے تو اس ) ميں خيانت کرتا ہے۔ ( ٢
پيغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی - سے فرمایا: جب کبهی طرفين اپنے نزاع و اختلاف کو تمہارے پاس لے کر آئيں تو تم یہاں تک مساوات اور عدالت کی رعایت کرو کہ ان کے درميان برابر برابر سے دیکهو اور برابر برابر گفتگو بهی کرو۔ ”سو بَينَ الخَصمَين فی لَحظِک وَلَفظکَ“
مولف کہتے ہيں:اکثر انبياء بلکہ تمام انبيائے عظام ان دو اہم امر کو ابلاغ کرنے کے ليے مامور ہوئے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير نور الثقلين، ج ١، ص ۴٩۶ ۔ (
٢(۔ صحيح بخاری، ج ٣، ص ١۶٣ ، ج ٧، ص ٩۵ ۔ صحيح مسلم، ج ١، ص ۵۶ ۔ سنن ترمذی، ج ۴، ص ( ١٣٠ ۔ سنن نسائی، ج ٨، ص ١١٧ ، مکارم الاخلاق، ص ۴٢٨ ۔
۶٨۴ ۔ “فی الکافی عن ا بی عبد اللّٰہ عليہ السلام : “ انّ اللہٰ عزّوجلّ لَم یَبعث ) نَبيّاً الاَّ بِصدق الَحدیث وَ اداء الاٴمانة الیٰ البِر وَالفاجِر ” ( ١
کافی ميں امام جعفر صادق -سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: الله تعالیٰ کسی نبی کو نہيں بهيجتا مگر بات کی سچائی اور ہر نيک و بد کی امانت کو ادا کرنے کے ساته۔
۶٨۵ ۔ “ وَفی الکافی بِاسنادہ عَن معاویَة بن وَهب عَن ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام قال: ) العَدلُ اَحلیٰ مِن الشّهد وَاليَن مِن الزّبد واطيَب رٰیحاً مِن المَسک ” ( ٢
کافی ميں بطور مسند معاویہ ابن وہب سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: عدل شہد سے زیادہ شيریں مسکہ سے زیادہ نرم اور مُشک سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ ۶٨۶ ۔ “ وَفيہ بِاسنادہ عَن الحَلبی عَن الصادق عليہ السلام قال: العَدل اَحل یٰ مِن المَاء ) یَصيبُہ الظمآن مٰا اَوسَع العَدل اذا عدِل فيہ وَانِ قَلَّ ” ( ٣
اسی کتاب ميں بطور مسند حلبی سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: عدل و انصاف اس پانی سے زیادہ شيریں ہے جو ایک پياسے کو ملے اور کيسا اچها وسيع عدل ہے جب وہ ہميشگی کے ساته ہو اگرچہ کم ہی کيوں نہ ہو۔
۶٨٧ ۔ “ وَفيہ بِاسنادہ عَن روحٍ بن اُخت المُعلّیٰ عَن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: اتّقوا ) اللہّٰ وَاعدِلوا فَانّکم تَعيبُونَ عَلی قومٍ لاٰ یَعدلونَ ” ( ۴
اسی کتاب ميں بطور مسند روح ابن اخت المعلی سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: الله سے ڈرو اور اپنے گهر کے درميان عدل و انصاف سے کام لو کيوں کہ تم ان لوگوں کی حکومت اور عمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ١٠۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ١۴٧ ۔ (
٣(۔ کافی،ج ٢، ص ١۴۶ ۔ (
۴(۔ کافی، ج ٢، ص ١۴٧ ۔ (
کو ناپسند کرتے ہو جو عدل و انصاف نہيں کرتے۔
) ۶٨٨ ۔ “ قال رسول اللّٰہ (ص) :“ بِالعدلِ قٰامَت السّمواتِ وَالاٴرض ” ( ١
عدل و انصاف کی بنياد پر تمام آسمان اور زمين استوار و پائيدار ہيں۔ ) ۶٨٩ ۔ “وَقال (ص) : “ایّاکم وَالظّلم فَانّ الظّلم عِند اللّٰہ هُو الظّلماتِ یَوم القِيٰمَةِ”’ ( ٢
رسول خدا (ص) نے فرمایا: ظلم و ستم سے پرہيز کرو کيوں کہ قيامت کے دن ہر ایک عمل ایک مناسب شکل ميں مجسم ہوگا ظلم و تاریکی کی شکل ميں مجسم ہوگا اور تاریکی کا ایک کا لاپردہ ظالموں کے اطراف ميں چاروں طرف سے ہوگا۔
) ۶٩٠ ۔ “ وَقال عليہ السلام : “اَلمُلک یَبقیٰ مَع الکُفر وَلا یَبقیٰ مَع الظّلم ” ( ٣
حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: “سلطنتيں اور حکومتيں ممکن ہيں کافر ہونے کے باوجود بادوام ہوں ليکن اگر ظالم ہوں گی تو وہ دوام نہيں پاسکتيں” کيوں کہ ظلم و ستم ایک ایسی شے ہے کہ اس کا اثر اسی زندگی ميں ظاہر ہوگا۔

الله تعالیٰ تمہيں بہترین وعظ و نصيحت کرتا ہے
مولف کہتے ہيں: قرآن مجيد ميں تمام کے تمام خطابات الٰہيہ وعظ و نصيحت ہيں۔ ہم چند مقام کو تبرکاً اختصار کے ساته ذکر کر رہے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ۵، ص ٢۶۶ ۔ (
٢(۔ خصال، ص ١٧۶ ۔ (
٣(۔ امالی مفيد، ص ٣١٠ ۔ بحار الانوار، ج ٧٢ ،ص ٢٣١ ۔ تفسير صافی، ج ٢، ص ۴٧٧ ۔ (
>یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم فَإِن تَنَازَعتُْم فِی شَیءٍْ ) فَرُدُّوہُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُم تُؤمِْنُونَ بِاللهِ وَاليَْومِْ الآْخِرِ ذَلِکَ خَيرٌْ وَاٴَحسَْنُ تَاٴوِْیلًا > ( ١ اے ایمان والو! الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہيں ميں سے ہيں پهر اگر آپس ميں کسی بات ميں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلڻا دو اگر تم الله اور روز آخرت پر ایمان رکهنے والے ہو۔ یہی تمہارے حق ميں خير اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔
خداوند تبارک و تعالیٰ آیہٴ کریمہ کی ابتدا ميں اہل ایمان کو حکم دے رہا ہے کہ وہ خداوند متعال کی اطاعت کریں اور یہ واضح سی بات ہے کہ ایک با ایمان شخص کے ليے تمام اطاعتيں اطاعتِ پروردگار تک منتہی ہوتی ہيں۔
بعد والے مرحلے ميں پيغمبر اکرم (ص) کی پيروی کا حکم دیتا ہے وہ پيغمبر جو معصوم ہے لوگوں کے درميان الٰہی نمائندہ ہے اور ہرگز ہویٰ و ہوس کی بنياد پر گفتگو نہيں کرتا اس بنا پر خداوند متعال کی اطاعت خالقيت اور حاکميت ذات الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے یعنی خدا واجب الاطاعت بالذات ہے ليکن پيغمبر اکرم (ص) کی اطاعت پروردگار کے حکم سے وجود ميں آئی ہے۔ یعنی اطاعت بالغير ہے۔ اور شاید آیت ميں اطيعوا کی تکرار اسی دو اطاعت کے تفاوت کی طرف اشارہ ہو۔ اگرپيغمبر اکرم (ص) کی اطاعت بهی بالذات تهی تو پهر تکرار کی ضرورت نہيں تهی صرف اطيعو الله و الرسول کہنا کافی تها۔
تيسرے مرحلے ميں اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے جو اسلامی معاشرہ ميں لوگوں کے دین و دنيا کا محافظ ہے۔ اولو الامر کون لوگ ہيں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء،آیت ۵٩ ۔ (
اولو الامر لغوی معنی کے لحا ظ سے : راغب اصفہانی رقم طراز ہيں: امر یعنی شان اس کی جمع امور شئون اور وہ عام لفظ ہے جس ميں تمام افعال و اقوال شامل ہوتے ہيں اور خداوند ( تبارک و تعالیٰ کا یہ کلام اسی معنی کی نشان دہی کر رہا ہے: <اليہ یرجع الامر کلہ> ( ١ اسی کی طرف تمام امور کی بازگشت ہے۔ “قل ان الامر کلمة اللّٰہ ” کہہ دیجيے کہ امر کلمہٴ الٰہی ہے۔
اگر اولو الامر سے لغوی معنی مراد ہوں تو تمام زمام داروں، حکّام، صاحبان منصب اور علماء وغيرہ شامل ہوں گے یہاں تک کہ ایک خاندان اور گهر کا سرپرست اہل خاندان اور اہل خانہ کے افراد کی بہ نسبت صاحب شئونات اور حکمران ہے۔
ہم اختصار اور اپنی کتاب کی عدم گنجائش کی بنا پر آپ قارئين کرام اور خواہش مند حضرات کو مزید معلومات کے ليے بڑی تفسيروں من جملہ ان ميں سے تفسير نمونہ ( ٢) کی طرف رجوع کرنے کی درخواست کرتے ہيں۔
v ليکن معادن وحی و تنزیل کی وارد شدہ روایات کے اعتبار سے، اولو الامر کون افراد ہيں کہ ان کی اطاعت خدا اور اس کے رسول (ص) کی اطاعت کی طرح واجب ہے؟ یہ کہ تمام مفسرین شيعہ یہاں تک کہ بعض علمائے اہل سنت کا بهی اتفاق یہ ہے کہ اولو الامر ائمہٴ اطہار ہيں اور سب ہی معصوم ہيں اور اسلامی معاشرے کی زندگی کے تمام حالات ميں مادی اور معنوی رہبری الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے پيغمبر اکرم (ص) کو سپرد کی گئی ہے۔ ۶٩١ ۔ اسلامی مشہور مفسر ابو حيان اندلسی مغربی (متوفی ٧۵۶ ء) خود اپنی تفسير ميں رقم طراز ہيں کہ یہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ہود، آیت ١٢٣ ۔ (
٢(۔ تفسير نمونہ، ج ٣، ص ۴٣۵ ۔ (
) آیت حضرت علی - اور ائمہٴ اہل بيت کے ليے نازل ہوئی ہے۔ ( ١
۶٩٢ ۔ اہل سنت کے مشہور و معروف علماء ميں سے شيخ سليمان حنفی قندوزی نے اپنی کتاب ینابيع المودة ميں کتاب مناقب سے سليم ابن قيس هلالی سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن ایک شخص امير المومنين حضرت علی - کی خدمت بابرکت ميں حاضر ہوا اور دریافت کيا: وہ کون سے مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے؟ اور وہ کون سی مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ کافروں یا گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے؟ تو امام علی - نے فرمایا: جب تم نے سوال کر ہی ليا ہے تو پهر جواب کو سنواور سمجهو : ”وہ مختصر سی شے جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے
کہ الله تبارک و تعالیٰ اس کو اپنی معرفت عطا کرتا ہے پهر وہ اس کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے اور اپنے نبی کی اس کو معرفت عطا کرتا ہے۔پهر وہ اس کی طاعت کا اقرار کرتا ہے نيز اس کو اپنے امام کی معرفت عطا کرتا ہے جو روئے زمين پر اس کی حجّت اور مخلوق پر گواہ ہے پهر وہ اس اطاعت کا اقرار کرتا ہے۔
ميں نے عرض کيا: اے امير المومنين! جو اوصاف آپ نے بيان فرمائے ہيں اگر ان سب سے ناواقف ہو تو؟ فرمایا: ہاں! اگر اس کو حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے اور جب اسے منع کيا جائے تو وہ اس سے باز آجائے اور وہ کم ترین شے جس کی وجہ سے بندہ کافروں ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے کسی چيز کے بارے ميں محض یہ خيال کيا کہ اس سے الله تعالیٰ نے منع کيا ہے جس کا اس نے حکم دیا ہے لہٰذا اسے اس نے اپنے ليے ایک دین کی شکل دے دی اور اس کی اطاعت اور ولایت کو اپنے ليے لازم بناليا اور اس نے اپنے خيال ميں یہ گمان کيا کہ وہ الله کی عبادت کر رہا ہے حالانکہ وہ الله کی عبادت نہيں کرتا بلکہ شيطان کی عبادت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير بحر المحيط ، آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں۔ (
ليکن وہ کم ترین شے جس کی وجہ سے بندہ گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص حجّت خدا کی محبت اور اس کے بندوں کے گواہ کی معرفت نہيں رکهتا کہ جس کی اطاعت اور ولایت کو (اپنے بندوں پر) فرض قرار دیا ہے۔
اس شخص نے عرض کيا: یا امير المومنين! ان حضرات کی توصيف سے ہميں آگاہ فرمائيے تو امام علی - نے فرمایا:
یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا الله تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنے نبی کی ذات کے ساته ذکر کيا ) اور فرمایا <یا ایها الذین آمنوا اطيعوا اللّٰہ و اطيعوا الرسول و اولی الامر منکم > ( ١ اس شخص نے عرض کيا : الله تعالیٰ مجهے آپ پر قربان کرے ذرا مجهے وضاحت سے بيان فرمائيے، تو حضرت علی - نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا ذکر رسول خدا (ص) نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے منجملہ ان ميں سے اپنی عمر کے آخری خطبہ ميں بهی جن کا ذکر کيا اور فرمایا ہے: “ انّی تَرکتُ فيکُم اَمرَین لَنْ تَضِلّوا بَعدی ان تَمَسَّکتم بِهما کِتابَ اللّٰہ وَعِترَتی اَهل بَيتی ” ميں تم ميں دو چيزیں بطور یادگار چهوڑے جارہا ہوں اگر ان کے دامن سے متمسک رہوگے تو ميرے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے ميری عترت جو ميرے ) اہل بيت ہيں۔ ( ٢
۶٩٣ ۔ “ وَفی کمال الدین : ابن بابویہ عَن جابر بن یَزید الجعفی قال: سَمِعت جابِر بن عَبد
اللّٰہ الاٴنصاری یَقول لَمّا انزَلَ اللّٰہ عزّوجلّ عَلیٰ نَبيّہ محمّد (ص) <یا ایها الذین آمنوا اطيعوا اللّٰہ و اطيعوا الرسول و اولی الامر منکم >، ( ٣) قُلت یا رَسول اللّٰہ عَرَفنا اللّٰہ وَرَسُولَہ فَمن اولِی الاٴمرِ الّذین قرَن اللہّٰ طاعَتَهم بِ طٰاعَتِک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٩٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
فَقال عليہ السلام هم خُلفائی یا جابر وَائمة المسلمينَ مِن بَعدی اَوّلهم علی بن اَبی طالب عليہ السلام ثمّ الحَسن ثمّ الحُسين ثمّ عَلی بن الحُسين ثمّ محمّد بن عَلی المَعروف فی التَوراة بالباقِر ، سَتدرکُہ یا جابِر ، فَاذا لَقيتَہ فاقرَاٴہ مِنی السّلام ثمّ الصّادق جَعفر بن محمّد ثمُ موسیٰ بن جَعفر ثمّ عَلی بن موسیٰ ثمّ محمّد بن عَلی ثمّ عَلی بن محمّد ثمّ الحَسن بن علیٍ ثمّ کُنيتی حُجة اللّٰہ فی اَرضہ وَبَقيتہ فی عبادِہ بن الحَسن بن عَلی ، ذلک الذی یَفتح اللّٰہ تَعالی عَلی یَدیہ مَشارق الاٴرض وَمغاربَها، ذاک الّذی یَغيب عَن شيعَتہ وَاوليائَہ غَيبةً لا یَثبُتُ فيها عَلی القَول بامامَتہ الاَّ مَن امتَحن اللّٰہ قَلبہ للاٴیمان : قال جابر فَقلت : یا رَسول اللّٰہ فَهل لشيعَتہ الانتفاعُ بِہ فی غَيبَتہ ؟ قال : ای وَالذی بَعثنی بالنبوّة انّهم یَستضيئونَ بِنوروَینتَفعون بِولایتہ فی غَيبتہ کانتفاعِ النّاس بِالشمسِ وَان تَجلاها سَحابٌ ، هذا مِن مَکنون سِر اللّٰہ وَمَخزون عِلمہ فَاکتمہ الاَّ عَن اَهلِہ )١) ”
کمال الدین ميں ابن بابویہ بطور مسند جابر ابن یزید جعفی سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے جابر ابن عبدالله انصاری کو یہ کہتے سنا جب خداوند متعال نے اپنے پيغمبر حضرت محمد پر آیہٴ <یا ایها الذین آمنوا اطيعوا اللّٰہ و اطيعوا الرسول و اولی الامر منکم > نازل فرمائی تو ميں نے عرض کيا: اے الله کے رسول! خدا اور اس کے رسول کی معرفت حاصل کرلی، پس اولو الامر کون سے افراد ہيں کہ الله تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساته قرار دیا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: “اے جابر ! وہ ميرے خلفاء و اوصياء اور مسلمانوں کے امام ہوں گے، ان ميں سے اول علی ابن ابی طالب ، پهر حسن، پهر حسين، پهر علی ابن الحسين، پهر محمد ابن علی کہ جن کا نام توریت ميں باقر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین ج ١، ص ٢۵٣ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٩٣ ۔ معجم احادیث الامام المہدی، ج ۵، ص ( ۶٨ ۔
مشہور ہے، اے جابر! تم عنقریب ان کو پاؤ گے جب تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد الصادق، پهر موسی ابن جعفر، پهر علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی، پهر علی ابن محمد، پهر حسن ابن علی ہوں گے، ان کے بعد ميرے ہم نام (محمد) اور ميری ہم کنيت حجّت خدا ، بقية الله روئے زمين ميں الله کے بندوں کے درميان حسن ابن علی عليہم السلام کے فرزند ہوں گے۔
وہ ایسی فرد ہيں کہ الله تبارک و تعالیٰ ان کے دست مبارک سے زمين کے تمام مشرق و مغرب کو کاميابی و کامرانی عطا فرمائے گا۔
وہ وہی بزرگوار ہيں جو اپنے شيعوں اور چاہنے والوں کی نظروں سے ایک عرصہ تک غائب ہوجائيں گے آپ کی امت ميں سے وہ لوگ اپنے عقيدہٴ امامت پر ثابت قدم رہيں گے کہ جن کے قلب کا امتحان الله تعالیٰ نے ایمان کے ساته لے ليا ہوگا۔
جابر نے عرض کيا: اے رسول خدا! کيا حضرت کے شيعوں کو ان کی غيبت کے زمانہ ميں کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہاں “قسم ہے اس ذات کی جس نے مجهے نبوت (و رسالت) کے ساته مبعوث کيا وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اسی طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح سورج بادل کو چهپاليتا ہے تو لوگ سورج کی روشنی سے فائدہ اڻهاتے ہيں۔
اے جابر! یہ بات الله تعالیٰ کے راز ميں پوشيدہ ہے، علم الٰہی کے خزانہ ميں مخفی ہے،
لہٰذا (اس راز کو) اس کے اہل کے سوا غيروں سے پوشيدہ رکهو”۔ الله تعالیٰ کا قول ہے: < یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالقِْسطِْ وَلاَیَجرِْمَنَّکُم ) شَنَآنُ قَومٍْ عَلَی اٴَلاَّ تَعدِْلُوا اعدِْلُوا ہُوَ اٴَقرَْبُ لِلتَّقوَْی وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعمَْلُونَ > ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ٨۔ (
اے ایمان والو! خدا کے ليے قيام کرنے والے اور انصاف کے ساته گواہی دینے والے بنو خبردار! کسی قوم کی عداوت تمہيں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے اور الله سے ڈرتے رہو کہ الله تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
اس آیہٴ کریمہ ميں خداوند تبارک و تعالیٰ تاکيداً عدالت کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سلسلے ميں بعض مطالب کو گزشتہ بحث ميں سورئہ نساء کی آیت نمبر ۵٨ کے ذیل ميں ہم نے بيان کيا ہے۔ مسلمانوں کو ہوشيار کر رہا ہے کہ کبهی ایسا نہ ہو کہ کينے اور قومی عداوتيں اور ذاتی حساب و کتاب کا معاملہ چکانا عدالت کے نفاذ سے مانع ہو اور دوسروں کے تضييع حقوق کا موجب ہو کيوں کہ عدالت ان تمام چيزوں سے بالاتر ہے اور چونکہ عدالت اہم ترین تقویٰ و پرہيز گاری کا رکن ہے بہ عنوان حکم <اعدِْلُوا ہُوَ اٴَقرَْبُ لِلتَّقوَْی > تاکيد فرماتا ہے اور انذار فرماتا ہے کہ خدا کا تقویٰ اختيار کرو کيوں کہ الله تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگا ہ ہے۔
الله تعالیٰ کا قول ہے: <إِنَّ اللهَ یَاٴمُْرُ بِالعَْدلِْ وَالإِحسَْانِ وَإِیتَاءِ ذِی القُْربَْی وَیَنہَْی عَن ) الفَْحشَْاءِ وَالمُْنکَرِ وَالبَْغیِْ یَعِظُکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ > ( ١ بے شک الله عدل، احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائيگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اس طرح نصيحت حاصل کرلو۔ خدائے تبارک و تعالیٰ اس آیہٴ کریمہ ميں ترتيب وار احکام کے تين حصے کہ انسانی معاشرہ کی صلاح و بہبود کا اسی پر دارو مدار ہے اشارہ فرماتا ہے:
١۔ اجرائے عدالت یعنی ميانہ روی کا تمام کام ميں لازم ہونا اور تمام مراحل زندگی ميں افراط و تفریط سے پرہيز کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ٩٠ ۔ (
٢۔ دوسروں کے ساته خير و منفعت رسانی کے ذریعہ نيکی کرنا خواہ وہ خير و احسان کے مقابل ميں ہو اس سے بہتر <وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِاٴَحسَْنَ مِنہَْا اٴَو رُدُّوہَا > ( ١) اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ (سلام) پيش کيا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو۔
٣۔ اپنے قرابت داروں اور رشتہ داروں کو مال عطا کرنا اور آیت کے ذیل ميں اعمال کے تين حصوں سے اجتناب کا حکم دیتا ہے کہ جس سے انسانی معاشرے کی سلامتی اور صلاح و بہبود ميں کافی اہم کردار پایا جاتا ہے، ان کاموں سے روکتا ہے، فحشاء و منکرات اور بعض ناشائستہ کاموں نيز ستم گری سے روکتا ہے نتيجے ميں خداوند متعال تمہيں وعظ و نصيحت کرتا ہے کہ شاید تم نصيحت حاصل کرو۔
الله تعالیٰ کا قول ہے: < وَاٴَوفُْوا بِعَہدِْ اللهِ إِذَا عَاہَدتُْم وَلا تَنقُضُوا الاْٴَیمَْانَ بَعدَْ تَوکِْيدِہَا وَقَد ) جَعَلتُْم اللهَ عَلَيکُْم کَفِيلاً إِنَّ اللهَ یَعلَْمُ مَا تَفعَْلُونَ > ( ٢
اس آیہٴ کریمہ ميں خداوند متعال حکم دیتا ہے کہ: جب کوئی عہد کرو تو الله کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہرگز مت توڑو جب کہ تم الله کو کفيل اور نگراں بنا چکے ہو کہ یقينا الله تمہارے ان افعال کو خوب جانتا ہے جو تم انجام دیتے ہو۔
دوسری وہ آیات جو تمام قرآن کریم ميں وعظ و نصيحت سے پُر ہيں وہ انسان ساز اور اسلامی معاشرہ کی اصلاح کرنے والی ہيں بلکہ تمام انسانوں کی مُصلح ہيں۔ مولف کہتے ہيں: اب عدل و احسان کے متعلق ہم چند روایت تبرکاً ذکر کر رہے ہيں۔ ”وَفی المَجمع : قال عَبد اللّٰہ بن مَسعود هذہ الآیة اجمع آیة فی کِتاب اللّٰہ لِلخَير وَالشّر ” )٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ٨۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ نحل، آیت ٩١ ۔ (
٣(۔ تفسير مجمع البيان، ج ۶، ص ١٩١ ۔ (
مجمع البيان ميں نقل ہوا ہے کہ عبد الله ابن مسعود کا یہ قول ہے کہ: یہ آیہٴ کریمہ قرآن ميں خير و شر کے امور کے ليے جامع ترین آیت ہے۔
۶٩۴ ۔ “ وَفيہ : وَجآء ت الروایَة انّ عُثمان بن مَظعون قال: کُنت اَسلمتُ اِستحياءً مِن رَسول اللّٰہ (ص) لِکَثرة ما کان یعَرض عَلیّ الاٴسلامُ وَلم یقرّ الاٴسلا م فی قَلبی فکنت ذاتَ یَوم عِندَہ حالَ تَاٴمّلِہ فَشخَص بَصَرہ نَحو السّمآء کَانّہ یَستفهمُ شَيئاً فَلمّا سَر یٰ عَنہ سَاٴلتُہ عَن حالِہ ، فَقال نَعم بَينا اَنا احَدّثک اِذا رَاٴیت جبرائيل فی الهَواء فَاتانی بِهذہ الآیة <انّ اللّٰہ یَاٴمر بِالعَدل وَالاٴحسان > فَقراٴها عَلیٌ الیٰ اٰخِرها فَقرّ الاٴسلام فی قَلبی
وَاٴتيتُ عَمّہ اَبا طالبٍ فَاٴخبرتُہ فَقال یا آل قُریش اتّبعوا محمّداً مُرْشِدوا فَانّہ لاٰ یاٴمرُکم الاّبِمَکارم الاخلاق واتَيت الوَليد بن المُغيرة وَقراٴت علَيہ هذِہ الآیة ( ١) فَقال: ان کانَ محمّد قالَہ فَنعم ما قالَ ان قالَہ رَبّہ فَنعم ما قال قال : فَانزل اللّٰہ <اٴفرَاٴیت الّذی تَولّی وَاعطی قَليلاً واکدی > )٢) ”
”مجمع البيان” ميں ایک روایت ذکر ہوئی ہے کہ عثمان ابن مظعون کا بيان ہے: ميں نے رسول خدا سے شرم و حياء کی وجہ سے اسلام قبول کيا کيوں کہ وہ اتنا زیادہ ميرے سامنے اسلام پيش کرتے تهے ليکن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ۶، ص ١٩٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ نجم، آیت ۴ ٣۵،٠ ، یہ آیت اور بعد کی چه آیات <و انّ سعيہ سوف یُری> تک عثمان ( ابن عفان کے حق ميں نازل ہوئيں، عثمان صدقہ دیتا اور انفاق کيا کرتا تها عبد الله ابن سعد ابن ابی سرح جو اس کا رضاعی بهائی تها کہا: کيا کام کر رہے ہو قریب ہے کہ کوئی شے خود کے ليے باقی نہ رہے، عثمان نے کہا: ميرا گناہ زیادہ ہے ميں چاہتا ہوں کہ ان اعمال کے ذریعہ رضایت الٰہی حاصل کروں اور مجهے بخشش کی اميد ہے، عبد الله نے کہا: تم اپنے نامہٴ اعمال کو مجهے دے دو تاکہ تمہارے گناہوں کی سزا کا ميں متحمل ہوں لہٰذا اسے نامہٴ اعمال کو دیا اور گواہ بنایا اور انفاق سے خود کو روک دیا تو یہ آیتيں نازل ہوئيں۔ جس وقت عثمان نے احد کے دن مرکز کو ترک کردیا تو بہت کم شے کا انفاق کيا پهر قطع کردیا اور عثمان اپنی گزشتہ اور ابتدائی حالت کی طرف واپس آگيا (تفسير صافی کی طرف رجوع کریں)۔
اسلام ميرے قلب ميں رسوخ نہيں کيا تها۔ ایک دن آن حضرت (ص) کی خدمت ميں تها جب وہ تامل و تفکر کی حالت ميں تهے اور اپنی آنکهيں آسمان کی طرف لگائے (متوجہ کيے ) ہوئے تهے گویا کہ کسی شے کے متعلق سوال کر رہے ہيں جب اس سے روگرداں ہوئے تو ميں نے ان کی احوال پرسی کی؟ فرمایا: ہاں! جب ميں تم سے گفتگو کر رہا تها ناگہاں ميں نے آسمان ) ميں جبرئيل کے نمایاں ہونے کا مشاہدہ کيا اور اس مذکورہ آیت کو لے کر نازل ہوئے۔ ( ١
پهر حضرت علی - نے اس آیت کو آخر تک قرائت فرمائی یہاں تک کہ پهر اسلام ميرے قلب ميں رسوخ پيدا کيا اور دل نشين ہوگيا۔
اور ميں ان کے چچا ابو طالب کی خدمت ميں حاضر ہوا اور ميں نے اس واقعہ کی خبر دی، فرمایا: اے آل قریش! محمد (ص) کی پيروی کرو تاکہ ہدایت پاجاؤ کيوں کہ تمہيں حکم نہيں کرتا سوائے مکارم اخلاق کے اور ميں وليد ابن مغيرہ کے پاس آیا اور آیت کی اس کے پاس تلاوت کی ، کہا: اگر محمد (ص) نے یہ بات کہی ہے تو بہت اچهی بات کہی ہے اور اگر اس کے ) خدا نے کہی ہے تو بہت اچهی بات ہے فرمایا: اس وقت یہ آیت <اٴفراٴیت الذی> نازل ہوئی ( ٢
۶٩۵ ۔ “ وَفی المَجمع البيان: عَن عکرمہ قالَ: اِنَّ النّبی (ص) قَرَاٴ هٰذہ الآیَة عَلی الوَليد بن المُغيرَة فَقال: یَابن اَخی اَعِد فَاعادَ فَقالَ: اِنّ لَہ لحَلاوةٌ وَانّ لَہ لَطلَاوةٌ وَانّ اَعلاہُ لثمودٌ وَان اَسفلَہ ) لمعَذقٌ وَما هَو قَول البَشر ” ( ٣
مجمع البيان ميں عکرمہ سے منقول ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے اس آیت <ان اللّٰہ یامر بالعدل و الاحسان> ( ۴) (یقينا الله تمہيں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے) کی وليد ابن مغيرہ کے ليے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل ، آیت ٩٠ ۔ (
٢۴ ۔ ، ١(۔ سورئہ نجم، آیت ٢٣ (
٢(۔ المجمع البيان، ج ۶، ص ١٩٢ ۔ (
٣(۔ سورئہ نحل، آیت ٩٠ ۔ (
تلاوت فرمائی ۔ تو کہا: اے برادر زادہ! دوبارہ پڑهو، آنحضرت (ص) نے دوبارہ تلاوت فرمائی تو کہا: یقينا اس کی تلاوت بہت زیادہ ہے یقينا بہت پُر کشش ہے اس کا اعلیٰ و بالا مطلب ثمر بخش ہے اور اس کا نچلا مطلب پُر برکت اور پاکيزہ اور خوشبودار ہے اور یہ بشر کا قول نہيں ہے۔
۶٩۶ ۔ “وَفی تَفسير البُرهان عَن ابن بابویہ باسنادہ عَن عمرو بن عُثمان قال خَرج عَلیٌ عليہ
السلام علی اَصحابہ وَهم یَتذاکَرون المروء ةَ فَقال اینَ انتم مِن کِتاب اللّٰہ ؟ قالوا یا اَمير الموٴمنين فی اٴَی مَوضعٍ ؟ فَقال فی قَولہ عزّوجلّ انّ اللّٰہ یاٴمُر بالعَدل وَالاٴحسانِ ، فَالعدلُ وَالاٴنصافُ ) وَالاحسانُ التَفضّلُ ” ( ١
تفسير برہان ميں ابن بابویہ سے بطور مسند منقول ہے کہ عمرو ابن عثمان کا بيان ہے: حضرت علی - باہر آئے اور اپنے اصحاب کے پاس آکر مروت کے بارے ميں مذاکرے ميں مشغول ہوگئے پهر فرمایا: کيا تم لوگ کتاب الٰہی سے غافل ہو؟ عرض کيا: یا امير المومنين ! آپ کا تذکرہ قرآن ميں کس مقام پر ہے؟ حضرت - نے فرمایا: “یقينا خداوند متعال تمہيں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے” ( ٢) عدل وہی انصاف ہے اور احسان تفضل ہے (یعنی جو ان دو صفت کا حامل ہے صاحب مروت ہے)۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: وَ شفاء لما في الصّدور
قرآن مجيد روحانی اور جسمانی امراض کے ليے شفا بخش ہے صدور جمع صدر بمعنی سينہ ہے، لوگوں نے جب یہ انکشاف کيا کہ دل سينہ کے قفس ميں برقرار ہے اور جو کچه انسان درک کرتا ہے وہ اس کا قلب ہے اور یہ سينے کا درک کرنا اور دوسرے تمام امور انہيں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير البرہان، ج ٢، ص ٢۶٧ ۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢۶٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ نحل، آیت ٩٠ ۔ (
ذریعہ غور وفکر کرتے ہيں دوستی اور دشمنی اکراہ و اشتياق اميد و آرزوئيں سب کی سب قلب کے ساته ہےں انہيں فضائل و رذائل سے مربوط جانتے ہيں۔ قابل ذکر ہے کہ فضائل ميں قلب کی صحت و سلامتی اور استقامت ہے اور رذائل ميں اس قلب کا مرض ہے۔
مولف کہتے ہيں: معمولاً جسمانی بيماریوں کو متضاد دواؤں کے ساته طبی اصطلاح ميں کے ذریعے معالجہ کرتے ہيں، ليکن روحانی بيماریاں جو نفسانی اور (Ante Baitek) انڻی بائيڻيک شيطانی رجحانات سے نشاٴة پائی ہيں دو قسم کے معالجے کے ضرورت مند ہيں، مثبت علاج اور منفی علاج۔
مثبت علاج ذکر خدا کی مدوامت ، آیات قرآنی کی تلاوت اور معادن وحی و تنزیل اہل بيت عصمت و طہارت کی روایات و احادیث سننے سے مربوط ہے۔ اور منفی علاج شيطانی وسوسوں کے احکام کی مخالفت سے علاج کيا جاسکتا ہے، اکثر اوقات بہت سے معاملات پر انسان شيطانی وسوسوں کے نتيجے ميں معرض ہلاکت ميں واقع ہوتا ہے۔
۶٩٧ ۔ “ وفَی الکافی باسنادہ عَن زَکریا بن ابراہيمَ قال : کُنتُ نَصرانياً فَاسلمتُ وَحَجَجت فَدخلت عَلی ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام فَقلت: اني کُنت عَلی النّصرانيَة وَاني اسلَمت ، فَقال: وَاَی شَیٍ رَاٴیت فی الاسلام قُلت قَول اللّٰہ عزّوجلّ:
>فَمَا کُنتَْ تَدرِْی مَا الکِْتَابُ وَلاالإِْیمَانُ وَلَکِن جَعَلنَْاہُ نُورًا نَہدِْی بِہِ مَن نَشَاءُ> ( ١) فَقال هَداک اللّٰہ ، ثمّ قال اللّهُم اهِدہ ثَلاثاً ، سَل عَمّا شِئت یا بَنیّ ، فَقُلت انّ اَبی وَاُمی عَلی النّصرانيةِ وَاَهل بَيتی : وَاُمی مَکفوفَة البَصَر فَاکونُ مَعهم واٰکل فی آنِيَتهم ؟ فَقال یَاٴکلون لَحم الخَنزیر فَقلت لا وَلا یَمسُّونَہ فَقال لا بَاٴس ، فانظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۵٢ ۔ (
امک فَبرها ، فَاذا ماتَت فَلا تَکلِها الیٰ غَيرک کُنْ اَنت الّذی تَقوم بِشاٴنِها وَلا تَخبرَنّ اَحداً انکَ اٴتيتَنی حَتّی تَاٴتِينی بِمنیٰ اِن شاء اللّٰہ ، قال: فَاٴتَيتَہ بِمنیٰ وَالنّاس حَولَہ کاٴنّہ مُعلم صَبيان ، هٰذا یَساٴلُہ وَهذا یَساٴلہ، فَلمّا قدَمت الکُوفة الطَفت لاٴمی وَ کنت اطعمُها واَفلی ثَوبَها وَراٴسها وَاخدَمها فَقالت لی : یا بُنیّ ماکُنت تَصنعَ بی هٰذا واَنت علٰی دینی فَما الّذی ادیٰ مِنک مُنذ هاجَرت فَدخلت فی الخَيضية ؟ فَقُلت رَجل مِن ولد نَبينا اَمَرنی بِهذا فَقالت هٰذا الرّجل هو نَبی فَقلت لا وَلکنّہ ابن نَبی ، فقالت : یٰابُنی ان هٰذا نَبیّ ان هٰذہ وَصایا الاٴنْبياء فَقلت یٰا امّہ انّہ لَيس یَکون بَعد نبينا نَبی وَلکنّہ ابنہ ، فَقالت : یابنیّ دینک خَير دَین اعرَضہ علیّ فَعرضتہ علَيها فَدخلت فی الاٴسلام وَعَلّمتها فَصلّت الظهر وَالعَصر والمَغرب وَالعشآء الاخِرة ثُمَّ عَرض لَها عٰارضٌ فی الليلِ فَقالت یابُنیّ اَعد علیّ ما عَلّمتَنی فَاعدتہ عَليها فَاقرّت بِہ وَماتت ، فَلمّا اصبَحت کان ) المسلِمون الّذین غَلسوها وَکنت انا الذی صَلّيت عَليها وَنَزلت فی قَبرها” ( ١
کافی ميں بطور مسند زکریا ابن ابراہيم سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ: ميں نصرانی تها پهر ميں نے اسلام قبول کيا اور ميں نے حج کيا اسی زمانہ ميں حضرت ابو عبد الله - کے پاس آیا اور کہا: ميں پہلے نصرانی تها اب مسلمان ہوں۔ فرمایا: تو نے اسلام ميں کيا بات دیکهی ميں نے کہا: الله کا یہ قول باعث ہدایت ہوا۔ (اے رسول! تم نہيں جانتے تهے کہ کتاب کيا ہے اور ایمان کيا ہے ليکن ہم نے تو اس نبوت کو ایک نور قرار دیا اور اس سے جس کو ہم چاہتے ہيں ) ہدایت کرتے ہيں)۔( ٢
حضرت نے فرمایا: خدا نے تجهے ہدایت کی پهر تين مرتبہ فرمایا: خدایا! اسے ثابت قدم رکه پهر فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١۶٠ ، باب البر بالوالدین، حدیث ١١ (از کتاب الایمان و الکفر)۔ (
٢(۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۵٢ ۔ (
جو چاہتا ہے دریافت کر، ميں نے کہا: ميرے باپ اور ماں نصرانی ہيں اور ميرے خاندان والے بهی ، اور ماں اندهی ہے کيا ان کے ساته رہوں اور ان کے برتنوں ميں کهاؤں؟ فرمایا: کيا وہ سور کا گوشت کهاتے ہيں؟ ميں نے کہا: نہيں۔ فرمایا: تو کوئی مضائقہ نہيں، تم اپنی ماں کی نگہداشت (خدمت) کرو اور نيکی کے ساته پيش آؤ اور اگر وہ مر جائے تو اس کو کسی دوسرے کے سپرد نہ کرنا۔ تم خود تمام امور بجا لانا اور کسی کو خبر نہ کرنا کہ تم ميرے پاس آئے ہو یہاں تک کہ تم منیٰ ميں انشاء الله ميرے پاس پہنچ جاؤ۔
راوی کہتا ہے کہ: جب ميں حضرت کے پاس منیٰ ميں آیا تو ميں نے دیکها کہ حضرت کے گرد لوگ جمع ہيں گویا حضرت بچوں کے استاد ہيں کوئی کچه پوچهتا ہے کوئی کچه، جب ميں کوفہ واپس آیا توميں نے اپنی ماں سے مہربانی کا برتاؤ کيا ميں اسے کهانا کهلاتا تها اور اس کے کپڑوں اور سر سے جوئيں چنتا تها اس کی خدمت کرتا تها۔
ميری ماں نے مجه سے کہا: جب تو ميرے دین پر تها اس وقت تو تونے کبهی ایسا نہ کيا تها جب سے تو نے ہمارا دین چهوڑا اور اسلام ميں داخل ہوا ميں نے ایسا عمل تجه سے کبهی نہ دیکها۔ ميں نے کہا: ہمارے نبی (ص) کی اولاد ميں ایک شخص ہيں جنہوں نے ایسا حکم دیا ہے اس نے کہا: کيا یہ شخص نبی ہےں؟ اس نے کہا: نہيں ، وہ نبی (ص) کے فرزند ہيں اس نے کہا: یہ تو نبی (ص) ہی ہےں ایسی نصيحتيں تو انبياء ہی کرتے ہيں۔ ميں نے کہا: ہمارے نبی (ص) کے بعد کوئی آنے والا نہيں۔ یہ ان کے فرزند ہيں ۔
ميری ماں نے کہا: بيڻا تيرا دین بہترین دین ہے مجهے اس کے متعلق بتا ميں نے سمجهایا تو وہ مسلمان ہوگئی ميں نے اس کو احکام دین کی تعليم دی اس نے ظہر و عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑهی پهر وہ بيمار ہوئی اس نے مجه سے کہا: جو تو نے مجهے تعليم دی تهی اس کا اعادہ کر، ميں نے اعادہ کيا اس نے اقرار کيا اور مرگئی۔ جب صبح ہوئی تو مسلمان جمع ہوئے اس کو غسل دیا ميں نے نماز جنازہ پڑهی اور اسے قبر ميں اتارا۔
الله تعالیٰ کا قول ہے: <رِجَالٌ لاَتُلہِْيہِم تِجَارَةٌ وَلاَبَيعٌْ عَن ذِکرِْ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ ) یَخَافُونَ یَومًْا تَتَقَلَّبُ فِيہِ القُْلُوبُ وَالاْٴَبصَْارُ > ( ١
وہ مرد جنہيں کاروبار یا دیگر خریدو فروخت ذکر خدا، قيام نماز اور ادائے زکوٰة سے غافل نہيں کرسکتی یہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن کے ہول سے دل اور نگاہيں سب الٹ جائيں گی۔
مولف کہتے ہيں: حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - جب اس آیہٴ کریمہ کی تلاوت کرتے تهے تو فرماتے تهے:
۶٩٨ ۔“‘انّ اللّٰہ سُبحانہ وَتعالیٰ “جَعل الذِکر جَلاءً لِلقلوبِ ، تَسمَع بِہ بَعد الوَقرة ، وَتُبصربہ ) بَعد العَشوَة وَتنقادُ بِہ بَعد المُعاندَة ” ( ٢
پروردگار نے اپنے ذکر کو دلوں کے ليے صيقل قرار دیا ہے جس کی بنا پر وہ بہرے پن کے بعد سننے لگتے ہيں اور اندهے پن کے بعد دیکهنے لگتے ہيں اور عناد اور ضد کے بعد مطيع و فرماں بردار ہوجاتے ہيں اور نرمی و خوشی سے پيش آتے ہيں۔
۶٩٩ ۔ “ وَالکافی : عَن رسول اللّٰہ (ص) قال: تَذاکروا وَتَلاقوا وَتُحَدثوا فَان الحَدیث جَلاء ) القُلوب انّ القُلوب لَترین کَما یَرین السّيف جَلائها ”الحدیث” ( ٣
کافی ميں رسول خدا (ص) نے فرمایا: علم دین کے بارے ميں آپس ميں مذاکرہ اور گفتگو کرو اور ایک دوسرے سے ملاقات کرو احادیث کے متعلق بات چيت کرو کيوں کہ حدیث کا ذکر کرنا دلوں ميں جلا بخشتا ہے، قلوب بهی اسی طرح چمکدار رہتے ہيں جس طرح دو تلوار کا زنگ دور کرنے سے تلوار، اور احادیث اہل بيت عصمت و طہارت - اس کو جلا بخشتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نور، آیت ٣٧ ۔ (
٢(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٢٢ ۔ بحارالانوار، ج ۶۶ ، ص ٣٢۵ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ۴١ ۔ بحار الانوار، ج ١، ص ٢٠٣ ۔ (
یہ بات نا گفتہ نہ رہ جائے کہ قرآن مجيد کی آیات جو کلام الٰہی اور ذکر خدا ہے کا سننا اسی طرح ائمہٴ اطہار کی احادیث کی گفت و شنود کے بہت سے فوائد ہيں اور دلوں کی روشنی کا باعث ہيں من جملہ ان ميں سے ایک یہ ہے:
زکریا ابن ابراہيم نصرانی سورئہ شوریٰ کی آیت نمبر ۵٢ ميں مختصر ترین توجہ و تدبير کی وجہ سے اسلام کے شرف سے مشرف ہوتے ہيں گویا زکریا نے آیہٴ کریمہ اور پيغمبر اسلام (ص) کی تاریخ سے اسی قسم کا استفادہ کيا تها کہ جو شخص مدرسہ اور مکتب نہ گيا ہو اور کسی معلم کے سامنے زانوئے ادب تہ نہيں کيا ہے، دین کامل کے پيش نظر اور محکم قرآن اور اس کا لطيف پروگرام جو اپنے ہمراہ لے کر آیا ہے وہ سوائے عالم الغيب اور آسمانی وحی سے ارتباط کے بغير صحيح نہيں ہوسکتا اس طریقے سے کدورتيں اور گزشتہ دوران کے تمام زنگ نور ہدایت الٰہی کی تابانی کی وجہ سے صيقل ہوکر خود کو جلا بخش اور اسلام قبول کرتے ہيں۔ ٧٠٠ ۔ “ وَفی البحار : وَرَوی اَنَّ رَجُلاً تَعلّم مِن النّبی (ص) القُرآن فَلمَّا انتَهٰی الیٰ قَولہ تَعالی <فَمن یَعمل مِثقال ذَرةٍ خَيراً یَرہ وَمَن یَعمل مِثقالَ ذرةٍ شَراً یرہ > قٰال یَکفينی هٰذہ وَانصرَف ) وَ قال رَسول اللّٰہ (ص) انصرَف الرجُل وَهو فَقيہٌ ” ( ١
بحار ميں مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت رسول اکرم (ص) کی خدمت اقدس ميں قرآن کی تعليم حاصل کی جب اس آیہٴ کریمہ (یعنی جس شخص نے ذرہ برابر نيکی کی ہے وہ اسے دیکهے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکهے گا) پر پہنچا تو عرض کيا: یا رسول الله! بس ميرے ليے اتنا ہی کافی ہے وہ بزم پيغمبر (ص) سے اڻه کر چلا گيا۔ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: یہ شخص یہاں سے فقيہ (دین شناس) بن کر گيا ہے۔ مولف کہتے ہيں: قرآن کی عظمت و واقعيت اسی طرح نفس قدسيہ پيغمبر اکرم (ص) ان کے تہِ دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ١٠۶ ۔ (
ميں ایسا اثر کيا کہ وہ سمجه گئے کہ ثواب و عتاب بہشت و دوزخ صرف عمل کے دارو مدار پر ہے ۔
اسی طرح کا واقعہ دوسری تفسيروں ميں بهی نقل کيا گيا ہے۔ ٧٠١ ۔ من جملہ ان ميں سے ابو عثمان مازنی نے ابو عبيدہ سے روایت کی ہے کہ صعصہ ابن ناجيہ جو فرزدق کے جد بزرگوار تهے رسول خدا (ص) کے پاس آئے اور عرض کيا: یا رسول الله (ص)! جو کچه آپ پر نازل ہوا ميرے ليے پڑهيں۔ آنحضرت (ص) نے اس آیت کو ان کے ليے ) پڑها اور کہا: “حَسْبی مٰا ابٰالی اَنْ اسمَع مِنَ القرآن غَيْرِ هٰذٰا ” ( ١
یعنی ميرے ليے بس اتنا ہی قرآن سے سننا کافی ہے، دوسری آیت سننے کی مجهے ضرورت نہيں ہے۔
حضرت حجّت صاحب العصر و الزمان - عجل الله تعالیٰ فرجہ کا مقدس وجود اور ان کی آبائے کرام دلوں کو جلا دینے والے ہيں اور روشنی بخشنے والے ہيں۔ اب ہم چند مور دکو تبرکاً آپ کے گوش گزار کر رہے ہيں۔
٧٠٢ ۔ “ وَفی اثباتِ الهُداةَ نَقلاً عَن الکافی عَن الکَلبی النَسابَة فی حَدیثٍ اَنّہ کانَ لایَعرف هٰذا الاٴمرَ وَدَخَل المَدینَہ فَساٴلَ عَن اَعلم اَهلِ هٰذا البَيت ؟ فَقيلَ لَہُ : اِیت جَعفر بن محمّد عليہ السلام فَهو اَعلَم اَهل هٰذا البَيت ، قالَ فَمضَيت حَتّی صِرت الیٰ مَفرٍ لَہ فَقرَعت البٰابَ فَخرَج غلامٌ فَقالَ ادخُل یا اَخا کَلبٍ ، فَوالله لَقد اَدهَشَنی فَدَخَلت وَانا مُضطَربٌ فَنظَرَت فَاذا شَيخٌ عَ لٰی مُصَلّی بِلا مِرفَقَةٍ وَلا بَردَعةٍ ، فَابتَداٴنی بَعد اَن سَلّمت عَليہ ، فَقال لی : مَن اَنت ؟ فَقلتَ فی نَفسی : سُبحان اللّٰہ غُلامُہ یَقول اَدخلُ یا اَخا کَلبٍ وَیَساٴلَنی المَولیٰ مَن اَنت فَقُلت لَہ اَنا الکَلبی النسابة فَضَرب بِيَدہ عل یٰ جَبهتِہِ وَقال: کَذِب العٰادِلونَ بِاللّٰہ الٰی اَن قال: انّ اللہّٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی سيد مرتضیٰ، ج ۴، ص ١٩٢ ۔ (
یَقول : وَعاداً وَ ثَمود وَاصحابَ الرّسِ وَ قُروناً بَين ذلِک کَثيراً اٴفتَنسبِها اَنت ؟فَقلت لا جعِلتُ فَداک ،
فَقال لی : اٴفتَنسِب نَفسَک ؟ قلت نَعم ؟ اٴنا فُلان بن فُلان حَتّی ارتفَعَت فَقال لی : قِف لَيسَ حَيثَ تَذهَب ، وَیحکَ اٴتَدری مَن فُلان بن فُلان؟ فَلقت نَعم فُلان بن فُلان، فَقال انّ فُلان بن فُلان الرّاعي الکُردي انّما کانَ فَلان الکُردی علٰی جَبَل آل فُلانٍ فَنزَل الیٰ فلانَةَ امراٴةِ فلانٍ مِن جَبَلہ الّذی کانَ یَرع یٰ غَنمَہ عَليہ ، فَاٴطَعمَهما شَيئاً فَغشِيَها فَولَدت فُلاناً وَفُلان بن فُلان مِن فُلانة وَفُلان بن فُلان ، ثمّ قالَ : اٴتَعرفُ هٰذہ الاسٰامی ؟ قُلت لا وَاللّٰہ جَلعت فَداک فَان رَاٴیت ان تَکفَ عَن هٰذا فَعَلت فَقال انّما قُلت فقلت انی لا اعدو فقال لانعود اذاً ، وَسَلْ عمّا جئت لہ ثم ذکر انّہ ساٴلہ عن مسائل کثيرةً ، فاٴجابہ باحسن جوابٍ الی ان قال نهم نهض عليہ السلام وقمت وخرجت وانا اقول ) ان کان شیء فهذا فلم نزل الکلبی یدین اللّٰہ یحبّ اهل هذا البيت حتّی مات” ( ١
شيخ جليل القدر محمد ابن یعقوب کلينی کتاب کافی ميں کلبی نسابہ سے ایک حدیث
نقل کرتے ہيں کہ وہ امر امامت اور مذہب حقہ کی شناخت نہيں رکهتا تها مدینے ميں آیا دریافت کيا کہ اس خاندان (اہل بيت) کا اعلم کون ہے؟ جواب دیا گيا: تم جعفر ابن محمد - کی خدمت ميں جاؤ وہ اہل بيت ميں سب سے زیادہ عالم ہيں۔ اس کا بيان ہے: ميں ان کے بيت الشرف گيا دروازے پر دستک دی ایک غلام باہر آیا اور کہا: اے مردِ کلبی! گهر ميں داخل ہوجاؤ، خدا کی قسم! اس واقعے نے مجهے وحشت ميں ڈال دیا کہ اس نے مجهے کہاں سے پہچانا۔ ميں مضطرب حالت ميں گهر ميں داخل ہوا، ميں نے اندر ایک بزرگ ضعيف العمر کو دیکها کہ وہ ایک مصلے پر بيڻهے ہيں جس کا نہ کوئی فرش ہے اور نہ ہی تکيہ، ميں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٣۴٩ ۔ اثباة الهداة، ج ۵، ص ٣٣١ ، حدیث ٢۔ باب معجزات امام صادق -۔ (
سلام کيا، فرمایا: تم کون ہو؟ ميں نے کہا: سبحان الله ! نوکر نے دروازے پر یا اخا الکلب (اے برادر کلبی!) کہہ کر مجهے خطاب کيا اور آقا دریافت کرتا ہے تم کون ہو؟ ميں نے جواب دیا: ميں کلبی نسب شناس ہوں۔ حضرت نے اپنی پيشانی پر ہاته مار کر کہا : عادلوں نے جهوٹ بولا یہاں تک کہ فرمایا: الله فرماتا ہے: “اے عاد و ثمود اور اصحاب رس اور ان کے درميان بہت سے نسلوں اور قوموں کو بهی تباہ کردیا ہے” ( ١) کيا تم ان کے نسب کو بهی جانتے ہو؟ ميں نے کہا: نہيں ميں آپ پر قربان جاؤ، فرمایا: کيا اپنے نسب سے واقف ہو؟ ميں نے جواب دیا: ہاں، فلاں ابن فلاں ہوں اور بعض اپنے آباء و اجداد کو شمار کيا، فرمایا: ڻہرجاؤ! ایسا نہيں جيسا تو بيان کر رہا ہے تجه پر افسوس، کيا تو جانتا ہے فلاں ابن فلاں کو؟ ميں نے کہا: ہاں فلاں کا بيڻا ہے، فرمایا: نہيں اس کا بيڻا ہے بلکہ فلاں کردی چرواہے کا بيڻا ہے یہ اپنی بکریاں فلاں قبيلے کے پہاڑ پر چرایا کرتا تها وہ اس قبيلہ کی عورت کے پاس آیا جو فلاں کی زوجہ تهی اسے کچه کهانا کهلایا اور اس سے ہم بستری کی اور فلاں شخص اس سے پيدا ہوا، فلاں شخص فلاں ابن فلاں عورت ابن فلاں مرد سے پيدا ہوا، پهر فرمایا: ان ناموں کو جانتے ہو؟ ميں نے کہا: نہيں، خدا کی قسم! ميں آپ پر قربان جاؤں، اگر آپ صلاح جانيں تو مجهے اس مسئلے ميں معاف کریں، فرمایا: تمہيں نے کہا تها: ميں نسب شناس ہوں لہٰذا ميں نے بهی کہا (تو تم ان لوگ کا تعارف کراؤ) ميں نے کہا: اب ميں ایسا دعویٰ نہيں کروں گا فرمایا: ہم بهی دوبارہ ایسا کوئی سوال نہيں کریں گے اب جس مقصد کے تحت آئے ہو دریافت کرو۔
پهر بہت سے سوالات دریافت کيے اور بہترین جوابات حاصل کيے یہاں تک کہ کہا: پهر وہ جناب اڻهے اور ميں بهی اڻه کر باہر آیا اور ميں یہ کہہ رہا تها: اگر کوئی شے ہے تو یہ ہے اور اس کے بعد سے کلبی دائمی طور پر محب اہل بيت ہوگيا اور شيعہ ہوکر دنيا سے رخصت ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فرقان، آیت ٣٨ ۔ (
مولف کہتے ہيں: کلبی نسب شناس جو مذہب حق کی شناخت نہيں رکهتا تها اس کے ليے یہ کہنا آسان ہے کہ اپنے نسب کی بهی معرفت نہيں رکهتا تها مدینہ آیا امام برحق ناطق حضرت امام جعفر صادق - کے بيت الشرف کی تلاش ميں جاتا ہے تو امامت کی بعض علامات کا مشاہدہ کرکے مدہوش ہوجاتا ہے اور آخر ميں امام - کی خدمت ميں حاضر ہوتا ہے سلام کے بعد خود کا تعارف کراتا ہے کہ ميں کلبی نسب شناس ہوں ، تو حضرت فرماتے ہيں:کيا تم اپنے نسب کی بهی معرفت رکهتے ہو؟ وہ کہتا ہے ہاں فلاں فلاں سے ميرا نسب ملتا ہے۔ امام فرماتے ہيں: ذرا ڻہرو ایسا نہيں ہے جيسا تم نے گمان کيا ہے تم پر افسوس، جب حضرت نے واقعہ کی حقيقت کو بيان فرمایا تو کلبی کو اصل کام کا پتہ چلا اور امام - سے درخواست کی کہ اب مزید واقعہ کو نہ بيان کریں بعد ميں امام جعفر صادق - فرماتے ہيں: جس چيز کے ليے آئے ہو اس کے متعلق دریافت کرو۔ کلبی نے بہت زیادہ سوالات بيان کے اور کافی و وافی جوابات بهی دریافت کيے۔
کلبی کا بيان ہے: پهر حضرت بلند ہوئے اور ميں بهی اڻه کر باہر آیا۔ مولف کہتے ہيں: امام کے شرف حضور نے کلبی کے جسم و روح کو ایسا صيقل کيا اور جلا بخشی کہ وہ دین حق کا ایک متدین فرد ہوا اور اہل بيت عصمت و طہارت کے دوست داروں ميں سے ہو کر دنيا سے انتقال کيا۔
٧٠٣ ۔ “وَفی اثباتَ الهُداة : بِاسنادِہِ عَن رَفيد مَولی یَزید بن عُمر بن هُبيرة قال: سَخط عَلی ابُن هُبَيرة وَحَلف عَلیّ لَيقتُلَنی فَهرَبَت مِنہ وَ عُذتُ بِاٴبی عَبد اللّٰہ عليہ السلام فَاٴعلَمَتُہُ خَبَری ، فَقال لی : انصَرف الَيہ وَقرَاٴہ السّلام وَقُل لَہ : انی آجَرت عَلَيک مَولاکَ رَفيداً فَلا تَهِجہ بِسوءٍ، فَقلتُ لَہ جَعلت فَداک شٰامیٌ خَبيثُ الراٴیِ ، فَقال اِذهَب اليہِ کَما اَقول لَکَ ، فَاٴقبلَت ، فَلمّا کُنتَ فی بَعضِ البَوادی استَقبَلَنی اَع اٰربیٌ ، فَقال : اِلیٰ اَین تَذهَب؟ اِنی اَری وَجہَ مَقتولٍ ، فَقال لی : اَخرج یَدَک فَفعلتُ فَقالَ یَد مَقتولٌ ثمّ قالَ لی اَبرِز رِجلَک فَابرزَت رِجل یٰ فَقال رجل مَقتولٍ ، ثمّ قالَ اَبرز جَسدَک ، فَقالُ جَسدُ مَقتولٍ ثمّ قالَ لی اَخرج لَسانَکَ فَفعلت فَقال لی :اِ مضِ فَلا بَاٴس عَليک فَانّ فی لِسانِک رِسالَةً لَو اٴَتَيت بِها الجِبالَ الرّواسِیَ لاٴ نعادَت لَکَ “الحدیث“ وَفيہ انّ ابن هَبيرة اَرادَ قَتلہ وَکَتّفَہ وَاَحضَرَ النطحَ وَالسّيفَ فَلمّا اَدّی الرّسالَة اطَلَقہ وَنَاوَلہ خٰاتَمَہ وَقَال اُمور فی یَدکِ فَدبّر فيهَا اٰ م شِئتَ ۔
شيخ جليل القدر حر عاملی بطور مسند رُفيد یزید ابن عمر، ابن هبيرہ کے غلام سے نقل کرتے ہيں کہ اس کا بيان ہے کہ: اس پر ابن هبيرہ غضب ناک ہوا اور اس نے ميرے قتل کرنے کی قسم کهائی ميں نے راہِ فرار اختيار کرکے امام جعفر صادق - کی پناہ حاصل کی اور اپنا حال بيان کيا، فرمایا: واپس جاؤ اور ميرا سلام کہہ کر اس سے یہ بهی کہنا کہ ميں نے تيرے غلام رُفيد کو پناہ دی ہے لہٰذا اب اس کے ساته برا سلوک نہ کرنا۔ ميں نے کہا: وہ مردِ شامی برا آدمی ہے ، فرمایا: تو جا اور جو کچه ميں نے کہا ہے اسے بيان کر، ميں وہاں سے چلا اور ایک صحرا سے گزر رہا تها کہ ایک صحرائی عرب مجهے ملا اور دریافت کيا: کہاں جاتا ہے؟ ميں تيرا چہرہ مقتولوں جيسا دیکه رہا ہوں، پهر کہا: اپنا ہاته دکها چنانچہ ميں نے دکهایا تو اس نے کہا: یہ تو مقتولوں جيسا ہاته ہے، پهر کہا: پير دکها ميں نے وہ بهی دکهایا تو اس نے کہا: یہ مقتولوں جيسا پير ہے پهر جسم کے ليے بهی یہی کہا، پهر کہا: زبان دکها ميں نے وہ بهی دکهائی تو اس نے کہا: جا اب تيرے ليے خوف نہيں کيوں کہ اس پر ایک پيغام ہے کہ اگر تو مضبوط پہاڑوں کو ) پہنچا دے تو وہ بهی تيرے فرماں بردار ہوجائيں گے۔ (حدیث کے آخر تک) ( ١
مولف کہتے ہيں: رُفيد هبيرہ کے غلام کو تہدید کی (دهمکی دی) گئی اور اس کا مولا ابن هبيرہ کا قتل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اثبات الهداة، ج ۵، ص ٣٣٧ ، حدیث ٨۔ (
واقع ہونے والا تها تو وہ حضرت امام جعفر صادق - کے پاس پناہ گزیں ہوتا ہے حضرت اپنے ایک زبانی پيغام کے ذریعے ابن هبيرہ کے غيظ و غضب کی آگ خامو ش کرنے کے علاوہ دل کی کدورت بهی صاف کردیتے ہيں جس کے نتيجے ميں رُفيد کو غلامی سے آزاد کرکے اپنی زندگی کے امور کی تدبير اسے بيان کرتے ہيں۔
٧٠۴ ۔ وَفی الکَافی عَن یونَس بن یَعقوب فی حَدیث الشافی عَن ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام قال:یُونس کُنت عِند اَبی عَبد اللّٰہ عليہ السلام فَورَد عَليہ رَجلٌ مِن اَهل الشّام فَقال انّی رَجلٌ صاحب کَلام و فقہٍ وَفَرایضَ وَقَد جِئت لِمناظِرَة اَصحابِکَ ، فَقال ابو عَبد اللہّٰ عليہ السلام کَلامُکَ مِن کَلام رَسول اللّٰہ (ص) او مِن عِند کَ قال مِن کَلامِ رَسول اللّٰہ (ص) وَمِن عِندی ، فقال عليہ السلام : اذاً شریکُ رَسول اللّٰہ (ص) قالَ لا قال فَسمِعتَ الوحیَ عَن اللّٰہ عزّوجلّ یَخبرکَ ؟ قال لا، قال فَتَجِب طَاعَتکَ کَما تَجِب طاعَة رَسول اللہّٰ (ص) ؟ قال لا فَالتَفَت اَبو عبد اللّٰہ عليہ السلام اِلیّ فَقال یا یُونس من یَعقوب هذا قَد خَصم نَفسہ قَبل اَن یَتَکلّم
فَمِن الحجّة عَلی النّاس اليَوم ؟ قال هٰذا القاعِدُ الّذی تَشدُّ الَيہ الرّحالَ وَیُخبرنا بِاَخْبٰار السّمآء وَالاٴرضِ وَراثَةً عَن اَبٍ عَن جَدٍ ، قال الشّامی فکَيف لی اَن اَعْلَمَ ذلِک ؟ قال ہشامٌ سَلہ عَمّا بَدالک ، قال الشٰامی قَطعتَ عُذری فَعَلیّ السئوالَ فَقال اَبو عَبد اللّٰہ عليہ السلام یا شامی اُخبِْرُکَ کَيف کان سَفرکَ وَکَيف کان طَریقکَ کان کَذا وَکذا ، فَاقبَل الشّامی یقول صَدقتَ اَسلمتُ اللّٰہ السّاعةَ ، فَقال ابو عَبد اللّٰہ عليہ السلام بَل آمَنتَ بِاللّٰہ السّاعة انّ الاِسلامَ قَبل الایمانِ وعلَيہ یتَوارِثونَ و یتناکَحون والاٴیمانُ عَليہ یثٰابُون ، فَقال الشّآمی صَدقَت فاٴنَا السّاعة اَشهد ان لا الٰہ الاَّ ) اللّٰہ وانّ مُحمداً رَسول اللّٰہ وَانّک وِصی الاٴوصيآء (الحَدیث بِتمامہ)( ١
کافی ميں یونس ابن یعقوب سے حدیث شامی سے مروی ہے کہ : ایک دن ميں امام جعفر صادق - کی خدمت ميں حاضر تها کہ ایک شامی آیا اور کہنے لگا: ميں شام کا رہنے والا ہوں اور علم کلام ، فقہ اور فرائض کا عالم ہوں اور اس ليے یہاں آیا ہوں کہ اصحاب کے ساته مناظرہ کروں۔ امام جعفر صادق - نے فرمایا: تيرا کلام رسول الله (ص) کے کلام سے ہوگا یا تيری طرف سے ؟ اس نے کہا:
کچه رسول (ص) کا کلام ہوگا اور کچه ميری طرف سے ہوگا۔ امام - نے فرمایا: تو تم اس صورت ميں پيغمبر (ص) کے شریک بن گئے، اس نے کہا: نہيں ، فرمایا: کيا الله تعالیٰ کی وحی سنی ہے جس نے تجهے خبر دی ہے؟ اس نے کہا: نہيں ، فرمایا: تو کيا تيری اطاعت رسول (ص) کی اطاعت کی طرح واجب ہے ؟ کہا: نہيں، حضرت نے ميری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے یونس ابن یعقوب ! دیکهو اس نے مکالمہ سے پہلے ہی خود کو ملزم بناليا کيوں کہ اپنے قول کو بغير دليل کے حجّت جانا۔
پهر مرد شامی نے بعض اصحاب سے مناظرہ کيا یہاں تک کہ ہشام آگئے مناظرہ حضرت کے حکم مبارک سے ہشام کے سپرد کيا گيا۔
یہاں تک کہ مرد شامی نے ہشام سے کہا: تو پهر آج لوگوں کے ليے حجّت خدا کون ہے؟ ہشام نے کہا: وہ یہی شخص ہے جو مسند نشين ہے (امام جعفر صادق - کی طرف اشارہ کيا) لوگ دنيا کے گوشے گوشے سے آکر انہيں سے زمين و آسمان کی خبریں معلوم کرتے ہيں یہ اپنے باپ دادا کے علوم کے وارث ہيں جو ہميںساری باتيں بتاتے ہيں۔ شامی نے کہا: مجهے یہ کيسے معلوم ہو؟ ہشام نے کہا: جو تيرا دل چاہے ان سے سوال کرلے شامی نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٧١ ، حدیث ۴۔ (
کہا: تم نے مجهے قائل و قانع کردیا اب ميرے ليے سوال کرنا ضروری ہے۔ امام جعفر صادق - نے فرمایا:اے شامی! کيا ميں تجهے تيرے سفر اور راستے کے حالات بتادوں؟ سن یہ یہ واقعات تجهے راستے ميں درپيش ہوئے۔ شامی خوش حال ہوکر کہتا تها: آپ نے سچ فرمایا: اب ميں الله پر اسلام لے آیا امام نے فرمایا: نہيں بلکہ اب تم خدا پر ایمان لائے کيوں کہ اسلام ایمان سے پہلے ہے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد باہمی ميراث ملتی ہے اور باہمی نکاح کرنا صحيح ہوتا ہے ليکن ایمان کے ذریعے ثواب ملتا ہے، تم پہلے الله اور رسول پر ایمان رکهتے تهے مسلمان تهے کہ عبادت کے ثواب سے محروم تهے اور اب ميری امامت کی معرفت حاصل کرلی ہے تو خدا عبادات پر ثواب بهی عطا کرے گا، شامی نے کہا: آپ نے سچ فرمایا: ميں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں اور محمد الله کے رسول ہيں اور آپ وصی الاوصياء ہيں۔
٧٠۵ ۔ “وَ فی البِحار نَقلاً عَن اَمٰالی بن الشَيخ الطّوسی قَد س بِاسنادہ عَن مُحمد بن سُليمان عَن اَبيہ قال کانَ رَجلٌ من اهلِ الشّامِ یَختلِف الیٰ اَبی جعفر عليہ السلام وَکان مَرکَزَة بِالمَدینةِ یَختلِف الیٰ مَجلس ابی جَعفر یَقول لَہ یا محمّد الا تَری انی انّما اغشی مَجلسکَ جُناً لی مِنکَ وَلا اقُول انّ اَحداً فی الاٴرض ابغَضُ الیّ مِنکُم اَهل البَيت ، وَاعلَم اَنّ طاعَة اللّٰہ وَطاعَة رَسولِہِ وَطَاعة امير الموٴمنينَ فی بُغضِکم ،وَلکن اَراک رَجلاً نَصيحاً لَک ادبٌ وَحُسن لَفظ، فَانّما اختلافی اليکَ لِحُسْنِ اٴدبِکَ ، وَکان ابو جَعفر عليہ السلام یَقولُ لہ خَيراً وَیَقول لَن تَخفیٰ عَلی اللّٰہ خَافيةٌ ، فَلم یَلبث الشّامی الا قَليلاً حتّی مَرضَ وَاشتدّ وَجعُہ ، فَلمّا ثَقل دَعا وليّہ وَقال لَہ اذٰا اَنت مَدَدت عَلیّ الثّوب فَاٴتِ محمّد بن علی عليہ السلام وَسلہ اَن یُصلّی علَیّ وَاُعلِمَہُ اَنی اَنا الّذی اَمَرتُْکَ بِذلِک ، قال: فَلمّا ان کانَ فی نِصف الّليل ظنوا انّہ قَد برَد وَسَجَوہ فَلمّا اَن اصبَحَ النّاسُ خَرج وَاللّٰہ الیٰ المَسجد فَلمّا اَن صَلّی محمّد بن عَلی وَتَورَک وَکان اذٰا صَلّی عَقَب فی مَجلسِہ قال لَہ یا اَبوجعفر عليہ السلام کلا انّ بِلادَ الشّامَ بِلاد بردٍ وَالحِجار بِلاد حرّ وَلَهبُها شَدید فَانطَلِق فَلا تَعجَلنَّ عَلیٰ صٰاحِبَک حتّی اَتيکّم ثمّ قامَ عليہ السلام مِن مَجلسہ فَاٴخَذ وُضوءً ثمّ عادَ فَصلیٰ رکعتينِ ثمّ مَذیدَہ تِلقاءَ وَجهِہ مٰا شآءَ اللّٰہ ثمّ خَرّ ساجِداً حَتّی طَلَعت الشّمس ثمّ نَهَض عليہ السلام فَانتهیٰ ال یٰ مَنزلِ الشّامی فَدخَل عليہ السلام عَليہ فَدعاہ فَاجابَہ ثمّ اجلَسَہ وَاسنَدَہ وَدَعالَہ بِسَویقٍ فَسقاہ وَقال لِاَهلِہ اَملَوٴ جَوفَہ وَ بَرِّدوا صَدرَْہُ بالطّعامِ البارِد ثمّ انصرَف عليہ السلام فَلم یَلبَث الاَّ قَليلاً حَتّی عُوفی الشّامی فَاٴتی اَبا جَعفر عليہ السلام فَقال اخلِنی فَاٴخلاہُ فَقال اَشهد اَنّک حجّة اللّٰہ عَلی خَلقہ وَبابِہ الّذی یُوٴتی مِنہ فَمن اَتی مِن غَيرک خابَ وَخَسر وَضلّ ضَلالاً بَعيداً ، قال لَہ ابا جَعفر وَمابَدالَک قال اشَهد انّی عَهدتُ بِروحی و عانَيت بِعَينی فَلم یَتفاجَانی الاَّ ومنادٍ یُنادی اسمَعُہ باذنی یُنادِ وَما انا بِالنائم رَدّوا عَليہ روحَہ فَقد سَاٴلنا ذلِک محمّد بن علیٍ عليہ السلام فَقال لَہ ابو جعفر عليہ السلام اما عَلمت انّ اللّٰہ یَحب العَبد وَ یَبغِض عَملَہ وَیبغِض العَبد وَیَحِب ) عَملہ قال فَصارَ بَعدَ ذلِکَ مِن اصحابِ اَبی جعفر عليہ السلام ” ( ١
کتاب ابن شيخ طوسی ميں محمد ابن سليمان نے بطور مسند اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شامی جس کی رہائش مدینہ (منورہ) ميں تهی جناب ابو جعفر امام محمد باقر - کی خدمت ميں آتا جاتا تها اور آپ کی صحبت ميں بهی بيڻها کرتا تها ایک دن آپ سے کہنے لگا کہ: اے محمد! مجهے آپ کی مجلس ميں شرم آتی ہے ميں نہيں کہہ سکتا کہ مجه سے زیادہ آپ اہل بيت سے دشمنی رکهنے والا روئے زمين پر کوئی اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۴۶ ، ص ٢٣٣ ۔ (
دوسرا ہو ميں یہ سمجهتا ہوں کہ آپ حضرات کی دشمنی ميں خدا اور رسول (ص) اور امير المومنين - کی اطاعت ہے۔
ليکن ميں یہ دیکهتا ہوں کہ آپ صاحب فصاحت و بلاغت ہيں اور ادب و حسن کلام ميں ایک امتيازی شان رکهتے ہيں اور ميرا یہ آنا جانا اِسی وجہ سے ہوتا ہے۔” حضرت امام محمد باقر - نے اس کے ليے اچهے الفاظ استعمال کيے اور فرمایا کہ: خدا سے کوئی چيز پوشيدہ نہيں ۔ کچه دنوں کے بعد وہ شامی بيمار ہوگيا جب بيماری کی تکليف بڑه گئی تو اُس نے اپنے ایک قریبی عزیز سے (جو اس کے امور کی دیکه بهال کرتا تها) کہا کہ: جب تم مجه پر کپڑا ڈال دو تو امام محمد باقر - کر بلانا اور ان سے درخواست کرنا کہ وہ ميرے جنازے کی نماز پڑهيں اور انہيں یہ بهی بتا دینا کہ ميں نے تمہيں اِس بات کا حکم دیا ہے، جب آدهی رات ہوئی تو عزیزوں کو یقين ہوگيا کہ یہ ڻهنڈا ہے اور مرچکا ہے۔ جب صبح ہوگئی تو اُس کا وارث مسجد ميں آیا اور حضرت امام محمد باقر -نماز سے فارغ ہوچکے تو اِس نے امام کی خدمت ميں عرض کيا کہ فلاں شامی نے انتقال کيا اور اِس کی آپ سے یہ درخواست تهی کہ آپ اِس کی نماز جنازہ پڑهيں۔
تو امام نے فرمایا: ہرگز نہيں شام کا علاقہ تو سرد اور ڻهنڈا ہے اور حجاز ميں سخت گرمی پڑتی ہے۔ لہٰذا تم جاؤ اور دیکهو دفن ميں جلدی نہ کرنا پهر حضرت امام محمد باقر - اپنی جگہ سے اڻهے اور وضو کرکے دو رکعت نماز پڑهی اور سجدہ ميں چلے گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا پهر آپ کهڑے ہوئے اور اُس شامی کے مکان پر تشریف لائے اِسے آواز دی تو اُس نے جواب دیا: حضرت امام محمد باقر - اُس کے پاس بيڻهے، اسے سہارا دے کر بڻهایا اور ستو منگا کر اسے پلایا اِس کے اہل خانہ سے فرمایا کہ اِسے شکم سير کرو اور ڻهنڈی غذا سے اس کے سينہ کو ڻهنڈک پہنچاؤ اِس کے بعد امام واپس تشریف لے آئے ابهی کچه وقت بهی نہ گزرا تها کہ وہ شامی تندرست ہوگيا اور خدمت امام ميں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ: ميں تنہائی ميں کچه عرض کرنا چاہتا ہوں حضرت نے اِس کا موقع دیا۔
تو شامی کہنے لگا کہ: ميں گواہی دیتا ہوں آپ خدا کی مخلوق پر اِس کی حجّت ہيں اور اِس کا وہ دروازہ ہيں جو آنے کا صحيح راستہ ہے جو شخص آپ کے سوا کسی دوسرے دروازے سے آیا وہ نامراد اور گهاڻے ميں رہا اور گمراہ ہوگيا۔ حضرت امام - نے اس سے پوچها کہ: تجه پر کيا گزری؟ تو کہنے لگا کہ: ميں گواہی دیتا ہوں ميری روح اس سے باخبر ہے اور ميں نے آنکهوں سے بهی دیکها اور انہوں نے مجهے حيرت ميں نہيں ڈالا کہ ایک آواز دینے والے کو ميں نے اپنے کانوں سے یہ کہتے ہوئے سنا جب کہ ميں نيند کے عالم ميں بهی نہ تها کہ اس کی روح کو لوڻا دو کہ اِس ليے کہ ہم سے جناب امام محمد ابن علی-نے اس سلسلے ميں سوال کيا ہے اِس پر حضرت امام - نے فرمایا کہ: کيا تجهے معلوم نہيں کہ خدا اپنے بندے کو دوست رکهتا ہے ليکن اِس کے عمل سے بغض رکهتا ہے؟ اور بندہ سے بغض رکهتا ہے اور اس کے عمل کو دوست رکهتا ہے؟ محمد ابن سليمان کہتے ہيں کہ: پهر وہ مرد شامی حضرت امام محمد باقر - کے اصحاب ميں داخل ہوگيا۔
مولا امام زمانہ - کے مقدس وجود کی برکت سے ازدی کا ہدایت یافتہ ہونا مولف کہتے ہيں: مولا امام زمانہ - اور ازدی کے واقعہ کی تفصيل منابع اسلامی ميں ) مندرج ہے( ١
اب ہم اس واقعہ کا خلاصہ جو ہماری کتاب کے عنوان سے مربوط ہے کہ امام زمانہ - قرآن مجيد کی طرح دلوں کے اندهے پن اور زنگ آلود قلوب کو جلا بخشتے ہيں ذکر کرتے ہيں ۔ ٧٠۶ ۔ ازدی کی نظر خانہٴ کعبہ کے طواف کے درميان ایک اچهے، خوب صورت اور ہيبت و وقار سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴۴ ۔ مدینة المعاجز، ج ٨، ص ١۴١ ۔ معجم احادیث الامام المہدی - ، ( ج ۴، ص ٣٩۴ ۔
بهرے ہوئے جوان پر پڑتی ہے تو وہ بعض لوگوں سے معلوم کرتے ہيں یہ کون ہے؟ کہتے ہيں کہ یہ فرزند رسول (ص) ہے ہر سال ایک دن ظاہر ہوتا ہے اور اپنے مخصوص اصحاب سے حدیث بيان فرماتا ہے ازدی کا بيان ہے : ميں نے عرض کيا:
”سَيدی مُستَرشِداً اَتَيتکُ فَارشدِنی هَداکَ اللہّٰ“
)یعنی ميں آپ کے پاس اس ليے آیا ہوں تاکہ مجهے رہنمائی فرمائيں الله تعالیٰ آپ کی ہدایت فرمائے) حضرت کچه سنگریزے اسے عطا فرماتے ہيں جب غور سے مشاہدہ کرتا ہے تو دیکهتا ہے کہ وہ خالص سونا ہے، پهر جب وہ چلنے لگتا ہے تو متوجہ ہوتا ہے حضرت بهی ان لوگوں کے ساته ملحق ہوگئے ہيں فرماتے ہيں:
”ثَبّت عَلَيک الحُجّة وَظَهر لَک الحَقُ“
)یعنی حجّت تمہارے ليے ثابت ہوئی، حق تمہارے ليے نمایاں ہوگيا اور تمہارے دل کا اندها پن ختم ہوگيا مجهے پہچانتے ہو؟ ميں مہدی دوراں اور قائم زمانہ ہوں کہ زمين کو عدل و انصاف سے ظلم و ستم سے پُر ہونے کے بعد بهر دوں گا۔