قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٣٠ ۔ روح و جسم کی شفا
٣٠ ۔اَلقرآنُ شِفاءٌ مِن اَکبرِ الدٰاء وَهُو الکُفر وَالنفاقُ وَالبَغی وَالضَلال
قرآن بہت عظيم دردوں ناقابل علاج اور ویران گر امراض کے ليے شفا بخش ہے جيسے کفر و نفاق ، ظلم و ستم اور ضلالت و گمراہی۔
۶١٢ ۔ “قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام فی الحدیث المروی فی الکافی مَرفوعاً لا وَاللّٰہ لا
یَرجع الاٴمر وَ الخِلافَة اِلیٰ آل ابی بَکر وَعُمَر وَلا الیٰ بَنی اُميّة اَبداً وَلا فی وَلد طَلحة وَالزّبير اَبَداً ) وذلک انّهُم نَبَذوا القُرآن وَابطَلوا السّنَنَ وَعَطّلُوا الاَحکامَ” ( ١
کافی ميں ابو علی اشعری سے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے انہوں نے خشاب سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ: حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: خدا کی قسم! امر امامت و خلافت ہرگز اولاد ابوبکر و عمر کی طرف واپس نہيں ہوگا اور نہ یہ کبهی بنی اميہ کی طرف اور نہ ہی کبهی طلحہ و زبير کی اولاد کی طرف پلڻے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کتاب خدا کو پس پشت ڈال دیا اور سنتوں کو باطل قرار دیا اور احکام کو معطل بنادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ۔ الفصول المهمہ فی اصول الائمہ، ج ١، ص ۴٩٩ ۔ (
۶١٣ ۔ “ وقال رسول اللّٰہ (ص) اَلقرآن هُدیً مِن الضَلالَةِ وَتِبيانٌ مِنَ العَم یٰ وَاستقالَةٌ مِنَ العَثرَةِ وَنورٌ مِنَ الظُلم وَضِيآء مِن الاحداثِ وَعَصِمة مِنَ الهَلکةِ وَرُشد مِن الغَرابَة وَبَيان مِن الفِتَنِ وَ ) بَلاغ مِن الدنيا الیٰ الآخرة وَفيہ کَمالُ دینکُم وَما عَدلَ اَحدٌ عَن القرآن الاَّ الَی النّارِ ” ( ١
حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: قرآن ضلالت سے بچانے والا ہے اندهے پن کو امور شرع ميں بيان کرنے والا ہے غلط کاریوں سے نجات ہے ظلمت کفر ميں نور ہے اور احداث و بدعت ميں حق کی روشنی ہے اور ہلاکت سے بچانے والا ہے گمراہی ميں باعث ہدایت ہے فتنوں ميں حق کا بيان ہے اور دنيا سے آخرت کی طرف پہنچانے والا ہے اس ميں تمہارے دین کا کمال موجود ہے جس نے قرآنِ کریم سے روگردانی کی وہ جہنمی ہے۔
جس طرح قرآن مجيد عظيم دردوں، ناقابل علاج اور ویران گرا مرض کے ليے شفا بخش ہے جيسے کفر و نفاق اور ضلالت و گمراہی ہے اسی طرح حضرت ولی عصر صاحب الزمان حجّت وقت قائم آل محمد المہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف افراد بشر کے مختلف حوادثِ زندگی ميں جو ہميشہ درپيش ہوتے ہيں شفا بخش ہيں۔
انسان کا نفس ایک طرف انسان کا سخت ترین دشمن ہے تو دوسری طرف شيطان ہے اور دونوں ہی مجرمِ الٰہی ہيں۔
۶١۴ ۔ حضرات معصومين - کے قول کے مطابق “اَع اٰ دء عَدوّکَ نَفسَک الَتی بَين جَنبَيکْ ” تمہارا سب سے بڑا دشمن، خود تمہارا نفس ہے جو تمہارے پہلو کے درميان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ۔ (
۶١۵ ۔ اسی طرح حدیث ميں وارد ہوا ہے کہ جب تک نفس اور شيطان زندہ ہيں۔ خطا و معصيت الٰہی سے امن و امان نہ سمجهو۔
شيطان ملعون کے پاس مختلف فریب کے حربے موجود ہيں ہر شخص کو اس کی حالت اور عادات و اطوار کے تناسب سے اغوا اور اسے گمراہ کرتا ہے سوائے خالص مومن بندوں ) کے ، الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّ عِبَادِی لَيسَْ لَکَ عَلَيہِْم سُلطَْانٌ إِلاَّ مَن اتَّبَعَکَ مِن الغَْاوِینَ > ( ١
یقينا ميرے بندوں پر تيرا کوئی اختيار نہيں ہے علاوہ ان کے جو گمراہوں ميں سے تيری پيروی کرنے لگيں۔
الله تعالیٰ نے ابليس کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا: <قَالَ رَبِّ بِمَا اٴَغوَْیتَْنِی ) لَاٴُزَیِّنَنَّ لَہُم فِی الاْٴَرضِْ وَلَاٴُغوِْیَنَّہُم اٴَجمَْعِينَ # إِلاَّ عِبَادَکَ مِنہُْم المُْخلَْصِينَ > ( ٢
اس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجهے گمراہ کيا ہے ميں ان بندوں کے ليے زمين ميں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکڻها کروں گا۔ علاوہ تيرے ان بندوں کے جنہيں تو نے خالص بناليا ہے۔
طول تاریخ ميں اور گزشتہ افراد کے تجربات اس بات کی نشان دہی کرتے ہيں کہ ان تمام دنيا کے فرعونوں اور سرکشوں کا معرض وجود ميں آنا، خطائيں ، معصيتيں، کفر و شرک و نفاق ضلالت و گمراہی، اموال کی غارت گری اور محترم نواميس پر تجاوز وغيرہ یہ سب ہی کچه شيطان اور نفس کے وسوسوں اور ان کی چال بازیوں کی پيروی کرنے سے وابستگی رکهتا ہے۔ لہٰذا خداوند تبارک و تعالیٰ نے متعدد آیات ميں یہ آواز دی اور ان سے لوگوں کو ڈراتا ہے :
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّ الشَّيطَْانَ لَکُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوا إِنَّمَا یَدعُْو حِزبَْہُ لِيَکُونُوا مِن ) اٴَصحَْابِ السَّعِيرِ > ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حجر، آیت ۴٢ ۔ (
۴٠ ۔ ، ٢(۔ سوئہ حجر، آیت ٣٩ (
٣(۔ سورئہ فاطر، آیت ۶۔ )
بے شک شيطان تمہارا دشمن ہے تو تم اسے دشمن سمجهو وہ اپنے گروہ کو صرف اس بات کی طرف دعوت دیتا ہے کہ سب جہنميوں ميں شامل ہوجائيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اٴَلَم اٴَعہَْد إِلَيکُْم یَابَنِی آدَمَ اٴَن لا تَعبُْدُوا الشَّيطَْانَ إِنَّہُ لَکُم عَدُوٌّ مُبِينٌ )١) <
اے اولاد آدم! کيا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہيں ليا تها کہ خبردار شيطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کهلا ہوا دشمن ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَإِذ قُلنَْا لِلمَْلَائِکَةِ اسجُْدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبلِْيسَ کَانَ مِن الجِْنِّ ) فَفَسَقَ عَن اٴَمرِْ رَبِّہِ اٴَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ اٴَولِْيَاءَ مِن دُونِی وَہُم لَکُم عَدُوٌّ بِئسَْ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا > ( ٢ اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابليس کے علاوہ سب نے سجدہ کرليا کہ وہ جنات ميں سے تها پهر تو اس نے حکم خدا سے سرتابی کی تو کيا تم لوگ مجهے چهوڑ کر شيطان اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست بنا رہے ہو کہ وہ سب تمہارے دشمن ہيں یہ تو ظالمين کے ليے بدترین بدل ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَمِن النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللهِ بِغَيرِْ عِلمٍْ وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَيطَْانٍ مَرِیدٍ> )٣)
اور لوگوں ميں سے کچه ایسے بهی ہيں جو بغير جانے بوجهے خدا (کی توحيد و صفات اور افعال) کے بارے ميں جهگڑا کرتے ہيں اور ہر سرکش شيطان کا اتباع کرليتے ہيں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنيَْا بِزِینَةٍ الکَْوَاکِبِ ( ۶) وَحِفظًْا مِن کُلِّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یس، آیت ۶٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ کہف، آیت ۵٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ حج، آیت ٣۔ (
) شَيطَْانٍ مَارِدٍ > ( ١
بے شک ہم نے آسمان ددنيا کو ستاروں سے مزین بنادیا ہے اور انہيں ہر سرکش شيطان سے حفاظت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِن یَدعُْونَ مِن دُونِہِ إِلاَّ إِنَاثًا وَإِن یَدعُْونَ إِلاَّ شَيطَْانًا مَرِیدًا # لَعَنَہُ اللهُ وَقَالَ لَاٴَتَّخِذَنَّ مِن عِبَادِکَ نَصِيبًا مَفرُْوضًا # وَلَاٴُضِلَّنَّہُم وَلَاٴُمَنِّيَنَّہُم وَلَآمُرَنَّہُم فَلَيُبَتِّکُنَّ آذَانَ الاْٴَنعَْامِ ) وَلَآمُرَنَّہُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَْ اللهِ وَمَن یَتَّخِذ الشَّيطَْانَ وَلِيا مِن دُونِ اللهِ فَقَد خَسِرَ خُسرَْانًا مُبِينًا > ( ٢ یہ لوگ خدا کو چهوڑ کر بس عورتوں کی پرستش کرتے ہيں اور سرکش شيطان کو آواز دیتے ہيں جس پر خدا کی لعنت ہے اور اس نے خدا سے بهی کہہ دیا کہ ميں تيرے بندوں ميں سے ایک مقرر حصہ ضرور لے لوں گا اور انہيں گمراہ کروں گا، اميدیں دلاؤں گا اور ایسے احکام دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان کاٹ ڈاليں گے پهر حکم دوں گا تو الله کی مقررہ خلقت کو تبدیل کردیں گے اور جو خدا کو چهوڑ کر شيطان کو اپنا ولی اور سرپرست بنائے گا وہ کهلے ہوئے خسارہ ميں رہے گا (کيوں کہ عمر کا عظيم سرمایہ اپنے ہاته سے کهو دیا اور نفع سے بے بہرہ رہ گيا ہے)۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <الشَّيطَْانُ یَعِدُکُم الفَْقرَْ وَیَاٴمُْرُکُم بِالفَْحشَْاءِ وَاللهُ یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنہُْ ) وَفَضلًْا وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ > ( ٣
شيطان (انفاق کے وقت) تم سے فقيری کا وعدہ کرتا ہے اور تمہيں برائيوں (بخل ، انفاق نہ کرنے) کا حکم دیتا ہے اور خداوند متعال (صدقہ اور انفاق کے وقت) مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے خدا صاحب وسعت بهی ہے اور عليم و دانا بهی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ صافات، آیت ٧۔ (
١١٩ ۔ ، ٢(۔ سورئہ نساء، آیت ١١٧ (
٣(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٣۶٨ ۔ (
الله تعالیٰ نے فرمایا: <کَمَثَلِ الشَّيطَْانِ إِذ قَالَ لِلإِْنسَانِ اکفُْر فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنکَْ إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ رَبَّ العَْالَمِينَ # فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَا اٴَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَینِْ فِيہَا وَذَلِکَ جَزَاءُ الظَّالِمِين> )١)
ان کی مثال شيطان جيسی ہے کہ اس نے انسان سے کہا کہ کفر اختيار کرلے اور جب وہ کافر ہوگيا تو کہنے لگا کہ ميں تجه سے بيزار ہوں ميں تو عالمين کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔ تو ان دونوں کا انجام یہ ہے کہ دونوں جہنم ميں ہميشہ ہميشہ رہنے والے ہيں اور یہی ظالمين کی واقعی سزا ہے۔
۶١۶ ۔ “وفی الدر المنثور : اَخرَجَ ابنُ ابی الدّنيا فی مَکایدِ الشَيطانِ وَابنُ مَردَویہ وَالبيہَقی فی شُعب الاٴیمانِ عَن عُبيد بن رُفاعة الدّارِمی یَبلُغ بہ النّبی (ص) قال: کانَ راهبٌ فی بنی اسرائيلَ فَاخَذَ الشيطانُ جٰاریَةً فَخقَها فالق یٰ فی قُلوب اَهلِها انَّ دَوائِها عِندَ الرّاهبِ فَات یٰ بِها الرّاهب فَابیٰ اَن یَقبلَها فَلم یَزالُوا بِہ حَتی قَبلَها فکانت عِندہُ ، فَاٴتاہُ الشّيطانُ فَوَسوَس لَہ وزیّن لَہ فَلَم نَزل بِہ حَتی وَقَع عَليها فَلمّا حَملَت وَسوَس لَہ الشيطان فَقال الاٴن تُفتضَحُ یَاٴتيکَ اَهلَها فَاٴقتَلَها فَان اَتوکَ فَقُل ماتَت فَقتلَها وَدَفَنَها فَاٴتی الشيطانُ اَهلَها فَوسوَس الَيهِم وَاَلقی فی قُلُوبِهم اِنّہ اٴحبَلَها ثمّ قَتلتَها فَاتاہُ اَهلُها فَساٴلُوہُ فَقال : مٰاتت فَاخذُوہُ فَاتاہ الشّيطان فَقالَ اَنا الّذی اَلقَيتَ فی قُلوب اَهلِها وَانا الّذی اَوقعتُکَ فی هذا فَاٴطِعنی تُنجَ واسجُدلی سَجدتَين فَسَجَد ) لَہ سَجدتَين فَهو الَّذی قال اللّٰہ تَعالیٰ <کَمثَل الشّيطانِ اذ قالَ لِلانسانِ اُکفر> ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٧ ۔ ، ١(۔ سورئہ حشر، آیت ١۶ (
٢(۔ الدر المنثور ، ج ۶، ص ٢٢٠ ، الميزان، ج ٩٩ ، ص ٢۴٣ ۔ (
تفسير الدر المنثور ميں منقول ہے کہ ابن ابی الدنيا نے کتاب مکائد الشيطان ميں ابن مردویہ اور بيہقی نے کتاب شعب الایمان ميں عبيد ابن رفاعہ دارمی سے ذکر کيا ہے کہ اس سے پيغمبر (ص) نے کہا: بنی
اسرائيل ميں ایک راہب تها۔ پهر (ایک دن) شيطان نے ایک کنيز کو پکڑا اور اسے غضب ناک کيا اور اس کے اہل و عيال کے دل ميں یہ بات ڈالی کہ اس کی دوا راہب کے پاس ہے چنانچہ کنيز کو اس راہب کے پاس لائے ليکن اس نے قبول نہيں کيا جب بہت زیادہ اصرار کيا تو آخر ميں قبول کيا وہ کچه مدت راہب کے پاس تهی پهر شيطان آیا اور راہب کے دل ميں یہ وسوسہ پيدا کيا اور کنيز کو آراستہ کرکے اس کا جلوہ دکهایا اس حد تک کہ راہب کو فریفتہ کرليا نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس کنيز سے نزدیکی کی جب وہ حاملہ ہوئی تو شيطان نے راہب کو ڈرایا اور یہ وسوسہ پيدا کيا اور کہا: ارے کنيز والے آئيں گے اور تمہيں ذليل و رسوا کریں گے لہٰذا اس کو قتل کردو جب وہ لوگ آئيں تو کہنا وہ مر گئی ہے۔راہب نے شيطان کی تدبير کے مطابق کنيز کو قتل کرکے اسے دفن بهی کردیا، پهر شيطان آیا کنيز والوں کے خاندان کی طرف اور ان کے دلوں ميں یہ وسوسہ ڈالا کہ راہب نے اس سے نزدیکی کی وہ حاملہ ہوئی اور پهر اسے قتل کر ڈالا، پهر کنيز کے خاندان والے آئے اس سے دریافت کيا تو راہب نے کہا: وہ مر گئی ہے۔ کنيز کے خاندان والوں نے راہب کو گرفتار کيا۔ پهر شيطان آیا اور راہب سے کہا: ميں ہی وہ تها کہ جس نے کنيز کے خاندان والوں کے دل ميں یہ وسوسہ ڈالا کہ راہب نے اسے حاملہ کردیا اور بعد ميں اسے قتل کردیا ہے ميں ہی وہ ہوں کہ تمہيں اس ہلاکت ميں ڈالا ہے اب ميری اطاعت کرو تاکہ نجات پاؤ ميرے ليے دو سجدہ کرو۔ راہب (بے چارے) نے ابليس ملعون کے ليے دو سجدہ انجام دیا یہ وہی واقعہ ہے کہ جس کے ليے قرآن فرماتا ہے۔ کَمَثَلِ الشَّيطَْانِ إِذ قَالَ لِلإِْنسَانِ اکفُْرْ الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَقَالَ الشَّيطَْانُ لَمَّا قُضِیَ الاْٴَمرُْ إِنَّ اللهَ وَعَدَکُم وَعدَْ الحَْقِّ وَوَعَدتُْکُم فَاٴَخلَْفتُْکُم وَمَا کَانَ لِی عَلَيکُْم مِن سُلطَْانٍ إِلاَّ اٴَن دَعَوتُْکُم فَاستَْجَبتُْم لِی فَلا تَلُومُونِی وَلُومُوا اٴَنفُْسَکُم مَا اٴَنَا بِمُصرِْخِکُم وَمَا اٴَنتُْم بِمُصرِْخِیَّ إِنِّی کَفَرتُْ بِمَا اٴَشرَْکتُْمُونِی مِن قَبلُْ إِنَّ الظَّالِمِينَ ) لَہُم عَذَابٌ اٴَلِيمٌ >( ١
اور شيطان تمام امور کا فيصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ الله نے تم سے بالکل برحق وعدہ کيا تها اور ميں نے بهی ایک وعدہ کيا تها پهر ميں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور ميرا تمہارے اوپر کوئی زور بهی نہيں تها سوائے اس کے کہ ميں نے تمہيں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرليا تو اب تم ميری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ تم نے مجهے اس کا شریک بنا دیا اور بے شک ظالمين کے ليے بہت بڑا درد ناک عذاب ہے۔

خود شيطان کنارہ کشی اختيار کرے گا
شيطان جب دنيوی امور سے فراغت حاصل کرے گا تو اپنے اولياء اور دوستوں سے کنارہ کش ہو کر کہے گا: خداوند متعال نے تم سے وعدہ کيا اور سچا و برحق وعدہ کہ جس سے مراد قيامت اور اعمال کی جزا ہے اور اپنے وعدہ کو پورا کيا ميں نے بهی تم سے وعدہٴ الٰہی کے برخلاف وعدہ کيا مگر ميں نے جو تم سے وعدہ کيا تها ميں نے پورا نہيں کيا۔ ميں تم پر تسلط نہيں رکهتا تاکہ تمہيں مجبور کروں کہ کفر و معصيت ميں مبتلا ہو، ميں نے صرف تمہيں دعوت دی اپنی سہولتوں اور وسوسوں کے ذریعہ تمہيں کفر و معصيت کی طرف بلایا تم نے ميری دعوت پر لبيک کہا لہٰذا مجهے ملامت نہ کرو، جس شخص کی عداوت واضح ہو اس کی فریب خوردہ باتوں ميں نہيں آنا چاہيے۔
اس بنا پر خود اپنے نفس کی ملامت کرو کہ ميرے دامِ فریب ميں آگئے اطاعت خدا کو ترک کرکے ميری اطاعت کی ميں تمہيں عذابِ الٰہی سے نجات نہيں دے سکتا، نہ ہی پناہ دے سکتا ہوں اور تم بهی مجهے پناہ دینے سے عاجز ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ابراہيم، آیت ٢٢ ۔ (
شيطان شریر کے معنی ميں آیا ہے اور کبهی قرآن مجيد ميں جن و انس ميں سے ہر شریر فرد پر اطلاق ہوا ہے۔ جيسے الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَکَذَلِکَ جَعَلنَْا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوا شَيَاطِينَ ) الإِْنسِ وَالجِْنِّ > ( ١
اسی طرح ہم نے ہر نبی کے ليے جنات و انسان سے شياطين کو ان کا دشمن قرار دیا ہے۔ ليکن آیہٴ کریمہ ميں جو اولاد آدم کی تمام ضلالت و گمراہی کا منبع و مصدر ہے وہ وہی ابليس ہے۔ روز قيامت جس دن تمام اسرار آشکار ہوجائيں گے تمام مخفی اعمال نمایاں ہوجائيں گے جو کچه دنيا ميں انجام دیا ہوگا خواہ خلوت ميں یا جلوت ميں، فرشتے ان لوگوں سے بيزاری اختيار کریں گے جنہوں نے انہيں خدا کا شریک قرار دیا جن کے قبيلے والے انہيں دور کریں گے بتوں اور ان خداؤں کو جنہيں بعض افراد نے الله تعالیٰ کے بجائے اپنا رب تسليم کيا تها وہ ان کی تکفير کریں گے مجرمين اپنی ضلالت کا اعتراف کریں گے اسی طرح یہاں تک کہ خود ابليس
بهی معترف ہوگا جيسا کہ یہ آیہٴ کریمہ اس معنی کی وضاحت کر رہی ہے <قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاٴُغوِْیَنَّہُم اٴَجمَْعِينَ # إِلاَّ عِبَادَکَ مِنہُْم المُْخلَْصِينَ (الیٰ قولہ) لَاٴَملَْئَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَْ وَمِمَّن تَبِعَکَ مِنہُْم ) اٴَجمَْعِينَ > ( ٢
اس نے کہا: تو پهر تيری عزت کی قسم! ميں سب کو گمراہ کروں گا علاوہ تيرے ان بندوں کے جنہيں تو نے خالص بنا ليا ہے۔ ارشاد ہوا تو پهر حق یہ ہے اور ميں تو حق ہی کہتا ہوں کہ ميں جہنم کو تجه سے اور تيرے پيروکاروں سے بهردوں گا۔
مذکورہ آیات اور بہت سی دوسری آیتوں نے شيطان کی ماہيت ،عداوت، سہولتيں اور وسوسوں کا تعارف کرایا ہے اور وہ ہوشيار کر رہی ہيں کہ اس کی اہم ترین آرزو یہ ہے کہ اولاد آدم کو کفر و شرک و نفاق اور تمام گناہوں کے گرداب ميں پهنسا کر اپنے ہمراہ ہلاکت ميں ڈالے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ١١٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ ص، آیت ٨۵ (
قرآن کریم جيسا کہ پہلی بحث کے عنوان ميں بيان ہوا کہ وہ ان تمام ویران گر دردوں سے انسان کے ليے دین و دنيا ميں شفا ہے ہم یہاں بعض آیات و روایات کو آپ کے گوش گزار کر رہے ہيں۔
قرآن کی آیات کریمہ کے دو پہلو ہيں: ١۔ بشير ٢۔ نذیر۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَضَرَبَ اللهُ مَثَلاً قَریَْةً کَانَت آمِنَةً مُطمَْئِنَّةً یَاٴتِْيہَا رِزقُْہَا رَغَدًا مِن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَت بِاٴَنعُْمِ اللهِ فَاٴَذَاقَہَا اللهُ لِبَاسَ الجُْوعِ وَالخَْوفِْ بِمَا کَانُوا یَصنَْعُونَ # وَلَقَد جَائَہُم رَسُولٌ ) مِنہُْم فَکَذَّبُوہُ فَاٴَخَذَہُم العَْذَابُ وَہُم ظَالِمُونَ> ( ١
اور خداوند عالم نے اس قریہ کی بهی مثال بيان کی ہے جو محفوظ اور مطمئن تهی اور اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آرہا تها ليکن اس قریہ کے رہنے والوں نے الله کی نعمتوں کا انکار کيا تو خدا نے انہيں بهوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکها دیا صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تهے۔
اور یقينا ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کردی پهر ان تک عذاب آ پہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تهے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلَقَد آتَينَْا مُوسَی الکِْتَابَ وَقَفَّينَْا مِن بَعدِْہِ بِالرُّسُلِ وَآتَينَْا عِيسَی ابنَْ مَریَْمَ البَْيِّنَاتِ وَاٴَیَّدنَْاہُ بِرُوحِ القُْدُسِ اٴَفَکُلَّمَا جَائَکُم رَسُولٌ بِمَا لا تَہوَْی اٴَنفُسُکُم استَْکبَْرتُْم فَفَرِیقًا ) کَذَّبتُْم وَفَرِیقًا تَقتُْلُونَ # وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلفٌْ بَل لَعَنَہُم اللهُ بِکُفرِْہِم فَقَلِيلًا مَا یُؤمِْنُون> ( ٢
)واو قسم کے ليے ہے): ميں قسم کها کر کہتا ہوں کہ یقينا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ان کے پيچهے رسولوں کا سلسلہ قائم کيا۔ عيسی ابن مریم کو واضح معجزات عطا کيے، روح القدس سے ان کی تائيد کرادی ليکن کيا تمہارا مستقل طریقہ یہی ہے کہ جب کوئی رسول تمہاری خواہش کے خلاف کوئی پيغام لے کر آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١١٣ ۔ ، ١(۔ سورئہ نحل، آیت ١١٢ (
٨٨ ۔ ، ٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٨٧ (
ہے تو اکڑ جاتے ہو اور ایک جماعت کو جهڻلا دیتے ہو اور ایک کو قتل کردیتے ہو۔
اور یہودیوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہيں ہماری کچه سمجه ميں نہيں آتا بے شک ان کے کفر کی بنا پر ان پر خدا کی مار ہے اور یہ بہت کم ایمان لے آئيں گے۔
الله تعالیٰ ان آیات ميں اتمام حجّت کے عنوان سے فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے پيغمبروں کو آیات بينات کے ساته مسلسل بهيجنے کا سلسلہ قائم کيا تم اپنے ہوائے نفس کی پيروی کرنے لگے ان ميں سے بعض کی تکذیب کی اور بعض کو قتل کردیا بعد ميں یہ عذر پيش کيا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہيں لہٰذا لعنت خدا ميں گرفتار ہوئے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <اٴَوَ لَم یَسِيرُوا فِی الاْٴَرضِْ فَيَنظُرُوا کَيفَْ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ کَانُوا مِن قَبلِْہِم کَانُوا ہُم اٴَشَدَّ مِنہُْم قُوَّةً وَآثَارًا فِی الاْٴَرضِْ فَاٴَخَذَہُم اللهُ بِذُنُوبِہِم وَمَا کَانَ لَہُم مِن اللهِ مِن وَاقٍ ) # ذَلِکَ بِاٴَنَّہُم کَانَت تَاٴتِْيہِم رُسُلُہُم بِالبَْيِّنَاتِ فَکَفَرُوا فَاٴَخَذَہُم اللهُ إِنَّہُ قَوِیٌّ شَدِیدُ العِْقَابِ > ( ١
کيا (کفار قریش) نے زمين (شام و یمن) کی سير نہيں کی کہ دیکهتے کہ ان سے پہلے والوں کا کيا انجام ہوا ہے (تاکہ ان سے عبرت حاصل کریں) جو ان سے زیادہ زبردست قوت رکهنے والے تهے اور زمين ميں آثار کے مالک تهے پهر خدا نے انہيں ان کے گناہوں کی گرفت ميں لے ليا اور الله کے مقابلہ ميں ان کا کوئی بچانے والا نہيں تها۔
یہ سب اس ليے ہوا کہ ان کے پاس رسول کهلی ہوئی نشانياں لے کر آتے تهے تو انہوں نے انکار کردیا تو پهر خدا نے بهی انہيں اپنی گرفت ميں لے ليا کہ وہ بہت قوت والا اور سخت عذاب کرنے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢٢ ۔ ، ١(۔ سورئہ مومن، آیت ٢١ (
الله تعالیٰ کا یہ قول: <إِنَّ الَّذِینَ یُلحِْدُونَ فِی آیَاتِنَا لا یَخفَْونَْ عَلَينَْا اٴَفَمَن یُلقَْی فِی النَّارِ خَيرٌْ ) اٴَم مَن یَاٴتِْی آمِنًا یَومَْ القِْيَامَةِ اعمَْلُوا مَا شِئتُْم إِنَّہُ بِمَا تَعمَْلُونَ بَصِيرٌ > ( ١
بے شک جو لوگ ہماری آیات ميں ہيرا پهيری کرتے ہيں وہ ہم سے چهپنے والے نہيں ہيں ۔ سوچو کہ جو شخص جہنم ميں ڈال دیا جائے گا وہ بہتر ہے یا جو روز قيامت بے خوف و خطر نظر آئے تم جو چاہو عمل کرو وہ تمہارے اعمال کا دیکهنے والا ہے۔
اس آیہٴ کریمہ ميں خداوند متعال نے دونوں گروہ کے انجام کار کو مشخص فرمایا ہے عاقل انسان کبهی بهی آتش جہنم سے امن و امان ميں رہنے کے بجائے آتش جہنم ميں جانے کا تبادلہ نہيں کرتا اور خدائے تبارک و تعالیٰ نے ان ميں ہر ایک کو انتخاب کرنے کا حق اپنے بندوں کے سپرد کيا ہے۔
ہم نے اختصار کو مدّنظر رکهتے ہوئے چند آیات ، نمونے کے طور پر ذکر کرنے پر اکتفا کيا ہے۔
اور وہ دوسری آیات جو ناقابل علاج دردوں کے ليے شفا بخش ہيں ان کی طرف اشارہ کر رہے ہيں۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَاللهُ یَدعُْو إِلَی الجَْنَّةِ وَالمَْغفِْرَةِ بِإِذنِْہِ وَیُبَيِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُم ) یَتَذَکَّرُونَ > ( ٢
اور خدا اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی دعوت دیتا ہے اور اپنی آیتوں (احکام) کو واضح کرکے بيان کرتا ہے کہ شاید یہ لوگ سمجه سکيں (اور نصيحت حاصل کریں)۔ الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَاللهُ یَدعُْو إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَیَہدِْی مَن یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ> )٣)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فصلت، آیت ۴٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٢١ ۔ (
٣(۔ سورئہ یونس، آیت ٢۵ ۔ (
خدائے تبارک و تعالیٰ (اپنے بندوں کو) سلامتی کے گهر (جو بہشت ہے) کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سيدهے راستہ کی ہدایت دے دیتا ہے۔ الله تعالیٰ کا یہ قول: <یَااٴَیُّہَا النَّاسُ قَد جَائَتکُْم مَوعِْظَةٌ مِن رَبِّکُم وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ ) وَہُدًی وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ > ( ١
ایها الناس! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصيحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبان ایمان کے ليے رحمت “قرآن” آ چکا ہے۔ یہ قرآن کریم ایک آسمانی کتاب ہے اور حضرت خاتم الانبياء محمد ابن عبد الله صلوات الله عليہ وآلہ کا جاودانی معجزہ ہے جو تمام افراد بشر کی ہدایت کا ذمہ دار ہے۔ جيسا کہ فرماتا ہے:
>إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم ) اٴَجرًْا کَبِيرًا # وَاٴَنَّ الَّذِینَ لاَیُؤمِْنُونَ بِالآْخِرَةِ اٴَعتَْدنَْا لَہُم عَذَابًا اٴَلِيمًا > ( ٢ بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نيک اعمال بجالاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہيں رکهتے ہيں ان کے ليے ہم نے دردناک عذاب مہيا کر رکها ہے۔ یہاں اقوم سے کيا مراد ہے اس کے ليے بہت سی وجہيں ذکر ہوئی ہيں: ١ (یعنی وہ ملت جو اقوم ہے یعنی ملت حنيف ابراہيم - جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ۵٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ بنی اسرائيل، آیت ٩،١٠ ۔ (
)٢) ،( >قُل إِنَّنِی ہَدَانِی رَبِّی إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ دِینًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبرَْاہِيمَ حَنِيفًا > ( ١ آپ کہہ دیجيے کہ ميرے پروردگار نے مجهے سيدهے راستے کی ہدایت دے دی ہے جو ایک مضبوط دین اور باطل سے اعراض کرنے والے ابراہيم کا مذہب ہے۔
۶١٧ ۔ “ وفی الکافی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قولہ تعالیٰ <اِنّ هٰذا القُرآنَ یَهدی ) لِلتی هِیَ اَقومُ>قال ای یَدُعو” ( ٣
کافی ميں امام جعفر صادق - نے اس مذکورہ آیہٴ کریمہ کے متعلق فرمایا: ہدایت کا معانی دعوت کرنے اور بلانے کے ہيں۔
۶١٨ ۔ “ وفی تفسير العياشی عن ابی جعفر عليہ السلام <اِنّ هٰذا القُرآنَ یَهدی لِلتی ) هِیَ اَقومُ >قال یَهدی الی الوِلایَةِ ” ( ۴
تفسير عياشی ميں امام محمد باقر - نے مذکورہ آیہٴ کریمہ کے متعلق فرمایا: قرآن ولایت کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
٢ (الطَریقَةِ الّتی هی اَقوَمُ الطُرُق وَاَشَدّ استقامَةً : ایسا راستہ جو بالکل سيدها اور پُر استقامت ہو۔
۶١٩ ۔ “وفی المعانی عن السجاد عليہ السلام : الا اٰ ممُ مِنا لایَکونُ الاَّ مَعصوماً وَلَيسَت العِصمَة فی ظٰاہر الخِلقةَ فَيُعرفُ بِها وَلِذلِکَ لایَکونُ الاَّ مَنصُوصاً فَقيل اٰ م مَعنَی المَعصومُ قالَ هُو المُعتَصم بِحَبلِ اللّٰہ هُو القُرآنُ وَالقرآنُ یَهدی الَی الامٰامِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ١۶١ ۔ (
٢(۔ الميزان، ج ١٣ ، ص ۴٨ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ۵، ص ١٣ ۔ الميزان، ج ١٣ ، ص ٧٢ ۔ (
۴(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢٨٢ ۔ (
وَذلک قولہ تعالیٰ اِنّ هٰذا القُرآنَ یَهدی لِلتی هِیَ اَقومُ“ لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا وجود خارجی پایا جاتا ہے اور وہ خلقت انسانی کے ظاہر سے نمایاں اور پہچانی جائے۔ لہٰذا اسے الله تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔ کہا گيا: اے رسول خدا (ص)! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے“
اسی حصہ ميں جو بحث ہماری قرآن مجيد کے شفا ہونے سے مربوط ہے وہ یہ ہے کہ قرآن تمام ویران گر دردوں جيسے کفر و نفاق و شرک وغيرہ جو انسانوں کے جسمانی یا روحانی امراض ہوا کرتے ہيں شفا ہے۔
اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ اور ان کے اجداد کرام عليہم السلام اجمعين بڑے لاعلاج دردوں سے شفا بخشنے والے ہيں خواہ وہ کفر و شرک و نفاق کا مرض ہو یا افراد بشر کے جسمانی و روحانی امراض ہوں۔
ليکن جسمانی امراض سے شفا بخشنا خواہ جس قسم کے ہوں ان کا شمار کرنا ہمارے بس ميں نہيں ہے۔
۶٢٠ ۔ “وَفی الخَرایج روی عَن عُمر بن اذینة عَن اَبی عَبد اللّٰہ عليہ السلام قال دَخلَ الاٴشتَرُ عَلی علیٍ عليہ السلام فَسلَّمَ فَاٴجابَہُ ثُمَّ قال مٰا اَدخلَکَ عَلیّ فی هذِہِ السّاعَةِ قال حُبّک یا اَمير الموٴمنين عليہ السلام قال تعال یٰ فَهل رَاٴیتَ بِبابی اَحَداً قالَ نَعَم اَربَعَة نَفَرٍ فَخرَجَ الاٴشتَر مَعَہُ فَاذا بِالبابِ اَکمةٌ وَاَبَرص وَ مَکفوفٌ وَمُقعدٌ فَقالَ ما تَصنَعونَ هٰيهُنا قالُوا جِئناکَ لَما بِنا فَرجَع فَفَتح حَقاً لَہ فَاخرَجَ رِقاً صَفراءُ ) فَقَراٴ عَليهِم فَ اٰ قمُوا کُلّهُم مِن غَير عِلّةٍ ” ( ١
خرائج ميں عمر ابن اذینہ سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: مالک اشتر حضرت علی - کی خدمت ميں آئے سلام کيا حضرت نے جواب سلام دیا پهر فرمایا: اس وقت کيسے آنا ہوا؟ عرض کيا: اے امير الومنين -! آپ کی محبت کهينچ کر لائی ہے۔ فرمایا: کيا ميرے دروازے پر کسی اور شخص کو دیکها تها؟ عرض کيا:ہاں چار افراد ہيں پهر مالک اشتر عمر ابن اذینہ کے ہمراہ باہر گئے دیکها سب مریض ہيں مادرزاد اندهے، مبروص، نابينا اور لنگڑے ہيں دریافت کيا: یہاں کيوں آئے ہو؟ جواب دیا: شفا حاصل کرنے۔ مالک واپس آگئے ایک رقيہ( ٢) (ڈبيا) کهولی ایک تعویز زرد رنگ کی برآمد ہوئی پهر اسے ان لوگوں کے ليے پڑهی پهر سب کے سب بغير کسی مرض کے اڻه کهڑے ہوئے اور شفایاب ہوگئے۔
۶٢١ ۔ “ قال وَ روی النّسائی عَن عُثمان بن حُنَيف ان اعمیٰ قال یا رَسول اللّٰہ (ص) اُدعُ اللّٰہ اَن یَکشف لی عَن بَصری قال فَانطلِق فَتَوَضّاٴ ثمّ صَلّ رِکعتَينِ ثمّ قُل اللّهُمَ اِنّی اَسئلُک وَاتوجہُ اِلَيک بِنَبی مُحمدُ نَبیِ الرّحمَةِ یا مُحمد انّی اَتَوَجّہ بِکَ ا لٰ ی رَبّک اَن یَکشِفَ عَن بَصَری اللّهُم شَفعُہُ ) فِیّ قال فَرَجَع وَ ذُو کَشَف اللہّٰ عَن بَصَرِہ ” ( ٣
نسائی نے عثمان ابن حنيف سے روایت کی ہے کہ: ایک نابينا شخص رسول اکرم (ص) کی خدمت ميں آیا اور عرض کيا: اے الله کے رسول (ص)! دعا فرمائيں خداوند متعال ميری آنکهوں کو شفا بخش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرائح، ج ١، ص ١٩۶ ۔ (
٢(۔ رقيہ: ایسی شے ہے کہ جس ميں دعا وغيرہ تحریر کی جاتی ہے جسے مریض کے ليے (
پڑهتے ہيں یا باندهتے ہيں وہ خدا کی اجازت سے شفا پاتا ہے۔
٣(۔ السنن الکبری، ج ۶، ص ١۶٩ ۔ الشفا بتعریف الحقوق المصطفیٰ۔ قاضی عياض، ج ١، ص ٣٢٣ ۔ ( دے آن حضرت نے فرمایا: جاؤ وضو کرو اور دو رکعت نماز بجالاؤ پهر کہو: خدایا ! تيری بارگاہ ميں تجه سے تيرے پيغمبر رحمت حضرت محمد (ص) کے وسيلے سے درخواست کرتا ہوں، اے محمد (ص)! ميں یقينا آپ کے وسيلے سے پروردگار کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ الله ميری آنکهوں کو شفا عنایت کرے خداوندا! ان کی شفاعت ميرے حق ميں قبول فرما، راوی کہتا ہے: وہ نابينا ایسی حالت ميں واپس ہوا کہ الله نے اس کی آنکهوں کے پردے کهول دیے اور وہ صحت یاب ہوگيا۔
۶٢٢ ۔ “عَن صالح بن ميثم فی حدیث اِنّی حَبابة الوالَبيَة قالَت کُنتُ اَزُورُ الحُسَين بن عَلی عليہ السلام قالَت : فَحَدثَ بَينَ عَينَنی وَضَحُ وَشَقَ لٰذِکَ عَلَیّ وَاحتَبستُ عَلَيہ اَیّاماً ، فَسَاٴلَ عَنّی ما فَعَلت حَ اٰببَةُ ال اٰولبيةَ ؟ فَقالُوا اِنّها حَدَث عَليها حَدَثٌ بَينَ عَينَي هٰا ، فَقالَ لاٴصحابِہِ : قُومُوا اِلَيها فَجآءَ مَع اَصحابِہِ حَتّی دَخَل عَلیّ وَاَنا فی مَسجَدی هذا ، فَقالَ عليہ السلام اٰی حَبابَة اٰ م اَبطَاٴ بِکَ عَلَیّ ؟ قُلتَ حَدثَ هٰذا لی فَکَشَفت القِناعَ فَتفلَ عَلَيہ الحُسينُ عليہ السلام فَقالَ اٰی حَبّابَہ احدِثنی للہّٰ شُکراً فَانّ اللہّٰ قد دَرَاٴہُ عَنکَ قالَت فَحرّرتُ ساجِدَةً فَقال اٰی حَ اٰببة اِرفَعی رَاٴسِک ) وَانظُری فی مِراتِک قالَت فَرَفَعت رَاٴسی فَلم اَحَسّ مِنہُ شَيئاً قالَت فَحَمِدَت اللہّٰ ” ( ١ محمد ابن حسن صفار ، صالح ابن ميثم سے ایک حدیث نقل کرتے ہيں کہ حبابہٴ والبيہ کا بيان ہے: ميں حسين ابن علی - کی زیارت کے ليے جایا کرتی تهی اتفاقاً ميری آنکهوں کے درميان سفيد داغ (برص) نکل آیا اور یہ مجهے ناگوار ہوا لہٰذا چند روز تک حضرت - کی زیارت کرنے نہيں گئی تو انہوں نے ایک دن اپنے اصحاب سے ميرے متعلق دریافت فرمایا، اصحاب نے عرض کيا: اس کی دونوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ بصائر الدرجات، ص ٢٩١ ۔ دلائل الامامة، ص ١٨٧ ۔ مدینة المعاجز، ص ۴۵٨ ۔ بحار الانوار، ج ۴۴ ( ص ١٨٠ ۔
آنکهوں کے درميان سفيد داغ پيدا ہو گيا ہے اس سبب سے اس نے گهر سے نکلنا ترک کردیا ہے، یہ سنتے ہی حضرت - نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا: اُڻهو اور اس خاتون کی عيادت کے ليے چليں۔ حضرت مع اصحاب کے ميرے گهر ميں تشریف لائے اس وقت ميں اپنے مصلے پر نماز ميں مشغول تهی، حضرت نے فرمایا: اے حبابہ! تو کس وجہ سے ميری زیارت کے ليے نہيں آئی؟ ميں نے کہا: اس مرض کی وجہ سے جو یہ ميری پيشانی پر عارض ہوا ہے۔ حضرت - نے اپنا لعاب دہن اسی سفيد داغ پر ملا اور فرمایا: اے حبابہ! خدا کا شکر بجا لا کہ اس نے اپنے لطف و کرم سے تيرے مرض کو زائل کيا چنانچہ ميں سجدہٴ شکر ميں گئی پهر حضرت نے فرمایا: اے حبابہ! اپنا سر سجدہ سے اڻها جب ميں نے سر اڻهایا اور آئينے ميں دیکها تو فرزندِ رسول (ص) کے اعجاز سے مطلق نشان اس مرض کا نہ پایا پس شکر خدا بجا لائی۔ ائمہٴ ہدی بهی دونوں حيات (دنيا و آخرت) ميں لوگوں کے ليے شفا بخش ہيں۔
بالخصوص صاحب الامر امام زمانہ - نے اس زمانے کے انسانوں کو اپنی عنایتوں کے زیر سایہ قرار دیا ہے۔
۶٢٣ ۔ “ نوادر الراوندی عَنْ عَلیٍ عليہ السلام قٰالَ: لَماٰ بَعَثَنی رَسُولُ اللہّٰ (ص) اِلَی اليَمنِ قَالَ : اٰی عَلیٌّ لاَ تُ اٰ قبِلُ اٴَحَداً حَتّ یٰ تَدعُوہُ اِلی الاِس لْاٰمِ وَاَیمُْ اللہِّٰ لَئِن یَهدِْیَ اللہُّٰ عَ لٰی یَدَیکَْ رَجُلاً خَيرٌْ ) لَکَ مِماٰ طَلَعَت عَلَيہِْ الشَّمسُْ وَلَکَ وِ لاٰئُہُ ” ( ١
صاحب نوادر راوندی نے حضرت علی - سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب رسول خدا نے مجهے یمن کی طرف (تبليغ کے ليے) بهيجا تو فرمایا: اے علی -! کسی شخص سے روبرو نہ ہونا مگر یہ کہ اسے دینِ اسلام کی طرف دعوت دینا خدا کی قسم! اگر الله تعالیٰ تمہارے بدست ایک شخص کی ہدایت کرے تو یہ (ثواب کے لحاظ سے) تمہارے ليے ان چيزوں سے بہتر ہے جس پر آفتاب چمکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار ميں نوادر راوندی سے منقول ، ج ٣، ص ٧٠٠ ۔ (
۶٣۴ ۔ “فی البحار نقلاً عن اٴمالی الشيخ باسنادہ عَن سُدَیرِ الصِيْرَفی قالَ: جٰآءَ ت اِمْراٴةُ اِلیٰ اٴَبی عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام فَقٰالَتْ لَہُ : جُعِلتُْ فِ اٰ دکَ اِنّی وَاٴبی وَاٴَهلُْ بَيتِْی نَتَوَ لاٰکُم ینَ ؟ قٰالَتْ لَہُ الْمراٴةُ : جُعِلتُْ فِداکَ فَقٰالَ لَهٰا اٴبو عَبْد اللّٰہِ عليہ السلام: صَدَقتِْ فَمَا الَّذی تُرید ی فادْعُ اللّٰہَ اٴنْ یَذْهَبَ بِہِ عَنّی قٰالَ اٴبو عَبْد اللّٰہ یَابُنَ رَسُولِ اللہّٰ اٴ صٰابَنی وَضعٌ (البَرَص)ْ فی عَضدْ عليہ السلام : اَللهُّٰمَّ اِنَّکَ تُبرْیٴُ الاٴکمَہَ وَالاْٴبَرَصَ وَتُحی العِ ظٰامَ وَهِیَ رَمِيمٌ اَلبِْس هْٰا مِن عَفوِْکَ ) ی فَقالَتْ الْمَراٴةُ : وَاللہِّٰ لَقَد قُمتُْ وَ اٰ م بی مِنہُْ قَليلٌ وَ لاٰکَثِيرٌ ” ( ١ وَعافِيَتِکَ مَا تَر یٰ اٴثرَ اِ جٰابَةَ دُ عٰائ
علامہ مجلسی بحار ميں امالی شيخ طوسی عليہ الرحمہ سے اور وہ بطور مسند سدیر صيرفی سے نقل کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے: ایک خاتون حضرت امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوئی اور عرض کيا: ميں آپ پر قربان ،ميں ميرے باپ اور ميرے گهر والے آپ کی محب اور دوست دار ہيں تو حضرت امام جعفر صادق -نے اس سے فرمایا: تم سچ کہتی ہو، تم کيا کہنا چاہتی ہو؟ کہا: ميں آپ پر قربان ميرے بازو پر سفيد داغ ہيں دعا فرمائيں کہ الله تعالیٰ ان کو ميرے بازو سے ختم کردے تو حضرت نے ان کلمات کے ذریعہ اس کے ليے دعا کی: اے خدا! یقينا تو ابرص (مادر زاد نابينا اور برص والوں) کو شفا بخشتا ہے اور بوسيدہ ہڈیوں کو زندہ کرتا ہے ان ميں روح ڈالتا ہے اپنا لباس صحت و عافيت اس خاتون کو پہنا دے اس طرح سے کہ ميری دعا قبوليت کا اثر دیکه لے ۔ اس خاتون کا بيان ہے: خدا کی قسم ! ميں اپنی جگہ سے کهڑی ہوئی تو ميں نے اس مرض سے کسی بهی قسم کا اثر باقی نہيں دیکها۔
۶٢۵ ۔ “فی البحار نقلاً عن الخرایج روی اَنَّ قَوُماً مِنَ النَّصٰاری کٰانُوا دَخَلُوا عَلَی النَّبِی (ص) وَقٰالُوا: تَخرُْجُ وَنَجیءُ بِاٴْهلِ اٰن وَقَومِْ اٰن فَاِن اَخرَْجتَْ لَ اٰن مِاٴةَ اٰنقَةٍ مِنَ الحَْجَر سَو اْٰ دء مِن کُلّ اٰوحِدَةٍ فَصِيلٌ آمَناٰ فَضَمِنَ لٰذِکَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی طوسی، ص ۴٠٧ ۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ٢۵٨ ۔ مدینة المعاجز، ج ۵، ص ۴۶٨ ۔ ( بحار الانوار، ج ۴٧ ، ص ۶۵ ۔
ینَةَ فَسَاٴلُوا عَنِ فَانصَْرَفُوا اِل یٰ بِلادِهِم ، فَلَمّا اٰ کنَ بَعُدَ وَفَاتِ رَسُولِ اللہِّٰ (ص) رَجَعُوا فَدَخَلُوا المَد النَّبی (ص) فَقِيلَ لَهُم تُوفِی (ص) فَقٰالُوا نَجِدُ فِی کُتُبِنٰا اِنَّہُ لاٰ یَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيٰا نَبیٌّ اِلاَّ وَیَکُونُ لَہُ وَصِیٌّ فَمَن اٰ کنَ وَصِیُّ نَبِيّکُم مُحَمَّدٌ (ص) فَدَلّوا عَل یٰ اٴبی بَکرٍْ فَدَخَلُوا عَلَيہِْ فَ اٰ قلُوا لَ اٰن دَینٌْ عَل یٰ لٌ وَکُلَّها سُودٌ ؟ فَقٰالَ: اٰ م تَرَکَ رَسُولِ مُحَمَّد (ص) قَالَ وَ اٰ م هُوَ؟ اٰقلُوا: مِاٴةَ اٰنقَةٍ مَعَ کُلِّ اٰنقَةِ فَصی اللّٰہ (ص) تَرَکَةً تَفِی بِ لٰ ذِکَ ، فَ اٰ قلَ بَعضُْهُم لِبَعضٍْ بِلِ سٰانِهِم اٰ م اٰ کنَ اٴَمرُْ مُحَمّدٍ (ص) اِلاَّ اٰبطِلاً ، وَ اٰ کنَ سَل مْٰانُ حٰاضِراً وَ اٰ کنَ یَعرِْفُ لُ اٰ غتَهُم ، فَ اٰ قلَ لَهُم : اٴَنَا اٴدُلکُمْ عَلیٰ وَصِیّ مُحمّدٍ (ص) فَاِذاً بِعَلِی عليہ السلام قَد دَخَلَ المَْسجِْد فَنَهَضُوا اِلَيہِْ وَجَثَواْ بَينَْ یَدَیہِْ فَ اٰ قلُوا لَ اٰن عَلَ یٰ نَبِيَّکُم دَینٌْ مِاٴةَ اٰنقَةً دَینْاً بِصِفَاتٍ مَخصُْوصَةً قَالَ عَلِیٌّ عليہ السلام وَتَسلَْمُونَ حِينَئِذٍ ؟ اٰقلُوا: نَعَم فَ اٰوعَدَهُم اِلَی الغَْدِ ثُمَ خَرَجَ اِ لٰ ی الجُْبّانَةِ وَالمُ اٰنفِقُونَ یَزعَْمُونَ اِنَّہُ یُفَتضِْحُ فَلَمَّا وَصَلَ اِلَيهِْم صَلّ یٰ رِکعَْتَينِْ وَدَ عٰا خَفِيّاً ثُمَّ ضَرَبَ یب رَسُولِ اللّٰہ (ص) عَلَی الحَجَرِ فَسَمعَ مِنہُْ اٴَنينٌ یَکُونُ لِلنّوقِْ عِندَْ مَ خٰاضِ هٰا فَبَينَْ مٰا کَ لٰ ذِکَ بِقَض اِذّ اِنشَْقَ الحَْجَر وَخَرَجَ مِنہُْ رَاٴسَ اٰنقَةٍ وَقَد تَعَلَّقَ مِنہُْ رَاٴسُ الزِ اٰ ممِ فَقَالَ عليہ السلام لِاِبنِْہِ الحَسَنَ لٌ کُلُّها سُودُ الْاٴلْوٰانِ فَاٴسْلَمَ النَّصٰاریٰ عليہ السلام خُذہُْ فَخَرَجَ مِنہُْ مِاٴةَ اٰنقَة مَعَ کُلِّ وَاحِدَةٍ فَصی یرَ یرٍ فَادعُْ اٰی اَم کُلُّهُم ثُمَّ اٰقلُوا اٰ کنَت اٰنقَةُ صٰالح النَّبِی اٰو حِدَةً وَ اٰ کنَ بِسَبَبِهَا هَلاَکُ قَومٍْ کَث المُْوٴمِْنينَ حَتّ یٰ تَدخُْلَ النَّوقُْ وَفِ صٰالُ هٰا فِی الحَْجرِ لِئلا یَکُونَ شَیءٌ مِنها سَبَبَ هَ لاٰکِ اُمَّةِ مُحَمّدٍ ) صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ وَسَلّم فَدَ عٰا عليہ السلام فَدَخَلَت کَ مٰا خَرَجَت ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرائح، ج ١، ص ٢١٣ ۔ بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ١٩٨ ۔ (
علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے بحار ميں خرائج راوندی سے نقل کيا ہے کہ: نصاریٰ کا ایک گروہ نبی اکرم کی خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: اگر آپ ہمارے ليے اس سياہ سنگ سے سو اونٹ نکال دیں تو ہم سب اپنے مع اہل و عيال ایمان لائيں گے رسول خدا (ص) نے (اس معاملہ کی ضمانت دی وہ لوگ اپنے شہر کی طرف واپس گئے اور جب رسول اسلام (ص) کا دنيا سے انتقال ہوا تو وہ دوبارہ مدینہ واپس آئے اور نبی اکرم (ص) کا سراغ لگایا۔ کہا گيا: پيغمبر اسلام (ص) کی وفات ہوچکی ہے جب ان لوگوں نے آنحضرت (ص) کے وفات کی خبر سنی تو کہا: ہم نے اپنی کتاب ميں ایسا ہی پایا تا کہ کوئی پيغمبر دنيا سے نہيں انتقال کرتا مگر یہ کہ اس کا ایک وصی ہوتا ہے۔
آپ کے پيغمبر محمد (ص) کا وصی کون ہے؟ لوگوں نے ابوبکر کی طرف رہنمائی کی تو وہ لوگ وہاں گئے اور عرض کيا: ہم محمد سے سو سياہ اونٹ کہ جن کے ہمراہ ایک ایک بچہ بهی ہو طلب گار ہيں؟ خليفہ نے کہا: رسول خدا (ص) نے کوئی شے بعنوان ترکہ نہيں چهوڑی جو اس کے ليے کفایت کرے پهر بعض افراد دوسرے افرا د سے اپنی زبان سے کہہ رہے تهے محمد کا تمام کام باطل تها، اتفاق سے حضرت سلمان وہاں موجود تهے جو ان کی زبان سے واقف تهے کہا: ميں تمہيں وصی محمد مصطفی (ص) کی رہنمائی کروں گا اسی اثنا ميں حضرت امير المومنين علی - مسجد ميں وارد ہوئے سب ہی اپنی جگہ احتراماً کهڑے ہوگئے اور دو زانو ہوکر حضرت علی - کی خدمت ميں بيڻهے اور عرض کيا: ہم محمد سے سياہ اونٹ کہ جن کے ہمراہ ایک ایک بچہ بهی ہو طلب گار ہيں؟ حضرت نے فرمایا: کيا اس صورت ميں اسلام قبول کرو گے؟ عرض کيا: ہاں، دوسرے دن صبح کے وقت ملنے کا وعدہ کيا پهر حضرت ان لوگوں کے ہمراہ صحرا ميں گئے اور منافقين اپنے زعم ناقص ميں یہ خيال کر رہے تهے کہ حضرت ذليل و رسوا ہوں گے (اتنے اونٹ ان اوصاف کے ساته کہاں سے لائيں گے) جب حضرت وہاں پہنچے دو رکعت نماز ادا کی پهر رسول خدا (ص) کا عصائے مبارک پتهر پر مارا تو ایسے نالہ کی آواز سنائی دی جيسے ایک اونڻنی زچگی کے وقت نالہ کرتی ہے اسی اثنا ميں ناگہاں پتهر شکافتہ ہوا اور ناقہ کا سر باہر آیا کہ اس کی لگام اس کے سر ميں لگی ہوئی تهی حضرت علی - نے اپنے فرزند ارجمند امام حسن - سے فرمایا: اسے لو پهر سو اونٹ باہر آئے کہ ان ميں
سے ہر ایک اپنے ہمراہ ایک بچہ ليے ہوئے تها جو سب کے سب سياہ رنگ کے تهے پهر تمام نصاریٰ نے اسلام قبول کيا اور حضرت - سے عرض کيا:صالح پيغمبر کا ناقہ ایک تها لہٰذا وہ ہماری قوم کے بہت سے افراد کی ہلاکت کا باعث ہوا، پس اے امير المومنين -! دعا فرمائيں تاکہ تمام ناقے اپنے بچوں کے ہمراہ پتهر ميں داخل ہوجائيں اور امت محمد (ص) کی ہلاکت کا سبب نہ ہوں چنانچہ حضرت نے دعا فرمائی اور اونٹ جہاں سے جيسے خارج ہوئے تهے داخل ہوگئے۔
۶٢۶ ۔ “و فی اِثبات الهداة باب معجزات اٴبی عبد اللّٰہ الحسين بن علی عليہما السلام
ی وبالاسناہ عَن مُحَمَّدِ بن مُوس یٰ الشَّریفی عَن اٴَبيِہ عَن یُوحَناْ النَص اْٰرنِی المُتَطَبِب ف حَدیثٍ قَالَ: دَخَل اْٰن عَل یٰ مُوس یٰ بن عِيس یٰ ال هْٰاشِمی فَوَجد اٰنہُ اٰزیل العَْقلِْ مُتکِياً عَل یٰ وِ سٰادَةٍ وَاِذاً یلَ لَہُ : اٰ کنَ مُنذُْ سَاعةٍ جٰالِساً وَهُوَ مِن اٴَصحّ یہِ حَشوُْ جَوفِْہِ فَسَ اٰ لَ عَنہُْ ، فَق عِندَْہُ طَشتٌْ ف ہِ حَتّی النّاسِ جِسْماً اِذْ جَریٰ ذِکْرُ الْحُسَيْنُ عليہ السلام فَقَالَ مُوسیٰ : اِنَّ الراٰفِّضَةَ لِتَغلُْو فی اِنَّهُم یَعجَْلُونَ تُربْتَہُ دَ آٰوءً یَتَد وُٰاونَ بِہِ ، فَ اٰ قلَ لَہُ رَجُلٌ مِن بَنی اٰہشِم اٰ کنَ حٰاضِراً ، قَد اٰ کنَت بِی عِلَّةً ی دٰایتی اٴنْ آخُذَ مِنْ هٰذِہِ التُّرْبَةَ ی حَتّ یٰ وَصَفَت ل ظَةٌ فَتَ اٰ علَجتُْ لَ هٰا بِکُلِّ عِ لاٰجٍ فَ مٰا نَفَعَن غَلی فَاٴخَذتُْ هٰا فَنَفَعَنِی اللہُّٰ بِ هٰا اٰقلَ فَبَقیَ عِندْکَ شَیءٌ؟ اٰقلَ: نَعَم ، قَالَ فَوَجَّہَ فَ جٰآءَ مِن هْٰا بِقطعَْةٍ فَ اٰنوَلَ هٰا ی دُبُرِہِ اِستِْه اْٰزءً بِمَن یُدا وٰی بِ هٰا وَاحتِْقَارَاً فَ مٰا هواِلاَّ اٴن س یٰ فاستَْدخَْلَها ف مُوسَی بن عی اِستَْدخَْلَ هٰا دُبُرَہُ حَتّ یٰ صٰاحَ الناٰرُّ الناٰرُّ الطَْشَتُ اَلطَشتُْ فَجِئ اْٰنہُ بِالطَشتِْ فَاٴخرَْجَ من اٰ متَر یٰ ، اٰقلَ: فَنَظَرتُْ فَاِذاً کَبَدُہُ وَطَ حٰالُہُ وَرِیَتُہُ وَفُوٴادُہُ خَرَجَ مِنہُْ فی الطَشتِْ اِلَی اٴن اٰقلَ فَ مٰاتَ فی السَّحَرِ اٰقلَ ) ینِہِ ثُمَّ اٴَسلَْمَ بَعُد هٰ اٰ ذ وَحَسُنَ اِس لْاٰمُہُ ” ( ١ وَ اٰ کنَ یُوحَ اٰن یَزُورُ الحُْسَينَ عليہ السلام وَهُوَ عَل یٰ د
اثبات الہداة ميں باب معجزات ابی عبد الله الحسين ابن علی عليہما السلام ميں بطور مسند محمد ابن موسیٰ شریفی سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے انہوں نے یوحنا نصر انی طبيب سے ایک حدیث کے ذیل ميں نقل کيا ہے: کہ یوحنا ناقل ہيں: ميں موسی ابن عيسی ہاشمی کے پاس گيا دیکها دیوانہ ہوگيا ہے اور اپنی تکيہ کے سہارے بيڻها ہے، اس کے مقابل ميں طشت ہے کہ اس ميں اس کے بعض اعضا و جوارح (انتڑیوں) کے ڻکڑے پڑے ہوئے ہيں اصل واقعہ کی تفصيل طلب کی تو کہا: ایک گهنڻہ پہلے مکمل سلامتی کے ساته بيڻها ہوا تها درميان گفتگو امام حسين - کا تذکرہ ہوا موسی نے کہا: یہ وہی حسين - ہيں جن کے متعلق رافضی بہت غلو کرتے ہيں یہاں تک کہ ان کی خاکِ قبر سے اپنا مداوا و علاج کرتے ہيں۔ اتفاق سے بنی ہاشم کا ایک آدمی وہاں موجود تها کہا: مجهے بهی سخت مرض لاحق ہوا تها بہت دوا علاج کيا کوئی فائدہ نہيں ہوا ميری دایہ نے ميرے ليے تربتِ امام حسين - کی خاصيت بيان کی ميں نے اسے حاصل کيا اور کهایا اور مجهے فائدہ ہوا، موسیٰ نے دریافت کيا: تمہارے پاس کيا اس ميں سے کچه باقی رہ گئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، چنانچہ وہ گيا اور تهوڑی سے خاک شفا لے آیا موسی نے وہ مڻی لے کر بطور مسخر ہ اسے اپنی خلوت گاہ ميں رکه ليا اور جيسے ہی وہاں مقام خاص ميں اسے داخل کيا فریاد بلند کی: النار النار الطشت الطشت (ہائے ميں جلا، ہائے ميں جلا، جلدی طشت لاؤ، جلدی طشت لاؤ) جب طشت لایا گيا اور یہ اس پر بيڻها تو اس کی آنتيں کٹ کٹ کر نکلنے لگيں۔ راوی کا بيان ہے: جب ميں نے طشت کو قریب سے دیکها تو اس ميں اس کے جگر، تلی، پهيپهڑے اور دل کے ڻکڑے پڑے ہوئے ہيں اسی طرح اس کے اعضاء کٹ کٹ کر مقام خاص سے باہر آکر گرتے رہے یہاں تک کہ صبح کے نزدیک وہ واصل جہنم ہوا، یوحنا طبيب اگرچہ اپنے عيسائی عقيدہ پر باقی تها وہ ہميشہ امام حسين - کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اثبات الهداة، ج ۵ باب معجزات حضرت سيد الشہداء -، ص ١٨٢ ۔ حدیث ١١ ۔ (
زیارت کرنے جایا کرتا تها اور آخر ميں وہ مسلمان ہوگيا اور اس کا اسلام لانا اس کے حق ميں بہتر ہوا۔
۶٢٧ ۔ “وفيہ : باب معجزات الاِمام زین العابدین فخر الساجدین علی بن الحسين عليہما السلام
وروی اٴبو علی الفضل بن الحسن الطبرسی فی کتاب اعلام الوریٰ قال : قال الصّٰادِقُ عليہ ینَْةِ فَسَمعَ السلام : اٰ کنَ اَبُو خٰالِدٍ یَقُولُ بِا اٰ ممَةِ مُحَمَّدِ بن الحَْنَفِيَّة فَقَدِمَ مِن اٰ کبِل شْٰاہ اِ لٰ ی المَْد یکَ بِمٰا لاٰ ی فَ اٰ قلَ لَہُ اٴَتُ خٰاطِبُ ابنِْ اٴَخ مُحَمّداً یُخاطِبُ عَلِیّ بن الحُْسَينِْ ، فَيَقُولُ لَہُ : یا سَيِّد یُ خٰاطِبُکَ بِمِثلِہِ فَ اٰ قلَ: اِنَّہُ حٰاکَمَنی اِلی الحَْجَرِ الاْٴَسوَْد فَصِرتُ مَعَہُ اِلَيہِْ فَسَمِعتُْ الحَجرَ یَقُولُ : یٰا ) یکَ فَاِنَّہُ اَحقُّ بِہِ مِنکَْ وَ صٰارَ اٴبو خٰالِدُ ال اْٰ کبلْی اِ اٰ ممِيّاً ” ( ١ مُحَمّد سَلِّمِ الاَْمرَْ اِلَی ابنِْ اَخ ابو علی فضل ابن طبرسی کتاب اعلام الوریٰ باب معجزات امام زین العابدین فخر الساجدین حضرت علی ابن الحسين عليہما السلام ميں امام جعفر صادق - سے نقل کرتے ہيں: ابو خالد کابلی محمد ابن حنيفہ کی امامت کا قائل تها وہ کابل سے مدینہ آیا دیکها کہ محمد حنفيہ حضرت علی ابن الحسين - کو یوں خطاب کرتے ہيں: اے ميرے سيد و سردار! تو ميں نے کہا: آپ اپنے چچا کے بيڻے سے یوں خطاب کر رہے ہيں کہ وہ تمہيں اسی طرح خطاب نہيں کرتے؟ کہا: چلو ہم اپنا اور تمہارا فيصلہ حجر اسود کے بيڻے کے سپرد کردیں کہ وہ اس امر کا تم سے زیادہ سزاوار ہے اور ابو خالد نے اپنے عقيدہ سے برگشتہ ہوکر مذہب اماميہ اختيار کيا۔
۶٢٨ ۔ “وفيہ باب معجزات الامام الهمام اٴبی عبدالله الصادق عليہ السلام بالاسناد عن یونس بن یعقوب عن اٴبی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی حدیث الشامی : اٴَنَّہُ اٰقلَ لِهِ شٰامِ بن الحَْکَم فَمَنِ الحُْجَّةُ عَ لٰی النّاسِ اليَْومْ ؟ اٰقلَ: هٰذَا الْقٰاعِدُ الَّذی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اثبات الهداة، ج ۵، ص ٢٣٣ ۔ باب معجزات امام زین العابدین -، حدیث ٢٣ ۔ (
تُشَدُّ اِلَيہِْ الرِّ حٰالِ وَیُخبِْرُ اٰن بِاٴخ اْٰبرِ السَّمآءِ وَ اٰرثةً عَن اٴبٍ عَن جَدٍّ ، اٰقلَ فَکَيفَْ لِی اٴن اٴَعلَْمَ لٰذِکَ ؟ اٰقلَ ی فَعَلَّی السُّوٴالُ فَقَالَ اٴَبُو عَبدِْ اللہّٰ عليہ ہِ شٰامُ : سَلہُْ عَ مٰا بَدَاَلَکَ ، اٰقلَ الشاٰمِّی قَطَعتَْ عُذرْ یقُکَ ؟ اٰ کنَ کَ اٰ ذ وَ اٰ کنَ کَ اٰ ذ فَقَالَ ی اُخبِْرُکَ کَيفَْ اٰ کنَ سَفَرُکَ وَکَيفَْ اٰ کنَ طَر السلام : یٰا شٰام الشاٰمِّی صَدَقتَْ اٴَسلَْمتُْ للہِّٰ السَّاعَةَ ، فَ اٰ قلَ اٴبُو عَبدِْ اللہِّٰ عليہ السلام : بَل آمَنتَْ بِاللہِّٰ الساٰعَّةَ اِنَّ الِاِس لْاٰمَ قَبلَْ الِایمانِ ، اِل یٰ اٴن قالَ : صَدَقتَْ وَاٴَنَا اٴَشهَْدُ اٴن لاٰ اِ ہٰلَ اِلاَّ اللہُّٰ وَاٴَنَّ مُحَمدْاً رَسُولُ اللہّٰ ) وَاٴَنَّکَ وَصِیُّ الاْٴَوصِْيآء ” ( ١
اسی کتاب کے باب معجزات امام ہمام ابو عبد الله الصادق - ميں یونس ابن یعقوب سے اس مرد شامی کی حدیث ميں منقول ہے کہ اس نے ہشام ابن الحکم سے کہا: پهر ان دنوں ميں لوگوں پر حجّت خدا کون ہے؟
ہشام نے جواب دیا: اب حجّت خدا یہ عظيم ہستی ہے جو تمہارے سامنے تشریف فرما ہے دور دروازے سے لوگ سفر کرکے ان کے پاس آتے ہيں اور وہ ہميں آسمان کی خبریں دیتے ہيں جو علم انہيں اپنے باپ دادا سے وراثت ميں ملا ہے۔ مرد شامی نے عرض کيا: مجهے اس کا کيسے علم ہو؟
ہشام نے جواب دیا: جو تيرا دل چاہے ان سے سوال کرلے۔ مرد شامی نے کہا: اب تو ميرے ليے تم نے کوئی راہ عذر باقی نہيں رکها لہٰذا ان سے ضرور سوال کروں گا، حضرت امام صادق - نے فرمایا: اے مرد شامی! کيا ميں تجهے تيرے سفر کے حالات سے باخبر کروں، سن یہ یہ واقعات تجهے راستے ميں پيش آئے اس مرد شامی نے ان کی بات کی تصدیق کی اور کہا: اب الله پر اسلام لایا۔ تو حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: بلکہ اب تو الله پر ایمان لایا کيوں کہ اسلام، ایمان سے پہلے ہے یہاں تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اثبات الهداة، ج ۵، ص ٣٣۶ ۔ باب معجزات امام جعفر صادق -، حدیث ٢٣ ۔ (
کہ فرمایا: آپ نے سچ فرمایا اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہيں اور محمد الله کے رسول ہيں اور آپ وصی الاوصياء ہيں۔
اس حدیث کو احمد ابن علی طبرسی نے بهی کتاب احتجاج ميںيونس ابن یعقوب سے نقل کيا ہے ( ١) نيز فضل ابن حسن طبرسی نے اعلام الوریٰ ميں کليني سے، شيخ مفيد عليہ ) الرحمہ نے ارشاد ميں ابن قولویہ سے انہوں نے کلينی سے اسی طرح نقل کيا ہے۔ ( ٢ مولف کہتے ہيں: ہم چند مورد ان روحی امراض سے شفا پانے والوں کے متعلق بطور نمونہ نقل کرتے ہيں جو پہلے باطل عقائد اور ناحق عقيدوں پر باقی تهے اور ائمہٴ ہدیٰ کے ذریعہ دین اسلام قبول کيا اور ایمان لائے اب ہم صرف ایک حدیث جو بہت زیادہ سبق آموز اور مطالب سے پر ہے وہ حضرت ابو الحسن موسی ابن جعفر سے منقول ہے اگرچہ کافی طولانی ہے اس پر اکتفا کرکے اس بحث کو ختم کریں گے۔
یم قٰالَ: کُنتُْ عِندَْ اَبی الحَْسَنِ ۶٢٩ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عَنْ یَعْقُوب بن جَعْفَر بن اِبْرٰاہ مُوسیٰ عليہ السلام اِذْ اٴتٰاہُ رَجُلٌ نَصْرٰانِیٌّ وَنَحْنُ مَعَہُ بِالْعُرَیضْ ( ٣) فَ اٰ قلَ لَہُ النَّص اْٰرنِیُّ اٴتَيتُْکَ مِن بَلَدٍ ی اِ لٰ ی خَيرِْ الاْٴد اْٰینِ وَاِل یٰ خَيرِْ نَ سَنَةً اٴن یُرشِْدَن مُنْذُ ثَلاٰثی یدٍ وَسَفَرٍ شٰاقٍّ وَسَاٴلتُْ رَبّی بَع ی رَجُلاً بِعُل اْٰي دِمَشقَْ ، فَانطَْلَقتُْ حَتّ یٰ اٴَتَيتُْہُ ی النَّومِْ فَوَصَفَ ل العِْ اٰبدِ وَاَعلَْمِهُم وَاٴ اٰتنی آتٍ ف اٴَعلَْمُ مِنّی ، فَقُلتُْ اَرشِْدنْی اِ لٰ ی مَن هُوَ اٴَعلَْمُ نی وَغَيری فَکَلَّمْتُہُ ، فَقٰالَ اٴنا اَعْلَمُ اٴَهْلِ دی رَ اٰ دوُدَ یلَ کُلَّ هٰا وَمَ اٰزمی مِنکَْ فَاِنّی لاٰ اَستَْعظِْمُ السَّفَرَ وَ لاٰ تَبعُْدُ عَلَیَّ الشُقَةُ وَلَقَد قَراٴتُْ الِانجْ وَقَراٴتُْ اٴربَْعَةَ اٴَس اْٰ فرٍ مِنَ التَّو اْٰرةِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاحتجاج، ج ٢، ص ٣۶۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٢ ۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۴ ، ص ٢۴٣ ۔ بحارالانوار، ج ۴٨ ، ص ٢٠٣ ۔ ( کشف الغمہ، ج ٢، ص ٣٨٩ ۔
٣(۔ مدینہ ميں ایک سر زمين کا نام ہے۔ (
یَ ال اٰ علِمُ اِن کُنتَْ تُریدُ عِلمْ النَّصرْانِيّةَ فَاٴَنَا اَعلَْمُ وَقَرَاٴتُْ ظٰاہِرَ القُْرآنَ حَتّ یٰ اَستَْوعَبتُْہُ کُلَّہُ ، فَ اٰ قلَ ل یلٍ السَّامِرِی اَعلَْمُ الناٰسِّ بِ هٰا یدُ علِْمَ اليَْهُودِ فَ اٰبطِی بن شُرَحبْ العَْرَبُ وَالعَْجَمُ بِ هٰا وَاِن کُنتَْ تُر یلَ وَعِلمَْ الزَّبُورِ وَ کِ اٰتبَ هُودٍ وَکُلَّ مٰا اُنزِْلَ اليَْومُْ ، وَاِن کُنتَْ تُریدُ عِلمْ الاِْس لْاٰمِ وَعِلمَْ التَّو اْٰرةِ وَعِلمِْ الاِْنجْ ی دَهرِْکَ وَ دَهرْ غَيرِکَ وَ اٰ م اُنزِْلَ مِنَ السَّ مٰآءِ مِن خَبَرٍ ؛ فَعَلَمِہ اٴَحَدٌ اٴو لَم عَل یٰ نَبِیٍّ مِنَ الاْٴنبِْ اٰيٓءِ ف ینَ وَ رُوحٌ لِمَنِ استَْروحَْ لِمَنِ استَْروَْحَ اِلَيہِْ وَبَصِيرَةٌ یہِ تِب اْٰينٌ کُلِّ شَیءٍ وَشِ اٰ فءٌ لِل اْٰ علَم یَعلَْم بِہِ اٴَحدٌْ ف لِمَن اٴ اٰردَ اللہُّٰ بِہِ خَيرَْاً وَاَنَسَ اِلَی الحَْقِّ فَاُرشِْدُکَ اِلَيہِْ فَاٴتِہِ وَلَو مَشيْاً عَلَی رِجلَْيکَْ فَاِن لَم تَقدِْر فَحَبُوَاً عَ لٰی رُکبَْتَيکَْ، فَاِن لَم تَقدِْر فَزَحفَْاً عَل یٰ اِستِْکَ فَاِن لَم تَقدِْرُ فَعَل یٰ وَجهِْکَ ، فَقُلتُْ لاٰ بَل اَنَا
رِ فی البَْدَنِ وَال مْٰالِ ، اٰقلَ فانطَْلِقُ مِن فَورِْکَ حَتّ یٰ تَاٴتِْیَ یَثرِْبَ، فَقُلتُْ : لاٰ اَعرِْفُ اَقدَْرُ عَلَی المَسی یَ بُعِثَ فِی العَْرَبِ وَهُوَ النَّبِیُّ الُعَرَبِی ینَةَ النّبِیّ (ص) الَّذ یَثرِْبَ ، اٰقلَ فَانطَْلِق حتّ یٰ تَاٴتِْیَ مَد ی غَنَمِ بنِْ اٰ ملِکِ بنِْ النّ جٰارِ وَهُوَ مِن عِندَْ اٰببِ مَسجِْدُ هٰا ال هْٰاشِمِیُّ فَاِ اٰ ذ دَخَلتَْ هٰا فَسَل عَن بَن یها یَتَشَدَّدُ عَلَيهِْمُ وَالخَْلِيفَةُ اَشَدُّ ، ثُمَّ تَساْٴَلُ عَن بَنی عَمُرو وَاَظهِْر بِزَّةَ النَّص اْٰرنِيَّةَ وَحِليَْتَهَا فَاِنَّ اٰول حِ الزُّبيرِ ، ثُمَّ تَساْٴلَ عَن مُوس یٰ بن جَعفَْرٍ وَاٴَینَْ مَنزِْلُہُ وَاٴینَْ هُوَ؟ مُ سٰافِرٌ اَم بن مَبذُْولٍ وَهُوَ بِبَقی حٰضِرٌ فَاِن کان مُ سٰافِراً فَالْحِقہُ فَاِنَّ سَفَرَہُ اٴَقرَْبُ مِماٰ ضَرَبتَْ اِلَيہِْ ، ثُمَّ اَعلِْمہُْ اَنَّ مَطرْانَ عُل اْٰي الغُْوطَةِ ی اَرشَْدَنی اِلَيکَْ وَهُوَ یُقرِْئُکَ السَّ لاٰمَ کَثيراً وَیَقُولُ لَکَ اِنّی لَاُکثِْرُ مُ اٰنجٰاتِ رَبّی غُوطَةِ دِمَشقَْ هُوَ الَّذ اٴن یَجعَْلَ اِس لْاٰمی عَ لٰی یَدیکَْ ، فَقَصَّ هٰذِہِ القِصَةَ وَهُوَ اٰقئِمٌ مُعتَْمِدٌ عَل یٰ عَ صٰاہُ ، ثُمَّ اٰقلَ : اِن ی اٰی سَيِّدی کَفَّرتُ لَکَ وَجَلَستُْ فَ اٰ قلَ : آذَنُ لَکَ اٴن تَجلِْسَ وَ لاٰ آذَنُ لَکَ اَن تُکَفِّرَ فَجَلَسَ اٴَذِنتَْ ل ی الْکَلاٰمِ ؟ قٰالَ: نَعَم اٰ م جِئتَْ اِلاَّ لَہُ ، فَ اٰ قلَ ثُمَّ اَلْقٰی عَنْہُ بُرْنُسَہُ ثُمَّ قٰالَ: جُعِلتُْ فِ اٰ دکَ تَاٴَذنَْ لی ف لَہُ النَّصْرٰانِیُّ : اُرْدُدْ عَلٰی صٰاحِبی السَّلاٰمَ اَوْمٰاترُدُ السَّلاٰمَ ، فَقٰالَ اَبُو الحَسَن عليہ السلام عَلیٰ ی دیِنِنٰا ، فَقٰالَ النَّصْرٰانِیُّ اِنّی اٴساٴلُکَ ؟ مُ فِ اٰ ذکَ اِ اٰ ذ صٰارَ ف صٰاحِبِکَ اَن هَ اٰ دہُ اللہُّٰ فَاَمَّا التَْسلْی عَن کِ اٰتبِ اللہِّٰ تَعال یٰ الَّذَی اُنزِْلَ عَ لٰی مُحَمَّدٍ وَنَطَقَہُ ثُمَّ اَصلَْحَکَ اللہُّٰ - اٰقلَ : سَل،ْ اٰقلَ : اٴَخبِْرنْی وَصَفَہُ بِ مٰا وَصَفَہُ بِہِ ، فَ اٰ قلَ <حم # وَالکِْتَابِ المُْبِينِ # إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ
فِيہَا یُفرَْقُ کُلُّ اٴَمرٍْ حَکِيمٍ > مٰا تَفْسيرُ هٰا فی الْبٰاطِنِ ؟ فَقٰالَ : اَماٰ<ّحٓم> فَهُوَ مُحَمَّدٌ صَلّ یٰ اللہُّٰ ی اُنزِْلَ عَلَيہِْ وَهُوَ مَنقُْوصُ الحُْرُوفِ وَاَمَّا<الکِْ اٰتبِ المُْبِينُْ> فَهُوَ عَلَيہِْ وَآلِہِ وَهُوَ فِی کِ اٰتبِ هُودٍ اَلَّذ هَا یُفْرَقُ کُلُّ یُر المُْوٴمِنينَ عَلیٌّ عَلَيہِْ السَّ لاٰمُ وَاَمَّا اللَّيلَْةُ فَ اٰ فطِمَةُ عَلَي هْٰا السَّ اٰلمُ وَاَمَّا قَولَْہُ <فی اَم مٌ فَ اٰ قلَ مٌ وَرَجُلٌ حَکی مٌ وَرَجُلٌ حَکی مٍ > یَقُولُ یَخرُْجُ مِن هْٰا خَيرٌْ کَثِيرٌ فَرَجُلٌ حَکی اَمرٍْ حَکی الرَّجُلُ صِف لِی الاَْوَّلَ وَالآْخِرَ مِن هٰوٴ لاٰءِ الرِّ جٰالِ فَ اٰ قلَ: اِنَّ الصِ اٰ فتِ تَشتَْبِہُ وَ کٰلُنَّ الثاٰلِّثَ مِنَ القَْومِْ اَصِفُ ی الْکُتُبِ الَّتی نَزَلَتْ عَلَيْکُمْ اِنْ لَمْ تُغَيِّرُوا وَ تُحرِّفُوا وَتُکَفِّرُوا لَکَ اٰ م یَخرُْجُ مِن نَسلِْہِ وَاِنَّہُ عِندَْکُم لَف یّ اِنّی لاٰ اٴستُْرُ عَنکَ اٰ م عَلِمتُْ وَ لاٰ اُکَذِّبُکَ وَاَنتَْ تَعلَْمُ اٰ م اَقُولُ وَقَدیماً اٰ م فَعَلتُْم ، اٰقلَ لَہُ النَّص اْٰرن فی صِدقِْ اٰ م اَقُولُ وَکِذبِْہِ وَاللہِّٰ لَقَد اَع طْٰاکَ اللہُّٰ مِن فَضلِْہِ وَقَسَمَ عَلَيکَْ مِن نِعَمِہِ اٰ م لاٰ یَخطُْرُہُ یہِ مَن کَذَّبَ ، فَقَولِْی لَکَ فی لٰذِکَ الحَْقُّ کَ مٰا ذَکَرتُْ ال خْٰاطِرُونَ وَ لاٰ یَستُْرہُ السَّاتِرُونَ وَ لاٰ یُکَذِّبُ ف یمُ عليہ السلام اُعَجِّلُکَ اَیضْاً خَبَراً لاٰ یَعرِْفُہُ اِلا قَليلٌ مِمَّن قَراٴَ فَهُوَ کَ مٰا ذَکَرَتُ ، فَ اٰ قلَ لَہُ اٴَبُو اِبرْاہ ہِ مَریَْمُ وَلِکَم مِن سٰاعَةٍ مِنَ النَّ هٰارِ ، وَاٴیُّ الْکُتُبَ : اٴَخبِْرنْی اٰ م اِسمُْ اُمّ مَریَْمَ وَاٴیُّ یَومٍْ نُفِخَت فی یہِ عيسیٰ عليہ السلام وَلِکَمْ مِنْ سٰاعَةٍ مَنَ النَّهٰارِ ؟ فَقٰالَ النَّصْرَانی لاٰ اَدْری ، یَومٍْ وَضَعَت مَریَْمَ ف مُ عليہ السلام : اٴماٰ اُمُّ مَریَْمَ فَاسمُْ هٰا مَر اٰث وَهِیَ وَهَيبَةٌ بِالعَْربْيَّةِ ، وَاَمَّا اليَْومِ الَّذِی فَقٰالَ اَبُو اِبْرٰاہی ہِ الرُّوحُ الاٴمِينُ وَلَيسَْ ی هَبَطَ فی ہِ مَریَْمَ فَهُوَ یَومَْ الجُْمُعَةِ لِلزَّ اٰولِ وَهُوَ اليَْومُ الَّذ حَمَلَت فی
یدٌ اٰ کنَ اَولْ یٰ مِنہُْ عَظَمَةُ اللہّٰ تَ اٰبرَکَ وَتَعال یٰ وَعَظَمَةُ مُحَمَّدٌ (ص) فَاٴَمَرَ اٴن یَجعَْلَہُ لِلمُْسلِْمينَ ع ہِ مَریَْمُ فَهُوَ یَومُْ الثُلُ اٰثء لِاٴربَْعَ سٰا عٰاتٍ وَنِصفِْ ی وَلَدَت فی داً فَهُوَ یَومُْ الجُْعُمَةِ وَاِمَّا اليَْومُْ الَّذ عی مِنَ النَّ هٰارِ وَالنَّهرُْ الَّذی وَلَدت عَلَيہِْ مَریَْمُ عيس یٰ عليہ السلام هَل تَعرِْفُہُ ؟ اٰقلَ: لاٰ قٰالَ هُوَ الْفُراتُ ی حَجَبَت وَعَلَيہِْ شَجرُ النَخلِْ وَالکَْرمِْ وَلَيسَْ یُ سٰا وٰی بِالفُْراتِ شَیءٌ للکُْرُومِ وَالنَّخِيلِ ، فَاَمَّا اليَْومْ الَّذ ہِ لِ سٰانُ هٰا وَ اٰند یٰ قَيدُْوسُ وُلدَْہُ وَاَش اْٰيعَہُ فَاَ عٰانُوہُ وَاَخرَْجُوا آلَ عِم اْٰرنَ لِيَنظُْرُوا اِل یٰ مَریَْمَ ، فَ اٰ قلُوا فی ی کِ اٰتبِہِ وَعَلَي اْٰن فِی کِ اٰتبِہِ فَهَل فَهِمتَْہُ ؟ اٰقلَ: نَعَم وَقَراٴتُْہُ اليَْومَْ الاٴحدَْثَ ، لَ هٰا اٰ م قَصَ اللہُّٰ عَلَيکَْ ف اٰقلَ اِذَن لاٰ تَقُوم مِن مَجلِْسِکَ حَتّ یٰ یَهدِْیَکَ اللُہّٰ اٰقلَ النَّصرْانی اٰ م اٰ کنَ اِسمُْ اُمّی بِالسِّر اٰینِيَّةِ وَبِالعَْربِْيَّةِ ؟ فَ اٰ قلَ عليہ السلام : اٰ کنَ اَسمُْ اُمِّکَ بِالسِّر اٰینِيَّةِ عَن اْٰ قلِيَةَ وَعَنَقُورَةُ اٰ کنَ اِسمُْ جَدِّکِ جَبرَْئيلُ مُ عليہ ی مَجْلِسی هٰذٰا قٰالَ اَمٰا اِنَّہُ کٰانَ مُسْلِماً ؟ قٰالَ اَبُو اِبْرٰاہی وَهُوَ عَبْدُ الرَّحمٰن سَمَّيْتُہُ ف لَةً وَالاَْج اْٰندُ مِن اَهلِْ ی مَنزِْلہِ غی یدَا ، دَخَلَت عَلَيہِْ اٴَج اْٰندٌ فَقَتَلُوہُ ف السلام : نَعَم قُتِلَ شَه ینی بِ اٰقلَ: فَ مٰا تُسَمّ الشَّامِ ، اٰقلَ: فَ مٰا اٰ کنَ اِسمْی قَبلَْ کُْنيَْتی ؟ اٰقلَ: اٰ کنَ اِسمُْکَ عَبدُْ الصَّلی مِ وَشَهِدتُْ اٴن لاٰ اِ ہٰلَ اِلاَّ اللہُّٰ وَحدَْہُ یکَ عَبدَْ اللہِّٰ ، قال فَاِنّی آمَنتُْ بِاللہِّٰ العَْظی ؟ اٰقلَ: اُسَمّ یکَ لَہُ فَردْاً صَمَداً لَيسَْ کَ مٰا تَصِفُہُ النَّ صٰار یٰ وَلَيسَْ کَ مٰا تَصِفُہُ اليَْهُودُ وَ لاٰ جِنسٌْ مِن اٴَج اْٰنسِ لاٰشَر الشِّرکِْ وَاَشهَْدُ اٴَنَّ مُحَمَّداً عَبدَْہُ وَرَسُولَہُ اٴَرسَْلَہُ بِالحَْقِّ فَاٴ اٰبنَ بِہِ لِاٴَهلِْہِ وَعَمی المُْبطِْلُونَ وَاِنَّہُ اٰ کنَ ہِ مُشتَْرَکٌ فَاٴَبصَْرَ مَن اٴَبصَْرَ وَاهتَْد یٰ مَن رَسُولُ اللہِّٰ اِلَی الناٰسِّ اٰ کفَّةً اِلَی الاٴَحمَْرِ وَالاْٴَسوَْدِ کُلُّ فی اهتَْ دٰی وَعَمِیَ المُْبطِْلُونَ وَضَلَّ عَنهُْم اٰ م اٰ کنُوا یَدعُْونَ وَاَشهَْدُ اٴَنَّ وَلِيَّہُ نَطَقَ بِحِکمَْتِہِ وَاَنَّ مَن اٰ کنَ قَبلَْہُ مِنَ الاْٴنبْ اٰيٓء ؛ نَطِقُوا بِالحِْکمَْةِ ال اْٰبلِغَةِ وَتَوازَرُوا عَلَی الطاٰعَّةِ لِلہِّٰ وَ اٰفرَقُوا ال اْٰبطِلَ وَاَهلَْہُ وَالرِّجسَْ وَاَهلَْہُ وَهَجَرُوا سَبيلَ الضَّ لاٰلَةِ وَنَصَرَهُمُ اللہُّٰ بِال طْٰاعَةِ لَہُ وَعَصَمَهُم مِنَ المَْعصِْيَةِ ، فَهُم لِلہِّٰ اَولِْ اٰيٓء
وَلِلدِّْینِ اٴن صْٰارٌ ، یَحُثُّونَ عَلَی الخَْيرِْ یَاٴمُرُونَ بِہِ آمَنتُْ بِالصَّغِيرَ مِنهُْم وَالکَْبيرِ وَمَن ذَکَرتُْ مِنهُْم وَمَن لَم باً اٰ کنَ فی عُنُقِہِ مِن اٴَذکُْرُ ، وَآمَنتُْ بِاللہِّٰ تَ اٰبرَکَ وَتَعال یٰ رَبّ ال اْٰ علَمِينَ ثُمَّ قَطَعَ زُنّارَہُ وَقَطَعَ صَلی ذَهَبٍ ، ثُمَّ اٰقلَ: مُرنْی حَتّی اٴضَعُ صَدَقَتی حَيثُْ تَاٴمُرنی فَقَال هٰاهُنا اٴخٌ لَکَ اٰ کنَ عَل یٰ مِثلِْ دینِکَ وَهُوَ رَجُلٌ مِن قَومِْکَ مِن قَيسِْ بن ثَعُلَبةَ وَهُوَ فی نِعمَْةٍ کَنِعمَْتِکَ فَتَ اٰوسَ اٰي وَتَجاوَزا وَلَستُ اَدَعُ اَن اُورِدَ عَلَيکُْ مٰا حَقَّکُ مٰا فی الاِس لْاٰمِ ، فَ اٰ قلَ: وَاللہِّٰ اَصلَْحَکَ اللهُ - اِنّی لَغَنِیٌّ وَلَقَد تَرَکتُْ ث ثٰ لاِماٴةَ طَرُوقٍ بَينَْ یرٍ فَحَقُّکَ في هٰا اَوفَْرُ مِن حَقِّی ، فَ اٰ قلَ لَہُ اَنتَْ مَولَْی اللہِّٰ وَ رَسُولِہِ وَاَنتَْ فَرَسٍ وَفَرسَْةٍ وَتَرَکتُْ اَلفَْ بَع فی حَدِّ نَسَبِکَ عَ لٰی حٰالِکَ فَحَسُنَ اِس لْاٰمہُ وَ تزَوَّجَ اِمرْاٴةً مِن بنی فَهرٍْ وَ اٴصدَْقَ هٰا اَبُو اِبرْاہِيمُ ی اٰنراً مِن صَدَقَةِ عَلِیّ بن اٴبی طالِب عليہ السلام وَاٴَخدَْمَہُ وَبَوّاہُ وَاٴقامَ عليہ السلام خَمْسِينَ د ) حَتّ یٰ اُخرِْجَ اَبوْ اِبرْاہِيمُ عليہ السلام فَ مٰاتَ بَعدْ مَخرَْجِہِ بِثَ مٰان وَعشرین لَيلَْةً” ( ١
یعقوب ابن جعفر ابن ابراہيم کا بيان ہے: ميں امام موسیٰ کاظم - کی خدمت ميں حاضر تها کہ ایک نصرانی آیا اور ہم حضرت کے ساته مقام عریض ( ٢) ميں تهے۔ نصرانی نے کہا ميںایک دور دراز شہر سے بڑی مشقت اڻهانے کے بعد آیا ہوں ميں اپنے رب سے تيس سال سے دعا کر رہا ہوں کہ مجهے بہترین دین اور بہترین بندہ کی طرف ہدایت کر اور جو اِن ميں سب سے زیادہ عالم ہو، پس ایک شخص نے خواب ميں مجهے ایک شخص کو بتایا جو دمشق کے بالائی حصے ميں رہتا ہے ميں اس کے پاس پہنچا اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۴٧٨ ، کتاب الحجة، حدیث ۴۔ (
٢(۔ مدینے ميں ایک جگہ کا نام ہے۔ (
اس سے گفتگو کی اس نے کہا: اگرچہ ميں اپنے دین (عيسائی) کا بہت بڑا عالم ہوں ليکن ایک اور شخص جو مجه سے زیادہ عالم ہے۔ ميںنے کہا: تو پهر مجهے اس کی رہنمائی کرو جو تم سے زیادہ عالم ہے کيوں کہ طلب علم ميں سفر کو دشوار نہيں جانتا اور نہ مشقت کا خيال دل ميں لاتا ہوں ميں نے پوری انجيل پڑهی ہے داؤد کی زبورپڑهی ہے اور توریت کی چاروں کتابوں کو پڑها ہے ميں نے ظواہر قرآن کو پورا پڑها ہے۔
پهر اس عالم نے مجه سے کہا: اگر تم علم نصرانيت جاننا چاہتے ہو تو ميں عرب و عجم ميں اس کا سب سے بڑا عالم ہوں اور اگر قباطی ابن سرجيل سامری والا علم یہود چاہتے ہو تو ميں اس کا سب سے بڑا عالم ہوں اور تم علم الاسلام، علم تورات و علم زبور اور کتاب ہود اور ہر اس چيز کا علم جو انبياء ميں سے کسی نبی پر اب یا اس سے قبل نازل نہيں ہوا جو خبر آسمان سے آئی اور اس کو کسی نے نہ جانا ہو یا جانا ہو اور وہ ایسی کتاب جس ميں ہر شے کا بيان ہے اور مومنين کے ليے شفا ہے اور روحانی مسرت اور بصيرت کا باعث ہے اس شخص کے ليے جو نيکی کا ارادہ رکهتا ہو اور جسے حق سے اُنس ہو تو ميں تيری رہنمائی ایک ایسے شخص کی طرف کرتا ہوں تو اس کے پاس جا اگر اپنے پيروں سے چل سکتا ہو اگر پيروں سے نہ چل سکتا ہو تو گهڻنوں کے بل جانا اور اگر اس پر بهی قدرت نہ ہو تو بيڻه کر گِهسڻتا ہوا اور اگر اس پر بهی قدرت نہ ہو تو چہرے کے بل جانا ميں نے کہا : مجهے جانے کی قدرت بلحاظ بدن و مال حاصل ہے۔ اُس نے کہا : تم فوراً جاؤ اور یثرپ پہنچو۔ ميں نے کہا: یثرب قطعاً نہيں جانتا۔ اس نے کہا: تو مدینہ جا جہاں عرب ميں ایک بنی ہاشم مبعوث ہوئے تهے جب وہاں پہنچے تو اولاد ابن غنم ابن مالک ابن نجار کا پتہ لگا جو بابِ مسجد کے پاس رہتے ہيں اورنصرانيوں کا سا لباس پہنتے ہيں کيوں کہ وہاں کا حاکم ان (موسی ابن جعفر اور ان کے شيعوں کہ جن کی طرف ميں بهيج رہا ہوں) پر سختی کرتا ہے اور خليفہ اور زیادہ سخت ہے۔
پهر بنی عمرو ابن مبذول سے جو بقيع زبير ميں رہتے ہيں امام موسیٰ ابن جعفر کے متعلق پوچهنا کہ ان کا گهر کہاں ہے کيا وہ شہر ميں موجود ہيں یا سفر ميں ہيں اگر سفر ميں ہوں تو وہاں جاکر ملنا کيوں کہ ان کا سفر اس سے زیادہ دور نہ ہوگا جتنا تم نے کيا ہوگا۔ پهر ان کو بتانا کہ مطرانِ عليا نے جو غوطہ دمشق ميں رہتا ہے مجهے آپ کے پاس بهيجا ہے اور بہت بہت سلام کہا اور یہ پيغام دیا ہے کہ ميری اکثر خدا سے یہ دعا رہتی ہے کہ ميرے اسلام کا اظہار آپ کے ہاتهوں پر ہو ۔ پهر حضرت سے یہ سب واقعہ بيان کرنا وہ تجه کو عصا پر تکيہ کيے ہوئے مليں گے پهر کہنا: اے ميرے سردار! آپ کی اجازت ہے کہ ميں برائے تعظيم سينہ پر ہاته رکهوں اور بيڻه جاؤں۔
حضرت نے فرمایا: بيڻهنے کی اجازت ہے تکفير ( ١) یعنی سينہ پر ہاته رکهنے کی نہيں۔ وہ بيڻها اور اپنی ڻوپی اتار کرکہا: ميں آپ پر فدا ہوں کلام کرنے کی اجازت ہے؟ فرمایا: تم تو آئے ہی اسی ليے ہو۔
نصرانی نے کہاکہ: جس شخص نے ميری رہنمائی آپ کی بارگاہ تک کی ہے آپ اس کو جواباً سلام کرتے ہيں یا وہ سلام کرتے ہيں: فرمایا: ميں یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کی ہدایت کرے اب رہا سلام یہ اسی وقت ہوگا جب وہ ہمارے دین ميں داخل ہوجائے گا۔ نصرانی نے کہا: خدا آپ کی حفاظت کرے ميں آپ سے کتاب خدا کے متعلق سوال کرتا ہوں جو محمد پر نازل ہوئی اور انہوں نے اس کو بيان کيا اور اسے متعارف کرایا اور فرمایا: ( حٰمٓ اور اس واضح اور روشن کتاب کو ہم نے مبارک رات ميں نازل کيا تاکہ ہم اپنے احکام سے خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرائيں)۔ ( ٢) اس نے کہا: اس کی باطنی تفسير کيا ہے فرمایا: “حم” سے مراد ہے محمد (ص) ، جيسا کہ کتابِ ہود ميں ہے جو اِن پر نازل ہوئی تهی اس سے دو حرف م اور ح کم کر دیئے گئے ہيں۔ یعنی کتابِ ہود ميں لفظ محمد حم سے تعبير کيا گيا ہے اور دو حرف (م د) اس ميں تخفيف یا کسی دوسری وجہ سے حذف ہوگيا ہے۔
ليکن کتاب مبين سے مراد ہيں علی ابن ابی طالب - اور رات سے مراد فاطمہ ہيں اور جو خدا نے فرمایا ہے“اس سے جدا کيا جائے گا ہر امر حکيم” تو مراد ہے کہ بطن فاطمہ سے خير کثير کا ظہور یعنی مردِ حکيم (یعنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تکفير: ایک مخصوص تواضع و انکساری کا نام ہے جو بزرگوں اور بادشاہوں کے سامنے انجام ( دی جاتی ہے اس کی کيفيت یہ ہے کہ تهوڑا جهک کر ہاته کی دونوں ہتهيليوں کو رانوں کے درميان مخفی کرتے ہيں۔
٢(۔ سورئہ دخان، آیت ۴۔ (
امام حسن) مرد حکيم (یعنی امام حسين) مرد حکيم یعنی ہر زمانہ ميں ایک امام تا ظہور قائم آل محمد پيدا ہوتا رہے گا۔
اس نے کہا: ان لوگوں ميں سے اول و آخر کا وصف بيان کيجيے۔ فرمایا: بلحاظ صفات سب ایک دوسرے کی طرح ہيں تيسرے کا (یہ ممکن ہی نہيں ہے کہ ایک شخص کو اس کے مکمل اوصاف بيان کرکے مشخص اور ممتاز کيا جاسکے) ليکن امام حسين کا اس گروہ کے وصف بيان کرتا ہوں جس کی نسل ميں امامت تا قيامت باقی رہے گی اگر تم نے تغير و تحریف نہ کی اور انکار نہ کيا ہو جيسا کہ تم کرتے ہو تو اس کا ذکر تم اپنی اس کتاب ميں پاؤ گے جو تم پر نازل ہوئی۔
نصرانی نے کہا: ميں جو کچه جانتا ہوں آپ سے چهپاؤں گا نہيں اور نہ آپ کی تکذیب کروں گا اور جو کچه ميں کہوں گا اس کے صدق و کذب کو آپ جان ہی جائيں گے کيونکہ الله نے اپنے فضل سے بڑا علم دیا اور آپ کو وہ نعمتيں دی ہيں جو لوگوں کے خيال ميں نہيں آسکتيں اور نہ چهپانے والے اس کو چهپا سکتے ہيں اور نہ جهڻلا سکتے ہيں بس ميرا قول اس بارے ميں حق ہوگا جيسا کہ ميں نے پہلے بيان کيا اور جيسا کہ آپ نے فرمایا (جو کچه آپ نے بيان کيا ہے واقع کے بالکل مطابق ہے)۔
امام موسیٰ کاظم - نے فرمایا: ميں اب تم کو وہ چيز بتاؤں گا جس کو کتب آسمانی کے پڑهنے والے بہت کم لوگ جانتے ہيں اچها بتاؤ مریم کی ماں کا نام کيا تها؟ کس روز بطنِ مریم ميں عيسیٰ کی روح پهونکی گئی اور دن کے کس ساعت ميں ایسا ہوا اور مریم نے کس روز حضرت عيسیٰ - کو جنا اور دن کی کون سی ساعت تهی۔
نصرانی نے کہا: مجهے معلوم نہيں حضرت نے فرمایا: مریم کی ماں کا نام مرثا تها جس کے معنی عربی ميں بخشی ہوئی کے ہيںز اور جس دن عيسیٰ - کا حمل قرار پایا روز جمعہ وقت زوال تها یہی وہ دن تها کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ز ۔ قاموس ميں ان کا نام حنہ لکها ہے ہوسکتا ہے کہ دو نام ہوں اور نصرانيوں ميں مرثا مشہور ہو۔ (مترجم(
روح الامين (جبرئيل -) مریم کے پاس آسمان سے آئے تهے مسلمانوں کے ليے اس سے بڑی عيد نہيں الله نے بهی اس کو صاحب عظمت قرار دیا اور حضرت رسول خدا (ص) نے بهی، پس حکم دیا کہ روز جمعہ کو عيد قرار دیں اور مریم کی پيدائش سہ شنبہ کو ہوئی چار گهڑی دن چڑهے نصف روز ميں۔
پهر کہا: کيا تم اس نہر کو جانتے ہو جس کے قریب مریم نے عيسیٰ - کو جنا تها؟ اس نے کہا: نہيں، فرمایا: وہ نہر فرات تهی جس کے قریب خرمہ اور انگور کے درخت تهے اور کوئی نہر انگور اور کهجور کے درخت کے لحاظ سے فرات کے برابر نہيں ہے۔ ليکن وہ دن کہ جب مریم کی زبان بات کرنے سے بند ہوئی (یعنی ان کا یوم صمت (خاموشی کا دن) تها) وہی تها کہ قيدوس (قوم یہود کے ظالم بادشاہ) نے اپنی اولاد اور اپنے پيروکاروں کو پکارا اور انہوں نے اس کی مدد کی اور اولادِ عمران کو ان کے گهروں سے نکالا تاکہ وہ مریم کے معاملہ ميں غور کریں اور انہوں نے مریم کے بارے ميں وہی کہا جس کی حکایت الله نے اپنی کتاب (قرآن) ميں کی ہے (یہ تم نے کيا کيا نہ تمہارا باپ بد تها اور نہ تمہاری ماں بدکارہ تهی( پس تم نے اس دن کے واقعات کو سمجها۔ اس نے کہا: ہاں ميں نے انجيل ميں پڑها ہے اس دن کو نيا دن لکها گيا ہے حضرت نے فرمایا: جب ميرے بيان سے تصدیق ہوگئی تو اب بغير ہدایت پائے یہاں سے نہ اڻهنا۔
نصرانی نے کہا: یہ بهی بتائيے کہ ميری ماں کا نام سریانی اور عربی زبان ميں کيا تها؟ فرمایا: تمہاری ماں کا نام سریانی زبان ميں عنقاليہ ہے اور تيری دادی کا نام عنقورا ہے اور تيری ماں کا نام عربی ميں هومية ہے اور تيرے باپ کا نام عبد المسيح ہے عربی ميںعبد الله ہے کيونکہ مسيح کا کوئی بندہ نہ تها۔ نصرانی نے کہا: آپ نے سچ فرمایا اور ميرے ساته نيکی کی (کہ جو کچه ميں نے دریافت بهی نہيں کيا تها آپ نے جواب دیا) اب یہ بتائيے کہ ميرے دادا کا نام کيا تها؟ فرمایا: جبرئيل تها ليکن وہ عبد الرحمن تها یہ نام ميں نے ابهی تجویز کيا ہے اس نے کہا: کيا وہ مسلمان تها حضرت نے فرمایا: ہاں وہ شہيد قتل کيا گيا اس پر ایک لشکر نے حملہ کرکے شہيد کردیا اور یہ لشکر اہل شام کا تها۔ اس نے کہا: یہ بتائيے کہ کنيت سے پہلے ميرا نام کيا تها؟ فرمایا: عبد الصليب تها اس نے کہا: اب آپ نے ميرا کيا نام رکها؟ فرمایا: عبد الله اس نے کہا: خدائے عظيم پر ایمان لایا اور گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہيں جو اکيلا اور بے نياز ہے وہ ایسا نہيں جيسا نصاریٰ بيان کرتے ہيں (کہ عيسیٰ مسيح خدا کے بيڻے یا ان کے ساته متحد ہيں) اور نہ ایسا ہے کہ جيسا یہودی (کہ اسے مجسم اور عزیر ابن عبد الله) کہتے ہيں اور نہ وہ اجناس شرک ميں سے کوئی جنس ہے اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) الله کے عبد و رسول ہيں کہ جن کو خدا نے حق کے ساته بهيجا ہے پس جو اہل تهے حق ان پر ظاہر ہوگيا اور نا اہل باطل پرست بنے رہے۔ حضرت رسول خدا سرخ و سياہ سب کی طرف بهيجے گئے ان کی رسالت تمام بنی نوع آدم کے درميان مشترک اور مساوی ہے بس جسے صاحبِ بصيرت بننا تها بن گيا اور جسے ہدایت پانی تهی پالی۔ باطل پرست اندهے بنے رہے اور گمراہ ہوئے اور ان کی وجہ سے جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے تهے اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کا ولی ناطق بحکمت ہے اور ان سے پہلے جو انبياء گزر چکے انہوں نے بهی حکمت بالغہ سے کلام کيا اور اطاعتِ خدا کے بارے ميں انہوں نے لوگوں کی مدد کی، باطل اور اس کے ماننے والوں، پليدگی (گناہ) اور اس ميں ملوث لوگوں کو انہوں نے چهوڑ دیا اور انہوں نے گمراہی کے راستہ کو ترک کيا خدا نے ان کے اطاعت گزار ہونے کی وجہ سے ان کی مدد کی اور ان کو معصيت سے بچائے رکها۔
پس وہ اوليائے خدا ہيں اور ناصر دین ہيں لوگوں کو خير و برکت کی طرف رغبت دلاتے اور نيکی کرنے کا حکم دیتے تهے۔ ميں نے کہا: ميں ان کے ہر چهوڻے بڑے پر ایمان لایا جن کا ميں نے ذکر کيا اور ان پر بهی اور ميں برکت بخشنے والے اور بلند مرتبہ والے رب العالمين پر ایمان لایا پهر اس نے زنّار کو توڑ ڈالا اور سونے کی صليب کو نکال پهينکا پهرحضرت سے کہا: اب آپ مجهے حکم دیں تاکہ ميں اس کے مطابق نيکی کروں؟
فرمایا: یہاں تمہارا ایک بهائی ہے جو دین ميں تم ہی جيسا ہے اور وہ تمہاری قوم کا آدمی ہے قبيلہٴ قيس ابن ثعلبہ سے اور اس کو بهی الله نے تمہاری طرح نعمت اسلام دی ہے پس اس سے اظہار ہمدردی کرو اس کی ہمسائيگی اختيار کرو اور تم دونوں کے ليے جو اسلام ميں تمہارا حق ہے ميں اسے پورا کروں گا۔
اس نے کہا: خدا آپ کی حفاظت کرے ميں مال دار ہوں محتاجِ اعانت نہيں ۔ ميں تين سو نجيب گهوڑے اور ایک اونٹ اپنے وطن ميں چهوڑ آیا ہوں آپ کا حق ان پر مجه سے زیادہ ہے آپ نے فرمایا: تم الله اور اس کے رسول (ص) کی پناہ ميں ہو اور تم اس وقت بحيثيت ابن السبيل ہمارے مہمان ہو الغرض وہ ایک راسخ العقيدہ مسلمان بنا۔ بنی فہر کی ایک عورت سے اس نے شادی کی اور امام موسیٰ کاظم - نے اوقافِ امير المومنين - سے پچاس ہزار درہم اس کا مہر ادا کيا اور خدمت کے ليے کنيزیں دیں رہنے کو گهر دیا اور جب تک امام - کو مدینہ سے نہ لے جایا گيا آپ کے ساته رہا حضرت کے جانے کے بعد وہ صرف ٢٨ روز زندہ رہا۔ ٣١ ۔ نيک ہم نشين
ی هُدیً وَنُقْصٰانٍ مِنْ عَمیً ٣١ ۔ اَلقُْرآنُ اٰ م جٰالَسَ اَحَدٌ اِلاَّ اٰقمَ عَنہُْ بِزِ اٰیدَةٍ اَونُْق صْٰانٍ ، زِ اٰیدَةٌ ف وَکذلک الحجّة القائم عليہ السلام
تمام انسان قرآن مجيد کی صحبت اور ہم نشينی سے دو اہم فائدے سے بہرہ مند ہوتے ہيں ہدایت یافتہ افراد کی ہدایت ميں مزید اضافہ اور اندهوں کے اندهے پن ميں کمی واقع ہوتی ہے۔
اسی طرح حضرت قائم آل محمد کی ذات گرامی ہے جو لوگ اہليت و ظرفيت رکهتے ہيں وہ ان کی حياتِ طيّبہ کے صاف و شفاف چشمہٴ فيض سے سيراب ہوتے ہيں اور نا اہل و کم ظرف افراد توفيق حاصل کرتے ہيں۔
الله تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کائنات ميں آسمان و زمين اور جو کچه اس ميں ہے پيدا کرنے کے بعد دنيا کو حضرت آدم ابو البشر اور ان کی اولاد کا مرکز قرار دیا۔ الله تعالیٰ نے ان کی اولاد ميں سے پيغمبروں کو منتخب کيا اور ان سے وحی و تبليغ رسالت اور ادائے امانت کا عہد و پيمان ليا۔ اور یہ وہ وقت تها جب اکثر لوگوں نے عہد خدا کو توڑ دیا اور اس کے حق کو ضائع کيا اس کا شریک قرار دیا اور شياطين نے مکر و حيلے کے ذریعہ انہيں اس کی پرستش سے باز رکها۔ لہٰذا خداوند متعال نے اپنے پيغمبروں کو وادار کيا اور انہيں ان کی طرف مبعوث کيا تاکہ فطری عہد اور روز الست کے وعدے کو ان سے طلب کرے اور فراموش شدہ نعمات الٰہی کی یاد آوری کرکے تبليغ کے ذریعے ان لوگوں پر حجّت تمام کرے۔
اسی ڈگر پر صدیاں گزریں زمانے گزرے۔ نسليں بدليں باپ گئے بيڻے آئے یہاں تک کہ خدائے منّان نے حضرت خاتم الانبياء محمدا بن عبد الله (ص) کو اپنے وعدے کی بجا آوری کے ليے اور اپنی نبوت کا سلسلہ ان کے ذریعہ تمام کرنے کے ليے آنحضرت (ص) کو مبعوث فرمایا حالانکہ گزشتہ انبياء سے ان کی نبوت کا عہد و پيمان لے چکا تها ان کی ولادت کے وقت مشہور نشانياں سب نيک اور پسندیدہ تهيں۔ اس زمانے ميں لوگ روئے زمين پر مختلف ملتوں اور بہت سی آرزوؤں نيز مختلف راستوں پر تهے، بعض گروہ خلق کو مخلوق سے تشبيہ دیتا تها بعض اس کے نام ميں سبحانہ و تعالیٰ کا تصرف کرنا تها اور ایک گروہ اس کے علاوہ کی طرف اشارہ کيا کرتا تها لہٰذا خداوند متعال نے پيغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص) کے ذریعے ان لوگوں کو گمراہی سے نجات بخشی اور ہدایت دی اور ان کے وسيلے سے کفر کی جہالت سے انہيں بچایا۔
سنت الٰہی اسی طرح جاری و ساری رہی کہ ہر ایک پيغمبر کو اس کے زمانے اور اس کی امت کے لحاظ سے ایسا معجزہ عطا کيا جائے جو اس کی رسالت کی تصدیق کرے جيسے حضرت موسی - کو عصا اور ید بيضاء اور حضرت عيسی - کو اکمہ (مادر زاد اندهوں) ابرص (سفيد داغ والوں) اور مردوں کو زندہ کرنے کا اور حضرت خاتم الانبياء محمد مصطفی (ص) کو قریش اور عرب کے لوگوں ميں اگرچہ بعض ان ميں سے بہت سے عظيم فصاحت و بلاغت کے حامل تهے قرآن مجيد کو آنحضرت (ص) کے ليے جاودانی معجزہ قرار دیا۔