٢٨ ۔ ہمہ گير ضرورت
٢٨ ۔ القُرآنُ لَيسَْ لاحدٍ بَعدَہُ مِن فقرٍ وفاقَةٍ وَلا لاحد قَبلَ القُرآنِ مِن غنی
والحجَّةُ القائِم عليہ السلام کذلِکَ
قرآن وہ گراں قدر سرمایہ ہے کہ کسی شخص کے ليے اس کے بعد فقر و فاقہ کا گزر
نہيں ہوسکتا اور کسی شخص کے ليے قرآن سے پہلے غنی کا تصور نہيں کيا جاسکتا۔
اسی طرح حجّت قائم بهی ہيں۔
قرآن مجيد ایسی کتاب ہے جو آسمان سے پيغمبر اکرم حضرت خاتم الانبياء محمد ابن
عبد الله (ص) پر ان کی رسالت و نبوت کی حقانيت کے ليے جاویدانی معجزہ اور زندہ سند کے
طور پر نازل ہوئی ہے اور ایسا گراں قدر گوہر ہے کہ جس کے پاس وہ موجود ہو تو وہ کبهی بهی
فقر و ہلاکت اور بے چارگی کا شکار نہ ہوگا۔ یعنی جو شخص قرآن کے عظيم القدر مطالب اور
اس کے مختلف علوم سے مکمل باخبر ہوگا اور اس سے مکمل فائدہ اڻهاتا ہوگا وہ تمام معنی
ميں تمام چيزوں سے غنی اور بے نياز ہے اور کسی بهی شخص کے ليے قرآن کے نازل ہونے
سے پہلے کسی قسم کی دولت و ثروت اور بے نيازی مقصود نہيں تهی اور نہ ہے، امام زمانہ -
کا مقدس وجود بهی اسی طرح ہے۔
۵۶۵ ۔ “ وفی ثواب الاعمال باسنادہ عن معاویة بن عمّار قالَ قالَ ابُو عبدِ اللّٰہِ عليہ السلام
) من قَراٴ القُرآن فَهُوَ غَنّیٌ فَ اٰل فَقَر بَعدَہُ وَالا ما بِہِ غَنِی ” ( ١
کتاب ثواب الاعمال ميں بطور مسند معاویہ ابن عمار سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر
صادق - نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑهنے کے علم و معرفت سے سرفراز ہوگا تو وہ غنی اور
بے نياز ہے اور اس کے بعد کوئی بهی فقر و فاقے کا وجود نہ ہوگا لہٰذا جو شخص قرآن پڑهے وہ
الله کے علاوہ ان تمام چيزوں ميں کہ جس کا وہ ضرورت مند ہے سب سے بے نياز ہوجائے گا۔
اور اگر اپنی ضروریات قرآن سے برطرف نہ کرسکے تو اسے کوئی شے غنی اور بے نياز نہيں
کرسکتی۔
پيغمبر اکرم (ص) کے اس فرمان کے من جملہ معانی ميں سے یہ ایک معنی ہے جو
فرمایا ہے:
۵۶۶ ۔ “ مَن لَم یتَغَنَّ بالقُرآنِ فَليس مِنّا ” ( ١) جو شخص قرآن کے ذریعے خود کو غنی و بے
نياز نہ کرے وہ ہم ميں سے نہيں ہے۔
ممکن ہے کبهی اگر کوئی شخص لم یتغن کو غنا کے مادہ سے سمجهے اور یوں معنی
کرے یعنی جو شخص قرائت قرآن ميں غنا سے کام نہ لے وہ ہم ميں سے نہيں ہے یہ اشتباہ
ہے۔
۵۶٧ ۔ “قالَ رسُولُ اللّٰہ (ص) مَن اعطاہُ اللّٰہ القُرآنَ فَراٴَی اَنَّ احَداً اعطَی شَيّئاً افضلِ ممّا
) اعطیٰ فَقَد صغَّر عظيماً وعظَّمَ صغيراً ” ( ٢
حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: جس شخص کو الله تعالیٰ نے قرآن کی قرائت اور
علم و فہم عطا فرمایا اور وہ یہ خيال کرے کہ دوسرے شخص کو اس سے افضل شے عطا ہوئی
ہے جو اسے عنایت کی گئی ہے تو یقينا اس نے عظيم شے کو حقير اور حقيرشے کو عظيم
شمار کيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ثواب الاعمال، ص ١٢٨ ۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠۵ ، حدیث ٨۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠۵ ۔ معانی الاخبار، ص ٢٧٩ ۔ بحار الانوار، ج ٧٣ ، ص ٣۴٢ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠۵ ، حدیث ٧۔ (
۵۶٨ ۔ “ وفی نہج البلاغة: قال عليہ السلام وَاعَلمُوا انَّہُ لَيسَ مِن شَیءٍ الاَّ
وَیکَادُ صاحِبُہُ اَن یَشبَعَ مِنہُ وَیملَّہُ اِلاَّالحياةَ فَانَّہُ لا یَجدُلَہُ فی الموتِ راحَةً وَانَّما ذلِکَ بِمَنزِلةِ الحِکمةِ
التی هِیَ حياةٌ لِلقَلبِ المَيّتِ وَبَصَرٌلِلعَينِ العميآء وَسَمعٌ لِلاذُنِ الصّمآء وَرِیٌّ لِلَّظمانِ وَفيها الغن یٰ کُلُّہُ
وَالسلامةُ کِتابُ اللہِّٰ تبْصرُونَ بِہِ وتُنطِقُونَ بِہِ وَتَسمَعُونَ بِہِ وَینطقُ بَعضُہُ بِبَعضٍ وَیَشهَدُ بَعضہُ عَل یٰ
بَعضٍ وَلا یختلفِ فی اللہِّٰ وَلا یُخالِفُ بِصاحِبہِ عَنِ اللہِّٰ قَد اصطَلَحتُم عَلَی الغِلِ فيما بينکُم وَنَبَتَ
المَرع یٰ عَل یٰ دِمَنِکُم وَتصافيتُم عَل یٰ حُبِّ الامالَ وَتَعادیتم فی کَسبِ الاَموالِ لَقَد اسِتهامَ بِکُمُ
) الخبيثُ وَتاہَ بکُمُ الغُرورُ وَاللّٰہ المُستَعانُ عَلٰی نَفسی وانفُسِکُم ” ( ١
)اس خطبہ کا بعض حصہ قرآن کی توصيف اور اس کے تمسک اختيار کرنے کے متعلق
ہے)۔ حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - فرماتے ہيں:یاد رکهو کہ دنيا ميں جو شے بهی
ہے اس کا مالک سير ہوجاتا ہے اور وہ اکتا جاتا ہے علاوہ زندگی کے کہ کوئی شخص موت ميں
راحت نہيں محسوس کرتا اور یہ بات اس حکمت کی طرح ہے جس ميں مردہ دلوں کی زندگی ،
اندهی آنکهوں کی بصارت، بہرے کانوں کی سماعت اور پياسے کی سيرابی کا سامان ہے۔ اور
اسی ميں ساری مال داری ہے اور مکمل سلامتی ہے مال دنيا سے بهی اور عذاب آخرت سے
بهی۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے: و من اوتی الحکمة فقد اٴوتی خيراً کثيراً> (جسے حکمت دی گئی
تو یقينا اسے خير کثير عطا کيا گيا) اور اس کے ذریعے خداوند متعال تک رسائی حاصل کی
جاسکتی ہے اور دریائے معرفتِ ذوالجلال ميں غور کيا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب خدا ہے جس ميں
تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے اس ميں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت
کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے یہ احکام خدا کے بارے ميں اختلاف نہيں رکهتا ہے
اور اپنے ساتهی کو خدا کی شاہراہ سعادت سے جدا نہيں کرتا ہے۔ مگر تم نے آپس ميں کينہ و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٣٣ ۔ (
حسد پر
اتفاق کرليا ہے اور اسی گهورے پر سبزہ اُگ آیا ہے۔ اميدوں کی محبت ميں ایک دوسرے سے
ہم آہنگ ہو اور مال جمع کرنے ميں ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ شيطان نے تمہيں حيران و
سرگردان کردیا ہے اور فریب نے تم کو بہکا دیا ہے اب الله ہی ميرے اور تمہارے نفسں کے مقابلہ
ميں فتنہ و فساد سے نجات پانے کا ایک سہارا ہے۔
۵۶٩ ۔ “ وفيہ مِن خطبةٍ لَہُ عليہ السلام یَعطِ النّاسَ بِمواعِظَ بَليغَةً وَیُذکَر فضایِلَ قُرآنِ الکرِیمِ
بِقَولِْہِ انفِعُوا بِبَيانِ اللہّٰ واتعِظُوا بِمواعِظِ اللہِّٰ وَاقبَلُوا نَصيحَةَ اللہِّٰ ( الیٰ قولہ): واعلَمُوا انَّ هذَا القُرآنَ
هُوَ الناصِحُ الَّذی لا یغُش وَالهادِی الَّذی لا یضِل والمَحدِّثُ الَّذی لایکذِبُ وَما جالِسَ هذا القُرآنَ احدٌ
اِلاَّ قامَ عَنہُ بِزِیادةٍ اَوْ نقصان زِیادَةً فی هُدیً وَ نقصان مِن عمی وَاعَلمُوا انَّہُ لَيسَ عَلیٰ احد بعد
القُرآنِ احدٌ الاَّقامَ عَنہُ بِزِیادةٍ اَو نقصان زِیادَةً فی هُدیً ونقصانِ مِن عَمی وَاعَلمُوا انَّہُ لَيسَ عَلیٰ
احدٍ بعد القرْآنِ مِن فاقةٍ وَلا لاٴحَدٍ قَبلَ القُرآنِ مِن غنِیً فَاستشفُوہُ مِن ادوآئِکُم واستعينُوا بِہِ عَل یٰ
الاٴوآئِکُم فَانَّ فيہِ شِفآءٌ مِن اکبرِ الدّاءِ وَهُوَ الکُفْرُ وَالنِّفاقُ والغَیُّ والضلالُ فَاسئلُوا اللّٰہَ بِہِ وَتوجَّهُوا
اِلَيہِ یحبِّہِ وَلا تَساٴلُوا بِہِ خَلقَہُ اِنَّہُ ما تَوَجہَ العِبادُ اِلَی اللہِّٰ بِمِثلِْہِ وَاعلَْمُوا انَّہُ شافعٌ وَمُشفِْعٌ تاٴویلٌ
وَمُصَدَّقٌ وَاَنہ من شَفَعَ لَہُ القُرآنُ یَوم القِ يٰمَةِ شُفعَ فيہِ وَمَن مَحَلَ بِہِ القُرآنَ یَومَ القِ يٰمَةِ صَدَّق عليہِ
فَانَّہُ ینادی مُنادٍ یَومَ القيٰمَة : الا انَّ کُلَّ حارِثٍ مُبتَلیٍ فی حَرثہٍ وَاتباعِہِ وَاستَدلُوہُ عَل یٰ رَبّکُم
) وَاستَنصَحُوہُ عَلیٰ انفُسکُم واتهمُوا عَلَيہِ آرائکم واستغشُوا فيہِ اهوائکُم ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧۶ ۔ (
نہج البلاغہ ميں حضر ت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کے مبارک خطبہ کا ایک
حصہ ہے کہ جس ميں لوگوں کو مواعظ بليغہ کے ساته قرآن کریم کے فضائل کا تذکرہ فرمایا ہے :
اے لوگو! پروردگار کے بيان سے فائدہ اڻهاؤ اور اس کے مواعظ سے نصيحت حاصل کرو۔
پهر فرماتے ہيں: قرآن وہ ناصح ہے جو دهوکہ نہيں دیتا ہے جيسا کہ ہر صحيح ناصح کی شان
یہی ہوا کرتی ہے اور وہ ہادی ہے جو گمراہ نہيں کرتا ہے وہ بيان کرنے والا ہے جو غلط بيانی
سے کام لينے والا نہيں ہے قصوں، حدیثوں اور اپنی خبروں ميں کوئی شخص اس کے پاس نہيں
بيڻهتا ہے مگر یہ کہ جب اڻهتا ہے تو ہدایت ميں اضافہ کرليتا ہے یا کم سے کم گمراہی ميں
کمی کرليتا ہے کيوں کہ اس ميں آیات بينات اور براہين و اضحات اس حد تک موجود ہيں کہ
مستبصرین کی بصيرت ميں اضافہ اور جاہلين کی جہالت ختم کردیتا ہے۔ یاد رکهو! قرآن کے بعد
کوئی کسی کا محتاج نہيں ہوسکتا ہے اور قرآن سے پہلے کوئی بے نياز نہيں ہوسکتا ہے۔
یعنی جو شخص قرآن کو پڑهے اور اس کے معانی و مطالب ميں تدبر کرے اور اس کے
احکام پر عمل کرے اس کی تمام تهيوری اور پریکڻيکل حکمت کو سمجهے تو دوسری چيز کا
محتاج نہيں ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو تمام شے کا محتاج ہوجائے گا بلکہ احوج المحتاجين اور
محتاجوں ميں سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔
اپنی بيماریوں ميں اس سے شفا حاصل کرو اور اپنی مصيبتوں ميں اس سے مدد مانگو
کہ اس ميں بدترین بيماری کفر ونفاق اور گمراہی و بے راہ روی کا علاج بهی موجود ہے اس کے
ذریعہ الله سے سوال کرو اور اس سے محبت کے وسيلہ سے اس کی طرف رخ کرو اور اس کے
ذریعے مخلوقات سے سوال نہ کرو۔ اس ليے کہ مالک کی طرف متوجہ ہونے کا اس کے جيسا
کوئی وسيلہ نہيں ہے اور یاد رکهو کہ وہ ایسا شفيع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا
بولنے والا ہے جس کی بات مصدقہ ہے۔ جس کے ليے قرآن روز قيامت سفارش کردے اس کے
حق ميں شفاعت قبول ہے اور جس کے عيب کو وہ بيان کردے اس کا عيب تصدیق شدہ ہے۔ روز
قيامت ایک منادی آواز دے گا کہ ہر کهيتی کرنے والا اپنی کهيتی اور اپنے عمل کے انجام ميں
مبتلا ہے ليکن جو اپنے دل ميں قرآن کا بيج بونے والے تهے وہ کامياب ہيں لہٰذا تم لوگ انہيں
لوگوں اور قرآن کی پيروی کرنے والوں ميں شامل ہوجاؤ۔ اسے مالک کی بارگاہ ميں رہنما بناؤ اور
اس سے اپنے نفس کے بارے ميں نصيحت حاصل کرو اور اپنے خيالات کو متہم قرار دو اور اپنی
خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو۔
۵٧٠ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن طلحة بن زید عن ابی عبدا لله عليہ السلام قالَ انَّی هذا
القُرآن فيہِ مَنارُ الهُد یٰ ومَصابيحُ الدُّج یٰ فَيلجلُ جالٍ بَصَرَہُ ویفتَح لِلضِّياءِ نَظَرَہُ فاَنَّ التَفَکَّرُ حَياةُ قَلبِ
) البَصيرِ کَما یمشی المُستَنيرُ فی الظلْمات بالنّورِ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند طلحہ ابن زید سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا:
اس قرآن ميں ہدایت کے منارے ہيں تاریکی کے ليے چراغ ہيں لہٰذا اس سے آنکهوں ميں روشنی
حاصل کرے اور اس کی ضياء حاصل کرنے کے ليے اپنی نظر کو کهولے کيوں کہ تفکر قلب بصير
کے ليے مایہٴ زندگی ہے جس سے کوئی شخص ظلمتوں ميں روشنی کے ذریعہ چلتا ہے۔
۵٧١ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن سماعة بن مهران عن الصادق عليہ السلام قالَ انَّ العَزیزُ الجبارُ
انزَلَ عليکُم کِتابہُ وَهوَ الصّادِ قُ البارُّ فيہِ خَبَرکُم وَخَبَر مِن قَبلُْکُم وخَبرُ مَن بَعدکُم وَخَبَرَ السَّمآءِ
) وَالاَرضِ وَلَو اتاکُم مَن یخبُرکُم لِ لٰ ذِکَ تَعجَبتُم ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند سماعہ ابن مہران سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق -
نے فرمایا: خدائے عزیز وجبار نے تم پر اپنی کتاب نازل کی اور وہ سچا اور خير پسند ہے اور اس
ميں تمہارے متعلق بهی خبر دی گئی ہے اور تم سے پہلے گزشتہ افراد کے متعلق بهی اور تم
سے بعد والوں کے متعلق بهی اس آسمان و زمين کی بهی خبر موجود ہے۔ اگر کوئی شخص
تمہارے پاس یہ خبریں بيان کرتا تو کيا تم تعجب نہ کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی باب فضل القرآن، ج ٢، ص ۶٠٠ ، حدیث ۵۔ (
٢(۔ کافی باب فضل القرآن، ج ٢، ص ۵٩٩ ، حدیث ٣۔ (
۵٧٢ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن معاویة بن عمّار قالَ قالَ ابُو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام مَن قَرَءَ
) القُرآنَ فَهُوَ غَنّیٌ وَلا فَقَر بَعدَہُ وَالاَّ ما بِہِ غَنِیٌّ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند معاویہ ابن عمار سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق -
نے فرمایا: جو شخص قرائتِ قرآن کے علم سے سرفراز ہوگا تو وہ غنی اور بے نياز ہے اور س
کے بعد کوئی بهی فقر و فاقے کا وجود نہ ہوگا اور اگر نہ پڑه سکے یعنی قرائتِ قرآن کا علم نہ
رکهتا ہو اگرچہ تمام مادیات اور اسبابِ زندگی فراہم ہوں تو بهی فقير ہے۔
شارح بحرانی کہتے ہيں: یعنی قرآن کے نزول کے بعد لوگوں کے ليے اس کے واضح
بيانات کی بنا پر کسی ایسے حکم کے بيان کرنے کی چنداں ضرورت نہيں ہے جو ان کی اصلاح
معاش و معاد کرے اور نہ ہی اس کے نازل ہونے سے پہلے اپنے جاہل نفوس پر غنی و بے نياز
تها اور نہ ہے۔ لہٰذا تمام اپنی ظاہری، باطنی، روحانی اور جسمانی دردوں کا اس سے معالجہ
کيا جائے کيوں کہ اس ميں تمام دردوں کی شفا موجود ہے۔ خدائے تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
<وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ > ( ٢) اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے
ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے۔
۵٧٣ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن السکونی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام عن آبائہ
عليہم السلام قالَ شَکی رَجُلٌ الَی النَّبی (ص) وَجَعاً فی صدرِہِ فَقالَ (ص) اِستَشفِ بالقرْآنِ
) فَانَّ اللہَّٰ عَزَّوَجَلَّ یَقُولُ وَشِفآءُ لِما فی الصّدُورِ ” ( ٣
کافی ميں بطور مسند سکونی سے منقول ہے کہ : حضرت امام جعفر صادق - نے اپنے
آبائے کرام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی باب فضل القرآن، ج ٢، ص ۶٠۵ ، حدیث ٨۔ (
٣(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٢ ۔ (
۴(۔ کافی، ج ٣، ص ۶٠٠ ، حدیث ٧۔ (
سے روایت کی ہے کہ: ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے سينہ کے درد کی شکایت کی تو
فرمایا: قرآن کے ذریعہ شفا حاصل کرو خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے: قرآن سينوں کے ہر قسم
کے درد ميں شفا ہے۔ زمانے کی گرفتاریوں اور بلاؤں اور شدید مصيبتوں ميں اس سے مدد طلب
کرو کيوں کہ بڑے دردوں یعنی کفر و نفاق اور تباہی و گمراہی کا علاج قرآن کریم ميں موجود ہے۔
۵٧۴ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن احمد المنقری قالَ سَمِعت اَبا اِبراہيم عليہ السلام یَقُولُ
) مَن استکفی بآیةٍ مِنَ القُرآنِ مِنَ المَشرِقِ اِل یٰ المَغرِبِ کَف یٰ اذا کانَ بيَقين ” ( ١
کافی ميں بطور مسند احمد منقری سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ: ميں نے حضرت
موسیٰ ابن جعفر - کو کہتے ہوئے سنا: جو شخص قرآن کی ایک آیت کے ذریعے یقين اور صدق
نيت کے ساته کفایت طلب کرے تو قرآن اس کے مشرق و مغرب تک تمام مہمات ميں کفایت
کرے گا۔
۵٧۵ ۔ “وفيہ عن الاصبغ بن نباتہ عَن اَميرِ المُوٴمنينَ عليہ السلام قالَ وَالَّذی بَعَثَ محمَّداً
(ص) بِالحَقِّ وَاکرَمَ اهلَ بَيتِہ ما مِن شَیءٍ تَطلُبُونَہُ مِن حِرزٍ مِن عَرقٍ او غَرقٍ او سَرَقٍ او آفاتِ دابَةٍ
) مِنْ صاحِبها اوضالَّةٍ او آبِقٍ الاَّ وَهُوَ فی القُرآنِ فَمَن ارادَ ذٰلِکَ فَليَساٴ لنی عَنہُ ” ( ٢
اسی کتاب ميں اصبغ ابن نباتہ ناقل ہيں کہ حضرت امير المومنين - نے فرمایا: قسم ہے
اس ذات کی! جس نے محمد مصطفی (ص) کو حق کے ساته بهيجا اور ان کے اہل بيت کو
صاحب عزت و اکرام بنایا، اگر کوئی شخص جلنے سے ڈوبنے سے چوری یا چوپایہ کا اپنے مالک
کے یہاں سے بهاگ جانے سے یا انسان یا چوپایہ کے گم ہوجانے سے یا غلام کے فرار وغيرہ
کرنے سے پناہ طلب کرے ان سب کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٣، ص ۶٢٣ ، حدیث ١٨ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٣، ص ۶٢۵ ، حدیث ٢١ ۔ (
)علاج)ذکر قرآن ميں موجود ہے ان امور ميں سے جو معلوم کرنا چاہے مجه سے معلوم کرلے۔
حدیث کے آخر تک۔
مولف کہتے ہيں: اگر انسان ان روایات ميں غور و فکر کرے جو قرآنی آیات اور سوروں کے
خواص کے متعلق معادن وحی و تنزیل سے صادر ہوئی ہيں تو یہ مشاہدہ کرے گا کہ وہ لافانی
خزانے ہيں ایک فنا ناپذیر دریا ہے اس ميں تمام ہمّ و غم سے نجات کے اسباب موجود ہيں اور ہر
قسم کی ناراحتی سے پناہ اور جائے امن ہے ہر درد سے سلامتی ہے تمام شدائد سے
خلاصی اور راہِ نجات ہے ہر عظيم مصيبت کا چارہٴ کار موجود ہے معيشت کی تنگی سے
کشائش ہے اور زندگی ميں وسعت پيدا کرنے کی راہيں ہيں اس کے علاوہ اور بهی لا تعداد و
بے شمار مشکلات کا راہ حل موجود ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ کوئی شے مختلف دردوں ، بلاؤں اور گرفتاریوں ميں مدد اور حاصل
کرنے کے ليے قرآن سے افضل نہيں ہے۔
کيوں کہ بڑے دردوں یعنی کفر و نفاق اور تباہی و گمراہی کا علاج قرآن ميں موجود ہے۔
۵٧۶ ۔ “ وفی الکافی : ابو علی الاشعری عن بعض اصحابہ عن الخشاب رفعہ قالَ قالَ ابُو
عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام لا وَاللّٰہِ لا یرجِعُ الامرُ والخِلافَةُ الیٰ آل اَبی بَکرٍ وَعُمَرَ ابَداً وَلا اِلیٰ بَنی امَيَّةَ
اَبداً وَلا فی وَلا طلحَة وَالزُّبيرِ اَبداً وَذلِکَ انَّهُم نَبَذُوا القُرآن واطلبُوا السنَنَ وَعَطّلُوا الاحکامَ ، وَقالُ
رَسُولُ اللّٰہِ (ص) القُرآنُ هُدیً مِنَ الضَلالةِ وَتبيانٌ مِنَ العَمی واستِقالَةٌ مِنَ العَثرَة ونُورٌ مَن الظُلمةِ
وَضيآءٌ مِنَ الاحداثِ وَعِصمةٌ مِن الهلکَةِ وَرُشدٌ مِنَ الغوایة وَبيانٌ مِن الفِتَنِ وَبلاغ مِنَ الدُّنيا اِلَی
) الآخِرَةِ وَفيہِ کَمالُ دینکُم وَما عَدَلَ اَحَدٌ عَنِ القُرآنِ الاَّ اِلَی النّارِ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ، حدیث ٨۔ (
کافی ميں ابو علی اشعری سے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے انہوں نے خشاب سے
مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ: حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: خدا کی قسم! امر امامت
و خلافت ہرگز اولاد ابوبکر و عمر کی طرف واپس نہيں ہوگا اور نہ یہ کبهی بنی اميہ کی طرف اور
نہ ہی کبهی طلحہ و زبير کی اولاد کی طرف جائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کتاب خدا
کو پس پشت ڈال دیا اور سنتوں کو باطل قرار دیا اور احکام کو معطل بنادیا۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: قرآن ضلالت سے بچانے والا ہے اندهے پن کو امور
شرع ميں بيان کرنے والا ہے غلط کاریوں سے نجات ہے ظلمت کفر ميں نور ہے اور احداث و
بدعت ميں حق کی روشنی اور ہلاکت سے بچانے والا ہے گمراہی ميں باعث ہدایت ہے فتنوں
ميں حق کا بيان ہے اور دنيا سے آخرت کی طرف پہنچانے والا ہے اس ميں تمہارے دین کا کمال
موجود ہے جس نے قرآنِ کریم سے روگردانی کی وہ جہنمی ہے۔
۵٧٧ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الزُہَری قالَ قُلتُ لِعَلِی بن الحُسَين عليہ السلام اَی الاَعمالِ افضَل
قالَ الحالُّ المُرتحِل قُلتُ وَمَا الحالُ المرتَحِلُ ؟ قالَ فَتَحَ القُرآنَ وَخَتَمہُ کُلما جاءَ باولِہِ ارتَحَلَ فی
آخِرِہِ وَقالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ مَن اعطءُ اللّٰہ القرآنَ فَراٴَی انَّ رَجُلاً اعطیَ افضَلَ ممّا اُعطی فَقَد صَغَّرَ
) عَظيماً وَعَظَّم صَغيراً ” ( ١
یعنی اس کے عمل کو۔ اور النهایة ميں مذکور ہے کہ زہری نے دریافت کيا کہ کون سا
عمل افضل ہے فرمایا: حال و مرتحل دریافت کيا گيا: اس سے کيا مراد ہے، فرمایا: (قرآن) ختم
کرنے والا وہی اسے کهولنے والا ہے جو قرآن کو اپنی تلاوت کے ذریعہ ختم کرتا ہے پهر
اسی کتاب ميں بطور مسند زہری سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے حضرت
علی ابن الحسين عليہما السلام سے عرض کيا: کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: اس شخص کا
عمل جو نازل ہو اور کوچ کرے، ميں نے عرض کيا وہ کيا ہے اس سے کيا مراد ہے؟ فرمایا: قرآن کو
کهول کر اسے پڑهنا شروع کرے اور آخر تک پہنچائے اور جس زمانے ميں اس کا اول آجائے تو
اس کے آخر تک کوچ کرے اور فرمایا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: جس شخص کو الله نے قرآن
عطا کيا ہو اور وہ یہ خيال کرے کہ دوسرے شخص کو اس سے افضل شے عطا ہوئی ہے جو
اسے عنایت کی گئی ہے تو یقينا اس نے عظيم شے کو حقير اور حقير شے کو عظيم شمار کيا
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۶٠۵ ، “ ای عَمَلُہُ فی النہایة فی اَنَّہ سئلَ ای الاعمالِ افضَل فَقالَ الحالُ (
المر تحِلَ قيل وَما ذلِکَ قالَ الخاتِمُ المُفتِحُ هُو الَّذی یختِمُ القرْآنَ بِتِلاوتِہِ ثُمَّ یَفتَحُ التلاوَةَ مِن اوَّلِہِ
شَبَّهَہُ بِالمُسافِرِ یَبلَغ المَنزِل فيحلُّ فيہِ ثُمَّ یَفتَْتِحُ السير ای یبتدئہُ وَکذلِکَ قرائَةُ اَهلِ مَکَّة اِذا ختمُوا
القُرآنَ بِالتِلاوةِ ابدوٴا وَقَراٴ وَالفاتِحَةَ وَخَمس آیاتٍ مِن اوَّل سُورَةِ البَقَرة ال یٰ قولہ هُمُ المُفلِْحُونَ ثُمَّ
یقطعُونَ القرائَةَ وَیسمّونَ فاعِلُ ذلِکَ الحالُّ المُرتحِلُ ای انَّہُ خَتَمَ القُرآنَ وابتدئَہُ بِاوَلِہِ وَلَم یَفصِل
بينهما بزمانٍ آت“
تلاوت کو اس کے اول سے شروع کرتا ہے ایسے فرد کو مسافر سے شباہت دی گئی ہے
جو ایک منزل پر پہنچتا ہے پهر اس جگہ سے کوچ کرتا ہے پهر اپنی سير کا آغاز کرتا ہے اسی
طرح اہل مکہ کی قرائت ہے جب قرآن اپنی تلاوت کے ساته ختم کردیتے تهے تو پهر سورئہ
فاتحہ سے اپنی قرائت کا آغاز کرتے تهے اور حمد کے ساته سورئہ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات
“هم المفلحون” تک پڑهتے تهے پهر قرائت ختم کر دیتے تهے اسی عمل کو انجام دینے والے کو
حال اور مرتحل کہتے ہيں یعنی جو قرآن ختم کرکے اس کی ابتدا سے آغاز کرے اور ان دونوں
کے درميان کوئی فاصلہٴ زمانی بهی نہ رکهے۔
۵٧٨ ۔ “ وفيہ فی ذیل حدیث عمر وبن جميع عن الصادق عليہ السلام وَمَن اٴوتیَ القُرآنُ
) فَظَنَّ اَنَّ اَحَداً مِنَ النّاسِ اُوتَی افضَلَ ممّا اُوتیِ فَقَد عَظَّمَ ما حَقَّر اللہُّٰ وَحَقَّرَما عَظَّمَ اللہُّٰ ” ( ١
اسی کتاب ميں حدیث عمرو ابن جميع کے ذیل ميں منقول ہے کہ امام صادق - نے
فرمایا: جس شخص کو قرآن عطا کيا گيا ہو اور یہ گمان کرے کہ دوسرے شخص کو اس سے
افضل شے عطا ہوئی ہے جو اسے بخشی گئی ہے تو اس نے جس شے کو خدا نے حقير جانا
ہے اسے عظيم شمار کيا ہے اور جسے خدا نے عظيم جانا ہے اسے حقير شمار کيا ہے۔
مذکورہ روایات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا علم اور اس کے مطالب کی
شناخت خواہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠۵ ، حدیث ٧۔ (
احکام و قوانين ہو اور دنيا ميں معاشرتی زندگی کے دستورات ہوں وہ کتنا با ارزش گوہر ہے کہ
خدائے سبحان جس شخص کو عطا فرمائے وہ تمام جہات سے غنی و بے نياز ہے دنيا و ما فيہا
کے تمام خزانے اس کا مقابلہ اور برابری نہيں کر سکتے۔ عين اسی حالت ميں اگر کوئی شخص
قرآن مجيد کے علم سے محروم اور اس کے معانی و مطالب سے بے بہرہ ہو ليکن اس کے
اختيار ميں تمام دنيا و مافيہا ہو تو وہ فقير و بے چارہ اور مسکين ہے۔
مولف کہتے ہيں: قرآن کریم اپنی شناخت و معرفت کے علاوہ ہر جہت سے غنی اور بے
نياز ہے اس کے اور تمام دوسرے پہلو آثار و فوائد قابل تعریف و تحسين ہےں۔
فضيلت قرآن، حامل قرآن اس کی تعليم و تعلم جو زحمت کے ساته ہو، اس کا حفظ کرنا،
اس کا گهر ميں محفوظ رکهنا اس کی قرائت کا ثواب بالخصوص ترتيل اور اچهی آواز کے ساته
انجام دینا اس کی آیات سے شفا طلب کرنا، اس کی روز قيامت شفاعت وغيرہ بهی قابل ذکر
ہيں۔
لہٰذا ہم بطور تبرک ان ميں ہر ایک سے ایک روایت اس کتاب کو زینت بخشنے کے عنوان
سے نقل کر رہے ہيں :
”فضل قرآن:“
۵٧٩ ۔ “ فی الکافی باسنادہ عَن اِسحاقِ بن غالِبٍ قالَ قالَ ابُو عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام : اِذا
جَمَعَ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ الاوَّلَيَن وَالاٴخَرینَ اِذا هم بِشخصٍ قَد قَبَلَ لَم یُرقَطَّ احسنَ صُورَةً مِنہُ فِاَذا نَظَرَ
اليہِ المُوٴمنُونَ وَ هُوَ القُرآن قالُوا هذا مِنّا هذا احسَنُ شَیءٍ راینا فَاذَا انتهی اليهِم جاز هم ، ثُمَّ
ینظُرُ اِليہِ شهداءُ حَتّیٰ اِذا انَتهی الیٰ آخِرِهِم جازَهُم فَيقُولُونَ هذا القُرآنُ فيجوزُهُم کُلَّهُم حَتیٰ اِذا
انتَهی اِلیَ المُرسَلينَ فيقُولُونَ هذا القُرآنُ فيجوزُهُم حَتیٰ ینتهَی الیٰ الملائکةِ فيَقُولُونَ هذا القُرآنُ
فيجوزُهُم ثُمَّ یَنتهی حَتّیٰ یَقفُ عَن یَمينِ العَرشِ فيقُولُ الجبّارُ وَعزَّتی وَجَلالی وارتفاعِ مَکانی : لا
) کرِمَنَّ اليومَ مَن اٴکرمَکَ وَلاُ هِينّنَ مَن اهانَکَ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند اسحاق ابن غالب سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق -
نے فرمایا: روز قيامت جب اولين و آخرین جمع ہوں گے تو ناگہاں ایک نہایت خوبصورت شخص نظر
آئے گا ایسا حسين کہ اس سے بہتر دیکها ہی نہيں گيا جب مومن لوگ اس شخص کو جو
درحقيقت قرآن ہوگا دیکهيں گے تو کہيں گے یہ ہم ميں سے ہے جب ان سے آگے بڑهے گا تو
شہداء اس کو دیکهيں گے جب وہ ان کے آخر ميں پہنچے گا تو وہ کہيں گے: یہ قرآن ہے وہ ان
سب سے گزرتا ہوا مرسلين تک پہنچے گا وہ کہيں گے یہ قرآن ہے پهر وہ ان سے گزرتا ہوا
ملائکہ کی طرف آئے گا وہ کہيں گے: یہ قرآن ہے یہاں سے چل کر وہ عرش کے داہنی طرف
کهڑا ہوگا تو خدا فرمائے گا: قسم ہے مجهے اپنے عزت و جلال کی اور ارتفاع مکان کی! ميں آج
اس کی عزت کروں گا جس نے تيری عزت کی اور اس کی توہين کروں گا جس نے تيری توہين
کی ہے۔
”فضيلت حامل قرآن: “
۵٨٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن السّکونی عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام قالَ قالَ رَسُولَ اللّٰہ
(ص) اِنَّ اهلَ القُرآنِ فی عل یٰ دَرَجَةٍ مِنَ الاٴدَمينَ ملا خلا النّبيينَ والمُرسَلينَ فَلا تستَضعِفُوا اهلَ
) القُرآنِ حُقوقَهُم فَانهم مِنَ اللہِّٰ العَزیز الجبّارُ لِمکاناً عَليّاً ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند سکونی سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے
فرمایا: یقينا اہل قرآن، سوائے انبياء و مرسلين کے انسانوں ميں سے بلند ترین درجے پر فائز ہيں
لہٰذا اہل قرآن کے حقوق کو کمزور مت شمار کرو کيوں کہ ان کے ليے خدائے عزیز وجبار کی
طرف سے بلند مقام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ، حدیث ١۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ، حدیث ١۔ (
۵٨١ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الفضيل بن یسار عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام قالَ
) الحافِظُ لِلقُرآنِ العامِل بِہِ مَعَ السَّفَرَةِ الکِرامِ البَرَرَةِ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند فضيل ابن یسار سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق
- نے فرمایا: وہ حافظ قرآن جو اس پر عمل کرنے والا بهی ہو خدا کے صاحب کرامت اور نيکو کار
پيغمبروں کے ساته ہوگا۔
۵٨٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن السَّکونی عَن ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام قالَ قالَ رَسُولُ لله
) (ص) حَمَلَةُ القُرآنِ عَرفاء اہلِ الجَنَّةِ وَالمجتهدُونَ قوّادُ اهلِ الجَنَّةِ والرُّسُلُ سادَةُ اهل الجَنةِ ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند سکونی سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے
فرمایا کہ رسول خدا نے فرمایا: قرآن کے حاملين (پڑهنے والے) اہل جنت کے عارفين ہوں گے اور
مجتہدین اہل جنت کے پيش رو اور مرسلين اہل جنت کے سيد و سردار ہيں۔
قرآن کریم کی تعليم و تعلّم
۵٨٣ ۔ “ فی الکافی باسنادہ عن سُليمِ الفَراء عَن رَجُلٍ عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام قالَ
) ینبغَی لِلموٴمِنِ ان لایَمُوتَ حَتّ یٰ تَتَعَلَّم القُرآنَ او یَکُونَ فی تعليمِہِ ” ( ٣
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ اپنی سند کے ساته سليم الفراء سے وہ ایک شخص
سے وہ امام جعفر صادق - سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت - نے فرمایا: مومن کے ليے سزا وار
ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن پڑهنا
سيکهے یا سکهائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ، حدیث ٢۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠۶ ، حدیث ١١ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٨ ، حدیث ٢۔ (
۵٨۴ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَنِ الفضيل بن یَسارٍ عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام قالَ سَمِعتُہُ
) یَقُولُ اِنَّ الَّذی یُعالِجُ القرآن یحفَظُہُ بِمشَقَّةٍ مِنہُْ وَقِلَّةِ حِفظٍ لَہُ اٴجرانِ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند فضيل ابن یسار سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے کہ: ميں
نے امام جعفر صادق - کو یہ کہتے ہوئے سنا: جو شخص قرآن پڑهنے کی مشق جاری رکهتا
ہے اور حفظ کرنے کی مشقت برداشت کرکے مختصر سا بهی حفظ کرليتا ہے تو پيش خدا اس
کے ليے دہرا اجر ہے۔ ایک حفظ کرنے کا اور دوسرا مشقت برداشت کرنے کا۔
فضيلت قرائت قرآن کریم
۵٨۵ ۔ “وفيہ باسنادہ عَن حَریزٍ عَن ابی عَبدِاللّٰہ عليہ السلام قالَ القُرآنُ عَهد اللّٰہِ اِلیٰ خَلقِہِ
) فَقَد ینبغَی لِلمرء المُسلمِ ان یَنظُرَ فی عَهدِہ وَاَن یقَرءَ مِنہُ فی کُلّ یومٍ خَمسينَ آیةً ” ( ٢
__اسی کتاب ميں بطور مسند حریز سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: قرآن
خداوند تبارک و تعالیٰ کا ایک عہد ہے اس کی مخلوق کے ليے لہٰذا مسلمان شخص کو چاہيے
کہ خدا کے معاہدے پر نظر رکهے اور روزانہ پچاس آیتيں پڑهے۔
۵٨۶ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن الزہَری قالَ سَمِعتُ عَلی بنَ الحُسَينِ عليہ السلام یَقُولُ آیاتُ
) القُرآنِ خَزائِنُ فکُلَّما فُتِحت خَزانَةٌ یَنبَغی لَکَ اَن تَنظُرَ ما فيها ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠۶ ، حدیث ١۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٩ ، حدیث ١۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٨ ، حدیث ٢۔ )
اسی کتاب ميں بطور مسند زہری سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے حضرت
علی ابن الحسين - کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قرآنی آیات خزانے ہيں لہٰذا جب ایک خزانہ کهولو تو
یہ بهی تو دیکهو کہ اس ميں کيا ہے۔
”وہ گهر جن ميں قرآن پڑها جاتا ہے“
۵٨٧ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن ابی القداح عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قالَ قالَ اميرُ
المُوٴمنينَ عليہ السلام البَيتُ الَّذی یُقرَاٴُء فيہِ القُرآنُ وَیُذکَرُ اللہَّٰ عَزَّوَجَلَّ فيہِ تکَثُّر بَرَکَتَہُ وَتحضَرَہُ
الملائِکةُ وَتَهجُرہُ الشيَّاطينُ ویُضیء لاهَلِ السَّمآءِ کَما یُضِیءُ الکواکِبُ لاِهْل الاٴرضِ وَانَّ البيتَ الَّذی
) لا یُقراٴَ فيہِ القُرآنُ وَلا یُذکَر اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فيہِ یَقتلُ بَرکَتَہُ وَتَجهرُہُ الملائِکةُ وَتحضُرُہُ الشَّياطينُ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند ابن قداح سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا:
حضرت امير المومنين - نے فرمایا: جس گهر ميں قرآن پڑها جائے گا اور ذکر خدا کيا جائے گا تو
اس ميں برکت زندہ ہوگی اور ملائکہ موجود ہوں گے اور شياطين دور ہوں گے اور وہ گهر اہل
آسمان کے ليے اس طرح چمکے گا جيسے اہل زمين کے ليے ستارے چمکتے ہيں اور جس گهر
ميں قرآن نہ پڑها جائے گا اس کی برکت کم ہوجائے گی ملائکہ اس گهر کو چهوڑ دیں گے اور
شياطين داخل ہوجائيں گے۔
۵٨٨ ۔ “وفی ثواب الاعمال باسنادہ عَن حَمّادِ بن عيسیٰ عَن جَعفَرِ بن محمَّدٍ عَن اَبيہِ
) عليهم السلام قالَ انَّہُ ليعجبُنی ان یَکُونَ فی البَيتِ مَصحَفٌ یَطَّرِدُ اللّٰہُ بِہِ الشيطانَ ” ( ٢
شيخ صدوق نے ثواب الاعمال ميں بطور مسند حماد ابن عيسی سے انہوں نے امام
جعفر صادق - سے
نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: ميں اس بات پر خوش ہوتا ہوں کہ گهر ميں قرآن ہو الله اس
کے ذریعے شيطان کو دور کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١٠ ، حدیث ٣۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ۶١٣ ۔ ثواب الاعمال، ص ١٠٣ ۔ (
۵٨٩ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن لَيثِ بن ابی سُلَيمٍ رَفَعَہُ قالَ قالَ النَّبی (ص) نَوِّروا بُيوتُکم
بِتِلاوةِ القُرآنِ وَلا تتَّخِذُوها قُبُوراً کَما فَعَلَتِ اليهُودُ وَالنَصار یٰ صَلَّوا فی الکَنائس وَالبيعِ وعَطلَوا بيُوتهُم
فَانَّ البيت اِذا کَثُر فيہِ تِلاوَةُ القُرآنِ کَثَرَ خيرُہُ واتسَعَ اهلُہُ وضاءَ لاٴَهلِ السَّمآءِ کَما تُضیْ نُجُوم
) السَّمآءِ لاِهل الدّنيا” ( ١
کافی ميں ليث ابن سليم سے مرفوعاً یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے
فرمایا: اپنے گهروں کو تلاوت قرآن سے روشن و منور کرو اور یہود و نصاریٰ کی طرح ان کی قبریں
نہ بناؤ کہ وہ کليساؤں اور دیروں ميں عبادت کرتے تهے اور اپنے گهروں کو خالی چهوڑ دیا تها۔ وہ
گهر جس ميں زیادہ تلاوت ہو تو اس کی نيکی زیادہ ہوگی اور اہل و عيال ميں وسعت رزق حاصل
ہوگی اور وہ اہل آسمان کے ليے اسی طرح روشنی دے گا جيسے اہل دنيا کے ليے ستارے
روشنی دیتے ہيں۔
”قرآن کو ترتيل اور خوش الحانی سے پڑهنا“
۵٩٠ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن سليمان قالَ ساٴَلتُ اَبا عَبدِ اللّٰہِ عليہ
السلام عَن قول اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ<وَرتِّل القُرآنَ تَرتيلاً > قالَ قالَ اميرُ الموٴمنينَ عليہ السلام بَيتہُ تِبياناً
وَلا تَهذُّہُ هَذَّا الشِّعرِ وَلا تنثرُہ نَثر الرَّمِل وَلکِن افْزَعُوا قُلُوبَکُمُ القاسِيَة وَلایَکُن هَمٌ احَدُکُم آخِرَ
) السُّورَةِ ( فی روایة حِفظُ الوُقُوفِ وَاداءِ الحرُوف ” ( ٢
کافی ميں بطور مسند عبد الله ابن سليمان سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١٠ ، حدیث ١۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١۴ ، حدیث ١۔ (
اس آیت
>ورتل القرآن ترتيلا> (قرآن کو ترتيل سے پڑهو) کے متعلق دریافت کيا توفرمایا کہ امير المومنين
- نے فرمایا: الفاظ کو واضح طریقہ سے ادا کرو اور شاعروں کی طرح برعایت وزن او ر لفظی
آرائش کے ليے جلدی نہ کرو۔ بلکہ اس طرح پڑهو کہ تمہارے سخت دل نرم ہوجائيں اور اس طرح
نہ پڑهو کہ سننے والے یہ چاہنے لگيں کہ تمہارا پڑهنا کب ختم ہو۔ (بلکہ اپنی ہمت کو اس امر
ميں مصروف رکهو کہ اس کی آیات سمجهنے ميں تدبر و تامل کرو اور اس پر عمل کرنے ميں
بهی نہ یہ کہ سورہ کو آخر تک پہنچاؤ)۔ دوسری روایت ميں وارد ہوا ہے کہ ترتيل کے ساته
پڑهنے کا مقصد یہ ہے کہ وقف کی جگہوں کو محفوظ کرنا اور حروف کو بہتر ادا کرنا ہے۔
۵٩١ ۔ امام جعفر صادق - نے فرمایا: قرآن لوگوں کے نفوس ميں رنج و اندوہ اور تاٴثر کے
ليے نازل ہوا ہے لہٰذا قرآن کو محزون اور دل گداز لہجے ميں پڑهو۔
۵٩٢ ۔ “وفی الکافی وجامع الاخبار بسندہ عن عَبدِ اللّٰہ بن سِنانٍ عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ
السلام قالَ قالَ رَسُولَ اللّٰہَ (ص) اِقروُوٴا القرْآنَ بِالحانِ العَرَبِ واَصواتِها وَایّاکُم وَلُحُونِ اَهلِْ الفِسقِ
وَاَهْلِ الکَبائِرِ فَانَّہُ سيجی ء مِن بَعدی اقوامٌ یْرجِّعُونَ القُرآنَ تَرجيعَ الغِناءِ وَالنَّوحِ وَالرهّبانيَّةِ لا یجُوزُ
) تَراقيهُم قَلُوبُهُم مقلوبةٌ وقُلُوبَ مَن تعجبُہُ شَاٴنُهُم ” ( ١
کافی اور جامع الاخبار ميں بطور مسند عبد الله ابن سنان سے منقول ہے کہ امام جعفر
صادق - نے فرمایا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: قرآن کو عرب کے لہجہ اور ان کی آواز ميں
پڑهو اور اپنے کو بدکاروں اور گناہگاروں کے لہجے سے بچاؤ یعنی گویوں، غزل سراؤں وغيرہ کے
لہجوں سے، ميرے بعد کچه لوگ ایسے آئيں گے کہ قرآن کو راگ کی طرح آواز کے الٹ پهير کے
ساته پڑهيں گے یا نوحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١۴ ، حدیث ٣۔ (
خوانوں کی طرح یا ترک دنيا والوں کے غم گين لہجہ ميں اور ان کا یہ پڑهنا بارگاہ الٰہی ميں
مقبول نہيں، ان کے دل الٹ چکے ہيں اور ان لوگوں کے دل بهی جن کو یہ ممنوع قراٴت پسند
ہے۔
۵٩٣ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحسن بن راشد عن جدہ عن ابی عبدالله عليہ السلام قالَ قَرائَةُ
) القُرآن فی المُصحَفِ تخُفّفُ العَذابَ عَنِ الوالدَینِ وَلَو کانا کافِرَینِ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند حسن ابن راشد سے انہوں نے اپنے جد سے انہوں نے امام
جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: قرآن کو دیکه کر اس کی تلاوت کرنا
والدین سے عذاب کو سبک اور خفيف کرتا ہے اگرچہ دونوں کافر ہی کيوں نہ ہوں۔
”قرآن مجيد روز قيامت شفيع ہے“
۵٩۴ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عَن سَعدِ الخَفَّاف عَن ابی جعفرٍ عليہ السلام قالَ یا سَعد
تَعَلَّمُوا القُرآنَ فَانَّ القُرآنَ یاٴتی یَومَ القِيامَةِ فی الحسَنِ صُورةٍ نَظَر اليها الخَلقُ وَالنّاسِ صُفوتٌ
عِشرُونَ وَماٴة الفِ صَفٍ ثَمانُونَ الفِ صَفٍّ امّة محمَّدٍ (ص) وَاربَعُونَ الفَ صَفٍّ مِن سایرِ الاُممِ
)الی قولہ) ثُمَّ یَجاوِزُ حَتّی یَنتَهی اِل یٰ رَبِّ العِزَّةِ تَبارکَ وَتعال یٰ فَيَخِّر تَحتَ العَرشِ فينادیہِ
تَبارَکَ وَتَعال یٰ یا حُجتی فی الاَرضِ وَکَلامِیَ الصّادِقَ الناطِقَ ارفَع رَاٴسَکَ وَسَل تُعط واشَفع تُشَفَّع
فيَرفَعُ راٴسَہُ فيقول اللہّٰ تَبارَکَ وَتَعال یٰ کيفَ رَاٴیتَ عِبادی ؟ فيقُولُ یا رَبِّ مِنهُم مَن صاننی وَحافَظَ
عَلَیَّ وَلَم یُضَيعِ شَيئاً مِنهُم مِن ضَيعَنی واستخَفَّ بِحقّی وَکَذَّبَ بی وَاَنَا حُجَتکَ عَل یٰ جَميع خلقکَ
فَيقُولُ اللہّٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١٣ ، حدیث ۴۔ (
تبارکَ وَتعال یٰ وَعزتی وَجَلالی وارتِفاعُ مکَانی لاثيبنّ عَلَيک اليومَ احسنَ الثوابِ وَلاُعاقِبَنَّ عَلَيک
) اليومَ اليمَ العِقابِ ” ( ١
کافی ميں بطور مسند سعد خفاف سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: حضرت امام محمد
باقر - نے فرمایا: اے سعد! قرآن کے معانی و مطالب حاصل کرو کيوں کہ قيامت کے دن قرآن
نہایت خوب صورت شکل ميں آئے گا لوگ اسے دیکهيں گے لوگوں کی ایک لاکه بيس ہزار صفيں
ہوں گے جن ميں اسّی ہزار صفيں تو امت محمد کی ہوں گی اور چاليس ہزار تمام امتوں کی۔
مسلمانوں ، شہدائے بر و بحر انبياء و مرسلين اور ملائکہ کی صفوں سے گزرتا ہوا الله تبارک کی
بارگاہ ميں پہنچے گا۔ پهر عرش کے نيچے (یہاں تک کہ فرمایا) سجدہ ميں جائے گا خدا فرمائے
گا: اے روئے زمين پر ميری حجّت! اے ميرے کلام صادق و باطق اپنا سر اڻهاؤ اور سوال کرو تمہارا
سوال پورا ہوگا سفارش کرو قبول ہوگی وہ اپنا سر اڻهائے گا خدا دریافت کرے گا: تو نے ميرے
بندوں کو کيسا پایا؟ وہ کہے گا: پروردگار کچه تو ان ميں ایسے تهے جنہوں نے ميری حفاظت
کی اور مجهے حفظ کيا اور کوئی شے ضائع نہيں ہونے دی اور کچه ایسے ہيں جنہوں نے مجهے
ضائع کيا اور ميرے حق کو سبک سمجها مجهے جهڻلایا حالانکہ ميں تمام مخلوق پر تيری حجّت
تها تو خدائے تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: ميں اپنے عزت و جلال اور بلندی مکان کی قسم کها کر
کہتا ہوں: آج تيری حفاظت کرنے والوں کو بہت زیادہ دوں گا اور نہ ماننے والوں اور ناقدری کرنے
والوں کو سخت سزا دوں گا۔
یہ چند حدیث نمونہ کے طورپر ذکر ہوئی ہيں ان کے علاوہ بہت سی آیات و روایات موجود
ہيں جو تفاسير وغيرہ ميں ثبت و ضبط ہوئی ہيں قارئين محترم مربوطہ منابع کی طرف رجوع
کریں۔
کہا گيا تها کہ قرآن عظيم با ارزش گوہر ہے کہ اس کا رکهنے والا تمام چيزوں سے غنی
اور بے نياز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۵٩۶ ، بحار الانوار، ج ١٣١٧ ۔ (
اس بنا پر جو قرآن کریم اور حجّت خدا حضرت امام زمانہ - کا موازنہ کيا گيا جو اس کتاب کا
موضوع اور عنوانِ سخن ہے۔
حضرت بقية الله الاعظم ولی امر صاحب العصر و الزمان - ارواحنا و ارواح المومنين لہ الفداء
کا مقدس وجود بهی با ارزش اور گراں قدر گوہر ہے کہ دنيا و مافيہا اپنے تمام خصوصيات کے
ساته سونا ہوجائے پهر بهی وہ ایک مڻهی خاک کی طرح بے ارزش ہے۔
لہٰذا جو شخص اس قسم کے گراں قيمت گوہر کا حامل ہوگا یعنی حضرت ولی عصر
ناموس دہر امام منتظر المہدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی امامت و خلافت اور وصایت و
ولایت مطلقہ پر قلبی اعتقاد اور خالص ایمان رکهتا ہوگا۔ وہ غنی ترین افراد سے بهی زیادہ غنی
ہے اور ہرگز فقر و فاقہ اور بے چارگی خواہ دنيوی ہو یا اخروی اس کے سراغ ميں نہيں آئے گی۔
۵٩۵ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عَن زُرارَة قالَ قُلْتُ لاَبی جَعفَرٍ عليہ السلام اَخبِرنی عَن معرِفَةِ
الاٴمامِ مِنکُم واجَبَةٌ عَل یٰ جَميعِ الخَلقِ ؟ فَقالَ انَّ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ محمَّداً (ص) وَاتبعَہ وصَدَّقہ فَانَّ
مَعرِفَةَ الاٴمامِ مِنّا واجَبةٌ عَلَيہِ وَمَن لَم یومِن باللہِّٰ وَبرَسُولِہِ وَلَم یتبعہُ وَلَم یُصدَّقہُ وَیَعرِف حَقَّہُ فَکَيفَ
یَجِبُ عَلَيہِ مَعرِفة الاِمامِ وَهُوَ لایوٴمِنُ باللہِّٰ وَرَسُولِہِ وَیَعرِفُ حقُها ؟ قالَ قُلتُْ فَما تَقولُ فيمن یوٴمِنُ
بِاللہِّٰ وَرَسُولِہِ وَیُصَدقُ رَسُولِہِ فی جَميع ما انزَلَ اللہُّٰ یَجبُ عَل یٰ اولئکَ حقُ معرِفَتکُم ؟ قالَ نعم
ليس هولاءِ یَعرِفُونَ فُلاناً فُلاناً ؟ قُلتُ بَلیٰ قالَ اتریٰ ان اللّٰہ هُوَ الَّذی وَقَعَ فی قلوبِهِم مَعرِفَة هولاءِ ؟
) وَاللہّٰ ما اوقعَ ذلِکَ فی قلوبِهِم اِلاَّ الشَيطانُ لا واللہِّٰ مالَهُمُ الموٴمِنينَ حَقَّنا اِلَّا اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔کافی، ج ١، ص ١٨٠ ، حدیث ٣۔ (
کافی ميں زرارہ سے بطور مسند منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام محمد
باقر - سے عرض کيا: مجهے معرفت امام کے متعلق یہ بتائيے کہ کيا وہ تمام مخلوق پر واجب
ہے؟ فرمایا: الله تعالیٰ نے محمد مصطفی (ص) کو تمام مخلوق پر تمام لوگوں کی طرف رسول
اور اپنی حجّت بناکر بهيجا۔ لہٰذا جو الله اور محمد رسول الله پر ایمان لایا اور الله کی پيروی کی ان
کی تصدیق کی تو اس پر ہم ميں سے ہر امام کی معرفت واجب ہے اور جو الله اور محمد رسول
الله پر ایمان نہيں لایا اور نہ ہی ان کا اتباع کيا اور نہ ہی رسول (ص) کی اطاعت کی اور نہ ہی
ان دونوں کے حق کو پہچانا تو معرفتِ امام ان پر کيسے واجب ہوگی؟ راوی کہتا ہے: ميں نے
دریافت کيا: آپ اس شخص کے بارے ميں کيا کہتے ہيں جو الله اور اس کے رسول پر ایمان لایا
اور جو کچه رسول (ص) پر نازل ہوا ہے اس کی تصدیق کی ہو تو کيا آپ لوگوں کی کما حقہ
معرفت ان پر واجب ہے؟ فرمایا: ہاں یہ (اہل سنت) لوگ فلاں فلاں (ابوبکر و عمر) کو پہچانتے ہيں
۔ ميں نے کہا: ہاں، تو فرمایا: کيا لله نے ان کے دلوں ميں ان کی معرفت ڈالی ہے الله نے تو
مومنين کے دلوں ميں ہمارے حق کے متعلق الہام کيا ہے۔
مولف کہتے ہيں: (حضرت - کے قول سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو شخص خدا اور اس کے
رسول پر ایمان لاتا ہے تو اس کے ليے لازم ہے کہ وہ جانشين اور اس کے محافظ و مروّج شریعت
اور اس کی امانت کا معتقد ہو۔ جيسا کہ اہل سنت بهی اس قاعدہ کو تسليم کرتے ہيں۔
۵٩۶ ۔ “وفيہ باسنادہ عَن مقَرّنٍ قالَ سَعمتُ اَبا عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام یقُولُ جآءَ ابنُ الکوّاء
اِلیٰ اميرِ الموٴمِنينَ عليہ السلام فقالَ یا امير الموٴمنين <وَعَلَی الاعرافِ رِجالٌ یَعرفُونَ
کُلابِسيماهُم >؟ فَقالَ نَحْنُ عَلَی الاعرافِ نَعرِفُ انصارَنا بِسيماهُم وَنَحْنُ الاعرافِ الَّذی لا عرَّفُ اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ اِلاَّ بِسبيلِ مَعرفَتِنا وَنَحنُْ الاٴعرافُ یُعرفُنا اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ یَومُ القِيامَةِ عَلَی الصراط بلا یدخُلُ
الجَنَّةَ اِلاَّمَن عَرَفَنا وَعرَفناہ وَلا یدخُلُ النّارَ اِلاَّ مَن اَنکَْرَنا وَانکَرناہُ اِنَّ اللہّٰ تَبارَکَ وَتعال یٰ وشآء لِيَعرِفَ
العباد نَفسَْہُ وَلکِن جَعَلَنا ابوابہُ وَصِراطُہُ وَسَبيلہُ والوَجہ الَّذی نوتی مِنہُ فَمَن عَدَلَ عن وِلایتنا اوفَضَّلَ
عَلَينا غيرَنا فَاِنهُم عَنِ الصِّراطِ لناکِبُونَ فَلا سَواءٌ مَن اعتَصَم الناسُ بِہ وَلا سوآء حَيثُ ذَهَبَ الناس
اِلیٰ عيونٍ کدرةٍ یَفرغُ بعضُها فی بَعضٍ وَذَهَبَ مَن ذَهَبَ الينا اِلیٰ عيُونٍ صافَيةٍ تجری بامر ربّها لا
) نَفادَ لَها وَلا انقطاعَ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند مقرن سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام
جعفرصادق کو فرماتے ہوئے سنا : ابن کوا حضرت امير المومنين - کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا
امير المومنين -! اس آیت کا کيا مطلب ہے؟ (اعراف پر کچه لوگ ہوں گے جو سب کو چہرے دیکه
کر پہچانيں گے) فرمایا: اعراف ہم ہيں ہم اپنے انصار کو ان کے چہرے سے پہچانيں گے ہم ہی وہ
اعراف ہيں کہ الله کی معرفت حاصل نہيں ہوتی مگر ہماری معرفت کی راہ سے اور ہم ہی وہ
اعراف ہيں جن کی معرفت الله روزِ قيامت صراط پر کرائے گا۔ لہٰذا جنت ميں داخل نہ ہوگا مگر وہ
شخص جس نے ہميں پہچانا ہوگا اور جس کو ہم نے پہچانا ہوگا اور جہنم ميں داخل نہيں ہوگا
مگر وہ شخص جس نے ہمارا اور ہم نے اس کا انکار کيا ہوگا۔ اگر خدائے تبارک و تعالیٰ چاہتا تو
اپنے بندوں کی اپنی معرفت خود کرا دیتا ليکن ( ٢) اس نے ہم کو اپنے دروازے، اپنی صراط اور
اپنا راستہ قرار دیا اور وجہ بنایا جس سے اس کی طرف توجہ کی ہے لہٰذا جس نے ہماری ولایت
سے عدول کيا اور ہمارے غير کو ہم پر فضيلت دی تو ایسے لوگ (قيامت ميں) صراط سے ڈهکيل
دیے جائيں گے اور جو غيروں سے تمسک کریں وہ مکدر (گندے) چشموں سے سيراب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١٨۴ ۔ (
٢(۔ ليکن وہ لوگ امام اور خليفہ کے تعين ميں اشتباہ ميں پڑگئے۔ امام - نے فرمایا: مگر کيا (
تمہارا عقيدہ یہ ہے کہ خدا نے فلاں فلاں شخص کی معرفت ان کے دلوں ميں ڈالی ہے؟ خدا
کی قسم! ان کے دلوں ميں سوائے شيطان کے کسی نے نہيں ڈالی ہے اور نہ ہی خدا کے
علاوہ ہمارے حق کے متعلق مومنين کے دلوںميں الہام کرتا ہے یعنی اے زرارہ! یہ بهی جان لو
کہ معرفت ایک ربانی گوہر ہے اور ایک توفيق الٰہی ہے جو سوائے سليم الطبع اور صحيح فطرت
والوں کو نصيب ہوتی ہے چنانچہ ناحق ائمہ و خلفاء کی پيروی کرنا ایک ایسا عقيدہ ہے جو
شيطانی ہے جو دوسرے افراد باطنی خيانت رکهتے ہيں انہيں اس کی وجہ سے ملتا ہے۔
ہوں گے وہ ان کے کيسے برابر ہوں گے جو ہماری طرف رجوع کریں اور ایسے چشموں سے
سيراب ہوں جو امر رب سے جاری ہيں نہ ان کے ليے ختم ہونا ہے اور نہ ہی قطع ہونا۔
جو لوگ کامل اور صحيح اعتقاد کے ساته ہماری ولایت کے قائل ہيں اور انہوں نے ہميں
اپنا پيشوا قرار دیا ہے اور وہ ہمارے علوم سے فيض یاب ہوتے ہيں جو علم الٰہی کے نامحدود
سمندر کے صاف و شفاف چشمے سے متصل ہے وہ عين واقعيت کا حامل ہے جو کبهی اختتام
پذیر اور قطع ہونے والا نہيں ہے برخلاف ان افراد کے کہ جنہوں نے دوسرے ادیان کے ائمہ و
خلفاء کے گرویدہ ہوئے ہيں جو کم اور مکدر چشمے کے پانی کی طرح ہيں ان کے علوم بے بنياد
) خلاف واقع اور بے ثبات ہيں۔ ( ١
۵٩٧ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابی بصير عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام فی قَولِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ
) <وَمَن یوٴتَ الحکمة فَقَد اوتَی خَيرًکثيراً >فَقالَ طاعَة اللہِّٰ وَمَعرِفَةُ الاِمامِ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند ابوبصير سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - آیہٴ کریمہ
<وَمَن یوٴتَ الحکمة فَقَد اوتَی خَيرًکثيراً > کے بارے ميں فرماتے ہيں: جس کو حکمت دی گئی
اسے یقينا خير کثير سے نوازا گيا۔ اس حکمت سے مراد اطاعتِ خدا اور معرفتِ امام - ہے۔
۵٩٨ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَن الحُسينِ بن المختار عَن بعضِ اصحابِنا عَن ابی جعفَرعليہ السلام
) فی قَولِ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ <وَاتيناهُم مُلکاً عَظيماً > ( ٣) قالَ الطاعةُ المفروضُةُ ” ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الحاج سيد جواد مصطفوی کی مترجم کافی سے اقتباس، ج ١، ص ٢۶٠ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٨٠ ، باب معرفت امام، حدیث ١١ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ۵۴ ۔ (
۴(۔ کافی، ج ١، ص ٢٠۶ ۔ (
اسی کتاب ميں بطور مسند حسين ابن مختار ہمارے بعض اصحاب سے نقل کرتے ہيں
کہ امام محمد باقر - نے آیہٴ کریمہ <وَاتيناهُم مُلکاً عَظيماً > (ہم نے انہيں ملک عظيم عطا کيا)
کے متعلق فرمایا: اس سے مراد ان کی اطاعت ہے جو لوگوں پر واجب ہے۔
۵٩٩ ۔ “ وفيہ عن برید العجلی عن ابی جعفر عليہ السلام فی قولِ اللّٰہ تَبارَک وتعالیٰ
<فَقَد اتينا آلَ ابراہيم الکِتابَ والحِکمَة وآتيناهُم مُلکاً عَظيماً > ( ١) قالَ جَعَلَ مِنهُمُ الرُّسُلَ وَالانبيآءَ
والائمَة فَکيفَ یقرُّونَ فی آلِ ابراہيمَ عليہ السلام وینکرونَہُ فی آلِ محمَّدٍ (ص) ؟ قالَ قُلت وَاتيناهُم
مُلکا عظيماً؟ قالَ المُلک العَظيمُ اَن جَعَلَ فيهم ائمّةً مَن اطاع اعطاعَهُم اللّٰہُ وَمَن عَصاهُم عَصَی
) اللّٰہَ فَهُو المُلک العَظيمُ ” ( ٢
اسی کتاب ميں برید عجلی سے منقول ہے کہ ان کابيان ہے کہ: امام محمد باقر - نے
الله تعالیٰ کے اس قول “ہم نے آل ابراہيم کو کتاب و حکمت اور ملک عظيم عطا کيا) کے متعلق
فرمایا: خدا نے انبياء ، رسل اور ائمہ کو آل ابراہيم ميں سے قرار دیا لہٰذا کيسے یہ لوگ آل
ابراہيم - کی بہ نسبت اس مقام و منزلت کو تسليم اور اعتراف کرتے ہيں ليکن آل محمد کے
بارے ميں انکار کرتے ہيں۔ ميں نے عرض کيا: الله تبارک و تعالیٰ کے اس قول “ہم نے انہيں ملک
عظيم عطا کيا ” سے کيا مراد ہے؟ فرمایا: عظيم ملک یہ ہے کہ ائمہ کو ان کے خاندان ميں قرار
دیا اور جو شخص ان کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی ہے اور جو شخص ان کی
معصيت و نافرمانی کرے اس نے خدا کی معصيت و نافرمانی کی ہے یہی ملک عظيم ہے۔
یہ روایات جو بطور نمونہ ذکر ہوئی ہيں اور دوسری روایات سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ
حقيقت ميں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۵۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢٠۶ ، حدیث ۵۔ (
جو شخص بهی حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ اور ان کے اجدادِ
طاہرین کا اعتقاد کامل اور یقين خاص رکهتا ہے کہ وہ تمام ہستياں ولایتِ مطلقہ الٰہيہ کی من
جانب الله بغير کسی قيد و شرط کے حامل ہيں اور وہ تمام مخلوقات کے ائمہ ہيں اور ان کی
اطاعت تمام لوگوں پر واجب و لازم ہے۔ اور اس نعمت عظمیٰ کے حاملين ایسے غنی اور بے نياز
ہيں کہ جن کی کسی صورت ميں توصيف نہيں کی جاسکتی۔ (الله تعالیٰ ہميں اور تمام مواليان
ائمہٴ اطہار کو ان کی ولایت کا رزق عطا فرمائے اور الله ہميں ان کے ساته محشور فرمائے
محمد و آل محمد کے ذریعہ)۔
۶٠٠ ۔ “ وفی روضة الکافی بِاسنادِہِ عَن ابانِ بن تغلِب وَعدّةٌ قالُوا کُنَّا عِندَ ابی عَبدِ اللّٰہِ
عليہ السلام جُلوساً فَقالَ عليہ السلام لا یستحقُ عَبدٌ حقيقَة الاٴیمانَ حتیٰ یَکُونَ الموتُ احَبّ
الَيہِ مِنَ الحياةِ وَکونُ المرَضُ احَبُّ اليہِ مِنَ الصِّحَةِ وَیَکُونُ الفُقرا حَبُّ اِليہِ مِنَ الغِنی فاٴنتُم کذا فَقالُوا
لا وَاللہِّٰ جَعَلَنا اللہُّٰ فَداکَ وَسَقَطَ فی ایدیهِم ( ١) وَوَقَعَ الياٴسُ فی قلُوبِهِم فَلَمَّا راٴ یٰ ما داخَلهُم مِن
ذلِکَ قالَ : ایسرّ اَحَدَکُم انَّہُ عَمَّرَ ما عَمَّر ثُمَّ یَمُوت عَلیٰ غيرِ هذا الاٴَمر او یَمُوتُ عَلیٰ ما هُوَ عليہِ؟
قالُوا بَل یمُوت عَل یٰ ما هُوَ عَلَيہِ السَّاعَةَ قالَ: فاٴَرَی الموتَ احَبَّ اليکُم مِن الحياةِ
ثُمَّ قالَ: اٴیسبرُ احَدکُم ان یبَقَی ما بَقَیِ لا یُصبہُ شَیءٌ مِن هذِہِ الاٴمراض وَلا آتوجاع حَتیٰ
یمُوتَ عَلیٰ غَير هذا الاَمرَ ؟ قالُوا لا باینَ رَسُولِ اللّٰہِ قالَ فاٴرَیَ المَرَضُ احَبُّ اليکُم مِنَ الصِحَّةِ
ثُمَّ قالَ: ایسرُّ احَدکُم انَّ لَہُ ما طَلَعَت عَلَيہِ الشَّمسُ وَهُوَ عَلیٰ غَيرِ هذا الاٴمرَ ؟ قالُوا لا یابن
) رَسوْلِ اللہِّٰ قالَ فَاٴرَیَ الفقرُ اَحَبُ اِليکُم مِنَ الغِن یٰ ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شدت ندامت و حسرت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان ایسے موقع پر انگشت بدنداں رہتا (
ہے۔
٢(۔ روضة الکافی، ص ٢۵٣ ، حدیث ٣۵٧ ۔ (
کلينی عليہ الرحمہ نے روضة الکافی ميں ابان ابن تغلب اور بعض دوسرے لوگوں سے
نقل کيا ہے ان لوگوں کا بيان ہے: ہم لوگ حضرت امام جعفر صادق - کے پاس بيڻهے ہوئے تهے
تو فرمایا: کوئی بهی بندہ حقيقت ایمان کا مستحق نہيں ہے مگر یہ کہ موت اس کے نزدیک
حيات سے زیادہ پسندیدہ ہو اور بيماری اس کے ليے تندرستی سے زیادہ محبوب ہو اور فقر و
ناداری اسے تونگری اور دولت مندی سے زیادہ عزیز ہو۔ کيا آپ لوگ ایسے ہی ہيں؟ سب نے
کہا: نہيں خدا کی قسم! خدا ہم سب کو آپ پر فدا کرے، اور سب بہت شرمسار ہوئے سر کو
جهکایا اور ان کے قلوب نا اميدی سے بهر گئے۔ جب امام - نے مشاہدہ کيا کہ ان کے دل پر کيا
گزر گئی تو فرمایا: کيا تم ميں سے ہر ایک کو اس بات پر خوشی محسوس ہوگی کہ جتنا اس کا
دل چاہے اس کائنات ميں باقی رہے اور پهر غير مذہب حق اور وہ عقيدہ جو امامت و ولایت کے
متعلق رکهتا ہے مرجائے یا دوست رکهتا ہے کہ اپنے عقيدہ پر باقی رہتے ہوئے دنيا سے گزر
جائے اگر اس کی عمر کم ہی کيوں نہ ہو؟ سب نے کہا: بلکہ ہر ایک ہم ميں سے یہی چاہتا ہے
کہ اپنے عقيدے پر باقی رہتے ہوئے ابهی انتقال کر جائيں۔ امام - نے فرمایا: اس بنا پر ميں جانتا
ہوں کہ تمہارے نزدیک مرجانا جينے سے بہتر ہے۔
پهر فرمایا: کيا تم ميں سے ہر شخص خوش حال ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہميشہ تندرست
باقی رہے اور تمام بيماریوں اور دکه درد سے کوئی شے اس تک نہ پہنچے تاکہ غير مذہب حق
پر اسے موت آجائے؟ سب نے کہا: نہيں ، فرزند رسول، تو فرمایا: لہٰذا ميں جانتا ہوں کہ تمہارے
نزدیک بيماری اور دکه درد، تندرستی اور سلامتی سے بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔
پهر فرمایا: کيا تم ميں سے ہر ایک اس بات پر خوش حال ہوگا کہ جس پر آفتاب کی
روشنی پڑتی ہے وہ اس سے متعلق ہوجائے ليکن مذہب حق پر نہ ہو، سب نے کہا: نہيں اے
فرزند رسول خدا! فرمایا: لہٰذا ميں جانتا ہوں کہ فقر و ناداری تمہارے نزدیک تونگری اور دولت
مندی سے زیادہ محبوب ہے۔
مذہب حق سے مراد وہی امامت و خلافت اور ولایت مطلقہ الٰہيہ ہے اور وہی گوہر گراں
بہا ہے کہ جو کچه جہانِ ہستی ميں آفتاب عالم تاب کے نور سے منور ہوتی ہے ایسے گوہر
(ولایت کبریٰ) کے مقابل ميں ناچيز ہے۔
|