٢٩ ۔ خزانہ
٢٩ ۔القرآن خزائن وکذلک الحجة القائم عليہ السلام ۔
ثقلين (قرآن کریم اور امام زمانہ -) بے مثل خزانے ہيں۔
۶٠١ ۔ “عن الزہری قال سمعت علی بن الحسين عليہ السلام یقول:“ القرآن خزائن فکلما
) فتحت خزانة ینبغی لک ان تنظر ما فيها ” ( ١
امام سجاد - فرماتے ہيں: قرآن مختلف خزانوں کا حامل ہے لہٰذا جب بهی اس سے
کوئی خزانہ کهولا جائے تو سزاوار اور مناسب یہ ہے کہ اس کو دیکها جائے۔
خداوند تبارک و تعالیٰ تمام موجودات کا پيدا کرنے والا خواہ انسان، حيوان، وحوش، طيور،
حشرات، جمادات، نباتات وغيرہ ہوں ان کا مالک اور اس ميں تصرف کرنے والا ہے (لَہُ الاَمرُْ وَالخَلقُْ
اٰبرِیُ الخ اٰلیق اَجمَْعين اٰ ملِکُ السَّم اٰوتِ وَالاٴرضينَ وَما فيهِ مٰا وَ اٰ معَليهِ مٰا وَ اٰ م بَينَهُ مٰا ) یعنی اس کے
ليے خلق و امر کا مرحلہ مخصوص ہے تمام مخلوقات کا خالق تمام آسمانوں اور زمينوں کا مالک
اور جو کچه ان دونوں کے درميان ہے۔ اور اسی طرح متعدد اور مختلف خزانوں کا مالک کہ جس
کی طرف بہت سی آیات ميں اشارہ کيا گيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٩ ۔ (
قولہ تعالیٰ: <قُل لاَاٴَقُولُ لَکُم عِندِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَلا اٴَعلَْمُ الغَْيبَْ وَلا اٴَقُولُ لَکُم إِنِّی مَلَکٌ إِن ) اٴَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ > الآیہ ( ١
آپ کہہ دیجيے کہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے پاس خدائی خزانے (منبع علم فيض الٰہی)
ہيں یا ہم عالم الغيب ہيں اور نہ ہم یہ کہتے ہيں کہ ہم ملک ہيں ہم تو صرف وحی پروردگار کا
اتباع کرتے ہيں۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول <اٴَم عِندَْہُم خَزَائِنُ رَحمَْةِ رَبِّکَ العَْزِیزِ الوَْہَّابِ > ( ٢
کيا ان کے پاس آپ کے صاحب عزت پروردگار کی رحمت کا کوئی خزانہ ہے؟
) الله تعالیٰ کا یہ قول <اٴَم عِندَْہُم خَزَائِنُ رَبِّکَ اٴَم ہُم المُْصَيطِْرُونَ > ( ٣
کيا ان کے پاس پروردگار کے خزانے ہيں یا یہی لوگ حاکم ہيں؟
الله تعالیٰ کا یہ قول: <ہُم الَّذِینَ یَقُولُونَ لاَتُنفِْقُوا عَلَی مَن عِندَْ رَسُولِ اللهِ حَتَّی یَنفَْضُّوا وَلِلَّہِ
) خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَلَکِنَّ المُْنَافِقِينَ لاَیَفقَْہُونَ > ( ۴
یہی وہ لوگ ہيں جو کہتے ہيں کہ رسول خدا کے ساتهيوں پر کچه خرچ نہ کرو تاکہ یہ
لوگ منشتر ہوجائيں حالانکہ آسمان و زمين کے تمام خزانے الله ہی کے ليے ہيں اور یہ منافقين
اس بات کو نہيں سمجه رہے ہيں۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <قُل لَو اٴَنتُم تَملِْکُونَ خَزَائِنَ رَحمَْةِ رَبِّی إِذًا لَاٴَمسَْکتُْم خَشيَْةَ الإِْنفَاقِ
) وَکَانَ الإِْنسَْانُ قَتُورًا > ( ۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ ص، آیت ٩۔ (
٣(۔ سورئہ طور، آیت ٣٧ ۔ (
۴(۔ سورئہ منافقون، آیت ٧۔ (
۵(۔ سورئہ بنی اسرائيل ، آیت ١٠٠ ۔ (
آپ کہہ دیجيے کہ اگر تم لوگ ميرے پروردگار کے خزانوں کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے
کے خوف سے سب روک ليتے اور انسان تو تنگ دل ہی واقع ہوا ہے۔
مذکورہ آیات ميں کہ مختلف عناوین سے کلمہٴ خزائن ذکر ہوا ہے مفسرین ان ميں سے
ہر ایک مقام کی مناسبت سے آیت کی ایک تفسير کے قائل ہوئے ہيں مثلاً: خداوند متعال فرماتا
ہے :
>قُل لاَاٴَقُولُ لَکُم عِندِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَلاَاٴَعلَْمُ الغَْيبَْ وَلاَاٴَقُولُ لَکُم إِنِّی مَلَکٌ إِن اٴَتَّبِعُ إِلاَّ مَا
) یُوحَی إِلَیَّ قُل ہَل یَستَْوِی الاْٴَعمَْی وَالبَْصِيرُ اٴَفَلاَتَتَفَکَّرُونَ > ( ١
آپ کہہ دیجيے کہ ہمارا دعویٰ یہ نہيں ہے کہ ہمارے پاس خدائی خزانے ہيں یا ہم عالم
الغيب ہيں اور نہ ہم یہ کہتے ہيں کہ ہم مَلک ہيں۔ ہم تو صرف وحی پروردگار کا اتباع کرتے ہيں اور
پوچهيے کہ کيا اندهے اور نابينا برابر ہوسکتے ہيں آخر تم کيوں نہيں سوچتے ہو؟
یہاں خزائن سے مراد وہ مقام ہے کہ جہاں سے صادر ہوتا ہے جو کچه کسی شے کے
ليے ارادہ ہواس کے بغير عطا کرنے کے ذریعے اس شے کا وجود ختم ہوجائے نابود ہوجائے یا
جود و بخشش اسے عاجز کردے۔ اور یہ وہ شے ہے جو ذاتِ خدائے سبحان سے مخصوص ہے۔
ليکن اس الله تعالیٰ کے علاوہ جو کچه ہو جو شخص بهی ہو وہ محدود ہے اور جو کچه اس کے
پاس ہے اس کی مقدار معين ہے، جس قدر اس ميں سے خرچ کيا جائے اسی مقدار ميں کم
ہوجائے گا اور جس کی حالت ایسی ہو تو وہ ایک فقير کو غنی نہيں کرسکتا یا ہر طلب گار اور
سائل کی حاجت پورا نہيں کرسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام آیت ۵٠ ، آیہٴ کریمہ کفار و مشرکين کے اعتراضات کا جواب دے رہی ہے جو (
پيغمبر (ص) سے عجيب و غریب تقاضے کيا کرتے تهے لہٰذا آنحضرت (ص) نے فرمایا: نہ ميں
عالم الغيب ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں اور نہ ميں فرشتہ ہوں اور نہ ہی خدائی خزانے ميرے اختيار
ميں ہيں ميں تو صرف وحی پروردگار کی پيروی کرتا ہوں۔
سورئہ ہود ميں فرماتا ہے: وَلاَاٴَقُولُ لَکُم عِندِی خَزَائِنُ اللهِ وَلاَاٴَعلَْمُ الغَْيبَْ وَلاَاٴَقُولُ إِنِّی
مَلَکٌ وَلاَاٴَقُولُ لِلَّذِینَ تَزدَْرِی اٴَعيُْنُکُم لَن یُؤتِْيَہُم اللهُ خَيرًْا اللهُ اٴَعلَْمُ بِمَا فِی
) اٴَنفُسِہِم إِنِّی إِذًا لَمِن الظَّالِمِينَ > ( ١
اور ميں تم سے یہ بهی نہيں کہتا ہوں کہ ميرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہيں اور
نہ ہر غيب کے جاننے کا دعویٰ کرتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ ميں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ
تمہاری نگاہوں ميں ذليل ہيں ان کے بارے ميں یہ کہتا ہوں کہ خدا انہيں خير نہ دے گا۔ الله ان
کے دلوں سے خوب باخبر ہے۔ ميں ایسا کہہ دوں گا تو ظالموں ميں شمار ہوجاؤں گا۔ اس آیت
ميں خزائن سے مراد: تمام غيبی خزانے اور ذخيرے کہ جس کے ذریعے تمام مخلوقات کا رزق
فراہم ہوتا ہے ان خزانوں ميں سے جو کچه مورد ضرورت ہے اس کے موجود اور باقی رہنے نيز اس
کے نقائص و ترميم سے اس کی تکميل کے ليے استقامت اور پائيداری طلب کریں۔
سورئہ حجر ميں فرماتا ہے: <وَإِن مِن شَیءٍْ إِلاَّ عِندَْنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعلُْومٍ >
)١)
اور کوئی شے ایسی نہيں ہے کہ جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور ہم ہر شے کو
ایک معين مقدار ميں ہی نازل کرتے ہيں “الخزائن” خزانہ کی جمع ہے اور وہ ایسی جگہ ہے
جہاں اموال خواہ نقدی ہوں یا غير نقدی اسے جمع کيا جاتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے۔
”القدر” دال اور راء پر زیر کے ساته قدر یا زبر اور ساکن کے ساته قدر، وہ ہر شے جس
کی کميت و کيفيت معين مقدار ميں ہو۔
گزشتہ آیات ميں محور گفتگو، انسان اور حيوان جس رزق کے ذریعہ زندگی گزارتے ہيں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ہود، آیت ٣١ ، یہ آیت بهی ان لوگوں کے قول کا جواب ہے جو یہ کہتے تهے کہ: آپ کا (
ہم پر فضل و کرم ہے، تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تمہارے خيال کے مطابق رسول کو الٰہی
خزانوں کا حامل اور تام الاختيار ہونا چاہيے اور وہ اجزائے عالم ميں بهی مکمل تصرف رکهتا ہو
عالم الغيب ہو اور فرشتہ (ایسا ہرگز نہيں) ليکن تم لوگ غلط سمجهتے ہو ميں ان امور ميں سے
کسی امر کا دعویٰ نہيں کرتا ہاں صرف رسالت کی صداقت پر ایک سند رکهتا ہوں۔
٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٢١ ۔ (
اس کے
متعلق تهی۔ اس بنا پر شے سے مراد جو آیت ميں توصيف ہوئی ہے نبات اور اس کے ملحقات
حبوبات اور ميوہ جات ہيں۔ اور خزانہ سے مراد جو خدائے تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے اور معين
مقدار ميں نازل کرتا ہے وہ بارانِ رحمت ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے نتيجے ميں نباتات
حبوبات اور ميوہ جات سامنے آتے ہيں اور انسان و حيوان ان کے ذریعے آرام سے زندگی گزارتا
) ہے۔ ( ١
بعض ہم عصر مفسرین قائل ہيں: خزائن سے مراد وہ مختلف عناصر ہيں کہ جس سے
ارزاق وغيرہ ترکيب و تشکيل پاتے ہيں البتہ خدائے سبحان نے اس مشهود و ظاہری دنيا ميں
اس کی عظيم مقدار فراہم کی ہے جو مختلف ترکيبات کے ذریعے اور مجموعی وسائل جو
مرکبات کی ترکيب ميں بروئے کار لائے جاتے ہيں جيسے نور و حرارت، دائمی ہواؤں وغيرہ کا
بهی تمام اشياء اور وسائل کا انسان اپنی زندگی وغيرہ گزارنے کے ليے ضرورت مند ہے فنا
ناپذیر ہے اور اس ميں نابودی کا کوئی سوال نہيں پيدا ہوتا۔
یہ وجہ بذات خود پسندیدہ ہے اور بہت سی آیات اس قول کی تائيد کرتی ہيں جيسا کہ
بعد والی آیت ميں ہم پڑهتے ہيں: <وَاٴَرسَْلنَْا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَاٴَنزَْلنَْا مِن السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَسقَْينَْاکُمُوہُ
) وَمَا اٴَنتُْم لَہُ بِخَازِنِينَ > ( ٢
اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجه اڻهانے والا بناکر چلایا ہے پهر آسمان سے پانی برسایا
ہے جس سے تم کو سيراب کيا ہے اور تم اس کے خزانہ دار نہيں تهے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <اٴَوَلَم یَرَی الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضَْ کَانَتَا رَتقًْا فَفَتَقنَْاہُمَا
) وَجَعَلنَْا مِن المَْاءِ کُلَّ شَیءٍْ حَیٍّ اٴَفَلاَیُؤمِْنُونَ > ( ٣
کيا ان کافروں نے یہ نہيں دیکها کہ یہ زمين و آسمان آپس ميں جڑے ہوئے تهے اور ہم نے
ان کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تمام مفسرین کے نظریات کا خلاصہ اگرچہ اشکال سے خالی نہيں ہے۔ (
٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٢٢ ۔ (
٣(۔ سورئہ انبياء، آیت ٣٠ ۔ (
الگ کيا ہے اور ہر جان دار کو پانی سے قرار دیا ہے پهر کيا یہ لوگ ایمان نہ لائيں گے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: اَوَ لَم یَرَ الّذینَ کَفَرُوا اَنّ السّم اٰوتِ وَ الارضَ اٰ کنَتا رَتقاً فَفَتَق اٰنهُما وَ
جَعَلنا مِنَ ال مٰاء کُل شَیٴ حَیّ اَفَلا یُوٴمِنُون
الله تعالیٰ کا یہ قول: وَ سَخَّرَ لَکُم الشَّمسَ وَ القَْمَر دائِبينِ وَ سَخَّرَ لَکُم اللَّيلَ وَ النّهارَ
الله تعالیٰ کا یہ قول: اِنَّ في خلقِ السّم اٰوتِ وَ الاٴرضِ وَ اختِلافِ اللّيلِ وَ النّ هٰارِ
الی قولہ <وَالسَّحَابِ المُْسَخَّرِ بَينَْ السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ لَآیَاتٍ لِقَومٍْ یَعقِْلُون> ( ١)بے شک زمين
و آسمان کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد ان کشتيوں ميں جو دریاؤں ميں لوگوں کے فائدہ
کے ليے چلتی ہيں اور اس پانی ميں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعہ
زمينوں کو زندہ کر دیا ہے اور اس ميں طرح طرح کے چوپائے پهيلا دیے ہيں اور ہواؤں کے چلانے
ميں اور آسمان و زمين کے درميان مسخر کيے جانے والے بادل ميں صاحبان عقل کے ليے الله
کی نشانياں پائی جاتی ہيں۔
مذکورہ آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ہواؤں کا چلنا آسمانوں اور زمين کا پهڻنا، بارش
نازل ہونا آفتاب و ماہتاب کی حرکت شب و روز کی گردش آسمان و زمين کے درميان بادل کے
ڻکڑوں کا پایا جانا یہ سب ایسے وسائل زندگی ہيں جسے پروردگار متعال نے مخلوقات کو
زندگی بسر کرنے کے ليے اپنی قدرت سے خلق کيا جو ختم ہونے والے نہيں ہيں۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <اٴَم عِندَْہُم خَزَائِنُ رَحمَْةِ رَبِّکَ العَْزِیزِ الوَْہَّابِ > ( ٢) کيا ان کے پاس آپ
کے صاحب عزت پروردگار کی رحمت کا کوئی خزانہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١۶۴ ۔ (
٢(۔ سورئہ ص، آیت ٩۔ (
الله تعالیٰ کا یہ قول: <اٴَم عِندَْہُم خَزَائِنُ رَبِّکَ اٴَم ہُم المُْصَيطِْرُونَ > ( ١) کيا ان کے پاس
پروردگار کے خزانے ہيں یا یہی لوگ حاکم ہيں؟
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <اجعَْلنِْی عَلَی خَزَائِنِ الاْٴَرضِْ إِنِّی حَفِيظٌ عَلِيمٌ > ( ٢
مجهے زمين کے خزانوں پر مقرر کردو کہ ميں محافظ بهی ہوں اور صاحب علم بهی ۔
ان مذکورہ آیات کے علاوہ بهی لفظ خزائن ان ميں ذکر ہوا ہے۔
ان مذکورہ آیات وغيرہ ميں جو خزائن کے لےے مختلف عناوین ذکر ہوئے ہيں مفسرین ان
ميں سے ہر ایک مقام کی مناسبت سے ایک تفسير کے قائل ہوتے ہيں جيسے ارادہٴ الٰہی،
بندوں کی تمام روزی اور اس کی تقسيم، نعماتِ الٰہی وغيرہ کہ ان ميں سے بعض کی طرف
سورئہ انعام کی آیت نمبر ۵٠ اور سورئہ ہود کی آیت نمبر ٣١ اور سورئہ حجر کی آیت نمبر ٢١
ميں اشارہ کيا گيا ہے۔
آیہٴ کریمہ <وَ ان مِن شَی الّا عندَنا خزائِنہ وَما نُنَزّلہ الّا بِقَدَر مَعلُوم> (اور کوئی شے
ایسی نہيں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور ہم ہر شے کو ایک معين مقدار ميں نازل
کرتے ہيں) کے پيش نظر لفظ خزائن سے جو خزینہ کی جمع ہے جس کا معنی گنج و خزانہ یا ہر
اس شے کا منبع و مرکز ہے کہ اس کی حفاظت اور دوسروں کی دست رسی نہ ہونے کے ليے
وہاں جمع آوری کی جاتی ہے انسان کا ذہن فوراً اسی معنی کی طرف جاتا ہے۔ اور اس سے
واضح ہوتا ہے کہ خزائن الٰہی تمام چيزوں کے منبع پر مشتمل ہےں کہ قرآن مجيد بهی انہيں
خزانوں ميں سے ایک خزانہ ہے کہ ہم نے ابتدائی بحث ميں جسے عنوان قرار دیا تها (القرآن
خزائن) اور حقيقت ميں یہ منبع خدائے سبحان کی لا متناہی ذات جو تمام کمالات اور قدرتوں کا
سرچشمہ ہے نشاة پاتا ہے۔
قرآن مجيد کے الٰہی خزانے کی وضاحت کے متعلق یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ زیادہ
سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ طور، آیت ٣٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ یوسف، آیت ۵۵ ۔ (
استفادہ کرنے کے امکانات اور طاقت فراہم کریں ہم ناگزیر طور پر آپ قارئين کرام کے ذہن سے
اس مطلب کو قریب کرنے کے ليے ایک مقدمہ پيش کر رہے ہيں۔
فرض کریں اسی منبع و مرکز کو ایک بہت بڑے احاطے ميں کئی عرب ميڻر زمين کو
(اسلامی ميوزیم کے) عنوان سے چهت بنائيں اور اس ميں تمام بہت قيمتی اشياء جيسے
جواہرات ، گراں قدر پتهر (ہيرے اور گولڈن وجواہرات) اور قدیمی فقہی کتابوں وغيرہ کو جو ان کے
مصنفين کے خط سے تحریر شدہ ہوں اسی طرح نفيس چيزیں آثار قدیمہ کے اسباب آسمانی
کتابوں زبور و توریت و انجيل کی اصل اور سونا کاری کيے ہوئے تمام قرآن آہو کی پوست پر بہت
خوبصورت خط کی تحریر سے مزین ہو اس کے علاوہ اور بهی مختلف قيمتی چيزیں جمع کریں
لوگوں کے عام اور آزادانہ استفادہ کی غرض سے اور نہ اس کا کوئی کنڻرول کرنے والا ہو نہ ہی
اس ميں کوئی محدودیت رکهی جائے۔ ایسے مقام ميں ایک نقّاد، ماہر اور باخبر شخص کو اس
خزانے ميں داخل کریں اور تمام جہات سے اس کے اختيار ميں دے کر اس سے کہيں: ان ميں
سے جس شے سے جتنی مقدار استفادہ کرنا چاہيں یہ آپ کو اختيارہے۔ اب یہ شخص اس
خزانے ميں جس طرف نگاہ کرے گا تو ایک طرف اس کے مختلف جواہرات کی شعاعوں کا
مشاہدہ کرے گا تو دوسری طرف دوسری نفيس چيزوں کا نظارہ کرے گا کہ ہر ایک اپنے مقام پر
چمک رہے ہيں، حالانکہ وہ مبہوت و حيرت زدہ ہوکر محو تماشا ہے مگر وہ ہر حيثيت سے اپنے
امکانات و طاقت کے مطابق اس سے فائدہ اڻهائے گا اور وہاں سے دست خالی نہيں نکلے گا۔
اب خود قرآن کریم کی متعدد آیات ميں اس معنی کی طرف اجمالاً اشارہ کيا گيا ہے کہ
ان ميں سے بعض آپ کے گوش گزار کر رہے ہيں۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَعِندَْہُ مَفَاتِحُ الغَْيبِْ لاَیَعلَْمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعلَْمُ مَا فِی البَْرِّ وَالبَْحرِْ وَمَا
تَسقُْطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعلَْمُہَا وَلاَحَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ الاْٴَرضِْ وَلا رَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ
) فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ١
اور اس کے پاس غيب کے خزانے ہيں جنہيں اس کے علاوہ کوئی جاننے والا نہيں ہے۔
اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے۔ کوئی پتہ بهی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے۔ زمين
کی تاریکيوں ميں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ
ہو۔ (کتاب علم خدا ميں ثبت ہے (
اس آیت کریمہ کو گزشتہ آیات جو خدا کی قدرت ، علم اور اس کے حکم کے دائرے کی
وسعت کے سلسلے ميں بتا رہی تهی کی وضاحت کرنے والی آیت کہا جاسکتا ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول : وَعِندَْہُ مَفَاتِحُ الغَْيبِْ لاَیَعلَْمُہَا إِلاَّ ہُو
غيب کے خزانے یا غيب کی کنجياں سب ہی خدا کے پاس ہيں اس کے علاوہ کوئی
شخص اسے نہيں جانتا۔ (مفاتح) مفتح کی جمع ميم پر زیر کے ساته بہتر کے وزن پر کليد کا
معنی ہے اور ممکن ہے “مفتح” ميم پر زبر کے ساته دفتر کے وزن پر خزانہ اور کسی چيز کی
حفاظت کرنے کے مرکز کے معنی ميں تها۔ پہلی صورت ميں آیت کا معنی یہ ہے کہ تمام غيب
کی کنجياں الله تعالیٰ کے بدست ہے اور دوسری صورت ميں تمام غيبی خزانے خدائے سبحان
کے اختيار ميں ہيں۔
ممکن ہے دونوں ہی معنی ایک ہی عبارت ميں ملحوظ خاطر ہوں کيوں کہ یہ ایک دوسرے
کے لازم و ملزوم ہيں اس ليے کہ جہاں کہيں کوئی خزانہ ہوگا تو کوئی کنجی بهی موجود ہوگی۔
ليکن اس کی کثرت استعمال کے مقامات کے پيش نظر کہ وہ کنجی کے متعلق زیادہ استعمال
) ہوا ہے لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ وہی کنجی کا معنی ہے نہ خزانے کا۔ ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام ، آیت ۵٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ قصص کی آیت نمبر ٧۶ ميں بهی کليد کا معنی ذکر ہوا ہے الله تعالیٰ کا قول ہے <مَا (
إِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوءُ بِالعُْصبَْةِ اٴُولِی القُْوَّةِ> (یعنی ہم نے بهی اسے اتنے خزانے دے دیے تهے کہ )
ایک طاقت ور جماعت سے بهی اس کی کنجياں نہيں اڻه سکتی تهيں سورئہ نور کی آیت نمبر
۶١ <او ما ملکتم مفاتحہ> (یا جن گهروں کی کنجياں تمہارے اختيار ميں ہيں)۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: < وَیَعلَْمُ مَا فِی البَْرِّ وَالبَْحرِْ وَمَا تَسقُْطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعلَْمُہَا > ( ١
”بر” وسيع مکان کے معنی ميں ہے عام طور سے خشکيوں (بيابانوں) کے ليے بولا جاتا
ہے۔
”بحر” بهی حقيقت ميں وسيع مقام کے معنی ميں ہے کہ اس ميں پانی زیادہ جمع ہوا ہو
اور عام طور سے دریاؤں اور عظيم لامتناہی سمندروں اور کبهی عظيم نہروں کے ليے بهی بولا
جاتا ہے۔
بہرحال خدائے تبارک و تعالیٰ کی آگاہی جو کچه خشکيوں اور دریاؤں اور عظيم لا متناہی
سمندروں ميں ہے وہ اس معنی ميں ہے کہ اس کا علم تمام چيزوں کا احاطہ کيے ہے اور چاہيے
کہ اس جملے (جو کچه خشکيوں اور دریاؤں ميں ہے خدا جانتا ہے) کی وسعت کے پيش نظر
حقيقت ميں الله تعالیٰ کے وسيع علم کے ایک گوشہ کی حقيقت روشن ہوجائے ۔ یعنی خدائے
سبحان اربوں زندہ چهوڻے بڑے موجودات کی حرکت دریاؤں کی تہوں اور لامتناہی عظيم
سمندروں ميں تمام جنگلوں ، پہاڑوں اور باغات ميں درختوں کے پتوں کی حرکت کو اور ہر غنچہ
کے یقينی طور پر شگفتہ ہونے کی تاریخ کو اور گلوں کی پنکهڑیوں کے کِهلنے کو اس کے تمام
مختلف رنگ اور انواع و اقسام کے ساته بيابانوں ميں سرد ہواؤں کا چلنا، درّوں کی خميدگی، اور
ہر انسان کے بدن کے خليے کی واقعی تعداد اور خون کی دوران اور تمام مرموز الکڻرون کی
ایڻموں کے دل ميں حرکتيں، بالآخر وہ تمام افکار اور تفکرات جو اپنے مغز کے پردوں ميں سے
گزرتے ہيں اور ہماری روح کی تہوں ميں نفوذ کرتے ہيں ہاں وہ ان تمام چيزوں سے بطور
یکساں باخبر ہے بعد والے جملے ميں خداوند متعال کے علمی احاطے کی تاکيد کو اس جملہ
سے بيان فرمایا: “کسی درخت کا کوئی ایک پتہ جدا نہيں ہوتا مگر یہ کہ اسے وہ جانتا ہے)۔
یعنی ان پتوں کی تعداد اور ان کا شاخوں سے جدا ہونے کا لحظہ اور ان کے درميان فضا ميں
گردش کرنا اور ان کا روئے زمين پر گرنے کا لحظہ بالخصوص فصل خزاں ميں جو خود قابل دید
نظارہ کا حامل ہوتا ہے یہ سب کچه اس کے علم ميں واضح و روشن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
اسی طرح کوئی ایک دانہ زمين کے سينے ميں مستقر نہيں ہوتا مگر یہ کہ اس کے تمام
خصوصيات کہ وہ کيسے زمين کی رطوبت کے اثر اور آفتاب کی تپش سے نيز اس کی حرارت
سے متاثر ہوکر کيسے وہ دانہ ظاہر ہوگا اس کے ریشے اور ڈنڻهل کيسے زمين کے اوپر گریں
) گے ان سب حالات کو وہ جانتا ہے <وَلا حَبّةٍ في ظُلماتِ الاٴرضِ> ( ١
حقيقت ميں قابل توجہ اور وہ حساس نقطہ کہ جس پر خصوصی توجہ کی گئی ہے وہ
یہ ہے کہ کسی بهی انسان کے ليے خواہ اس کی عمر کے لاکهوں سال گزر رہے ہوں اور
صنعتی و ڻکنولوجی حيرت انگيز تکامل و ترقی کی مشينریاں اس کے علم پر احاطہ پيدا کریں یہ
ممکن ہی نہيں ہے کون شخص جانتا ہے کہ ہواؤں نے ہر شب و روز ميں تمام کرئہ زمين پر کتنے
بيجوں کو گهانسوں سے جدا کيا ہے اور وہ کس مقام پر اسے پہنچائيں گی۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَاٴَرسَْلنَْا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَاٴَنزَْلنَْا مِن السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَسقَْينَْاکُمُوہُ وَمَا اٴَنتُْم ) لَہُ بِخَازِنِينَ > ( ٢
اور ہم نے بادلوں کو ہواؤں کا بوجه اڻهانے والا بناکر چلایا ہے پهر آسمان سے پانی برسایا
ہے جس سے تم کو سيراب کيا ہے اور تم اس کے خزانے دار نہيں تهے۔
بہت سے بيج ممکن ہيں دراز مدت تک زمين کی تہوں ميں مخفی رہيں تاکہ اپنے رشد و
نمو کے ليے پانی وافر مقدار ميں فراہم کریں کون شخص جانتا ہے کہ ہر وقت حشرات الارض
(کيڑے مکوڑے) کے ذریعے یا انسانوں کے وسيلہ سے کتنا دانہ کس قسم کا بيج زمين کے کس
خطہ ميں چهڑکا جاتا ہے؟
کون سا الکڻرونيکی مغز ہے جو جنگلوں کے ڈهيروں سے درختوں کی شاخ کے جدا ہونے
والے پتوں کی تعداد کا علم رکهتا ہو اور اسے شمار کرے؟
ایک جنگل کے منظر کی طرف نظارہ کرنا بالخصوص فصل خزاں ميں مخصوصاً مسلسل
بارشوں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٢٢ ۔ (
مواقعوں پر یا ایک تيز ہوا کے چلنے سے عجيب انوکها منظر پتوں کے پے درپے گرنے سے پيدا
ہوتا ہے وہ بخوبی اس حقيقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس قسم کے علوم کبهی بهی انسان کی
دست رس ميں قرار پانا ممکن نہيں ہے۔
پتوں کا گرنا حقيقت ميں ان کی موت کے لحظے ہيں ليکن دانوں کا زمين کے اندر گرنا ان
کی حيات کا پہلا قدم ہے جو مختصر ترین وقت ميں خاک سے اپنا سر باہر لایا مختلف رنگا رنگ
پهولوں سے اور ان پهلوں کے ذریعے جو اس کے اندر ودیعت کيے گئے ہيں تمام لوگوں کو فائدہ
پہنچائيں گے۔ وہ خدائے سبحان ہے جو اس کے نظامِ موت و حيات سے باخبر ہے یہاں تک کہ
ایک دانہ کو جو مختلف درجات کامل زندگی اور اسے شکوفائی کی منزل طے کرنے ميں درکار
ہوتے ہيں ہر لحظہ اور لمحہ اس کے علم ميں وہ آشکار ہے۔
قابل ذکر یہ ہے کہ یہ موضوع چونکہ انذار کا پہلو رکهتا ہے اور تربيتی اثر کا حامل ہے کيوں
کہ اس وسيع علم پر ایمان رکهنا انسان کو ہوشيار کرتا ہے کہ تمہارے وجود کے تمام اسرار و
رموز تمہاری رفتار و کردار اور تمہاری نيتوں اور افکار وغيرہ سب ہی چيزوں سے ذات اقدس الٰہی
باخبر ہے وہ اس کے ليے واضح اور نمایاں ہے تو پهر کيسے ممکن ہے انسان ایسے ایمان کے
ساته اپنی حالت کی حفاظت نہ کرے اور اپنے اعمال و گفتار اور اپنی نيتوں کو کنڻرول نہ کرے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلاَرَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ١) یعنی کوئی خشک و تر
ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ ہو۔ خداوند تبارک و تعالیٰ اسے مختصر جملے
ميں اپنے علم کی بے نہایت وسعت کو تمام موجودات کے ليے بيان فرما رہا ہے اور کوئی شے
اس سے مستثنیٰ نہ ہوگی۔ کيوں کہ خش و تر سے مراد اس کے لغوی معنی نہيں ہيں بلکہ یہ
تعبير عام طور سے عموميت کے ليے کنایةً استعمال کرتے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
کتاب مبين کے متعلق مفسرین کی طرف سے مختلف احتمالات دیے گئے ہيں۔
کہا گيا ہے: کتاب مبين وہی مقام علم پروردگار ہے یعنی تمام موجودات اس کے بے
نہایت علم ميں ثبت و ضبط ہيں۔ یا مراد لوح محفوظ ہے۔ یا مراد دنيائے آفرینش اور خلقت کا
سامان اور علت و معلول کا سلسلہ ہے کہ تمام شے ان ميں تحریر شدہ ہيں یا اس سے مراد یہ
عالم ہستی ہے جو تمام ظاہری اور بيرونی چيزوں پر مشتمل موجود ہے اور اس خدائے بزرگ و
برتر سے کوئی شے نہاں نہيں ہے چهوڻی، بڑی، خشک و تر سب ہی کچه اس کے ليے نہایت
علم ميں ثبت و ضبط ہيں۔ کيوں کہ وہ شے جو تصور کی جائے وہ دو صفت سے خالی نہيں ہے
اور خدائے تبارک و تعالیٰ کا لامتناہی علم ان سب پر احاطہ رکهتا ہے۔ اور بعض نے جو لوح
محفوظ سے تفسير کيا ہے بعيد نہيں ہے کہ لوح محفوظ بهی وہی خدائے عزوجل کا صفحہٴ علم
ہو اور وہ مذکورہ معنی ميں بهی قابل تطبيق ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَمَا تَکُونُ فِی شَاٴنٍْ وَمَا تَتلُْوا مِنہُْ مِن قُرآْنٍ وَلاَتَعمَْلُونَ مِن عَمَلٍ إِلاَّ
کُنَّا عَلَيکُْم شُہُودًا إِذ تُفِيضُونَ فِيہِ وَمَا یَعزُْبُ عَن رَبِّکَ مِن مِثقَْالِ ذَرَّةٍ فِی الاْٴَرضِْ وَلاَفِی السَّمَاءِ
) وَلاَاٴَصغَْرَ مِن ذَلِکَ وَلاَاٴَکبَْرَ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ١
خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اے پيغمبر (ص)! آپ کسی حال ميں رہيں اور قرآن کے
کسی حصہ کی تلاوت کریں اور اے لوگو! تم کوئی عمل کرو ہم تم سب کے گواہ ہوتے ہيں جب
بهی کوئی عمل کرتے ہو اور تمہارے پروردگار سے زمين و آسمان کا کوئی ذرہ دور نہيں ہے اور
کوئی شے ذرہ سی بڑی یا چهوڻی ایسی نہيں ہے جسے ہم نے اپنی کهلی کتاب ميں جمع نہ
کر دیا ہو۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لا تَاٴتِْينَا السَّاعَةُ قُل بَلَی وَرَبِّی لَتَاٴتِْيَنَّکُم عَالِمِ
الغَْيبِْ لاَیَعزُْبُ عَنہُْ مِثقَْالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الاْٴَرضِْ وَلاَاٴَصغَْرُ مِن ذَلِکَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ۶١ ۔ (
) وَلاَاٴَکبَْرُ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِين> ( ١
کفار کہتے ہيں کہ قيامت آنے والی نہيں ہے تو آپ کہہ دیجيے کہ ميرے پروردگار کی
قسم وہ ضرور آئے گی وہ عالم الغيب ہے اس کے علم سے آسمان و زمين کا کوئی ذرہ دور
نہيں ہے اور نہ اس سے چهوڻا اور نہ بڑا بلکہ سب کچه اس کی روشن کتاب ميں محفوظ ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الاْٴَرضِْ وَلاَطَائِرٍ یَطِيرُ بِجَنَاحَيہِْ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمثَْالُکُم مَا
) فَرَّطنَْا فِی الکِْتَابِ مِن شَیءٍْ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِم یُحشَْرُونَ > ( ٢
اور زمين ميں کوئی بهی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہيں
ہے جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکهتا ہو۔ہم نے کتاب ميں کسی شے کے بيان
ميں کوئی کمی نہيں کی ہے اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی بارگاہ ميں پيش کيے ہوں گے۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَمَا مِن غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٣
اور آسمان و زمين ميں کوئی پوشيدہ چيز ایسی نہيں ہے جس کا ذکر کتاب مبين ميں نہ
ہو۔
اس بنا پر قرآن خزانہ ہے اور خزائن بهی جيسا کہ پہلے بهی وضاحت کی جاچکی ہے کہ
وہ ہر قسم کی اشياء کا منبع و مرکز ہے جو قرآن ميںجمع کيا جاتا ہے۔ یعنی جس چيز پر شے
کا اطلاق ہو خواہ وہ خشک و تر ہو یا چهوڻا بڑا، زمين ميں یا آسمان ميں وہ سب اپنے تمام انواع
و اقسام اور ہر قسم کی جنس کے ساته قرآن مجيد ميں موجود ہے اور سب کا علم اور کنجی
خدائے عزوجل کی بارگاہ ميں یا لوح محفوظ ميں ہے کہ اس کی طرف بهی اشارہ کيا کہ وہ الله
تعالیٰ کے علم کا صفحہ ہے۔
مورد بحث مباحث و مطالب کے پيش نظر کہ قرآن کریم ميں جو کچه موجود ہے اور جو
خصوصيات اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ سبا، آیت ٣۔ (
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ٣٨ ۔ (
٣(۔ سورئہ نمل، آیت ٧۵ ۔ (
ميں پائی جاتی ہيں وہی حضرت بقية الله الاعظم ولی عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ميں
بهی موجود ہيں کيوں کہ وہ قرآن کے شریک اور ہم مرتبہ ہيں۔
اور اس لحاظ سے کہ مذکورہ آیات ميں مختلف عناوین خزائن غيب کتاب مبين (کی جو
قيد تهی) سب علم الٰہی کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کر رہے تهے یعنی جو کچه قرآن
کریم ميں ہے اس کی کنجی اور علم الله تعالیٰ کے پاس ہے۔
دوسرے لحاظ سے جو کچه آیات اور ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے جو معادن وحی و
تنزیل سے وارد ہوئی ہيں یہ ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے ہر شے کے علم کو یہاں تک کہ
علم غيب کو بهی اپنے پيغمبر اکرم (ص) کو عطا فرمایا ہے اور ان بزرگوار نے بهی جو کچه
خداوند سبحان سے اخذ کيا اسے حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کو عطا فرمایا اور
ان کے بعد یکے بعد دیگرے تمام ائمہٴ اطہار تک پہنچا جو علم پيغمبر (ص) کے وارث ہيں اور آخر
ميں ان کے آخری وصی حضرت مہدی قائم آل محمد صاحب العصر و الزمان - عجل الله تعالیٰ
فرجہ الشریف تک پہنچا جو تمام انبياء اور اوصياء کے علوم کے وارث ہيں۔ ہم اس سلسلے ميں
چند روایات اور آیات کی طرف اشارہ کر رہے ہيں:
آیات ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول: <قُل لَو کَانَ البَْحرُْ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ البَْحرُْ قَبلَْ
) اٴَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَو جِئنَْا بِمِثلِْہِ مَدَدًا > ( ١
آپ کہہ دیجيے کہ اگر ميرے پروردگار کے کلمات کے ليے سمندر بهی روشنائی بن جائيں
تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائيں گے ان کی مدد کے ليے
ہم ویسے ہيں سمندر اور بهی لے آئيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ کہف، آیت ١٠٩ ۔ (
۶٠٢ ۔ “و فی الدر المنثور : فی قولہ تعالیٰ <یَساٴلُونَکَ عَن الرُّوح >اخرج
احمد و الترمذی و غيرهم فی الدلائل عن ابن عبّاس قال قالت قریش لليهود اعطونا مثيئاً نساٴل
) هذا الرجل فقالوا ساٴلُوہ عَن الرّوح فَساٴلوہ فَنزَلت ” ( ١
>یَساٴلُونَکَ عَن الرُّوح > پيغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہے کہ لوگ ان سے سوال کرتے
ہيں روح کے متعلق تو ان سے کہہ دیجيے: روح ميرے پروردگار کا امر ہے تمہيں بہت کم علم
عطا کيا گيا ہے، کہا کہ ہميں علم کثير عطا کيا گيا ہے علم توریت ہميں دیا گيا ہے جسے علم
توریت دے دی گئی ہو اسے خير کثير دے دیا گيا پهر خداوند متعال نے سورئہ کہف کی آیت نمبر
١٠٩ نازل فرمائی۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ وَالبَْحرُْ یَمُدُّہُ مِن بَعدِْہِ سَبعَْةُ
) اٴَبحُْرٍ مَا نَفِدَت کَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِيمٌ > ( ٢
اگر روئے زمين کے تمام درخت قلم بن جائيں اور سمندر کا سہارا دینے کے ليے سات
سمندر اور آجائيں تو بهی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہيں ہيں بے شک الله صاحب عزت بهی
ہے اور صاحب حکمت بهی ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَستَْ مُرسَْلًا قُل کَفَی بِاللهِ شَہِيدًا بَينِْی وَبَينَْکُم ) وَمَن عِندَْہُ عِلمُْ الکِْتَابِ > ( ٣
اور یہ کافر کہتے ہيں کہ آپ رسول نہيں ہيں تو کہہ دیجيے کہ ہمارے اور تمہارے درميان
رسالت کی گواہی کے ليے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا
علم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ منزلت : <وَیَساْٴَلُونَکَ عَن الرُّوحِ قُل الرُّوحُ مِن اٴَمرِْ رَبِّی وَمَا اٴُوتِيتُم مِن العِْلمِْ إِلاَّ قَلِيلًا ><قُلْ لَوْ (
کَانَ البَْحرُْ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ البَْحرُْ قَبلَْ اٴَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَو جِئنَْا بِمِثلِْہِ مَدَدًا >۔
٢(۔ سورئہ لقمان، آیت ٢٧ ۔ (
٣(۔ سورئہ رعد، آیت ۴٣ ۔ (
”معادن وحی و تنزیل سے وارد شدہ روایات“
۶٠٣ ۔ “و فی الکافی : باسنادہ عن عبد الرحمن بن کثير قال سَمِعْتُ اَبا عَبداللّٰہ عليہ
) السلام یَقُولُ نَحنُ وُلاةُ اَمرَ اللہّٰ وَخَزَنَةُ عِلمِ اللہِّٰ وَعيبَةُ وَحی اللہّٰ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند عبد الرحمن ابن کثير سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ : ميں نے
امام جعفر صادق - کو یہ فرماتے سنا ہے کہ : ہم واليان امر الٰہی (امامت و خلافت) ہيں ہم اس
علوم الٰہی کا خزانہ ہيں اور مرکز اسرارِ الٰہيہ ہيں۔
۶٠۴ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن سورة بن کليب قال: قالَ لی اَبُو جَعفر عليہ السلام وَاللّٰہ انَّا
) لَخزّانُ اللہِّٰ فی سَمائِہِ وَاَرضِْہِ لا عَ لٰی ذَهَبٍ وَلا عَ لٰی فِضَّةٍ اِلاَّ عَل یٰ عِلمِہِ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند سودہ ابن کليب سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ: امام
محمد باقر - نے فرمایا: خدا کی قسم! یقينا ہم زمين و آسمان ميں الله کے خزانہ دار ہيں مگر
سونے یا چاندی کے خزانہ دار نہيں بلکہ علم الٰہی کے۔
۶٠۵ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن اسماعيل بن ابی زیاد عَن جَعفَر بن مُحمد عَن اَبيہِ عليہم
السلام اٰقل قال اَميرَ الموٴمنينَ عليہ السلام اَنا اَهلُ البَيتِ شَجَرَةُ النَّبوةَ وَموضِعُ الرّسالَةِ وَمُختَلفُ
) المْلائکَةِ وَبَيتُ الرَّحمَةِ وَمَعد نُ العِلمِ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند اسماعيل ابن ابی زیاد سے انہوںنے امام جعفر صادق -
سے انہوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ١۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ٢۔ (
٣(۔ گزشتہ حوالہ، ص ٢٢١ ، حدیث ٢۔ (
اپنے پدربزرگوار سے انہوں نے حضرت امير المومنين - سے نقل کيا ہے: ہم اہل بيت شجرئہ
نبوت مقام رسالت اور ملائکہ کے آنے جانے کی جگہ، رحمت کا گهر اور علم کا مرکز و منبع ہيں۔
۶٠۶ ۔ “وفيہ : باسنادہ عن خثيمة قال قال لی اَبو عَبد اللّٰہ عليہ السلام : اٰی خَثيَمةُ نَحنُ
شَجرَةُ النَّبُوَةِ وَبَيتَ الرَّحمَةِ وَم اٰ فتيحُ الحِکمَةِ وَمَعد نُ العِلمْ وَمُوضِعُ الرّسالَةَ وَمُختَلَفُ المَلائِکَةِ
وَموضِعُ سِرّ اللّٰہ وَنَحْنُ وَدیعةُ اللّٰہ فی عبادہِ وَنَحنُ حَرَمُ اللّٰہ الاٴکبرِ وَنَحنُ ذِمَّةُ اللّٰہ وَ نَحنُ عَہدُ اللّٰہ
) فَمَن وَف یٰ بِعَهدِنا فَقد وَف یٰ بِعَهدِ اللہّٰ وَمَن خَفَر هٰا فَقَد خَفَر ذِمَّةَ اللہّٰ وَعَهدہِ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند خيثمہ سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے
مجه سے فرمایا: اے خيثمہ! ہم شجرئہ نبوت اور بيتِ رحمت ہيں اور بابِ حکمت کی کنجياں ہيں،
علم کا مرکز و منبع ہيں اور رسالت کا مقام ہيں ملائکہ کے نازل ہونے کی جگہ ہيں اور مقام سر
الٰہی ہيں اور ہم الله کی اس کے بندوں ميں ودیعت و امانت ہيں ہم الله کا حرم اکبر ہيں (لہٰذا
ہماری رعایت اور احترام کرنا کعبہ سے زیادہ ہے) ہم اس کے دین کی بقا کے ذمہ دار ہيں ہم الله
کے عہد ہيں لہٰذا جس نے ہمارے عہد کو پورا کيا اس نے خدا کے عہد کو پورا کيا اور جس نے
اسے توڑا اس نے الله کے ذمہ اور عہد کو توڑا۔
۶٠٧ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن فضيل بن یسار قال : سَمعت اَبا عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام یَقُول انَّ
فی علیٍ عليہ السلام سُنَةُ اَلفِ نَبیٍ مِن الاٴنبيآءِ وَانّ العِلمَ الَّذی نَزَلَ مَعَ آدَمَ عليہ السلام لَم ) یَرفَع وَما ماتَ عالِمٌ فَتَرهَبَ عِلمُہُ وَالعِلمُْ یَت اٰورَثُ ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند فضيل ابن یسار سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ: ہم نے
امام جعفر صادق کو یہ کہتے سنا: حضرت علی - انبيا ميں سے ہزار نبيوں کی سنت (خصائل)
رکهتے تهے (جيسا کہ پيغمبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢(۔ گزشتہ حوالہ، ص ٢٢١ ، حدیث ٣۔ (
٣(۔ گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٢ ، حدیث ۴۔ (
نے فرمایا: جو آدم - کا علم ، نوح - کی عبادت، ابراہيم - کی خلت، موسی - کی سطوت اور
عيسی - کا زہد دیکهنا چاہتا ہے اسے علی ابن ابی طالب - کی طرف نظر کرنا چاہيے اور جو
علم آدم - کے ساته آیا تها وہ اڻهایا نہيں گيا اور ایسا عالم رحلت نہيں کيا کہ اس کا علم چلا
گيا ہو علم تو ميراث ميںمنتقل ہوتا ہے۔
۶٠٨ ۔ “وفيہ باسنادہ عن علی بن النعمان رفعہ عن ابی جعفر عليہ السلام قال قال اَبو
جَعفر عليہ السلام یَمُصّونَ الثّمادَ وَیَهدون النّهر العَظيمَ قيلَ لَہ وَمَا النّهر العَظيمُ ؟ قٰال: رَسُولُ اللّٰہ
(ص) وَالعلمُ الَّذی اَعطٰاہُ اللّٰہ اِنَّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جَمَعَ لِمُحَمد (ص) سُنَنَ النَبيّينَ مِن آدَم وَهَلّم جَرَّاً
الیٰ مُحمد (ص) قيلَ لَہُ وَ اٰ م تِلکَ السُنَنُ ؟ قال: عِلمُ النّبيّينَ بَاٴسرِہِ وَانَّ رَسولُ اللّٰہ (ص) صَيَّر
ذٰلِکَ کُلّہ عِندَ اَمير الموٴمنينَ عليہ السلام
فَقالَ لَہُ رَجلٌ یَابنَ رَسولِ اللّٰہ فاٴميرَ الموٴمنينَ اَعلمُ اَم بَعضُ النّبيينَ ؟ فَقال ابُو جَعفر عليہ
السلام اسمَعُوا مایَقُولُ ؟ اِنّ اللّٰہ یَفتَحُ مَسٰامعَ مَن یَشاءَ انی حَدَّثتَہُ انَّ اللّٰہ جَمَعَ لِمحمدٍ (ص)
علِمَ النَبيينَ وَ انّہ جَمَعَ ذلِک کُلّہ عِندَ اَمير الموٴمنينَ وَهُو یِساٴلنی اٴهوَ اَعلم اَم بَعضَ النّبيينَ ”
)١)
اسی کتاب ميں مرفوعاً علی ابن نعمان سے انہوں نے امام محمد باقر - سے نقل کيا
ہے کہ: حضرت نے فرمایا: لوگ رطوبت کو چوستے ہيں اور نہر عظيم کو چهوڑتے ہيں۔ کسی نے
دریافت کيا: نہر عظيم کيا ہے؟ فرمایا: رسول الله (ص) اور وہ علم جو الله نے انہيں عطا فرمایا
ہے یقينا الله تعالیٰ نے آنحضرت ميں تمام انبياء کی سنتوں کو جمع کيا تها، آدم - سے لے کر
خود آنحضرت (ص) تک جتنے انبياء گزرے ہيں، کسی نے دریافت کيا: یہ سنتيں کيا ہيں: فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٣ ، حدیث ۶۔ (
انبياء کا علم اور رسول الله (ص) نے وہ سب کا سب
علم حضرت علی - کو تعليم کيا ایک شخص نے عرض کيا: یابن رسول الله (ص)! کيا امير
المومنين - زیادہ عالم تهے یا بعض انبياء؟ امام نے فرمایا: سنو! خدا کيا کہتا ہے الله جس کے
ليے چاہتا ہے کان کهول دیتا ہے، ميں نے بيان کيا ہے کہ الله نے تمام نبيوں کا علم ذات محمد
مصطفی (ص) ميں جمع کردیا تها اور انہوں نے وہ سب امير المومنين - کو تعليم دیا، ایسی
صورت ميں یہ شخص دریافت کرتا ہے حضرت علی - زیادہ تهے یا بعض انبياء ۔ اور وہ یہ سمجه
سکا کہ ميری بات کا معنی یہ ہے کہ جو کچه تمام انبياء جانتے تهے وہ سب علی تنہا جانتے
تهے۔
مولف کہتے ہيں: رطوبت چوسنے سے کنایہ ہے ان علوم کی طرف جو ابو حنيفہ اور اس
جيسے افراد کے بدست قياس و اجتہاد اور اپنی ذاتی اپج و افکار سے حاصل کيا ہے جيسے وہ
رطوبت اور تری ہے جو گڑهے ميں باقی رہتی ہے اس کا منبع و سرچشمہ نہيں ہوتا ان کے
پيروکار ان بچوں کی طرح ہيں جنہيں ماں کی چهاتی سے سروکار ہوتا ہے یہ لوگ بهی اسے یاد
کرنے کی سعی و کوشش کرتے ہيں ليکن ہمارے علوم جو عظيم لامتناہی علم الٰہی کے
سمندر سے متصل ہے ایک عظيم نہر کے مانند ہے جو جاری و ساری ہے جسے آزاد چهوڑا جاتا
ہے (الله تعالیٰ ہمارے رشتہٴ اتصال کو تادم مرگ اس عظيم نہر سے ختم نہ کرے، ان شاء الله)۔
۶٠٩ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن محمّد بن مسلم قال سمعت ابا جعفر عليہ السلام یَقُولُ نَزَلَ
جَبرئيلُ عَلیٰ مُحمدٍ (ص) برُ مّانَتَين مِنَ الجَنَّةِ فَلَقيہُ عَلیٌ عليہ السلام فَقال اٰ م هاتانِ الرَّمانَتينِ
اللتانِ فی یَدِکَ ؟ فَقال اَمَّا هٰذِہِ فَالنّبُوَةُ لَيسَ لَکَ مِنها نَصيبٌ وَاَمّا هٰذہِ فَالعِلمْ ، ثُمَّ فَلقَها رَسولُ
اللّٰہ (ص) بِنصفَينِ فَاٴعطاہُ نِصفَها وَاٴخذَ رَسولُ اللہّٰ (ص) نِصفَها ، ثمّ قال اَنت شَریکی فيہ وَاَنا
سَریکُکَ فيہ ، قالَ فَلم یَعلَم وَ اللّٰہ رَسولُ اللّٰہ (ص) حَرفاً مِمّا عَلّمَہ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ الِاَّ وَقَد عَلّمہُ عَليّاً
عليہ
) السلام ، ثمّ انتَهیٰ العِلمُ الَينٰا ثُمّ وَضَع یَدہ علیٰ صَدرِہِ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند محمد ابن مسلم سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ : ميں
نے امام محمد باقر - کو یہ فرماتے سنا: حضرت جبرئيل - حضرت رسول خدا (ص) کے پاس
جنت سے دو انار لائے تو حضرت علی - سے ملاقات ہوئی انہوں نے دریافت کيا: آپ کے دست
مبارک ميں یہ دو انار کيسے ہيں؟ فرمایا: یہ ایک نبوت ہے جس ميں تمہارا حصہ نہيں، دوسرا
علم ہے اس کے بعد آپ نے اس کے دو ڻکڑے کيے، نصف علی - کو دیا نصف خود کهایا، پهر
فرمایا : تم اس ميں ميرے شریک ہو اور ميں بهی تمہارا شریک ہوں۔
پهر امام محمد باقر - نے فرمایا: خدا کی قسم ! جو چيزیں خدا نے رسول (ص) کو
تعليم دی وہ انہوں نے علی - کو دی پهر یہ علم ہماری طرف آیا اس وقت اپنا دست مبارک اپنے
سينہ پر رکها۔
۶١٠ ۔ “ وَفيہ عَن سيف التّمار قٰال کُنّا مَع ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام جَماعةٌ مِن الشيعَةِ
فی الحِجرِ فَقالَ عَلي اٰن عَينٌ ؟ فَالتفت اٰن یُمنَةً وَیُسرةً فَلم نَر اَحداً فَعلنا لَيسَ عَلينا عَينٌ فَقالَ وَ ربّ
الکَعبَةِ وَرَبّ البَنيَةِ ثلاَثُ مَرّاتٍ لَو کُنتُ بَينَ مُوسی وَالخِضر لاٴخبَرتَهُما انی اَعلَم مِنهُما وَلا نَباٴتُهُما
ممّا لَيسَ فی اَیدیَهُما لاٴنّ مُوسیٰ وَالخِضر اُعطيٰا عِلم مٰا کانَ وَلَم یُعطيٰا عِلم مٰا یَکونَ وَما هُو کائنٌ
) حَتی تَقُومُ السّاعَةُ وَقَد وَرثناہُ مِن رَسولِ اللّٰہ (ص) وَراثَةً ” ” ( ٢
اسی کتاب ميں سيف تمار (خرما فروش) ناقل ہيں: ہم شيعوں کی ایک جماعت کے
ہمراہ حجر اسماعيل ميں امام جعفر صادق - کے پاس موجود تهے تو حضرت - نے دریافت
فرمایا: کوئی جاسوس تو یہاں نہيں ہے؟ ہم نے داہنے اوربائيں سمت دیکه کر کہا: کوئی نہيں
ہے تو حضرت نے فرمایا: رب کعبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢٢٣ ، حدیث ٣۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢۶٠ ، حدیث ١۔ (
کی قسم ہے! اور یہ جملہ تين مرتبہ ارشاد فرمایا: اگر ميں موسی اور خضر عليہما السلام کے
زمانے ميں ہوتا تو ميں ان کو بتاتا کہ ميں ان دونوں سے زیادہ عالم ہوں اور اس چيز سے آگاہ
کرتا جو وہ نہيں جانتے کيونکہ موسی و خضر عليہما السلام وہ جانتے تهے جو ہو چکا ہے، آئندہ
کے متعلق ان کو علم نہيں دیا گيا تها اور نہ جو قيامت تک ہونے والا ہے اور ہم نے یہ علم رسول
الله (ص) سے ورثہ ميں پایا ہے۔
”پيغمبر اکرم (ص) کاسفر حجة الوداع اور واقعہٴ غدیر خم“
حضرت پيغمبر اکرم (ص) ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی الحجة الحرام کی اڻهارہ تاریخ
عازمِ سفر حج ہوئے جو حجة الوداع کے نام سے مشہور ہے، مکہ سے واپسی کے موقع پر کثير
جماعت کے ساته غدیر خم پہنچے اور وہ مقام جحفہ کے نزدیک ہے۔ اس مقام پر جبرئيل آیہٴ
مبارکہ <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اٴُنزِلَ إِلَيکَْ مِن رَبِّکَ وَإِن لَم تَفعَْل فَمَا بَلَّغتَْ رِسَالَتَہُ > ( ١) اے پيغمبر
! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پرور دگار کی طرف سے نازل کيا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ
کيا تو اس کے پيغام کو نہيں پہنچایا، لے کر پيغمبر (ص) پر نازل ہوئے۔
پهر آنحضرت (ص) نے امر پروردگار سے واقعہٴ غدیر کو عملی جامہ پہنایا تمام حجاج کو
جمع کيا جو آگے چلے گئے تهے یا پيچهے رہ گئے تهے اکهڻا کرکے حکم دیا: ایک منبر بنایا گيا
آنحضرت (ص) نے اس منبر پر جاکر ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جو ہزاروں حدیث پر مشتمل
ہے اور وہ قرآن نيز منطقِ وحی کے مطابق تها اور سيکڑوں معتبر اور موثق روایت جو فریقين سے
یعنی اہل سنت و الجماعت اور علمائے شيعہ ان ميں ہر ایک سے متعدد حدیث نقل ہوئی ہيں
بعض نے ان مسلمانوں کے مجمع کثير کی تعداد تقریباً ایک لاکه بيس ہزار سے لے کر دو لاکه
تک تحریر کی ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالب - کی شخصيت وحيثيت کا تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۶٧ ۔ (
کرانے کے ليے اور انہيں منصب امامت و وصایت اور ولایت و خلافت الٰہيہ پر منصوب کرنے کے
ليے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ خطبہ کے مضامين عالی شان اعلی درجے کے سبق آموز اور دنيائے
اسلام اور مکتب تشيع بالخصوص مواليان مولائے متقيان حضرت علی ابن ابی طالب - کے ليے
بہشتی تحفہ ہے۔
آپ قارئين کرام! وہ کتابيں جو اس قول (خطبہٴ غدیر اور اس کی شرح) کے متعلق تحریر
کی گئی ہيں رجوع کرکے اس سے فيض یاب ہوں۔
پيغمبر اسلام (ص) نے احتجاجات کے بعد اور تمام تر اتمام حجّت کرکے حضرت امير
المومنين علی ابن ابی طالب - کی ہر ایک خصوصيت کو بيان فرمایا ۔ مولفِ کتاب ائمہ اطہار کے
وارثِ علوم انبياء و اوصياء ہونے کی تائيد و تاکيد کے ليے اس خطبے سے دو مقام کی طرف اس
مختصر کتاب ميں اشارہ کرتے ہيں جو یہاں اس موضوع سے بهی مربوط ہے۔
۶١١ ۔ “قال - صلوات اللّٰہ وسلامہ عليہ وآلہ -: مَعٰاشِر النّاُس ما مِن عِلم الاَّ وَقَد اَحصٰاہُ اللّٰہ
فیَّ وکُلّ عِلمٍ عَلّمتُہُ فَقَد اَحصَيتُہُ عی عَلیٍ امٰامُ المُتَقين مٰا مِن عِلم الاَّ وَقَد عَلَّمتُہُ عَليّاً وَ هُو
الاِمامُ المبينُ
مَعاشِرَ النّاسُ لا تَضلّوا عَنہ وَلا تَنفرُوا مِنہ وَلاَ تَستَنکِفُوا مِن وِلایَتِہِ فَهُوَ الذَّی یَهدی الی
) الحَقِّ وَیَعَمل بہ وَیَزهَقُ الباطِلَ وَیَنه یٰ عَنہُْ وَلا تَاٴخذُہُ فی اللہّٰ لَومَة لائِم” ( ١
اے لوگو! کوئی علم ایسا نہيں ہے جس کا خداوند عالم نے مجه ميں احصاء نہ کردیا ہو
اور جو علم خدا نے مجهے عطا کيا وہ سب ميں نے علی - کے سپرد کردیا (پروردگار عالم نے
تمام زندگی کے امور اور عالم و آدم - کی حيات کی مجهے تعليم دی اور ميرے ليے احصاء و
شمار فرمایا اور وہ تمام علوم ميں نے علی - کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٧ ، ص ٢٠٨ ۔ (
ليے احصاء وشمار کيے ميں نے انہيں تعليم دی وہ امام المتقين ہيں اور علم الٰہی کا خزانہ ہيں
کوئی ایسا علم نہيں ہے کہ علی - نہ جانتے ہوں اور ميں نے علی - کو تعليم نہ دیا ہو وہ
عظيم نمایاں مخلوق کا امام ہے(
اے لوگو! کبهی ان سے برگشتہ نہ ہونا نہ ان سے متنفر ہونا، نہ ان کی ولایت سے انکار
کرنا کيوں کہ صرف یہ حق کی طرف ہدایت کرنے والے ہيں حق پر عمل کرنے والے ہيں اور حق
گو ہيں وہی باطل کو مڻانے والے اور اس سے نيز برے اور ناپسند اخلاق سے روکنے والے ہيں وہ
الله کے بارے ميں کسی کی ملامت کی پرواہ نہيں کرتے۔
مَعاشِرَ النّاس تَدبّروا القرآنَ وَافهَمُوا آیاتِہ وَانظُرُوا الی مُحکماتِہِ وَلا تَتَّبِعُوا مُتشابهَہ فَواللّٰہ لَن
یُبيّن لکم زَواجَرہُ وَلا یُوضحَ لَکم تَفسيرہُ الاَّ الذی اٴنا آخِذٌ بِيَدہِ وَمُصعدہُ الیّ رَشائِل بعَضدِہِ
وَمُعْلِمُکُم اَنَّ مَن کُنت مَولاہ فَهذا عَلیٌّ مولاہ وَهُوَ علی بن اَبی طالب اخی وَ وصيی وَ مُوالاتُہُ مِن
اللہّٰ عَزَّوَجَلّ انزَلَها عَلَیّ
مَعاشِرَ النّاسِ انّ عَلِياً وَالطيّينَ مِن وُلدی هُم الثّقلُ الاَصغَر وَالقرآنُ هُو الثِقلُ الاٴکبرِ فکُلّ
) واحدٍ مُنبیء عَن صاحِبِہ وَمُوافق لَہ لَن یَفترِقا حَتّی یَرِدا عَلیّ الحَوض( ١
اے سامعين حضرات! قرآن مجيد ميں غور وفکر کرو ، اس کی آیتوں کے معانی ميں تدبر
کرو سمجهو اس کے محکمات ميں غور وفکر کرو اور متشابہات کی پيروی نہ کرو، کيونکہ خدا
کی قسم! اس کی تنبيہات اور تفسير کو کوئی واضح و آشکار نہيں کرسکے گا سوائے اس کے
جس کا ميں (اس وقت) ہاته پکڑ کر اڻها رہا ہوں اور ان کے بازوؤں کو تهام کر بلند کر رہا ہوں جو
تمہيں علم سے مالا مال کرنے والے ہيں (کيوں کہ متشابہات کا علم اور اس کے حقيقی مفاہيم
ائمہٴ معصومين کے پاس ہيں جو راسخون فی العلم ہيں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٧ ، ص ٢٠٨ ۔ (
من کنت مولاہ فهذا علی مولاہ یہ علی ابن ابی طالب ميرے بهائی اور وصی ہيں جن کی
ولایت کا (اعلان) خداوند عالم نے مجه پر فرض کيا ہے۔
اے لوگو! علی اور ان کی معصوم اولاد جو ميری بيڻی فاطمہ زہرا سے ہيں ثقل اصغر ہيں
اور تمہاری معنوی حيات کا مرکز ہيں اور قرآن ثقل اکبر ہے ان ميں سے ہر ایک دوسرے کی بابت
بتانے والے ہيں دونوں ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور دوست ہيں یہ دونوں قيامت ميں حوض کوثر
پر ميرے پاس پہنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے، یہی مخلوقات کے درميان الله
کے امانت دار ہيں وہ لوگ روئے زمين پر مخلوقات کے درميان معنوی حکام اور فرماں روا ہيں، وہی
لوگوں کی پناہ گاہ اور ملجا و ماویٰ ہيں پهر فرمایا: آگاہ رہو کہ ميں نے اپنا فرضِ رسالت ادا کردیا
الله کا دیا ہوا پيغام تم لوگوں تک پہنچا دیا۔
مولف کہتے ہيں: خلاصہٴ کلام اس سلسلے ميں یہ ہے کہ قرآن کریم مختلف خزانے کا
حامل ہے اپنی حد ميں بے نہایت اور لا زوال ہے جس طرح ائمہٴ ہدی کے علوم جو ربوبيت کے
مصدر اور منبع وحی سے نشاٴة پاتے ہيں اپنی حد ميں بے نہایت اور لا زوال ہيں۔
دوسری تعبير ميں مذکورہ آیات و روایات کے مضمون کے مطابق بالخصوص خطبہ غدیر
کے جو بعض حصے کی طرف اشارہ کيا گيا کہ الله تبارک و تعالیٰ نے جن چيزوں پر شے کا
اطلاق ہو اس کا علم اور اس کی معرفت اپنے پيغمبر اکرم (ص) کی ذاتِ با برکت ميں احصاء و
شمار کيا یعنی آنحضرت (ص) کو عطا فرمایا اور رسول خدا (ص) نے بهی اپنے تمام علوم کو
حضرت علی ابن ابی طالب - کی ذاتِ گرامی ميں احصاء کيا اور اسے عطا فرمایا ہے اس بنا پر
حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - علوم پيغمبر اکرم (ص) کے وارث ہيں اور اسی طرح
ائمہٴ اطہار یکے بعد دیگرے یہاں تک ان کے آخری وصی حضرت بقية الله الاعظم صاحب الامر و
الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ اپنے مخصوص امتياز کے ساته بہ نسبت آباء و اجداد گرامی کے کہ
وہ تمام انبياء و اوصياء کے علوم کے وارث ہيں اور قرآن کے شریک اور ہم پلہ ہيں جيسا کہ علوم
قرآن کریم اور اس کے خزانے لا زوال ہيں قائم آل محمد مہدی فاطمہ عليہم السلام اجمعين کے
علوم اپنی حد ميں بے نہایت اور لا زوال ہيں۔
رَزقنا اللّٰہ وَجَميع الموٴمنين وَالمُشتاقين وَالمُنتظرین لظهور دولتہ قطرة مِن مَعارفهم الحقہ
بمحمد وآلہ الطاہرین
اے الله! ہميں اور تمام مومنين، مشتاقين اور ان کی حکومت کے منتظرین کو ان کے علوم
و معارف کا ایک قطرہ عنایت فرما اور ہميں بحق محمد و آل محمد ان کے ساته ملحق فرما۔ آمين
یارب العالمين۔
|