قرآن پيغمبر اکرم (ص) کا معجزہ ہے۔
مولف کہتے ہيں: اعجاز باب افعال کا مصدر ہے جس کا معنی عاجز کرنا یعنی خارق
العادت فعل انجام دینا کہ بشر اس کے مثل لانے سے عاجز ہو۔ کفار و مشرکين اور جاہليت کے
عرب نيز دوسرے اقوام و ملل کے لوگ کہ پيغمبر اکرم (ص) کی رسالت اور قرآن ان کے ليے نازل
ہوا قبول نہيں کرتے تهے یا شک رکهتے تهے یا استناداً ان کی فصاحت و بلاغت کو قبول نہيں
کرنا چاہتے تهے۔
خداوند متعال فرماتا ہے: <قُل لَئِن اجتَْمَعَت الإِْنسُ وَالجِْنُّ عَلَی اٴَن یَاٴتُْوا بِمِثلِْ ہَذَا القُْرآْنِ
) لاَیَاٴتُْونَ بِمِثلِْہِ وَلَو کَانَ بَعضُْہُم لِبَعضٍْ ظَہِيرًا > ( ١
)اے محمد !) آپ کہہ دیجيے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائيں کہ
اس قرآن کا مثل لے آئيں تو بهی نہيں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت
پناہ کيوں نہ ہوجائيں۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے: <اٴَم یَقُولُونَ افتَْرَاہُ قُل فَاٴتُْوا بِسُورَةٍ مِثلِْہِ وَادعُْوا مَن استَْطَعتُْم مِن ) دُونِ اللهِ إِن کُنتُْم صَادِقِينَ > ( ٢
یا کہتے ہيں کہ: اسے محمد (ص) نے گڑه ليا ہے تو کہہ دیجيے کہ تم اس کے جيسا
ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کے ليے بلالو اگر تم اپنے الزام ميں
سچے ہو۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے: <اٴَم یَقُولُونَ افتَْرَاہُ قُل فَاٴتُْوا بِعَشرِْ سُوَرٍ مِثلِْہِ مُفتَْرَیَاتٍ وَادعُْوا مَن ) استَْطَعتُْم مِن دُونِ اللهِ إِن کُنتُم صَادِقِينَ > ( ٣
یا کفار و مشرکين کہتے ہيں کہ: یہ قرآن محمد (ص) نے گڑه ليا ہے تو کہہ دیجيے کہ
اس کے جيسے دس سورہ گڑه کر تم بهی لے آؤ اور الله کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے
ليے بلالو اگر تم اپنی بات ميں سچے ہو۔
مذکورہ آیات قرآن کریم کے اعجاز کے چيلنج کی نشان دہی کر رہی ہيں اور یہ چيلنج
اپنے وسيع مفہوم کے ساته ان تمام چيزوں کو شامل کيے ہوئے ہے جو کچه قرآن مجيد ميں
موجود ہے خواہ وہ اس کے حقيقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ یونس، آیت ٣٨ ۔ (
٣(۔ سورئہ ہود، آیت ١٣ ۔ (
معارف، حجج و براہين، مواعظ حسنہ، اخلاق کریمہ اور الٰہی شریعتيں ہوں خواہ اخبار غيبيہ اور
فصاحت و بلاغت ہوں جيسے الله تعالیٰ کا یہ قول <قُل لَئِن اجتَْمَعَت الإِْنسُ وَالجِْنُّ عَلَی اٴَن یَاٴتُْوا
بِمِثلِْ ہَذَا القُْرآْنِ لاَیَاٴتُْونَ بِمِثلِْہِ وَلَو کَانَ بَعضُْہُم لِبَعضٍْ ظَہِيرًا > ( ١) (اے محمد !) آپ کہہ دیجيے کہ
اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائيں کہ اس قرآن کا مثل لے آئيں تو بهی نہيں
لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ کيوں نہ ہو جائيں۔
مولف کہتے ہيں: قرآن کریم کے من جملہ اعجاز ميں سے وہی حقائق و معنویات اور وہ
جذابيت جو قرآن کی آیاتِ کریمہ ميں ہے صرف اس کا استماع (غور سے سنا) انسان کی روح
ميں بہت زیادہ موثر واقع ہوتا ہے۔
خدائے تبارک و تعالیٰ نے جب اپنے پيغمبر اکرم (ص) کو مبعوث فرمایا ہے تو آیت کے
مطابق اس کی یوں عکاسی کی ہے۔ < لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُْؤمِْنِينَ إِذ بَعَثَ فِيہِم رَسُولًا مِن ) اٴَنفُْسِہِم یَتلُْوا عَلَيہِْم آیَاتِہِ وَیُزَکِّيہِم وَیُعَلِّمُہُم الکِْتَابَ وَالحِْکمَْةَ > ( ٢
یقينا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کيا ہے کہ ان کے درميان انہيں ميں سے ایک
رسول بهيجاہے جو ان پر آیات الٰہيہ کی تلاوت کرتا ہے انہيں پاکيزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی
تعليم دیتا ہے اگر یہ لوگ پہلے سے بڑی کهلی گمراہی ميں مبتلا تهے۔
اور یہ آیہٴ کریمہ: <ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاْٴُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنہُْم یَتلُْو عَلَيہِْم آیَاتِہِ وَیُزَکِّيہِم ) وَیُعَلِّمُہُم الکِْتَابَ وَالحِْکمَْةَ > ( ٣
اس خدا نے مکہ والوں ميں سے ایک رسول بهيجا ہے جو انہيں ميں سے تها کہ ان کے
سامنے آیات کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١۶۴ ۔ (
٣(۔ سورئہ جمعہ، آیت ٢۔ (
تلاوت کرے، ان کے نفوس کوپاکيزہ بنائے اور انہيں کتاب (قرآن) و حکمت کی تعليم دے اگر یہ
لوگ بڑی کهلی ہوئی گمراہی ميں مبتلا تهے۔
دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے مومنين پر احسان و کرم کيا ہے کہ انہيں
ميں سے ایک رسول مبعوث کيا جو اِن پر آیات الٰہيہ کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکيزہ
بنائے اور انہيں کتاب (قرآن) و حکمت کی تعليم دے۔
یہ دونوں آیتيں پيغمبر اکرم (ص) کی بعثت کی بشارت دے رہی ہيں بعثت کا اولين پيغام
قرآن کی آیات کی تلاوت قرار پائی تاکہ قرآن سماعت کرنے کی حلاوت ان کی حوصلہ افزائی
کرے اور حق و حقيقت قبول کرنے کا زمينہ بهی فراہم کرے۔ کيوں کہ آیات الٰہی کا سننا انسانی
قلب و روح کو پاک و پاکيزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعليم حاصل کرنے کے ليے آمادہ کرتا
ہے۔
۶٣٠ ۔ “ وفی السفينة : ورویَ اٴنَّ رَجُلاً تَعَلَّمَ مِنَ النَّبی (ص) القُْرآن فَلَمَّا انتَْ هٰی اِل یٰ قَولِْہِ
<فَمَن یَعمَْل مِثقَْالَ ذَرَّةٍ خَيرْاً یَرَہُ وَمَن یَعمَْل مِثقَْالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ > اٰقلَ: یَکفِينی هٰذِہِ وَانصَْرَفَ فَ اٰ قلَ
) یہٌ ” ( ١ رَسُول اللہّٰ صَلّ یٰ اللہُّٰ وَ سَ لاٰمُہُ عَلَيہِْ وَآلِہِ اِنصَْرَفَ الرَّجُلُ وَهُوَ فَق
سفينة البحار ميں مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت رسول اکرم (ص) کی خدمت
اقدس ميں قرآن کی تعليم حاصل کی جب اس آیہٴ کریمہ (یعنی جس شخص نے ذرہ برابر نيکی
کی ہے وہ اسے دیکهے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکهے گا) پر پہنچا تو
عرض کيا: یا رسول الله! بس ميرے ليے اتنا ہی کافی ہے وہ بزم پيغمبر (ص) سے اڻه کر چلا
گيا۔ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: یہ شخص یہاں سے فقيہ (دین شناس) بن کر گيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار، ج ٢، ص ۴١۴ ،باب فضل التدبر فی القرآن۔ (
مولف کہتے ہيں: شيعوں کے تجسم اعمال کے اعتقاد کے مطابق جو اِن کے من جملہ
عقائد ميں سے ایک ہے خود خير و شر کے عمل کو ہر مناسب شکل ميں اپنے عمل کی بہ
نسبت (روز قيامت) حاضر ہوتا ہوا دیکهے گا۔
) الله تعالیٰ کے قول کی بنا پر : <یَومَْ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍْ مَا عَمِلَت مِن خَيرٍْ مُحضَْرًا > ( ١
اس دن کو یاد کرو جب ہر نفوس اپنے نيک اعمال کو بهی حاضر پائے گا اور اعمال بد کو
بهی اعمال خير خوبصورت بہترین جذاب شکل ميں آئيں گے اور خدانخواستہ اعمالِ شر برے اور
وحشت انگيز شکلوں ميں، جيسا کہ الله فرماتا ہے: < تَوَدُّ لَو اٴَنَّ بَينَْہَا وَبَينَْہُ اٴَمَدًا بَعِيدًا > ( ٢) جن
کو دیکه کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان برے اعمال کے درميان طویل فاصلہ ہو جاتا ۔
) <یَالَيتَْ بَينِْی وَبَينَْکَ بُعدَْ المَْشرِْقَينِْ > ( ٣
اے کاش ! ہمارے اور ان کے درميان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا یہ تو بڑا بدترین ساتهی
ہے۔
کفار و مشرکين اور قبائل عرب کے مختلف افراد اپنے آباء و اجداد کے دین سے دست
بردار نہيں ہونا چاہتے تهے یا پيغمبر اکرم (ص) کی دعوت قبول کرنے سے گریزاں رہتے تهے لہٰذا
وہ آیاتِ الٰہيہ کی سماعت سے بهی پرہيز کرتے تهے اور دوسروں کو بهی منع کرتے تهے۔
) >وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لا تَسمَْعُوا لِہَذَا القُْرآْنِ وَالغَْواْ فِيہِ لَعَلَّکُم تَغلِْبُونَ > ( ۴
اور جو لوگ کافر ہوگئے ہيں وہ کہتے ہيں: اس قرآن کو نہ سنا کرو اور شور مچایا کرو تاکہ
تم غالب آجاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ زخرف، آیت ٣٨ ۔ (
۴(۔ سورئہ فصلت، آیت ٢۶ ۔ (
قَالَ رَبِّ إِنِّی دَعَوتُْ قَومِْی لَيلْاً وَنَہَارًا # فَلَم یَزِدہُْم دُعَائِی إِلاَّ فِرَارًا # وَإِنِّی
کُلَّمَا دَعَوتُْہُم لِتَغفِْرَ لَہُم جَعَلُوا اٴَصَابِعَہُم فِی آذَانِہِم وَاستَْغشَْواْ ثِيَابَہُم وَاٴَصَرُّوا وَاستَْکبَْرُوا استِْکبَْارًا
)١)
نوح نے کہا: پروردگار ميںنے اپنی قوم کو (تيری طرف) دن ميں بهی بلایا اور رات ميں
بهی پهر بهی ميری دعوت کا کوئی اثر سوائے اس کے نہ ہوا کہ انہوں نے فرار اختيار کيا اور
ميںنے جب بهی انہيں دعوت دی کہ تو انہيں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگليوں کو کانوں
ميں رکه ليا اور اپنے کپڑے اوڑه ليے اور اپنی بات پر اڑ گئے اور شدّت سے اکڑے رہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول:<قُل اٴُوحِیَ إِلَیَّ اٴَنَّہُ استَْمَعَ نَفَرٌ مِن الجِْنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعنَْا قُرآْنًا عَجَبًا
) # یَہدِْی إِلَی الرُّشدِْ فَآمَنَّا بِہِ وَلَن نُشرِْکَ بِرَبِّنَا اٴَحَدًا > ( ٢
اے پيغمبر! آپ کہہ دیجيے کہ ميری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک
جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجيب قرآن سنا ہے جو
نيکی کی ہدایت کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنائيں
گے۔
>وَإِذ صَرَفنَْا إِلَيکَْ نَفَرًا مِن الجِْنِّ یَستَْمِعُونَ القُْرآْنَ فَلَمَّا حَضَرُوہُ قَالُوا اٴَنصِْتُوا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّواْ
إِلَی قَومِْہِم مُنذِْرِینَ # قَالُوا یَاقَومَْنَا إِنَّا سَمِعنَْا کِتَابًا اٴُنزِْلَ مِن بَعدِْ مُوسَی مُصَدِّقًا لِمَا بَينَْ یَدَیہِْ یَہدِْی
إِلَی الحَْقِّ وَإِلَی طَرِیقٍ مُستَْقِيمٍ # یَاقَومَْنَا اٴَجِيبُوا دَاعِی اللهِ وَآمِنُوا بِہِ یَغفِْر لَکُم مِن ذُنُوبِکُم وَیُجِرکُْم ) مِن عَذَابٍ اٴَلِيمٍ > ( ٣
اور (یاد کيجيے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کيا تاکہ قرآن
سنيں۔ پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہوگئے تو آپس ميں کہنے لگے: خاموش ہوجاؤ! جب
تلاوت ہوگئی تو وہ تنبيہ (ہدایت) کرنے ميں اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔ کہنے لگے کہ
اے قوم والو! ہم نے ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نوح، آیت ۵۔ ٧۔ (
٢(۔ سورئہ جن، آیت ١،٢ ۔ (
٣(۔ سورئہ احقاف، آیت ٢٩ ۔ ٣١ ۔ (
کتاب کو سنا ہے جو موسی کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے
والی ہے اور حق و انصاف اور سيدهے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے۔ اے قوم والو! الله
کی طرف تمہيں دعوت دینے والے کی آواز پر لبيک کہو اور اس پر ایمان لے آؤ تاکہ الله تمہارے
گناہوں کو بخش دے اور تمہيں دردناک عذاب سے پناہ دے دے۔
۶٣١ ۔ “وفی تفسير القمی فی قولہ تعالیٰ :< وَاِذ صَرَفنَْا اِلَيکَْ نَفَراً مِنَ الجِْنِّ > الآیات کانَ
سَبَبُ نُزُولِ هٰذِہِ الآیٰات اِنَّ رَسُولَ اللّٰہ (ص) خَرَجَ مِن مَکَة اِل یٰ سُوقِ ع اٰ کظٍ وَمَعَہُ زَیدُْ بن حٰارِثَةَ
یَدعُْوالناٰسَّ اَل یٰ الاِس لْاٰمِ فَلَم یَجُبہُْ اٴَحَدٌ وَلَم یَجِد اٴحَداً یَقبَْلَہُ ثُمَّ رَجَعَ اِل یٰ مَکّة
فَلَماٰ بَلَغَ مَوضِْعَا یُ اٰ قلُ لَہُ وَادی مُجنَةَ تَهَجَّدَ بِالقُْرآنِ فی جَوفِْ اللَّيلِْ فَمَرَّبِہِ نَفَرٌ مِنَ الجِْنِّ فَلَماٰ سَمِعُوا قراءَ ةَ رَسُولِ اللّٰہ (ص) اِستَْمِعُوا لَہُ فَلَماٰ سَمِعُوا قَرآتَہُ قَالَ بَعضُْهُم لِبَعضٍْ اَنصِْتُوا (
نَ قٰالُوا یٰاقَوْمِنٰا اِلی آخر اٴسْکُتُوا) فَلَمّٰا قَضیٰ اٴی فَرَغَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) وَلَّوُا اِ لٰ ی قَومِْهِم مُنذِْری
الآیات
فَجٰآوٴا اِلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) وَاٴَسلَْمُوا وَآمَنُوا وَعَلَّمَهُم رَسُول اللہّٰ (ص) شَرٰایعَ الاِسْلاٰمِ
فَاٴَنزَْلَ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ عَ لٰی نَبِيِّہِ (ص) <قُل اٴوْحِیَ اِلَیَّ اٴَنَّہُ اسمَْتَعَ نَفَرٌ مِنَ الجِْنِّ > السورة کُلّهٰا
فَحَکَیٰ اللّٰہُ قَوْلَهُمْ وَ وَلّیٰ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللّٰہ (ص) مِنهُْم وَ اٰ کنُوا یَعُودُونَ اِلی رَسُولِ اللہِّٰ (ص)
فی کُلِّ وَقتٍْ فَاٴَمَرَ رَسُولُ اللہِّٰ (ص) اَمِيرَ المُْوٴمِنينَ عليہ السلام اٴن یُعَلِّمَهُم وَیَفقِْهَهُم فَمِنهُْم ) مُوٴمِْنُونَ وَ اٰ کفِرُونَ وَ اٰنصِبُونَ وَیَهُودُ وَنَ صٰار یٰ وَمَجُوس وَهُم وُلد ال جٰانِ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٣٠٠ ۔ تفسير صافی، ج ۵، ص ١٨ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ۵، ص ۵٣۴ ۔ (
تفسير الميزان، ج ١٨ ، ص ٢٢٠ ۔
صاحب تفسير قمی مذکورہ آیات کا سبب نزول یوں نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا (ص)
مکہ سے تشریف لا رہے تهے بازار عکاظ تک پہنچے زید ابن حارثہ بهی آنحضرت کے جوار ميں
تهے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے رہے تهے ليکن کسی نے ان کی دعوت پر لبيک
نہيں کہا اور نہ اسے قبول کيا مکہ واپس آئے، جب آنحضرت (ص) وادی مجنہ (جنوں کی
سکونت کی جگہ) پر پہنچے تو رات قرآن پڑهنے ميں گزاری۔
اس وقت وہاں سے جن کے ایک گروہ کا گزر ہوا رسول خدا (ص) کے قرآن پڑهنے کی دل
نشين آواز سنی مزید غور سے کان لگا کر سننے لگے، بعض بعض دوسرے سے کہہ رہے تهے:
خاموش ہوجاؤ اور سنتے رہو جب پيغمبر اکرم (ص) قرائت قرآن سے فارغ ہوئے تو اپنی قوم والوں
کے پاس واپس گئے حالانکہ انہيں ڈراتے تهے اور کہتے تهے: اے ميری قوم والو! دعوت پيغمبر
کو قبول کرو پهر وہ رسول الله (ص) کی خدمت ميں واپس آئے، اسلام لائے، ایمان قبول کيا اور
آنحضرت (ص) نے اسلامی شریعتوں کی انہيں تعليم دی نيز خداوند متعال نے سورئہ جن کو
پيغمبر (ص) پر نازل فرمایا پس الله تعالیٰ نے ان کے قول کی حکایت بيان کی اور رسول خدا
(ص) ان لوگوں کے پاس سے واپس آئے۔ وہ لوگ جس وقت بهی رسول الله (ص) کی خدمت
ميں آتے تهے تو آنحضرت (ص) امير المومنين - سے فرمایا کرتے تهے: انہيں تعليم و تربيت دیں
اور فقہ سکهائيں۔ لہٰذا ان ميں سے بعض مومن اور بعض دوسرے کافر یہودی اور مجوسی ہيں
وہ سب کے سب جن ہيں۔
اس بنا پر مذکورہ مجموعی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ کلام الٰہی کا سننا کس قدر با
استعداد لوگوں کی روح ميں موثر اور ہدایت پانے والا انگيزہ ایجاد کرتا ہے۔ جنات جب تک خود
قرآن سنتے ہيں متاثر ہوتے ہيں اور اپنی قوم والوں کو ڈراتے ہيں اورحق تعالیٰ کی طرف دعوت
دیتے ہيں۔
پيغمبر اکرم (ص) بعثت کے آغاز ميں سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ١۶۴ کے مطابق
<لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُْؤمِْنِينَ إِذ بَعَثَ فِيہِم رَسُولًا مِن اٴَنفُْسِہِم یَتلُْوا عَلَيہِْم آیَاتِہِ > اور سورئہ
جمعہ کی دوسری آیت <ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاْٴُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنہُْم یَتلُْو عَلَيہِْم آیَاتِہِ > کے آخر تک
تمام چيزوں سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت پر مامور کيے جاتے ہيں اور بہت سے پاک طينت
افراد صرف قرآن کریم کی آیات سنتے ہيں ان کے جسم ميں نور اسلام روشن ہو کر انہيں ہدایت
کرتا ہے اور دوسرا گروہ کہ ابهی جن کے نفس اور روح کی گہرائيوں ميں شيطانی وسوسے
نفوذ رکهتے ہيں وہ اپنی آنکهوں اور کانوں کو مخفی رکهتے ہيں تاکہ قرآن نہ سنيں جيسا کہ
) قرآن ميں ہم پڑهتے ہيں: <وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لا تَسمَْعُوا لِہَذَا القُْرآْنِ وَالغَْواْ فِيہِ لَعَلَّکُم تَغلِْبُونَ > ( ١
اور جو لوگ کافر ہوگئے ہيں وہ کہتے ہيں: اس قرآن کو نہ سناکرو اور شور مچایا کرو تاکہ
تم غالب آجاؤ۔
اسی طرح ہم پڑهتے ہيں: <وَإِنِّی کُلَّمَا دَعَوتُْہُم لِتَغفِْرَ لَہُم جَعَلُوا اٴَصَابِعَہُم فِی آذَانِہِم ) وَاستَْغشَْواْ ثِيَابَہُم وَاٴَصَرُّوا وَاستَْکبَْرُوا استِْکبَْارًا > ( ٢
اور ميں نے جب بهی انہيں دعوت دی کہ انہيں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگليوں کو
کانوں ميں رکه ليا اور اپنے کپڑے اوڑه ليے اور اپنی بات پر اڑ گئے اور شدت سے اکڑے رہے۔
مولف کہتے ہيں: جيسا کہ قرآن مجيد کی مصاحبت و ہم نشينی اور اس کی آیات کریمہ
کی سماعت مزید ہدایت کا باعث یا دلوں کے اندهے پن ميں کمی کا موجب ہوتی ہے اسی
طرح حضرت بقية الله الاعظم حضرت امام زمانہ عجل الله فرجہ الشریف اور ان کے آبائے کرام
ائمہٴ اطہار کے شرف حضور کی توفيق جو شخص حاصل کرے تو اس کی ہدایت اور نورانيت
ميں اضافہ ہوگا اور کبهی اگر انحرافی جادہ کی سير کرتا ہوگا تو اسے شاہراہ صراط مستقيم
کی ہدایت نصيب ہوگی۔
اب چند نمونے معادن وحی و تنزیل سے صادر شدہ روایات آپ کے گوش گزار کر رہے ہيں۔
۶٣٢ ۔ “وفی کمال الدّین: قال علامة الکلينی : وَحَدَّثَنی جَ مٰاعَةٌ عَن مُحَمَّد بن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فصلت، آیت ٢۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ نوح، آیت ٧۔ (
ی ، ثُمَّ قٰالَ: کُنتُْ عِندَْ مَلِکِ الهِْند فی قَشمْير ی عَن غٰانِم اَبی سَعيد الهِْندْ مُحَمّدٍ الاَْشعَْر
الدَّاخِلَةِ وَنَحنُْ اٴَربَْعُونَ رَجُلاً نَقعُْد حَولَْ کُرسِْی المَلِکِ وَقَد قَراٴنا التَّو اْٰرةَ وَالاِْنجِْيلَ وَالزَّبُورَ یُفرَْغُ اِلَي اْٰن
فی العِْلمِْ فَتَ اٰ ذکَر اْٰن یَومْاً مُحَمَّداً صَلّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ وَقُل اْٰن نَجِدہُْ فِی کُتبِْ اٰن فَاتَّفَق اْٰن عَل یٰ اٴن اَخرْجُ فی
طَلَبِہِ وَاٴَبحَْثَ عَنہُْ ، فَخَرجتُْ وَمَعی مالٌ فَطَقَعَ عَلَیَّ التُّرکُْ وَشلّحوُنی فَوَقَعتُْ اِلی کابَل وَخَرَجتُْ
مِن اٰ کبلَ اِل یٰ بَلخٍْ وَالاٴميرُ بِ هٰا اِبنُ اَبی مثُورٍ فَاٴَتَيتُْہُ وَعَرَّفتُْہُ اٰ م خَرَجتُْ ، فَجَمَعَ الفُْق اْٰ ہءَ وَالعُْل مْٰآءَ
لِمُناظَرتی ، فَسَاٴَلتُْهُم عَن مُحَمَّدٍ (ص) فَقالَ: هُوَ نَبِيُّ اٰن مُحَمَّد بن عَبدِْ اللہِّٰ عليہ السلام وَقَد اٰ متَ
فَقُلْتُ : وَمَن اٰ کنَ خَليفَتُہُ ؟ فَ اٰ قلُوا: اٴبوْ بَکرْ فَقُلتُْ اَنسِْبُوہُ لی ، فَنَسَبُوہُ اِل یٰ قُرَیشٍ، فَقُلتُْ لَيسَْ
ی کُتُب اٰن خَليفَتُہُ اِبنَ عَمہِْ وَزَوجُْ ابنَْتِہِ وَاٴبُو وُلدِْہِ ، فَ اٰ قلُوا لِلاٴَميرِ ی نَجِدُہُ ف هٰذا بِنَبِیٍّ اِنَّ النَّبِیُّ الَّذ
اِنَّ هٰذا قَد خَرَجَ منَ الشِّرکِْ اِلَی الکُْفرِْ فَمُر بِضَربِ عُنُقِہِ ، فَقُلتُْ لَهُم : اٴنَا مُتَمَسِّک بِدیٍن وَ لاٰ اَدُعُہُ
اِلاَّبِبَ اٰينٍ
فَدَعَا الاٴميرُ الحُْسَينُ بنِ اِسکْيبٍ وَقالَ لَہُ : یٰا حُسَيْنُ نٰاظِر الرَّجُلَ ، فَقٰال: العُْلَمَآءُ وَالفُْقَهآء
حَولَْکَ فَمُرهُْم بِمُ اٰنظَرَتِہِ ، فَ اٰ قلَ لَہُ : اٰنظِرہُْ کَ مٰا اٴقُولُ لَکَ وَاخلُْ بِہِ وَالطُْف لَہُ ، فَ اٰ قلَ فَخَ لاٰ بی
الحُْسَينُْ وَسَاٴلتُْہُ عَن مُحَمَّدٍ صَلّ یٰ اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ فَ اٰ قلَ: هُوَ کَ مٰا اٰقلُوہُ لَکَ غَيرْ اَنَّ خَليفتُہُ ابنْ عَمِّہِ
طالِبٍ وَهُوَ زَوجُْ ابُنَتِہِ فاطِمَةَ وَاٴبُو وُلدِْہِ الحَْسَنَ وَالحُْسَينَْ ، فَقُلتُْ اَشهَْدُ اٴن لاٰ اِ ہٰلَ اِلاَّ عَلیُّ بن اَبی
اللہُّٰ وَاَنَّہُ رَسُولُ اللہِّٰ ، وَصِرتُْ اِلَی الاٴمير فَاٴَسلَْمتُْ فَمَض یٰ بي اِلَی الحُْسَينِْ فَفَقَّهَني فَقُلتُْ لَہُ : اِنّٰا
فَةُ عَلیّ عليہ السلام ؟ قٰالَ: فَةٍ ، فَمَن اٰ کنَ خَلی نَجِدُ فی کُتُبِ اٰن اٴَنَّہ یٰ لاَمضْي خَليفَةٌ اِلَّا عَن خَلی
الحَْسَنُ ، ثُمَّ الحُْسَينُْ ، ثُمَّ سَمَّی الاٴئِمَّة اٰوحِداً اٰوحِداً حَتّ یٰ بَلَغَ الحَْسَنَ بن عَلّی ثُمَّ اٰقلَ لی :
تَح اْٰتجُ اٴن تَطلُْبَ خَليفَةَ الحَسَنِ وَ تَساْٴلَ عَنہُْ فَخَرَجتُْ فی الطَّلَب
اٰقلَ مُحَمّد بن مُحَمَّدٍ وَ اٰوف یٰ مَعَ اٰن بَغ اْٰ ددَ فَذَکَرَ لَ اٰن اٴنَّہُ اٰ کنَ مَعَہُ رَفيقٌ قَد صَحِبَہُ عَل یٰ هٰذا
الاٴَمر فَکَرِہَ بَعضَْ اٴخ لْاٰقِہِ فَ اٰ فرَقَہُ اٰقلَ: فَبَينَْ مٰا اَنَا یَومْاً وَقَد تَمَسَّحتُْ فی القُ اٰرةِ وَ اٴَنَا مُفکِرٌ فِي مٰا
خَرجتُْ لَہُ اِذ اٴَ اٰتنی آتٍ وَ اٰقلَ لی اٴجِب مَولْاکَ فَلَم یَزَل یَختَْرِق فی المَحال حَتّ یٰ اٴدخَْلَنی داراً
وَبُستْاناً وَاِذاً بِمَو لاٰیَ عليہ السالم اٰقعِدٌ ، فَلَماٰ نَظَرَ اِلَیّ کَلَّمَنی بِالهِْندِْیّةِ وَسَلَّمَ عَلَیَّ ، وَاٴَخبَْرَنی
عَن اِسمْی وَسَاٴلَنی عَنِ الاَْربَْعينَ رَجُلاً بِاٴسمْآئِهِم عَن اِسمِ رَجُلٍ رَجُلٍ ، ثُمَّ اٰقلَ لی تُریدُ الحجَّ مَعَ
اٴَهلِْ قُم فی هٰذِہِ السَنةِ؟ فَ لاٰ تحجُّ فی هٰذِہِ السّنَةِ وَانصَْرِف اَل یٰ خُراسٰانَ وَحجّ مِن قابِلٍ ، اٰقلَ:
وَرَمی اِلَّی بِصُرَّةٍ وَ اٰقلَ : اِجعَْل هذِہِ فی نَفَقَتِکَ وَ لاٰ تَدخُْل فی بَغ اْٰ ددَ اِل یٰ دارِ اٴَحَدٍ وَ لاٰ تُخبِْر بِشَیءٍ
مِمَّا رَاٴیتَْ
اٰقلَ مُحَمّدٌ : فَانَْصَرَف اٰن مِنَ العَقَبَة وَلَم یَقضِْ لَنَا الحَجّ ، وَخَرَجَ غانِمُ اِل یٰ خُراسٰان وَانصَْرَفَ مِن قابِلٍ حٰاجّاً ، فَبَعَثَ اِلَي اْٰن بِالطافٍ وَلَم یَدخُْل قُم وَحَجَّ وَ انصَْرَفَ اِل یٰ خُراسٰان فَماتَ رَحِمَہُ اللہُّٰ بِ هٰ
دٍ فَذَکَرَ اِنَّہُ خَرَجَ مِن قٰالَ مُحَمَّد بن شٰاذان عَنِ الْکٰابِلی : وَقَد کُنتُْ رَاٴیتَْہُ عِندَْ اٴبی سَعی
) کابِلَ مُر اْٰتداً اٴو طٰالباً وَاٴَنَّہُ وَجَدَ صَحَّةُ هٰذَا الدینِ فی الِانجِْيلَ وَبِہِ اهتُْد یٰ” ( ١
علامہ کلينی نقل کرتے ہيں: محمد ابن علی ابن محمد ابن حاتم نے عبد الله ابن
جعفر سے، اُنہوں نے محمد ابن جعفر فارسی سے، اُنہوں نے محمد ابن اسماعيل ابن بلال
سے، اُنہوں نے ازہری مسرور ابن عاص،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ صدوق نے کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴۴ ميں ازدی سے نقل کيا ہے ليکن غيبت طوسی اور (
بحار ميں علی ابن ابراہيم فدکی ازدی سے نقل کيا ہے۔
اُنہوں نے مسلم ابن فضل سے روایت کی ہے کہ اُن کا بيان ہے: ميں کوفہ ميں ابو سعيد غانم
ابن سعيد ہندی کے پاس جانے آنے لگا۔ جب ميری آمد و رفت کو ایک عرصہ ہوگيا تو ميں نے اُس
کے حالات دریافت کيے۔ کيونکہ مجهے اُس کے متعلق کچه خبر ملی تهی۔
اُس نے بتایا کہ ميں ہند کے قریب کشمير کے ایک شہر کا باشندہ ہوں۔ ميں اُن چاليس
آدميوں ميں سے ایک ہوں جو بادشاہ کے مصاحب تهے۔ توریت و زبور و انجيل کی تلاوت کرتے اور
اس سے معلومات حاصل کرتے رہتے۔ ایک دن ہم لوگوں نے حضرت محمد (ص) کا آپس ميں
تذکرہ کيا اور کہا کہ اُن کا ذکر ہم نے اپنی کتابوں ميں پڑها ہے لہٰذا ان کی تلاش و جستجو ميں
نکلنا چاہيے۔
چنانچہ ميں اس کام کے ليے نکل کهڑا ہوا ۔ ميرے پاس مال و زر کافی تها،مگر ترکی
رہزنوں نے مجهے لوٹ ليا، بدن کے کپڑے بهی نہ چهوڑے۔پهر ميں وہاں سے چل کر کابل اور بلخ
جا پہنچا۔ اُس وقت وہاں کا حاکم ابن ابی شور تها۔ ميں اس کے پاس پہنچا اور بتایا کہ ميں کس
غرض سے چلا ہوں۔
یہ سن کر اُس نے یہاں کے تمام فقہاء اور علماء کو مجه سے مناظرہ و بحث کرنے کے
ليے طلب کرليا۔ ميں نے اُن فقہاء اور علماء سے حضرت محمد (ص) کے متعلق سوال کيا۔
اُنہوں نے کہا: وہ ہمارے نبی محمد ابن عبد الله تهے جنہوں نے رحلت فرمائی۔
ميں نے آنحضرت کا نسب دریافت کيا؟
اُنہوں نے کہا: آپ قبيلہ قریش ميں سے تهے۔
ميں نے کہا: یہ کوئی بات نہيں، بلکہ آپ یہ بتائيے کہ اُن کے بعد اُن کا خليفہ کون ہوا؟
اُنہوں نے کہا: ابو بکر۔
ميں نے کہا: مگر ميں نے تو اپنی کتابوں ميں پڑها ہے کہ اُن کا ابنِ عم ،اُن کی بيڻی کا
شوہر اور اُن کے فرزندوں کا باپ آنحضرت (ص) کا خليفہ ہوگا (یہ بات جو تم نے بتائی غلط نکلی)
۔
یہ سن کر علماء اور فقہاء نے کہا: اِس شخص نے شرک کو چهوڑ کر کفر اختيار کيا ہے
لہٰذا اپنے حاکم سے کہا کہ اس کی گردن مارنے کا حکم دیجيے۔
ميں نے کہا: ميں ابهی اپنے سابقہ دین پر ہوں جب تک مجهے دليل و برہان نہ ملے گی
ميں اسے نہ چهوڑوں گا۔
یہ جواب سن کر بلخ کے حاکم نے حسين ابن اسکيب کو بلایا اورکہا: آپ اِس شخص
سے بحث و مناظرہ کریں۔
اُنہوں نے کہا: یا امير! آپ کے اطراف و جوانب ميں اتنے سارے علماء و فقہاء بيڻهے ہيں
آپ ان لوگوں کو حکم دیں کہ وہ اس شخص سے مناظرہ و بحث کریں۔
امير بلخ نے کہا: ميرا حکم ہے کہ اس شخص کو تنہائی ميں لے جاکر سمجهاؤ۔
چنانچہ حسين ابن اسکيب مجهے تنہائی ميں لے گئے۔ تو ميں نے اُن سے بهی حضرت
محمد (ص) کے متعلق دریافت کيا۔
اُنہوں نے کہا: جيسا کہ اِن علماء و فقہاء نے آپ کو بتایا ہے وہ درست ہے۔ واقعاً وہ ہمارے
نبی ہيں۔ بس فرق یہ ہے کہ آپ کے خليفہ (ابوبکر نہيں) بلکہ آنحضرت (ص) کے ابنِ عم علی
ابن ابی طالب - ہيں جو آپ کی بيڻی فاطمہ # کے شوہر اور آپ کے دونوں فرزند حسن و حسين
عليہما السلام کے باپ ہيں۔
ميںنے کہا: پهر تو ميں کلمہ پڑهتا ہوں:
” “
)ميں گواہی دیتا ہوں کہ نہيں ہے کوئی خدا سوائے الله کے اور محمد الله کے رسول ہيں(
پهر اس کے بعد ميں امير بلخ کے پاس گيا اور اُس کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان
کيا پهر مجهے امير بلخ نے حسين ابن اسکيب کے ساته بهيج دیا اور اُنہوں نے مجهے فقہ کی
تعليم دی۔
ایک دن ميں نے حسين ابن اسکيب سے کہا کہ: ميں نے اپنی کتابوں ميں دیکها ہے کہ
آنحضرت کا جو بهی خليفہ ہوگا وہ اس دنيا سے رخصت ہونے سے قبل اپنا جانشين و خليفہ
چهوڑ جائے گا بتائيے کہ اس وقت مجه پر (ہم پر) کون خليفہ ہے؟
حسين نے کہا: پهر اُن کے (علی - کے) بعد حسن-، پهر حسين - اور ان کے بعد تمام
ائمہ کے نام ليے یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری - کے نام تک پہنچ کر کہا اور تمہيں
سر دست اس امر کی ضرورت ہے کہ تم امام حسن عسکری - کے خليفہ کو تلاش کرو اور اُن
کے متعلق لوگوں سے دریافت کرو۔ چنانچہ اُن کی تلاش ميں نکلا محمد ابن محمد ناقل ہيں:ہم
لوگ ساته ميں بغداد آئے اور کہا: ہمارا ایک دوست تها وہ بهی اسی کام کے پيچهے لگا ہوا تها
ليکن اس کے بعض اخلاق اچهے نہيں تهے لہٰذا ميں اس سے کنارہ کش ہوگيا۔
غانم کا بيان ہے کہ: پهر ميں بغداد پہنچا۔ وہاں ایک دن ميں نہر الصراط عباسيہ کے کنارے
ڻہلتا ہوا جس کام کے ليے آیا تها اُس کے متعلق سوچتا ہوا جا رہا تها کہ ناگہاں ایک شخص نے
آکر مجه سے کہا: چلو تمہيں تمہارے مولا نے بلایا ہے۔
اِس کے بعد وہ مجهے لے کر مختلف گليوں اور محلوں کو طے کرتا ہوا ایک مکان بلکہ ایک
باغ ميں پہنچا ميں نے دیکها کہ وہاں ميرے مولا (امام عصر -) بيڻهے ہوئے تهے۔
جب آپ نے مجهے دیکها تو بزبانِ ہندی مجه کو ميرا نام لے کر سلام کيا، کچه کلام کيااور
اُن چاليس آدميوں کے متعلق ہر ایک کا نام لے کر اُن کی خيریت دریافت کی اور فرمایا: تم اس
سال اہلِ قم کے ساته حج کا ارادہ کر رہے ہو مگر اس سال حج نہ کرو بلکہ خراسان چلے جاؤ اور
آئندہ سال حج کرو۔
یہ فرما کر آپ نے رقم کی ایک تهيلی ميری طرف پهينکی اور فرمایا: یہ تمہارے اخراجات
کے ليے ہيں اور اب بغداد ميں کسی کے گهر نہ جانا اور ہماری اِس ملاقات کا کسی سے ذکر نہ
کرنا۔
راوی کا بيان ہے کہ: اس کے بعد غانم خراسان چلا گيا اور دوسرے سال حج کے ليے
واپس ہوا اور بعد فراغتِ حج قم نہيں گيا، بلکہ خراسان واپس آیا اور وہيں اُس کا انتقال ہوا۔
محمد ابن شاذان ،کابلی سے نقل کرتے ہيں کہ ميں نے اسے ابو سعيد کے پاس دیکها
اس نے کہا: کابل سے مرتا دیا طالب حق کی حالت ميں باہر آیا اور جب اس دین کے صحيح
ہونے کا یقين کرليا جيسا کہ انجيل ميں پڑها تها ہدایت یافتہ ہوگيا۔
۶٣٣ ۔ “قال الصدوق حَدَّثَنٰا محمّد بن اِبراہيم بن اسحاقِ الطالقانی رَضی اللّٰہ عُنْہ ، قال
حَدَّثنا ابو القاسم علی بن اَحْمَد الخَدیجی الکُوفِی ، قالَ حَدَّثَنا الاٴزْدی( ١) قالَ بَينْا اَنَا فی الطَّوافِ
قَد طَفتُْ سِتّاً وَاَنا اٴُریدُ اَن اَطُوفَ السّابع فاذا اٴَنا بِحَلقَْةِ عَن یَمين الکَعبَْةِ وَشابٌ حَسَنُ الوَْجہِْ طَيِّبُ
الرّائِحَةِ هَيُوبٌ مع هَيبَْتِہِ مُتَقَرِبٌ الَی النّاس یَتَکَلّمُ فَلَم اٴرَ اٴحسْنَ مِن کَلامِہِ وَلا اَعذْبُ مِن نُطقِْہِ
وَحَسن جُلُوسِہِ ، فَذَهبتُ اٴکَلّمہ فَزَبرَنی النّاسُ ، فَسَاٴلتُْ بَعضَْهُم ، مَن هذا؟
فَقَالُوا هذا ابْنُ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) یَظهَْرُ فی کُلّ سَنَةٍ یَومْاً لِخواصِّہِ یُحَدِّثُهُم فَقُلتُ یاسَيّدی
مُستَْرشِداً اَتَيتُکَ فَاٴرشِْدنْی هَداکَ اللہّٰ
فَنَاوَلنی عليہ السلام حِصاةً فَحّولتُْ وَجهْی ، فَقالَ لی بَعضُْ جُلَسائِہِ مَاالّذی دَفَع اِلَيکَ ؟
فَقُلتُ حِصاةً ، وَکَشَفتُْ عَنهْا فَاِذا اَنا بِسَبيکَةٌ ذَهَبٍ فَذَهَبتُْ فَاذاً اَنَا بہ عليہ السلام قَد لَحِقَنی فَقال لی ثَبتَت عَلَيکَْ الحُجّة ، وَظَهَرَ لَکِ الحَْقَ وَذَهَبَ عنک العمَی ، اٴتَعرِفنی ؟ فَقُلتُ لا
فقال عليہ السلام اٴَنَا المَهْدی ( اَنا قائِمُ الزّمان) اَنا الذی اٴَمْلاهٴا عَدلاً کما مُلئت جَوْراً انَّ الاٴرضَ لا
) تَخلُْوا مِن حُجَّةٍ وَلاَیَبقْی النّاسُ فی فَترْةٍ وَهذِہِ اَمانةٌ لاتُحَدِّث بِها اِلاَّ اِخوْانُکَ مِنَ الحق” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین صدوق ميں ازدی ہے ج ٢، ص ۴۴۴ ، ليکن غيبت طوسی اور بحار ميں ابن ابراہيم (
فدکی سے اور اس نے اودی سے نقل کيا گيا ہے۔
٢(۔ غيبت طوسی، ص ١۵٢ ۔ الخرائج و الجرائح، ج ٢، ص ٧٨۴ ۔ تبصرة الولی حدیث ٣۴ ۔ بحار (
الانوار، ج ۵٢ ، ص ١، معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۴، ص ٣٩۴ ۔
شيخ صدوق عليہ الرحمہ ناقل ہيں: مجه سے محمد ابن ابراہيم ابن اسحاق الطالقانی
رضی الله عنہ نے یہ حدیث بيان کی انہوں نے کہا کہ مجه سے ابو القاسم علی ابن احمد
خدیجی کوفی نے یہ حدیث بيان کی انہوں نے کہا کہ مجه سے ازدی نے یہ حدیث بيان کی کہ
: ایک مرتبہ ہم لوگ طواف خانہٴ کعبہ ميں مشغول تهے چه طواف کرچکے تهے اورجب ساتویں
طواف کا ارادہ کيا تها تو کعبہ کے داہنی طرف ایک گروہ کو دیکها جس ميں ایک بارعب جواں تها،
مگر بڑا وجيہ و حسين بهی تها اور لوگ اس کی زیارت اور تقرّب کے خواہاں اس کے اطراف جمع
تهے وہ بيڻها ہوا مصروف گفتگو تها اور حقيقت یہ ہے کہ ميں نے اس سے بہتر حسن بياں اور
شيریں سخن اس سے قبل کسی کو نہيں پایا۔ميں اس جوان سے گفتگو کا خواہش مند ہوتے
ہوئے آگے بڑها تو لوگوں نے مجهے جهڑک دیا۔ ميں نے دریافت کيا یہ جواں سال صاحب کون
ہيں؟
ایک شخص نے جواب دیا: یہ فرزند رسول (ص) ہيں، سال ميں ایک مرتبہ لوگوں کے
سامنے آتے ہيں اور اپنے مخصوص لوگوں سے گفتگو کرتے ہيں۔
پهر ميں نے بهی عرض کيا کہ اے ميرے سيد و سردار! الله تعالیٰ آپ کی ہدایت
کوہميشہ قائم رکهے، ایک ہدایت چاہنے والا حاضر ہوا ہے، لہٰذا اس کی ہدایت فرمائيے۔
یہ سن کر انہوں نے (زمين سے اڻهاکر) چند سنگریزے ميرے حوالے کردیے۔ ميں انہيں
لے کر مجمع سے باہر نکل آیا تو ایک شخص نے دریافت کيا کہ فرزند رسول (ص)نے تجهے کيا
عنایت کيا ہے؟
ميںنے کہا: چند سنگریزے اور یہ کہہ کر ميں نے اسے دکهانے کے ليے مڻهی کهولی تو
دیکها کہ وہ سونے کی ڈلياں تهيں۔
راوی کا بيان ہے کہ: ميں وہ لے کر چلنے لگا تو اس جوان (فرزند رسول (ص)) نے بڑه کر
مجه سے دریافت فرمایا: کيوں؟ اب تو تجه پر حجّت ثابت ہوگئی اور حق واضح ہوگيا اور اب تو
تيری بے بصيرتی دور ہوگئی ہوگی؟ تو نے مجهے پہچانا کہ ميں کون ہوں؟
ميں نے عرض کيا: نہيں
تو انہوں نے فرمایا: جان لو کہ: ميں مہدی (قائم الزمان) ہوں، ميں وہ ہوں جو اس زمين کو
عدل و انصاف سے بهر دوں گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی، زمين کبهی بهی
الله کی حجّت سے خالی نہيں رہ سکتی او ر لوگ زمانہٴ فترت کی طرح (حيران و سرگردان)
باقی نہيں رہيں گے اور یہ واقعہ بطور امانت ہے اسے صرف اپنے اہل حق برادران سے بيان کرنا۔
۶٣۴ ۔ “ قال الصدوق حَدَّثَنا عَلیِ بنِْ عَبدِْ اللہِّٰ الوَْراٰقِّ قالَ حَدَّثَ اٰن سَعدِْ بنِْ عَبدِْ اللہّٰ عَن حُجَةٍ الحَْسَنِ بنِْ عَلیٍ عليہ السلام اَحمَْدِ بنِْ اِسحَْاقِ بنِْ سَعدِْ الاَْشعْری، قالَ دَخَلتُْ عَل یٰ اَبی
وَاٴَنَا اُریدُ اَن اَسئَْلَہُ عَنِ الخَْلَفِ مِن بَعدِْہِ فَقالَ مُبتَْدِئاً : یا اَحمَْدَ بنَْ اِسحَْاق اِنَّ اللہَّٰ تَبارَکَ وَ تَعال یٰ لَم هٰا اِ لٰ ی اَن تَقُومَ السّاعَةُ مِن حُجَّةٍ لِلہِّٰ عَل یٰ یَخلُْ الاْٴرضَْ مُنذُْ خَلَقَ آدَمَ عليہ السلام وَلا یُخَلّی
خَلقِْہِ بِہِ یَدفَْعُ البَْلآءَ عَن اَهلِْ الاَْرضِْ وَبِہِ یُنَزِّلُ الغَْيثَْ وَبِہِ یَخرُْجُ بَرَ اٰ کتُ الاَرضْ
فَةُ بَعدَْکَ ؟ فَنَهَضَ عليہ السلام مُسرعاً اٰقلَ قُلتُْ لَہُ یَابنَْ رَسولِ اللہِّٰ فَمَنِ الاِْ اٰ ممُ وَالخَْلی
نَ فَدَخَلَ البَيتَْ ثُمَّ خَرَجَ وَعَل یٰ عٰاتَقِہِ غُ لاٰمٌ اٰ کنَ وَجهُْہُ القَْمَرُ لَيلَْةَ البَْدرِْ مَن اَب اْٰنءِ الثَّ اٰلثَ سِنی
فَ اٰ قلَ اٰی اَحمَْدَ بنَْ اِس حْٰاق ، لَو اْٰل کَرامَتُکَ عَلَی اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ وَعَ لٰی حُجَجِہِ اٰ م عَرَضتُ عَلَيکَْ
ی یَملْاَءُ الاَْرضَْ قِسطْاً وَعَدلْاً کَ مٰامُلِئَت جَورْاً هٰذا اِنہُ سَمِیِّ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) وَکُنِيِّہِ الَّذ اِبنْی
وَظُلمْ
القَْرنَْينِْ ، اٰی اَحمَْد بنَْ اِس حْٰاق ، مَثَلُہُ فِی هٰذِہِ الاُْمَةِ مَثَلُ الخِْضرِْ عليہ السلام وَمَثَلُ ذی
وَاللہّٰ ليغيبنّ غَيبَْةً لا یَنجُْوا مِن هْٰا مِنَ الهَْلَکَةِ اِلاَّ مَن ثَبَّتَہُ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ عَلَی القَْولِْ بِاِ اٰ ممَتِہِ وَوَفَّقَہُ
لِ فَرَجِہِ ، فَ اٰ قلَ اَحمَْدُ بنِْ اِس حْٰاق فَقُلتُْ لَہُ : اٰی مَو لْاٰیَ فَهَل مِن عَ لاٰمَةٍ هٰا لِلدعاء بِتَعجْی فی
حٍ ، فَ اٰ قلَ اَنَا بَقِيَّةُ اللہِّٰ فی فَنَطَقَ الغُْ لاٰمُ عليہ السلام بِلِ سٰانٍ عَرَبِیٍ فَصی ؟ یَطمَْئِنَّ اِلَي هْٰا قَلبْی
اَرضِْہِ ، وَالمُْنتَْقِمُ مِن اَع اْٰ دئِہِ فَ لاٰ نَطلُْب اَثَر بَعدَْ عَينٍْ اٰی اَحمَْدَ بنِْ اِس حْٰاق
فَ اٰ قلَ اَحمَْدَ بنِْ اِس حْٰاق فَخَرَجتُْ مَسرُْوراً فَرِحاً ، فَلَّ مٰا کَا نٰ مِنَ الغَْدِ عُدتُ اِلَيہِْ فَقُلتُْ یَابنَْ
ہِ مِنَ الخِْضرِْ وَ ذی رَسُولُ اللہِّٰ لَقَد عَظُمَ سُرُوری بِ مٰا مَنَنتَْ بِہِ عَلَیَّ فَمَا السُّنَّةُ ال جْٰارِیَةِ فی
القَْرنَْينِْ ؟ فَ اٰ قلَ طُولُ الغَْيبَْةِ ، قُلتُْ: یَابنَْ رَسُولِ اللہِّٰ وَاِنَّ غَيبَْتَہُ لَتَطُولُ ؟
نَ بِہِ وَلا یَب قْٰی اِلَّا مَن اَخَذَ اللہُّٰ حَتّ یٰ یَرجِْعَ عَن هٰ اٰ ذ اَلاَْمرِْ اَکثَْرُ ال اْٰ قئِلی وَرَبّی اٰقلَ: ای
اٰ منَ وَاَیَّدَہُ بِرُوحٍ مِنہُْ قَلبِْہِ الاْی عَزَّوَجَلَّ عَهدَْہُ لِوِ لایَتِ اٰن وَکَتَبَ فی
اٰی اَحمَْدَ بْنَ اِس حْٰاق هٰ اٰ ذ اَمرٌ مِن اَمرِ اللہِّٰ وَسِرٌّ مِن سِرِّ اللہِّٰ وَغَيبٌْ مِن غَيبِْ اللہِّٰ فَخُذ اٰ م
) ینَ ” ( ١ عِلِّی نَ تَکُن مَعَ اٰن غَداً فی تَاٰيتُْکَ وَاکتُْمہُْ وَکُن مِنَ الشّاکِری
علامہٴ جليل القدر شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے احمد ابن اسحاق ابن سعد اشعری سے
روایت بيان کی ہے، اُن کا بيان ہے کہ ایک مرتبہ ميں حضرت امام حسن عسکری - کی خدمت
ميں اِس ارادے سے حاضر ہوا کہ دریافت کروں کہ آپ نے اپنا جانشين کس کو مقرر فرمایا ہے۔
مگر ميرے سوال کرنے سے قبل ہی آپ نے فرمایا: اے احمد بن اسحاق! الله تعالیٰ نے
خلقت آدم سے یومِ قيامت تک زمين کو اپنی حجّت سے کبهی خالی نہ چهوڑا تاکہ اس کی
وجہ سے اہلِ زمين کی بلائيں دور کرتا رہے، اس کی ہی وجہ سے پانی برساتا رہے، اس کی
وجہ سے زمين سے برکتيں ظاہر فرماتا رہے۔
ميں نے عرض کيا: یابن رسول الله! پهر آپ کے بعد امام و خليفہ کون ہوگا۔؟
یہ سن کر آپ اُڻهے، گهر ميں داخل ہوئے اور جب واپس آئے تو آپ کے دوشِ مبارک پر ایک
تين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢۴ ۔ باب ذکر من رآہ “ع”۔ ، ١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣٨۴ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٢٣ (
سالہ بچہ تها جس کا چہرہٴ مبارک چودهویں رات کے چاند کی طرح منور تها۔
آپ نے فرمایا: اے احمد! اگر الله اور الله کی حجّت کی نظر ميں تمہاری کوئی وقعت نہ
ہوتی تو ميں اپنے اِس بچے کو تمہارے سامنے نہ لاتا۔ یہ بچہ وہ ہے جس کا نام اور جس کی
کنيت خود ہمارے جدّ امجد رسول الله (ص) تجویز فرما گئے تهے۔ یہی زمين کو عدل و انصاف
سے اسی طرح بهر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوئی ہوگی۔
اے احمد بن اسحاق! اس بچے کی مثال اِس اُمت ميں خضر - کی طرح ہے اس کی
مثال ذوالقرنين کی مثال ہے۔ خدا کی قسم، اس کی ایسی غيبت ہوگی کہ جس ميں ہلاکت
سے نجات وہی پائے گا جس کو الله تعالیٰ اِس کی امامت پر ثابت قدم رکهے گا اور اس امر کی
توفيق دے گا کہ وہ اس کی غيبت ميں تعجيلِ ظہور کے ليے دعا کرتا رہے گا۔
احمد ابن اسحاق کا بيان ہے کہ ميں نے عرض کيا: مولا و آقا! کيا کوئی ایسی علامت
بهی ہے جس سے ميرا قلب مطمئن ہوجائے؟
یہ سن کر اُس بچے نے فصيح عربی زبان ميں فرمایا: سنو! “ميں الله کی زمين پر الله
کی طرف سے باقی رہنے والا ہوں، ميں الله کے دشمنوں سے انتقام لينے والا ہوں۔ اور اے احمد
ابن اسحاق، اب اپنی آنکهوں سے دیکه لينے کے بعد کوئی علامت تلاش نہ کرو”۔
احمد ابن اسحاق کا بيان ہے کہ: پهر ميں وہاں سے خوش خوش نکلا۔ اور دوسرے دن
پهر حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کيا: فرزند رسول (ص)! آپ نے (اپنے جانشين کی زیارت سے)
مجه پر احسان فرمایا ہے اس سے مجهے بے حد خوشی ہے مگر یہ تو فرمائيے کہ ان ميں
حضرت خضر - اور حضرت ذی القرنين کی کيا صفات ہوں گی؟
آپ نے فرمایا: طویل غيبت، ميں نے عرض کيا: فرزند رسول (ص) کيا ان کی غيبت بہت
طویل ہوگی؟
آپ نے فرمایا: ہاں، خدا کی قسم اتنی طولانی غيبت ہوگی کہ اکثر لوگ جو ان کی
امامت کے قائل ہوں گے وہ بهی اپنے قول سے پهرجائيں گے،صرف وہی لوگ رہ جائيں گے جن
سے الله تعالیٰ نے ہماری ولایت کا اقرار لے ليا ہوگا، جن کے دلوںپر الله نے ایمان کو نقش کردیا
ہوگا، اور جن کی مدد روح القدس کے ذریعہ فرمائی ہوگی۔
اے احمد ابن اسحاق! یہ قدرت کے کرشموں ميں سے ایک کرشمہ، الله کے اسرار ميں
سے ایک راز اور الله کے غيوب ميں سے ایک غيبت ہے۔ ميں نے جو کچه بتایا ہے اُسے یاد رکهنا،
دل ميں پوشيدہ رکهنا، خدا کا شکر ادا کرتے رہنا، تم کل کے دن عليين کے درجے ميں ہوگے۔
)مولف کہتے ہيں (:
یہ دو واقعہ (ازدی اور احمد ابن اسحاق کے متعلق) اس بات کی تصدیق اور نشان دہی
کرنے والا ہے کہ حضرت بقية الله الاعظم حجت ابن الحسن العسکری عجل الله تعالیٰ فرجہ
الشریف کا مقدس وجود قرآن مجيد کی طرح ہے جو شخص ان کے شرف حضور کی سعادت
سے مشرف ہوگا یا اس کی ہدایت ميں اضافہ ہوگا یا اگر اس کے عقيدے ميں کوئی نقص ہوگا وہ
برطرف ہوجائے گا۔
اور یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ یہ منقبت و فضيلت صرف انہيں بزرگوار سے
مخصوص نہيں ہے بلکہ ان کے تمام آباء و اجداد کرام ائمہٴ طاہرین ميں سے ہر ایک قرآن مجيد
کی طرح ہيں جو شخص ان کے شرف حضور کی سعادت سے مشرف ہوگا اور ان کا ہم رکاب رہا
ہوگا ان کی ہمسائيگی اور ان کے تقرب کی وجہ سے ایسا صاف وشفاف ہوگا کہ ان کی عنایات
و الطاف اس کے شامل حال ہونے کے علاوہ قابل مدح و ثنا بلکہ لائق شکر و اطمينان بهی ہوگا۔
اب ہم چند مورد (جليل القدر اصحاب) کی طرف تبرکاً اشارہ کر رہے ہيں۔
۶٣۵ ۔ “ وفی الاختصاص : باسنادہ عَن سُلَيمْانِ بن خالِدِ الاَْقطَْعُ اٰقلَ سَمِعتُْ اَ اٰب عَبدِْ اللہّٰ
رِ عليہ السلام اِلاَّ زُرٰارَةَ وَ اَبُو بَصی ثَ اَبی عليہ السلام یَقُولُ اٰ م اَجِد اَحَداً اَح اْٰي ذِکرَْ اٰن وَاَ حٰادی
وَمُحَمَّد بْنَ مُسْلِم وَبُرَیدِ بْنِ مُعٰاوِیَة وَلَوْلا هٰوٴلٓاءِ مٰاکٰان اَحدٌ یَسْتَنْبِطُ هُدیً ، هٰوٴلٓاءِ حُفّٰاظُ الْمُرادی
عليہ السلام عَ لٰی حَ لاٰلِ اللہِّٰ وَحَ اٰرمِہِ وَهُمُ الساٰبِّقُونَ اِلَي اْٰن فی الدُنيا وَالاْٴخِرَةِ نِ وَاُمَ اٰنءُ اَبی الدّی
)١) ’”
اختصاص ميں بطور مسند سليمان ابن خالد اقطع سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ: ميں
نے امام جعفر صادق - کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ميں نے اپنے ذکر اور اپنے والدِ ماجد کی
احادیث کو احياء (زندہ) کرنے والا سوائے زرارہ، ابوبصير مرادی، محمد ابن مسلم اور برید ابن
معاویہ کے کسی کو نہيں پایا اگر یہ (مذکورہ افراد) نہ ہوتے تو کسی شخص کو راہِ استنباط کی
ہدایت نصيب نہ ہوتی یہ لوگ دین اسلام کے پاسباں ہيں، اور ميرے والد ماجد امام باقر العلوم
کے امين ہيں جو حلال خدا اور حرام خدا کے امانت دار ہيں اور وہی لوگ دنيا و آخرت ميں ہمارے
فرمودات کی پيروی کرنے ميں پيش قدم ہيں۔
د قٰالَ اَبُو عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام رَحِمَ اللّٰہُ ۶٣۶ ۔ “وفيہ باسنادہ عَن اِبرٰاہيمِ بْنِ عَبْدُ الْحَمی
) ی عليہ السلام” ( ٢ ثِ اَب زُرٰارَةَ بْنَ اَعْيَنْ لَوْ لا زُرٰارةُ لاَ ندَرَسَتْ اٰثٰارُ النُّبُوةُ اَحٰادی
اسی کتاب ميں بطور مسند ابراہيم ابن عبد الحميد کا بيان ہے: حضرت امام جعفر صادق
- نے فرمایا: الله زرارہ ابن اعين پر اپنی رحمت نازل کرے اگر زرارہ نہ ہوتے تو آثارِ نبوت (جو وہی
ميرے والد گرامی کی حدیثيں ہيں) کہنہ اور مٹ گئے ہوتے۔
اَبوْ جَعفَْرٍ عليہ السلام اٰقلَ حَدَّثَنی دِ بْنِ الْجُعْفی ۶٣٧ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَنْ جٰابِرَ بْنِ یَزی
ثاً لَم اُحَدِّث بِ هٰا اَحَداً قَطُّ وَ لاٰ اُحَدِّثُ بِ هٰا اَحَداً اَبَد نَ اَلفِْ حَدی سَبعْی
وَقرْاً قال جابر : فقلت لا بی جعفر عليہ السلام جُعِلْتُ فَدٰاکَ اِنَّکَ حَمَلْتَنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ۶۶ ۔رجال کشی، ص ٩٠ ۔ (
٢(۔ الاختصاص، ص ۶۶ ۔ رجال کشی، ص ٩٠ ۔ (
حَتّ یٰ صَدرْی لاٰ اُحَدِّثُ بِہِ اَحَداً ، وَرُبَّ مٰا جٰاشَ فی ماً بِ مٰا حَدَّثتَْنی بِہِ مِن سِرِّکُمُ الَّذی عَظی
رَةً وَدَلِّ ہِ الْجُنُونْ اٰقلَ اٰی جٰابِرُ فَاِ اٰ ذ اٰ کنَ لٰذِکَ فَاخرُْج اِلَی الجُْباٰنِّ فَاحفَْر حَفی مِنہُْ شَبی یَاٴْخُذُنی
) بِکَ اٰ ذ وَکَ اٰ ذ ” ( ١ مُحَمَّدُ بنِْ عَلی هٰا ثُمَّ قٰالَ حَدَّثَنی رَاٴسَْکَ فی
اس کتاب ميں جابر ابن یزید جعفی سے استناد کرتے ہوئے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے:
حضرت امام محمد باقر العلوم - نے مجه سے ایسی ستّر ہزار احادیث بيان فرمائيں جو اسرار آل
محمد ہيں وہ ميں نے کسی سے بيان نہيں کيں اور نہ ہی آئندہ کسی سے (تا قيامت) بيان
کروں گا۔
ایک دن ميں نے امام محمد باقر - سے عرض کيا:
ميں آپ پر قربان جاؤں آپ نے مجه پر بہت بار عظيم لاد دیا ہے کيوں کہ آپ نے مجه سے
اپنے راز کی وہ ستّر ہزار احادیث بيان کی ہيں جنہيں ميں کسی سے بيان نہيں کرسکتا۔ اس
وجہ سے ميرے سينے ميں بعض اوقات ایک جوش و تلاطم پيدا ہوتا ہے اور ميں اپنے کو پاگل
جيسا محسوس کرنے لگتاہوں۔
امام محمد باقر - نے فرمایا: اے جابر! جب تمہيں اپنے سينہ ميں تلاطم محسوس ہو تو
کسی ویران جگہ پر جاکر ایک گڑها کهود ليا کرو اور اس ميں اپنا سر داخل کرکے کہا کرو کہ مجه
سے محمد باقر - نے یہ یہ فرمایا تها (اس عمل سے تمہارے سينے کا بار عظيم کم ہوجائے
گا)۔
من جملہ انہيں افراد ميں سے ميثم تمار ہيں جو عظيم بندگی اور حضرت علی ابن ابی
طالب - کی ولایت عظمیٰ کی معراج پر پہنچے ہوئے تهے کہ انہيں ماہِ رمضان کی شب انيس
کے واقعہ اور ضربت ابن ملجم کی عظيم مصيبت واقع ہونے کے متعلق خبر دے رہے ہيں کہ جس
کے نتيجے ميں حضرت کی ریش مبارک ان کے سر مبارک کے خون سے خضاب ہوگی۔
رُ اَسَدَ فَاشُتِ اٰرہُ اَمی ۶٣٨ ۔ “وفی کتاب الغارات : اٰ کنَ مَيثَْمُ عَبدْاً لِامرَْاٴَةٍ مِن بَنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ رجال کشی، ص ١٢٨ ۔ بحار الانوار، ج ١١ ، ص ٩٧ ۔ (
رٍ وَاَس اْٰررٍ خَفِيَّةٍ مِن المُْوٴمِْنينَ عليہ السلام وَاَعتِْقَہَ وَاَطَّلَعَہُ عِلِیٌّ عليہ السلام عَ لٰی عِلمٍْ کَثی
ہِ قَومٌْ مِن اَهلِْ الکُْوفَةِ وَیَنسِْبُونَ عَلِيّاً اَس اْٰررِ الوَْصِيَّةِ ، ف اٰ کنَ مَيثَْم یُحَدِّثُ بِبَعضِْ لٰذِکَ فَيَشُکُّ فی
سِ حَتّ یٰ اٰقلَ عليہ السلام یَومْاً بِمَحضَْرٍ مِن خَلقٍْ هٰامْ وَالتَّدْلی لٰذِکَ اِلَی المُْخرِْفَةِ وَالاٴی فی
) وَتُصلَْب الخ ” ( ١ هِمُ الشاٰکُّ وَالمُْخلِْصُ اٰی مَيثَْم اِنَّکَ تُوٴخَْذُ بَعدْی رٍ مِن اَص حْٰابِہِ وَفی کِثی
کتاب غارات ميں مذکور ہے کہ ميثم ابن اسد کی ایک خاتون کے غلام تهے حضرت امير
المومنين - نے انہيں خرید کر راہِ خدا ميں آزاد کردیا اور انہيں بہت سے علوم اور نا گفتہ بہ
اسرار و رموز سے باخبر کيا۔
یہی وجہ تهی کہ ميثم کبهی بعض ان علوم ميں سے ایسی چيزیں بيان کرتے تهے کہ
اہل کوفہ شک و حيرت ميں پڑ جاتے تهے۔
اور حضرت علی - کی طرف خرافات و موہومات اور خود ساختگی کی نسبت دیتے تهے۔
یہاں تک کہ ایک دن حضرت امير المومنين علی - اپنے اصحاب کے کثير مجمع ميں کہ ان ميں
سے بعض شک ميں تهے اور بعض دوسرے آپ کے معتقد اور مخلص تهے فرمایا: اے ميثم!
تمہيں ميرے بعد گرفتار کيا جائے گا اور تمہيں دار پر لڻکایا جائے گا۔ الخ۔
لا یَحتَْملہُ اِلاَّ مَلَکٌ اسی کتاب ميں مذکورہ ہے: “اِنَّ مَيثَْماً اٰ کنَ مِمَّن یَحتَْمِلُ العِْلمَْ الَّذی
) مٰانِ ” ( ٢ مُقَرَّبٌ اَو نَبِیٌ مُرسَْلٌ اَو عَبدٌْ اِمتَْحَنَ اللہُّٰ قَلبَْہُ لِلای
یقينا ميثم ان افراد ميں سے تهے جو ایسے علم کے حامل تهے کہ اس علم کو سوائے
مقرب فرشتے یا نبی مرسل کے یا وہ بندہ کہ جس کے قلب کا خداوند متعال نے ایمان کے
ذریعہ امتحان ليا ہوگا تحمل نہيں کرسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الغارات، ج ٢، ص ٧٩٧ ۔ بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ٣۴٣ ۔ (
٢(۔ الغارات، ج ٢، ص ٧٩٨ ۔ (
ليکن حدیث ميثم اور ان کی شہادت کی کيفيت تراجم رجال ميں علامہ مجلسی رضوان
الله عليہ وغيرہ نے شيخ مفيد عليہ الرحمہ کی مبارک کتاب الارشاد سے نقل کيا ہے ۔ لہٰذا ہم
نے بهی شيخ مفيد کے نسخہ کا انتخاب کيا ہے۔
دُ طٰابَ اللّٰہُ دِ الشَيْخُ المُفی ن مُولانَا الشَيْخ السَّعی ۶٣٩ ۔ “منها مٰا رُوٰاہُ فَخْر الْمُحْدِثی
نَ عليہ السلام وَاَخ اْٰبرِہِ عَنِ رِ المُْوٴمِنی کِ اٰتبِہِ الاِر شْٰادِ عِندَْ اٰ م یَذکُْر مُعجِْ اٰزتِ اَمی ثَرٰاہُ فی
نَ عليہ رُ الْمُوٴمِنی المَْغَيَّ اٰبتِ : اِنَّ مَيثَْمَ التَمَّارَ اٰ کنَ عَبدْاً لاِمرَْاٴَةٍ مِن بَنِی اَسَدَ فَاشتَْ اٰرہُ اَمی
رَسُولُ اللہُّٰ (ص) اِنَّ اِسمَْکَ السلام مِن هْٰا فَاَعتَْقَہُ فَ اٰ قلَ لَہُ مَا اسمُْکَ فَ اٰ قلَ سٰالِم ، فَ اٰ قلَ اَخبَْرَنی
نَ رَ المَْوٴمِنی سَماٰکَّ بِہِ اَبَ اٰوکَ فیِ العَْجَمِ مَيثَْمَ ، اٰقلَ صَدَقَ اللہُّٰ وَ رَسُولُہُ وَصَدَقتَْ اٰی اَمی الَّذی
سَمّٰاکَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) وَدَع سٰالِماً ، فَرَجَعَ اٰقلَ فَارجِْعُ اِ لٰ ی اِسمِْکَ الَّذی وَاللہِّٰ اِنَّہُ لَاِسمْی
فََتُصلَْبُ وَتُطعَْنُ سَالِمٍ ، فَ اٰ قلَ لَہُ عَلِیٌ عليہ السلام اٰ ذتَ یَومٍْ اِنَّکَ تُوٴخَْذُ بَعدْی مَيثَْمَ وَاکتَْ نٰی بِاَبی
بِحَربَْةٍ ، فَاِ اٰ ذ اٰ کنَ یَومُْ اٰثلِثِ اِبتَْدَرَ مُنخَْ اٰرکَ وَفَمُکَ دَمًا وَیَخضَْبُ لِحيَْتُکَ فَانتَْظِرُ لٰذِکَ الخِْ صٰابَ فَتُصلَْبُ
عَ لٰی اٰببِ اٰ درِ عَمرِْو بنِْ حُرَثٍ عٰاشِرِ عَشرَْةَ اَنتَْ اَقصَْرُهُم خَشبَْةً وَاَقرَْبُهُم مِنَ المُْطَهَرِةِ وَامضِْ حَتیّٰ
عِنُدَ هٰا وَیَقُولُ هٰا فَيُصَلّی تُصلَْبُ عَ لٰی جِذعِْ هٰا ، فَاٴ اٰرہُ ایاٰ هّٰا وَ اٰ کنَ مَيثَْمُ یَاٴتی اُرِیَکَ النَخلَْةِ الَّتی
تِ ، وَلَم یَزَلُ یَتَ اٰ عهَدُ هٰا حَتیّٰ قُطِعَتُ وَحَتیّٰ عَرِفَ الُمَوضِْعَ بُورِکتَْ مِن نَخلَْةٍ لَکَ خُلِقتُْ وَلِیَ غُذّی
مُ جٰاوِرُکَ فَاَحسِْنُ عَمرَْ وبنَْ حُرَیثٍْ فَيَقُولُ لَہُ اِنّی یُصلَبُ عَلَي هْٰا بِالکُْوفَْةِ ، اٰقلَ وَ اٰ کنَ یُلقْی الَّذی
مٍ وَهُوَ لاٰ یَعُلَمُ اٰ درَ بنَْ مَسعُْودٍ اَو اٰ درَبنَْ حَکی دُ اَن تَشتَْری فَيَقُولُ لَہُ عَمرٌْ اٴَتُری جَ اٰوری
ی هٰا فَدَخَلَ عَ لٰی اُمِّ سَلَمَةَ فَ اٰ قلَت مَن اَنتَْ ؟ اٰقلَ اَ اٰن قُتِلَ ف السَّنَةِ الَّتی دُ وَحَجَّ فی مٰایُری
جَوفِْ اللَّيلِْ، بِکَ عَلِيّاً فی مَيثَْمَ اٰقلَت وَاللہِّٰ لَرُبَّ مٰا سَمِعتُْ رَسُولُ اللہِّٰ (ص) یَذکُْرُکَ وَیُوصی
قَد اَحبَْبتَْ ہِ اِنَّنی حٰایِطٍ لَہُ اٰقلَ اَخبِْری فَسَاٴَلَ هٰا عَنِ الحُْسَينِْ عليہ السلام ؟ فَ اٰ قلَت هُوَ فی
بٍ نَ اِن شْٰآء اللہُّٰ تَعالی، فَدَعَت اُمُّ سَلَمَةَ بِطی السَّلامُ عَلَيہِْ وَنَحنُْ مَلتَقُونَ عِندَْ رَبِّ ال اْٰ علَمی
وَطَيَّبَتُ لِحيَْتَہُ وَ اٰقلَت لَہُ اَ اٰ م اِنَّ هٰا سَتُخضَْبُ بِدَمٍ ، فَقَدِمَ الکُْوفَْةَ فَاٴَخَذَہُ عُبَيدُْاللہِّٰ بنِْ زِ اٰیدٍ فَاُدخِْلَ عَلَيہِْ
لَ لَہُ لَ لَہُ هٰ اٰ ذ اٰ کنَ مِنُ ثَاٰرِ الناٰسِّ عِندَْ عَلِیٍ عَلَيہِْ السلام ، اٰقلَ وَیَحکُم هٰذَا الاَْعجَْمیُ ؟ قی فَقی
نَعَم اٰقلَ لَہُ عُبَيدُْ اللہّٰ اَینَْ رَبُّکَ ؟ اٰقلَ بِالمِْرصَْادِ لِکُلِّ ظٰالِمٍ واَنتَْ اَحَدُ الظَلَمَةَ اٰقلَ اِنَّکَ عَ لٰی عَجُمَتِکَ
عٰاشِرُ عَشرَْةَ اٴَنَا تَصْلُبْنی اٰفعِلٌ بِکَ اٰقلَ اَخبَْرنْی دُ اٰ م اَخبَْرَکَ صٰاحِبُکَ اِنّی تُری لَتَبْلُع الَّذی
اِلاَّ عَنِ اَقصَْرهُْم خَشَبَةً وَاَقرَْبُهُم اِلَی المُْطهَرَةِ اٰقلَ لاٰ خٰالِفَنَّہُ ، اٰقلَ کَيفَْ مُ خٰالِفُہُ فَوَاللہِّٰ اٰ م اَخبِْرنْی
اُصْلَبْ لُ عَنِ اللہّٰ تَعال یٰ فَکَيفَْ مُ خٰالِفٌ هولٓاءِ وَلَقَد عَرِفتُْ المُْوضِْعَ الَّذی النَّبیِّ (ص) عَن جِبرْئی
الا س لْاٰمِ فَحَبَسَہُ وَحَبَسَ مَعہُ مُخ اْٰترَ بنَْ اَبی عَلَيہِْ اَینَْ مِنَ الکُْوفَةِ اٴَنَا اَوَّلُ خَلقِْ اللہِّٰ اُلجِْمَ فی
تَقتُْلُ هٰا فَلَماٰ عُبَيدٍْ اٰقلَ لَہُ مَيثَْمُ اِنَّکَ تَفلُْتُ وَتَخرُْجُ اٰثئِرًا بِدَمِ الحُْسَينِْ عليہ السلام فَتَقتُْلُ هٰذَا الَّذی
لَةٍ دُ اِلٰی عُبَيْدُ اللّٰہِ یَاٴمُرُہُ بتخلية سَبی دٌ بِکِ اٰتبِ یَزی دَ عٰا عُبَيدُْ اللہِّٰ بِالٴمُْخُ اٰترِ لِيَقتُْلَہُ طَلَعَ بَری
فَخَ لاٰہُ وَاَمَر بِمَيثَْمَ اَن یُصلَْب ، فَاُخرِْجَ فَ اٰ قلَ لَہُ رَجُلٌ لَقِيَہُ اٰ م اٰ کنَ اَغ اْٰنکَ عَن هٰ اٰ ذ اٰی مَيثَْم ، فَتَبَسِّمَ
تِ ، فَلَماٰ رُفِعَ عَلَی الخَْشَبَةِ اِجمَْتَعَ الناٰسُّ اَلَی النَخلَْةِ لَ هٰا خُلِقتُْ وَلِیَ غُذّی وَ اٰقلَ وَهُوَ یُوحی
مُ جٰاوِرُکَ فَلَماٰ صُلِبَ اَمَرَ جٰارِیَتَہُ حَولَْہُ عَل یٰ اٰببِ عَمرِْوبنِْ حُرَیثٍْ ، اٰقلَ عَمرْوٌ قَد اٰ کنَ وَاللہِّٰ یَقُولُ اِنّی
لَ لاِبنِْ ز اٰیدٍ اٰہشِمَ ، فَقی رِہِ فَجَعَلَ مَيثَْمُ یُحَدِّثُ بِفَ ضٰائِلِ بَنی بِکَنسِْ تَحتِْ خَشَبَةِ وَرَشِہُ تَجمی
الاِس لْاٰمِ وَ اٰ کنَ قُتِلَ مَيثَْمُ قَبلَْ قَد فَضَحُکُم هٰذَا العَْبدُْ فَ اٰ قلَ اَلجِْمُوہُ وَ اٰ کنَ اَوَّلُ خَلقِْ اللہِّٰ اَلجِْمَ فی
قُدُومُ الحُْسَينِْ بنِْ عَلِیٍ عليہ السلام اَلعِْ اٰرقَ بِعَشرَْة اَیاٰمٍّ فَلَماٰ اٰ کنَ اليَْومُْ ال اٰثلِثُ مِن صُلبِْہِ طُعِنَ
) اٰ خِرِ النَّ هٰارِ فَمُہُ وَاَنفُْہُ دَمًا ” ( ١ مَيثَْمُ بِالحَْربَْةِ فَکُبّر ثُمَّ اِنبَْعَثَ فی
محقق جليل القدر شيخ مفيد عليہ الرحمہ اپنی کتاب ارشاد ميں جہاںمعجزات و مغيبات
اور مستقبل کی خبروں کے متعلق نقل کرتے ہيں ان ميں سے ایک واقعہ ميثم تمار کا بهی ہے
مولا امير الومنين - کی خدمت کو درک کرنے سے پہلے ميثم تمار ابن اسد کی عورت کے غلام
تهے اور امير المومنين - نے ميثم کو اس عورت سے خرید کرکے آزاد کيا تو آپ نے اس سے
پوچها: تيرا نام کيا ہے؟ اس نے کہا: سالم، تو آپ نے فرمایا: مجهے رسول الله (ص) نے خبر دی
تهی کہ تيرا نام جو عجم ميں تيرے ماں باپ نے رکها وہ ميثم ہے تو انہوں نے کہا کہ: الله اور اس
کے رسول (ص) اور آپ نے اے امير المومنين - سچ فرمایا خدا کی قسم! ميرا یہی نام ہے تو
آپ نے فرمایا: پهر اپنے اصلی نام کی طرف پلٹ جاؤ جس نام سے رسول الله (ص) نے تمہيں
یاد کيا ہے اور سالم کو چهوڑ دو پس ميثم کے نام کی طرف پلٹ آئے اور اپنی کنيت ابو سالم
رکهی۔
ایک دن حضرت علی - نے ان سے فرمایا کہ: ميرے بعد تمہيں گرفتار کرکے سولی پر
لڻکایا جائے گا اور تمہيں نيزے سے مارا جائے گا پس جب تيسرا دن ہوگا تو تمہاری ناک اور منہ
سے خون جاری ہوگا جس سے تمہاری داڑهی خضاب ہوگی اس خضاب کا انتظار کرو پس تمہيں
عمرو ابن حریث کے گهر کے دروازے پر سولی پر لڻکایا جائے گا تو تم دس افراد ميں سے
دسویں فرد ہو گے کہ جس کی سولی کی لکڑی سب سے چهوڻی ہوگی، اور وضو خانہ کے
زیادہ قریب ہوگا اور چلو! ميں تمہيں وہ کهجور دکهاؤں جس کے تنے (کی لکڑی) پر سولی دی
جائے گی پهر آپ نے وہ درخت دکهایا۔
ميثم اس کے قریب آکر نماز پڑها کرتے تهے اور کہتے کہ تجهے برکت نصيب ہو اے کهجور
کے درخت! ميں تيرے ليے خلق ہوا ہوں اور تجهے ميرے ليے غذا دی گئی ہے اور ہميشہ اس
کی نگرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الغارات، ج ٢، ص ٧٩٧ ۔ الارشاد، ج ١، ص ٣٢۵ ۔ (
کرتے رہے یہاں تک کہ اسے کاٹ دیا گيا اور انہيں وہ مقام بهی معلوم تها جہاں کوفہ ميں
پهانسی پر لڻکایا جاتا تها اور ميثم جب عمرو بن ثابت سے ملاقات کرتے تو کہتے: ميں تيرا
پڑوسی بننے والا ہوں پس ميری اچهی ہمسائيگی کرنا تو عمرو اس سے کہتا کہ: کيا تو نے ابن
مسعود کا مکان لينا چاہا ہے یا ابن حکيم کا اور وہ نہيں جانتا تها کہ ميثم کی مراد کيا ہے۔
ميثم نے اس سال حج کيا جس ميں قتل ہوئے پس جناب ام سلمہ رضی الله عنہا کی
خدمت ميں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ: تم کون ہو تو کہا کہ: ميں ميثم ہوں ۔ کہا: ميں نے
بسا اوقات رسول الله سے سنا وہ تمہارا ذکر کرتے تهے اور علی - کو پردہٴ شب ميں تمہارے
متعلق وصيت کرتے تهے پس ميثم نے ان سے امام حسين - کے متعلق سوال کيا توآپ نے
جواب دیا: وہ اپنے باغ ميں گئے ہوئے ہيں عرض کيا ان کو بتائيے گا کہ ميں ان کو سلام کرنا
چاہتا تها اور انشاء الله عالمين کے پروردگار کے ہاں ہماری ملاقات ہوگی۔
پس جناب ام سلمہ نے خوشبو منگوائی اور ميثم کی داڑهی کو خوشبو لگائی ان سے
کہا: یاد رکهو عنقریب یہ خون سے خضاب ہوگی پس ميثم کوفہ ميں آئے تو عبيد الله ابن زیاد
لعين نے انہيں گرفتار کيا جب اس کے دربار ميں داخل ہوئے تو اس لعين سے کہا گيا کہ یہ
شخص علی - کے ہاں سب سے زیادہ ترجيح رکهتا تها تو وہ کہنے لگا: افسوس ہے تم پر یہ
عجمی ہے؟ بتایا گيا ہاں! تو عبيد الله نے ميثم سے کہا: تيرا رب کہاں ہے؟ جواب دیا: ہر ظالم
کی گهات ميں ہے اور ان ظالموں ميں سے تو بهی ہے تو وہ لعين کہنے لگا: تو عجمی ہوکر اس
جگہ پر پہنچ جائے گا جہاں تو چاہتا ہے تيرے ساتهی نے تجهے کيا خبر دی کہ ميں تجه سے
کيا سلوک کروں گا تو کہا کہ آپ نے مجهے خبر دی تهی کہ ميں دسواں آدمی ہوں گا جسے تو
سولی پر لڻکائے گا ميری لکڑی ان سب سے چهوڻی ہوگی اور وہ طہارت خانہ کے قریب ہوگی
وہ کہنے لگا کہ ہم اس کے قول کی مخالفت کریں گے تو ميثم اس ملعون سے کہنے لگے کہ :
تو مخالفت کيسے کرسکتا ہے پس خدا کی قسم! آپ نے جو کچه خبر دی ہے وہ نبی کریم
(ص) سے اور نبی کریم نے جبرئيل سے اور انہوں نے الله تعالیٰ سے دی ہے تم ان سب کی
مخالفت کيسے کرو گے اور ميں تو اس جگہ کو بهی جانتا ہوں جہاں پر مجهے سولی پر لڻکایا
جائے گا کہ وہ کوفہ ميں کہاں ہے اور الله تعالیٰ کی مخلوق ميں سے پہلا شخص ہوں کہ جس
کے منہ ميں لگام دی جائے گی پس اس لعين نے ميثم کو قيد کردیا اور اس کے ساته مختار ابن
ابو عبيدہ کو بهی قيد کردیا تو ميثم نے مختار سے کہا کہ تم امام حسين - کے خون کا بدلہ
لينے کے ليے رہا کردیئے جاؤ گے پس تم اس کو قتل کرو گے جو ہميں قتل کرنا چاہتا ہے۔
تو جب عبيد الله لعين نے مختار کو بلایا تاکہ وہ اسے قتل کرے تو قاصد عبيد الله کے نام
یزید کا خط لے کر آیا وہ اس کو حکم دے رہا تها کہ مختار کو رہا کردو اور اس نے مختار کو چهوڑ
دیا اور ميثم کے ليے پهانسی کا حکم دیا تو ميثم کو نکالا گيا پس ميثم سے ایک شخص نے جو
اس سے ملا کہا کہ تو اس سے کتنا بے پرواہ ہے اے ميثم! تو ميثم مسکرائے اور اس کهجور
کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: ميں اس کے ليے پيدا ہوا ہوں اور اس کو ميرے
ليے غذا دی گئی ہے۔
پس جب ميثم کو اس لکڑی پر لڻکایا گيا تو لوگ ان کے گرد عمرو ابن حریث کے دروازے پر
جمع ہوگئے تو عمرو کہنے لگا کہ: خدا کی قسم! ميثم مجه سے کہا کرتا تها کہ ميں تمہارا
پڑوسی بننے والا ہوں لہٰذا جب ميثم کوسولی پر لڻکایا گيا تو عمرو نے اپنی ایک کنيز سے کہا
کہ اس لکڑی کے نيچے جهاڑو دو اور پانی چهڑکاؤ اور دهونی دو پس ميثم نے فضائل بنی ہاشم
کو بيان کرنا شروع کردیا تو ابن زیاد کو بتا یا گيا کہ اس غلام نے تجهے رسوا کردیا ہے یہ سن کر
اس خبيث نے حکم دیا کہ اس کے منہ ميں لگام دے دو اور وہ الله کی مخلوق ميں پہلا شخص
ہے کہ جس کے منہ ميں لگام دی گئی ہے اور جناب ميثم کی شہات امام حسين - کے عراق
کی طرف آنے سے دس دن پہلے ہوئی پس جب ميثم کی سولی کا تيسرا دن آیا تو اس مظلوم
کو نيزہ مارا گيا اور اس نے تکبير کہی پهر دن کے آخر ميں اس بيکس کے منہ اور ناک سے خون
) بہنے لگا۔ اور شہيد کی صورت ميں رحمت الٰہی سے جاملے۔ ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ جناب ميثم تمار رضوان الله عليہ کے حالات رجال اور حدیثوں کی متعدد کتابوں ميں مختلف (
عبارتوں کے ساته رجال کشی، تفسير عياشی اور ارشاد وغيرہ ميں ذکر ہوئے ہيں مولف نے
صرف ارشاد کے نسخے سے نقل کرنے پر اکتفا کيا ہے۔
ہِ عَن آ اٰبئِہِ صَلَ اٰوتُ الْحَسَنِ الرِّضٰا عَنْ اَبی ۶۴٠ ۔ “وفی البحار عن الکشی و رَوی عَنْ اَبی
لَ لَہُ اِنَّہُ نَ عليہ السلام فَقی رَ المُْوٴمِنی نَ اٰقلَ اٴَن یٰ مَيثَْمُ الَّت مٰارِ اٰ درَ اَمی اللہّٰ عَلَيهِْم اَجمَْعی
اٰنئِمٌ فَ اٰند یٰ بِاَع لْٰی صَوتِْہِ اِنتَْبِہُ اَیُّهَا الناٰئِّمُ فَوَاللہِّٰ لَتُخضَبَنَّ لِحيَْتُکَ مِن رَاٴسِکَ فَ اٰ قلَ صَدَقتَْ وَاَنتَْ وَاللہِّٰ
فِی الکُْ اٰنسةِ فَتَشُقُّ اَربَْع قِطَعٍ فَتُصلَْبُ اَنتَْ لَيقطعَنَّ یَ اٰ دکَ وَرِج لْاٰکَ وَلِ سٰانَکَ وَلَتَقطَْعَنَّ النَخلَْةِ الَّتی
عَ لٰی رُبعِْ هٰا مُحَمَّدُ بنِْ عَدِیٍّ عَ لٰی رُبعِْ هٰا وَمُحَمَّدُ بَْن اَکتُْم عَ لٰی رُبعِْ هٰا وَ خٰالِدُبنِْ مَسعُْودٍ عَ لٰی رُبعِْ هٰا ،
رَ وَقُلتُْ اِنَّ عَلِيّاً لَيُخبِْرُ اٰن بِالغَْيبِْ فَقُلتُْ لَہ اَو اْٰ کئِنٌ اٰ ذکَ اٰی اَمی نَفسْی اٰقلَ مَيثَْمُ فَشَککتُْ فی
ذٰلِکَ یٰا وََرَبِّ الکَْعبَْةِ کَ اٰ ذ عَهِدَہُ اِلَی النَّبِی (ص) اٰقلَ فَقُلتُْ لِمَ یَفعَْلُ بی نَ فَ اٰ قلَ اَی المُْوٴمِنی
ادٍ اٰقلَ وَ اٰ کنَ یمِ ابنِْ الاَْمَةِ ال اْٰ فجِرَةِ عُبَيدُْ اللہّٰ بنِْ زِی نَ فَ اٰ قلَ لَيَاٴخُذَنَّکَ العُْتُلُ الزَّن رَ المُْوٴمِنی اَمی
اٰی مَيثَْم اِنَّ لَکَ وَلَ هٰا شَاٴناً مِنَ الشَّاٴنِ ، اٰقلَ یَخرُْجُ اِلیْ الجُْباٰنَّةِ وَاَنَا مَعُہُ فَيَمُرُّ بِالنَّخلَةِ فَيَقُولُ لی
بِالکَْ اٰنسَةِ فَتَخَرَّقَ فَتَطَيَّرَ ادٍ اَلکُْوفَةَ وَدَخَلَ هٰا تَعلَّقَ عَلَمُہُ بِالنَّخلَْةِ الَّتی فَلَماٰ وَلیّٰ عُبَيدُْ اللہّٰ بنِْ زِی
ینَ فَشَقَّ هٰا اَربَْعَ قِطَعٍ اٰقلَ مَيثَْمُ فَقُلتُْ لِ صٰالِحَ مِن لٰذِکَ فَاَمَرَ بِقَعطِْ هٰا فَاشتَْ اٰرهَا رَجُلٌ مِنَ النَّ جٰار
بَعضِْ تِلکَْ الاَْجُ اٰ ذعِ اٰقلَ فَلَماٰ وَدَقِّہِ فی اٴَبی فَخُذ مِس مْٰاراً حَدِیداً فَانقُْش عَلَيہِْ اِسمْی ابْنی
اِلَيہِْ رِ تَشتَْکی قَومٌْ مِن اَہلِْ السّوقِ فَ اٰ قلُوا اٰیمَيثَْمُ انهَْض مَعَ اٰن اِل یٰ الاَْمی بَعدَْ لٰذِکَ اَیاٰمٍّ اٴَتَوتْی
بُ الْقَوْمِ فنصت لی عَلَي اْٰن غَيرَْہُ ، اٰقلَ کُنتُْ خَطی عٰامِل السُّوقِ فَنَسَاٴلَہُ اَن یَعزِْلَہُ عَناٰ وَیُوَلّی
رَ تَعرِْفُ هٰذَا المُْتَکَلِّمَ اٰقلَ مَيثَْمُ اَلتمَّارِ فَ اٰ قلَ لَہُ عَمَروبنِْ حُرَیثُْ اَصلَْحَ اللہُّٰ الاَْمی وَاَعجَْبَہُ مَنطِْقی
مٰا تَقُولَ ؟ طٰالِبٍ عليہ السلام اٰقلَ فَاستَْو یٰ جٰالِساً فَ اٰ قلَ لی الکَْذاٰبِّ مَولَْی الکَْذاٰبِّ عَلِیٌّ بنِْ اَبی
نَ رُ المَْوٴمِنی طٰالِبٍ اَمی رَ بَل اَنَا صٰادِقُ مَولَْی الاَدِقُ عَلِیُ بنِْ اَبی فَقُلتُْ کَذِبَ اَصلَْحَ اللہُّٰ الاَْمی
لَتَبُرَّاَنَّ مِن عَلِیٍ وَلَتَذکُْرِنَّ مَ سٰاوِیَہُ وَتَتَوَلّیَ عُث مْٰانَ وَتَذَکُّرَ مَ حٰاسِنَةُ اَو عليہ السلام حَقا ، فَقٰالَ لی
بَکَيتُْ منَ القَْولِْ دُونَ الفِْعلِْ ، فَقُلتُْ وَاللہِّٰ اٰ م لَاَقطَْعَنَّ یَدَیکَْ وَرِجُلَيکَْ وَلاٴَصلِْبَنَّکَ فَبَکَيتُْ ، فَ اٰ قلَ بی
سَيِِّدی یَومَْ اَخبَْرَنی بَکَيتُْ مِن شَکٍّ اٰ کنَ دَخَلَنی بَکَيتُْ مِنَ القَْولِ وَلا مِنَ الفِْعلِْ وَلَکِنّی
اِنَّہُ نٰائِمٌ فَنٰادَیْتُ اِنْتَبِہ اِیُّهَا لَ لی وَ اٰ م اٰقلَ لَکَ ؟ اٰقلَ فَقُلتُْ اَتَيتُْہُ ال اْٰببَ فَقی وَمَو لْاٰیَ، فَ اٰ قلَ لی
الناٰئِّمُ فَوَاللہِّٰ لَتخضُبَنَ لِحَيتُْکَ مِن رَاٴسِکَ فَ اٰ قلَ صَدَقتَْ وَاَنتَْ وَاللہِّٰ لِيُقطَْعَنَّ یَ اٰ دکَ وَرِج لْاٰکَ وَلِ سٰانَکَ
نَ عليہ السلام فَقٰالَ یَاٴْخُذُکَ الْعُتُلُّ رَ المُْوٴمِنی یٰا اَمی وَلَتُصلَْبُنَّ ، فَقُلتُْ وَمَن یَفعَْلُ لٰذِکَ بی
ادٍ اٰقلَ فَامتَْلاٴَ غَيظْاً ثُمَّ اٰقلَ وَاللہِّٰ لَاُ قَطِّعَنَّ یَدَیکَْ وَرِجلَْيکَْ مِ ابنِْ الاَمَةِ عُبَيدِْ اللہِّٰ بنِْ زَی الزَنی
وَلَاَدَعن لِ سٰانَکَ حَتّ یٰ اُکَذِّبَکَ وَاُکَذِّبَ مَو لْاٰکَ ، فَاَمَرَ بِہِ فَقُطِعَت یَ اٰ دہُ وَرِج لْاٰہُ ثُمَّ اُخرِْج وَاَمَرَ بِہِ اَن یثَ المَْکنُْونَ عَن عَلِیِّ بنِْ اَبی یُصلَْب ، فَ اٰند یٰ بِاَعلْ یٰ صِوتِْہِ اَیُّهَا ال اٰنسُ مَن اَ اٰردَ اَن یَسمَْعَ الحَْد
طالِبٍ عليہ السلام ؟ اٰقلَ فَاجتَْمِعُ الناٰسُّ وَاَقبَْلَ یُحَدِّثُهُم بِالعَْ جٰائِبِ ، اٰقلَ وَخَرَجَ عَمرُو بنِْ حُرَیثٍْ وَهُوَ
طٰالِبٍ عليہ دُ مَنزِْلَہُ فَ اٰ قلَ اٰ م هٰذِہِ الجَْ مٰاعَةُ اٰقلَ مَيثَْمُ الَتماٰرِّ یُحَدِّث الناٰسَّ عَن عَلِیِ بنِْ اَبی یُری
رَ اَدِر اٰفبعَْثِ اِ لٰ ی هٰ اٰ ذ مَن یَقطَْعُ لِ سٰانَہُ فَاِنّی السلام ، اٰقلَ فَانصَْرَفَ مُسرِعاً فَ اٰ قلَ اَصلَْحَ اللہُّٰ الاَْمی
لَستُْ مٰاِنُ اَن یَتَغَيَّرَ قُلُوبَ اَهلِْ الکُْوفَةِ فَيَخرُْجُ عَلَيکَْ ، اٰقلَ فَالتَْفَتَ اِ لٰ ی حَرسْ یٰ فَوقَْ رَاٴسِْہِ فَ اٰ قلَ
اِذهَْب فَاقطَْع لِ سٰانَہُ اٰقلَ فَاَ اٰتہُ الحَْرسْ یٰ وَ اٰقلَ لَہُ مَيثَْم ؟ اٰقلَ اٰ م تَشٓاءُ اٰقلَ اَخرِْج لِ سٰانَکَ فَقَد اَمَرَنی
اٰقلَ فَقَطَعَ مَوْلایَ هٰاک لِسٰانی رُ بِقَطعِْہِ اٰقلَ مَيثَْمُ اَلا زَعَمَ ابنِْ الاَْمَةِ ال اْٰ فجِرَةِ اَنَّہُ یُکَذِّبُنی الاَْمی
دَمِہِ ثُمَّ اٰ متَ وَاَمَرَ بِہِ فَصُلِبَ اٰقلَ صٰالحٌ فَمَضت بَعدَْ اَیاٰمٌّ فَاِ اٰ ذ هُوَ قَد لِ سٰانَہُ وَتَشَحَّطَ سٰاعَةً فی
) ہِ المِْس مْٰارَ ”’ ( ١ کَتَبتُْ وَدَقَقتُْ فی صُلِبَ عَلَی الرُّبعِْ الَّذی
بحار سے صاحب رجال کشی نے نقل کيا ہے کہ حضرت ابو الحسن امام رضا - سے
روایت کی ہے اور انہوں نے اپنے آباء و اجداد عليہم السلام سے کہ انہوں نے فرمایا: ميثم تمار
حضرت امير المومنين - کے بيت الشرف تشریف لائے تو ان سے بتایا گيا کہ حضرت آرام فرما
رہے ہيں،ميثم نے بلند آواز کے ساته کہا: اے سونے والے بيدار ہوجائيے! خدا کی قسم!یقينا آپ
کی ریش مبارک آپ کے سر کے خون سے خضاب ہوگی حضرت نے فرمایا: تم نے سچ کہا اور
خدا کی قسم! تمہارے ہاته پاؤں اور تمہاری زبان بهی قطع کریں گے اور اس کهجور کے درخت
کو جو طہارت خانے ميں ہے اسے قطع کرکے چار ڻکڑے کریں گے۔ اس کے ایک ڻکڑے ميں تمہيں
دارپر لڻکائيں گے دوسرے ڻکڑے پر حجر ابن عدی اور تيسرے پر محمد ابن اکثم اور چوتهے ڻکڑے
پر خالد ابن مسعود کو لڻکائيں گے۔
ميثم کا بيان ہے: ميں خود شک ميں پڑگيا تو ميں نے کہا: مولا علی - غيب کے متعلق
خبر دے رہے ہيں لہٰذا یا امير المومنين -! یہ واقعہ یقينا رونما ہونے والا ہے؟ حضرت نے فرمایا: ہاں
رب کعبہ کی قسم! یہ وہ عہد و پيمان ہے کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) نے خود سے کيا ہے،
راوی کہتا ہے: ميں نے عرض کيا یا امير المومنين -! کيوں ميرے ساته ایسا سلوک کریں گے؟
فرمایا: تمہيں زنا زادہ “ام فاجرہ” کا بيڻا عبيد الله ابن زیاد گرفتار کرے گا، فرمایا: ميثم اس خبر
کے بعد ہميشہ جبانہ کی طرف جاتے تهے ميں بهی ان کے ہمراہ اس درخت کے پاس سے
گزرتا تها لہٰذا مجه سے کہتے تهے: اے ميثم ! یقينا تمہيں اس درخت سے بہت کام درپيش ہوں
گے، کہا: جب عبيد الله ابن زیاد کوفہ کا گورنر ہوا اور کوفے ميں وارد ہوا تو اس کا پرچم، طہارت
خانے ميں جو کهجور کا درخت تها اس ميں پهنس کر پهٹ گيا عبيد الله ابن زیاد نے اسے فال بد
سمجها اور حکم دیا تاکہ اسے کاٹ دیں کوفہ کے نجاروں ميں سے ایک شخص نے اسے خرید
کر چار
ڻکڑے کيے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ٧۵ ۔ مدینة المعاجز، ج ٣، ص ١۴٢ ۔ بحار الانوار، ج ۴٢ ، ص ١٣١ ۔ (
ميثم کا بيان ہے : ميں نے اپنے بيڻے صالح سے کہا: ایک لوہے کی کيل لے کر ميرا اور
ميرے والد کا نام اس پر کندہ کرو پهر ان چار ڻکڑوں ميں سے ایک ڻکڑے کا انتخاب کرکے اس ميں
کيل جڑ دو۔ ميثم کا بيان ہے: چند دنوں کے بعد بازار کے کچه افراد ميرے پاس آئے اورکہا: اے
ميثم! ہمارے ساته آؤ ہم امير کے پاس چليں اور بازار کے عامل کی اس سے شکایت کریں کہ
اسے معزول کر دیں اور کسی دوسرے شخص کو ہمارے ليے انتخاب کرے۔
ميثم کا بيان ہے: ميں قوم کا خطيب تها یہ طے پایا کہ ميں گفتگو کروں، ميری باتيں امير
کے پاس مقبول ہوئيں اسے اچها لگا۔
عمرو ابن حریث نے کہا: الله امير کے امور کو بہتر بنائے اس خطيب کو پہنچاتے ہو؟ کہا:
کون ہے؟ کہا: یہ ميثم دروغ گو(جهوڻا) اور وہ علی ابن ابی طالب - (دروغ گو) کا آزاد کردہ غلام
ہے۔
راوی کا بيان ہے: ابن زیاد اڻها اور بيڻه کر مجه سے کہا: تم کيا کہتے ہو؟ ميں نے کہا:
عمرو جهوٹ بولتا ہے الله امير کے امور کو بہتر بنائے بلکہ ميں یقينا راست باز سچا اور سچے
علی ابن ابی طالب - کا آزاد کردہ ہوں۔
اس وقت مجه سے کہا: تمہيں علی سے بيزاری اختيار کرنی پڑے گی اور ان کی برائيوں
کو بيان کرنا پڑے گا اور عثمان کو اپنا ولی تسليم کرو اور اس کی نيکيوں کو بيان کرو۔ اور اگر یہ
کام انجام نہ دیا تو یقينا تمہارے ہاته اور پاؤں کو کاٹ دوں گا۔
جب اس بات کو ميں نے سنا تو ميں نے گریہ کيا: کہا: ميری بات سے خوف زدہ ہوکر
گریہ کر رہے ہو جب کہ ابهی ميں نے کچه نہيں کيا! ميں نے کہا: خدا کی قسم! ميرا گریہ نہ
تمہارے قول کی وجہ سے نہ تمہارے فعل کی بنا پر ہے ميرا گریہ اس وجہ سے ہے کہ وہ شک
جو ميرے دل ميں واقع ہوا جو ميرے آقا و مولا نے خبر دی تهی، کہا: کيا کہا تها؟ ميثم نے کہا:
جب ميں علی - کے بيت الشرف پر پہنچا تو کہا: وہ آرام فرما رہے ہيں پهر ميں نے انہيں آواز
دی وہ بيدار ہوجائيں جو سور ہے ہيں خدا کی قسم! یقينا آپ کی ریش مبارک آپ کے سر کے
خون سے خضاب ہوگی، فرمایا: تم نے سچ کہا اور تمہيں بهی خدا کی قسم! تمہارے ہاته پاؤں
اور تمہاری زبان کو جدا کریں گے اور پهر یقينا تمہيں دار و رسن ميں لڻکائيں گے، ميں نے عرض
کيا: یا امير المومنين -! کون شخص ا س کام کو انجام دے گا؟ فرمایا: تمہيں زنا زادہ ام فاجرہ کا
بيڻا عبيد الله ابن زیاد گرفتار کرے گا، راوی کا بيان ہے: اس کے تمام تن بدن ميں غيظ و غضب
کی آگ بهڑک اڻهی اور کہا: خدا کی قسم! یقينا تمہارے ہاته اور پاؤں کو کاٹ دوں گا ليکن
تمہاری زبان کو اس کی حالت پر چهوڑدوں گا تاکہ تمہيں اور تمہارے مولا کے جهوٹ کو ثابت
کروں۔ لہٰذا حکم دیا: ان کے ہاتهوں اور پاؤں کو کاٹ دیں جب قيد سے باہر لاکر انہيں دار پر لڻکایا
تو بلند آواز سے فریاد کی: اے لوگو! جو شخص علی ابن ابی طالب - سے مخفی حدیث سننا
چاہتا ہے چلا آئے، لہٰذا تمام لوگ جمع ہوگئے پهر امير المومنين علی - کے عجائب و غرائب کے
متعلق گفتگو شروع کی۔ راوی کا بيان ہے: عمرو ابن حریث آیا اور چاہتا تها کہ انہيں ان کے گهر
لے جائے جب پورے مجمع کو دیکها کہا: یہ اجتماع کيوں کيا گيا؟ کہا: ميثم تمار فضائل علی ابن
ابی طالب - لوگوں کو سنا رہے ہيں۔ راوی کا بيان ہے: وہ بہت تيزی سے واپس ہوا اور کہا: امير
کے امور کو الله بہتر بنائے جتنی جلدی ہوسکے کسی کو بهيج دے تاکہ اس کی زبان جدا کرے
مجهے خوف ہے کہ اہل کوفہ کے دلوں ميں انقلاب پيدا کردے اور وہ لوگ تمہارے خلاف قيام کر
دیں۔
وہ نگہبان جو اِن کے سر کے پاس کهڑا تها اس سے کہا: جاؤ اور اس کی زبان بهی کاٹ
دو، راوی کا بيان ہے: تمام پاسبان آئے اور ميثم سے کہا: اے ميثم! کہا: کيا کہنا چاہتے ہو؟ اپنی
زبان باہر لاؤ امير نے حکم دیا ہے اسے بهی ہم کاٹ دیں۔ ميثم نے کہا: ام فاجرہ کا بيڻا یہ خيال
کرتا ہے کہ مجهے اور ميرے مولا کی تکذیب کرے، یہ ميں اور یہ ميری زبان ۔ راوی کا بيان ہے:
پهر ان کی زبان کاٹ دی کچه دیر خون ميں غلطاں تهے اور ان کی روح فردوس اعلیٰ کی طرف
پرواز کر گئی پهر حکم دیا کہ انہيں دار پر لڻکایا جائے۔
صالح ابن ميثم کا بيان ہے :چند روز گزرے تهے کہ ميں نے دیکها اس کهجور کے چوتهے
ڻکڑے پر جس پر ميں نے ان کا نام تحریر کيا تها دارپر لڻکائے گئے۔
من جملہ انہيں واقعات ميں سے رُشيد ہجری کا واقعہ ہے۔ رشيد ہجری من جملہ ان
افراد ميں سے تهے جو حضرت علی ابن ابی طالب - کے صاف وشفاف عظيم چشمے سے
کافی حد تک سيراب ہوئے تهے حضرت نے انہيں علم بلایا و منایا (امتحانات اور خوابوں کا علم)
عطا فرمایا تها آئندہ کے متعلق خبر دیتے تهے اور خود حضرت ان کے مستقبل کے بارے ميں کہ
عبيد الله ابن زیاد کے ساته کيا حالات در پيش ہوں گے خبر دیتے تهے۔
۶۴١ ۔ “وفی الاختصاص للشيخ الاجل الافخم فخر الشيعة شيخنا المفيد باسنادہ عَنْ
کَ اٰقلَت : اٰقلَ قُلتُْ لَ هٰا سَمِعتُْ مِن اَبی عَن قِن اْٰو بِنتِْ رُشَيدِْ الهَْجَری حُسّٰانِ الْعَجْلی اَبی
نَ عليہ السلام فَ اٰ قلَ اٰی رُشَيدُْ کَيفَْ صَبرُْکَ رُ الْمُوٴمِنی یَقُولُ : اٰقلَ حَدَّثَنی اَمی سَمِعتُْ مِن اَبی
نَ آخِرُ رَ المُوٴمِنی اُمَيَّةَ فَقَطَعَ یَدَیکَْ وَرِجلَْيکَْ وَ لِ سٰانَکَ ؟فَقُلتُْ اٰی اَمی اِ اٰ ذ اَرسَْلَ اِلَيکَْ دَعِیُّ بَنی
الدُّن اْٰي وَالاْٴخِرَةِ اٰقلَت : فَوَاللہِّٰ اٰ م ذَهَبَتِ الاَْیاٰمُّ حَتّ یٰ فی لٰذِکَ الجَْنَّةُ ؟ اٰقلَ بَل یٰ اٰی رُشَيدُْ اَنتَْ مَعی
نَ عليہ السلام رِ المُْوٴمِنی ادٍ فَدَ عٰاہُ اِلَی البَْ آٰرئَةِ مِن اَمی عُبَيدِْ اللہِّٰ بنِْ زِی اَرسَْلَ اِلَيہِْ الدَّعی
اِنَّکَ لی خَلی تَةً اٰقلَ لَکَ تَمُوتُ؟ اٰقلَ:اَخبَْرَنی فَاٴَب یٰ اَن یَتَبَرّاَ مِنہُْ فَ اٰ قلَ لَہُ الدَّعِیُّ فَبِاَیِّ می
فَ اٰ قلَ وَاللہِّٰ وَلِ سٰانی وَرِجلْی فَتَقطَّعُ یَدیّ اِلَی البَْ آٰرئَةِ مِنہُْ فَ لاٰ اُبَرِّءُ مِنہُْ فَتُقَدِّمَنی تَدعُْونی
) کَ ، قَدِّمُوہُ فَاقطَْعُوا یَدَیہِْ وَرِجلَْيہِْ وَترُْکُوا لِ سٰانَہُ فَحَمَلَت طَ اٰوئِفَة ( ١ لَاُکَذِّبَنَّ قَولَْہُ فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ص ۵٠ ۔ یعنی ان کے ہاتهوں اور پاؤں کو کاڻنے کے بعد جمع کيا، جيسا کہ رجال کشی ص (
۵٠ ميں تحریر کيا گيا ہے۔
لَماٰ قُطِعَت یَ اٰ دہُ وَرِج لْاٰہُ فَقُلتُْ لَہُ : اٰی اٴَبَہ کَيفَْ تَجِدُ اَلَماً لِ مٰا اَ صٰابَکَ ؟ فَ اٰ قلَ : اٰی بُنَتَہُ اِلا کالزِ حٰامَ بَينَْ
فَةٍ فَکَتَبَ بِصَحی الناٰسِّ فَلَماٰ حَمَل اْٰنہُ وَاَخرَْج اْٰنہُ مِنَ القَْصرِْ اِجتْمَعَ الناٰسُّ حَولَْہُ فَ اٰ قلَ : اِیْتُونی
م وَذَهَبَ لعينٌ فَاَخبَْرَہُ اَنَّہُ یِکتُْبُ لِلناٰسِّ مَایَکُونُ اِلَی اَن تَقُومُ الْکِتٰابَ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحی
نَ رُ الْمُوٴمِنی لَيلَْتِہِ تِلکَْ وَ اٰ کنَ اَمی الساٰعَّةُ فَاَرسَْلَ اِلَيہِْ الحَْجاٰمُّ حَتّ یٰ قَطَعَ لِ سٰانَہُ فَ مٰاتَ فی
حَ اٰيتِہِ اِ اٰ ذ ہِ رُشَيدِْ البَْ لاٰاٰی وَ اٰ کنَ قَد اَلقْ یٰ اِلَيہِْ عِلمَْ البَْ لاٰاٰی وَالمَْ اٰناٰی فَ اٰ کنَ فی عليہ السلام یُسَمْی
اَلقْیَ الرَّجُلَ اٰقلَ لَہُ: اٰی فُ لاٰن تَمُوتُ بِمَيتَْةٍ کَذا وَکَذا وَتَقتُْلُ اَنتَْ اٰی فُ لاٰنُ بِقَتلَْةِ کَذا وَکَذا فَيَکُونُ کَ مٰا
نَ عليہ السلام یَقُولُ لَہُ: اَنتَْ رُشَيدِْ البَْ لاٰاٰی تُقتَْلُ بِ هٰذِہِ القَْتلَْةِ رُ الْمُوٴمِنی یَقُولُ الرُّشَيدُْ وَ اٰ کنَ اَمی
) نَ - صلوات اللّٰہ وسلامہ عليہ - ” ( ١ رُ الْمُوٴمِنی فَ اٰ کنَ کَ مٰا اٰقلَ اَمی
اختصاص ميں شيخ مفيد عليہ الرحمہ نے ابو حسان عجلی سے انہوں نے قنوء بنت
رشيد ہجری سے بطور مسند نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے اس سے کہا: اس کے
متعلق مجهے باخبر کرو جو تم نے اپنے پدر گرامی سے سنا ہے؟ کہا: ميں نے اپنے پدر گرامی
کو یہ کہتے سنا ہے: حضرت امير المومنين - نے مجه سے حدیث بيان کرنے کے ضمن ميں
فرمایا: اے رشيد! تم اس وقت کيسے صبر کرو گے کہ جب دعی (زنا زادہ) بنی اميہ کسی
شخص کو بهيج کر تمہارے ہاته پاؤں اور زبان کو جدا کرے گا؟ ميں نے عرض کيا: یا امير المومنين
- ! آخر کار اس کا نتيجہ بہشت ہے؟ فرمایا: ہاں اے رشيد! تم دنيا و آخرت ميں ہمارے ساته ہو،
قنوء کا بيان ہے: خدا کی قسم! ابهی چند دن نہيں گزرے تهے کہ دعی عبيد الله ابن زیاد نے
کسی کو بهيجا ميرے والد ماجد کو بلا وا کر کہا: امير المومنين - سے برائت اور دوری اختيار کرو
تو رشيد نے انکار کيا اور بيزاری و دوری اختيار کرنے سے انکار کردیا دعی بنی اميہ نے کہا:
تمہارے مولا نے تمہارے حق ميں کيا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ٧٨ ۔ مدینة المعاجز، ج ٢، ص ۶۴ ۔ بحار الانوار، ج ۴٢ ، ص ١٣۶ ۔ معجم رجال (
الحدیث، ج ٨، ص ١٩٧ ۔
کہا اور تمہارے مرنے کی کيفيت کس طرح بيان کی؟ کہا: ميرے مولا اور دوست نے مجهے یہ
خبر دی ہے کہ تم مجهے بلاؤ گے اور مجهے اس بات کے لےے اُکساؤ گے کہ ميں ان سے
بيزاری و دوری اختيار کروں اور ميں اس سے انکار کروں گا لہٰذ اتم اسی وجہ سے ميرے ہاته پير
اور زبان کو جدا کروگے، کہا: خدا کی قسم! ابهی اس کے جهوٹ کو تمہارے حق ميں پيدا
کرتاہوں آؤ اور اس کے ہاته پير کو جدا کرو اور اس کی زبان کو اپنی حالت پر چهوڑ دو۔
ميں نے اپنے بابا کے ہاته پير کو جمع کيا اور اپنے والد سے کہا: بابا جان آپ کو اس
مصيبت کا درد کيسا محسوس ہوا؟ کہا: اے ميری پياری بيڻی! کوئی خاص شے نہ تهی سوائے
اس کے کہ ميں نے یہ محسوس کيا کہ جيسے لوگوں کے مجمع کے درميان ہوں۔ پهر اپنے بابا
کو قصر سے باہر لائی ميرے بابا کے چاروں طرف لوگ جمع ہوگئے اور کہا: کاغذ اور دوات لے آؤ
تاکہ تمہارے ليے جو کچه صبح قيامت تک ہونے والا ہے تحریر کروں کيوں کہ لوگ مجه سے
ایسی چيزوں کے طالب ہوں گے جو ابهی ان کی تمنائيں پوری نہيں ہوئی ہيں۔ خلاصہ یہ کہ
کاغذ اور دوات لائی گئی لکهنا شروع کيا جب بسم الله الرحمن الرحيم تحریر کرليا تو وہ ملعون
بڑی تيزی سے گيا اور ابن زیاد کو خبر دی کہ رشيد لوگوں کے ليے جو کچه صبح قيامت تک ہونے
والا ہے تحریر کر رہے ہيں، لہٰذا ابن زیاد نے حجام کو بهيجا تاکہ ان کی زبان کو بهی جدا کردے
اور اسی رات ان کی مقدس روح فردوس اعلیٰ ميں جا پہنچی۔
حضرت امير المومنين - انہيں رشيد بلایا کے نام سے یاد کرتے تهے اور حضرت نے انہيں
علم بلایا ومنایا تعليم فرمایا تها۔ اور رشيد نے اپنی زندگی ميں ایک شخص کو دیکها جو یہ کہہ
رہا تها: اے فلاں! تم فلاں طریقے سے انتقال کرو گے اور ان ميں سے ایک شخص کہتا تها کہ
تمہيں اس طرح قتل کریں گے اور جس طرح بيان کيا تها اسی طرح ہوا بهی۔
امير المومنين - ان سے فرماتے تهے: تم رشيد بلایا ہو تمہيں بهی اس کيفيت کے ساته
قتل کریں گے چنانچہ جيسا حضرت نے بيان کياتها اسی طرح ہوا بهی۔
اٰقلَ: لَماٰ طَلَبَ زِ اٰید م یَرفَْعُہُ اِ لٰ ی رُشَيدِْ الهَْجَری ۶۴٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عَنْ عَبْدِ الْکَری
اٴ رٰکَةَ وَهُوَ جٰالِسٌ عَ لٰی اٰبِہِ فی اِختَْف یٰ رُشَيدُْ فَ جٰآء اٰ ذتَ یَومِْ اِل یٰ اَبی عُبَيدِْاللہّٰ رُشَيدِْ الهَْجَری
اٴَثَرِہِ فَ اٰ قلَ: وَیحِْکَ قَتَلتَْنی اٴ اٰرکَةَ وَ خٰافَ فَ اٰ قمَ فَدَخَلَ فی جَ مٰاعَةِ مِن اَص حْٰابِہِ فَدَخَلَ مَنزِْلَ اَبی
وَاٴَهلَْکتَْهُم ، اٰقلَ وَ اٰ م اٰ ذکَ؟ اٰقلَ اَنتَْ مَطلُْوبٌ وَجِئتَْ حَتّ یٰ دَخَلتَْ اٰ دریِ وَقَد رَاٴکَ وَایتَْمتَْ وُلدی
اَحَدٌ مِنهُْم ، اٰقلَ وَسَنَجزِْیَنَّ اَیضْاً فَاٴخَذَہُ وَشَدَّہُ کَ اٰتفاً ثِمَّ اَدخَْلَہُ بَينْاً وَاَغلَْقَ فَ اٰ قلَ اٰ مرَاٴٓنی ، عِندْی
عَلَيہِْ اٰبَہُ ثُمَّ خَرَجَ اِ لٰ ی اَص حْٰابِہِ فَ اٰ قلَ لَهُم ، اِنَّہُ خُيِلَّ اِلَیَّ اَن رَجُلاً شَيخْاً قَد دَخَلَ نِاٰفاً اٰ دریِ اٰقلُوا: مٰا
رَاٴَی اْٰن اَحَداً فَکَرَّرَ لٰذِکَ عَلَيهِْم کُلُّ لٰذِکَ یَقُولُونَ اٰ مرَاٴَی اْٰن اَحَداً فَسَکَتَ عَنهُْم ثُمَّ اِنَّہُ تَخَوَّفَ اَن یَکُونَ قَد رَاٴہُ غَيرَْهُم فَدَخَلَ مَجلِْسَ زِ اٰیدٍ لِيَتَجَسَّسَ هَل یَذکُُْرُونَہُ فَاِن هُم اَحَسُّو بِ لٰ ذِکَ اَخبَْرَهُم اَنَّہُ عِندَْہُ
فٌ قٰالَ : فَبَي اْٰن هُوَ کَ لٰ ذِکَ بَينَْهُ مٰا لَطی وَرَفَعَہُ اِلَيهِْم اٰقلَ: فَسَلَّمَ عَ لٰی زِ اٰیدٍ وَقَعَہُ عِندَْہُ وَ اٰ کنَ الَّذی
اٴَ اٰرکَةَ مُقبِْلاً نَحوَْ مَجلِْسِ زِ اٰیدٍ اٰقلَ: فَلَماٰ نَظَرَ اِلَيہِْ اَبُواٴَ اٰرکَةُ تَغَيَّرَ لَونَْہُ اِذاْ قَبلَْ رُشَيدٌْ عَ لٰی بِفِعلَْةٍ اَبی
یَدَیہِْ وَاَیقَْنَ بِالهَْ لاٰکِ ، فَنَزَلَ رُشَيدُْ عَنِ البَْغلَْةِ وَاَقبَْلَ اِ لٰ ی زِ اٰیدٍ فَسَلَّمَ عَلَيہِْ وَ اٰقمَ اِلَيہِْ وَاَسقَْطَ فی
رِکَ ؟ مَسی زِ اٰیدٌ فَاَعتَْنَقَہُ وَقَبلَْہُ ثُمَّ اَخَذَ یُ سٰائِلُہُ کَيفَْ قَدَمتَْ ؟ وَکَيفَْ مَن خَلَقتَْ ؟ وَکَيفَْ کُنتَْ فی
رَ مَنْ هٰذٰا الشَّيْخ وَاَخَذَ لِحيَْتَہُ ثُمَّ مَکَثَ هُنَيئْةَ ثُمَّ اٰقمَ فَذَهَبَ فَ اٰ قلَ اَبُوا اٴَ اٰرکَةَ لِزِ اٰیدٍ اَصلَْحَ اللہُّٰ الاَْمی
؟ اٰقلَ هٰ اٰ ذ اَخٌ مِن اِخ اْٰونِ اٰن مِن اَہلِْ الشاٰمِّ قَدِمَ عَلَي اْٰن اٰزئِراً فَانصَْرَفَ اَبُواٴَ اٰرکَةُ اِ لٰ ی مَنزِْلِہِ فَاِ اٰ ذ رُشَيدُْ
بِالبَْيتِْ کَ مٰا تَرَکَہُ فَ اٰ قلَ لَہُ اٴَبوْاٴَ اٰرکَةُ: اَ اٰ م اِ اٰ ذ اٰ کنَ عِندَْکَ مِنَ العِْلمِْ اٰ ماَر یٰ اٰ مصَنَع اٰ مبِ اٰ دلَکَ وَادخُْل عَلَي اْٰن
) کَيفَْ شِئتَْ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ٧٨ ۔ بحار الانوار، ج ۴٢ ، ص ١۴٠ ۔ (
نيز اسی کتاب ميں اپنے اسناد کے ساته عبدالکریم سے بطور مرفوع نقل کيا ہے کہ اس
کا بيان ہے: جب ابو عبيد الله ابن زیاد رشيد ہجری کی تلاش ميں تها تو رشيد نے خود کو مخفی
کيا پهر انہيں دنوں ميں سے ایک دن “ابو اراکہ” کے گهر آئے جب وہ اپنے گهر آئے ابو اراکہ خوف
زدہ ہوا ان کے پيچهے گهر ميں داخل ہوا بعد ميں اس سے کہا: تم پر افسوس ہے کہ تم نے
مجهے مار ڈالا اور ميری اولاد کو یتيم کيا اور مجهے ہلاک کردیا، کہا: کيوں کيا بات ہے؟ کہا: تم
ابن زیاد کے مطلوب و مقصود کی تلاش ميں پهر رہے ہو تم ميرے گهر ميں داخل ہوئے ہو اور یقينا
جو افراد ميرے پاس موجود تهے انہوں نے تمہيں دیکها ہے۔
کہا: ان ميں سے کسی شخص نے مجهے نہيں دیکها، کہا: یقينا اس کا امتحان ليں گے
لہٰذا انہيں پکڑا اور ان کے ہاته پاؤں کو بانده کر گهر ميں داخل کيا اور دروازے کو تالا لگایا ، پهر
اپنے اصحاب کے پاس آکر ان سے کہا: ميرا خيال ہے کہ اس سے پہلے کوئی بوڑها شخص
ميرے گهر ميں داخل ہوا ہو؟ کہا: ہم نے کسی کو نہيں دیکها ، ابو اراکہ نے جتنی مرتبہ اس بات
کی تکرار کی وہ کہتے تهے: ہم نے اس قسم کے کسی شخص کو نہيں دیکها پهر وہ خاموش
ہوگيا اور کچه نہيں کہا ليکن وہ خوف زدہ تها کہ ممکن ہے دوسروں نے دیکها ہو۔ پهر دربار ابن
زیاد ميں داخل ہوا تاکہ تلاش کرے اور دیکهے کہ ابو اراکہ کے متعلق کوئی بات ان کے درميان ہو
رہی ہے یا نہيں اگر وہ لوگ ابو اراکہ کے آنے کا احساس کرچکے ہيں تو وہ انہيں باخبر کرے کہ
اس کے پاس ہيں اور انہيں ان کے سپرد کرے ان سے کہا: زیاد کے پاس آکر زیاد کو سلام کيا
اس کے پاس بيڻها اور جو کچه ان کے درميان لطيف بات تهی بيان کيا: اسی دوران رشيد خچر پر
سوار ہوکر داخل ہوئے اور ابن زیاد کے دربار کی طرف رُخ کرکے کہا: جب ابو اراکہ کی نظر رشيد
پر پڑی اس کا رنگ فَق ہوگيا اور جو کچه اس کے ہاته ميں تها زمين پر گر گيا اور اپنی ہلاکت کا
یقين کيا۔
رشيد اپنی سواری سے اترے اور ابن زیاد کی طرف آئے اسے سلام کيا، زیاد احتراماً
کهڑا ہوگيا اور بار بار گلے ملا اور رشيد کا بوسہ دیا پهر ان کی احوال پرسی شروع کی: کيسے
آنا ہوا؟ کيسے کس شخص کو اپنی جگہ چهوڑ کر آئے ہيں اور آپ کا سفر ميں کيا حال تها؟ پهر
تهوڑی دیر کے وقفے کے بعد کهڑا ہوا اور چلا گيا۔
پهر ابو اراکہ آیا اور زیاد سے کہا: الله امير کو صحيح و سالم رکهے اس ضعيف العمر
شخص کو پہچانتے ہيں؟ کہا: کيوں ہمارے بهائيوں ميں سے ایک بهائی ہے جو شام کا رہنے والا
ہے ہماری ملاقات کے ليے آیا تها۔
ابو اراکہ کسی حد تک آسودہ خاطر اور اطمينان قلب کے ساته گهر واپس ہوا دیکها
جيسے جہاں رشيد کو باندها تها برقرار ہيں کہا: ابو اراکہ یہ علم و قدرت جس کا ميں تمہاری
ذات ميں مشاہدہ کر رہا ہوں جو کام چاہو انجام دو اور جب بهی ميرے پاس آنا چاہو آؤ۔
مولف کہتے ہيں: یہ وہ چند افراد کے اعلیٰ نمونے تهے کہ جنہوں نے ائمہٴ اطہار کو
درک کيا اور ان کی معنویات اور برحق معارف الٰہيہ سے سرشار و شاداب ہوکر استفادہ کيا اور
لوگوں کے سامنے اپنے کردار کو پيش کيا۔
قابل ذکر ہے کہ جو کچه ذکر ہوچکا ہے وہ نمونے صرف انہيں افراد ميں خلاصہ نہيں کيے
جاسکتے بلکہ ایسے ہزاروں لاکهوں نمونے ہيں جيسا کہ سلمان، ابوذر، مقدار اور عمار یاسر
جيسے افراد جو تدوین شدہ کتابوں ميں تحریر و ثبت ہيں کيوں کہ وہ سب ہمارے دائرے سے
باہر اور اس کی یہاں گنجائش نہيں ہے لہٰذا اسی پر اکتفا کرتے ہيں۔ صاحبان نعمت کے ليے ان
کی نعمتيں گوارا اور مبارک ہوں اور الله تعالیٰ ہميں اور آپ کو ان کی نعمات و فيوضات سے بہرہ
مند فرمائے۔ آمين
|