قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٣٢ ۔ بدبخت مخالفين
٣٢ ۔ اٰ معَدَلَ اَحَدٌ عَنِ القُْرآن اِلاَّ اِلَی الناٰرِّ
کذلک الحجة المنتظر القائم وآبائہ الکرام - صلوات اللّٰہ علييم اجمعين -
کسی شخص نے قرآن مجيد سے عدول و اعراض کيا مگر یہ کہ وہ راہیِ آتشِ جہنم ہوا۔ اسی طرح حضرت حجّت منتظر قائم آل محمد او ر ان کے آباء کرام اجمعين سے روگردانی نہيں کی مگر یہ کہ وہ اہل جہنم ميں سے ہوگيا۔
) الله تعالیٰ کے قول کی بنياد پر : <> ( ١
اور کفار آپس ميں کہتے ہيں کہ اس قرآن کو ہرگز مت سنا کرو اور اس کی تلاوت کے وقت ہنگامہ کرو شاید اس طرح ان پر غالب آجاؤ۔ تو اب ہم ان کفر کرنے والوں کو شدید عذاب کا مزہ چکهائيں گے اور انہيں ان کے اعمال کی بدترین سزا دیں گے۔
یہ دشمنان خدا کی صحيح سزا جہنم ہے جس ميں ان کا ہميشگی کا گهر ہے جو اس بات کی سزا ہے کہ یہ آیات الٰہيہ کا انکار کيا کرتے تهے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ سجدہ، آیت ٢۶ ۔ ٢٨ ۔ (
اَلَّلغوُْا مِنَ الاَمرِْ اٰ م لاٰ اَصلَْ لَہُ وَمِنَ الکَْ لاٰمِ اٰ م لاٰ مَعنْ یٰ لَہ افعال و اعمال ميں لغو کام یہ ہے کہ اس کی کوئی اصل و اساس نہ ہو جو من گهڑت ہو اور کلام ميں لغو اسے کہتے ہيں جس کا معنی نہ ہو مہمل ہو۔
یہ بے ہودہ گوئی اور مقدمہ چينی ان کے نہایت عاجزی کی دليل ہے جو قرآن کے مثل یا اس کے برابر کوئی دوسرا قرآن پيش کریں یا ایسی حجّت قائم کریں جو قرآن مجيد کے معارض و متضاد ہو لے آئيں۔ لہٰذا چارہٴ کار اس ميں پایا کہ ایک دوسرے سے کہيں کہ جب پيغمبر اکرم (ص) قرآن مجيد کی تلاوت فرمائيں تو سماعت نہ کرو اور اشعار اور بے ہودہ باتوں سے اس عظيم ہستی کے سامنے فریاد و ہنگامہ آرائی کرو تاکہ پيغمبر (ص) کی دل نشين آواز لوگوں کے گوش گزار نہ ہو شاید اس طرح تم ان کی تلاوت پر غالب آجاؤ۔
خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: مجهے اپنی عزت کی قسم! ہم انہيں ان کے کفر اختيار کرنے کا شدید عذاب ، دردناک طور پر چکهائيں گے ان لوگوں نے کہا: اس قرآن کو نہ سنو تو، ہم یقينا انہيں کيفر کردار تک پہنچائيں گے جو وہ بدترین کردار انجام دیا کرتے تهے۔ یہ دشمنان خدا کی صحيح سزا دائمی جہنم ہے جس ميں ان کی ہميشگی کا گهر ہے ) اور آتش جہنم انہيں مدام اپنے احاطے ميں رکهے گی۔ ( ١
الله تعالیٰ کا یہ قول: < وَإِذَا قَرَاٴتَْ القُْرآْنَ جَعَلنَْا بَينَْکَ وَبَينَْ الَّذِینَ لاَیُؤمِْنُونَ بِالآْخِرَةِ حِجَابًا مَستُْورًا # وَجَعَلنَْا عَلَی قُلُوبِہِم اٴَکِنَّةً اٴَن یَفقَْہُوہُ وَفِی آذَانِہِم وَقرًْا وَإِذَا ذَکَرتَْ رَبَّکَ فِی القُْرآْنِ وَحدَْہُ ) وَلَّواْ عَلَی اٴَدبَْارِہِم نُفُورًا > ( ٢
اور جب تم قرآن پڑهتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکهنے والوں کے درميان حجاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الميزان، ج ١٧ ، ص ٣٨٨ سے اقتباس۔ (
۴۶ ۔ ، ٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ۴۵ (
قائم کردیتے ہيں اور ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہيں کہ کچه سمجه نہ سکيں اور ان کے کانوں کو بہرہ بنا دیتے ہيں اور جب تم قرآن ميں اپنے پروردگار کا تنہا ذکر کرتے ہو تو یہ الڻے پاؤں متنفر ہوکر بهاگ جاتے ہيں۔
قولہ تعالیٰ: <وَإِذَا قَرَاٴتَْ القُْرآْنَ جَعَلنَْا بَينَْکَ وَبَينَْ الَّذِینَ لاَیُؤمِْنُونَ بِالآْخِرَةِ حِجَابًا مَستُْورًا > )١)
مذکورہ بالا آیت سے مراد یہ ہے کہ حواس ظاہری پر پردہ پڑ گيا ہے برخلاف رائج پردوں کے جو لوگوں کے درميان معمولی ہے یعنی ایک شے کا دوسری شے سے ڈهانپ لينا یعنی یہ حجاب، معنوی حجاب ہے مشرکين اور آنحضرت (ص) کے درميان چوں کہ پيغمبر اکرم (ص) جو قاری قرآن اور اس کے حامل ہيں اور مشرکين بهی آخرت پر ایمان نہيں رکهتے وہ معنوی حجاب اس بات سے مانع ہوتا ہے کہ وہ اسے سن سکيں اور معارف وحقيقت قرآن تو آنحضرت (ص) کے پاس ہے لہٰذا انہيں ان پر ایمان لانا چاہيے۔
یا یہ کہ یہ عقيدہ رکهيں کہ وہ الله کی جانب سے بهيجے گئے ہيں اور رسول برحق بن کر آئے ہيں لہٰذا آنحضرت (ص) سے رو گرداں ہوتے ہيں جب وہ خدا کو وحدہ’ لاشریک کے عنوان سے یاد کرتے ہيں اور اس وقت قيامت کے دن کو بطور مبالغہ پيش کرکے اس عظيم ہستی کو سحر سے تعبير کرتے ہيں۔
خلاصہٴ کلام اس کا معنی یہ ہے کہ جب قرآن کی ان کے ليے تلاوت کرتے ہو تو تمہارے اور مشرکين کے درميان جو آخرت پر ایمان نہيں رکهتے حجاب معنوی حائل ہوجاتا ہے نہ کہ حجاب ظاہری و حسی قرار دیتا ہوں جو ان کے سمجهنے سے مانع ہو لہٰذا اس وقت خدا کو یکتا نہيں توصيف کرسکتے یا یہ کہ آپ کی رسالت حقہ کو پہچانيں اور نہ ہی قيامت پر ایمان لائيں اور اس کی حقيقت کو سمجهيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ۴۵ ۔ (
۶۴٢ ۔ “ وفی الدر المنثور اخرج ابو یعلی وابن ابی حاتم وابن مردویہ وابونعيم والبيہقی لَهَبٍ> اَقبَْلَت اِلعَْو اْٰر اُمَّ بَکرٍْ اٰقلَت لَماٰ نَزَلَتْتَبَّت یَ اٰ د اَبی معافی الدلائل عَن اَس مْٰاء بِنتِْ اِبی نٰا اٰن وَاَمرُْہ عَصی نُہُ قَلی نٰا وَدی یَدِهٰا فَهْرٌ وَهُیِّ تَقُولُ : مُذمِْمًا اَبی ل وَلَ هٰا وَلوَْلَةٌ وَفی جَمی وَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) جٰالِسٌ وَاَبُوبَکرُْ اِل یٰ جَنبَْةِ ، فَ اٰ قلَ اَبُو بَکرُْ : لَقَد اَقبَْلَت هٰذِہِ وَاَنَا اَ خٰافُ اَن تَ اٰرکَ وَقَرَاٴَ قُرآناً اِعتَْصَمَ بِہِ کَ مٰا اٰقلَ تَعال یٰ <وَإِذَا قَرَاٴتَْ القُْرآْنَ جَعَلنَْا بَينَْکَ وَبَينَْ الَّذِینَ فَقٰالَ اِنَّهٰا لَنْ تَرٰانی بَکرِْ فَلَم تَرَاالنَّبِیَّ (ص) فَقٰالَتْ یٰا لاَیُؤمِْنُونَ بِالآْخِرَةِ حِجَابًا مَستُْورًا >فَجٰائَتْ حَتّیٰ قٰامَتْ عَلٰی اَبی فَ اٰ قلَ اَبُو بَکرُْ وَ لاٰ وَرَبِّ هٰذَا البَْيتِْ اٰ م هَ جٰاکَ فَانصَْرَفَت وَهِیَ تَقُولُ اَنَّ صٰاحِبَکَ هَ جٰاتی اَ اٰبَکرْ بَلَغَنی ) قد علمت قُرَیْشُ اَنّی بِنْتُ سَيِّدِهٰا ” ( ١
سيوطی نے اپنی تفسير (الدر المنثور) ميں اسماء بنت ابوبکر سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: جب سورئہ تبت یدا ابی لہب و تب (ابو لہب کے ہاته ڻوٹ جائيں اور وہ ہلاک ہوجائے) نازل ہوئی، ام جميل فریاد کرتی ہوئی اس حالت ميں آئی کہ اس کے ہاته ميں پتهر تها اور ان اشعار کو پڑه رہی تهی حضرت رسول اکرم (ص) تشریف فرما تهے اور ابوبکر بهی ان کی خدمت ميں موجود تهے ابوبکر نے کہا: ام جميل چلی آ رہی ہے مجهے خوف لاحق ہے کہ وہ آپ کا دیدار کرلے، آں حضرت (ص) نے فرمایا: وہ مجهے نہيں دیکهے گی آنحضرت یہ کہہ کر تلاوت قرآن ميں مشغول ہوگئے اور اس سے متمسک ہوگئے جيسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: “اور جب تم قرآن پڑهتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکهنے والوں کے درميان حجاب قائم کر د یتے ہيں” لہٰذا ام جميل آئی اور ابوبکر کے پاس کهڑی ہوگئی اور نبی اکرم (ص) کو نہيں دیکها اور ابوبکر سے کہا: ميں نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب ميری ہجو اورمذمت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدر المنثور، ج ۴، ص ١٨۶ ۔ تفسير ابن کثير، ج ۴، ص ۶٠۴ ۔ تفسير قرطبی، ج ١٠ ، ص ٢۶٩ ۔ ( تفسير نور الثقلين، ج ۵، ص ۶٩٨ ۔ تفسير مجمع البيان، ج ١٠ ، ص ۴٧٧ ، مستدرک حاکم، ج ٢، ص ٣۶١ ۔ بحار الانوار، ج ١٨ ، ص ١٧۶ ۔
کر رہے تهے؟ ابوبکر نے جواب دیا: قسم ہے اس صاحب خانہ کی! انہوںنے تمہاری ہجو اور مذمت نہيں کی ہے پهر ام جميل واپس گئی اور کہا: قریش کو بہتر معلوم ہے کہ ميں سيد قریش کی بيڻی ہوں۔
۶۴۴ ۔ تفسير منہج ميںيوں نقل کيا گيا ہے کہ سورئہ “تبت” نازل ہونے کے بعد ام جميل نے ایک پتهر اڻهایا اور پيغمبر اکرم (ص) کی تلاش ميں باہر آئی اور چاہا کہ آنحضرت (ص) کو اس پتهر سے مارے لوگوں نے بتایا کہ آنحضرت (ص) ابوبکر کے گهر تشریف فرما ہيں، چنانچہ حضرت رسول خدا (ص) وہاں بيڻهے قرآن پڑهنے ميں مشغول تهے، ام جميل نے ابوبکر سے کہا: تمہارا صاحب کہاں ہے جس نے ميری ہجو اور مذمت کی ہے تاکہ اس سے ميں انتقام لوں، ابوبکر نے جواب دیا: وہ شاعر نہيں جو کسی کی ہجو کے ليے لب کشائی کریں کہا: پهر “فی جيدها حبل من مسد” (اس کی گردن ميں بڻی ہوئی رسی بندهی ہوئی ہے) کيا ہے؟ اسے کيا معلوم کہ ميری گردن ميں کيا ہوگا؟
پيغمبر اکرم (ص) نے ابوبکر سے فرمایا کہ: اس سے دریافت کرو کہ تم اپنے علاوہ کسی اور کو اس گهر ميں دیکه رہی ہو؟ ابوبکر نے کہا: اے ام جميل! اس گهر ميں تم اپنے،ميرے علاوہ کسی اور کو دیکه رہی ہو؟ کہا: ميرا مسخرہ کر رہے ہو رب کعبہ کی قسم! سوائے فرزند ابو قحافہ کے کسی کو نہيں دیکه رہی ہوں۔
اور یہ اس جہت سے تها کہ الله تعالیٰ نے حضرت رسول خدا (ص) کو اس کی نظروں سے پوشيدہ کر رکها تها کيوں کہ آنحضرت (ص) کو نہيں دیکها واپس آئی اور یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے تمہيں قرآن کی تلاوت کے وقت کافروں کی نظروں سے پوشيدہ رکها۔ ) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلَقَد صَرَّفنَْا فِی ہَذَا القُْرآْنِ لِيَذَّکَّرُوا وَمَا یَزِیدُہُم إِلاَّ نُفُورًا> ( ١ اور ہم نے اس قرآن ميں سب کچه اس طرح سے (بارہا) بيان کردیا ہے کہ یہ لوگ عبرت حاصل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ۴١ ۔ (
کریں ليکن (حق تک پہنچنے کے ليے ان کی نفرت ميں اضافہ ہورہا ہے۔ راغب المفردات ميں رقم طراز ہيں: “ الصرف ردّ الشی من حالة الی حالة او ابدالہ بغيرہ ”۔
”الصرف” کے معنی ہيں کسی شے کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پهير دینا یا کسی اور چيز سے بدل دینا ۔ “ التصریف کالصرف الا فی التکثير ” : تصریف صرف کی طرح ہے انتہا کے معنی ميں ہے اور تصریف تکثير کے مورد ميں استعمال ہوتا ہے۔ “واکثر مایقال فی صرف ) الشی من حالة الی حالة ومن امر الی امر” ( ١
بہت سے مقامات پر ایک شے کو ایک حالت سے دوسری حالت تک پلڻانے کے ليے اور ایک امر کو دوسرے امر ميں بدلنے کے لےے استعمال ہوتا ہے۔
و تصریف الریاح سے مراد یہ ہے کہ ہواؤں کو مختلف حالات ميں بدلنا الله تعالیٰ نے فرمایا:<وَصَرّفنا الآیات صَرَّفنَْا فِيہِ مِن الوَْعِيدِ > ( ٢) اسی بات سے تصریف الکلام اور تصریف الدراہم بهی ہے۔ جس سے مراد وہی معنی (بدلنا) ہے۔
مزید راغب اصفہانی کہتے ہيں: “وَ اٰقلَ ایضاً :“ النفر : الانزعاج من شی الی الشی، کالفزع الی الشیء یقال نفر عن الشی نفورا قال تعالیٰ <وما زادهم الا نفورًا و ما یزیدهم الا ) نفورًا>” ( ٣
النفر (عن) کے معنی کسی چيز سے روگردانی کرنے اور “الی” کے ساته کسی کی طرف دوڑنے کے ہيں جيسا کہ فزع کا لفظ الی اور عن دونوں کے ساته استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشی نفور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مفردات راغب، ص ٢٧٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ طہ، آیت ١١٣ ۔ (
٣(۔ مفردات راغب، ص ۵٠١ ۔ (
ایسی چيز سے دور بهاگنا یا الله تعالیٰ کا یہ قول (تو ان سے ان کی نفرت ہی بڑهی( انزعاج، قلق اور اضطراب، ایک جگہ سے دوسری کسی جگہ مستقر ہونا ، معصيت کی طرف بهيجنا
) فقولہ: <وَلَقَد صَرَّفنَْا فِی ہَذَا القُْرآْنِ لِيَذَّکَّرُوا > ( ١ یعنی مجهے اپنی عزت کی قسم! ميں نے خدا شناسی ، یکتا پرستی اور نفی شرک کو مختلف وجوہات اور متعدد بيانات کے ذریعہ تمہيں بنایا اور نصيحت کی تاکہ نصيحت حاصل کرو اور ان پر حق روشن و واضح ہوجائے۔ ان پر کسی کا کوئی اثر نہيں ہوا مگر یہ کہ ہر صورت ميں ہر بيان کے موقع پر ایک نئی نفرت پيدا کردی۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَإِذَا قِيلَ لَہُم اسجُْدُوا لِلرَّحمَْانِ قَالُوا وَمَا الرَّحمَْانُ اٴَنَسجُْدُ لِمَا تَاٴمُْرُنَا ) وَزَادَہُم نُفُورًا > ( ٢
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہيں کہ یہ رحمن کيا ہے کيا ہم اسے سجدہ کرليں جس کے بارے ميں تم حکم دے رہے ہو اور اس طرح ان کی نفرت ميں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔
پيغمبر اکرم (ص) ہميشہ کفار و مشرکين کو حق و حقيقت کی طرف اور خدا پرستی کی دعوت دیتے رہے اور وہ لوگ آنحضرت (ص) کی دعوت کے مقابل ميں مختلف قسم کے منفی جوابات دیتے تهے اور آنحضرت ان سے روبرو ہوتے تهے۔ اس آیہٴ کریمہ ميں ان کے اکڑ پنے کو دوسرے انداز سے بيان کيا ہے اور ان کی آنحضرت (ص) کی دعوت قبول کرنے سے نفرت کو خدائے رحمن کی بہ نسبت سجدہ کرنے سے نشان دہی کی گئی ہے۔
) قولہ تعالیٰ: <و اذا قيل لهم اسجدوا> ( ٣ چوں کہ ان سے کہا گيا تها کہ رحمن کا سجدہ کرو کہتے ہيں: وہ پيغمبر اکرم (ص) ہيں اور ضمير لهم کفار کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ۴١ ۔ (
٢(۔ سورئہ فرقان، آیت ۶٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ فرقان، آیت ۶٠ ۔ (
طرف پلڻتی ہے <اٴنسجد لما تاٴمرنا> کے قرینے سے دریافت کيا: رحمن کيا ہے؟ خود کے ليے تجاہلِ عارفانہ سے کام کيا کہ ہم رحمن کی ماہيت و حقيقت سے واقف نہيں ہيں اور یہ سوال کرنا خدا کے مقابل ميں سوائے اکڑ پن کے کوئی دوسری شے نہيں ہے ورنہ کہتے: رحمن کون ہے؟ ہمارے درميان کيا ہے اور کون ہے کا فرق واضح ہے۔
دوسرے انبياء کی دعوتوں ميں بهی اس جيسا بيان قرآن ميں ذکر ہوا ہے جيسے حضرت موسی - اور ہارون - جب فرعون کی دعوت الٰہی دینے کے ليے مامور ہوئے الله تعالیٰ کا یہ ) قول: <فَاٴتِْيَا فِرعَْونَْ فَقُولاَإِنَّا رَسُولُ رَبِّ العَْالَمِينَ > ( ١) <قَالَ فِرعَْونُْ وَمَا رَبُّ العَْالَمِينَ > ( ٢
فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں رب العالمين کے فرستادہ ہيں۔ فرعون نے کہا: اور رب العالمين کيا ہے؟ یہ نہيں کہا : ومن ربّ العالمين یعنی: رب العالمين کون ہے؟ ان کے قول کی حکایت کرتے الله تعالیٰ کا یہ قول <اٴنسجد لما تاٴمرنا> ان کے اکڑ پن کے افراد کی نشان دہی کر رہا ہے لہٰذا پروردگار متعال کی بارگاہ سے نفرت اور دوری کے علاوہ ان ميں کوئی اور اثر نہيں ہوا۔
دوسری آیات بهی اس مقولہ ميں مختلف تعبيروں ميں ذکر ہوئی ہيں جيسے <وَفِی آذَانِہِم وَقرًْا>( ٣) اور ان کے کانوں ميں بہرا پن ہے۔ >جَعَلُوا اٴَصَابِعَہُم فِی آذَانِہِم وَاستَْغشَْواْ ثِيَابَہُم > ( ۴) یعنی اور جب انہيں دعوت دی کہ تو انہيں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگليوں کو کانوں ميں رکه ليا اور اپنے کپڑے اوڑه ليے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٣ (۔ سورئہ شعراء، آیت ١۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ شعراء، آیت ٢٣ ۔ (
٣(۔ سورئہ کہف، آیت ۵٧ ۔ (
۴(۔ سورئہ نوح، آیت ٧۔ (
دوسری آیات وغيرہ بہت زیادہ ہيں ہم نے سب کو اختصاراً ذکر نہيں کيا۔ بِسمِْ اللہِّٰ > ۶۴۵ ۔ “ وفی تفسير العياشی عن زرارة عَنْ اَحَدِهِما عليہما السلام قٰالَ فی قٰالَ اللّٰہُ : وَاِ اٰ ذ ذَکَرتَْ رَبَّکَ فی مِ> اٰقلَ هُوَ اَحَقُّ اٰ مجَهَرَ بِہِ وَهِیَ الآیَةُ الَّتی الرَّحْمٰنِ الرَّحی مِ وَلَّواْ عَ لٰی اٴَد اْٰبرِهِم نُفُورًا اٰ کنَ المُْشرِْکُونَ یَستَْمِعُونَ اِل یٰ الْقُرْآنِ وَحْدَہُ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی مِ > نَفَرُوا وَذَهَبُوا فَاِ اٰ ذ فَرَغَ مِنہُْ عٰادُوا قَراٴَتِہ النَّبی (ص) فَاِ اٰ ذ قَرَءَ < بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی ) وَتَستَمعُوا ” ( ١
تفسير عياشی ميں زرارہ امامين صادقين عليہما السلام ميں سے کسی ایک سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے “بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم” کے حق ميں فرمایا: وہ بلند آواز سے پڑهنے کا زیادہ سزاوار کلام ہے اور وہ یہ آیت ہے جس کے متعلق الله تعالیٰ نے فرمایا: جب اپنے پروردگار کا ذکر قرآن ميں تنہا کرتے ہو تو مشرکين روگرداں ہوجاتے ہيں اور متنفر ہوکر واپس ہوجاتے ہيں۔ ان لوگوں کا کام یہ تها کہ نبی اکرم (ص) کی قرائت سماعت کرتے تهے جب آنحضرت (ص) < مِ> کی تلاوت فرمایا کرتے تهے تو وہ اقرار کرتے تهے اور جب آنحضرت بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی (ص) قرآن کی تلاوت سے فارغ ہوجاتے تهے تو واپس آتے تهے اور سنتے تهے۔ جَعفَْرٍ مُحَمَّدَ بنَْ عَلِیٍّ عليہ ۶۴۶ ۔ “ وفی الدرالمنثور اخرج البخاری فی تاریخہ عَنْ اَبی مِ > فَنِعمَْ اللہِّٰ کَتَمُوا فَاِن رَسُولُ اللہِّٰ (ص) السلام اَنَّہُ قٰالَ: لَم کَتَمتُْم < بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی مِ > وَیَرفَْعُ صَوتَْہُ بِ هٰا اٰ کنَ اِ اٰ ذ دَخَلَ مَنزِْلَہُ اِجتَْمَعَت عَلَيہِْ قُرَیشُْ فَيَجهَْرُ <بِبِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی ) القُرآْنِ وَحدَْہُ وَلَّوا عَل یٰ اَد اْٰبرِهِم نُفُورًا>” ( ٢ فَتَوَلی قُرَیشُْ فِ اٰرراً فَاَنزَْلَ اللہُّٰ <و اذا ذکَرَت ربّکَ فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢٩۵ ۔ (
٢(۔ الدر المنثور، ج ۴، ص ١٨٧ ۔ (
در منثور ميں تاریخ بخاری سے منقول ہے کہ اس نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے مِ > کو مخفی کيا خدا کی کہ حضرت نے فرمایا: کيوں تم لوگوں نے < بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی قسم! بہت مبارک اسم کو مخفی کيا ہے چوں کہ رسول خدا جب اپنے گهر ميں داخل ہوتے تهے مِ > کو تو قریش ان کے اطراف ميں جمع ہوجاتے تهے اور آنحضرت < بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰن الرَّحی بلند آواز سے اور آشکارا طور پر پڑها کرتے تهے لہٰذا قریش روگردانی کرکے فرار کر جاتے تهے۔ تو الله تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا: <و اذا ذکَرت ربّک> الآیہ اور جب تم قرآن پڑهتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکهنے والوں کے درميان حجاب قائم کردیتے ہيں وہ روگردانی اور اظہار نفرت کرتے ہيں۔
اٰقلَ: حَدَّثتُْ اَنَّ اَ اٰبجَهلَْ وَاَ اٰب الدَّ ئٰ لاِلِ عَنِ الزُهرْی فی ۶۴٧ ۔ “ اَخرَْجَ اِبنُْ اِس حْٰاقٍ وَالبَْيہَْقی بِاللَّيلِْ ق خَرَجُوا لَيلَْةً یَستَْمِعُونَ مِن رَسوْلِ اللہِّٰ (ص) وَهُوَ یِصَلّی سُف اْٰينَ وَالاٴَخنَْسَ ابنَْ شَری ہِ وَکُلٌّ یٰ لاَعلِْمُ بِمَ اٰ کنِ صٰاحِبِہِ فَ اٰبتُوٓا یَستَْمِعُونَ بَيتِْہِ فَاٴَخَذَ کُلُّ رَجُلُ مِنهُْم مَجلِْساً یَستَمعُ فی فی قُ فَتَ لاٰوَمُوا فَ اٰ قلَ بَعضُْهُم لِبَعضٍْ : لاٰ تَعُودُوا فَلَورَْآ کُم لَہُ حَتّ یٰ اِ اٰ ذ طَلَعَ الفَْجرُْ تَفَرَّقُوا فَجَمَعَتهُْمُ الطَّری نَفسِْہِ شَي بَعضُْ سُفَ هٰائِکُم لَاَوقَْعتُْم فی
ثُمَّ انصَْرَفُوا حَتّ یٰ اِ اٰ ذ اٰ کنَتا الَّيلَْةُ عٰادَ کُلٌّ رَجُلٍ مِنهُْم اِ لٰ ی مَجلِْسِہِ فَ اٰبتُوا یَسمَْعُونَ لَہُ حَتّ یٰ قُ فَ اٰ قلَ بَعضُْهُم لِبَعضٍْ :مِثْلَ مٰا قٰالُوا اَوَّلُ مَرَةٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا طَلَعَ الفَْجرُْ تَفَرَّقُوا فَجَمَعَتهُْمُ الطَّری حَتّ یٰ اِ اٰ ذ اٰ کنَتِ الَّيلَْةِ ال اٰثلِثَةِ اَخَذَ کُلُّ رَجُلٍ مِنهُْم مجلِْسَہُ فَ اٰبتُوا یَستَْمِعُونَ لَہُ حَتّ یٰ اِ اٰ ذ طَلَعَ الفَْجرُْ قُ فَ اٰ قلَ بَعضَْهُم لِبَعضٍْ: نٰ لاَبرَْحُ حَتّ یٰ نَتَ اٰ عهَدُ لاٰ نَعُودُ فَتَ اٰ عهَدُوا عَل یٰ لٰذِکَ ثُمَّ تَفَرَّقَوا فَجَمَعَتهُْم الطَّری تَفَرَّقُو
اٰ م سَمِعتَْ عَن رَاٴیِکَ فی بَيتِْہِ فَ اٰ قلَ اَخبِْرنْی فَلَماٰ اَصبَْحَ الاٴَخنُْس اَت یٰ اَ اٰب سُف اْٰينَ فی مِن مُحَمّدٍ اٰقلَ: وَاللہِّٰ سَمِعتُْ اَش اْٰيءً اَعرِْفُ هٰا وَاَعرِْفُ اٰ م یُ اٰردُ بِ هٰا وَسَمِعتُْ اَش اْٰيءَ اٰ م عَرَفتُْ مَع اْٰنهٰا وَ لاٰ خَلَفتُْ بِہِ مٰایُرٰادُ بَهٰا اٰقلَ الاٴَخنُْس : وَاَنَا وَالَّذی اٰ م سَمِعتَْ مِن مُحَمَّدٍ ؟ اٰقلَ اٰ م اٰ ذ ثُمَّ خَرَجَ مِن عِندِْہِ حَتّ یٰ اٴَت یٰ اَ اٰبجَهلَْ فَ اٰ قلَ: اٰ م رَاٴیَکَ فی الشَّرَفِ اَطعَْمُوا فَاَطعَْم اْٰن وَحَمَلُوا فَحَمَل اْٰن وَاَعطَْوا فَاَعطَْي اْٰن سَمِعتُْ؟ تَ اٰنزَع اْٰن نَحنُْ وَبَنُو عَبدٍْ مَ اٰنفٍ فی ہِ الوَْحیَْ مِنَ السَّ مٰاء فَمَت یٰ حَتّ یٰ تَ جٰانَب اْٰن عَلَی الرَْکبِْ وَکُناٰ کَفَرَسَیِ الز هٰانِ اٰقلُوا مِناٰ نَبِیٌّ یَاتی ) تُدرَْکُ هٰذِہِ؟ لاٰ وَاللہِّٰ لاٰنُوٴمِنُ بِہِ اَبَداً وَ لاٰنُصَدِّقُہُ فَ اٰ قم عَنہُْ الاْٴَخنُْس وَتَرَکَہ” ( ١
ابن اسحاق اور بيہقی نے زہری سے دلائل ميں نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے: ابو جہل، ابوسفيان اور اخنس ابن شریق ایک شب حضرت رسول اکرم (ص) کے گهر آئے آنحضرت (ص) اپنے بيت الشرف ميں نماز ميں مشغول تهے اور یہ لوگ سن رہے تهے ان ميں سے ایک نے اپنی ایک جگہ کا انتخاب کيا اور اسی مقام سے سن رہے تهے اور ان ميں سے کسی ایک کو دوسرے کے مقام کی خبر نہ تهی پوری رات وہيں گزاری اور صبح طلوع فجر تک سنتے رہے پهر متفرق ہوگئے اور راستے ميں ایک دوسرے کا دیدار کيا پهر آپس ميں ایک جگہ جمع ہوکر ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہيں ، ان ميں سے بعض، بعض دوسرے سے کہہ رہے تهے: (کہيں پهر دوبارہ) واپس ہوجاؤ، اگر بعض احمق لوگ تمہيں دیکهيں گے تو یقينا ان کے دل ميں (شک و شبہ پيدا کرو گے۔) پهر اپنے کام ميں اگر مصروف ہوجاتے تهے پهر دوسری شب آتی تهی پهر ان ميں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ آتے تهے اور صبح تک قيام پذیر ہوکر سنتے تهے صبح کے بعد متفرق ہو کر راستے ميں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تهے بعض ، دوسرے بعض افراد سے اپنی گزشتہ باتوں کی تکرار کرتے تهے اور پهر اپنے کام ميں مشغول ہوجاتے تهے یہاں تک کہ تيسری شب آئی ان ميں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ بيڻه کر صبح طلوع فجر تک سنتے تهے، صبح کے بعد متفرق ہوکر راستے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير الميزان، ج ١٣ ، ص ١٢۴ ۔ (
ميں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تهے اور آپس ميں جمع ہوتے تهے ان ميں سے بعض نے کہا: یہاں سے حرکت نہيں کریں گے جب تک کہ ایک دوسرے سے عہد و پيمان نہ کرليں کہ اب واپس نہيں ہوں گے، اس باہمی عہد و پيمان کے بعد متفرق ہوکر سب چلے گئے۔
صبح کے وقت اخنس ابو سفيان کے گهر آیا اور کہا: تم نے جو کچه محمد (ص) سے سنا اس کے متعلق تمہاری کيا رائے ہے؟کہا: خدا کی قسم! ایسی چيزیں ميں نے سنيں جنہيں ميں جانتا تها اور جو کچه اس سے ان کا مقصد و ارادہ تها اسے بهی جانتا تها، اور دوسری چيزیں بهی ميں نے سنيں جن کے متعلق مجهے معلوم نہيں تها ان کے مقصد و ارادے سے آگاہ تها ۔ اخنس نے کہا: ميں بهی تمہاری ہی طرح ہوں۔
اس کے بعد ميں اس کے گهر سے باہر آیا اور ابو جہل کے پاس گيا اور کہا:تم نے جو کچه محمد (ص) سے سنا اس کے متعلق تمہاری کيا رائے ہے؟ کہا کون سی شے ميں نے سنی ہے؟ آخر ميں ہمارے اور اولاد عبد مناف کے درميان شرف ميں باہمی نزاع تک بات پہنچ گئی ان لوگوں نے کهانا کهایا ہم لوگوں نے بهی کهایا۔ ان لوگوں نے حملہ کيا ہم لوگوں نے بهی حملہ کيا ان لوگوں نے عطيے و تحفے دیے ہم نے بهی عطيے و تحفے دیے یہاں تک کہ اپنی سواری پر سوار ہو کر ایک دوسرے سے دور ہوکر جيسے مقابلے ميں دو گهوڑے چلتے ہيں چلنے لگے۔
اولاد عبد مناف نے کہا: ہمارے درميان ایک پيغمبر ہے کہ اس کے پاس آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے لہٰذا اس فضيلت کا کيسے تدارک اور تلافی ہوسکتی ہے۔ نہيں خدا کی قسم! ہم کبهی بهی اس پر ایمان نہيں لائيں گے اور نہ ہی اس کی ہم تصدیق کریں گے۔ اس کے بعد اخنس نے ان کے پاس سے اڻه کر انہيں ترک کردیا۔ مولف کہتے ہيں: انبياء ، اوصياء اور ائمہٴ ہدیٰ بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا وجود جو صاحب الامر و الزمان ہيں ان پر اعتقاد و ایمان رکهنا عظيم الٰہی نعمتوں ميں سے ہے اوردنيا و آخرت کی سعادت کا موجب ہے، اور ان سے اعراض و روگردانی اختيار کرنا شقاوت کا باعث اور عذاب الٰہی نيز آتش جہنم کا موجب ہے۔ (وہ نعمت کہ جس کا ذکر خدائے بزرگ و برتر نے قرآن ميں فرمایا ائمہ ہيں۔(
نَ عليہ السلام مٰا رُ المُوٴمِنی ۶۴٨ ۔ “وفی الکافی بِاِس اْٰندِہِ عَنِ الاَْصبَْغِ بنِْ ن اٰبتَة اٰقلَ امی اٰبلُ اَقوْ اٰ مٍ غَيّرُوا سُنَّةَ رَسُولِ اللہِّٰ (ص) وَعَدَلُوا عَن وَصِيِّہِ لاٰ یَتَخَوَّفُونَ اَن یُنَزِّلَ بِهِمُ العَْ اٰ ذبُ ، ثُمَّ تَ لاٰهٰذِہِ الآیَةُ <اٴَلَم تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعمَْةَ اللهِ کُفرًْا وَاٴَحَلُّوا قَومَْہُم دَارَ البَْوَارِ جَہَنَّمَ >( ١) ثُمَّ ) اٴَنعَْمَ اللہُّٰ بِ هٰا عَ لٰی عِ اٰبدِہِ وَبِ اٰن یَفُوزُ مَن اٰفزَ یَومِْ القِْ يٰمَةِ ” ( ٢ اٰقلَ: نَحْنُ النَّعْمَةِ الَّتی کافی ميں بطور مسند اصبغ ابن نباتہ سے منقول ہے کہ حضرت امير المومنين - نے فرمایا: اس قوم کا کيا حال ہوگا جنہوں نے رسول خدا (ص) کی سنت کو بدل دیا اور ان کے وصی سے روگردانی کی۔ وہ اس سے نہيں ڈرتے کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو پهر یہ آیت تلاوت فرمائی اٴَلَم تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعمَْةَ اللهِ کُفرًْا<
یعنی مگر کيا ان لوگوں کو نہيں دیکها جنہوں نے نعمتِ الٰہی کو کفران نعمت سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گهر جہنم ميں جا اتارا پهر فرمایا: ہم الله کی وہ نعمت ہيں جو اس نے لوگوں پر انعام کی ہے اور جو شخص قيامت کے دن کامياب ہوگا ہمارے ہی وسيلے سے ہوگا۔ یُوسُفَ الْبَزّٰازُ قٰالَ: تَ لاٰ اَبُو عَبدِْ اللہِّٰ عليہ السلام هٰذِہِ ۶۴٩ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَنْ اَبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ابراہيم آیت ٢٨ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٧ ، باب ، حدیث ١۔ تفسير صافی، ج ٣، ص ٨٨ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ٢، ص ( ۵۴٢ ۔
٣(۔ وضاحت یہ ہے کہ: نعمت کا تبدیل ہونا ناشکری کی بنا پر نہيں کہ بندہ شکر اور سپاس ( گزاری کے بجائے نعمت الٰہی کا انکار اور ناسپاسی کرے۔ لہٰذا خدا اس نعمت کو اس سے سلب کرليتا ہے اور ناشکری کی سزا باقی رہتی ہے۔
الْآیة <وَاذکُرُوا اٰلٓاءَ اللّٰہِ> ( ١) اٰقلَ : اٴَتَدرْیَ اٰ م لٓاٰاءَ اللہِّٰ ؟ قُلتُْ لاٰ اٰقلَ هِیَ اَعظَْمُ نِعمَ اللہّٰ عَل یٰ خَلقِْہِ ) وَهِیَ وِ یٰ لاَتِ اٰن ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند ابو یوسف بزاز سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے آیہٴ کریمہ <وَاذکُرُوا اٰلٓاءَ اللّٰہِ> (الله کی نعمتوں کو یاد کرو) کی تلاوت فرمائی پهر دریافت فرمایا: کہ تم جانتے ہو الله کی نعمت کيا ہے؟ ميں نے کہا: نہيں ، فرمایا وہ مخلوق پر نازل کی ہوئی تمام نعمتوں سے بڑی اور وہ ہماری ولایت ہے۔
رٍ اٰقلَ: سَاٴَلْتُ اَبٰا عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام ہِ باسنادہ عَن عَبدِْ الرَّح مْٰنِ بنِْ کَثی ۶۵٠ ۔ “ وَفی عَن قَولِْ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ <اَلَم تَرَاِلَی الَّذِینِْ بَدَّلُوا نِعمَْةَ اللہِّٰ کُفرًْا >( ٣) اٰقلَ : عَن یٰ بِ هٰا قُرَیشًْا اٰقطِبَةً ) نَ عٰادُوا رَسُولَ اللّٰہ (ص) وَنَصَبُوا لَہُ الحَْربَْ وَجَحدُوا وَصِيَّةَ وَصِيِّہِ ” ( ۴ اَلَّذی اسی کتاب ميں بطور مسند عبد الرحمن ابن کثير سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ : ميں نے امام جعفر صادق - سے خدائے عزوجل کے اس قول “مگر کيا ان لوگوں کو نہيں دیکها جنہوں نے نعمت الٰہی کو کفران نعمت سے بدل دیا” کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: اس سے مراد تمام قریش ہيں جنہوں نے رسول الله (ص) سے دشمنی رکهی ان سے جنگ کی اور ان کے وصی کے بارے ميں وصيت سے انکار کيا۔
نٍ عَن رَجُلٍ مِن قُرَیشٍْ مِن اَهلِْ ۶۵١ ۔ “وَفی الکافی باسنادہ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ مِسْکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ۶٩ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٧ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ٢٩ ۔ (
۴(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٧ ۔ (
اِذهَْب بِ اٰن اِ لٰ ی جَعفَْرِ بنِْ مُحَمَّدٍ عليہ السلام اٰقلَ فَذَهَبتُْ مَعَہُ اِلَيہِْ مَکَّةَ اٰقلَ: قٰالَ سُفيٰانُ الثَّوْری ثِ خُطبَْةِ رَسُولِ اللہِّٰ فَوَجَد اْٰنہُ قَد رَکِبَ اٰ دبَّتَةُ فَ اٰ قلَ لَہُ فَ اٰ قلَ لَہُ سُف اْٰينُ : یٰا اَبٰا عَبْدِ اللّٰہ حَدِّثْنٰا بِحَدی قَد رَکَبتُْ فَاِ اٰ ذ جِئتُْ فَاِنّی حٰاجَتی حَتّ یٰ اِذهَْب فی فِ اٰقلَ دَعنْی مَسجِْدِ الخْی (ص) فی اٰقلَ فَنَزَلَ فَ اٰ قلَ لَہُ سُف اْٰين : حَدَّثتُْکَ ، فقَٰالَ : اَساْٴَلُکَ بِقَ اٰربَتِکَ مِن رَسوْلِ اللہّٰ (ص) لَماٰ حَدَّثتَْنی
مَرلْی بِدِ اٰوةٍ وَقِر طْٰاسٍ حَتّ یٰ اُثبِْتَہُ فَدَ عٰا بِہِ ثُمَّ ق اٰ لَ اُکتُْب:ْ فِ: مَسجِْدِ الخْی مِ خُطبَْةُ رَسُولِ اللہِّٰ (ص) فی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحی فَوَ عٰا هٰا وَبَلَّغَ هٰا مَن لَم تَبلُْغہُْ اٰی اَیُّهَا الناٰسِّ لَيُبَلِّغُ الشاٰهِّدُ ” نَضَّرَ اللہُّٰ عَبدْاً سَمعَ مَ اٰ قلَتی ال اْٰ غئِبَ فَرُبَّ حٰامِلُ فِقہٍْ اِ لٰ ی مَن هُوَ اَفقَْہُ مِنہُْ ، ثَ لاٰثٌ لاٰیُغَلُّ عَلَيهِْنَّ قَلبُْ اَمرِْیٍ مُسلِْمٍ : اِخ لْاٰصُ عَمَلِ طَةٌ مَن وَ اٰرئَهُم،ْ نَ وَاللُّزُومُ لِجَ مٰاعَتِهِم فَاِنَّ دَعوَْتَهُم مُحی حَةُ لِاَئِمَّةِ المسُْلمِْی للہِّٰ وَالنَّصی نَ اِخوَْةٌ تَتَ اٰ کفَاٴُ دِ اٰ مئُهُم وَهُم یَدٌ عَلی مَن سِ اٰوئُهُم یَسعْ یٰ بِذِمَّتِهِم اَد اْٰنهُم ” فَکَتَبَہُ اَلمُْوٴمِنی بَعضِْ سُف اْٰينُ ثُمَّ عَرَضَہُ عَلَيہِْ وَرَکِبَ اَبُو عَبدِْ اللہِّٰ عليہ السلام وَجِئتُْ اٴَنَا وَسُف اْٰينُ فَلَمٰا کُنٰا فی ثِ فَقُلتُْ لَہُ قَد وَاللہِّٰ اَلزَْمَ اَبُو عَبدِْ اللہِّٰ هٰذَا الْحَدی کَ مٰا اَنتَْ حَتّ یٰ اَنظُْرُ فی : قِ اٰقلَ لی الطَّری عليہ السلام رَقَبَتَکَ شَياًْ لاٰ یَذهَْبُ مِن رَقَبَتِکَ اَبَداً فَ اٰ قل : وَاَیُّ شَیءٍْ لٰذِکَ ؟فَقُلتُْ لَہُ ثَ لاٰثٌ لاٰ یُغَلُّ نَ مَن حَةُ الِاَئِمَّةِ المُْسلِْمی عَلَيهِْنَّ قَلتْ اَمرِْءٍ مُسلِْمٍ : اِخ لْاٰصُ العَْمَلِ لِلہِّٰ قَد عَرَف اْٰنہُ وَالنَّصی دُ بنِْ مُ اٰ عوِیَةَ سُف اْٰينَ وَیَزی حَتُهُم ؟ مُ اٰ عوِیَةِ ابنِْ اَبی نَ وجبِ عَلَي اْٰن نَصی هٰوٴُلآءِ الْاَئِمَّةُ الَّذی وَمَر اْٰونَ بنِْ الحَْکَم وَکُلُّ مَن لاٰ تَجُوزُ شَ هٰادَتُہُ عِندَْ اٰن وَ لاٰ تَجُوزُ الصَّ لاٰةُ خَلفَْهُم ؟ وَقَولُْہُ : وَاللُّزُومُ لِجَ مٰاعَتِهِم فَاَیُّ ال جْٰمَاعَةُ ؟ مُرجِْیءُ یَقُولُ مَن لَم یُصَلِّ وَلَم یَصُم وَلَم نَغتَْسِل مِن جِ اٰنبَةٍ وَهَدَمَ الکَْعبَْةَ لُ ؟ اَو قَدَرِیُّ یَقُولُ: لٰا یَکُونُ مٰاشٰآء اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ کٰائی لَ وَمی اٰ منِ جَبرَْئی وَنَکَحَ اُمَّةُ فَهُوَ عَ لٰی ای طٰالِبٍ وَشَهِدَ عَلَيہِْ بِالْکُفرِْ ؟ اَو جَهمِْیٌّ سُ ؟ اَو حَرُورِیٌّ یَتَبَرَّاٴُ مِن عَلِیِ بنِْ اَبی وَیَکُونُ مٰا شٰآءَ اِبْلی مانُ شَیءٌْ غَيرَْ هٰا ؟ اٰقلَ وَحيَْکُ وَاَیُّ شَیءَْ یَقُولُونَ ؟ تَقُولُ اِنَّ مٰا هَیِ مَعرِْفَةُ اللہِّٰ وَحدَْہُ لَيسَْ الایْ حَتُةُ ، یَجِبُ عَلَي اْٰن نَصی طٰالِبٍ عليہ السلام وَاللّٰہِ الاِمٰامُ الَّذی فَقُلتُْ تَقُولُونَ اِنَّ عَلِیِ بنِْ اَبی ) وَلُزُومِ جَ مٰاعَتِهِم اَہلُْ بَيتِْہِ ، اٰقلَ فَاَخَذَ الکِْ اٰتبَ فَخَرَقَہ ثُمَّ اٰقلَ لاٰ تَخبِْر بِ هٰا اَحَداً” ( ١
صاحب کافی بطور مسند حکم ابن مسکين سے نقل کرتے ہيں کہ مکہ کے ایک قریشی شخص نے سفيان ثوری سے کہا: مجهے جعفر ابن محمد کے پاس لے چليے سفيان کہتا ہے: ميں حضرت کے پاس لے گيا۔ حضرت اس وقت گهوڑے پر سوار ہوچکے تهے۔ ميں نے عرض کيا: اے ابو عبدالله ! مجه سے وہ حدیث بيان کيجيے جو رسول الله (ص) نے اپنے خطبہ ميں مسجد خيف ميں بيان فرمائی تهی حضرت نے فرمایا: اب تو ميں ایک ضرورت کے ليے جارہا ہوں۔ جب واپس آؤں گا تو تم سے بيان کردوں گا۔ سفيان نے کہا: آپ کو قرابت رسول کا واسطہ آپ ابهی بيان فرما دیجيے۔ حضرت سواری سے اُتر پڑے۔ سفيان نے کہا: ہميں حکم دیں تاکہ کاغذ و دوات لے ليں اور لکه ليا جائے۔ جب یہ چيزیں آگئيں تو فرمایا: لکهو
بسم الله الرحمن الرحيم، مسجد خيف ميں رسول الله (ص) نے اپنے خطبہ ميں فرمایا: الله فرحت و مسرت عطا کرے گا اپنے اس بندہ کو جو ميری بات سنے، اسے یاد رکهے اور محفوظ رکهے اور ان لوگوں تک اسے پہنچا دے جن تک نہيں پہنچی، لوگو! جو تم ميں اس وقت موجود ہے وہ ان کو پہنچا دے جو موجود نہيں آگاہ ہو کہ بہت سے عالم دین ایسے ہيں جو حقيقةً عالم نہيں اور بہت سے علم والے ایسے ہيں جو اس شخص کی طرف رجوع کرتے ہيں جو اِن سے زیادہ عالم ہے تين باتيں ہيں جن سے مردِ مسلم کا دل بيگانگی اختيار نہيں کرتا۔
اول خدا کی عبادت ميں اخلاص عمل، دوسرے ائمہٴ مسلمين سے خلوص، تيسرے ان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ۴٠٣ ، حدیث ٢، باب امر النبی (ص)بالنصيحة لائمة المسلمين۔ (
جماعت ميں رہنا، اپنے اوپر لازم کرنا۔ کيونکہ اپنے مطيع رعایا کے ليے معاش مہيا کرنے کی اُن پر ذمہ داری ہے۔ مومنين آپس ميں ایک دوسرے کے بهائی بهائی ہيں ان کے خون برابر ہيں وہ مخالفوں کے مقابل مددگار اور ذمہ دار ہيں اپنے سے پست درجہ والوں یعنی فقراء کے متعلق کوشش کرنے والوں کے ليے ۔
سفيان نے لکه کر حضرت کو دکهلا بهی دیا۔ اس کے بعد حضرت سوار ہوکر تشریف لے گئے راوی کہتا ہے: ميں اور ابو سفيان جب راستہ ميں تهے تو اس نے مجه سے کہا: ذرا ڻهہرو تاکہ ہم اس حدیث پر غور کریں۔ ميں نے کہا: والله! حضرت ابو عبد الله - نے تيری گردن پر ایسا بوجه رکه دیا ہے جس کو تو کبهی نہيں اتار سکتا اس نے کہا: وہ کيا؟ ميں نے کہا:وہی تين باتيں۔ الله سے خلوص عمل، اسے تو خير ہم جانتے ہيں، دوسرے ائمہٴ مسلمين سے خلوص، بتا یہ کون ہيں جن سے خالص عقيدت و محبت رکهنا ہم پر واجب ہے کيا ان سے مراد معاویہ ابن ابی سفيان یزید ابن معاویہ اور مروان ابن حکم ہيں؟ ان کی گواہی ہمارے نزدیک جائز نہيں۔ (کيونکہ یہ عادل نہيں) نہ ان کے پيچهے نماز پڑهنا جائز ہے، تيسرے ان کی جماعت ميں شامل رہنا، تو یہ کون سی جماعت ہے کيا یہ مرجئہ فرقہ کے لوگ ہيں کہ جو یہ کہتے ہيں کہ جو نماز نہيں پڑهتا یا روزہ نہيں رکهتا اور غسل جنابت نہيں کرتا، اور کعبہ کو ڈهائے اور اپنی ماں سے نکاح کرے تو بهی وہ ایمان ميں جبرئيل و ميکائيل کے برابر ہوگا یا قدریہ جماعت والے مراد ہےں جو کہتے ہيں: جو الله چاہتا ہے وہ نہيں ہوتا اور جو شيطان چاہتا ہے وہ ہوتا ہے یا حروری جماعت ہے جو علی ابن ابی طالب - پر تبر ا کرتی ہے اور ان کے کفر کی گواہی دیتی ہے یا جہنمی جماعت سے ہے جو کہتی ہے کہ ایمان صرف الله کی معرفت کا نام ہے اس کے سوا اور کچه نہيں۔ اس نے کہا: یہ تم نے عجيب بات کہی۔ اور یہ بتاؤ شيعہ لوگ کيا کہتے ہيں؟ ميں نے کہا: وہ کہتے ہيں کہ علی ابن ابی طالب - ایسے امام ہيں جن سے خالص محبت رکهنا واجب ہے اور ان کی جماعت ميں جو اہل بيت ہيں شامل رہنا ضروری ہے یہ سن کر اس نے اس تحریر کو مجه سے لے ليا اور چاک کر ڈالا اور مجه سے کہنے لگا: اس کو کسی سے ذکر نہ کرنا۔ سفيان ثوری کا تشخّص
سفيان ثوری اہل سنت کے فرقہٴ صوفيہ کے رئيس مذہب کہلاتے ہيں کہ جن کا عقيدہ یہ تها کہ معاویہ، یزید، ہشام اورمنصور جيسے افراد مسلمانوں کے پيشوا اور رہبر ہيں اور ان کا وہم و گمان یہ تها کہ پيغمبر اکرم کی مسلمانوں کی خير خواہی ائمہٴ المسلمين کی تاکيد ان لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے۔ ليکن چونکہ حقيقت و واقعيت کو اس شخص سے سنا تو اس نے اپنی باطنی خباثت کا ردِّعمل پيغمبر اسلام کی حدیث کو پارہ پارہ کرنے کے ذریعہ ظاہر کيا نيز اپنی خيانت قلبی کو ان تين خصلتوں کو جسے پيغمبر اکرم (ص) نے بيان فرمایا تها دور رکهتے ہوئے لوگوں کے سامنے اظہار کيا۔ ليکن جماعت مسلمين کے متعلق علامہ مجلسی رضوان الله عليہ نے روایات نقل کی ہيں جو مندرجہ ذیل یوں ہيں:
۶۵٢ ۔ رسول خدا (ص) سے ان کی امت کی جماعت کے بارے ميں لوگوں نے دریافت کيا تو فرمایا: ميری امت کی جماعت اہل حق ہيں اگرچہ کم ہوں۔
۶۵٣ ۔ پيغمبر اکرم (ص) سے عرض کيا گيا کہ آپ کی امت ميں کون افراد ہيں؟ فرمایا: جو افراد راہِ حق پر ہوں اگرچہ دس لوگ ہی کيوں نہ ہوں۔
۶۵۴ ۔ ایک شخص نے حضرت امير المومنين امام علی - کی خدمت ميں عرض کيا: ميرے ليے آپ سنت، بدعت، جماعت اور فرقت کی وضاحت فرمائيں؟ فرمایا: سنت وہ ایسی روش ہے کہ جسے پيغمبر اکرم نے انجام دیا اور بدعت وہ شے ہے کہ آنحضرت کے بعد جو چيزیں معرض وجود ميں آئيں اور جماعت اہل حق ہيں اگرچہ وہ کم تر ہی کيوں نہ ہوں اور فرقت اہل باطل ہيں ) اگر وہ زیادہ ہی کيوں نہ ہوں۔ ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۴٠٣ ۔ خصال، ص ١۴٩ ۔ (
۶۵۵ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن برید بن معاویة عن ابی جعفر عليہ السلام قالَ قٰالَ حَةِ اَلاَّ اٰ کنَ رَسُولُ اللہُّٰ (ص) اٰ منَظَرَ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ اِل یٰ وَلِیٍّ لَہُ یَجهَْدُ نَفسَْہُ بِال طْٰاعَةِ الاِ اٰ ممِہِ وَالنَّصی ) قِ الاَعلْی ” ( ١ الرَّفی مَعَ اٰن فی
کافی ميں بطور مسند برید بن معاویہ سے انہوں نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا ہے: خدائے عزوجل اپنے ولی کی طرف کہ جس نے اپنی جان کو اپنے امام کی اطاعت اور خير خواہی کے ليے زحمت ميں ڈالا نظر نہيں کرے گامگر جب رفيق اعلیٰ کی صف ميں ان کے ہمراہ ہو۔ رفيق اعلیٰ ایک ایسا گروہ ہے جس ميں انبياء، صدیقين، شہداء، نيکو کار افراد بہشت بریں ميں ایک دوسرے کے نزدیکی ساتهی ہوں گے اور بہشت کے بالا ترین درجات کی منزلوں پرفائز ہوں گے۔
عَبْدِ اللّٰہ عليہ السلام قٰالَ: مَن اٰفرَقَ ۶۵۶ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَنْ مُحَمَّدٍ الحلبی عَنْ اَبی ) نَ قَيدَْ شِبرٍْ فَقَد خَلَعَ رِبقَْةَ الِاس لْاٰمِ مِن عُنُقِہِ ” ( ٢ جَ مٰاعَةَ المُْسلِْمی اسی کتاب ميں بطور مسند محمد حلبی سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: جو شخص جماعت مسلمين سے ایک بالشت دوری اختيار کرے (احکام اسلام کے معمولی حدود کو برکنار کرے) اس نے اسلام کے رشتہ کو اپنی گردن سے جدا کردیا ہے۔ ۶۵٧ ۔ “ وعنہ عليہ السلام قال مَنْ فارقَ جماعَةَ المسلمين وَنکَثَ صفْقة الایام جاءَ الی اللّٰہِ ) عَزَوَجلَّ اَجذَْمَ ” ( ٣
نيز امام جعفر صادق - نے فرمایا: جس نے جماعت مسلمين سے دوری اختيار کی اور امام کی بيعت شکنی کی تو خدا کی طرف دست بریدہ جائے گا (کيوں کہ ہاته بيعت کا ذریعہ ہے اور بيعت شکنی کی سزا اسے قطع کرنا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۴٠۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ۴٠۵ ،امالی صدوق ص ۴١٣ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ۴٠۵ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ٢۶٧ ۔ (
مولف کہتے ہيں: مجموعی روایات اور گزشتہ مطالب سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دنيا وآخرت کی سعادت حاصل کرنا حضرات ائمہٴ اطہار کی ولایت کبریٰ کی ریسمان سے وابستگی اور متمسک رہنے پر موقوف ہے نيز اہل بيت عصمت و طہارت کی بارگاہ اقدس سے دوری نہ کرنا ہے۔
۶۵٨ ۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں ہم پڑهتے ہيں: فَالراٰغِّبُ عَنکُْم اٰ مرِقٌ وَاللازِّٰمُ لَکُم لاٰحقٌ الی قولہ مَن اَت يٰکُم نَج یٰ وَمَن لَم یَاٴتِکُم هَلَکَ الی ان اٰقلَ سَعَدَ مَن اٰولاٰکُم وَ خٰابَ مَن جَحَدکُم وَضَلَّ مَن ) اٰفرَقَکُم ”( ١ لہٰذا جو آپ سے کنارہ کش ہوا وہ دین سے خارج ہے اور جو آپ سے وابستہ ہو وہ حق سے وابستہ ہے آپ کے حق ميں کوتاہی کرنے والا ہلاک ہوگيا یہاں تک کہ فرمایا: آپ کا چاہنے والا نيک بخت ہے آپ کا منکر ناکام ہے اور آپ سے جدا ہونے والا گمراہ ہے۔
۶۵٩ ۔ حضرت امير المومنين علی - نہج البلاغہ ميں فرماتے ہيں:
”فَاٴَینَْ تَذهَْبُونَ وَاٴَنّ یٰ تُوٴفَکونَ ، وَالاَْع لْاٰمُ اٰقئِمَةٌ وَال آْٰاٰیتُ اٰوضِحَةٌ وَالمنارُ منصوبةٌ یُ اٰتہُ بِکُم بَل نِ، وَاَلسِْنَةُ الصِّدقِْ وَیَقُول کَيفَْ تَعمَْهُونَ وَبَينَْکُم عِترَْةُ نَبِيِّکُم وَهُم اٴَزِمَّةُ الحَْقِّ، وَاَ ع لْاٰمُ الدّی عليہ السلام: اُنظُْروْا اَهلَْ بَيتِْ نَبِيِّکُم فَاٴَلزِْمُوا سَمعْتُهم وَاتَّبِعُوا اَثرَْهُم فَلَن یُخرِْجُوکُم مِن هُدًی وَلَن ) رَدیٰ ” ( ٢ دُوکُمْ فی یُعی حضرت امير المومنين - دوست اور دشمن خدا کی علامات بيان کرنے کے بعد کہ وہ ایک نادان بندہ ہے جو خود کو عالم تصور کرے حالانکہ وہ جاہل و نادان ہے، نادانی کو نادانوں سے اور گمراہی کو گمراہوں سے حاصل کيا۔ لوگوں کے واسطے دهوکہ کے پهندے اور مکرو فریب کے جال بچها دیے ہيں کتاب خدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ٩٧ ۔ مزار مشہدی، ص ۵٢٧ ۔ (
٢(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٨۶ ۔ (
کی تاویل اپنی رائے کے مطابق کی ہے اور حق کو اپنی خواہشات کی طرف موڑ دیا ہے لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی طرف سے محفوظ بناتا ہے اور ان کے ليے گناہان کبيرہ کو بهی حقير و آسان بنا دیتا ہے ۔ کہتا یہی ہے کہ ميں شبہات کے مواقع پر توقف کرتا ہوں ليکن واقعاً انہيں ميں گر پڑتا ہے اور پهر کہتا ہے کہ: ميں بدعتوں سے جدا رہتا ہوں حالانکہ انہيں کے درميان اڻهتا بيڻهتا ہے اسلامی امور کے برخلاف چيزوں ميں مرتکب ہوتا ہے، اس کی صورت انسانوں جيسی ہے ليکن دل جانوروں جيسا ہے۔ نہ ہدایت کے دروازہ کو پہچانتا ہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ گمراہوں کے راستہ کو جانتا ہے کہ اس سے کنارہ کشی اختيار کرے۔ یہ درحقيقت ایک چلتی پهرتی ميت ہے اور کچه نہيں کيوں کہ تمام انسانيت کے خصوصيات اور بشریت کے فضائل و کمالات سے بے بہرہ ہے لہٰذا اب جب دوست اور دشمن خدا کو پہچان ليا اس طرح راہ کو چاہ (کنویں) سے جدا کرکے بتا دیا۔ تو آخر اب تم لوگ کدهر جارہے ہو اور تمہيں کس سمت موڑا جارہا ہے ؟وَالاٴَعْلاٰمُ قٰائِمَةٌ وَالْآیٰاتُ وٰاضِحَةٌ الْمَنٰار مَنْصُوبَة
جب کہ نشانات قائم ہيں اور آیات واضح ہيں منارہٴ ہدایت نصب کيے جاچکے ہيں “فَاٴَینُْ یُ اٰتہُ بِکُم بَل کَيفَْ تَعمَْهُون ” اور تمہيں بهڻکایا جارہا ہے اور تم بهڻکے جا رہے ہو، “وَبَينَْکُم عِترَْةُ نِ وَالْسِنَةُ الصِّدْقْ ” دیکهو تمہارے درميان نبی کی عترت نَبِيِّکُم وَهُم اَزِمَّةُ الحَْقَّ وَاَع لْاٰمُ الدّی موجود ہے۔ یہ سب حق کے زمام دار، دین کے پرچم اور صداقت کے ترجمان ہيں اب تمہيں صراط مستقيم اور کاميابی کی راہ سے منحرف ہو کر سخت ہلاکتوں کے صحراؤں ميں حيران و سرگردان رہنا بے محل ہے۔
) افک) افکاً - کذب وافکہ عنہ صرفہ وقلبہ او قلب راٴیہ افک کا معنی جهوٹ، انحراف اور اپنی رائے بدل دینا ہے المنار: اسم ہے یا اسم مکان ہے ای العلم المنصوب فی الطریق یهتدی بہ الضال والموضع المرتفع الذی یوقد فی اعلاہُ النّار
یعنی وہ علامت جو راستوں ميں نصب کرتے ہيں تاکہ گم شدہ افراد اس کے ذریعے اپنی راہ تلاش کرليں اور بلند جگہ کے معنی ميں ہے کہ اس ميں آگ روشن کرتے ہيں تاکہ وہ گم گشتہٴ راہ کی رہنمائی کرے۔
وتاہ یتهاناً ای ضَلَّ ویتحير وتاہ فی الارض ذهب متحيراً ؛ راستہ کو گم کرکے حيران و سرگردان جنگل وغيرہ ميں پهرتا رہتا ہے۔
اور الله تعالیٰ کا یہ قول <یتيهون فی الارض> ( ١) روئے زمين پر حيران و سرگردان چکر لگاتے رہيں گے۔ یعنی اپنی طغيانيوں ميں حيران و سرگرداں ہيں۔
مولائے کائنات حضرت امير المومنين کے مبارک خطبہ کے جملات کا خلاصہ مخاطبين کی ملامت ہے ان کا بارگاہِ اقدس امير المومنين - سے عدول و انحراف کی وجہ سے: یعنی تم لوگ ميری ولایت سے فرار کرکے کہاں جاؤ گے ميری ولایت تو ثقلين کا لازم و ملزوم ہے ان دونوں ميں سے ایک ہے ميں ثقلين ميں سے ایک ہوں کہ جس کے سلسلے ميں رسول خدا (ص) نے بارہا تاکيداً نصيحت فرمائی: ( انی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعترتی الحدیث ) تم کس کی طرف اور کہاں واپس جاؤ گے۔
اور اسی جيسا حضرت کا یہ قول ہے جو بعد ميں فرماتے ہيں: “ بقولہ عليہ السلام “ والاعلام قائمة والآیات واضحة والمنار منصوبة ”۔
کيوں کہ ممکن ہے “اعلام” سے مراد توحيد و قدرت الٰہی کی نشانياں اور ستارہ یگانگی الٰہی اس کے وجود کی گستردگی کی دليليں اور آسمان کا شاميانہ اوپر کی طرف تاننا، شب و روز کی گردش، متلاطم دریاؤں ميں کشتيوں کا رواں دواں ہونا اور بادلوں سے بارانِ رحمت کا نازل ہونا جو مردہ زمينوں ميں زندگی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ٢۶ ۔ (
روح ڈالتی ہيں اور تمام حيوانات اور جنبندگان جو روئے زمين پر چلتے ہيں سب ہی توحيد کی نشانيوں اور جمال و کمال الٰہی کا جلوہ ہوں۔
مگر یہ کہ: اظہر یہ ہے کہ “اعلام” سے مراد دین و آیات یقين ائمہٴ ہدی کی ذواتِ مقدسہ ستاروں کی طرح ہوں اور ایک حدیث ميں ائمہٴ اطہار کی یوں توصيف کی گئی ہے۔ ”جَعَلتُم اعلاماً بعبادک ومناراً فی بلادِکَ ای هُداةً یَهْتَدی بهم ” یعنی آپ لوگوں کو بندگانِ الٰہی کے ليے نشانياں قرار دیا اور شہر کے ليے منارئہ ہدایت یعنی جس کے ذریعہ لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہيں۔ اس معنی کا یہ جملہ گواہ ہے، جيسا کہ روایات واردہ ميں ان عظيم ہستيوں کے حق ميں ہم مطالعہ کرتے ہيں کہ وہ خود آیات بينات الٰہی ہيں۔ ۶۶٠ ۔ “ وفی البحار نقلاً عن تفسير علی بن ابراہيم مسنداً عن اَبی حمزة قال : سَاٴَلتُ اَبا جعفر عليہ السلام عن قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ :< وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکمٌْ فِی الظُّلُمَاتِ مَن یَشَاٴْ ) اللَّہُ یُضلِْلہُْ وَمَن یَشَاٴْ یَجعَْلہُْ عَلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ>( ١
آئِهِمْ صُمٌّ وَبُکْمٌ کَمٰا قٰالَ اَوْصی نَ کَذَّبُوا فی الَّذی اٰقلَ اَبُو جَعفَْرٍ عليہ السلام نَزَلَت فی آءِ وَ لاٰیُوٴمِنُ بِهِم سَ فَاِنَّہُ لا یُصَدِّقُ بِالاْٴَوصْی الظُّلُمٰاتِ مَنْ کٰانٰا مِنْ وُلْدِ اِبْلی اللّٰہُ (عَزَّوَجَلَ ) فی آءِ وَهُمْ عَلٰی نَ اَضَلَّهُمُ اللہُّٰ وَمَن ک اٰ نَ مِن وُلدِْ آدَمَ عليہ السلام آمَنَ بِالاْٴَوصْی اَبَداً وَهُم الَّذی یآءِ بَطنِْ القُْرآْنِ اَن کَذَّبُوا بِالاْٴَوصْ مٍ ، اٰقلَ وَسَمِعتُْہُ یَقُولُ: کَذَّبُوا بِاٰیٰاتِنٰا کُلِّهٰا فی صِ اٰرطٍ مُستَْقی نَ عليہ السلام رِ المُْوٴمِنی نَ عَنْ اٰیٰاتِنٰا غٰافِلُونَ> اٰقلَ اَمی کُلِّهِمْ ، وَمِنْہُ قولہ تعالیٰ :< وَالَّذی نَ عليہ السلام مٰا لِلّٰہِ رِ المُوٴمِنی لُ عَ لٰی اٰ ذلِکَ قَولُْ اَمی وَالاْٴَئِمَّةُ صَ وٰلاتُ اللہّٰ عَلَيهِْم ، وَالدَّلی )٢) ” آیَةٌ اَکبَْرُ مِنّی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ انعام، آیت ٣٩ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٢٠۶ ۔ (
بحار ميں تفسير علی ابن ابراہيم سے بطور مسند ابو حمزہ سے منقول ہے ان کا بيان ہے: ميں نے امام محمد باقر - سے آیہٴ کریمہ <الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا > (اور جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ بہرے، گونگے تاریکيوں ميں پڑے ہوئے ہيں اور خدا جسے چاہتا ہے صراطِ مستقيم پر لگا دیتا ہے) کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: یہ آیت ان لوگوں کے حق ميں نازل ہوئی کہ جنہوں نے اپنے اوصياء کی تکذیب کی جو گونگے اور بہرے ہيں جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: کفر و جہالت کی تاریکيوںميں ہيں جو ابليس کی اولاد ميں سے ہيں لہٰذا وہ اوصياء کی تصدیق نہيں کرتا اور نہ ہی وہ کبهی بهی ان پر ایمان لاتا ہے اور یہ وہی افراد ہيں کہ جنہيں الله تعالیٰ نے گمراہ کيا ہے، اور جو لوگ آدم - کی اولاد ميں سے ہيں اوصياء پر ایمان لائے اور وہی صراط مستقيم پر گامزن اور کامياب ہيں۔ راوی کہتا ہے: ميں نے حضرت کو یہ کہتے ہوئے سنا: <کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا > سب ہی بطن قرآن ميں نہيں ہے کہ تمام اوصياء اول سے آخر تک جهڻلایا اور اسی طرح فرمایا: وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہيں۔
حضرت امير المومنين - نے فرمایا: آیات سے مراد ائمہٴ اطہار ہيں، اور اس معنی کی دليل خود حضرت امير المومنين - کا یہ قول ہے کہ فرمایا: خدائے تبارک و تعالیٰ کے ليے کوئی نشانی مجه سے زیادہ بڑی نہيں ہے۔
اٰقلَ سَاٴَلتُْ اَ اٰب عَبدِْ اللہِّٰ عليہ السلام عَن رِ الرِّقی ۶۶١ ۔ ومنہ باسنادہ عَنْ دٰاوُدِ بْنِ کَثی ) الْآیٰاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لاٰ یُوٴمِنُونَ > ( ١ قَولِْ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ وَمٰا تُغْنی ) ”قال عليہ السلام : الاٴیات الاٴئمة اوالنذر الانبياء عليہم السلام ۔” ( ٢ اسی کتاب ميں بطور مسند داود ابن کثير رقی سے منقول ہے کہ ميں نے امام جعفر الْآیٰاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لاٰ یُوٴمِنُونَ > (اور یاد رکهيے کہ جو صادق - سے آیہ ٴ کریمہ وَمٰا تُغْنی ایمان لانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ١٠١ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٢٠۶ ۔ (
والے نہيں، ميں ان کے حق ميں نشانياں اور ڈراوے کچه کام آنے والے نہيں ہيں) کا معنی دریافت کيا تو فرمایا: آیات ائمہ ہيں اور النذر انبياء ہيں یعنی نشانياں ائمہ ہيں اور ڈرانے والے انبياء ہيں۔
۶۶٢ ۔ حضرت علی - کا یہ قول: (فاٴین یُتاہُ بِکُم بَل کَيفَْ تَعمَْهُونَ) گزشتہ قول کی تاکيد ہے (فَاَینَْ تَذهَْبُونَ وَاٴنّی تُوٴفکُون) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ جهوٹ اور انحراف و گمراہی اور ان کے دل کے اندهے پن کا باعث ہوا۔
حضرت کا یہ قول (وَبَينَْکُم عِترَْةُ نَبيّکُم ) دوسری تاکيد اور اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اعلام اور آیات سے مراد وہی عترت پيغمبر اکرم (ص) اور ائمہٴ اطہار ہيں۔ ہِ عَن عَن عَلِیٍ عَن اَبی ۶۶٣ ۔ “ وفی البحار من العيون ومعانی الاخبار عَنِ الْهَمْدٰانی نَ رُ الْمُوٴمِنی م عَنْ الصّٰادِ ق عليہ السلام قٰالَ: سُئِلَ اَمی عُمَيرٍْ عَن غِ اٰيثِ بنِْ اِب اْٰرہی اِبنِْ اَبی کُم الثِقَلَينِْ کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَعِترَْتی عليہ السلام عَنْ مَعْنیٰ قَوْلِ رَسُولِ اللّٰہ (ص) اِنّی مُخَلِّفٌ فی مِنَ العِْترَْةُ ؟ فَ اٰ قلَ : اٴَنَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَالْاٴَئِمَّةُ التِّسْعَةُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنُ عليہم السلام تٰاسِعُهُمْ مَهْدِیُّهُمْ وَقٰائِمُهُمْ لاٰ یُفٰارِقُونَ کِتٰابَ اللّٰہِ وَلایُفٰارِقُهُمْ حَتّیٰ یَرِدٰا عَلی رَسُولِ اللّٰہ (ص) ) حَوضَْہُ ” ( ١
بحار ميں عيون اور معانی الاخبار سے بطور مسند غياث ابن ابراہيم سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: حضرت امير المومنين - سے رسول خدا (ص) کے اس قول “” ميں تمہارے درميان دو گراں قدر امانت چهوڑ رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت” کا معنی دریافت کيا گيا کہ عترت کون ہيں؟ فرمایا: ميں، حسن-، حسين - اور اولا دحسين - ميں سے نو امام ان ميں کا نواں مہدی اور قائم ہے وہ کتاب خدا سے جدا نہيں ہوں گے اور نہ ہی کتاب خدا ان سے جدا ہوگی یہاں تک کہ رسول الله کے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون اخبار الرضا -، ج ٢، ص ۶٠ ۔ معانی الاخبار، ص ٩١ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ١۴٧ ۔ (
حضرت کا قول: (وَهُم اَزِمَّةُ الحَْقِّ وَالسِْنَةُ الصِّدقِْ(
وہ افراد یعنی ائمہٴ طہار - حق کے نامور اور وحی الٰہی کے ترجمان ہيں لوگوں کو حق کی طرف بڑهاتے ہيں جس طرح ناقہ کو لگام کے ذریعہ راستے ميں آگے بڑهاتے ہيں۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں ہم پڑهتے ہيں (وقادة الاٴمم) یعنی یہ ائمہٴ اطہار زیارت کے رہنما اور پيشوا ہيں جو لوگوں کو معرفت الٰہی اور دینِ خدا کی طرف دعوت ، حکم اور لوگوں کو رغبت دلانے کا وسيلہ ہيں لہٰذا جس شخص نے لبيک کہا ان کی دعوت قبول کی وہ اسے راہیِ بہشت کرتے ہيں اور جس نے ان کی دعوت سے انکار کيا اور دعوت قبول نہيں کی اسے آتشِ جہنم کی ) طرف لے جاتے ہيں ۔جيسا کہ حضرت - نے فرمایا: (انا قسيم الجنة والنار) ( ١
ميں جنت و جہنم کا تقسيم کرنے والا ہوں۔ جنت و جہنم کا اختيار اس عظيم ہستی کے پاس ہے جن کا وجود نيک افراد کے ليے نعمت الٰہی اور فجّار و بدکاروں کے ليے عذاب ہے۔
اور وحی الٰہی کے ترجمان ہيں جيسا کہ زبان نفس کی ترجمان ہے۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ کے فقرات ميں ہم پڑهتے ہيں:
”و تراجمة لوحيہ” یعنی ائمہٴ ہدی کی ذوات مقدسہ وہ ہيں جو حق کو مخلوقات خدا تک پہنچاتی ہيں دوسری تعبير ميں وہ عظيم مخلوقات کے ائمہ و رہنما ہيں حق کی طرف اور مخلوق خدا پر حق کا وسيلہ ہيں۔ امام کے (وهم ائمة الحق ) یعنی حق کی لگام ان کے ہاته ميں ہے سے یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ حضرت علی - کے حق ميں رسول خدا (ص) کے اس قول کی طرح ہو (الحق مع علی وهو مع الحق اینما دار) ( ٢) حق علی - کے ساته ہے اور وہ حق کے ساته ہيں جہاں جہاں بهی گردش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ص ٧۵٧ ۔ بصائر الدرجات، ص ٢١٩ ۔ (
٢(۔ خصال، ص ۵۵٩ ۔ کفایة الاثر، ص ١٨١ ۔ احتجاج، ج ١، ص ١١۶ ۔ (
کریں۔ جيسا کہ خاصہ سے بطور متواتر حضرت نبی اکرم (ص) اور ائمہٴ اطہار سے یہ ذکر ہوا ہے “الحق مع الائمة الاثنی عشر ” حق بارہ اماموں کے ساته ہے۔ او زیارت جامعہٴ کبيرہ کے فقرات ميں ہم پڑهتے ہيں: “الحق معکم وفيکم ومنکم واليکم وانتم اهلہ ومعدنہ ” حق آپ کے ساته ہے آپ کی ذات ميں ہے اور آپ سے ہے اور آپ کی طرف ہے اور آپ ہی اہل حق اور معدن حق ہيں۔ اسی طرح حضرت کے اس قول (و السنة الصدق) سے مراد یہ ہے کہ وہ عظيم ہستياں سوائے حق اور سچ بات کی گفتگو نہيں کرتيں۔ اور یہ حضرت ابراہيم - خليل کے دعا کی ( تصدیق ہے کہ انہوں نے خدا سے درخواست کی < وَاجعَْل لِی لِسَانَ صِدقٍْ فِی الآْخِرِینَ > ( ١
اور ميرے ليے آئندہ نسلوں ميں سچی زبان اور ذکر خير قرار دے۔ لہٰذا خداوند تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا مستجاب فرمائی اور ان کی ذریت سے حضرات محمد و آل محمد کو منتخب کيا اور انہيں حضرت کا لسان صدق قرار دیا۔
۶۶۴ ۔ “ وَیَقُول الامام الصادق عليہ السلام : نَحنُْ اَصلِْ کُلِّ خَيرٍْ، وَمِن فُرُوعِ اٰن کُلِّ بِرٍّفَمَنِ البِْرِ رِ ، وَتَعَهُّدِ ال جْٰارِ، وَالاِق اْٰررِ یءِ ، وَرَحمَْةُ الفَْقی دُ وَالصّ اٰيمُ وَکَظمُْ الغَْيظِْ، وَالعَْفوِْعَنِ المُْس - اَلتَوحْی حٍ وَ اٰفحِشَةٍ فَمِنهُْمُ الکِْذبُْ ، وَالبُْخلُْ ، بَالفَْضلِْ لِاَهلِْہِ وَعَدُوِّ اٰن اَصلَْ کُلِّ شَرٍّ ، وَمِن فُرُوعِهِم کُلُّ قَبی اَمَرَ الْحُدُودِ الَّتی مِ بِغَيرِْ حَقِّہِ ، وَتَعَدّی عَةُ وَاَکلُْ الرِّ اٰب ، وَاَکلُْ اٰ ملِ اليَْتی مةُ ، وَالقَْطی وَالنَّمی حِ ، اللہُّٰ ، وَرُکُوبِ الفَْ اٰوحِشِ اٰ م ظَهَرَ مِن هْٰا وَ اٰ مبَطَنَ وَالزِّ اٰن، وَالسِّرقَْةُ ، وَکُل اٰ م اٰوفقَ لٰذِکَ مِنَ القَْبی ) وَکَذِبَ مَن زَعَمَ اَنَّہُ مَعَ اٰن وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِفرُْوعِ غَيرِْ اٰن ”’ ( ٢
حضرت صادق آل محمد فرماتے ہيں: ہم تمام خير و خوبی کی اصل و اساس ہيں اور تمام نيکياں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ شعراء، آیت ٨۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٨، ص ٢۴٢ ۔ حدیث ٣٣۶ ۔ بحار الانوار، ج ٢۴ ، ص ٣٠٢ ۔ (
ہماری ذات سے نکلتی ہيں۔ توحيد و یکتا پرستی، روزہ ٴ ماہ رمضان، غيظ و غضب کم ہونا برے افراد کی برائيوں سے درگزر کرنا، فقيروں سے مہربانی کے ساته پيش آنا، حقِ ہمسائيگی کی رعایت کرنا اور صاحبان فضل کی فضيلت کا اعتراف کرنا۔
اور اس کے مقابل ميں : ہمارے دشمن تمام برائيوں کی اصل و اساس ہيں اور تمام برائياں انہيں کی منحوس ذات سے نکلتی ہيں من جملہ جهوٹ، بخل، چغل خوری، قطع رحم، ربا خوری، اموال یتيم بغير حق کے کهانا، الله تعالیٰ کے احکام اور حدود سے تجاوز کرنا اور ان تمام برے کاموں اور بے فائدہ امور کا مرتکب خواہ ظاہر ميں ہو یا باطن ميں، زناکاری، چوری، اور اس جيسے دوسرے اعمالِ قبيحہ کا ارتکاب کرنا۔
اور وہ شخص جهوٹ بولتا ہے جو گمان کرے کہ وہ ہمارے ساته ہے یا ہم سے ہے حالانکہ وہ دوسرے کی فروع سے متعلق ہو۔
جعلنا اللّٰہ وجميع الموٴمنين من المتمسکين بولایتهم ومودتهم وبعترة الوثقی التی لا نفصام لها بحق محمّد وآلہ الطيبين الطاہرین
الله تعالیٰ ہميں اور تمام مومنين کو ان کی ولایت و مودت اور ان کی نہ ڻوڻنے والی محکم ریسمان سے متمسک رہنے والوں ميں قرار دے محمد و آل محمد کے واسطہ سے۔