|
٣٣ ۔ مہربان ناصح
٣٣ ۔ القرآن ناصح لایغش
وکذلک الحجة القائم عليہ السلام
قرآن مجيد ایسی کتاب ہے جو انسانوں کو مہربانی کے طور پر نصيحت کرتا ہے اور اس
کی نصيحت پر عمل کرنا ندامت و شرمندگی کا باعث نہيں ہوتا۔ امام زمانہ - بهی جو اس کے
ہم پلہ ہيں روؤف و مہربان کے عنوان سے نصيحت کرنے والے ہيں کہ جن کے فرمودات پر عمل
کرنا سعادت کا سبب ہے۔
آیات ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول : <إِنَّ اللهَ یَاٴمُْرُکُم اٴَن تُؤَدُّوا الاْٴَمَانَاتِ إِلَی اٴَہلِْہَا وَإِذَا
) حَکَمتُْم بَينَْ النَّاسِ اٴَن تَحکُْمُوا بِالعَْدلِْ إِنَّ اللهَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللهَ کَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا > ( ١
بے شک الله تمہيں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو (خواہ خدا کی
امانت ہو یا اس کے بندوں کی) اور جب کوئی فيصلہ کرو تو انصاف کے ساته کرو الله تمہيں
بہترین نصيحت کرتا ہے بے شک الله سميع بهی ہے بصير بهی۔
الله تعالیٰ کا قول: <إِنَّ اللهَ یَاٴمُْرُ بِالعَْدلِْ وَالإِحسَْانِ وَإِیتَاءِ ذِی القُْربَْی وَیَنہَْی عَنْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٨ ۔ (
) الفَْحشَْاءِ وَالمُْنکَرِ وَالبَْغیِْ یَعِظُکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ > ( ١
بے شک الله عدل، احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائيگی کا حکم دیتا ہے اور
بدکاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصيحت حاصل کرلو۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَیُّہَا النَّاسُ قَد جَائَتکُْم مَوعِْظَةٌ مِن رَبِّکُم وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ
) وَہُدًی وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ > ( ٢
ایها الناس! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصيحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور
ہدایت اور صاحبان ایمان کے ليے رحمت ، قرآن آچکا ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: < اٴَلَم اٴَعہَْد إِلَيکُْم یَابَنِی آدَمَ اٴَن لا تَعبُْدُوا الشَّيطَْانَ إِنَّہُ لَکُم عَدُوٌّ
) مُبِينٌ وَاٴَن اعبُْدُونِی ہَذَا صِرَاطٌ مُستَْقِيمٌ > ( ٣
اے اولاد آدم! کيا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہيں ليا تها کہ خبردار ! شيطان کی
عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کهلا ہوا دشمن ہے اور ميری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقيم اور
سيدها راستہ ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: < قُل إِنَّمَا اٴَعِظُکُم بِوَاحِدَةٍ اٴَن تَقُومُوا لِلَّہِ مَثنَْی وَفُرَادَی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا
) مَا بِصَاحِبِکُم مِن جِنَّةٍ إِن ہُوَ إِلاَّ نَذِیرٌ لَکُم بَينَْ یَدَی عَذَابٍ شَدِیدٍ > ( ۴
پيغمبر آپ کہہ دیجيے کہ ميں تمہيں صرف اس بات کی نصيحت کرتا ہوں کہ الله کے ليے
ایک ایک دو دو کرکے اڻهو اور پهر (محمد (ص) کے کاموں ميں) یہ غور کرو کہ تمہارے ساتهی
ميں کسی طرح کا جنون نہيں ہے۔ وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پيش آنے سے پہلے
تمہارا ڈرانے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ٩٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ یونس، آیت ۵٧ ۔ (
۶١ ۔ ، ٣(۔ سورئہ یس، آیت ۶٠ (
۴(۔ سورئہ سباء، آیت ۴۶ ۔ (
مولف کہتے ہيں: یہ واضحات اور مسلمات بشر ميں سے ہے کہ قرآن مجيد کلام الٰہی
ہے جو مصدر ربوبيت سے صادر ہوا ہے اس کے باوجود قرآن صامت ہے اور ترجمان کا محتاج ہے
اور اس کے ترجمان تمام انبيائے کرام - بالخصوص پيغمبر (ص) عظيم الشان اور ان کے اوصيائے
گرامی ہيں۔
مذکورہ آیات ميں کبهی خدائے عزوجل اپنے بندوں کو وعظ و نصيحت کرتا ہے
جيسا کہ سورئہ نساء کی آیت نمبر ۵٧ ، سورئہ نحل کی آیت نمبر ٩٠ ، سورئہ یونس کی
آیت نمبر ۵٧ ، سورئہ یس کی آیت نمبر ۶١ اور سورئہ سبا کی آیت نمبر ۴۶ ميں خود اپنے پيغمبر
(ص) گرامی کو حکم فرماتا ہے کہ کہہ دو ميں تمہيں نصيحت کرتا ہوں۔ آیت کے آخر تک۔
قرآن مجيد کی تمام آیتوں ميں وعد و وعيد و نصيحت موجود ہے اگر ہم ان سب کی طرف
اشارہ کریں تو وہ ہماری اس کتاب کے دائرہ سے خارج ہے۔ لہٰذا اب چند آیات کے ذکر کرنے پر
اکتفا کرتے ہيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: < یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم فَإِن تَنَازَعتُْم فِی شَیءٍْ فَرُدُّوہُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُم تُؤمِْنُونَ بِاللهِ وَاليَْومِْ الآْخِرِ ذَلِکَ خَيرٌْ
) وَاٴَحسَْنُ تَاٴوِْیلًا > ( ١
اے ایمان والو! الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہيں ميں
سے (ائمہ طاہرین) ہيں پهر اگر آپس ميں کسی بات ميں اختلاف ہوجائے تو اسے (کتاب) خدا
اور رسول کی طرف پلڻادو اگر تم الله اور روز آخرت پر ایمان رکهنے والے ہو۔ یہی تمہارے حق ميں
خير اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا وَلا تَفَرَّقُوا وَاذکُْرُوا نِعمَْةَ اللهِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
عَلَيکُْم إِذ کُنتُْم اٴَعدَْاءً فَاٴَلَّفَ بَينَْ قُلُوبِکُم فَاٴَصبَْحتُْم بِنِعمَْتِہِ إِخوَْانًا وَکُنتُْم عَلَی شَفَا حُفرَْةٍ مِن النَّارِ
فَاٴَنقَْذَکُم مِنہَْا کَذَلِکَ یُبَيِّنُ اللهُ لَکُم آیَاتِہِ لَعَلَّکُم تَہتَْدُونَ # وَلتَْکُن مِنکُْم اٴُمَّةٌ یَدعُْونَ إِلَی الخَْيرِْ
وَیَاٴمُْرُونَ بِالمَْعرُْوفِ وَیَنہَْونَْ عَن المُْنکَْرِ وَاٴُولَْئِکَ ہُم المُْفلِْحُونَ # وَلاَتَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاختَْلَفُوا مِن ) بَعدِْ مَا جَائَہُم البَْيِّنَاتُ وَاٴُولَْئِکَ لَہُم عَذَابٌ عَظِيمٌ > ( ١
اور الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو اور الله کی
نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس ميں دشمن تهے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيدا کردی تو
تم اس کی نعمت سے بهائی بهائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تهے تو اس نے تمہيں
نکال ليا اور الله اسی طرح اپنی آیتيں بيان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔
اور تم ميں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہيے جو خير کی دعوت دے، (دین اسلام کی)
نيکيوں کا حکم دے، برائيوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہيں اور خبردار! ان لوگوں کی
طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پيدا کيا اور واضح نشانيوں کے آجانے کے بعد بهی اختلاف کيا کہ
ان کے ليے عذاب عظيم ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَاٴکُْلُوا اٴَموَْالَکُم بَينَْکُم بِالبَْاطِلِ إِلاَّ اٴَن تَکُونَ تِجَارَةً
عَن تَرَاضٍ مِنکُْم وَلاَتَقتُْلُوا اٴَنفُسَکُم إِنَّ اللهَ کَانَ بِکُم رَحِيمًا # وَمَن یَفعَْل ذَلِکَ عُدوَْانًا وَظُلمًْا فَسَوفَْ
نُصلِْيہِ نَارًا وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللهِ یَسِيرًا # إِن تَجتَْنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنہَْونَْ عَنہُْ نُکَفِّر عَنکُْم سَيِّئَاتِکُم ) وَنُدخِْلکُْم مُدخَْلًا کَرِیمًا > ( ٢
اے ایمان والو!، آپس ميں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کها جایا کرو مگر
یہ کہ باہمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٠٣ ۔ ١٠۵ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ٢٩ ۔ ٣١ ۔ (
رضامندی سے معاملہ ہو اور خبر دار اپنے نفس کو قتل نہ کرو الله تمہارے حال پر بہت مہربان ہے
اور جو ایسا اقدام حدود سے تجاوز اور ظلم کے عنوان سے کرے گا ہم عنقریب اسے جہنم ميں
ڈال دیں گے اور الله کے ليے یہ کام بہت آسان ہے اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہيں
روکا گيا ہے پرہيز کرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں کی (تمہارے گناہان صغيرہ کو بخش دیں گے)
پردہ پوشی کردیں گے اور تمہيں باعزت منزل تک پہنچا دیں گے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَہلَْ الکِْتَابِ قَد جَائَکُم رَسُولُنَا یُبَيِّنُ لَکُم کَثِيرًا مِمَّا کُنتُْم تُخفُْونَ مِن الکِْتَابِ وَیَعفُْو عَن کَثِيرٍ قَد جَائَکُم مِن اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِينٌ # یَہدِْی بِہِ اللهُ مَن اتَّبَعَ رِضوَْانَہُ سُبُلَ
) السَّلاَمِ وَیُخرِْجُہُم مِن الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذنِْہِ وَیَہدِْیہِم إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ > ( ١
اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارا رسول (محمد (ص)) آچکا ہے جو اِن ميں سے بہت
سی باتوں کی وضاحت کر رہا ہے جن کو تم کتاب خدا (توریت و انجيل) ميں سے چهپا رہے تهے
اور بہت سی باتوں سے درگزر بهی کرتا ہے۔
تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے جس کے ذریعہ خدا اپنی
خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہيں تاریکيوں
سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہيں صراط مستقيم کی ہدایت کرتا
ہے۔
”الحجة القائم المنتظر - عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف - هو الناصح المشفق لشيعتہ بل
لکافة الخلائق“
امام زمانہ - قائم منتظر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف بهی اپنے شيعوں بلکہ تمام
مخلوقات کے ليے مہربان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیات ١۵ ۔ ١۶ ۔ (
اور نصيحت کرنے والے ہيں۔
عُ اِلَی الشَّيْخُ وَخَرَجَ التَّوقْی : ۶۶۵ ۔ “ قال الصدوق قال عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَر الحميری
فَصلِْ مِنَ ہِ رضی اللّٰہُ عنهمٰا فی التعزیة بِاَبی فی جَعفَْرٍ مُحَمَّدَ بنَْ عُث مْٰانَ العُْمرْی اَبی
داً داً وَ اٰ متَ حَمی یماً لِاَمرِْہِ وَرِ ضٰاہُ بِقَ ضٰائِہِ عٰاشَ اَبُوکَ سَعی الکِ اٰتبِ اِناٰ لِلہِّٰ وَاِناٰ اِلَيہِْ اٰرجِعُونَ تَسلْ
اً اَمرِْهِم سٰاعی ہِ عليہ السلام ، فَلَم یَزَل مُجتَْهِداً فی فَرَحِمَہُ اللہُّٰ وَالحَْقَہُ بِاَولِْ اٰيئِہِ وَمَ اٰولی
اٰ م یُقَرِّبُہُ اِلَی اللہِّٰ عَزوَْجَلَّ وَاِلَيهِْم ، نَضَّرَ اللہُّٰ وَجهَْہُ وَاَ اٰقلَ عَثرَْتَہ فی
فَصلٍْ آخِرَ “ اَجزَْلَ اللہُّٰ لَکَ الثَّ اٰوبَ وَاَحسَْنَ لَکَ العَْ اٰزءَ ، رُزِئتَ وَرُزِئ اْٰن وَاَوحَْشَکَ فَ اٰرقُہُ وَفی
مُنقَْلَبِہِ ، وَک اٰ نَ مِن کَ مٰالِ سَ اٰ عدَتِہِ اَن رَزَقَہُ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ وَلَداً مِثلُْکَ یُخلِْفُہُ وَاَوحَْشَ اٰن ، فَسَرِّہُ اللہُّٰ فی
مِن بَعدِْہِ وَیَقُومُ مَ اٰ قمَہُ بِاَمرِْہِ وَیَتَحَرَّمُ عَلَيہِْ ، وَاَقُولُ الحَْمدُْ لِلہِّٰ ، فَاِنَ الاْٴَنفُْسَ طَيِّبَةُ بِمَ اٰ کنِکَ وَ اٰ م جَعَلَہُ
کَ وَعِندَْکَ ، اَ عٰانَکَ اللہُّٰ وَقَواٰکَّ وَ عَضُدَکَ وَوَفَقَکَ وَ اٰ کنَ اللہُّٰ لَکَ وَلِياً وَ حٰافِظاً اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ فی
) ناً ” ( ١ وَ اٰ کفياً وَمُعی
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے نقل کيا ہے کہ عبد الله ابن جعفر حميری کا بيان ہے: شيخ
ابو جعفر محمد ابن عثمان عمری حضرت امام زمانہ - کے پہلے نائب خاص کے پاس ان کے والد
بزرگوار کے انتقال کے موقع پر حضرت صاحب الزمان - کا یک تعزیتی خط آیا جس کے ایک حصے
ميں یہ تحریر تها: “بے شک ہم الله کے ليے ہيں اور بلاشبہ ہم اسی طرف واپس جانے والے ہيں”
اس کے حکم کے سامنے راضی برضا ہوکر سر تسليم خم کرتے ہيں۔ تمہارے والد نے اپنی
زندگی باسعادت گزاری اور مرتے وقت تک قابل تعریف رہے پس الله ان پر رحم فرمائے اور انہيں
ان کے اولياء اور ائمہ سے ملحق فرمائے۔ یہ مسلسل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۵١٠ ۔ غيبت طوسی، ص ٣۶١ ۔ احتجاج، ج ٢، ص ٣٠١ ۔ الخرائج والجرائح، (
ج ٣، ص ١١١٢ ۔ بحار الانوار، ج ۵١ ، ص ٣۴٩ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۴، ص ٢٨٩ ۔
اپنے ائمہ کے امور ميں جدوجہد اور سعی وکوشش کرتے رہے تاکہ انہيں خدائے بزرگ و برتر اور
ائمہٴ طاہرین کا تقرّب حاصل ہو۔ الله ان کے چہرے کو بارونق اور شاداب رکهے نيز ان کی لغزشوں
کو معاف فرمائے۔
خط کے دوسرے حصے ميں یہ تحریر فرمایا: الله تعالیٰ تمہيں اس مصيبت پر صبر کا بہت
زیادہ ثواب عطا فرمائے، ان کی موت پر تم بهی سوگوار ہو اور ہم بهی۔ ان کی جدائی کا جس
قدر تم کو غم و الم ہے اسی قدر ہميں بهی ہے۔ خير وہ جہاں بهی ہيں وہاں الله تعالیٰ ان کو
خوش حال رکهے ان کی انتہائی خوش قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انہيں تم
جيسا فرزند عطا فرمایا کہ ان کے بعد وہ ان کا جانشين اور قائم مقام ہوا جو اِن کے ليے طلبِ
رحمت کر رہا ہے۔
ميں خدا کی حمد و ثناء کرتا ہوں کيوں کہ الله تعالیٰ نے لوگوں کے نفوس کو اپنے اپنے
مقام پر قرار دیا ہے اور خدائے بزرگ و برتر نے اسے تمہارے نزدیک پاک و پاکيزہ قرار دیا ہے اور وہ
خوش حال ہيں۔ الله تعالیٰ تمہاری اعانت فرمائے اور تمہيں قوت عطا فرمائے تمہارے بازوؤں ميں
طاقت عطا فرمائے، تمہيں توفيق خير عنایت فرمائے اور تمہارا ولی و سرپرست اور محافظ و
نگہبان رہے۔
حضرت صاحب الزمان - عجل الله فرجہ الشریف کی جانب سے صادر شدہ من جملہ
توقيعات ميں سے ایک وہ توقيع بهی ہے جو محمد ابن علی ابن ہلالی کرخی کے جواب نامے
ميں غاليوں کی تردید ميں ہے کہ جس کی عبارت یوں ہے۔
۶۶۶ ۔ “ اٰی مُحَمَّدَ بنَْ عَلِیٍ تَعالیَ اللہُّٰ وَجَلَّ عَماٰ یَصِفُونَ وَبِحَمدِْہِ ، لَيسَْ نَحنُْ شرَْ اٰ کئِہِ فیِ
قُدرَْتِہِ ، بَل لاٰ یَعلَْمُ الغَْيبَْ غَيرُْہُ کَ مٰا اٰقلَ تَ اٰبرَکَت اَس مْٰاوُہُ < قُلْ لا یَعْلَمُ مَنْ فِی عَمَلِہِ وَ لاٰ فی
) السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ الغَْيبَْ إِلاَّ اللهُ >( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نمل، آیت ۶۵ ۔ (
ینَ مَ وَمُوس یٰ وَغَيرِْهِم مِنَ النَّبیّ نَ آدَمَ وَنُوحٍ وَاِب اْٰرہی مِنَ الّاٴَوَّلی عُ آبٰائی وَاَنَا وَجَمی
طٰالِبٍ وَغَيرَْهُم مَمَّن مَض یٰ مِنَ الاْٴئِمَّةِ صَلَ اٰوتُ نَ مُحَمَّدٌ رَسوْلُ اللہِّٰ وَعَلِیُّ بنِْ اَبی وَمِنَ الاْٴخَری
دُ اللہِّٰ عزَّوَجَلَّ یَقُولُ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ عَبی وَمُنتَْه یٰ عَصرْی نَ ، اِل یٰ مَبلَْغِ اَیاٰمّی اللہِّٰ عَلَيهِْم اَجمَْعی
< وَمَن اٴَعرَْضَ عَن ذِکرِْی فَإِنَّ لَہُ مَعِيشَةً ضَنکًا وَنَحشُْرُہُ یَومَْ القِْيَامَةِ اٴَعمَْی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَْنِی
) اٴَعمَْی وَقَد کُنتُ بَصِيرًا قَالَ کَذَلِکَ اٴَتَتکَْ آیَاتُنَا فَنَسِيتَہَا وَکَذَلِکَ اليَْومَْ تُنسَی >( ١
نُہُ جَ اٰنحُ البَْعُوضَةِ اَرجَْحُ عَةِ وَحُمَ اٰ قئُهُم ، مَن دی اٰیمُحَمَّدَ بنِْ عَلِی ، قَد آ اٰ ذ اٰن جُهَ لاٰءُ الشی
داً وَرَسُولَہُ مُحَمَّداً (ص) وَمَ ئٰ لاِکَتَہُ لا اِ ہٰل اِلاَّ هُوَ وَکَف یٰ بِہِ شَهی مِنْہُ ، فَاُشْهِدُ اللّٰہَ الَّذی
بَرِیٌ اِلَی هٰذٰا اِنّی آٰیئَہُ عليہم السلام وَاُشهِْدُکَ وَاُشهِْدُ کُلُّ مَن سَمَعَ کِ اٰتبی آٰیئَہُ وَ اَولْ وَاَنبْ
مُلکِْہِ ، اَویُْحِلَّ اٰن مُحَلا سِوَی المْحَلِ اللہِّٰ وَاِل یٰ رَسُولِہِ مِمَّن یَقُولُ اِناٰ نَعلَْمُ الغَْيبَْ وَن شْٰارِکُہُ فی
صَدرِْ کِ اٰتبی رَضِيَہُ اللہُّٰ لَ اٰن وَخَلَقَ اٰن لَہُ اَو یَتَعَدّ یٰ بِ اٰن عَماٰ فَسَّرتُْہُ لَکَ وَبَيَّنَتُہُ فی الَّذی
وَاُشهِْدُ کُم اَنَّ کُلِّ مَن نُبرَْاٴُمِنہُْ فَاِنَّ اللہَّٰ یَبرَْءُ مِنہُْ وَمَ ئٰ لاِکَتَہُ وَرُسُلَہُ وَاَولِْ اٰيئَہُ وَجَعَلتُْ هٰذَا
عُنُقِکَ وَعُنُقِ مَن سَمِعَہُ اَن لا تَکتُْمُہُ لِاٴَحَدٍ مِن هٰذَا الکِْ اٰتبَ اَ اٰ منَةً فی فی عُ الَّذی التَّوقی
لَعَلَّ اللّٰہُ یَتَلاٰفٰا ، عَ الْکُلَّ ( کلَّ ) مِنَ الْمَوٰالی حَتّ یٰ یُظهَْرِ عَل یٰ هٰذَا التَّوقْی عَتی مَ اٰولِیَّ وَشی
نِ اللہِّٰ الحَْقّ ، یَنتَْهُونَ عَماٰ لا یَعلَْمُونَ مُنتَْه یٰ اَمرِْہِ وَلا یَبلُْغُ مُنتَْ هٰاہُ ، فَکُلُّ مَن هُم فَيَرجِْعُونَ اِل یٰ دی
وَلا یَرجِْعَ اِل یٰ مَا قَد اَمَرتُْہُ وَنَهَيتُْہُ فَقَد حَلَّت عَلَيہِْ الَّعنَْةُ مِنَ اللہِّٰ وَمِمَّن ذَکَرتُْ مِن عِ اٰبدِہِ فَهِمَ کِ اٰتبی
) نَ ” ( ٢ الصّٰالِحی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ طہ، آیات ١٢۴ ۔ ١٢۶ ۔ (
٢(۔ الاحتجاج، ج ٢، ص ٢٨٨ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٢۶۶ ۔ المختار من کلمات الامام المجتبیٰ -، (
ج ١، ص ۴٩ ۔
وہ بعض توقيعات جو حضرت صاحب الزمان - عجل الله فرجہ الشریف کی طرف سے صادر
ہوئی ہيں من جملہ ان ميں سے ایک غلاة کی تردید ميں محمد ابن علی ابن ہلالی کرخی کے
سوال کے جواب ميں ہے اے محمد ابن علی! الله تعالیٰ اس سے زیادہ اعلی و اعظم ہے کہ
غلاة اس کی جو توصيف کرتے ہيں اور الحمد لله ہم خدائے سبحان کے شریک نہيں ہيں نہ اس
کے عمل ميں نہ اس کی قدرت ميں بلکہ اس کے علاوہ کوئی غيب بهی نہيں جانتا جيسا کہ
الله تبارک و تعالیٰ اپنے حبيب کو خطاب کرکے فرماتا ہے: “اے محمد!” کہہ دیجيے کہ آسمان و
زمين ميں غيب کا جاننے والا الله کے علاوہ کوئی نہيں ہے۔ اور ميں اور ميرے تمام آباء و اجداد
اولين سے آدم، نوح، ابراہيم اور موسی وغيرہ گزشتہ انبياء ميں سے اور آخرین سے حضرت
محمد (ص)، علی ابن ابی طالب -اور ان کے علاوہ دوسرے گزشتہ ائمہ یہاں تک کہ ميرا زمانہ
اور ميری عمر ختم ہونے تک ميں ندائے عزوجل کا بندہ ہوں۔ الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جو
ميرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے ليے زندگی کی تنگی بهی ہے اور ہم اسے قيامت کے
دن اندها بهی محشور کریں گے وہ کہے گا کہ پروردگارا! یہ تو نے مجهے اندها کيوں محشور کيا
ہے جب کہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تها؟ خداوند سبحان فرمائے گا کہ اسی طرح ہماری
آیتيں تيرے پاس آئيں اور تو نے انہيں بهلا دیا تو آج بهی نظر انداز کردیا جائے گا”۔
مولف کہتے ہيں: شاید آیہٴ اعراض سے استدلال کا طریقہ اس جہت سے ہو کہ علم
غيب کا دعویٰ اور قدرت و ربوبيت کا ائمہٴ اطہار - کے ساته اشتراک خود ذکر خدا سے ایک
واضح طور پر اعراض ہے۔ کيوں کہ ذکر کيسے محقق ہوگا جب کہ ذاکر ائمہ کی طرف ان چيزوں
کو منسوب کرکے جس سے وہ بيزار ہيں اور وہ یہ کہ خود کو ائمہٴ اطہار خدائے سبحان کے
علم و قدرت اور اس کی ربوبيت ميں شریک جانيں۔
جاہلوں کو کيا معلوم کہ ائمہٴ ہدیٰ خدا کے مکرّم بندے ہيں الله تعالیٰ نے انہيں اپنے
جلال و کمال کے تحت اختيار کيا ہے جيسا کہ حضرت امير المومنين - سے نقل ہوا ہے کہ
حضرت فرماتے ہيں:
) ۶۶٧ ۔ “ لا تتجاوز وا بنا العبودیة ثم قولوا فينا ما شئتم ولا تغلوا ” ( ١
ہمارے ذریعہ عبودیت سے تجاوز نہ کرو پهر ہمارے بارے ميں جو چاہو کہو مگر غلو نہ کرو۔
نُہُ عَةِ وَحُمَ اٰ قئُهُم مَن دی بقيہ توقيع مبارک ميں فرمایا: اٰی مُحَمَّدَ بنِْ عَلِی قَد آ اٰ ذ اٰن جُهَلاءُ الشّی
جُ اٰنحُ البعوضَةِ اَرجَْحَ مِنہُْ
اے محمد ابن علی! کم عقل اور نادان شيعہ اور جن کی دین داری سے مضبوط مچهر
کے بال و پر ہوتے ہيں ہم کو اذیت اور تکليف پہنچاتے ہيں۔ لہٰذا ميں گواہ بناتا ہوں اس خدا کو کہ
جس کے علاوہ کوئی الله نہيں ہے اور شہادت کے لحاظ سے خدا کافی ہے اور اسی طرح
رسول خدا (ص) حضرت محمد ، ملائکہ، انبياء اور اولياء خدا کو بهی شاہد بناتا ہوں۔ اور اس
شخص کو گواہ بناتا ہوں جو شخص ميرے اس مکتوب (خط) کو سنے کہ ميں بری اور بيزار ہوں اور
ان لوگوں سے الله و رسول کی پناہ چاہتا ہوں جو کہتے ہيں کہ ہم علم غيب کے حامل ہيں اور
اس کے ملک ميں شریک ہيں، یا ہميں ایسے موقع و محل پر قرار دے جو الله تعالیٰ کی رضایت
کے برخلاف موقع و محل ہو اور ہميں اسی نے خلق کيا ہے یا ہمارے اس قول سے تجاوز کرے
جس کی جو کچه ہم نے تفسير بيان کی ہے اور اس کے ابتدائے خط ميں ہم نے وضاحت دی۔
اور ميں تمہيں گواہ بناتا ہوں جو شخص ميرے خط کو سنے اگرچہ ہر اس شخص سے
جس سے ميں بيزاری اختيار کرتا ہوں ذات خدا بهی اس سے بيزاری اختيار کرتی ہے اور ملائکہ،
رسل اور اوليائے الٰہی بهی ، مزید اس توقيع کو جو اس مکتوب (خط) ميں ہے تمہاری گردن ميں
امانت قرار دیتا ہوں اور ان کی گردن ميں بهی جو اسے سنے اسے ميرے کسی بهی شيعہ اور
دوست سے مخفی نہ کرے یہاں تک کہ ہمارے چاہنے والوں ميں سے ہر ایک اس تمام توقيع (کا
علم) حاصل کرلے۔ شاید خداوند متعال ان کی تلافی کرے پهر انہيں دین الٰہی کی طرف پلڻا دے
جو حق ہے۔ اور اس کی انتہا تک پہنچ جائيں کہ جس امر کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير امام عسکری -، ص ۵٠ ۔ بحار الانوار، ج ۴، ص ٣٠٣ ۔ (
انتہا نہيں جانتے کہ اس کا اختتام کہاں ہوگا۔
لہٰذا جو شخص ميرے مکتوب (خط) کو سمجهے اور اس بات کی طرف نہ پلڻے جس کا
ميں نے اسے حکم دیا ہے اور اس سے نہی کی ہے تو یقينا اس پر ميرے نيک بندوں کی طرف
سے جن کا ميں نے ذکر کيا ہے لعنت پڑے گی۔
مولف کہتے ہيں: ہمارے امام عزیز حضرت مہدی - کا قول واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ
( ائمہٴ اطہار رب (خدا) نہيں ہيں۔ <بَل عِبَادٌ مُکرَْمُونَ لاَیَسبِْقُونَہُ بِالقَْولِْ وَہُم بِاٴَمرِْہِ یَعمَْلُونَ > ( ١
بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہيں جو کسی بات پر اس پر سبقت نہيں کرتے ہيں اور اس
کے احکام پر برابر عمل کرتے رہتے ہيں۔ حقيقت ميں وہ شخص ہلاک ہوا جو اِن کی حد سے
تجاوز کيا۔
۶۶٨ ۔ حضرت امير المومنين -نہج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ہيں: ميرے بارے ميں دو طرح
) کے لوگ ہلاک ہوگئے ہيں۔ ( ٢
١ (وہ دوست جو دوستی ميں غلو سے کام ليتے ہيں
٢ (اور وہ دشمن جو دشمنی ميں مبالغہ کرتے ہيں
”محب غال” وہی غلاة ہيں جو ائمہٴ ہدی کی محبت ميں افراط روی کرتے ہيں اور انہيں
مقام ربوبيت تک پہنچا دیتے ہيں۔
”مبغض قال” وہی ان کے تمام دشمن ہيں کہ جنہوں نے ان کی ہدایت اور راہِ مستيقم کو
ترک کردیا ہے۔ اور مفرطين و مقرصين ميں بهی لوگوں کا دو گروہ پایا جاتا ہے:
١ (جو لوگ حضرت علی ابن ابی طالب - کی فضيلت کے قائل نہيں ہيں۔
٢ (جو لوگ حضرت علی ابن ابی طالب - کی ربوبيت کے قائل اور معتقد ہيں اور وہ غلاة
ہيں کہ ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انبياء، آیت ٢٧ ۔ (
٢(۔ نہج البلاغہ، حکمت ١١٧ ۔ امالی صدوق، ص ٧٠٩ ۔ خصائص الائمہ، ص ١٢۴ ۔ بحار الانوار، (
ج ٢۵ ، س ٢٨۵ ۔
کے حق ميں خدا اور ائمہٴ اطہار کی طرف سے شدید مذمت اور لعن و طعن وارد ہوئی ہے۔
عَبدِْ اللہِّٰ بنِْ الصاٰلّحٍ اٰقلَ: کُنتُْ خَرَجتُْ سَنَةً مِنَ ۶۶٩ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عَنْ اَبی
نَ یَومْاً فَقَد فَاَقَمتُْ اِثنَْينِْ وَعِشرْی ، الخُْرُوجِ فَلَم یُوٴذَن لی نَ بِبَغ اْٰ ددَ فَاستَاٴذَنتُْ فی السِّنی
ہِ اُخْرُجْ فی لَ لی یَومَْ الاَْربَْ اٰ عء وَقی الْخُرُوجِ لی فی خَرَجتِْ ال اْٰ قفِلَةُ اِلَی النَّهرَْ اٰونِ ، فَاُذِنَ لی
مَةٌ ، فَ مٰا اٰ کنَ اِلاَّ اَن اَعلَْفتُْ فَخَرَجتُْ وَاَنَا آیِسٌ مِنَ ال اْٰ قفِلَةِ اَن اَلحَْقَ هٰا فَ اٰوفَيتُْ النَّهرَْ اٰونَ وَال اْٰ قفِلَةُ مُقی
) بِالسَّ لاٰمَةِ فَلَم اَلقَْ سُوءً وَالحَْمدُْ لِلہِّٰ ” ( ١ جَ مٰالیِ شَيئْاً حَتّ یٰ رَحَلَتِ ال اْٰ قفِلَةُ فَرَحَلتُْ وَقَد دَ عٰالی
کافی ميں بطور مسند ابو عبد الله صالح سے منقول ہے ان کا بيان ہے : ایک سال ميں
بغداد کی سمت نکلا اور حضرت صاحب الامر - سے سفر کی اجازت چاہی تو آپ نے مجهے
اجازت مرحمت نہيں فرمائی ميں وہاں اڻهائيس روز ڻہرا رہا اور قافلہ بهی نہروان (بغداد سے چار
فرسخ پر ایک مقام ہے) کی طرف کوچ کر گيا۔ حضرت صاحب الامر - نے چہار شنبہ کو سفر کی
اجازت دی۔ ميں نے سفر اختيار کيا اور ميں قافلہ سے ملحق ہونے ميں مایوس تها ليکن جب
نہروان پہنچا تو قافلہ رکا ہوا تها ميں نے اپنے اونڻوں کو جتنی دیر کهلایا پلایا قافلہ رکا رہا پهر
قافلے نے کوچ کيا تو ميں نے بهی کوچ کيا چونکہ حضرت نے ميری سلامتی کے ليے دعا
فرمائی تهی لہٰذا اس سفر ميں بحمد الله کوئی تکليف نہيں ہوئی۔
اٰقلَ کُنتُْ بِبَغ اْٰ ددَ فَتَهَيَّاٴَت اٰقفِلَةٌ : ۶٧٠ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَنْ عَلِیٍّ بْنِ الْحُسَيْنِ الٴَیمٰانی
لٰذِکَ فَخَرَجَ : اٰل تَخرُْج مَعَهُم فَلَيسَْ نَ فَاٴَرَدتُْ الخُْرُوجَ مَعَ هٰا ، فَکَتَبتُْ اَلٴَتمِس الاِْذنَْ فی لِليَْمانِتی
الخُْرُوجِ مَعَهُم خَيرَْةٌ فَاَقِم بِالکُْوفَةِ ، اٰقلَ: فَاَقَمتُْ وَخَرَجَتِ ال اْٰ قفِلَةُ فَخَرَجَت عَلَيهِْم حَنظَْلَةً لَکَ فی
رُکُوبِ فَاج اْٰتحَتهُْم وَکَتَبتُْ اَستَْاٴذِنُ فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ۵١٩ ، حدیث ١٠ ۔ ارشاد، ج ٢، ص ٣۵٧ ۔ بحار الانوار، ج ١١ ، ص ٢٩٧ ۔ (
البَْحرِْ فَ مٰا مِن هْٰا تِلکَْ السَّنَةِ فی خَرَجَت فی فَسَاٴَلتُْ عَنِ المَْ اٰرکِبِ الَّتی ، ال مْٰآءِ فَلَم یُوذَْن لی
مَرکَْبٌ ، خَرَجَ عَلَي هْٰا قَومٌْ مِنَ الهِْندِْ یُ اٰ قلُ لَهُم البَْ اٰورِحُ فَقَطَعُوا عَلَي هْٰا وَزُرتُْ العَْسکَْرَ فَاٴَتَيتُْ الذَربَْ مَعَ
مِنَ الزِّ اٰیرَةِ اِ اٰ ذ المَْسُجِدِ بَعدَْ فَ اٰرغی فی المْغِيبِْ وَلَم اُکَلِّم اَحَداً وَلَم اَتَعَرَّف اِل یٰ اَحَدٍ وَاٴَنَا اُصَلّی
اِلَی المَْنزِْلِ قُلتُْ وَمِنَ : قُمْ ، فَقُلْتُ لَہُ : اِذنَْ اِ لٰ ی اَینَْ ؟ فَ اٰ قلَ لی : فَ اٰ قلَ لی بِ خٰادِمٍ قَد جٰآءَ نی
فَ اٰ قلَ: لاٰ اٰ م اُرسِْلتُْ اِلاَّ اِلَيکَْ اٴَنتَْ عَلِیُّ بنُْ الحُْسَينِْ رَسُولُ جَعفَْرِ بنِْ ، اٴَنَا لَعَلَّکَ اُرسِْلتَْ اِ لٰ ی غَيرْی
بَيتِْ الحُْسَينِْ بنِْ اَحمَْدَ ثُمَّ سٰارةٌ ، فَلَم اَدرِْ اٰ م اٰقلَ لَہُ : فی حَتّ یٰ اَنزَْلَنی مَ ، فَمَرَّبی اِبْرٰاہی
الزّیاٰرِِةِ مِن اٰ دخِلٍ عَ اٰ م اَح اْٰتجُ اِلَيہِْ وَجَلَستُْ عِنُدَہُ ثَ ثٰ لاَةَ اَیاٰمٍّ وَاستَاٴَذنتُہُ فی جَمی حَتّیٰ اَتٰانی
) فَزُرتَْ لَيلْاً ” ( ١ فَاٴَذِنَ لی
علی ابن الحسين اليمانی نے بيان کيا کہ: ميں بغداد ميں تها ميں نے یمن والوں کے
قافلہ ميں جانے کا ارادہ کيا ميں نے صاحب الامر - کو لکه کر اجازت چاہی حضرت نے جواب دیا
کہ: ان کے ساته مت جاؤ اس ميں تمہارے ليے بهلائی نہيں تم کوفہ ميں ڻہرے رہو۔ ميں ڻهہر
گيا قافلہ روانہ ہوگيا معلوم ہوا کہ ان پر بنی حنظلہ کے ڈاکوؤں نے حملہ کيا اور ان کو ہلاک کردیا
پهر ميں نے دریائی راستے کی اجازت چاہی حضرت نے اجازت نہ دی۔ ميں نے ان کشتيوں کا
حال معلوم کيا جو اس سال روانہ ہوئی تهيں پتہ چلا کہ ان ميں سے ایک نہ بچی، ہندوستان
کی ایک قوم نے جو دریائی ڈاکو کہلاتے ہيں ان پر حملہ کيا اور لوٹ ليا۔
راوی کہتا ہے کہ: جب ميں وہاں سے عسکر (سامرہ) آیا اور مغرب کے وقت روضہٴ امام
علی نقی اور امام حسن عسکری عليہما السلام ميں گيا ميں نے نہ تو وہاں کسی سے بات
کی اور نہ کسی سے شناسائی پيد اکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ۵٢٠ ۔ حدیث ١٢ ، مدینة المعاجز، ج ٨، ص ٨٢ ۔ معجم احادیث الامام المہدی، (
ج ۴، ص ٢٨٢ ۔
ميں نے مسجد ميں نماز پڑهی، بعدِ ختمِ نماز زیارت بجا لایا۔ ناگاہ ایک خادم ميرے پاس آیا اور
کہا: اڻه ، ميں نے کہا: کہاں چلوں اس نے کہا: گهر چل، ميں نے کہا: تو جانتا ہے ميں کون ہوں؟
تو کسی اور کو بلانے کے ليے بهيجا گيا ہے اس نے کہا: تمہارے ہی ليے بهيجا گيا ہوں۔
تو علی ابن الحسين قاصد جعفر ابن ابراہيم ہے الغرض وہ مجهے لے کر چلا اور حسين
ابن احمد کے مکان ميں مجهے ڻهہرایا ميں نہيں سمجه سکا کہ اس سے کيا کہوں۔ تهوڑی دیر
بعد وہ آیا اور ان تمام مسائل کا جواب لایا جن کے جواب کی مجهے ضرورت تهی ميں نے اس
کے پاس تين دن قيام کيا ميں نے روضہ کے اندر جاکر زیارت کرنے کی اجازت چاہی، حضرت نے
اجازت دی چنانچہ ميں نے رات کو زیارت کی۔
مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم صاحب الزمان عج الله فرجہ جو حجّت الٰہی ہيں
روئے زمين پر تمام مخلوقات کے ليے ملجا و ماویٰ ہيں ان کی شفقت و محبت اور مہربانياں
صرف شيعوں، مخلص اور خاص محبين کے ليے مخصوص نہيں ہےں بلکہ تمام مخلوقات یہاں تک
کہ تمام کائنات ان کے مقدس وجود کے فيوض و برکات سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ اس سلسلے
ميں مستفيض روایات بلکہ متواتر روایات موجود ہيں۔
عَبدِْ حَمزَْةَ قَالَ : قُلتُْ لِاَبَی ۶٧١ ۔ “ومنها مارواہ الکلينی فی الکافی باسنادہ عَنْ اَبی
) اللہّٰ عليہ السلام اٴَبتَْقَی الاَْرضُْ بِغَيرِْ اِ اٰ ممٍ ؟ اٰقلَ : لَو بَقيَتِ الاَْرضُْ بِغَيرِْ اِ اٰ ممٍ لَ سٰاخَت ” ( ١
اسی سے کلينی عليہ الرحمہ نے کافی ميں ابو حمزہ سے بطور مسند یہ حدیث نقل
کی ہے ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے
باقی رہتی ہے؟ فرمایا: جب کبهی زمين امام کے وجود سے خالی ہوگی تو یقينا زمين اس کے
اہل کو اپنے اندر لے لے گی اور انہيں ہلاک کر دے گی اور اس کا نظم بهی خراب ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ، حدیث ١۔ (
جَعفَْرٍ عليہ السلام اٰقلَ: لَو اَنَّ الاِ اٰ ممَ رُفِعَ هُ اٰرسَةَ عَن اَبی ۶٧٢ ۔ “وَفيہ باسنادہ عن اَبی
) مِنَ الاَرضِْ سٰاعَةً لَ مٰاجَت بِاَهلِْ هٰا کَ مٰا یَمُوجُ البَْحرُْ بِاَهلِْہِ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند ابی ہراسہ سے منقول ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا:
اگر ایک ساعت کے ليے بهی امام روئے زمين پر نہ ہو تو زمين اپنے اہل کے ساته اس طرح
حرکت ميں آئے گی جس طرح کشتی والوں کے ليے دریا ميں تموج و تلاطم پيدا ہوتا ہے۔
الْحَسَنِ الرِّضٰا عليہ السلام قٰالَ : ۶٧٣ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَن مُحَمَّدِ بنَْ الفُْضَيلْ عَن اَبی
عَبْدِ اللّٰہ عليہ السلام اَنّهٰا عَن اَبی قُلْتُ لَہُ : اٴَبتَْقَی الاْٴَرضُْ بِغَيرِْ اِ اٰ ممٍ؟ اٰقلَ لاٰ، قُلتُْ فَاِناٰ نَروْی
لاتَبقْ یٰ بِغَيرِْ اِ اٰ ممٍ اِلاَّ اَن یَسخَْطَ اللہَّٰ تَعال یٰ عَ لٰی اَهلِْ الاٴَرضِْ اَو عَلَی العِْ اٰبدِ ، فَ اٰ قلَ: لا لاَ تَبقْ یٰ اِذاً
) لَ سٰاخَت ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند محمد ابن فضيل سے مروی ہے کہ ان کا بيان ہے :ميں نے
امام علی رضا - سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے باقی رہ سکتی ہے؟فرمایا: نہيں، ميں
نے عرض کيا: ہم امام جعفر صادق - سے روایت کرتے ہيں کہ زمين بغير امام کے باقی نہيں
رہے گی مگر جب خدا اہل زمين یا اپنے بندوں سے ناخوش ہو، فرمایا: نہيں اس وقت باقی نہيں
رہے گی وہ اضطراب ميں آجائے گی۔
ہاں شيعوں محبين اور دیدار کے مشتاق لوگوں پر ان بزرگوار کی ایک خاص نظر عنایت
ميں اس قدر اثر ہے کہ زمين ان کے وجود کی برکت سے باقی ہے ایسے افراد کے ليے جو شب
و روز ان کے انتظار اور تعجيل فرج کی دعا ميں نالہ و زاری کرتے ہيں۔
۶٧۴ ۔ حضرت امام زمانہ - روحی لہ الفداء سے شيخ مفيد عليہ الرحمہ جيسے جليل
القدر عالم کے ليے جو توقيع مبارک صادر ہوئی ہم اس ميں پڑهتے ہيں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ، حدیث ١٢ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ، حدیث ١١ ۔ (
اَرٰانٰا نَ ، حُبُ الَّذی نِ الظّٰالِمی عَن مَ سٰاکی نَ بِمَکٰانِنٰا النّٰائی ”ونَحْنُ وَاِنْ کُنّٰا ثٰاوی
نَ ، لٰذِکَ ، اٰ م اٰ دمَت دَولَْةُ الدُّن اْٰي لِل اْٰ فسِقی نُ فی عَتِ اٰن المُْوٴمِنی اللّٰہُ تَعالیٰ لَنٰا مِنَ الصَّلاٰحِ وَشی
طُ عِلمْاً بِاَب اْٰنئِکُم وَلا یَعزُْبُ عَناٰ شَیءٌْ مِن اَخ اْٰبرِکُم ، وَمَعرِْفَتِ اٰن بِالذُّلّ الَّذی اَ صٰابکم ،قَد جَنَحَ فَاِنّٰا یُحی
رٌ مِنْکُمْ اِلٰی مٰا کٰانَ السَّلَفُ الصّٰالحُ عَنْہُ شٰاسِعاً ، وَنُبَذُوا الْعَهْدَ الْمَاٴخُوذِ وَرٰاء ظُهُورِهِمْ کَاَنَّهُمْ کَثی
لا یَعلَْمُونَ
نَ لِذِکرِْکُم ، وَلَولْا لٰذِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللاواء نُ لِمُرٰاعٰاتِکُمْ وَلا نٰاسی اِناٰ غَيرُْ مُهمِْلی
وَاصطَلَمَکُمُ الاَْع آْٰ دءُ فَاتَّقُواللہَّٰ جَلَّ جَ لاٰلُہُ ، وَ ظٰاہِرُونا عَلَی اتي اٰن مِن فِتنَْةٍ قَد اَ اٰنفَت عَلَيکُْم ، یُهلَْکُ
هٰا مَن حَمَّ اَجَلُہُ وَیُح مْٰی عَن هْٰا مَن اَدرَْکَ اَمَلَہُ ، وَهِیَ اَ اٰ مرَةٌ لِاٴَ زُوفُ حَرَکَتِ اٰن وَمُ اٰبثَتِکُم بِاَمرِْ اٰن فی
) وَنَهيِْ اٰن وَاللہُّٰ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوکَْرِہَ المُْشرِْکُونَ ” ( ١
قولہ عليہ السلام : نحن وان کنا ثاوین بمکاننا الخ
ہم ظالموں کی آبادی سے دور اپنے مقام پر مقيم اور قيام پذیر ہيں اس ليے کہ الله تعالیٰ
کے پيش نظر اس ميں ہماری اور ہمارے شيعوں کی بهلائی ہے کہ جب تک حکومتِ دنيا
فاسقوں کے پاس ہے ہم اُن کی قلمرو (دسترس) سے دور رہيں، مگر اس کے باوجود تم لوگوں
کے حالات کا علم ہميں ہوتا رہتا ہے اور تم لوگوں کی کوئی بات ہم سے چهپی نہيں رہتی ہے
ہميں تم لوگوں کی لغزشوں کا علم اُس وقت سے ہے جب سے تم ميں سے اکثر اس طرف
مائل ہوگئے جس سے اسلافِ صالحين ہميشہ دور رہے اور جو اُن سے عہد ليا گيا تها اُنہوں نے
اُس کو چهوڑ دیا اور ایسا پسِ پشت ڈال دیا جيسے ان کو اُس عہد کی خبر ہی نہيں۔
پهر بهی ہم نے تم لوگوں کو بهلایا نہيں ہے، تمہاری رعایت نہيں چهوڑی ہے اور اگر ایسا
نہ کرتے تو دشمن تمہيں ختم ہی کردیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ٢، ص ٣٢٣ ۔ بحار الانوار، ج ۵٣ ، ص ١٧۵ ۔ (
لہٰذا تم لوگ الله سے ڈرو اور ان فتنوں ميں پڑنے سے بچو جو تم پر چها جانے والا ہے اور
جس ميں وہ شخص جس کی اجل آگئی ہے وہ مرجائے گا، جو اپنی مراد کو پہنچنے والا ہے وہ
بچ جائے گا۔ اور وہی ہمارے اقدام کی ابتداء کی نشانی ہوگی اور ہمارے امر و نہی کا اجراکرنے
والا ہوگا، الله اپنے نور کو پایہٴ تکميل تک پہنچا کر رہے گا چاہے مشرکوں کو ناگوار ہی گزرے۔
مولف کہتے ہيں: موجودہ کتاب کے عناوین ميں سے ایک عنوان یہ ہے : قرآن اور امام
زمانہ - کا موازنہ جس کلی بحث کا عنوان یہ ( القرآن ناصح لا یغش وکذلک الحجة القائم عليہ
السلام ناصح ولا یغش ) ہے۔
طائف کے پہاڑوں پر ابراہيم ابن مہزیار کی امام زمانہ - سے ملاقات کے واقعے کے
متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ امام زمانہ - کی ابراہيم ابن مہزیار پر شفقت و محبت اور مہربانی
و نصيحت کا واضح ترین مصداق اور نمونہ ہے۔
ابراہيم ابن مہزیار ابتدا ميں امام کے خدو خال اور اپنے معشوق حقيقی کے مبارک چہرے
کے حسن و جمال کی توصيف کے بعد کہتے ہيں-:
۶٧۵ ۔ حضرت امام زمانہ - روحی لہ الفداء نے فرمایا: “اِ اٰ ذبَدَتَ لَکَ اَ اٰ م اٰرتُ الظُّهُور وَالَتمَکَّنُ
) بِاِخ اْٰونِکَ عَناٰ ” ( ١ فَلاٰ تُبْطی
یعنی:جب علاماتِ ظہور نمایاں ہوں تو اس وقت پہنچنے ميں ہرگز تاخير اور سستی نہ
کرنا فوراً پہنچنا۔
ابراہيم ابن مہزیار کا بيان ہے کہ: پهر کچه دنوں ميں نے وہاں قيام کيا اور کسب فيض کرتا
رہا اور ميں نے مختلف احکام و لطائف اور دوسرے موضوعات حاصل کيے اور اسے دوسرے
برادران مومن کے ليے بيان کرتا تها ان بزرگوار کے پاس ميرا قيام طولانی ہوگيا پهر ميں نے اہواز
کی طرف واپسی کا قصد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۵١ ۔ مدینة المعاجز ، ج ٨، ص ١٩٩ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٣۶ ۔ معجم (
احادیث الامام المہدی -، ج ۴، ص ۴۴٩ ۔
کيا چونکہ مجهے اس بات کا خوف تها کہ کہيں وہ چيزیں جو ميں وہاں چهوڑ آیا ہوں ضایع ہوجائے۔
لہٰذا حضرت سے اہواز واپسی کے ليے اجازت طلب کی ميری جدائی سے عظيم وحشت کے
باوجود حضرت روحی لہ الفداء نے اجازت مرحمت فرمائی۔
جب ميری واپسی کا وقت نزدیک ہوا تو ميں خود کو آمادہ کرکے صبح کے وقت خدا
حافظی اور تجدید عہد کے ليے حضرت کے پاس شرف یاب ہوا تو ميرے پاس جو پچاس ہزار درہم
مختصر طور پر تهے ميں نے حضرت کے سامنے پيش کيے اور عاجزانہ طور پر گزارش کی کہ
اسے شرفِ قبوليت بخشيں حضرت روحی و ارواح العالمين لتراب مقدمہ الفداء نے مسکراتے
ہوئے فرمایا: “یا ابا اسحاق! “ اٰی اَ اٰب اِسحَْاق اِستَْعِن عَل یٰ مُنصَْرَفِکَ” یعنی: اے ابو اسحاق! تم
اسے اپنے سفر ميں خرچ کرنے کے ليے رکه لو تمہيں طویل سفر طے کرنا ہے (ایران کے شہر
اہواز جو شہر مہزیاری کے نام سے مشہور ومعروف ہے حجاز ميں طائف کے پہاڑوں سے وہاں
تک کافی طولانی مسافت ہے کہ جسے امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف نے (بِالشقةِ
القاذفَةِ) (طولانی مسافت) سے تعبير فرمایا۔
بعد ميں حضرت نے اس خيال سے کہ ابن مہزیار ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے
رنجيدہ خاطر نہ ہوں فرمایا: تم ميرے ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے غمگين نہ ہو ہم نے اس کا
شکر و سپاس انجام دیا اور اسے عام کيا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت کی تمام مہربانی اور لطف و کرم صرف ابن مہزیار سے
مخصوص نہيں ہے بلکہ ہزاروں لاکهوں مہزیار جيسے مومنين کو خود حضرت اور ان کے اجداد
طاہرین - کی عنایات شامل حال قرار دیتی ہيں۔
۶٧۶ ۔ جامعہٴ کبيرہ کے فقرات ميں ہم پڑهتے ہيں : “وَ عٰادَتُکُم الاِْح سْٰانُ وَسَجيَّتُکُمُ الکَْرَمُ
وَشَاٴْنُکُمُ الْحَقُّ ” ( ١) الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ١٠٠ ۔ مزار ابن مشہدی، ص ۵٢٣ ۔ بحار الانوار، ج ٩٩ ، ص ١٣٢ ۔ (
اور آپ کی عادت احسان، آپ کی طبيعت کرم اور آپ کی شان حق و صداقت ہے۔
حقيقت ميں قرآن ان تمام لطف و مہربانی کے باوجود جو ابن مہزیار کے حق ميں حضرت
کی طرف سے عنایت ہوئی اگر وہ نہ ہوتی اور صرف حضرت کی ایک مسکراہٹ تو اگر انسان
تمام دنيا و ما فيہا کو اس پر فدا کرے تو اس کا حق ادا نہيں ہوگا شکرو امتنان کی بات ہی جدا
گانہ ہے ۔ کليبری مرحوم نے اپنے اشعار ميں کيا خوب نظم کيا ہے :
وَاَنتَْ کَجِرمِْ الشَمسِْ تَحتَْ الغَْ مٰامَةِ تَفَضَّل بِلَخظِْ العَْينِْ عَينَْ الحِْ مٰایَةِ
تم آفتاب کے ہالے کی طرح سائے کے نيچے ہو اور ان کی نظر کرم کے سائے اور ان
کی حمایت کے ماتحت آجاؤ۔
|
|